حکمت مودودی


حکومت ِ پاکستان نے صوبہ پنجاب کے ان ہنگاموں اور واقعات کے اسباب معلوم کرنے کے لیے، جو ۶مارچ ۱۹۵۳ء میں لاہور میں مارشل لا لگانے کا باعث بنے تھے، جسٹس محمدمنیر کی صدارت میں ایک تحقیقاتی کمیٹی مقرر کی تھی۔ اس کمیٹی کی سماعتوں کے دوران میں جسٹس محمدمنیر باربار قائداعظمؒ کی اس تقریر سے جو ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو انھوں نے مجلس دستور ساز میں کی تھی،  یہ استدلال کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ’’پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا قائداعظم کے پیش نظر نہ تھا‘‘۔ اس پر مولانا مودودیؒ  نے ۸نومبر۱۹۵۳ء کو جیل ہی سے ایک تفصیلی بیان کمیٹی کے نام بھیجا ، جس کا ایک حصہ یہاں پیش ہے۔ یادرہے کہ منیر انکوائری کمیٹی کی مرتبہ رپورٹ اپریل ۱۹۵۴ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس کمیٹی کے تضادات اور بدنیتی پر مبنی نتائج کا تفصیلی جواب بھی مولانا مودودیؒ نے تحریر فرمایا تھا، جسے پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے انگریزی میں An Analysis of Munir Report کے عنوان سے اور محترم نعیم صدیقی صاحب نے تحقیقاتی رپورٹ پر تبصرہ کے نام سے شائع کیا تھا۔ ادارہ
اصولی سوالات پر بحث کرنے سے پہلے مَیں اس غلط فہمی کو صاف کر دینا چاہتا ہوں جو قائداعظمؒ کی اُس تقریر سے پیدا ہوئی، جو انھوں نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کی مجلس دستورساز میں کی تھی۔ اس تقریر سے تین نتیجے نکالے جاتے ہیں:
♦      اوّل یہ کہ قائداعظمؒ نے اس تقریر میں ایک ایسی ’پاکستانی قومیت‘ کی بنا ڈالنے کا اعلان کیا تھا، جو وطنیت پر مبنی ہو، اور جس میں پاکستان کے ہندو، مسلمان، عیسائی وغیرہ سب ایک قوم ہوں۔
♦      دوم یہ کہ مرحوم نے اس تقریر میں یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ پاکستان کا دستور غیرمذہبی نوعیت کا، یعنی ’سیکولر‘ ہوگا۔
♦       سوم یہ کہ مرحوم کی اس تقریر کو کوئی ایسی آئینی حیثیت حاصل ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے باشندے، یا اس کے دستورساز اب اس کے کھینچے ہوئے خطوط سے ہٹ نہیں سکتے۔
میرے نزدیک یہ تینوں نکات جو اس تقریر سے بطورِ نتیجہ نکالے جاتے ہیں، صحیح نہیں ہیں اور اپنی اس راے کے لیے میرے دلائل حسب ذیل ہیں:

قائداعظمؒ کی اس تقریر کے الفاظ خواہ بظاہر پہلے اور دوسرے مفہوم کے حامل ہوں، مگر ہمارے لیے یہ باور کرنا بہت مشکل ہے کہ ان کا منشا بھی حقیقت میں وہی تھا، جو ان کے الفاظ سے مترشح ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ان کے مرتبے کے انسان سے ہم یہ توقع نہیں کرسکتے کہ وہ پاکستان کے قیام سے پہلے دس سال تک جن اصولوں کو بنیاد بناکر لڑتے رہے تھے ، ان سے وہ پاکستان قائم ہوتے ہی یک لخت پلٹ گئے ہوں گے، اور انھی اصولوں کے قائل ہوگئے ہوں گے، جن کے خلاف انھوں نے اپنی ساری قوم کو ساتھ لے کر جنگ کی تھی۔ نیز ہم یہ گمان بھی نہیں کرسکتے کہ وہ قیامِ پاکستان کے پہلے ہی دن یکایک اپنے ان تمام وعدوں سے پھر گئے ہوں گے، جو انھوں نے بارہا، صاف اور صریح الفاظ میں اپنی قوم سے کیے تھے، اور جن کے اعتماد ہی پر قوم ان کو اپنا لیڈر مان کر اپنی جان و مال ان کے اشاروں پر قربان کرنے کے لیے آمادہ ہوئی تھی۔

پھر ہمارے لیے یہ ماننا بھی ممکن نہیں ہے کہ قائداعظمؒ ایسی متضاد باتیں کرسکتے تھے کہ ۱۱؍اگست کو ایک اعلان کریں اور پھر اس کے بعد بار بار اس کے بالکل خلاف باتوں کا مسلمان پبلک کو یقین دلاتے رہیں۔ اس لیے ہمارے نزدیک ان کی مذکورہ بالا تقریر کو ان کے اگلے اور پچھلے ارشادات کی روشنی میں سمجھنا زیادہ بہتر ہے، بہ نسبت اس کے کہ ہم اس کا کوئی ایسا مفہوم لیں، جو ان کی تمام باتوں کے خلاف پڑتا ہے، جو انھوں نے اس سے پہلے فرمائیں اور اس کے بعد بھی فرماتے رہے۔

سب کو معلوم ہے کہ قائداعظم کی [انڈین نیشنل]کانگریس سے لڑائی تھی ہی دو قومی نظریے کی بنیاد پر۔ ۱۰؍اگست ۱۹۴۷ء تک ان کا مستقل نظریہ یہ تھا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں اور وہ غیرمسلموں کےساتھ مل کر ایک متحدہ وطنی قومیت نہیں بناسکتے۔ اس کے متعلق ان کی بہت سی تحریروں اور تقریروں میں سے صرف ایک تحریر کا اقتباس مَیں یہاں نقل کروں گا، جو ۱۵ستمبر۱۹۴۴ء کو  گاندھی جی کے ساتھ اپنی خط کتابت کے سلسلے میں لکھی تھی: [قائداعظمؒ اور خان لیاقت علی خانؒ کی تحریروں اور تقریروں سے اقتباسات عدالت میں پیش کردہ بیان میں انگریزی میں تھے۔ یہاں اشاعت کی سہولت کے لیے ان کا ترجمہ کردیا گیا ہے۔]

ہم اس کے قائل ہیں اور ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں، جو ’قوم‘ کی ہرتعریف اور معیار پر پورا اُترتی ہیں۔ ہم ۱۰کروڑ کی ایک قوم ہیں۔ مزید برآں  ہم ایک ایسی قوم ہیں، جو ایک مخصوص اور ممتاز تہذیب و تمدن، زبان و ادب، آرٹ اور  فن تعمیر ، احساس اقدار و تناسب، قانونی احکام و اخلاقی ضوابط، رسم و رواج وتقویم (کیلنڈر)، تاریخ اور روایات، رجحانات اور عزائم کی مالک ہے۔ خلاصہ بحث یہ ہے کہ زندگی اور اس کے متعلقات کے بارے میں ہمارا اپنا ایک امتیازی زاویۂ نگاہ ہے، اور بین الاقوامی قانون کی ہردفعہ کے لحاظ سے ہم ایک قوم ہیں۔(مسٹرجناح کی تقریریں اور تحریریں (بزبانِ انگریزی)، مرتبہ: جمیل الدین احمد، ص ۱۸۱)
اب کیا ہم یہ باور کرلیں کہ ۱۱؍اگست [۱۹۴۷ء] کو یک لخت وہ تمام خصوصیتیں مٹ گئیں، جو مسلمانوں کو غیرمسلموں سے جداکرکے ایک الگ قوم بناتی تھیں اور یکایک ایک ایسی نئی قومیت کے اسباب فراہم ہوگئے، جس میں مسلمانوں اور غیرمسلموں کا جذب ہونا ممکن ہوگیا؟ اگر ہم اس بات کو مان لیں تو قائداعظمؒ کو اس الزام سے نہیں بچایا جاسکتا کہ وہ ایک بااصول آدمی نہ تھے، بلکہ محض سیاسی مصلحتوں کی خاطر اصول بناتے اور بدلتے تھے۔ مرحوم کی وفات کے پانچ سال بعد ان کی روح کو ایسے الزامات کا تحفہ پیش کرنے کے لیے مَیں توکسی طرح تیار نہیں ہوسکتا۔

بے شمار شہادتیں اس امر کی موجود ہیں کہ پاکستان کے قیام سے پہلے بھی قائداعظمؒ مسلمانوں سے ایک اسلامی ریاست کا وعدہ کرتےرہے تھے اور اس کے بعد بھی وہ اس وعدے کو دُہراتے رہے۔ پہلے کے وعدوں میں سے صرف چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔ ۲۱نومبر ۱۹۴۵ء کو فرنٹیرمسلم لیگ کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا:
مسلمان، پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں، جہاں وہ خود اپنے ضابطۂ حیات، اپنے تہذیبی ارتقا، اپنی روایات اور اسلامی قانون کے مطابق حکمرانی کرسکیں (حوالہ مذکور، ص۴۳۷)۔
پھر اسی کانفرنس میں انھوں نے ۲۴نومبر کو تقریر کرتے ہوئے اس خیال کا اظہار فرمایا:
ہمارا دین، ہماری تہذیب ، ہمارے اسلامی تصورات ہی وہ اصل طاقت ہیں، جو ہمیں آزادی حاصل کرنے کے لیے متحرک کرتے ہیں(حوالہ مذکور،ص ۴۲۲)۔
 پھر اسی زمانے میں اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے انھوں نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے:
لیگ، ہندستان کے ان حصوں میں آزاد ریاستوں کےقیام کی علَم بردار ہے، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، تاکہ وہ وہاں اسلامی قانون کے مطابق حکومت کرسکیں (حوالہ مذکور، ص ۴۴۶)۔
پھر ۱۱؍اگست والی تقریر سے صرف ایک مہینہ ۱۲دن پہلے ۲۹ جون ۱۹۴۷ء کو قائداعظمؒ ایک بیان میں [انڈین نیشنل کانگریس کے اتحادیوں] خان عبدالغفار خان اور ڈاکٹر خان صاحب کے اس الزام کی تردید کرتے ہیں کہ: ’’پاکستان کی دستورساز اسمبلی، شریعت کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کردے گی ‘‘ اور بیان دیتے ہیں:
مگر خان برادران نے اپنے بیانات میں اور اخباری ملاقاتوں میں ایک اور زہرآلود شور برپا کیا ہے کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی قوانین سے انحراف کرے گی۔ یہ بات بھی قطعی طور پر غلط ہے (ڈان، دہلی،۳۰جون ۱۹۴۷ء)۔
دوسری طرف ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کے بعد جو ارشادات قائداعظمؒ کی زبان سے سنے گئے، اور ان کے معتمد ترین رفیقوں نے ان کی جو ترجمانی باربار خود ان کی زندگی میں کی ،اور جس کی کوئی تردید ان کی جانب سے نہ ہوئی، ان کے چند نمونے ملاحظہ ہوں:
پشاور، ۱۴جنوری : پاکستان کے وزیراعظم مسٹر لیاقت علی خانؒ نے اتحاد و یک جہتی کے لیے سرحد کے لوگوں سے اپیل کرتے ہوئے قائداعظمؒ کے ان اعلانات کا پھر اعادہ کیا کہ پاکستان ایک مکمل اسلامی ریاست ہوگا.... انھوں نے فرمایا کہ پاکستان ہماری ایک تجربہ گاہ ہوگا اور ہم دنیا کو دکھائیں گے کہ ۱۳سو برس پرانے اسلامی اصول ابھی تک کارآمد ہیں(روزنامہ پاکستان ٹائمز، لاہور،۱۵جنوری ۱۹۴۸ء)۔
اور پھر ۱۱؍اگست والی تقریر کے ساڑھے چار مہینے بعد قائداعظم محمدعلی جناح گورنر جنرل پاکستان نے ایک اعزازی دعوت میں، جو انھیں کراچی بار ایسوسی ایشن کی طرف سے دی گئی، تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
میرے لیے وہ گروہ بالکل ناقابلِ فہم ہے جو خواہ مخواہ شرارت برپا کرنا چاہتا ہے اور یہ پروپیگنڈا کرر ہا ہے کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنے گا (روزنامہ پاکستان ٹائمز، ۲۷جنوری ۱۹۴۸ء)۔
راولپنڈی، ۵؍اپریل: مسٹر لیاقت علی خان وزیراعظم پاکستان نے آج راولپنڈی میں اعلان کیا کہ ’’پاکستان کا آیندہ دستور قرآنِ مجید کے احکام پر مبنی ہوگا۔ انھوں نے فرمایا کہ قائداعظم اور ان کے رفقا کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کی نشوونما ایک ایسی مضبوط اور مثالی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ہو، جو اپنے باشندوں کو عدل و انصاف کی ضمانت دے سکے‘‘ (روزنامہ پاکستان ٹائمز، ۷؍اپریل ۱۹۴۸ء)۔
ان صاف اور صریح بیانات کی موجودگی میں ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ قائداعظمؒ کی ۱۱؍اگست والی تقریر کا ایک ایسا مفہوم نکالنا، جو ان کے تمام اگلے پچھلے ارشادات کے خلاف ہو، مرحوم کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔

علاوہ بریں، اگر قائداعظمؒ کی اس تقریر کو اس کے ٹھیٹھ لفظی مفہوم میں بھی لے لیا جائے، تو ہمیں جذبات سے قطع نظر کرتے ہوئے یہ غور کرنا چاہیے کہ ان کے ان ملفوظات کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ انھوں نے یہ تقریر خواہ صدرِ مجلس دستورساز کی حیثیت سے کی ہو یا گورنر جنرل کی حیثیت سے، بہرحال کسی حیثیت میں بھی وہ مجلس دستور ساز، ایک شاہانہ اختیارات رکھنے والے ادارے (Sovereign Body ) کو اس امر کا پابند نہیں کرسکتے تھے کہ وہ دستور انھی خطوط پر بنائے، جو وہ کھینچ دیں۔ رہی قوم، تو اس نے مرحوم کو اس لیے اپنا لیڈر مانا تھا کہ وہ اس کے قومی عزائم اور مقاصد پورے کرنے میں ان کی رہنمائی کریں۔

۱۹۶۴ء میں فیلڈ مارشل ایوب خاں کی آمرانہ حکومت نے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر دی تھی، جسے سپریم کورٹ نے غیرقانونی قرار دیا۔ جیل سے رہائی کے بعد مولانا مودودیؒ نومبر ۱۹۶۴ء میں کراچی دورے پر گئے تو وہاں کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس میں معروف قانون دان اے کے بروہی صاحب نے مولانا مودودی کا استقبال کیا۔ جواب میں مولانا نے یہ مختصر خطاب فرمایا۔ ادارہ

ایک مہذب سوسائٹی اور ایک وحشی سوسائٹی کے درمیان فرق کرنے والی چیز ’قانون‘ ہے۔ وحشی سوسائٹی میں لاقانونیت ہوتی ہے اور مہذب سوسائٹی میں قانون اور اس کی پابندی ہوتی ہے۔
چار بنیادی عوامل
ایک صحیح قسم کی مہذب سوسائٹی کے لیے قانون کے سلسلے میں چار چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے:
    l     ایک یہ کہ قانون بجاے خود معقول ہو، منصفانہ ہو اور معروف ہو۔ اس قانون کے بارے میں ہرشخص یہ محسوس کرے کہ یہ عقل و انصاف کے مطابق ہے، اور اس کے خلاف طبیعتیں بغاوت پر آمادہ نہ ہوں۔ اس کے احکام کے متعلق لوگ یہ نہ سمجھیں کہ یہ بے جا احکام ہیں، اور اس قابل نہیں کہ ان کی پیروی کی جائے، اِلا یہ کہ ان قوانین کو ان کے اُوپر زبردستی ٹھونس دیا جائے۔ گویا ایک مہذب سوسائٹی کی اوّلین ضرورت یہ ہے کہ قانون منصفانہ اور معقول ہو، لوگ اپنے دل سے یہ جانیں کہ یہی قانون ہے اور یہی قانون ہونا چاہیے، اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کے اُوپر عمل کریں۔
    l    دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ اس قانون پر عمل درآمد کرنے والی ایک طاقت ایسی ہو جو ایمان دار ہو اور لوگ یہ بھروسا کرسکیں کہ یہ انصاف کے ساتھ اس قانون پر عمل درآمد کرائے گی اور چھوٹے بڑے کی تفریق کو خاطر میں نہ لائے گی۔ اورقانون کے مطابق ہرایک سے یکساں سلوک کرے گی۔
    l    تیسری چیز جو ضروری ہے وہ یہ کہ ایک آزاد اور باوقار عدلیہ موجود ہونی چاہیے۔ اگر قانون کی تعبیر کے معاملے میں اختلافات پیدا ہوں، یعنی یہ سوال پیدا ہو کہ قانون کے مطابق کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟ ایسا جھگڑا یا اختلاف خواہ حکومت اور اشخاص کے درمیان پیدا ہو، یا مختلف طبقوں اور گروہوں کے درمیان ہو، تو ایک عدلیہ ایسی موجود ہونی چاہیے جس پر یہ بھروسا کیا جاسکے کہ وہ ٹھیک ٹھیک انصاف کے مطابق قانون کاانطباق کرے گی اور قانون میں ابہام کی صورت میں اس کی درست تعبیر کرے گی۔
    l    اور چوتھی چیز یہ ہے اور یہ ایک لحاظ سے بہت ضروری ہے کہ پبلک میں کثرت سے ایسے لوگ موجود ہوں، جو قانون کو جانتے بھی ہوں، قانون کو بالاتر رکھنے کی خواہش رکھتے ہوں اور جن کے اندر یہ عزم بھی موجود ہو کہ قانون کے راستے سے سوسائٹی کو ہٹنے نہیں دیں گے۔
انتظامیہ اور آرڈی ننس
ہمارے ملک میں بدقسمتی سے اس مہذب سوسائٹی کی دو شرائط بڑی حد تک ساقط ہوچکی ہیں۔ جہاں تک قانون کا تعلق ہے، یہاں کھلم کھلا ایسے آرڈی ننس نافذ کیے اور قوانین بنائے جارہے ہیں، جن کی دفعات کو دیکھ کر ان کے اندر اختلاف بلکہ تضاد نظر آتا ہے۔
دوسری طرف جس انتظامیہ کا کام قانون کو نافذ کرنا ہے اور خود ان پر عمل درآمد کرنا اور پبلک سے کرانا ہے، اس کا طرزِعمل ایسا چلاآرہا ہے کہ لوگوں کا اعتماد اس کے اُوپر سے اُٹھ چکا ہے۔ کیوں کہ وہ انتظامیہ جان بوجھ کر قانون کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ جو قانون موجود ہے اور جس کو وہ خود بھی مانتے ہیں کہ یہ قانون ہے، اس کی بھی جان بوجھ کر خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ یہ قانون شکنی اس بھروسے پر کی جاتی ہے کہ ہمارا عدالتی طریق کار اور ضابطہ کار اس سرکشی اور قانون شکنی کو کافی مہلت دیتا ہے کہ آپ ایک زیادتی آج کربیٹھیں تو آٹھ نو مہینے یا سال دو سال تک تو کسی گرفت کے بغیر کام بہرحال چل ہی جائے گا۔ بعد میں عدالت خواہ اس سب کچھ کو خلافِ قانون ہی کیوں نہ قرار دے دے___ انتظامیہ اگر جان بوجھ کر قانون کی خلاف ورزی کرنے والی ہو، تو اُسے ایک آزاد عدلیہ قانونی ذرائع سے قانون کی خلاف ورزی سے باز رکھ سکتی ہے۔

ہماری عدلیہ

اب ہمارے معاشرے میں صرف دو ہی عنصر ایسے باقی رہ گئے ہیں، جن کے بل پر ہم مہذب معاشرے کی حیثیت سے جی رہے ہیں یا جی سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک طاقت ور عنصر عدلیہ ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے اس کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں، جو اللہ سے ڈر کر انصاف کرنے والے ہیں۔ یہ الگ بات ہےکہ غلط آرڈی ننسوں اور قوانین سے ان کے ہاتھ ہی باندھ دیے جائیں، لیکن قانون کے اندر وہ جتنی کچھ گنجایش پاتے ہیں، اس کے مطابق انصاف کو بروے کار لانے میں کمی نہیں کرتے۔
یہ بات صاف لفظوں میں کہتا ہوں کہ ہمارے ہاں انتظامی طاقت جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے، وہ عدالتوں پر بھی اثر ڈالنے کی کوشش سے نہیں چُوکتے۔ لیکن اللہ کا فضل ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے جج موجود ہیں، جو کسی دباؤ کو قبول کرنے والے نہیں ہیں۔ کسی لالچ اور کسی دباؤ سے اثر لیے بغیر وہ انصاف کرنے والے ہیں۔

قانون دان

آخری چیز جس کا آپ سے ذکر کیا، وہ یہ ہے کہ معاشرے میں ایسے لوگ کثرت سے موجود ہو ں جن کے اندر قانون کا علم بھی ہو ، قانون کو بالاتر رکھنے کی خواہش بھی اور یہ مضبوط ارادہ بھی موجو د ہو کہ سوسائٹی کو ہم قانون کے راستے سے نہیں ہٹنے دیں گے۔ یہ گراں بار ذمہ داری زیادہ تر ہمارے وکلا پر آپڑی ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں کا لیگل سسٹم پیشہ ور وکیلوں ہی کو چاہتا ہے، اس لیے عام قانون دان اگر اپنی جگہ یہ سمجھتا بھی رہے کہ قانون کیا ہے اور اس کا انطباق کس طرح ہونا چاہیے؟ تو اس کی راے کا اثر کچھ نہیں ہوسکتا، اِلا یہ کہ وہ اخبارات میں مضامین لکھے یا پھر پبلک پلیٹ فارم کا رُخ کرے۔
اس صورتِ حال میں صرف پروفیشنل وکلا کے بس میں یہ ہے کہ وہ عدالتوں کے ذریعے سے قانون کی بالادستی کو منوائیں۔ ان کی کوشش ہونی چاہیے کہ ہمارا معاشرہ قانون کے راستے سے نہ ہٹنے پائے اور جس جگہ بھی ظلم ہورہا ہو، وہاں انصاف حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ یہ واقعہ ہے کہ چندسال پہلے تک یہ محسو س ہوتا تھا کہ ہمارے ملک کے وکلا اپنی ذمہ داری کو پوری طرح محسوس نہیں کر رہے ہیں، لیکن گذشتہ ایک دو برسوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اللہ کے فضل سے ہمارے ملک میں دوچار ہی نہیں سیکڑوں کی تعداد میں ایسے وکلا موجود ہیں، جو اپنے اس فرض کو محسوس کرتے ہیں اور ان کے اندر شعور، بیداری اور احساسِ فرض موجود ہے۔ اس چیز پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارے ملک کو اب تک یہ دولت نصیب ہے۔

سیاسی پہلو

جہاں تک اس موضوع کے سیاسی پہلو کا تعلق ہے اس سلسلے میں صرف ایک ہی بات آپ سے عرض کروں گا۔ اے کے بروہی صاحب نے برسرِاقتدار گروہ کو یہ دعوت دی ہے کہ ’’وہ ذرا اپوزیشن میں بھی رہ کر کام کرکے دیکھیں‘‘ تو مَیں بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ اگر یہ لوگ اقتدار ہاتھ سے چھوڑ دیں تو وہ اپوزیشن تو کیا، کوئی پوزیشن بنانے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ اس لیے کہ اگر اقتدار ان کے ہاتھ سے چلا جائے تو ان کی پارٹی میں ایک بندۂ خدا بھی باقی نہیں رہ جائے گا۔
سیاسی پارٹیاں ایک مدت دراز تک کام کرتی ہیں۔ اس کے بعد وہ کسی مرحلے پر پہنچ کر اس قابل ہوتی ہیں کہ اقتدار حاصل کریں۔ اقتدار ہاتھ سے چھن جانے کے بعد بھی وہ پارٹیاں باقی رہتی ہیں اور اپوزیشن کی حیثیت سے کام کرسکتی ہیں۔ یہاں جو پارٹی وجود میں آئی ہے، وہ اقتدار پر قبضہ کرلینے کے کئی برس بعد ، اقتدار کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے، نہ کہ کسی پروگرام اور سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں [یاد رہے، تب فوجی حکومت نے کنونشن مسلم لیگ کی صورت میں ایک پارٹی قائم کرکے، حکومت بنارکھی تھی، یہ اشارہ اس جانب ہے۔ ادارہ]۔
 ظاہر بات ہے کہ جوچیز کسی سبب سے پیدا ہوئی ہو، وہ سبب کے ہٹ جانے کے بعد باقی نہیں رہتی۔ چونکہ اقتدار سبب ہوتا ہے، اس پارٹی کے وجود کا، اس لیے اقتدار چھن جانے کے بعد ایسی پارٹی سرے سے باقی ہی نہیں رہتی۔ ہمیں سوچنا پڑےگا کہ جمہوری نظام چلانا ہے تو اپوزیشن کہاں سے پیدا ہو؟ (ہفت روزہ ایشیا اور آئین، لاہور، نومبر ۱۹۶۴ء)

 

جماعت اسلامی کا لا ئحہ عمل [تطہیر و تعمیر افکار ، صالح افراد کی تلاش، تنظیم اور تربیت ، اصلاحِ معاشرہ ، اصلاحِ نظام حکومت ]جس اسکیم پر مبنی ہے، اس کی کامیابی کا سارا انحصار ہی اس کے توازن پر ہے۔ اس کا ہر جز دوسرے اجزا کا مدد گار ہے، اس سے تقویت پاتا ہے اور اس کو تقویت بخشتا ہے۔ آپ کسی جز کو ساقط یا معطل کریں گے تو ساری اسکیم خراب ہو جائے گی۔ اور اس کے اجزا کے درمیان توازن برقرار نہ رکھیں گے تب بھی یہ اسکیم خراب ہو کر رہے گی:

  • کامیابی کی صورت یہ ہے کہ ایک طرف دعوت وتبلیغ جاری رکھیے تاکہ ملک کی آبادی زیادہ سے زیادہ آپ کی ہم خیال ہوتی چلی جائے ۔
  • دوسری طرف ہم خیال بننے والوں کو منظم اور تیار کرتے جائیے تا کہ آپ کی طاقت اسی نسبت سے بڑھتی جائے جس نسبت سے آپ کی دعوت وسیع ہو۔
  • تیسری طرف معاشرے کی اصلاح وتعمیر کے لیے اپنی کوششوں کا دائرہ اتنا ہی بڑھاتے چلے جائیے جتنی آپ کی طاقت بڑھے تا کہ معاشرہ اس نظامِ صالح کو لانے اور سہارنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار ہو جائے جسے آپ لانا چاہتے ہیں۔
  • اور ان تینوں کاموں کے ساتھ ساتھ ملک کے نظام میںعملاً تغیر لانے کے آئینی ذرائع سے بھی پورا پورا کام لینے کی کوشش کیجیے تا کہ ان تغیرات کو لانے اور سہارنے کے لیے آپ نے معاشرے کو جس حد تک تیار کیا ہو اس کے مطابق واقعی تغیر رُونما ہو سکے۔

ان چاروں کاموں کی مساوی اہمیت آپ کی نگاہ میں ہونی چاہیے۔ ان میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کا غلط خیال آپ کے ذہن میں پیدا نہ ہونا چاہیے۔

ان میں سے کسی کے بارے میں غلو کرنے سے آپ کو پرہیز کرناچاہیے۔ آپ کے اندر یہ حکمت موجود ہونی چاہیے کہ اپنی قوت عمل کو زیادہ سے زیادہ صحیح تناسب کے ساتھ ان چاروں کاموں پر تقسیم کریں۔ اور آپ کو وقتاً فوقتاً یہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ ہم کہیں ایک کام کی طرف اس قدر زیادہ تو نہیں جھک پڑے ہیں کہ دوسرا کام رک گیا ہو، یا کمزور پڑ گیا ہو۔ اسی حکمت اور متوازن فکر اور متناسب عمل سے آپ اس نصب العین تک پہنچ سکتے ہیں جسے آپ نے اپنا مقصدحیات بنایا ہے…

  • ایک بڑی غلط فہمی :اس توازن کی بحث میں غلط فہمی کی ایک اور وجہ بھی ہے جسے نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ عموماً جب کوئی صاحب یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جماعت کے کام میں لائحۂ عمل کے چاروں اجزا کا توازن قائم نہیں رہا ہے تو ان کی گفتگو سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اس کے ہر جز پر عمل صرف وہی ہے جو اس خاص جز کے نام سے کیا جائے۔ مثلاً دعوت کا کام وہ صرف اس کو شمار کریں گے جس پر ’ دعوت ‘ کا عنوان لگا ہوا ہو، اور اصلاحِ معاشرہ کا کام ان کے خیال میں صرف وہ ہو گا جو اس مخصوس نام کے ساتھ کیا گیا ہو۔ رہے وہ کام جن پر ’سیاست ‘ کا عنوان چسپاں ہو تو وہ اسے ’سیاسی کام ‘ کے خانے میں ڈال دیں گے اور یہ تسلیم نہ کریں گے کہ اس عنوان کے تحت دعوت ، توسیع نظام اور اصلاحِ معاشرہ کا بھی کوئی کام ہوا ہے۔

اس طرح بعض لوگوں نے مختلف عنوانات کے خانوں میں جماعت کے کام کو تقسیم کر رکھا ہے اور زیادہ تر یہی چیز ان کے اس دعوے کی بنیاد ہے کہ جماعت کا سیاسی کام اس کے دوسرے کاموں سے بہت بڑھ گیا ہے۔ حالاںکہ ہم جو اپنے لائحہ عمل میں چار عنوانوں پر کام کو تقسیم کر کے بیان کرتے ہیں تو وہ صرف یہ سمجھانے کے لیے ہے کہ زندگی کے کن کن گوشوں میں ہمیں کن مقاصد کے لیے سعی کرنی ہے۔ اس کا یہ مطلب کبھی نہیں ہوتا، اور نہیں ہو سکتا کہ عملاً بھی یہ الگ کام ہوں گے ۔ واقعہ کے اعتبار سے تو ان میں سے ہر کام ایسا ہے جس میں آپ سے آپ بقیہ سارے کام بھی شامل ہوتے ہیں ۔جب آپ دعوت کا کام کریں گے تو وہ مذہبی واعظوں کے طرز پر صرف دعوت ہی نہ ہو گی بلکہ توسیع نظام اور اصلاحِ معاشرہ کا مقصد بھی اس کے ساتھ خود بخود پورا ہو گا اور یہی آپ کا سیاسی کام بھی ہو گا۔ دوسری طرف جب آپ سیاسی کام کرنے اٹھیں گے تو یہ دوسری سیاسی پارٹیوں کے طرز پر محض سیاسی کام ہی نہ ہوگا، بلکہ اس کا افتتاح ہی دعوت دین سے کیا جائے گا ، اور اس کے اندر لازماً توسیع نظام اور اصلاحِ معاشرہ کے عناصر بھی شامل ہوں گے۔ (تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل ،ص۱۳۰-۱۳۳)

جماعت اسلامی جس غرض کے لیے قائم ہوئی ہے، وہ ایک اور صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا میں اللہ کے دین کو پوری طرح سے، پوری زندگی میں نافذ کیا جائے۔ اس کے سوا اس جماعت کا اور کوئی مقصد اور نصب العین نہیں ہے۔ جو شخص بھی اس جماعت سے وابستہ ہے، خواہ رکن کی حیثیت سے ہو یا کارکن اور متفق کی حیثیت سے وابستہ ہو، اُسے یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جماعت ِ اسلامی کااصل مقصد دینِ حق کو مکمل طور پر خدا کی زمین پر غالب کرنا ہے۔ اگر ہم سیاسی کام بھی کرتے ہیں تو اقتدار حاصل کرنے یا دوسری سیاسی اغراض کے لیے نہیں کرتے، بلکہ اس غرض کے لیے کرتے ہیں کہ اُن رکاوٹوں کو دُور کیا جائے جو دینِ حق کے قیام میں مانع ہیں اور جمہوری ذرائع سے ملک کے اندر اسلامی انقلاب برپا کرنے کا راستہ ہموار ہوسکے۔

جماعت اسلامی نے یہ جو مسلک اختیار کیا ہے کہ وہ کسی قسم کے تشدد اور توڑ پھوڑ کے ذریعے سے، کسی قسم کی دہشت پسندانہ تحریک کے ذریعے سے اور کسی قسم کی خفیہ تحریک یا سازشوں کے ذریعے سے ملک میں انقلاب برپا نہیں کرنا چاہتی، بلکہ خالصتاً جمہوری ذرائع سے انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے___ یہ مسلک قطعاً کسی کے خوف کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ ہرگز اس بنا پر نہیں ہے کہ ہم کبھی کسی ابتلا کے وقت اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے یہ کہہ سکیں کہ ہم دہشت پسند نہیں ہیں، ہمارے اُوپر تشدد یا قانون شکنی کا الزام نہ لگایا جائے۔ یہ بات ہرگز نہیں ہے۔

  • اسلامی انقلاب اور اس کی مضبوط جڑیں : اصل حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پیش نظر اسلامی انقلاب ہے اوراسلامی انقلاب کسی خطۂ زمین میں اس وقت تک مضبوط جڑوں سے قائم نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہاں کے رہنے والے لوگوں کے خیالات تبدیل نہ کر دیے جائیں، جب تک لوگوں کے افکار اور ان کے اخلاق و عادات میں تبدیلی نہ لائی جائے، اس وقت تک مضبوط بنیادوں پر کوئی انقلاب برپا نہیں ہوسکتا۔ اگر زبردستی کسی قسم کے تشدد کے ذریعے ، یا سازشوں اور خفیہ ہتھکنڈوں کے ذریعے سے کوئی انقلاب برپا کر دیا جائے تو اس کو کبھی دوام اور ثبات نصیب نہیں ہوتا اور بالآخر اسے کسی دوسرے انقلاب کے لیے جگہ خالی کرنی پڑتی ہے۔ اسی طرح اگر دھوکے بازیوں اور جھوٹ اور افترا کی مہم کے ساتھ انتخابات جیت کر،یا کسی اور طریقے سے حکومت پر قبضہ کرکے کوئی سیاسی انقلاب برپا کر بھی دیا جائے تو چاہے وہ کتنی دیر تک قائم رہے، لیکن جب وہ اکھڑتا ہے تو اس طرح اکھڑتا ہے جیسے اس کی کوئی جڑ ہی نہیں تھی۔
  •  چاہے کتنا ہی عرصہ لگے : ہم اس طرح کے تجربے نہیں کرنا چاہتے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ چاہے کتنا ہی عرصہ لگ جائے، لیکن پہلے قوم کے ذہن کو تبدیل کیا جائے اور اس کو اس حد تک تیار کیا جائے کہ وہ اسلامی نظام کا بوجھ سہار سکے۔ اسلامی نظام کو چلانے کے قابل ہوسکے۔
  •  تیس سالہ محنت کا ثمر :لوگ کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے تیس برس اپنا زور لگایا مگر کیا کرلیا؟ میں کہتا ہوں کہ ہماری تیس سالہ شبانہ روز محنت کا ثمر یہ ہے کہ اس وقت خدا کے فضل سے ملک کے تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت ہماری ہم خیال ہے۔ ملک کے اہلِ دماغ طبقے کے اندر اسلامی افکار اپنا مقام بناچکے ہیں۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں، جہاں جہاں بھی تعلیم یافتہ اور صاحب ِ فکر لوگ موجود ہیں ان کی اکثریت متاثر اور اِن افکار کی قائل ہوچکی ہے۔
  •  خیالات اور اخلاق میں انقلاب: اب دوسرا کام جو ہمارے سامنے ہے اور فی الحقیقت بہت بڑا کام ہے۔ وہ عام لوگوں کے خیالات تبدیل کرنا اور ان کے اندر اسلامی فکر اور اسلامی نظام کے بنیادی تصورات کو راسخ کرنا ہے۔ ان کے اندر اخلاقی انقلاب برپا کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک بڑا مشکل کام ہے، لیکن یہ کام ہمیں بہرحال کرنا ہے۔ یہ کام پہلے بھی ہمارے پروگرام میں شامل رہا ہے اور ہم اس سے کبھی غافل نہ تھے۔ ہم اگر اس میدان میں اب تک بڑی کامیابی حاصل نہ کرسکے تو اس کے کچھ اسباب و موانع بھی ہیں، جن سے صرفِ نظر نہ کرنا چاہیے۔
  • عوام کا کردار بگاڑنے والے اہلِ اختیار :یہ امرواقع ہے کہ پچھلے ۲۶، ۲۷ برس کے دوران میں جن لوگوں کے ہاتھ میں بھی اس ملک کا نظام چلانے کے اختیارات رہے ہیں خواہ وہ سیاسی اختیارات ہوں یا معاشی یا تعلیمی ہوں (ایک آدھ کو چھوڑ کر)، انھوں نے اس قوم کے  ذہن کو بگاڑنے اور اس کے سیرت و کردار کو تباہ کرنے کی کوشش کی اور اس کو اسلام سے دُور سے دُور تر کر دیا۔ یہ انھی کی اس مجرمانہ روش اور بداندیشیوں کا نتیجہ ہے کہ آخرکار مشرقی پاکستان،پاکستان سے الگ ہوا۔ وہاں مسلسل یہ ذہن پیدا کیا گیا کہ بنگالی بولنے والے مسلمان اور ہندو ایک قوم ہیں اور بنگالی نہ بولنے والے دوسری قوم۔ یہ ذہن وہاں پیدا کیا جاتا رہا ہے، لیکن حکومت کی طرف سے اس کی روک تھام نہ کی گئی بلکہ اس کی حوصلہ افزائی ہی کی گئی۔
  •  جاہلی تفرقے پھیلانے کی مہم :یہاں برسرِ اقتدار آنے والے لوگ ہمیشہ خاموش تماشائی بنے رہے اور اس کے نتیجے میں آخرکار مشرقی پاکستان الگ ہوکر رہا اور اب یہاں بھی اُسی کفر کے پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہاں لوگوں کے اندر یہ ذہن زبردستی پیدا کیا جارہا ہے کہ یہاں کوئی پٹھان ہے اور کوئی بلوچی، کوئی سندھی اور کوئی پنجابی ۔ کیا یہ پاکستان کی بنیاد تھی؟ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں تو سارے ہندستان کے مسلمان یہ بھول گئے تھے کہ ہم کون ہیں۔ ان کے پیش نظر صرف یہ تھا کہ ہم اوّل و آخر مسلمان ہیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے جب انھوں نے مل کر کوشش کی اور متحد ہوکر پاکستان کا مطالبہ کیا تب پاکستان وجود میں آیا ورنہ اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ اگر گجراتی اور مدراسی اور ملیباری اور سندھی اور پٹھان اور پنجابی سب کے سب الگ الگ قومیتوں کا تصورر کھتےتو پاکستان کبھی بن سکتا، اور اب یہاں پھر الگ الگ قومیتوں کا جو تصورپھیلایا جارہا ہے یہ لازماً پاکستان کے ٹکڑے اُڑانے والا ہے۔ سندھ میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ بعینہٖ  مشرقی پاکستان کی سی صورتِ حال پیدا کی جارہی ہے۔ سندھ کا عام مسلمان نہایت سیدھا سادا مخلص مسلمان ہے، لیکن وہاں کے تعلیم یافتہ طبقے میں یہ خالص کافرانہ تصور پھیلایا جارہا ہے کہ سندھی بولنے والا ہندو اور مسلمان ایک قوم ہے اور جو سندھی نہیں بولتا، وہ چاہے مسلمان ہو، وہ دوسری قوم ہے۔ اسی طرح کی کوششیں دوسرے صوبوں میں بھی جاری ہیں۔
  •  اخلاقی بگاڑ کی مساعی :اس طرح ایک طرف تو لوگوں کے نظریات کو بگاڑنے اور ان کے اندر افتراق و انتشار کے بیج بونے کی کوشش کی جارہی ہے، اور دوسری طرف ان کے اخلاق کو بگاڑنے کے لیے تمام ممکن ذرائع استعمال کیے جارہے ہیں۔ تیسری طرف تعلیم کا ایسا نظام رائج کیا جارہا ہے جس سے ایک نوجوان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ اسے اسلامی نظام چلانے کے لیے تیار کیاجارہا ہے یا سوشلسٹ نظام چلانے کی تربیت دی جارہی ہے یا سرے سے اسے کوئی نظام بنانے اور چلانے کے لیے تیار بھی کیا جارہا ہے یا نہیں؟ اس طرح کی بگڑی ہوئی صورتِ حال آپ کے گردوپیش میں پیدا کی جارہی ہے۔

اس حالت میں آپ کو جان مار کر کوشش کرنی ہے۔ اس غرض کے لیے اپنی پوری طاقت صرف کرنی ہے کہ عام لوگوں کے اندر زیاہ سے زیادہ اسلامی ذہن پیدا کریں ، کیوں کہ جب تک آپ یہ کام نہیں کریں گے اس وقت تک یہاں اسلامی انقلاب کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔

  •  اگر جمہوریت کو چلنے نہ دیا جائے تو؟ :اب یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہاں جمہوریت کو کبھی چلنے نہیں دیا گیا اور جمہوری طریقوں سے صالح تغیر کا راستہ قریب قریب بند کر دیا گیا ہے، اور اگر یہاں کبھی انتخابات ہوئے بھی ہیں تو وہ انتہائی بے ایمانیوں اور بددیانتیوں کے ذریعے سے جیتے جاتے رہے، اور ایسے حالات بھی پیدا کر دیے گئے ہیں کہ اگر مفروضے کے طورپر ہم انتخابات میں کبھی ۱۰۰ فی صد ووٹ حاصل کرلیں بھی تو صندوقچیوں سے سو فی صد ووٹ ہمارے خلاف ہی برآمد ہوں گے، تو ایسی صورت میں جمہوری ذرائع سے اصلاحِ احوال کی کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ یہ صورتِ حال فی الواقع یہاں موجود ہے، لیکن ہمیں اس کا مقابلہ کرنا ہے۔
  •  ایسے حالات کا مقابلہ کرنے کی کوشش :ہمیں اس صورتِ حال کو بدلنے کے لیے پوری پوری جدوجہد کرنی ہے۔ ہمیں اس غرض کے لیے سرتوڑ کوشش کرنی ہے کہ ہماری اَن تھک محنتوں کے نتیجے میں انسانوں کا سیلاب اس طرح انتخابات کے مراکز پر اُمڈ آئے کہ اگر کوئی شخص بے ایمانیاں کرنا بھی چاہے تو نہ کرسکے۔ انقلابی تحریکوں کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب لوگوں کے اندر ان کے پھیلائے ہوئے خیالات اس قدر مضبوطی سے جم جاتے ہیں اور ان کے اندرایک ایسا عزمِ راسخ پیدا ہوجاتا ہے کہ اس کے بعد پھر کوئی طاقت ان کے مطلوبہ نظام کو آنے سے نہیں روک سکتی۔ وہ ہر راستے سے آتا ہے اور ایسے راستوں سے آتاہے جن کو بندکرنے کا خیال بھی کسی کے دماغ میں نہیں آسکتا۔ اس لیے آپ اس بات کی فکر نہ کریں کہ آپ جس نظام کے لیے جدوجہد کررہے ہیں وہ یہاں کیسے آئے گا؟ آپ کا اصل کام یہ ہے کہ اپنا فرض نہایت خلوص اور جانفشانی کے ساتھ ادا کرتے چلے جائیں اور آپ کی واحد فکر آپ کا وہ کام ہو جسے آپ کو سرانجام دینا ہے۔
  •  آپ کا اپنا معیار درست ہونا چاہیے :یہ کام آپ صرف اسی صورت میں انجام دے سکتے ہیں ، جب کہ آپ کے اپنے اخلاق اس سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں جو اس نظام کا تقاضا ہے۔ جب آپ اسلام کی طرف دعوت دینے کے لیے اُٹھیں گے تو یہ لوگ دیکھیں گے کہ ہمیں یہ دعوت دینے والے خود کیسے ہیں۔ اگر آپ کے اخلاق اور سیرت و کردار میں کوئی خرابی ہوئی، یا آپ کے اندر ایسے لوگ پائے گئے جو مناصب کے خواہش مند اور ان کے لیے حریص ہوں، یا آپ کے اندر ایسے لوگ موجود ہوئے جو کسی درجے میں بھی خلاف ورزی کرنے والے ہوں، تو اس صورت میں آپ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ اس لیے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے کہ اسلامی انقلاب کے لیے جدوجہد کرنے کے مخصوص تقاضے ہیں۔ اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کرتے وقت آپ کو جن چیزوں کو خاص طور پر پیش نظر رکھنا ہوگا وہ یہ ہیں کہ آپ کے اخلاق نہایت بلند ہوں۔ آپ کی زندگی پوری طرح اسلام کے ڈھانچے میں ڈھلی ہوئی ہو۔ آپ کے اندر نظمِ جماعت کی کامل اطاعت پائی جاتی ہو۔ آپ جماعت کے دستور کی پوری طرح پابندی کرنے والے ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ آپ عوام الناس کے اندر پھیل کر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کے لیے ہرلحظہ کوشاں ہوں اور چاہے یہ کام آپ کو ۵۰سال بھی کرنا پڑے لیکن آپ لگن کے ساتھ اسے کرتے چلے جانے کا مصمم ارادہ رکھتے ہوں، تو ان شاء اللہ کوئی طاقت  اس ملک کو اسلامی ملک بننے سے نہیں روک سکے گی۔(خطاب ۲۱ مارچ ۱۹۷۴ء، بحوالہ تحریکی شعور، از نعیم صدیقی)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دینے پر آمادہ صادق الایمان نوجوانوں کی یہ دعا کہ: ’’ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا‘‘، بڑے وسیع مفہوم پر حاوی ہے۔ گمراہی کے عام غلبہ و تسلّط کی حالت میں جب کچھ لوگ قیامِ حق کے لیے اُٹھتے ہیں، تو اُنھیں مختلف قسم کے ظالموں سے سابقہ پیش آتا ہے:

  •  ایک طرف باطل کے اصلی علَم بردار ہوتے ہیں، جو پوری طاقت سے اِن داعیانِ حق کو کچل دینا چاہتے ہیں۔
  •  دوسری طرف نام نہاد حق پرستوں کا [بھی] ایک اچھا خاصا گروہ ہوتا ہے، جو حق کو ماننے کا دعویٰ تو کرتا ہے مگر باطل کی قاہرانہ فرماں روائی کے مقابلے میں اقامت ِ حق کی سعی کو غیرواجب، لاحاصل، یا حماقت سمجھتا ہے اور اس کی انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنی اس خیانت کو جو وہ حق کے ساتھ کر رہا ہے، کسی نہ کسی طرح درست ثابت کردے اور ان لوگوں کو اُلٹا برسرِ باطل ثابت کر کے اپنے ضمیر کی اُس خلش کو مٹائے، جو اُن کی دعوتِ اقامت ِ دینِ حق سے اس کے دل کی گہرائیوں میں جلی یا خفی طور پر پیدا ہوتی ہے۔
  •  تیسری طرف عامۃ الناس ہوتے ہیں، جو الگ کھڑے تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ان کا ووٹ آخرکار اُسی طاقت کے حق میں پڑا کرتا ہے، جس کا پلّہ بھاری رہے، خواہ وہ طاقت حق ہو یا باطل۔

اس صورتِ حال میں ان داعیانِ حق کی ہر ناکامی، ہر مصیبت، ہرغلطی، ہر کمزوری اور ہرخامی ان مختلف گروہوں کے لیے مختلف طور پر فتنہ بن جاتی ہے۔ وہ کچل ڈالے جائیں یا شکست کھا جائیں تو:

  •  پہلا گروہ کہتا ہے کہ: حق ہمارے ساتھ تھا، نہ کہ ان بے وقوفوں کے ساتھ جو ناکام ہوگئے۔
  •  دوسرا گروہ کہتا ہے کہ: دیکھ لیا! ہم نہ کہتے تھے کہ ایسی بڑی بڑی طاقتوں سے ٹکرانے کا حاصل چند قیمتی جانوں کی ہلاکت کے سوا کچھ نہ ہوگا، اور آخرکار اس تہلکہ میں اپنے آپ کو ڈالنے کا ہمیں شریعت نے مکلّف ہی کب کیا تھا، دین کے کم سے کم ضروری مطالبات تو اُن عقائد و اعمال سے پورے ہو ہی رہے تھے جن کی اجازت فراعنۂ وقت نے دے رکھی تھی۔
  • تیسرا گروہ فیصلہ کردیتا ہے کہ: حق وہی ہے جو غالب رہا۔

اسی طرح اگر وہ اپنی دعوت کے کام میں کوئی غلطی کرجائیں، یا مصائب و مشکلات کی سہار نہ ہونے کی وجہ سے کمزوری دکھا جائیں، یا ان سے ، بلکہ ان کے کسی ایک فرد سے بھی کسی اخلاقی عیب کا صدور ہوجائے، تو بہت سے لوگوں کے لیے باطل سے چمٹے رہنے کے ہزار بہانے نکل آتے ہیں، اور پھر اس دعوت کی ناکامی کے بعد مدت ہاے دراز تک کسی دوسری دعوتِ حق کے اُٹھنے کا امکان باقی نہیں رہتا۔

پس یہ بڑی معنی خیز دُعا تھی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ان ساتھیوں نے مانگی تھی کہ:

رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ O [یونس ۱۰:۸۵] خدایا، ہم پر ایسا فضل فرما کہ ظالم لوگوں کے لیے ہمیں فتنہ نہ بنا۔

 یعنی ہم کو غلطیوں سے، خامیوں سے، کمزوریوں سے بچا، اور ہماری سعی کو دنیا میں بارآور کردے، تاکہ ہمارا وجود تیری خلق کے لیے سبب خیر بنے، نہ کہ ظالموں کے لیے وسیلۂ شر۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص ۳۰۶-۳۰۷)

جماعت اسلامی کو کیوں اصرار ہے کہ وہ جمہوری ذرائع سے ہی انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے اور غیرجمہوری ذرائع کے استعمال کی مخالف ہے؟ اس کو چند الفاظ میں بیان کیے دیتا ہوں۔ جماعت نے جو مسلک اختیار کیا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ کسی قسم کے تشدد کے ذریعے سے، یا کسی قسم کی سازشوں کے ذریعے سے انقلاب برپا نہیں کرنا چاہتی، بلکہ جمہوری ذرائع سے ہی انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے۔ یہ قطعاً اس لیے نہیں ہے کہ ہم اپنی صفائی پیش کرسکیں کہ ہم دہشت پسند نہیں ہیں، اور ہمارے اُوپر یہ الزام نہ لگنے پائے۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلامی انقلاب اس وقت تک مضبوط جڑوں سے قائم نہیں ہوسکتا، جب تک کہ لوگوں کے خیالات نہ تبدیل کر دیے جائیں، جب تک لوگوں کے اَخلاق، لوگوں کی عادات کو تبدیل نہ کر دیا جائے۔ اگر کسی قسم کے تشدد کے ساتھ، یا کسی قسم کی سازشوں کے ساتھ، یا کسی قسم کی دھوکے بازیوں کے ساتھ اور جھوٹ اور اسی طرح کی مہم کے ساتھ انتخابات جیت بھی لیے جائیں، یا کسی طریقے سے انقلاب برپا کر بھی دیا جائے، تو چاہے یہ انقلاب کتنی دیر تک رہے، یہ اسی طرح اُکھڑتا ہے، جیسے اس کی کوئی جڑ ہی نہ ہو۔ آپ نے [فیلڈمارشل] ایوب خاں صاحب کا دور دیکھا کہ کوئی شخص تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ اس شخص کو کوئی ہٹاسکے گا، لیکن جب وہ ہٹے تو یہ معلوم ہوا کہ ان کی کوئی جڑ ہی نہیں تھی۔ اس طرح سے جن لوگوں نے ناجائز ذرائع سے انتخابات جیت کر بظاہر جمہوری طریقے سے اقتدار حاصل کیا ہے، ان کی بھی حقیقت میں کوئی جڑ نہیں ہے۔ ان میں سے کوئی دو آدمی ایسے نہیں ہیں جو ایک دوسرے کے مخلص ہوں۔ ان کو اغراض نے ایک دوسرے کے ساتھ جمع کیا ہے اور اغراض ہی ان کو ایک دوسرے سے پھاڑتی ہیں۔

اب دوسرا کام جو آپ کے سامنے ہے اور بہت بڑا کام ہے، وہ یہ ہے کہ عام لوگوں کے خیالات کو تبدیل کیا جائے۔ عام لوگوں کے اندر اسلامی فکر اور اسلامی نظام کے بنیادی تصورات کو بٹھایا جائے، اور لوگوں کے اندر اخلاقی انقلاب برپا کیا جائے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔   اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ پچھلے [برسوں] میں جن لوگوں کے ہاتھ میں ملک کے اختیارات رہے ہیں، خواہ وہ سیاسی اختیارات ہوں، خواہ وہ معاشی اختیارات ہوں، خواہ وہ تعلیمی اختیارات ہوں، جن لوگوں کے ہاتھ میں بھی ملک کو چلانے کے اختیارات رہے ہیں، انھوں نے قوم کے ذہن کو بگاڑنے کی کوشش کی ہے، اور اس کو اسلام سے دُور سے دُور تر کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھی کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخرکار مشرقی پاکستان، پاکستان سے الگ ہوگیا۔ وہاں یہ ذہن پیدا کیا گیا کہ بنگالی بولنے والا ہندو اور مسلمان ایک قوم ہیں اور جو بنگالی نہیں بولتا وہ دوسری قوم ہے۔ اور اب یہاں اس کفر کو پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہاں ملک کے اندر یہ ذہن پیدا کیا جارہا ہے، اور زبردستی پیدا کیا جارہا ہے کہ یہ پٹھان ہے، یہ بلوچی ہے، یہ سندھی ہے اور یہ پنجابی ہے۔ کیا یہ پاکستان کی بنیاد تھی؟ سارے ہندستان کے مسلمان یہ بھول گئے تھے کہ وہ مسلمان ہونے کے سوا بھی کچھ ہیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے انھوں نے کوشش کی اور متحدہ مطالبہ کیا، تب پاکستان وجود میں آیا۔ اگر گجراتی، مدراسی، سندھی، پٹھان اور پنجابی الگ الگ قوم رہتے اور الگ الگ اپنی قومیتوں کا تصور رکھتے تو پاکستان کبھی نہیں بن سکتا تھا۔

اس موقعے پر یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہاں جمہوریت کو کبھی چلنے نہیں دیا گیا اور جمہوری طریقے سے جب کبھی انتخابات ہوتے ہیں، وہ انتہائی بے ایمانی اور تشدد، اور انتہائی بددیانتی کے ذریعے سے ہوتے ہیں۔ ہمیں اس صورتِ حال کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ اس کے لیے پوری جدوجہد کرنی ہوگی کہ جن لوگوں کے ہاتھوں سے یہ کام لیا جارہا ہے، ان کے ذہن کو تبدیل کیا جائے۔ ہمیں یہ کوشش کرنی ہے کہ انتخابات کے مراکز پر اگر کچھ لوگ بے ایمانیاں کرنا چاہیں بھی تو نہ کرسکیں۔

ایک وقت ایسا آتاہے جب یہ خیالات ملک کے اندر پوری طرح سے مضبوطی سے جم جاتے ہیں اور قوم کے اندر پورا ارادہ پیدا ہوجاتا ہے، تو پھر کوئی طاقت انقلاب آنے سے نہیں روک سکتی۔ یہ ہر راستے سے آتا ہے۔ ایسے راستے سے آتا ہے کہ جس کے بند کرنے کا خیال کوئی سوچ تک نہیں سکتا۔ آپ اس بات کی فکر نہ کریں کہ انقلاب کس راستے سے آئے گا۔ آپ صرف کام کریں۔ اپنی سیرت کو درست کریں۔ جب آپ اسلام کی طرف دعوت دینے اُٹھیں گے تو لوگ یہ دیکھیں گے کہ یہ دعوت دینے والے کیسے لوگ ہیں۔ (ہفت روزہ، ایشیا، لاہور، اپریل ۱۹۷۴ء)

کرئہ ارض جس پر ہم آپ رہتے ہیں خدا کی عظیم الشان سلطنت کا ایک چھوٹا سا صوبہ ہے۔ اس صوبے میں خدا کی طرف سے جو پیغمبر بھیجے گئے ہیں، ان کی حیثیت کچھ اس طرح کی  سمجھ لیجیے جیسے دنیا کی حکومتیں اپنے ماتحت ملکوں میں گورنر یا وائسرائے بھیجا کرتی ہیں۔ ایک لحاظ سے دونوں میں بھاری فرق ہے۔

دنیوی حکومتوں کے گورنر اور وائسرائے محض انتظام ملکی کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں اور سلطانِ کائنات کے گورنر اور وائسرائے اس لیے مقرر ہوتے ہیں کہ انسان کو صحیح تہذیب ، پاکیزہ اخلاق اور سچے علم وعمل کے وہ اصول بتائیں جو روشنی کے مینار کی طرح انسانی زندگی کی شاہراہ پر کھڑے ہوئے صدیوں تک سیدھا راستہ دکھاتے رہیں، مگر اس فرق کے باوجود دونوں میں ایک طرح کی مشابہت بھی ہے۔ دنیا کی حکومتیں گورنری جیسی ذمہ داری کے منصب ان ہی لوگوں کو دیتی ہیں، جو ان کے سب سے زیادہ قابل اعتماد آدمی ہوتے ہیں اور جب وہ انھیں اس عہدے پر مقرر کردیتی ہیں تو پھر انھیں یہ دیکھنے اور سمجھنے کا پورا موقع دیتی ہیں کہ حکومت کا اندرونی نظام کس طرح پالیسی پر چل رہا ہے اور ان کے سامنے اپنے وہ راز بے نقاب کر دیتی ہیں، جو عام رعایا پر  ظاہر نہیں کیے جاتے۔

ایسا ہی حال خدا کی سلطنت کا بھی ہے۔ وہاں بھی پیغمبری جیسی ذمہ داری کے منصب پر وہی لوگ مقرر ہوئے ہیں جو سب سے زیادہ قابل اعتماد تھے، اور جب انھیں اس منصب پر مقرر کر دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے خود ان کو اپنی سلطنت کے اندرونی نظام کا مشاہدہ کرایا اور ان پر کائنات کے وہ اسرار ظاہر کر دیے جو عام انسانوں پر ظاہر نہیں کیے جاتے۔

اسی نوعیت کے تجربات میں سے ایک وہ چیز ہے جس کو معراج کہتے ہیں۔ معراج صرف سیر اور مشاہدہ ہی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایسے موقعے پر ہوتی ہے، جب کہ پیغمبر کو کسی کارِ خاص پر مقرر کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے، اور ایسا ہی ایک اہم موقع وہ تھا جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو طلب کیا گیا ۔ یہ وہ وقت تھا کہ صرف حجاز اور صرف عرب ہی نہیں بلکہ گردوپیش کی دوسری قوموں سے بھی سابقہ پیش آنا تھا اور اسلام کی تحریک ایک اسٹیٹ میں تبدیل ہونے کو تھی۔ اس لیے اس  اہم موقعے پر آپ کو ایک نیا پروانۂ تقرر اور نئی ہدایات دینے کے لیے باد شاہِ کائنات نے اپنے حضور میں طلب فرمایا ۔

اسی پیشی وحضوری کا نام معراج ہے۔ عالمِ بالا کا یہ حیرت انگیز سفر ہجرت سے تقریباً ایک سال پہلے پیش آیا تھا۔ اس سفر کے ضمنی واقعات احادیث میں آئے ہیں، مثلاً: بیت المقدس پہنچ کر نماز ادا کرنا ، آسمان کے مختلف طبقات سے گزرنا ، پچھلے زمانے کے پیغمبروں سے ملنا اور پھر آخری منزل پر پہنچنا ۔ لیکن قرآن ضمنی چیزوں کو چھوڑ کر ہمیشہ اصل مقصد تک اپنے بیان کو محدود رکھتا ہے۔ اس لیے اس نے کیفیت ِ معراج کا کچھ ذکر نہیں کیا،بلکہ وہ چیز تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے جس  کے لیے آںحضرتؐ کو بلایا گیا تھا۔ قرآن کی ۱۷ویں سورت [بنی اسرائیل]میں آپ کو یہ تفصیل مل سکتی ہے۔

اس کے دوحصے ہیں۔ ایک حصے میں مکے کے لوگوں کو آخری نوٹس دیا گیا کہ اگر تمھاری سختیوں کی وجہ سے خدا کا پیغمبر جلاوطنی پر مجبور ہوا تو مکے میں تم کو چند سال سے زیادہ رہنے کا موقع نہ مل سکے گا، اور بنی اسرائیل کو جن سے عنقریب مدینے میں پیغمبر کو براہِ راست سابقہ پیش آنا تھا ، خبردار کیا گیا کہ تم اپنی تاریخ میں دو زبر دست ٹھوکریں کھا چکے ہواور دو قیمتی موقعے کھو چکے ہو۔ اب تم کو تیسرا موقع ملنے والا ہے اور یہ آخری موقع ہے۔

دوسرے حصے میں وہ بنیادی اصول بتائے گئے ہیں،جن پر انسانی تمدن و اخلاق کی تعمیر ہونی چاہیے ۔ یہ چودہ اصول ہیں :

                ۱-            صرف اللہ کی بندگی کی جائے اور اقتدارِ اعلیٰ میں اس کے ساتھ کسی کی شرکت نہ تسلیم کی جائے۔

                ۲-            تمدن میں خاندان کی اہمیت ملحوظ رکھی جائے، اولاد والدین کی فرماں بردار وخدمت گزار ہو اور رشتہ دار ایک دوسرے کے ہمدرد و مدد گارہوں۔

                ۳-            سوسائٹی میں جو لوگ غریب یا معذور ہوں یا اپنے وطن سے باہر مدد کے محتاج ہوں وہ بے وسیلہ نہ چھوڑ دیے جائیں۔

                ۴-            دولت کو فضول ضائع نہ کیا جائے ۔ جو مال دار اپنے روپے کو برے طریقے سے خرچ کرتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں۔

                ۵-            لوگ اپنے خرچ کو اعتدال پر رکھیں ، نہ بخل کر کے دولت کو روکیں اور نہ فضول خرچی کر کے اپنے لیے اور دوسرے کے لیے مشکلات پیدا کریں۔

                ۶-            رزق کی تقسیم کا قدرتی انتظام جو خدا نے کیا ہے، انسان اس میں اپنے مصنوعی طریقوں سے خلل نہ ڈالے ۔خدا اپنے انتظام کی مصلحتوں کو زیادہ بہتر جانتا ہے۔

                ۷-            معاشی مشکلات کے خوف سے لوگ اپنی نسل کی افزایش نہ روکیں، جس طرح موجودہ نسلوں کے رزق کا نتظام خدا نے کیا ہے آنے والی نسلوں کے لیے بھی وہی انتظام کرے گا۔

                ۸-            خواہشِ نفس کو پورا کرنے کے لیے زنا کا راستہ برا راستہ ہے۔ لہٰذا نہ صرف زنا سے پرہیز کیا جائے بلکہ اس کے قریب جانے والے اسباب کا دروازہ بھی بند ہونا چاہیے۔

                ۹-            انسانی جان کی حرمت خدا نے قائم کی ہے۔ لہٰذا خدا کے مقرر کردہ قانون کے سوا کسی دوسری بنیاد پر آدمی کا خون نہ بہایا جائے، نہ کوئی اپنی جان دے ، نہ دوسرے کی جان لے۔

                ۱۰-         یتیموں کے مال کی حفاظت کی جائے جب تک وہ خود اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے قابل نہ ہوں۔ ان کے حقوق کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔

                ۱۱-         عہدوپیمان کو پورا کیا جائے ۔ انسان اپنے معاہدات کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔

                ۱۲-         تجارتی معاملات میں ناپ تول ٹھیک ٹھیک راستی پر ہونا چاہیے۔ اوزان اور پیمانے صحیح رکھے جائیں۔

                ۱۳-         جس چیز کا تمھیں علم نہ ہو اس کی پیروی نہ کرو۔ وہم اور گمان پر نہ چلو کیونکہ آدمی کو اپنی تمام قوتوں کے متعلق خدا کے سامنے جواب دہی کرنی ہے کہ اس نے انھیں کس طرح استعمال کیا۔

                ۱۴-         نخوت اور تکبر کے ساتھ نہ چلو۔ غرور کی چال سے نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو،نہ پہاڑوں سے اونچے ہو سکتے ہو۔

یہ چودہ اصول جو معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیے گئے تھے، ان کی حیثیت صرف اخلاقی تعلیمات ہی کی نہ تھی بلکہ یہ وہ پروگرام تھا جس پر آپ کو آیندہ سوسائٹی کی تعمیر کرنی تھی۔ یہ ہدایات اس وقت دی گئی تھیں جب آپ کی تحریک عنقریب تبلیغ کے مرحلے سے گزر کر حکومت اور سیاسی اقتدار کے مرحلے میں قدم رکھنے والی تھی ۔ لہٰذا یہ گویا ایک مینی فسٹو تھا جس میں   یہ بتایا گیا تھا کہ خدا کا پیغمبر ان اصولوں پر تمدن کا نظام قائم کرے گا۔ اسی لیے معراج میں       یہ۱۴نکات مقرر کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے تمام پیروان اسلام کے لیے پانچ وقت کی نماز فرض کی تا کہ جو لوگ اس پروگرام کو عمل کا جامہ پہنانے کے لیے اٹھیں ان میں اخلاقی انضباط پیدا ہو اور وہ خدا سے غافل نہ ہونے پائیں۔ ہر روز پانچ مرتبہ ان کے ذہن میں یہ بات تازہ ہوتی رہے کہ وہ خود مختار نہیں ہیں بلکہ ان کا حاکمِ اعلیٰ خدا ہے جس کو انھیں اپنے کام کا حساب دینا ہے۔

خواتین کے حقوق کے حوالے سے پنجاب اسمبلی میں منظور ہونے والے بل پر جس بحث کا آغاز ہوا وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے مجوزہ بل سے ہوتی ہوئی ہمارے اخبارات کے کالموں اور برقی ذرائع ابلاغ کے چینلوں پر خواتین پر تشدد تک آگئی۔ کئی کالم نگار اور وزیرقانون پنجاب حدیں پار کرگئے۔ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے خواتین کے حقوق پر مکمل کتاب حقوق الزوجین لکھی ہے جو آج بھی حسب ِ حال ہے۔ اس کا ایک مختصر حصہ جو خاص اس پہلو سے متعلق ہے جو کچھ زیادہ ہی موضوع بنا ہوا ہے، پیش کیا جارہا ہے۔ جو مسئلے کے ہرپہلو سے تفصیل سے آگاہ ہونا چاہتے ہیں، اس کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔(ادارہ)

اگر عورت اپنے شوہر کی اطاعت نہ کرے یا اس کے حقوق میں سے کسی حق کو تلف کرے تو ایسی صورت میں مرد پر لازم ہے کہ پہلے اس کو نصیحت کرے، نہ مانے تو اس کو اختیار ہے کہ اپنے برتائو میں حسب ِ ضرورت اس کے ساتھ سختی کرے،اور اگر اس پر بھی نہ مانے تو وہ اس کو مار سکتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس کی اطاعت کرنے لگے:

وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَ اھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلًا ط(النساء ۴:۳۴)  اور جن عورتوں سے تم نشوز۱؎ دیکھو ان کو نصیحت کرو اور بستروں پر ان کو چھوڑ دو اور ان کو مارو۔ اگر وہ تمھاری اطاعت کریں تو پھر ان پر سختی کرنے کا کوئی طریقہ نہ ڈھونڈو۔

اس آیت میں وَ اھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ (یعنی بستروں پر ان کو چھوڑ دو) فرما کر  سزا کے طور پر ترکِ مباشرت کی اجازت دی گئی ہے۔ مگر آیت ِایلاء (البقرہ ۲:۲۲۷) نے اس کے لیے ایک فطری حدمقرر کر دی ہے کہ یہ بستر کی علیحدگی چار مہینے سے زیادہ نہ ہو۔ جو عورت اتنی نافرمان اور شوریدہ سر ہو کہ شوہر ناراض ہو کر اس کے ساتھ سونا چھوڑ دے اور وہ جانتی ہو کہ چار مہینے تک یہ حالت قائم رہنے کے بعد شوہر ازروے احکامِ الٰہی اس کو طلاق دے دے گا، اور پھر بھی وہ اپنے نشوز سے باز نہ آئے، وہ اسی قابل ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے۔ چار مہینے کی مدت ادب سکھانے کے لیے کافی ہے۔ اس سے زیادہ مدت تک یہ سزا دینا غیرضروری ہوگا۔ کیوںکہ اتنے دن تک اس کا نشوز پر قائم رہنا، یہ جانتے ہوئے کہ اس کا نتیجہ طلاق ہے، اس بات کی دلیل کے کہ اس میں ادب سیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، یا وہ حُسنِ معاشرت کے ساتھ کم از کم اس شوہر سے نباہ نہیں کرسکتی۔ نیز اس سے وہ مقاصد بھی فوت ہونے کا اندیشہ ہے جن کے لیے ایک مرد کو ایک عورت کے ساتھ رشتۂ مناکحت میں باندھا جاتا ہے۔ ممکن ہے ایسی حالت میں شوہر اپنی خواہشاتِ نفس پوری کرنے کے لیے کسی ناجائز طریقے کی طرف مائل ہوجائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عورت کسی اخلاقی فتنے میں مبتلا ہوجائے۔ یہ بھی اندیشہ ہے کہ جہاں میاں بیوی میں سے ایک اس قدر ضدی اور شوریدہ سر ہو وہاں زوجین میں مؤدت و رحمت قائم نہ ہوسکے گی۔

امام سفیان ثوری سے وَ اھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ کے معنی میں ایک دوسرا قول منقول ہے۔ وہ کلام عرب سے استدلال کرکے کہتے ہیں کہ ھجر کے معنی، باندھنے کے ہیں۔ ھَجَرَ الْبَعیْرا اذا ربطہ صَاحِبْہٗ بِالْھِجَارِ۔ ہجار اُس رسّی کو کہتے ہیں جو اُونٹ کی پیٹھ اور ٹانگوں کو ملا کر باندھی جاتی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مقصود یہ ہے کہ جب وہ نصیحت نہ قبول کریں تو گھر میں ان کو  باندھ کر ڈال دو۔ لیکن یہ معنی قرآنِ مجید کے منشاء سے بعید ہیں۔ فِی الْمَضَاجِعِ کے الفاظ میں قرآن نے اپنے منشا کی طرف صاف اشارہ کر دیا ہے۔ مضجع سونے کی جگہ کو کہتے ہیں اور سونے کی جگہ میں باندھنا بالکل بے معنی بات ہے۔

دوسری سزا جس کی اجازت زیادہ شدید حالات میں دی گئی ہے، مارنے کی سزا ہے۔ مگر اس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قید لگادی ہے کہ ضربِ شدید نہ ہونی چاہیے:

اِضْرِبُوْھُنَّ اِذَا عَصَیْنَکُمْ فِی الْمَعْرُوْفِ ضَرْبًا غَیر مُبَرَّحٍ وَلَا بِضَرْبِ الْوَجْہِ وَلَا یقبح،اگر وہ تمھارے کسی جائز حکم کی نافرمانی کریں تو ان کو ایسی مارمارو جو زیادہ تکلیف دہ نہ ہو۔ منہ پر نہ مارے اور گالم گلوچ نہ کرے۔

یہ دو سزائیں دینے کا مرد کو اختیار دیا گیا ہے مگر جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے، سزا اُس نافرمانی پر دی جاسکتی ہے جو مرد کے جائز حقوق سے متعلق ہو۔ نہ یہ کہ ہرجا و بے جا حکم کی اطاعت پر اصرار کیا جائے اور عورت نہ مانے تو اس کو سزا دی جائے۔ پھر قصور اور سزا کے درمیان بھی تناسب ہونا چاہیے۔ اسلامی قانون کے کلیات میں سے ایک کلیہ یہ بھی ہے کہ فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ (البقرہ ۲:۱۹۴) ’’جوکوئی تم پر زیادتی کرے اس پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی اس نے کی ہے‘‘۔ زیادتی کی نسبت سے زیادہ سزا دینا ظلم ہے۔ جس قصور پر نصیحت کافی ہے اس پر ترکِ کلام، اور جس پر ترکِ کلام کافی ہے اس پر ھجر فی المضاجع، اور جس پر ھجر فی المضاجع کافی ہے اس پر مارنا ظلم میں شمار ہوگا۔مار ایک آخری سزا ہے جو صرف شدید اور ناقابلِ برداشت قصور پر ہی دی جاسکتی ہے اور اس میں بھی وہ حد ملحوظ رکھنا ضروری ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائی ہے۔ اس سے تجاوز کرنے کی صورت میں مرد کی زیادتی ہوگی اور عورت کو    حق ہوجائے گا کہ اس کے خلاف قانون سے امداد طلب کرے۔ (حقوق الزوجین، ص۴۵-۴۸)

یہ نماز، روزہ اور یہ حج اور زکوٰۃ جنھیں اللہ تعالیٰ نے آپ پر فرض کیا ہے اور اسلام کا رکن قرار دیا ہے، یہ ساری چیزیں دوسرے مذہبوں کی عبادات کی طرح پوجا پاٹ اور نذر نیاز اور جاترا کی رسمیں نہیں ہیں کہ بس آپ ان کو ادا کر دیں اور اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہو جائے، بلکہ دراصل یہ ایک بڑے مقصد کے لیے آپ کو تیار کرنے اور ایک بڑے کام کے لیے آپ کی تربیت کرنے کی خاطر فرض کی گئی ہیں…

  •  اسلام کا مقصودِ حقیقی:مختصر الفاظ میں تو صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ وہ مقصد انسان پر سے انسان کی حکومت مٹا کر خداے واحد کی حکومت قائم کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے سردھڑکی بازی لگا دینے اور جان توڑ کوشش کرنے کا نام جہاد ہے اور نماز، روزہ، حج، زکوٰۃسب کے سب اسی کام کی تیاری کے لیے ہیں…
  •  اصلاح کی بنیاد: جو لوگ خدا کو اپنا بادشاہ (محض خیالی نہیں بلکہ واقعی بادشاہ) تسلیم کر لیں اور اُس قانون پر جو خدا نے اپنے نبیؐ کے ذریعے سے بھیجا ہے، ایمان لے آئیں، اُن سے اسلام یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کے ملک میں اُس کا قانون جاری کرنے کے لیے اٹھیں، اُس کی رعیت میں سے جو لوگ باغی ہو گئے ہیں اور خود مالک الملک بن بیٹھے ہیں اُن کا زورتوڑدیں اور اللہ کی رعیت کو دوسروں کی رعیت بننے سے بچائیں۔ اسلام کی نگاہ میں یہ بات ہرگز کافی نہیں ہے کہ تم نے خدا کو خدا اور اس کے قانون کو قانونِ برحق مان لیا۔ نہیں، اس کو ماننے کے ساتھ ہی آپ سے آپ یہ فرض تم پر عائد ہوجاتا ہے کہ جہاں بھی تم ہو، جس سرزمین میں بھی تمھاری سکونت ہو وہاں خلقِ خدا کی اصلاح کے لیے اٹھو، حکومت کے غلط اصول کوصحیح اصول سے بدلنے کی کوشش کرو، ناخدا ترس اور شترِبے مہار قسم کے لوگوں سے قانون سازی اور فرماں روائی کا اقتدار چھین لو، اور بندگانِ خدا کی رہنمائی و سربراہ کاری اپنے ہاتھ میں لے کر خدا کے قانون کے مطابق، آخرت کی ذمہ داری وجواب دہی کا اور خدا کے عالم الغیب ہونے کا یقین رکھتے ہوئے، حکومت کے معاملات انجام دو۔ اسی کوشش اور جدوجہد کا نام جہاد ہے۔
  •  حکومت ایک کٹہن راستہ:حکومت اور فرمانروائی جیسی بد بلا ہے ہر شخص اُس کو جانتا ہے۔ اس کے حاصل ہونے کا خیال آتے ہی انسان کے اندر لالچ کے طوفان اُٹھنے لگتے ہیں۔ خواہشاتِ نفسانی یہ چاہتی ہیں کہ زمین کے خزانے اور خلقِ خدا کی گردنیں اپنے ہاتھ میں آئیں تو دل کھول کر خدائی کی جائے۔ حکومت کے اختیارات پر قبضہ کر لینا اتنا مشکل نہیں جتنا ان اختیارات کے ہاتھ آجانے کے بعد خدابننے سے بچنا اور بندۂ خدا بن کر کام کرنا مشکل ہے۔ پھر بھلا فائدہ ہی کیا ہوا اگر فرعون کو ہٹا کر تم خود فرعون بن گئے؟

لہٰذا اس شدید آزمایش کے کام کی طرف بلانے سے پہلے اسلام تم کو اس کے لیے تیار کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ تم کو حکومت کا دعویٰ لے کر اُٹھنے اور دنیا سے لڑنے کا حق اُس وقت تک ہرگز نہیں پہنچتا جب تک تمھارے دل سے خود غرضی اور نفسانیت نہ نکل جائے۔ جب تک تم میں اتنی پاک نفسی پیدا نہ ہو جائے کہ تمھاری لڑائی اپنی ذاتی یا قومی اغراض کے لیے نہ ہو بلکہ صرف اللہ کی رضا اور  خلق اللہ کی اصلاح کے لیے ہو۔ اور جب تک تم میں یہ صلاحیت مستحکم نہ ہو جائے کہ حکومت پاکر  تم اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو بلکہ خدا کے قانون کی پیروی پر ثابت قدم رہ سکو۔ محض یہ بات کہ  تم کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو گئے ہو، تمھیں اس کامستحق نہیں بنا دیتی کہ اسلام تمھیں خلقِ خدا پر ٹوٹ پڑنے کا حکم دے دے، اور پھر تم خدا اور رسولؐ کا نام لے لے کر وہی سب حرکتیں کرنے لگو جو خدا کے باغی اور ظالم لوگ کرتے ہیں۔ قبل اس کے کہ اتنی بڑی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے تم کو حکم دیا جائے، اسلام یہ ضروری سمجھتا ہے کہ تم میں وہ طاقت پیدا کی جائے جس سے تم اس بوجھ کو سہار سکو۔

  •  عبادات__ ایک تربیتی کورس:یہ نماز اور روزہ اور یہ زکوٰۃ اور حج دراصل اسی تیاری اور تربیت کے لیے ہیں۔ جس طرح تمام دنیا کی سلطنتیں اپنی فوج ، پولیس، اور سول سروس کے لیے آدمیوں کو پہلے خاص قسم کی ٹریننگ دیتی ہیں، پھر اُن سے کام لیتی ہیں، اُسی طرح اللہ کا دین (اسلام) بھی ان تمام آدمیوں کو، جو اس کی ملازمت میں بھرتی ہوں، پہلے خاص طریقے سے تربیت دیتا ہے، پھر اُن سے جہاد اور حکومت الٰہی کی خدمت لینا چاہتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ دنیا کی سلطنتوں کو اپنے آدمیوں سے جو کام لینا ہوتا ہے اُس میں اخلاق اور نیک نفسی اور خدا ترسی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ انھیں صرف کارداں بنانے کی کوشش کرتی ہیں خواہ وہ کیسے ہی زانی، شرابی، بے ایمان اور بد نفس ہوں۔ مگر دینِ الٰہی کو جوکام اپنے آدمیوں سے لینا ہے وہ چوںکہ   سارا ہے ہی اخلاقی کام، اس لیے وہ انھیں کارداں بنانے سے زیادہ اہم اس بات کو سمجھتا ہے کہ انھیں خدا ترس اور نیک نفس بنائے۔

وہ ان میںاتنی طاقت پیدا کرنا چاہتا ہے کہ جب وہ زمین میں خدا کی خلافت قائم کرنے کا دعویٰ لے کر اٹھیں تو اپنے دعوے کو سچا کرکے دکھا سکیں۔ وہ لڑیں تو اس لیے نہ لڑیں کہ انھیں خود اپنے واسطے مال و دولت اور زمین درکار ہے، بلکہ ان کے عمل سے ثابت ہو جائے کہ ان کی لڑائی خالص خدا کی رضا کے لیے اور اس کے بندوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہے۔ وہ فتح پائیں تو متکبر وسرکش نہ ہوں بلکہ ان کے سر خدا کے آگے جھکے ہوئے رہیں۔ وہ حاکم بنیں تو لوگوں کو اپنا غلام نہ بنائیں بلکہ خود بھی خدا کے غلام بن کر رہیں اور دوسروں کو بھی خدا کے سوا کسی کا غلام نہ رہنے دیں۔ وہ زمین کے خزانوں پر قابض ہوں تو اپنی یا اپنے خاندان والوں یا اپنی قوم کے لوگوں کی جیبیں نہ بھرنے لگیں، بلکہ خدا کے رزق کو اس کے بندوں پر انصاف کے ساتھ تقسیم کریں اور ایک سچے امانت دار کی طرح یہ سمجھتے ہوئے کام کریں کہ کوئی آنکھ ہمیں بہر حال دیکھ رہی ہے اور اوپر کوئی ہے جسے ہم کو ایک ایک پائی کا حساب دینا ہے۔ اس تربیت کے لیے ان عبادتوں کے سوا اور کوئی دوسرا طریقہ ممکن ہی نہیں ہے اور جب اسلام اس طرح اپنے آدمیوں کو تیار کر لیتا ہے ، تب وہ ان سے کہتا ہے کہ ہاں، اب تم روے زمین پر خدا کے سب سے زیادہ صالح بندے ہو، لہٰذا آگے بڑھو۔ لڑکر خدا کے باغیوں کو حکومت سے بے دخل کر دو اور خلافت کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لو۔

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰)

اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

اب یہ بات بالکل صاف ہوگئی کہ … دوسرے تمام دینوںکی طرح دین اللہ بھی محض اس بات پر مطمئن نہیں ہو سکتا کہ آپ بس اس کے حق ہونے کو مان لیں اور اپنے اس اعتقاد کی علامت کے طور پر محض رسمی پوجا پاٹ کر لیا کریں۔ کسی دوسرے دین کے ماتحت رہ کر آپ اس دین کی پیروی کر ہی نہیں سکتے۔ کسی دوسرے دین کی شرکت میں بھی اس کی پیروی ناممکن ہے۔ لہٰذا اگر آپ واقعی اس دین کو حق سمجھتے ہیں تو آپ کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس دین کو زمین میں قائم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں اور یا تو اسے قائم کرکے چھوڑیں یا اسی کوشش میں جان دے دیں۔ یہی کسوٹی ہے جس پر آپ کے ایمان و اعتقاد کی صداقت پرکھی جا سکتی ہے۔ آپ کا اعتقاد سچا ہوگا تو آپ کو کسی دوسرے دین کے اندر رہتے ہوئے آرام کی نیند تک نہ آ سکے گی کُجا کہ آپ اُس کی خدمت کریں اور اس خدمت کی روٹی مزے سے کھائیں اور آرام سے پائوں پھیلا کر سوئیں۔ اس دین کو حق مانتے ہوئے تو جو لمحہ بھی آپ پر کسی دوسرے دین کی ماتحتی میں گزرے گا  اس طرح گزرے گا کہ بستر آپ کے لیے کانٹوں کا بستر ہوگا، کھانا زہر اور حنظل کا کھانا ہوگا اور دینِ حق کو قائم کرنے کی کوشش کیے بغیر آپ کو کسی کل چین نہ آسکے گا۔ لیکن اگر آپ کو دین اللہ کے سوا کسی دوسرے دین کے اندر رہنے میں چین آتا ہواور آپ اس حالت پر راضی ہوں تو آپ مومن ہی نہیں ہیں، خواہ آپ کتنی ہی دل لگا لگا کر نمازیں پڑھیں، کتنے ہی لمبے لمبے مراقبے کریں، کتنی ہی قرآن و حدیث کی شرح فرمائیں، اور کتنا ہی اسلام کا فلسفہ بگھاریں…

  •  مومن صادق کی پھچان: جب اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین زمین میں قائم ہو اور کوئی مسلمان اپنے آپ کو اس حالت میں مبتلا پائے، تو اس کے مومن صادق ہونے کی پہچان یہ ہے کہ وہ اُس دینِ باطل کو مٹا کر اس کی جگہ دینِ حق قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے یا نہیں۔ اگر کرتا ہے اور کوشش میں اپنا پورا زور صرف کر دیتا ہے، اپنی جان لڑا دیتا ہے اور ہر طرح کے نقصانات انگیز کیے جاتا ہے تو وہ سچا مومن ہے خواہ اس کی یہ کوششیں کامیاب ہوں یا ناکام۔ لیکن اگر وہ دینِ باطل کے غلبے پر راضی ہے یا اس کو غالب رکھنے میں خود حصہ لے رہا ہے تو وہ اپنے ایمان کے دعوے میں جھوٹا ہے۔(خطبات،ص۲۵۹-۴۷۸) (مرتب: امجد عباسی)

ایمان محض ایک مابعد الطبیعیاتی عقیدہ نہیں ہے بلکہ فی الواقع وہ ایک معاہدہ ہے جس کی رُو سے بندہ اپنا نفس اور اپنا مال خدا کے ہاتھ فروخت کردیتا ہے اور اس کے معاوضے میں خدا کی طرف سے اس وعدے کو قبول کر لیتا ہے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں وہ اسے جنت عطا کرے گا۔ اس اہم مضمون کے تَضَمُّنات [جزئیات] کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس بیع [معاہدہ] کی حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے۔

معاھدے کی نوعیت

جہاں تک اصل حقیقت کا تعلق ہے، اس کے لحاظ سے تو انسان کی جان و مال کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے، کیوںکہ وہی اس کا اور ان ساری چیزوں کا خالق ہے جو اس کے پاس ہیں اور اسی نے وہ سب کچھ اسے بخشا ہے جس پر وہ تصرف کر رہا ہے۔ لہٰذا اس حیثیت سے تو خرید وفروخت کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ نہ انسان کا اپنا کچھ ہے کہ وہ اسے بیچے، نہ کوئی چیز خدا کی ملکیت سے  خارج ہے کہ وہ اسے خریدے۔ لیکن ایک چیز انسان کے اندر ایسی بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کلیتاً اس کے حوالے کر دیا ہے، اور وہ ہے اس کا اختیار، یعنی اس کا اپنے انتخاب و ارادے میں آزاد ہونا (free-will and freedom of choice)۔ اس اختیار کی بنا پر حقیقت نفس الامری تو نہیں بدلتی مگر انسان کو اس امر کی خودمختاری حاصل ہوجاتی ہے کہ چاہے تو حقیقت کو تسلیم کرے ورنہ انکار کردے۔ بالفاظِ دیگر اس اختیار کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انسان فی الحقیقت اپنے نفس کا اور اپنے ذہن و جسم کی قوتوں کا اور ان اقتدارات کا جو اسے دنیا میں حاصل ہیں، مالک ہوگیا ہے اور اسے یہ حق مل گیا ہے کہ ان چیزوں کو جس طرح چاہے استعمال کرے، بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اسے اس امر کی آزادی دے دی گئی ہے کہ خدا کی طرف سے کسی جبر کے بغیر وہ خود ہی اپنی ذات پر اور اپنی ہر چیز پر خدا کے حقوقِ مالکانہ کو تسلیم کرنا چاہے تو کرے ورنہ آپ ہی اپنا مالک بن بیٹھے اور اپنے زعم میں یہ خیال کرے کہ وہ خدا سے بے نیاز ہوکر اپنے حدود اختیار میں اپنے حسب ِ منشا تصرف کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے بیع کا سوال پیدا ہوتا ہے۔

دراصل یہ بیع اس معنی میں نہیں ہے کہ جو چیز انسان کی ہے خدا اسے خریدنا چاہتا ہے، بلکہ اس معاملے کی صحیح نوعیت یہ ہے کہ جوچیز خدا کی ہے، اور جسے اس نے امانت کے طور پر انسان کے حوالے کیا ہے، اور جس میں امین رہنے یا خائن بن جانے کی آزادی اس نے انسان کو دے رکھی ہے، اس کے بارے میں وہ انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ تو برضا و رغبت (نہ کہ بہ مجبوری) میری چیز کو میری ہی چیز مان لے، اور زندگی بھر اس میں خودمختار مالک کی حیثیت سے نہیں بلکہ امین ہونے کی حیثیت سے تصرف کرنا قبول کرلے، اور خیانت کی جو آزادی تجھے میں نے دی ہے اس سے خودبخود دست بردار ہوجا۔ اس طرح اگر دنیا کی موجودہ عارضی زندگی میں اپنی خودمختاری کو (جو تیری حاصل کردہ نہیں بلکہ میری عطا کردہ ہے) میرے ہاتھ فروخت کردے گا تو میں تجھے بعد کی جاودانی زندگی میں اس کی قیمت بصورتِ جنت ادا کروںگا۔ جو انسان خدا کے ساتھ بیع کا یہ معاملہ طے کرلے وہ مومن ہے اور ایمان دراصل اسی بیع کا دوسرا نام ہے، اور جو شخص اس سے انکار کردے، یا اقرار کرنے کے باوجود ایسا رویّہ اختیار کرے جو بیع نہ کرنے کی صورت ہی میں اختیار کیا جاسکتا ہے، وہ کافر ہے اور اس بیع ہی سے گریز کا اصطلاحی نام کفر ہے۔

اللّٰہ سے معاھدے کے تقاضے

بیع کی اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد اب اس کے تَضَمُّنات  کا تجزیہ کیجیے:

۱- اس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو بہت بڑی آزمایشوں میں ڈالا ہے۔ پہلی آزمایش اس امر کی کہ آزاد چھوڑ دیے جانے پر یہ اتنی شرافت دکھاتا ہے یا نہیں کہ مالک ہی کو مالک سمجھے اور نمک حرامی و بغاوت پر نہ اُتر آئے۔ دوسری آزمایش اس امر کی کہ یہ اپنے خدا پر   اتنا اعتماد کرتا ہے یا نہیں کہ جو قیمت آج نقد نہیں مل رہی ہے بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں جس کے ادا کرنے کا خدا کی طرف سے وعدہ ہے، اس کے عوض اپنی آج کی خودمختاری اور اس کے مزے بیچ دینے پر بخوشی راضی ہوجائے۔

۲- دنیا میں جس فقہی قانون پر اسلامی سوسائٹی بنتی ہے اس کی رُو سے تو ایمان بس چند عقائد کے اقرار کا نام ہے جس کے بعد کوئی قاضی شرع کسی کے غیرمومن یا خارج از ملّت ہونے کا حکم نہیں لگاسکتا جب تک اس امر کا کوئی صریح ثبوت اسے نہ مل جائے کہ وہ اپنے اقرار میں جھوٹا ہے۔ لیکن خدا کے ہاں جو ایمان معتبر ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ خیال اور عمل دونوں میں اپنی آزادی و خودمختاری کو خدا کے ہاتھ بیچ دے اور اس کے حق میں اپنے ادعاے ملکیت سے کلیتاً دست بردار ہوجائے۔ پس اگر کوئی شخص کلمۂ اسلام کا اقرار کرتا ہو اور صوم و صلوٰۃ وغیرہ احکام کا بھی پابند ہو لیکن اپنے جسم و جان کا، اپنے دل و دماغ اور بدن کی قوتوں کا، اپنے مال اور وسائل و ذرائع کا، اور اپنے قبضہ و اختیار کی ساری چیزوں کا مالک اپنے آپ ہی کو سمجھتا ہو،اور ان میں اپنے حسب منشا تصرف کرنے کی آزادی اپنے لیے محفوظ رکھتا ہو، تو ہوسکتا ہے کہ دنیا میں وہ مومن سمجھا جاتا رہے مگر خدا کے ہاں یقینا وہ غیر مومن ہی قرار پائے گا، کیوںکہ اس نے خدا کے ساتھ وہ بیع کا معاملہ   سرے سے کیا ہی نہیں جو قرآن کی رُو سے ایمان کی اصل حقیقت ہے۔ جہاں خدا کی مرضی ہو، وہاں جان و مال کھپانے سے دریغ کرنا اور جہاں اس کی مرضی نہ ہو وہاں جان و مال کھپانا، یہ دونوں طرزِعمل ایسے ہیں جو اس بات کا قطعی فیصلہ کردیتے ہیں کہ مدعی ایمان نے یا تو جان و مال کو خدا کے ہاتھ بیچا نہیں ہے، یا بیع کا معاہدہ کرلینے کے بعد بھی وہ بیچی ہوئی چیز کو بدستور اپنی سمجھ رہا ہے۔

۳- ایمان کی یہ حقیقت اسلامی رویۂ زندگی اور کافرانہ رویۂ زندگی کو شروع سے آخر تک بالکل ایک دوسرے سے جدا کردیتی ہے۔ مسلم جو صحیح معنی میں خدا پر ایمان لایا ہو، اپنی زندگی کے ہرشعبے میں خدا کی مرضی کے تابع بن کر کام کرتاہے اور اس کے رویے میں کسی جگہ بھی خودمختاری کا رنگ نہیں آنے پاتا۔ الا یہ کہ عارضی طور پر کسی وقت اس پر غفلت طاری ہوجائے اور وہ خدا کے ساتھ اپنے معاہدۂ بیع کو بھول کر کوئی خودمختارانہ حرکت کربیٹھے۔ اسی طرح جو گروہ، اہلِ ایمان سے مرکب ہو، وہ اجتماعی طور پر بھی کوئی پالیسی، کوئی سیاست، کوئی طرزِ تمدن و تہذیب، کوئی طریق معیشت و معاشرت اور کوئی بین الاقوامی رویہ خدا کی مرضی اور اس کے قانونِ شرعی کی پابندی سے آزاد ہوکر اختیار نہیں کرسکتا اور اگر کسی عارضی غفلت کی بنا پر اختیار کر بھی جائے تو جس وقت اسے تنبُّہ ہوگا اسی وقت وہ آزادی کا رویہ چھوڑ کر بندگی کے رویے کی طرف پلٹ آئے گا۔ خدا سے آزاد ہوکر کام کرنا اور اپنے نفس و متعلقاتِ نفس کے بارے میں خود یہ فیصلہ کرنا کہ ہم کیا کریں اور کیا    نہ کریں، بہرحال ایک کافرانہ رویۂ زندگی ہے، خواہ اس پر چلنے والے لوگ ’مسلمان‘ کے نام سے موسوم ہوں یا ’غیرمسلم‘ کے نام سے۔

۴- اس بیع کی رُو سے خدا کی جس مرضی کا اتباع آدمی پر لازم آتا ہے وہ آدمی کی اپنی تجویز کردہ مرضی نہیں بلکہ وہ مرضی ہے جو خدا خود بتائے۔ اپنے آپ کسی چیز کو خدا کی مرضی ٹھیرالینا، اور اس کا اتباع کرنا خدا کی مرضی کا نہیں بلکہ اپنی ہی مرضی کا اتباع ہے اور یہ معاہدۂ بیع کے قطعی خلاف ہے۔ خدا کے ساتھ اپنے معاہدئہ بیع پر صرف وہی شخص اور وہی گروہ قائم سمجھا جائے گا جو اپنا پورا رویۂ زندگی خدا کی کتاب اور اس کے پیغمبرؐ کی ہدایت سے اخذ کرتا ہو۔

یہ اس بیع کے تضمنات ہیں، اور ان کو سمجھ لینے کے بعد یہ بات بھی خودبخود سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس خریدوفروخت کے معاملے میں بھی قیمت (یعنی جنت) کو موجودہ دنیوی زندگی کے خاتمے پر کیوں مؤخر کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جنت صرف اس اقرار کا معاوضہ نہیں ہے کہ ’’بائع نے اپنا  نفس و مال خدا کے ہاتھ بیچ دیا‘‘، بلکہ وہ اس عمل کا معاوضہ ہے کہ ’’بائع اپنی دنیوی زندگی میں اس بیچی ہوئی چیز پر خود مختارانہ تصرف چھوڑ دے اور خدا کا امین بن کر اس کی مرضی کے مطابق تصرف کرے‘‘۔ لہٰذا یہ فروخت مکمل ہی اس وقت ہوگی ، جب کہ بائع کی دنیوی زندگی ختم ہوجائے اور   فی الواقع یہ ثابت ہو کہ اس نے معاہدئہ بیع کرنے کے بعد سے اپنی دنیوی زندگی کے آخری لمحے تک بیع کی شرائط پوری کی ہیں۔ اس سے پہلے وہ ازروے انصاف قیمت پانے کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص ۲۳۵-۲۳۷)

انسان کی اخلاقی و تمدنی زندگی میں جتنی خرابیاں بھی پیدا ہوتی ہیں ان سب کی بنیادی علّت انسان کا اپنے آپ کو خودمختار (independent) اور غیرذمّہ دار (irresponsible) سمجھنا، بالفاظِ دیگر آپ اپنا الٰہ بننا ہے، یا پھر یہ ہے کہ وہ الٰہ العالمین کے سوا کسی دوسرے کو صاحب ِ امر تسلیم کرے، خواہ وہ دوسرا کوئی انسان ہو یا غیر انسان۔ یہ چیز جب تک جڑ میں موجود ہے اسلامی نظریے کی رُو سے کوئی اُوپری اصلاح، انفرادی بگاڑ یا اجتماعی خرابیوں کو دُور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ایک طرف سے خرابی کو دُور کیا جائے گا اور کسی دوسری طرف سے وہ سر نکال لے گی۔   لہٰذا، اصلاح کا آغاز اگر ہوسکتا ہے تو صرف اِسی چیز سے ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو انسان کے دماغ سے خودمختاری کی ہوا کو نکالا جائے اور اسے بتایا جائے کہ  ُ تو جس دنیا میں رہتا ہے، وہ درحقیقت بے بادشاہ کی سلطنت نہیں ہے، بلکہ فی الواقع اس کا ایک بادشاہ موجود ہے، اور اس کی بادشاہی نہ تیرے تسلیم کرنے کی محتاج ہے، نہ تیرے مٹائے سے مٹ سکتی ہے ، نہ تو اُس کے حدودِ سلطنت سے نکل کر کہیں جاسکتا ہے۔ اِس اَمٹ اور اَٹل واقعے کی موجودگی میں تیرا خودمختاری کا زَعم ایک احمقانہ غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے جس کا نقصان لامحالہ تیرے ہی اُوپر عائد ہوگا۔ عقل اور حقیقت پسندی (realism) کا تقاضا یہ ہے کہ سیدھی طرح اُس کے حکم کے آگے سر جھکا دے اور مطیع بندہ بن کر رہ۔

دوسری طرف اُس کو واقعے کا یہ پہلو بھی دکھا دیا جائے کہ اِس پوری کائنات میں صرف ایک ہی بادشاہ، ایک ہی مالک اور ایک ہی مختارِکار ہے۔ کسی دوسرے کو نہ یہاں حکم چلانے کا حق ہے اور نہ واقع میں کسی کا حکم چلتا ہے۔ اس لیے  ُتو اس کے سوا کسی کا بندہ نہ بن، کسی کا حکم نہ مان،  کسی کے آگے سر نہ جھکا۔ یہاں کوئی ’ہزہائینس‘ نہیں ہے، ’ہائینس‘ صرف ایک ہی کو زیبا ہے۔ یہاں کوئی ’ہزہولی نس‘ نہیں ہے، ’ہولی نس‘ ساری کی ساری اُسی ایک کے لیے خاص ہے۔ یہاں کوئی ’ہزلارڈشپ‘ نہیں ہے، ’لارڈشپ‘ بالکلیہ اسی ایک کا حصہ ہے۔ یہاں کوئی قانون ساز (Law Giver) نہیں ہے، قانون اُسی کا ہے اور وہی قانون بنانے کا حق دار و سزاوار ہے۔ یہاں کوئی سرکار، کوئی اَن داتا، کوئی ولی و کارساز، کوئی دعائیں سننے والا اور فریاد رس نہیں ہے۔ کسی کے پاس اقتدار کی کنجیاں نہیں ہیں۔ کسی کو برتری و فوقیت حاصل نہیں ہے۔ زمین سے آسمان تک سب بند ے ہی بندے ہیں۔ رب اور مولیٰ صرف ایک ہے۔ لہٰذا،  ُتو ہر غلامی، ہر اطاعت، ہر پابندی سے انکار کر دے اور اُسی ایک کا غلام، مطیع اور پابند ِ حکم بن جا۔

یہ تمام اصلاحات کی جڑ اور بنیاد ہے۔ اسی بنیاد پر انفرادی سیرت اور اجتماعی نظام کی پوری عمارت اُدھڑ کر ازسرِنو ایک نئے نقشے پر بنتی ہے اور سارے مسائل جو انسانی زندگی میں آدم ؑ سے لے کر اب تک پیدا ہوئے اور اب سے قیامت تک پیدا ہوں گے، اِسی بنیاد پر ایک نئے طریقے سے حل ہوتے ہیں۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس بنیادی اصلاح کی دعوت کو بغیر کسی سابق تیاری اور بغیر کسی تمہیدی کارروائی کے براہِ راست پیش کر دیا۔ انھوں نے اس دعوت کی منزل تک پہنچنے کے لیے کوئی [ایسا] راستہ اختیار نہ کیا کہ پہلے کچھ سیاسی یا سوشل طرز کا کام کر کے لوگوں میں اثر پیدا کیا جائے، پھر اس اثر سے کام لے کر کچھ حاکمانہ اختیارات حاصل کیے جائیں، پھر ان اختیارات سے کام لے کر رفتہ رفتہ لوگوں کو چلاتے ہوئے اِس مقام تک لے آئیں۔ یہ سب کچھ، کچھ نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک شخص اُٹھا، اور اُس نے لا الٰہ الا اللہ کا اعلان کر دیا۔ اِس سے کم کسی چیز پر ایک لمحے کے لیے بھی اس کی نظر نہ ٹھیری۔ دراصل اسلامی تحریک کا طریق کار ہی یہی ہے۔ وہ اثر یا وہ نفوذ و اقتدار جو دوسرے ذرائع سے پیدا کیا جائے، اِس اصلاح کے کام میں کچھ بھی مددگار نہیں۔ جو لوگ لا الٰہ الا اللہ کے سوا کسی اور بنیاد پر آپ کا ساتھ دیتے رہے ہوں وہ اِس بنیاد پر تعمیرجدید کرنے میں آپ کے کسی کام نہیں آسکتے۔ اِس کام میں تو وہی لوگ مفید ہوسکتے ہیں جو آپ کی طرف لا الٰہ الا اللہ کی آواز سن کر ہی آئیں۔ اِسی چیز میں ان کے لیے کشش ہو، اِسی حقیقت کو وہ زندگی کی بنیاد بنائیں اور اِسی اساس پر وہ کام کرنے کے لیے اُٹھیں۔ لہٰذا ،اسلامی تحریک کو چلانے کے لیے جس خاص قسم کے تدبر اور حکمت عملی کی ضرورت ہے، اس کا تقاضا ہی یہی ہے کہ کسی تمہید کے بغیر کام کا آغاز اِسی دعوتِ توحید سے کیا جائے۔

توحید کا یہ تصور محض ایک مذہبی عقیدہ نہیں ہے، جیساکہ میں ابھی عرض کرچکا ہوں۔    اِس سے اجتماعی زندگی کا وہ پورا نظام جو انسان کی خودمختاری، یا غیراللہ کی حاکمیت و اُلوہیت کی بنیاد پر بناہو، جڑ بنیاد سے اُکھڑ جاتا ہے اور ایک دوسری اساس پر نئی عمارت تیار ہوتی ہے۔ آج دنیا آپ کے مؤذن کو اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ کی صدا بلند کرتے ہوئے اِس لیے ٹھنڈے پیٹوں سن لیتی ہے کہ نہ پکارنے والا جانتا ہے کہ کیا پکا ررہا ہوں، نہ سننے والوں کو اس میں کوئی معنی اور کوئی مقصد نظر آتا ہے، لیکن اگر یہ معلوم ہوجائے کہ اِس اعلان کا مقصد یہ ہے، اور اعلان کرنے والا جان بوجھ کر اِس بات کا اعلان کر رہا ہے کہ میرا کوئی بادشاہ یا فرماں روا نہیں ہے، کوئی حکومت میں تسلیم نہیں کرتا، کسی قانون کو مَیں نہیں مانتا، کسی عدالت کے حدودو اختیارات (jurisdiction) مجھ تک نہیں پہنچتے، کسی کا حکم میرے لیے حکم نہیں ہے، کوئی رواج اور کوئی رسم مجھے تسلیم نہیں، کسی کے امتیازی حقوق، کسی کی ریاست، کسی کا تقدس، کسی کے اختیارات مَیں نہیں مانتا، ایک اللہ کے سوا میں سب کا باغی اور سب سے منحرف ہوں، تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس صدا کو کہیں بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ آپ خواہ کسی سے لڑنے جائیں یا نہ جائیں، دنیا خود آپ سے لڑنے آجائے گی۔ یہ آواز بلند کرتے ہی آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ یکایک زمین و آسمان آپ کے دشمن ہوگئے ہیں اور ہر طرف آپ کے لیے سانپ، بچھو اور درند ے ہی درندے ہیں۔

یہی صورت اُس وقت پیش آئی جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آواز بلند کی۔ پکارنے والے نے جان کر پکارا تھا اور سننے والے سمجھتے تھے کہ کیا پکار رہا ہے، اس لیے جس جس پر جس پہلو سے بھی اِس پکار کی ضرب پڑتی تھی وہ اِس کو دبانے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔ پجاریوں کو اپنی برہمنیت و پاپائیت کا خطرہ اس میں نظر آیا۔ رئیسوں کو اپنی ریاست کا ، ساہوکاروں کو اپنی ساہوکاری کا، نسل پرستوں کو اپنے نسلی تفوق (racial superiority) کا، قوم پرستوں کو اپنی قومیت کا، اجداد پرستوں کو   اپنے باپ دادا کے مورثی طریقے کا، غرض ہر بت کے پرستار کو اپنے بت کے ٹوٹنے کا خطرہ اسی ایک آواز میں محسوس ہوا۔ اس لیے اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَاحِدَۃٌ، وہ سب جو آپس میں لڑا کرتے تھے، اس نئی تحریک سے لڑنے کے لیے ایک ہوگئے۔( تحریکِ آزادیِ ہند اور مسلمان، دوم، ص ۱۷۹-۱۸۲)

ہمارا اپنے آپ کو بندگیِ رب کے حوالے کر دینا اور اس حوالگی و سپردگی میں ہمارا منافق نہ ہونا بلکہ مخلص ہونا اور پھر ہمارا اپنی زندگی کو تناقضات سے پاک کر کے مسلم حنیف بننے کی کوشش کرنا لازمی طور پر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس نظامِ زندگی میں انقلاب چاہیں جو آج کفر، دہریت، شرک، فسق و فجور اور بداخلاقی کی بنیادوں پر چل رہا ہے اور جس کے نقشے بنانے والے مفکرین اور جس کا عملی انتظام کرنے والے مدبرین سب کے سب خدا سے پھرے ہوئے اور اس کی شرائع کے قیود سے نکلے ہوئے لوگ ہیں۔ جب تک زمامِ کار ان لوگوں کے ہاتھ میں رہے گی اور جب تک علوم و فنون، آرٹ اور ادب، تعلیم و تدریس، نشرواشاعت، قانون سازی اور تنفیذ ِ قانون، مالیات، صنعت و حرفت و تجارت،انتظامِ ملکی اور تعلقات بین الاقوامی، ہر چیز کی باگ ڈور یہ لوگ سنبھالے ہوئے رہیں گے، کسی شخص کے لیے دنیا میں مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کرنا اور خدا کی بندگی کو اپناضابطۂ حیات بناکر رہنا نہ صرف عملاً محال ہے بلکہ اپنی آیندہ نسلوں کو اعتقاداً بھی اسلام کا پیرو چھوڑ جانا غیرممکن ہے۔

  • امامت میں تغیر کی ضرورت: اس کے علاوہ صحیح معنوں میں جو شخص بندئہ رب ہو اس پر منجملہ دوسرے فرائض کے ایک اہم ترین فرض یہ بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ خدا کی رضا کے مطابق دنیا کے انتظام کو فساد سے پاک کرے اور صلاح پر قائم کرے۔ اور یہ ظاہر بات ہے کہ یہ مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک کہ زمامِ کار صالحین کے ہاتھ میں نہ ہو۔ فساق و فجار اور خدا کے باغی اور شیطان کے مطیع دنیا کے امام و پیشوا اور منتظم رہیں اور پھر دنیا میں ظلم، فساد، بداخلاقی اور گمراہی کا دور دورہ نہ ہو، یہ عقل اور فطرت کے خلاف ہے، اور آج تجربہ و مشاہدہ سے کالشمس فی النھار ثابت ہوچکا ہے کہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ پس ہمارا مسلم ہونا خود اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم دنیا کے ائمہ ضلالت کی پیشوائی ختم کردینے اور غلبۂ کفر و شرک کو مٹا کر دین حق کو اس کی جگہ قائم کرنے کی سعی کریں۔
  • امامت میں انقلاب کیسے؟ یہ تغیر محض چاہنے سے نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت بہرحال دنیا کا انتظام چاہتی ہے اور دنیا کے انتظام کے لیے کچھ صلاحیتیں اور قوتیں اور صفات درکار ہیں جن کے بغیر کوئی گروہ اس انتظام کو ہاتھ میں لینے اور چلانے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ اگر مومنین صالحین کا ایک منظم جتھا ایسا موجود نہ ہو جو انتظامِ دنیا کو چلانے کی اہلیت رکھتا ہو تو پھر مشیت الٰہی غیرمومن اور غیرصالح لوگوں کو اپنی دنیا کا انتظام سونپ دیتی ہے۔ لیکن اگر کوئی گروہ ایسا موجود ہو جو ایمان بھی رکھتا ہو، صالح بھی ہو اور ان صفات اور صلاحیتوں اور قوتوں میں بھی کفار سے بڑھ جائے جو دنیا کا انتظام چلانے کے لیے ضروری ہیں، تو مشیت الٰہی نہ ظالم ہے اور نہ فساد پسند کہ پھر بھی اپنی دنیا کا انتظام فساق و فجار اور کفار ہی کے ہاتھ میں رہنے دے۔

پس ہماری دعوت صرف اسی حد تک نہیں ہے کہ دنیا کی زمامِ کار فساق و فجار کے ہاتھ سے نکل کر مومنین صالحین کے ہاتھ میں آئے، بلکہ ایجاباً ہماری دعوت یہ ہے کہ اہلِ صلاح کا ایک ایسا گروہ منظم کیا جائے جو نہ صرف اپنے ایمان میں پختہ، نہ صرف اپنے اسلام میں مخلص و یک رنگ اور نہ صرف اپنے اخلاق میں صالح و پاکیزہ ہو بلکہ اس کے ساتھ ان تمام اوصاف اور قابلیتوں سے بھی آراستہ ہو جو دنیا کی کارگاہِ حیات کو بہترین طریقے پر چلانے کے لیے ضروری ہیں،اور صرف آراستہ ہی نہ ہو بلکہ موجودہ کارفرمائوں اور کارکنوں سے ان اوصاف اور قابلیتوں میں اپنے آپ کو فائق ثابت کردے۔ (دعوت اسلامی اور اس کا طریق کار، ص ۱۵-۱۷)

  • صالح گروہ کی تنظیم: ہم دراصل ایک ایسا گروہ تیار کرنا چاہتے ہیں جو ایک طرف زُہد و تقویٰ میں اصطلاحی زاہدوں اور متقیوں سے بڑھ کر ہو اور دوسری طرف دنیا کے انتظام کو چلانے کی قابلیت و صلاحیت بھی عام دنیاداروں سے زیادہ اور بہتر رکھتا ہو۔ ہمارے نزدیک دنیا کی تمام خرابیوں کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ نیک لوگ نیکی کے صحیح مفہوم سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے گوشہ گیر ہوکر بیٹھ جاتے ہیں اور دنیا کے کاروبار اُن بُرے لوگوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیتے ہیں جن کی زبان پر نیکی کا نام اگر آتا بھی ہے تو خلقِ خدا کو دھوکا دینے کے لیے آتا ہے۔ اس خرابی کا علاج صرف یہی ہے کہ صالحین کی ایک جماعت منظم کی جائے جو خدا ترس بھی ہو، راست باز اور دیانت دار بھی ہو، خدا کے پسندیدہ اخلاق و اوصاف سے بھی آراستہ ہو اور اس کے ساتھ دنیا کے معاملات کو دنیاداروں سے زیادہ اچھی طرح سمجھے اور خود دنیاداری ہی میں اپنی مہارت اور قابلیت سے ان کو شکست دے سکے۔

ہمارے نزدیک اس سے بڑا اور کوئی سیاسی کام نہیں ہوسکتا اور نہ اس سے زیادہ کامیاب سیاسی تحریک اور کوئی ہوسکتی ہے کہ ایسے ایک صالح گروہ کو منظم کرلیا جائے۔ بداخلاق اور بے اصول لوگوں کے لیے دنیا کی چراگاہ میں بس اُسی وقت تک چرچُگ لینے کی مہلت ہے جب تک ایسا گروہ تیار نہیں ہوجاتا۔ جب ایسا گروہ تیار ہوجائے گا تو آپ یقین رکھیے کہ نہ صرف آپ کے اس ملک کی بلکہ بتدریج ساری دنیا کی سیاست، معیشت، مالیات، علوم و آداب اور عدل و انصاف کی باگیں اسی کے ہاتھ میں آجائیں گی اور فساق و فجار کا چراغ ان کے آگے نہ جل سکے گا۔ یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ انقلاب کس طرح رُونما ہوگا لیکن جتنا مجھے کل سورج کے طلوع ہونے کا یقین ہے اتنا ہی اس بات کا یقین بھی ہے کہ یہ انقلاب بہرحال رُونما ہوکر رہے گا بشرطیکہ ہمیں صالحین کے ایسے گروہ کو منظم کرنے میں کامیابی ہوجائے.... (رُوداد جماعت اسلامی، حصہ دوم،ص ۵۲-۵۳)

  • صالح عنصر کو منظم کرنا:اس تاریکی میں ہمارے لیے اُمید کی ایک ہی شعاع ہے اور وہ یہ ہے کہ ہماری پوری آبادی بگڑ کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ اس میں کم از کم ۴،۵ فی صد لوگ ایسے ضرور موجود ہیں جو اس عام بداخلاقی سے بچے ہوئے ہیں۔ یہ وہ سرمایہ ہے جس کو اصلاح کی ابتدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اصلاح کی راہ میں پہلا قدم یہ ہے کہ اس صالح عنصر کو چھانٹ کر منظم کیا جائے....

ہمارے ہاں بدی تو منظم ہے اور پوری باقاعدگی کے ساتھ اپنا کام کر رہی ہے لیکن نیکی منظم نہیں ہے… یہ حالت اب ختم ہونی چاہیے۔ اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک خدا کے عذاب میں مبتلا ہو اور اس عذاب میں نیک و بد سب گرفتار ہوجائیں، تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے اندر جو صالح عناصر اس اخلاقی وبا سے بچے رہ گئے ہیں وہ اب مجتمع اور منظم ہوں اور اجتماعی طاقت سے اس بڑھتے ہوئے فتنے کا مقابلہ کریں جو تیزی کے ساتھ ہمیں تباہی کی طرف لیے جا رہا ہے۔

آپ اس سے نہ گھبرائیں کہ یہ صالح عنصر اس وقت بظاہر بہت ہی مایوس کن اقلیت میں ہے۔ یہی تھوڑے سے لوگ اگر منظم ہوجائیں، اگر ان کا اپنا ذاتی اور اجتماعی رویہ خالص راستی، انصاف، حق پسندی اور خلوص و دیانت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو اور اگر وہ مسائلِ زندگی کا ایک بہتر حل، اور دنیا کے معاملات کو درست طریقے پر چلانے کے لیے ایک اچھا پروگرام بھی رکھتے ہوں، تو یقین جانیے کہ اس منظم نیکی کے مقابلے میں منظم بدی اپنے لشکروں کی کثرت اور اپنے گندے ہتھیاروں کی تیزی کے باوجود شکست کھاکر رہے گی۔ انسانی فطرت شرپسند نہیں ہے۔ اسے دھوکا ضرور دیا جاسکتا ہے اور ایک بڑی حد تک مسخ بھی کیا جاسکتا ہے مگر اس کے اندر بھلائی کی قدر کا جو مادہ خالق نے ودیعت کردیا ہے، اسے بالکل معدوم نہیں کیا جاسکتا....

اگر خیر کے علَم بردار سرے سے میدان میں آئیں ہی نہیں اور ان کی طرف سے عوام الناس کو بھلائی کی راہ پر چلانے کی کوئی کوشش ہی نہ ہو تو لامحالہ میدان علم برادرانِ شر ہی کے ہاتھ رہے گا اور وہ عام انسانوں کو اپنی راہ پر کھینچ لے جائیں گے۔ لیکن اگر خیر کے علَم بردار بھی میدان میں ہوں اور وہ اصلاح کی کوشش کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کریں تو عوام الناس پر علَم بردارانِ شر کا اثر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ ان دونوں کا مقابلہ آخرکار اخلاق کے میدان میں ہوگا اور اس میدان میں نیک انسانوں کو بُرے انسان کبھی شکست نہیں دے سکتے۔ سچائی کے مقابلے میں جھوٹ، ایمان داری کے مقابلے میںبے ایمانی اور پاک بازی کے مقابلے میں بدکرداری خواہ کتنا ہی زور لگائے آخری جیت بہرحال سچائی، پاک بازی اور ایمان داری ہی کی ہوگی۔ دنیا اس قدر بے حس نہیں ہے کہ اچھے اخلاق کی مٹھاس اور بُرے اخلاق کی تلخی کو چکھ لینے کے بعد آخرکار اس کا فیصلہ یہی ہو کہ مٹھاس سے تلخی زیادہ بہتر ہے‘‘۔ (جماعت اسلامی کا مقصد، تاریخ اور لائحہ عمل، ص ۳۵-۳۷)

  •  منزل کے قریب: پچھلے ۳۰، ۴۰ سال کے دوران اسلامی خیالات کی اشاعت کا کام جتنے بڑے پیمانے پر ہوا ہے اور وہ صرف میں نے ہی نہیں کیا ہے، دوسرے لوگوں نے بھی کیا ہے، اس کے نتیجے میں ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت اب اسلام کی خواہاں ہوگئی ہے۔ اگرچہ اس کے اخلاق بالکل اسلامی تعلیم کے مطابق نہیں ہوسکے لیکن اس میں اسلام کی سمجھ اور اسلامی نظام قائم کرنے کی تڑپ ضرور پیدا ہوگئی ہے۔ ہماری جو درس گاہیں لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم پر قائم تھیں، خدا کے فضل سے انھی میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی پیدا ہوگئی ہے جو اسلام سے گہری قلبی عقیدت بھی رکھتی ہے اور اسلام کا فہم بھی بڑی حد تک اس کو حاصل ہوچکا ہے۔ اب ہمارے سامنے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری عام آبادی جو اَن پڑھ ہے، اس کے اندر کس طرح اسلام کے علم و فہم کو پھیلایا جائے۔ چونکہ راے دہندگان کی اکثریت اَن پڑھ ہے، اس لیے تعلیم یافتہ لوگوں کی ۱۰۰ فی صد تعداد بھی اگر صحیح کرنا چاہے تو وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
  •  تعلیم یافتہ لوگوں کی ذمہ داری: اس مرحلے پر میرے نزدیک یہ ضروری ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان اور علماے کرام شہروں، قصبوں اور دیہات کی اَن پڑھ آبادیوں میں دین اسلام کی واقفیت پیدا کرنے میں لگ جائیں۔ اس کے لیے لوگوں کا خواندہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ حضوؐر کے زمانے میں کتابوں کے ذریعے سے دین نہیں پھیلا تھا، زبانی تلقین سے پھیلا تھا۔ اب بھی یہ ضروری نہیں کہ ہم ان سب کو پہلے پڑھا لکھا بنائیں، پھر انھیں دین سمجھائیں۔ عہدِرسالتؐ کی طرح آج بھی عام لوگوں کو زبانی تعلیم سے دین سمجھایا جاسکتا ہے۔ اسلام کے عقائد اور اُصولِ اخلاق سے انھیں آگاہ کیا جاسکتا ہے۔ فرائض اور ارکانِ دین کی اہمیت ان کے ذہن نشین کی جاسکتی ہے۔ حرام و حلال کی تمیز ان میں پیدا کی جاسکتی ہے۔ بڑے بڑے گناہوں کے عذاب کا خوف ان کے دلوں میں بٹھایا جاسکتا ہے۔ نیکیوں کے اجر کی رغبت انھیں دلائی جاسکتی ہے۔ قرآن کی آیات اور رسولؐ اللہ کی احادیث جنھوں نے عرب کی دنیا بدل ڈالی تھی، آج بھی اپنا معجزنما اثر دکھا سکتی ہیں، بشرطیکہ ہم ان سے اصلاحِ معاشرہ کا کام لینا چاہیں۔
  •  جواب دھی کا احساس: بڑی اہمیت اس بات کی ہے کہ قرآن اور حدیث کی صاف صاف تعلیمات پیش کر کے ہم لوگوں کے دلوں میں یہ یقین پیدا کریں کہ تم سب کی نگاہوں سے چھپ سکتے ہو، مگر خدا سے نہیں چھپ سکتے۔ سب کی سزا سے بچ سکتے ہو مگر خدا کی سزا سے نہیں بچ سکتے۔ تمھارا پورا پورا اعمال نامہ تیار ہورہا ہے۔ ایک دن تمھیں یقینا مرنا ہے اور قیامت کے روز خدا کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ تم نماز ترک کردو، رمضان میں علانیہ کھاپی کر خداکے دین کی توہین کرتے رہو، بے باکی کے ساتھ گناہوں کی گندگی میں لَت پت ہوجائو، لوگوں کے حقوق مار کر خدا کے سامنے جائو، لوگوں کی عزت و آبرو لُوٹ کر اپنے رب کے حضور پیش ہو، لوگوں کی جانیں لے کر وہاں جائو، اور پھر اللہ کی عدالت سے چھوٹ جائو۔ اس دنیا میں تم چال بازیاں کرکے بچ سکتے ہو، خدا کی گرفت سے کیسے بچو گے۔ یہ چیزیں آپ عام لوگوں کے دماغ میں بٹھائیں تو  رفتہ رفتہ آپ دیکھیں گے کہ ہماری عام آبادی کے اندر صحیح سمجھ بوجھ اور اخلاقی حس پیدا ہوجائے گی۔
  •  اسلامی شعور کی بیداری: [پھر] جب لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اب ہمیں اپنے ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا ہے تو انتخابات کے موقعے پر وہ خود ہی سوچیں گے کہ اس کام کے لیے کیسے لوگوں کو آگے لائیں۔ عام لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ وہ بیمار ہوں تو کس ڈاکٹر کے پاس جائیں۔ اس بات کو جانتے ہیں کہ کوئی مقدمہ پیش آجائے تو کس وکیل کے پاس جائیں۔ اسی طرح جب آپ لوگوں میں اسلام کا شعور اور سمجھ پیدا کردیں گے تو وہ خود ہی دیکھ لیں گے کہ اسلامی نظام چلانے کے لیے وہ کن لوگوں کو منتخب کریں۔ پہلی بار اگر وہ کچھ غلطی کر بھی جائیں گے تو ان شاء اللہ دوسری مرتبہ نہ کریں گے، بشرطیکہ تعلیمِ عوام کا عمل برابر جاری رہے، اور حکمران اسلام سے ہٹ کر جو کام بھی کریں، اس پر معقول و مدلل تنقید کی جاتی رہے۔ بالفرض اگر غلط آدمیوں کی اکثریت منتخب ہوجائے اور وہ دوسرا انتخاب ناجائز ذریعے سے جیتنے کی کوشش کریں تو انھیں [مزاحمتی] تحریک کا سامنا کرنا ہوگا۔ (نبی اکرمؐ کا نظامِ حکومت اور پاکستان میں اس کا نفاذ، ص ۲۳-۲۵)
  • انتخابی حکمتِ عملی: جماعت کے اثرات سارے ملک میں یکساں نہیں ہیں۔ کچھ حلقے ایسے ہیں جن میں ہم اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ براہِ راست خود اپنے انتخابی نظام کے تجویز کردہ آدمیوں کو کامیاب کرالینا ہمارے لیے ممکن ہے۔ لیکن بہت سے حلقے ایسے بھی ہیں جن میں ہماری طاقت اس پیمانے کی تو نہیں ہے، البتہ اتنی ضرور ہے کہ ہماری تائید کسی اچھے اور مفید آدمی کی کامیابی کے لیے اور ہماری مخالفت کسی بُرے آدمی کو روکنے کے لیے مؤثر ہوسکتی ہے۔ ایسے حلقوں میں اپنی اس طاقت کو معطل رکھنا اور اسے کسی مصرف میں نہ لانا کوئی دانش مندی نہیں ہے۔

تیسرا رُخ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جماعت اسلامی سے باہر بھی ایسے گروہ اور افراد موجود ہیں جو لادینی کے مخالف اور دینی نظام کے حامی ہیں۔ ہماری پہلے بھی یہ خواہش اور کوشش رہی ہے اور اب بھی یہ ہونی چاہیے کہ لادینی کی حامی طاقتوں کے مقابلے میں ان تمام عناصر کے درمیان اتفاق اور باہمی تعاون ہو اور ان کی قوتیں ایک دوسرے کی مزاحمت میں صرف ہوکر مخالف دین عناصر کے لیے مددگار نہ بنیں۔ یہی کوشش ہمیں آیندہ انتخابات میں بھی کرنی ہے تاکہ آیندہ اسمبلیوں میں اسلامی نقطۂ نظر کی وکالت کرنے کے لیے ہماری پارلیمنٹری پارٹی تنہا نہ ہو بلکہ ایک اچھی خاصی تعداد دوسرے ایسے لوگوں کی بھی موجود رہے جو اس خدمت میں اس کا ساتھ دینے والے ہوں۔ اس لیے ہم دل سے یہ چاہیں گے کہ جن حلقوں میں ہم براہِ راست انتخابی مقابلہ نہیں کر رہے ہیں وہاں ہماری طاقت بے کار ضائع ہونے کے بجاے کسی حامی دین گروہ یا فرد کے حق میں استعمال ہو، بلکہ ہم اس حد تک بھی جائیں گے کہ جہاں ایسا کوئی گروہ یا فرد نہیں اُٹھ رہا ہے وہاں کسی نیک اور موزوں آدمی کو خود اُٹھنے کا مشورہ دیں اور اپنی تائید سے اس کو کامیاب کرانے کی کوشش کریں ، بشرطیکہ اس کے اپنے اثرات بھی اس کے حلقے میں کافی ہوں ....

حالات کے ان تینوں پہلوئوں کو نگاہ میں رکھ کر جب آپ غور کریں گے تو آپ کو پوری طرح اطمینان ہوجائے گا کہ اس قرارداد کی تجویز کردہ انتخابی پالیسی میں بلاواسطہ کے ساتھ بالواسطہ کی گنجایش ٹھیک رکھی گئی ہے۔ یہ دراصل ایک خلا تھا جو ہماری سابق پالیسی میں پایا جاتا تھا۔ تجربے اور حالات کے مشاہدے نے ہم کو یہ احساس دلایا کہ اس کو بھرنا حکمت کا تقاضا ہے۔ میرے نزدیک کوئی گروہ اسی زمانے میں نہیں، کسی زمانے میں بھی جاہلیت سے لڑ کر اسلامی نظامِ زندگی قائم کرنے کے قابل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ تجربات سے سبق سیکھ کر اور حالات کو سمجھ کر اپنی پالیسیوں میں ایسا ردّ وبدل نہ کرتا رہے جس کی حدودِ شرع کے اندر گنجایش ہو۔ آپ کو اگر فی الواقع یہ کام کرنا ہے اور صرف تبلیغ کا فرض انجام دے کر نہیں رہ جانا ہے تو اپنے اُوپر ان پابندیوں کو کافی سمجھیے جو خدا اور رسولؐ کی شریعت نے آپ پر عائد کی ہیں اور اپنی طرف سے کچھ زائد پابندیاں عائد نہ کرلیجیے۔شریعت پالیسی کے جن تغیرات کی وسعت عطا کرتی ہو اور عملی ضروریات جن کی متقاضی بھی ہوں، ان سے صرف اس بنا پر اجتناب کرنا کہ پہلے ہم اس سے مختلف کوئی پالیسی بناچکے ہیں، ایک بے جا جمود ہے۔ اس جمود کو اختیار کر کے آپ ’اصول پرستی‘کا فخر کرنا چاہیں تو کرلیں، مگر یہ حصولِ مقصد کی راہ میں چٹان بن کر کھڑا ہوجائے گا اور اس چٹان کو کھڑا کرنے کے لیے آپ خود ذمہ دار ہوں گے، کیوں کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے اسے کھڑا نہیں کیا ہے‘‘۔(تحریکِ اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل، ص ۱۵۶-۱۵۸)۔ (ترتیب: امجد عباسی)