پاکستان میں [جس انتشار اور صورتِ حال سے ہم دوچار ہیں] اس کا اگر تجزیہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کی اصل وجہ اتفاق کی بنیادیں تلاش کرنے میں ہماری ناکامی ہے۔ ہمیں اپنی مرضی سے اپنی زندگی کی تعمیر کرنے کا اختیار حاصل ہوئے [برسوں] گزر چکے ہیں، مگر جہاں ہم پہلے روز کھڑے تھے وہیں آج بھی کھڑے ہیں۔ بے اختیاری کے زمانے میں جو کچھ اور جیسے کچھ ہمارے حالات تھے، اختیار پاکر بھی ہم ان کو بدلنے اور بہتر بنانے کے لیے کوئی کامیاب اور قابلِ ذکر کوشش نہیں کرسکے ہیں.... آزادی کے لیے ہماری سعی و جہد تو اسی غرض کے لیے تھی کہ ہم غلامی کے دور کی حالت پر راضی نہ تھے اور اسے بدلنے اور بہتر بنانے کے لیے اپنی مرضی استعمال کرنا چاہتے تھے، مگر کوئی چیز ایسی ہے جس کی وجہ سے ہم آزاد ہوجانے کے بعد بھی اپنی مرضی مؤثر طریقے سے استعمال نہیں کرسکے ہیں۔
وہ چیز کیا ہے؟ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہمارے ہاں [زمانۂ دراز] سے اختلافات کی فصلِ بہار آئی ہوئی ہے۔ فکرونظر کے اختلافات، اغراض اور خواہشات کے اختلافات، گروہوں اور ٹولیوں کے اختلافات [مسلکوں اور فرقوں کے اختلافات]، علاقوں اور صوبوں کے اختلافات نت نئی شان سے اُبھرتے رہے ہیں اور اُبھرتے چلے آرہے ہیں۔ جو کچھ ایک بنانا چاہتا ہے دوسرا اس میں مزاحم ہوتا ہے، اور دوسرا جو کچھ بنانا چاہتا ہے کوئی تیسرا اسے بگاڑنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کوئی کچھ بھی نہیں بنا سکتا۔ اس صورت حال نے ہرپہلو میں تعمیر روک رکھی ہے اور تخریب آپ سے آپ اپنا کام کر رہی ہے خواہ ہم میں سے کوئی بھی اس کا دل سے خواہاں نہ ہو۔
اگر ہم اپنے دشمن آپ نہیں ہوگئے ہیں تو ہمیں اختلاف اور مخالفت و مزاحمت کے اس اندھے جنون سے افاقہ پانے کی کوشش کرنی چاہیے ،اور اپنے ذہن کو اُن بنیادوں کی تلاش میں لگانا چاہیے جن پر سب، یا کم از کم اکثر باشندگانِ پاکستان متفق ہوسکیں، جن پر متفق ہوکر ہماری قوتیں اپنی تخریب کے بجاے اپنی تعمیر میں لگ سکیں۔
ایسی بنیادیں تلاش کرنا درحقیقت مشکل کام نہیں ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہمارے ذہن وجوہِ نزاع کرید کرید کر نکالنے کے بجاے اساساتِ اتفاق ڈھونڈنے کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ ذرا سا زاویۂ نظر بدل جائے تو ہم بآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ یہ اساساتِ اتفاق ہمارے قریب ہی موجود ہیں۔ ہم انھیں اپنے مذہب میں پاسکتے ہیں، اپنی تہذیب اور روایات میں پاسکتے ہیں، دنیا کے تجربات میں پاسکتے ہیں، اور عقلِ عام کی صاف اور صریح رہنمائی میں پاسکتے ہیں۔
[ہم یہاں] چند اُن بنیادی اصولوں کی نشان دہی [کرتے ہیں] جن پر اتفاق ممکن ہے.....
۱- صداقت اور باھمی انصاف: اوّلین چیز جس پر ملک کے تمام مختلف الخیال گروہوں اور اشخاص کو اتفاق کرنا چاہیے وہ صداقت اور باہمی انصاف ہے۔ اختلاف اگر ایمان داری کے ساتھ ہو، دلائل کے ساتھ ہو، اور اسی حد تک رہے جس حد تک فی الواقع اختلاف ہے، تو اکثر حالات میں یہ مفید ثابت ہوتا ہے، کیونکہ اس طرح مختلف نقطۂ نظر اپنی صحیح صورت میں لوگوں کے سامنے آجاتے ہیں اور لوگ انھیں دیکھ کر خود راے قائم کرسکتے ہیں کہ وہ ان میں سے کس کو قبول کریں، تاہم اگر وہ مفید نہ ہو تو کم سے کم بات یہ ہے کہ مضر نہیں ہوسکتا۔ لیکن کسی معاشرے کے لیے اس سے بڑھ کر نقصان دہ کوئی چیز نہیں ہوسکتی کہ اُس میں جب بھی کسی کو کسی سے اختلاف ہو تو وہ ’’جنگ میں سب کچھ حلال ہے‘‘ کا ابلیسی اصول اختیار کر کے اُس پر ہر طرح کے جھوٹے الزامات لگائے، اُس کی طرف جان بوجھ کر غلط باتیں منسوب کرے، اُس کے نقطۂ نظر کو قصداً غلط صورت میں پیش کرے، سیاسی اختلاف ہو تو اسے غدار اور دشمنِ وطن ٹھیرائے، مذہبی اختلاف ہو تو اس کے پورے دین و ایمان کو متہم کرڈالے، اور ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے اس طرح پڑجائے کہ گویا اب مقصدِ زندگی بس اسی کو نیچا دکھانا رہ گیا ہے۔ اختلاف کا یہ طریقہ نہ صرف اخلاقی لحاظ سے معیوب اور دینی حیثیت سے گناہ ہے، بلکہ عملاً بھی اس سے بے شمار خرابیاں پیدا ہوتی ہیں..... بھلائی اسی میں ہے کہ ہمیں کسی سے خواہ کیسا ہی اختلاف ہو، ہم صداقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اس کے ساتھ ویسا ہی انصاف کریں جیسا ہم خود اپنے لیے چاہتے ہیں۔
۲- اختلافات میں رواداری : دوسری چیز جو اتنی ہی ضروری ہے، اختلافات میں رواداری ہے، [یعنی] ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش، اور دوسروں کے حقِ راے کو تسلیم کرنا ہے۔ کسی کا اپنی راے کو حق سمجھنا اور عزیز رکھنا تو ایک فطری بات ہے، لیکن راے رکھنے کے جملہ حقوق اپنے ہی لیے محفوظ کرلینا انفرادیت کا وہ مبالغہ ہے جو اجتماعی زندگی میں کبھی نہیں نبھ سکتا۔ پھر اس پر مزید خرابی اس مفروضے سے پیدا ہوتی ہے کہ ’’ہماری راے سے مختلف کوئی راے ایمان داری کے ساتھ قائم نہیں کی جاسکتی، لہٰذا جو بھی کوئی دوسری راے رکھتا ہے وہ لازماً بے ایمان اور بدنیت ہے‘‘۔ یہ چیز معاشرے میں ایک عام بدگمانی کی فضا پیدا کردیتی ہے، اختلاف کو مخالفتوں میں تبدیل کردیتی ہے اور معاشرے کے مختلف عناصر کو، جنھیں بہرحال ایک ہی جگہ رہنا ہے، اس قابل نہیں رہنے دیتی کہ وہ ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھ کر کسی مفاہمت و مصالحت پر پہنچ سکیں..... اس کا مداوا صرف اسی طرح ہوسکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ لوگ جو اپنے اپنے حلقوں میں نفوذ و اثر رکھتے ہیں، اپنی ذہنیت تبدیل کریں اور خود اپنے طرزِعمل سے اپنے زیراثر لوگوں کو تحمل و برداشت اور وسعت ِ ظرف کا سبق دیں۔
۳- منفی کے بجاے مثبت طرزِعمل: تیسری چیز جسے تمام ان لوگوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے جو اجتماعی زندگی کے کسی شعبے میں کام کرتے ہوں، یہ ہے کہ ہرشخص اپنی قوتیں دوسروں کی تردید میں صرف کرنے کے بجاے اپنی مثبت چیز پیش کرنے پر صرف کرے۔ اس میں شک نہیں کہ بسااوقات کسی چیز کے اثبات کے لیے اس کے غیر کی نفی ناگزیر ہوتی ہے، مگر اس نفی کو اسی حد تک رہنا چاہیے جس حد تک وہ ناگزیر ہو، اور اصل کام اثبات ہونا چاہیے نہ کہ نفی۔ افسوس ہے کہ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں زیادہ تر زور اس بات پر صرف کیا جاتا ہے کہ دوسرے جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کی مذمت کی جائے اور اس کے متعلق لوگوں کی راے خراب کر دی جائے.....
اِس وقت ہماری قومی زندگی میں ایک بڑا خلا پایا جاتا ہے جو ایک قیادت پر سے عوام کا اعتماد اُٹھ جانے اور دوسری کسی قیادت پر نہ جمنے کا نتیجہ ہے۔ اس خلا کو اگر کوئی چیز بھرسکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ مختلف جماعتیں اپنا جو کچھ اور جیسا کچھ بھی مثبت کام اور پروگرام رکھتی ہیں وہ لوگوں کے سامنے آئے اور لوگوں کو یہ سمجھنے کا موقع ملے کہ کون کیا کچھ بنا رہا ہے، کیا کچھ بنانا چاہتا ہے، اور کس کے ہاتھوں کیا کچھ بننے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ یہی چیز آخرکار ایک یا چند جماعتوں پر قوم کو مجتمع کرسکے گی اور اجتماعی طاقت سے کوئی تعمیری کام ممکن ہوگا۔ لیکن اگر صورت حال یہ رہے کہ ہرایک اپنا اعتماد قائم کرنے کے بجاے دوسروں کا اعتماد ختم کرنے میں لگا رہے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ کسی کا اعتماد بھی قائم نہ ہوسکے گا اور ساری قوم بِن سری ہوکر رہ جائے گی۔
۴- جبر و تشدّد کے بجاے دلائل: ایک اور بات جسے ایک قاعدۂ کلیہ کی حیثیت سے سب کو مان لینا چاہیے یہ ہے کہ اپنی مرضی دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ جو کوئی بھی اپنی بات دوسروں سے منوانا چاہتا ہو وہ جبر سے نہیں بلکہ دلائل سے منوائے، اور جو کوئی اپنی کسی تجویز کو اجتماعی پیمانے پر نافذ کرنا چاہتا ہو وہ بزور نافذ کرنے کے بجاے ترغیب و تلقین سے لوگوں کو راضی کرکے نافذ کرے۔ محض یہ بات کہ ایک شخص کسی چیز کو حق سمجھتا ہے یا ملک و ملّت کے لیے مفید خیال کرتا ہے، اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ اُٹھے اور زبردستی اس کو لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش شروع کردے۔ اس طریق کار کا لازمی نتیجہ کش مکش، مزاحمت اور بدمزگی ہے۔ ایسے طریقوں سے ایک چیز مسلط تو ہوسکتی ہے مگر کامیاب نہیں ہوسکتی، کیونکہ کامیابی کے لیے لوگوں کی قبولیت اور دلی رضامندی ضروری ہے۔ جن لوگوں کو کسی نوع کی طاقت حاصل ہوتی ہے، خواہ وہ حکومت کی طاقت ہو یا مال و دولت کی یا نفوذ و اثر کی، وہ بالعموم اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ انھیں اپنی بات منوانے اور اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے رضاے عام کے حصول کا لمبا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بس طاقت کا استعمال کافی ہے لیکن دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی ہی زبردستیوں نے بالآخر قوموں کا مزاج بگاڑ دیا ہے، ملکوں کے نظام تہ و بالا کر دیے ہیں، اور ان کو پُرامن ارتقا کے راستے سے ہٹاکر بے تکے تغیرات و انقلابات کے راستے پر ڈال دیا ہے.....
۵- انفرادی عصبیت کے بجاے ملّی مفاد : اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی چھوٹی چھوٹی عصبیتوں کو ختم کر کے مجموعی طور پر پورے ملک اور ملّت کی بھلائی کے نقطۂ نظر سے سوچنے کا خوگر ہونا چاہیے۔ ایک مذہبی فرقے کے لوگوں کا اپنے ہم خیال لوگوں سے مانوس ہونا، یا ایک زبان بولنے والوں کا اپنے ہم زبانوں سے قریب تر ہونا، یا ایک علاقے کے لوگوں کا اپنے علاقے والوں سے دل چسپی رکھنا تو ایک فطری بات ہے۔ اس کی نہ کسی طرح مذمت کی جاسکتی ہے اور نہ اس کا مٹ جانا کسی درجے میں مطلوب ہے، مگر جب اسی طرح کے چھوٹے چھوٹے گروہ اپنی محدود دل چسپیوں کی بنا پر تعصب اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے گروہی مفاد یا مقاصد کے لیے معرکہ آرائی پر اُتر آتے ہیں تو یہ چیز ملک اور ملّت کے لیے سخت نقصان دہ بن جاتی ہے۔ اس کو اگر نہ روکا جائے تو ملک پارہ پارہ ہوجائے اور ملّت کا شیرازہ بکھر جائے جس کے بُرے نتائج سے خود یہ گروہ بھی نہیں بچ سکتے۔ لہٰذا ہم میں سے ہرشخص کو یہ اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ جس فرقے، قبیلے، نسل، زبان یا صوبے سے بھی اس کا تعلق ہو، اُس کے ساتھ اُس کی دل چسپی اپنی فطری حد سے تجاوز نہ کرنے پائے۔ یہ دل چسپی جب بھی تعصب کی شکل اختیار کرے گی، تباہ کن ثابت ہوگی۔ ہرتعصب لازماً جواب میں ایک دوسرا تعصب پیدا کردیتا ہے، اور تعصب کے مقابلے میں تعصب کش مکش پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھر بھلا اُس قوم کی خیر کیسے ہوسکتی ہے جس کے اجزاے ترکیبی آپس ہی میں برسرِپیکار ہوں۔
ایسا ہی معاملہ سیاسی پارٹیوں کا بھی ہے۔ کسی ملک میں اس طرح کی پارٹیوں کا وجود اگر جائز ہے تو صرف اس بنا پر کہ ملک کی بھلائی کے لیے جو لوگ ایک خاص نظریہ اور لائحۂ عمل رکھتے ہوں انھیں منظم ہوکر اپنے طریقے پر کام کرنے کا حق ہے۔ لیکن یہ حق دو ضروری شرطوں کے ساتھ مشروط ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ فی الواقع نیک نیتی کے ساتھ ملک کی بھلائی ہی کے لیے خواہاں اور کوشاں ہوں، اور دوسری شرط یہ کہ ایک دوسرے کے ساتھ ان کی مسابقت یا مصالحت اصولی ہو اور معقول اور پاکیزہ طریقوں تک محدود رہے۔ ان میں سے جو شرط بھی مفقود ہوگی اُس کا فقدان پارٹیوں کے وجود کو ملک کے لیے مصیبت بنا دے گا۔ اگر ایک پارٹی اپنے مفاد اور اپنے چلانے والوں کے مفاد ہی کو اپنی سعی و جہد کا مرکز و محور بنابیٹھے اور اس فکر میں ملک کے مفاد کی پروا نہ کرے تو وہ سیاسی پارٹی نہیں بلکہ قزاقوں کی ٹولی ہے۔ اور اگر مختلف پارٹیاں مسابقت میں ہرطرح کے جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرنے لگیں اور مصالحت کسی اصول پر کرنے کے بجاے اختیار و اقتدار کے بٹوارے کی خاطرکیا کریں تو ان کی جنگ بھی ملک کے لیے تباہ کن ہوگی اور صلح بھی۔
یہ پانچ اصول وہ ہیں جن کی پابندی اگر ملک کے تمام عناصر قبول نہ کرلیں تو یہاں سرے سے وہ فضا ہی پیدا نہیں ہوسکتی جس میں نظامِ زندگی کی بنیادوں پر اتفاق ممکن ہو، یا بالفرض اس طرح کا کوئی اتفاق مصنوعی طور پر واقع ہو بھی جائے توو ہ عملاً کوئی مفید نتیجہ پیدا کرسکے۔ (ترجمان القرآن ،جولائی ۱۹۵۵ء، ص ۲-۸)
دوسرے تمام معاملات سے بڑھ کر جو چیز ہمارے لیے اہمیت رکھتی ہے وہ ہماری قوم کی دینی حالت ہے۔ اس حالت کا جب ہم جائزہ لے کر دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ دینی حیثیت سے ہم مسلسل انحطاط کی طرف جارہے ہیں اور پاکستان بننے کے بعد یہ رفتارِانحطاط کم ہونے کے بجاے کچھ اور زیادہ تیز ہوگئی ہے۔ یہ ہمارے نزدیک خطرہ نمبر۱ ہے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری آبادی کا بڑا حصہ___ بہت بڑا حصہ ___ احکامِ الٰہی سے بُعد رکھتا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں علانیہ خدا کے احکام کی خلاف ورزی ہورہی ہے اور ایسے نازک وقت میں بھی لوگ اُس سے باز نہیں آتے، جب کہ ہم اپنے آپ کو چاروں طرف سے خطرات میں گھِرا ہوا پاتے ہیں اور خدا سے نصرت مانگ رہے ہوتے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں فرنگیت اور فسق و فجور کی رَو بڑھتی چلی جارہی ہے اور آج وہ کچھ ہو رہا ہے جو انگریز کے زمانے میں بھی نہ ہوتا تھا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام آج بھی اسی طرح بے بس ہے جس طرح انگریز کے زمانے میں تھا، بلکہ اِس کے اُصول اور قوانین اور احکام اُس وقت سے کچھ زیادہ پامال کیے جارہے ہیں، جرأت اور جسارت کے ساتھ کیے جارہے ہیں، کھلم کھلا کیے جارہے ہیں، بڑے پیمانے پر کیے جارہے ہیں۔ ان کے خلاف چلنے کی علانیہ تبلیغ ہورہی ہے اور عوام الناس کو ان کے خلاف چلانے کی منظم کوششیں کی جارہی ہیں۔
اِس کے سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو دو ہیں۔ ایک یہ کہ سرکاری ملازمتوں سے، فوج اور سول دونوں قسم کی ملازمتوں سے،اُن لوگوں کو چُن چُن کر نکالا جارہا ہے جن کے اندر ایمان اور دین داری کی کچھ بھی رمق پائی جاتی ہے۔ اس طرح حکومت کی مشینری روز بروز اسلامی رُجحانات رکھنے والے عناصر سے خالی ہوتی جارہی ہے اور اُس پر کمیونسٹ اور دوسرے مخالف ِ دین عناصر قابض ہوتے چلے جارہے ہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ فرنگیت کی اِس تبلیغ اور اس کو رواج دینے کی اِس منظم کوشش کا نشانہ خاص طور پر ہماری عورتیں بنائی جارہی ہیں۔ زور لگایا جارہا ہے کہ اسلامی تہذیب و اخلاق کے اُس آخری حصار کو بھی توڑدیا جائے جہاں ہر طرف سے پسپا ہوکر اُس نے پناہ لی تھی۔ طرح طرح سے تدبیریں کی جارہی ہیں کہ اس گہوارے کو بھی گندا کر کے رکھ دیا جائے جہاں ایک مسلمان بچہ سب سے پہلے آنکھ کھولتا ہے اور جہاں اسے مذہب، اخلاق، آدمیت اور اجتماعی برتائو کا پہلا سبق ملتا ہے۔
یہ سب کچھ اُن مقاصد کے بالکل خلاف ہے جن کا نام لے کر پاکستان مانگا گیا تھا اور جن کے اظہار و اعلان ہی کے طفیل اللہ تعالیٰ نے یہ ملک ہمیں بخشا تھا۔ کہا یہ گیا تھا کہ ہمیں ایک خطۂ زمین اس لیے درکار ہے کہ اس میں ہم مسلمان کی سی زندگی بسر کرسکیں، اسلام کو پھر سے زندہ اور تازہ کرسکیں، اور اسلام کی بنیادوں پر خود اپنے ایک تمدّن اور اپنی ایک تہذیب کی عمارت اُٹھاسکیں۔ مگر جب خدا نے وہ خطہ دے دیا تو اب کیا یہ جارہا ہے کہ اسلام کے رہے سہے آثار بھی مٹائے جارہے ہیں اور اُس تہذیب و اخلاق و تمدّن کی عمارت مکمل کی جارہی ہے جس کی ِنیو یہاں انگریز رکھ گیا تھا۔
اس صورتِ حال کو ہم جس وجہ سے خطرہ نمبر۱ سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ صریح طور پر خدا کے غضب کو دعوت دینے کے ہم معنی ہے۔ ہم ہرگز یہ توقع نہیں کرسکتے کہ اپنے رب کی کھلی کھلی نافرمانیاں کرکے ہم اس کی رحمت اور نصرت کے مستحق بن سکیں گے۔
اس میں خطرے کایہ پہلو بھی ہے کہ پاکستان کے عناصر ترکیبی میں نسل، زبان، جغرافیہ، کوئی چیز بھی مشترک نہیں ہے۔ صرف ایک دین ہے جس نے اِن عناصر کو جوڑکر ایک ملّت بنایا ہے۔ دین کی جڑیں یہاں جتنی مضبوط ہوں گی اتنا ہی پاکستان مضبوط ہوگا، اور وہ جتنی کمزور ہوں گی اتنا ہی پاکستان کمزور ہوگا۔
اس میں خطرے کا پہلو یہ بھی ہے کہ یہ کیفیت ہمارے ہاں جتنی زیادہ بڑھے گی، ہماری قوم میں منافقت، اور عقیدہ و عمل کے تضاد کی بیماری بڑھتی چلی جائے گی۔ یہ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے اندر اسلامی احکام کی خلاف ورزی پھیلا دینا جس قدر آسان ہے ، ان کے دلوں سے اسلامی عقائد کو نکال پھینکنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اب اگر صورتِ حال یہ ہو کہ مسلمان عقیدتاً فرض کو فرض، حلال کو حلال اور حرام کو حرام ہی سمجھتے رہیں مگر ان میں روز بروز ایسے افراد کی تعداد بڑھتی چلی جائے جو فرض کو فرض جانتے ہوئے ادا نہ کریں، حکم کو حکم مانتے ہوئے اس کی تعمیل نہ کریں، اور حرام کو حرام سمجھتے ہوئے اس میں خفیہ اور علانیہ مبتلا ہوں، تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ہم اپنی آبادی کو روزبروز زیادہ منافق بنارہے ہیں، اس کے کیرکٹر کی بنیادیں ڈھیلی کررہے ہیں، اس کے اندر سے فرض شناسی اور پابندیِ قانون کی جڑیں کاٹ رہے ہیں، اور اس کو یہ تربیت دے رہے ہیں کہ وہ اپنے اعتقاد کے خلاف عمل کرنے کی خُوگر ہوجائے۔ کیا کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہ تپ دق کی بیماری جو ہماری مذہبی زندگی میں پھیلائی جارہی ہے، صرف مذہب کے دائرے تک ہی محدود رہ جائے گی؟ ہماری پوری قومی عمارت کو کھوکھلا کرکے نہ رکھ دے گی؟ جو مسلمان خدا اور رسولؐ کے ساتھ مخلص نہ رہے اُس سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ وہ قوم، وطن ، ریاست اورکسی دوسری چیز کے لیے مخلص ثابت ہوسکے گا؟
اس میں خطرے کا یہ پہلو بھی ہے کہ غیراسلامی اخلاق و اطوار کو رواج دینے کی کوششیں جتنی زیادہ بڑھ رہی ہیں، ملک کے دین پسند عناصر میں اُن کے مقابلے اور مزاحمت کا جذبہ بھی اتنا ہی زیادہ بڑھتا جارہا ہے، اور اس چیز نے ملک کو صریح طور پر دو کیمپوں میں بانٹ دیا ہے۔ ایک اسلامی کیمپ اور دوسرا غیراسلامی کیمپ۔ غور کرنے کی بات ہے کہ یہ وقت ،جب کہ ہماری نئی مملکت ابھی ابھی قائم ہوئی ہے آیا اس بات کا متقاضی تھا کہ ہم اس کی تعمیروترقی میں مل جل کر اپنی ساری قومی طاقت صرف کردیتے، یا اس بات کا کہ ہم دو کیمپوں میں بٹ کر اپنی طاقتیں آپس کی کش مکش میں صَرف کرتے؟ کچھ سوچیے کہ یہ کش مکش ہمیں کدھر لے جارہی ہے اور آخر کہاں پہنچا کر چھوڑے گی؟
ملک کے تمام طبقے کیرکٹر کے بودے پن اور بے ضمیری میں مبتلا ہیں۔ اخلاقی خرابیاں ایک وبا کی طرح پھیل رہی ہیں۔ تمام اخلاقی حدود توڑ کر رکھ دی گئی ہیں اور عام طور پر لوگوں کے دلوں سے یہ احساس مٹتا جارہا ہے کہ اخلاق بھی کوئی چیز ہے جس کے تقاضوں کا کچھ لحاظ آدمی کو کرنا چاہیے۔ عوام ہوں یا تعلیم یافتہ حضرات، سرکاری افسر اور اہل کار ہوں یا سیاسی لیڈر اور پارٹیوں کے کارکن، اخبارنویس ہوں یا اہلِ قلم، تاجر ہوں یا اہلِ حرفہ، زمین دار ہوں یا کسان، جس طبقے کو دیکھیے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اخلاقی ذمہ داریوں کو بھول چکا ہے اور کسی ایسی حد سے واقف نہیں رہا ہے جس پر وہ اپنی اغراض و خواہشات کے پیچھے دوڑتے ہوئے رُک جائے۔ ہرشخص اپنا مطلب حاصل کرنے کے لیے ہر بدتر سے بدتر ذریعہ اختیار کرنے پر تُلا ہواہے۔ حرام اور حلال کی تمیز اُٹھ چکی ہے۔ گناہ اور ثواب کا احساس مٹ گیا ہے۔ بُرائی اور بھلائی کے فرق سے نگاہیں بند کرلی گئی ہیں۔ لوگوں کے ضمیر نے ان کے ذاتی مفاد کے آگے سپرڈال دی ہے۔ فرائض کو لوگ بھول چکے ہیں اور حقوق سب کو یاد ہیں۔ جھوٹ اور فریب اور چال بازی کام نکالنے کے مقبول ترین ہتھیار بن گئے ہیں۔ رشوت اور خیانت اور حرام خوری کے دوسرے ذرائع شیرمادر کی طرح حلال ہوگئے ہیں۔ مال والوں کے مال ضمیروں اور عصمتوں اور شرافتوں کے خریدنے میں صَرف ہورہے ہیں اور بیچنے والے دھڑلّے سے اخلاق کے وہ سارے جوہر بیچ رہے ہیں جو اُن کی نگاہ میں روپے سے کم قیمت رکھتے ہیں۔
مَیں اِس کو اِس ملک کے لیے خطرۂ عظیم سمجھتا ہوں۔ کیرکٹر ہی وہ اصل طاقت ہے جس کے بل پر کوئی قوم زندہ رہ سکتی ہے اور ترقی کرسکتی ہے۔ اگر اس طاقت سے ہم محروم ہو جائیں، اگر ہمارے اخلاق کی جان نکل جائے اور ہم بالکل حدود سے ناآشنا ہوکر رہ جائیں، تو ترقی کرنا تو درکنار ہم ایک آزاد قوم کی حیثیت سے زندہ بھی نہیں رہ سکتے۔ (رُوداد جماعت اسلامی، ششم، ص ۶۱-۶۶)
جہاں تک قربانی کے سنت اور مشروع ہونے کا تعلق ہے، یہ مسئلہ ابتدا سے اُمت میں متفق علیہ ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں رہا ہے۔
سب سے بڑا ثبوت اس کے سنت اور مشروع ہونے کا یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِمبارک سے لے کر آج تک مسلمانوں کی ہرنسل کے بعد دوسری نسل اس پر عمل کرتی چلی آرہی ہے۔ دوچار یا دس پانچ آدمیوں نے نہیں بلکہ ہر پشت کے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں نے اپنے سے پہلی پشت کے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں سے اس طریقے کو اخذ کیا ہے اور اپنے سے بعد والی پشت کے لاکھوں ، کروڑوں مسلمانوں تک اسے پہنچایا ہے۔ اگر تاریخِ اسلام کے کسی مرحلے پر کسی نے اس کو ایجاد کر کے دین میں شامل کرنے کی کوشش کی ہوتی تو کس طرح ممکن تھا کہ تمام مسلمان بالاتفاق اس کو قبول کرلیتے اور کہیں کوئی بھی اس کے خلاف لب کشائی نہ کرتا؟ اور کس طرح یہ بات تاریخ میں چھپی رہ سکتی تھی کہ اس طریقے کو کب کس نے کہاں ایجاد کیا؟ آخر یہ اُمت ساری کی ساری منافقوں پر ہی تو مشتمل نہیں رہی ہے کہ حدیثوں پر حدیثیں قربانی کی مشروعیت پر گھڑ دی جائیں اور ایک نیا طریقہ ایجاد کرکے رسولِؐ خدا کی طرف منسوب کردیا جائے اور پوری اُمت آنکھیں بند کر کے اسے قبول کربیٹھے ۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ ہماری پچھلی نسلیں ایسی ہی منافق تھیں تو معاملہ قربانی تک کب محدود رہتا ہے۔ پھر تو نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، بلکہ خود رسالت ِ محمدیہ اور قرآن تک سب ہی کچھ مشکوک و مشتبہ ہوکر رہ جاتا ہے، کیونکہ جس تواتر کے ساتھ پچھلی نسلوں سے ہم کو قربانی پہنچی ہے اُسی تواتر کے ساتھ انھی نسلوں سے یہ سب چیزیں بھی پہنچی ہیں۔ اگر ان کا متواتر عمل اس معاملے میں مشکوک ہے تو آخر دوسرا کون ایسا معاملہ رہ جاتا ہے جس میں اسے شک سے بالاتر ٹھیرایا جاسکے۔
افسوس ہے کہ موجودہ زمانے میں بعض لوگ نہ خدا کا خوف رکھتے ہیں نہ خلق کی شرم۔ علم اور سمجھ بوجھ کے بغیر جو شخص جس دینی مسئلے پر چاہتا ہے بے تکلف تیشہ چلا دیتا ہے۔ پھر اسے کچھ پروا نہیں ہوتی کہ اس ضرب سے صرف اسی مسئلے کی جڑ کٹتی ہے یا ساتھ ہی ساتھ دین کی جڑ بھی کٹ جاتی ہے۔
دراصل اس وقت قربانی کی جو مخالفت کی جارہی ہے ، اس کی بنیاد یہ نہیں ہے کہ کسی نے علمی طریقے پر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا ہو اور اس میں قربانی کا حکم نہ پایا جاتا ہو، بلکہ اس مخالفت کی حقیقی بنیاد صرف یہ ہے کہ اس مادہ پرستی کے دور میں لوگوں کے دل و دماغ پر معاشی مفاد کی اہمیت بُری طرح مسلط ہوگئی ہے اور معاشی قدر کے سوا کسی چیز کی کوئی دوسری قدر ان کی نگاہ میں باقی نہیں رہی ہے۔ وہ حساب لگاکر دیکھتے ہیں کہ ہرسال کتنے لاکھ یا کتنے کروڑ مسلمان قربانی کرتے ہیں اور اس پر اوسطاً فی کس کتنا روپیہ خرچ ہوتا ہے۔ اس حساب سے ان کے سامنے قربانی کے مجموعی خرچ کی ایک بہت بڑی رقم آتی ہے اور وہ چیخ اُٹھتے ہیں کہ اتنا روپیہ محض جانوروں کی قربانی پر ضائع کیا جارہا ہے، حالانکہ اگر یہی رقم قومی اداروں یا معاشی منصوبوں پر صرف کیا جاتا تو اس سے بے شمار فائدے حاصل ہوسکتے تھے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ ایک سراسر غلط ذہنیت ہے جو غیراسلامی اندازِ فکرسے ہمارے اندر پرورش پارہی ہے۔ اگر اس کو اسی طرح نشوونما پانے دیا گیا تو کل ٹھیک اسی طریقے سے استدلال کرتے ہوئے کہا جائے گا کہ ہرسال اتنے لاکھ مسلمان اوسطاً اتنا روپیہ سفرحج پر صرف کردیتے ہیں جو مجموعی طور پر اتنے کروڑ روپیہ بنتا ہے، محض چند مقامات کی زیارت پر اتنی خطیر رقم سالانہ صرف کردینے کے بجاے کیوں نہ اسے بھی قومی اداروں اور معاشی منصوبوں اور ملکی دفاع پر خرچ کیا جائے۔ یہ محض ایک فرضی قیاس ہی نہیں ہے بلکہ فی الواقع اسی ذہنیت کے زیراثر ترکیہ [ترکی] کی لادینی حکومت نے ۲۵سال تک حج بند کیے رکھا ہے۔ پھر کوئی دوسرا شخص حساب لگائے گا کہ ہر روز اتنے کروڑ مسلمان پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں اور اس میں اوسطاً فی کس اتنا وقت صرف ہوتا ہے جس کا مجموعہ اتنے لاکھ گھنٹوں تک جاپہنچتا ہے۔ اس وقت کو اگر کسی مفید معاشی کام میں استعمال کیا جاتا تو اس سے اتنی معاشی دولت پیدا ہوسکتی تھی۔ لیکن بُرا ہو اُن ملّائوں کا کہ انھوں نے مسلمانوں کو نماز میں لگا کر صدیوں سے انھیں اس قدر خسارے میں مبتلا کررکھا ہے۔ یہ بھی کوئی فرضی قیاس نہیں ہے بلکہ فی الواقع سوویت روس میں بہت سے ناصحین مشفقین نے وہاں کے مسلمانوں کو نماز کے معاشی نقصانات اِسی منطق سے سمجھائے ہیں___ پھر یہی منطق روزے کے خلاف بھی بڑی کامیابی کے ساتھ استعمال کی جاسکتی ہے۔ اور اس کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان نری معیشت کی میزان پر تول تول کر اسلام کی ایک ایک چیز کو دیکھتا جائے گا اور ہر اس چیز کو ’ملّائوں کی ایجاد‘ قرار دے کر ساقط کرتا چلا جائے گا جو اس میزان میں اس کو بے وزن نظر آئے گی۔ کیا فی الواقع اب مسلمانوں کے پاس اپنے دین کے احکام کو جانچنے کے لیے صرف ایک یہی معیار رہ گیا ہے؟ (تفہیمات، دوم، ص ۲۵۹-۲۶۲)
میں آپ کو اور اپنے تمام مسلمان بھائیوں کو عید کی مبارک باد دیتا ہوں!
عید کی مبارک باد کے حقیقی مستحق وہ لوگ ہیں جنھوں نے رمضان المبارک میں روزے رکھے۔ قرآنِ مجید کی ہدایت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی فکر کی، اِس کو پڑھا، سمجھا، اُس سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی اور تقویٰ کی اُس تربیت کا فائدہ اُٹھایا جو رمضان المبارک ایک مومن کو دیتا ہے۔
قرآنِ مجید میں رمضان کے روزوں کی دو ہی مصلحتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ ان سے مسلمانوں میں تقویٰ پیدا ہو:
کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرہ۲:۱۸۳) ، تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔
دوسری یہ کہ مسلمان اُس نعمت کا شکر ادا کریں جو اللہ تعالیٰ نے رمضان میں قرآنِ مجید نازل کر کے ان کو عطا کی ہے:
لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (البقرہ۲:۱۸۵) ، تاکہ تم اللہ کی تکبیر کرو اور اس کا شکر ادا کرو، اُس ہدایت پر جو اُس نے تمھیں دی ہے۔
دنیا میں اللہ جل شانہ ٗ کی سب سے بڑی نعمت نوعِ انسانی پر اگرکوئی ہے تو وہ قرآنِ مجید کو نازل کرنا ہے۔ تمام نعمتوں سے بڑھ کر یہ نعمت ہے ، اس لیے کہ رزق اور اس کے جتنے ذرائع ہیں، مثلاً یہ ہوا اور یہ پانی اور یہ غلے اور اسی طرح معیشت کے جو ذرائع ہیں جن سے انسان اپنے لیے روزی کماتا ہے، مکان بناتا ہے، کپڑے فراہم کرتا ہے۔ یہ ساری چیزیں بھی اگرچہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہی ہیں، لیکن یہ فضل و احسان اور اللہ تعالیٰ کی یہ نعمتیں محض انسان کے جسم کے لیے ہیں۔ قرآنِ مجید وہ نعمت ہے جو انسان کی روح کے لیے، اُس کے اخلاق کے لیے اور درحقیقت اُس کی اصل انسانیت کے لیے نعمت عظمیٰ ہے۔ ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کا شکر اسی صورت میں صحیح طور پر بجالاسکتا ہے، جب کہ وہ اِس کے دیے ہوئے رزق پر بھی شکر اداکرے اور اُس کی دی ہوئی اِس نعمت ہدایت کے لیے شکر ادا کرے جو قرآن کی شکل میں اُس کو دی گئی ہے۔ اس کا شکر ادا کرنے کی یہ صورت نہیں ہے کہ آپ بس زبان سے شکر ادا کریں اور کہیں کہ اللہ تیرا شکر کہ تو نے قرآن ہمیں دیا، بلکہ اس کے شکر کی صحیح صورت یہ ہے کہ آپ قرآن کو سرچشمۂ ہدایت سمجھیں، دل سے اس کو رہنمائی کا اصل مرجع مانیں اور عملاً اس کی رہنمائی کا فائدہ اُٹھائیں۔
قرآنِ مجید آپ کو اپنی ذاتی زندگی کے متعلق ہدایت کرتا ہے کہ آپ کس طرح سے ایک پاکیزہ زندگی بسر کریں۔ وہ آپ کو ان چیزوں سے منع کرتا ہے جو آپ کی شخصیت کے نشوونما کے لیے نقصان دہ ہیں۔ وہ آپ کو وہ چیزیں بتاتا ہے جن پر آپ عمل کریں تو آپ کی شخصیت صحیح طور پر نشوونما پائے گی اور آپ ایک اچھے انسان بن سکیں گے۔ وہ آپ کی اجتماعی زندگی کے متعلق بھی مفصل ہدایات آپ کو دیتا ہے۔ آپ کی معاشرتی زندگی کیسی ہو؟ آپ کے گھر کی زندگی کیسی ہو؟ آپ کے تمدن اور آپ کی تہذیب کا نقشہ کیا ہو؟ آپ کی ریاست کن طریقوں پر چلے؟ آپ کا قانون کیا ہو؟ آپ کی معاشرتی زندگی کا نظام کیسا ہو؟ کن طریقوں سے آپ اپنی روزی حاصل کریں؟ کن راہوں میں آپ اپنی کمائی ہوئی دولت کو خرچ کریں اور کن راہوں میں نہ کریں؟ آپ کا تعلق اپنے خدا کے ساتھ کیسا ہو؟ آپ کا تعلق خود اپنے نفس کے ساتھ کیا ہو؟ آپ کا تعلق خدا کے بندوں کے ساتھ کیسا ہو؟ اپنی بیوی کے ساتھ، اپنی اولاد کے ساتھ، اپنے والدین کے ساتھ، اپنے رشتہ داروں کے ساتھ، اپنے معاشرے کے افراد کے ساتھ اور دنیا کے تمام انسانوں کے ساتھ، حتیٰ کہ جمادات اور حیوانات کے ساتھ اور خدا کی دی ہوئی تمام مختلف نعمتوں کے ساتھ آپ کا برتائو کیسا ہونا چاہیے؟ زندگی کے ان سارے معاملات کے لیے قرآنِ مجید آپ کو واضح ہدایات دیتا ہے۔ ایک مسلمان کا کام یہ ہے کہ اُس کو اصل سرچشمۂ ہدایت مانے، رہنمائی کے لیے اُسی کی طرف رجوع کرے اور اُن احکامات و ہدایات اور اُن اصولوں کو صحیح تسلیم کرے جو وہ دے رہا ہے اور اُن کے خلاف جو چیز بھی ہو، اُس کو رد کردے خواہ وہ کہیں سے آرہی ہو۔ اگر کسی شخص نے اِس رمضان المبارک کے زمانے میں قرآن کو اِس نظر سے دیکھا اور سمجھا ہے اور کوشش کی ہے کہ اُس کی تعلیم و ہدایت کو زیادہ سے زیادہ اپنی سیرت و کردار میں جذب کرے، تو اِس نے واقعی اِس نعمت پر اللہ کا صحیح شکر ادا کیا ہے۔ وہ حقیقت میں اس پر مبارک باد کا مستحق ہے کہ رمضان المبارک کا ایک حق جو اُس پر تھا، اسے اُس نے ٹھیک ٹھیک ادا کردیا۔
رمضان المبارک کے روزوں کا دوسرا مقصد جس کے لیے وہ آپ پر فرض کیے گئے ہیں، یہ ہے کہ آپ کے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ آپ اگر روزے کی حقیقت پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ تقویٰ پیدا کرنے کے لیے اس سے زیادہ کارگر ذریعہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ تقویٰ کیا چیز ہے؟ تقویٰ یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچے اور اُس کی فرماں برداری اختیار کرے۔ روزہ مسلسل ایک مہینے تک آپ کو اِسی چیز کی مشق کراتا ہے۔ جو چیزیں آپ کی زندگی میں عام طور پر حلال ہیں وہ بھی اللہ کے حکم سے روزے میں حرام ہوجاتی ہیں اور اس وقت تک حرام رہتی ہیں جب تک اللہ ہی کے حکم سے وہ حلال نہ ہوجائیں۔ پانی جیسی چیز جو ہرحال میں حلال و طیب ہے، روزے میں جب اللہ حکم دیتا ہے کہ یہ اب تمھارے لیے حرام ہے تو آپ اس کا ایک قطرہ تک حلق سے نہیں اُتار سکتے، خواہ پیاس سے آپ کا حلق چٹخنے ہی کیوں نہ لگے۔ البتہ جب اللہ پینے کی اجازت دے دیتا ہے اُس وقت آپ اُس کی طرف اِس طرح لپکتے ہیں گویا کسی نے آپ کو باندھ رکھا تھا اور آپ ابھی کھولے گئے ہیں۔ ایک مہینے تک روزانہ یہ باندھنے اور کھولنے کا عمل اسی لیے کیا جاتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی پوری پوری بندگی و اطاعت کے لیے تیار ہوجائیں۔ جس جس چیز سے وہ آپ کو روکتا ہے اُس سے رُکنے کی، اور جس جس چیز کا وہ آپ کو حکم دیتا ہے اس کو بجالانے کی آپ کو عادت ہوجائے۔ آپ اپنے نفس پر اتنا قابو پالیں کہ وہ اپنے بے جا مطالبات اللہ کے قانون کے خلاف آپ سے نہ منوا سکے۔ یہ غرض ہے جس کے لیے روزے آپ پر فرض کیے گئے ہیں۔
اگر کسی شخص نے رمضان کے زمانے میں روزے کی اس کیفیت کو اپنے اندر جذب کیا ہے تو وہ حقیقت میں مبارک باد کا مستحق ہے، اور اس سے زیادہ مبارک باد کا مستحق وہ شخص ہے جو مہینے بھر کی اس تربیت کے بعد عید کی پہلی ساعت ہی میں اسے اپنے اندر سے اُگل کر پھینک نہ دے بلکہ باقی ۱ ۱ مہینے اس کے اثرات سے فائدہ اُٹھاتا رہے۔
آپ غور کیجیے! اگر ایک شخص اچھی سے اچھی غذا کھائے جو انسان کے لیے نہایت قوت بخش ہو، مگر کھانے سے فارغ ہوتے ہی حلق میں انگلی ڈال کر اس کو فوراً اُگل دے تو اس غذا کا کوئی فائدہ اُسے حاصل نہ ہوگا، کیونکہ اُس نے ہضم ہونے اور خون بنانے کا اسے کوئی موقع ہی نہ دیا۔ اس کے برعکس اگر ایک شخص غذا کھا کر اُسے ہضم کرے اور اُس سے خون بن کر اُس کے جسم میں دوڑے، تو یہ کھانے کا اصل فائدہ ہے جو اُس نے حاصل کیا۔ کم درجے کی مقوی غذا کھاکر اُسے جزوِبدن بنانا اس سے بہتر ہے کہ بہترین غذا کھانے کے بعد استفراغ [قے]کردیا جائے۔ ایسا ہی معاملہ رمضان کے روزوں کا بھی ہے۔ ان کا حقیقی فائدہ آپ اسی طرح اُٹھا سکتے ہیں کہ ایک مہینے تک جو اخلاقی تربیت اِن روزوں نے آپ کو دی ہے ، عید کے بعد آپ اس کو نکال کر اپنے اندر سے پھینک نہ دیں، بلکہ باقی ۱۱ مہینے اس کے اثرات کو اپنی زندگی میں کام کرنے کا موقع دیں۔ یہ فائدہ اگر کسی شخص نے اِس رمضان سے حاصل کرلیا تو وہ واقعی پوری پوری مبارک باد کا مستحق ہے کہ اُس نے اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت پالی۔(تفہیمات، چہارم، ص ۱۶۶-۱۷۰)
اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو انتخاب اور ارادے کی آزادی بخشی ہے، اور اسی آزادی کے استعمال میں اُس کا امتحان ہے۔ اِس حقیقت کو اگر آپ ذہن نشین کرلیں تو آپ کو یہ سمجھنے میں کوئی زحمت پیش نہ آئے گی کہ کسی ملک یا قوم یا زمانے کے انسانوں میں اگر کوئی دعوتِ باطل فروغ پاتی ہے، یا کوئی نظامِ باطل غالب رہتا ہے، تو یہ اُس دعوت اور اُس نظام کی کامیابی نہیں بلکہ اُن انسانوں کی ناکامی ہے جن کے اندر ایک باطل دعوت یا نظام نے عروج پایا۔ اِسی طرح دعوتِ حق اور اس کے لیے کام کرنے والے اگر اپنی حد تک صحیح طریقے سے اصلاح کی کوشش کرتے رہیں اور نظامِ حق قائم نہ ہوسکے تو یہ نظامِ حق اور اس کے لیے کام کرنے والوں کی ناکامی نہیں، بلکہ ان انسانوں ہی کی ناکامی ہے جن کے معاشرے میں صداقت پروان نہ چڑھ سکی اور بدی ہی پھلتی پھولتی رہی۔
دنیا میں حق اور باطل کی کش مکش بجاے خود ایک امتحان ہے، اور اس امتحان کا آخری نتیجہ اِس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں نکلنا ہے۔ اگر دنیا کے انسانوں کی عظیم اکثریت نے کسی قوم، یا ساری دنیا ہی نے حق کو نہ مانا اور باطل کو قبول کرلیا تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام اور باطل کامیاب ہوگیا، بلکہ اس کے معنی دراصل یہ ہیں کہ انسانوں کی عظیم اکثریت اپنے رب کے امتحان میں ناکام ہوگئی جس کا بدترین نتیجہ وہ آخرت میں دیکھے گی۔ بخلاف اس کے وہ اقلیت جو باطل کے مقابلے میں حق پر جمی رہی اور جس نے حق کو سربلند کرنے کے لیے جان و مال کی بازی لگا دی، اِس امتحان میں کامیاب ہوگئی اور آخرت میں وہ بھی اپنی اِس کامیابی کا بہترین نتیجہ دیکھ لے گی۔ یہی بات ہے جو نوعِ انسانی کو زمین پر اُتارتے وقت اللہ تعالیٰ نے صاف صاف بتادی تھی کہ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَ ھُم یَحْزَنُوْنَ o وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o (البقرہ ۲:۳۸-۳۹) ’’پھرجو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے، اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔
اس حقیقت کو آپ جان لیں تو یہ بات بھی آپ کی سمجھ میں بخوبی آسکتی ہے کہ اہلِ حق کی اصل ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ باطل کو مٹا دیں اور حق کو اس کی جگہ قائم کر دیں، بلکہ ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی حد تک باطل کو مٹانے اور حق کو غالب و سربلند کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ صحیح اور مناسب و کارگر طریقوں سے کوشش کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔ یہی کوشش خدا کی نگاہ میں ان کی کامیابی و ناکامی کا اصل معیار ہے۔ اس میں اگر ان کی طرف سے دانستہ کوئی کوتاہی نہ ہو تو خدا کے ہاں وہ کامیاب ہیں، خواہ دنیا میں باطل کا غلبہ ان کے ہٹائے نہ ہٹے اور شیطان کی پارٹی کا زور اُن کے توڑے نہ ٹوٹ سکے۔
بسااوقات آدمی کے ذہن میں یہ اُلجھن بھی پیدا ہوتی ہے کہ جب یہ دین خدا کی طرف سے ہے، اور اس کے لیے کوشش کرنے والے خدا کا کام کرتے ہیں، اور اس دین کے خلاف کام کرنے والے دراصل خدا سے بغاوت کرتے ہیں، تو باغیوں کو غلبہ کیوں حاصل ہوجاتا ہے اور وفاداروں پر ظلم کیوں ہوتا ہے؟ لیکن اُوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر غور کرنے سے آپ اس سوال کا جواب بھی خود پاسکتے ہیں۔ درحقیقت یہ اُس آزادی کا لازمی نتیجہ ہے جو امتحان کی غرض سے انسانوں کو دی گئی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہوتی کہ زمین میں صرف اس کی اطاعت فرماں برداری ہی ہو اور سرے سے کوئی اس کی رضا کے خلاف کام نہ کرسکے، تو وہ تمام انسانوں کو اُسی طرح مطیعِ فرمان پیدا کردیتا جس طرح جانور اور درخت اور دریا اور پہاڑ مطیعِ فرمان ہیں۔ مگر اس صورت میں نہ امتحان کا کوئی موقع تھا اور نہ اس میں کامیابی پر کسی کو جنت دینے اور ناکامی پر کسی کو دوزخ میں ڈالنے کا کوئی سوال پیدا ہوسکتا تھا۔
اس طریقے کو چھوڑ کے جب اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ نوعِ انسانی اور اس کے ایک ایک فرد کا امتحان لے، تو اس کے لیے ضروری تھا کہ ان کو انتخاب اور ارادے کی (بقدرِ ضرورتِ امتحان) آزادی عطا فرمائے، اور جب اُس نے ان کو یہ آزادی عطا فرما دی تو اب یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اُوپر سے مداخلت کرکے زبردستی باغیوں کو ناکام اور وفاداروں کو غالب کردے۔ اس آزادی کے ماحول میں حق اور باطل کے درمیان جو کش مکش برپا ہے اس میں حق کے پیرو، اور باطل کے علَم بردار اور عام انسان (جن میں عام مسلمان بھی شامل ہیں)، سب امتحان گاہ میں اپنا اپنا امتحان دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وفاداروں کی ہمت افزائی اور باغیوں کی حوصلہ شکنی ضرور کی جاتی ہے، لیکن ایسی مداخلت نہیں کی جاتی جو امتحان کے مقصد ہی کو فوت کردے۔ حق پرستوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق کو غالب کرنے کے لیے کہاںتک جان لڑاتے ہیں۔ عام انسانوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق کے علَم برداروں کا ساتھ دیتے ہیں یا باطل کے علَم برداروں کا۔ اور باطل پرستوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق سے منہ موڑ کر باطل کی حمایت میں کتنی ہٹ دھرمی دکھاتے ہیں اور حق کی مخالفت میں آخرکار خباثت کی کس حد تک پہنچتے ہیں۔ یہ ایک کھلا مقابلہ ہے جس میں اگر حق اور راستی کے لیے سعی کرنے والے پِٹ رہے ہوں تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام ہورہا ہے اور اللہ تعالیٰ خاموشی کے ساتھ اپنے دین کی مغلوبی کو دیکھ رہا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ حق کے لیے کام کرنے والے اللہ کے امتحان میں زیادہ سے زیادہ نمبر پا رہے ہیں۔ اُن پر ظلم کرنے والے اپنی عاقبت زیادہ سے زیادہ خراب کرتے چلے جارہے ہیں، اور وہ سب لوگ اپنے آپ کو بڑے خطرے میں ڈال رہے ہیں جو اس مقابلے کے دوران میں محض تماشائی بن کر رہے ہوں، یا جنھوں نے حق کا ساتھ دینے سے پہلوتہی کی ہو، یا جنھوں نے باطل کو غالب دیکھ کر اس کا ساتھ دیا ہو۔
یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ جو لوگ مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں وہ اس امتحان سے مستثنیٰ ہیں، یا محض مسلمان کہلایا جانا ہی اس امتحان میں ان کی کامیابی کا ضامن ہے، یا مسلمان قوموں اور آبادیوں میں دین سے انحراف کا فروغ پانا اور کسی فاسقانہ نظام کا غالب رہنا کوئی عجیب معمّہ ہے جو حل نہ ہوسکے اور ذہنی اُلجھن کا موجب ہو۔ خدا کی اس کھلی امتحان گاہ میں کافر، مومن، منافق، عاصی اور مطیع، سب ہی ہمیشہ اپنا امتحان دیتے رہے ہیں اور آج بھی دے رہے ہیں۔ اس میں فیصلہ کُن چیز کوئی زبانی دعویٰ نہیں بلکہ عملی کردار ہے۔ اور اس کا نتیجہ بھی مردم شماری کے رجسٹر دیکھ کر نہیں بلکہ ہرشخص کا، ہر گروہ کا اور ہر قوم کا کارنامۂ حیات دیکھ کر ہی ہوگا۔ (رسائل و مسائل، پنجم، ص ۳۲۷-۳۳۱)
اللہ نے مسلمانوں کو خلافت عطا فرمانے کا جو وعدہ کیا ہے اُس کے مخاطب محض مردم شماری کے مسلمان نہیں ہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں جو صادق الایمان ہوں، اخلاق اور اعمال کے اعتبار سے صالح ہوں، اللہ کے پسندیدہ دین کا اتباع کرنے والے ہوں، اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہوکر خالص اللہ کی بندگی و غلامی کے پابند ہوں۔ اِن صفات سے عاری اور محض زبان سے ایمان کے مدعی لوگ نہ اِس وعدے کے اہل ہیں اور نہ یہ ان سے کیا ہی گیا ہے۔ لہٰذا وہ اس میں حصہ دار ہونے کی توقع نہ رکھیں۔
بعض لوگ خلافت کو محض حکومت و فرمانروائی اور غلبہ و تمکن کے معنی میںلے لیتے ہیں، پھر اس آیت سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جس کو بھی دنیا میں یہ چیز حاصل ہے وہ مومن اور صالح اور اللہ کے پسندیدہ دین کا پیرو اور بندگیِ حق پر عامل اور شرک سے مجتنب ہے ، اور اس پر مزید ستم یہ ڈھاتے ہیںکہ اپنے اس غلط نتیجے کو ٹھیک بٹھانے کے لیے ایمان ، صلاح، دین حق، عبادت الٰہی اور شرک، ہرچیز کا مفہوم بدل کر وہ کچھ بنا ڈالتے ہیں جو اُن کے اِس نظریے کے مطابق ہو۔ یہ قرآن کی بدترین معنوی تحریف ہے جو یہود و نصاریٰ کی تحریفات سے بھی بازی لے گئی ہے۔ اِس نے قرآن کی ایک آیت۱؎ کو وہ معنی پہنا دیے ہیں جو پورے قرآن کی تعلیم کو مسخ کر ڈالتے ہیں اور اسلام کی
۱- ’’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بناچکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کردے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے، اور ان کی (موجودہ) حالت ِ خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں‘‘۔ (النور ۲۴:۵۵)
کسی ایک چیز کو بھی اس کی جگہ پر باقی نہیں رہنے دیتے۔ خلافت کی اس تعریف کے بعد لامحالہ وہ سب لوگ اس آیت کے مصداق بن جاتے ہیں جنھوں نے کبھی دنیا میں غلبہ و تمکن پایا ہے یا آج پائے ہوئے ہیں، خواہ وہ خدا، وحی، رسالت، آخرت ہر چیز کے منکر ہوں اور فسق وفجور کی ان تمام آلایشوں میں بری طرح لتھڑے ہوئے ہوں جنھیں قرآن نے کبائر قرار دیا ہے، جیسے سود، زنا، شراب اور جوا۔ اب اگر یہ سب لوگ مومن صالح ہیں اور اسی لیے خلافت کے منصب عالی پر سرفراز کیے گئے ہیں تو پھر ایمان کے معنی قوانین طبیعی کو ماننے، اور صلاح کے معنی ان قوانین کو کامیابی کے ساتھ استعمال کرنے کے سوا اور کیا ہو سکتے ہیں؟ اور اللہ کا پسندیدہ دین اِس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ علوم طبیعی میں کمال حاصل کر کے صنعت و حرفت اور تجارت وسیاست میں خوب ترقی کی جائے؟ اور اللہ کی بندگی کا مطلب پھر اس کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے کہ ان قاعدوں اور ضابطوں کی پابندی کی جائے جو انفرادی اور اجتماعی سعی وجہد کی کامیابی کے لیے فطرتاً مفید اور ضروری ہیں؟ اور شرک پھر اس کے سوا اور کس چیز کا نام رہ جاتا ہے کہ ان مفید قواعد وضوابط کے ساتھ کوئی شخص یا قوم کچھ نقصان دہ طریقے بھی اختیار کر لے؟ مگر کیا کوئی شخص جس نے کھلے دل اور کھلی آنکھوں سے کبھی قرآن کو سمجھ کر پڑھا ہو، یہ مان سکتا ہے کہ قرآن میں واقعی ایمان اور عملِ صالح اور دین حق اور عبادتِ الٰہی اور توحید اور شرک کے یہی معنی ہیں؟
یہ معنی یا تو وہ شخص لے سکتاہے جس نے کبھی پورا قرآن سمجھ کر نہ پڑھا ہو اور صرف کوئی آیت کہیں سے اور کوئی کہیں سے لے کر اس کو اپنے نظریات و تصورات کے مطابق ڈھال لیا ہو، یا پھر وہ شخص یہ حرکت کر سکتا ہے جو قرآن کو پڑھتے ہوئے ان سب آیات کو اپنے زعم میں سراسر لغو اور غلط قرار دیتا چلا گیا ہو جن میں اللہ تعالیٰ کو واحد رب اور الٰہ، اور اس کی نازل کردہ وحی کو واحد ذریعۂ ہدایت ، اور اس کے مبعوث کردہ ہر پیغمبر کو حتمی طور پر واجب الاطاعت رہنما تسلیم کرنے کی دعوت دی گئی ہے اور موجودہ دنیوی زندگی کے خاتمے پر ایک دوسری زندگی کے محض مان لینے ہی کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی صاف صاف کہا گیا ہے کہ جو لوگ اس زندگی میں اپنی جواب دہی کے تخیل سے منکر یا خالی الذہن ہو کر محض اس دنیا کی کامیابیوں کو مقصود سمجھتے ہوئے کام کریں گے، وہ فلاح سے محروم رہیں گے۔ قرآن میں ان مضامین کو اس قدر کثرت سے اور ایسے مختلف طریقوں سے اور ایسے صریح وصاف الفاظ میں بار بار دہرایا گیا ہے کہ ہمارے لیے یہ باور کرنا مشکل ہے کہ اس کتاب کو ایمان داری کے ساتھ پڑھنے والا کوئی شخص کبھی ان غلط فہمیوں میں بھی پڑسکتا ہے جن میں آیت ِ استخلاف کے یہ نئے مفسرین مبتلا ہوئے ہیں۔ حلانکہ لفظ خلافت و استخلاف کے جس معنی پر انھوں نے یہ ساری عمارت کھڑی کی ہے وہ ان کا اپنا گھڑا ہوا ہے،قرآن کا جاننے والا کوئی شخص اس آیت میں وہ معنی کبھی نہیں لے سکتا۔
قرآن دراصل خلافت اور استخلاف کو تین مختلف معنوں میں استعمال کرتا ہے اور ہر جگہ سیاق وسباق سے پتا چل جاتا ہے کہ کہاں کس معنی میں یہ لفظ بولا گیا ہے:
اس کے ایک معنی ہیں:’’ خدا کے دیے ہوئے اختیارات کا حامل ہونا‘‘۔ اس معنی میں پوری اولادِ آدم زمین میں خلیفہ ہے۔
دوسرے معنی ہیں:’’ خدا کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے امر شرعی ( نہ کہ محض امرتکوینی ) کے تحت اختیاراتِ خلافت کو استعمال کرنا‘‘۔ اس معنی میںصرف مومن صالح ہی خلیفہ قرار پاتا ہے، کیونکہ وہ صحیح طور پر خلافت کا حق ادا کرتا ہے۔ اور اس کے برعکس کافروفاسق خلیفہ نہیں بلکہ باغی ہے، کیونکہ وہ مالک کے ملک میں اس کے دیے ہوئے اختیارات کو نافرمانی کے طریقے پر استعمال کرتا ہے۔
تیسرے معنی ہیں: ’’ ایک دور کی غالب قوم کے بعد دوسری قوم کا اس کی جگہ لینا‘‘۔پہلے دونوں معنی خلافت بمعنی ’نیابت‘ سے ماخوذ ہیں، اور یہ آخری معنی خلافت بمعنی ’ جانشینی‘ سے ماخوذ۔ اور اس لفظ کے یہ دونوں معنی لغت ِعرب میں معلوم ومعروف ہیں۔
اب جو شخص بھی یہاں اس سیاق و سباق میں آیت ِاستخلاف کو پڑھے گا وہ ایک لمحے کے لیے بھی اس امر میں شک نہیں کر سکتا کہ اس جگہ خلافت کا لفظ اس حکومت کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو اللہ کے امر شرعی کے مطابق ( نہ کہ محض قوانین فطرت کے مطابق) اس کی نیابت کا ٹھیک ٹھیک حق ادا کرنے والی ہو۔ اسی لیے کفار تو درکنار، اسلام کا دعویٰ کرنے والے منافقوں تک کو اس وعدے میں شریک کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ اسی لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اس کے مستحق صرف ایمان اور عمل صالح کی صفات سے متصف لوگ ہیں۔ اسی لیے قیام خلافت کا ثمرہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ کا پسند کردہ دین، یعنی اسلام ، مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جائے گا۔ اور اسی لیے اس انعام کو عطا کرنے کی شرط یہ بتائی جارہی ہے کہ خالص اللہ کی بندگی پر قائم رہو جس میں شرک کی ذرہ برابر آمیزش نہ ہونے پائے۔ اس وعدے کو یہاں سے اٹھا کر بین الاقوامی چورا ہے پر لے پہنچنا اور امریکا سے لے کر روس تک جس کی کبریائی کا ڈنکا بھی دنیا میں بج رہا ہو،ا س کے حضور اسے نذر کر دینا جہالت کی طغیانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ یہ سب طاقتیں بھی اگر خلافت کے منصب عالی پر سرفراز ہیں تو آخر فرعون اور نمرود ہی نے کیا قصور کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں لعنت کا مستحق قرار دیا ؟( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن، الانبیاء حاشیہ ۹۹)
اِس جگہ ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے۔ یہ وعدہ بعد کے مسلمانوں کو تو بالواسطہ پہنچتا ہے۔ بلا واسطہ اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں موجودتھے۔ وعدہ جب کیا گیا تھا اس وقت واقعی مسلمانوں پر حالت ِ خوف طاری تھی اور دین اسلام نے ابھی حجاز کی زمین میں بھی مضبوط جڑ نہیں پکڑی تھی۔ اس کے چند سال بعد یہ حالت ِخوف نہ صرف امن سے بدل گئی بلکہ اسلام عرب سے نکل کر ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر چھا گیا اور اس کی جڑیں اپنی پیدایش کی زمین ہی میں نہیں، کرئہ زمین میں جم گئیں۔ یہ اس بات کا تاریخی ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ ابوبکر صدیق، عمر فاروق، اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے زمانے میں پورا کر دیا۔ اس کے بعد کوئی انصاف پسند آدمی مشکل ہی سے اس امر میں شک کر سکتا ہے کہ ان تینوں حضرات کی خلافت پر خود قرآن کی مہر تصدیق لگی ہوئی ہے اور ان کے مومن صالح ہونے کی شہادت اللہ تعالیٰ خود دے رہا ہے۔ اس میں اگر کسی کو شک ہو تو نہج البلاغہ میں سید نا علی کرم اللہ وجہہٗ کی وہ تقریر پڑھ لے جو انھوں نے حضرت عمرؓ کو ایرانیوں کے مقابلے پر خود جانے کے ارادے سے باز رکھنے کے لیے کی تھی۔ اس میں وہ فرماتے ہیں:
اس کام کا فروغ یا ضعف کثرت وقلت پر موقوف نہیں ہے۔ یہ توا للہ کا دین ہے جس کو اس نے فروغ دیا اور اللہ کا لشکر ہے جس کی اس نے تائیدو نصرت فرمائی، یہاں تک کہ یہ ترقی کر کے اِس منزل تک پہنچ گیا۔ ہم سے تو اللہ خود فرما چکا ہے: وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ… اللہ اس وعدے کو پوار کر کے رہے گا اور اپنے لشکر کی ضرور مدد کرے گا۔ اسلام میں قیّم کا مقام وہی ہے جو موتیوں کے ہار میں رشتے کا مقام ہے۔ رشتہ ٹوٹتے ہی موتی بکھر جاتے ہیں اور نظم درہم برہم ہو جاتا ہے، اور پراگندہ ہو جانے کے بعد پھر جمع ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عرب تعداد میں قلیل ہیں مگر اسلام نے ان کو کثیر اور اجتماع نے ان کو قوی بنا دیا ہے۔ آپ یہاں قطب بن کر جمے بیٹھے رہیں اور عرب کی چکی کو اپنے گرد گھماتے رہیں اور یہیں سے بیٹھے بیٹھے جنگ کی آگ بھڑکاتے رہیں۔ ورنہ آپ اگر ایک دفعہ یہاں سے ہٹ گئے تو ہر طرف سے عرب کا نظام ٹوٹنا شروع ہوجائے گا اور نوبت یہ آجائے گی کہ آپ کو سامنے کے دشمنوں کی بہ نسبت پیچھے کے خطرات کی زیادہ فکر لاحق ہوگی۔ اور ادھر ایرانی آپ ہی کے اوپر نظر جما دیں گے کہ یہ عرب کی جڑ ہے، اسے کاٹ دو تو بیڑا پار ہے، اس لیے وہ سارا زور آپ کو ختم کر دینے پر لگا دیں گے۔ رہی وہ بات جو آپ نے فرمائی ہے کہ اس وقت اہل عجم بڑی کثیر تعداد میں امنڈآئے ہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی ہم جو ان سے لڑتے رہے ہیں تو کچھ کثرت تعداد کے بل پر نہیں لڑتے رہے ہیں، بلکہ اللہ کی تائید ونصرت ہی نے آج تک ہمیں کامیاب کرایا ہے۔
دیکھنے والا خود ہی دیکھ سکتا ہے کہ اس تقریر میں جناب امیر کس کو آیت ِاستخلاف کا مصداق ٹھیرا رہے ہیں۔(تفہیم القرآن، سوم، ص ۴۱۷-۴۲۰)
ہماری یہ جماعت جس غرض کے لیے اُٹھی ہے وہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں، اور آغازِ کار کے طور پر اس ملک میں، ایک ایسی سوسائٹی منظم کی جائے جو اسلام کے اصلی اصولوں پر شعور و اخلاص کے ساتھ خود عامل ہو، دنیا کے سامنے اپنے قول و عمل سے اس کی صحیح نمایندگی کرے، اور بالآخر جہاں جہاں بھی اس کی طاقت جڑ پکڑ جائے وہاں کے افکار، اخلاق، تمدن، معاشرت، سیاست اور معیشت کے نظام کو موجودہ دہریت اور مادہ پرستی کی بنیادوں سے اُکھاڑ کر سچی خداپرستی ، یعنی توحید کی بنیاد پر قائم کردے۔ اس جماعت کو یہ یقین ہے کہ موجودہ تہذیب اور اس کا پورا نظامِ زندگی جن اصولوں پر قائم ہے وہ قطعاً فاسد ہیں اور اگر دنیا کا انتظام انھی اصولوں پر چلتا رہے تو وہ بڑے ہولناک نتائج سے دوچار ہوگی۔ اس کے جو نتائج اب تک نکل چکے ہیں وہ بھی کچھ کم ہولناک نہیں ہیں، مگر انھیں کوئی نسبت انجام کی اس ہولناکی سے نہیں ہے جس کی طرف یہ تہذیب دنیا کو لیے جارہی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ہم اس دنیا سے کہیں باہر نہیں جی رہے ہیں بلکہ اس کے اندر ہی سانس لے رہے ہیں۔ لہٰذا اگر ہم ان اصولوں کو فاسد اور بدانجام سمجھتے ہوئے بھی منفعلانہ طریقے سے (passively) اسی نظام کے تحت زندگی بسر کیے چلے جائیں اور تہذیب حاضر کے مغربی اماموں اور مشرقی مقلدوں کی پیشوائی و سربراہ کاری کے آگے سپر ڈالے رہیں، تو جس تباہی کے گڑھے میں یہ دنیا گرے گی اسی میں اس کے ساتھ ساتھ ہم بھی جاگریں گے اور اس انجام کے ہم مستحق ہوں گے۔
ہم پوری بصیرت کے ساتھ یہ جانتے ہیں ، اور اپنے اس علم پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا نے انسان کی رہنمائی کے لیے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے جو ہدایت نازل کی ہے اسی کی پیروی میں ہماری اور سب انسانوں کی فلاح مضمر ہے اور انسانی زندگی کا پورا نظام اسی وقت صحیح چل سکتا ہے، جب کہ اسے ان اصولوں پر قائم کیا جائے جو انسانوں کے خالق کی دی ہوئی ہدایت میں ہم کو ملتے ہیں۔ ہمارے اس علم و یقین سے یہ فرض خود بخود ہم پر عائد ہوجاتا ہے___ اور یہی فرض خدا نے بھی اپنے مطیع فرماں بندوں پر عائد کیا ہے___ کہ ہم اُس نظامِ زندگی کے خلاف جنگ کریں جو فاسد اصولوں پر چل رہا ہے اور وہ صالح نظام قائم کرنے کے لیے جدوجہد کریں جو خدائی ہدایت کے دیے ہوئے اصولوں پر مبنی ہو۔
یہ کوشش ہمیں صرف اسی لیے نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا کی خیرخواہی ہم سے اس کا مطالبہ کرتی ہے۔ نہیں، ہم خود اپنے بھی سخت بدخواہ ہوں گے اگر اس سعی و جہد میں اپنی جان نہ لڑائیں، کیونکہ جب اجتماعی زندگی کا سارا نظام فاسد اصولوں پر چل رہا ہو، جب باطل نظریات و افکار ساری دنیا پر چھائے ہوئے ہوں، جب خیالات کو ڈھالنے اور اخلاق و سیرت کو بنانے کی عالم گیر طاقتوں پر فاسد نظامِ تعلیم، گمراہ کن ادبیات، فتنہ انگیز صحافت اور شیطنت سے لبریز ریڈیو اور سینما کا تسلط ہو، جب رزق کے تمام وسائل پر ایک ایسے معاشی نظام کا قبضہ ہو جو حرام و حلال کی قیود سے ناآشنا ہے، جب تمدن کی صورت گری کرنے اور اس کو ایک خاص راہ پر لے چلنے کی ساری طاقت ایسے قوانین اور ایسی قانون ساز مشینری کے ہاتھ میں ہو جو اخلاق و تمدن کے سراسر مادہ پرستانہ تصورات پر مبنی ہیں، اور جب قوموں کی امامت اور انتظام دنیا کی پوری زمامِ کار ان لیڈروں اور حکمرانوں کے ہاتھ میں ہو جو خدا کے خوف سے خالی اور اس کی رضا سے بے نیاز ہیں اور اپنے کسی معاملے میں بھی یہ دریافت کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ ان کے خالق کی ہدایت اس معاملے میں کیا ہے___ تو ایسے نظام کی ہمہ گیر گرفت میں رہتے ہوئے ہم خود اپنے آپ کو ہی اس کے بُرے اثرات اور بدتر نتائج سے کب بچا سکتے ہیں۔ یہ نظام جس جہنم کی طرف جا رہا ہے اسی کی طرف وہ دنیا کے ساتھ ہمیں بھی تو گھسیٹے لیے جارہا ہے۔ اگر ہم اس کی مزاحمت نہ کریں اور اس کو بدلنے کی کوشش میں ایڑی چوٹی کا زور نہ لگائیں، تو یہ ہماری اور ہماری آیندی نسلوں کی دنیا خراب اور عاقبت خراب تر کرکے چھوڑے گا۔ لہٰذا محض دنیا کی اصلاح ہی کے لیے نہیں، بلکہ خود اپنے بچائو کے لیے بھی یہ فرض ہم پر عائد ہوتا ہے___ اور یہ سب فرضوں سے بڑا فرض ہے___ کہ ہم جس نظامِ زندگی کو پوری بصیرت کے ساتھ فاسد و مہلک جانتے ہیں اسے بدلنے کی سعی کریں اور جس نظام کے برحق اور واحد ذریعۂ فلاح و نجات ہونے پر ایمان رکھتے ہیں اسے عملاً قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔
اس مختصر گزارش سے آپ یہ بات پاگئے ہوں گے کہ ہمارا اصل مدعا موجودہ نظام کے چلانے والے ہاتھوں کابدلنا نہیں ہے بلکہ خود نظام کا بدلنا ہے۔ ہماری کوششوں کا مقصود یہ نہیں ہے کہ نظام تو یہی رہے اور انھی اصولوں پر چلتا رہے مگر اس کو مغربی نہ چلائے، مشرقی چلائے، یا انگریز نہ چلائے، ہندستانی چلائے، یا ہندو نہ چلائے، ’مسلمان‘ چلائے۔ ہمارے نزدیک محض ہاتھوں کے بدل جانے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ سُور تو بہرحال سُور ہی ہے اور اپنی ذات میں ناپاک ہے، خواہ اسے کافر باورچی پکائے یا مسلمان باورچی، بلکہ مسلمان باورچی کا سُور پکانا اور بھی زیادہ افسوس ناک ہے اور گمراہ کن بھی۔ بہت سے بندگانِ خدا، حتیٰ کہ اچھے خاصے پرہیزگار لوگ بھی اس ظالم کے ہاتھ کا پکا ہوا سُور اس اطمینان کی بنا پر کھا جائیں گے کہ یہ مسلمان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا ہے، اور اگر پُخت و پُز کے دوران میں چمچے کی ہرگردش پر بآوازِ بلند بسم اللہ پڑھتا رہے، اور اس کے چُنے ہوئے دسترخوان پر مسلمانوں کو کافر کے دسترخوان کی بہ نسبت تناولِ ماحضر کی زیادہ آسانیاں اور آزادیاں میسر ہوں، اور محفلِ طعام کے گردوپیش کچھ ایسے لوازم بھی فراہم کردیے جائیں جو عام طور پر اسلامی لوازم سمجھے جاتے ہیں، تو یہ اور بھی زیادہ سخت دھوکا دینے والی چیز ہوگی۔ اس قسم کی نمایشی اسلامیت اگر موجود ہو تو وہ اس حرام خوراک کو قبول کرلینے کے لیے کوئی سفارش نہیں ہے، بلکہ یہ ظاہر فریبیاں اس معاملے کو اور بھی زیادہ پُرخطر بنادیتی ہیں۔ لہٰذا ہم کسی ایسی ظاہر تبدیلی پر نہ خود مطمئن ہوسکتے ہیں اور نہ کسی کو مطمئن ہوتے دیکھ سکتے ہیں جس میں یہ فاسد نظام تو جُوں کا تُوں قائم رہے اور صرف اس کے چلانے والے ہاتھ بدل جائیں۔ ہماری نظر ہاتھوں پر نہیں بلکہ ان اصولوں پر ہے جن پر زندگی کا نظام چلایا جاتا ہے۔ وہ اصول اگر فاسد ہوں تو ہم ان کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے اور انھیں صالح اصولوں سے بدلنے کی کوشش کریں گے۔ (جماعت اسلامی کی دعوت، ص ۷-۱۰)
آج سے ۵۰ برس قبل ملک میں صدر ایوب کا دورِ حکومت تھا۔ عوام گوناگوں مسائل سے دوچار تھے۔ اس موقع پر مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے پشاور کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے قومی زندگی کے لیے پانچ بنیادی اصول پیش کیے جن پر اتفاق راے کرکے ملک کے تمام مقتدر ادارے چلیں تو ملک کے سب مسائل حل ہونے کا راستہ ہموار ہوگا۔ آج بھی پاکستانی قوم اسی نوعیت کے بحران سے دوچار ہے۔ آج بھی یہ پانچ اصول تمام سیاسی قوتیں اور مقتدر ادارے اخلاص سے قبول کرلیں تو پاکستان آیندہ پانچ سال میں ایک باوقار قوم کی حیثیت سے دنیا میں اپنا مقام حاصل کرلے گا اور یہاں کے باشندے دنیا کی ہی نہیں، آخرت کی کامیابیاں بھی حاصل کریں گے۔ ادارہ
اسی شہر لاہور میں جس وقت مسلمانوں نے یہ طے کیا تھا کہ ہم ایک الگ خطۂ زمین حاصل کریں گے، اس وقت تمام متحدہ ہندستان کے مسلمانوں کا ارادہ یہ تھا کہ قطع نظر اس کے کہ وہ پاکستان میں شامل ہوسکیں یا نہ ہوسکیں، لیکن ایک خطۂ زمین ہندستان میں ایسا حاصل کیا جائے جس کے اندر اسلامی تہذیب کو زندہ کیا جائے، جس کے اندر اسلامی قوانین جاری ہوں، جس میں مسلمان اپنے نظریۂ حیات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ یہ جذبہ جنوبی ہند کے آخری گوشوں سے لے کر شمالی اور مغربی ہندستان کے انتہائی گوشوں تک تمام مسلمانوں میں یکساں طور پر پایا جاتا تھا۔ اُن مسلمانوں میں بھی پایا جاتا تھا جن کو کبھی یہ توقع نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ کبھی پاکستان میں شامل ہوسکیں گے۔ اسی چیز کے نتیجے میں پاکستان بنا۔
اگر مسلمانوں میں مسلمان ہونے کا احساس تمام دوسرے احساسات پر غالب نہ ہوتا، اگر مسلمان اس بات کو بھول نہ گئے ہوتے کہ ہم مدراسی ہیں، پنجابی ہیں، بنگالی ہیں، گجراتی ہیں، پٹھان ہیں اور سندھی ہیں، اور صرف ایک تصور ان کے اوپر غالب نہ ہوتا کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کی حیثیت سے اس سرزمین میں جینا چاہتے ہیں تو پاکستان کبھی وجود میں نہیں آ سکتا تھا، بلکہ پاکستان کا تخیل سرے سے پیدا ہی نہیں ہو سکتا تھا۔
پاکستان کا تخیل ہمارے مسلمان ہونے کے احساس پر مبنی تھا۔ پاکستان کا تخیل ہمارے اس جذبے پر مبنی تھا کہ ہم اسلام کے مطابق زندگی بسر کریں گے۔ یہ عام مسلمانوں کے احساسات تھے۔ مجھے کچھ پتا نہیں کہ بڑے بڑے لیڈروں کے ارادے کیا تھے، اور ان کے احساسات کیا تھے؟ یہ بھی یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارے کھاتے پیتے طبقوں کے احساسات کیا تھے؟ یہ بھی مَیں نہیں جانتا کہ جو لوگ ہمارے ہاں سرکاری ملازمتوں میں اُونچے مناصب پر تھے ان کے کیا خیالات تھے اور اس وقت وہ کیا سوچ رہے تھے، لیکن عام مسلمان یہی کچھ سوچ رہا تھا، اور اس نے یہی سمجھتے ہوئے اپنی جان و مال لٹائے کہ یہ سب کچھ غلبۂ اسلام کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس کو یقین تھاکہ ہندستان کے ہندو ان سے بدلہ لیے بغیر نہیں رہیں گے۔ ان کے خون کی ندیاں بہائیں گے، ان کی آبرو پر ہاتھ ڈالیں گے، ان کے مال برباد کریں گے، مگر اس کے باوجود انھوں نے اس خطرے کو مول لیا اور اس مملکت کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد کیا ایک دن کے لیے بھی یہاں اسلام کے لیے خلوص کے ساتھ کام کیا گیا۔ پوری تاریخ آپ کے سامنے ہے۔
پاکستان بننے کے بعد یہاں اسلام کو مملکت کی بِنا قرار دینے میں پس و پیش شروع کر دی گئی۔ بڑی جدوجہد اور مطالبوں کے بعد اگر قرارداد مقاصد پاس کی بھی گئی تو اس کی بنیاد پر اوّل تو دستور بنانے کے بعد بھی اس قرارداد کو محض ایک دیباچے کے طور پر اس میں شامل کیا گیا۔
اس کے ساتھ جس بات کی سب سے پہلے ضرورت تھی وہ یہ کہ نظامِ تعلیم کو تبدیل کیا جائے۔ طلبا کے اندر اسلام کا فہم پیدا کیا جائے، ان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنے اس ملک کو اسلام کے مطابق چلا سکیں۔ لیکن اس چیز کی طرف بار بار توجہ دلانے کے باوجود اس کی کوئی فکر نہ کی گئی اور نظامِ تعلیم میں کوئی تغیر نہ کیا گیا۔ اسی طرح سے نشرواشاعت کے جو ذرائع موجود تھے جن سے لوگوں کی راے تیار کی جاسکتی تھی، جن سے لوگوں کے ذہن اسلام کے مطابق بدلے جاسکتے تھے، ضرورت تھی کہ ان سے کام لے کر مسلمانوں کے اندر مسلمان ہونے کا جذبہ زیادہ سے زیادہ شدید کیاجائے۔ اس لیے کہ وہی ہماری مملکت کی بنیاد تھی اور ہے۔ اس کے مضبوط رہنے پر اس مملکت کو مضبوط رہنا ہے، اور اس کے کمزور ہونے پر اس مملکت کا کمزور ہونا منحصر ہے۔ لیکن اس چیز کی طرف بھی توجہ نہیں کی گئی، بلکہ اس کے بالکل برعکس نشرواشاعت کے تمام ذرائع کو اسلام سے لوگوں کو منحرف کرنے کے لیے استعمال کیا گیا اور ان کے ذریعے ہر طرح کے باطل خیالات اور نظریات پھیلائے گئے۔
تعلیم کے بعد جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ یہ کہ مسلمانوں کے اخلاق کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جاتی۔ کیونکہ ایک اسلامی مملکت کی بنیاد اسلامی فکر کے بعد اسلامی اخلاق ہے۔ اگر اسلامی فکر کے ساتھ اسلامی اخلاق موجود ہو تو ایک نہایت مضبوط و مستحکم مسلم مملکت تیار ہوسکتی ہے۔ لیکن نہ یہاں اسلامی فکر کو مضبوط کیا گیا اور نہ اسلامی اخلاق کو۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے اخلاق کو خراب کرنے کے لیے جو کچھ کیا جا سکتا تھا، وہ کیا گیا۔ مسلمانوں میں تقسیم سے قبل ناچ گانے کا وہ زور نہ تھا جو بعد میں ہوا۔ گویّے اور نچیّے تقسیم سے پہلے مسلمانوں کے ہیرو نہ تھے مگر تقسیم کے بعد [ان پیشوں سے وابستہ لوگ] ہمارے ہیرو قرار پائے۔ تقسیم کے بعد ملک کے دونوں حصوں کے درمیان جو ثقافتی وفود کا تبادلہ ہوتا تھا وہ ناچنے اور گانے والوں کا ہوا۔ گویا یہ تصور کیا گیا کہ ناچ اور گانے سے یہ مملکت قوی ہوگی ۔مسلمانوں میں شراب نوشی، بدکاری اور بے حیائی پھیلانے کے لیے جتنا کام انگریز نے ڈیڑھ سو برس کے اندر نہیں کیا تھا وہ ہمارے ہاں [چند] برس کے اندر کر ڈالا گیا۔ اس طرح سے ہمارے افکار کو اسلام سے منحرف کیا گیا۔ ہمارے اخلاق کو اسلام سے منحرف کیا گیا اور ہمارے اندر سے وہ تمام جڑیں کھودنے کی کوشش کی گئی جن کی بنا پر ہم مسلمان تھے اور مسلمان ہونے پر فخر کرتے تھے۔ جو تعلیم ہمیں دی جارہی تھی وہ لادینیت کی تعلیم تھی۔ اس کے اندر سب کچھ تھا مگر خدا نہ تھا۔ اس میں سب کچھ تھا مگر خدا کا رسولؐ اور خدا کی کتاب نہ تھی۔
لازمی طور پر اس ماحول میں جو ہماری نئی نسلیں اُٹھیں، مشرقی پاکستان [موجودہ بنگلہ دیش] میں تھیں تو ان کے اندر بنگالیت کا احساس پیدا ہوا۔ مغربی پاکستان میں تھیں تو ان کے اندر پنجابی، سندھی، پٹھان اور بلوچی ہونے کا احساس اُبھرنا شروع ہوا۔ ظاہر بات ہے کہ جب مسلمان ہونے کا احساس دبے گا تو اس کے بعد اگر کوئی دوسرا احساس ہوسکتا ہے تو مقامی اور علاقائی قومیتوں کا احساس ہوسکتا ہے، اور وہی چیز پیدا ہوئی۔
بنگالی مسلمانوں میں بنگالی زبان، بنگالی تہذیب، بنگالی ثقافت، ساری کی ساری وہ پھیلائی گئی جو ان کو ہندوئوں کے ساتھ جوڑتی تھی، مسلمانوں سے الگ کرتی تھی۔ ان کے اسلامی احساسات کو زیادہ سے زیادہ فنا کرنے اور مٹانے کی کوشش کی گئی اور نتیجے میں ان کے اندر بنگالیت اور بنگالیت کے ساتھ ہندوئیت کے احساسات پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ یہاں تک کہ آخرکار بنگالی مسلمان نوجوان اور ہندو نوجوان کے درمیان کوئی وجۂ امتیاز باقی نہ رہی۔ نہ صرف مردوں میں بلکہ عورتوں میں جو عورتیں بھی نئی تعلیم پانے والی تھیں ان میں اور نئی تہذیب اختیار کرنے والی ہندو بنگالی عورت میں بظاہر کوئی فرق نظر نہ آتا تھا۔ وہی ان کی تہذیب، وہی ان کے تصورات اور وہی ان کا ناچ گانا....
آپ نے اس کا نتیجہ اب دیکھ لیا کہ آخرکار وہاں وہ تحریک اٹھی جس کے چلانے والے، جس کے لیڈر اور جس کے کارکن نہ صرف یہ کہ اسلام کے تصورات سے خالی تھے، نہ صرف یہ کہ اسلام سے منحرف تھے بلکہ ان کے اندر اسلام کے لیے چڑ پیدا ہوئی۔ وہ اسلام کا نام سننا گوارا نہیں کرتے تھے… ان کے اندر نفرت مغربی پاکستان کے خلاف اس حد تک پھیلی کہ آخرکار انھوں نے ارادہ کر لیا کہ چاہے کافروں سے بھی مدد لینی پڑے لیکن ہم کو مغربی پاکستان سے الگ ہونا ہے۔ تاریخ میں بہت کم مثالیں آپ کو ایسی ملیں گی کہ مسلمانوں نے مسلمانوں سے لڑنے کے لیے کافروں سے مدد حاصل کی ہو۔ یہاں یہ مثال دیکھی گئی کہ مسلمان، بت پرستوں سے اس غرض کے لیے مدد لیتے ہیں کہ مسلمان مملکت سے الگ ہوں اور اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑیں۔ اس طرح سے آخرکار مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا۔
ظاہر بات ہے کہ مشرقی پاکستان نہ فوج کی طاقت سے اور ہتھیاروں کی طاقت سے پاکستان میں شامل ہوا تھا اور نہ ان کی طاقت سے شامل رکھا جا سکتا تھا۔ وہ اگر شامل ہوا تھا تو اسلامی احساسات کی بنا پر، مسلمان ہونے کے جذبات کی بنا پر شامل ہوا تھا، اپنے ارادے سے شامل ہوا تھا، کسی نے اسے فتح کرکے شامل نہیں کیا تھا۔ اور آخرکار آپ نے اسلام سے اپنے انحراف کی بناپر ان کے اندر مسلمان ہونے کے احساس کو دبا دیا بلکہ مٹا دیا، تو ظاہر ہے کہ فوج کی طاقت سے ان کو مغربی پاکستان کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا تھا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ پاکستان کی فوج کے مقابلے میں وہ نہیں لڑسکتے تو انھوں نے ہندستان کو دعوت دی، اس کی مدد حاصل کی اور اس کے ذریعے سے علیحدہ ہوگئے۔
اب اس کے بعد صرف مغربی پاکستان [موجودہ پاکستان] رہ گیا ہے جس کو ہندستان کے مقابلے میں تقریباً ایک اور گیارہ کی نسبت ہے، پہلے ایک اور پانچ کی نسبت تھی۔ اس خطے کے اندر بھی آپ دیکھیے کہ اسلام سے انحراف کے نتیجے میں کیا صورت پیدا ہوگی۔ اس خطے میں بھی چونکہ اسلامی تعلیم نہیں دی گئی، نہ اسلامی اخلاق پیدا کیے گئے بلکہ اُلٹا اسلامی تصورات کو دبایا گیا اور غیراسلامی تصورات کو اُبھرنے کا موقع دیا گیا، اس لیے یہاں بھی الحاد، دہریت، سوشلزم اور دوسرے لادینی نظریات پھیلے اور اخلاقی اباحیت کو فروغ حاصل ہوا۔
اس کے نتیجے میں آپ دیکھیے یہاں پنجابی، پٹھان، سندھی اور بلوچی ہونے کے احساسات اُبھر رہے ہیں اور مسلمان ہونے کا احساس ختم ہو رہا ہے۔ اب اِس خطے کے ٹکڑے اڑتے نظرآرہے ہیں۔ اُس خطے کو بھی جمع کرکے رکھنے والی اگر کوئی چیز تھی تو وہ اسلام اور مسلمان ہونے کا احساس تھا۔ اگر اِس چیز کی اب فکر نہ کی گئی تو یہ بھی منتشر ہوجائے گا، اور پھر منتشر ہوجانے کے بعد اس کا کوئی حصہ بھی آزاد نہ رہے گا۔ یہ سب غلام بن جائیں گے اور یہ غلامی اس سے بدتر ہوگی جو تقسیم سے پہلے آپ کی غلامی تھی۔ (مولانا مودودی کی دو اہم تقاریر، مرکزی مجلسِ شوریٰ سے خطاب، ۱۲-۱۷ فروری ۱۹۷۲ئ، ص ۶-۱۰)
خرم مراد: حیات و خدمات کا نیا ایڈیشن ان شاء اللہ جلد شائع ہوگا
ھمارے قارئین یا ان کے جاننے والوں کے پاس محترم خرم مراد کے بارے میں کوئی مشاھدہ، کوئی تاثر، کوئی جذبہ محفوظ ھو تو اسے لکھ بہیجیے۔
ایسے بہت سے واقعات ہمارے رفقا کے سینوں میں محفوظ ہیں۔ یہ وقت ہے کہ اسے تاریخ کو منتقل کردیں تاکہ ان کی طرح دوسروں کے لیے ہدایت کا باعث بنیں اور انھیں بھی اُس صدقہ جاریہ میں اپنا حصہ لینے کا موقع ملے جو محترم خرم مراد کو مل رہا ہے۔ مختصر کی شرط نہیں، آپ جو بھی ان کے بارے میں لکھنا چاہیں، لکھیں۔ آپ جو کچھ بھیجنا چاہتے ہیں ۲۰دسمبرسے پہلے بھیج دیں۔
عالمی ترجمان القرآن
منصورہ، ملتان روڈ، لاہور- 54790
ای -میل: tarjumanq@gmail.com مسلم سجاد
جماعت اسلامی جس ملک میں کام کر رہی ہے اس کے حالات کے لحاظ سے اس نے اپنا طریق کار اختیار کیا ہے۔ کوئی دوسرا آدمی جو اسلامی دعوت کے لیے کسی اور ملک میں کام کر رہا ہو اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ہمارے طریقے کی پیروی کرے۔ وہ اپنے ملک کے حالات کے لحاظ سے کوئی دوسرا طریقۂ کار اختیارکرسکتا ہے۔ ہم اس کے لیے یہ لازم نہیں کرسکتے کہ وہ ہمارے ہی طریقے کی پیروی کرے۔
ہم اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے کسی قسم کی خفیہ تحریک کا طریقہ اختیار کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کے نتائج اچھے نہیں ہوتے۔ ہم اس کو بھی صحیح نہیں سمجھتے کہ کسی طرح کی سازشیں کرکے کوئی فوجی انقلاب لانے کی کوشش کی جائے اور اس طریقے سے اسلامی حکومت قائم کی جائے۔ کیونکہ اس کا نتیجہ پھر یہ ہوگا کہ جس طرح ایک سازش کے نتیجے میں اسلامی حکومت قائم ہوگی اسی طرح ایک دوسری سازش کے نتیجے میں اس کا تختہ اُلٹ کر کوئی اور حکومت قائم ہوجائے گی۔
ہمارے نزدیک صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ایک کھلی اور علانیہ دعوت سے اپنا ہم خیال بنائیں۔ اس میں وقت کی حکومت خواہ کتنی ہی رکاوٹیں ڈالے، ہرطرح کی تکلیفوں کو، ہر طرح کے نقصانات کو، ہرطرح کی سزائوں کو برداشت کرلیا جائے اور اپنی دعوت کو برابر جاری رکھا جائے، یہاں تک کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ہمارے ہم خیال ہوجائیں۔ جب لوگ ہمارے ہم خیال ہوجائیں گے تو ہم ان شاء اللہ جمہوری طریقے سے ہی اپنے ملک میں اسلامی انقلاب لے آئیں گے۔ (خطباتِ یورپ، ص ۹۱-۹۲)
یہ ایک غلط مفروضہ ہے کہ ہم اصلاحِ معاشرہ کا کام چھوڑ کر صرف انتخابات کے ذریعے قیادت کی تبدیلی لانا چاہتے ہیں.... حالانکہ ہمارے لائحہ عمل کے چار میں سے تین اجزا اصلاحِ معاشرہ ہی کا دائمی پروگرام ہے جس پر ہمیں سال کے ۳۶۵دن کام کرنا ہے، خواہ انتخابات ہوں یا نہ ہوں… پھر ووٹر کو صحیح انتخاب کے لیے تیار کرنا، اسے اسلامی نظام کے لیے تیار کرنا، اس کے اندر اسلامی نظام کی طلب پیدا کرنا، اس کو صالح اور غیرصالح کی تمیز دینا، اس کو یہ احساس دلانا کہ ملک کی بھلائی اور برائی کا ذمہ دار وہ خود ہے، اس میں اتنی اخلاقی طاقت اور سمجھ بوجھ پیدا کرنا کہ وہ دھن دھونس، دھوکے، دھاندلی کا مقابلہ کرسکے اور اپنا ووٹ صحیح طور پر استعمال کرے___ یہ سارے کام کیا اصلاحِ معاشرہ کے کام نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو یہی کام ہم انتخابات میں حصہ لے کر کرتے ہیں…
انتخابات سے الگ رہ کر آپ عقائد، اخلاق اور معاملات کی اصلاح کا کام تو کرسکتے ہیں لیکن صالح قیادت کو اُوپر لانے کے لیے ووٹروں کی سیاسی تربیت انتخابات میں بالواسطہ یا بلاواسطہ حصہ لیے بغیر نہیں ہوسکتی۔ ووٹروں کو فاسد اور نااہل امیدواروں کے حوالے کرکے اور ان کے لیے میدان خالی چھوڑ کر آخر انتخابی عمل کی اصلاح کیسے ہوگی؟ جب نااہل کے مقابلے میں اہل اور فاسد کے مقابلے میں صالح موجود نہیں ہوگا تو ووٹر کے لیے صالح اور غیرصالح کے درمیان تمیز کیسے پیدا ہوگی؟
رہی یہ بات کہ چند نشستیں حاصل کرنے کا فائدہ کیا ہوگا؟ تو میں عرض کروں گا کہ اس سے بہت کچھ حاصل ہوگا۔ اب تک آپ صرف پبلک میں آواز اُٹھاتے رہے ہیں، ایوانِ حکومت میں آپ کی کوئی آواز نہیں ہے۔ وہاں پہنچ کر آپ کی آواز دونوں جگہ بلند ہوگی۔ آپ کے چند لوگ بھی جب اربابِ اقتدار کے سامنے کلمۂ حق کہیں گے، غلط چیزوں پر صاف صاف تنقید کریںگے، دلیل کے ساتھ صحیح بات پیش کریں گے، تو یہ آواز بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ (تحریکِ اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل، ص ۱۳۶، ۱۳۸، ۱۳۹، ۱۴۹-۱۵۰)
یہ بات ذہن نشین کرلیجیے کہ ہم اس وقت جس مقام پر کھڑے ہیں اسی مقام سے ہمیں آگے چلنا ہوگا، اور جس منزل تک ہم جانا چاہتے ہیں اس کو واضح طور پر نگاہ کے سامنے رکھنا ہوگا تاکہ ہمارا ہرقدم اسی منزل کی طرف اُٹھے، خواہ ہم پسند کریں، یا نہ کریں۔ نقطۂ آغاز تو لامحالہ یہی انتخابات ہوں گے۔ کیونکہ ہمارے ہاں اسی طریقے سے نظامِ حکومت تبدیل ہوسکتا ہے اور حکمرانوں کو بھی بدلا جاسکتا ہے۔ کوئی دوسرا ذریعہ اس وقت ایسا موجود نہیں ہے جس سے ہم پُرامن طریقے سے نظامِ حکومت بدل سکیں اور حکومت چلانے والوں کا انتخاب کرسکیں۔
اب ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہمارے ہاں انتخابات میں دھونس، دھوکے، دھاندلی، علاقائی، مذہبی یا برادری کے تعصبات، جھوٹے پروپیگنڈے، گندگی اُچھالنے، ضمیر خریدنے، جعلی ووٹ بھگتانے اور بے ایمانی سے انتخابی نتائج بدلنے کے غلط طریقے استعمال نہ ہوسکیں۔ انتخابات دیانت دارانہ ہوں، لوگوں کو اپنی آزاد مرضی سے اپنے نمایندے منتخب کرنے کا موقع دیا جائے۔ پارٹیاں اور اشخاص جو بھی انتخابات میں کھڑے ہوں، وہ معقول طریقے سے لوگوں کے سامنے اپنے اصول، مقاصد اور پروگرام پیش کریں، اور یہ بات ان کی اپنی راے پر چھوڑ دیں کہ وہ کسے پسند کرتے ہیں اور کسے پسند نہیں کرتے۔ ہوسکتا ہے کہ پہلے انتخاب میں ہم عوام کے طرزِفکر اور معیارِ انتخابات کو بدلنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہوسکیں۔ لیکن اگر انتخابی نظام درست رکھا جائے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب نظامِ حکومت پورے کا پورا ایمان دار لوگوں کے ہاتھ میں آجائے گا۔ اس کے بعد پھر ہم نظامِ انتخاب پر نظرثانی کرسکتے ہیں اور اُس مثالی نظامِ انتخابات کو ازسرِنو قائم کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں جو اسلامی طریقے کے عین مطابق ہو۔ بہرحال آپ یک لخت جست لگاکر اپنی انتہائی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔ (نبی اکرمؐ کا نظامِ حکومت اور پاکستان میں اس کا نفاذ، ص ۲۶-۲۷)
[خیال رہے کہ] یہ انتخابی ہتھکنڈے جو سیاسی پارٹیاں استعمال کرتی ہیں، اور جن کے استعمال میں زمامِ کار کے موجودہ مالک طاق بھی ہیں اور بے باک بھی، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ خودبخود متروک ہوجائیں گے؟ کیا آپ کا خیال یہ ہے کہ رفتہ رفتہ یہ لوگ آپ ہی اتنے نیک ہوجائیں گے کہ ان ہتھکنڈوں کے استعمال سے انھیں شرم آنے لگے گی؟ اور کیا آپ زمامِ کار کی تبدیلی کے لیے اس ساعت ِ سعید کا انتظار کرنا چاہتے ہیں جب مقابلہ صرف شریف آدمیوں سے رہ جائے اور بُرے لوگ میدان سے ہٹ جائیں؟ اگر یہ آپ کی امیدیں ہیں، اور یہ وہ شرطیں ہیں جن کے پورا ہونے پر ہی آپ قیادت بدلنے کے اس واحد آئینی وسیلے سے کام لے سکتے ہیں، تو میں نہیں سمجھتا کہ کبھی آپ کی یہ اُمیدیں اور یہ شرطیں پوری ہوں گی اور آپ اس کارخیر کے لیے آگے بڑھ سکیں گے۔
تبدیلیِ قیادت کے لیے آپ واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی صورت صرف یہ ہے کہ اس گندے کھیل میں پاکیزگی کے ساتھ آیئے۔ تمام بُرے ہتھکنڈوں کا مقابلہ صحیح طریقوں سے کیجیے۔ جعلی ووٹ کے مقابلے میں اصل ووٹ لایئے۔ دھن سے ووٹ خریدنے والوں کے مقابلے میں اصول اور مقصد کی خاطر ووٹ دینے والے لاکر دکھایئے۔ دھوکے اور فریب اور جھوٹ سے کام لینے والوں کے مقابلے میں سچائی اور راست بازی کا مظاہرہ کیجیے۔ دھونس اور زبردستی سے ووٹ لینے والوں کے مقابلے میں ایسے ووٹر پیش کیجیے جو بے خوف ہوکر اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیں۔ دھاندلیوں کے مقابلے میں ٹھیٹھ ایمان داری برت کر دکھایئے۔ ایک دفعہ نہیں، دس دفعہ ناکامی ہو تو ہو۔ آپ کوئی تبدیلی یہاں لاسکتے ہیں تو اسی طریقے سے لاسکتے ہیں۔ اسی طرح آخرکار وہ وقت آئے گا، جب کہ سارے ہتھکنڈوں کے باوجود غلط کار لوگ شکست کھاجائیں گے۔ اسی طرح یہاں کے انتخابی نظام کی برائیاں بے نقاب ہوں گی۔ اسی طرح ان برائیوں کے خلاف عام نفرت اور بیزاری پیدا کی جاسکے گی۔ اسی طرح انتخاب کے طریقوں کی اصلاح کا راستہ کھلے گا۔
پھر جس پبلک کی غفلت، بے حسی اور اخلاقی کمزوریوں کا آپ رونا روتے ہیں، اس کی اصلاح بھی آپ کے اسی عمل سے ہوسکے گی۔ اسی سے اس کا ضمیر بیدار ہوگا۔ اس سے لوگوں کو یہ اُمید بندھے گی کہ یہاں بھلے طریقوں سے بھی کام کیاجاسکتا ہے۔ اس سے لوگوں کا خوف بھی دُور ہوگا، ووٹ فروشی کا مرض بھی کم ہوتا جائے گا، اور راے عام کی اتنی تربیت بھی ہوتی چلی جائے گی کہ ہمارے عام ووٹر اغراض اور تعصبات کی بنا پر ووٹ دینے کے بجاے اصول اور نظریات کی بناپر بے لاگ طریقے سے ووٹ دینے کے قابل ہوجائیں گے۔
بلاشبہہ یہ ایک دشوار گزار گھاٹی ہے۔ اس میں ٹھوکریں لگیں گی، ناکامیاں ہوں گی، کمزور دل کے لوگ دل شکستہ بھی ہوں گے۔ تحریک سے دل چسپی رکھنے والوں میں سے بھی بہت سے لوگ مایوسی سے دوچار ہوں گے۔ اور ظاہر میں پبلک کا بھی ایک اچھا خاصا حصہ ان ابتدائی ناکامیوں کا غلط مطلب لے گا۔ لیکن منزلِ مقصود تک پہنچنے کا کوئی راستہ اس گھاٹی کے سوا نہیں ہے۔ اور مجھے اس میں اتنی بڑی ناکامی کا خطرہ بھی نہیں ہے جس کا ہوّا ہمیں دکھایا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم ساری ناجائز تدبیروں کے مقابلے میں، اسی غافل اور کمزور پبلک کے اندر سے، ٹھیٹھ اصولی طریق کار برت کر، چند لاکھ ووٹ ضرور لے کر دکھا دیں گے، اور یہ چیز ان شاء اللہ اس ملک کے تمام اصلاح پسند اور دین پسند طبقوں میں یاس کے بجاے اُمید کی شمع روشن کردے گی۔ پھر میں یہ بھی توقع رکھتا ہوں کہ ایک انتخاب میں ایسے ووٹوں کا جو تناسب ہوگا وہ بعد کے انتخابات میں گھٹے گا نہیں، بلکہ ان شاء اللہ العزیز برابر بڑھتا ہی چلا جائے گا، یہاں تک کہ آخرکار میزان کا رُخ پلٹ کر رہے گا۔(تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل، ص ۱۴۷-۱۴۹)
یہ لائحہ عمل جس اسکیم پر مبنی ہے، اس کی کامیابی کا سارا انحصار ہی اس کے توازن پر ہے۔ اس کا ہرجز دوسرے جز کا مددگار ہے، اس سے تقویت پاتا ہے اور اس کو تقویت بخشتا ہے۔ آپ کسی جز کو ساقط یا معطل کریں گے تو ساری اسکیم خراب ہوجائے گی، اور اس کے اجزا کے درمیان توازن برقرار نہ رکھیں گے تب بھی یہ اسکیم خراب ہوکر رہے گی۔
کامیابی کی صورت صرف یہ ہے کہ ایک طرف دعوت و تبلیغ جاری رکھیے تاکہ ملک کی آبادی زیادہ سے زیادہ آپ کی ہم خیال ہوتی چلی جائے۔ دوسری طرف ہم خیال بننے والوں کو منظم اور تیار کرتے جایئے تاکہ آپ کی طاقت اسی نسبت سے بڑھتی جائے جس نسبت سے آپ کی دعوت وسیع ہو۔ تیسری طرف معاشرے کی اصلاح و تعمیر کے لیے اپنی کوششوں کا دائرہ اتنا ہی بڑھاتے چلے جائیں جتنی آپ کی طاقت بڑھے تاکہ معاشرہ اس نظامِ صالح کو لانے اور سہارنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار ہوجائے جسے آپ لانا چاہتے ہیں۔ اور ان تینوں کاموں کے ساتھ ساتھ ملک کے نظام میں عملاً تغیر لانے کے آئینی ذرائع سے بھی پورا پورا کام لینے کی کوشش کیجیے تاکہ ان تغیرات کو لانے اور سہارنے کے لیے آپ نے معاشرے کو جس حد تک تیار کیا ہو اس کے مطابق واقعی تغیر رُونما ہوسکے۔ ان چاروں کاموں کی مساوی اہمیت آپ کی نگاہ میں ہونی چاہیے۔ ان میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کا غلط خیال آپ کے ذہن میں پیدا نہ ہونا چاہیے۔
ان میں سے کسی کے بارے میں غلو کرنے سے آپ کو پرہیز کرنا چاہیے۔ آپ کے اندر یہ حکمت موجود ہونی چاہیے کہ اپنی قوتِ عمل کو زیادہ سے زیادہ صحیح تناسب کے ساتھ ان چاروں کاموں پر تقسیم کریں اور آپ کو وقتاً فوقتاً یہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ ہم کہیں ایک کام کی طرف اس قدر زیادہ تو نہیں جھک پڑے ہیں کہ دوسرا کام رُک گیا ہو، یا کمزور پڑ گیا ہو۔ اسی حکمت اور متوازن فکر اور متناسب عمل سے آپ اس نصب العین تک پہنچ سکتے ہیں جسے آپ نے اپنا مقصدحیات بنایا ہے۔(ایضاً، ص ۱۳۰)
اہلِ حق کی اصل ذمّہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ باطل کو مٹا دیں اور حق کو اس کی جگہ قائم کردیں، بلکہ ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی حد تک باطل کو مٹانے اور حق کو غالب و سربلند کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ صحیح اور مناسب و کارگر طریقوں سے کوشش کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔ یہی کوشش خدا کی نگاہ میں ان کی کامیابی و ناکامی کا اصل معیار ہے۔ اس میں اگر ان کی طرف سے دانستہ کوئی کوتاہی نہ ہو تو خدا کے ہاں وہ کامیاب ہیں، خواہ دنیا میں باطل کا غلبہ ان کے ہٹائے نہ ہٹے اور شیطان کی پارٹی کا زور اُن کے توڑے نہ ٹوٹ سکے۔ (رسائل و مسائل، حصہ پنجم، ص ۳۲۸- ۳۲۹)
اِس میں شک نہیں کہ دُنیا میں بات وہی چلتی ہے جسے لوگ بالعموم قبول کرلیں اور وہ بات نہیں چلتی جسے لوگ بالعموم رد کردیں، لیکن لوگوں کا ردو قبول ہرگز حق و باطل کا معیار نہیں ہے۔ لوگوں کی اکثریت اگر اندھیروں میں بھٹکنا اور ٹھوکریں کھانا چاہتی ہے تو خوشی سے بھٹکے اور ٹھوکریں کھاتی رہے۔ ہمارا کام بہرحال اندھیروں میں چراغ جلانا ہی ہے اور ہم مرتے دم تک یہی کام کرتے رہیں گے۔ ہم اس سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہم بھٹکنے یا بھٹکانے والوں میں شامل ہوجائیں۔ خدا کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں اندھیروں میں چراغ جلانے کی توفیق بخشی۔ اِس احسان کا شکریہی ہے کہ ہم چراغ ہی جلاتے جلاتے مرجائیں (مکتوب بنام شورش کاشمیری، ایشیا، ۳جنوری ۱۹۷۱ئ)۔ (انتخاب و ترتیب: امجد عباسی)
اسلام کا تصورِ عبادت یہ ہے کہ آپ کی ساری زندگی خدا کی بندگی میں بسر ہو۔ آپ اپنے آپ کو دائمی اور ہمہ وقتی ملازم سمجھیں۔ آپ کی زندگی کا ایک لمحہ بھی خدا کی عبادت سے خالی نہ ہو۔ اس دنیا میں آپ جو کچھ بھی کریں، خدا کی شریعت کے مطابق کریں۔ آپ کا سونا اور جاگنا، آپ کا کھانا اور پینا، آپ کا چلنا اور پھرنا، غرض سب کچھ خدا کے قانونِ شرعی کی پابندی میں ہو۔ خدا نے جن تعلقات میں آپ کو باندھا ہے، ان سب میں آپ بندھیں، اور ان کو اس طریقے سے جوڑیں یا توڑیں جس طریقے سے خدا نے انھیں جوڑنے یا توڑنے کا حکم دیا ہے۔ خدا نے جو خدمات آپ کے سپرد کی ہیں اور دنیوی زندگی میں جو فرائض آپ سے متعلق کیے ہیں، ان سب کا بار آپ نفس کی پوری رضامندی کے ساتھ سنبھالیں اور ان کو اس طریقے سے ادا کریں جس کی طرف خدا نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے آپ کی رہنمائی کی ہے۔ آپ ہروقت ہر کام میں خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں، اور سمجھیں کہ آپ کو اپنی ایک ایک حرکت کا حساب دینا ہے۔ اپنے گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ، اپنے محلے میں ہمسایوں کے ساتھ، اپنی سوسائٹی میں دوستوں کے ساتھ اور اپنے کاروبار میں اہلِ معاملہ کے ساتھ برتائو کرتے وقت ایک ایک بات اور ایک ایک کام میں خدا کی مقرر کردہ حدود کا آپ کو خیال رہے۔ جب آپ رات کے اندھیرے میں ہوں اور کوئی نافرمانی اس طرح کرسکتے ہوں کہ کوئی آپ کو دیکھنے والا نہ ہو، اس وقت بھی آپ کو یہ خیال رہے کہ خدا آپ کو دیکھ رہا ہے۔ جب آپ جنگل میں جارہے ہوں اور وہاں کوئی جرم اس طرح کرسکتے ہوں کہ کسی پکڑنے والے اور کسی گواہی دینے والے کا کھٹکا نہ ہو، اس وقت بھی آپ خدا کو یاد کر کے ڈر جائیں اور جرم سے باز رہیں۔ جب آپ جھوٹ، بے ایمانی اور ظلم سے بہت سا فائدہ حاصل کرسکتے ہوں اور کوئی آپ کو روکنے والا نہ ہو، اس وقت بھی آپ خدا سے ڈریں اور فائدے کو اس لیے چھوڑ دیں کہ خدا اس سے ناراض ہوگا۔ اور جب سچائی اور ایمان داری میں سراسر آپ کو نقصان پہنچتا ہو اس وقت بھی نقصان اُٹھانا قبول کرلیں، صرف اس لیے کہ خدا اس سے خوش ہوگا۔
پس دنیا کو چھوڑ کر کونوں اور گوشوں میں جا بیٹھنا اور اللہ اللہ کرنا عبادت نہیں ہے، بلکہ دنیا کے دھندوں میں پھنس کر اور دنیوی زندگی کی ساری ذمہ داریوں کو سنبھال کر خدا کے قانون کی پابندی کرنا عبادت ہے۔ ذکر الٰہی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زبان پر اللہ اللہ جاری ہو، بلکہ اصلی ذکرالٰہی یہ ہے کہ جو چیزیں خدا سے غافل کرنے والی ہیںان میں پھنسو اور پھر خدا سے غافل نہ ہو۔ دنیا کی زندگی میں جہاں قانونِ الٰہی کو توڑنے کے بے شمارمواقع، بڑے بڑے نقصانوں کا خوف لیے ہوئے سامنے آتے ہیں، وہاں خدا کو یاد کرو اور اس کے قانون کی پیروی پر قائم رہو۔ حکومت کی کرسی پر بیٹھو اور وہاں یاد رکھو کہ مَیں بندوں کا خدا نہیں ہوں بلکہ خدا کا بندہ ہوں۔ عدالت کے منصب پر متمکن ہو اور وہاں ظلم پر قادر ہونے کے باوجود خیال رکھو کہ خدا کی طرف سے مَیں عدل قائم کرنے پر مامور ہوں۔ زمین کے خزانوں پر قابض و متصرف ہو اور پھر یاد رکھو کہ مَیں ان خزانوں کا مالک نہیں ہوں بلکہ امین ہوں اور پائی پائی کا حساب مجھے اصل مالک کو دینا ہے۔ فوجوں کے کمانڈر بنو اور پھر خوفِ خدا تمھیں طاقت کے نشے میں مدہوش ہونے سے بچاتا رہے۔ سیاست و جہاں بافی کا کٹھن کام ہاتھ میں لو اور پھر سچائی، انصاف اور حق پسندی کے مستقل اصولوں پر عمل کر کے دکھائو۔ تجارت اور مالیات اور صنعت کی باگیں سنبھالو اور پھر کامیابی کے ذرائع میں پاک اور ناپاک کا امتیاز کرتے ہوئے چلو۔ ایک ایک قدم پر حرام تمھارے سامنے ہزار خوش نمائیوں کے ساتھ آئے اور پھر تمھاری رفتار میں لغزش نہ آنے پائے۔ ہر طرف ظلم اور جھوٹ اور دغا اور فریب اور بدکاری کے راستے تمھارے سامنے کھلے ہوئے ہوں اور دنیوی کامیابیاں اور مادی لذتیں ہر راستے کے سرے پر جگمگاتے ہوئے تاج پہنے کھڑی نظر آئیں اور پھر خدا کی یاد اور آخرت کی بازپُرس کا خوف تمھارے لیے پابند ِ پا بن جائے۔ حدود اللہ میں سے ایک ایک حد قائم کرنے میں ہزاروں مشکلیں دکھائی دیں، حق کا دامن تھامنے اور عدل و صداقت پر قائم رہنے میں جان و مال کا زیاں نظر آئے، اور خدا کے قانون کی پیروی کرنا زمین و آسمان کو دشمن بنا لینے کا ہم معنی ہوجائے، پھر بھی تمھارا ارادہ متزلزل نہ ہو اور تمھاری جبیں عزم پر شکن نہ آئے۔ یہ ہے اصلی عبادت! اس کا نام ہے یادِ خدا! اِسی کو ذکر الٰہی کہتے ہیں، اور یہی وہ ذکر ہے جس کی طرف قرآن میں اشارہ فرمایا گیا ہے کہ: فَاِِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (الجمعۃ ۶۲:۱۰) ’’پس جب نماز ختم ہوجائے تو پھیل جائو زمین میں اور تلاش کرو اللہ کے فضل میں سے اور یاد کرو اللہ کو بہت تاکہ تم فلاح پائو‘‘.....
کہنے کو تو یہ چھوٹی سی بات ہے اور بڑی آسانی کے ساتھ اسے زبان سے ادا کیا جاسکتا ہے، مگر عملاً آدمی کی ساری زندگی کا اپنے تمام گوشوں کے ساتھ عبادت بن جانا آسان کام نہیں، اس کے لیے بڑی زبردست ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خاص طور پر ذہن کی تربیت کی جائے، مضبوط کیرکٹر پیدا کیا جائے۔ عادات اور خصائل کو ایک سانچے میں ڈھالا جائے، اور صرف انفرادی سیرت ہی کی تعمیر پر اکتفا نہ کرلیا جائے، بلکہ ایک ایسا اجتماعی نظام قائم کیا جائے جو بڑے پیمانے پر افراد کو اس عبادت کے لیے تیار کرنے والا ہو، اور جس میں جماعت کی طاقت فرد کی پشت پناہ، اس کی مددگار اور اس کی کمزوریوں کی تلافی کرنے والی ہو۔ یہی غرض ہے جس کے لیے اسلام میں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی عبادتیں فرض کی گئی ہیں۔
ان کو عبادت کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بس یہی عبادت ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اُس اصلی عبادت کے لیے آدمی کو تیار کرتی ہیں۔ یہ اس کے لیے لازمی ٹریننگ کورس ہیں۔ انھی سے وہ مخصوص ذہنیت بنتی ہے، اس خاص کیرکٹر کی تشکیل ہوتی ہے، منظم عادات و خصائل کا وہ پختہ سا پختہ بنتا ہے، اور اس اجتماعی نظام کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں جس کے بغیر انسان کی زندگی کسی طرح عبادتِ الٰہی میں تبدیل نہیں ہوسکتی۔ ان چار چیزوں کے سوا اور کوئی ذریعہ ایسا نہیں ہے جس سے یہ مقصد حاصل ہوسکے۔ اسی بنا پر ان کو ارکانِ اسلام قرار دیا گیا ہے، یعنی یہ وہ ستون ہیں جن پر اسلامی زندگی کی عمارت قائم ہوتی اور قائم رہتی ہے۔ (اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر، ص ۱۱-۱۸)
یہ بات خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے یہودیوں اور عیسائیوں کی مقدس شخصیتوں اور ان کی الہامی تعلیمات پر کبھی دل آزار تنقید نہیں کی گئی۔ مسلمان حضرت موسیٰ و ہارون علیہم السلام اور تمام انبیاے بنی اسرائیل اور حضرت عیسٰی اور یحییٰ علیہم السلام کو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں، اور ان پر ایمان لانا ویسا ہی ضروری سمجھتے ہیں جیسا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا۔ وہ تورات اور زبور و انجیل کو بھی خدا کی کتاب مانتے ہیں اور قرآن کے ساتھ تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لانا ان کا بنیادی عقیدہ ہے۔ وہ حضرت مریم علیہا السلام کو اتنا ہی مقدس و محترم مانتے ہیں، جتنا اپنی اُمہات المومنینؓ کو۔ ان کی طرف سے یہودیوں اور عیسائیوں کے بزرگوں کی توہین کا سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن یہودیوں اور عیسائیوں کے معاملے میں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب اور ازواج کو نہ صرف یہ کہ بزرگ نہیں مانتے، بلکہ وہ ان کی صداقت پر، ان کی سیرت و کردار پر، اور ان کے اخلاق پر حملے کرنے سے باز نہیں رہتے۔ ان کی طرف سے مسلمانوں کے جذبات پر مسلسل دست درازیاں ہوتی رہی ہیں۔ اس لیے درحقیقت یہ ایک طرفہ لڑائی ہے جسے حملہ آور فریق ہی ختم کرسکتا ہے۔ اور یہ جاننے کے لیے نفسیات کے کسی بڑے علم کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کے جاری رہتے ہوئے کسی خیرسگالی کے نشوونما پانے کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔
مسلمانوں کے لیے صرف یہی ایک وجۂ شکایت نہیں ہے، بلکہ وہ بڑے افسوس اور رنج کے ساتھ یہ دیکھتے ہیں کہ بالعموم اہلِ مغرب کا رویّہ ان کے مذہب، تہذیب اور تاریخ کے متعلق غیرہمدردانہ ہی نہیں،بلکہ ایجاباً مخاصمانہ ہے۔ وہ علمی تنقید کی حدود سے اکثر تجاوز کرجاتے ہیں اور ہمیں black paint کرنے کی کوشش میں ایسی باتیں کرتے ہیں جنھیں ناروا داری کہنا معاملے کو بہت ہلکا بنانے کا ہم معنی ہوگا۔ ایسی مثالیں بہ کثرت پیش کی جاسکتی ہیں.... کہ انھوں نے ہم کو دانستہ misrepresent کیا ہے اور بالکل جھوٹ اور بے اصل باتیں تک ہماری طرف منسوب کرنے میں تامل نہیں کیا ہے۔ ان کا مستقل رویّہ یہ رہا ہے کہ ہمارے دین یا ہمارے ہیروز کی زندگی یا ہماری تاریخ میں جس بات کو بھی دو معنی پہنانے کی گنجایش ہو، اسے وہ بُرے ہی معنی پہنانے اور اس کا تاریک رُخ ہی اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ مسلسل عناد کا رویّہ ظاہر ہے کہ اپنا بُرا ردعمل پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اسی عناد کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ ....اسلام کے تجدید و احیا کی ہرکوشش کا استقبال مغرب میں ایک شدید احساسِ خطر کے ساتھ کیا جاتا ہے، اور مسلمان ملکوں میں اسلام سے انحراف، بلکہ اس کے خلاف بغاوت کی ہراطلاع ان کے لیے خوش خبری کا حکم رکھتی ہے۔ ان کے نزدیک مسلمانوں میں سے وہ سب لوگ انتہائی تعریف اور حوصلہ افزائی کے مستحق ہیں جو مسلمان ملکوں میں اسلام کی اصلی بنیادوں پر زندگی کی ’تعمیرجدید‘ اور ’ترقی‘ کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ بھی اسلام سے عناد ہی کا ایک شاخسانہ ہے اور اس معاملے میں اہلِ مغرب خود اپنی اقدار (values) اور اپنے ہی اصولوں کا لحاظ بھی ضروری نہیں سمجھتے۔ ایک مسلمان ملک میں کوئی ’ایثارپسند‘ حکمران گروہ اگر کسی اسلامی تحریک کو کچلنے کے لیے رواداری، جمہوریت اور عدل و انصاف کے سارے تقاضوں کو بھی پامال کرگزرے تو صرف یہ ایک بات کہ یہ سب کچھ اسلام کے revival کو روکنے کے لیے کیا جارہا ہے، اس بات کے لیے کافی ہوتی ہے کہ مغرب سے اس پر تحسین و آفریں کی صدائیں بلند ہوں۔
ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ مغربی دوست ایک مرتبہ پھر سوچ لیں کہ یہ طرزِعمل بجاے خود کہاں تک حق بجانب ہے، اور اس سے وہ کس اچھے نتیجے کی توقع رکھتے ہیں۔ (مغرب اور اسلام از پروفیسر خورشیداحمد کا دیباچہ، بحوالہ تذکرہ سید مودودیؒ-۲، ص ۷۱۵-۷۱۶)