اُمت وسط ہونے کی حیثیت سے فریضہ اقامت دین اور شہادتِ حق اُمت مسلمہ کا بنیادی فریضہ ہے جو جماعت دعوتِ دین اور مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے اُٹھے‘ اسے کن ناگزیر صفات سے متصف ہونا چاہیے؟ (ادارہ)
سب سے پہلی صفت جس پر زور دیا گیا ہے‘ صبر ہے۔ صبر کے بغیر خدا کی راہ میں کیا کسی راہ میں بھی مجاہدہ نہیں ہو سکتا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ خدا کی راہ میں اور قسم کا صبر مطلوب ہے اور دنیا کے لیے مجاہدہ کرتے ہوئے اور قسم کا صبر درکار ہے‘ مگر بہرحال صبر ہے ناگزیر۔ صبر کے بہت سے پہلو ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ جلدبازی سے شدید اجتناب کیا جائے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ کسی راہ میں جدوجہد کرتے ہوئے دشواریوں اور مخالفتوں اور مزاحمتوں کے مقابلے میں استقامت دکھائی جائے اور قدم پیچھے نہ ہٹایا جائے۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ کوششوں کا کوئی نتیجہ اگر جلدی حاصل نہ ہو‘ تب بھی ہمت نہ ہاری جائے اور پیہم سعی جاری رکھی جائے۔ ایک اور پہلو یہ ہے کہ مقصد کی راہ میں بڑے سے بڑے خطرات‘ نقصانات اور خوف و طمع کے مواقع بھی اگر پیش آجائیں تو قدم کو لغزش نہ ہونے پائے۔ اور یہ بھی صبر ہی کا ایک شعبہ ہے کہ اشتعال انگیز جذبات کے سخت سے سخت مواقع پر بھی آدمی اپنے ذہن کا توازن نہ کھوئے‘ جذبات سے مغلوب ہوکر کوئی قدم نہ اٹھائے‘ ہمیشہ سکون‘ صحت‘ عقل اور ٹھنڈی قوتِ فیصلہ کے ساتھ کام کرے۔
پھر حکم صرف صبر ہی کا نہیں مصابرت کا بھی ہے‘ یعنی مخالف طاقتیں اپنے باطل مقاصد کے لیے جس صبر کے ساتھ ڈٹ کر سعی کر رہی ہیں‘ اسی صبر کے ساتھ آپ بھی ڈٹ کر ان کا مقابلہ کریں۔ اسی لیے اصبروا کے ساتھ وصابروا کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ جن لوگوں کے مقابلے میں آپ حق کی علم برداری کے لیے اٹھنے کا داعیہ رکھتے ہیں ان کے صبر کا اپنے صبر سے موازنہ کیجیے اور سوچیے کہ آپ کے صبر کا کیاتناسب ہے؟ شاید ہم ان کے مقابلے میں ۱۰ فی صدی کا دعویٰ کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ باطل کے غلبے کے لیے جو صبر وہ دکھا رہے ہیں اس کا اندازہ کرنے کے لیے موجودہ جنگ [جنگ عظیم دوم] کے حالات پر نظر ڈالیے۔ کس طرح وقت آپڑنے پر ان لوگوں نے اپنے ان کارخانوں‘ شہروں اور ریلوے سٹیشنوں کو اپنے ہاتھوں سے پھونک ڈالا جن کی تعمیر و تیاری میں سالوں کی محنتیں اور بے شمار روپیہ صرف کیا گیا تھا۔ یہ ان ٹینکوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوجاتے ہیں جو فوجوں کو اپنے آہنی پہیوں تلے کچل ڈالتے ہیں۔ یہ دشمن کے ان بم بار طیاروں کے سائے میں استقامت سے کھڑے رہتے ہیں جو موت کے پر لگا کر اُڑتے ہیں۔ جب تک ان کے مقابلے میں ہمارا صبر ۱۰۵ فی صدی کے تناسب پر نہ پہنچ جائے ان سے کوئی ٹکر لینے کی جرأت نہیں کی جا سکتی۔ جب سروسامان کے لحاظ سے ہم ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے تو پھر سروسامان کی کمی کو صبر ہی سے پورا کیا جا سکتا ہے۔
دوسری چیز جو مجاہدہ کا لازمہ ہے ‘ ایثار کی صفت ہے۔ وقت کا ایثار‘ محنتوں کا ایثار اور مال کا ایثار۔ ایثار کے اعتبار سے بھی باطل کا جھنڈا اٹھانے والی طاقتوں کے مقابلے میں ہم بہت ہی پیچھے ہیں۔ حالانکہ بے سروسامانی کی تلافی کے لیے ہمیں ایثار میں بھی ان سے میلوں آگے ہونا چاہیے۔ مگر یہاں صورت واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص بیس‘ پچاس‘ سو اورہزار روپے ماہانہ تنخواہ کے عوض اپنی پوری صلاحیتیں خود اپنے دشمن کے ہاتھ بیچ دیتا ہے اور اس طرح ہماری قوم کا کارآمد جوہر بیکار ہوجاتا ہے۔ یہ دماغی صلاحیتیں رکھنے والا طبقہ اتنی ہمت نہیں رکھتا کہ ایک بڑی آمدنی کو چھوڑ کریہاں محض بقدر ضرورت قلیل معاوضے پر اپنی خدمات پیش کر دے۔ پھر فرمایئے کہ اگر یہ لوگ اتنا ایثار بھی نہ کریں گے اور اس راہ میں پتہ مار کر کام نہ کریں گے تو پھر اسلامی تحریک کیسے پھل پھول سکتی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی تحریک محض والنٹیروں کے بَل پر نہیں چل سکتی۔
جماعتی نظم میں والنٹیروں کو اُسی درجے کی اہمیت حاصل ہے جیسی ایک آدمی کے نظامِ جسمانی میں ہاتھ اور پائوں کو ہے۔ یہ ہاتھ اور پائوں اور دوسرے اعضا کس کام کے ہوسکتے ہیں‘ اگر ان سے کام لینے کے لیے دھڑکنے والے دل اور سوچنے والے دماغ موجود نہ ہوں۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں والنٹیروں سے کام لینے کے لیے اعلیٰ درجے کے جنرل چاہییں۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ جن کے پاس دل اور دماغ کی قوتیں ہیں وہ دنیوی ترقیوں کے دل دادہ ہیں اور مارکیٹ میں اسی کی طرف جاتے ہیں جوزیادہ قیمت پیش کرے۔ نصب العین سے ہماری قوم کے بہترین افراد کی وابستگی ابھی اس درجے کی نہیں ہے کہ وہ اس کی خاطر اپنے منافع کو بلکہ منافع کے امکانات تک کو قربان کرسکیں۔ اس ایثار کو لے کر اگر آپ یہ توقع کریں کہ وہ مفسدین عالم جو روزانہ کروڑوں روپیہ اور لاکھوں جانوں کا ایثار کر رہے ہیں‘ ہم سے کبھی شکست کھاسکتے ہیں تو یہ چھوٹا منہ بڑی بات ہے۔
مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے تیسری صفت دل کی لگن ہے۔ محض دماغی طور پر ہی کسی شخص کا اس تحریک کو سمجھ لینا اور اس پر صرف عقلاً مطمئن ہوجانا‘ یہ اس راہ میں اقدام کے لیے صرف ایک ابتدائی قدم ہے۔ لیکن اتنے سے تاثر سے کام چل نہیں سکتا۔ یہاں تو اس کی ضرورت ہے کہ دل میں ایک آگ بھڑک اُٹھے۔ زیادہ نہیں تو کم از کم اتنی آگ تو شعلہ زن ہو جانی چاہیے جتنی اپنے بچے کو بیمار دیکھ کر ہوجاتی ہے اور آپ کو کھینچ کر ڈاکٹر کے پاس لے جاتی ہے‘ یا اتنی جتنی گھر میں غلہ نہ پاکر بھڑکتی ہے اور آدمی کو تگ و دو پر مجبور کر دیتی ہے اور چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔ سینوں میں وہ جذبہ ہونا چاہیے جو ہر وقت آپ کو اپنے نصب العین کی دُھن میں لگائے رکھے‘ دل و دماغ کو یکسو کر دے اور توجہات کو اس کام پر ایسا مرکوز کردے کہ اگر ذاتی یا خانگی یا دوسرے غیرمتعلق معاملات کبھی آپ کی توجہ کو اپنی طرف کھینچیں بھی تو آپ سخت ناگواری کے ساتھ ان کی طرف کھینچیں۔ کوشش کیجیے کہ اپنی ذات کے لیے آپ قوت اور وقت کا کم سے کم حصہ صرف کریں اور آپ کی زیادہ سے زیادہ جدوجہد اپنے مقصدحیات کے لیے ہو۔
جب تک یہ دل کی لگن نہ ہوگی اور آپ ہمہ تن اپنے آپ کو اس کام میں جھونک نہ دیں گے‘ محض زبانی جمع خرچ سے کچھ نہ بنے گا۔ بیش تر لوگ دماغی طور پر ہمارا ساتھ دینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں لیکن کم لوگ ایسے ملتے ہیں جو دل کی لگن کے ساتھ تن من دھن سے اس کام میں شریک ہوں۔ میرے ایک قریبی رفیق نے جن سے میرے ذاتی اور جماعتی تعلقات بہت گہرے ہیں‘حال ہی میں دو برس کی رفاقت کے بعد مجھ سے یہ اعتراف کیا کہ اب تک میں محض دماغی اطمینان کی بنا پر شریکِ جماعت تھا مگر اب یہ چیز دل میں اُتر گئی ہے اور اس نے نہاں خانۂ روح پر قبضہ جما لیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر شخص اسی طرح اپنے اُوپر خود تنقید کر کے دیکھے کہ کیا ابھی تک وہ اس جماعت کا محض ایک دماغی رکن ہے یا اس کے دل میں مقصد کے عشق کی آگ مشتعل ہوچکی ہے۔ پھر اگر دل کی لگن اپنے اندر نہ محسوس ہو تو اسے پیدا کرنے کی فکر کی جائے۔ جہاں دل کی لگن ہوتی ہے وہاں کسی ٹھیلنے اور اُکسانے والے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس وقت کے ہوتے ہوئے یہ صورت حال کبھی پیدا نہیں ہو سکتی کہ اگر کہیں جماعت کا ایک رکن پیچھے ہٹ گیا یا نقل مقام پر مجبور ہوگیا تو وہاں کا سارا کام ہی چوپٹ ہوگیا۔ بخلاف اس کے پھر تو ہر شخص اس طرح کام کرے گا جس طرح وہ اپنے کو بیمار پاکر کیا کرتا ہے۔
خدانخواستہ اگر آپ کا بچہ بیمار ہو تو آپ اس کی زندگی و موت کے سوال کو بالکلیہ کسی دوسرے پر ہرگز نہیں چھوڑ سکتے۔ ممکن نہیں کہ آپ یہ عذر کر کے اس کے حال پر چھوڑ بیٹھیں کہ کوئی تیماردار نہیں‘ کوئی دوا لانے والا نہیں‘ کوئی ڈاکٹر کے پاس جانے والا نہیں۔ اگر کوئی نہ ہو تو آپ خود سب کچھ بنیں گے کیونکہ بچہ کسی دوسرے کا نہیں آپ کا اپنا ہے۔ سوتیلا باپ تو بچے کو مرنے کے لیے چھوڑ بھی سکتا ہے مگر حقیقی باپ اپنے جگر کے ٹکڑے کو کیسے چھوڑ دے گا۔ اس کے تو دل میں آگ لگی ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کام سے بھی اگر آپ کا قلبی تعلق ہو تو اس کو آپ دوسروں پر نہیں چھوڑ سکتے اور نہ یہ ممکن ہے کہ کسی دوسرے کی نااہلی‘ یا غلط روی یا بے توجہی کو بہانہ بناکر آپ اسے مر جانے دیں اور اپنے دوسرے مشاغل میں جاکر منہمک ہوجائیں۔ یہ سب باتیں اس بات کا پتا دیتی ہیں کہ خدا کے دین اور اس کی اقامت و سربلندی کے مقصد سے آپ کا رشتہ محض ایک سوتیلا رشتہ ہے۔ حقیقی رشتہ ہو تو آپ میں سے ہر شخص اس راہ میں اپنی جان لڑا کر کام کرے۔ میں آپ سے صاف کہتا ہوں کہ اگر آپ اس راہ میں کم از کم اتنے قلبی لگائو کے بغیر قدم بڑھائیں گے جتنا آپ اپنے بیوی بچوں سے رکھتے ہیں توا نجام پسپائی کے سوا کچھ نہ ہوگا اور یہ ایسی بری پسپائی ہوگی کہ مدتوں تک ہماری نسلیں اس تحریک کا نام لینے کی جرأت بھی نہ کرسکیں گی۔ بڑے بڑے اقدامات کا نام لینے سے پہلے اپنی قوتِ قلب کا اور اپنی اخلاقی طاقت کا جائزہ لیجیے اور مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے جس دل گردے کی ضرورت ہے وہ اپنے اندر پیدا کیجیے۔
چوتھی ضروری صفت اس راہ میں یہ ہے کہ ہمیں مسلسل اور پیہم سعی اور منضبط (systematic) طریقے سے کام کرنے کی عادت ہو۔ ایک مدت دراز سے ہماری قوم اس طریق کار کی عادی رہی ہے کہ جو کام ہو‘ کم سے کم وقت میں ہوجائے۔ جو قدم اٹھایا جائے‘ ہنگامہ آرائی اس میں ضرور ہو‘ چاہے مہینہ دو مہینہ میں سب کیا کرایا غارت ہوکے رہ جائے۔ اس عادت کو ہمیں بدلنا ہے۔ اس کی جگہ بتدریج اور بے ہنگامہ کام کرنے کی مشق ہونی چاہیے۔ چھوٹے سے چھوٹا کام بھی‘ جو بجاے خود ضروری ہو‘ اگر آپ کے سپرد کر دیا جائے تو بغیر کسی نمایاں اور معجل نتیجہ کے اور بغیر کسی داد کے آپ اپنی پوری عمرصبر کے ساتھ اسی کام میں کھپا دیں۔ مجاہدہ فی سبیل اللہ میں ہر وقت میدان گرم ہی نہیں رہا کرتا ہے اور نہ ہر شخص اگلی ہی صفوں میں لڑسکتا ہے۔ ایک وقت کی میدان آرائی کے لیے بسااوقات پچیس پچیس سال تک لگاتار خاموش تیاری کرنی پڑتی ہے اور اگلی صفوں میں اگر ہزاروں آدمی لڑتے ہیں تو ان کے پیچھے لاکھوں آدمی جنگی ضروریات کے ان چھوٹے چھوٹے کاموں میں لگے رہتے ہیں جو ظاہر بین نظر میں بہت حقیر ہوتے ہیں۔ (رُوداد جماعت اسلامی‘ دوم‘ ص ۳۲-۳۶)
آزادی کا لفظ جب ہماری زبان پر آتا ہے تو ہمارا ذہن فوراً سیاسی اِستقلال اور اجنبی تسلُّط سے آزادی کی جانب منتقل ہوجاتا ہے۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سیاسی آزادی بھی اللہ تعالیٰ کی ایک خاص نعمت ہے جس کی اسلام کی نگاہ میں بہت بڑی اہمیت ہے‘ کیونکہ اسلام جس نظریۂ حیات اور جس نظامِ زندگی کو دنیا میں برپا کرنا چاہتا ہے‘ اس کے قیام و استحکام کے لیے مسلم معاشرے کا بااختیار اور بیرونی اثرونفوذ سے آزاد ہونا بالکل ناگزیر ہے۔ لیکن یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کے نقطۂ نظر سے مسلمانوں کے ذہن و فکر کا دوسروں کی غلامی سے آزاد ہونا اوّلین مقصدی اہمیت رکھتا ہے‘ اور سیاسی آزادی کی جتنی بھی اہمیت ہے اسی وجہ سے ہے کہ وہ فکروعمل کے استقلال کا ایک ناگزیر ذریعہ ہے۔
[۵۸] سال قبل ہم پاکستان کے مسلمان دہری غلامی میں مبتلا تھے۔ ہم سیاسی حیثیت سے بھی غیروں کے محکوم تھے اور ذہنی حیثیت سے بھی۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اغیار کی سیاسی محکومی سے تو آزاد کر دیا لیکن ان کی ذہنی غلامی اور ان کی غیراسلامی اقدار کے تسلط اور ان کی فکری محکومی میں جس طرح پہلے ہم مبتلا تھے‘ افسوس ہے کہ ابھی تک ہمیں اس سے رُستگاری نصیب نہ ہو سکی۔ ہماری درسگاہیں‘ ہمارے دفاتر‘ ہمارے بازار‘ ہماری سوسائٹی‘ ہمارے گھر‘ حتیٰ کہ ہمارے جسم تک زبانِ حال سے شہادت دے رہے ہیں کہ ان پر مغرب کی تہذیب‘ مغرب کے افکار‘ مغرب کی اقدار اور مغرب کے اخلاقی تصورات اور علمی نظریات حکمران ہیں۔ ہم مغرب کے دماغ سے سوچتے ہیں‘ مغرب کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں‘ مغرب ہی کی بنائی ہوئی راہوں پر چلتے ہیں‘ خواہ اس کا شعور ہمیں ہو یا نہ ہو۔ یہ مفروضہ ہمارے دماغوں پر مسلَّط ہے کہ صحیح وہ ہے جسے مغرب نے صحیح سمجھا ہے اور غلط وہ ہے جسے مغرب نے غلط قرار دیا ہے۔ حق‘ صداقت‘ تہذیب‘ اخلاق‘ شائستگی‘ ہر شے کا معیار ہمارے نزدیک وہی ہے جو مغرب نے مقرر کر رکھا ہے۔
سیاسی آزادی کے باوجود آخر اس ذہنی غلامی کا سبب کیا ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ ذہنی آزادی اور غلبہ و تفوق کی بنا دراصل فکری اجتہاد اور علمی تحقیق پر قائم ہوتی ہے۔ جو قوم اس راہ میں پیش قدمی کرتی ہے وہی دنیا کی راہنما اور قوموں کی اِمام بن جاتی ہے اور اسی کے افکار دنیا پر چھا جاتے ہیں۔ اور جو قوم اس راہ میں پیچھے رہ جاتی ہے اسے مقّلِد اور متّبع ہی بننا پڑتا ہے۔ اس کے افکار اور معتقدات میں یہ قوت باقی نہیں رہتی کہ وہ دماغوں پر اپنا تسلّط قائم رکھ سکیں۔ مجتہد اور محقق قوم کے طاقت ور افکار و معتقدات کا سیلاب انھیں بہا لے جاتا ہے اور ان میں اتنا بل بوتا نہیں رہتا کہ وہ اپنی جگہ پر ٹھیرے رہ جائیں۔ مسلمان جب تک تحقیق و اجتہاد کے میدان میں آگے بڑھتے رہے‘ تمام دُنیا کی قومیں ان کی پیرو اور مقلِّد رہیں۔ اسلامی فکر ساری نوعِ انسانی کے افکار پر غالب رہی۔ حُسن اور قُبح‘ نیکی اور بدی‘ غلط اور صحیح‘ شائستہ اور غیرشائستہ کا جو معیار اسلام نے مقرر کیا وہ تمام دنیا کے نزدیک معیار قرار پایا اور قصداً یا اضطراراً دنیا اپنے افکار و اعمال کو اسی معیار کے مطابق ڈھالتی رہی۔ مگرجب مسلمانوں میں اربابِ فکر اور اصحابِ تحقیق پیدا ہونے بند ہوگئے‘ جب انھوں نے سوچنا اور دریافت کرنا چھوڑ دیا‘ جب وہ اکتسابِ علم اور اجتہادِ فکر کی راہ میں تھک کر بیٹھ گئے تو گویا انھوں نے خود دنیا کی راہنمائی سے استعفا دے دیا۔ دُوسری طرف مغربی قومیں اس راہ میں آگے بڑھیں۔ انھوں نے غوروفکر کی قوتوں سے کام لینا شروع کیا‘ کائنات کے راز ٹٹولے اور فطرت کی چھپی ہوئی طاقتوں کے خزانے تلاش کیے۔ اس کا لازمی نتیجہ وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ مغربی قومیںدنیا کی راہنما بن گئیں اور مسلمانوں کو اسی طرح ان کے اقتدار کے آگے سرِتسلیم خم کرنا پڑا جس طرح کبھی دنیا نے خود مسلمانوں کے اقتدار کے آگے خم کیا تھا۔
اب اسے بدقسمتی کے سوا اور کیا کہیے کہ مغربی تہذیب نے جس فلسفے اور سائنس کی آغوش میں پرورش پائی‘ وہ پانچ چھ سو سال سے دہریت‘ الحاد‘ لامذہبی اور مادّہ پرستی کی طرف جا رہا ہے اور جس صدی میں یہ نئی تہذیب اپنی دہریت اور مادّہ پرستی کی انتہا کو پہنچی‘ ٹھیک وہی صدی تھی جس میں مراکش سے لے کر مشرق بعید تک تمام اسلامی ممالک مغربی قوموں کے سیاسی اقتدار اور فکری غلبے سے بیک وقت مفتُوح اور مغلوب ہوئے۔ مسلمانوں پر مغربی تلوار اور قلم دونوں کا حملہ ایک ساتھ ہوا۔ جو دماغ مغربی طاقتوں کے سیاسی غلبے سے مرعوب اور دہشت زدہ ہوچکے تھے‘ ان کے لیے یہ مشکل ہوگیا کہ مغرب کے فلسفے و سائنس اور ان کی پروردہ تہذیب کے رُعب داب سے محفوظ رہتے۔
اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کا سوادِاعظم اب بھی اسلام کی تہذیب اور اس کی رُوح اور اس کے اصولوں سے منحرف ہو رہا ہے۔ ملکی آزادی اور سیاسی اِستقلال کے باوجود مغرب کا ذہنی اور تہذیبی تسلُّط ہمارے ذہنوں کی فضا پر چھایا ہوا ہے اور اس نے نگاہوں کے زاویے اس طرح بدل دیے ہیں کہ دیکھنے والوں کے لیے مسلمان کی نظر سے دیکھنا اور سوچنے والوں کے لیے اسلامی طریق پرسوچنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ حالت اس وقت تک دُور نہ ہوگی جب تک مسلمانوں میں آزاد اہلِ فکر پیدا نہ ہوں گے۔ اب ایک اسلامی نشاتِ ثانیہ کی ضرورت ہے۔
اگر ہم دوبارہ دُنیا کے راہنما بننا چاہتے ہیں تو اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکِّر اور محقق پیدا ہوں جو فکرونظر اور تحقیق و اِکتشاف کی قوت سے اُن بنیادوں کو ڈھا دیں جن پر مغربی تہذیب کی نظریاتی عمارت قائم ہوئی ہے۔ اسلام کے بنائے ہوئے طریق فکرونظر پر آثار کے مشاہدے اور حقائق کی جستجو سے ایک نئے نظامِ فلسفہ کی بنا رکھیں‘ ایک نئی حکمتِ طبیعی (natural science) کی عمارت اٹھائیں جو کتاب و سنت کی ڈالی ہوئی داغ بیل پر اُٹھے۔ ملحدانہ نظریے کو توڑ کر خدا پرستانہ نظریے پر فکروتحقیق کی اَساس قائم کریں اور اس جدید فکروتحقیق کی عمارت کو اس قوت کے ساتھ اٹھائیں کہ وہ تمام دنیا پر چھا جائے اور دنیا میں مغرب کی مادّی تہذیب کے بجاے اسلام کی حقّانی تہذیب جلوہ گر ہو۔ (مکاتیب سیدابوالاعلٰی مودودی‘ مرتبہ: عاصم نعمانی‘ حصہ اوّل‘ ص ۲۴۲-۲۴۶)
اسی شہر لاہور میں جس وقت مسلمانوں نے یہ طے کیا تھا کہ ہم ایک الگ خطۂ زمین حاصل کریں گے۔ اس وقت تمام متحدہ ہندستان کے مسلمانوں کا ارادہ یہ تھا کہ قطع نظر اس کے کہ وہ پاکستان میں شامل ہوسکیں یا نہ ہوسکیں‘ لیکن ایک خطۂ زمین ہندستان میں ایسا حاصل کیا جائے جس کے اندر اسلامی تہذیب کو زندہ کیا جائے‘ جس کے اندر اسلامی قوانین جاری ہوں‘ جس میں مسلمان اپنے نظریۂ حیات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ یہ جذبہ جنوبی ہند کے آخری گوشوں سے لے کر شمالی اور مغربی ہندستان کے انتہائی گوشوں تک تمام مسلمانوں میں یکساں طور پر پایا جاتا تھا۔ اُن مسلمانوں میں بھی پایا جاتا تھا جن کو کبھی یہ توقع نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ کبھی پاکستان میں شامل ہوسکیں گے۔ اسی چیز کے نتیجے میں پاکستان بنا۔
اگر مسلمانوں میں مسلمان ہونے کا احساس تمام دوسرے احساسات پر غالب نہ ہوتا‘ اگر مسلمان اس بات کو بھول نہ گئے ہوتے کہ ہم مدراسی ہیں‘ پنجابی ہیں‘ بنگالی ہیں‘ گجراتی ہیں‘ پٹھان ہیں اور سندھی ہیں اور صرف ایک تصور ان کے اوپر غالب نہ ہوتا کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کی حیثیت سے اس سرزمین میں جینا چاہتے ہیں تو پاکستان کبھی وجود میں نہیں آ سکتا تھا‘ بلکہ پاکستان کا تخیل سرے سے پیدا ہی نہیں ہو سکتا تھا۔
پاکستان کا تخیل ہمارے مسلمان ہونے کے احساس پر مبنی تھا۔ پاکستان کا تخیل ہمارے اس جذبے پر مبنی تھا کہ ہم اسلام کے مطابق زندگی بسر کریں گے۔ یہ عام مسلمانوں کے احساسات تھے۔ مجھے کچھ پتا نہیں کہ بڑے بڑے لیڈروں کے ارادے کیا تھے‘ اور ان کے احساسات کیا تھے؟ یہ بھی یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارے کھاتے پیتے طبقوں کے احساسات کیا تھے؟ یہ بھی مَیں نہیں جانتا کہ جو لوگ ہمارے ہاں سرکاری ملازمتوں میں اُونچے مناصب پر تھے ان کے کیا خیالات تھے اور اس وقت وہ کیا سوچ رہے تھے‘ لیکن عام مسلمان یہی کچھ سوچ رہا تھا‘ اور اس نے یہی سمجھتے ہوئے اپنی جان و مال لٹائے کہ یہ سب کچھ غلبۂ اسلام کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس کو یقین تھاکہ ہندستان کے ہندو ان سے بدلہ لیے بغیر نہیں رہیں گے۔ ان کے خون کی ندیاں بہائیں گے‘ ان کی آبرو پر ہاتھ ڈالیں گے‘ ان کے مال برباد کریں گے‘ مگر اس کے باوجود انھوں نے اس خطرے کو مول لیا اور اس مملکت کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد کیا ایک دن کے لیے بھی یہاں اسلام کے لیے خلوص کے ساتھ کام کیا گیا۔ پوری تاریخ آپ کے سامنے ہے۔
پاکستان بننے کے بعد یہاں اسلام کو مملکت کی بِنا قرار دینے میں پس و پیش شروع کر دی گئی۔ بڑی جدوجہد اور مطالبوں کے بعد اگر قرارداد مقاصد پاس کی بھی گئی تو اس کی بنیاد پر اوّل تو دستور بنانے کے بعد بھی اس قرارداد کو محض ایک دیباچے کے طور پر اس میں شامل کیا گیا۔
اس کے ساتھ جس بات کی سب سے پہلے ضرورت تھی وہ یہ کہ نظامِ تعلیم کو تبدیل کیا جائے۔ طلبہ کے اندر اسلام کا فہم پیدا کیا جائے‘ ان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنے اس ملک کو اسلام کے مطابق چلا سکیں۔ لیکن اس چیز کی طرف بار بار توجہ دلانے کے باوجود اس کی کوئی فکر نہ کی گئی اور نظامِ تعلیم میں کوئی تغیر نہ کیا گیا۔ اسی طرح سے نشرواشاعت کے جو ذرائع موجود تھے جن سے لوگوں کی رائے تیار کی جاسکتی تھی‘ جن سے لوگوں کے ذہن اسلام کے مطابق بدلے جاسکتے تھے‘ ضرورت تھی کہ ان سے کام لے کر مسلمانوں کے اندر مسلمان ہونے کا جذبہ زیادہ سے زیادہ شدید کیاجائے۔ اس لیے کہ وہی ہماری مملکت کی بنیاد تھی اور ہے۔ اس کے مضبوط رہنے پر اس مملکت کو مضبوط رہنا ہے‘ اور اس کے کمزور ہونے پر اس مملکت کا کمزور ہونا منحصر ہے۔ لیکن اس چیز کی طرف بھی توجہ نہیں کی گئی‘ بلکہ اس کے بالکل برعکس نشرواشاعت کے تمام ذرائع کو اسلام سے لوگوں کو منحرف کرنے کے لیے استعمال کیا گیا اور ان کے ذریعے ہر طرح کے باطل خیالات اور نظریات پھیلائے گئے۔
تعلیم کے بعد جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ یہ کہ مسلمانوں کے اخلاق کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جاتی۔ کیونکہ ایک اسلامی مملکت کی بنیاد اسلامی فکر کے بعد اسلامی اخلاق ہے۔ اگر اسلامی فکر کے ساتھ اسلامی اخلاق موجود ہو تو ایک نہایت مضبوط و مستحکم مسلم مملکت تیار ہوسکتی ہے۔ لیکن نہ یہاں اسلامی فکر کو مضبوط کیا گیا اور نہ اسلامی اخلاق کو۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے اخلاق کو خراب کرنے کے لیے جو کچھ کیا جا سکتا تھا‘ وہ کیا گیا۔ مسلمانوں میں تقسیم سے قبل ناچ گانے کا وہ زور نہ تھا جو بعد میں ہوا۔ گویّے اور نچیّے تقسیم سے پہلے مسلمانوں کے ہیرو نہ تھے مگر تقسیم کے بعد [ان پیشوں سے وابستہ لوگ] ہمارے ہیرو قرار پائے۔ تقسیم کے بعد ملک کے دونوں حصوں کے درمیان جو ثقافتی وفود کا تبادلہ ہوتا تھا وہ ناچنے اور گانے والوں کا ہوا۔ گویا یہ تصور کیا گیا کہ ناچ اور گانے سے یہ مملکت قوی ہوگی ۔مسلمانوں میں شراب نوشی‘ بدکاری اور بے حیائی پھیلانے کے لیے جتنا کام انگریز نے ڈیڑھ سو برس کے اندر نہیں کیا تھا وہ ہمارے ہاں [چند] برس کے اندر کر ڈالا گیا۔ اس طرح سے ہمارے افکار کو اسلام سے منحرف کیا گیا۔ ہمارے اخلاق کو اسلام سے منحرف کیا گیا اور ہمارے اندر سے وہ تمام جڑیں کھودنے کی کوشش کی گئی جن کی بنا پر ہم مسلمان تھے اور مسلمان ہونے پر فخر کرتے تھے۔ جو تعلیم ہمیں دی جارہی تھی وہ لادینیت کی تعلیم تھی۔ اس کے اندر سب کچھ تھا مگر خدا نہ تھا۔ اس میں سب کچھ تھا مگر خدا کا رسولؐ اور خدا کی کتاب نہ تھی۔
لازمی طور پر اس ماحول میں جو ہماری نئی نسلیں اٹھیں‘ مشرقی پاکستان میں تھیں تو ان کے اندر بنگالیت کا احساس پیدا ہوا۔ مغربی پاکستان میں تھیں تو ان کے اندر پنجابی‘ سندھی‘ پٹھان اور بلوچی ہونے کا احساس اُبھرنا شروع ہوا۔ ظاہر بات ہے کہ جب مسلمان ہونے کا احساس دبے گا تو اس کے بعد اگر کوئی دوسرا احساس ہوسکتا ہے تو مقامی اور علاقائی قومیتوں کا احساس ہوسکتا ہے‘ اور وہی چیز پیدا ہوئی۔
بنگالی مسلمانوں میں بنگالی زبان‘ بنگالی تہذیب‘ بنگالی ثقافت‘ ساری کی ساری وہ پھیلائی گئی جو ان کو ہندوئوں کے ساتھ جوڑتی تھی‘ مسلمانوں سے الگ کرتی تھی۔ ان کے اسلامی احساسات کو زیادہ سے زیادہ فنا کرنے اور مٹانے کی کوشش کی گئی اور نتیجے میں ان کے اندر بنگالیت اور بنگالیت کے ساتھ ہندوئیت کے احساسات پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ یہاں تک کہ آخرکار بنگالی مسلمان نوجوان اور ہندو نوجوان کے درمیان کوئی وجہ امتیاز باقی نہ رہی۔ نہ صرف مردوں میں بلکہ عورتوں میں جو عورتیں بھی نئی تعلیم پانے والی تھیں ان میں اور نئی تہذیب اختیار کرنے والی ہندو بنگالی عورت میں بظاہر کوئی فرق نظر نہ آتا تھا۔ وہی ان کی تہذیب‘ وہی ان کے تصورات اور وہی ان کا ناچ گانا....
آپ نے اس کا نتیجہ اب دیکھ لیا کہ آخرکار وہاں وہ تحریک اٹھی جس کے چلانے والے‘ جس کے لیڈر اور جس کے کارکن نہ صرف یہ کہ اسلام کے تصورات سے خالی تھے‘ نہ صرف یہ کہ اسلام سے منحرف تھے بلکہ ان کے اندر اسلام کے لیے چڑ پیدا ہوئی۔ وہ اسلام کا نام سننا گوارا نہیں کرتے تھے… ان کے اندر نفرت مغربی پاکستان کے خلاف اس حد تک پھیلی کہ آخرکار انھوں نے ارادہ کر لیا کہ چاہے کافروں سے بھی مدد لینی پڑے لیکن ہم کو مغربی پاکستان سے الگ ہونا ہے۔ تاریخ میں بہت کم مثالیں آپ کو ایسی ملیں گی کہ مسلمانوں نے مسلمانوں سے لڑنے کے لیے کافروں سے مدد حاصل کی ہو۔ یہاں یہ مثال دیکھی گئی کہ مسلمان‘ بت پرستوں سے اس غرض کے لیے مدد لیتے ہیں کہ مسلمان مملکت سے الگ ہوں اور اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑیں۔ اس طرح سے آخرکار مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا۔
ظاہر بات ہے کہ مشرقی پاکستان نہ فوج کی طاقت سے اور ہتھیاروں کی طاقت سے پاکستان میں شامل ہوا تھا اور نہ ان کی طاقت سے شامل رکھا جا سکتا تھا۔ وہ اگر شامل ہوا تھا تو اسلامی احساسات کی بنا پر‘ مسلمان ہونے کے جذبات کی بنا پر شامل ہوا تھا‘ اپنے ارادے سے شامل ہوا تھا‘ کسی نے اسے فتح کرکے شامل نہیں کیا تھا۔ اور آخرکار آپ نے اسلام سے اپنے انحراف کی بناپر ان کے اندر مسلمان ہونے کے احساس کو دبا دیا بلکہ مٹا دیا‘ تو ظاہر ہے کہ فوج کی طاقت سے ان کو مغربی پاکستان کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا تھا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ پاکستان کی فوج کے مقابلے میں وہ نہیں لڑسکتے تو انھوں نے ہندستان کو دعوت دی‘ اس کی مدد حاصل کی اور اس کے ذریعے سے علیحدہ ہوگئے۔
اب اس کے بعد صرف مغربی پاکستان رہ گیا ہے جس کو ہندستان کے مقابلے میں تقریباً ایک اور گیارہ کی نسبت ہے‘ پہلے ایک اور پانچ کی نسبت تھی۔ اس خطے کے اندر بھی آپ دیکھیے کہ اسلام سے انحراف کے نتیجے میں کیا صورت پیدا ہوگی۔ اس خطے میں بھی چونکہ اسلامی تعلیم نہیں دی گئی‘ نہ اسلامی اخلاق پیدا کیے گئے بلکہ اُلٹا اسلامی تصورات کو دبایا گیا اور غیراسلامی تصورات کو اُبھرنے کا موقع دیا گیا‘ اس لیے یہاں بھی الحاد‘ دہریت‘ سوشلزم اور دوسرے لادینی نظریات پھیلے اور اخلاقی اباحیت کو فروغ حاصل ہوا۔
اس کے نتیجے میں آپ دیکھیے یہاں پنجابی‘ پٹھان‘ سندھی اور بلوچی ہونے کے احساسات اُبھر رہے ہیں اور مسلمان ہونے کا احساس ختم ہو رہا ہے۔ اب اِس خطے کے ٹکڑے اڑتے نظرآرہے ہیں۔ اُس خطے کو بھی جمع کرکے رکھنے والی اگر کوئی چیز تھی تو وہ اسلام اور مسلمان ہونے کا احساس تھا۔ اگر اِس چیز کی اب فکر نہ کی گئی تو یہ بھی منتشر ہوجائے گا‘ اور پھر منتشر ہوجانے کے بعد اس کا کوئی حصہ بھی آزاد نہ رہے گا۔ یہ سب غلام بن جائیں گے اور یہ غلامی اس سے بدتر ہوگی جو تقسیم سے پہلے آپ کی غلامی تھی۔ (مولانا مودودی کی دو اہم تقاریر‘ مرکزی مجلسِ شوریٰ سے خطاب‘ ۱۲-۱۷ فروری ۱۹۷۲ئ‘ ص ۶-۱۰)
خالص علمی حیثیت سے ہم ان اسباب کا تجزیہ کرتے ہیں جن کی وجہ سے ’جہاد فی سبیل اللہ‘ کی حقیقت کو سمجھنا غیرمسلموں ہی کے لیے نہیں‘ خود مسلمانوں کے لیے بھی دشوار ہوگیا ہے تو ہمیں دو بڑی اور بنیادی غلط فہمیوںکا سراغ ملتا ہے۔
پہلی غلط فہمی یہ ہے کہ اسلام کو ان معنوں میں ایک مذہب سمجھ لیا گیا ہے جن میں یہ لفظ عموماً بولا جاتا ہے--- دوسری غلط فہمی یہ کہ مسلمانوں کو ان معنوں میں محض ایک قوم سمجھ لیا گیا ہے‘ جن میں یہ لفظ عموماً مستعمل ہے۔
ان دو غلط فہمیوں نے صرف ایک جہاد ہی کے مسئلے کو نہیں بلکہ مجموعی حیثیت سے پورے اسلام کے نقشے کو بدل ڈالا ہے اور مسلمانوں کی پوزیشن کلی طور پر غلط کر کے رکھ دی ہے۔
’مذہب‘کے معنی عام اصطلاح کے اعتبار سے بجز اس کے اور کیا ہیں کہ وہ چند عقائد اور عبادات اور مراسم کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے مذہب کو واقعی ایک پرائیویٹ معاملہ ہی ہونا چاہیے۔ آپ کو اختیار ہے کہ جو عقیدہ چاہیں رکھیں‘ اور آپ کا ضمیر جس کی عبادت کرنے پر راضی ہو اس کو جس طرح چاہیں پکاریں۔ زیادہ سے زیادہ اگر کوئی جوش اور سرگرمی آپ کے اندر اس مذہب کے لیے موجود ہے تو آپ دنیا بھر میں اپنے عقائد کی تبلیغ کرتے پھریئے اور دوسرے عقائد والوں سے مناظرے کیجیے۔ اس کے لیے تلوار ہاتھ میں پکڑنے کا کون سا موقع ہے؟ کیا آپ لوگوں کو مار مار کر اپنا ہم عقیدہ بنانا چاہتے ہیں؟ یہ سوال لازمی طور پر پیدا ہوتا ہے‘ جب کہ آپ اسلام کو عام اصطلاح کی رو سے ایک’مذہب‘قرار دے لیں اور یہ پوزیشن اگر واقعی اسلام کی ہو تو جہاد کے لیے حقیقت میں کوئی وجۂ جواز ثابت نہیں کی جاسکتی۔
اسی طرح ’قوم‘ کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ وہ ایک متجانس گروہ اشخاص (Homogenous Group of Men) کا نام ہے۔ جو چند بنیادی امور میں مشترک ہونے کی وجہ سے باہم مجتمع اور دوسرے گروہوں سے ممتاز ہوگیا ہو۔ اس معنی میں جو گروہ ایک قوم ہو‘ وہ دو ہی وجوہ سے تلوار اٹھاتا ہے اور اٹھا سکتا ہے۔ یا تو اس کے جائز حقوق چھیننے کے لیے کوئی اس پر حملہ کرے‘ یا وہ خود دوسروں کے جائز حقوق چھیننے کے لیے حملہ آور ہو۔ پہلی صورت میں تو خیرتلوار اٹھانے کے لیے کچھ نہ کچھ اخلاقی جواز بھی موجود ہے (اگرچہ بعض دھرماتمائوں کے نزدیک یہ بھی ناجائز ہے) لیکن دوسری صورت کو تو بعض ڈکٹیٹروں کے سوا کوئی بھی جائز نہیں کہہ سکتا‘ حتیٰ کہ برطانیہ اور فرانس جیسی وسیع سلطنتوں کے مدبرین بھی آج اس کو جائز کہنے کی جرأت نہیں رکھتے۔
پس اگر اسلام ایک ’مذہب‘ اور مسلمان ایک ’قوم‘ ہے تو جہاد کی ساری معنویت‘ جس کی بنا پر اسلام میں اسے افضل العبادات کہا گیا ہے‘ سرے سے ختم ہوجاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام کسی ’مذہب‘ کا اور ’مسلمان‘ کسی ’قوم‘ کا نام نہیں ہے۔ دراصل اسلام ایک انقلابی نظریہ و مسلک ہے جو تمام دنیا کے اجتماعی نظم (sanction) کو بدل کر اپنے نظریہ و مسلک کے مطابق اسے تعمیر کرنا چاہتا ہے‘ اور مسلمان اس بین الاقوامی انقلابی جماعت (International Revolutionary Party) کا نام ہے جسے اسلام اپنے مطلوبہ انقلابی پروگرام کو عمل میں لانے کے لیے منظم کرتا ہے‘ اور جہاد اس انقلابی جدوجہد (Revolutionary Struggle) کا اور اس انتہائی صرفِ طاقت کا نام ہے جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اسلامی جماعت عمل میں لاتی ہے۔
تمام انقلابی مسلکوں کی طرح اسلام بھی عام مروج الفاظ کو چھوڑ کر اپنی ایک خاص اصطلاحی زبان (terminology) اختیار کرتا ہے تاکہ اس کے انقلابی تصورات عام تصورات سے ممتاز ہوسکیں۔ لفظ جہاد بھی اسی مخصوص اصطلاحی زبان سے تعلق رکھتا ہے۔ اسلام نے حرب اور اسی نوعیت کے دوسرے عربی الفاظ جو جنگ (war) کے مفہوم کو ادا کرتے ہیں قصداً ترک کردیے اور ان کی جگہ ’جہاد‘ کا لفظ استعمال کیا جو struggle کا ہم معنی ہے بلکہ اس سے زیادہ مبالغہ رکھتا ہے۔ انگریزی زبان میں اس کا صحیح مفہوم یوں ادا کیا جا سکتا ہے:
To exert one's utmost endeavour in furthering a cause
سوال یہ ہے کہ پرانے الفاظ کو چھوڑ کر یہ نیا لفظ کیوں اختیار کیا گیا؟ اس کا جواب بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ ’جنگ‘ کا لفظ قوموں اور سلطنتوں کی ان لڑائیوں کے لیے استعمال ہوتا تھا اور آج تک ہو رہا ہے جو اشخاص یا جماعتوں کی نفسانی اغراض کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ ان لڑائیوں کے محرک محض ایسے شخصی یا اجتماعی مقاصد ہوتے ہیں جن کے اندر کسی نظریے اور کسی اصول کی حمایت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ اسلام کی لڑائی چونکہ اس نوعیت کی نہیں ہے۔ اس لیے وہ سرے سے اس لفظ ہی کو ترک کردیتا ہے۔ اس کے پیشِ نظر ایک قوم کا مفاد یا دوسری قوم کا نقصان نہیں ہے وہ اس سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتا کہ زمین پر ایک سلطنت کا قبضہ رہے یا دوسری سلطنت کا‘ اس کی دل چسپی جس سے ہے‘ وہ انسانیت کی فلاح ہے۔ اس فلاح کے لیے وہ اپنا ایک خاص نظریہ اور ایک عملی مسلک رکھتا ہے۔ اس نظریے اور مسلک کے خلاف جہاں جس کی حکومت بھی ہے‘ اسلام اسے مٹانا چاہتا ہے قطع نظر اس سے کہ وہ کوئی قوم ہو اور کوئی ملک ہو۔
اس کا مدعا اور اپنے نظریے اور مسلک کی حکومت قائم کرنا ہے بلالحاظ اس کے کہ کون اس کا جھنڈا لے کر اٹھتا ہے اور کس کی حکمرانی پر اس کی ضرب پڑنی ہے۔ وہ زمین مانگتا ہے--- زمین کا ایک حصہ نہیں بلکہ پورا کرئہ زمین--- اس لیے نہیں کہ ایک قوم یا بہت سی قوموں کے ہاتھ سے نکل کر زمین کی حکومت کسی خاص قوم کے ہاتھ میں آجائے‘ بلکہ صرف اس لیے کہ انسانیت کی فلاح کا جو نظریہ اور پروگرام اس کے پاس ہے‘ یا بالفاظِ صحیح تر یوں کہیے کہ فلاحِ انسانیت کے جس پروگرام کا نام ’اسلام‘ ہے‘ اس سے تمام نوعِ انسانی متمتع ہو۔ اس غرض کے لیے وہ تمام ان طاقتوں سے کام لینا چاہتا ہے جو انقلاب برپا کرنے کے لیے کارگر ہو سکتی ہیں‘ اور ان سب طاقتوںکے استعمال کا ایک جامع نام ’جہاد‘ رکھتا ہے۔ زبان و قلم کے زور سے لوگوں کے نقطۂ نظر کو بدلنا اور ان کے اندر ذہنی انقلاب پیدا کرنا بھی جہاد ہے ۔ تلوار کے زور سے پرانے ظالمانہ نظامِ زندگی کو بدل دینا اور نیا عادلانہ نظام مرتب کرنا بھی جہاد ہے‘ اور اس راہ میں مال صرف کرنا اور جسم سے دوڑ دھوپ کرنا بھی جہاد ہے۔
لیکن اسلام کا جہاد نرا ’جہاد‘ نہیں ہے ’جہاد فی سبیل اللہ‘ ہے۔ ’فی سبیل اللہ‘ کی قید اس کے ساتھ ایک لازمی قید ہے۔ یہ لفظ بھی اسلام کی اسی مخصوص اصطلاحی زبان سے تعلق رکھتا ہے جس طرف ابھی میں اشارہ کر چکا ہوں۔ اس کا لفظی ترجمہ ہے ’راہِ خدا میں‘۔اس ترجمے سے لوگ غلط فہمی میں پڑگئے اور یہ سمجھ بیٹھے کہ زبردستی لوگو ں کو اسلام کے مذہبی عقائد کا پیرو بنانا جہاد فی سبیل اللہ ہے‘ کیوں کہ لوگوں کے تنگ دماغوں میں ’راہِ خدا‘ کا کوئی مفہوم اس کے سوا نہیں سماسکتا۔ مگر اسلام کی زبان میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔
ہر وہ کام جو اجتماعی فلاح بہبود کے لیے کیا جائے اور جس کے کرنے والے کا مقصد اس سے خود کوئی دنیوی فائدہ اٹھانا نہ ہو بلکہ محض خدا کی خوشنودی حاصل کرنا ہو‘ اسلام ایسے کام کو ’فی سبیل اللہ‘ قرار دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ خیرات دیتے ہیں‘ اس نیت سے کہ اسی دنیا میں مادی یا اخلاقی طور پر اس خیرات کا کوئی فائدہ آپ کی طرف پلٹ کر آئے تو یہ فی سبیل اللہ نہیں ہے۔ اور اگر خیرات سے آپ کی نیت یہ ہے کہ ایک غریب انسان کی مدد کر کے آپ خدا کی خوشنودی حاصل کریں تو یہ فی سبیل اللہ ہے۔ پس یہ اصطلاح مخصوص ہے ایسے کاموں کے لیے جو کامل خلوص کے ساتھ‘ ہر قسم کی نفسانی اغراض سے پاک ہو کر‘ اس نظریے پر کیے جائیں کہ انسان کا دوسرے انسانوں کی فلاح کے لیے کام کرنا خدا کی خوشنودی کا موجب ہے‘ اور انسان کی زندگی کا نصب العین مالک کائنات کی خوشنودی حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
’جہاد‘ کے لیے بھی ’فی سبیل اللہ‘ کی قید اسی غرض کے لیے لگائی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ جب نظامِ زندگی میں انقلاب برپا کرنے اور اسلامی نظریے کے مطابق نیا نظام مرتب کرنے کے لیے اٹھے‘ تو اس قیام اور اس سربازی و جاں نثاری میں اس کی اپنی کوئی نفسانی غرض نہ ہو۔ اُس کا یہ مقصد ہرگز نہ ہو کہ قیصرکو ہٹا کر وہ خود قیصر بن جائے۔ اپنی ذات کے لیے مال و دولت‘ یا شہرت و نام وری‘ یا عزت و جاہ حاصل کرنے کا شائبہ تک اس کی جدوجہد کے مقاصد میں شامل نہ ہو۔ اس کی تمام قربانیوں اور ساری محنتوں کا مّدعا صرف یہ ہو کہ بندگانِ خدا کے درمیان ایک عادلانہ نظامِ زندگی قائم کیا جائے۔ اس کے معاوضے میں اسے خدا کی خوشنودی کے سوا کچھ بھی مطلوب نہ ہو۔ (اسلامی نظام اور اس کے بنیادی تصورات‘ ص ۲۴۰-۲۴۵)
مسلم یا غیر مسلم سے قطع نظر محض ایک قوم ہونے کی حیثیت سے کسی قوم کے آزاد ہونے کا مطلب محض غیروں کی غلامی سے آزاد ہونا نہیں ہے‘ بلکہ اس لحاظ سے آزادی کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ ایک قوم کو خود اپنے معاملات چلانے کے اختیارات حاصل ہوں۔ ایک قوم خود یہ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہو کہ کن کے ہاتھوں میں وہ اپنے معاملات دے اور کن کے ہاتھوں میں نہ دے‘ اور یہ کہ جن کو وہ اس قابل نہ سمجھے انھیں وہ ہٹا سکے اور ان کی جگہ اپنے درمیان سے دوسرے لوگوں کو اُٹھا کر سامنے لاسکے۔ اس کو یہ آزادی حاصل ہو کہ اپنے ملک کے حالات کو جانے اور سمجھے۔ اس کو یہ آزادی حاصل ہو کہ اپنے ملک کے حالات کے بارے میں آزادانہ بحث مباحثہ کر کے رائے قائم کرے اور کوئی اس کے اس حق کو سلب نہ کر سکے۔ اس کی رائے ہوا میں اُڑ جانے والی چیز نہ ہو‘ بلکہ اس کی رائے کا وزن ہو اور وہ ایک فیصلہ کُن چیز ہو۔
اس لحاظ سے آپ دیکھیں گے تو محسوس کریں گے کہ ۲۱ سال٭ کے دوران میں عملاً ایک دن کے لیے بھی آزادی ہمیں حاصل نہیں ہوئی۔ یہ آزادی آپ نے لڑ کر‘ اپنی جانیں دے کر اور اپنے مال قربان کر کے حاصل کی تھی۔ قاعدے کے مطابق یہ آزادی آپ کو انگریز سے منتقل ہوگئی تھی۔ لیکن دستوری طور پر وہ آپ کی مجلس دستورساز کے پاس رہن رہی۔ انگریزی اقتدار کے رخصت ہوجانے کے بعد یہ مجلسِ دستور ساز کا کام تھا کہ وہ آپ کے ملک کا دستور بناکر اس آزادی کو عملی طور پر آپ کی طرف منتقل کرتی۔ یہ آزادی نو سال تک اس کے پاس رہن رہی۔ نوسال کے بعد ۱۹۵۶ء میں فکِّ رہن ہوا۔ لیکن عملاً آپ اس وقت تک اس آزادی کو استعمال نہیں کر سکتے تھے جب تک ملک میں عام انتخابات نہ ہوجاتے۔ جب عام انتخاب سے اسمبلی وجود میں آتی تو عملاً آپ کی آزادی آپ کو منتقل ہوجاتی۔ اس کے بعد اگر آپ کے نمایندے آپ کی مرضی کے مطابق کام کرتے تو انھیں آپ کی تائید حاصل رہتی لیکن اگر وہ آپ کی مرضی کے مطابق کام نہ کرتے تو دوسرے انتخاب میں آپ ان کو ہٹا دیتے اور زیادہ بہتر اور اہل تر آدمیوں کو منتخب کرتے لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں‘ اس طریق کار کے آغاز کی نوبت ہی نہیں آنے دی گئی۔ انتخاب کی تاریخ مقرر ہوچکی تھی۔ فروری ۱۹۵۹ء میں انتخابات ہونے والے تھے لیکن قبل اس کے کہ وہ وقت آتا اور آپ ان کے ذریعے سے بحیثیت ایک قوم کے اپنی آزادی کو استعمال کرتے آپ کی اس آزادی کو اکتوبر ۱۹۵۸ء میں آپ سے چھین لیا گیا‘ اور اس کے بعد پونے چار سال تک ملک پر مارشل لا مسلّط رہا۔
اس طرح وہ آزادی جسے دستورساز اسمبلی سے آپ کی طرف منتقل ہونا تھا‘ مارشل لا کے نفاذ اور ۱۹۵۶ء کے دستور کی تنسیخ کی بدولت ختم ہوکر رہ گئی۔ ملک کی دستور ساز اسمبلی کے بنائے ہوئے آئین کو منسوخ کر کے مارشل لا کے دوران میں ایک اور دستور بنایا گیا‘ پھر مارشل لا کی حالت ہی میں انتخابات کرائے گئے‘ اور مارشل لا ہی کی حالت میں جب اس اسمبلی کا پہلا اجلاس منعقد ہوگیا‘ تب مارشل لا اٹھایا گیا۔ دوسرے الفاظ میں آپ کو اس وقت تک باندھے رکھا گیا جب تک نیا دستور آپ پر پوری طرح مسلّط نہ ہوگیا۔ یہ دستور آپ کے لیے آزادی کا پروانہ نہیں بلکہ مستقل طور پر غلام بنائے رکھنے کا بندوبست ہے۔ اس میں جیسی کچھ آزادی آپ کو ملی ہے اس کا اندازہ آپ اس سے کر سکتے ہیں کہ مجلسِ قانون ساز میں جو حضرات آپ کے نمایندے قرار دیے جاتے ہیں وہ بجٹ کے ۹۰ فی صد حصے بلکہ اس سے بھی زیادہ حصے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ جتنا روپیہ آپ سے ٹیکسوں کے ذریعے وصول کیا جاتا ہے اس میں سے ۹۰ فی صد یا اس سے زائد پر آپ کے نمایندے کہلانے والے کسی فیصلے کے مجاز نہیں ہیں۔ اگر آپ سے ۱۰۰ روپے وصول کیے جاتے ہیں تو ۹۰ روپے یا اس سے زائد رقم کے متعلق آپ کے ’نمایندوں‘ کو یہ فیصلہ کرنے کا حق ہی نہیں ہے کہ اس رقم کا استعمال کیا ہو اور کیا نہ ہو۔ ظاہر بات ہے کہ یہ وہ آزادی نہیں ہے جو ایک قوم کو اپنے منتخب کردہ نمایندوں کے ذریعے اپنے معاملات چلانے کے لیے حاصل ہوتی ہے۔ پھر اسمبلیوں میں جن لوگوں پر آپ کے نمایندے ہونے کی تہمت رکھی جاتی ہے ‘کیا آپ ان کو براہِ راست یہ دیکھ کر منتخب کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ملک کے معاملات کو چلانے کے اہل ہیں؟ نہیں‘ بلکہ گلی اور کوچے کے معاملات کے لیے جو آدمی موزوں ہو سکتا ہے آپ صرف اس کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ ملک کے معاملات چلانے والوں کو آپ منتخب نہیں کر سکتے‘ ان کو وہ لوگ منتخب کرتے ہیں جنھیں آپ نے گلی کوچوں کے انتظام کے لیے چُنا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنے ملک کے معاملات پر براہِ راست اثرانداز ہونے کے حق سے آپ محروم کیے جا چکے ہیں۔
اب دیکھیے کہ آپ کی آزادی کو مُقید کرنے کے لیے کیا کیا تدبیریں اختیار کی جاتی ہیں۔ ہم نے انگریزی دور بھی دیکھا ہے اوربرسوں دیکھا ہے لیکن کبھی دفعہ ۱۴۴ کو اس کثرت سے استعمال ہوتے نہیں دیکھا۔ انگریز خود اس دفعہ کا موجد تھا لیکن اس کے خالق نے اپنی اس مخلوق کو کبھی اس طرح بے تحاشا استعمال نہیں کیا جس طرح آج اسے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح انگریزی دور میں پریس پر ایسی پابندیاںنہیں تھیں۔ اگرچہ وہی ان پابندیوں کا ایجاد کرنے والا تھا اور چاہتا تھا کہ پریس کو زیادہ سے زیادہ مقید رکھے۔ لیکن وہ بھی پریس کو اس حد تک مقید نہ کرسکا جس طرح وہ آج مقید ہے۔ اور ’پریس ٹرسٹ‘ کی بات تو انگریز کو بھی نہیں سُوجھی تھی۔
اسی طرح یہ بھی ایک امرواقعہ ہے کہ ضمیروں کی خرید و فروخت کا کاروبار کسی زمانے میں کبھی اتنا فروغ نہیں پا سکا جتنا اس زمانے میں پا رہا ہے۔ ایک خوشامدی اورضمیرفروش نسل تیار کی جا رہی ہے۔ صلاے عام ہے کہ ضمیربیچو اور لائسنس لو‘ رُوٹ پرمٹ لو‘ تمغے لے لو۔ اور اگر تمھارا ضمیر بِک نہیں سکتا تو تم یہاں خیر سے جی بھی نہیں سکتے۔
یہ جتنی چیزیں بھی ہیں ان میں سے کوئی چیز بھی ایک قوم کی حیثیت سے ایک ملک کے باشندوں کی آزادی کو برقرار رکھنے والی نہیں بلکہ اسے چھیننے والی ہے۔
آج ہمارا ملک ۲۰ ارب روپے کا مقروض ہے۔ ہمارا بال بال بیرونی قرضوں میں بندھ چکا ہے۔ غیروںسے ہم نے جو آزادی حاصل کی تھی وہ اب پھر ان قرضوں کے ذریعے سے ان کی طرف منتقل ہوتی نظر آرہی ہے۔ کسی قوم کی آزادی ہرگز باقی نہیں رہ سکتی۔ اگر ہر وقت اس کے ہاتھ میں بھیک کا ٹھیکرا ہو اور وہ ہرقوم کے سامنے بھیک کے لیے ہاتھ پھیلاتی پھرے--- آپ دیکھیں کہ باہر سے کسی ملک کا وزیراعظم یا کوئی دوسرا سربراہ آتا ہے تو ہم پہلے ہی سے دنیا کو یہ بتانا شروع کر دیتے ہیں کہ اس کے آنے پر ہم اس سے یہ اور یہ مانگیں گے۔ ابھی اس نے ملک کے اندر قدم نہیں رکھا ہوتا اور یہاں پہلے سے یہ اسکیمیں سنا دی جاتی ہیں کہ جب ہمارے گھر میں یہ مہمان آئے گا تو ہم اس سے یہ یہ کچھ مانگیں گے۔ اسی طرح جب کبھی ہم باہر جاتے ہیں تو باہر جانے سے پہلے دنیا کو سنا دیتے ہیں کہ ہم یہ یہ کچھ مانگنے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کے طرزعمل کے ساتھ کوئی قوم اپنی آزادی کی حفاظت کب تک کر سکتی ہے۔ جب عالم یہ ہو کہ ایک ایک چیز کے لیے ہاتھ پھیلایا جا رہا ہو اور بڑی بڑی اسکیموں کے لیے ہی نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے بھی باہر سے روپیہ مانگا جا رہا ہو‘ ائرپورٹ بنانا ہو تو اس کے لیے باہر سے روپیہ آئے‘ ہوٹل بنانے ہوں تو اس کے لیے بھی باہر سے روپیہ لایئے‘ یونی ورسٹی کیمپس بنانا ہو تو اس کے لیے بھی باہر سے روپیہ لایئے‘ غرض ایک ایک چیز کے لیے الگ الگ روپیہ مانگا جا رہا ہو‘ تو اس کے بعد آزادی کب تک اور کیونکر باقی رہ سکتی ہے۔
اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ دنیا کی کوئی قوم اپنی آزادی کی حفاظت نہیں کر سکتی اگر اس نے اپنے آپ کو معاشی حیثیت سے غلام بنا لیا ہو۔ اور دنیا کی کوئی قوم ایسی آنکھ کی اندھی اور گانٹھ کی پوری نہیں ہے جو آپ کو روپیہ دیتی چلی جائے لیکن روپے کے بدلے میں اپنا کوئی مفاد حاصل نہ کرے۔ وہ مفاد آپ سے سود کی شکل میں بھی حاصل کرتی ہے اور وہ اپنے مفاد کے لیے آپ پر طرح طرح کی قیود بھی عاید کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ ماہرین ہمارے ہوں گے اور انھیں تم بھاری سے بھاری تنخواہ دو گے۔ مال ہم سے خریدنا ہوگا اور ہماری طے کی ہوئی قیمت پر خریدنا ہوگا‘ چاہے وہ چار گنا مہنگا ہی کیوں نہ ہو۔ اور نہ معلوم اندر ہی اندر کیا کیا پابندیاں عاید کی جاتی ہیں جن کی ہم کو خبر تک نہیں ہوتی‘ کیونکہ ہمیں سرے سے یہ حق ہی حاصل نہیں کہ ہم اپنے حکمرانوں سے یہ پوچھ سکیں کہ جناب‘ آپ دوسروں سے کیا معاملات کر رہے ہیں اور کن شرائط پر کر رہے ہیں۔
پشاور میں امریکا کو جاسوسی کا جو اڈا دیا گیا تھا‘ ایک طویل مدت تک ہمیں معلوم نہ ہوسکا کہ کب دیا گیا اور کن شرائط پر دیا گیا۔ چند سال قبل جب جاسوسی کے لیے امریکا کا یوٹو جہاز پشاور سے اُڑ کر روس گیا اور روس نے اس پر دھمکی دی کہ ہم پشاور کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘ تب ہم کو پتا چلا کہ ہمارے ملک میں ایک غیر ملک کا جاسوسی کا اڈا بھی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگرہمیں بیچ بھی ڈالا جائے تو ہمیںاس وقت خبر ہوگی جب دوسرا ہمارے گلے میں پھندا ڈال کر ہمیں لیے جا رہا ہوگا۔
یہ ہے اپنے ملک کے معاملات میں قوم کو شامل کرنے کا وہ نقشہ جو ہمارے ہاں بنا ہے‘ اور یہ ہیں وہ حالات جو آج کے دن اگر ایک طرف ہماری اس مسرت کی بنیاد بنتے ہیں کہ ہم نے غیرملکی استعمار سے آزادی پائی ‘ تو دوسری طرف ہمیں دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ ہم آئین و قانون کی حدود میں رہ کر اپنے ملک میں اپنے معاملات کو چلانے کی آزادی بھی حاصل کریں۔ آپ میں سے بہت سے لوگ جن کی تاریخ پر نگاہ ہے‘ وہ جانتے ہیں کہ دنیا میں آزادی کی بیشتر لڑائیاں غیروں کے مقابلے میں آزادی حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ خود اپنوں کی غلامی سے نجات پانے کے لیے لڑی گئی ہیں‘ اور یہ آزادی کی لڑائی اب ہم کو بھی لڑنی پڑے گی۔ اس لڑائی کو ہم نے شروع کر دیا ہے۔ آپ بھی ہمت کریں‘ آگے بڑھیں اور تحریک جمہوریت کے پلیٹ فارم سے لڑی جانے والی اس لڑائی میں حصہ لیں۔ (آزادی‘ ص ۵-۱۱)
ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ کے احسانات بے حدوحساب ہیں جن کا کوئی شمار نہیں کیاجاسکتا‘ لیکن بلاشبہہ اُس کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اُس نے ہم کو خالص توحید اور بے آمیز توحید کی تعلیم دی جس کے اندر اللہ تعالیٰ کی ذات‘ صفات‘ اختیارات اورحقوق میں کسی دوسرے کی ادنیٰ سے ادنیٰ شرکت کے لیے بھی کوئی گنجایش نہیں ہے اور تمام حیثیتوں سے خدائی صرف ایک معبودِ برحق کے لیے مخصوص ہے۔ یہ کتنی بڑی نعمت ہے‘ اس کی صحیح قدر آپ صرف اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب توحید اور شرک کے فرق کو بخوبی سمجھ لیں۔
شِرک کا لازمی خاصّہ یہ ہے کہ وہ انسانیت کو بانٹتا اور انسانوں کو انسانوں سے پھاڑتا ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی جو یہ شہادت دیتی ہو کہ تمام دُنیا کے مشرکین کسی ایک معبود پر‘ یا چند معبودوں پر کبھی جمع ہوئے ہوں۔ ساری دنیا تو درکنار‘ زمین کے ایک خطّے میں بسنے والے مشرک بھی کسی معبود یا معبودوں کے کسی گروہ پر متفق نہیں پائے گئے۔ قبیلوں اور قبیلوں کے معبود الگ الگ رہے ہیں اور یہ جُدا جُدا بھی ہمیشہ معبود نہیں رہے بلکہ زمانے کی ہر گردش کے ساتھ بدلتے چلے گئے ہیں۔ اس طرح شِرک کبھی کسی دَور میں بھی انسانیت کو جمع کرنے والی طاقت نہیں رہا بلکہ ایک تفرقہ پرداز طاقت رہا ہے اور وہ صرف عقیدے ہی کے اعتبار سے انسانوں کو ایک دوسرے سے نہیں پھاڑتا۔ اُس کی فطرت چونکہ متحد کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے اس لیے جو تفرقے اُس کی بدولت برپا ہوتے ہیں وہ رفتہ رفتہ انسانوں میں قوموں اور قبیلوں اور نسلوں اور زبانوں اور رنگوں اور وطنوں کے اختلافات اُبھار دیتے ہیں۔ پھر یہی اختلافات آگے بڑھ کر لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت وعداوت کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو ذلیل و حقیر اور ناپاک اور اچھوت سمجھنے کے محرک بنتے ہیں۔ ایک دوسرے کا حق مارنے اور ایک دوسرے پر ظلم ڈھانے کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ آخرکار انھی کی بدولت دُنیا میں خونریزیاں ہوتی ہیں‘ قتل و غارت کا بازار گرم ہوتا ہے‘ لڑائیاں ہوتی ہیں اور شّروفساد سے خدا کی زمین بھرجاتی ہے۔ آج تک جتنی لڑائیاں بھی انسانوں اور انسانوں کے درمیان ہوئی ہیں‘ آپ ان کے اسباب کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ان سب کے پیچھے شرک کسی نہ کسی صورت میں کارفرما رہا ہے یا اُس کی پیدا کردہ خباثتوں میں سے کوئی خباثت اُن کی محرک ہوئی ہے۔
اس کے برعکس توحید اگر شرک کی ہر آمیزش سے پاک ہو‘ تو اُس کا لازمی خاصّہ انسانیت کو بانٹنے اورانسانوں کو انسانوں سے پھاڑنے کے بجاے ان کو باہم جوڑنا اور ایک رب العالمین کی بندگی و اطاعت پر جمع اور متحد کرنا ہے۔ جتنے لوگ بھی مخلوقات کی خدائی کے ہر تصور سے اپنے ذہن کو پاک کر کے صرف ایک خدا کو معبودِ برحق مان لیں گے اور خداوندعالم کی ذات‘ صفات‘ اختیارات اور حقوق میں سے کسی چیز میں بھی کسی مخلوق کی شرکت کے باطل خیال کو اپنے دل و دماغ کے ہر گوشے سے نکال باہر کریں گے‘ وہ لازماً ایک اُمت بنیں گے۔ یقینا ان میں وحدت پیدا ہوگی۔ ضرور وہ ایک دوسرے کے رفیق اور ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہیں گے۔ تاریخ میں اِس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک اللہ کی وحدانیت کے سوا کوئی دوسری چیز انسانوں کو جمع کرنے والی پائی گئی ہو۔ اگر انسان جمع ہوسکتے ہیں تو صرف اُس ایک معبود پر جو حقیقتاً ساری کائنات کا معبود ہے۔ اُسی کوماننے پر اُن کے اندر اتحاد پیدا ہوسکتا ہے اور اُسی کی بندگی پر اتفاق اُنھیں ایک دوسرے کا بھائی بنا سکتا ہے۔ توحیدِالٰہ کا نتیجہ توحیدِ اُمت ایک ایسی اَٹل حقیقت ہے جو کبھی غلط ثابت نہیں ہوئی ہے نہ غلط ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر کبھی کسی جگہ آپ دیکھیں کہ توحید پر ایمان کا دعویٰ تو موجودہے ‘ لیکن اس کا دعویٰ کرنے والی اُمت میں وحدت موجود نہیں ہے‘ بلکہ اُلٹے تفرقے اور تعصبات اور باہمی نفرت و مخالفت کے فتنے برپا ہیں‘ تو چشمِ بصیرت سے اُن کا جائزہ لے کر آپ بآسانی معلوم کرلیں گے کہ اُس اُمت میں شرک گھس آیا ہے اور اُس کے بے شمار شاخسانوں میں سے کوئی نہ کوئی شاخسانہ اس کے افراد اور گروہوں کو ایک دُوسرے سے پھاڑ رہا ہے۔ یہ بات نہ ہو تو جس طرح دو اور دو پانچ نہیں ہوسکتے‘ اسی طرح شرک کی آمیزش کے بغیر ایک خدا کے ماننے والے دس متحارب گروہوں میں بٹ نہیں سکتے۔
اب دیکھیے کہ تمام انسانوں کو ہر زمانے اور ہر دور میں ایک اُمت کے اندر جمع کرنے کے لیے توحید کی بنیاد فراہم کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس وحدت کو دائم و قائم رکھنے کے لیے مزید کیا اہتمام فرمایا ہے۔
ہدایت کا واحد ماخذ: اس نے ایک رسول بھیج کر اور ایک کتاب نازل کر کے انسانی زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبے کے لیے ایک ایسی رہنمائی عطا فرما دی جس سے باہر جاکر انسان کو کہیں اور ہدایت تلاش کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ایک اُمت میں جمع ہوجانے کے بعد انسان اگر متفرق ہوسکتے ہیں تو صرف اس وجہ سے کہ ان کو کسی ایک ماخذ سے پورا نظامِ زندگی نہ ملے اور وہ مختلف حالات‘ مختلف مقامات اور مختلف زمانوں میں دوسرے ذرائع سے ہدایت حاصل کرنے پر مجبور ہوں۔ ایسی صورت میں تو بلاشبہہ انسان ہدایت کے لیے بہت سے ذرائع کی طرف رجوع کریں گے اور اس سے لازماً ان کے اندر تفرقہ برپا ہوگا‘ لیکن جب ہرزمان و مکان کے لیے ہر طرح کے حالات میں ایک ہی ذریعے سے ہدایت مل جائے تو وحدتِ معبود پر جمع ہونے والی اُمت کے لیے تفرقے کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہتا اِلا یہ کہ لوگ یا تو جہالت کی بنا پر اس کی ہدایت سے واقف ہی نہ ہوں یا پھر ذہن و فکر کی کجی کے باعث اصل ہدایت میں اپنی طرف سے کچھ گھٹائیں اور کچھ بڑھائیں‘ اور اس طرح کی کمی و بیشی کرنے والا ہرگروہ یہ دعویٰ کرے کہ اُس کا تیار کردہ دین ہی اصل دین ہے جس کی پیروی نہ کرنے والا گمراہ یا فاسق یا کافر ہے۔
صرف خدا کے سامنے جواب دہی: دوسری اہم چیز جو وحدتِ اُمت کے استحکام اور راہِ راست پر اس کے ثابت قدم رہنے کے لیے فراہم کی گئی ہے وہ یہ عقیدہ ہے کہ انسان صرف ایک خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ وہی ایک خدا دنیا میں بھی اُس کی قسمت بنانے اور بگاڑنے کے مکمل اختیارات رکھتا ہے اور وہی ایک خدا روزِ جزا کا بھی مالک ہے۔ اُس کے سوا نہ کوئی انسانوں کے اعمال کی بازپرس کرنے والا ہے نہ کسی کے ہاتھ میں سزا یا جزا دینے کے اختیارات ہیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا یہ عقیدہ نہ صرف وحدتِ اُمت کا ضامن ہے بلکہ اِسی پر انسانی سیرت و کردار کے راست و درست رہنے کا انحصار ہے۔ اِس عقیدے کے اِن لازمی نتائج کو ضائع کر کے اگر کوئی چیز انسانوں کو پراگندہ اور بے راہ رو بنانے والی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ لوگ دنیا میں خدا کے سوا دوسری مختلف ہستیوں کو حاجت روا قرار دینے لگیں‘ اور آخرت کے بارے میں یہ سمجھنے لگیں کہ وہاں خدا کے انصاف میں مداخلت کرنے کے اختیارات کچھ دوسری ہستیوں کو حاصل ہوں گے۔
پنج وقتہ نماز کا اہتمام: اس کے بعد دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسی چیزیںہم پر لازم کی ہیں جو وحدتِ اُمت کو عملاً قائم اور دائماً سرگرم رکھنے والی ہیں۔ اُن میں اوّلین چیز نماز ہے جو روزانہ پانچ وقت کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں پر فرض کر دی گئی ہے۔ اُس کے لیے ایک قبلہ مقرر ہے جس کی طرف ہرنماز کے وقت مشرق اور مغرب‘ شمال اور جنوب اور اِن مختلف سمتوںکے درمیان رہنے والے سب مسلمانوں کو رُخ کرنا ہوتا ہے۔ اِس نقشے کو ذرا چشمِ تصور کے سامنے لاکر تو دیکھیے کہ خانۂ کعبہ کے گرد نماز پڑھنے والے تمام لوگ ایک ہالہ بنے ہوئے نظرآتے ہیں اور پھر یہی دائرہ پھیلتے پھیلتے تمام روے زمین پر محیط ہوجاتا ہے۔ یہ روزانہ پانچ وقت کا عمل ہے۔ اس سے بڑھ کر وحدت کا مظاہرہ اور کیا ہو سکتا ہے اور اسلام کے سوا یہ مظاہرہ آپ اور کہاں پاتے ہیں؟
اس پنج وقتہ نماز کو فرض کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسے جماعت کے ساتھ ادا کرنا لازم کیا ہے اِلا یہ کہ کوئی مسلمان اپنی جگہ تنہا ہو اور اسے جماعت نہ مل رہی ہو۔ اللہ کی عبادت کا مقصد تو فرداً فرداً نماز پڑھنے سے بھی حاصل ہو سکتا تھا‘ مگر وحدت اُمت کا مقصد نماز باجماعت کے بغیر حاصل ہونا ممکن نہ تھا۔اسی لیے لازم کیا گیا کہ جہاں دو مسلمان بھی موجود ہوں وہاں ایک امام اور دوسرا مقتدی بنے اور دونوں مل کر باجماعت نماز ادا کریں۔
نماز کے لیے لوگوں کو بُلانے کا طریقہ بھی اسلام میں ایسا بے نظیر مقرر کیا گیا ہے جو دنیا کے کسی مذہبی یا لامذہب گروہ کو اپنے کسی اجتماع کی دعوتِ عام دینے کے لیے میسرنہیں ہے۔ نماز کا بلاوا دینے کے لیے روے زمین پر ہر جگہ ہر روز پانچوں وقت ایک ہی زبان میں اذان کی آواز بلند کی جاتی ہے‘ قطع نظر اِس سے کہ بلانے والوں اور بلائے جانے والوں کی اپنی زبان خواہ کچھ بھی ہو۔ اِس مشترک زبان کی اذان دُنیا میں جہاں بھی بلند ہوگی اسے سننے والا ہر مسلمان جان لے گا کہ یہ نماز کا بلاوا ہے اور فلاں مقام سے بلند ہو رہا ہے جہاں مجھے اپنے برادرانِ ملت کے ساتھ جمع ہوکر خداے واحد کی عبادت بجا لانی ہے۔ پھر کمال یہ ہے کہ اذان صرف نماز کا بلاوا ہی نہیں ہے بلکہ اسلام کے پورے عقیدے کا اعلان بھی ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے رسول ہیں۔ اور میری فلاح اُسی ایک خدا کی عبادت سے وابستہ ہے جس کی طرف آنے کے لیے مجھے پکارا جا رہا ہے۔ کیا اِس سے بہترطریق دعوت کا کوئی انسان تصور کرسکتا ہے؟ یہ دعوت دُنیا میں ہر جگہ لوگوں کو نماز کے لیے جمع بھی کرتی ہے اور ایک ہی عقیدے پر متفق بھی۔
پھر نماز کے اوقات‘ اُس کو ادا کرنے کے طریقے اور اس میں پڑھی جانے والی چیزیں تمام دنیا میں یکساں ہیں۔بعض جزوی چیزوں میں اگر کچھ فرق ہے تو وہ ایسا نہیں ہے کہ جنوبی افریقہ کا مسلمان شمالی امریکہ میں یا جاپان کا مسلمان مراکو یا فرانس میں جاکر یہ محسوس کرے کہ یہاں نماز کے بجاے کوئی اور عبادت کی جا رہی ہے۔ اس طرح یہ نماز خداپرستی کے جذبے کو تازہ بھی کرتی ہے اور خدا پرستوں میں عالم گیر برادری کا احساس زندہ و متحرک بھی رکھتی ہے۔
روزوں کا اہتمام: ایسا ہی معاملہ روزوں کا بھی ہے۔ اگر صرف روزے کی عبادت ہی مقصود ہوتی تو ہر مسلمان کو بس یہ حکم دے دینا کافی تھا کہ وہ سال میں ۳۰ روزے جب چاہے رکھ لے۔ لیکن خداے واحد کی عبادت کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اُمت ِ واحدہ بھی بنانا مقصود تھا‘ اس لیے رمضان کا ایک ہی مہینہ ہرسال روزے رکھنے کے لیے مقرر کیا گیا تاکہ سب کا روزہ ایک ساتھ شروع اور ایک ہی ساتھ ختم ہو۔ روزے کے احکام بھی یکساں رکھے گئے تاکہ تمام مسلمان عمربھر ہر سال پورے ۳۰ (یا ۲۹) دن کے روزے ایک ہی طریقے سے ایک ہی طرح کی پابندیوں کے ساتھ رکھتے رہیں۔ اس سے لازماً دنیا بھر کے مسلمانوں میں یہ شعور زندہ اور تازہ رہتا ہے کہ وہ ایک ہی شرع کی پابندی کرنے والی اُمت ہیں۔ اس پر مستزاد تراویح کی نماز ہے جو پنج وقتہ فرض نماز کے علاوہ ساری دنیا میں رمضان کی ہر رات کو باجماعت ادا کی جاتی ہے اور اس میں بالعموم پورا قرآن پڑھا جاتا ہے۔ یہ عبادت بھی ہے‘ خدا کے کلامِ پاک کی تبلیغ اور تذکیر بھی ہے اور وحدتِ اُمت کو اور زیادہ مضبوط و مستحکم کرنے والی چیز بھی۔ قرآن کو ہر سال مہینہ بھر تک روزانہ سننے والے خواہ اُس کی زبان سے واقف ہوں یا نہ ہوں‘ اُس کو سمجھتے ہوں یا نہ سمجھتے ہوں‘ بہرصورت اُن سب میں یہ مشترک احساس ضرور پیدا ہوتا ہے کہ وہ سب ایک کتاب کے ماننے والے ہیں اور وہ کتاب اُن کے رب کی کتاب ہے۔
فریضۂ حج: اب ذرا حج کو دیکھیے جس سے بڑھ کر ملت اسلام کے ایک عالم گیر ملت ہونے کا مظاہرہ کسی دوسری عبادت میں نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے ہر اُس مسلمان پر جو حج کی استطاعت رکھتا ہو‘ یہ لازم کردیا ہے کہ وہ عمر میں ایک مرتبہ اِس فریضے کو انجام دے اور یہ فریضہ صرف چند مقررہ تاریخوں ہی میں ادا کیا جا سکتا ہے جو سال بھر میں صرف ایک بار آتی ہیں۔ اس طرح روے زمین پر جہاں بھی مسلمان آباد ہوں وہاں سے ایک ہی زمانے میں تمام ذی استطاعت مسلمانوں کو مکہ معظمہ میں جمع ہونا پڑتا ہے۔
آپ غور کیجیے یہ وہ چیز ہے جو ہر سال دُنیا کے ہر گوشے سے عام انسانوں کو کھینچ کر ایک جگہ لاتی ہے۔ صرف سیاسی مدبرین کو نہیں لاتی‘ جیسے اقوامِ متحدہ میں جمع ہوتے ہیں۔ صرف قوموں کے لیڈروں کو نہیں لاتی‘جیسے بین الاقوامی کانفرنسوں میںآیا کرتے ہیں۔ یہ ہر ملک اور ہر قوم کے عوام کو لاکھوں کی تعداد میں کھینچ لاتی ہے اور اس غرض کے لیے لاتی ہے کہ وہ سب مل کر ایک خدا کی عبادت کریں۔ ایک ساتھ خانۂ کعبہ کا طواف کریں‘ ایک ساتھ مکہ سے منیٰ اور منیٰ سے عرفات اور عرفات سے مزدلفہ اور مزدلفہ سے پھر منیٰ کی طرف کوچ کریں۔ ایک ساتھ قربانیاں کریں‘ ایک ساتھ رمی جمار کریں‘ ایک ساتھ عرفات میں وقوف اور منیٰ میں چند روز قیام کریں۔ ایک ہی زبان میں سب لبیک لبیک کی آوازیں بلند کریں۔ ایک ساتھ اُس قبلے کے گرد نمازیں ادا کریں جس کی طرف رُخ کر کے ہر روز پانچ مرتبہ وہ اپنی اپنی جگہ نماز پڑھتے رہے ہیں۔
اُن میں ہر نسل‘ ہر قوم‘ ہر رنگ اور ہر وطن کے لوگ یکجا ہوتے ہیں۔ ہر زبان بولنے والے اکٹھے ہوتے ہیں۔ سب اپنے اپنے گھروں سے طرح طرح کے لباس پہنے ہوئے آتے ہیں۔ اُن میں امیر بھی ہوتے ہیں اور غریب بھی۔ شاہ بھی ہوتے ہیں اور گدا بھی۔ مگر وہاں یہ سارے امتیازات ختم ہوجاتے ہیں۔ حرم کے حدود میں پہنچنے سے پہلے ہی سب کے لباس اُتروا کر ایک ہی طرح کا فقیرانہ لباسِ احرام پہنوا دیا جاتا ہے جسے دیکھ کر کوئی شخص بھی یہ تمیز نہیں کرسکتا کہ کون کہاں کا رہنے والا ہے اور کس کا کیا مرتبہ ہے۔ بڑے سے بڑے آدمی کو بھی اس کے اُونچے مقام سے اُتار کر عام انسانوں کی سطح پر لے آیا جاتا ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ تہذیب و تمدن رکھنے والوں کو بھی تمدن کی بالکل نچلی سطح پر رہنے والوں کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے۔ لاکھوں آدمیوں کے ہجوم میں طواف و سعی کرتے ہوئے ایک رئیس کو بھی اُسی طرح دھکّے کھانے پڑتے ہیں جس طرح کوئی عام آدمی دھکّے کھاتا ہے۔ خداوندعالم کے دربار میں پہنچ کر ہر شخص کے دماغ سے کبریائی کا خنّاس نکال دیا جاتا ہے‘ رنگ و نسل اور زبان و وطن کے سارے تعصبات ختم کرکے دنیا کے ہر گوشے سے آنے والے مسلمانوں کے اندر ایک اُمت ہونے کا احساس اِس قوت کے ساتھ بٹھا دیا جاتا ہے کہ اُس کا اثر کسی کے مٹائے نہیں مٹ سکتا۔ دُنیا کے کسی مذہب اور کسی لامذہبی گروہ کے پاس بھی اپنے پیرووں کو اس قدر عالم گیر پیمانے پر متحد کرنے اور ہر سال اس اتحاد کی تجدید کرتے رہنے کا ایسا کیمیا اثر نسخہ موجود نہیں ہے۔ یہ صرف اُس خدا کی حکمت کا کرشمہ ہے جس کی وحدت کو مان کر‘ جس کے رسول اور جس کی کتاب کی پیروی قبول کرکے‘ جس کے حضور اپنی جواب دہی کا شعور پیدا کر کے مسلمان ایک اُمت بنتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا مزید فضل یہ ہے کہ اُس نے حج کی اِن برکات کو بھی صرف اُن لوگوں تک محدود نہیں رکھا جو اِس عبادت کے مناسک ادا کرنے کے لیے مرکز اسلام میں جمع ہوتے ہیں‘ بلکہ تمام دُنیا کے مسلمانوں کے لیے بھی یہ موقع پیدا کر دیا کہ حج ہی کے زمانے میں وہ اپنی اپنی جگہ حاجیوں کے شریکِ حال بن سکیں۔ یہ عیدالاضحی کی نماز اور یہ قربانی جو ان تین دنوں کے اندر زمین کے ہر گوشے میں کی جاتی ہے اِسی غرض کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ دُنیا بھر کے مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جس روز (یعنی ۹؍ ذی الحجہ کو) حج ادا کرنے کے لیے حاجی منیٰ سے عرفات کی طرف روانہ ہوتے ہیں‘ اُسی روز صبح سے وہ ہر فرض نماز کے بعد بآواز بلند اللّٰہُ اکبَر اللّٰہُ اکبَر لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ واللّٰہُ اکبَر اللّٰہُ اکبر وَللّٰہِ الْحَمدکا ورد شروع کر دیں اور ان تکبیرات کا سلسلہ مزید چار روز تک جاری رکھیں تاکہ منیٰ میں حاجیوں کے قیام کا پورا زمانہ دنیا میں اِن تکبیرات کو بلند کرتے ہوئے گزر جائے۔ عیدالاضحی کی نماز کے لیے وہی ۱۰ ذی الحجہ کی تاریخ رکھی گئی ہے جو حاجیوں کے لیے یَومُ النّحْر(قربانی کا دن) ہے۔ حکم ہے کہ اس نماز کے لیے جاتے وقت بھی اور واپس ہوتے وقت بھی یہی تکبیرات بلند کی جائیں۔ اسی دن ساری دنیا میں نمازِعید کے بعد وہی قربانیاں شروع ہوجاتی ہیں جو منیٰ میں حاجی کرتے ہیں۔ اس طرح دنیا کا ہر مسلمان یہ محسوس کرتا ہے کہ میں اُسی اُمت کا ایک فرد ہوں جس اُمت کے لاکھوں آدمی اس وقت حج کر رہے ہیں‘ اور حج کے پورے زمانے میں وہ تکبیرات کہتے ہوئے‘ نماز پڑھتے ہوئے اور قربانی کرتے ہوئے ‘گویاحاجیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ عیدالاضحی میں اگرچہ حج جیسا عظیم اور عالم گیر اجتماع نہیں ہوتا‘ مگر اپنے اپنے مقام پر مسلمان ہر جگہ بڑے سے بڑا اجتماع کرکے نمازادا کرتے ہیں اور مجموعی طور پر تمام روے زمین پر ایک ہی زمانے میں اس عید کا منایا جانا ایک دوسرے انداز میں اُمت کی عالم گیر وحدت کا مظاہرہ بن جاتا ہے۔
اختصار کے ساتھ یہ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے‘ اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توحید‘ رسالت‘ کتاب اور آخرت کے عقائد سے وہ بنیاد فراہم کر دی جس پر قوم‘ وطن‘ رنگ‘ زبان اور نسل کے تمام تعصبات ختم کرکے دنیا کے سارے انسان ایک عالم گیر اُمت بن سکتے ہیں۔ پھر عبادات کے ایسے طریقے مقرر فرما دیے جو اس اُمت میںمحض وحدت ہی نہیں‘ بلکہ پاکیزہ وحدت‘ اور سطحی و ناپایدار وحدت نہیں‘ بلکہ نہایت مضبوط عملی وحدت پیدا کرتے ہیں‘ اور اس پر مزید یہ کہ اپنے آخری رسولؐ اور اپنی آخری کتاب کے ذریعے سے اُس نے وہ مکمل نظامِ زندگی عطا فرما دیا جو پوری انسانیت کے لیے ہر زمان و مکان میں ایسا جامع قانون ہے کہ اپنی کسی ضرورت کے لیے بھی کسی جگہ اور کسی دور کے انسانوں کو ہدایت کی طلب میں کسی دوسرے ذریعۂ رہنمائی کی طرف رجوع کرنے کی حاجت باقی نہیں رہتی۔
اب اس کے بعد اس سے بڑی بدقسمتی اور شرم ناک بدقسمتی کیا ہوگی کہ جس اُمت کو اللہ تعالیٰ نے ایسا جامع و مکمل نظامِ حیات دیا‘ جس اُمت کی وحدت کو قائم رکھنے کے لیے اُس نے اِتنا بڑا انتظام کیا‘ اور جس اُمت کے سپرد اس نے یہ کام کیا کہ وہ دنیا میں اِس دین توحید کو پھیلائے تاکہ پوری انسانیت اِس پر جمع ہو جائے‘ وہ اپنے اصل کام کو پسِ پشت ڈال کر اپنی اِس وحدت ہی کے ٹکڑے اُڑا دینے پر تل گئی ہے۔ وہ مامور تواِس خدمت پر تھی کہ دُنیا سے اُن اسباب کو ختم کر دے جس کی وجہ سے انسان انسان کو ہیچ سمجھتا ہے‘ اچھوت سمجھتا ہے‘ قابلِ نفرت سمجھتا ہے‘ حقیر و ذلیل سمجھتا ہے‘ اور خدا کی زمین کو ظلم و ستم اور قتل و غارت سے جہنم بنا دیتا ہے۔ اُس کا مشن تو یہ تھا کہ دُنیا کو ایک خدا کی بندگی‘ ایک قانونِ برحق کی پیروی‘ اور ایک عالم گیر برادری میں جمع کرکے ظلم کی جگہ عدل‘ جنگ کی جگہ امن‘ نفرت و عداوت کی جگہ خیراندیشی اور محبت قائم کرے اور نوعِ انسانی کے لیے اُسی طرح رحمت بن جائے جس طرح اس کے ہادی و رہنما محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین بناکر بھیجے گئے تھے‘ لیکن یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وہ اپنی قوتیں آپس کے تفرقے برپا کرنے پر صرف کر رہی ہے۔ اس کے لیے سب سے دل چسپ مشغلہ یہ بن گیا ہے کہ اس کے افراد اور گروہ آپس میں ایک دوسرے کی مخالفت کریں اور مخالفت کو بڑھا کر نفرت و عداوت کی حد تک لے جائیں۔ نیک نیتی کے ساتھ رائے اور علم و تحقیق کا اختلاف تو رحمت بن سکتا ہے اور سلف صالحین میں وہ رحمت ثابت بھی ہوا ہے‘ لیکن اب اس اُمت میں اختلاف کے معنی مخالفت کے ہوگئے ہیں اور کسی سے کسی مسئلے میں اختلاف ہوجانے کا مطلب یہ ہوگیا ہے کہ آدمی پنجے جھاڑ کر اُس کے پیچھے پڑ جائے‘ یہاں تک کہ اُس کی تحقیروتذلیل میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھے۔ اور جو کہیں اختلاف مذہبی نوعیت کا ہوجائے تو پھر اسے جہنم کے دروازے تک پہنچائے بغیر دم لینا حرام ہے۔ اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ اور اُس کے رسولؐ نے جن کے لیے وحدت کا اِتنا بڑا سامان کیا تھا اُن کے لیے اب تفرقے کے سارے دروازے کھل گئے ہیں اور وحدت کے دروازے بند ہوتے چلے جاتے ہیں‘ حتیٰ کہ مل کر نماز پڑھنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ مسجدیں الگ ہوگئی ہیں۔ ایک مسجد میں دوسرے مسلک کا آدمی نماز پڑھ لے تو وہ جگہ ناپاک ہوجاتی ہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہو۔ ایک گروہ کا آدمی دوسرے گروہ کے آدمی سے مصافحہ تک کرنے سے اجتناب کرتا ہے کہ کہیں اس کا ہاتھ گندا نہ ہو جائے۔ اناللّٰہِ وانا الیہ راجعون!
یہ سب کچھ اُسی چیز کا نتیجہ ہے جس کی طرف میں پہلے اشارہ کرچکا ہوں کہ مختلف لوگوں نے توحید اور دین و شرع میں نئی نئی چیزوں کی آمیزش کی ہے‘ اصل دین کے عقائد و احکام میں کچھ بڑھایا اور کچھ گھٹایا ہے۔ جو چیزیں اہم نہ تھیں اُنھیں اہم ترین بنایا ہے اور جو اہم تھیں انھیں غیراہم بنا دیا ہے اور پھر انھی آمیزشوںاور اِسی کمی وبیشی کو مدارِ ایمان قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُمت کے مختلف گروہ آپس ہی میں برسرِپیکار ہوگئے ہیں۔ اس حالت میں ہدایت سے بیگانہ انسانوں کو حق کی دعوت دے کر‘ اِس عالم گیر برادری میں شامل کرنا تو الگ رہا جو اس برادری میں پہلے سے شامل ہیں خود انھیں بھی اس سے خارج کرنے کا کام کارِثواب سمجھ کر انجام دیا جا رہا ہے۔ اس صورتِ حال نے ہمیں غیرمسلموں کے لیے ایک تماشا بنا کر رکھ دیا ہے اور مستشرقین کو یہ کہنے کی ہمت ہوئی ہے کہ یہ اُمت سرے سے کوئی اُمت ہی نہیں ہے۔ اِس وقت اشاعت ِ اسلام کی راہ میں اگر کوئی سب سے بڑی رکاوٹ ہے تو وہ ہماری یہی حالت ہے۔ خدا ہم پر رحم فرمائے اور ہمیں راہِ راست دکھائے۔ آمین! (عیدالاضحی کے موقع پر تقریر‘ ۲ دسمبر ۱۹۷۶ئ‘ منصورہ‘ لاہور)
اللہ کا دین اوّل تو یہ چاہتا ہے کہ لوگ بالکلیّہ بندۂ حق بن کر رہیں اور اُن کی گردن میں اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کا حلقہ نہ ہو۔ پھر وہ چاہتا ہے کہ اللہ ہی کا قانون لوگوں کی زندگی کا قانون بن کر رہے۔ پھر اس کا مطالبہ یہ ہے کہ زمین سے فساد مٹے‘ اُن منکرات کا استیصال کیا جائے جو اہل زمین پر اللہ کے غضب کے موجب ہوتے ہیں اور اُن خیرات و حسنات کو فروغ دیا جائے جو اللہ کو پسند ہیں۔ اِن تمام مقاصد میں سے کوئی مقصد بھی اِس طرح پورا نہیں ہو سکتا کہ نوعِ انسانی کی رہنمائی و قیادت اور معاملاتِ انسانی کی سربراہ کاری ائمۂ کفروضلال کے ہاتھوں میں ہو اور دین حق کے پیرو محض اُن کے ماتحت رہ کر اُن کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجایشوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یادِ خدا کرتے رہیں۔ یہ مقاصد تو لازمی طور پر اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام اہل خیروصلاح جو اللہ کی رضا کے طالب ہوں اجتماعی قوت پیدا کریں اور سردھڑ کی بازی لگا کر ایک ایسا نظامِ حق قائم کرنے کی سعی کریں جس میں امامت و رہنمائی اور قیادت و فرماں روائی کا منصب مومنین صالحین کے ہاتھوں میں ہو۔ اس چیز کے بغیر وہ مدّعا حاصل ہی نہیں ہوسکتا جو دین کا اصل مدّعا ہے۔
اسی لیے دین میں امامت ِ صالحہ کے قیام اور نظامِ حق کی اقامت کو مقصدی اہمیت حاصل ہے اور اس چیز سے غفلت برتنے کے بعد کوئی عمل ایسا نہیں ہو سکتا جس سے انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کو پہنچ سکے۔ غور کیجیے‘ آخر قرآن و حدیث میں التزامِ جماعت اور سمع و اطاعت پر اتنا زور کیوں دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص جماعت سے خرُوج اختیار کرے تو اس سے قتال واجب ہے خواہ وہ کلمۂ توحید کا قائل اور نماز روزے کا پابند ہی کیوں نہ ہو؟ کیا اس کی وجہ یہ اور صرف یہی نہیں ہے کہ امامت ِ صالحہ اور نظامِ حق کا قیام و بقا دین کا حقیقی مقصود ہے‘اور اس مقصد کا حصول اجتماعی طاقت پر موقوف ہے‘ لہٰذاجو شخص اجتماعی طاقت کو نقصان پہنچاتا ہے وہ اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرتا ہے جس کی تلافی نہ نماز سے ہو سکتی ہے اور نہ اقرارِ توحید سے؟ پھر دیکھیے کہ آخر اس دین میں جہاد کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی ہے کہ اس سے جی چرانے اور منہ موڑنے والوں پر قرآن مجید نفاق کا حکم لگاتاہے؟ جہاد‘ نظامِ حق کی سعی کا ہی تو دوسرا نام ہے۔ اور قرآن اسی جہاد کو وہ کسوٹی قرار دیتا ہے جس پر آدمی کا ایمان پرکھا جاتا ہے۔ بالفاظِ دیگر جس کے دل میں ایمان ہوگا وہ نہ تو نظامِ باطل کے تسلّط پر راضی ہو سکتا ہے اور نہ نظامِ حق کے قیام کی جدوجہد میں جان و مال سے دریغ کر سکتا ہے۔ اس معاملے میں جو شخص کمزوری دکھائے اس کا ایمان ہی مشتبہ ہے‘ پھر بھلا کوئی دوسرا عمل اسے کیا نفع پہنچا سکتا ہے؟…
اسلام کے نقطۂ نظر سے امامت ِ صالحہ کا قیام مرکزی اور مقصدی اہمیت رکھتا ہے۔ جو شخص اس دین پر ایمان لایا ہو‘ اُس کا کام صرف اتنے ہی پر ختم نہیں ہوجاتا کہ اپنی زندگی کو حتی الامکان اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے بلکہ عین اس کے ایمان ہی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی تمام سعی و جہد کو اِس ایک مقصد پر مرکوز کر دے کہ زمامِ کار کفار و فساق کے ہاتھ سے نکل کر صالحین کے ہاتھ میں آئے‘ اور وہ نظامِ حق قائم ہو جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق دنیا کے انتظام کو درست کرے اور درست رکھے۔ پھر چونکہ یہ مقصد ِاعلیٰ اجتماعی کوشش کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا اس لیے ایک ایسی جماعت صالحہ کا وجود ضروری ہے جو خود اصولِ حق کی پابند ہو اور نظامِ حق کو قائم کرنے‘ باقی رکھنے اور ٹھیک ٹھیک چلانے کے سوا دُنیا میں کوئی دوسری غرض پیشِ نظر نہ رکھے۔
رُوے زمین پر اگر صرف ایک ہی آدمی مومن ہو تب بھی اس کے لیے یہ درست نہیںہے کہ اپنے آپ کو اکیلا پاکر اور ذرائع مفقود دیکھ کر نظامِ باطل کے تسلّط پر راضی ہوجائے یا اہون البلیتین کے شرعی حیلے تلاش کر کے غلبۂ کفروفسق کے ماتحت کچھ آدھی پونی مذہبی زندگی کا سودا چکانا شروع کر دے‘ بلکہ اُس کے لیے سیدھا اور صاف راستہ صرف یہی ایک ہے کہ بندگانِ خدا کو اُس طریق زندگی کی طرف بلائے جو خدا کو پسند ہے۔ پھر اگر کوئی اس کی بات سُن کر نہ دے تو اُس کا ساری عمر صراطِ مستقیم پر کھڑے ہو کر لوگوں کو پکارتے رہنا اور پکارتے پکارتے مر جانا اِس سے لاکھ درجہ بہترہے کہ وہ اپنی زبان سے وہ صدائیں بلند کرنے لگے جو ضلالت میں بھٹکی ہوئی دُنیا کو مرغوب ہوں‘ اور اُن راہوں پر چل پڑے جن پر کفار کی امامت میں دنیا چل رہی ہو۔ اور اگر کچھ اللہ کے بندے اس کی بات سننے پر آمادہ ہو جائیں تو اس کے لیے لازم ہے کہ ان کے ساتھ مل کر ایک جتھا بنائے اور یہ جتھا اپنی تمام اجتماعی قوت اُس مقصد ِعظیم کے لیے جدوجہد کرنے میں صرف کردے جس کا میں ذکر کر رہا ہوں۔
حضرات! مجھے خدا نے دین کا جو تھوڑا بہت علم دیا ہے اور قرآن و حدیث کے مطالعے سے جو کچھ بصیرت مجھے حاصل ہوئی ہے‘ اس سے میں دین کا تقاضا یہی کچھ سمجھا ہوں۔ یہی میرے نزدیک کتابِ الٰہی کا مطالبہ ہے۔ یہی انبیا کی سنت ہے اور میں اپنی اس رائے سے ہٹ نہیں سکتا جب تک کوئی خدا کی کتاب اور رسولؐ کی سنت ہی سے مجھ پر ثابت نہ کر دے کہ دین کا یہ تقاضا نہیں ہے۔ (تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں‘ ص ۹-۱۳)
سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیجیے کہ دنیاے اسلام اس وقت دو بڑے حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک حصہ وہ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور سیاسی اقتدار غیرمسلموں کے ہاتھوں میں ہے۔ دوسرا حصہ وہ جہاں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے اور سیاسی اقتدار بھی انھی کے ہاتھ میں ہے۔ ان دونوں حصوں میں سے فطری طور پر زیادہ اہمیت دوسرے حصے کو حاصل ہے اور ملّت اسلامیہ کا مستقبل بہت بڑی حد تک اُس روش پر منحصر ہے جو آزاد مسلم مملکتیں اختیار کر رہی ہیں اور آگے اختیار کرنے والی ہیں۔ اگرچہ پہلا حصہ بھی کچھ کم وزن نہیں رکھتا۔ اپنی جگہ اس کو بھی بڑا اہم مقام حاصل ہے۔ کیونکہ کسی نظریۂ حیات اور عقیدہ و مسلک کے پیرووں کا دنیا کے ہر خطے اور ہر گوشے میں پہلے ہی سے موجود ہونا ‘ اور قلیل تعداد میں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں موجود ہونا‘ ان لوگوں کے لیے بڑی تقویت کا موجب ہوسکتا ہے جو اُس نظریے اور عقیدے و مسلک کی علم برداری کے لیے اُٹھیں۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ اگروہ نظریہ اور عقیدہ و مسلک خود اپنے ہی گھر میں مغلوب ہو جائے تو روے زمین پر پھیلے ہوئے اس کے یہ پیرو‘ جو پہلے ہی سے مغلوب ہیں‘ زیادہ دیر تک اپنے مقام پر ٹھیرے نہیں رہ سکتے۔ اس بنا پر یہ کہنا صحیح ہے کہ اس وقت نظر بظاہر دنیاے اسلام کے مستقبل کا انحصار اُن مسلم ممالک ہی کے مستقبل پر ہے جوانڈونیشیا اور ملایا سے لے کر مراکو اور نائیجیریا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کوئی اورکرشما دکھا دے جس کا ہم ظاہری اسباب کو دیکھتے ہوئے کوئی اندازہ نہ کر سکتے ہوں۔ وہ چاہے تو چٹانوں میں سے چشمے پھوڑ کر نکال سکتا ہے اور ریگستانوں کو اپنے ایک اشارے سے گلستانوں میں تبدیل کر سکتا ہے۔
آپ لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ ایک طویل مدت تک ذہنی جمود‘ عقلی انحطاط‘ اخلاقی زوال اور مادّی اضمحلال میں مبتلا رہنے کے بعد آخرکار اکثروبیشتر مسلمان ملک مغربی استعمار کے شکار ہوتے چلے گئے تھے۔ اٹھارھویں صدی مسیحی سے یہ عمل شروع ہوا تھا اور موجودہ صدی کے اوائل میں یہ اپنے انتہائی کمال کو پہنچ گیا تھا۔ اس زمانے میں گنتی کے صرف دوچار مسلمان ملک باقی رہ گئے تھے جو براہِ راست مغربی مستعمرین کی سیاسی غلامی میں مبتلا ہونے سے بچ گئے۔ مگر پے درپے شکستیں کھا کھا کر اُن کا حال غلاموں سے بھی بدتر ہوگیا اور اُن کی مرعوبیت اور دہشت زدگی اُن لوگوں سے بھی کچھ زیادہ بڑھ گئی جو اپنی سیاسی آزادی پوری طرح کھو بیٹھے تھے۔
مغربی استعمار کے اس غلبے کا سب سے زیادہ تباہ کن نتیجہ وہ تھا جو ہماری ذہنی شکست اور ہمارے اخلاقی بگاڑ کی شکل میں رونما ہوا۔ اگر یہ مستعمرین ہمیں لوٹ کر بالکل غارت کر دیتے اور قتل عام کرکے ہماری نسلوں کو مٹا دیتے‘ تب بھی یہ اتنا بڑا ظلم نہ ہوتا جتنا بڑا ظلم انھوں نے اپنی تعلیم اور اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنے اخلاقی مفاسد پھیلا کر ہم پر ڈھایا۔ جن جن مسلمان ملکوں پر اُن کا تسلّط ہوا وہاں ان سب کی مشترک پالیسی یہ رہی کہ ہمارے آزاد نظامِ تعلیم کو ختم کر دیں‘ یا اگر وہ پوری طرح ختم نہ ہو سکے تو اس سے فارغ ہو کر نکلنے والوں کے لیے حیات اجتماعی میں کوئی مصرف باقی نہ رہنے دیں۔ اسی طرح یہ بھی ان کی پالیسی کا ایک لازمی جز رہا کہ مفتوح قوموں کی اپنی زبانوں کو ذریعہ ء تعلیم اور سرکاری زبان کی حیثیت سے باقی نہ رہنے دیں اور ان کی جگہ فاتحین کی زبانوں کو ذریعہ ء تعلیم بھی بنائیں اور سرکاری زبان بھی قرار دے دیں۔ مشرق سے مغرب تک تمام مغربی فاتحین نے بالاتفاق یہی عمل تمام مسلم ممالک میں کیا‘ خواہ وہ ڈچ ہوں یا انگریز یا فرانسیسی یا اطالوی یا کوئی اور ۔ اس طریقے سے ان مستعمرین نے ہمارے ہاں ایک ایسی نسل تیار کر دی جو ایک طرف تو اسلام اور اس کی تعلیمات سے ناواقف‘ اس کے عقیدہ و مسلک سے بیگانہ‘ اور اس کی تاریخ اور روایات سے نابلد تھی‘ اور دوسری طرف اس کا ذہن اور اندازِ فکر اور زاویۂ نظر مغربی سانچے میں ڈھل چکا تھا۔ پھر اس نسل کے بعد پے درپے دوسری نسلیں ایسی اُٹھتی چلی گئیں جو اسلام سے اور زیادہ دور اور مغربی فلسفۂ حیات اور تہذیب و تمدن میں زیادہ سے زیادہ غرق ہو چکی تھیں۔ ان کے لیے اپنی زبان میں بات کرنا موجب ننگ و عار اور فاتحین کی زبان میں بولنا موجب افتخار بن گیا۔
مغربی فاتح نصرانیت کے لیے خواہ کتنے ہی متعصب ہوں‘ ان فرنگیت مآب غلاموں کو مسلمان ہونے پر شرم آنے لگی اور اسلام کے خلاف بغاوت کا یہ فخریہ اظہار کرنے لگے۔ مغربی فاتح اپنی فرسودہ اور بوسیدہ قومی روایات کا کتنا ہی احترام کرتے ہوں‘ یہ غلام لوگ اپنی روایات کی تحقیر کرنا ہی اپنے لیے ذریعہ ء عزت سمجھنے لگے۔ مغربی فاتحین نے مدت العمر مسلمان ملکوں میں رہنے کے باوجود کبھی مسلمانوں کے لباس اور طرزِ زندگی اختیار نہ کیے‘ مگر یہ غلام لوگ اپنے ہی ملکوں میں رہتے ہوئے ان فاتحین کے لباس‘ اُن کے رہن سہن کے طریقے‘ ان کے کھانے پینے کے ڈھنگ‘ ان کی ثقافت کے اطوار‘ حتیٰ کہ ان کی حرکات و سکنات تک کی نقل اتارنے لگے اور اپنی قوم کی ہر چیز ان کی نگاہوں میں حقیر ہوکر رہ گئی۔ پھر مغربی فاتحین کی تقلید میں ان لوگوں نے مادہ پرستی‘ الحاد‘ عصبیت ِ جاہلیہ‘ قوم پرستی‘ اخلاقی بے قیدی اور فسق و فجور کا پورا زہر اپنے اندر جذب کر لیا‘ اور ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جو کچھ مغرب کی طرف سے آتا ہے وہ سراسر حق ہے‘ اسے اختیار کرنا ہی ترقی پسندی ہے اور اس سے منہ موڑنے کے معنی رجعت کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
مغربی مستعمرین کی مستقل پالیسی یہ تھی کہ جو لوگ اس رنگ میں جتنے زیادہ رنگ جائیں اور اسلام کے اثرات سے جس قدر زیادہ عاری ہوں‘ اُن کو زندگی کے ہر شعبے میں اتنا ہی زیادہ بلند مرتبہ دیا جائے۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا‘ اور اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا چاہیے تھا کہ سلطنتوں میں اونچے سے اونچے عہدے انھی کو ملے۔ مستعمرین کی فوجی اور سول ملازمتوں میں یہی کلیدی مناصب پر پہنچے۔ سیاست میں انھی کو اہم حیثیت حاصل ہوئی۔ سیاسی تحریکوں کے یہی لیڈر بنے۔ پارلیمنٹوں میں یہی نمایندے بن کر پہنچے اور مسلمان ملکوں کی معاشی زندگی پر بھی یہی چھا گئے۔
اس کے بعد جب مسلمان ملکوں میں آزادی کی تحریکیں اُٹھنی شروع ہوئیں تو ناگزیر تھا کہ ان تحریکوں کی قیادت یہی لوگ کریں‘ کیونکہ یہی حکمرانوں کی زبان میں بات کر سکتے تھے‘ یہی ان کے مزاج کو سمجھتے تھے‘ اور یہی اُن سے قریب تر تھے۔ اسی طرح جب یہ ممالک آزاد ہونے شروع ہوئے تو آزادی کے بعد اقتدار بھی انھی کے ہاتھوں میں منتقل ہوا اور مستعمرین کی خلافت انھی کو نصیب ہوئی‘ کیونکہ مستعمرین کے ماتحت سیاسی نفوذ و اثر انھی کو حاصل تھا‘ سول حکومت کا نظم و نسق یہی چلا رہے تھے اور فوجوں میں بھی قیادت کے مناصب پر یہی فائز تھے۔
استعمار کے آغاز سے لے کر اس کے اختتام اور آزادی کی ابتدا تک کی اس تاریخ کے چند نمایاں پہلو ایسے ہیں جنھیں نگاہ میں رکھنا ضروری ہے‘ کیونکہ انھیں نظرانداز کر کے اس وقت کی پوری صورتِ حال کو ٹھیک ٹھیک نہیں سمجھاجاسکتا۔
اوّل یہ کہ مغربی مستعمرین اپنی پوری مدتِ استعمار میں کسی جگہ بھی اس بات پر قادر نہیں ہو سکے کہ عام مسلمانوں کو اسلام سے منحرف کر سکیں۔ انھوں نے جہالت ضرور پھیلائی اور عوام کے اخلاق بھی بہت کچھ بگاڑے‘ اور اسلامی قوانین کی جگہ اپنے قوانین رائج کر کے مسلمانوں کو غیرمسلمانہ زندگی بسر کرنے کا خوگر بھی بنا دیا‘ لیکن اس کے باوجود دنیا کی کوئی مسلمان قوم بھی من حیث القوم ان کے زیراثر رہ کر اسلام سے باغی نہ ہو سکی۔ آج دنیا کے ہر ملک میں عام لوگ اسلام کے ویسے ہی معتقد ہیں جیسے تھے۔ وہ چاہے اسلام کو جانتے نہ ہوں مگر اسے مانتے ہیں اور اس کے ساتھ گہرا عشق رکھتے ہیں اور اس کے سوا کسی اور چیز پر راضی نہیں ہیں۔ اُن کے اخلاق بری طرح بگڑ چکے ہیں اور ان کی عادتیں بہت خراب ہو چکی ہیں۔ لیکن ان کی قدریں نہیں بدلیں اور ان کے معیار جوں کے توں قائم ہیں۔ وہ سود اور زنا اور شراب نوشی میں مبتلا ہوسکتے ہیں اور ہورہے ہیں مگر چھوٹی سی فرنگیت زدہ اقلیت کو چھوڑ کر عام مسلمانوں میں آپ کو ایسا کوئی شخص نہ ملے گا جو ان چیزوں کو حرام نہ مانتا ہو۔ وہ رقص و سرود اور دوسرے فواحش کی لذتوں کو چاہے چھوڑ نہ سکتے ہوں مگر چھوٹی سی مغرب زدہ اقلیت کے سوا عامۃ المسلمین کسی طرح بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ یہی اصل ثقافت ہے۔ اسی طرح مغربی قوانین کے تحت زندگی بسر کرتے ہوئے اُن کی پشتیں گزر چکی ہیں‘ مگر ان کے دماغ میں آج تک یہ بات نہیں اتر سکی ہے کہ یہی قوانین برحق ہیں اور اسلام کا قانون فرسودہ ہو چکا ہے۔ مغرب زدہ اقلیت ان مغربی قوانین پر چاہے کتنا ہی ایمان لاچکی ہو‘ عام مسلمان اکثریت ہمیشہ کی طرح آج بھی اسلام ہی کے قانون کو برحق مانتی ہے اور اس کا نفاذ چاہتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ علماے دین ہر جگہ عوام کے قریب ہیں‘ کیونکہ وہ انھی کی زبان سے بولتے ہیں اور اسی عقیدہ و مسلک کی نمایندگی کرتے ہیں جس کے عوام معتقد ہیں لیکن زمامِ اقتدار سے وہ کلّی طور پر بے دخل ہیں۔ اور ایک مدت دراز تک دنیوی معاملات سے بے تعلق رہنے کے باعث اُن میں یہ صلاحیت بھی باقی نہیں رہی ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کرسکیں اور زمامِ اقتدار ہاتھ میں لے کر کسی ملک کا نظام چلا سکیں۔ اسی وجہ سے کسی مسلمان ملک میں بھی وہ آزادی کی تحریک کے قائد نہ بن سکے اور کہیں بھی آزادی کے بعد اقتدار میں وہ شریک نہ ہوسکے۔ ہماری اجتماعی زندگی میں ایک مدت سے اُن کا کام بس وہ ہے جو ایک موٹر میں بریک کا ہوتا ہے۔ ڈرائیور مغربیت زدہ طبقہ ہے اور یہ بریک گاڑی کی رفتار کو تیز ہونے سے کچھ نہ کچھ روک رہا ہے۔ مگر بعض ملکوں میں بریک ٹوٹ چکا ہے اور گاڑی پوری سرعت کے ساتھ نشیب کی طرف جا رہی ہے‘ اگرچہ اس کے چلانے والے اس غلط فہمی میں ہیں کہ وہ فراز پر چڑھ رہے ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی کسی ملک میں آزادی کی تحریک اُٹھی‘ اس کے قائدین اگرچہ وہی مغربیت زدہ لوگ تھے ‘ لیکن کسی جگہ بھی وہ عام مسلمانوں کو مذہبی اپیل کے بغیر نہ حرکت میں لا سکے اور نہ قربانیاں دینے پر آمادہ کر سکے۔ بلااستثنا ہر جگہ انھیں اسلام کے نام پر لوگوں کو پکارنا پڑا۔ ہر جگہ اُن کو خدا اور رسول اور قرآن ہی کے نام پر اپیل کرنی پڑی۔ ہر جگہ انھیں آزادی کی تحریک کو اسلام اور کفر کی جنگ قرار دینا پڑا۔ اس کے بغیر وہ کہیں بھی اپنی قوم کو اپنے پیچھے نہ لگا سکتے تھے۔ اب یہ تاریخ عالم کی عظیم ترین غداریوں میں سے ایک بے نظیر غداری ہے کہ ہر جگہ آزادی حاصل کرنے کے بعد فوراً ہی یہ لوگ اپنے تمام وعدوں سے پھر گئے اور ان کا پہلا شکار وہی اسلام ہوا جس کے نام پر انھوں نے آزادی کا معرکہ جیتا تھا۔
چوتھی اور آخری بات قابل ذکر یہ ہے کہ ان لوگوں کی قیادت میں مسلمان ملکوں کو جو آزادی حاصل ہوئی ہے وہ صرف سیاسی آزادی ہے۔ پچھلی غلامی اور اِس آزادی میں فرق صرف یہ ہے کہ پہلے جو زمامِ اقتدار باہر والوں کے ہاتھ میں تھی‘ اب وہ گھر والوں کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑاہے کہ جس ذہن کے آدمی جن نظریات اور اصولوں کے ساتھ پہلے حکومت کر رہے تھے اُسی ذہن کے آدمی انھی نظریات کے ساتھ آج بھی حکومت کر رہے ہیں۔ وہی نظامِ تعلیم جو مستعمرین نے قائم کیا تھا اب بھی چل رہا ہے۔ انھی کے رائج کردہ قوانین نافذ ہیں اور آگے مزید قانون سازی اُنھی خطوط پر ہو رہی ہے بلکہ مغربی مستعمرین نے مسلمانوں کے قانون احوال شخصیہ (پرسنل لا) پر جو دست درازیاں کرنے کی کبھی ہمت نہ کی تھی‘ وہ آج آزاد مسلم مملکتوں میں کی جا رہی ہے۔ تہذیب و ثقافت اور اخلاق و تمدّن کے جو نظریات مستعمرین دے گئے ہیں‘ ان میں سے کسی چیز کو بدلنا تو درکنار‘ آج یہ لوگ اپنی قوموں کو اُن سے بھی زیادہ اُس تہذیب میں غرق اور اُن اخلاقی نظریات کے مطابق مسخ کر رہے ہیں۔ وہ قومیت کے مغربی نظریات کے سوا اجتماعی زندگی کا کوئی دوسرا نقشہ نہیں سوچ سکتے۔ اسی نقشے پر وہ مسلم مملکتوں کے نظام چلا رہے ہیں اور اس کی وجہ سے انھوں نے مسلمان قوموں کو ایک دوسرے سے پھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ان کے ذہنوں میں الحاد بس گیا ہے اور جہاں جہاں بھی انھیں اثر ڈالنے کا موقع ملتا ہے وہاں وہ مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اس حد تک خراب کرتے چلے جا رہے ہیں کہ وہ خدا اور رسول اور آخرت کا مذاق اڑاتی ہیں۔ وہ اباحیت میں خود تو مستغرق ہیں اور ان کی قیادت ہر جگہ مسلمانوں کے اندر فسق و فجور اور بے حیائی پھیلاتی چلی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ مغربی استعمار کے چاہے کتنے ہی دشمن ہوں‘ مغربی مستعمرین اُن کو دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ ان کی ہرادا پر یہ مرے مٹتے ہیں۔ ان کی ہر بات کو یہ معیارِ حق سمجھتے ہیں۔ ان کے ہر کام کی یہ نقل اتارتے ہیں۔ اُن میں اور اِن میں فرق صرف یہ ہے کہ وہ مجتہد ہیں اور یہ محض اندھے مقلّد۔ یہ اُن کی پٹی ہوئی راہوں سے ہٹ کر ایک انچ بھی کوئی نیا راستہ نہیں نکال سکتے۔
یہ چار حقائق جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیے ہیں‘ ان کو نگاہ میں رکھ کر آپ دنیا کی آزاد مسلمان قوموں کی موجودہ حالت کا جائزہ لیں تو اس وقت کی پوری صورت حال آپ پر واضح ہو جائے گی۔ دنیا کی تمام آزاد مسلم حکومتیں اس وقت بالکل کھوکھلی ہو رہی ہیں۔ کیونکہ ہر جگہ وہ اپنی اپنی قوموں کے ضمیر سے لڑ رہی ہیں۔ ان کی قومیں اسلام کی طرف پلٹنا چاہتی ہیں اور یہ اُن کو زبردستی مغربیت کی راہ پر گھسیٹ رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کہیں بھی مسلمان قوموں کے دل اپنی حکومتوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ حکومتیں اس وقت مضبوط ہوتی ہیں جب حکمرانوں کے ہاتھ اور قوموں کے دل پوری طرح متفق ہو کر تعمیرحیات کے لیے سعی کریں۔ اس کے بجاے جہاں دل اور ہاتھ ایک دوسرے سے نزاع و کش مکش میں مشغول ہوں وہاں ساری قوتیں آپس ہی کی لڑائی میں کھپ جاتی ہیں اور تعمیروترقی کی راہ میں کوئی پیش قدمی نہیں ہوتی۔
اسی صورتِ حال کا ایک فطری نتیجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان ملکوں میں پے درپے آمریتیں قائم ہو رہی ہیں۔ مغربیت زدہ طبقے کی وہ چھوٹی سی اقلیت ‘ جس کو مستعمرین کی خلافت حاصل ہوئی ہے‘ اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر نظامِ حکومت عوام کے ووٹوں پر مبنی ہو تو اقتدار ان کے ہاتھ میں نہیں رہ سکتا بلکہ جلدی یا دیر سے وہ لازماً ان لوگوں کی طرف منتقل ہو جائے گا جو عوام کے جذبات اور اعتقادات کے مطابق حکومت کا نظام چلانے والے ہوں۔ اس لیے وہ کسی جگہ بھی جمہوریت کو چلنے نہیں دے رہے ہیں اور آمرانہ نظام قائم کرتے جا رہے ہیں۔ اگرچہ فریب دینے کے لیے انھوں نے آمریت کا نام جمہوریت رکھ دیا ہے۔
ابتداًء کچھ مدت تک قیادت اس گروہ کے سیاسی لیڈروں کے ہاتھ میں رہی اور سول حکام مسلمان ملکوں کے نظم و نسق چلاتے رہے۔ لیکن یہ بھی اسی صورتِ حال کا ایک فطری نتیجہ تھا کہ مسلمان ملکوں کی فوجوں میں بہت جلدی یہ احساس پیدا ہوگیا کہ آمریت کا اصل انحصار انھی کی طاقت پر ہے۔ یہ احساس بہت جلدی فوجی افسروں کو میدانِ سیاست میں لے آیا اور انھوں نے خفیہ سازشوں کے ذریعے سے حکومتوں کے تختے اُلٹنے اور خود اپنی آمریتیں قائم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اب مسلمان ملکوں کے لیے ان کی فوجیں ایک مصیبت بن چکی ہیں۔ اُن کا کام باہر کے دشمنوں سے لڑنا اور ملک کی حفاظت کرنا نہیں‘ بلکہ اب اُن کا کام یہ ہے کہ اپنے ہی ملکوں کو فتح کریں اور جو ہتھیار اُن کی قوموں نے ان کو مدافعت کے لیے دیے تھے انھی سے کام لے کر وہ اپنی قوموں کو اپنا غلام بنا لیں۔ اب مسلمان ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے انتخابات یا پارلیمنٹوں میں نہیں بلکہ فوجی بیرکوں میں ہو رہے ہیں‘ اور یہ فوجیں بھی کسی ایک قیادت پر متفق نہیں ہیں‘ بلکہ ہرفوجی افسر اس تاک میں لگا ہوا ہے کہ کب اسے کوئی سازش کرنے کا موقع ملے اور وہ دوسرے کو مار کر خود اس کی جگہ لے لے۔ ان میں سے ہر ایک جب آتا ہے تو زعیم انقلاب بن کر آتا ہے اور جب رخصت ہوتا ہے تو خائن و غدار قرار پاتا ہے۔ مشرق سے مغرب تک بیشتر مسلمان قومیں اب محض تماشائی ہیں۔ ان کے معاملات چلانے میں اب ان کی رائے اور مرضی کاکوئی دخل نہیں ہے۔ ان کے علم کے بغیراندھیرے میں انقلاب کی کھچڑی پکتی ہے اور کسی روز یکایک ان کے سروںپر اُلٹ پڑتی ہے۔ البتہ ایک چیز میں یہ سب متحارب انقلابی لیڈر متفق ہیں اور وہ یہ ہے کہ ان میں سے جو بھی اُبھر کر اُوپرآتا ہے وہ اپنے پیش رو ہی کی طرح مغرب کا ذہنی غلام اور الحاد و فسق کا علم بردار ہوتا ہے۔
ان تاریک حالات میں ایک روشنی موجود ہے جس کے اندر دو حقیقتیںمجھے صاف نظر آرہی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے الحاد و فسق کے ان علم برداروں کو ایک دوسرے سے لڑا دیا ہے اور یہ خود ہی ایک دوسرے کی جڑ کاٹ رہے ہیں۔ خدانخواستہ اگر یہ متحد ہوتے تو ناقابلِ علاج مصیبت بن جاتے۔ مگر ان کا رہنما شیطان ہے اور شیطان کاکید ] چال[ ہمیشہ ضعیف ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ دوسری اہم حقیقت جو میں دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ مسلمان قوموں کے دل بالکل محفوظ ہیں‘ وہ ہرگز ان نام نہاد انقلابی لیڈروں سے راضی نہیں ہیں‘ اور اس امرکے پورے امکانات موجود ہیں کہ اگر کوئی صالح گروہ فکر کے اعتبار سے مسلمان اور ذہنی قابلیتوں کے لحاظ سے قیادت کا اہل ہو تو آخرکار وہی غالب آئے گا اور مسلمان قومیں اس الحاد و فسق کی قیادت سے نجات پاجائیں گی۔
اس وقت کام کا اصل موقع اُن لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے ایک طرف مغربی طرز کی تعلیم پائی ہے اور دوسری طرف جن کے دلوں میں خدا اور رسول اور قرآن اور آخرت پر ایمان محفوظ ہے…
ان کو اسلام کا صحیح علم حاصل کرنا چاہیے تاکہ ان کے دل جس طرح مسلمان ہیں اسی طرح ان کے دماغ بھی مسلمان ہوجائیں اور یہ اجتماعی معاملات کو اسلامی احکام اور اصولوں کے مطابق چلانے کے قابل بن جائیں۔
اپنی اخلاقی اصلاح:ان کو اپنی اخلاقی اصلاح کرنی چاہیے تاکہ ان کی اخلاقی زندگیاں عملاً بھی اُسی اسلام کے مطابق ہوجائیں جس کو وہ اعتقاداً برحق مانتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ قول اور عمل کا تضاد آدمی کے اندر نفاق پیدا کرتا ہے اور باہر کی دنیا میں اس کا اعتماد ختم کر دیتا ہے۔ آپ کی کامیابی کا سارا انحصار اخلاص اور راست بازی پر ہے‘ اور کوئی ایسا شخص نہ مخلص ہوسکتا ہے ‘ نہ مخلص مانا جاسکتا ہے جو کہے کچھ اور کرے کچھ۔ آپ کی اپنی زندگی میں اگر تناقض ہوگا تو نہ دوسرے آپ پر اعتماد کریں گے اور نہ خود آپ کے دل میں اپنے اُوپر وثوق پیدا ہو سکے گا۔ اس لیے دعوتِ اسلامی کے لیے کام کرنے والے تمام لوگوں کو میری مخلصانہ نصیحت یہ ہے کہ جن جن امور کے متعلق انھیں یہ علم حاصل ہوتا جائے کہ اسلام نے ان کا حکم دیا ہے‘ اُن پر عامل ہونے کی‘ اور جن کے متعلق انھیں معلوم ہوتا جائے کہ اسلام نے انھیں منع کیا ہے‘ ان سے اجتناب کرنے کی پوری کوشش کریں۔
اُن کو اپنی تمام ذہنی صلاحیتیں اور تحریر و تقریر کی قوتیں اس کام پر صرف کر دینی چاہییں کہ مغربی تہذیب و ثقافت اور فلسفۂ حیات پر تنقید کر کے اُس بت کو پاش پاش کر دیں جس کی آج دنیا میں پرستش کی جا رہی ہے‘ اور اُس کے مقابلے میں اسلام کے عقائد اور اصول و مبادی اور قوانین حیات کی تشریح و تدوین ایسے معقول طریقوں سے کریں جو نسلِ جدید کے ذہن کو ان کی صحت کا یقین دلا سکے‘ اور اُن کے اندر یہ اعتماد پیدا کرسکے کہ دورِحاضر میں ایک قوم ان عقائد اور اصول و قوانین کواختیار کرکے نہ صرف ترقی کر سکتی ہے بلکہ دوسروںسے آگے بڑھ سکتی ہے۔ یہ کام جتنے صحیح خطوط پر‘ جتنے بڑے پیمانے پر ہوگا اتنے ہی دعوت اسلامی کے لیے آپ کو سپاہی ملتے چلے جائیں گے‘ اور یہ سپاہی ہر شعبۂ حیات سے نکل نکل کر آئیں گے۔ اس عمل کا سلسلہ ایک طویل مدت تک جاری رہنا چاہیے‘ تاکہ ایک کثیرتعداد اُن لوگوں کی پیدا ہو جائے جو ایک ملک کے نظام کو اسلامی اصولوں پر چلانے کے لیے درکار ہیں۔ یہ عمل جب تک بتدریج اپنی انتہا کو نہ پہنچ جائے‘ آپ کسی اسلامی انقلاب کے برپا ہونے کی توقع نہیں کرسکتے ‘ اور اگر کسی مصنوعی طریقے سے وہ برپا ہو بھی جائے تو وہ مستحکم نہیں ہوسکتا۔
دعوتِ اسلامی سے جتنے لوگ متاثر ہوتے جائیں‘ ان کو منظم ہونا چاہیے اور ان کی تنظیم کو ڈھیلا اور سُست نہ ہونا چاہیے۔ نظم و ضبط اور سمع و طاعت کے بغیر محض ہم خیال لوگوں کا ایک بکھرا ہوا گروہ فراہم کر دینے سے کوئی کارگر طاقت پیدا نہیں ہو سکتی۔
اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو عوام میں اپنی دعوت پھیلانی چاہیے تاکہ عام لوگوں کی جہالت دُور ہو اور وہ اسلام سے واقف ہوں اور اسلام و جاہلیت کا فرق جان لیں۔ اس کے ساتھ انھیں عوام کی اخلاقی اصلاح کی بھی کوشش کرنی چاہیے اور فسق و فجور کے اس سیلاب کو روکنے کے لیے اپنا پورا زور لگا دینا چاہیے جو فاسق قیادت کے اثر سے مسلمان قوموں میں روز بروزبڑھتا چلا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک قوم فاسق ہوجانے کے بعد ایک اسلامی حکومت کی رعایا بننے کے قابل نہیں رہتی۔ عامۃ الناس میں فسق جتنا بڑھے گا‘ اُن کے معاشرے میں اسلامی نظام کا چلنا اتنا ہی مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ جھوٹے‘ بددیانت اور بدکار لوگ نظامِ کفر کے لیے جتنے موزوں ہیں‘ نظامِ اسلامی کے لیے اتنے ہی غیر موزوں ہیں۔
انھیں بے صبر ہو کر خام بنیادوں پر جلدی سے کوئی اسلامی انقلاب برپا کر دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ جو مقصود ہمارے پیش نظر ہے‘ اس کے لیے بڑا صبر درکار ہے۔ حکمت کے ساتھ جانچ تول کر ایک ایک قدم اٹھایئے‘ اور دوسرا قدم اٹھانے سے پہلے خوب اطمینان کر لیجیے کہ پہلے قدم میں جو نتائج آپ نے حاصل کیے ہیں وہ مستحکم ہوچکے ہیں۔ جلدبازی میں جو پیش قدمی بھی ہوگی‘ اس میں فائدے کی بہ نسبت نقصان کا خطرہ زیادہ ہوگا۔ مثال کے طور پر فاسق قیادت کے ساتھ شریک ہو کر یہ اُمید کی جا تی ہے کہ شاید اس طرح منزلِ مقصود تک پہنچنے کا راستہ آسان ہو جائے گا اور کچھ نہ کچھ اپنے مقصد کے لیے مفید کام بھی ہوسکے گا۔ لیکن عملی تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس لالچ سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا‘ کیونکہ دراصل زمامِ امر جن لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ اپنی ہی پالیسی چلاتے ہیں اور ان کے ساتھ لگنے والوں کو ہر قدم پر ان سے مصالحتیں کرنی پڑتی ہیں‘ یہاں تک کہ وہ آخرکار بس ان کے آلۂ کار بن کر رہ جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی اصل میں بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔
ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے۔ بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے۔اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخرکیجیے‘ اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کر سکیں گے۔ جلدبازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا اسی راستے سے وہ مٹایا بھی جا سکے گا۔
یہ چند کلمات نصیحت ہیں جو دعوت اسلامی کے لیے کام کرنے والوں کے سامنے میں پیش کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی رہنمائی فرمائے اور ہمیں دین حق کی سربلندی کے لیے صحیح طریقے سے جدوجہد کرنے کی توفیق بخشے۔ (تفہیمات‘ ج ۳‘ ص ۳۵۱-۳۶۳)
مسٹر فورڈ اور مسٹرکسنگر٭کے حالیہ بیانات پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کے سفیدفام لوگ اخلاقی حیثیت سے آج بھی اسی مقام پر ہیں جس پر وہ اپنی تاریخ کے ابتدائی دَور میں تھے۔ اُس وقت انھیں نئی دریافت شدہ دنیا کی زمین اور اس کی دولت مطلوب تھی‘ اس لیے وہاں کے اصل باشندوں سے زبردستی ان کی زمین چھین لینا انھیں سراسر جائز نظرآیا اور اس صریح ڈاکا زنی میں انھوں نے اپنے آپ کو بالکل حق بجانب سمجھا۔ اب اُن کو تیل کی ضرورت لاحق ہے اس لیے وہ اِس بیسویں صدی کی آخری چوتھائی میں کسی شرم و حیا کے بغیر ساری دنیا کے سامنے بے جھجک یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر تیل پیدا کرنے والے ملکوں نے ان کے مفاد کو خطرے میں ڈالا تو وہ فوجی کارروائی کرکے ان کی دولت کے چشموں پر زبردستی قبضہ کرلیں گے۔ یہ باتیں اُن کا کوئی عام راہ چلتا آدمی نہیں کہہ رہا ہے بلکہ خود ان کا صدرِمملکت اور ان کا وزیرخارجہ کہہ رہا ہے اور ان کے پورے ملک میں کوئی ایک اللہ کا بندہ بھی ایسا باضمیر نہیں ہے جو اُٹھ کر ان سے یہ کہے کہ پوری قوم کے نمایندے ہونے کی حیثیت سے دنیا کے دوسرے ملکوں پر ڈاکا مارنے کے یہ ارادے ظاہر کرتے ہوئے تمھیں کچھ تو شرم آنی چاہیے۔
لُطف یہ ہے کہ ان دھمکیوں کا پس منظر خود ان دھمکیوں سے بھی زیادہ شرم ناک ہے جس پر پچھلے ۲۷ برس میں کبھی امریکہ کے لوگوں اور ان کے سیاسی نمایندوں اور ان کے حکمرانوں‘ حتیٰ کہ ان کے مذہبی اور اخلاقی رہنمائوں کے ضمیر نے بھی کوئی خلش محسوس نہ کی۔ پہلے انھوں نے یہ ظلم کیا کہ فلسطین کے عربوں کو ان کے وطن سے جبراً بے دخل کر کے اسے ان یہودیوں کا وطن‘ اور پھر ان کی ریاست بنوایا جو ۲۰ صدیوں سے دنیا بھر میں بکھرے ہوئے تھے۔ اس کے بعد وہ ان کی اس ناجائز ریاست کو بے حساب مالی‘ فوجی‘ فنی اور افرادی طاقت بہم پہنچاتے رہے یہاں تک کہ وہ پے درپے جارحیت کاارتکاب کر کے عربوں کے مزید علاقے چھینتی اور اپنا تسلط وسیع سے وسیع تر کرتی رہی۔ اس کی ان زیادتیوں پر اسے ٹوکنا تو درکنار‘ امریکہ اُلٹی اس کی پیٹھ ٹھونکتا رہا۔ عربوں کے خلاف ہر جنگ میں اسے خفیہ اور علانیہ ہر طرح کی مدد دیتا رہا ‘ اور شرق اوسط میں توازنِ قوت قائم رکھنے کے بہانے اسے اتنی زبردست فوجی طاقت بناتا رہا کہ تمام عرب ریاستیں مل کر بھی اکیلی اس یہودی ریاست کے مقابلے میں بے بس ہو کر رہ گئیں۔
ا س ظلم کو مسلسل ایک چوتھائی صدی تک برداشت کرنے کے بعد تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک جب اسرائیل کے مددگاروں اورحامیوں کے خلاف تیل کا ہتھیار استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے تو اب بھی امریکہ کا گمراہ ضمیر اسے یہ محسوس نہیں کراتا کہ یہ مظلوم لوگ صرف انصاف حاصل کرنے کے لیے یہ آخری چارئہ کار اختیار کر رہے ہیں‘ اور اس کی اوندھی عقل اُسے یہ نہیں سجھاتی کہ عربوں کے ساتھ اپنی بے انصافی سے باز آکر وہ ہر اُس دشواری کا سدِّباب کرسکتا ہے جو تیل کی بہم رسانی میں واقع ہو سکتی ہے‘ بلکہ اس کے برعکس وہ عربوں کو یہ دھمکی دیتا ہے کہ اگر تم نے ہمارا تیل بند کیا تو ہم فوجی طاقت سے کام لے کر وہ علاقے ہی تم سے چھین لیں گے جن سے تیل نکلتا ہے۔ دوسرے الفاظ میںاس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو بے انصافی ہم نے تمھارے ساتھ کی ہے وہ جاری رہے گی۔ ہمارا برخوردار اسرائیل تمھارے علاقے چھینتا رہے گا اور چھینے ہوئے علاقوں کو واپس دینے سے انکار کرتا رہے گا۔ تم خون کا گھونٹ پی کر اس ظلم‘ اور ذلّت کو گوارا کرتے رہو‘ اور ہمیں تیل بھی دیتے جائو--- لیکن اگر تم نے انصاف حاصل کرنے کے لیے کوئی ایسی حرکت کی جس سے ہم پر دبائو پڑتا ہو تو ہم پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ کر بے انصافی کریں گے کیونکہ ہم سوپرپاور ہیں---
خدا رحم کرے اُس دنیا پر جس میں اِس کردار کی قوم سوپرپاور بن جائے۔ (امریکی صدر اور وزیرخارجہ کی طرف سے تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک کو دی جانے والی دھمکیوں پر تبصرہ‘ ۲۸ جنوری ۱۹۷۵ئ)
--- بدقسمتی سے کچھ لوگوں نے ہمیں اپنا حریف سمجھ لیا ہے حالاں کہ ہم کسی انسان‘ گروہ‘ یا فریق کے حریف نہیں ہیں۔ ہم تو معاشرے کی برائیوں کے مخالف ہیں۔ ہماری عداوت شر اور فساد سے ہے۔ ہم انسانوں کے دشمن نہیں بلکہ ہمدرد ہیں۔ اگر ہم نے اصلاح کے لیے کبھی کوئی سخت طریقہ اختیار کیا تو ہمارا رویہّ دشمن کا سا نہیں بلکہ اس ڈاکٹر کا سا تھا جو مرض کو ختم کرنے کے لیے مریض سے سختی روا رکھتا ہے۔ محض اخلاص کی بنا پر ہماری تنقید میں سختی تھی۔ ہماری طرف سے کسی کو بدنام کرنے کے لیے نہیں بلکہ صرف توجہ اور اصلاح کی خاطر بنیادی برائیوں کو سامنے لایا گیا ہے۔ پھر اس کارِخیر کے لیے ہم اس دعوے کے ساتھ نہیں اٹھے تھے کہ ہم فرشتے اور اس قوم کے صالح ترین لوگ ہیں بلکہ اس معاشرے کی اصلاح کے لیے ‘ جس کے ساتھ ہمارا مرنا‘ جینا ہے۔ اس خیال سے اٹھے کہ اگر عذابِ الٰہی آیا تو ہم سب میں سے کوئی نہ بچ سکے گا۔ برائیوں کے برے نتائج سے بچنے کے لیے ہم اپنی اور خلق خدا کی اصلاح چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے گروہ کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے والوں نے خود اپنا‘ معاشرے کا اور پوری قوم کا نقصان کیا ہے۔ بہرحال یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں پھر کام کا موقع عطا فرمایا۔
ہمارے ملک اور قوم کا اخلاقی انحطاط پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ گیا ہے۔ جرائم کی کثرت‘ فواحش کی زیادتی اور اخلاق کا بگاڑ--- یہ ساری کیفیت آپ کے سامنے ہے۔ ہر اخلاقی حس رکھنے والا آدمی بگاڑ کی اس رفتار کو شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ جس حد تک ممکن ہو‘ اپنی طاقت اور ذرائع استعمال کر کے اس رفتار کو روکا جائے اور قوم کو برائی سے روکنے اور بھلائی کی طرف موڑنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اس موقع پر‘ جب کہ ہم یہ کام شروع کر رہے ہیں ضرورت ہے کہ ہم ایک مرتبہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ اصل کام کیا ہے؟ خود وہ حالات کیا ہیں جن میں ہمیں کام کرنا ہے‘ اور اس کام کو انجام دینے کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے اندر اور اس کے ساتھ باہر کیا کیا تبدیلیاں لانی ہیں۔
جماعت اسلامی کے پیشِ نظر اوّل روز سے یہ مقصد رہا ہے کہ پورے نظام زندگی کو جو خدا کی بندگی سے بے نیاز اور آزاد ہو کر چل رہا ہے‘ تبدیل کیا جائے اور اسے ازسرنو اللہ کی بندگی اور انبیاے کرام ؑ کی لائی ہوئی تعلیمات پر استوار کیا جائے۔ جماعت کسی جزوی مقصد کے لیے کام نہیں کر رہی۔ ویسے وہ محدود مقاصد کو برا نہیں سمجھتی اور نہ ان کی مخالف ہے۔ اس زمانے میں‘ جب کہ کوئی اللہ کی بندگی کی طرف بلاتا ہو اور چاہے صرف کلمہ ہی کیوں نہ پڑھواتا ہو وہ بہرحال نیکی کا کام ہے۔ شیطان کی طرف بلانے والوں کے مقابلے میں نیکی کی طرف بلانے والے کا ہم خیر مقدم ہی کرتے ہیں۔ چاہے وہ ہمیں غلط کہے۔ اسی طرح اگر کوئی علم دین کا کام کررہا ہے تو ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدا اس کے کام میں برکت دے مگر ہمارے پیش نظر جو کام ہے وہ نظامِ زندگی کی بحیثیت مجموعی اصلاح اور پورے نظامِ زندگی کا دین حق کی بنیاد پر قیام ہے۔ یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے انبیا ؑ بھیجے جاتے رہے ہیں۔ ا نبیاؑ کسی جزوی اصلاح کے لیے نہیں بلکہ کلی اصلاح کے لیے آئے تھے۔ خدا سے بے نیازی اور بغاوت ختم کر کے اس کی بندگی اور قانونِ شرعی کی پیروی کے سوا ہم کوئی اور مقصد نہیں رکھتے۔ اس مقصد کو ہم اوّل روز سے واضح کرتے چلے آئے ہیں۔
یہ ایک اجتماعیت پذیر دور ہے۔ اس میں لیڈرشپ ایک فیصلہ کن عامل کی حیثیت سے سیاسی‘ فکری‘ ذہنی اور اخلاقی حیثیتوں سے نظامِ زندگی کو کنٹرول کرتی ہے۔ اسی لیڈرشپ کے مرتب خطوط پر ذہنیتیں بنتی ہیں اور اسی کے مقرر کردہ اصولوں پر زندگی کے شعبے چلتے ہیں۔ عدالت‘ قانون اور معاش سب پر ان کا کنٹرول ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ گویا جب تک یہ بنیادی تبدیلی نہ ہو‘ اس وقت تک نظامِ زندگی میں تبدیلی کا امکان نہیں۔ اس سب کچھ کے ساتھ جس حد تک وہ ہمیں مسلمان کی سی زندگی بسر کرنے کا موقع دیں گے‘ اسی حد تک ہم مسلمانوں کی سی زندگی بسر کر سکیں گے‘ ورنہ اسلامی زندگی کا دائرہ سکڑتا چلا جائے گا۔ اس سیلاب میں ہم نہ چاہیں گے تب بھی ہمیں چلنا پڑے گا۔ کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا کہ قدم جما کر اس سیلاب میں ٹھہر جائے۔ اسی لیے زندگی کے ہر شعبے میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ صرف سیاسی تبدیلی ہمارے پیشِ نظر ہے۔ نہیں! ہم ہر شعبے میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ جو کام ہمارے پیشِ نظر ہے وہ جوے شیر لانے سے زیادہ سخت ہے۔ پہاڑوں کو کاٹنا آسان ہے لیکن یہ کام مشکل ہے۔ یہ کوئی معمولی اور آسان کام نہیں ہے۔
یہاں سب سے پہلے پورے نظامِ تعلیم کو بدلنے کی ضرورت ہے جو لاکھوں انسانوں کو تبدیل کر رہا ہے۔ معاش‘ قانون‘ عدالت‘ کاروبار‘ صنعت--- غرض زندگی کے تمام شعبے ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جن کے اصولوں‘ نظریات اور طور طریقوں کو مغربی تعلیم نے تبدیل کر دیا ہے۔ ان حقائق کی موجودگی میں اس نظامِ زندگی کو بدلنا اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک خیالات اور ذہنوںکو تبدیل نہ کیا جائے۔
اس نظامِ تعلیم نے ہمارے اخلاقی نظریات اور اقدار کو تبدیل کر دیا ہے۔ جسے دین برا سمجھتا ہے وہ ثقافت اور شائستگی بن گئی ہے‘ اور دین جن کاموں کو بہترین قرار دیتا ہے وہ رجعت پسندی‘ مولویت اور مضحکہ قرار دے دیے گئے ہیں۔ یہ کیفیت روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ آزادی کے بعد سے اس کی رفتار خصوصاً تیز ہے۔ پہلے باہر کے لوگ ہماری اندرونی زندگی میں دخل نہیں دیتے تھے لیکن اب اپنوں نے ہماری معاشرتی اور اندرونی زندگی میں گھس کر اس رفتار کو انتہا تک پہنچا دیا ہے۔ آج سب یہ محسوس کرتے ہیں کہ پہلے ہمارے اخلاق اور معاشرتی زندگی کا اسلام سے اتنا اختلاف نہ تھا‘ جتنا آج ہے۔ معاشی زندگی اس وقت پہلے سے کئی گنا زیادہ سودی نظام پر مبنی ہو چکی ہے بلکہ وہ تمام چیزیں جن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے شدت سے پھیل رہی ہیں۔ ایک آدمی کے لیے حلال روٹی کمانا اور حرام سے بچنا کئی گنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس چیز نے رفتہ رفتہ لوگوں پر مادہ پرستی مسلط کر دی ہے۔ اب انھیں ایک ہی شے مطلوب ہے اور وہ مادی خوش حالی ہے۔ وہ دولت کے پیچھے عزت و آبر اور ایمان ہر چیز کو قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور اس کیفیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جہاں ذہن بگڑ جائیں‘ اخلاقی قدریں تبدیل ہو جائیں‘ فواحش کی کثرت ہو جائے‘ فسق و فجور پھیلنے لگے وہاںاسلامی نظام کے قیام میں رکاوٹیں بڑھتی چلی جاتی ہیں‘کم نہیں ہوتی۔ یہ کیفیت جیسے جیسے بڑھے گی‘ اسلامی نظام کا قیام مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ اس رفتار کو روکنے کی ضرورت ہے۔
ان لوگوں کا تسلط بڑھتا جا رہا ہے جو اپنے مفاد کو دنیا کی ہر چیز کے مقابلے میں زیادہ قیمتی سمجھتے ہیں خواہ وہ ایمان‘ اخلاق‘ انسانیت اور شرافت ہی کیوں نہ ہو۔ ان حالات کو بدلنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ حقیقت میں ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھ نہیں آتی کہ اصلاح کیسے ہو سکے گی۔ ایک طرح کی مایوسی ہوتی ہے کہ اس بگاڑ کو درست کرنا کسی طرح ممکن نہیں--- لیکن یہ حقائق کی دنیا ہے اور حقائق کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ مشکلات کا تصور کر لینے کے بعد ایک مسلمان کو سوچنا یہ چاہیے کہ کیا میں سپرڈال دوں؟ اور یہ سیلاب مجھے بھی بہا لے جائے اور آیندہ نسلوں کو بھی‘ یا اصلاح کی جدوجہد کرنی چاہیے خواہ میں اسی میں ختم ہوجائوں۔ ہر آدمی کو سوچنا چاہیے کہ کیا مایوسی کا تقاضا یہ ہے کہ بگاڑ کو قبول کر لیا جائے۔ حقیقت میں ایک مسلمان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ بہرحال اس صورتِ حال کی مزاحمت کی جائے اور جیسی کچھ بھی طاقت ہو اصلاحِ احوال کے لیے جدوجہد کی جائے۔ ا نبیاؑ پر بھی حالت بدلنے کی ذمہ داری نہیں تھی بلکہ دعوت دینے کی ذمہ داری تھی۔
ایک مومن کا کام کوشش کرنا ہے۔ اللہ کی مرضی اگر ہے کہ اس قوم کو تباہی سے بچائے تو وہ ہماری کوششوں میں طاقت اور برکت عطا فرمائے گا۔ اگر اس کی مرضی نہیں ہے تو بے شک ہم اس دنیا کے نقطۂ نظر سے ناکام رخصت ہوں‘ اس کے ہاں کامیاب ہوں گے۔ مسلمانوں کی حیثیت سے ہمارا کام اصلاح کی کوشش کرنا ہے۔ ہماری طرف سے کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں اللہ پر بھروسا کرنا چاہیے۔ وہ اگر کامیابی عطا کرے تو اس کی عنایت ہوگی ورنہ دنیا کی ناکامی کا نام ناکامی نہیں بلکہ آخرت کی ناکامی کا نام ناکامی ہے۔ اس نقطۂ نظر کو ہمیشہ اپنے ذہن میںرکھنا چاہیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اصلاح کے لیے جو کوشش کریں وہ اندھا دھند نہیں ہونی چاہیے۔ یونہی ہاتھ پائوں نہ ماریں۔ کوشش کا قدرتی تقاضا یہ ہے کہ حکمت اور معاملہ فہمی سے کام کیا جائے۔ قانونِ فطرت کے مطابق جو کوشش کی جائے وہی کامیاب ہوسکتی ہے۔ آگ جلانے کے لیے سوکھی لکڑیاں ہوں‘ دیاسلائی ہو اور پھر لکڑیوں کو ہوا ملے تب وہ بھڑک اٹھتی ہیں۔ کوئی اور طریقہ جو قانونِ فطرت کے مطابق نہ ہو تو اس کے ذریعے سے یہ کام نہیں ہو سکتا۔ آپ کو سمجھنا چاہیے کہ بگاڑ کی نوعیت کیا ہے اور کام کس طرح کرنا ہے۔ معاشرے میں کام کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا ضروری ہے۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے ہمہ گیر‘ ہمہ پہلو اور قانون فطرت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے حکیمانہ طریقے سے کوشش کرنی چاہیے۔
اوّلین بات یہ ہے کہ جو لوگ اصلاح کی یہ کوشش کرنے کے لیے اٹھیں‘ وہ پہلے اپنے آپ کو انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے تیار کریں۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اور توفیق کے بعد اپنے یہ اوصاف ہی اس راستے میں کام آتے ہیں اور اللہ کی مدد بھی تب ہی آتی ہے جب ان اوصاف کے مطابق کام کیا جائے۔ ہماری تربیت گاہوں کا مقصد بھی ایسے اوصاف پیدا کرنا ہے۔ اگر یہ اوصاف پیدا نہ ہوں تو ہم اصلاح کے لیے اہل اور موزوں نہیں۔
۱- اسلام کا صحیح فہم: ہم اسلام کا نظامِ حیات قائم کرنے کے لیے اٹھے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ بجائے خود کیا ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کیا ہے؟ اس کی تعلیم کیا ہے؟ دین کے صحیح فہم سے مراد پورا مولوی ہونا ہی نہیں ہے۔ پورے علوم دینی کی تحصیل اگرچہ مطلوب ہے لیکن دینی نظام کے قیام کی خاطر عام آدمیوں کے لیے اتنا دین جاننا ضروری نہیں۔ عرب کے بدو برسوں کی درس و تدریس سے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ انھیں دین کا اتنا خلاصہ معلوم ہو جاتا تھا کہ برائی کیا ہے جسے مٹانا ضروری ہے اور بھلائی کیا ہے جسے قائم کرنا چاہیے۔ دین کے اتنے سے فہم کے ساتھ موجودہ زمانے کی ذلالتوں اور گمراہیوں اور ان کے اثرات سے صحیح آگاہی کافی ہے۔
کارکنوں کے لیے جو تربیتی نصاب مقرر کیا گیا ہے آپ کو چاہیے کہ اس نصاب کو نگاہ میں رکھیں۔ پانچ چھ برس پہلے کی پڑھی ہوئی چیز کو بھی دوبارہ پڑھنا ضروری ہے کیونکہ واقعات کے سطحی مطالعے اور اتار چڑھائو سے دماغوں میں کنفیوژن پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کے علاج کے لیے تربیتی نصاب کا بار بار مطالعہ ضروری ہے۔
۲- پختگی ٔ ایمان: دوسری چیز یہ ہے کہ اپنے اندر ایمان کو زیادہ سے زیادہ پختہ اور مضبوط کریں۔ یہ زمانہ ایسا ہے کہ ہر وقت ایمان کو متزلزل کرنے والی طاقتیں اس طرح مصروفِ کار ہیں کہ پختہ آدمی کا ایمان بھی ہل جاتا ہے۔ کسی مرحلے پر بھی متزلزل نہ ہوں اور ایمان کو اٹل اور مستحکم رکھیں۔
۳- مقصدِ وحید: ہم اعلاے کلمۃ اللہ کو اپنا مقصدِزندگی قرار دے چکے ہیں۔ لیکن یہ بات نگاہ میں رکھیں--- یہ جماعت کا نہیں بلکہ آپ کا اپنا مقصد ہے۔ بسااوقات آدمی یہ سمجھتا ہے کہ وہ جماعت پر احسان کر رہا ہے۔ حالانکہ اگر وہ اسے اپنا مقصد سمجھے تو ایسی بات ذہن میں بھی نہیں آسکتی۔ سمجھنا یہ چاہیے کہ اگر جماعت نہ رہی تب بھی مجھے یہ کام کرنا ہوگا۔ یہ چیز نہایت اہم ہے۔ کیونکہ جب تک کوئی شخص اسے اپنی زندگی کا مقصد قرار نہیں دیتا تب تک صحیح کام نہیں ہوسکتا۔ اپنا مقصد قرار دے لینے کے بعد اگر کوئی آدمی جماعت چھوڑ بھی دے تو بھی مقصد تو نہ چھوٹے گا۔ اگر کسی شخص کا بچہ بیمار ہو تو وہ بچے کو نہیں چھوڑ سکے گا۔ لیکن کسی دوسرے شخص کے بیمار بچے کے علاج میں وہ کوتاہی برت سکتا ہے اور اپنے گھر بیٹھ سکتا ہے۔ اپنا مقصد قرار دینے والا آدمی جماعت میں ہو یا نہ ہو‘ مضبوطی کے ساتھی یہی کام کرتا چلا جائے گا۔
۴- یک رنگی: چوتھی چیز یہ ہے کہ ہم اپنے اندر دو رنگی‘ تناقض‘ تضاد اور منافقت نہ پیدا ہونے دیں۔ ایک دو رنگی وہ ہوتی ہے جو معاشرے میں گھرے ہونے کی وجہ سے ناگزیر طور پر آدمی میں پائی جاتی ہے اور دوسری وہ جسے آپ اپنے اختیار سے پسند کریں اور اس پر راضی ہو جائیں۔ دونوں میں فرق ہے۔ مثلاً ایک آدمی ہوش میں آنے پر خود کو گندگی کے تالاب میں گرا ہو اپاتا ہے۔ اب وہ وہیں گندے پانی میں ہاتھ پائوں مارنے پر مجبور ہے۔ اپنی جگہ یہ سمجھتے ہوئے بھی کہ یہ گندا پانی ہے‘ وہ اس سے نہیں بچ سکتا۔ اس کے باہر بلاشبہہ گندگی ہے اور یہ ناگزیر ہے مگر قلب میں طہارت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اس میں ڈوب کر مر جائے لیکن اس کا قلب پاک ہوگا--- اس کے مقابلے میں دوسرا شخص وہ ہے جو خود گندگی میں رہنا چاہتا ہے اور اسے پسند کرتا ہے--- دونوں میں فرق ہے۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ دانستہ دو رنگی کو اپنے اندر نہ آنے دیں جس حد تک آپ کے بس میں ہو۔ کوشش کر کے اپنے آپ کو یک رنگ بنائیں۔ جس کی زندگی میں تناقض اور تضاد ہو‘ اس کا قول اور عمل بے اثر ہوتا ہے۔ آپ کے نظریات اور عمل میں فرق ہوگا تو لوگ آپ کی بات آپ کے منہ پر دے ماریں گے۔ اس لیے جہاں تک ہو سکے کوشش کیجیے کہ جن نظریات کو آپ پیش کرتے ہیں‘ ان کی جھلک آپ کی عملی زندگی میں نظر آنی چاہیے۔
۵- اہلیت پیدا کرنا : پانچویں ضروری چیز یہ ہے کہ اپنے آپ کو ان قابلیتوں سے آراستہ کریں جن کی اس دنیا میں کام کرنے کے لیے ضرورت ہے۔ جس حد تک بس میں ہو خود کو ذہنی اور اخلاقی حیثیت سے اس قابل بنائیں کہ آپ میںاُس نظامِ زندگی کو چلانے کی اہلیت پیدا ہو‘ جس کے لیے آپ کوشش کر رہے ہیں۔ جس قابلیت کی بہت بڑی ضرورت ہے وہ حکمت اور دانائی ہے۔
دین کبھی بے وقوفوں کے ہاتھ سے قائم نہیں ہوا۔ اس کے لیے معاملہ فہمی اور معاشرے کی اُلجھنوں سے واقف ہونے کی ضرورت ہے۔ آپ بات کرنے والے شخص کو سمجھیں۔ اگر اسے نہ سمجھیں گے تو اسے سیدھے راستے پر لانے کے بجائے اُلٹے راستے پر ڈال دیں گے۔ حکمت نہ ہوگی تو بنتے کام کو بگاڑ دیں گے اور اگر حکمت ہوگی تو بگڑتے کام کو بھی سنوار لیں گے۔ اس کے لیے قرآن پاک‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سیرت اور صحابہؓ کی سیرت سے سبق حاصل کریں۔ پھر دنیا کے معاملات کو چلانے کے لیے جو عقل و دانائی درکار ہے اس کو نشوونما دیں۔ ہر آدمی کو دیکھتے رہنا چاہیے کہ اگر کوئی ساتھی حکمت کے خلاف کوئی کام کر رہا ہو تو اسے بروقت متنبہ کر دیا جائے--- پوری جماعت میں عقل و دانائی کی ضرورت ہے۔ ایک آدمی چاہے کتنا ہی دانا کیوں نہ ہو‘ یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر وقت دانائی کے بلند معیار پر قائم رہے۔ جماعت بحیثیت مجموعی عقل مند اور دانا ہونی چاہیے۔
۶- صبروحکمت: دوسری صفت صبر کی ہے جو اتنی ہی اہم ہے جتنی حکمت--- دونوں صلاحیتوں کی پہلے بھی تاکید کی جاتی رہی ہے‘ اور اب بھی کی جا رہی ہے۔ جس میں صبر نہ ہو‘ وہ جلدبازی سے کام کرنا چاہتا ہے لیکن وہ بڑے مقصد کے لیے کام نہیں کر سکتا اور نہ کامیاب ہو سکتا ہے۔موجودہ حالات میں تو صبر کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ حالات کو سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے اور جتنا قدم اٹھانا ناگزیر ہو‘ اتنا ہی اٹھانا چاہیے۔ پھر جو مزاحمتیں اور مخالفتیں ہوں‘ اگر ان کے مقابلے میں تحمل اور برداشت نہ ہو تو اصلاح کے بجائے خرابی ہوگی۔ ایک آدمی میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ سخت اشتعال انگیز حالت میں دماغ کو ٹھنڈا رکھے۔ جو کہنے کی بات نہ ہو‘ زبان سے نہیں نکلنی چاہیے۔ پھر بات جتنی کچھ کہنی ہو‘ اس سے آگے نہ بڑھیں۔ شیطان کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ دین کا کام کرنے والوں کو غصہ دلائے مگر انھیں صبروضبط اور تحمل سے کام لینا چاہیے۔ بے موقع زبان کو نہ کھولیں۔ گالیاں سنتے رہیں لیکن جواب میں کچھ نہ کہیں۔ اس کے بغیر کام ممکن نہیں ہے۔ الزام تراشی کے جواب میں اگر آپ بھی الزام تراشی شروع کر دیں گے تو آپ بھی اسی مقام پر کھڑے ہو جائیں گے جہاں دوسرا فریق کھڑا ہے۔
۷- قربانی کا جذبہ: ایک اور اہم مطلوب صفت قربانی کا جذبہ ہے۔ وقت‘ مال اور محنت کی قربانی تو دی جاسکتی ہے لیکن سب سے زیادہ سخت قابلیتوں کی قربانی ہے۔ ایک آدمی جب یہ محسوس کرتا ہے کہ مجھ میں شہرت اور منصب حاصل کرنے کی قابلیتیں موجود ہیں‘ تو اس کے لیے ضبط کرنا مشکل ہوتا ہے۔ دنیاوی مواقع کو چھوڑ کر قربانی دینا دوبھر معلوم ہوتا ہے۔ آدمی پیسہ دے جاتا ہے‘ وقت بھی دے جاتا ہے لیکن ایک ایسے کام میں پڑنا جو دنیاوی لحاظ سے بنجر ہو اور جس میں روٹی چٹنی بھی مشکل سے میسر آئے‘ کسی آدمی کے لیے حقیقی امتحان ثابت ہوتا ہے۔ یہاں پتا چلتا ہے کہ وہ کس حد تک قربانی دینے کو تیار ہے۔ آپ اپنے اندر جذبۂ قربانی کو بیدار کیجیے۔ یہ اس مقصدِعظیم کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ جس قدر یہ سپرٹ پیدا ہوگی‘ اتنا ہی زیادہ کام ہوگا۔ اگر قربانی کا جذبہ ہم میں پیدا ہو جائے تو ہم ہزار گنا زیادہ کام کر سکتے ہیں۔ جائزہ لیجیے تو معلوم ہوگا کہ ہم میں جذبۂ قربانی کی کمی ہے۔
قربانی کے معنی یہ نہیں کہ اندھا دھند چھلانگ لگا دی جائے--- نہیں! حالات کا جائزہ لے کر اور سوچ سمجھ کر یہ متعین کرنا چاہیے کہ ہمیں اپنی ذات اور اپنے متعلقین کے لیے کتنا کچھ مطلوب ہے۔ اس کے لیے ضرور کوشش کرنی چاہیے۔ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقٌّ--- اپنی ذات کا بھی انسان پر حق ہے۔ اپنی ذات کے علاوہ بچوں اور بیوی کا بھی حق ہے۔ ان حقوق کو تلف نہیں کرنا ہے--- غیر معتدل رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں‘ جس حد تک اوسط درجے کی زندگی کے لیے ضروری ہو‘ وہ کافی ہے--- اگر یہ کام ہم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو آپ یقین کریں کہ ہماری جتنی تعداد اس وقت ہے ہم اسی تعداد کے ساتھ موجودہ حالت کی نسبت بہت زیادہ کام کر سکتے ہیں۔
۱- باہمی ہمدردی و خیرخواہی: کوئی جماعت دنیا میں مضبوط نہیں ہوسکتی جب تک اس کے رفقا اور شرکا میں باہمی محبت نہ ہو۔ محض میل جول کافی نہیں ہے۔ کسی سے محبت کے معنی یہ ہیں کہ اس کے متعلق کوئی برا خیال نہ رکھیں۔ محبت وہ چیز ہے جو لوگوں کو ایک دوسرے سے پیوستہ کرتی اور انھیں بنیان مرصوص بناتی ہے اور محبت کی کمی انھیں پھاڑتی ہے۔ کسی ساتھی میں کوئی برائی محسوس ہو تو وہ درد مندی اور اخلاص کے ساتھ اس سے کہی جائے تاکہ وہ بھی یہ محسوس کرے کہ یہ میری اس برائی پر خوش ہو کر نہیں بلکہ جذبۂ ہمدردی کے تحت کہہ رہا ہے--- اس طرح کہیے کہ زخم نہ لگے۔ اگر آپ اس برائی کو دوسروں کے سامنے بیان کریں گے تو یہ محبت نہ ہوگی۔ ایک دوسرے کے متعلق برے خیالات دلوں میں ہوں تو کوئی بھلا کام نہیں ہو سکتا‘ اور نہ اس طرح کوئی جماعت قائم ہی رہ سکتی ہے۔ باہمی ہمدردی و اخلاص اور خیرخواہی جماعتی زندگی کی اوّلین شرط ہے۔ جب اس چیز کی کمی محسوس ہو تو آپ کو فکرمند ہو جانا چاہیے کیونکہ یہ وہ چیز ہے جس کی تلافی روپے پیسے کی بارش یا دنیا کی کسی دوسری چیز سے نہیں ہوسکتی۔
۲- نظم و ضبط: دوسری اہم چیز نظم و ضبط اور سمع و اطاعت کی صفت ہے۔ جب تک نظم اور ڈسپلن موجود نہ ہو‘ جماعت کامیاب نہیں ہوسکتی۔ کوئی ایسی فوج جسے پکارا جائے اور وہ اپنی جگہ سے نہ ہلے‘ وہ کہیں دھاوا نہیں بول سکتی۔ ڈسپلن نہ ہو تو کام نہ ہوگا۔ جن لوگوں کو احساس ہو‘ انھیں خود بھی بدنظمی سے بچنا چاہیے اور جماعت کو بھی بدنظمی و انتشار سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کوئی کام اپنے ذمے نہ لینا اس سے بہتر ہے کہ ذمے لے کر نہ کیا جائے۔ جو فیصلے جماعت کے اندر ہوں‘ انھیں تسلیم کرنا کارکنوں کا فرض ہے۔
۳- باہمی مشورہ: تیسری صفت یہ ہے کہ باہمی مشورے سے کام کیاجائے۔ قرآن اہل ایمان کی صفات کی تعریف کرتا ہے کہ وہ اپنے معاملات کو مشورے سے طے کرتے ہیں۔ بغیر مشورے کے کوئی فیصلہ کرنا جماعتی زندگی کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتا ہے۔ جس فیصلے میں آپ کی اپنی رائے بھی شامل ہو‘ اس پر عمل کرنا آسان ہوتا ہے۔ محض دوسرے کی رائے پر خوش دلی کے ساتھ عمل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اپنی رائے کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش نہ کریں‘ اور جن کی رائے کے خلاف فیصلہ ہو‘ وہ اپنی رائے کے خلاف فیصلہ ہونے کے باوجود اطاعت کریں‘ الا یہ کہ جماعت دین سے باہر ہو جائے۔ جماعت بڑا ظلم کرے گی اگر وہ آزادی رائے کا حق نہیں دے گی۔ لیکن جب اتفاق رائے یا کثرت رائے سے کوئی فیصلہ ہو جائے تو آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی رائے کو نہیں بلکہ جماعت کے فیصلے کو کامیاب کرنے کے لیے زور لگا دے۔ جو لوگ ایسا نہیں کرتے وہ خود پرستی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ کسی معاملے میں جہاں نصِ صریح موجود ہو‘ وہ تو درست مگر جہاں اجتہاد کا معاملہ ہو وہاں ایک آدمی پوری جماعت کے مقابلے میں زیادہ دانا اور عقل مند نہیں ہو سکتا۔ اکثریت کا فیصلہ تسلیم کرلینا چاہیے۔ مشورے میں پوری آزادی ہونی چاہیے اور ایسا ماحول ہونا چاہیے کہ ہر شخص پوری قوت سے اپنی رائے بیان کرسکے۔ لیکن جب بحثیں ہو چکیں اور اکثریت سے فیصلہ ہو جائے تو لوگوں کا کام ہے کہ اس کے ساتھ چلیں۔
آخر میں دوباتیں اور کہنا چاہتا ہوں--- ان تمام اوصاف کو جو بیان کیے گئے ہیں‘ اپنے اندر انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں ملحوظ رکھیں مگر چند باتیں ایسی ہیں جن سے بڑی شدت کے ساتھ پرہیز کریں۔
پہلی چیز یہ ہے کہ آپ کے اندر کبر اور فخر نہ ہونا چاہیے۔ مجھے ڈر ہے کہ جماعت کے افراد میں اور جماعت کے اندر مجموعی طور پر فخر اور تکبر کی کیفیت پیدا نہ ہو جائے۔ بسااوقات باتیں کرتے ہوئے‘ مخالفین اور مخالفتوں کا ذکر کرتے ہوئے مجبوراً ایسی بات کرنی پڑتی ہے جس سے یہ بتانا ہوتا ہے کہ مخالفین جو الزامات و تہمتیں ہم پر لگاتے ہیں‘ اس کے برعکس ہم میں یہ اور یہ خوبیاں ہیں--- ایسے موقعوں پر اگر اس طرح کی کوئی بات کہہ بھی دی جائے تو جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں اس میں کبر تو نہیں پایا جاتا۔ جس روز ہم نے سمجھ لیا کہ ہم بڑی چیز ہیں‘ اسی روز چھوٹی چیز ہو جائیں گے۔ خودپسندی اور تعلّی فرد اور جماعت دونوں کو گرا دیتی ہے۔
دوسری چیز جس سے بچنا لازم ہے ‘وہ ریاکاری‘ نمود و نمایش اور خلقِ خدا کی تحسین کا معاملہ ہے۔ ہمیں جو کچھ کرنا ہے اللہ کے لیے کرنا ہے۔ کسی کی تحسین کی حاجت نہیں ہے۔ دنیا خواہ تعریف کرے یا برائی‘ہمیں بہرحال خدا کا کام کرنا ہے۔ لیکن اگر کام میں ریا آگیا تو ساری نیکی بربادہو جائے گی۔ ریا کو حدیث میں شرک کہا گیا ہے‘ یعنی تحسین چاہنے والا انسان گویا دوسروں کو معبود بنا لیتا ہے اور انھیں خوش کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔ جو آدمی خدا کے لیے کام کرنے والا ہے‘ اسے کسی دوسرے کی جزا مطلوب نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر رفیق ان باتوں کو اپنی گرہ میں باندھ لے اور خالص خدا کے لیے کام کرے۔ (اچھرہ‘ لاہور میں تربیت گاہ سے خطاب‘ ۳۰ مئی ۱۹۶۵ئ‘رپورٹ: رفیع الدین ہاشمی۔ ہفت روزہ آئین‘ لاہور‘ ۶جون ۱۹۶۵ئ)
متحدہ مجلس عمل کے ایوانِ حکومت میںپہنچنے سے کارکنوں کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ اس حوالے سے یہ منشورِ عمل ہر سطح پر بہترین کوششوں اور موثر منصوبہ بندی کا تقاضا کرتا ہے۔ (ادارہ)
تمام جماعتوں‘ حلقہ ہاے متفقین اور دوسرے کارکنانِ جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے حالات اور وسائل کے مطابق حسب ِ ذیل قسم کے کاموں کو اپنے ہاں زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کریں۔
۱- جماعت کی بنیادی دعوت کو وسیع پیمانے پر پھیلانا: اس سلسلے میں تمام کارکنوں کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جماعت ِ اسلامی کا اصل کام جس پر تمام دوسری سرگرمیوں کی بنا قائم ہوتی ہے‘ عوام الناس کو اطاعت ِ خدا اور رسولؐ کی طرف بلانا‘ آخرت کی بازپُرس کا احساس دلانا‘ خیروصلاح اور تقویٰ کی تلقین کرنا‘ اور اسلام کی حقیقت سمجھانا ہے۔ یہ کام لٹریچر‘ تقریر‘ تعلیم‘ زبانی گفتگو اور تمام ممکن ذرائع سے وسیع پیمانے پر ہونا چاہیے۔
۲- مساجد کی اصلاحِ حال: اس میں مسجدوں کی تعمیر‘ ان کی مرمت‘ ان کے لیے فرش‘ پانی اور دوسری ضروریات اور آسایشوں کی فراہمی‘ نیز اذان‘ نماز باجماعت‘ امام‘ درس و تدریس اور خطبات ِ جمعہ وغیرہ جملہ امور کا اطمینان بخش انتظام شامل ہے۔ اگر لوگ مسجد کی اہمیت اور اس کے مقام کو سمجھنے لگیں تو بستی اور محلّے میں مسجد سے زیادہ دل کش جگہ اور کوئی نہ ہو۔
۳- عوام میں علمِ دین پھیلانا: ظاہر ہے کہ دین کے علم کے بغیر آدمی دین کی راہ پر نہیں چل سکتا۔ اگر اتفاق سے چل رہا ہے تو اس کے ہر آن بھٹک جانے کا اندیشہ ہے۔ اگر لوگ نہ دین کو جانیں اور نہ اس پر چلیں تو اسلامی نظام کا خواب کبھی حقیقت کی شکل اختیار نہیں کرسکتا۔ اس لیے دین خود بھی سیکھیے اور دوسروں کو بھی سکھانے کا انتظام کیجیے۔ دوسروں تک اسے پہنچانے کے لیے گفتگوؤں‘ مذاکرات‘ تقاریر‘ خطبات‘درس‘ اجتماعی مطالعہ‘ تعلیمِ بالغاں‘ دارالمطالعوں اور اسلامی لٹریچر کی عام اشاعت اور تقسیم کو ذریعہ بنایئے۔ یاد رکھیے کہ دین کا علم پھیلانا ان کاموں میں سے ہے جو صدقۂ جاریہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
۴- نیکی کی قوتوں کو منظم کرنا: غنڈا گردی کے مقابلے میں لوگوں کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کرنا‘ عام طور پر لوگوں کو ظلم و ستم سے بچانا‘ شہریوں کے اندر اخلاقی فرائض اور ذمہ داریوں کے احساس کو بیدار کر کے ان کی ادایگی پر ان کو آمادہ کرنا اور شہروں اور دیہات کی اخلاقی حالت کو درست کرنا۔
صدیوں کے انحطاط کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں اب بدی اور برائی منظم‘ بے باک‘ جری اور ایک دوسرے کی پشت پناہ بن چکی ہے اور نیکی اور شرافت اب انتشار‘ پست ہمتی‘ بزدلی اور کمزوری کے ہم معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ اس صورتِ حال کو پھر سے بدلنا ہے اور نیکی اور شرافت کو منظم‘ بے باک اور نڈر بنا کر اسے معاشرے کے ہر گوشے میں حکمراں طاقت کی حیثیت دینا ہے۔
۵- عوامی مسائل کی داد رسی: سرکاری محکموں اور اداروں سے عام لوگوں کی شکایات رفع کرانے میں ان کی امداد کرنا اور داد رسی حاصل کرنے میں ان کی رہنمائی کرنا۔
۶- بستی کے یتیموں‘ بیوائوں‘ معذوروں اور غریب طالب علموں کی فہرستیں تیار کرنا اور جن جن طریقوں سے ممکن ہو ان کی مدد کرنا۔ اس غرض کے لیے زکوٰۃ‘ عشر اور صدقات کی رقوم کی تنظیم اور بیت المال کے ذریعے ان کی تحصیل اور تقسیم کا انتظام کرنا چاہیے۔
۷- دیہات اور محلوں میں تعلیم بالغاں کے مراکز اور دارالمطالعوں کا قیام اور عام لوگوں میں ان سے استفادے کا شوق پیدا کرنا۔
۸- فواحش کی روک تھام : ان کے خلاف عوامی ضمیر اور احساسِ شرافت کو بیدار کرنا۔ فواحش کے سلسلے میں کسی ایک ہی گوشے پر نظر محدود نہیں کر دینی چاہیے بلکہ اس کے تمام سرچشموں پر نگاہ رکھنی چاہیے‘ مثلاً قحبہ خانے‘ شراب خانے‘ سینما کی پبلسٹی‘ دکانوں پر عریاں تصاویر کے سائن بورڈ‘ ٹورنگ اور تھیٹریکل کمپنیاں‘ مخلوط تعلیم‘ اخبارات میں فحش اشتہارات اور فلمی مضامین‘ ریڈیو پر فحش گانوں کے پروگرام‘ ]ٹیلی ویژن پر فحش گانے اور بے ہودہ پروگرام[‘ دکانوں اور مکانوں پر فحش گانوںکی ریکارڈنگ‘ قماربازی کے اڈے‘ رقص کی مجالس، فحش لٹریچراور عریاں تصاویر‘ جنسی رسائل‘ آرٹ اور کلچر کے نام سے بے حیائی پھیلانے والی سرگرمیاں‘ مینابازار‘ عورتوں میں روز افزوں بے پردگی کی وبا۔
۹- سرکاری اداروں اور حکام و کارکناں کی بہتری کے لیے اقدام: رشوت و خیانت اور سفارش کی لعنت کے خلاف راے عام کو منظم کرنا اور سرکاری حکام اور ماتحت کارکنوں میں خدا ترسی ‘فرض شناسی اور آخرت کی جواب دہی کا احساس بیدار کرنے کی کوشش کرنا۔
اس غرض کے لیے ان حلقوں میں اسلامی ریاست میں کارکنوں کی ذمہ داریاں ا ور اوصاف ]از مولانا امین احسن اصلاحی[کی عام اشاعت کی جائے اور اس بات کی کوشش کی جائے کہ عدالتوں‘ تھانوں اور دوسرے سرکاری دفاتر میں قرآن مجید اور حدیث شریف اور اسلامی لٹریچر میں سے مناسب ِ حال آیات ‘ احادیث اور عبارتیں کتبوں کی شکل میں آویزاں کی جائیں۔
۱۰- مذہبی جھگڑوں اور تفرقہ انگیزی کا انسداد: اس کے لیے مختلف جماعتوں کے مذہبی پیشوائوں سے ملاقاتیں کرکے ان کو اس کے بُرے نتائج سے باخبر کیا جائے کہ یہ چیز کس طرح اس ملک سے اسلام کی جڑیں اُکھاڑ دینے والی ہے اور اسے کس طرح ملک کے ذہین طبقے کے اندر علما اور مذہب کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے مخالف ِ اسلام عناصر کی طرف سے استعمال کیا جا رہا ہے‘ نیز عام پبلک کو بھی مناسب مواقع پر اس کے نتائج سے باخبر کیا جائے اور ان سے اپیل کی جائے کہ وہ اس قسم کے فتنوں کی سرپرستی سے بالکل کنارہ کش رہیں۔
۱۱- بستی کے عام لوگوں کے تعاون سے صفائی اور حفظانِ صحت کی کوشش: اگر لوگ صحت و صفائی کے سلسلے میں معمولی احتیاط بھی برتنا شروع کر دیں تو وہ بہت سی وبائوں اور بیماریوں سے اپنے آپ کو اور دوسرے شہریوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ بہت سی احتیاطیں اور تدابیر ایسی ہیں جن پر یا تو کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا یا بہت معمولی خرچ ہوتا ہے۔ جماعت کے کارکنوں کو چاہیے کہ اس سلسلے میں بھی عوام کی اصلاح و تربیت کریں۔ اس بارے میں ضروری رہنمائی کے لیے وہ ناظم شعبۂ خدمت ِ خلق جماعت اسلامی پاکستان اور اپنے ضلع کے ہیلتھ افسر کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔
اس پروگرام کے مطابق کام کرتے ہوئے جماعت کے کارکنوں کو یہ بات نگاہ میں رکھنی چاہیے کہ ہمیں ہر گوشۂ زندگی میں اسلام کے مطابق پورے معاشرے کی اصلاح کرنی ہے اور اسی پروگرام کو بتدریج ہمہ گیر اصلاح کا پروگرام بنا دینا ہے۔ کارکنوں کو اس امر کی کوشش بھی کرنی چاہیے کہ وہ اصلاحِ معاشرہ کے اس کام میں اپنے اپنے علاقوں کے تمام اسلام پسند اور اصلاح پسند عناصر کا تعاون حاصل کریں اور جو کوئی جس حد تک بھی ساتھ دے سکتا ہو‘ اسے اس عام بھلائی کی خدمت میں شریک کریں۔ (تحریک اسلامی کا آیندہ لائحۂ عمل ‘ ص ۲۰-۲۴)
سب سے پہلی بات جو سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ جس چیز کا نام اسلامی نظام ہے وہ کسی بے ایمان اور بدکردار حکومت کے ہاتھوں سے نہیں چل سکتا۔ کوئی خدا سے بے خوف بیوروکریسی اسے نہیں چلا سکتی۔ کسی ایسی آبادی میں وہ ٹھیک طور پر نہیں چل سکتا جس کی اخلاقی حالت بالعموم خراب ہو اور خراب کی جاتی رہی ہو۔……
اگر کوئی اسلامی حکومت قائم ہو تو یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ چھوٹتے ہی مثالی نظام کی طرف پلٹ جائے گی۔ آغاز کار میں اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ حکومت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو ملک کے تمام ذرائع و وسائل‘ ملک کے تمام ذرائع ابلاغ‘ ملک کے سارے نظامِ تعلیم‘ اور حکومت کی پوری انتظامی پالیسی کو اس غرض کے لیے استعمال کریں کہ مسلمانوں میں اسلام کا علم وسیع پیمانے پر پھیلایا جائے اور ان کی عام اخلاقی حالت کو درست کیا جائے۔ جس قدر اسلام کا علم پھیلے گا اور عام اخلاقی حالت درست ہوتی جائے گی اتنی ہی زمین اسلامی نظام کے لیے تیار ہوتی چلی جائے گی۔
یہی چیز تھی جس کی ہم توقع رکھتے تھے کہ اگر انگریزی حکومت کے خاتمے کے بعد جب پاکستان کی حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں آئے گی تو وہ اس طریق کار کو اختیار کرے گی۔ ذرائع ابلاغ کی پوری طاقت عام مسلمانوں میں ایمان اور صحیح اسلامی اخلاق پیدا کرنے کے لیے استعمال کرے گی۔ نظامِ تعلیم کو ایک اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرے کے کارکن اور شہری تیار کرنے کے قابل بنایا جائے گا۔ الحاد پیدا کرنے والی تعلیم کو بدلا جائے گا اور اس کی جگہ خدا پرستی کی تعلیم کو رائج کیا جائے گا۔ عام لوگوں کے اندر حلال و حرام کی تمیز پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ان میں سے کوئی توقع بھی پوری نہیںہوئی۔ اگر اُس وقت حکومت اپنے تمام ذرائع و وسائل کو اِس کام کے لیے استعمال کرتی تو آج حالت بالکل مختلف ہوتی۔
اب ہمیں گویا بالکل نئے سرے سے کام کرنا ہے۔ بے شک اسلامی قوانین کو نافذ کرنے کی کوشش کیجیے۔ قوانین اسلامی کو مدون بھی کیجیے تاکہ ہماری عدالتیں ان کے مطابق فیصلے کر سکیں۔ مگر بس یہی ایک کام ایسا نہیں ہے جس سے اسلامی نظام قائم ہو جائے۔
سب سے زیادہ زور جس بات پر صَرف کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہمارے تمام ابتدائی اور ثانوی مدرسوں اور ہمارے تمام کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں اسلامی تعلیم دی جائے۔ ذرائع ابلاغ کو فحش اور بے حیائی‘ بداخلاقی اور جرائم پھیلانے کے بجائے مسلمانوں کو ایمان اور اسلامی عقائد سمجھانے اور ذہن نشین کرنے پر صَرف کیا جائے۔ عام لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ اسلامی اخلاق کیا ہیں اور کافرانہ اخلاق کیا اور دونوں قسم کے اخلاقوں میں فرق کیا ہے۔
اسلامی نظام تو قائم ہی اس معاشرے میں ہوا تھا جس کے اندر سب سے پہلے ایمان کو مستحکم کیا گیا تھا‘ پھر اسی ایمان کی مضبوط بنیاد پر پورے اخلاقی نظام کی‘ پورے معاشرتی نظام کی‘ پورے معاشی نظام کی‘ پورے سیاسی نظام اور پورے قانونی نظام کی عمارت اٹھائی گئی تھی۔ اب اگر ہم اس مثالی دور کی طرف پلٹنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسی ترتیب سے پلٹنا چاہیے۔
عام مسلمانوں کے دلوں میں اگر خدا پر ایمان‘ رسولؐ پر ایمان‘ قرآن پر ایمان اور آخرت پر ایمان مضبوطی کے ساتھ نہ بٹھایا گیا تو محض قوانین کو بدلنے سے کام نہ چلے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں جھوٹے مقدمات بنانے میں پولیس اتنی مہارت رکھتی ہے کہ وہ ساری دنیا کو چیلنج دے سکتی ہے کہ ہمارے مقابلے میں کوئی جھوٹا مقدمہ بناکر دکھائے۔ گواہوں کا حال یہ ہے کہ عدالت میں جا کر صحیح گواہی دینا گویا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ عدالت تو ہے ہی جھوٹی شہادت دینے کی جگہ۔
پولیس خود بھی جھوٹے گواہوں کا ایک پورا گروہ تیار رکھتی ہے۔ یہی دو چیزیں اگر نگاہ میں رکھی جائیں تو آپ اندازہ کر لیجیے کہ ہمارے ہاں اسلامی قانون صحیح طور پر کیسے نافذ ہوگا‘ جب کہ اس کو نافذ کرنے والی مشینری ہی بگڑی ہوئی ہے۔ قوانین اسلامی کے نفاذ کی تدبیریں کرنے کے ساتھ موجودہ حکومت کے لیے بھی اور آیندہ آنے والے حکمرانوں کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ ملک کی انتظامیہ کو بھی درست کریں۔ تعلیم کے نظام کی بھی اصلاح کریں اور ملک کے تمام ذرائع و وسائل کو اس بات پر صَرف کر دیں کہ مسلمانوں کے دلوں میں ایمان بٹھایا جائے۔ ان کے اخلاق درست کیے جائیں اور ان کے اندر خدا کا خوف پیدا کیا جائے۔
اسلامی قانون میں ڈنڈے کا بھی ایک مقام ہے مگر وہ سب سے آخر میں آتا ہے۔ اسلام میں ترتیب ِ کار یہ ہے کہ پہلے ذہنوں کی اصلاح کا کام تعلیم و تلقین کے ذریعے سے کیا جائے تاکہ لوگوں کے خیالات تبدیل ہوں۔ پھر لوگوں کے اندر اسلامی اخلاق پیدا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کام کیا جائے۔ یہاں تک کہ محلے محلے ‘ بستی بستی اور کوچے کوچے میں ایسے لوگ تیار ہو جائیں جو بدکرداروں کو عوام کی مدد سے دبائیں اور اپنے اپنے علاقے کے باشندوں میں دین داری اور دیانت داری پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح ملک کے اندر ایک ایسی راے عام پیدا ہو جائے گی جو برائیوں کو سر نہ اٹھانے دے گی۔ کوئی شخص ایسی راے عام کی موجودگی میں بگڑنا چاہے گا تو اس کے راستے میں بے شمار رکاوٹیں پیدا ہو جائیں گی اور جو شخص صحیح طرز زندگی اختیار کرے گا اس کو پورا معاشرہ مدد دینے والا ہوگا۔
اس کے ساتھ اسلام یہ بھی چاہتا ہے کہ معاشرہ ایسا ہو جس کے لوگ ایک دوسرے کے ہمدرد اور غم گسار ہوں۔ ایک دوسرے کی مصیبت میں کام آنے والے ہوں۔ ہر شخص انصاف کا حامی اور بے انصافی کا مخالف ہو۔ ہرشخص اپنا پیٹ بھرنا حرام سمجھے اگر اس کو معلوم ہو کہ اس کا ہمسایہ بھوکا سو رہا ہے۔ پھر اسلام ایک ایسا معاشی نظام بھی قائم کرتا ہے جس میں سود حرام ہو‘ زکوٰۃ فرض ہو‘ حرام خوری کے دروازے بند کردیے جائیں۔ رزق حلال کمانے کے لیے تمام مواقع لوگوں کے لیے کھول دیے جائیں اور کوئی آدمی اپنی ضروریاتِ زندگی سے محروم نہ رہنے پائے۔ ان تدابیر کے بعد ڈنڈے کا مقام آتا ہے۔ ایمان‘ اخلاق‘ تعلیم‘ انصاف‘ اصلاح معیشت‘ اور ایک پاکیزہ راے عام کے دبائو سے بھی جو آدمی درست نہ ہو تو وہ ڈنڈے ہی کا مستحق ہے۔ اور ڈنڈا پھر اس پر ایسی بے رحمی کے ساتھ علی الاعلان چلایا جائے کہ ان تمام لوگوں کے دماغ کا آپریشن ہو جائے جو جرائم کے رجحانات رکھتے ہوں۔
لوگ بڑا غضب کرتے ہیں کہ اسلام کے پروگرام کی ساری تفصیل چھوڑ کر صرف اس کی سخت سزائوں پر گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔ اسلام پہلے عام لوگوں میں ایمان پیدا کرتا ہے۔ پھر عوام کے اخلاق کو پاکیزہ بناتا ہے۔ پھر تمام تدابیر سے ایک ایسی مضبوط راے عام تیار کرتاہے جس میں بھلائیاں پھلیں پھولیں اور برائیاں پنپ نہ سکیں۔ پھر معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی نظام ‘ ایسا قائم کرتا ہے جس میں بدی کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہو جائے۔ وہ ان تمام دروازوں کو بند کر دیتا ہے جن سے فواحش اور جرائم نشوونما پاتے ہیں۔ اس کے بعد ڈنڈا وہ آخری چیز ہے جس سے ایک پاک معاشرے میں سراٹھانے والی ناپاکی کا قلع قمع کیا جا تا ہے--- اب اس سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے کہ ایسے برحق نظام کو بدنام کرنے کے لیے آخری چیز کو پہلی چیز قرار دیتا ہے اور بیچ کی سب چیزوں کو نگل جاتا ہے (نبیؐ کا نظام حکومت اور پاکستان میں اس کا نفاذ‘ ریڈیو پاکستان کے لیے انٹرویو: ناصر قریشی‘ ص۱۷-۲۱)۔