اسلامی معاشرت


صحت مند تنقید دین کے فرائض میں سے ایک ذمہ داری ہے۔ الدین نصیحۃ،      یہ حدیث مبارکہ اپنی جامعیت کی بنا پر اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی اطاعت کے دائرے میں اور حکمرانوں اور دیگر معاصرین کے طرزِفکر اور طرزِعمل کا جائزہ لینے اور جہاں کہیں اصلاح کی ضرورت ہو متوجہ کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ میں شکرگزار ہوں کہ عالمی ترجمان القرآن کے ایک فاضل قاری نے الدین نصیحۃ کی پیروی کرتے ہوئے میرے مضمون: ’جنسی تعلیم اسلامی اقدار کے تناظر میں‘ (جون ۲۰۱۲ئ) پر چند سوالات اُٹھائے اور اس موضوع پر مزید چند سطور تحریر کرنے کی تحریک دی۔

محترم قاری کا تبصرہ درج ذیل ہے: ’’’جنسی تعلیم اسلامی اقدار کے تناظر میں‘ بہت ہی اچھا لگا، مگر اس میں بھی ڈاکٹرصاحب کی شانِ اجتہادی نمایاں ہے۔ دو مثالیں ملاحظہ ہوں: قرآن کریم جنسی جذبے کو حلال و حرام اور پاکیزگی اور نجاست کے تناظر میں بیان کرتا ہے تاکہ حصولِ لذت ایک اخلاقی ضابطے کے تحت ہو نہ کہ فکری اور جسمانی آوارگی کے ذریعے۔ چنانچہ عقدِ نکاح کو ایمان کی تکمیل اور انکارِ نکاح کو اُمت مسلمہ سے بغاوت کرنے سے تعبیر کیا گیا (ص ۶۴)۔ پتا نہیں یہ کسی آیت کا ترجمہ ہے یا حدیث کا، یا کوئی اجماعی قانون ہے؟ ایک اور جگہ وَعَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَا اَبَلَاہُ سے درج ذیل نتیجہ اخذ کیا ہے کہ: احادیث بار بار اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ یوم الحساب میں جو سوالات پوچھے جائیں گے، ان میں سے ایک کا تعلق جوانی سے ہے اور دوسرے کا معاشی معاملات سے۔ گویا جنسی زندگی کا آغاز شادی کے بعد ہے، اس سے قبل نہیں (ص ۶۶)۔ ایک تو یہ کہ   الفاظِ حدیث عام ہیں۔ دوسرے یہ کہ جوانی اور شادی میں کیا نسبتِ مساوات ہے؟‘‘

عصرجدید میں ’جنسی تعلیم‘ کی اصطلاح جس تناظر میں استعمال کی جاتی ہے، اس کا مقصد عالم گیریت کے زیرعنوان مغربی اخلاقی اقدار کو تعلیمی نصاب اور کمرئہ درس میں وضاحت کے ذریعے نئی نسل کو جنسی اباحیت کی طرف راغب کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی تہذیب ہو یا مشرقی تہذیب دونوں میں جنسی موضوعات پر جو رویہ صدیوں سے اختیار کیا گیا ہے وہ اسلامی اقدارِ حیات اور قرآنی اخلاق کی ضد نظر آتا ہے۔ ہندوازم جو خالصتاً ایک مشرقی خطے کا مذہب ہے اپنے فن تعمیر کے ذریعے جنسی تعلقات کو سرعام مذہبی عقیدت کے طور پر ظاہر کرتا ہے۔ مغربی تہذیب میں لذت پرستی (hedonism) میں جنسی لذت کا اپنا مقام ہے اور جدیدیت (Modernism ) اور مابعد جدیدیت (Post-Modernism) اور ریخ تیگیت (Destructivism) جیسے فلسفوں نے آج کے مغرب کو جو راستہ دکھایا ہے وہ زندگی کو ایک جنسی لذتیت کے زاویے سے دیکھتا اور    جنسی لذت کے ذرائع کو وہ مقام دے دیتا ہے جو زندگی کے عام معمولات، مثلاً صبح کا ناشتہ، رات کا کھانا، بازار سے پھل خرید کر لانے سے یا چائے کی ایک پیالی پینے سے زیادہ مختلف نہیں سمجھتا۔ اسی بنا پر جنسی تعلیم کے ذریعے عالمی پالیسی پر زور دیا جاتا ہے کہ اگر اسکول کے بچوں کو یہ سکھا دیا جائے کہ وہ کس طرح محفوظ جنسی تعلق قائم کرسکتے ہیں، تو دنیا ایڈز جیسے مہلک مرض سے محفوظ ہوجائے گی۔

واضح رہے کہ جنسی تعلیم کا محرک بڑی حد تک مغرب و مشرق کے ممالک کا یہ تصور ہے کہ وہ ہندستان ہو یا امریکا، جہاں کثرت سے ایڈز کے مثبت کیس پائے جاتے ہیں، اگر انھیں کم کرنا ہے تو آنے والی نسلوں کو ان ذرائع کی تعلیم دی جائے جن کے بعد اسکول کے بچے آپس میں محفوظ جنسی تعلق قائم کرسکیں۔ گویا جنسی تعلق قائم کرنا صبح کے ناشتے کی طرح کی ایک معصوم سرگرمی ہے، اور جس طرح ہم چاہتے ہیں کہ ناشتے میں کوئی جراثیم آلودہ غذا نہ ہو، اسی طرح جنسی تعلق قائم کرتے وقت کیا احتیاط کی جائے کہ اس عمل میں ملوث افراد کسی جسمانی بیماری کا شکار نہ ہوں۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس تعلیم کو دیتے وقت استاد یا معلمہ کمرۂ درس میں نہ صرف تصاویر کے ذریعے بلکہ زبانی وضاحت سے بھی اُن معاملات کو بیان کرے گی جو آج تک کمرئہ استراحت تک رہے ہیں، اور اس کے باوجود ہزارہا سال سے انسانی آبادی میں اضافہ بھی ہوتا رہا ہے۔

  • جنسی مضامین کا ضابطۂ اخلاق میں لانا:قرآن کریم اور سنت مطہرہ اس نازک تعلق کے بارے میں جو اسلوب اختیار کرتے ہیں وہ حصولِ لذت کو اخلاقی ضابطے کے تناظر میں بطور اللہ تعالیٰ کی ایک آیت کی تعلیم کرنا ہے۔ چنانچہ سورئہ روم اور سورئہ نساء میں قرآن کریم شوہر اور بیوی کے تعلق کو جس اخلاقی اسلوب میں بیان کرتا ہے، وہ انسانی فکر کی پرواز سے بلند اور انسانی فکر کی رہنمائی کے لیے ہدایت و رہنمائی کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ قرآن و سنت کا اخلاقی اسلوب زندگی کے ہرعمل کے لیے اخلاقی ضابطے اور اصول فراہم کرتا ہے۔ اخلاقی اصول علومِ اسلامی کے تناظر میں اصول کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور تطبیقی میدان میں احکام قرار پاتے ہیں۔ چنانچہ یہ اسلامی اخلاقی ضابطہ ہے کہ مثالی اسلامی معاشرے میں رشتۂ ازدواج اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اختیار کیا جائے۔ قرآن کریم اس اخلاقی اصول کو کائنات اور مخلوقات کے حوالے سے بیان کرتا ہے کہ کس طرح  نظامِ کائنات کو اخلاقی ضابطے پر چلانے کے لیے جوڑے پیدا کیے گئے۔ اسی تسلسل میں انسان کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس کو ایک نفس سے پیدا کیا، پھر اسی نفس سے اس کا زوج (جوڑا) بنایا۔

گویا عالمِ انسانی ہو یا عالمِ حیوانی ، دونوں میں زواج کا قائم کیا جانا ایک فطری، اخلاقی اور شرعی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت چونکہ انسانوں سے وابستہ ہے، اس لیے اس میں زمان و مکان کا تعین بھی کیا جانا ضروری ہے۔ سنت مطہرہ اس پہلو کی وضاحت و تشریح کرتی ہے کیونکہ سنت کو دو امتیاز حاصل ہیں۔ اوّلاً یہ کہ سنت تشریعی ہے، اور ثانیاً یہ کہ سنت تشریحی ہے۔ چنانچہ یوم الحساب جو سوالات پوچھے جائیں گے ان میں یہ بات شامل ہے کہ جوانی کس طرح گزاری؟ کیا عفت و عصمت کو برقرار رکھا؟ کیا جوانی کی تعمیری قوت کو معروف کی اشاعت کے لیے استعمال کیا؟ کیا جوانی میں مادی وسائل اور وقت کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں سے استعمال کیا، یا بے راہ روی اور عبث میں گزاری؟

جوانی، بلوغ اور عقل، ان سب کا قریبی تعلق ایک مومن کے جنسی معاملات کے ساتھ اتنا واضح ہے کہ اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔ عقلی رویے کا مطالبہ ہے کہ ایک شخص جو ان ہو تو یا روزے رکھے یا رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو۔ یہ بلوغ کا تقاضا ہے کہ اس سن کو پہنچے تو اس فکر میں نہ رہے کہ جب تک کثیرمالی وسائل کا مالک نہ ہو، نکاح سے دُور رہے۔ قرآن نے اس معاشی پہلو کا دوٹوک جواب دیا ہے کہ: وَانْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِِمَآئِکُمْط اِِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآئَ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ o (النور ۲۴:۳۲) ’’تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں، اور تمھارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کردو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا۔ اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے‘‘۔ یہاں یہ بات واضح کردی گئی کہ مالی وسائل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور اللہ کے لیے، اور عفت و عصمت کے تحفظ کے لیے اگر یہ کام کیا جائے گا تو وہ اپنی رحمت سے مالی ضروریات پورا کرنے کا راستہ نکال دے گا۔گویا اپنی اولاد کو رشتۂ ازدواج میں اس لیے منسلک نہ کرنا کہ ابھی تنخواہ کم ہے، کاروبار سے منافع کم آرہا ہے، ابھی عمر ہی کیا ہے، یہ اور اس قسم کے وہ تمام تصورات جو ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں، اسلام ان کو رد کرتا ہے۔ مندرجہ بالا قرآنی آیت ان رواجی تصورات کی تردید کرتی ہے۔

جنس کے حوالے سے قرآن و سنت کے اخلاقی اسلوب کے الہامی اور اعلیٰ ترین ہونے کا احساس اسی وقت ہوسکتا ہے جب ایک محقق کلامِ الٰہی اور دیگر مذاہب کے اساطیر کا ایک تقابلی مطالعہ کرے۔ اساطیر نہیں بلکہ یہودیت اور عیسائیت کی کتب مقدس میں جہاں ان مسائل کا ذکر ہے صرف انھیں ایک نظر دیکھ لیں تو زمین و آسمان کا فرق کھل کر سامنے آجاتا ہے۔

اس بنا پر ہم یہ بات کہنے پر مجبور ہیں کہ اسلام جنسی مسائل پر ایک اعلیٰ الہامی اخلاقی اسلوب اختیار کرتا ہے، اور چاہتا ہے کہ اس اسلوب کی بنیاد پر تدریس و تعلیم میں مواد اور طریق تدریس ایجاد کیے جائیں۔ فقہ ان میں سے ایک ایسا مؤثر ذریعہ ہے جس کی تعلیم بہت سے جنسی مسائل سے، بغیر کسی لذتیت کے، زمینی حقائق سے ایک غیربالغ اہلِ ایمان مرد اور عورت کو ان مسائل سے آگاہ کرتا ہے جن کو آج کل اسکولوں میں جنسی تعلیم کے زیرعنوان سکھانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے، جو فی الواقع طلبہ و طالبات کو بجاے اخلاقی طرزِعمل اختیار کرنے کے فحاشی و عریانی اور بے شرمی کی طرف لے جانے کا ذریعے ہوگی۔ مغرب و مشرق میں جہاں کہیں بھی عمر کے اس مرحلے میں جب ایک بچہ اور بچی تجسس میں مبتلا ہوتے ہیں، یہ طریقہ اختیار کیا گیا تو نتائج تباہ کن ہی رہے ہیں۔ امریکی نصابِ تعلیم میں جنسی تعلیم کی شمولیت کے بعد جس تیزی سے غیراخلاقی جنسی تعلق، قبل از وقت ناجائز ولادت اور حمل کے واقعات ہوئے ہیں وہ ہرصاحب ِ علم کے سامنے ہیں۔

اس لیے جنسی تعلیم کی اہمیت کو مانتے ہوئے اصل مسئلہ اسلوب کا ہے۔ اصل مسئلہ اسے اخلاقی ذمہ داری سے منسلک کرنے کا ہے۔ اصل مسئلہ ایک پاکیزہ خاندان کے قیام کاہے، جب کہ موجودہ سرکاری تعلیمی اداروں کے سربراہ مستعار اور استعمال شدہ فکر کو اختیار کرنے کو اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔ اس لیے ہر وہ موضوع جو مغرب و مشرق کے دانش ور اُٹھاتے ہیں، ہمارے ہاں آنکھیں بند کر کے اس کی پیروی کو ’ترقی پسندی‘، ’روشن خیالی‘ سمجھتے ہوئے اختیار کرنا ایک قومی فریضہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومتی اور غیرحکومتی مدارس میں اسلامیات کے نصاب کو، نظرثانی کے بعد بطور لازمی اور قابلِ امتحان مضمون کے جس کا اثر نتائج میں ظاہر ہو، اسلام کے جامع تصور کو سمجھانے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ اس جامع نصاب میں جنسی اخلاقیات بھی بطور ایک باب کے ہو اور وہ بغیر کسی مانع حمل ذرائع کی تعلیم کے جنسی ذمہ دارانہ رویے پر روشنی ڈالے۔

یہ خبر کہ ایک الیٹ اسکول ہم جنس پرستی کے موضوع پر ۱۶جولائی کو ’میونخ ڈیبٹس‘پروگرام کے تحت مباحثہ منعقد کرنے جارہا ہے (جنگ، ۱۰جولائی ۲۰۱۲ئ)، اس خبر پر مختلف حلقوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے لیکن جو بات قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ جنسی تعلیم کے زیرعنوان آخر وہ کون سی منزل ہے جس کی طرف قوم کے نوجوانوں کو دھکیلا جا رہا ہے۔ کیا ہر وہ اخلاق باختہ کام جو مغرب نے ’ترقی‘، ’روشن خیالی‘، اور ’جدیدیت‘ کے عنوان سے کیا ہے، کرنا ہمارے لیے فرض سمجھ لیا گیا ہے؟

ہم شکرگزار ہیں کہ محترم قاری نے سوالات اُٹھا کر اس موضوع پر چند مزید نکات تحریر کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔ جہاں تک سوال ’شانِ اجتہادی‘ کا ہے، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کی جو جو بات خوش کرتی ہے اس کو اختیار نہ کرنا ہمارے خیال میں کوئی مناسب رویہ   نہیں ہے۔ حدیث معاذ بن جبل میں جو بات ذہن نشین کرائی گئی ہے وہی اُمت مسلمہ کے لیے ذریعۂ نجات ہے۔ اس کوشش میں خلوصِ نیت کے ساتھ جو کام بھی کیا جائے گا اگر وہ قرآن و سنت کے اصولوں سے مطابقت رکھے تو اس کے لیے دو اجر کا وعدہ ہے، اور اگر پورے خلوص اور کوشش کے باوجود انسانی فکر سہو کا شکار ہو، جب بھی الرحم الراحمین کی طرف سے ایک اجر کا وعدہ ہے۔    اگر دین اسی کا نام ہے تو پھر طنزاً ’شانِ اجتہادی‘ تلاش کرنا یا نہ کرنا غیرمتعلق ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نفس کے فتنوں، گمراہی، غلو اور اباحیت سے محفوظ رکھے، قرآن و سنت پر غور کرنے اور نئے مسائل و معاملات کے حل تلاش کرنے کی توفیق دے۔ وما توفیقی الا باللّٰہ۔

اسلامی نظامِ خاندان پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں ان میں یہ اعتراض بہت نمایاں ہے کہ اس میں مرد کا غلبہ پایا جاتا ہے اور عورت کو کم تر حیثیت دی گئی ہے۔ عورت رشتۂ نکاح میں بندھنے کے بعد ہر طرح سے اپنے شوہر پر منحصر اور اس کی دست نگر بن جاتی ہے۔ شوہر کو اس پر حاکمانہ اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے اس پر حکومت کرتا، اسے مشقت کی چکّی میں پیستا اور اس پر ہر طرح کے ظلم و ستم کو روا رکھتا ہے، مگر وہ کسی صورت میں اس پر صداے احتجاج بلند کرسکتی ہے، نہ اس سے گلو خلاصی حاصل کرسکتی ہے۔

اسلام میں عورت کی مظلومیت و محکومیت کی یہ تصویر بہ ظاہر بڑی بھیانک معلوم ہوتی ہے، لیکن حقیقت سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ یہ اعتراضات خاندان کے بارے میں اسلامی تعلیمات اور ان کی حکمتوں کو صحیح پس منظر میں نہ دیکھنے کا نتیجہ ہیں۔ سطور ذیل میں ان کا جائزہ لینے اور اسلامی نظامِ خاندان میں مرد او رعورت کی صحیح پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

اسلام کا خاندانی نظام: چند امتیازات

اسلام نے مرد اور عورت کے درمیان تمام معاملات میں مساوات برتی ہے اور ان کے درمیان کسی طرح کی تفریق نہیں کی ہے۔ اس نے عورت کو مرد کی طرح تمام معاشرتی و تمدنی حقوق عطا کیے ہیں، مثلاً اسے حصولِ تعلیم، شوہر کے انتخاب، ناپسندیدہ شوہر سے گلو خلاصی، مہر و نفقہ اور  مال و جایداد کی ملکیت اور معاشی جدّو جہد کا حق حاصل ہے۔ اسے معاشرے میں مرد کی طرح ، بلکہ بعض حیثیتوں سے مرد سے بڑھ کر عزت و احترام کا مقام حاصل ہے۔ الغرض اسلام نے عورت کو جن حقوق سے بہرہ ور کیا ہے ، مغربی معاشروں میں وہ حقوق عورت کو صدیوں بعد اور طویل کش مکش اور جدّو جہد کے نتیجے میں حاصل ہوسکے ہیں۔ لیکن مساوات کا مطلب بہرحال دونوں کے کاموں کی یکسانیت نہیں ہے۔ اس نے دونوں کے درمیان کاموں کی منصفانہ تقسیم کی ہے اور دونوں کے  دائرۂ کار الگ الگ رکھے ہیں۔ اس سلسلے میں اس نے دونوں کی فطری صلاحیتوں کی بھرپور رعایت کی ہے۔ عورت کے ذمے فطرت نے بچوں کی پیدایش و پرورش کا عظیم الشان کام سونپا ہے۔ اسی لیے اسلام نے عورت کو گھر کے اندر کے کاموں کی ذمہ داری دی ہے اور اس کی اہم مصروفیات کو دیکھتے ہوئے اسے وسائلِ معاش کی فراہمی سے آزاد رکھا ہے۔ مرد کے ذمے اسلام نے گھر سے باہر کے کام رکھے ہیں اور اسے پابند کیا ہے کہ وہ عورت کی معاشی کفالت کرے اور اسے تحفظ فراہم کرے۔ خاندان کا نظام صحیح ڈھنگ سے چلنے کے لیے کاموں کی تقسیم ضروری تھی۔ اگر ہرشخص ہرکام انجام دینے لگے تو کوئی بھی نظام صحیح طریقے سے نہیں چل سکتا۔ بچوں کی پیدایش و پرورش کا کام صرف عورت ہی انجام دیتی ہے۔ اس کے ساتھ بڑی زیادتی ہوتی کہ یہ کام بھی اس سے متعلق رہتے، مزید گھر سے باہر کے کاموں کا بھی اسے پابند بنادیا جاتا۔ ۱؎

مرد کی اضافی ذمہ داری- خاندان کی سربراھی

مرد اور عورت دونوں کے میدانِ کار کی وضاحت اور ذمہ داریوں کی تعیین کے ساتھ اسلام نے مرد پر ایک اضافی ذمہ داری عائد کی ہے اور وہ ہے خاندان کی سربراہی ۔ کسی بھی ادارے (Institution) کے منظم انداز میں سرگرم عمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ایک سربراہ ہو، جو اس کے تمام کاموں کی نگرانی کرے، اس کے نظم و ضبط کو درست اور چاق چوبند رکھے، اس سے وابستہ تمام افراد کی سرگرمیوں پر نظر رکھے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے ماتحتوں اور اس کے درمیان محبت و خیر خواہی پر مبنی ربطِ باہم پایا جائے۔ وہ ان کے حقوق پہچانے اور ان کو تحفظ فراہم کرے اور وہ لوگ بھی پوری خوش دلی کے ساتھ اس کے احکام بجا لائیں اور ان سے سرتابی نہ کریں۔ یہ ذمہ داری کسی ایک فرد ہی کو دی جاسکتی ہے۔ اگر یکساں حقوق و اختیارات کے ساتھ ایک سے زائد افراد کو کسی ادارے کی سربراہی سونپ دی جائے اور ہر ایک اپنی آزاد مرضی سے اس ادارے کو چلانا چاہے تو اس کے نظم کا درہم برہم ہوجانا یقینی ہے۔ مرد اور عورت نظامِ خاندان کے دو بنیادی ارکان ہیں۔ اس کی سربراہی ان میں سے کسی ایک ہی کو دی جاسکتی ہے۔ اسلام نے یہ ذمہ داری مرد کے حوالے کی ہے (ایضاً)۔ قرآن میں اسی کو ’درجہ‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْْھِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْْھِنَّ دَرَجَۃٌ  ط (البقرہ ۲:۲۲۸) عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں، البتہ مردوں کو ان پر ایک (برتر) درجہ حاصل ہے۔

اسی ذمہ داری کی بنا پر مرد کو قرآن میں ’قوّام‘ (سربراہ) کہا گیا ہے:

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَبِمَآ اَنفَقُواْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ ط (النسائ۴:۳۴) مرد عورتوں کے سربراہ ہیں، اس سبب سے کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس سبب سے کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔

لفظ ’قـوّام‘ کی لغوی تشریح

اردو زبان میں بعض مترجمینِ قرآن نے لفظ ’قوّام‘ کو جوں کا توں باقی رکھا ہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ ’حاکم‘ ، ’افسر‘ ، ’سرپرست‘ یا ’سربراہ‘ کیا ہے، تاہم اس سے اس کے پورے مفہوم کی وضاحت نہیں ہوپاتی۔ عربی زبان میں قام کا ایک معنٰی نگرانی و خبر گیری ہے۔ قَامَ عَلَی الْاَمْر: کسی کام میں مشغول ہونا، کسی کام کو سنبھالنا، قَامَ عَلٰٓی اَھْلِہٖ: اہل و عیال کی دیکھ بھال کرنا، کفالت کرنا، خرچ اٹھانا۔

مولانا امین احسن اصلاحی فرماتے ہیں: ’’عربی میں ’قام‘ کے بعد ’علی‘ آتا ہے تو اس کے اندر نگرانی ، محافظت، کفالت اور تولیت کا مضمون پیدا ہوجاتا ہے۔ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ میں بالاتری کا مفہوم بھی ہے اور کفالت و تولیت کا بھی۔ اور یہ دونوں باتیں کچھ لازم و ملزوم سی ہیں‘‘۔ ۲؎

ماہرین لغت کے اقوال سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ علامہ فیروز آبادی فرماتے ہیں: اس کا مطلب ہے مرد کا عورت کی کفالت کرنا اور اس کی دیکھ بھال کرنا۔ (مجدالدین الفیروز آبادی، القاموس المحیط، دارالفکر ،بیروت، ۱۹۹۵ئ، ص۴۷۴)

اس کی شرح میں علامہ زبیدیؒ نے لکھا ہے: ’’مرد کا عورت کی کفالت کرتے ہوئے اس کے کام انجام دینا۔ ایسا کرنے والے کو قوّام کہا جاتا ہے‘‘۔ (محمد مرتضٰی الزبیدی، تاج العروس، دارلیبیا للنشر والتوزیع، بنغاری)

لسان العرب میں ہے: ’’مرد نے عورت کی کفالت کی۔ ایسا کرنے والے کو قوّام کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: الرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ، یعنی مرد عورتوں کے امور کے  ذمہ دار ہیں، ان کے معاملات میں دل چسپی لینے والے ہیں‘‘۔(ابن منظور، لسان العرب، دارصادر بیروت، ۱۲/۵۰۳)

’قوّام‘ مبالغے کا صیغہ ہے۔ اس میں کسی کام کو بہتر سے بہتر طریقے سے انجام دینے اور خوب اچھی طرح اس کی نگرانی و محافظت کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ ابوحیان اندلسی کہتے ہیں: ’’قوّام مبالغے کا صیغہ ہے، اس کے لیے قیّام اور قیّم کے الفاظ بھی مستعمل ہیں۔ اس کا معنٰی ہے وہ شخص جو کسی کام کو انجام دے اور اس کی محافظت کرے‘‘۔۳؎

مفسّرین کرام کی تصریحات

مفسرین کرام نے بھی اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ مردوں کے عورتوں پر قوّام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورتوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے ہیں، ان کے معاملات کی نگرانی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ اور شوہروں کے جو حقوق عورتوں پر واجب ہیں ان کی ادایگی کی تاکید کرتے ہیں اور اس معاملے میں اگر عورتوں سے کوئی کوتاہی ہوتی ہے تو ان کی گرفت کرتے ہیں، جس طرح کوئی  حکمران اپنی رعایا کی دیکھ بھال کرتا ہے اسی طرح وہ عورتوں کی دیکھ بھال کرتے اور ان کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ چند تصریحات ملاحظہ ہوں۔

ابوجعفر طبری (م۳۱۰ھ) فرماتے ہیں: ’’وہ اپنی عورتوں کی تادیب کا کام انجام دیتے ہیں اور اللہ نے ان پر اپنے اور ان کے شوہروں کے جو حقوق عائد کیے ہیں، ان کی ادایگی میں کوتاہی پر ان کی گرفت کرتے ہیں‘‘۔۴؎

یہی تشریح الفاظ کے فرق کے ساتھ ماوردی (م: ۴۵۰ھ) بغوی (م: ۵۱۰ھ) خازن (م:۷۴۱ھ) اور سیوطی (م:۹۱۱ھ) نے بھی کی ہے۔ ۵؎

زمخشری (م:۵۳۸ھ) نے لکھا ہے: ’’وہ انھیں (اچھے کاموں کا) حکم دیتے اور (برے کاموں سے ) روکتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ اس طرح معاملہ کرتے ہیں جس طرح حکمران رعایا کے ساتھ کرتے ہیں‘‘۔۶؎

اسی سے ملتی جلتی تشریح بیضاوی (م: ۶۸۵ھ) نسفی (م: ۷۰۱ھ) بقاعی (م:۸۸۵ھ) ابوالسعود (م:۹۴۰ھ) اور آلوسی (م:۱۲۷۰ھ) نے بھی کی ہے۔ ۷؎

امام رازی (م: ۶۰۶ھ) فرماتے ہیں: ’’یعنی انھیں عورتوں کو ادب سکھانے اور کوتاہی کی صورت میں ان کی گرفت کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر حکمران بنایا ہے، اس پر (یعنی عورت پر) اس کا (یعنی مرد کا ) حکم چلتا ہے‘‘۔۸؎ 

علامہ ابنِ کثیرؒ (م۷۷۴ھ) نے لکھا ہے: ’’عورت پر مرد کے قیّم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کا سردار، اس کا بڑا ، اس پر حکمران اور کجی کی صورت میں اسے ادب سکھانے والا ہے‘‘۔۹؎

مرد کو قوّام بنائے جانے کے اسباب

قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات میں مردوں کو عورتوں پر قوّام بنائے جانے کے تذکرے کے ساتھ وہ اسباب بھی بیان کردیے گئے ہیں جن کی بنا پر انھیں یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس سلسلے میں دو اسباب مذکور ہیں۔ مفسرین کے بیان کے مطابق پہلا سبب وہبی ہے اور دوسرا کسبی۔ ۱۰؎

  • وھبی فضیلت: پہلے سبب کے ضمن میں قرآن نے بہ طریق اجمال بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض پہلوؤں سے مردوں کو عورتوں پر فوقیت بخشی ہے۔

بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلَی بَعْضٍ (النسائ۴:۳۴) اس سبب سے کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دو سرے پر فضیلت دی ہے۔

آیت کے اس ٹکڑے میں اگرچہ صراحت نہیں ہے کہ کس کو کس پر فضیلت حاصل ہے، لیکن سیاقِ کلام سے واضح ہے کہ یہاں مقصود مردوں کی عورتوں پر فضیلت کا بیان ہے۔ پھر یہ فضیلت ایک جنس کی دوسری جنس پر ہے۔ ورنہ افراد کے اعتبار سے دیکھا جائے تو طبقۂ اناث میں بعض افراد ایسے ہوسکتے ہیں جنھیں بعض مردوں پر فضیلت حاصل ہو (ابوحیان، ۳/۳۳۵)۔ مزید یہ کہ یہاں صرف وہ فضیلت زیرِ بحث ہے جس سے مردوں کے لیے قوّامیت کا استحقاق ثابت ہوتا ہو۔ (اصلاحی،تدبرقرآن، ۲/۲۹۱-۲۹۲)

اس کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے لکھا ہے:’’یہاں فضیلت بہ معنی شرف او رکرامت اور عزّت نہیں ہے، جیسا کہ ایک عام اردو خواں آدمی اس لفظ کا مطلب لے گا، بلکہ یہاں یہ لفظ اس معنیٰ میں ہے کہ ان میں سے ایک صنف (یعنی مرد) کو اللہ نے طبعاً بعض ایسی خصوصیات اور قوتیں عطا کی ہیں جو دوسری صنف (یعنی عورت) کو نہیں دیں ، یا اس سے کم دی ہیں۔ اس بنا پر خاندانی نظام میں مرد ہی قوّام ہونے کی اہلیت رکھتا ہے او رعورت فطرتاً ایسی بنائی گئی ہے کہ اسے خاندانی زندگی میں مرد کی حفاظت و خبر گیری کے تحت رہنا چاہیے‘‘۔ (تفھیم القرآن، ۱/۳۴۹)

مفسرین کرام نے عورتوں پر مردوں کی فضیلت کے بہت سے وجوہ بیان کیے ہیں۔ مثلاً ابنِ کثیر نے نبوت، حکمرانی اور قضا کا تذکرہ کیا ہے (ابن کثیر، ۱/۶۴۱)۔ جصاص ، ماوردی،   ابنِ العربی، بقاعی، سیوطی وغیرہ نے صرف عقل و راے یا اس کے ساتھ جسمانی قوت، کمالِ دین اور ولایت کا تذکرہ کیا ہے۔ ۱۱؎

امام رازیؒ فرماتے ہیں:’’عورتوں پر مردوں کو بہت سی وجوہ سے فضیلت حاصل ہے۔ ان میں سے بعض حقیقی اوصاف ہیں اور بعض شرعی احکام۔ جہاں تک حقیقی اوصاف کا تعلق ہے تو ان کی بنیاد دو چیزوں پر ہے: علم اور قدرت ۔ اس میں شک نہیں کہ مردوں کی عقل اور ان کا علم بڑھا ہوا ہوتا ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ انھیں پُرمشقت کاموں کو انجام دینے کی بھرپور قدرت حاصل ہوتی ہے۔ انھی دو اسباب سے مردوں کو عورتوں پر عقل ، دور اندیشی ، قوت، تحقیق و تصنیف، شہ سواری، تیراندازی کے معاملے میں فضیلت حاصل ہے اور یہ کہ ان میں انبیا اور علما ہوئے ہیں، وہ امامتِ کبریٰ اور امامتِ صغریٰ کے مناصب پر فائز ہوتے ہیں۔ جہاد، اذان، خطبہ، اعتکاف اور حدود و قصاص میں شہادت کے معاملے میں بالاتفاق اور امام شافعی کے نزدیک نکاح کے معاملے میں بھی انھیں فضیلت حاصل ہے۔ میراث میں ان کا حصہ زیادہ ہوتا ہے۔ قتلِ عمد اور قتلِ خطا میں وہ دیت       ادا کرتے ہیں۔ نکاح میں انھیں ولایت حاصل ہے۔ طلاق، رجعت اور تعدّد ازدواج کا بھی انھیں حق ہے۔ اولاد ان کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ یہ تمام چیزیں عورتوں پر مردوں کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں‘‘۔ (رازی، ۱۰/۸۰)

بہت سے مفسرین نے مذکورہ چیزوں کے ساتھ بعض اور وجوہِ فضیلت بیان کیے ہیں، مثلاً جمعہ و جماعت میں شرکت، تجارت، جنگوں میں حصہ لینا۔ انھوں نے بعض ایسی چیزوں کا بھی تذکرہ کیا ہے جن کا کسی طرح وجوہِ فضیلت میں شمار نہیں ہوسکتا، مثلاً چہرہ کھلا رہنا، عمامہ باندھنا، داڑھی ہونا۔ ۱۲؎

شیخ محمد عبدہٗ  ؒ اور ان کے شاگرد رشید علامہ رشید رضاؒ نے اس موضوع پر بہت اچھی بحث کی ہے۔ یہاں اس کا خلاصہ پیش کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے: شیخ محمد عبدہٗ  ؒ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ اس کے بجائے اگر وہ یہ کہتا کہ اس نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی ہے تو بات مختصر بھی ہوتی اور زیادہ واضح بھی۔ لیکن اس کے بجاے اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ مرد اور عورت کا باہمی تعلق ویسا ہی ہے جیسا ایک شخص کے بدن کے مختلف اعضا کا آپس میں ہوتا ہے۔ مرد بمنزلۂ سر کے ہے اور عورت بمنزلۂ بدن کے ۔ فضیلت کے جو اسباب قرآن نے بیان کیے ہیں ان میں سے ایک فطری ہے اور دوسرا کسبی۔ فطری سبب یہ ہے کہ مرد کا مزاج زیادہ قوی اور مکمل ہوتا ہے۔ ساتھ ہی اس کی عقل زیادہ پختہ ہوتی ہے اور وہ معاملات کے تمام پہلوؤں پر ٹھیک طریقے سے غور و فکر کرسکتا ہے۔ مزید برآں کسبی اعمال میں بھی اسے کمال حاصل ہوتا ہے۔ مردوں کو کمانے، ایجاد و اختراع کرنے اور معاملات میں تصرف کرنے پر زیادہ قدرت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے انھیں مکلّف قرار دیا گیا ہے کہ وہ عورتوں پر خرچ کریں، انھیں تحفّظ فراہم کریں اور خاندانی معاشرے کی عمومی سربراہی کریں، اس لیے کہ ضروری ہے کہ ہر معاشرے کا ایک سربراہ ہو جس سے عام مصالح کے سلسلے میں رجوع کیا جائے‘‘۔ (رشید رضا، ۵/۶۹-۷۰)

اسی سیاق میں علامہ رشید رضاؒ بعض نکتوں کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مردوں کی عورتوں پر فضیلت کا تذکرہ صراحت سے کرنے کے بجائے یہ تعبیر اختیار کی گئی ہے کہ اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ اس سے یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ مرد اور عورت دونوں ایک بدن کے مختلف اعضا کے مثل ہیں۔ اس لیے نہ مرد کے لیے مناسب ہے کہ وہ اپنی طاقت کے نشے میں عورت پر ظلم کرے اور نہ عورت کو زیب دیتا ہے کہ اس کی فضیلت کو بار سمجھے اور اس چیز کو اپنی ناقدری گردانے، اس لیے کہ جس طرح کسی شخص کے لیے یہ عار کی بات نہیں ہے کہ اس کا سر ہاتھ سے یا دل معدہ سے افضل ہو، اس لیے کہ بعض اعضا کا دیگر اعضا سے افضل ہونا پورے بدن کے مفاد میں ہوتا ہے، جب کہ اس سے کسی عضو کو کوئی ضرر لاحق نہیں ہوتا، اسی طرح کمانے اور تحفظ دینے کی قوت و طاقت رکھنے کے معاملے میں عورت پر مرد کی فضیلت میں حکمت پائی جاتی ہے۔ کیوںکہ اس طرح عورت با آسانی اپنے فطری وظائف: حمل، ولادت اور بچوں کی تربیت وغیرہ انجام دیتی ہے۔ وہ اپنے گوشۂ عافیت میںبے خوف و خطر رہتی ہے اور وسائلِ معاش فراہم کرنے کی فکر سے بھی آزاد رہتی ہے۔ فضیلت کی غیر واضح تعبیر اختیار کرنے میں ایک دوسری حکمت بھی پائی جاتی ہے۔ اس سے یہ اشارہ مقصود ہے کہ یہ فضیلت ایک جنس کی دوسری جنس پر ہے، مردوں کے تمام افراد کی عورتوں کے تمام افراد پر نہیں ہے۔ اس لیے کہ بہت سی عورتیں ایسی ہوسکتی ہیں جو علم، عمل، بلکہ جسمانی قوت اور کمانے کی صلاحیت میں اپنے شوہروں سے افضل ہوں‘‘۔ (ایضاً، ۵/ ۶۸-۶۹)

آگے علامہ رشید رضاؒ نے مفسرین کی بیان کردہ وجوہِ فضیلت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’زیادہ تر مشہور مفسرین نے وجوہِ فضیلت میں نبوت، امامتِ کبریٰ، امامتِ صغریٰ، اذان، اقامت اور خطبۂ جمعہ وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مردوں کو حاصل یہ امتیازات ان کے کمالِ استعداد پر مبنی ہیں، لیکن یہ وہ اسباب نہیں ہیں جن کی بناپر مردوں کو عورتوں کے معاملات کی سربراہی تفویض کی گئی ہے۔ اس لیے کہ نبوت ایک اختصاص ہے جس پر اس طرح کا حکم مبنی نہیں ہوسکتا اور نہ ہر مرد کے ہر عورت سے افضل ہونے کی یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ تمام انبیا مرد تھے۔ یہی حال امامت و خطابت اور دیگر امور کا ہے ، جن کی صرف مردوں کے لیے مشروعیت کا تذکرہ مفسرین نے کیا ہے۔ اگر شریعت نے عورتوں کو جمعہ اور حج میں خطبہ دینے ، اذان دینے اور نماز کی امامت کرنے کی اجازت دی ہوتی تو بھی یہ امر اس چیز میں مانع نہ ہوتا کہ مرد بہ تقاضائے فطرت عورتوں کے قوّام ہوں۔ لیکن اکثر مفسرین دینِ فطرت کے احکام کی علّتیں بیان کرنے میں قوانینِ فطرت کی طرف رجوع نہیں کرتے اور دوسرے پہلو تلاش کرنے لگتے ہیں‘‘۔ (ایضاً، ۵/۷۰)

  • کسبی فضیلت :عورتوں پرمردوں کی فضیلت کا دوسرا سبب قرآن نے یہ بیان کیا:

وَبِمَا اَنْفَقُوا مِنْ اَمْوَالِھِمْ ط (النسائ۴:۳۴) اور اس سبب سے کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔

شریعت نے افرادِ خاندان کی کفالت کرنے، ان کی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے اور ان کے لیے وسائلِ معاش فراہم کرنے کی ذمہ داری مرد پر عائد کی ہے اور عورت کو اس سے بالکل آزاد رکھا ہے۔ یہ چیز بھی مرد کو خاندان کی سربراہی کے مقام پر فائز کرتی ہے۔ شیخ رشید رضا نے اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:’’عورتیں عقدِ زوجیت کے ذریعے مردوں کی سربراہی میں داخل ہوتی اور ان کی ماتحتی قبول کرتی ہیں۔ مہر کی شکل میں انھیں اس کا عوض اور بدلہ دیا جاتا ہے۔ اس طرح گویا شریعت نے عورت کو ایک اعزاز بخشا ہے کہ اسے ایک ایسے معاملے میں مالی بدلے کا مستحق قرار دیا جس کا فطرت اور نظامِ معیشت تقاضا کرتے ہیں اور وہ یہ کہ اس کا شوہر اس کاسربراہ ہو۔اس معاملے کو عُرف کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے، جسے لوگ باہم رضامندی سے انجام دیتے ہیں۔ گویا عورت نے اپنی مرضی سے مطلق مساوات سے تنزل اختیار کرلی اور مرد کو اپنے اوپر ایک درجہ (سربراہی کا درجہ) فوقیت دینے پر تیار ہوگئی اور اس کا مالی عوض قبول کرلیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْْھِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْْھِنَّ دَرَجَۃٌ (البقرہ ۲:۲۲۸)  اس آیت سے مردوں کو وہ درجہ مل گیا جس کا فطرت تقاضا کرتی ہے۔(ایضاً، ۵/۶۷-۶۸)

فقہاے کرام نے آیت کے اس ٹکڑے سے استنباط کیا ہے کہ مرد پر عورت کا نفقہ واجب ہے (جصاص، ۱/۲۲۹)۔ یہی مضمون قرآن کی دیگر آیات میں بھی مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَعَلَی الْمَوْلُودِ لَہُ رِزْقُھُنَّ وَکِسْوَتُھُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ط (البقرہ۲: ۲۳۳) بچے کے باپ کو معروف طریقے سے انھیں کھانا کپڑا دینا ہوگا۔۱۳؎

اس آیت کے ذیل میں فقہا نے ایک بحث یہ اٹھائی ہے کہ اگر کبھی شوہر بیوی کا نفقہ برداشت کرنے پر قادر نہ رہے تو اس کی قوّامیت باقی نہیں رہتی اور اس صورت میں بیوی کو نکاح فسخ کروانے کا اختیار حاصل ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ مقصود باقی نہ رہا جس کی بنا پر نکاح کی مشروعیت ہوئی تھی۔ یہ امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کا مسلک ہے۔ امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ عورت کا نفقہ برداشت کرنے پر شوہر قادر نہ ہو تو بھی نکاح فسخ نہ ہوگا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَإِن کَانَ ذُوْ عُسْــرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلَی مَیْْسَرَۃٍ ط (البقرہ ۲:۲۸۰) اور اگر وہ    تنگ دست ہو تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو۔ (قرطبی، ۵/۱۶۹، ابوحیان، ۳/۳۳۶، آلوسی، ۵/۲۴)

ایک علمی مجلس میں ایک خاتون کی جانب سے عہد حاضر کے مشہور عالم دین مولانا      سید جلال الدین عمری سے سوال کیا گیا کہ ’’قرآن مجید میں الرجال قوامون کہا گیا ہے۔ اس کے تحت بیوی کے نان نفقہ کی ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک خاوند جو بے روزگار ہے اور بیوی کا معاشی بار نہیں اٹھارہا ہے، یا وہ جسمانی طور پر معذور ہے اور اسے جسمانی تحفظ  نہیں دے سکتا، تو کیا پھر بھی وہ قوّام ہوگا؟‘‘ اس سوال کا انھوں نے یہ جواب دیا: ’’آپ اس سے بھی زیادہ بھیانک مثال پیش کرسکتی ہیں۔ ایک آدمی نابینا ہے یا اپاہج اور معذور ہے۔ خود تعاون اور مدد کا محتاج ہے۔ عورت اس کی خدمت کرتی اور اس کے اخراجات برداشت کرتی ہے تو کیا اس صورت میں مرد کی حیثیت قوّام ہی کی ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید نے بہ حیثیتِ نوع مرد کو قوّام کہا ہے۔ اس کی دو وجوہ بیان کی ہیں: ایک یہ کہ اللہ نے  مرد کو عورت پر فضیلت اور برتری عطا کی ہے۔ یہ برتری جسمانی، ذہنی او رعملی تینوں پہلوؤں سے یا ان میں سے ایک یا دو پہلو سے ہوسکتی ہے۔ اسی برتری کی وجہ سے اسلام نے عورت کے مقابلے میں مرد پر سیاسی، سماجی اور معاشی ذمے داریاں بھی زیادہ ڈالی ہیں۔ مرد کے قوّام ہونے کی دوسری وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ وہ عورت پر اپنا مال خرچ کرتا ہے ۔ یہ ایک عمومی بات ہے۔ استثنائی مثالیں ہردَور میں رہی ہیں۔ آج بھی موجود ہیں کہ ایک عورت ذہنی اور جسمانی لحاظ سے مرد سے بہتر ہے اور اس کی معاشی حیثیت بھی مستحکم ہے اور وہ شوہر پر خرچ بھی کررہی ہے۔ اس کے باوجود مرد کے قوّام ہونے کی حیثیت ختم نہیں ہوجائے گی۔ ورنہ مرد اگر اپنے مرد ہونے کی وجہ سے اور عورت اپنی معاشی حیثیت کی وجہ سے باہم ٹکرانے لگیں تو گھر کا نظام درہم برہم ہوکر رہ جائے گا‘‘۔ (اسلام کاعائلی نظام)

نگران نہ کہ داروغہ

اس تفصیل سے واضح ہوا کہ شوہر کی حیثیت خاندان میں ایک نگرانِ اعلیٰ کی ہے، جس کے ماتحت بیوی بچے اور دیگر متعلقین پوری آزادی کے ساتھ اپنی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ شوہر ان کی کفالت کرتا ہے، انھیں تحفظ فراہم کرتا ہے اور انھیں مکروہاتِ دنیا سے بچاتا ہے۔ اس کی مثال چرواہے کی سی ہے، کہ وہ ریوڑ میں شامل تمام بھیڑ بکریوں پر نظر رکھتا ہے، ان کی دیکھ بھال کرتا ہے اور انھیں بھیڑیوں کے حملوں سے بچاتا ہے۔ ایک حدیث میں یہی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:

اَلرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰی اَھْلِ بَیْـتِہٖ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّـتِہٖ (بخاری،کتاب الاحکام، ۷۱۳۷، مسلم، کتاب الامارۃ، ۱۸۲۹) مرد اپنے گھر والوں کا راعی (نگراں) ہے اور اس سے اس کی رعیّت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

شیخ محمد عبدہٗ ؒ اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اس آیت میں قوّامیت سے مراد وہ سربراہی ہے جس میں ماتحت شخص اپنے پورے ارادہ و اختیار کے ساتھ اپنی سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں ماتحت شخص پوری طرح مجبور محض ہوتا ہے، وہ کسی ارادہ و اختیار کا مالک نہیں ہوتا اور صرف وہی کام انجام دیتا ہے جس کی اس کا سربراہ اسے ہدایت دیتا ہے۔ بلکہ کسی شخص کے دوسرے پر قوّام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے جن کاموں کی رہ نمائی کرتا ہے، ان کے نفاذ کے سلسلے میں اس کی دیکھ ریکھ اور نگرانی رکھتا ہے‘‘۔ (رشید رضا، ۵/ ۶۸)

مردوں کو سربراہی و نگرانی کے اختیارات تفویض کرنے کے ساتھ قرآن و حدیث میں واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ مرد اپنے ان اختیارات کا غلط استعمال نہ کریں، بلکہ اپنے زیر دست عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور محبت، شائستگی اور ہم دردی کے ساتھ پیش آئیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَعَاشِرُوھُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء ۴:۱۹) ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا:

اِسْتَوْصوْا بِالنِّسَآئِ خَیْراً ۱۴؎ عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔

اُم المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:

خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَھْلِہٖ ۱۵؎ تم میں بہتر شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو۔

عورتوں کو اطاعت شعاری کی تاکید

دوسری طرف عورتوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ مردوں کی اطاعت کریں۔ ان پر واضح کردیا گیا ہے کہ مردوں کو جو قوّامیت کی ذمہ داری دی گئی ہے، اس میں ان (عورتوں) کی حق تلفی نہیں ہے اور اس سے ان کی کوئی سبکی اور توہین نہیں ہوتی، بلکہ ایسا محض نظامِ خاندان کو درست اور چاق چوبند بنانے کے لیے کیا گیا ہے، اس لیے انھیں چاہیے کہ اپنے شوہروں کا کہنا مانیں، انھیں خوش رکھیں اور ان کی ہدایات سے سرتابی نہ کریں۔ چنانچہ زیر بحث آیت کا اگلا ٹکڑا یہ ہے:

فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ط (النساء ۴:۳۴) پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔

آیت کے اس حصے میں نیک عورتوں کی دو صفات بیان کی گئی ہیں: ایک صفت ہے قانتات، یعنی اطاعت کرنے والی ۔ ’قنوت‘ کے لغوی معنیٰ اطاعت کے ہیں۔ قرآن کے دیگر مقامات پر اس کا استعمال ’اللہ کی اطاعت‘ کے معنیٰ میں ہوا ہے۔۱۶؎ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہاں بھی وہ اسی معنیٰ میں ہے، جب کہ بعض دیگر کہتے ہیں کہ ’اطاعت‘ میں اللہ کی اطاعت کے ساتھ شوہر کی اطاعت بھی شامل ہے۔

صالح عورتوں کی دوسری صفت یہ بیان کی گئی ہے: حافظات للغیب، یعنی غیب کی حفاظت کرنے والیاں۔ غیب کا ایک مفہوم شوہر کی غیر موجودگی ہے، یعنی شوہروں کی عدم موجودگی میں وہ اپنے آپ کی ، بچوں کی اور شوہروں کے گھر اور مال و جایداد کی حفاظت کرتی ہیں۔ زمخشریؒ فرماتے ہیں: ’’غیب، موجودگی کی ضد ہے۔ یعنی جب ان کے شوہر ان کے پاس موجود نہیں ہوتے ہیں تو وہ ان کے غائبانہ میں ان کی چیزوں کی حفاظت کرتی ہیں‘‘۔(زمحشری، ۱/۵۲۴)

ابن عطیہؒ نے اس مفہوم کو کچھ اور وسعت دی ہے۔ ان کے نزدیک غیب میں ہر وہ چیز داخل ہے جس کا شوہر کو علم نہ ہو، خواہ وہ اس کی موجودگی میں ہو یا غیر موجودگی میں۔ کہتے ہیں: ’’غیب سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کا شوہر کو علم نہ ہو او راس کی نگاہ سے پوشیدہ ہو اس میں دونوں حالتیں شامل ہیں۔ وہ کہیں باہر گیا ہو یا موجود ہو‘‘۔(ابن عطیہ، المحرر الوجیز، ۲/۴۷ بہ حوالہ ابوحیان، ۳/۳۳۷)

غیب کا دوسرا مفہوم ’راز‘ ہے ۔ اس صورت میں حافظات للغیب کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ رازوں کی حفاظت کرنے والی ہیں۔ علامہ آلوسیؒ نے لکھا ہے: ’’اس کا ایک دوسرا معنیٰ یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے شوہروں کے رازوں یعنی جو کچھ ان کے شوہروں اور ان کے درمیان خلوت میں ہوتا ہے، اس کی حفاظت کرنے والی ہیں‘‘۔(آلوسی، ۵/۲۴)

شیخ محمد عبدہٗ ؒ فرماتے ہیں:’’غیب سے مراد یہاں وہ بات ہے جس کو ظاہر کرنے میں شرم آئے، یعنی وہ ہر اس چیز کو چھپاتی ہیں جس کا تعلق ازدواجی معاملات سے ہو اور جو ان کے شوہروں اور ان کے درمیان خاص ہو‘‘۔۱۷؎

ابو حیان نے عطا و قتادہ سے منسوب جو قول نقل کیا ہے، اس میں یہ دونوں مفہوم شامل ہیں:  ’’وہ حفاظت کرتی ہیں اس چیز کی جس کا ان کے شوہروں کو علم نہ ہو، وہ اپنے آپ کی حفاظت کرتی ہیں اور جو کچھ ان کے شوہروں اور ان کے درمیان ہوتا ہے اسے اِدھر اُدھر بیان نہیں کرتیں‘‘۔ (ابوحیان، ۳/۳۳۷)

انھی اوصاف کی بنا پر حدیث میں نیک عورت کو دنیا کی سب سے قیمتی متاع قرار دیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:

اَلدُّنْیَا مَتَاعٌ وَخَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا اَلْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ(صحیح مسلم، کتاب الرضاع، ۱۴۶۷) دنیا سامانِ زیست ہے اور دنیا کی سب سے قیمتی متاع نیک عورت ہے۔

عورت کی سرکشی کی صورت میں مرد کی ذمہ داری

عورت اگر مرد کی قوّامیت تسلیم کرلے اور اطاعت شعاری کی روش اپنائے تو گھر جنت نظیر بن جاتا ہے ۔ مردو عورت دونوں حدود اللہ کا پاس و لحاظ کرتے، ایک دوسرے کے حقوق پہنچانتے اور انھیں ادا کرتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔ ایک دوسرے کی کمزوریوں کو نظر انداز کرتے اور  مل جل کر اپنے بچوں کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن اگر عورت مرد کی قوّامیت تسلیم نہ کرے، اپنے آپ کو اس کے ماتحت نہ سمجھے، اور خود سری و سرتابی کا مظاہرہ کرے تو گھر جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے۔ اس کا سکون غارت ہوجاتا ہے اور بچوں کی صحیح ڈھنگ سے پرورش نہیں ہوپاتی۔ اس لیے قرآن نے اس صورت میں مرد کی ذمہ داری قرار دی ہے کہ وہ ایسی سرکش و نافرمان عورت کی اصلاح و تربیت کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَالّٰتِیْ تَخَافُونَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَیْْھِنَّ سَبِیْلاً ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیّاً کَبِیْراً (النساء ۴: ۳۴) اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو، انھیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں ان سے علیٰحدہ رہو اور مارو۔ پھر اگر وہ تمھاری مطیع ہوجائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو۔ یقین رکھو کہ اُوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے۔

اس آیت میں شوہروں کے ان اختیارات کابیان ہے جو انھیں بیویوں کی تادیب کے لیے دیے گئے ہیں۔۱۸؎  اس سلسلے میں چند نکات پیش نظر رکھنا ضروری ہے:

۱-  آیت کے اس ٹکڑے میں عام عورتوں کا بیان نہیں ہے اور یہ حکم عام حالات میں نہیں دیا گیا ہے، بلکہ ناگزیر علاجی تدبیر کے طور پر مخصوص صورت حال میں ان عورتوں کے سلسلے میں ہے جو ’نشوز‘ کا ارتکاب کریں۔ بیوی کانشوز یہ ہے کہ وہ خود کو شوہرسے بالاتر سمجھے ، اس کی مخالفت کرے اور اس سے نفرت کرے۱۹؎ لیکن اگر وہ اطاعت شعار ہو تو اس پر کسی طرح کی زیادتی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

۲- عورتوں کی جانب سے محض اندیشۂ سرکشی کی صورت میں مذکورہ اصلاحی تدابیر کو بروئے کار لانے کا حکم نہیں دیا گیا ہے، بلکہ اس صورت میں ہے جب واقعتا ان کی طرف سے اس کا اظہار ہو۔ اس کا اشارہ آیت کے آخری ٹکڑے فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ  (پھر اگر وہ تمھاری مطیع ہوجائیں) سے ملتا ہے۔ (ابوحیان، ۳/۳۳۹، ۳۴۲)

۳-  اس آیت میں رہ نمائی کی گئی ہے کہ سرکش عورتوں کی اصلاح کے لیے ان کے شوہر تین تدابیر اختیار کرسکتے ہیں۔ اول: انھیں سمجھائیں بجھائیں، دوم: ان سے خواب گاہوں میں علیٰحدگی اختیار کرلیں، سوم: انھیں ’ضرب‘ کی سزا دیں۔ قرآن کامنشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ اصلاحی تدابیر میں تدریج ملحوظ رکھی جائے۔ ایسا نہ ہو کہ بہ یک وقت تینوں تدابیر پر عمل کرلیا جائے۔۲۰؎

۴-  مارنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے کہ بیویوں کی ضرور پٹائی کی جائے، بلکہ اجازت دی گئی ہے کہ اگر دیگر تدابیر سے کام نہ چلے تو ناگزیر صورت میں یہ تدبیر بھی ممکن ہے۔اس صورت میں حدیث میں غیر معمولی احتیاط برتنے کی تاکید کی گئی ہے۔ آںحضرت ؐکا ارشاد ہے:

۔۔۔ فَاِنْ فَعَلْنَ ذٰلِکَ فَاضْرِبُوْھُنَّ ضَرْباً غَیْرَ مُبَرَّحٍ (مسلم، کتاب الحج، باب حجۃ النبی ؐ، ۱۲۱۸) اگر وہ ایسا کریں تو انھیں ایسی مار مارو کہ اس کا جسم پر کوئی نشان ظاہر نہ ہو۔

’برّح‘ کا معنٰی ہے سختی کرنا، تکلیف پہنچانا۔ ’ضرب مبرّح‘ اس مار کو کہتے ہیں جس میں سخت چوٹ لگے۔ ابوحیان فرماتے ہیں:’’ضرب غیر مبرّح سے مراد وہ مار ہے جس سے نہ کوئی ہڈی ٹوٹے، نہ کوئی عضو تلف ہو اور نہ جسم پر اس کا کوئی نشان باقی رہے‘‘۔ (ابوحیان ، ۳/۲۴۱)

حضرت ابن عباسؓ سے ان کے شاگرد عطاؒ نے ’ضرب غیر مبرّح‘ کا مطلب دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: ’’جیسے مسواک سے مارنا‘‘۔ (طبری، ۸/۳۱۴)

مارنے کا مقصد عورت کو ذلیل و رسوا کرنا، یا اسے جسمانی اذیت پہنچانا نہیں، بلکہ اس کی اصلاح و تادیب ہے۔ اس لیے ناگزیر صورت میں غیر معمولی احتیاط برتنے کی تاکید کی گئی ہے۔

یہ ملحوظ رہے کہ قرآن و حدیث میں ناگزیر صورت میں تادیب کی اجازت کے باوجود شریعت کاعمومی مزاج یہ معلوم ہوتا ہے کہ حتی الامکان اس سے گریز کیا جائے۔ عہد نبوی میں ایک مرتبہ کچھ لوگوں نے اپنی بیویوں کی پٹائی کردی۔ وہ عورتیں ازواج مطہرات کے گھروں میں آکر اپنے شوہروں کی شکایت کرنے لگیں ۔ رسولؐ اللہ کو صورتِ حال کی اطلاع ملی تو آپؐ نے فرمایا:

لَقَدْ طَاَف بِاٰلِ مُحَمَّدٍ نِسَآئٌ کَـثِیْرٌ یَشْکُوْنَ اَزْوَاجَھُنَّ، لَیْسَ اُوْلٰٓئِکَ بِخِیَارِھِمْ ۲۱؎ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کے پاس بہت سی عورتوں نے چکّر لگائے ہیں اور اپنے شوہروں کی شکایت کی ہے۔ یہ لوگ ان میںاچھے آدمی نہیں ہیں۔

جن لوگوں کو قرآن کا یہ حکم عورت کی توہین و تذلیل معلوم ہوتا ہے انھیں عورت کے باغیانہ تیور اور خود سری پر مبنی رویے میں مرد کی تحقیر و تذلیل کا پہلو نظر نہیں آتا۔

۵-  آیت کے آخری ٹکڑے میں صفاتِ الٰہی ’علی‘ اور ’کبیر‘ کا انتخاب بڑا معنیٰ خیز ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ سب سے بلند اور سب سے بڑا ہے۔ عورتوں پر اپنی بالادستی کے زعم میں ان پر کسی طرح کی زیادتی نہ کرو اور یہ نہ بھولو کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تم سے بڑی اور برتر ہے۔ ان پر ظلم و زیادتی کی صورت میں وہ تم سے انتقام لے سکتا ہے۔ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں: ’’اس میں مردوں کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر انھوں نے بلا سبب عورتوں پر زیادتی کی تو اللہ تعالیٰ جو بلند و برتر ہے، ان کا ولی ہے ۔ جو بھی ان پر ظلم و زیادتی کرے گا، اس سے وہ انتقام لے لے گا‘‘۔ ۲۲؎

حاصل بحث: خلاصہ یہ کہ اسلام کے نظامِ خاندان میں مرد اور عورت کو برابر کے حقوق سے بہرہ ور کیا گیا ہے، البتہ انتظامی ضروریات کی بنا پر مرد کو یک گونہ برتری دی گئی ہے۔ اسے خاندان کی سربراہی کی ذمہ داری دے کر اس کے ماتحتوں کو اس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔

جن تہذیبوں اور معاشروں میں خاندانی نظام میں مرد اور عورت کو تمام معاملات میں یکساں حقوق دیے گئے ہیں، حتیٰ کہ قوّامیت کی بنا پر مرد کی یک گونہ برتری کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے، ان میں خاندانی انتشار نمایاں ہے، زوجین کے درمیان تلخیاں، دوریاں اور نفرتیں پائی جاتی ہیں، طلاق و تفریق کی کثرت ہے اور گھروں کے اجڑنے اور بکھرنے کا تناسب بڑھا ہوا ہے۔ عالمی سطح پر ہونے والی جائزہ رپورٹوں کے اعداد و شمار اس کے مظہر ہیں۔

بعض مسلم دانش ور اسلام میں حقوقِ نسواں کی پرزور وکالت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسلمان عورت بھی ان تمام حقوق سے بہرہ ور ہے جو مسلمان مرد کو دیے گئے ہیں، لیکن وہ مساواتِ مرد و زن کا ایسا تصور پیش کرتے ہیں کہ مرد کی قوّامیت عملاً ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام نے مرد اور عورت کے حقوق مساوی رکھے ہیں، لیکن نظامِ خاندان کو چلانے کے لیے اس نے مرد کو ’قوّامیت‘ کی ذمہ داری بھی عطا کی ہے۔ اسے تسلیم کیا جانا چاہیے۔ (مضمون نگار، ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، علی گڑھ کے شعبہ تحقیق و تصنیف سے وابستہ ہیں)

حوالہ جات

۱-            ملاحظہ کیجیے: مولانا سید جلال الدین عمری کی کتابیں: عورت اسلامی معاشرے میں، عورت اور اسلام، اسلام کا عائلی نظام، مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کاجائزہ۔

۲-            مولانا امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن، دہلی، ۱۹۸۹ئ، ۲/۲۹۱، مزید ملاحظہ کیجیے مولانا سید ابوالاعلی مودودی، تفہیم القرآن، ۱/۳۴۹، مولانا عبدالماجد دریابادی، تفسیر ماجدی،لکھنؤ، ۱/۷۳۰

۳-            ابوحیان الاندلسی، البحر المحیط، تحقیق: د۔ عبدالرزاق المہدی، بیروت، ۲۰۰۲ئ، ۳/۲۳۵، مزید ملاحظہ کیجیے  ابوعبداللہ القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۹۸۷ئ، ۵/۱۶۹۔

۴-            ابوجعفر محمد بن جریر الطبری، جامع البیان عن تاویل آی القرآن المعروف بتفسیر الطبری، تحقیق محمود محمد شاکر، احمد محمد شاکر، مصر، ۸/۲۹۰

۵-            ابوالحسن علی بن حبیب الماوردی، النکت والعیون المعروف بتفسیر الماوردی، ۱/۳۸۵، بغوی، ۱/۴۳۲، علاؤ الدین علی بن محمد الخازن، لباب التاویل فی معانی التنزیل المعروف بتفسیر الخازن، مصر، ۱/۴۳۲، جلال الدین السیوطی و جلال الدین المحلی، تفسیر الجلالین ، ص۱۰۶

۶-            ابوالقاسم جار اللہ محمود بن عمر الزمخشری، الکشاف عن حقائق التنزیل وعیون الاقاویل فی وجوہ التاویل، شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی واولادہ مصر، ۱/۵۲۳

۷-            ملاحظہ کیجیے ناصر الدین عبداللہ بن عمر البیضاوی، انوار التنزیل و اسرار التاویل المعروف بتفسیر البیضاوی، دہلی، ۱۲۶۸ھ، ۱/۱۸۲، ابوالسعود محمد بن محمد بن مصطفی العمادی، ارشاد العقل السلیم الیٰ مزایا الکتاب الکریم، بیروت، ۱/۱۷۳، شہاب الدین السید محمود الآلوسی البغدادی، روح المعانی فی تفسیر القرآن والسبع المثانی، مصر، ۵/۲۳

۸-            فخرالدین الرازی، مفاتح الغیب المعروف بالتفسیر الکبیر، تحقیق: عماد زکی البارودی، مصر، ۱۰/۸۰

۹-            عماد الدین اسماعیل بن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، دارالاشاعت دیوبند، ۲۰۰۲ء

۱۰-         بیضاوی، ۱/۲۸۲، بقاعی، ۵/۲۷۰، ابوالسعود، ۱۷۳، آلوسی، ۵/۲۳، محمد رشید رضا، تفسیر المنار، مطبعۃ المنار، مصر، ۵/۶۹، قاضی محمد ثناء اللہ العثمانی پانی پتی، التفسیر المظہری، ندوۃ المصنفین ، دہلی

۱۱-         ملاحظہ کیجیے جصاص ، ۱/۲۲۹، ماوردی، ۱/۳۸۵، ابن العربی، ۱/۱۷۴، بقاعی، ۵/۲۶۹، سیوطی، ص۱۰۶

۱۲-         بغوی، ۱/۴۳۲، زمخشری، ۱/۵۲۳، بیضاوی، ۱/۱۸۲، نسفی، ۳/۱۲۸، خازن، ۱/۴۳۲، آلوسی، ۵/۲۳، پانی پتی، ۲/۲۹۴، تھانوی، ۱/۱۱۵، عثمانی، ۱۰۸، ۲/۲۹۴، سید محمد نعیم الدین مراد آبادی، حاشیہ پر ترجمہ کنزالایمان ، از مولانا احمد رضا خان، مکتبہ جام نور جامع مسجد دہلی، ص۱۳۳

۱۳-         مزید ملاحظہ کیجیے سورۂ طلاق کی آیت نمبر ۷ اور مسلم، کتاب الحج، باب حجۃ النبی ؐ، حدیث نمبر ۱۲۱۸

۱۴-         بخاری، کتاب النکاح، اور دیگرمقامات ، مسلم، کتاب الرضاع، باب الوصیۃ بالنسائ، ۱۴۶۸

۱۵-         جامع الترمذی، کتاب المناقب، باب فضل ازواج النبی، ۳۸۹۵ ورواہ ابن ماجہ فی کتاب النکاح، باب حسن معاشرۃ النساء عن ابن عباس

۱۶-         البقرہ۲: ۱۱۶، ۲۳۸، آل عمران ۳: ۱۷، ۴۳، النحل ۱۶: ۲۰، الاحزاب ۳۳:۳۱، ۳۵، الروم:  ۳۰ ۲۶، الزمر۳۹: ۹، التحریم ۶۶:۱۲

۱۷-         رشید رضا، ۵/۷۱، مزید ملاحظہ کیجیے اسی سیاق میں شیخ رشید رضا کی تشریح ، نیز اصلاحی، ۲/۲۹۲

۱۸-         سید جلال الدین عمری ،مسلمان عورت کے حقوق اوران پر اعتراضات کاجائزہ۔

۱۹-         نشوز المرأۃ ھو بغضہا لزوجھا ورفع نفسھا عن طاعتہ والتکبّر علیہ۔خازن، ۱/۴۳۳۔ ایسی ہی تشریح دیگر مفسرین او رماہرین لغت نے بھی کی ہے۔ ملاحظہ کیجیے: ابوحیان، ۳/۳۴۰، ابن کثیر ، ۱/۶۴۲، قرطبی، ۵/۱۷۰- ۱۷۱، راغب اصفہانی ، ص ۴۹۵، اصلاحی ، ۲/۲۹۲-۲۹۳، رشید رضا، ۵/۷۷، جوہری، ۱/۴۳۸، ابن منظور، ۵/۴۱۸۔

۲۰-         زمخشری، ۱/۵۲۴، نسفی، ۱/۱۲۹، مودودی، ۱/۳۵۰، عثمانی، ص۱۰۹، اصلاحی، ۲/۲۹۳

۲۱-         سنن ابی داؤد، کتاب النکاح ، ۲۱۴۶، سنن ابن ماجہ، ۱۹۸۵، سنن دارمی، ۲۲۱۹

۲۲-         ابن کثیر، ۱/۶۴۳، رازی، ۱۰/۸۳، قرطبی، ۵/۱۷۳، ابوحیان، ۳/۳۴۳، رشید رضا، ۵/۷۷

معا شرتی زندگی کی بنیادی اکائی خا ندان ہے۔ اسلامی معاشرے میں ہر نئے خاندان کی ابتدا ایک مرد اور عورت کے درمیان نکاح کے ذریعے ڈالی جاتی ہے۔ معا شرے کی صالح قدروں کی نشوونما ، استحکام اور بقا، خا ندان کی مضبوطی سے وابستہ ہے۔ ایک صالح خا ند ا ن اس وقت و جو د میں آتا ہے جب صالح مرد اور عورت آپس میں نکاح کے پاکیزہ رشتے سے منسلک ہوجائیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نکاح میری سنت ہے‘‘۔ اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا: ’’میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں، جو میری سنت سے منہ موڑے وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘ (بخاری )۔ گویا ایک مسلم معاشرے میں نکاح بے حد اہمیت کا حا مل ہی نہیں، سنت ِ رسولؐ بھی ہے۔

نکاح مرد و عورت کے د ر میا ن ایک پاکیزہ ، پر خلو ص بندھن کا ا یسا معاہدہ ہے جس میں اللہ نے برکت ، محبت و خوب صورتی پید ا کر دی ہے۔ ’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے  تمھارے لیے تمھاری جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی‘‘(روم ۳۰:۲۱)۔اس مخلص رشتے میں محبت دراصل اللہ کی    بے پایاں رحمت کا حصہ ہے جس کامقصد ایک پر سکون اور صالح معاشرتی زندگی کی تعمیر ہے۔    اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو یہ دعا سکھائی ہے: رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰـتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۴) ’’اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولادوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنادے‘‘۔

عا م طور پر شادی کی تیار یا ں تو بہت زوروشور سے ہوتی ہیں لیکن شادی کے بعد کی زندگی کی کوئی منصوبہ بندی جس کی بنیاد خالصتاً رضاے الٰہی، یعنی دینی بنیادوں پر ہو نظر انداز ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس سلسلے میں دین دا رگھرانوں کا بھی غیر اسلامی معاملات سے صرف ِ نظر کرنا گویا دین داری کو پھر اسی دائرے میں مقید کر دینا ہے جس کا آغا ز کلمہ کے زبانی ا قرا ر سے شروع ہو کر عبادات کے مظاہر پرختم ہوجاتا ہے۔ ا گر اس میں اللہ کی حدود اوراسلامی تعلیما ت کا خیال رکھا جائے تو خاندان کی ا بتدا اسلامی ا صولوں پر ہوگی۔ اسلام ایک مکمل ضا بطۂ حیات ہے۔ وہ زندگی کے ایک ایسے فیصلے کو  جس پر انسان کی آدھی سے زیادہ زندگی کے اعمال کا ا نحصار ہے، نظرانداز نہیں کرسکتا۔ اسلام میں اس سلسلے میں نہایت وا ضح رہنما ئی ملتی ہے جس پر عمل پیر ا ہوا جائے تو وہ مسائل جن کا فی زمانہ بہت سے لوگوں کو سامنا کرنا پڑ ر ہا ہے ، ان کی شدت میں کمی وا قع ہوجائے۔

شریکِ حیات کا انتخاب

یہ شادی کی تیاری کا پہلا مرحلہ ہے جو ہماری معاشرت میں خالصتاً زنانہ کام سمجھا جاتا ہے۔ بظاہر عام روز مرہ زندگی کا ایک ایسا کام جس کو سال ہا سال سے تقریباً ہر فرد نے اپنی اپنی اولادوں کے لیے سرا نجام دیا ہوگا، ہمارے دین کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں احادیث سے واضح ہدایات ملتی ہیں۔ ہرعمل جو روزمرہ زندگی میں معمول کا حصہ سمجھا جاتاہے ،ایسے مباحات میں شمار ہوتا ہے جن میںدینی لحاظ سے بھرپور منصوبہ بندی کر کے آغاز کیا جائے تو آخرت میں بے حد اجر و ثواب کا باعث ہوسکتا ہے۔ یہاں ذرا ٹھیر کر خود سے سوال کریں کہ آپ انتخابِ زوج کے لیے کیا ترجیحات رکھتے ہیں؟ پھر اس کی درجہ بہ درجہ فہرست مرتب کر لیں تو ہمیں خود اندازہ ہوجائے گا کہ دین ہمارے معاملات میںکس درجہ اور کس حد تک شامل ہے اور رسوم و رواج، جاہلانہ روایات و اقدار جس میں قو م ، قبیلہ ، ذات وغیرہ شامل ہیں ا ن کی کیا اہمیت ہے۔

نیت

حدیث ہے کہ ہر عمل کا دارومدا ر نیت پر ہے۔ مناسب زوج کا انتخاب کرتے وقت اس حدیث کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ آیا میری بیٹی ، بیٹا یا فرد کی اپنی شادی صرف اس و جہ سے ضروری ہے کہ یہ ایک معا شرتی یا طبیعی ضرورت ہے یا اس لیے کہ ایک پاکیزہ رشتے سے ایک صالح خاندان وجود میں آئے گا؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ اخلاص نیت سے کیا گیا ہر کام عبادت میں شمار ہوتا ہے۔ جس طرح ہر عبادت کی نیت ہوتی ہے جو اس عبادت کے لیے یکسو کر دیتی ہے، اسی طرح زندگی کے دیگر معاملات میں بھی نیت کو خالص اللہ کی ر ضا کے لیے متعین کرنا قرب الٰہی کا ذریعہ ہے اور ساتھ ساتھ شیطا نی افکا ر و اعمال سے نجات کا بھی۔ اگر نکاح کی تیاریو ں کے اس مرحلے کو خالص کرلیا جائے تواللہ تعالیٰ کی رحمت شامل حال ر ہے گی۔ اس لیے ضرور ی ہے کہ ا نسا ن اپنی نیتوں کا جائزہ لیتا رہے، اپنی رغبتوں کو پرکھتا رہے کہ نکاح کے لیے میری نیت کیا ہے اور میری ترجیحات میں دین کتنا شامل ہے۔

پسند اور ناپسند کا دینی معیار

دوسرا مرحلہ ایک ایسے فرد کی تلا ش ہے جو نکاح کے لیے ا ن تمام شرائط کو پوراکرتاہو جس کا تقاضا دین اسلام ہم سے کرتا ہے۔ اس ضمن میں ہر فرد کو خوب سوچ بچار کرنے کا حق حاصل ہے لیکن ترجیحات کا تعین ہماری دینی سمجھ بوجھ اور تقویٰ پر منحصر ہے۔ ایک دین دار فرد کے لیے یقینا زندگی کا یہ مرحلہ بہت نازک ہوتا ہے۔ جب زندگی کا ایک حصہ اللہ کے ا حکام کے مطابق گزارنے کی سعی میں صرف ہوچکا ہو تو وہ فرد اپنی باقی ماندہ زندگی کو ایسے فرد کے ساتھ گزارنے کاسوچ بھی نہیں سکتا جو ملحدانہ سوچ کا حامل ہو اور اس کا دین زبانی کلا می اسلامی دعووں تک محدود ہو۔

قرآن صالح مرد کے لیے صالح عورت اور صالح عورت کے لیے صالح مرد کا انتخاب کرتا ہے۔ ’’خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے۔ پاکیزہ عورتیں، پاکیزہ مردو ںکے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ‘‘(النور ۲۴:۲۶)۔ اسی طرح پسند ناپسند کامعیار تقویٰ پر مقرر کرتے ہوئے قرآن میں تاکید آتی ہے کہ ’’تم مشرک عورتوں سے ہرگز نکاح نہ کرنا جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن لونڈی، مشرک شریف زادی سے بہتر ہے ، اگر چہ وہ تمھیں بہت پسند ہو۔ اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا ، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن غلام، مشرک شریف سے بہتر ہے ا گرچہ وہ تمھیں بہت پسند ہو۔ یہ لوگ تمھیں آگ کی طرف بلا تے ہیں اور اللہ ا پنے اذن سے تم کو جنت اور مغفرت کی طرف بلا تا ہے۔ ‘‘(البقرہ ۲:۲۲۱)

انتخا ب کرنے والے فرد کو انتخاب کرتے وقت یہ ضرور سوچناچاہیے کہ پسند ناپسند کامعیار دینی تعلیمات پر مبنی ہے یا اپنی ذاتی رغبتوں اورزمانے کی روایات کے مطابق۔ حدیث نبویؐ اس سلسلے میں ہماری جو رہنمائی کرتی ہے وہ بہت و اضح ہے۔ حضرت ا نس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے کسی عورت سے محض اس کی عزت کی و جہ سے شادی کی، اللہ تعالیٰ اس کو خوب ذلیل کرے گا، جس نے کسی عورت سے اس کے ما ل کے سبب شادی کی تو   اللہ تعالیٰ اسے محتاج بنا د ے گا، اور جس نے کسی عورت سے اس مقصد کے لیے شادی کی کہ اس طرح اس کی نگاہ جھکی رہے اور اس کی شرم گا ہ محفوظ رہے تو اللہ تعالیٰ اس کو عورت کے ذریعے اور عورت کو اس شخص کے ذریعے خیر و برکت سے نواز د ے گا‘‘۔ ( الطبرانی الاوسط)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روا یت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت سے چار بنیادوں پر نکاح کیا جاتا ہے: اس کے مال کی خاطر ، خاندان کی و جہ سے ،اس کے حُسن کی و جہ سے ، اس کے دین کی خاطر۔ تمھارے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں،تم دین دا ر عورت کو نکاح میں لائو۔(بخاری، مسلم )

اسلام نکاح کا پیغام دینے والے مرد و عو رت کے لواحقین کے سامنے جو معیار پیش کرتا ہے وہ ان احادیث سے واضح ہے۔ ایک مسلمان کی زندگی کا کل اثاثہ دین ہے۔ سارے معاملات کی بنیاد بھی دین ہے کیونکہ اس کے علاوہ سارے معیار ہماری ذاتی ، نفسی اور رسوم و روایات پر مبنی اور باطل ہوتے ہیں۔ ان کے اثرات و نتائج اور نقصانات کے ہم خود ذمہ دار ہوتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا ہے۔ رسولؐ اللہ نے نکاح کرنے والے ہر فرد کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ اس کامعیار پا کیزہ طبیعت ، دین داری اور بہترین ا خلا ق پرہونا ضرور ی ہے نہ کہ ظاہری چمک دمک اور ما ل و دولت پر۔ ان معاملات کو دینی بنیادوں پر اسی وقت استوار کیا جاسکتا ہے جب فرد اپنی سوچ کو دین کے تقاضوں کے مطابق کر دے۔ وہ فرد جو حسن ِ صورت اور دنیاوی مرتبہ رکھتا ہو اس کا حصول بہت پُرکشش ہوتا ہے۔ اس معیار پر بھی اسلام نے کوئی قد غن نہیں لگا ئی کیونکہ اس رشتے کی بنیاد دلی رغبت پر بھی ہوتی ہے لیکن صرف اس کو معیار بنا کر دین کو فہرست کی انتہا پر رکھنا یا اسے غیرضروری حیثیت دے دینا درست نہیں ہے۔

عزت کا قرآنی معیار

عزت کا قرآنی معیار ایک ایسا آفاقی معیار ہے جو ہر اس نظریے کی نفی کرتا ہے جس سے  انسا نیت متاثر ہوتی ہے۔ اس معیار کو قرآن اس طرح پیش کرتا ہے: ’’ا ے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد و عورت سے پیدا کیا اور تم کو گروہ اور قبا ئل بنا دیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو ، درحقیقت تم میں سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘(الحجرات)۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روا یت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ تمھاری شکل و صورت اور جسموںکو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمھارے دلوں اور تمھارے عملوں کو دیکھتا ہے ــ‘‘ (صحیح مسلم)۔ اسی طرح خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا کہ ’’تم میں سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔

یہ دراصل وہ اسلامی معیار عزت ہے جس میں قا بل عزت صرف وہی ہے جس کے پاس تقویٰ ہو۔اگر رشتوں کی بنیاد بھی اسی آفاقی معیار عزت پر رکھی جائے تو مرو جہ روایتی طریقوں کی پیروی جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے، خود ہی ختم ہوجائے گی۔ زندگی کے ہر شعبے کو کسی نہ کسی قانون کا پابند کیا جاسکتا ہے اور لوگوں کو اس کی پاس داری پر مجبو ر بھی کیا جاسکتا ہے لیکن گھریلو معاملات کے دائرے میں معاملات درست کرنے کے لیے تقویٰ ناگزیر ہے، ورنہ فرد پر کوئی قانون لاگو نہیں کیا جاسکتا۔ یہی تقویٰ آیندہ زندگی کے معاملات کو درست رکھنے اور رضا ے الٰہی کے حصول کے لیے معاون ہوگا۔ ورنہ شیطان کے چنگل میں پھنسے لوگ اللہ کے خوف سے آزاد ہوکر معاملات کرتے ہیں اور زندگی طنز، طعنے، بدگمانی ، حسد جلن جیسے قبیح افعال سے بھر جاتی ہے۔

مستقبل کے والدین کا انتخاب

مومن کوتاہ بین نہیں ہوتا۔ اس کی بصیرت کا تقاضا ہے کہ وہ ا پنے ہر عمل کامستقبل آخرت میںدیکھے۔ انتخا ب کرتے وقت اس بات کا بھی ادراک ہونا ضرور ی ہے کہ یہ انتخاب محض زوجین کا ہی نہیں بلکہ مستقبل کے والدین کا انتخا ب بھی ہے۔ ان کو آگے چل کر امت مسلمہ کے لیے ا یسے افراد کی تربیت کرنے کا فرض ادا کرنا ہے جنھیں خلیفۃ اللہ فی الارض کامنصب سنبھالنا ہے۔ وہ نکاح جس میں دینی اقدار کا خیال رکھا جاتا ہے تربیت اولاد کے سلسلے میں بھی ٹھوس کردار ادا کرتا ہے اور اسی کے ذ ریعے ایک صالح نسل وجو د میں آتی ہے۔ لہٰذا انتخاب زوجین کے وقت ایک ا یسا خا ندان ضرور چشمِ تصور میں رکھنا چاہیے جو صالحیت کے قرآنی معیارپر پورا اترتا ہو اور جس میں زوجین بحیثیت ما ں باپ کے ا پنے اپنے فرا ئض و حقوق ادا کر کے نسلِ نو کی اسلامی اصولوں پر تربیت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ جہا ں ما ں کی گود اولاد کے لیے پہلا مدرسہ ہے وہیں حدیث کے مطابق ایک باپ کااپنے بچے کے لیے سب سے بہترین عطیہ اچھی تعلیم و تربیت ہے۔ یوں تربیت کی   ذمہ داری ما ں باپ دونوں کے کاندھوںپر آجاتی ہے۔ تربیت وہی فرد بحسن و خوبی کر سکتا ہے جو اپنے فرض و ذمہ داری کا بخوبی ادراک رکھتا ہو۔

قرآن میںہے کہ ’’اے مومنو! ا پنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو آگ سے بچائو‘‘ (التحریم ۶۶:۶)۔ قرآن نجات کا یہ اصول پیش کرتا ہے کہ صرف اپنی ہی فکر نہ کر و بلکہ ا پنے  اہل خا نہ کو بھی آتش دوزخ سے نجات دلا ناسرپرست ہی کا فریضہ ہے۔ اس فرض کی ادایگی اسی وقت ممکن ہے جب والدین کے اپنے دل میں حب الٰہی ، خوف خدا اور ایمان کی کیفیات ہوں جو ان کے معاملات سے بھی جھلکتی ہوں۔ آج کی نوجوان نسل کے کاندھوں پر کل کے مستقبل کے معماروں کی تربیت اور نشوونما کی ذمہ داری ہے۔ اس میں کی جانی والی کوتاہی ہماری نسلوں کے ایمان و عمل کو تباہ کرسکتی ہے۔

جنت کا حصول

جنت کے حصول کا ایک اہم ذریعہ نیک اور صالح زوجین کے انتخاب سے بھی مشروط ہے۔ قرآن میں مختلف مقامات پر بیویوں اور اولاد کے لیے جنت کا وعدہ ہے:’’ آخرت کا گھر انھی لوگوں کے لیے ہے ، یعنی ا یسے باغ جو اِن کی ا بدی قیا م گاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں اور ان کے آبا و ا جداد اور ا ن کی بیویوں اور ا ن کی اولاد میں سے جو جو صالح ہیں وہ بھی اُن کے ساتھ وہاں جائیں گے‘‘(الرعد۱۳:۲۳-۲۴)۔ ان آیا ت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہا ں کامیا بی کا تصور جنت میں داخل ہونے اور آتش جہنم سے نجات سے منسلک ہے۔ اس لیے نیک زوج کی اہمیت اور بھی بڑ ھ جاتی ہے کہ وہ نہ صرف خود کو بلکہ ا پنے ا ہل و عیال کو بھی آتش دوزخ سے بچانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔

ایک اور مقام پر ہے: ’’جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ا ن کی اولاد بھی کسی درجۂ ایمان میں ان کے نقش قدم پر چلی ہے اُن کی اُس اولاد کو بھی ہم (جنت میں ) ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان کے عمل میں کوئی گھا ٹا ان کو نہ دیں گے‘‘ (الطور ۵۲:۲۱)۔ پس انتخا ب کرتے وقت مستقبل کا وہ نقشہ ضرور سامنے رہنا چاہیے جس میں آخرت کا خسارہ نہ ہو۔ مستقبل تو لازمی سوچا جاتا ہے لیکن وہ اسی روزمرہ زندگی کے حوالے سے یا اپنے ساتھ تعلقات کی بنیاد پر تعمیر کیا گیا ہوتا ہے۔ اس مستقبل میں اگر آخرت کا حصہ بھی شامل کر لیں تو ان شا ء اللہ اصل نا کامی اور خسارے سے بچ رہیں گے۔

مستحکم گہرانا

مشاورت ، اخوت و محبت اور نظم و ضبط کسی بھی گھرانے کو مستحکم کرنے کاسبب ہیں۔ ا یسے گھرا نے کی تشکیل وہی افراد کر سکتے ہیں جن کے دل میں حب ا لٰہی ہو اور ا ن کی محبت و نفرت ، کسی سے ملنا اور کٹنا صرف اور صرف اللہ رب العالمین کی خوشنودی کے لیے ہو۔ جن گھرانوں میں ا ن اوصاف کی قدر کی جاتی ہے وہا ں خود بہ خود تعلقات مستحکم اور پایدار ہوجاتے ہیں اور فرد کو ا پنے حقوق کے بجاے ا پنے فرائض کی ادایگی کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ عفو و درگزر کا رویہ ایک مومن ہی کی شان ہے۔ نیک و صالح زوجین ا پنے تعلقات کی بنیاد اللہ رب العزت کی خوشنودی کے حصول پر رکھتے ہیں، لہٰذا وہ اپنے ا خلا ق کی ہر ممکن حفاظت کرتے ہیں۔ بڑوں کی عزت ، چھوٹوں سے  شفقت و محبت ، راے کی قربانی ، کسی کی خاطر اپنے جذبات و احساسات کو قربان کر دینا جیسے اعلیٰ اوصاف گھر ہی سے پروان چڑھتے ہیں۔ جن افراد کے دل میں ایمان کا بیج خوب اچھی طرح جڑ پکڑ چکا ہو تو اس کی بہاریں ان کے عمل سے ظاہر ہوتی ہیں۔ ایسے افراد ہمارے آس پاس ، ارد گرد ہی موجود ہوتے ہیں لیکن ہماری ترجیحات کی بنا پر وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ یہ ہر فرد کا اپناانتخا ب ہے کہ وہ زوجین کے انتخا ب کے وقت مستقبل کی ا ن چیزوں کو مدنظر رکھتا ہے یاوقتی   دل کشی اورآسودگی کے معیارات میں کھو کرتھوڑے فائدے کو اپنا مطمح نظر جان لیتا ہے جس میں ممکن ہے کہ دنیا کی کامیابی ہو لیکن بہت ممکن ہے کہ اس عارضی کامیابی میں جنت کی را ہ کہیں کھو جائے اور کُلی خسارہ اس طرح ہماری جھولی میں آ گرے کہ ہمیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔

دینی معیار پر سمجہوتا

مغر بی تہذ یب کے مفاسدہماری معا شرت و معاملات میں اس حد تک سر ایت کر گئے ہیں کہ جب دین کی بنیادوں پر معاملات کی بات ہو تواس پر عمل کرنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور نظر آتا ہے۔ خاص طور پر اس مرحلے میں فرد خود اس بات کا اندازہ نہیں کر پا تا کہ وہ کس و جہ سے کون سا کام کر ر ہا ہے تا قتیکہ وہ ا پنے ہر ہر عمل کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کر دے، اور ا پنے ہرعمل کا جواز ا پنے دل سے پوچھے کہ کیا اس میں میری ذاتی رغبت ہے یا یہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کیا گیا ہے۔ معا شرے کا چلن اس طرح ہوگیا ہے کہ ان مراحل میںاس عارضی زندگی کے لوازمات اور ضروریات پر توخوب بات کی جاتی ہے اورکمی بیشی کی صورت میں شاذ و نادر ہی سمجھوتا کیا جاتا ہے، تاہم دینی معیار پر خوب خوب سمجھوتا کیا جاتا ہے۔ جب مرد کے لیے    معیارِ انتخا ب ما لی حیثیت، گھر والوں کی تعدادوغیرہ جیسے امور پر ہی ختم ہوجائے اور عورت کے لیے خوب صورتی، جان پہچان، مال و دولت وغیرہ پر، تو دینی معیار بہت ہلکے پھلکے انداز میںلیا جاتا ہے۔ فریقین کے بارے میں ان باتوں کا جاننا کہ نماز کی پابندی کا کیا حال ہے ، قرآن سے تعلق کی کیا کیفیت ہے ،قرآن سمجھنے ، سمجھا نے میں کتنا وقت لگا نا معمول ہے، سنت رسول ؐ سے محبت و اُلفت کتنی ہے ، زندگی کے معمول میں اقا مت دین کی جد و جہد کاکتنا حصہ ہے، دنیا میں ا پنے اصل مقصد سے کتنی آگاہی ہے اور معاملات میں اسلام کتنا ہے،جیسے اہم سوالات جو کہ درحقیقت سیرت و کردارسازی کی بنیاد ہیں اور آگے چل کر پُرسکون زندگی کا باعث بنتے ہیں، جنھیں اصل میں جاننے کی جستجو ہونی چاہیے ا نتہا ئی غیر اہم سمجھے جاتے ہیں، جب کہ اس سے کہیں ز یادہ محنت ان باتوں کی تحقیق میںکی جاتی ہے جو اس چند روزہ زندگی کا کھیل تماشا ہیں۔ سمجھوتا ہوتا ہے تو دینی معاملات میں۔ زندگی کے ہر معاملے میں ہم خوب سے خوب تر کی تلا ش میں سرگرداں رہتے ہیں بس ایک دینی معاملات ہی ا یسے ہوتے ہیں جن میں سمجھوتا کرنے کامشورہ د ے کر اپنے عقل مند اور حقیقت پسند ہونے کا ثبوت دیا جاتا ہے۔

یہ دراصل اس بات کا نتیجہ ہے کہ صالحیت کا قرآنی معیار رائج الوقت نہیں ہے، لہٰذا اس کی خواہش و جستجو کرنا ایک لاحاصل کام سمجھا جاتا ہے۔ صالحیت ایک طرزِ زندگی کا نا م ہے جو کسی محدود دائرے میں مقید نہیں رہتی اور مصلحتوں کے ا نبا ر میں نہیں دبتی۔ اس کا اظہار ہربات اور ہر معاملے سے ہوتا ہے۔ عقل مند تو اللہ کی نظر میں وہ ہے جو اپنی آخرت کی فکر کرتا ہے نہ کہ وہ جو دنیا کی زند گی کو اپنا مطمح نظر مان کر ساری تگ و دو اسی کے لیے کرتا ہے جو کہ غارت ہوجانے والی ہے۔ کیا    اللہ رب العزت بھی تقویٰ کا وہی معیار قبول کر یں گے جو ہمارے پیش نظر ہوتا ہے؟ اگر کسی کو اس بات کا پختہ یقین ہے تو پھر تو دینی معیار پر سمجھوتے کی گنجایش نکل بھی آتی ہے تاہم دوسر ی صورت میں چند روزہ زندگی کے لیے آخرت تباہ کرنا کوئی دانش مندی کی بات نہیں ہے۔ یہی معیار ہمیں جنت کے حصول کے لیے چاہیے تو ذراسوچ لیں کہ کیا جنت کاسودا ا تناسستا ہے کہ وہ یوں ہی    مل جائے گی، جب کہ ہماری زندگیاں مادہ پرستی کا بھرپور شاہکار ہوں۔ اپنی اولاد ، زوج ، رشتہ داریوں اور تعلقات کے لیے اپنی پسند کا اسلام قبول کرتے ہوں گو کہ ہمارا دعویٰ ہو کہ ہم مسلمان ہیں،   جب کہ ایمان ہمارے حلق سے نیچے نہ اُترا ہو۔ سیرتِ رسولؐ اور سیرتِ صحابہ ؓ سے ہمیں اُس معیار تقویٰ کی جھلک نظر آتی ہے جو مسلمان مرد و عورت کو زوجین کے انتخاب کے وقت پیش نظر رکھنا چاہیے۔ حضرت عمر فا رو قؓ کا صرف اس بات سے متاثر ہو کر ایک دودھ بیچنے والی کی لڑکی کو اپنی بہو بنالینا کہ اس نے اللہ سے خوف کی بناپر دھوکا و ملاوٹ سے انکار کردیا، اس بات کی روشن دلیل ہے کہ ایک مسلمان کامطلو ب و مقصو د تقویٰ ہوتا ہے۔ تاریخ گو ا ہ ہے کہ ا نھی کی نسلوں سے ایک با ر پھر عمرؓثانی کی مثال دنیا کو ملتی ہے۔

نکاح کو بوجہل بنانے والے عوامل

ذیل میں ا ن عو ا مل کی نشان دہی کی جا رہی ہے جو نکاح کو مشکل اور حرام کو آسان بنا رہے ہیں اور جن کی بنیادیں اسلام میں نہیں ہیںلا محالہ یہ عوامل فساد فی الارض کاسبب بھی ہیں۔

دینی قدروں کو نظر انداز کرنا

حضو ر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تمھارے پاس ایسا شخص ( نکاح کا پیغام ) لے کر آئے جس کی دین داری اور اخلا ق سے تم خوش ہو توپھر اس کے ساتھ نکاح کر لو ورنہ زمین میں   فتنہ و فساد بر پا ہوجائے گا۔ (ترمذی)

جہا ں دینی قدروں پر سمجھوتا کیا جاتا ہے وہا ں دین دارو ں کو اس و جہ سے مسترد بھی کر دیا جاتا ہے کہ وہ بہت سی دنیا و ی لوازما ت میں پیچھے ہوتے ہیں یا ہم پلہ نہیں ہوتے۔ اسلامی معاشرے کا اس سے بڑا ا لمیہ اور کیا ہوگا کہ ایک پاک باز لڑکی کو ایک بے دین ، ملحدانہ نظریات و خیالات رکھنے والے مرد کے عقد میں دے دیا جائے جس کی نظر میں اعلیٰ اخلاقی قدروں اور اوصاف کی کوئی وقعت ہی نہ ہو ، اور پھر لڑکی کو فرعون کی بیوی حضرت آسیہ کی مثالیں د ے کر سمجھوتا کرنے کو کہا جائے، یا شوہر کے رنگ میں رنگ کر اپنی آخرت تباہ کرنے کے لیے آمادہ کیا جائے۔ انتخاب کے عمل میں ترجیح، تقویٰ کو ہونا چاہیے۔ خدا نخواستہ کبھی معاملہ اس کے برعکس ہوجائے تو فرد آسیہ کا کردار بھی ضرور ادا کرے لیکن شادی ہی یہی سوچ کر کی جائے تو یہ اللہ سے مایوسی کا رویہ ہے۔ ایسے میں ا پنے اُخروی مستقبل کا ضرور سوچ لینا چاہیے۔ اسی طرح مرد کے لیے بے دین بیوی کا انتخاب مرد کی دین داری کو متاثر کرتا ہے۔ جنت کے حصول کے خواہش مند فرد کا انتخاب حدیث نبویؐ کے مطابق ہوتا ہے۔ حدیث ہے کہ دنیا متاع ہے اور اس کی بہترین متاع نیک بیوی ہے (مسلم)۔ اسی طرح ایک اور حدیث ہے کہ نکاح آدمی کا نصف دین ہے۔ پس آدمی کو ا پنے باقی نصف دین کی فکر کرنی چاہیے۔

ان ہدایات کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ کیفیت یہ ہے کہ نکاح جیسے حلال ، پاکیزہ اور آسان عمل کو مشکل ترین بنادیا گیا اور حرام کے تمام ذرائع آزادانہ چاروں طرف میسر ہیں۔ سرپرست ، والدین ا پنے بچوں کی طرف سے متفکر رہتے ہیںلیکن معاشرے کی اس صورت حال میں کس کا کتنا حصہ ہے اس پر بھی غو ر کرنا ضروری ہے۔ جب ہم اپنی اولاد کے لیے حلال ذرائع خود مشکل بناتے ہیں، ان کو اپنی خود ساختہ رسوم و روایات کا پا بند کرتے ہیں تو حرام ذریعہ اپنی جگہ خود بنا لیتا ہے اور اسی کے راستے ہموار ہوتے ہیں۔ آج نکاح مشکل ہے اور زنا آسان۔ اس سے بڑا فتنہ اور فساد فی الارض اور کیا ہوگا کہ وہ گنا ہ جس سے صالحیت کی عما رت زمین بوس ہوجائے آسان ہو اور جو بات معاشرے کی پاکیزگی کی ضا من ہے وہ ہماری پسند ناپسند، خاندانی  اَنا و وقار کے بوجھ تلے دب کر سسک رہی ہو۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے اور سوچنے کامقا م ہے کہ کہیں ہمارے کسی عمل سے حرام کا ر ستہ آسان تو نہیں ہو ر ہا ہے ؟

رسوم و رواج کا خود اختیاری ظلم

رسم و رواج ہماری زندگی کا ایسا لازمہ بن گئے ہیں کہ اس کو اختیار نہ کرنے والا فرد دنیا میں معتوب و مغضوب ٹھیرتا ہے۔ دلوں کے نہا ںخا نو ں میں چھپے یہ بت ہیں کہ ٹوٹتے ہی نہیں۔ کہیں یہ معروف طریقہ اختیار کرنے کے پردے میں سامنے آتے ہیں ، کہیں اپنی حیثیت کا اظہار کے نام پر اور کہیں کچھ اور بہانوں سے۔ رسوم و رواج کے یہی طوق تھے جن سے ا نبیاے کرام نے ہر دور میںلوگوں کو نجات دلائی۔ اسلام میں تصور جہیز، بری ، بارا ت ، لڑکی کی طرف سے دعوت طعام جیسے تصورات کا کوئی و جود نہیں اور نہ یہ کوئی تسلیم کرنے والی چیزیں ہیں۔ آج ان کواسلامی غلاف چڑھا چڑھا کرقا بل قبول بنانے کی کوششوں نے دین کا حلیہ بگاڑ دیا ہے اور نہ کرنے والوں پر مختلف پھبتیاں کسنا عام ہوگیا ہے۔ شاید یہ وہ دور ہے جب دین اجنبی ہوجائے گا اور اس پر عمل پیرا ہونا فرد کو اجنبیت کے دائر ے میںلے آئے گا۔

زما نے کاساتھ دے کر منکر کو معروف میں بدلنے میں بہت تھوڑا فائدہ ہے، جب کہ اللہ کے بتائے ہوئے معروف کو اختیار کرنا اور زمانے بھر میں اجنبی بن جانا ، مشکل سہی لیکن فائدے کاسودا اور پُرسکون زندگی کی بنیاد ہے۔ یہ اس لحاظ سے بھی مفید ہے کہ جب ا نفرادی طور پر اپنی خوشی کے لیے بہ ظا ہر بے ضرر نظر آنے والی چیز بھی معاشرے میں فتنے کاسبب بنے اور دوسرے افراد کے لیے ایک ایسی مثال قا ئم کرنے کا باعث ہو جس سے دین کی کسی بات پر عمل مشکل ہوجائے تو فرد کو اس چیز سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں اتباع سنتؐ کی اصل روح برقرار رہے، اورمسلمانوں کی طرف سے یہ پیغام جائے کہ اسلام جائز اور حلال رشتوں کو آسان بنا کر لوگوں کو آسانیاں فراہم کرتا ہے اور حرام کا رستہ روکتا ہے۔

خود ساختہ نظریات

انتخا ب زوجین میںسرپرست ، یا والدین کا سارا زور ا ن خود ساختہ نظریات پر ہوتا ہے جو کسی خاندان، روایات ، یار ہن سہن کی بنا پر ذہنوں میں راسخ ہو چکے ہوتے ہیں اور ا ن کی کوئی دلیل حدیث و سنت سے بھی نہیں ملتی ہے۔ یہاں ہم ان خود ساختہ نظریات کا جائزہ لیتے ہیں اور احادیث کی روشنی میں اس عمل کی دلیل دیکھتے ہیں:

۱-  نکاح کے لیے خاتون لازماً مرد سے کم عمر ہو۔

نبی کریمؐ کے اسوہ کو دیکھیں تو آپؐ نے اپنا پہلا نکاح ۲۵ سالہ نوجوان ہوتے ہوئے بھی ایک ۴۰ سا لہ بیوہ سے کیا، لہٰذا لڑکی کا لازماً کم عمر ہونا ضروری نہیں۔ اس قسم کی پابندیوں کا مقصد نکاح کو مشکل بنانا ہے۔ بعض اوقا ت دو چار سا ل ہی کا فرق ایسا اہم ہو جاتا ہے کہ ساری کی ساری دین داری اس کی نذر ہوجاتی ہے اور فرد محض اس بنا پر نامعقول قرار پاتا ہے کہ وہ مرد سے دو ، چار سال کے فرق سے بڑا ہے۔ اسلام میں نکاح کے لیے خاتون کا لازماً مرد سے کم عمر ہونا کوئی شرط نہیں ہے۔

۲- غیر شادی شدہ مرد کی شادی لازماً ایک غیر شادی شدہ خاتون ہی سے ہونی چاہیے۔

سیرت سے آنحضرتؐ کے پہلے نکاح کی مثال تو ملتی ہی ہے، تاہم اس سلسلے میں    حدیث سے بھی مثال ملتی ہے کہ ’’حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ میرے والد جنگ اُحد میں شہید ہوئے اور سات یا نو بیٹیاں چھوڑ گئے۔ پھر میں نے ایک عورت سے نکاح کیا۔ آنحضرتؐ نے پوچھا جابر ؓ تو نے نکاح کیا ؟ میں نے عرض کیا جی ہا ں ! آنحضرتؐ نے فرمایا باکرہ سے یا مثیبہ(شادی شدہ ) سے ؟ میں نے عرض کیا مثیبہ سے۔ آپؐ نے فرمایا اور! کنواری سے کیوں نہ کیا ؟ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میرے باپ شہید ہوئے اور سات یا نو بیٹیا ں ( میری بہنیں ) چھوڑ گئے، میں نے    یہ پسند نہ کیا کہ انھی کی سی ایک اور ( کم عمر) بیا ہ لائوں، اس لیے میں نے ایک جہاندیدہ عورت سے نکاح کیا جو ان کی نگر ا نی رکھے۔ (بخاری )

پس حالات و و اقعا ت کے تنا ظر میں ا گر کوئی فرد یہ فیصلہ کرتا ہے تو خلا ف اسلام کام کا پہلو نہیں نکلتا، یعنی معاملہ ترغیب کا ہے، لازماً شرط ِنکاح بنا لینے کا نہیں۔ بہترہے کہ خوش گوار زندگی کے لیے ہم مزاج اور ہم عمرفرد کا ا نتخاب کیا جائے تاہم ا گر کبھی حالا ت کے پیش نظر یا ضرورتاً یا ان وجوہات کے علا وہ ا گر کوئی فرد رغبتاً بھی کسی بیوہ یا مطلقہ کو اپنے نکاح میں لا نا چا ہ ر ہا ہو، جب کہ وہ خود ایک غیر شادی شدہ مرد ہے، تو یہ شرعاً کوئی ممنوع فعل نہیں ہے۔ نبی اکرم ؐ اور حضرت خدیجہ ؓ کی مثال پھر ہماری یہاں رہنمائی کرتی ہے۔ ہمیں ہمہ وقت یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہماری نظر میں قا بل اعترا ض حرام امور ہونے چاہییں نہ کہ جائز اور مستحب امور جن کاسنت میں بھی پایا جانا ثابت ہو۔

۳- خاتون یا خاتون کے سرپرست کی طرف سے پیغام نکاح قا بلِ شرم فعل ہے۔

ہمارے ہاں خاتون یا خاتون کے سرپرست کی جانب سے پیغامِ نکاح بھیجنا معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے۔ حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور ا ن سے نکاح کی خوا ہش کا اظہار کیا۔ یہ سن کر حضرت انس ؓ کی بیٹی بولی (کمبخت) کیا بے شرم عورت تھی، ارے تھو، ارے تھو۔ حضرت ا نس ؓ نے کہا: وہ عورت تجھ سے بہتر تھی۔ اس نے آنحضرتؐ کی محبت میں خود اپنے آپ کو پیش کیا (بخاری)۔ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو براہِ راست پیغامِ نکاح دینا حیا کے منافی نہیں ہے بلکہ شرف حاصل کرنے کا جذبہ ہے۔ امام بخاری نے اس حدیث سے استنباط کیا ہے کہ ایک عورت کسی صالح شخص کو اس کی نیکی کی وجہ سے پیغامِ نکاح دے سکتی ہے۔ اسلام کا عمومی اصول نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بتلایا ہے کہ لا نکاح الا بولی ’’نکاح ولی کے ذریعے ہوتا ہے‘‘۔ اس طرح کے نادر واقعات سے ایسی صورت میں جب ولی نہ ہو یا عورت خود جرأت کر کے پیغامِ نکاح دے سکتی ہو، کا جواز نکلتا ہے، جب کہ بنیاد دین دار شوہر کی طلب ہو۔

حضرت خدیجہ ؓ بھی ایک بیوہ خاتون تھیں انھو ں نے بھی آپؐ کو پیغام ِ نکاح بھجو ایا تھا۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ بیا ن کرتے ہیں کہ جب ام المومنین حفصہ ؓ بیوہ ہوگئیں (ان کے خاوند خنیسؓ بن خدا فہ سہمی جو آنحضرتؐ کے ا صحا ب میں سے تھے مدینہ میں گزر گئے، جنگ اُحد میں زخمی ہوئے تھے) تو حضرت عمر ؓ نے حضرت عثمانؓ اور حضرت ابوبکرؓ سے حضرت حفصہؓ سے نکاح کے لیے کہا مگر انھوں نے خاموشی اختیار کرلی۔ اس کے بعد رسول اکرمؐ نے حضرت حفصہؓ سے نکاح کا پیغام بھیجا (بخاری )۔ یہ ایک طویل واقعے کا اقتباس ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خاتون یا خاتون کے سرپرست کا اسلامی حدود کے اندر رہتے ہوئے پیغام نکاح میں پہل کرنا کوئی قا بل اعتراض اور قابلِ شرم بات نہیں، جس طرح ہمار ے معاشرے میں اس کو سمجھا جانے لگا ہے۔ خیال رہے کہ اسلامی حدود کی پامالی اور بے حیائی کا کوئی پہلو اس میں شامل نہ ہو۔

تقریبِ نکاح

اب ہم مختصراً دیکھتے ہیں کہ سیرتؐ سے ہمیں تقریب نکاح کا کیا نمونہ ملتا ہے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے عبد الرحمن بن عوفؓ کے (بدن یا کپڑے ) پر زرد دھبہ دیکھا تو پوچھا: کہو کیا حال ہے (یہ زردی کیسی ہے؟)۔ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ ! میں نے گٹھلی برابر سونا مہر مقرر کرکے ایک عورت سے نکاح کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: بارک اللّٰہ لک، ولیمہ تو کرو خواہ ایک بکری ہی کاسہی (بخاری)۔ لڑکی کے گھر والوں کی طرف سے دعوت طعام کا بوجھ ہٹا کر ایک کھانا دعوت ولیمہ کاسنت رکھا گیا۔ حدیث میں اس ضمن میںجو ہدایات و رہنمائی ملتی ہیں وہ بھی ہم سب کے سامنے ہیں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’وہ دعوت ولیمہ کیا ہی بری دعوت ہے جس میں صا حب حیثیت لوگوں کو بلایا جاتا ہے اور مسکینوں سے صرف نظر کیا جاتاہے۔(مسلم)

ایک اور جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بلا شبہہ برکت کے اعتبار سے سب بڑا نکاح وہ ہے جس میں کم سے کم اخراجات ہوں (شعب ا لایمان للبیھقی)

یہ تمام ا حادیث ہمارے معاشرے کے موجود ہ رجحانات اور طریقہ کار کی نفی کرتی ہیں جو ہم نے نکاح جیسی سادہ ، آسان اور پاکیزہ سنت کے ضمن میں اختیار کیا ہے۔ نہ مہمانوں کی تعداد کا مسئلہ اور نہ اس شان و شوکت کا اظہار جو اسراف اور نمودو نما یش میں شمار ہوتی ہیں کہ وقت کے نبیؐ کے بھی ان دو اصحاب ؓ ( حضرت جابر ؓ اور حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ) کے نکاح میں شرکت ممکن نہ ہوئی تو نہ کوئی ناراضی پیدا ہوئی نہ کوئی گلہ شکوہ۔ اتبا ع سنت کے ضمن میں اگر ہم نے انتخابِ ازواج اور نکاح کی تقریب ہی کو سنت کے مطابق کر لیں تو ہمارے حب رسولؐ کا دعویٰ کچھ ثابت ہوجائے۔

ایمان دراصل ہے ہی یہ کہ انسان ان تمام رسوم و رواج اور طریقوں سے جو اسلام کے بالمقابل آکراسلامی طرزِ حیات کو مسخ کرتے ہوں، دستبرداری کا اعلا ن کر کے کلمہ کو عملاً اپنی    زندگی میں نافذ کرے۔ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ درآمد شدہ تمام رسومات اور نظریات کو پوری ہمت و جرأت کے ساتھ پائوں تلے روند دیا جائے کیونکہ ان چیزوں نے نہ صرف دین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے بلکہ معاشرے میں مفسدات و غلط رجحانات کا باعث یہی چیزیں ہیں۔ بے شک یہ تمام کام جاہلیت کی نشانیوں میں سے ہیں اور اسلام جاہلیت سے نجات دلانے آیا تھا۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے نظریات و افکار کو بھی مسلمان کرنے کی توفیق دے اور معاشرے میں اسلام کی اصل تصویر کو پیش کرنے والا بنا ئے جس میں معروف پر عمل آسان اور منکرپر مشکل ہوتا ہے۔ (آمین)

 

عام مسلمانوں میں کثرت سے اور بعض خواص میں بھی مالی معاملات کے بارے میں جو بڑی کوتاہیاں اور غلطیاں ہو رہی ہیں، ان میں سے ایک کوتاہی میراث کا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و ارشادات کے مطابق تقسیم نہ کرنا، بلکہ ایک وارث یا چند وارثوں کا اسے ہڑپ کر جانا اور دوسرے وارثوں کو محروم کرنا ہے۔ قرآنِ مجید میں اسے اللہ تعالیٰ اور رسولؐ اللہ کی نافرمانی اور کافروں کا عمل اور کردار بتایا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا o وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا o (الفجر ۸۹: ۱۹-۲۰) اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو اور مال کی محبت میں پوری طرح گرفتار ہو۔

عرب جاہلیت کے دور میں عورتوں اور بچوں کو میراث کے مال سے محروم رکھا جاتا تھا، جو زیادہ طاقت ور اور بااثر ہوتا، وہ بلاتامل ساری میراث سمیٹ لیتا تھا، اور ان سب لوگوں کا حصہ بھی مار کھاتا تھا جو اپنا حصہ حاصل کرنے کا بل بوتا نہ رکھتے تھے۔ میراث اور ورثے کی تقسیم کے بارے میں دنیا کی مختلف قوموں کے نظریات، خیالات اور طور طریقے کئی طرح کے رہے ہیں۔ ان طریقوں میں سے کسی میں بھی اعتدال اور انصاف نہیں تھا۔ بعض قومیں میراث میں عورتوں اور بچوں کو بالکل حصہ نہیں دیتی تھیں۔ عرب جاہلیت کی قومیں، برعظیم پاک و ہند کی قومیں اور دیگر علاقوں کے لوگ عورتوں کو حصہ بالکل نہیں دیتے، پھر بیٹوں میں بھی انصاف و برابری نہیں تھی۔ کسی بیٹے کو تھوڑا تو کسی کو زیادہ دیا جاتا تھا۔

بعض اقوام نے میراث دینی شروع کی تو پرانے جاہلیت کے طریقے کو چھوڑ کر نئی جاہلیت اپنائی اور عورتوں کو مردوں کے برابر لاکھڑا کیا۔ یہ دوسری انتہا اور زیادتی ہے جس میں بھی    انصاف کے تقاضے مدنظر نہیں رکھے گئے۔ میراث کی تقسیم میں افراط و تفریط دنیا کے بہت بڑے حصے میں پایا جاتا تھا اور آج بھی پایا جاتا ہے اور مسلم اُمت بھی اس کبیرہ گناہ میں گرفتار ہے۔ (تلخیص تفہیم القرآن، مولانا صدر الدین اصلاحی، ص ۱۴۱)

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے تقسیمِ میراث کے احکام بالکل صاف واضح، متعین اور دو اور دو چار کی طرح مقرر کردیے، اس میں کوئی الجھائو اور شبہہ تک نہیں چھوڑا۔ اس لیے کہ مال وہ پسندیدہ اور دل لبھانے والی چیز ہے کہ انسان اسے چھوڑنا نہیں چاہتا۔ معاشرتی دبائو کی بنا پر کوئی زبان نہ کھولے تو اور بات ہے، لیکن دل میں خواہش، تمنا اور اپنا حق حاصل کرنے کی تڑپ ضرور موجود رہے گی۔ میراث کی تقسیم، وارثوں کے حصے، حصوں کی حکمت، میراث سے قرض کی ادایگی، وصیت پوری کرنے اور اس حکم پر عمل کرنے والوں کے لیے جنت کی خوش خبری اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے دوزخ کے دردناک عذاب کی وعید سورئہ نساء میں بیان کی گئی ہے۔ (النساء ۴:۱۱)

  •  میراث کی حکمت و احکام:تقسیمِ میراث میں حصہ پانے والوں کے حصے مقرر کرتے ہوئے کچھ باتیں کلام کے درمیان میں بیان کی گئی ہیں جن سے اس مسئلے کی پوشیدہ حکمتیں، اہمیت، فرضیت اور اس پر عمل کرنے والوں کے لیے خوش خبری اور اسے چھوڑ دینے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے عذاب بیان کیا گیا ہے۔ (النساء ۴:۱۱-۱۲)

۱- میراث کی تقسیم میں جو حصے مقرر کیے گئے ہیں، ان کی مقدار کی مکمل حکمت و مصلحت اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اس لیے کہ ہماری عقل و شعور کو اس کی گہرائی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ اس لیے فرمایا: ’’تم نہیں جانتے کہ تمھارے ماں باپ اور تمھاری اولاد میں سے کون نفع کے لحاظ سے تمھارے قریب تر ہیں۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں اور اللہ یقینا سب حقیقتوں سے واقف اور تمھاری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔ (النساء ۴:۱۱)

۲- تقسیمِ میراث کی آیات میں وصیت اور ادایگیِ قرض کے الفاظ متعدد مرتبہ آئے ہیں۔ لہٰذا تقسیمِ میراث میں سب سے پہلے میت کے ذمے جو قرض ہے اسے ادا کرنا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقروض (قرض دار) کا جنازہ تک نہیں پڑھایا۔ اس لیے نفلی خیرات و صدقات کرنے سے پہلے تدفین کے اخراجات اور اس کے بعد قرض کی ادایگی لازمی ہے۔ بیوی کا مہر بھی قرض میں شامل ہے اور شوہر کے ذمے لازم ہے۔

۳- میت کی ملکیت میں سے ایک تہائی کی وصیت پوری کی جانی چاہیے۔ جس محسن کی میراث لی جارہی ہے، اس کا اتنا تو حق ہونا چاہیے کہ اس کا کہا مانتے ہوئے ایک تہائی میراث میں سے اس کی وصیت پوری کی جائے۔ اگر وصیت، ایک تہائی میراث سے زیادہ ہے تو زیادہ وصیت پوری کرنا لازم نہیں ہے۔ اگر سب بالغ ورثا راضی ہوں تو پورا کر دیں، ورنہ زیادہ کو چھوڑ دیں۔

۴- جب تک میراث تقسیم نہیں ہوتی تو تمام وارثوں (بشرطیکہ بالغ ہوں) سے اجازت لیے بغیر خیرات و صدقات نہ کیے جائیں۔ اگر وارث نابالغ اور کم سن ہوں تو کسی صورت میں خیرات کرنا نہیں چاہیے اور وارث یتیم ہونے کی صورت میں گناہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے، لہٰذا ایسی خیرات کھلانے والے، کھانے والے گویا دوزخ کے ایندھن سے شکم پُری کر رہے ہیں۔

۵- میراث کے احکام کے آخر میں دو آیتیں (۱۳-۱۴) بہت ہی اہم ہیں۔ ان سے  تقسیمِ میراث کی اہمیت، فرضیت اور اس پر ثواب و عذاب کا اندازہ ہوتا ہے۔ آیت ۱۴ کے بارے میں مفسر قرآن مولانا ابوالاعلیٰ مودودی تحریر کرتے ہیں: ’’یہ ایک بڑی خوفناک آیت ہے جس میں ان لوگوں کو ہمیشگی کے عذاب کی دھمکی دی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے قانونِ وراثت کو تبدیل کریں یا، ان دوسری قانونی حدوں کو توڑیں جو خدا نے اپنی کتاب میں واضح طور پر مقرر کر دی ہیں۔ لیکن سخت افسوس ہے کہ اس قدر سخت وعید کے ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں نے بالکل یہودیوں کی سی جسارت کے ساتھ خدا کے قانون کو بدلا اور اس کی حدوں کو توڑا۔ اس کے قانونِ وراثت کے معاملے میں جو نافرمانیاں کی گئیں ہیں وہ اللہ کے خلاف کھلی بغاوت کی حد تک پہنچتی ہیں۔ کہیں عورتوں کو میراث سے مستقل طور پر محروم کیا گیا۔ کہیں صرف بڑے بیٹے کو میراث کا مستحق ٹھیرایا گیا، کہیں سرے سے تقسیمِ میراث ہی کے طریقے کو چھوڑ کر ’مشترکہ خاندانی جایداد‘ کا طریقہ اختیار کیا گیا اور کہیں عورتوں اور مردوں کا حصہ برابر کر دیا گیا‘‘۔ (تلخیص تفہیم القرآن، ص ۱۴۱)

قیامت کے دن ہر مسلمان سے پانچ اہم سوال کیے جائیں گے اور ان کے جواب طلب کیے جائیں گے۔ جب بندہ ان کے جواب دے دے گا تب قدم آگے بڑھائے گا۔ ان سوالوں میں سے دو سوال، یعنی ایک سو نمبروں میں سے ۴۰ نمبر یا ۴۰فی صد سوال مال کے بارے میں ہوں گے۔

حضرت ابوبرزہ اسلمیؓ نے بیان کیا ہے کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن   اللہ تعالیٰ کی عدالت سے آدمی نہیں ہٹ سکتا جب تک اس سے پانچ باتوں کے بارے میں حساب نہیں لیا جائے گا۔ اس سے پوچھا جائے گا کہ عمر کن مشاغل میں گزاری؟ دین کا علم حاصل کیا تو اس پر کہاں تک عمل کیا؟ مال کہاں سے کمایا؟ اور کہاں خرچ کیا؟ اور جسم کو کس کام میں گھُلایا؟ (ترمذی، کتاب الزہد، ص ۵۵۰)۔ ان پانچ سوالوں میں سے دو سوال صرف مال کے بارے میں ہیں، یعنی دیگر مالی معاملات کے علاوہ میراث کے مال کے بارے میں ضرور سوال ہوگا کہ کیسے حاصل کیا؟ کیا دوسرے وارثوں کا حق مار کر اپنا حصہ لیا اور دوسروں کو ان کے حصے سے محروم کر دیا؟

میراث کو قرآنِ مجید کے احکام کے مطابق تقسیم کرنا وارثوں پر فرضِ عین ہے اور دوسرے رشتہ داروں اور برادری اور خاندان کے بزرگوں پر فرضِ کفایہ ہے۔ اگر کچھ لوگ میراث کو اللہ اور رسولؐ اللہ کے احکام کے مطابق تقسیم کرنے کی تلقین کریں اور ترغیب دیں تو ان پر سے فرض کفایہ  اُتر جائے گا، اور وارثوں پر فرضِ عین ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ خوش دلی اور رضا و خوشی سے میراث کی شریعت کے مطابق تقسیم کرنے پر متفق ہوجائیں تو سب پر سے فرض اُتر جائے گا۔

آج مسلم معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں اور برعظیم پاک و ہند کے مختلف علاقوں کو دیکھتے ہیں تواندازہ ہوتا ہے کہ بحیثیت مجموعی بہت کم لوگ میراث شریعت کے مطابق تقسیم کرتے ہیں اور   بڑی تعداد اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور رسولؐ اللہ کی سنت سے منہ موڑے ہوئے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی سطح پر ایک سروے کا اہتمام کیا جائے کہ کتنے فی صد لوگ میراث شرعی طریقے پر تقسیم کرتے ہیں تاکہ حقیقی صورت حال سامنے آسکے اور لوگوں کو توجہ دلائی جاسکے کہ بحیثیت مجموعی ہم  اللہ تعالیٰ کے واضح حکم سے کتنی غفلت برت رہے ہیں۔بھارت میں بھی بہت تھوڑے مسلمان ایسے ہیں جو تقسیمِ میراث کے شرعی قانون پر عمل پیرا ہیں۔

  •  تقسیمِ میراث کے فوائد:شریعتِ مطہرہ کے مطابق تقسیمِ میراث کی برکتیں اور رحمتیں اور اجروثواب بہت زیادہ ہے۔ اس سے اجتماعی و انفرادی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

۱- اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور ایسے بندے سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔

۲- میراث کے شرعی حکم پر عمل کرنے والا جنت کا حق دار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اسے بہت بڑی کامیابی فرمایا ہے۔

۳- قیامت کے دن رسولؐ اللہ کی شفاعت نصیب ہوگی اور اس دن کے عذاب سے نجات حاصل ہوجائے گی۔

۴- ایسے شخص کا مال حلال ہونے کی وجہ سے مالی عبادتیں قبول ہوتی ہیں۔ یہ آخرت کے دن بڑا سرمایہ ہوگا۔

۵- جن عزیز و اقارب اور عورتوں کو میراث میں سے حصہ ملتا ہے، وہ ان کے لیے دل سے دعائیں کرتے ہیں اور محروموں کو جب حق ملتا ہے تووہ ایسے شخص کے ہمدرد بن جاتے ہیں۔

۶- تقسیمِ میراث سے دولت تقسیم ہوتی ہے جو اسلام کا ایک مقصد ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:  کَیْ لاَ یَکُوْنَ دُوْلَۃًم بَیْنَ الْاَغْنِیَآئِ مِنْکُمْط (الحشر ۵۹:۷) ’’تاکہ وہ تمھارے  مال داروں ہی کے درمیان گشت نہ کرتا رہے‘‘۔

۷- تقسیمِ میراث کے حکم پر عمل کرنے سے دوسروں کو ترغیب ہوتی ہے اور پہل کرنے والے کو اجر ملتا ہے اور اس کے لیے صدقہ جاریہ بن جاتا ہے۔

۸- میراث کی حق دار عورتوں کو اپنے حق کے لیے مطالبہ کرنا چاہیے۔ میراث میں عورتوں، بیٹیوں، بہنوں، ماں اور بیویوں کا حق ہے، لہٰذا انھیں اپنے حق کا نہ صرف مطالبہ کرنا چاہیے، بلکہ  آگے بڑھ کر تقاضا کرکے اپنا حق لینا چاہیے اور قرآن مجید کے اس حکم (فرضِ عین) پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ عورتوں کو جاہلیت کی رسم اور معاشرتی دبائو کی وجہ سے اپنا حصہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ خاندان کے دوسرے افراد کو بھی ان کا حصہ دلوانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

  •  میراث تقسیم نہ کرنے کے نقصانات: میراث تقسیم نہ کرنے اور مستحقین کو   محروم رکھنے کے کئی خطرناک پہلو ہیں جن میں میراث کھانے والے مبتلا ہوکر گنہگار ہوتے ہیں۔    یہ درج ذیل ہیں:

۱- میراث کو قرآن و سنت کے مطابق تقسیم نہ کرنا اور دیگر وارثوں کا حق مارنا کفار، یہود، نصاریٰ، ہندوئوں اور غیرمسلم اقوام کا طریقہ ہے۔

۲- میراث کا شرعی طریقے پر تقسیم نہ کرنا اللہ تعالیٰ اور رسولؐ اللہ کی نافرمانی ہے۔       یہ صریح فسق ہے، لہٰذا ایسا شخص فاسق ہے اور گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے۔ خاص طور پر برسہا برس اس پر اصرار کرنا اور توبہ نہ کرنا تو اور بڑا گناہ اور اللہ تعالیٰ سے بغاوت کے مترادف ہے۔

۳- میراث کے حق داروں کا مال کھا جانا ظلم ہے اور یہ شخص ظالم ہے۔ لیکن اگر وارث اپنے قبضے اور تحویل میں لے لیں اور پھر کوئی طاقت ور وارث چھین لے تو یہ غصب ہوگا۔ اس کا گناہ ظلم سے بھی زیادہ ہے۔

۴- میراث پر قبضہ کرنے والے کے ذمے میراث کا مال قرض ہوگا، اور قرض بھی  واجب الادا ہے۔ اگر کوئی دنیا میں ادا نہیں کرے گا تو آخرت میں لازماً دینا ہی ہوگا۔

۵- ایسا مال جس میں میراث کا مال شامل ہو، اس سے خیرات و صدقہ اور انفاق کرنا، حج و عمرہ کرنا اگرچہ فتوے کی رُو سے جائز ہے اور اس سے حج کا فریضہ ادا ہوجائے گا لیکن ثواب حاصل نہیں ہوگا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ پاک و طیب مال قبول کرتا ہے۔

۶- جو میراث کا مال کھا جاتا ہے اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔

۷- میراث شریعت کے مطابق تقسیم نہ کرنے والا دوزخ میں داخل ہوگا۔

۸- جو اشخاص میراث کا مال کھا جاتے ہیں حق دار وارث ان کو بددعائیں دیتے ہیں۔

۹- میراث مستحقین کو نہ دینے والا حقوق العباد تلف کرنے کا مجرم ہے۔

۱۰- شریعت کے مطابق مال (ورثہ) تقسیم کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ہے، لہٰذا جو حکومت اس طرف توجہ نہیں دیتی، وہ اپنے فرائض میں کوتاہی کرتی ہے۔

 

جب کبھی کوئی آدمی شخصی یا گھریلو الجھنوں اور سماجی ذمہ داریوں سے دو چار ہوتا ہے، یا اپنے حسب ِمنشا عہدہ ومنصب کے حصول میں ناکام رہتا ہے، تو وقتی طور پر اسے اِس کا رنج بہت ہوتا ہے۔ اسی کرب میں کچھ لوگ خود کشی بھی کرلیتے ہیں، تاکہ ان کا واسطہ آیندہ مزید ناکامیوں اور نامرادیوں سے نہ پڑے۔اب یہ رجحان اتنا عام ہوتا جارہا ہے کہ پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں آئے دن خودکشی کے واقعات رونما ہورہے ہیں ،جن کی خبروں سے ہر روز اخباروں کے صفحات بھرے ہوتے ہیں۔حالاں کہ اس نامناسب اقدام کو کسی بھی سماج اورمعاشرے میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔ یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ ملکی قانون میں یہ اقدام بذات خود کوئی برا نہیں ہے اور نہ قابل مواخذہ ہے، البتہ اقدام خودکشی کو ضرور جرم قرارد یاگیا ہے۔ گویا کہ کوئی شخص خودکشی کا اقدام کرے اور کسی وجہ سے وہ اس میں ناکام ہوجائے تو ایسی صورت میں اسے سزادی جائے گی۔اس کے مقابلے میں اسلام کی تعلیم اس کے بالکل برعکس ہے اور وہ اس عمل کی کسی بھی صورت میں پذیرائی نہیں کرتا ۔

مصائب ومشکلات او ر ناکامی ونامرادی وقتی چیزیں ہیں۔ یہ کبھی جلد رفع ہوجاتی ہیں اور کبھی وقت لگتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی ان کا مقابلہ نہ کرے۔ اللہ نے انسان کو دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے اور اپنی عبادت کے لیے پیدا کیاہے، تو پھر کیوں نہ اس کے حکم کی تعمیل کی جائے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو کفرانِ نعمت اور بزدلی ہے جو مومن کی شان کے خلاف ہے۔

کون انسان کب تک زندہ رہے گا اور کب اس کی موت واقع ہوگی، یہ اللہ ہی جانتا ہے اور زندگی اور موت دینے کا حق بھی اللہ ہی کو ہے۔ انسان کے بس میں اگر یہ چیز ہوتی تو دنیا کا نظام درہم برہم ہوکر رہ جاتا۔ انسان کا دنیا میں زندہ رہنا بھی تقویت اور ترقیِ درجات کا باعث ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کسی بھی آدمی کو موت کی تمنا نہیں کرنی چاہیے، اس لیے کہ اگر وہ نیک ہے تو امید ہے کہ اس سے اس کی نیکی میں اضافہ ہوگا اور اگر برا ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس سے تائب ہوجائے‘‘۔۱؎

قرآن وحدیث میں متعدد مقامات میں وارد ہو اہے کہ اہل ایمان کو موت کی دعا نہیں کرنی چاہیے، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مصائب ومشکلات اور بیماری وغیرہ سے دوچار ہونے کے بعد انسان کو خودکشی کی اجازت دے دے۔ اگر کوئی شخص خودکشی کرتا ہے تو وہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے اور اس کی سزا بڑی سخت ہوگی۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی نفس کو قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے‘‘۔۲؎

انسان کتنا ہی متقی اور پرہیزگار ہو او ر کتنی ہی نیکیاں اس نے کمائی ہوں اور بھلائی کے کام کیے ہوں، اگر وہ دنیاوی پریشانیوں اور ناکامیوں سے دوچار ہوکر یہ اقدام کرتا ہے تووہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہوگا۔ موت کا وقت متعین ہے اور جس نے انسان کو پیدا کیاہے وہی اس کا اختیار رکھتا ہے کہ کب تک اسے زندہ رہنا ہے اور رہنا چاہیے۔ ارشاد ربانی ہے:

فَاِذَا جَائَ اَجَلُھُمْ لاَ یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃٌ وَّلاَ یَسْتَقْدِمُوْنَ (النحل ۱۶:۶۱) جب موت کا وقت آجاتا ہے تو ایک ساعت بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔

خودکشی کا اقدام مشکلات سے فرار کا راستہ ہے۔ یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ ہر وقت اور ہرمنزل پر آدمی کا واسطہ نئے نئے مسائل سے پڑتا ہے، وہی شخص اس میں کامیاب ہے جو ہر طرح کی پریشانیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور زندگی کی آخری منزل تک پہنچ جائے۔ جو شخص شدائد ومشکلات میں صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے اور جلد بازی و بے صبری میں متاعِ حیات ہی کو ختم کردے،    وہ موت کے بعد والی زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں درہم برہم کردیتا ہے۔ اس دوسری زندگی میں بھی وہی شخص کامران ہوگا اور اس کا لطف اٹھائے گا جس نے اس دنیا میں نازک ترین لمحات میں بھی خدا کا بندہ ہونے کا ثبوت دیا اور زندگی کی آخری سانس تک وہ اس پر قائم رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس دنیا کو آنے والی دوسری دنیا کا ضمیمہ قرار دیا ہے۔ یہاں جو عمل اچھا یا برا کیاجائے گا اس کا بدلہ اسے دوسری زندگی میں مل کر رہے گا۔ خودکشی بھی ایک غلط اور ناپسندیدہ عمل ہے جس سے آدمی کی آخرت خراب ہوتی ہے۔

روایت میں آتا ہے کہ ایک شخص نے رسولؐ اللہ کے ساتھ کسی غزوہ میں بڑی شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ کیا اور ہر محاذ پر دشمنوں کا مقابلہ کرتارہا۔ اس کی اس بہادری کو دیکھ کر ہر طرف سے تحسین وتعریف ہونے لگی۔ بالآخر وہ لڑتے لڑتے شدید زخمی ہوگیا اور زخم کی تکلیف برداشت نہ کرسکا، تو اس نے اپنی ہی تلوار کی نوک اپنے سینے میں پیوست کرلی جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ اس سے وہ جہنمی ٹھیرا۔

آپؐ نے فرمایا: لوگوں کی نظر میں ایک آدمی (ساری عمر) بہشت والوں کے سے کام کرتا رہتا ہے، حالاں کہ وہ دوزخی ہوتا، اور ایک آدمی (عمر بھر) دوزخ والوں کے سے کام کرتا ہے ، حالاں کہ وہ جنتی ہوتا ہے‘‘۔۳؎

اسی طرح حضرت جندبؓ بن عبد اللہ بجلی روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’تم میں سے پہلے جو قومیں گزرچکی ہیں، ان میں کے ایک شخص کا واقعہ ہے کہ اسے زخم لگا، وہ اس کی تکلیف برداشت نہ کرسکا اور چاقو سے اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا۔ اس سے اس قدر خون بہا کہ اس کا انتقال ہوگیا۔ اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے جلدی کی، قبل اس کے کہ میں اس کی روح قبض کرتا، اس نے خود ہی اپنے آپ کو ختم کردیا۔ لہٰذا میں نے اس کے لیے جنت حرام کردی‘‘۔۴؎

ایک دوسری حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا:’’جو شخص اپنے آپ کو کسی لوہے کے ہتھیار سے قتل کرلے تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا،وہ اس کو اپنے پیٹ میں بھونکتا رہے گا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔اور جو شخص زہر پی کر اپنی جان لے تو وہ چوسا کرے گا اسی زہر کو۔ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا___ اور جو شخص اپنے آپ کو پہاڑ سے گراکر مارڈالے تو وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں گراکرے گا ۔ سدا اس کا    یہ حال رہے گا ‘‘۔۵؎

خودکشی کرنے والے کے ساتھ نہ صرف اللہ تعالیٰ کا معاملہ درد ناک ہوگا، بلکہ دنیا میں بھی ایسے لوگوں کی کوئی وقعت نہیں ہوتی اور اس کے برے نتائج سے اس کے گھر والے اور عزیز و اقارب دوچار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے رشتہ داروں سے معاشرے کے دوسرے لوگ تعلق نہیں رکھتے۔ رشتہ داری کرنے میں ان سے خائف ہوتے ہیں اور ان کے گھر والوں کے ساتھ طعن وتشنیع کا معاملہ کرتے ہیں۔ وہ سماج ا ورمعاشرے کی ہمدردی سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔

خودکشی کرنے والا تو چلاجاتا ہے، مگر اس کے اس غلط عمل سے اس کے احباب کو کتنا نقصان پہنچتا ہے، اس کا اندازہ اگر اسے ہوجائے تو کوئی شخص اس فعل حرام کا مرتکب نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اللہ کے رسولؐ کو ایک مسلمان کے خودکشی کرنے کی خبر ملی تو آپ برہم ہوگئے اور فرمایا کہ میں اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھوں گا۔

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’ایک شخص بیمار ہوا ،پھر اس کی موت کی خبر مشہور ہوئی۔ اس کا ہمسایہ رسولؐ اللہ کے پاس آیا،عرض کیا :یارسولؐ اللہ! فلاں شخص مرگیا۔ آپؐ نے فرمایا:تجھے کیسے معلوم ہوا؟کہا میں خود اس کودیکھ کر آیا ہوں۔آپؐ نے فرمایا:وہ مرا نہیں ہے۔پھر وہ لوٹ گیا، تھوڑی دیر بعد وہ پھر آیا اور عرض کیا :یا رسولؐ اللہ: وہ تو مرگیا۔رسولؐ اللہ نے فرمایا :وہ مرا نہیں ہے۔پھر وہ لوٹ گیا،پھر خبر مشہور ہوئی کہ وہ مرگیا۔ اس کی بیوی (مریض کی بیوی) نے اس آدمی سے (یعنی ہمسایے سے) کہا : جاؤ اور اللہ کے رسولؐ اللہ کو خبر کردو۔ تب پھر وہ شخص اس مریض کے پاس گیا اور دیکھا کہ اس نے تیرکی نوک سے اپنے گلے کو کاٹ لیا ہے۔ پھر وہ رسولؐ اللہ کے پاس آیا اور عرض کیا:یا رسولؐ اللہ! وہ مرگیا ۔آپؐ نے فرمایا: تجھے کیسے معلوم ہوا؟وہ بولا :میں خود اس کو دیکھ کر آیا ہوں،اس نے اپنا گلا تیر سے کاٹ لیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: تونے دیکھا؟ اُس نے کہا: ہاں۔ آپؐ نے فرمایا: پھر تو میں اس کی نمازجنازہ نہیں پڑھوں گا‘‘۔۶؎

اسلام نے کسی بھی حال میں خودکشی کی اجازت نہیں دی ہے۔ اندازہ لگائیے جس نے انسان کو پیدا کیا، ماں کے شکم سے لے کر زندگی کے آخری لمحے تک اس کی حفاظت ونگرانی فرمائی اور سکون وراحت کی نعمت سے سرفراز کیا، وہی اپنے بندوں کو مصائب ومشکلات میں مبتلا کرتا ہے۔ اس انسان کو جب خوشی ملتی ہے تو وہ عیش کرتا ہے اور جب پریشانی آتی ہے تو وہ اس سے فرار کی راہ اختیار کرتا ہے اور اپنے اوپر موت کو طاری کرتا ہے، یہ کیسی بوالعجبی ہے۔ کچھ لوگ خودکشی کے حق میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ انسان اپنی جان کا مالک ہے اور اسے اختیار ہے کہ وہ اسے ختم کردے یاباقی رکھے۔ طرفہ تماشایہ کہ عام حالات میں تو اس عمل کو وہ پسند نہیں کرتے مگر بیماری اور تکلیف کی حالت میں اس عمل کو بروے کارلانے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے، اور کہتے ہیں کہ ایسا شخص زندگی کو اس لیے ختم کررہا ہے کہ وہ تکلیف کا باعث بن گئی ہے اور اس کی وجہ سے وہ سخت اذیت محسوس کررہا ہے۔ جب وہ معاشرے کے حقوق ادا کرنے کی حالت میں نہیں ہے تو اس سے گریز کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی یا نہیں؟ اس کے متعلق قرآن وحدیث میں کوئی واضح صراحت نہیں ملتی۔اسی وجہ سے اس مسئلے میں فقہاے کرام اور علمائے امت کا اختلاف ملتا ہے۔بعض کہتے ہیں کہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور بعض کے نزدیک ادا نہیں کی جائے گی، جب کہ درست یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص کی نماز پڑھی جانی چاہیے۔البتہ مسلمانوں کے ذی وجاہت اور سربرآوردہ لوگ چاہیں تو اس میں شریک نہ ہوں۔اہل سنت کا اس پر اجماع ہے کہ مومن گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے کافر نہیں ہوتا۔۷؎جو شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا اس کے لیے دعاے مغفرت کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔نماز جنازہ بھی دعاے مغفرت کی ایک شکل ہے۔ قرآن مجید میں صرف مشرکین کے لیے استغفار کی ممانعت ہے یا پھر عہد نبویؐ میں جس شخص کا نفاق بالکل کھلا ہواتھااور جس کا نبیؐکو علم دیا گیا تھا، صرف ایسے منافقین کے لیے دعاو استغفار کرنے اور نماز جنازہ پڑھنے سے آپ ؐکو روکا گیا تھا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِسْتَغْفِرْ لَھُمْ اَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ ط اِن تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَن یَّغْفِرَ اللّہُ لَھُمْ ط ذَلِکَ بِاَنَّھُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُولِہِ ط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِیْ الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ o (التوبہ ۹:۸۰) اے نبیؐ! تم خواہ ایسے لوگوں کے لیے معافی کی درخواست کرویا نہ کرو ،اگر تم ۷۰ مرتبہ بھی انھیں معاف کر دینے کی درخواست کرو گے تو اللہ انھیں ہرگز معاف نہ کرے گا ۔اس لیے کہ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور اللہ فاسق لوگوں کو راہ نجات نہیں دکھاتا۔

جیسا کہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے کسی گنہ گار یا خطا کا ر کا جنازہ آپؐ نے خود نہیں پڑھایا ۔یہ محض زجرو توبیخ کے طور پر تھا اور اس کی نوعیت بھی بعض اوقات عارضی تھی۔یہ مقصود نہیں تھا کہ اس خطا کے مرتکب کا جنازہ کوئی دوسر ا شخص بھی نہ پڑھے۔بلکہ بعض حالات میں آپؐ  نے صحابہ کرام کو اس کا جنازہ پڑھنے کی ہدایت فرمائی تھی۔اس کی ایک نمایاں مثال مقروض کا جنازہ ہے۔جب کوئی صحابیؓ فوت ہوتے تھے تو آپؐ دریافت فرماتے کہ ان پر قرض تو نہیں ہے؟ اگر ہوتا تو آپؐ جنازہ پڑھانے سے اجتناب کرتے تھے مگر دوسرے صحابہؓ کو پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔ بعد میں ایسا بھی ہوا کہ کوئی ادایگیِ قرض کا ذمہ لے لیتا تھا یا بیت المال سے اس کا انتظام ہوجاتا تھا تو حضوؐر جنازہ پڑھادیتے تھے۔

اسی طرح کا معاملہ خودکشی کرنے والے کا بھی ہے۔کو ئی صحیح حدیث ایسی نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہو کہ نبیؐ نے خود کشی کرنے والے کی نمازجنازہ پڑھانے کی ممانعت فرمائی ہو اور ایسے شخص کو جنازہ پڑھائے بغیر دفن کردیا گیا ہو۔جس جرم کے مرتکب کا جنازہ پڑھانے کی اللہ کے رسولؐ نے اجازت مرحمت فرمادی ہے اور صحابہؓ کرام کی جماعت نے جس کا جنازہ پڑھادیا ،اس کے جنازے کی عام ممانعت کس بناپر جائز ہوسکتی ہے؟یقینا بعض فقہانے خود کشی کرنے والے اور بعض دوسرے کبائر کا ارتکاب کرنے والے کا جنازہ نہ پڑھنے کا فتویٰ دیا ہے۔ اس کا علی الاطلاق انطباق درست نہیں معلوم ہوتا۔اس سلسلے میں ان فقہاے کرام اور علماے عظام کی راے قابلِ ترجیح ہے کہ بڑے سے بڑا گناہ گار بھی دعاے مغفرت اور نمازِ جنازہ کا محتاج و مستحق ہے۔

[حیرانی ہوتی ہے کہ اسلام میں خودکشی کے بارے میں اتنی واضح تصریحات کے باوجود، آج ہمارے معاشرے میں یہ بہت عام ہوگئی ہے۔ روزانہ کا اخبار ۴،۵ خودکشیوں کی خبر لیے آتا ہے۔ جو ادارے اعداد و شمار جمع کرتے ہیں، وہ سیکڑوں اور ہزاروں کی بات کرتے ہیں۔ معاشرے میں مسائل اور پریشانیاں ضرور بڑھ گئی ہیں، لیکن ایک مسلمان کو اللہ تعالیٰ سے استعانت طلب کرتے ہوئے ہمت و حوصلے سے ان کا مقابلہ کرنا چاہیے، نہ کہ ہمت ہار کر اپنی جان لے لے اور پس ماندگان کو مزید پریشانیوں کا شکار کردے۔ معاشرے میں اسلامی تعلیمات عام ہوں تو خودکشی کے رجحان کو کمزور کیا جاسکتا ہے۔ مساجد کے ائمہ جمعہ کے خطبے میں اسے کھل کر موضوع بنائیں اور پریشان حالوں کو راہِ راست سمجھائیں۔ ذرائع ابلاغ اس مسئلے کو بھرپور طور پر اُٹھائیں اور عوام کی صحیح رہنمائی کریں اور فرائض کی ادایگی کی طرف متوجہ کریں۔

صلۂ رحمی اسلامی معاشرت کا ایک نمایاں وصف ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی ضروریات کا خیال رکھے اور انھیں ترجیح دے۔ ہمسایہ، اہلِ محلہ، دوست احباب اور اقربا و رشتہ داروں کے باقاعدہ حقوق کا تعین کیا گیا ہے اور وہ اخلاقی طور پر اس کے پابند ہیں کہ اپنے پریشان حال بھائیوں کی ضروریات کا خیال رکھیں۔ اہلِ جنت کی صفات میں سے ایک نمایاں صفت بھوکوں کو کھانا کھلانا اورحاجت مندوں کی ضروریات کو اپنا فرض سمجھ کر پورا کرنا ہے۔ اس روایت کو بھی آگے بڑھانے اور توانا کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں اہلِ محلہ اور رشتے دار ہی ایک دوسرے کی ضروریات کو بخوشی پورا کرتے تھے اور اسے خدا کی رضا و خوشنودی کا ذریعہ سمجھتے تھے، مگر آج معاشرہ انتشار کا شکار ہے اور نفسا نفسی کا عالم ہے جس کی وجہ سے پریشان حال لوگ مایوس ہوکر خودکشی جیسے گناہ کا ارتکاب کرنے لگے ہیں۔ ایسے میں جہاں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی پریشانیوں کے ازالے کے لیے بھرپور اقدام اٹھائے وہاں غیرسرکاری تنظیموں، خدمتِ خلق اور رفاہی امور کی حامل تنظیموں کا کردار اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کا تقاضا ہے کہ    اس مسئلے کے حل کے لیے انفرادی، اجتماعی اور حکومتی سطح پر ایک بھرپور اور منظم جدوجہد کی جائے۔   یہ ہم سب کا قومی و ملّی فریضہ بھی ہے۔]


حواشی

۱-  صحیح البخاری، کتاب المرضی، باب تمنی المریض … صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعا، باب کراھیۃ تمنی الموت

۲-  صحیح البخاری، کتاب الأیمان والنذور، باب یمین الغموس ولا تتخدوا ایمانکم۔ کتاب الدیات ،باب ومن احیاھا۔کتاب الاستنابہ المرتدین وقتالھم،  باب اثم من اشراک باللّٰہ

۳-  صحیح البخاری، کتاب الجہاد، باب لایقول فلاں شہید۔ کتاب المغازی، باب  غزوۃ خیبر۔کتاب الرقاق،باب الاعمال بالخواتیم وما یخاف منہا۔ کتاب القدر،     باب العمل بالخواتیم …صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب غلط تحریم قتل الانسان نفسہ

۴-  صحیح البخاری، کتاب الانبیاء، باب ذکر عن بنی اسرائیل۔کتاب الجنائز،      باب ماجاء فی قاتل النفس

۵-  صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب تحریم قتل الانسان نفسہ…شرح نووی علٰی صحیح مسلم،ابوزکریا یحییٰ بن شرف النووی،کتاب الایمان، باب غلط تحریم قتل الانسان نفسہ، ص:۱۱۸،ج:۱،جز:۲،دارالریان للتراث قاہرہ، ۱۹۸۷ء …سنن ترمذی،کتاب الطب، باب ماجاء فیمن قتل نفسہ بسم اوغیرہ

۶-  سنن ابو داؤد، کتاب الجنائز، باب الامام لایصلی علی من قتل نفسہ

۷-  ردالمحتار علی الدرالمختار،ص:۱۰۲،ج:۳

 

دین کا صحیح شعور ہو یا نہ ہو‘ تاہم یہ حقیقت ہے کہ خواتین میں دینی احساس مردوں کے مقابلے کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ میلاد کی محفلیں‘ نعت خوانی کی مجلسیں‘ نذرونیاز‘ تیجا‘ چالیسواں‘    نوحہ خوانی‘ یہ سب دراصل خواتین ہی کے دم سے قائم ہیں اورمسلمان معاشروں میں ان کے چرچے خواتین ہی کی بدولت ہیں___ یہی خواتین اگر دین کا صحیح شعورحاصل کرلیں‘ قرآن و سنت کی  صحیح تعلیم سے واقف ہوجائیں‘ دین کے صحیح تصور اور صحیح فہم سے آشنا ہوجائیں اورانھیں واقعی     یہ احساس ہوجائے کہ وہ بھی خیراُمت کا حصہ ہیں‘ تو ہمارے گھروں کی فضا‘ خاندانوں کے حالات اور معاشرے کے طورطریق سب بدل جائیں۔

خداکی کتاب کا یہ خطاب کہ مسلمانو! تم خیر اُمت ہو‘ تمھیں لوگوں کی فلاح و ہدایت کے لیے اٹھایا گیا ہے‘ تم نیکیوں کا حکم دیتے ہو‘ برائیوںسے روکتے ہو اور تم واقعی خدا پرایمان رکھتے ہو___ یقینا تمام مسلمانوں سے ہے۔ یہ خطاب صرف مردوں سے نہیں عورتوں سے بھی ہے۔ لازمی طور پر خواتین بھی اس حکم کی پابند ہیں‘وہ بھی دین کی نمایندہ اور دین کی ترجمان ہیں اور دین کی دعوت و تبلیغ ان کا بھی دینی فریضہ ہے___ بے شک ہر وہ خاتون جو خدا پر ایمان رکھتی ہے اس کا یہ فرض ہے کہ اپنے حلقۂ کار میں دینِاسلام کی تبلیغ کرے۔ اپنے محرم مردوں کو دین سمجھنے اور دین پر عمل کرنے کی تلقین کرے اور خواتین میں عمومی حیثیت سے دین کی اشاعت کے لیے جدوجہد کرے۔ اگر خواتین میں اپنے منصب کا یہ احساس بیدارہوجائے تو گھروں میں اسلامی زندگی اور اسلامی روایات و تہذیب کا چرچا رہے‘ اسلامی تعلیمات تازہ رہیں‘ اور ہمارے گھرواقعی اسلام کے لیے فداکار سپاہی تیار کرنے کا مدرسہ بن جائیں۔

مغربی تہذیب کے زبردست غلبے نے اور پھر موجودہ تعلیم و تربیت نے دین سے دُوری اور بے گانگی کی عام فضا پیدا کردی ہے۔ اس بے دینی اور جاہلیت کا مقابلہ اگر کیا جاسکتا ہے تو صرف اس طرح کہ ہم اپنے گھروں کی طرف توجہ دیں‘ گھر میں ایسا ماحول پیدا کریں کہ ہماری خواتین دین کو سمجھنے‘ دین کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنے‘ دین کی روشنی میں اپنے گھر کے ماحول کو سدھارنے اوردین ہی کے مطابق بچوں کی تربیت اور پرورش کرنے کو اپنی زندگی کا سب سے عزیز مقصدسمجھنے لگیں۔ گھروں میں دینی فضا قائم رکھنے کا اہتمام اور بچوں کو دین کے مطابق اٹھانے کا  اہم کام خواتین ہی انجام دے سکتی ہیں۔

دورِ سابق میں جب اسلامی تعلیمات کا چرچا تھا‘ عورتیں شروع ہی سے بچوں میں اسلام کی رغبت پیدا کردیتی تھیں۔ بچے دین کی معلومات اور دینی عبادات میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ قرآن پاک پڑھنے پڑھانے کا عام چرچا تھا۔ بچوں کوعام طور پر دعائیں یاد ہوتی تھیں: سوتے وقت کی دعا‘اُٹھتے وقت کی دعا‘ مسجد میں داخل ہوتے وقت کی دعا‘ مسجد سے نکلتے وقت کی دعا‘ کھانا شروع کرتے وقت کی دعا‘ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد کی دعا‘ پھل کھاتے وقت کی دعا‘ نیا لباس پہنتے وقت کی دعا‘ آئینہ دیکھتے وقت کی دعا‘ غرض بچوں کو یہ دعائیں اس طرح یاد ہوتی تھیں کہ وہ شوق اوردل بستگی کے ساتھ ان کو رٹتے رہتے تھے اور یہ معمولی بات نہ تھی۔ دراصل ان سادہ لوح بچوں کے پاک ذہنوں میں اس وقت جو نقوش ثبت ہوجاتے تھے ان کی آیندہ زندگی انھی نقوش کی آئینہ دار ہوتی تھی اور یہ زندگیاں اسی لیے اسلام کا پیکر ہوتی تھیں۔

ماں کی محبت بھری گود میں بیٹھ کر جو کچھ وہ رٹ لیا کرتے تھے‘ پھر زندگی بھر اُسے کبھی نہ بھولتے تھے۔ انھی بنیادوں پر ان کی زندگیاں استوار ہوتی تھیں‘ پھر نہ انگلستان کی فضا اُنھیں بدل سکتی تھی‘ نہ زمستانی ہوائیں ان پر اثر کرتی تھیں‘ اور نہ کوئی خوف اور لالچ ان پر اثرانداز ہوسکتا تھا۔ وہ جہاں رہتے تھے دین کے دردمند اور دین کے داعی اور حامی بن کر رہتے تھے___ تاریخ اسلامی کی جن عظیم ہستیوں پر ہم فخر کرتے ہیں اور ان کے کارناموں کو یاد کرکے سردُھنتے ہیں وہ دراصل کارنامے ہیں ان گودوں کے جن میں یہ عظیم ہستیاں پل کرجوان ہوئی تھیں۔ اگر آپ اپنی تاریخ دُہرانا چاہتے ہیں اور اپنی عظمت رفتہ کو آواز دینا چاہتے ہیں‘ توضرورت ہے کہ آپ ایسی گودیں مہیا کرنے کے لیے کوشش و کاوش کریں___ اگر ہم واقعی یہ آرزو رکھتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اسلامی معاشرہ بنے اور ہمارے سماج میں اسلامی اقدارو روایات کا چرچا ہو‘ ہر طرف اسلامی روایات اور تعلیمات کا تذکرہ ہو‘ تو اس کا کامیاب طریقہ یہی ہے کہ ہم اپنی عورتوں میں دین کا شعور پیدا کریں۔ گھر کے ماحول کو دین کے لیے سازگار بنائیں اور اپنی خواتین کو متوجہ کریں کہ وہ اپنے گھروں کو  دین کا مدرسہ بنائیں۔ اگر ہمارے گھر دین کا مدرسہ بن جائیں تو پھر باہر کاماحول ہمارے گھروں میں ہرگز کوئی انقلاب لانے کی جرأت نہ کرسکے گا‘ بلکہ گھر کی یہ فضائیں باہر کے ماحول میں خوش گوار انقلاب لائیں گی اور اس انقلاب کا مقابلہ آسان نہ ہوگا۔

گھر کے ماحول پرسب سے زیادہ جو چیز اثرانداز ہوتی ہے‘ وہ ایک نیک دل‘ وفاشعار‘ دردمند‘ عالی حوصلہ اور دین دار خاتون کا اعلیٰ کردار اور پاکیزہ سیرت ہی ہوتی ہے۔ خواتین کی مدد اورتعاون کے بغیر نہ گھر کے ماحول میں سدھار آسکتا ہے اور نہ باہر کی فضا میں کوئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ کوئی ایسا خوش گوار پاکیزہ انقلاب جس کی جڑیں بہت مضبوط ہوں اور جو واقعی انسانوں کے قلب و دماغ کو بدل سکے، اسی وقت لایا جاسکتا ہے جب خواتین اس کی داعی بن جائیں اور وہ اپنے شب وروز اس کے لیے وقف کردیں۔

گھروں میں اسلامی تعلیم کی آسان کتابیں ضرور رکھیے۔ ان کے پڑھنے پڑھانے کا اہتمام کیجیے۔قرآن پاک کی تفسیر و ترجمے‘حدیثِ رسولؐ کے ترجمے‘دعاؤں کی کتابیں اور اسلام کی بنیادی تعلیمات سے متعلق کتابیں ضرور گھروالوں کے لیے فراہم کیجیے۔ پھر اپنے اوقات میں سے کچھ وقت ضرور فارغ کیجیے کہ گھر کے سارے افراد بیٹھ کر اجتماعی طور پر کچھ مطالعہ کریں‘ غوروفکر کریں‘ تبادلۂ خیال کریں‘ اور پھر یہ کوشش بھی کریں کہ دین کا جو علم و شعور حاصل ہوتا جائے اس کے مطابق دھیرے دھیرے زندگیوں میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے۔ تھوڑے ہی عرصے میں آپ دیکھیں گے کہ آپ کے گھر کی فضا بدلی ہوئی ہے___ اور یقین کیجیے کہ اس سے بڑی نعمت اور کوئی نہیں ہے کہ آپ کے گھر اسلامی زندگی کا حسین نمونہ بن جائیں___ اور آپ کے گھر والے اسلام کے داعی اور نمایندہ بن کر زندگی گزارنے لگیں۔

 

عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ تربیت اولاد کا معاملہ بھی امورِخانہ داری ہی کی کوئی شاخ ہے اور چونکہ گھر کے اندر کا میدان خواتین ہی کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے‘ اس لیے تربیت ِ اولاد صرف ماں کی ذمہ داری ہے۔ بے شک تربیت کا یہ کام ہوتا گھر کے اندر ہی ہے‘ اِس سے بھی انکار نہیں کہ    یہ امورِخانہ داری ہی کی ایک شاخ ہے مگر گھر کے اِس کام کو دوسرے تمام امور پر ویسی ہی برتری حاصل ہے جیسی اللہ تعالیٰ کی کائنات کی تمام مخلوق میں انسان کو حاصل ہے۔ یہ ان ذمہ داریوں میں سے ہے جن کے اہتمام پر اسلام نے بہت زوردیا ہے اور ماں باپ دونوں کو اُن کے بدرجۂ اتم پورا کرنے پر اُبھارا ہے۔ قرآن و حدیث کا مطالعہ اِس بات پر دلیل ہے کہ یہ دونوں کے کرنے کا کام ہے۔ چند آیات قرآنی ملاحظہ فرمائیں:

یاد کرو جب لقمان ؑ اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا بیٹا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ (لقمان ۳۱:۱۳-۱۹)

اور ابراہیم ؑـنے اپنی اولاد کو اسی دین اسلام پر چلنے کی وصیت کی‘اور یہی وصیت یعقوب ؑ  اپنی اولاد کو کرگیا۔ اُس نے کہا تھا کہ ’’میرے بچو! اللہ نے تمھارے لیے یہی دین پسند کیا ہے‘ لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا‘‘ پھر کیا تم اس وقت موجود تھے‘ جب یعقوب ؑ اس دنیا سے رخصت ہو رہا تھا۔ اُس نے مرتے وقت اپنے بیٹوں سے پوچھا: بچو! میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے۔ ان سب نے جواب دیا ہم سب اُسی ایک اللہ کی بندگی کریں گے جسے آپ ؑ نے اور آپ ؑ کے بزرگوں: ابراہیم ؑ، اسماعیل ؑاور اسحاقؑ نے خدا مانا اور ہم اسی کے مسلم ہیں‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۳۲-۱۳۳)

اور اپنے متعلقین کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس کے پابند رہو۔(طٰہٰ۲۰:۱۳۲)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ بچائو اپنے آپ کو اور گھر والوں کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ (التحریم ۶۶:۶)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے کی نزاکتوں کو سمجھتے ہوئے متعدد بار اس کی تاکید ووصیت فرمائی۔ چند احادیث درج ذیل ہیں:

اپنے بچوں کو ادب سکھائو اور ان کی اچھی تربیت کرو۔ (ابن ماجہ)

اللہ اُس والد پر رحم کرے جو بھلائی میں اپنے بچے کی معاونت کرے۔(کتاب الثواب )

مرد اپنے گھر کا رکھوالا (راعی) ہے اور اُس سے اس کی رعیت (گھر والوں) کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ (بخاری، مسلم)

کسی باپ نے اپنے بیٹے کو اچھے ادب سے بہتر عطیہ نہیں دیا۔ (ترمذی)

مندرجہ بالا آیاتِ قرآنی و احادیث مبارکہ سے آخر کس طرح ثابت ہوتا ہے کہ یہ ذمہ داری صرف ماں پر ڈالی گئی ہے‘ بلکہ ان سے تو پتا چلتا ہے کہ یہ ایک مشترکہ عمل ہے جو میاں بیوی باہمی تعاون سے آپس میں مل جل کر کرتے ہیں۔ اسی لیے سلف صالحین اپنے بچوں کی تربیت کے لیے اعلیٰ فضا  مہیا کرتے تھے۔ چنانچہ امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ خلیفہ منصور نے بنی اُمیہ کے  جیل خانے میں قیدیوں سے دریافت کیا کہ قید کے دنوں میں آپ لوگوں کو سب سے زیادہ تکلیف کس چیز سے ہوئی؟ انھوں نے بتایا کہ اس چیز سے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت کرنے سے محروم   رہ گئے۔ (تربیتِ اولاد کا اسلامی نظام، عبداللہ ناصح علوان)

تعلیم و تربیت کا مفھوم

آیئے سب سے پہلے ’تعلیم و تربیت‘ کے معنی پر غور کرتے ہیں:

تعلیم: سکھانا‘ تلقین‘ ہدایت‘ تربیت۔

تربیت: پرورش‘ پرداخت (دیکھ بھال‘ حفاظت)‘ تعلیم و تہذیب‘ تعلیم.ِ اخلاق۔ (فیروز اللغات اُردو جدید، نیا اڈیشن)

معلوم ہوا تعلیم سے مراد علم حاصل کرنے کی وہ کیفیت ہے جو بہرحال اپنی انتہا کو پہنچ سکتی ہے۔ چند خال خال اشخاص ہی ملیںگے جو اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ڈگریاں جمع کرنے پر صَرف کردیتے ہیں ورنہ آدمی اپنی تعلیم کا سلسلہ ایک حدتک جاکرمنقطع کردیتا ہے‘ جب کہ تربیت کا سلسلہ مرتے دم تک چلتا رہتا ہے۔ زندگی کے ابتدائی چند سال نہایت مؤثر ہوتے ہیں۔ موقع محل کی مناسبت سے اپنے اندر مناسب تبدیلی لانا‘ ہمہ وقت اپنا احتساب مدنظر رکھنا وغیرہ ایک نہ ختم ہونے والی تربیت ہی کا حصہ ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تربیت ہی تعلیم کو چمکاتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد اگر اچھی تربیت سے بھی آراستہ ہو تو اپنا الگ نمایاں مقام پیدا کرلیتا ہے اور مہذب بھی کہلاتا ہے‘ جب کہ تربیت سے تہی دامن تعلیم یافتہ فرد معاشرے میں خاطرخواہ مقام حاصل کرنے سے قاصر رہتا ہے۔

دوسری طرف ایک بہترین تربیت یافتہ فرد اگر کسی وجہ سے زیادہ اعلیٰ تعلیم نہ بھی حاصل کرسکے تو اس کی تھوڑی سی حاصل شدہ تعلیم بھی اسے معاشرے میں اچھا مقام عطا کرتی ہے۔ شاید اسی لیے کسی عقل مند کا قول ہے کہ ’’نرا علم کافی نہیں ہوتا لیکن نری صحبت کافی ہوجاتی ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں تعلیم یافتہ زیادہ اور تہذیب یافتہ کم ملتے ہیں‘تاہم تعلیم بھی ناگزیر ہے‘     اس لیے اس کا حصول بھی لازم ہے۔

آیئے اب دیکھتے ہیں کہ بحیثیت ’باپ‘ ایک فرد کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔

بچہ اور دینِ فطرت

اس ضمن میں باپ کی اوّلین کوشش یہ ہو کہ اس کے بچے کی ماں دینی شعور رکھنے والی ہو۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’اپنی اولاد کے لیے اچھے خاندان والی عورت کا انتخاب کرو‘ اس لیے کہ خاندان کا اثر سرایت کرجاتا ہے‘‘۔ (ابنِ ماجہ)

اگر اس سلسلے میں ذرا بھی عدمِ اطمینان ہو تو یہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی ماں کو ایسی فضا فراہم کرے جو حصولِ علم کے لیے سازگار ہو‘ نیز کم از کم ہفتے میں ایک بار اتنا وقت ضرور نکالے کہ جو دعائیں‘ قرآنی آیات اور تاریخی واقعات ماں نے بچے کو سکھائے یا سنائے ہیں‘ انھیں سنے اور بچے کے ساتھ کچھ وقت گزارے۔ تربیت کے اس مرحلے میں باپ کا عملی کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ایک بہت چھوٹا بچہ نہ نماز پڑھتا ہے‘ نہ روزہ رکھ سکتا ہے اور نہ اپنے ہاتھ سے انفاق ہی پر قادر ہے‘ مگر جب باپ کو عملی طور پر ان دینی فرائض کو انجام دیتے ہوئے دیکھتا ہے تو یہ چیز اس کے ذہن پر نقش ہوجاتی ہے اور جب وہ خود عمل کی عمر کو پہنچتا ہے تو باپ کے کردار کی یہی تصویر اس کی رہنمائی کرتی ہے۔

تعلیم و تربیت کے تمام مراحل میں یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ بچے کی عمر کے حساب سے کام کریں۔ اگر آپ چاہیں گے کہ ایک چھوٹی عمر کا بچہ ہر وقت ہاتھ میں قرآن لیے بیٹھا رہے تو یقینا آپ اسے انحراف اور بے زاری کا راستہ دکھائیں گے۔ جس وقت وحی کے ذریعے احکامات نازل کیے جاتے تھے تو وہ بھی بتدریج نازل ہوتے تھے تاکہ پیروی میں آسانی ہو۔ یہی انسانی فطرت ہے۔ بچے کو آہستہ آہستہ چھوٹی چھوٹی باتوں اور مثالوں سے اسلام‘ رسولؐ، اہلِ بیتؓ، صحابہ کرامؓ اور صالحین سے محبت کرنا سکھایئے اور اس کام میں تعاون اور نرمی کو یقینی بنایئے۔ یاد رکھیے‘ آپ سے آپ کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ کون پوچھے گا یہ سوال؟ کیا آپ اس سوال کے جواب کے لیے تیار ہیں؟ اس جواب کی تیاری کے لیے آپ درج ذیل باتوں سے مدد لے سکتے ہیں:

۱- جونہی بچہ ذرا بڑا ہو اسے تلاوتِ قرآن پاک کی ابتدا کرایئے۔

۲- استاد اصولِ تجوید اور دینی بصیرت کا حامل ہو۔ ان امور سے ناواقف استاد باعثِ نقصان ہے‘ نیز لڑکیوں کے لیے کوشش کی جائے کہ کسی خاتون کا انتظام ہو۔ اگر ممکن نہ ہو تو چھوٹی عمر میںقرآن ختم کرانے کی طرف توجہ دیں اور گھر کے ایسے حصے میں بٹھا کر پڑھانے کا بندوبست کریں جو سب کی نظروں میں ہو۔ اس دوران بچیوں کو تنہا چھوڑ دینا باعثِ فتنہ ہے۔

۳- اگر اولاد کا رجحان دیکھیں توحفظِ قرآن پر توجہ دیں اور اس خواہش کو اُبھارنے کی کوشش کریں‘ نیز ناظرہ ختم ہوجانے کے بعد قرآن کے معنی اور تفسیر بھی پڑھوائیں۔ وہ لوگ جو ایسے معلم حضرات کا انتظام کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ سمجھ لیں کہ وہ بڑی اعلیٰ جگہ اپنا پیسہ لگا رہے ہیں۔ یاد رکھیں‘ بیٹی کو شادی سے پہلے اور بیٹے کو نوکری سے پہلے پہلے جس قدر دینی علوم میں مہارت دلوا سکتے ہیں ضرور دلوایئے۔ یہ آپ کے لیے سب سے بڑا صدقۂ جاریہ ہوگا اور… یہ بچے پھر بڑی مشکل سے ہاتھ آئیں گے۔

۴- جب بچہ اسکول جانے کی عمر کو پہنچ جائے تو مناسب ’تربیت گاہ‘ کا انتخاب کیجیے جو بچے کو دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم میں بھی مستند بنائے۔ اس موقعے پر بھی بچیوں کے لیے  مخلوط نظام کا انتخاب مت کیجیے۔

۵- فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کی اہمیت بتایئے اور ان کا شوق دلایئے۔

بچہ اور اس کی ذات

تربیت کے سلسلے میں توازن کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ تربیت روحانی ہو یا جسمانی‘ فکری ہو یا ایمانی‘ نفسیاتی ہو یا معاشرتی‘ ہر حیثیت میں بچے کی انفرادی اہمیت کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ یہ چیز جہاں اُس میں عزتِ نفس اور اعتماد پیدا کرتی ہے وہاں آپ سے محبت کو بھی مضبوط بناتی ہے۔ یاد رکھیے‘ آپ کی طرح آپ کے اہلِ خانہ بھی دن بھر اپنے فرائض منصبی میں مصروف رہے اور اب وہ شام میں آپ کے منتظر ہیں اور آپ کی ایک مسکراہٹ کو ہرچیز سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ ایسے باپ جو گھرمیں داخل ہوتے ہی دن بھر کی تھکن اور کوفت کو اپنے اہلِ خانہ پر غصہ‘ چیخ پکار کی شکل میں ظاہر کرتے ہیں‘ بہت جلد جان لیتے ہیں کہ بچپن میں سر جھکا لینے والے یہ بچے اپنے پیروں پر کھڑا ہوتے ہی انحراف‘ فرار اور نفرت کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ کس نے سکھایا      یہ طرزِعمل؟ آپ آج جس چیز کا بیج بوئیں گے‘ کل اُسی کی فصل کاٹیں گے۔

لڑکے اور لڑکی کی تربیت میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں‘ تاہم لڑکیاں نسبتاً زیادہ حسّاس ہوتی ہیں۔ باپ کی نرمی یا سختی کو خصوصی طور پر محسوس کرتی ہیں۔ ان کی ذات کا احترام اور ان کی موجودگی کو باعثِ رحمت ظاہر کرنا ان کی ذات میں پختگی پیدا کرتا ہے۔ لیکن لڑکوں کی تربیت میں باپ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ روزمرہ معاملات میں بچوں سے راے لینا‘ ان کی باتوں کو اہمیت دینا‘ ان کی پسند اور ناپسند کو جائز امور میں فوقیت دینا‘ ان کی غلطیوں سے چشم پوشی کرنا‘ان کے نقصان کی تلافی کرنا‘ ان کی ضروریات کو پورا کرنا خاص کر اُن چھوٹی چھوٹی خواہشات کو جن کا اظہار وہ خود کریں___ یہ تمام وہ امور ہیں جو بچے کو نفسیاتی بالیدگی عطاکرکے اُن میں اعتماد و وقار پیدا کرتے ہیں۔ وہ باپ جو گھر کا سودا سلف خریدنے کے دوران اپنے لڑکوں کو ساتھ رکھتے ہیں‘ وہ نہ صرف انھیں دوستی کا ماحول فراہم کرتے ہیں بلکہ خریداری کا سلیقہ بھی سکھاتے ہیں۔ ناپسندیدہ رویے پر سرزنش کیجیے مگر ساتھ ہی کوئی سخت جسمانی سزا دینے میں جلدی نہ کیجیے۔ کوشش کریں‘ مارپیٹ کی نوبت ہی نہ آئے۔ یہ سمجھ لیں کہ جب کبھی اور جہاں کہیں یہ نوبت آتی ہے تو اس کے لانے میں بڑی حد تک باپ کاہاتھ بھی ہوتا ہے کیونکہ ان کے حساب سے ان کی ذمہ داری بس  پیسہ کماکر لانے کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ بعض ایسے باپ اگر کبھی اتفاق سے بچے کو پڑھانے بھی بیٹھ جائیں تو ابتدا ہی سے چیختے ہیں اور بالآخر بچے کے سر پر کتاب دے مارتے ہیں۔ ایسے غصہ ورباپوں سے اکثر مائیں بچوں کی بہت سی باتیں پوشیدہ رکھتی ہیں اور یوں حالات مزید بگڑتے ہیں۔

بچہ اپنے آپ کو شتر بے مہار سمجھنے لگتا ہے۔ بات بات پر تنقید‘ نکتہ چینی اور نامناسب برتائو بچوں میں شدید ہیجانی کیفیت پیدا کرتا ہے جسے وہ وقتی طور پر روک لیتے ہیں لیکن یہ عمل لاتعداد جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کا دروازہ کھولتا ہے۔ ماہرین نفسیات کی راے میں وہ مرد جو گھروں میں اُونچی آواز سے چیخ کر غصے کا اظہار کرتے ہیں‘ ان کے اہلِ خانہ ہکلاہٹ‘ عدم توجہی و دل چسپی‘ بھول‘ نسیان وغیرہ جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوکر بالآخر نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔

جسمانی نشوونما کے لیے بھی محتاط رہیں۔ حسبِ توفیق صحت مند غذا فراہم کرنا اور بیماری کی صورت میں مناسب علاج معالجہ بچے کا حق ہے۔ یہی نہیں‘ ہلکی پھلکی تیمارداری سے آپ بچے کے دل میں اپنی محبت کے مزید چراغ جلا سکتے ہیں۔ غرض بچے پر جو کچھ خرچ کریں خوش دلی سے کریں۔ اس کے اثرات نہایت مؤثر ہوںگے۔ وہ بچے جو بچپن میں بلاوجہ معمولی چیزوں کے لیے ترسائے جاتے ہیں‘ بڑے ہوکر کسی چھوٹے سے مقصد کا حصول بھی ان کے لیے دشوار ہوجاتا ہے اور یوں وہ احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آپ کے پیسے پر سب سے زیادہ حق آپ کی اولاد کا ہے جو آپ کی توجہ کی بھی محتاج ہے۔ بہت سے حضرات اپنے اہلِ خانہ پر بڑی مشکل سے اور گن گن کر خرچ کرتے ہیں‘ یہ نہایت ناپسندیدہ عمل ہے اور اسلام اس کی شدید مذمت کرتا ہے۔ تربیتی نکتے مدنظر رکھتے ہوئے اپنے بچے کے معاملے میں حددرجہ نرمی و شفقت کو اپنا شعار بنایئے‘ انھیں لپٹایئے‘ پیار کیجیے۔ یاد رکھیے‘ یہ کام آپ صرف اُن کے بچپن ہی میں کرسکتے ہیں‘ بڑے ہوتے ہی ان کے اندر ایک قدرتی جھجک پیدا ہوجائے گی۔ ایک بار ایک صحابیؓ نے آنحضرتؐ کو ایک بچے کو پیار کرتے دیکھ کر کہا: اے اللہ کے رسولؐ میرے تو کئی بچے ہیں مگر میں نے کبھی انھیں لپٹا کر اس طرح پیار نہیں کیا۔ حضوؐر نے فرمایا: اگر اللہ نے تیرے دل میں رحم نہیں ڈالا تو میں کیا کرسکتا ہوں۔

بچہ اور گہر کے افراد

ایک گھرانے کے تمام افراد کے درمیان باہمی ربط کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اگر چھوٹے بڑے کی تمیز‘ بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت نہ ہو تو توازن بگڑ جاتاہے۔ ایک صحت مند ماحول کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کو آپس میں کھیل کود کی مکمل آزادی ہو۔ ان کی عمر اور رجحان کے مطابق کھلونے اورسامان مہیا کرنا باپ کی ذمہ داری ہے‘ مگر خیال رکھیں ایسے کھلونے جو تخریبی رجحان پیدا کرنے والے ہوں‘ گھر میں نہ لائے جائیں مثلاً بندوق یا چاقو وغیرہ۔ یہی معاملہ اخلاق بگاڑنے والے کھیل کھلونوں کا ہے۔

اپنے اہلِ خانہ کو سیروتفریح کے مواقع مہیا کیجیے۔ ہرطبقے کا گھرانہ اپنے ماحول اورحالات کا لحاظ رکھتے ہوئے چھوٹی موٹی تفریح فراہم کرسکتا ہے۔ بنیادی بات اس نظریے کی موجودگی ہے کہ شرعی حدود میں رہ کر جائز تفریح کو اسلام پسند کرتاہے۔ مہینے میں ایک بار گھر میں تیار کیا گیا سادہ سا کھانا ساتھ لے جاکر اگر کسی نزدیکی پارک میں کھا لیا جائے تو اس کے بے شمار مثبت اثرات نکلتے ہیں۔ یہ چیز جہاں ایک گھر کے افراد کو قریب لاتی ہے‘ وہاں روزمرہ کام کاج اور معمول کے منفی اثرات کو دُور کرکے ذہن کو تازگی دیتی ہے۔

بچوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم دیں اور انھیں ایک دوسرے پر ترجیح نہ دیں۔ ان کے ساتھ برتائو اور لین دین میںبرابری و مساوات کا خیال نہ رکھا جائے تو ان میں تفریق و امتیاز کا عنصر پیدا ہوگا جو آگے چل کر باہمی حسدو رقابت کا باعث بنے گا۔ بہن بھائیوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے مقابلے کرانا‘ انعام دینا‘ عید اور دیگر خوشی کے موقعوں پر انھیں تحائف دینا جہاں اسلامی اقدار کے عین مطابق ہے وہاں بچوں میں عزتِ نفس اور اطمینان کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ یوں انھیں اپنا ایک مقام نظر آتا ہے۔ اسلام نے اچھے اوصاف و کارکردگی کو سراہنے کی تاکید کی ہے اور سب کے سامنے شرمندہ کرنے سے منع کیا ہے۔

اپنے گھر کو لڑائی جھگڑوں اور ایک دوسرے کی مخالفتوں کا اکھاڑہ مت بنایئے۔ آپس کے تنازعات کے لیے وقت مخصوص کر کے بچوں سے علیحدہ ہوکر بات کیجیے۔ ان کے سامنے چیخ پکار اور غصے کا مظاہرہ کرکے آپ ان سے کس سیرت و کردار کی توقع کریں گے؟ اپنے ماحول کو ہروقت کے تنائو سے بھی محفوظ رکھیے۔ اپنے اہلِ خانہ کو خوش رکھ کر آپ یہ کام کرسکتے ہیں۔ بچے میں انحراف اور بغاوت کا ایک بہت بڑا سبب باپ کی سخت مزاجی اور ڈکٹیٹرشپ ہے۔ جب بچہ خود کو‘ اپنے بہن بھائیوں کو اور اپنی ماں کو ہروقت بے جا پابندیوں میں جکڑا ہوا دیکھتا ہے تو دکھی ہوجاتا ہے اور اس ماحول سے فرار کے راستے ڈھونڈتا ہے۔ ایسے ماحول کے اکثر بچے بڑے ہوکر گھر سے بھاگ جاتے ہیں یا بھاگنے کی ترکیبیں سوچتے رہتے ہیں اور اپنے اندر باپ کے لیے وہ الفت اور محبت محسوس نہیں کرتے جس کا تقاضا فطرت کرتی ہے۔ یوں اللہ کے سپاہی بننے والے یہ فرشتے جسمانی و نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ ذرا قرآن کا مطالعہ کیجیے‘ جب اللہ تعالیٰ نے انبیاے کرام کو اپنے کام کے لیے چنا تو انھوںنے اپنے اہلِ خانہ اور بھائی بندوں کو اپنی مدد پر مامور کرانے کے لیے اللہ سے دعا فرمائی۔ (طٰہٰ ۲۰:۲۹-۳۴)

اسلامی قوانین کی رو سے ایک گھرانہ ہی اس اعلیٰ منصب کو پورا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے اور اس کے سربراہ آپ ہیں۔ افرادِ خانہ کے اندر ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ پیدا کیجیے۔ خصوصی طور پر لڑکوں کو بچپن ہی سے گھرکے چھوٹے موٹے کام کرنے کی عادت ڈالیے۔ ہمارے گھروں میں عام رواج یہ ہے کہ اگر مرد گھریلو کام کاج کو ہاتھ لگا لیں تو یہ اُن کی مردانگی کے خلاف سمجھا جاتاہے۔ اسی طرز پر لڑکوں کی پرورش بھی ہوتی ہے‘ جب کہ اللہ کے رسولؐ جب اپنے گھروالوں کے   درمیان ہوتے تو ان کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹھاتے۔ بچہ جب باپ کو خود یہ عمل کرتے دیکھتا ہے تو اس کے ذہن میں اس عمل کی کوئی قباحت نہیں رہتی بلکہ وہ باپ کی طرح بننے کو قابلِ فخر سمجھتا ہے۔

یہ بات ہمیشہ مدنظر رکھیں کہ والدین کا اچھا طرزِعمل بچپن میں تو اولاد کے لیے صرف اچھی تربیت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے مگر جب اولاد جوان اور باشعور ہوتی ہے تو والدین کی یہی تصویر ان کے دل میں وہ عزت اور محبت پیدا کردیتی ہے‘ جس سے وہ والدین محروم رہتے ہیں جن کا کردار اور عمل بچوں کے بچپن میں کمزور رہا تھا۔

بچہ اور معاشرہ

گھر کے باہر کے ماحول میں خاندان کے دیگر لوگ‘ پڑوسی اور میل جول کے دوسرے لوگ شامل ہیں۔ اسلام نے واضح طور پر ایسے احکام دیے ہیں جن کی رو سے ایک مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ حقوق العباد کا خیال رکھے اور میل جول کے ذریعے لوگوں کی خوشی اور غمی میں شریک رہے۔ اس اسلامی فریضے کو پورا کرنے کے لیے اہلِ خانہ کو سہولت دیجیے‘ انھیں باہر لے جایئے اور ان کی سرگرمیوں پر خوش دلی کا مظاہرہ کیجیے۔ اپنی استطاعت اور موقع محل کی مناسبت سے عزیزوں اور دوستوں کو خود بھی ہدیہ دیں اور اہلِ خانہ کو بھی ترغیب دیں۔ اللہ کے رسولؐ ہدیہ دیتے بھی تھے اور قبول بھی کرتے تھے۔ اپنے حقیقی بہن بھائیوں کے علاوہ بھی بچے کو ہم عمر دوستوں میں اٹھنے بیٹھنے کی سہولت دیجیے۔ صحت مند جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے بچوں کو کھیلنے کا وقت زیادہ دینا مفید ہے۔ اس طرح بچے میں تخلیقی صلاحیتیں پیدا ہوں گی۔ بچوں کے دوستوں کا احترام کیجیے۔ ان کے سامنے بچے کی اچھی عادتوں کا ذکر کیجیے۔ بچوں سے باہر ہونے والی سرگرمیوں کو دل چسپی لے کر سنیے۔ جو والدین خصوصاً باپ اس کام کے لیے وقت نکالتے ہیں وہ بہت سی حقیقتوں سے واقف رہتے ہیں‘ اُنھیں اصلاح کا موقع ملتا ہے اور یہ کہ بچہ والدین ہی کو اپنا دوست سمجھتا ہے۔ بس خیال رہے کہ یہ گفتگو غیبت یا عیب جوئی کا رنگ اختیار نہ کرے۔

بچوں کے سامنے ماںاور ماں کے گھر والوں کو عزت اور توقیردیجیے۔یہ چیز بچے کو دہری شخصیت کا شکارہونے سے بچائے گی۔ یہ مت بھولیے کہ یہ سب بھی بچے کے رشتے دار ہیں‘ ان کی مخالفت بچے کو آپ کا مخالف بناکر چھوڑے گی۔ اکثر معزز داماد حضرات کا رویہ اپنی بیوی کے گھر والوں کے ساتھ بڑا عجیب و غریب اور ہتک آمیز ہوتا ہے۔ ایسے داماد سمجھ لیں کہ انھیں محبت کا ملنا تو دُور کی بات ہے‘ جو تھوڑی بہت عزت ملتی ہے وہ بھی بس اوپرائی ہوتی ہے‘ نہ بیوی کے دل میں کوئی وقعت رہتی ہے اور نہ اولاد کے دل ہی میں۔ سسرال والوں کو تو خیر اپنا بنایا ہی نہ تھا… حالانکہ اسلامی قوانین کی رُو سے شادی دو خاندانوں کاملاپ اور باہمی طاقت اور اخوت کا ذریعہ ہونا چاہیے۔

خاندان کے دیگر گھرانوں کے معاملات و تقاریب میں خود بھی دل چسپی لیں اور بچوں کو بھی اس کی عادت ڈالیں۔ خاص کر قریبی رشتوں کی پہچان اور عزت افزائی یقینی ہونی چاہیے۔ اپنے دفتری اوقات اور دوسرے اہم مواقع پر وقت کی پابندی کا خیال رکھیے۔ آپ کا یہ ڈسپلن بچے کے لیے مشعلِ راہ ہوگا۔

کبھی کبھی بچوں کے دوستوں کو گھر مدعو کرنے کی اجازت دیں‘ان کے دوستوں سے بات چیت کریں۔ وقفے وقفے سے دوستوں کا حال احوال اور ان کی سرگرمیوں کو پوچھتے رہیں۔ باپ کے نہایت اہم فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ باہر لڑکوں کے دوستوں پر نظر رکھیں اور اُس صحبت کی جانچ پڑتال کرتے رہیں جس میں بچہ وقت گزارتا ہے۔ یہ کام صرف ایک دن کے کرنے کا نہیں ہے بلکہ متواتر عمل ہے۔ آپ کا لڑکا جس دوست سے ملنے جائے اس کا نام پتا اور فون نمبر لے کر رکھیں لیکن اس تمام کارروائی میں آپ کا رویہ مخلصانہ اور بچے کی حفاظت پر مبنی ہو۔ جاسوسی کے انداز میں ہرگز نہیں۔ اپنی اس نیت کا آپ برملا اظہار بھی کریں تاکہ بچے کے سامنے آپ کے طریقۂ کار کی وضاحت ہو۔ ہمارے گھروں میں اولاد اور والدین‘ خصوصاً باپ کے درمیان عدمِ رابطہ یا ناقص رابطے کی بنیادی وجہ یہی اظہارِ خیال کا فقدان ہے۔ افرادِ خانہ ایک دوسرے کے بنیادی خیالات ہی کو نہیں سمجھ پاتے اور بعض اوقات بڑی بڑی غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ لہٰذا گھر کا عام ماحول کھل کر بات کرنے کا ہو۔ اسلام مبہم بات چیت سے منع کرتا ہے۔

بچہ اور والدین کے آپس کے تعلقات

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بچے کی تربیت کا تمام دارومدار والدین کے آپس کے تعلقات پر ہے۔ زوجین کی ذہنی ہم آہنگی جہاں اس دشوار کام کو آسان بلکہ پُرکیف بناتی ہے وہیں یہ تعلق اُن عوامل اور محرکات کو استحکام اور دوام بخشتا ہے جن کی مدد سے زوجین بچوں کی تربیت کرتے ہیں۔ والدین کے خیالات کا فرق و تکرار بچے کو دوراہے پر لاکھڑا کرتا ہے۔ ایک کی راے کچھ اور دوسرے کی کچھ اور۔ بچہ کس کی مانے‘ اس کے لیے تو دونوں برابر ہیں۔ ایسا بچہ اپنی منزل کا تعین کس طرح کرے گا جس کے سامنے ابھی غلط اور صحیح کی گتھی ہی نہیں سلجھی۔ اس طرح کے اکثر بچوں میں قوتِ فیصلہ کی سخت کمی ہوتی ہے اور واقعے کو سمجھنے میں انھیں دشواری رہتی ہے۔ بعض بچے والدین کی اس کمزوری کو بھانپ لیتے ہیں اور اس کمزوری سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ والدین سے الگ الگ اپنی باتیں منواتے ہیں لہٰذا حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ باہمی اختلاف کو محسوس کرتے ہی خاموشی اختیار کرلی جائے۔ بچے کے سامنے اس کا اظہار نہ کیا جائے اور باہمی معاملات کو طے کرنے کے لیے ہفتے میں کم از کم ایک دن ایسا رکھا جائے جس میں گفتگو کے ذریعے ایک نتیجے پر پہنچا جائے۔

اس کے لیے چھٹی کے دن نمازِ فجر کے بعد کا وقت نہایت موزوں رہتا ہے۔ عموماً اس وقت بچے سو رہے ہوتے ہیں۔ دورانِ گفتگو اگر کوئی بدمزگی ہو بھی جائے تو بچے اُس سے متاثر نہیں ہوتے۔ بچوں کے سامنے اپنے آپ کو ایک راے والا بناکر پیش کریں۔ یاد رکھیے‘ بچے والدین کے درمیان اعتماد اور پیارو محبت کا سلوک دیکھ کر اپنے اندر محفوظ ہونے کی ایک عجیب کیفیت محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے اکثر گھرانوں میں خواتین کو دباکر رکھنے کا رجحان ہے۔ بچے قدرتی طور پر ماں سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ کیا ایسے بچوں سے کسی مضبوط شخصیت کی توقع کی جاسکتی ہے جس کے باپ بات بات پر ماں کو طلاق کی یا چھوٹی چھوٹی باتوں سے گھبرا کر گھر سے بھاگ جانے کی دھمکیاں دیتے ہوں۔ یہ دھمکیاں ان کے ننھے ننھے دلوں کو ہرلمحہ لرزاتی رہتی ہیں۔ ’’کہیں یہ ہمیں چھوڑ کر نہ چلے جائیں‘‘ یہ خوف ان کے شعور اور لاشعور کی دنیا کو تباہ کردیتا ہے۔

اگر کسی وقت محسوس کریں کہ آپ کے مقابلے میں آپ کی بیوی کا موقف زیادہ وزنی ہے تو بلاتامل اُس کی بات چلنے دیں۔ زبردستی اپنی بے تکی راے جمانے والے باپ بڑی جلدی اپنی حیثیت متاثر کرلیتے ہیں‘ خاص کر جب اولاد بڑی ہوکر صحیح اور غلط کو سمجھنے کی اہل ہوجائے۔

اپنی بیوی کی بیماری یا مصروفیت کے دوران روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے کام اپنے ہاتھ سے کرلینے کو اپنی شان کے خلاف نہ سمجھیے۔ اس طرح بچہ نہ صرف اپنی ماں بلکہ ضرورت پڑنے پر آپ کی مصروفیت کو بھی اہم جانے گا۔ اس طرح بچوں میں ایسے حالات میں باہمی مدد کا جذبہ بھی پیدا ہوگا اور وہ یہ بھی سیکھیں گے کہ ’’جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔ اللہ سے ڈرو‘ اس کی سزا بہت سخت ہے‘‘۔(المائدہ ۵:۲)

ہمارے نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے گھروالوں کے ساتھ اچھا برتائو کرتا ہو اور میں اپنے گھروالوں کے ساتھ تم سب سے بہتر برتائو کرتا ہوں‘‘ (ابن ماجہ‘ حاکم)۔ حدیث کا آخری حصہ ظاہر کرتاہے کہ سیرتِ طیبہ کا مطالعہ ایک مسلمان کے لیے بہترین رہنمائی ہے۔

بچہ اور باپ کی دعا

شادی کے مقدس بندھن کے بعد نیک اور صالح اولاد کے لیے اللہ سے دعا کرنا چاہیے۔ ’’میرے رب! تواپنے پاس سے مجھے پاک باز اولاد عطا فرما‘بے شک تو دعا کا سننے والا ہے‘‘۔  (اٰل عمرٰن ۳:۳۸) ۔جب اللہ تعالیٰ یہ نعمت عطا فرما دیں تو بچے کی پرورش میں جہاں وہ تمام امور ضروری ہیں جن کا ابھی تک ذکر ہوا‘ وہاں قدم قدم پر اُسے باپ اور اُس کی دعائوں کی ضرورت پیش آئے گی۔ اپنی بھرپور عملی کوششوں کے ساتھ ساتھ بچے کے لیے دعا بھی کرتے رہیے۔ یہ دعائیں صرف حال کے لیے نہیں بلکہ اس کے مستقبل اور پھر مستقبل بعید کے لیے بھی ہوں۔ انسان کی زندگی کا کوئی بھروسا نہیں۔ اللہ نے آپ کو ’آج‘ دیا ہے‘ اس میں اپنے بچے کے ’آج اورکل‘ کے لیے دعا کریں۔ اگر آپ کا بچہ ۳‘۴ سال کا ہے تو اس کی معاش اور پھر شادی شدہ زندگی کے مراحل جیسے دُور کے کام آپ کے ذہن میں نہیں آتے‘ مگر نہیں‘ بچے کے ہردَور کے لیے دعاکریں۔ حضرت عبداللہ بن مبارک جیسے بزرگ کا دل والدین کی شبانہ روز دعائوں سے ہی پلٹا تھا۔ قرآن پاک اس ضمن میں ایک مسلمان کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ چنانچہ دیکھیے سورۂ فرقان (۲۵:۷۴): ’’اے ہمارے رب! ہمیں ہمارے جوڑوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا‘‘۔ حضرات غور کریں آپ کی ذریت کون ہے؟؟ آپ کے بچے اور پھر ان کی اولادیں… سورئہ ابراہیم (۱۴:۳۵) میں ہے: ’’اور جب ابراہیم ؑنے دعا کی پروردگار! اس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا‘‘۔ اسی سورہ میں آیت ۴۰ میں ہے: ’’اے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی۔ بے شک تو دعا قبول کرنے والا ہے‘‘۔ (ابراہیم ۱۴:۴۰)

یہی نہیں اپنے بچے کو بھی اپنے لیے دعا کرنا سکھایئے۔ یہ بھی اسلامی تربیت کا حصہ ہے۔ رسولؐ اللہ کا فرمان ہے کہ ’’جب کوئی آدمی مرجاتاہے تو اس کے عمل کی مہلت ختم ہوجاتی ہے۔ صرف تین چیزیں مرنے کے بعد بھی فائدہ پہنچاتی ہیں: ایک صدقۂ جاریہ‘ دوسرے اس کا پھیلایا ہوا وہ علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں‘ تیسرے وہ صالح اولاد جو اس کے لیے دعاے مغفرت کرتی رہے‘‘(آدابِ زندگی، یوسف اصلاحی‘ ص ۱۹۹)۔’’اوردعا کرو پروردگار ان دونوں پر رحم فرما جس طرح بچپن میں انھوں نے میری پرورش کی‘‘(بنی اسرائیل ۱۷: ۲۴)۔ اس کے علاوہ سورئہ نوح آیت ۲۸ اور سورئہ ابراہیم آیت ۴۱ میں اولاد کو اپنے والدین کے لیے بہترین انداز سے دعا کی ترغیب دلائی گئی ہے۔

اولاد کے لیے والدین اور والدین کے لیے اولاد دنیا کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ پس ہرکسی کو اس معاملے میں اللہ رب العزت کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ قرآن ہمیں ایسی جامع دعائیں سکھاتا ہے جن کے ذریعے ہم نیک و صالح اولاد کے لیے شکرگزاری بجا لاسکتے ہیں۔ شکرگزاری کا لازمی نتیجہ برکت ہے۔ ’’شکر ہے اُس خدا کا جس نے مجھے اس بڑھاپے میںاسماعیل اور اسحاق جیسے بیٹے دیے۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا رب ضرور دعا سنتا ہے‘‘۔(ابراہیم ۱۴:۳۹)

اسی طرح اولاد بھی ہرلمحہ والدین کے احسان یاد کرکے ان کے لیے دعاگو رہے۔ ’’اے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اُن نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو  عطا کیں اور ایسا نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہوجا۔ اور میری اولاد کو بھی نیک بنا کہ مجھے سکھ دے۔ میں ترے حضور توبہ کرتا ہوں اور تابع فرمان (مسلم) بندوں میں سے ہوں‘‘۔ (احقاف ۴۶:۱۵)

تمام گفتگو کا حاصل یہ ہوا کہ کمزوریوں سے زیادہ سے زیادہ پاک گھرانہ ہی وہ ادارہ ہے جہاں صحت مند شخصیت کی نشوونما ممکن ہے۔ بطور سربراہِ خانہ اپنے اہل و عیال کو اپنے لیے    صدقۂ جاریہ بنائیں۔ غالباً آپ کا معاملہ کچھ یوں ہے: حیثیت بڑی‘ ذمہ داریاں زیادہ‘ جواب دہی سخت۔

آیئے آخر میں مختصراً کچھ باتوں کا جائزہ لیں اور دیکھیں ہم نے اِس بھاری ذمہ داری کی جواب دہی کے لیے کتنی تیاری کی:

                ۱-  اپنے اہلِ خانہ سے گفتگو کے دوران آپ کا لہجہ ویسا ہی میٹھا اور نرم ہے جتنا باہر لوگوں سے گفتگو کے وقت تھا؟

                ۲-  آپ ان کی راے پر بھی اعتماد کرتے ہیں یا بس اپنی چلاتے رہتے ہیں؟

                ۳- کبھی آپ کو اپنی کمزوریاں بھی نظر آئیں یاقصور اکثراہلِ خانہ ہی کا ہوتا ہے؟

                ۴-  کمزوری سب میں ہوتی ہے۔ اس کی نشان دہی پر اُسے دور کرنے کی کوشش کی یا ___ آپ تو قبیلے کے سردار ہیں‘ سب کچھ چلے گا‘ والا معاملہ ہے۔

                ۵-  کیا واقعی آپ کی گھر میں موجودگی اہلِ خانہ کے لیے خوشی کا باعث ہے یا یہ صرف  آپ کا خیال ہے؟

                اللہ تعالیٰ سے استقامت کی دعا کرتے ہوئے سچائی سے ان سوالات کا جواب تلاش کیجیے۔

 

اللہ تعالیٰ کا بے شمار شکر و احسان ہے کہ اس نے ہمیں رمضان المبارک کو پانے کا موقع  عطا فرمایا اور اس میں مقدور بھر نیکی کمانے اور روزے کے اجر و ثواب حاصل کرنے کی توفیق عطافرمائی۔ مبارک باد کے مستحق ہیں وہ سب روزہ دار جنھوں نے قرآن پاک سے منسوب اس  ماہ مبارک میںقرآن کا فہم حاصل کرنے کی کوشش بھی کی۔ روزہ داروں کی کوششوں کواللہ تعالیٰ رحمت خاص سے نوازتا ہے اور قرآن پاک پانے والوں کی خوشیوں میں ایک اور اضافہ عیدالفطر کا دن ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہرقوم کے لیے عید اور خوشی کے دن ہیںاور آج‘ یعنی اختتام رمضان پر ہماری عید کا دن ہے‘‘۔ نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو فرمایا: ’’تم سال میں دو دن خوشی منایا کرتے تھے۔ اب خدا نے تم کو ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں‘ یعنی ’’عیدالفطر اور عیدالاضحی‘‘۔

  • شبِ عید: عیدالفطر کی رات کو فرشتوں میں بوجہ خوشی کے دھوم مچ جاتی ہے اور    اللہ رب العزت ان پر جلوہ فرماتے ہوئے دریافت کرتے ہیں کہ بتائو‘ مزدور اپنی مزدوری پوری کرچکے تو اس کی جزا کیا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ اسے پوری پوری اُجرت ملنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’فرشتو! تم گواہ رہو میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ داروں کو بخش دیا اور ان کے لیے جنت واجب کردی‘ اسی لیے اس رات کا نام فرشتوں میں لَیْلَۃُ الْجَائِزَۃِ  یعنی ’انعام کی رات‘ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو دونوں عیدوں کی شب بیداری کرے گا‘ نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ تو اس بندے کا دل نہیں مرے گا‘ جس دن اوروں کے دل مُردہ ہوجائیں گے (ابن ماجہ)۔ ایک اور موقع پر آپؐ نے فرمایا: ’’جو ان پانچ راتوں کو جاگے گا تو اس کے لیے جنت واجب ہوجائے گی: ۱- ذی الحجہ کی آٹھویں رات ۲- ذی الحجہ کی نویں رات ۳- ذی الحجہ کی دسویں رات ۴-عیدالفطر کی رات ۵- شعبان کی پندرھویں رات۔

  • چاند رات: ہمارے معاشرے میں ایک خاص قسم کا تاثر رکھتی ہے جس میں خوشی و مسرت اور دوستوں‘ رشتہ داروں کی ملاقاتوں پر دلی خوشی کا احساس پایا جاتا ہے۔ وہ رات جس کو ’انعام کی رات‘ کا نام دیا گیا وہ گھروں‘ بازاروں میں ’قید سے نجات‘ کا تاثردیتی ہے۔ لگتا ہے وہ تمام جکڑے ہوئے شیطان اپنے لائولشکر اور تمام تر ہتھیاروں‘ چال بازیوں کے ساتھ مسلمانوں کے گھروں‘ محلوں‘ بازاروں پر پل پڑتے ہیں۔ عید کا چاند نظر آتے ہی نہ ذہن وہ جگمگاتے ہوئے لگتے ہیں نہ دلوں میں وہ نور کا سماں ہوتا ہے۔

الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا فحاشی و بے حیائی کے علم بردار بن کر سامنے آتا ہے۔ گویا کہ شیطان کی فوجیں حملہ کرنے کو تیار بیٹھی تھیں۔ اوراب ذہنوں‘ دلوں اور نظروں کو گندگی اور نجس میں مبتلا کرنے کا حکم آگیا۔ کتنے نادان ہیں ہم کہ سارا ماہِ مبارک جتنی مزدوری کی وہ ضائع کردی۔ بازاروں میں شیطان خوب کھیل کھیلتا ہے۔ مردوں اور عورتوں سے حیا‘ پاکیزگی‘ حرمت‘ غیرت دبے پائوں رخصت ہوجاتی ہے۔ چاند رات میں بازاروں کی رونق دیکھنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ مسلمانوں میں رمضان المبارک کے کچھ اثرات رہ گئے ہیں۔

ہم سب کو اپنے معمولات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم ان مقدس ساعات میں کہاں اور کیا کرنے میں مصروف ہوں گے‘ جب اللہ رب العزت روزہ داروں میں اپنی رحمت خاص سے انعامات تقسیم فرما رہے ہوں گے۔ کیا ہم دنیا کی چیزوں کی طلب میں اخروی انعام کو بھول جاتے ہیں؟ کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نظرعنایت اور خصوصی انعام کی اہمیت نہیں ہے؟ عید کی تیاری کے سب مراحل اگر پہلے پورے کرلیے جائیں تواس مقدس‘ عظیم رات کے ایک ایک لمحے سے بخوبی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

  • عید کا دن: ترغیب منذری میں درج ہے کہ: ’’عید کی صبح کو اللہ تعالیٰ بہت سارے فرشتوں کو شہروں میں بھیجتا ہے۔ وہ گلی کوچوں‘ راستوں میں کھڑے ہوکر پکارتے ہیں جن کی پکار کو انسان اور جنات کے علاوہ سب سنتے ہیں۔ فرشتے کہتے ہیں: اے اُمت محمدیہ کے لوگو! تم اپنے رب کریم کی طرف نکلو‘ جو بہت انعام دیتا ہے اور بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ جب روزے دار عیدگاہ میں پہنچ جاتے ہیں توا للہ تعالیٰ ان فرشتوں سے فرماتا ہے: ان مزدوروں کا کیا بدلہ ہونا چاہیے جنھوں نے اپنے کام احسن طریقے سے انجام دے دیے ہیں؟ فرشتے جواب دیتے ہیں: اے ہمارے آقا! ان کا بدلہ یہی ہے کہ ان کی پوری پوری مزدوری دے دی جائے۔

اللہ تعالیٰ فرماتاہے: اے فرشتو! تم گواہ رہو ان کے رمضان کے روزے اور نماز کی وجہ سے میں ان سے خوش ہوگیا اور ان کو بخش دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے میرے بندو! تم مجھ سے مانگو میںاپنی عزت اور جلال کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اس اجتماع میں دنیا و آخرت کی جو کچھ بھی بھلائی مجھ سے مانگو گے میں دوں گا اور تمھارا خصوصی خیال رکھوں گا‘ اور جب تک میری ناراضی سے ڈرتے رہو گے تمھاری خطائوں اور لغزشوں سے درگزر کرتا رہوں گا اورمجھے اپنی عزت و بزرگی کی قسم ہے! نہ تمھیں رسوا اور ذلیل کروں گا اور نہ مجرمین کے سامنے تمھاری رسوائی ہونے دوں گا۔ تم سب کو   میں نے معاف کردیا۔ تم نے مجھے راضی کرنے کی کوشش کی‘ میں تم سے راضی ہوگیا۔ یہ اعلان اور انعامِ بخشش سن کر فرشتے جھوم اُٹھتے ہیں اور مومنین کی کامیابی پر جشن مناتے ہیں‘‘۔

حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زکوٰۃ الفطر فرض ہے جو لوگوں کو ان گناہوں سے پاک کرے گا جو رمضان میں روزے کے ساتھ دانستہ یا نادانستہ سرزد ہوئے۔ جو نماز عید سے قبل ادا کرے گا اس کی زکوٰۃ الفطر قبول ہوگی۔ جو عید کی نماز کے بعد ادا کرے گا تو اسے صدقہ و خیرات کا ثواب مل جائے گا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کے گلی کوچوں میں ایک آدمی بھیج کر یہ اعلان کرایا کہ: ’’آگاہ ہوجائو‘ صدقہ فطر ہر مسلمان مرد‘ عورت‘ آزاد‘ غلام چھوٹے بڑے پر واجب ہے‘‘۔ (ترمذی)

جو لوگ زکوٰۃ لینے کے مستحق ہیں وہ صدقہ فطر لینے کے بھی مستحق ہیں۔ گھر کا سربراہ اپنے گھر کے ہر فرد کی جانب سے صدقہ فطر ادا کرے‘ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ بچہ اگر ایک دن کا بھی ہو تب بھی صدقہ فطر دینا ہوگا۔

عید کی صبح اُٹھ کر روز مرہ کی ضروریات سے فارغ ہو کر عید کی نماز کے لیے تیاری کرنا واجب ہے۔ اگر اس دن حسبِ عادت رمضان المبارک کی طرح سحری کے وقت اُٹھے اور نماز تہجد  ادا کرے‘ اپنے رب سے مزدوری لینے کی رات اور ان مبارک ساعات کواپنے لیے توشۂ آخرت بناسکتا ہے۔ شب ِ عید کی بہت فضیلت ہے۔ جو عید کی رات جاگ کر عبادت کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اور قیامت کے دن اس کا دل زندہ رہے گا۔

شب ِعید کو آج ہمارے گھر‘ گلیاں اور بازار جو نقشہ پیش کرتے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں محاسبۂ نفس کی اشد ضرورت ہے۔ مزدور اپنی مزدوری لینے کے بجاے شیطانی مشغولیات سے دلوں کو مُردہ کر رہے ہوتے ہیں‘ اور وہ تمام اجر و ثواب جو پورے رمضان المبارک میں سمیٹا ہوتا ہے‘ ضائع ہوجاتا ہے۔

عید کی نماز سے پہلے میٹھی چیز کھاکر گھر سے روانہ ہونا سنت ِ نبویؐ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طاق عدد عموماً سات کھجوریں کھا کر گھر سے عید کے لیے روانہ ہوتے تھے۔ (طبرانی)

عیدگاہ پیدل جانا احسن ہے بوجہ عذر سواری پر جانا بھی جائزہے۔ (ترمذی)

مرد ‘ خواتین‘ بچے‘ سب عیدگاہ جائیں۔ اس نماز کو شہر سے باہر ادا کرنا سنت ہے۔ بلاعذر شرعی اس نماز کو شہر میں پڑھ لینا خلافِ سنت ہے۔ سارے شہر کی گلی کوچوں اور راستوں سے مسلمان اپنے رب کی کبریائی کا اعلان کرتے ہوئے ایک کھلے میدان میں جمع ہوتے ہیں۔ سب قوموں کے تہوار ہوتے ہیں اور بالعموم وہ اپنے تہوار مناتے وقت کھیل تماشے‘ پینے پلانے اور ناچ گانے وغیرہ میں کھوجاتی ہیں۔ مسلمانوں کے تہوار اپنے رب کی حمدوثنا سے شروع ہوتے ہیں اور جائز حدود میں سیروتفریح‘ کھیل کود‘ میل جول‘ کھانے پکانے‘ دعوتِ طعام کے ساتھ جاری رہتے ہیں۔ غرض‘ اسلام کی بنیادی باتوں سے کسی بھی موقع پر صرفِ نظر نہیں کیا جاتا۔ ایسی حرکات جو انسانوں کو حیوانوں کے درجے پر لے آئیں قطعی منع ہیں۔ مومنوں کا اپنی افرادی قوت کا مظاہرہ کرنا بھی خوشی کے موقع پر جائز ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گروہ کی شکل میں عیدگاہ کی طرف جانے اور بلند آواز سے تکبیر پڑھنے کی تلقین کی اور یہ کہ ایک راستے سے جائو تو واپسی پر دوسرے راستے سے آئو۔

  • نمازِ عید اور خواتین: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام گھر والے جشن عید منانے اور خوشی و مسرت کے موقع پر عیدگاہ میں حاضر ہوں۔ آپؐ نے مزید تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر کسی عورت کے پاس چادر (برقعہ) نہ ہو تو کوئی دوسری عورت اپنی چادر میںاس کو لے جائے (بخاری‘ مسلم)۔ جو عورت عذر شرعی کی بنا پر نماز کے لیے نہ جاسکتی ہو‘ اس کو بھی ساتھ لے جانے کا حکم ہے۔ وہ بھی مسلمانوں کے اس خوشیوں بھرے میلے میں ضرور شریک ہو۔

عید کے دن بیش تر گھرانوں میں خواتین کو عیدگاہ لے جانے کا رجحان نہیں پایا جاتا۔ ان کو اس طرف ضرور توجہ دینی چاہیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کی کتنی تاکید کی ہے۔ رحمتوں اور بخششوں کی اس دولت سے خواتین کیوں محروم رہیں جو نمازِعید اوراجتماع عید پر اللہ کی طرف سے خصوصی طور پر نچھاور ہوتی ہے۔ تاہم اس بات کا خصوصی خیال کیاجائے کہ خواتین باپردہ ہوں اور بنائو سنگھار‘ زیور پہننے کے معاملے میں احتیاط برتیں۔ پردہ فرض عبادت ہے۔ اس سے روگردانی حکم الٰہی کی صریح نافرمانی ہے۔ گھر میں محرم مردوں کے سامنے عید کا بنائو سنگھار وغیرہ احسن طریقہ ہے۔ اجتماع عید میں نیا لباس سنت ہے۔ خوشبو بھی وہ ہونی چاہیے جو رنگت میں نمایاں ہو۔

نبی کریمؐ نے فرمایا ہے کہ نماز کے بعد امام اپنی جگہ پر کھڑا ہو کر لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر خطبہ دے اور ہرشخص باادب ہوکر خطبہ سنے۔ اگر عورتوں تک امام کی آواز نہ پہنچتی ہو تو امام الگ انھیں دوبارہ خطبہ سنائے (بخاری و مسلم)۔ اس تاکید سے خواتین کا عیدگاہ میں حاضر ہونے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔

  • عید، شعائر اسلام: جمعہ کی طرح عید بھی شعائر اسلام ہے۔ اس کا احترام اور اس کے تقاضے سنت ِ نبویؐ کے مطابق پورا کرنا ہر مومن‘ مرد عورت اور بچے پر واجب ہے۔

عید کے دن نماز سے پہلے گھر سے روانہ ہونے سے لے کر (تمام راستے) اور نماز کھڑی ہونے تک زیادہ سے زیادہ تکبیریں پڑھنا چاہییں۔ ساری فضا ایک نورانی احساس اور پاکیزہ جذبے سے معمور ہوجائے اور دشتِ و جبل نامِ حق سے گونج اُٹھے۔

عید کے دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کو پڑھاکرتے تھے:

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ عِیْشَۃً نَّقِیَّۃً وَّمِیْتَۃً سَوِیَّۃً وَّمَرَدًّا غَیْرَ مَخْزِیٍّ وَّلَا فَاضِحٍ … اَللّٰھُمَّ لَا تُھْلِکْنَا فُجَآئَ ۃً وَلَا تَاْخُذْنَا بَغَتَۃً وَلَا تَعْجَلْ عَنْ حَقٍّ وَّلَا وَصِیَّۃٍ … اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ الْعَفَافَ وَالْغِنٰی وَالْبَقَـآئَ وَالْھُدٰی وَحُسْنَ عَاقِبَۃِ الْاٰخِرَۃِ وَالدُّنْیَا وَنَعُوْذُبِکَ مِنَ الشَّکِّ وَالشِّقَاقِ وَالرِّیَائِ وَالسَّمْعَۃِ فِیْ دِیْنِکَ - یَامُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّاب o

خدایا! ہم تجھ سے پاک و صاف زندگی اور ایسی ہی عمدہ موت طلب کرتے ہیں۔ خدایا! ہمارا لوٹنا ذلت و رسوائی کا نہ ہو۔ خدایا! ہمیں اچانک ہلاک نہ کرنا‘ نہ اچانک پکڑنا اور نہ ایسا کرنا کہ ہم حق ادا کرنے اور وصیت کرنے سے بھی رہ جائیں۔ خدایا! ہم تجھ سے حرام سے اور دوسروں کے سامنے سوال بننے کی فضیحت سے بچنے کی دعا کرتے ہیں۔ اے اللہ‘ ہم تجھ سے پاکیزہ زندگی‘ نفس کا غنٰی‘ بقا‘ ہدایت و کامیابی اور دنیا و آخرت کے انجام کی بہتری طلب کرتے ہیں۔ اے ہمارے رب‘ ہم شکوک و شبہات اور آپس میں نفاق‘ ریا‘ بناوٹ اور دین کے کاموں میں دکھاوے کے عمل سے پناہ چاہتے ہیں۔  اے دلوں کے پھیرنے والے رب! ہمارے دل ہدایت کی طرف پھیرنے کے بعد ٹیڑھے نہ کرنااور ہمیں اپنی طرف سے خاص رحمت عطا فرمانا۔ بے شک تو سب کچھ دینے والا ہے۔

اسلامی تہواروں میں نہ شراب و قمار ہے نہ لہو و لعب اور نہ انسانیت سوز نظارے بلکہ خاکساری و خشیت الٰہی کے جلوے ہیں۔ ایثار و مساوات کے مجسمے اور ہمدردی و غم خواری کے نمونے ہیں۔ اتحاد و اتفاق کی جیتی جاگتی عملی تصویرنظرآتی ہے۔ مسلمانوں کی عیدوں میں نہ کھیل تماشا ہے نہ وقت کے ضیاع کا کوئی عمل‘ بلکہ ان خوشی کے دنوں میں بھی عبادتِ الٰہی اور ذکر و تسبیح و تہلیل ہے۔ مومن اپنی دنیا کی آسایشوں کے بجاے آخرت کے لیے ہرلمحہ فکرمند رہتا ہے۔ اسی لیے عید کی تیاریوں میں مگن ہوکر ایسا ہوش و خرد سے بے بہرہ نہیں ہوجاتا کہ فرائض کی بجاآوری تک بھول جائے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ شب عید‘ شاپنگ‘ مہندی‘ چوڑیوں‘ سلائیوں اور میچنگ کی فکر میں گزر جاتی ہے اور نمازفجر سے غفلت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ یہ گھڑیاں رب کی رضا کے حصول کی خصوصی گھڑیاں ہیں‘ اور تحائف خصوصاً عید کارڈز کا انتخاب تو ایمان کا امتحان ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو کارڈز اور ٹی وی‘ ویڈیو‘ سی ڈی کے ذریعے فحاشی پھیلاتے ہیں اور جو لوگ ان کو خرید کر فحاشی پھیلانے میں ممدومعاون بنتے ہیں‘ سب کے لیے دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی مقدر ہے۔ یہ قرآن کا صریح حکم ہے۔

  • عید اور فکرِ آخرت: عید کی حقیقی خوشیوںکو محض دنیاوی خوشیوں کا محور نہیں جاننا چاہیے بلکہ توشۂ آخرت پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ مومن کی پانچ عیدیں ہیں:

۱- جس دن گناہ سے محفوظ رہے اور کوئی گناہ سرزد نہ ہو۔

۲-جس دن دنیا سے اپنا ایمان سلامت لے جائے اس کی وہ عید ہے۔

۳- جس دن وزخ کے پُل سے سلامتی کے ساتھ گزر جائے۔

۴- جس دن دوزخ سے بچ کر جنت میں داخل ہوجائے۔

۵- جس دن اپنے رب کی رضا کو پالے اور اس کے دیدار سے اپنی آنکھیں روشن کرے وہ عید کا دن ہے۔

حضرت علیؓ کوکسی نے عید کے دن دیکھا کہ آپ خشک روٹی کھا رہے ہیں۔ دیکھنے والے نے کہا: اے ابوترابؓ! آج عید ہے۔ آپؓ نے فرمایا: ہماری عید اس دن ہے جس دن کوئی گناہ نہ کیا ہو۔

وہب بن منبہؓ کو کسی نے عید کے دن روتے دیکھا تو کہا: آج تو مسرت و شادمانی کا دن ہے۔ حضرت وہبؓ نے فرمایا: یہ خوشی کادن اس کے لیے ہے جس کے روزے مقبول ہوگئے۔

حضرت شبلیؒ نے عید کے دن لوگوں کو کھیل کود میں مشغول دیکھ کر فرمایا: لوگ عید میں مشغول ہوکر وعید کو بھول گئے۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ عید کے آداب و فضائل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

عید ان کی نہیں جنھوں نے عمدہ لباس سے اپنے آپ کو آراستہ کیا۔ عید توان کی ہے جو خدا کی وعید اور پکڑ سے بچ گئے۔

عید ان کی نہیں جنھوں نے آج بہت سی خوشبوؤں کا استعمال کیا‘ عید تو ان لوگوںکی ہے جنھوں نے گناہوں سے توبہ کی اور اس پر قائم رہے۔

عید ان لوگوں کی نہیں جنھوں نے بڑی بڑی دیگیں چڑھا دیں اور بہت سے کھانے پکائے‘ عید تو ان کی ہے جنھوں نے حتی الامکان نیک بننے کی کوشش کی اور نیک بنے رہنے کا عہد کیا۔

عید ان کی نہیں جو دنیاوی زینت کے ساتھ نکلے‘ عید تو ان کی ہے جنھوں نے تقویٰ و پرہیزگاری کو زادِ راہ بنایا۔

عید ان کی نہیں جنھوں نے عمدہ عمدہ سواریوں پر سواری کی‘ عید توان کی ہے جنھوں نے گناہوں کو ترک کر دیا۔

عید ان کی نہیں جنھوں نے اعلیٰ درجے کے فرش سے (قالینوں سے) اپنے مکانوں کو آراستہ کرلیا‘ عید تو ان کی ہے جو دوزخ کے پُل سے گزر گئے۔

عید ان کی نہیں جو کھانے پینے میں مشغول ہوگئے‘ عید ان لوگوں کی ہے جنھوں نے اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کیا۔

اللہ رب العزت اُمت مسلمہ کوحقیقی عید سے ہم کنار فرمائے۔ آمین!

بچوں کی تربیت کے حوالے سے جب بات ہوتی ہے تو عموماً والدین پر آکر ختم ہوجاتی ہے‘ جب کہ ان کی تربیت میں دوسرے رشتے داروں کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہوتا ہے۔ یہ حصہ یہ رشتہ دار غیرشعوری طور پر ادا کرتے ہیں۔ دادا دادی اور نانا نانی کا اپنا ایک کردار ہوتا ہے۔ انھیں ہم   ’بزرگ والدین‘کہہ سکتے ہیں۔ یہ تربیت میں اپنے حالات کے لحاظ سے کچھ نہ کچھ کردار ضرور    ادا کرتے ہیں‘ لیکن اس کی ضرورت ہے کہ یہ کردار شعوری طور پر ادا کیا جائے اور ’بزرگ والدین‘ اس باب میں اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں کہ اپنے بچوں کی تربیت اور پرورش کے بعد اب انھیں اپنے بچوں کے بچوں کی بھی تربیت میں حصہ لینا ہے۔

ان بنیادی رشتوں کا کیا کردار ہو؟موجودہ طرزِ معاشرت اور ترجیحات کی تبدیلی نے ان کا کردار وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ کمزور کر دیا ہے۔ ان رجحانات کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے ’بزرگ والدین‘ کا کردار متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ اسلامی تہذیب میں یہ رشتے ’شجرسایہ دار‘ کی حیثیت سے مستحکم و مضبوط مقام رکھتے ہیں۔ اسی مقام کی پاس داری ہمارا مطمح نظر ہے۔ بچے جنت کے پھول‘ گھر کی رونق اور زندگی میں رعنائیوں کے پیام بر ہوتے ہیں۔ والدین کے لیے ان کے قہقہے‘ معصوم باتیں‘ سکون اور اطمینان کا باعث بنتے ہیں‘ جب کہ دادا دادی‘ نانا نانی کے لیے ان کا والہانہ تعلق ماضی کی حسین یادوں سے وابستہ رکھنے کا سبب بنتا ہے    ؎

اگر کوئی شعیب آئے میسر

شبانی سے کلیمی دو قدم ہے

اس کے مصداق ’مستقبل کے والدین‘ کہلانے والے ان بچوں کو مناسب تربیت اور توجہ مل جائے تو تعمیرملت کا سامان کر کے نئی تاریخ رقم کرتے ہیں۔ بصورتِ دیگر یہی بچے‘ خاندان اور ملک و ملت کے لیے کلنک کا ٹیکہ بن جاتے ہیں۔

آج سے کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے جب فارغ اوقات میں اور بالخصوص شام کے سائے پھیلتے ہی بچے آج کی طرح ٹیلی ویژن‘ کیبل یا انٹرنیٹ سے دل بہلانے کے بجاے دادا دادی‘   نانا نانی کے پاس جمع ہو جاتے اور ان سے پرستان کی پریوں اور کوہ قاف کی حیرت انگیز شہزادیوں کے بارے میں کہانیاں سنا کرتے تھے جن کا اختتام ہمیشہ کسی اخلاقی قدر سے وابستہ ہوتا تھا۔   الف لیلیٰ‘ راجا رانی‘ ٹارزن‘ عمروعیار‘ حاتم طائی کی کہانیاں بچوں کو کچھ نہ کچھ سبق دے کر ہی ختم ہوتیں۔ اسی طرح تاریخِ اسلام کے سچے واقعات‘ صحابہ و صحابیات رضوان اللہ علیہم کی روشن مثالیں دے کر بچوں کو نیک اور صالح فطرت سے قریب تر رکھا جاتا۔ غرض‘ ہر گھر میں اپنی علمی استعداد کے مطابق اور ماحول کے پیش نظر بچوں سے ذہنی‘ قلبی اور جسمانی قرب و تعلق بزرگوں کے ساتھ قائم رہتا تھا۔ دین دار گھرانوں میں نماز‘ چھوٹی سورتیں‘ دعائیں یاد کروانا انھی ’بزرگ والدین‘ کا کام ہوتا تھا۔ لیکن آج یہ سب کچھ ایک خواب بن چکا ہے۔ غربت‘ جہالت‘ بے شمار مصروفیات اور مشینی زندگی نے ہماری معاشرتی اور سماجی زندگی کے حُسن کو گہنا دیا ہے۔ ’بزرگ والدین‘ کی حکیمانہ باتیں اور دادی‘نانی کی لوریاں پس پردہ چلی گئی ہیں۔ ٹی وی‘ انٹرنیٹ اور کیبل کی آمد نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔

’بزرگ والدین‘ تنہائی کا شکار ہیں۔ معمولاتِ زندگی سے عملی طور پر معطل ہوجانے کا احساس ان کو نفسیاتی و جسمانی عوارض میں مبتلا کر رہا ہے۔ بچوں کے والدین دن بھر گھر سے باہر رہنے کے بعد تھکے ہارے گھروں کو لوٹتے ہیں تو وہ بھی انٹرنیٹ اور کیبل میں راحت کا سامان تلاش کرتے ہیں‘ یا پھر دیگر سرگرمیاں یا ذمہ داریاں ان کو گھریلو ماحول سے دُور رکھتی ہیں۔ بچوں پہ   ہوم ورک‘ ٹیوشن‘ نصابی کتب کا بوجھ اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ وہ گھر کے افراد میں مل جل کر بیٹھنے اور کچھ کہنے سننے کی حسرت دل میں لیے سو جاتے ہیں اور موجودہ دور کا المیہ ایک تلخ حقیقت بن کر سامنے آرہا ہے کہ والدین اور اولاد میں خلیج تیزی سے وسیع ہوتی جارہی ہے۔ (اس میں والدین کا ’بزرگ والدین‘ کے ساتھ اور بچوں کا اپنے والدین کے ساتھ) ترجیحات کے تعین‘ حالات و ماحول اور ذمہ داریوں کے بوجھ کو دیکھا جائے تو والدین کی حالت قابلِ رحم نظر آنے لگتی ہے (قطع نظر اس کے کہ یہ سب کچھ ان کا خودساختہ ہے یا یہ حقیقت میں ذمہ داریوں کا بوجھ ہے)۔ بہرحال ان حالات میں اپنی معاشرتی اور سماجی زندگی کے رکھ رکھائو اور اخلاقی اقدار کی عمارت کو قائم رکھنا ہی ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

’بزرگ والدین‘ (دادا دادی‘ نانا نانی) بننے سے پہلے ایک اہم مرحلہ اور بنیادی رشتہ ’قانونی والدین‘ (ساس‘ سسر) کا ہے۔ قانون ایسی پابندی ہے جسے انسان سزا یا نقصان کے خوف سے نبھاتا ہے یا پھر محبت سے (محبت سے اُسی صورت میں‘ جب کہ انسان کو ہر پہلو سے اُس میں مفاد اور خیرنظرآتا ہو)۔ قانونی رشتے بھی اسی اصول کے تحت جڑے رہتے ہیں ورنہ وہ ٹوٹ جاتے ہیں۔ قانونی (in-law) رشتے کا مغربی تصور انسانوں کو دلی محبت‘ لگائو‘ سمجھوتہ اور ایثار کرنے میں مانع ہے۔ بہت سے الفاظ‘ بہت سے معاملات‘ رشتوں کی چاشنی کا حقیقی حسن غارت کر دیتے ہیں۔ اُردو زبان ان معاملات میں بہت خوب صورت پہلو رکھتی ہے۔ جہاں Grand ‘Uncle ‘ Ant جیسے نامکمل اور بے اثر رشتوں کے بجاے ہر رشتے کی مکمل شخصیت کا ادراک‘ فہم اور قدرومنزلت کا بھرپور اظہار موجود ہے: دادا‘ دادی‘ نانا نانی‘ تایا‘ چچا‘ پھوپھی‘ خالہ‘ ماموں۔ پھر اُس کے ساتھ منجھلے‘ چھوٹے‘ بڑے کا سابقہ لاحقہ رشتے کو مزید پُرتاثیر بنا دیتا ہے۔ اسی طرح سسرالی رشتوں کا تشخص دو خاندانوں کے باہم تعلقات کو نکھار دیتا ہے۔

وَھُوَالَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآئِ بَشَرًا فَجَعَلَہ‘ نَسَبًا وَّصِہْرًاط(الفرقان ۲۵:۵۴)

اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا‘ پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے۔

معاشرے میں سسرال (ساس‘ سسر) کے درجے کو پہنچ جانا‘ خصوصاً کسی لڑکی کا ساس بننا ایک انتہائی اہم معاملہ ہے۔ یہ ایک ایسے دور کا آغاز ہے جہاں نفسیات بدل جاتی ہیں‘ توقعات بڑھ جاتی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاںانسانوں کے اصل روپ‘ اس کی انصاف پسندی‘ باطنی رویے اور اعلیٰ ظرفی کی پہچان ہوتی ہے۔ کسی لڑکی کے سسرال خصوصاً ساس نندوں کا کردار ہی یہ حقیقت متعین کرتا ہے کہ وہ بہو یا بھابی کے ساتھ کس قسم کا سلوک و رویہ رکھ کر اور اُسے کون سا مقام دے کر اپنی آیندہ نسل سے کس قسم کے تعلق کو پروان چڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ کھیتی جہاں سے اپنی فصل حاصل کرنا ہے اس کے ساتھ جذباتی‘ معاشرتی‘ سماجی‘ معاشی روابط کیسے ہیں؟ کیا کچھ لینے کی توقعات وابستہ ہیں اور دینے کے لیے بھی کچھ اخلاقی اقدار مدنظر ہیں یا نہیں؟ گھر کی بہو کو جو ماحول میسر ہے جن خوش گوار یا تلخ حالات کا وہ سامنا کرتی ہے اور جن مختلف طبیعتوں سے اُسے نباہ کرنا پڑتا ہے اور جتنی عزتِ نفس کے ساتھ وہ اپنے بچے کی آبیاری کرتی ہے‘ بچہ ان سب اثرات کو لے کر دنیا میں آتا ہے۔ غرض بہو کو جو عزت‘ محبت‘ شفقت ملنی چاہیے وہ نہ دی جائے تو یہ رویہ اپنی آیندہ نسل پہ سراسر ظلم کرنا ہے۔ یہی وہ شجر ہے جس کی کوکھ سے نام و نسب وابستہ ہے۔ لڑکی کے والدین اور اس کے رشتہ داروں کی ہتک‘ تحقیر اورانھیں کم تر جاننے کا ہندوانہ احساس قابلِ گرفت ہے۔

اسی طرح ہمارے معاشرے میں ’داماد‘ تکبر‘ نخوت‘ نازبرداریاں اٹھوانے والا‘ بیوی کے پیارے رشتوں کو پامال کرنے (الا ماشا اللہ) والی عجیب و غریب شخصیت ہوتی ہے۔ داماد کی حددرجہ اہمیت اور بہو کے بنیادی حقوق کی پامالی‘ یہ افراط و تفریط ہمارے معاشرے میں بہت سے مسائل کی جڑ ہے جس نے بے شمار گھرانوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔

مشترک خاندانی نظام ہو تو بیٹوں کی اولاد کے ساتھ روابط کا سلسلہ پہلے روز سے ہی    براہِ راست شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایک شہر میں مگر علیحدہ گھر میں رہنے والی اولاد ___ دوسرے شہر میں مکین یا پھر بیرون ملک مقیم اولاد کے ساتھ ’بزرگ والدین‘ اپنا تعلق اور ذمہ داریاں کیسے نبھائیں‘ یہ ہمارا اصل موضوع ہے۔

اولاد کہیں بھی مقیم ہو‘ دُور‘ بہت دُور یا نزدیک بہرحال دل کے پاس ہمیشہ رہتی ہے اور رہنی بھی چاہیے۔ مگر محبت کا جب تک اظہار نہ ہو وہ ایک ایسی شے ہے جو ملفوف ہو۔ حجم اور قیمت میں کتنی ہی زیادہ ہو جب تک ظاہر نہ ہو‘ کسی کام کی نہیں۔ محبت کو چھپائے رکھنا اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ ظلم ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اظہار محبت کی تلقین کی ہے۔ لیکن آج کے مشینی دور میں‘ والدین اپنے بچوں کو بھرپور شفقت و محبت نہیں دے پاتے۔ دادا دادی اور نانا نانی کے پاس یہ فرصت کتنی مفید ہے کہ وہ اپنے بچوں کو جس انداز سے محبت نہ دے سکے اب وہ اس کمی کو اپنے بچوں کی اولاد کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں۔

تربیت کے مختلف اسلوب

محبت کے اظہار کے لیے آپ اپنی صوابدید (حالات‘ صحت‘ ماحول‘ فاصلے) کے مطابق تدابیر متعین کرسکتے ہیں اور تعلق بڑھا سکتے ہیں۔

  • براہِ راست تعلق: اظہارِ محبت اور شفقت کے لیے براہ راست تعلق کی حسبِ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں: اسکول لانا اور لے جانا‘ ہوم ورک میں تھوڑی بہت مدد‘ بچوں کے دوستوں سے دل چسپی‘ اسکول کے معمولات پہ خوش دلی سے بات چیت‘ شام کو ہلکی پھلکی تفریح‘ ہفتہ وار مجلس‘ کارکردگی پہ انعام (چاہے معمولی ہی ہو)‘ بچوں کی باتوں کو توجہ سے سننا‘ حوصلہ افزائی‘ شاباشی دینا___ محبت و شفقت کی بنیاد ہیں۔

دوسرے شہر میں رہنے والے بچوں کے ساتھ فون کے ذریعے بات کرنا‘ کوئی دلچسپ بات جو بچے کو یاد رہے‘ گاہے بگاہے ان کو خطوط‘ ای میل‘ تصاویر بھیجنا‘ اور اُن سے خصوصی طور پر خط اپنے ہاتھ کی ڈرائنگ‘ تصویر کا تقاضا کرنا‘ باہم دلوں کو قریب رکھنے کا باعث بنے گا۔ بچوں کے ارسال کردہ خطوط اور اشیا کو امانت سمجھ کر محفوظ رکھیں گے تو بڑے ہونے پر یہی چیزیں لازوال اور سچی خوشی کا باعث بنیں گی۔

  • تحفے تحائف دینا : یہ ایک عظیم الشان عمل ہے جس سے محبتیں پروان چڑھتی ہیں۔ اگر بچے کو لازمی ضرورت کی چیز خرید کر تحفہ میں دی جائے تو سونے پہ سہاگہ ہے‘ خصوصاً وہ چیز جو بچے کے والدین خرید کر دینے کی استعداد نہ رکھتے ہوں۔ بچوں کے ہاتھ میں رقم دینے کے بجاے اسکول / کالج کی لازمی ضرورت کی چیزخرید کر دینا ان کے اور ان کے والدین کے دلوں میں قدرو منزلت بڑھا دے گی۔
  • مشاغل میں دل چسپی: بچوں کے ساتھ مل کر کچھ تخلیقات عمل میں لائی جائیں۔ اگر آپ ترنم کے ساتھ گاسکتے ہوں‘ دستکاری‘ سلائی یا لکڑی کا کوئی ہنر جانتے ہوں تو اپنے ان پیارے بچوں کو ایسے مشاغل سے روشناس کرایئے۔ اس طرح کے مشاغل میں بچوں کو شریک کرنے سے ان کی شخصیت پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ شخصیت کی تعمیر میں آپ کا یہ ہنر یادگار حیثیت اختیار کرجائے گا۔ قریب رہنے والے‘ بیرون شہر یا بیرونِ ملک رہنے والے بچوں سے جب بھی رابطہ ہو‘ ان کے ساتھ ہر ملاقات کو یادگار بنانے کا خصوصی پلان ہونا چاہیے۔ ہفتہ وار‘ ماہانہ‘ ششماہی یا سالانہ‘ جب بھی ملاقات ہو‘ بزرگ والدین کا نقش بچے اپنی عمر کے ساتھ ساتھ مضبوط تر اور حسین تر اور یادگار بناتے جائیں۔
  • ذوق مطالعہ کی حوصلہ افزائی:بچوں کو پڑھ کر سنانا ایک انتہائی دل چسپ عمل ہے۔ اپنے بچپن کی کتابیں ان کو پڑھنے کے لیے دی جائیں یا ان کے والدین کے بچپن میںزیراستعمال رہنے والی کتابوں کو مل کر پڑھنے پڑھانے میں خاص مزہ ہے۔ بچوں کو بھی پڑھنے کی تلقین کی جائے۔ اس سے تلفظ‘ روانی عبارت‘ لہجہ اور تقریر کی مشق ہوگی۔
  • ماضی کی یادیں اور تجربات:بچوں کو اپنے ماضی کی دل چسپ کہانیاں اور واقعات سنائیں‘ اپنے محلے اور شہر کے خاص کرداروں کا اور ماحول کا تذکرہ کریں۔ دور رہنے والے بچوں کو اپنی آواز میں کہانی‘ نظم‘ باہم بچوں کی مجلس‘ بات چیت کو ریکارڈ کر کے بھیجا جائے یا ویڈیو فلم بنا لی جائے۔ اپنے بچپن اور جوانی کے تجربات کی روشنی میں بچوں کی عمر کے مطابق گفت و شنید کی جائے۔ اپنی ناکامیوں اور نقصانات کو واضح کریں کہ ان کی کیا وجوہات تھیں۔ بچوں سے سوال کیا جائے کہ اگر ان کے ساتھ ایسا ہوتا تو وہ کیا کرتے؟ بچوں کی ذہنی استعداد جاننے کا یہ بہترین ذریعہ ہے اور ان کی رہنمائی کرنے کا بھی۔
  • شخصیت کی تعمیر: جب بھی موقع ملے بچوں کی عمر اور ذہنی استعداد کے مطابق ان کے ساتھ کھیلا جائے۔ ان کے بنائے ہوئے گھروں میں مہمان بن کر جایا جائے۔ فٹ بال‘ لوڈو‘ کیرم اور اندرون خانہ کھیلوں میں شریک ہوا جائے۔ بچوں میں ہار جیت کا صحیح تصور پیدا کیا جائے اور اعلیٰ ظرفی اور دوسروں کی کامیابی پہ خوش ہونے کی تربیت کی جائے۔

بچے ننھے ہوں یا نوجوان‘ ان کو بولنے اور اپنا ما فی الضمیربیان کرنے کا پورا موقع دیا جائے۔ انہماک اور توجہ سے بات سننا‘ بچے کی شخصیت پہ مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ بچوں میں یہ ظرف اور حوصلہ پیدا کیا جائے کہ جب ایک بچہ بات سنا رہا ہو تو دوسرا بچہ اس میں مخل نہ ہو۔

ہر عمر کے بچوں کے ذاتی رجحانات آپ کے علم میں ہونے چاہییں۔ ہر بچہ آپ کو اپنا رازداں ساتھی سمجھے۔ یقین کیجیے اگر آپ اپنے ان معصوم بچوں کے رازداں ساتھی بن گئے‘ ان کے ننھے منے دکھ اور سکھ آپ کے دل میں ارتعاش اور ولولہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ پھول مرجھانے سے بچ جائیں گے۔

اپنے بیٹے اور بیٹی کے بچوں سے دلی محبت پیدا کرنے کا ایک کارگر نسخہ یہ ہے کہ ان کے والدین کو اچھے الفاظ سے یاد کریں۔ یہ نہ ہو کہ بچے کوا پنے دکھوں کی داستان (اپنی اولاد کی نافرمانیوں کے قصے) سنانے لگیں۔ ننھے بچوں کے دل میں ان کے والدین کی عزت و توقیر بڑھانا آپ کے لیے ہی نافع ہے۔ خصوصاً بہو اور داماد کے بارے میں۔

بچوں کو ترجیحات کے تعین کا احساس دلانا ایک اہم فریضہ ہے‘ یعنی کس وقت کون سا کام اہم ہے‘ کون سا بچہ کس عمر میں ہے‘ اُس کے لیے کیا اہم ہے۔ اس ضمن میں نماز‘ قرآن‘ اسلامی لٹریچر کی طرف توجہ دلانا‘ ان کی نگرانی کرنا‘ بچوں میں باہم مسابقت کرانا اور انعام دینا جیسے امور اہم ہیں۔ پیارومحبت سے تعلیمی مدارج اور کارکردگی کے بارے میں پوچھنا‘ مشکل میں آسانی تلاش کرکے دینا‘ بچوں کے تعلیمی رجحانات کا اور دیگر مشاغل کا بنظر غائر جائزہ لینا اور ان کے والدین کے ساتھ گفت و شنید کرنا اور مسائل کا حل تلاش کرنا‘ ترجیحات کے تعین میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

  • گہریلو امور میں دل چسپی لینا: اگر والدین اور بچوں میںکوئی تنازعہ ہوجائے‘ (تعلیم‘ روزگار یا شادی کے معاملے میں) تو غیر جانب داری سے حالات کا جائزہ لینا اور بچے کے مؤقف کو ٹھنڈے دل سے سننا اور والدین اور بچوں کے درمیان مفاہمت کی راہ تلاش کر کے دینا ’بزرگ والدین‘ کا فرض ہے۔
  • بچیوں سے خصوصی لگاؤ: لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور ان کو شایستگی اور رکھ رکھائو سکھانا خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ بچیوں کے رجحانات کا ان کی عمر کے مطابق خیال رکھا جانا چاہیے۔ بچیوں کی جذباتی عمر ایک مضبوط‘ بااعتماد شخصیت کا سہارا چاہتی ہے۔ لڑکیاں قاہرانہ نظر سے زیادہ محبت و شفقت اور رحمت کی نظر کی طلب گار ہوتی ہیں۔ بزرگوں کا دستِ شفقت ان کی شخصیت کی تکمیل کرتا ہے۔

چند احتیاطیں

کچھ معاملات اور باتیں ایسی بھی ہیں جن سے پرہیز کرنا چاہیے۔

  • کہلانے پلانے میں بے اعتدالی: ’بزرگ والدین‘ کو اپنے بچوں کی نسبت ان کے بچوں کو کھلانے پلانے‘ ہر وقت کچھ نہ کچھ دینے میں لطف آتا ہے۔ لیکن بعض اوقات یہ معاملہ خرابی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ بچوں کو ان کی عادتیں خراب کرنے میں آپ کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ قریب رہنے والے بچے اور دُور رہنے والے بچوں میں یہ فرق بھی ہوتا ہے کہ قریب رہنے والے بچوں کی عادات‘ مزاج‘ گھریلو ماحول اور روز مرہ کے اُتار چڑھائو سے آپ واقف ہوتے ہیں۔ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ بچوں کے والدین خصوصاً والدہ نے ان کے کھانے پینے کا جو معمول بنایا ہے اس میں خلل واقع نہ ہو۔ ماں سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا کہ بچے کو کس وقت‘ کتنا اور کیا کھانے کو دیا جائے۔ ضروری نہیں کہ جو چیزیں آپ اپنے بچپن میں کھاتے تھے یا اپنے بچوں کو بے دریغ کھلاتے تھے‘ ان کے لیے بھی مناسب ہوں۔
  • والدین کو بے وقعت کرنا:بچوں کے قلب و نظر میں ان کے والدین کو بے وقعت کرنا ایک اخلاقی گراوٹ ہے۔ خصوصوصاً بہو یا داماد کے بارے میں منفی طرزعمل اختیار کرنا‘ ان کی گستاخیوں یا نافرمانیوں کو بچوں کے سامنے زیربحث لانا‘ یا بچوں کے ذریعے اپنی کسی حق تلفی یا رنجش کا انتقام لینا‘ اپنے پائوں پہ کلہاڑی مارنا ہے۔ بچے ایسے لوگوں کی ہرگز قدر نہیں کرتے جو ان کے والدین کے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہوں۔ بہواور داماد کا آپ سے ’صہر‘ کا رشتہ ہے مگر ان کے حوالے سے بچوں کے ساتھ آپ کا ’نسب‘ کا رشتہ ہے۔ اپنے نسب کے بارے میں حددرجہ حساس اور محتاط رویہ اسی صورت ممکن ہے جب آپ ان کے والدین کو عزت و توقیر سے نوازیں گے۔
  • رویے میں فرق: گھروں میں جہاں ایک سے زیادہ بیٹے بیٹیاں موجود ہوتے ہیں‘ ان کے بچوں کے ساتھ بڑوں کا رویہ بھی قابلِ غور ہے۔ جس بیٹے سے ماں باپ خوش ہیں‘ اس کی بیوی بھی پیاری لگتی ہے‘ اور اسی لحاظ سے اُس کے بچے بھی دادا دادی کے دُلارے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف بہت سی بہوئوں میں سے کسی سے کسی خاص رشتہ داری یا نسبت یا کوئی اور وجہ بہوئوں کے درمیان تفریق کا باعث بنتی ہے‘ اور پھر بچے بھی خواہ مخواہ خاندانی سیاست کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ رویہ بھی غیرمناسب ہے۔ ساس سسر (خصوصاً ساس کو) گھریلو معاملات میں عقل و دانش کا ثبوت دینا چاہیے۔ اسی طرح دامادوں کے ساتھ یا نواسے نواسیوں کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے۔ لگائو اور محبت اپنی جگہ‘ مگر معاملات مبنی برعدل اور یکساں ہونے چاہییں۔
  • بے جا طرف داری: ایک اہم معاملہ جو عموماً گھروں میں بے چینی کا باعث بنتا ہے‘ بیٹی کی اولاد کے سامنے بیٹوں کی اولاد یا اس کے مخالف معاملے میں ترجیح اور افراط و تفریط ہے۔ ماموں‘ پھوپھی یا چچا‘ تایا کے بچوں میں دُوری‘ منافرت‘ بلاوجہ مسابقت، ’شریکے‘ کا احساس پیدا کرنا‘ بزرگوں کے طرزعمل کا شاخسانہ ہوسکتا ہے۔ کسی ایک داماد یا بہو کی بے جا حمایت‘ طرف داری بچوں پر بھی برے اثرات ڈالتی ہے۔
  • توھین آمیز رویہ :عموماً دادی کی طرف سے اس طرح کے جملے ’میرا بیٹا تو بہت اچھا تھا‘ جب سے تمھاری ماں آئی ہے…‘ سن کر بچے ہرگز اپنی دادی سے الفت محسوس نہیں کرسکتے۔ ان سے لازماً اجتناب کیا جائے۔
  • اپنی رائے پر اصرار اور ضد:اگر بچوں کی تربیت کے معاملے میں ’بزرگ والدین‘ کی رائے بچوں کے والدین سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو بزرگوں کو زیادہ اعلیٰ ظرفی اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اختلاف کی صورت میں والدین کی خواہشات کے پیش نظر اپنی رائے سے دست بردار ہوجانا چاہیے‘ تاہم اولاد کو بھی ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے خواہ مخواہ اور بے جا ضد نہ کرنی چاہیے اور درست بات کو تسلیم کرنا چاہیے۔ بعض اوقات بچے کا نام رکھنے سے لے کر جو مخالفت شروع ہوتی ہے تو بچوں کے رشتے کرنے تک برقرار رہتی ہے۔ بچوں کے معاملات میں فیصلہ اور حتمی رائے بہرحال اُن کے والدین کا حق ہے۔

بعض ’بزرگ والدین‘ رشتوں ناطوں کے معاملے میں ایسا رویہ بنا لیتے ہیں جس سے اپنی اولاد اور بچوں کو باغی تو بنایا جا سکتا ہے‘ اپنا حامی نہیں۔ یہ طرزعمل سخت نقصان دہ غیر شرعی اور قابلِ گرفت ہے۔ رشتے ناطے کرنے کی ذمہ داری بہرحال اپنے والدین کی ہی ہوتی ہے۔ اپنی رائے دینا‘اپنے تجربات اور دلائل کی بنا پر کچھ اصرار کرنا آپ کا حق ہے مگر جبر کرنا‘ ضد سے اپنی اہمیت کو کیش کرانا‘ بچوں کی شادیوں میں رخنے ڈالنا‘ خوشی سے شریک نہ ہونا‘ دل میں رنجش رکھنا‘ قطع تعلق کرلینا یا دھمکی دینا سخت معیوب ہے اور ’بزرگ والدین‘ کے شایانِ شان ہرگز نہیں ہے۔

  • منفی طرزِعمل : اگر آپ نے بچوں کے دلوں میں اپنی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے کوئی ایسا قدم اٹھایا کہ جس کام سے بچے کے والدین منع کرتے ہوں اور آپ نے چوری چھپے اُس کو موقع دیا‘ مدد کی‘ پھر چھپانے کے طریقے بتائے تو آپ نے اپنی نظروں میں بھی اور بچوں کی نظروں میں بھی خود کو گرا لیا۔ یہ طرزعمل جتنا بچوں کے لیے نقصان دہ ہے اُس سے کہیں زیادہ آپ کی شخصیت کے لیے باعث وبال ہے۔ ہاں‘ یہ امر قابلِ تعریف ہے کہ آپ اپنے بچوں کو اُس کام میں مدد دیں‘ تعاون کریں جس کو بچے کے والدین مشکل سمجھ کر اُن کو کرنے نہیں دیتے اور آپ اُس کو اپنے تجربے سے کروا لیتے ہیں۔ بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے آپ کیا کیا چھوٹے بڑے کام کرسکتے ہیں‘ اس پہ غور کیا کیجیے۔
  • بچوں کو مشتعل کرنا:بچوں کو ہر وقت دوسروں کے سامنے نظمیں‘ تقریریں وغیرہ سنانے پہ مجبور نہ کریں۔ بچے کی ذہنی اور قلبی کیفیت ہر وقت ایک جیسی نہیں ہوسکتی۔ ہر ملاقات پر ان کو کتابیں سنانے یا ان کو پڑھنے پر مجبور کرنا دل میں تنگی اور انقباض پیدا کرتا ہے۔ ہر وقت ہر کام‘ ہرکھیل‘ہر واقعہ‘ کہانی‘ لطیفہ یا ایک ہی جیسا طرزِعمل (ہر بچے کے ساتھ) مناسب نہیں ہوتا۔ اگر آپ کو بچوں سے قلبی تعلق پیدا کرنا ہے تو جبر سے یہ کام نہیں ہوتا۔ یہ پورے صبروثبات کا متقاضی ہے۔ بچوں کو بلاوجہ قابو میں لانے کی کوشش کرنا ان کو مشتعل کرنا ہے۔
  • بچوں میں امتیاز برتنا :اپنے پوتے پوتیوں‘ نواسے نواسیوں میں کسی ایک سے کبھی ایسی بات نہ کیا کیجیے کہ ’یہ تو سب سے ہوشیار ہے‘ ذہین ہے‘ یہ میرا فرماں بردار ہے‘ یہ تو اپنے باپ کی طرح فرماں بردار ہے اور یہ اپنے باپ یا ماں کی طرح ہمیشہ سے ضدی اور گستاخ ہے‘۔ اپنے ان بچوں کی کامیابیوں پہ یکساں خوشی کا اظہار کیجیے۔ اپنی کسی بیٹی یا بیٹے کی حد درجہ محبت میں آکر ان کے بچوں کے ساتھ ہمیشہ نرم رویہ رکھنا اور کسی دوسری اولاد کے بچوں کے ساتھ معاندانہ رویہ‘ ان کی کامیابیوں اور خوشیوں میں دل کے پورے افراح کے ساتھ شریک نہ ہونا سخت ناانصافی ہے۔ یقین کیجیے اللہ تعالیٰ نے آپ سے اس رعیت کے بارے میں سوال کرنا ہے۔ جذبات‘ احساسات‘ خوشی‘ غمی اور مالی و اخلاقی طور پر سب کے ساتھ انصاف کرنا آپ کے اجر و ثواب کو قائم رکھے گا۔ کسی بچے کو خوب بڑھانا اور کسی کی اہمیت کو گھٹانا اپنے خاندان کی دیواروں میں شگاف ڈالنے کے مترادف ہے۔ اپنے دل کے میلان یا دوسروں کی طرف سے اُکسانے پہ بچوں کی صلاحیتوں کو گھٹانا بڑھانا اپنی عزت و توقیر کم کرنے کے مترادف ہے۔ باہم بچوں میں رقیبانہ اور حاسدانہ جذبات پیدا کرنا ایک بہت بڑا اخلاقی عیب ہے۔
  • بے جا خودنمائی :اپنی جوانی کی غیراخلاقی سرگرمیوں کو فخر سے بچوں کو بتانا حد درجہ حماقت ہے‘ یا پھر اپنے کارناموں کو نمک مرچ لگاکر پیش کرنا کہ بچے جان جائیں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ بچہ فطرت کے قریب ہوتا ہے۔ وہ سچ اور جھوٹ کا ادراک کرلیتا ہے اگرچہ اُس کو اس کے اظہار کا طریقہ نہ آتا ہو۔ ہر بات میں اپنی تعریف کرنا‘اپنے گن گانا‘ ہر وقت دوسروں پہ خود کو ترجیح دینا‘ شیخی بگھارنا‘ درحقیقت اپنی کمزور شخصیت کا اظہار ہے۔
  • ننہیال ددہیال کا فرق رکہنا :لڑکوں کو لڑکیوں پہ ترجیح دینا‘ یا ننھیال /ددھیال والوں کی برائیاں کرنا‘ یا بچوں کا ننھیال/ددھیال والوں سے قلبی تعلق برداشت نہ کرنا‘ لڑکیوں کی پے درپے پیدایش سے دل تنگ ہونا اور ان کے مقابلے میں لڑکے کی آئوبھگت کرنا‘ لڑکیوں کے والد کو بے چارہ‘ بوجھ کے تلے دبا ہوا جیسے احساسات دلانا‘ ایک طرح کا گناہ میں ملوث ہونا ہے۔ لڑکیوں کی پیدایش پہ انقباض محسوس کرنے والوں کی مذمت قرآن پاک میں کی گئی ہے۔
  • خواہ مخواہ کا رعب ڈالنا:بزرگوں کو اپنی بزرگی اور مقام و مرتبے کا احساس دلانے کے لیے رعب ڈالنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ سلام کروانے کے لیے بچوں پہ سختی کرنا کوئی اعلیٰ اخلاق کی مثال نہیں۔ اعلیٰ اخلاق تو یہ ہے کہ آپ خود بڑھ کر بچوں کو سلام کریں‘ محبت سے‘ پیار سے‘ اور یہی سنت رسول اللہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ بچے آپ کو وہی کچھ لوٹائیں گے جو آپ ان کو پہلے عطا کریں گے۔

حضوؐر کا بچوں سے طرزِ عمل

حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے اسوۂ کامل ہیں‘ ہمیشہ اسے پیش نظر رکھیے۔

بچوں کے حوالے سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِعمل انتہائی مشفقانہ تھا۔ سیرت رسولؐ کے مطالعے سے یہ بات روشن ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے محبت ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی عزت و توقیر کا بھی پورا خیال رکھتے تھے۔ ان کی  عزت نفس کو پوری اہمیت دیتے تھے۔ ان کے جذبات و احساسات کو پامال نہیں کرتے تھے۔

بحیثیتِ والد‘ اور نانا کے آپؐ کا طرزِعمل ہمارے لیے روشن مثال ہے۔ اپنے دوست احباب کے چھوٹے ننھے بچے‘ راستہ چلتے ہوئے‘ اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ آئی ہوئی ان کی اولاد‘ دُور و نزدیک کے قرابت دار بچے‘ اجنبی بچے‘ غرض بچوں سے حضوؐر کی محبت ایسی تھی گویا کہ ان کی اپنی اولاد ہو۔ بچوں کو گود میں بٹھاتے‘ کندھے پہ سوار کرتے‘ نماز میں بچوں کو اٹھا لیتے‘      منہ چومتے‘ غمگین بچوں کا دل بہلاتے‘ بچوں کو تحفہ دیتے‘ غرض اپنی دلی محبت کا اظہار ہر ممکن طریقے سے کرتے‘ اور ساتھ ہی تعلیم و تربیت میں بھی کوئی کمی نہ آنے دیتے۔ بے تکلفی سے باتیں کرتے اور ان کی سنتے تھے۔ حضور اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جنت میں ایک گھر ہے جسے ’دارالفرح‘ (خوشیوں کا گھر) کہا جاتا ہے۔ اس میں وہ لوگ داخل ہوں گے جو بچوں کو خوش رکھتے ہیں ۔(کنزالعمال)

اس دور میں جب کہ ہر مسلمان غفلت و بے ہوشی کے عالم میں زندگی گزار رہا ہے۔ نابالغ بچوں کی شخصیت ایسی ہے جس کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ اللہ کی نظر میں ناپسندیدہ نہیں ہیں۔ جب تک بچہ نابالغ ہوتا ہے‘ معصوم ہوتا ہے۔ ان سے اس احساس کے ساتھ ہی رحمت و شفقت کی جائے تو یقینا ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے قرب کا احساس بیدار ہوجائے گا۔ ایک بڑے سے بڑے دین دار آدمی سے بہرحال ایک معصوم بچہ اللہ کی نظر میں زیادہ پیارا ہے۔

بچوں کو خوش رکھنے کے بے شمار طریقے ہیں۔ ہر فرد اپنی استعداد و استطاعت کے مطابق اُن کو خوش رکھ سکتا ہے اور اپنی آیندہ نسل کے دلوں میں اپنی محبت کے نقوش جاگزیں کرکے     اپنی عاقبت کا سامان کر سکتا ہے اور اپنے لیے صدقہ جاریہ کا اہتمام کرسکتا ہے۔

دعا ایک لازمی امر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ فرقان میں دعا سکھائی:

رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (۲۵:۷۴) اے ہمارے رب‘ ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کاامام بنا۔

اس دعا میں ’متقین کا امام‘ بننے کی خصوصی درخواست سکھائی گئی‘ یعنی وہ نسل جو ہم پیچھے چھوڑ کر جارہے ہیں۔ وہ ’متقین‘ میں سے ہو___ اور ہم بحیثیت ’راعی‘ کے رعیت چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

بچوں کو اس بات کا احساس دلانا چاہیے اور ان کی عادت بنانی چاہیے کہ وہ اپنے بزرگوں کے لیے ہمیشہ دعاگو رہیں‘ نیز فوت شدہ بزرگوں کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہیں۔ ان کی نیکیوں کو یاد کرنا‘ کروانا اور دعا کرنا ایک اہم نکتہ ہے۔

ہمارے ہاں والدین کے حوالے سے تو بہت لٹریچر موجود ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کے حوالے سے اپنا فریضہ کس طرح ادا کریں‘ لیکن غور کا مقام یہ ہے کہ خاندان میں ’بزرگ والدین‘ کا کردار وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح مضبوط و مستحکم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ’بیاج‘ کو خسارے سے بچاسکیں۔ ایک جوڑے کی اولاد کا دائرہ وقت اور عمر کے ساتھ ساتھ وسیع ہوتا جاتا ہے۔ کل تک جو صرف ماں باپ تھے‘ دادا دادی اور نانا نانی بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ زندگی دیتا ہے تو ان کے سہرے کے پھول بھی کھلتے دیکھتے ہیں۔ اس طرح نئے خاندان بھی وسیع ترخاندان بن جاتے ہیں۔ بزرگ والدین کے مؤثر کردار اور خاندان کے استحکام کے پیش نظر ہی یہ تحریر لکھی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کے ہر والدین کو اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق عطافرمائے۔آمین!

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذھب البأس وحمداً للّٰہ علی السلامۃ، ’’تکلیف سے نجات ملی‘ اس سلامتی پر اللہ کالاکھ لاکھ شکر ہے‘‘۔ یہ کتابچہ اس حدیث کی روشنی میں مریضوں کی عیادت‘ ان کے روحانی علاج اور تسلی و تشفی کے پیش نظر لکھا گیا ہے۔یہاں ہم نے اجمالی طور پر ۲۳ نسخے بیان کیے ہیں جو ان شاء اللہ مصیبت زدگان اور مریضوں کے لیے--- جو انسانیت کا دسواں حصہ ہیں--- روحانی مرہم ثابت ہوں گے۔ (مولف)

پھلا نسخہ: بیماری‘ باعث خیر

پیارے مریض بھائی! پریشان نہ ہو‘ صبر کرو۔ آپ کی بیماری آپ کے لیے نقصان دہ نہیں بلکہ یہ دراصل ایک دوا ہے۔ اس لیے کہ زندگی‘ سرمایے کی مانند ہے‘ اگر اس سے نفع حاصل نہ ہو تو پوری زندگی اکارت جانے کے مترادف ہے‘ خصوصاً جب زندگی آرام اور غفلت کے ساتھ گزرے اور اپنے انجام کی طرف تیزی سے بڑھتی رہے۔ بیماری زندگی کی حقیقی قدروقیمت کا احساس دلاتی ہے۔ دورانِ علالت یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تیزی سے گزرنے والے لمحات   رک گئے ہوں‘ وقت تھم گیا ہو‘ بلکہ بیماری اور تکلیف کے باعث وقت کٹتا ہی نہیں۔ تکلیف کے یہ طویل لمحات جو زندگی کی رفتار کو سست کر دیتے ہیں‘ کسی نعمت سے کم نہیں۔ یہ گزری ہوئی زندگی پر ٹھیر کر سوچنے کا موقع دیتے ہیں۔یہ غوروفکر‘ ذاتی احتساب اور جائزہ زندگی کے سرمایے کی حقیقی قدر کو اجاگر کرتا ہے اور انسان آیندہ بہتر زندگی گزارنے پر سنجیدگی سے غور کرتا ہے۔ علالت کے یہ طویل لمحات زندگی کی قدر کا باعث بنتے ہیں اور صحت یاب ہونے کے بعد ٹھیری ہوئی زندگی ایک بار پھر پوری قوت سے صحیح سمت میں دوڑنے لگتی ہے۔ لہٰذا بیماری کو صبروحوصلے سے کاٹنا چاہیے‘ یہ بھی باعث خیر ہے‘ یقینا مومن ہر حال میں خیر ہی سمیٹتا ہے۔

دوسرا نسخہ: صبر پر بیش بھا اجر

اے انتہائی صبر کرنے والے مریض! صبر کا زیور پہنے رہو‘ بلکہ شکر کرکے اپنے آپ کو اس کی زینت سے مزین کرو۔ ممکن ہے کہ آپ کی زندگی کے یہ مختصر لمحے طویل عبادت میں بدل جائیں۔ اس لیے کہ عبادت کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ عبادت ہے جس میں اعضا کے ساتھ    اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کیا جاتا ہے‘ جیسے نماز‘ دعا وغیرہ۔ دوسری وہ عبادت ہے جس کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ اس میں مصیبت زدہ شخص دل ہی دل میں اپنے رب کے سامنے اپنی بندگی و عاجزی کا اقرار کرتا ہے اور اسی سے مدد کا طلب گار ہوتا ہے۔ وہ اپنی بیماری اور مصائب کے دوران احساس و شعور کی گہرائی کے ساتھ اپنی عاجزی و کمزوری کا ادراک کرتا ہے‘ اور اس کے وجہ سے وہ ہر قسم کے ریا سے پاک روحانی عبادت تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔

اس حوالے سے کئی احادیث صحیحہ ہمیں ملتی ہیں جو رہنمائی کرتی ہیں کہ زندگی امراض اور بیماریوں کا مجموعہ ہے جو مومن کے لیے عبادت کی حیثیت رکھتی ہیں بشرطیکہ آدمی اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہ کرے اور اس کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ یہ بات متعدد صحیح روایات سے ثابت ہے کہ صابرین اور شاکرین کی بیماری کا ایک لمحہ پورے گھنٹے کی عبادت کے برابر ہے‘ اور جو لوگ تقویٰ اور پرہیزگاری کے اعلیٰ مقام پر ہوتے ہیں اُن کی بیماری کا ایک لمحہ پورے دن کی عبادت کے برابر ثواب رکھتا ہے۔ اس لیے اے برادر عزیز! آپ اس بیماری پر گلہ شکوہ نہ کریں جو آپ کی زندگی کے ایک مشکل ترین لمحے کو بیش قیمت لمحات میں تبدیل کر دیتی ہے اور آپ کی مختصرعمر کو عمردراز میں بدل دیتی ہے۔ آپ کو تو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

تیسرا نسخہ: ایک مخلص واعظ و ناصح

اے مریض بھائی! انسان اس دنیا میں محض عیش وعشرت کے لیے نہیں آیا۔ جو بھی آیا ہے بالآخر اسے ایک روز سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جانا ہے۔ ہر گزرنے والا لمحہ موت سے ہم کنار کر رہا ہے‘ جوانی تیزی سے بڑھاپے میں ڈھل رہی ہے۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو پرتعیش زندگی اور اپنی دنیا میں مگن ہیں اور خدا اور خوفِ خدا سے بالکل بے نیاز ہوتے ہیں۔ اگر کبھی گردشِ زمانہ سے تنگ دستی ودرماندگی کا شکار ہو جاتے ہیں تو اپنے ماضی کو یاد کر کے اور اپنی موجودہ مصائب دیکھ کر لرز جاتے ہیں اور زندگی ہی سے مایوس ہوجاتے ہیں۔

یہ بیماری ہی ہے جو غفلت میں مبتلا شخص کو جو پُرتعیش زندگی گزار رہا ہو اور اپنی دنیا میں گم ہو‘ زندگی کی حقیقت سے باخبر کرتی ہے اور آخرت کی فکر سے ہم کنار کرتی ہے اور اس کی آنکھیں کھول دیتی ہے۔ گویا کہ بیماری اس سے کہہ رہی ہے:تم یہاں ہمیشہ نہیں رہو گے‘ تم آزاد نہیں ہو کہ جو چاہو کرو‘ بلکہ تم ایک ڈیوٹی پر مقرر ہو‘ دھوکے میں نہ آئو‘ اپنے رب کو یاد کرو اور جان لو کہ تم قبر میں جانے والے ہو‘ اس کے لیے تیاری کرو۔ اس طرح بیماری ایک واعظ‘ مرشد اور بیدار کرنے والے کا کردار ادا کرتی ہے۔ اس کے بعد شکوہ و شکایت کی کوئی گنجایش نہیں رہتی‘ بلکہ شکر کے سائے میں پناہ لینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ یوں زندگی کی حقیقی قدر کا احساس ہوتا ہے۔ اگر تکلیف بہت زیادہ ہو جائے تو صبرجمیل سے کام لو۔

چوتہا نسخہ: خود شناسی اور خدا شناسی

اے شکایت کرنے والے مریض! یہ بات آپ اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ آپ کو شکایت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے‘ الٹا آپ پر شکر اور صبر لازم ہے‘ اس لیے کہ آپ کا جسم‘آپ کے اعضا اور سامان دنیا آپ کی ملکیت نہیں ہے۔ آپ نے ان میں سے کون سی چیز خود بنائی ہے؟ جب اس کا جواب آپ کے پاس نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ یہ کسی اور کی ملکیت ہیں۔ ان چیزوں کا مالک جس طرح چاہے اُن میں تصرف کرسکتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک مالدار اور ماہر ڈیزائنر کسی آدمی کو مقررہ اُجرت پر اس کام پر لگادیتا ہے کہ وہ ایک گھنٹے تک ایک ’ماڈل‘ کا کردار ادا کرے۔ وہ اسے کبھی بٹھاتا ہے‘ کبھی کھڑا کرتا ہے‘ کبھی ایک قسم کا لباس پہناتا اور کبھی دوسری قسم کا‘ کبھی کوئی تبدیلی کرتا ہے اور کبھی کوئی۔ کیا اس پر اس شخص کو اعتراض کا کوئی حق حاصل ہے؟ اس لیے نہیں کہ اسی بات کی تو اس نے اُجرت لی ہے۔

اگر ایک مزدور کو یہ بات کرنے کا حق حاصل نہیں ہے تو جو سب سے بڑا معبود ہے‘ اس کو آپ کیسے اس طرح کی بات کہہ سکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جس نے آپ کے جسم کوبنایا ہے‘ آپ کو حواسِ خمسہ سے نوازا ہے‘ پھر وہ اپنے اسماے حسنیٰ کے نقوش کو ظاہر کرنے کے لیے اس میں مختلف تبدیلیاں کرتا ہے اور آپ کے جسم کو مختلف صورتوں میں دیکھنا چاہتا ہے۔ جب آپ بھوک پیاس کی تکلیف محسوس کرتے ہیں تو آپ کو اس کی رزاقیت کا تعارف حاصل ہوجاتا ہے اور جب آپ بیمار پڑجاتے ہیں تو آپ کو اس کے شافی ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ آپ اپنے آپ کو جانیں گے اور اپنے رب کو پہچانیں گے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو بیماری کے حجاب کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔

پانچواں نسخہ: حقیقی تندرستی کا پیغام

اے مصیبت زدہ! بعض لوگوں کے لیے بیماری ایک طرح کا احسان اور خدائی تحفہ ہے۔ یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ جو زیادہ بیماری کے درد و کرب میں مبتلا ہوتا ہے وہ آخرت کے بارے میں زیادہ فکرمند ہوتاہے۔ وہ عام لوگوں کی طرح غفلت میں مدہوش نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ اپنی بیماری اور مصیبتوں کی وجہ سے کسی حد تک اپنے نفس کو حیوانی خواہشات سے بچاتا ہے۔

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو تندرستی کی نعمت سے مالا مال ہیں مگر اپنی ابدی زندگی کو سنوارنے والے اعمال کا کوئی خیال ہی نہیں رکھتے‘ بلکہ دنیوی زندگی کے چند لمحوں کو خوب صورت بنانے کے لیے خدا کے حکام کو ڈھا دینے سے بھی دریغ نہیںکرتے۔ وہ نماز کو خیرباد کہہ دیتے ہیں اور آخرت کو بھلا کراللہ تعالیٰ سے بے پروا ہوجاتے ہیں‘ جب کہ بیمار اپنے مرض کے سبب اپنی آنکھوں سے اپنی قبر کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوتا ہے جو اس کا یقینی گھر ہے اور وہاں جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس طرح مریض کے اندر تحرک پیدا ہوتا ہے اور اُس کے مطابق وہ اپنا عمل درست کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لیے یہ بیماری تو آپ کے لیے حقیقی تندرستی کا پیغام ہے۔

چہٹا نسخہ: درد و غم کی حقیقت

اے درد و الم کی شکایت کرنے والے مریض! آپ اپنی گذشتہ زندگی پر غور کریں۔ اس کے خوش گوار ایام کو بھی یاد کریں اور مشکل لمحات کو بھی ذہن میں تازہ کریں۔ آپ کی زبان سے بے اختیار ’آہ‘ یا ’آہا‘ کی آواز نکلے گی۔ گویا آپ یا تو خوش ہو کر اپنی زندگی پر اللہ کی حمدوثنا بیان کریں گے ‘یا پھر غم و اندوہ کی وجہ سے ڈوبتی ہوئی آواز میں اظہارِافسوس کریں گے۔ اب آپ غور کریں کہ گزری ہوئی تکالیف اور مصیبتیں جب آپ کے ذہن میں آتی ہیں تو کس طرح آپ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کرتے ہیں اور آپ کتنی روحانی لذت محسوس کرتے ہیں اور آپ کی زبان سے بے اختیار ’الحمدللہ‘ کے الفاظ نکلتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تکلیف ختم ہوتی ہے تو اس سے ایک قسم کی لذت اور خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ رہے خوشی کے لمحات تو وہ چھن جانے اور احساس محرومی کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے حسرت و یاس کے کرب سے دوچار کر دیتے ہیں‘ جب کہ بیماری تو عارضی ہے۔ اس پر مزید یہ کہ اُس لذت روحانی کے علاوہ‘ جو بیماری ختم ہونے پر فطرتاً آدمی کو محسوس ہوتی ہے‘ اس میں آدمی کے لیے آخرت کے حوالے سے بھی ثواب اور اجر کا سامان ہوتا ہے۔ اس لیے آپ عارضی بیماری‘ جس میں آپ مبتلا ہیں‘ کے نتائج پر نگاہ رکھیے اوراس کے پہلو بہ پہلو اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت اور ثواب کے بارے میں سوچیے۔ شکر کا دامن تھامے رکھیے اور شکوہ و شکایت سے بالاتر رہیے۔ اور یہ بات ذہن میں رکھیے کہ کوئی حالت بھی ہمیشہ باقی نہیں ہوتی۔

بیماری جب ہمیں اس لطیف اور دقیق نکتے کی طرف متوجہ کرتی ہے تو درحقیقت وہ ہمارے دل کی گہرائیوں میں یہ سرگوشی کرتی ہے کہ: دھوکے سے نکل آئو اور اپنی حقیقت پہچانو۔ اپنی ذمہ داری کا احساس کرو اور یہ بات جاننے کی کوشش کرو کہ دنیا میں تمھارے آنے میں کیا حکمت اور مقصد پوشیدہ ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ دنیا کی لذتیں ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتیں ‘ خصوصاً جب ناجائز ہوں‘ اور صرف یہ نہیں کہ وہ دائمی نہیں ہوتیں بلکہ آدمی کو گناہ اور جرم پر آمادہ کرتی ہیں۔ چنانچہ آپ اس بات پر بالکل نہ روئیں کہ بیمار ہو کر آپ نے دنیوی لذتیں کھو دی ہیں‘ آپ کو تو اس پر الٹا خوش ہونا چاہیے۔ آپ عبادت کے روحانی معنی جو آپ کی بیماری کے ضمن میں موجود ہیں اور اخروی اجر پر‘ جو اس نے آپ کے لیے چھپا رکھا ہے‘ غور کریں اور کوشش کریں کہ یہ خالص اور پاکیزہ ذائقہ چکھیں۔

ساتواں نسخہ: احساسِ نعمت

اے مریض جو تندرستی کی نعمت کھو چکے ہو! آپ کا مرض اللہ تعالیٰ کی اُن نعمتوں کی لذت کو مٹاتا نہیں جو تندرستی میں آپ کو ملتی ہیں‘ بلکہ اس کے برعکس وہ آپ کو یہ لذت چکھا دیتا ہے اور اس میں اضافہ کر کے مزید خوش ذائقہ بنا دیتا ہے۔ اس لیے کہ ایک چیز جب دائمی ہوجاتی ہے اور اس کی حالت ایک جیسی رہتی ہے تو اس کے ذائقے اور اثرات میں کمی آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اصحابِ علم اس بات پر متفق ہیں کہ چیزوں کی صحیح پہچان اس کی ضد سے ہوتی ہے۔ اگر اندھیرا نہ ہوتا تو روشنی کا کسی کو احساس ہی نہ ہوتا اور وہ بغیر کسی لذت کے گزر جاتی‘ اگر ٹھنڈک نہ ہوتی تو گرمی کسی کو معلوم ہی نہ ہوتی اور اُس کا کوئی مزا نہ ہوتا‘ اگر بھوک نہ ہوتی تو کھانے سے کسی کو کوئی مزا اور ذائقہ ہاتھ نہ آتا‘ اگر پیاس نہ ہوتی تو پانی پینے سے ہمیں کوئی لذت حاصل نہ ہوتی۔ اسی طرح اگر بیماری نہ ہوتی تو تندرستی بے مزہ ہوکر رہ جاتی۔

خالقِ حکیم جب انسان کو اپنے مختلف احسانات کا احساس دلا کر اور اپنی نعمتوں کا مزا چکھاکر اپنے دائمی شکر کی طرف لانا چاہتا ہے تو اس کو بے شمار طریقوں سے اس امر کے لیے تیار کرتا ہے کہ وہ مختلف قسم کی ہزاروں نعمتوں کا ذائقہ چکھ لے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مقصد کے لیے جس طرح صحت و عافیت سے سرفراز کر کے احسان فرماتا ہے‘ اسی طرح بیماریاں اور تکلیفیں بھی نازل کرے۔

میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ بیماری‘ جس میں آپ مبتلا ہیں‘نہ ہوتی تو کیا آپ کے بس میں یہ بات تھی کہ آپ صحت میں چھپی ہوئی نعمت کو محسوس کرتے؟ اور کیا آپ کی قدرت تھی کہ اس نعمت ربانی کا مزا چکھتے جس سے یہ نعمت وجود میں آئی ہے؟ مجھے یقین ہے کہ آپ شکر کے بجاے نسیان کا شکار ہوتے‘ یا اس تندرستی کا مصرف یہ ہوتا کہ آپ غفلت و نادانی میں مبتلا ہوتے اور آپ کو اس کا احساس تک نہ ہوتا۔

آٹہواں نسخہ: معرفتِ رب

اے اپنی آخرت کو یاد کرنے والے مریض! آپ کی بیماری تو صابن کی طرح ہے‘ یہ آپ کے میل کچیل کو دُور کرتی ہے‘ آپ کے گناہوں کو مٹاتی ہے اور خطائوں سے معافی کا ذریعہ ہے۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ بیماریاں گناہوں کا کفارہ ہوتی ہیں۔ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ جب بھی کوئی مسلمان کسی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے درختوں کے پتے جھڑتے ہیں (بخاری)۔ اس لیے کہ گناہ‘ ابدی زندگی کے لیے دائمی بیماری کی حیثیت رکھتا ہے‘ اور اس دنیا میں بھی یہ دل‘ روح اور وجدان میں غیرمحسوس بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ چنانچہ جب آپ صبر کریں گے اور شکوہ شکایت سے اجتناب کریں گے تو آپ اس موجودہ بیماری کے ذریعے اپنے آپ کو بہت سی دائمی بیماریوں سے بچا لیں گے‘ اور جب آپ اپنے گناہوں سے غافل ہوں گے‘ آخرت کو بھلا دیں گے اور اپنے رب سے بے پروا ہوں گے تو میں آپ کو خبردار کرتا ہوں کہ آپ ایک خطرناک بیماری میں مبتلا ہیں‘ جو اس وقتی بیماری کے مقابلے میں ہزاروں اور لاکھوں گنا زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہے۔ اس مہلک بیماری سے بچیے۔ اس لیے کہ آپ کا دل و جان اور آپ کی روح سب دنیا کے سازوسامان کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں اور یہ چیزیں یقینا فراق اور زوال کی تلواروں سے کٹنے والی ہیں۔

اس کا لازمی تقاضا ہے روح کی بہتری اور حقیقی شفا کی فکر کی جائے۔ میرا نہیں خیال کہ یہ علاج آپ کو ایمان کے بعد اوراس کے شفا دینے والے مرہم کے علاوہ کہیں اورسے مل سکے گا۔ اور جان لو کہ اس علاج تک پہنچنے کا مختصر ترین راستہ یہ ہے کہ ’عاجزی اور فقیری‘ اختیار کی جائے۔ یہ دونوں صفات انسان کی جبلت میں پیدا کی گئی ہیں۔ یہ بیماری ہی ہے جو آخرت کی فکر پیدا کرتی ہے‘ عاجزی و درماندگی اور فقر کا احساس اجاگر کرتی ہے۔ اس کے نتیجے میں آپ قادر ذوالجلال کی قدرت اور اس کی وسیع رحمت کی معرفت بھی حاصل کرلیں گے۔

نواں نسخہ: موت کے خوف کی حقیقت

اے اپنے خالق پر ایمان لانے والے مریض! بیماری سے فکرمند ہونا ‘ اس سے خوف کھانا اور اس سے پریشانی لاحق ہونا‘ یہ ایسے احساسات ہیں جن کی بنیاد پر یہ خیال ہوتا ہے کہ بیماری کبھی کبھی موت اور ہلاکت کا ذریعہ بنتی ہے‘ اور غافل نگاہوںسے دیکھیں تو موت بظاہر ایک وحشت ناک اور ڈرائونی چیز ہے۔ لہٰذا جو بیماریاں اس ڈرائونی موت کا ذریعہ بنتی ہیں اُن کے آنے سے پریشانی اور اضطراب کا پیدا ہونا فطری ہے۔ لیکن آپ اچھی طرح جان لیں اوراس پر قطعی ایمان لائیں کہ: زندگی کا آخری وقت معین ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔

موت‘ جس طرح عام مشاہدہ ہے‘ فی نفسہٖ ڈرانے والی نہیں ہے۔ موت تو مومن کے لیے عافیت ہے‘ اس سے وہ زندگی کی ذمہ داریوں اور اس کی کلفت و مشقت سے آزاد ہوجاتا ہے۔ موت اُس عبودیت سے آزادی کا نام ہے جو دنیا کے آزمایشی میدان میں اس کی تعلیم و تربیت کے لیے مقرر کی گئی تھی۔ مزید یہ کہ موت‘ آدمی کے لیے اپنے حقیقی وطن اور دائمی سعادت کے ابدی مقام و مرتبے تک پہنچنے کا وسیلہ بنتی ہے۔ یہ دنیا کی کوٹھڑیوں سے نکلنے اور جنت کے باغیچوں میں داخل ہونے کی ایک دعوت ہے اور یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب آدمی اپنی محنت کی اجرت وصول کرنے کے قابل ہو جاتا ہے‘ وہ اجرت جو خالقِ رحیم کے خزینۂ احسان کا منہ کھول دیتی ہے۔

جب موت کی حقیقت یہ ہے تو پھر یہ مناسب نہیں کہ اس کو ایک ڈرائونی چیز سمجھا جائے بلکہ یہ بات لازم ہے کہ موت کو رحمت و سعادت کی بشارت سمجھا جائے۔ یہاں تک کہ بعض   اہلِ اللہ موت سے اس وجہ سے نہیں ڈرتے تھے کہ یہ ایک ڈرائونی چیز ہے بلکہ وہ موت کی تاخیر اس وجہ  سے چاہتے تھے کہ اگر زندہ رہیں تو مزید نیکیاں کر کے زیادہ ثواب کما سکیں--- پس موت اہلِ ایمان کے لیے رحمت کا دروازہ ہے اور گمراہ لوگوں کے لیے ابدی اندھیروں کا اندھا کنواں۔

دسواں نسخہ: اضطراب و بے چینی کا علاج

اے مضطرب مریض! آپ بیماری کی شدت سے مضطرب ہیں‘ اگر یہ اضطراب اسی طرح برقرار رہا تو اس سے آپ کی بیماری میں مزید اضافہ ہوگا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا مرض ہلکا ہو جائے تو کوشش کریں کہ آپ اضطراب کا شکار نہ ہوں۔ آپ کو چاہیے کہ بیماری کے خیر کے پہلو‘ اس کے ثواب اور اس بات پر غور کریں کہ یہ بیماری حقیقت میں شفا کا پیش خیمہ ہے۔ اپنے دل سے اضطراب کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں تو بیماری خود بخود ختم ہو جائے گی۔

اضطراب اور وہم بیماری کو دوبالا کر دیتا ہے۔ اس لیے کہ اضطراب ظاہری بیماری کی آڑ میں دل کے اندر نفسیاتی بیماری کو پھیلا دیتاہے جس سے جسمانی بیماری بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس کے برعکس جب آپ اپنے معاملے کو اللہ کے سپرد کر دیں‘ بیماری کی حکمت کو پیشِ نظر رکھیں‘ اور راضی بہ رضا رہنے والے اضطراب و وہم کو اپنے دل سے دور کردیں تو جسمانی بیماری اپنی ایک مضبوط جڑ سے محروم ہوجائے گی اور پھر آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گی۔ اس کے برعکس اگر اوہام اور پریشانیاں آپ کی جسمانی بیماری کا ساتھ دیں تو یہ اوہام آپ کے اضطراب کی وجہ  سے دسیوں گنا بڑھ جاتے ہیں۔

پریشان ہونا بذاتِ خود ایک بیماری ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بیماری کی حکمت پر غور کیا جائے۔ جب آپ اس کی حکمت اور فوائد کو سمجھیں گے تو یہ ایک مرہم ہوگا جو آپ کی بیماری کو ختم کرے گا اور آپ کی جان چھوٹ جائے گی۔ بیماری میں ’ہائے‘ افسوس‘ کی جگہ ’الحمدللہ علیٰ کل حال‘ کہنا چاہیے۔ ایک بندے کو اللہ کی رضا پر راضی رہنا چاہیے کہ یہی مالک کی مرضی ہے۔ یہ کیفیت اضطراب کو صبرواستقامت میں بدل دیتی ہے اور مصیبت و پریشانی ہلکی محسوس ہونے لگتی ہے۔

گیارہواں نسخہ: شکوہ نھیں صبر

اے مریض بھائی جس کا صبر تمام ہوچکا ہے! یہ بات ٹھیک ہے کہ بیماری سے آپ کو عارضی طور پر تکلیف ہوتی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب بیماری دور ہو جاتی ہے تو آپ کو ایک روحانی لذت اور جسمانی مسرت بھی حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ آج کے بعد آنے والے زمانے میں آپ بیماری کی کوئی تکلیف محسوس ہی نہیں کریں گے۔ جب بیماری کے دن گزر گئے تو اس کے ساتھ ہی اُس کا درد بھی جاتا رہا۔ البتہ بیماری کا ثواب اور اس کے ختم ہونے کی لذت باقی رہے گی۔ ایسی صورت حال میںآپ پر لازم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صبر کے ذریعے جو بدلہ دیتا ہے اس کی خوشی کو یاد کر کے اپنا شرح صدر کریں۔

رہی یہ بات کہ اگلے دنوں میں کیا ہوگا‘ تو آپ کو اس کے بارے میں فکرمند نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ تو ابھی آئے نہیں ہیں۔ یہ تو نادانی ہے کہ آپ ابھی سے اس چیز کے بارے میں فکرمند ہوں جو ابھی موجود نہیں‘ اور اس بیماری سے پریشان ہوں جوابھی آئی نہیں ہے‘ اور اس مصیبت پر متفکر ہوں جو ابھی نازل نہیں ہوئی۔ اس قسم کے وہم کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپ ایسی الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں جن سے آپ کا اجر تمام ہوجاتا ہے۔

پس اے میرے بھائی! آپ کو اللہ تعالیٰ نے صبر کی جو بے پایاں قوت دی ہے اس کو ضائع نہ کریں بلکہ اس کو جمع کر کے رکھیں تاکہ تکلیف کے موقع پر آپ کے کام آئے۔ اور جب آپ کو تکلیف ہو تو ’’یاصبور‘‘ کا ورد کریں اور صبر کرتے ہوئے اس کو ثواب کا ذریعہ سمجھیں۔

بارہواں نسخہ: عبادت کی کمی کا بدل

اے مریض‘ جو اپنی بیماری کی وجہ سے عبادت اور ذکر و اذکار سے محروم ہو‘ اور اس محرومی کی بنا پر افسوس کا اظہار کرتا ہو! آپ کے پیشِ نظر اس حدیث کا مفہوم رہنا چاہیے جس کے مطابق مومن جب کسی عبادت کا عادی ہوجاتا ہے تو اس کا ثواب اس کو بیماری کے دنوں میں بھی‘ جب کہ وہ عبادت نہیں کرپاتا--- مسلسل ملتا رہتا ہے (احمد‘ بخاری)۔ بیماری اس کے ثواب میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اس لیے کہ جو مریض صحت کی حالت میں فرائض اور بقدر استطاعت نوافل ادا کرتا ہے‘ بیماری اس کے لیے ان سب کی قائم مقام ہوجاتی ہے۔ جب مریض صبر‘ توکل اور فرائض کی ادایگی کی زینت سے مزین ہو جاتا ہے تو یہ سخت تکلیف کے موقع پر اس کے لیے اللہ کی طرف لوٹ جانے کا ذریعہ ثابت ہوتی ہیں۔ لہٰذا حالتِ صحت میں جتنی بھی عبادت تسلسل اور دوام کے ساتھ کی جاسکے ضرور کرنی چاہیے۔

اسی طرح جب بیماری انسان کو اس کی کمزوری اور عاجزی کا احساس دلاتی ہے تو مریض نہ صرف زبان سے بلکہ دل کی گہرائیوں سے گڑگڑا کر دعا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو انتہائی عاجزاور کمزور اسی لیے تو بنایا ہے تاکہ یہ ہمیشہ کے لیے بارگاہِ الٰہی کی طرف رجوع کرتا رہے اور امیدورجا کے ساتھ دعا کرتا رہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَآؤْکُمْ (الفرقان ۲۶:۷۷) ’’اے نبیؐ، لوگوں سے کہو‘ میرے رب کو تمھاری کیا حاجت پڑی ہے اگر تم اُس کو نہ پکارو‘‘۔ جب بیماری انسان کی پیدایش کے بنیادی مقصد اور اہم ترین حکمت‘ یعنی پرخلوص دعا کا سبب ہے تو اس کی شکایت کرنا درست نہیں‘ اس پر شکرکرنا لازم ہے۔

تیرہواں نسخہ: ایک بیش قیمت اثاثہ

اے بیماری کی شکایت کرنے والے عاجز بندے! بیماری تو بعض لوگوں کے لیے سرمایۂ حیات بن جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بیش قیمت تحفہ ثابت ہوتی ہے۔ ہر مریض اپنی بیماری کو اسی قسم کی بیماری سمجھ سکتا ہے۔ یہ حکمت الٰہی ہے کہ کسی بھی انسان کو اپنا آخری وقت معلوم نہیں‘ تاکہ انسان ہمیشہ کے لیے ناامید بھی نہ ہو اور دائمی غفلت میں بھی نہ پڑے‘ بلکہ وہ امیدورجا کے مابین رہے۔ اس طرح اس کی آخرت ہی نہیں دنیا بھی نقصان و خسارے کا شکار ہونے سے بچ جاتی ہے۔ گویا کہ انسان کا آخری وقت کسی بھی لمحے آسکتا ہے‘ اگر یہ وقت آجائے اور انسان اخروی زندگی کو دائمی تباہی کے گڑھے میں پھینکنے والی غفلت میں پڑا ہوا ہو تو یہ اس کے لیے بہت بڑا نقصان ہوگا۔ بیماری اس غفلت کو ختم کر دیتی ہے اور آخرت کی یاد کو ازسرنو تازہ کر دیتی ہے۔ اس طرح وہ ایک بڑی دولت سے مالا مال ہو جاتا ہے اور محض چند دنوں میں اُن تمام گناہوں سے چھٹکارا پا لیتا ہے جن کا ارتکاب وہ برسوں سے کر رہا تھا۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی کا اللہ کے ہاں ایک مقام ہوتا ہے جس کو وہ اپنے اعمال سے حاصل نہیں کر سکتا تو اللہ تعالیٰ اس کو ایسی بیماری میں مبتلا کر دیتا ہے جس کو وہ ناپسند کرتا ہے۔ اس طرح وہ اپنا مقام حاصل کر لیتا ہے۔ (حدیث حسن‘ مسندابویعلٰی ۴؍۱۴۴۷‘ ابن حبان ۶۹۳)

جب بیماریوں میں یہ بڑے بڑے فوائد مستور ہیں تو شکایت کے کیا معنی؟ ہمیں تو چاہیے کہ رحمت الٰہی پر اعتماد کریں اور حمدوشکر کرتے ہوئے ان پر قانع ہو جائیں۔

چودہواں نسخہ: بینائی سے محرومی پر اجرعظیم

اے بیمار‘ جو بینائی سے محروم ہوگیا! جب آپ کو معلوم ہوجائے کہ دنیا میں روشنی بھی ہے‘ اگرچہ میری آنکھوں پرپردے ہیں لیکن اہلِ ایمان کی آنکھوں پر پڑے ہوئے ان پردوں کے پیچھے ایمان کی روشنی موجود ہے تو یقینا آپ بے اختیار پکار اٹھیں گے کہ میرے مہربان پروردگار ہزار بار شکریہ۔

جب ایک مومن کی آنکھوں پر پردہ آیا ہو اور اس صورت میں وہ وفات پاجائے تو وہ اپنے مرتبے کے لحاظ سے عالم نورانی کو دوسرے لوگوں کی بہ نسبت زیادہ وسیع نظروں سے دیکھ سکے گا‘ جس طرح کہ دنیا میں ہم اپنی آنکھوں سے اکثر چیزیں دیکھ سکتے ہیں اور اندھے لوگ ان چیزوںکو نہیں دیکھ سکتے۔ اس طرح مرنے کے بعد یہ نابینا‘ اگر مومن ہوں تو وہ اپنے مرتبے کے لحاظ سے دوسروں سے زیادہ اچھی طرح دیکھ سکیں گے۔ وہ جنت کے باغات اور اس کی نعمتوں کا مشاہدہ کریں گے‘ گویا کہ اُن کا سرمایۂ آخرت ان کے لیے جمع کیا گیا تھا۔ ہر ایک اپنی حیثیت کے مطابق جنت کے خوب صورت مناظر کو دیکھے گا۔

اس لیے‘ میرے بھائی! جتنا ممکن ہو‘ آپ کوشش کریں کہ آپ اُن نورانی نگاہوں کے مالک بن جائیں جو جنت کے پیچھے دیکھ سکیں درآں حالیکہ آپ تحت الثریٰ میں پڑے ہوئے ہوں گے۔ اور یہ تب ہوگا کہ آپ اس پردے پر صبر کریں جو دنیا میں آپ کی آنکھوں پر آگیا ہے‘ اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔ آپ کو جان لیناچاہیے کہ روحانی آنکھوں کا اسپیشلسٹ اور آپ کی معنوی نگاہوں پر پڑے ہوئے پردوں کو ہٹانے والا ڈاکٹر‘ قرآن ہے۔ اس سے جب آپ کے روحانی پردے ہٹ جاتے ہیں تو آپ کو آخرت میں سب چیزیں صاف نظر آئیں گی۔

پندرہواں نسخہ: مھلک بیماری پر مقامِ بلند

اے فریاد کرنے والے مریض! آپ فریاد نہ کریں اور نہ اپنی مہلک بیماری کو دیکھ کررونا دھونا شروع کریں۔ آپ کو چاہیے کہ اس کے مقصد اور چھپی ہوئی حکمت کی طرف دیکھتے ہوئے ’الحمدللہ‘ کہیں۔

اگر بیماری کا مقصد کوئی اچھا نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنے محبوب ترین بندوں کو بیماریوں میں مبتلا نہ کرتا۔ حدیث میں آیا ہے کہ ’’سب سے زیادہ آزمایشیں انبیاے کرام پر آتی ہیں‘ اس کے بعد اولیا پر اور پھر درجہ بدرجہ باقی لوگوں پر۔ ان سب نے اس طرح کی بیماریوں کا سامنا کیا‘اس کو ایک خالص عبادت اور ربانی تحفہ سمجھا اور صبر کا دامن پکڑ کر گویا اپنی مصیبتوں پر اللہ کا شکر ادا کیا۔

اس لیے اے درمند اور فریادی مریض! اگر آپ اس عظیم نورانی قافلے کے ساتھ ملنے کی خواہش رکھتے ہیں تو انھی کی طرح صبروشکر ادا کریں۔

کچھ بیماریاں ایسی بھی ہیں کہ اُن میں آدمی کو موت آجائے تو آدمی اولیا اللہ کی صفوںمیں پہنچ جاتا ہے۔ گویا کہ یہ ایک معنوی شہادت ہے۔ ان میں سے ایک خواتین کا درد زِہ ہے اور دوران زچگی موت پر شہادت۔ اسی طرح پیٹ کا خراب ہونا‘ پانی میں ڈوب جانا‘ آگ میں جل جانا اور طاعون ایسی بیماریاں ہیں کہ ان میں مبتلا شخص اگر اپنی بیماری کے دوران مر جائے تو اس کو شہید کے برابر ثواب ملتا ہے۔ اس طرح بہت ساری بابرکت بیماریاں ہیں‘ جن میں مبتلا شخص اگر مرجائے تو ولایت کا درجہ پا لیتا ہے۔ بیماری جس طرح حبِ دنیا کی شدت کو کم کرتی ہے اسی طرح یہ اپنے احباب سے فراق کے اُس دردناک اور کڑوے گھونٹ کی شدت کو بھی کم کرتی ہے جو موت کے وقت آدمی کو نگلنا ہوتا ہے۔

سولہواں نسخہ: جذبۂ اخوت و محبت کا موجزن ہونا

اے پریشان حال مریض! بیماری انسان کو اجتماعی زندگی کی اہم ترین کڑیوں اور خوب صورت ترین رشتوں‘ یعنی احترام اور محبت کی تلقین کرتی ہے کیوں کہ یہ انسان کو یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ دوسروں سے مستغنی نہیں ہے کہ وہ انفرادیت اختیار کرے اور اس کا دل رحم اور شفقت کے جذبات سے خالی ہو۔ یہ بات قرآن کی آیت سے واضح ہے کہ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰٓیo اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰیo (العلق۹۶: ۶-۷) ’’انسان جب اپنے آپ کو بے پروا دیکھتا ہے توسرکش ہوجاتا ہے‘‘۔ استغنا کے جال میں پھنسا دینے والا نفسِ امارہ صحت و عافیت سے وجود میں آتا ہے اور وہ تعلقاتِ اخوت کے احترام کا کماحقہٗ احساس نہیں کرتا۔ اس طرح اس کو شفقت اور رحم کے اُن جذبات کا احساس نہیں ہوتا جس کی مریض اور مصیبت زدگان ضرور محسوس کرتے ہیں۔

جب انسان پر خود بیماری غالب آتی ہے اور وہ بیماری کی حالت میں آنے والی عاجزی و احتیاج کا ادراک کرتا ہے تو اس کو مومنوں کے اُس احترام کا شعور حاصل ہو جاتا ہے جو وہ اس کے ساتھ برتتے ہیں اور اس کی عیادت کے لیے آتے ہیں۔ اسی طرح اس کو احساس ہوتا ہے کہ مصائب میں مبتلا لوگوں کے ساتھ شفقت کرنا چاہیے‘ اور اس کے دل میں ان کے لیے رحم و شفقت اور محبت کے جذبات موجزن ہوجاتے ہیں جو اسلام کی اہم ترین خصوصیات میں سے ہے۔ پھر جب اس کو موقع ملتا ہے تو اُن کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھاتا ہے‘ اگر تعاون کی طاقت نہ ہو تو اُن کے لیے دست بُدعا ہوجاتا ہے۔ اُن کے ہاں آنے جانے اور اُن کا حال احوال پوچھنے کا اہتمام کرتا ہے‘ اس طرح وہ ایک مسنون عمل کرتے ہوئے بڑے ثواب کا مستحق ٹھیرتا ہے۔

سترہواں نسخہ: بیمارپرسی‘ عمل صالح کی بنیاد

اے بیمار‘ جو اس بات کی شکایت کرتا ہے کہ وہ اعمال صالحہ سے قاصر ہوگیا ہے! آپ شکر کریں۔ بیماری ہی تو ہے جو خلوصِ نیت سے بھرپور اعمالِ صالحہ کا دروازہ کھولتی ہے‘ اور بیمار کی خدمت کرنا نہ صرف دائمی ثواب کا ذریعہ ہے بلکہ یہ قبولیت دعا کا ایک مؤثر ذریعہ بھی ثابت ہوتا ہے۔

بیمار کی خدمت اہلِ ایمان کو بڑے ثواب کا مستحق بناتی ہے اور اُن کی عیادت کرنا اُن کی صحت و عافیت معلوم کرنا‘بشرطیکہ اُن پر بوجھ نہ بنا جائے‘ ایک مسنون عمل ہے‘ اور یہ گناہوں کا کفارہ بھی ہے۔ اس مفہوم کی ایک حدیث وارد ہوئی ہے کہ ’’مریض سے دعا کے لیے کہو‘ اس کی دعا قبول ہوتی ہے‘‘۔ خصوصاً جب مریض قریبی رشتہ دار ہو‘ مثلاً والد یا والدہ ہو تو ان کی خدمت ایک گراں قدر عبادت بھی ہے اور ایک بہت بڑا ثواب بھی۔ مریضوں کو مطمئن کرنا اور اُن کی ڈھارس بندھانا‘ ایک بابرکت صدقے کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ وہ اولاد کتنی خوش قسمت ہے جو بیماری میں اپنے والد یا والدہ کی خدمت کرتی ہے اور اُن کے نرم اور پریشان دلوں کو مطمئن کرتی ہے۔ اس طرح وہ اُن کی دعائیں سمیٹ لیتے ہیں۔ اجتماعی زندگی میں اس روایت کا احترام بھی ہونا چاہیے اور اسے مقام بلند ملنا چاہیے بالخصوص والدین کی تیمارداری اور خدمت ایک   بلند درجہ ہے جس سے اولاد کی عظمت اور انسانیت کی رفعت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ وہ درجہ ہے جس پر تمام مخلوقات یہاں تک کہ ملائکہ بھی انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ اولاد کی یہ شان دیکھ کر ان کی زبان سے بے اختیار ’ماشاء اللہ‘ اور ’بارک اللہ‘ کی دعائیں نکلتی ہیں۔

مریض کے ساتھ رحمت اور شفقت سے پیش آیا جائے تو اس سے بیمار کی تکلیف معدوم ہوجاتی ہے اور اس کے بدلے میں اُسے ایک خوش گوار لذت محسوس ہوتی ہے۔

مریض کی دعا بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔ دعا بذاتِ خود بھی ایک عبادت ہے اس لیے کہ انسان کو جب اپنی عاجزی کا احساس ہوجاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور رحم کا محتاج ہوجاتا ہے۔ جب دعا اخلاص نیت کے ساتھ کی جائے اور یہ عموماً بیماری‘ ضعف اور عاجزی کے مواقع پر ہوتا ہے‘ ایسی حالت میں دعا جلد قبول ہوتی ہے اور بیماری اس قسم کی دعا کے لیے ایک بنیاد ہوتی ہے۔ چنانچہ مریض اور اس کی بیمار پرسی کرنے والے مسلمانوں کو اس طرح کی دعا سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

اٹہارہواں نسخہ: زندگی کی قدر کا احساس

اگر زندگی ایک ہی انداز میں صحت و عافیت کے ساتھ گزرتی رہے تو زندگی کی قدر نہیں رہتی بلکہ کبھی کبھی اس زندگی کے بالکل بے مقصد ہونے کا احساس ہونے لگتا ہے۔ اس کا نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان اپنی بے مقصد زندگی کو عیش و عشرت کی نذر کر دیتا ہے اور اخروی پہلو اس کی نظر سے محو ہو جاتا ہے‘ لیکن اگر زندگی کے نشیب و فراز کا سامنا ہو توزندگی انسان کو اپنی اہمیت سے آگاہ کرتی ہے۔

آپ کسی مال دار اور فارغ البال شخص سے‘ جس کے پاس سب کچھ موجود ہو‘ پوچھیں کہ آپ کا کیا حال ہے؟ تو مجھے یقین ہے کہ آپ اُس کی زبان سے درد اور افسوس کے کلمات سنیں گے۔ وہ کہے گا: ’’ہائے! وقت ہے کہ گزرنے کا نام نہیں لے رہا‘‘ یا آپ اس کی زبان سے ایسی شکایتیں سنیں گے جو لمبی لمبی امیدوں کا نتیجہ ہوتی ہیں کہ میرا فلاںفلاں کام نہیں ہوا‘ کاش! کہ میں یہ یہ کر چکا ہوتا۔ اس کے برعکس جب آپ کسی غریب‘ بے کس اور مسائل و مشکلات کے گرداب میں پھنسے ہوئے آدمی سے پوچھتے ہیں کہ آپ کا کیا حال ہے؟ وہ اپنے مصائب کے باوجود خدا کا شکر ادا کرے گا اور بہتری کے لیے تگ و دو میں مصروف ہوگا۔

اے بیمار بھائی! آپ کو جان لینا چاہیے کہ مشکلات و مصائب اور اسی طرح گناہوں کی اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ معدوم ہونے والے ہیں۔ جب حقیقت یہ ہے تو آپ جس بیماری میں مبتلا ہیں وہ آپ کے پاس بھیجا ہواایک مہمان ہے جو اپنی بہت ساری ذمہ داریوں کو انجام دینے کے لیے آیا ہے۔ وہ آپ کی زندگی کو پاک و صاف کرتا ہے‘ وہ آپ کے جسم میں موجود تمام آلات کو اس بیمارعضو کی طرف متوجہ کرتا ہے اورزندگی کی حقیقی قدر کا احساس دلاتے ہوئے رخصت ہوجاتا ہے۔ اس احساس کی قدر کیجیے۔

انیسواں نسخہ: مرض کی حقیقت

اے علاج کی تلاش میں سرگرداں مریض! جان لو‘ کہ مرض کی دو قسمیں ہیں: ایک حقیقی مرض ہوتا ہے اور دوسرا صرف وہم۔

اگر مرض حقیقی ہو تو اللہ تعالیٰ نے ہر مرض کا علاج پیدا کیا ہے (لکل دائٍ دوائ)، اور اس علاج کو اپنے وسیع مطب‘ یعنی کرئہ ارض میں پھیلا دیا ہے۔ لہٰذا دوا کا استعمال بالکل جائز ہے‘ البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دوا کا اثرانداز ہونا اور شافی ہونا اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اس لیے وہ جس طرح بیماری لاتا ہے اسی طرح شفا بھی دیتا ہے۔ ایک مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ ایک تجربہ کار ڈاکٹر کے مشوروں پر عمل کرے۔ زیادہ تر بیماریاں چیزوں کے غلط استعمال‘ مشوروں سے بے پروائی‘ حد سے تجاوز‘ غفلت‘ عدم احتیاط اور گناہوں سے پیدا ہوتی ہیں۔ ایک اچھا ڈاکٹر مرض کے علاج کے ساتھ ساتھ مریض کو تسلی بھی دیتا ہے اوراُسے پُرامید رکھتا ہے۔ مریض کا کام یہ ہے کہ ڈاکٹر کے مشوروں پر یقین رکھے۔ اس طرح بالآخر مریض صحت یاب ہوکر پریشانی سے نجات پائے گا اور خدا کا شکرگزار ہوگا۔

مرض کی دوسری قسم وہم ہے۔ اس کا بہترین علاج یہ ہے کہ اس کی طرف توجہ نہ دی جائے۔ اس لیے کہ وہم پر آپ جتنی توجہ دیں گے اتنا ہی وہ مضبوط ہوتا ہے اور دل و دماغ پر اس کا اثر گہرا ہوتا ہے۔ اگر اس کی کوئی پروا نہ کریں تو آخرکار یہ ختم ہوجاتا ہے‘ جیسے اگر انسان مکھیوں کے چھتے کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرے تو وہ یکجا ہو کر انسان پر حملہ آور ہوتی ہیں لیکن اگر اُن کو کچھ نہ کہیں تو وہ خود بخود منتشر ہوجاتی ہیں‘ یا کوئی آدمی اندھیرے میں رسی کو دیکھ کر سانپ گمان کرلے تو وہ خیال اس کے ذہن میں جڑپکڑ لیتا ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ اس سے بے پروا ہوجاتا ہے تو اس پر جلد ہی واضح ہوجائے گا کہ یہ رسی ہے‘ سانپ نہیں۔ لہٰذا مرض کی حقیقت کو جان کر اللہ پر توکل کرنا چاہیے اور ذہنی الجھنوں کا شکار نہیں ہوناچاہیے۔ یہی مومنانہ رویّہ ہے۔

بیسواںنسخہ: خلوص و محبت کا حصول

اے مریض بھائی! یہ بات ٹھیک ہے کہ آپ کی بیماری جسمانی دردوالم کا ذریعہ ہے لیکن ایک اہم معنوی لذت بھی آپ کا احاطہ کیے ہوئے ہے جو جسمانی درد کو بھلا دیتی ہے۔ اس لیے کہ آپ کا جسمانی درد اُس رحم اور شفقت سے زیادہ اہم نہیں ہے جسے آپ نے بچپن کے بعد سے بھلا دیا ہے۔ وہ محبت و شفقت اب آپ کے والدین اور رشتہ داروں کے دلوں میں نئے سرے سے اُبھر رہی ہے۔ محبت و شفقت سے بھرے یہ جذبات اور بچپن کی یاد ایک بار پھر آپ کی روح کو تازگی بخشتی ہے۔ آپ کے احباب اور پیاروں کے دلوں سے وہ مخفی حجاب ایک بار پھر اٹھ رہا ہے اور وہ نئے سرے سے آپ کا خیال رکھنے کے لیے آپ کے گرد جمع ہورہے ہیں۔ وہ آپ کی بیماری کی وجہ سے پیارومحبت کے ساتھ آپ کی طرف متوجہ ہیں۔

آپ غور کریں کہ آپ کی یہ جسمانی تکلیف اُن خدمات و جذبات کے آگے کیا حیثیت رکھتی ہے جو اس تکلیف کے بدلے میں آپ کو محبت و شفقت کی صورت میں مل رہی ہیں۔ آپ کے شفیق دوستوں میں اضافہ ہوا ہے‘ آپ انسان کی فطری شفقت اور رحم دلی کی بنا پر اُن کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ جب آپ بیمار ہو گئے تو گویا آپ نے مشکل ذمہ داریوں کو اٹھانے کا حوصلہ پالیا۔ اب آپ نہ صرف مشکل کاموں کی مشقت سے بآسانی گزر سکیں گے بلکہ اس میں آپ کو ایک لذت محسوس ہوگی۔ ان ساری معنوی لذتوں کے بعد آپ پر لازم ہے کہ آپ اپنا رخ شکر کی وسعتوں کی طرف موڑ دیں اور شکوہ و شکایت کی کیفیت سے باہر نکل آئیں جو آپ کی عارضی تکلیف کی وجہ سے آپ کے اوپر غم و اندوہ کی صورت میں چھا گئی تھی۔

اکیسواں نسخہ: توکل اور تزکیہ نفس

اے فالج کی بیماری میں مبتلا بھائی! میں آپ کو خوش خبری سناتا ہوں کہ فالج ایک مومن کے لیے بڑی برکت والی بیماری شمار کی جاتی ہے۔ یہ بات میں ایک عرصے سے نیک لوگوں سے سنتا تھا لیکن میں اس راز سے بے خبر تھا۔ اب یہ راز مجھ پر کھلا ہے۔ وہ اس طرح کہ: اولیاے کرام دنیا کے بڑے بڑے معنوی خطرات سے بچنے کے لیے‘ اور اخروی سعادت کو حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنے ارادے سے دو بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں:

۱- پہلا یہ کہ وہ دنیا کے عارضی ہونے اور موت کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔

۲- دوسرا یہ کہ نفسِ امارہ کو مجاہدوں اور روحانی ریاضیتوں کے ذریعے مار دیا جائے تاکہ اس کی ہلاکتوں سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔

اے پیارے بھائی‘ جو اپنی آدھی صحت کھو چکے ہو! میں یہ دو آسان اور مختصر اصول آپ کے سپرد کر رہا ہوں جو آپ کے ابدی سعادت کے راستے کو آسان کر دیں گے اور وہ ہمیشہ آپ کو آخرت کی یاد دلائیں گے۔ اس کے بعد دنیا آپ کی سانسوں کو گھٹن زدہ نہیں کرسکے گی اور غفلت آپ کی آنکھیں اندھی کرنے کی جرأت نہیں کر سکے گی‘ اور نہ نفسانی خواہشات آپ کو راستے سے بھٹکا سکیں گی حالانکہ فالج کی وجہ  سے آپ کا آدھا جسم بے کار ہوگیا ہے۔ جب یہ ساری چیزیں آپ کو گمراہ کرنے میں ناکام ہوں گی تو آپ ان کے شر سے جلد از جلد نجات پالیں گے۔

مومن اگر ایمان‘ تسلیم و رضا اور توکل کی صفات سے متصف ہو تو وہ فالج جیسی بیماری کے ذریعے مختصر ترین وقت میں اتنا زیادہ فائدہ اٹھا لیتا ہے جتنا ایک ولی اللہ سالہا سال کے مجاہدات اور ریاضتوں سے بھی نہیں حاصل کر سکتا۔ اگر مومن ان صفات سے متصف ہو تو یہ بیماری کمزور ہوتی جاتی ہے اور اس کا برداشت کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

بائیسواں نسخہ: خصوصی نظرِکرم

اے عاجز مریض‘ جو تنہائی کی وجہ سے اجنبی سا ہوکر رہ گیا ہے! بیماری تو ایک طرف‘ اگر آپ کی اجنبیت اور کسی تیماردار کی عدم موجودگی‘ لوگوں کے دلوں کے آپ کی طرف مائل ہونے اور شفقت سے بھرجانے کا ذریعہ بنتی ہے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ اس رحیم ذات کا‘ جو تجلیات کی مالک ہے‘ آپ کی حالت سے بے خبر ہوگی؟ اس نے سورئہ فاتحہ میں اپنی کیفیت‘ اپنی اس عظیم الشان صفت کے ساتھ بیان کی ہے کہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم، وہ بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ اس کی شفقت اور رحمت کی ایک جھلک یہ ہے کہ ماں کے دل میں بچے کی پرورش کا جذبہ رکھ دیا ہے اور اس کی تجلی ٔ رحمت سے آخرت کی ابدی زندگی‘ جنت اور اس کی رنگینیوں کی صورت میں مجسم ہوجائے گی۔ آپ کا ایمان کے ذریعے اُس کے ساتھ نسبت پیدا ہو جانا‘ بیماری کی وجہ سے عاجزی پر آمادہ زبان سے اس سے التجا کرنا‘ اس سے امیدیں رکھنا اور اس کے سامنے عاجزی کرنا ایک وسیلہ بن جاتا ہے جس کے ذریعے ذات باری تعالیٰ کی نظرِرحمت آپ کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے۔ یہ ایسی نظرِکرم ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔

ذاتِ موجود جب آپ کے اوپر نظر رکھے ہوئے ہو تو آپ کے لیے سب کچھ موجود ہے۔ حقیقت میں اجنبی اور تنہا تو وہ آدمی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایمان اور تسلیم و رضا کا رشتہ نہیں رکھتا اور نہ اس رشتے میں کوئی دل چسپی رکھتا ہے۔

تیئسواں نسخہ: حقیقی شفا

اے بیمار بھائی! اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ ایک نفع بخش ربانی علاج کے محتاج ہیں اور آپ کو ایسی دوائی کی ضرورت ہے جو ہر بیماری میں کام دے کر لذتِ حقیقی سے سرشار کردے تو اپنا ایمان تازہ کریں اور اس کو صیقل بنا دیں‘ یعنی توبہ واستغفار‘ نماز اور عبادت کے ساتھ تاکہ یہ آپ کی بیماری کے لیے علاجِ ربانی ثابت ہو۔

جولوگ دنیا کی محبت اور اس کے ساتھ گہرے تعلق کی وجہ سے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور اُن کی حالت یہ ہے کہ گویا وہ دنیا کے بندے ہیں‘ ایسی صورت میں ایمان آگے بڑھتا ہے اور اس زوال و فراق کی ماری ہوئی حالت کے لیے شفا دینے والا مرہم پیش کرتا ہے جو ان زخموں اور ناسوروں سے نجات کا ذریعہ بنتاہے۔ دراصل ایمان ہی آدمی کو حقیقی شفا دیتا ہے۔

میں طوالت سے بچتے ہوئے مختصراً صرف یہ کہوں گا کہ:

ایمان کا علاج اپنا اثر اس طرح دکھاتا ہے کہ آدمی فرائض کی ادایگی اور اپنی حد تک ان کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے پر آمادہ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں غفلت‘جہالت اور خواہشاتِ نفسانی اور ناجائز لہوولعب اس علاج کے اثر اور کارکردگی کو ضائع کر دیتے ہیں۔

جب یہ حقیقت ہے کہ بیماری آنکھوں کے پردے ختم کرتی ہے‘ شہوت کی آگ کو بجھاتی ہے اور حرام لذتوںمیں پڑنے سے روکتی ہے‘ تو کیوں نہ آپ اس سے فائدہ اٹھائیں اور توبہ و استغفار کے ساتھ دعا اور قبولیتِ دعا کی امید باندھے‘ ایمان کے حقیقی علاج کو کام میں لائیں تاکہ حق تعالیٰ آپ کو حقیقی شفا سے سرفراز فرمائے اور آپ کی بیماریوں کو گناہوں کے مٹانے کا ذریعہ بنائے۔ آمین ثم آمین!

_____________

ترجمہ: گل زادہ شیرپائو

آج کل یہ مسئلہ بہت اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ ساس بہو کے درمیان باہمی موافقت کی فضا ختم ہوتی جارہی ہے۔ دراصل یہ ایک ناقابل التفات مسئلہ تھا لیکن ذرائع ابلاغ نے اسے فلموں اور ڈراموں کے ذریعے اور کلچروثقافت کے نام پر بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ درحقیقت ساس بہو کے درمیان پیدا ہونے والے اکثر مسائل کا حل بالکل آسان ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف بہو کے اختیار میں ہوتا ہے بلکہ ساس بھی معمولی سمجھ بوجھ سے انھیں بآسانی حل کرسکتی ہے۔ میرے خیال میں ایسے مسائل کا سب سے پہلا اور آسان ترین حل قلبی جذبات کے ساتھ علیک سلیک اور ایک گرم جوش مصافحہ ہے۔

شادی اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ متمدن زندگی کی پہلی اینٹ ہے اور اس سے ایک نیا خاندان وجود میں آتا ہے۔ یہ تعلق جو زوجین کے درمیان پیدا ہوتا ہے اس کا دونوں خاندانوں کے افراد پر براہ راست اثر ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے دونوں خاندانوں کے درمیان پیار‘ محبت‘ گرم جوشی اور قربت کا تعلق پیدا ہوجاتا ہے۔ اس طرح یہ دونوں خاندان ایک ہی خاندان کی صورت اختیار کرجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ’مصاہرت‘ یعنی سسرال کے تعلق کی بنیاد پر آدمی کا اپنی ساس کے ساتھ نکاح حرام قرار دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ساس کو اللہ تعالیٰ نے محض عقد نکاح کے ساتھ ہی ماں کا درجہ دے دیا ہے تاکہ گھر کے اس نووارد فرد کے دل سے ہر قسم کے شک و شبہے کو کھرچ ڈالا جائے۔ لیکن اسلام میں ساس کے اس عظیم مرتبے کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ بعض گھرانوں میں ساس اور بہو کے اختلافات کی وجہ سے بہت سے مسائل پیش آتے رہتے ہیں۔

ماہرین نفسیات کی رائے

بعض ماہرین نفسیات ساس بہو کے مسئلے کے دو پہلو بیان کرتے ہیں:

  • میاں بیوی کے احساسات: اکثر لوگوں کے ہاںساس کے بارے میں انتہائی برا تصور پایا جاتا ہے۔ پھر ساس اور بہو کے تعلقات کی نوعیت اس تصور میں یا تو مزید اضافہ کر دیتی ہے یا کمی۔ بہو کے ذہن میں ساس کا جو تصور پایا جاتا ہے وہ اگر ساس کے رویے سے حقیقت ثابت ہوجائے تو بہو کے ساس سے تنگ آنے میں مندرجہ ذیل امور معاون ثابت ہوتے ہیں:

۱-  بعض اوقات ساس کا کردار ایسا مثالی ہوتا ہے جس تک پہنچنا بہو کے بس میں نہیں ہوتا۔ شوہر کا خیال ہوتا ہے کہ اس کے لیے والدہ جو کھانا تیار کرتی تھی‘ وہ ذائقے کے لحاظ سے اچھا ہوتا تھا اور اس کے اخراجات کم ہوتے تھے۔ یہ تو ایک مثال ہے ورنہ بیٹے کے ذہن میں ماں کی قدرومنزلت کے لیے اس کے علاوہ بھی کئی چیزیں ہوسکتی ہیں۔

۲-  زیادہ تر جوڑے یہ محسوس کرتے ہیں کہ اُن کو بچپن میں کوئی سمجھانے والا میسر نہیں تھا اور کسی نے ان کو زندگی کے نشیب و فراز کی حقیقت سے آگاہ نہیں کیا۔ اس وجہ سے شوہر اور بیوی‘ ساس کو اس ماں کی نظر سے دیکھتے ہیں جس نے بچپن کے زمانے میں ان کی زندگی کو مکدّر بنایا ہو۔ نتیجتاً ساس بے چاری ’’قربانی کا بکرا‘‘ بن جاتی ہے۔ حالانکہ اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔

۳-  شوہر اور بیوی ہر معاملے میں ساس کو ملامت کا نشانہ بناتے اور ہر چپقلش کی ذمہ دار ساس کو ٹھیراتے ہیں۔ اگر بیوی شام کا کھانا تیار کرنے میں تاخیر کرتی ہے تو شوہر اس کو والدہ کی عدم تربیت کا طعنہ دیتا ہے۔ اس طرح دل میں ساس کے ساتھ نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔

  • ساس کے احساسات: کبھی کبھی ساس اپنے بیٹے یا بیٹی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے والے فرد کے بارے میں اپنے دل کے اندر لاشعوری طور پر مقابلے اور کشیدگی کے جذبات محسوس کرتی ہے۔کبھی مندرجہ ذیل تین احساسات ساس کے اضطراب کا ذریعہ بنتے ہیں:

۱-  بڑی اولاد ایک بہت بڑا نفسیاتی سرمایہ خیال کی جاتی ہے۔ اس وجہ سے ساس عموماً اس فرد کے لیے اپنے دل میں محبت کے جذبات نہیں رکھتی جس نے اس کی اولاد چھین لی ہو۔

۲-  وہ ساس جس نے اپنے آپ کو سالہا سال تک اپنی اولاد کی تربیت اور نگرانی کے لیے وقف کیا ہوتا ہے‘ اس کے لیے یہ بات تسلیم کرنا مشکل ہوجاتی ہے کہ ایک سیدھی سادی لڑکی‘ جسے زندگی میں کوئی ذمہ داری ادا کرنے کا موقع نہیں ملا‘ اس قابل ہو سکتی ہے کہ اس کے بیٹے کے معاملات سنبھالنے کی عظیم ذمہ داری اٹھا سکے۔ یا وہ سمجھتی ہے کہ یہ پریشان حال نوجوان اس قابل نہیں ہے کہ اس کی بیٹی کے معاملات کو ٹھیک طرح سے چلا سکے۔

۳- کبھی ساس اپنے بیٹے یا بیٹی کے شریکِ حیات کے ساتھ بعض معاملات میں اختلاف کرتی ہے۔ اس کے باوجود کبھی کبھی اس کا رویہ ان عوامل کا نتیجہ ہوتے ہیں جو ایک طرح سے باہمی محبت اور مفاہمت کا ذریعہ بنتے ہیں۔

مسئلے کے اہم کردار

ان اختلافات کو تین بنیادی پہلوئوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے: ماں (ساس)‘ بیوی اور شوہر۔ یہ اس مسئلے کے تین بنیادی فریق ہیں۔

  • ماں (ساس): اس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ ماں اپنے اس جگرگوشے کے لیے اپنے دل میں کیا احساسات رکھتی ہے جس کا وجود ہی ماں کا مرہونِ منت ہے‘ جسے اس نے جنم دیا‘ اس کی تربیت کی اور پال پوس کر جوان کیا۔

یقینا ہر ماں جانتی ہے کہ ایک دن اس کا بچہ یا بچی اس سے الگ ہوجائیں گے لیکن وہ اس کے لیے ذہناً تیار نہیں ہوتی۔ اُس کا دل اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

ماں سمجھتی ہے کہ ابھی اس کا بیٹا اتنا ذمہ دار نہیں ہے کہ اپنے معاملات خود چلا سکے۔ چنانچہ اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ بیٹے کے لیے سب کچھ وہ خود ہی کرے اور بسااوقات جب وہ کچھ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو ماں اسے روکتی ہے اوراس کام کے لیے خود دوڑتی ہے۔ اسی طرح اس نے خود اپنے آپ کو بھی اس بات کا عادی نہیں بنایا ہوتا کہ وہ بچے کی ذاتی زندگی سے بے دخل ہوجائے۔ اس کی نظروں میں وہ ایسا بچہ ہوتا ہے جو اس کی مدد کا محتاج ہے۔

ایک ماں کو جس بات کا سب سے زیادہ خدشہ ہوتا ہے وہ یہ کہ بیٹے یا بیٹی کی شادی کے بعد وہ اپنے اُس مقام سے محروم ہوجائے گی جو اس کو پہلے سے حاصل تھا‘ یعنی بیٹا یا بیٹی پہلے صرف اس کے لیے تھے لیکن اب ایک اور فرد بھی اس کے ساتھ شریک ہوجائے گا۔ اس کا یہ خوف بہت حد تک بجا ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ وہ اپنے مدمقابل کے ساتھ ٹکر نہیں لے سکتی۔ بیٹے کی صورت میں اس کی مدمقابل‘ بیٹے کی نئی نویلی دلہن ہوتی ہے اور بیٹی کی صورت میں‘ بیٹی کا شوہر ہے۔ اگرچہ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ لڑکی اپنی مخصوص فطرت کی بنا پر شادی سے پہلے اور شادی کے بعد بھی شوہر کے مقابلے میں اپنے والدین کے ساتھ تعلق کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے۔

ہم اُن جذبات و احساسات سے بھی چشم پوشی نہیں کر سکتے جن سے ایک ماں کا دل ہر وقت لبریز ہوتا ہے۔ اس لیے بہو اور داماد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی ساس کے ان جذبات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

ایک بہو کو اپنے دل سے پوچھنا چاہیے کہ خود اس کے دل میں اپنی والدہ کے لیے کیا جذبات ہیں اور والدہ کی اس کے ساتھ کتنی محبت ہے؟ کیا یہ جذبات شادی کے بعد یکسر تبدیل ہوسکتے ہیں؟ گھروں میں پیدا ہونے والے اکثر مسائل کا سبب یہ ہوتا ہے کہ بیٹی اپنی ماں کے ساتھ شادی سے پہلے جو تعلق رکھتی ہے‘ شادی کے بعد بھی اس کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ روزانہ اپنی ماں کے پاس جایا کرے یا دن میں کئی کئی بار اس کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کیا کرے۔ وہ چاہتی ہے کہ اپنے نئے گھر کو بھی اسی انداز میں چلائے جس طرح کہ اس کی والدہ اپنے گھر کو چلایا کرتی تھی۔

ماں کو بھی اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ ماں ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ بیٹا اور بیٹی ہمیشہ کے لیے اس کی ملکیت ہیں۔ ماں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دل میں مامتا کے ناقابلِ انقطاع جذبات ہوں۔ ماں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ بیٹا جب شادی کرتا ہے تو وہ اپنی زندگی کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوتا ہے اور اس کے اپنے تقاضے ہیں۔ اس مرحلے کے بعد اس کا یہ حق بنتا ہے کہ اس کا مستقل گھر ہو اور وہ اپنے طور پر زندگی گزارے۔

بیوی (بہو): سب سے پہلے ہمیں اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ کیا ساس بہو اور ساس اور داماد کے درمیان تعلق باہمی کش مکش کا تعلق ہے؟ ماہرین نفسیات کے مطابق اس کی کوئی ایک وجہ نہیں بلکہ اس میں کئی عوامل کارفرما ہیں۔ یہ نفرت ایک طرف ماں کے دل میں اپنے بیٹے یا بیٹی کے شریکِ حیات کے خلاف پیدا ہوتی ہے اور دوسری طرف بہو یا داماد کے دل میں اپنی ساس کے خلاف۔

ان عوامل میں سب سے اہم عامل‘ ماں کا احساس ملکیت ہے۔ وہ اس بات پر عقیدے کی حد تک یقین رکھتی ہے کہ اولاد گویا اس کی ملکیت ہے اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اسے چھین سکے۔ دوسری طرف ساس کی ناپسندیدگی کا احساس اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ بہو اپنے طور پر اس بات پر آمادہ نہیں ہوتی کہ شوہر کے ساتھ اس کی محبت میں کوئی دوسرا شریک ہو‘ خواہ وہ شوہر کی ماں ہی کیوں نہ ہو۔ وہ اس بات کی خواہش رکھتی ہے کہ شوہر کی پوری توجہ اس کی طرف ہو اور اُس کی سوچ و فکر کا مرکز و محور صرف وہی ہو۔

نئے گھر میں مسائل پیدا ہونے کی وجہ اکثر یہ ہوتی ہے کہ وہاںشادی کا ایک غلط تصور پایا جاتا ہے۔ بیوی چاہتی ہے کہ شوہر کسی بھی معاملے میں صرف اُس کی بات مانے اور شوہر کی زندگی کا ہر چھوٹا بڑا معاملہ اس کے سامنے ہو۔ وہ وہی غلط کردار ادا کرنا چاہتی ہے جو بعض مائیں ادا کرتی ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے خوداعتمادی کا کوئی موقع فراہم نہیں کرتیں۔

یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ بیوی اپنے شوہر کے بارے میں یہ حق رکھتی ہے اور یہ     بے شک بڑا بنیادی حق ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرے۔ مسلمان تو اس بات کا مکلف ہے کہ وہ ہر صاحب حق کو اس کا حق ادا کرے۔ ایک مسلمان جب اپنے اوپر عائد حقوق کی ادایگی میں کوتاہی کرتا ہے تو وہ گناہ گار ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ اس عبادت گزار بیوی پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے جو اپنے شوہر کو اس بات پر ابھارتی ہے کہ وہ اپنی والدہ کی بات مانے اور ان کی دلجوئی و خدمت کرے۔وہ اسے کہتی ہے: میں تجھے قسم دیتی ہوں کہ صرف حلال مال کمائو‘ اور میری وجہ سے اپنے آپ کو آگ میں نہ ڈالو۔ اپنی والدہ کے ساتھ نیک سلوک کرو‘ ان کے ساتھ صلہ رحمی کرو اور قطع تعلق نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تجھ سے قطع تعلق کر لے گا۔

ایک صالح بیوی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ذہن سے ساس کا یہ مہیب تصور نکال دے اور وہ یہ سوچے کہ میرے شوہر کی ماں‘ یعنی ساس میرے لیے بھی ماں کی طرح ہے۔ اگر ساس کی طرف سے اس کے بارے میں کوئی غلط فہمی ہوجائے تو جواب میں اس کا طرزعمل وہی ہونا چاہیے جو وہ اپنی ماں کی کسی غلطی کی وجہ سے اختیار کرتی تھی۔

  • شوہر (ساس کا بیٹا):اس بارے میں شوہر کی ذمہ داری اور اس کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ساس بہو کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کی ایک بڑی وجہ شوہر کا کردار ہی ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اسے سمجھ نہیں آتی کہ وہ اپنی بیوی بچوں اور نئے گھر کے حقوق اور اپنے والدین‘ بہن بھائیوں اور خصوصاً ماں کے حقوق ‘نیز اپنے کام کاج‘ ذریعہ معاش اور دوست احباب کے ساتھ تعلقات میں توازن کیسے پیدا کرے۔

چنانچہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کی توجہ ان میں سے کسی ایک طرف مرکوز ہوجاتی ہے اور باقی حقوق متاثر ہونے لگتے ہیں اور اُسے اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یا وقت کی کمی اور مصروفیات کی کثرت ہوتی ہے یا پھر یہ کہ آدمی کو زندگی کے معاملات کا تجربہ نہیں ہوتا۔ وہ بیک وقت سب کو خوش رکھنا چاہتا ہے۔ نتیجتاً اپنی تمام تر کوشش کے باوجود وہ کسی ایک کو بھی پوری طرح خوش نہیں رکھ پاتا۔

اگر لڑکا سمجھ دار ہو تو وہ اپنے معاملات کو خوب سوچ سمجھ کر آگے بڑھاتا ہے۔ وہ اپنی ذمہ داریوں اور میسر وقت کے درمیان توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنی پوری توجہ کسی ایک طرف مرکوز نہیں کرتا‘ بلکہ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے وقت کو اپنی ذمہ داریوں کے مطابق تقسیم کرے تاکہ دیگر حقوق بھی ادا کیے جا سکیں۔اگرچہ وہ یہ طاقت تو نہیں رکھتا کہ ہر پہلو میں حدِّکمال تک پہنچے لیکن اپنی وسعت کے مطابق ہر باغ میں کوئی پھول تو لگا سکتا ہے۔

ساس بہو‘ آمنے سامنے

بسااوقات لڑکا اپنی مرضی سے شادی کرلیتا ہے اور ماں اس سے خوش نہیں ہوتی۔ وہ اپنی بہو کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ اسی طرح کبھی بہو کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ساس کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے‘ اور ساس کے اس کے بارے میں احساسات کچھ اچھے نہیں ہیں۔ چنانچہ وہ بھی اسی طرح بے رخی برتتی ہے جس طرح اس کی ساس برتتی ہے اور اس کے نتیجے میں دونوں کے درمیان عداوت کی وہ آگ بھڑک اٹھتی ہے جس کے شعلے پھر کبھی ماند نہیں پڑتے۔ اس صورت حال میں لڑکا بے چارہ چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پستا رہتا ہے۔

ہمارا مشورہ یہ ہے کہ لڑکا جب شادی کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ اپنے گھر والوںسے اپنی شادی کے بارے میں مشورہ ضرور کرے‘ اور اُن پر زور دے کہ وہ اس کے ساتھ انتخاب میں شریک ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افراد خانہ کو انتخاب میں شریک کرنا‘ خواہ براے نام ہی کیوں نہ ہو‘ دلوں کو خوش کر دیتا ہے اور معاملہ سب کی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور پریشانی نہیں ہوتی۔

دوسری بات یہ ہے کہ ماں کو بھی چاہیے کہ اپنے بیٹے کی پسند کا خیال رکھے اور اس کو  کسی ایسی لڑکی کے ساتھ شادی پر مجبور نہ کرے جس سے ذہنی ہم آہنگی نہ ہو۔ اس لیے کہ شادی ایک ایسا رشتہ ہے جو ساری زندگی پر محیط ہے۔ اس رشتے کو دوام بخشنے کے لیے ضروری ہے کہ ذہنی ہم آہنگی ہو۔

تیسری بات اس مسئلے کی تلخ حقیقت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ جب شادی ماں کی رضامندی کے بغیر طے پاجائے تو ایسی صورت میں ہم بہو کو نصیحت کریں گے کہ وہ ساس کی ترش روئی کا جواب خندہ پیشانی کے ساتھ دے اور نرمی سے پیش آتے ہوئے دل سے اس کا احترام کرے۔ اس کی نفرت کا جواب محبت سے دے۔دوسری طرف ساس کا فرض ہے کہ وہ اپنی بہو کے بارے میں اللہ سے ڈرے اور اسے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس کے حقوق سے نوازے۔ اسے چاہیے کہ اپنے بغض اور ناپسندیدگی کو اس کے حقوق کی ادایگی میں حائل نہ ہونے دے۔

جب جنگِ یمامہ کے موقع پر حضرت زید بن خطابؓ کا قاتل ایمان لایا توحضرت عمرؓ نے اس سے منہ پھیر لیا۔ اس نے کہا: کیا آپ میرے ساتھ بغض رکھتے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے کہا: ہاں! اس نے پوچھا:کیا آپ کا میرے ساتھ بغض رکھنا اس میں رکاوٹ ہے کہ آپ میرا حق ادا کریں؟ حضرت عمرؓ نے کہا: نہیں! اس نے کہا: چلیں پھر کوئی بات نہیں‘ محبت پر رونا عورتوں کا کام ہے (یعنی اگر مجھے اپنا حق مل جائے تو آپ کی محبت کی مجھے کوئی ضرورت نہیں)۔

بچوں کی پیدایش

بچوں کی پیدایش کا مسئلہ بھی ساس بہو کی لڑائیوں کا ایک اہم سبب تصور کیا جاتا ہے۔ جب بہو کے ہاں بچے کی پیدایش میں تاخیر ہوجاتی ہے تو ماں کا اپنے بیٹے کے بارے میں اضطراب روز بروز بڑھتا جاتا ہے اور اس کا اپنی بہو کے ساتھ تعلق خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات لڑکا پیدا نہ ہونا بھی وجہ تنازع بن جاتی ہے۔

قرآن کہتا ہے کہ اولاد (لڑکا یا لڑکی) خدا کی طرف سے ہے۔ (الشوریٰ ۴۹:۵۰)۔ جدید علمی تحقیقات سے بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ لڑکایا لڑکی کی پیدایش کا سبب مرد ہوتا ہے عورت نہیں۔ لہٰذا ساس کو چاہیے کہ وہ اپنی بہو کی اس حالت پر صبر کرے اور اس معاملے میں اسے پریشان نہ کرے‘ اس کے احساسات کو ہرگز مجروح نہ کرے اور اس کا مذاق نہ اڑائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’تم اپنے بھائی کا مذاق نہ اڑائو۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو معاف کر دے اور تمھیں اس مصیبت میں مبتلا کر دے جس میں پہلے وہ مبتلا تھا‘‘۔ ساس کا فرض ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنی بہو کو تسلی دے‘ اسے صبر کی تلقین کرے اور خود بھی صبر کرے۔ اس لیے کہ بسااوقات ایک عورت کے ہاں شادی کے کئی سال بعد بچے پیدا ہوتے ہیں۔

مشترکہ خاندان میں رھایش

بعض اوقات لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ مشترکہ خاندان میں رہتی ہے جہاں اس کے شوہر کے دوسرے بھائی بھی اپنی اپنی بیویوں سمیت رہتے ہیں۔ وہ گھر کے کام کاج اور کھانے پینے میں اشتراک عمل سے کام لیتے ہیں۔ اگرچہ یہ صورت آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے لیکن پھر بھی اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ صورت حال بھی کبھی کبھار ساس بہو کے درمیان ناچاقی کا سبب بن جاتی ہے۔

اس حوالے سے لڑکی کے لیے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری دلجمعی سے ادا کرے اور اپنے کام کو اچھے طریقے سے انجام دینے کی کوشش کرے۔ وہ یہ نہ دیکھے کہ اس کی دوسری نندیں کیا کرتی ہیں۔ اس کو چاہیے کہ ساس کے ساتھ بہترین تعلقات رکھے اور اپنی نندوں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک سے پیش آئے‘ غیبت نہ کرے اور برا بھلا نہ کہے۔ یہ روش دل میں جگہ بنانے کا باعث ہوگی۔لڑکی کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک مضبوط بنیاد ہے جس کے ذریعے وہ اپنے گھر کے ماحول کو خوش گوار بنا سکتی ہے۔

ساس کا بخیل اور بھو کا فضول خرچ ہونا

بعض اوقات بہو فضول خرچ ہوتی ہے اور اس کی ساس بخیل ہوتی ہے‘ یا بہو تو معتدل ہوتی ہے لیکن اس کی ساس حد سے زیادہ بخیل۔ چنانچہ اس صورت میں بھی وہ اپنی بہو کے طرز عمل سے خوش نہیں ہوتی کیونکہ بخیل آدمی دوسروں سے کسی حال میں بھی خوش نہیں ہوتا۔

اس مسئلے کا سبب درحقیقت بخل نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ساس زمانے کی موجودہ صورت حال سے بے خبر ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو اس مسئلے کا حل کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اگر بہو ایک دن اپنی ساس کو خریداری کے لیے یا اس کے لیے کوئی تحفہ خریدنے کی غرض سے ساتھ لے جائے تو اس پر خود بخود حقیقت حال واضح ہو جائے گی اور وہ سمجھ جائے گی کہ زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔

اگر ساس واقعی بخیل ہے تو پھر بہو کے لیے ہماری نصیحت یہ ہے کہ وہ اپنے زیادہ تر مالی معاملات ساس سے چھپا کر رکھے اور وہ خریداری میں جو پیسے خرچ کرے اس کو ساس کے سامنے حکمت سے بیان کرے تاکہ ساس کو محسوس نہ ہو اور خرابی کی صورت نہ پیدا ہو۔ دراصل ماں کو اپنے بیٹے کی کمائی کی بڑی فکر ہوتی ہے اور اسے خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں بہو اسے اللوں تللوں میں نہ اڑا دے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی مشورہ دیتے ہیں کہ اخراجات میں اعتدال سے کام لیا جائے‘ اس لیے کہ شریعت بھی ہمیں اعتدال پر اُبھارتی ہے۔

عورت کا لاپروا ہونا

گھریلو مسائل کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب عورت کا لاپروا ہونا بھی ہے۔ کبھی وہ گھر کے کام کاج کی طرف توجہ نہیں دیتی‘ کبھی بچوں کی نگہداشت سے بے پروا ہوجاتی ہے یا اپنے بارے میں کاہلی کا شکار ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے شوہر ذہنی طور پر پریشان ہوجاتا ہے اور اسے گھر کے ساتھ نفرت سی ہوجاتی ہے۔ اس کی ماں جب یہ حالت دیکھتی ہے تو اس کو بھی پریشانی لاحق ہوتی ہے کیونکہ ماں اپنے بچوں کی خوشی سے خوش ہوتی ہے اور پریشانی سے پریشان۔

بہت سی عورتیں ساس کے ساتھ اپنے تعلقات کی کشیدگی کی شکایت کرتی ہیں لیکن اسباب سامنے آتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسائل کھڑے کرنے کی ذمہ دار وہ خود ہی ہیں۔ ایک بہو کو معلوم ہونا چاہیے کہ اپنے گھر کی صفائی اور دیگر امور کا خیال رکھنا‘ بچوں کی نگہداشت اور اپنے اوپر نظر رکھنا‘ یہ ایسے امور ہیں جن کی وجہ سے ساس کو خوشی ہوتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ماں کا دل کیسا ہوتا ہے اور وہ شادی سے پہلے اپنے بیٹے کا کس طرح خیال رکھتی ہے۔ پھر جب وہ دیکھتی ہے کہ بیوی بھی اس کے بیٹے کا اسی طرح خیال رکھتی ہے تو اس سے وہ بے انتہا خوش ہوتی ہے اور بہو کے ساتھ بہت زیادہ پیار کرتی ہے۔ لیکن اگر صورت حال اس کے برعکس ہو تو پھر اس کا ناراض ہونا اور تعلقات کا کشیدہ ہونا فطری ہے۔

خاندانی ماحول کا فرق

عام طور پر ایک گھرانے کا ماحول دوسرے گھرانے سے مختلف ہوتا ہے۔ اگر ایک گھرانے میں کسی بات کا معمول ہے تو ضروری نہیں کہ دوسرے گھرانے میں بھی اس کو وہی اہمیت حاصل ہو۔ لہٰذا اس قسم کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ساس کا فرض ہے کہ وہ اپنی بہو کی طبیعت اور مزاج کو بھی سمجھے اور بہو جس ماحول سے آئی ہے اور اس کی شخصیت پر اس ماحول کے جو اثرات ہیں اُن کا بھی خیال رکھے۔ دنیا میں کوئی عورت بھی ایسی نہیں پائی جاتی جو ہر قسم کے کاموں کو بہترین انداز میں کرسکتی ہو اور عورت کا کسی کام کو نہ کر سکنا‘ خصوصاً جب وہ ایسا کام ہو جو اس نے پہلے نہ کیا ہو‘ کوئی عیب نہیں ہے۔

بہو کا بھی فرض ہے کہ وہ اُن امور میں مہارت حاصل کرے جس کا اس سے تقاضا کیا جاتا ہے‘ یا خوش طبعی اور پورے ادب و احترام کے ساتھ معذرت کرے۔ وہ اپنی ساس کی توجہ حکمت و دانش مندی سے ایک ایسے کام کی طرف بھی موڑ سکتی ہے جس کو وہ بآسانی اچھے انداز میں کرسکتی ہو اور جو ساس کے مزاج کے موافق بھی ہو۔

ساس کا دل جیتیے

یہاں ہم کچھ ایسی تجاویز پیش کریں گے جن کے ذریعے ایک عورت اپنی ساس کا دل جیت سکتی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ دل میں پختہ ارادہ ہو‘ اس کو انجام دینے کا عزم ہو اور شیطان کی چالوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال ہو۔ عربی کا مشہور مقولہ ہے کہ جو آدمی دروازے کو مسلسل کھٹکھٹاتا ہے‘ وہ ضرور اس کے لیے کھل جائے گا۔

ایک میٹھا بول‘ دل میں جادو کی طرح اثر کرتا ہے‘ خصوصاً جب وہ مسکراتے اور ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ ہو۔ یہ بول دل کے بند دریچے وا کر دیتا ہے اور دشمنی کو دوستی‘ بلکہ محبت میں بدل ڈالتا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ساس بہو کے تعلقات کبھی عداوت کی حد تک جاسکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے درمیان کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں جن کی وجہ سے اُن کے درمیان تعلقات میں وہ گرم جوشی نہیں رہتی جو پہلے کبھی ہوتی تھی۔

وہ میٹھا بول جس کو ایک بہو اپنی ساس کے سامنے یا داماد اپنی ساس کے سامنے بولتا ہے‘ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی بڑی قدروقیمت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ایک میٹھی بات کہنا صدقہ ہے۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’بھلائی کو معمولی نہ سمجھو‘ خواہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آنا ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ اس لیے جو بیوی یا جو شوہر ان تعلیمات سے غفلت برتتے ہیں وہ اپنے آپ کو اس اجر عظیم اور ثواب سے محروم کر دیتے ہیں۔

بعض عورتیں اس میں بڑی مہارت رکھتی ہیں کہ ساس کے لیے کون سے الفاظ سب سے زیادہ تکلیف دہ ہیں‘ اور ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنی ساس کے ساتھ ترش روئی کے ساتھ آنکھوں سے چنگاریاں جھاڑتی ہوئی ملیں۔ ان کو اس رویے کے لیے وجۂ جواز بھی مل جاتی ہے کہ ’’ساس کا میرے ساتھ یہی طرزعمل ہے۔ اس لیے میں بھی اس کے ساتھ اسی طرح پیش آتی ہوں‘‘۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ کبھی کبھی حقیقتاً ایسا ہی ہوتا ہے لیکن ہمارے لیے قابلِ غور بات یہ ہے کہ اسلام کی اخلاقی تعلیمات کیا اسی طرزعمل کا تقاضا کرتی ہیں‘ اور کیا نفس کے ساتھ جہاد اسی کا نام ہے؟ کیوں نہ آپ اپنی ساس کے سامنے بھلائی سے پیش آئیں۔ اگر آپ ایک دو مرتبہ بھی ایسا کریں گی تو ان شاء اللہ اس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔

اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام‘ دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک پر بہت زیادہ زور دیتا ہے‘ اور رشتہ دار اس حسنِ سلوک کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ آپؐ اپنے سسرال والوں سے محبت و احترام سے پیش آتے تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیںکہ حضرت خدیجہؓ کی بہن ہالہ بنت خویلد نے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت مانگی۔ آپؐ کو حضرت خدیجہؓ یاد گئیں اور خوشی خوشی اُن کو اجازت دیتے ہوئے فرمایا: ’’ہاں‘ ہاں! خویلد کی بیٹی آجائو!‘‘

کیا ساس کے ساتھ اس طرح کا حسنِ سلوک نہیں کرنا چاہیے؟ خاص طور پر جب وہ بیٹے کے دل میں سب سے زیادہ مقام رکھتی ہو۔ ہوسکتا ہے کہ ساس کے ساتھ محبت اس کے بیٹے کی محبت کاتسلسل ثابت ہوجائے۔ اگر ساس خوش ہوگی تو اس کا بیٹا بھی خوش رہے گا۔

اپنے شوہر کو ہرگز اس بات پر مجبور نہ کریں کہ کسی معاملے میں وہ آپ یا اپنی ماں میں سے کسی ایک کو چھوڑ کر رائے پر عمل کرے۔ اس طرح کا طرزعمل خاندان کے لیے تباہ کن ہے۔ اس لیے کہ ماں ‘ ماں ہے اور بیوی بیوی۔ ان دونوں کے درمیان کسی پر کسی کو ترجیح دینا‘ خواہ جس طرح بھی ہو‘ دلوں میں کدورت پیدا کرتا ہے۔ اس سے ساس اور بہو کے درمیان سرد جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ایسے میں اگر بیٹا ماں کو ترجیح دے تو کوئی بھی اسے ملامت نہ کرے گا۔ اس لیے کہ ماں کا احترام بہرحال مقدم ہے تاوقتیکہ وہ خدا کی نافرمانی کے لیے کہے۔

ساس کا درجہ ماں کے برابر

اگر بہو اپنی ساس کو ماں کا درجہ دے دے اور اس کے ساتھ اسی طرح پیش آئے جس طرح اپنی ماں کے ساتھ پیش آتی ہے تو ساس بہو کے بہت سارے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔ ہر بہو کو معلوم ہونا چاہیے کہ ساس کا احترام درحقیقت شوہر کا احترام ہے جس کی وجہ سے وہ اس کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خالہ کو بھی ماں کے برابر قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے بھانجوں کے ساتھ اسی طرح شفقت و محبت سے پیش آتی ہے‘ جس طرح کہ اپنے بچوں کے ساتھ پیش آتی ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خالہ کا درجہ ماں کے برابر ہے‘ تو پھر کیوں نہ ساس کو بھی ماں کادرجہ دیا جائے؟

بہو اپنی ساس کے قریب ہوسکتی ہے‘ اگر اس کا طرزعمل یہ ہو کہ جب اس کو پکارے تو اسی طرح پکارے‘ جس طرح اپنی ماں کو پکارتی ہے۔ بعض عورتیں اپنی ساس کو اس طرح پکارتی ہیں جیسے وہ کسی اجنبی عورت کو پکار رہی ہیں جس کے ساتھ اس کا کوئی رشتہ اور محبت کا کوئی تعلق نہ ہو۔ اس انداز سے پکارنا اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ بہو کے دل میں ساس کے لیے کوئی محبت نہیں۔

تحفہ

ایک معمولی تحفہ‘ جس کو بہو خوشی کے مواقع پر اپنی ساس کی خدمت میں پیش کرتی ہے‘ ساس کے دل کے دریچے کھول دینے کے لیے کافی ہے اور اس کے ذریعے وہ ساس کی محبت حاصل کرلیتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: آپس میں تحفوں کا تبادلہ کرو‘ اس سے آپس میں محبت بڑھتی ہے۔

جب آپ کہیں سفر پر جاتی ہیں اور واپسی پر ساس کے لیے کوئی تحفہ لے کر آتی ہیں تو وہ اس سے اتنی خوش ہوتی ہے گویا کہ آپ نے پوری دنیا اس کو تحفے میں پیش کر دی ہو۔ تحفے سے اس کو احساس ہوتا ہے کہ آپ اس کا کتنا خیال رکھتی ہیں۔ اس لیے کوشش کریں کہ جب کبھی آپ اپنے لیے کچھ خریدیں تو اپنی ساس کو بھی یاد رکھیں۔

بہو کی طرف سے ایک چھوٹا سا تحفہ‘ معجزے کا اثر رکھتا ہے‘ اس لیے کہ تحفے کو اس کی قیمت کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس لحاظ سے دیکھا جاتا ہے کہ تحفہ دینے والے نے ہمیں بھلایا نہیں ہے۔ اس لیے کیا ہی اچھا ہو کہ تحفہ دیتے وقت چند محبت بھرے الفاظ کا بھی اظہار کیا جائے۔

ملاقات کے لیے جانا

اگر ساس بہو کا گھر الگ الگ ہو تو ایسی صورت میں کثرت سے ملاقات کے لیے جانا ساس کے دل پر گہرا اثر کرتا ہے۔ اسی طرح داماد کا اپنی ساس کے ہاں آنا جانا بھی اس کو بہت متاثر کرتا ہے۔ اس لیے کہ ملاقات کے لیے جانا‘ ماں اور اس کے بچوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے ایک مثالی ذریعہ ہے۔ یہ آنا جانا اس کو بچوں کے قرب کا احساس دلاتا ہے اور باہمی محبت کا باعث بنتا ہے۔ خیال رہے کہ یہ صلہ رحمی کا تقاضا اور باعث اجر بھی ہے۔ اسلام میں تودوستوں کے ہاں آنے جانے پر بھی زور دیا گیا ہے‘ پھر ہم اتنی اہم رشتہ داری سے کیسے پہلوتہی برت سکتے ہیں۔

نصیحت اور مشورہ مانگنا

اگر بہو یہ بات جان لے کہ خواہ ضرورت محسوس ہو یا نہ ہو اپنی مشکلات اور مسائل میں ساس سے مشورہ اور نصیحت حاصل کرنی چاہیے تو اس کے دل میں ساس پر اعتماد پیدا ہوگا اور وہ محسوس کرے گی کہ ساس واقعی اس کے لیے ماں کا درجہ رکھتی ہے۔ ساس کے لیے اس سے خوشی کی بات کوئی نہیں ہوتی کہ اس کو یہ احساس دلایاجائے کہ بہو اس کی محتاج ہے اور اس کے تجربات سے مستفید ہونا چاہتی ہے۔

اس سلسلے میں بہترین طرزعمل یہ ہے کہ ہر معاملے میں ساس کے ساتھ مشورہ کیا جائے‘ اس سے نصیحت حاصل کی جائے‘ خصوصاً اُن امور میں جن کا تعلق شوہر کے ساتھ ہو‘ کیونکہ اس معاملے میں وہ بہتر جانتی ہے۔

گھریلو استحکام

بہو کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر اس کا اپنے شوہر کے ساتھ تعلق اچھا ہوگا تو اس سے بھی ساس کے دل پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔ کیونکہ میاں بیوی کی زندگی جب مستحکم ہوتی ہے تو اس سے ماں کو یہ یقین اور اطمینان ہوجاتا ہے کہ اس کا بیٹا خوشگوار زندگی گزار رہا ہے۔ ساس بہو کے درمیان مسائل کا ایک بنیادی سبب ساس کا اپنے بیٹے کی خوشگوار اور پرسکون زندگی پر عدمِ اطمینان ہوتا ہے‘ یا یہ کہ بہو اس کے بیٹے کی خدمت کے لیے وہ کردار ادا نہیں کرسکتی جو شادی سے پہلے خود وہ ادا کرتی رہی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ اس صورت حال کی ذمہ دار اس کی بہو ہے۔ اس لیے بہو کو چاہیے کہ اپنی ازدواجی زندگی میں استحکام پیدا کرنے کی کوشش کرے‘ اس سے بھی ساس کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے گی۔

بچوں کے نام رکہنا

بعض خواتین یہ عنوان پڑھ کر حیران ہوجاتی ہیں کہ بچوں کے نام رکھنے اور ساس کے ساتھ تعلقات کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ درحقیقت اس موضوع کا ہمارے زیربحث موضوع کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے‘ خصوصاً بعض گھرانوں میں تو اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ بیوی کی خواہش ہوتی ہے کہ بچے کا نام اس کے والدین رکھیں‘ جب کہ لڑکے کی ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ نام وہ رکھیں۔ شوہر اگر بیوی کی مانتا ہے تو ماں سمجھتی ہے کہ بہو نے بیٹے پر اس قدر غلبہ حاصل کرلیا ہے کہ بچے کا نام تک اپنے خاندان کی طرف کھینچ لیا ہے۔

ہم میاں بیوی کو نصیحت کرتے ہیں کہ بچوں کا نام رکھتے ہوئے یہ مسئلہ پیدا کرنے سے اجتناب کریں‘ بلکہ بہتریہ ہے کہ بچے کا نام رکھنے میں دونوں خاندانوں میں سے کسی کی نسبت کو بھی ملحوظ نہ رکھیں سوائے اس کے کہ دونوں فریق اس پر راضی ہوں۔ ایک ذہین بہو اپنے بچوں کے نام رکھنے میں ہمیشہ اپنی ساس کو بھی اچھے انداز سے شریک کرتی ہے۔

امید ہے کہ ساس بہو کے تعلقات میں اگر ان امور کو پیش نظر رکھا جائے تو نہ صرف ساس بہو کے تعلقات خوش گوار ہوں گے بلکہ مضبوط و مستحکم خاندان کی بنیاد بھی استوار ہوسکے گی۔

(ماخوذ المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۶۰۱-۱۶۰۳)

خاندان کسی بھی قوم اور معاشرے کا اہم ترین اور بنیادی ادارہ ہوتا ہے۔ خاندان قوم کے تہذیب و تمدن اور معاشرتی اقدار و روایات کو استحکام اور پایداری اور طاقت فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ خاندان جتنا مضبوط ہوگا‘ قوم متحد ہوگی اور معاشرے کی تہذیب و تمدن‘ امن و سلامتی اور خوش حالی میں پایداری اور استحکام پایا جائے گا۔ اس کی بنیادیں اور جڑیں مضبوط ہوں گی۔

خاندان کی تعریف

Essential English Dictionary میں خاندان کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے:

A Family is a set of people related to one another especially a house hold consisting of parents and children.

خاندان لوگوں کے ایسے مجموعے کو کہتے ہیں جو ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں‘   خاص طور پر والدین اور بچے خاندان کا اہم ترین جز ہوتے ہیں۔

اسلام کا تصورِ خاندان

اسلام خاندان کا ایک وسیع تصور رکھتا ہے۔ ایک مسلم خاندان میں صرف میاں بیوی اور بچے ہی شامل نہیں ہوتے بلکہ دادا دادی‘ نانا نانی‘ چچا‘ پھوپھیاں‘ ماموں‘ خالائیں وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ اسلام خاندان کا ایک ایسا تصور پیش کرتا ہے جو حقوق و فرائض اور خلوص و محبت اور ایثار و قربانی کے اعلیٰ ترین قلبی احساسات اور جذبات کی مضبوط ڈوریوں سے بندھا ہوا ہوتا ہے۔ اسلام خاندان سے بننے والے معاشرے کے جملہ معاملات کی اساس اخلاق کو بناتا ہے۔

اسلام کے نزدیک خاندان معاشرے کا بنیادی ادارہ ہے جس کی بہتری اور بھلائی یا ابتری اور بربادی پر معاشرے کی حالت کا انحصار ہوتا ہے۔ اسلام نے خاندان کی طرف خصوصی توجہ دی ہے تاکہ اس ادارے کو مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے‘ اور ایک مضبوط‘ صالح اور فلاحی معاشرے کا قیام عمل میں آئے جو انفرادی و اجتماعی حقوق و فرائض کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرے۔

آیئے اب دیکھتے ہیں کہ خاندان جو کسی معاشرے کی اساس ہے‘ آج کن مسائل سے دوچار ہے‘ اور ان سے نمٹنے کا طریقہ کار یا لائحہ عمل کیا ہو سکتا ہے۔

خاندان کو لاحق ممکنہ خطرات

آج کا دور انتہائی پُرفتن دور ہے لیکن ایسا کہنا درست نہ ہوگا کہ ایسا دور انسانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں آیا‘ اس لیے اس سے نمٹنا ممکن نہیں۔ اس طرح کے حالات سے دنیا ہمیشہ دوچار رہی ہے۔ البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ سائنسی ایجادات کے اس دور نے فتنوں سے نمٹنا مشکل بنا دیا ہے۔   یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج کے حالات میں فتنوں سے نمٹنا انتہائی مشکل اور صبرآزما کام ہے۔

قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ تمام انبیاے کرام پر فتنوں کا ایسا دور گزر چکا ہے اور پچھلی قومیں جب اخلاقی زوال کا شکار ہوئیں تو حیوانیت کے درجے کو بھی پیچھے چھوڑ گئیں۔ آج کے دور میں معاشرے کا اہم ادارہ خاندان شکست و ریخت کا شکار ہے اور ہمیشہ کی طرح آج بھی اللہ سے بغاوت کرنے والی اقوام اور مذہب سے بیزار انسان اس شکست و ریخت کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔

آج کے دور میں نئی تہذیب کے علم بردار جو اپنے آپ کو جدیدیت کا بانی گردانتے ہیں‘ دراصل اشتراکی اور لادینی نظریات کا پرچار کرتے ہیں۔ علی عزت بیگووچ صدر جمہوریہ بوسنیا اپنی کتاب اسلام اور مشرق و مغرب کی تہذیبی کش مکش میں لکھتے ہیں: ’’اشتراکی نقطۂ نظر سے خاندان معاشرے کی بنیادی اینٹ نہیں ہے جیسا کہ پرانے دساتیر میں قرار دیا گیا ہے۔ خاندان اور معاشرہ ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ خاندان میں محبت اور جذبات لوگوں کو جوڑے رکھتے ہیں۔ معاشرے میں مفاد اور ذہانت یا دونوں ان کو جوڑے رکھتے ہیں۔ معاشرے کے اندر رونما ہونے والا ہر تغیر خاندان کے خاتمے کا متقاضی ہوتا ہے۔ (ص ۸)

مشہور اشتراکی مفکر کارل مارکس کا ساتھی اینجلز اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کرتا ہے: ’’اولین دور میں خاندان کا آغاز دائروں کے محدود ہونے سے شروع ہوا۔ پہلے آغاز قبیلے کے اندر ہوا جس کے اندر دو متضاد جنسوں کے افراد صنفی تعلق کے ذریعے ایک دوسرے سے متعلق ہوگئے۔ آغاز میں قریب کے رشتے داروں اور بعد میں دُور دراز کے رشتے داروں میں بُعد پیدا ہوتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ شادیوں کے ذریعے جڑے ہوئے افراد خانہ بھی الگ ہونے لگے۔ آخر میں شادی کے بندھن میں بندھے ہوئے افراد کا جوڑا رہ گیا۔ یہ ایک ایسا مالیکیول ہے جس کے بکھرنے سے خاندان بذاتِ خود بکھرجاتا ہے۔

اینجلز مزید لکھتا ہے: ’’یہ واضح ہے کہ عورتوں کی آزادی کے لیے ضروری ہے کہ عورتوں کو دوبارہ عوامی سرگرمیوں میں شامل کر دیا جائے‘ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ الگ تھلگ خاندان کا وجود بطور معاشرتی یونٹ کے ختم کر دیا ہے۔ نجی ملکیت کو سماجی صنعت میں تبدیل کر دیا جائے۔ بچوں کی داشت پرداخت اور تعلیم سرکاری معاملہ ہو۔ معاشرہ تمام بچوں کے ساتھ یکساں سلوک کرے‘ چاہے ان کی پیدایش جائز طریقے سے ہوئی ہو یا ناجائز طریقے پر‘‘۔

اسی طرح کے خیالات کا اظہار فرانسیسی ادیب سائمن باوار جو فرانس میں تحریکِ نسواں کا معروف کارکن رہا ہے ‘کرتا ہے: ’’جب تک خاندان کے تصور کو ختم نہیں کیا جاتا‘ جب تک ’ماں‘ کے ادارے کو ختم نہیں کیا جاتا‘ اور جب تک مادری جذبے کو ختم نہیں کیا جاتا‘ عورت ہمیشہ مطیع اور ماتحت رہے گی‘‘۔(نیویارک میگزین‘ سیٹرڈے ریویو‘ستمبر ۱۹۷۵ئ)

پروفیسر خورشید احمد سوشلزم یا اسلام میں لکھتے ہیں: ’’اشتراکیت نے جو سماجی نظام بنایا ہے اس میں بھی انسان کو نظرانداز کرنے کی وہی پالیسی کارفرما ہے جسے ہم معاشی اور سیاسی دائرے میں دیکھ چکے ہیں۔ خاندان کا نظام جو ہمیشہ تہذیب کا گہوارہ رہا ہے‘ متضاد اور تناقضی پالیسیوں کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ اس نظام میں کوئی چیز محترم باقی نہیں رہی ہے‘ نہ فرد کی شخصیت‘ نہ قریب ترین رشتے‘ نہ عائلی ادارے اور تعلقات۔ ہر چیز اضافی ہے اور وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اپنا مقام بدلتی رہتی ہے۔ اولاد پہ والدین کے حقوق باقی نہیں رہے ہیں۔ ریاست کے مفاد میں بچوں کو جس طرح چاہے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مذہب اور اخلاق نے سماجی زندگی کی حدبندی کی تھی اسے توڑ دیا گیا ہے۔ نکاح اور طلاق کا نظام وقت کی ضرورتوں کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ جائز اور ناجائز رشتے میں کوئی فرق باقی نہیں رہا۔ انقلاب کے فوراً بعد جنسی آزادی دی گئی۔ خاندان کے نظام کا مذاق اڑایا گیا۔ نکاح کی مذہبی تقدیس کو ختم کر دیا گیا اور طلاق کا راستہ چوپٹ کھول دیا گیا‘‘۔

سید قطب جدید جاہلیت میں کہتے ہیں: ’’خاندان سے ماں کا رشتہ ٹوٹا تو گویا وجدان کا رشتہ منقطع ہوگیا‘ اور جب رشتہ منقطع ہوجائے تو گھر ایک ہوٹل ہے جس میں مرد اور عورت ٹھیرے رہتے ہیں اور ظاہری طور پر اپنے ماں باپ ہونے کے فرائض انجام دیتے ہیں‘ جیسے کوئی ملازم اپنی ڈیوٹی انجام دے رہا ہو۔ اب بچے خواہ ایک پراگندا خاندان میں نوکروں کے ہاتھوں میں پرورش پائیں یا پرورش گاہوں میں اپنے جیسے ماں باپ سے بچھڑے ہوئے بچوں کے ساتھ نشوونما حاصل کریں‘ بہرکیف وہ بگاڑ ہی کا شکار ہوںگے‘‘۔

ڈارون‘ فرائڈ‘ کارل مارکس اور اینجلز جیسے اباحیت پسند فلسفیوں کے گمراہ کن عقائد اور نظریات نے اہلِ یورپ کو مذہب سے تو دُور کیا ہی‘ اخلاقیات کا بھی جنازہ نکال دیا۔ ان کے شیطانی نظریات کی گھنائونی تصاویر نے جب معاشرے میں اباحیت‘ ابتری اور طبقاتی کش مکش پیدا کی تو اہلِ مغرب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ: ’’دور جدید کے معاشرے نے عورتوں کی تربیت اسکولوں کے سپرد کر کے ایک بڑی غلطی کی ہے۔ اب حال یہ ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو پرورش گاہوں میں چھوڑ دیتی ہیں اور خود یا تو کاموں پر نکل جاتی ہیں یامختلف دل چسپیوں میں لگ جاتی ہیں۔ ادبی اور فنی ذوق کی تسکین میں مشغول ہوجاتی ہیں‘ برج کھیلتی ہیں اور سینما گھروں کو جاتی ہیں۔ غرض اس طرح کی تفریحات میں رہتی ہیں۔ یہ خاندان کی وحدت پارہ پارہ کرنے اور مل بیٹھنے کے مواقع کھو دینے کے بارے میں جواب دہ ہیں‘‘۔

امریکی فلسفی ول ڈیورانٹ کی کتاب کا ایک اقتباس سید قطب شہیدؒ اپنی کتاب   جدید جاہلیت میں رقم کرتے ہیں: ’’کیونکہ عورت مرد کی شادی موجودہ دور میں صحیح معنوں میں شادی نہیں ہے اور بجاے ماں باپ کا رشتہ ہونے کے ایک جنسی تعلق ہے۔ اس طرح زندگی کو سہارا دینے والی تمام بنیادیں ڈھے جاتی ہیں اور ازدواجی رشتہ کمزور ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس کا زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور میاں بیوی تنہا رہ جاتے ہیں‘ جیسے ان میں آپس میں کوئی رشتہ نہ ہو‘‘۔

سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی نے دنیا کو ایک ’گلوبل ولیج‘ کی شکل دے دی ہے۔ چنانچہ مغربی افکار و خیالات نے ہمارے دینی عقائد اور خاندان کو بھی متاثر کیا ہے۔ ادھر ہندوانہ رسم و رواج کے باعث ہم معاشرے کے غلط رسم و رواج اور عقائد سے پہلے ہی نبردآزما تھے۔ نتیجتاً آج ہمارا خاندان ایک چومکھی جنگ لڑ رہا ہے۔ ہمارے خاندان کو اپنی بقا و سلامتی بھی برقرار رکھنی ہے اوراپنی دینی اقدار و روایات کو بھی تحفظ فراہم کرنا ہے۔

چنانچہ خاندان کو لاحق خطرات کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کچھ بیرونی خطرات ہیں تو کچھ اندرونی خطرات۔

خاندان کے ادارے کو لاحق بیرونی خطرات

خاندان کو لاحق بیرونی خطرات میں جن عوامل کا ہم نے اوپر جائزہ لیا ہے وہ بڑی تیزی سے اپنا اثر دکھا رہے ہیں۔ ہماری نئی نسل مغربی افکار و نظریات کی دیوانہ وار تقلید کرنے کے لیے دوڑی چلی جا رہی ہے۔ مغرب کے شیطانی نظریات دو طرح سے ان پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ ایک تو فلم اور ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے ذریعے‘ دوسرے ان تعلیمی اداروں کے ذریعے جن کا مقصد مسلمانوں کو بگاڑنا اور ان کو دین کی تعلیمات سے دُور لے جانا ہے۔

غیر اسلامی نظریات‘ جدید یورپین و امریکن روایات اور خیالات کی تقلید خاندان کے لیے سب سے بڑا بیرونی خطرہ ہے۔ نوجوان نسل میں لباس‘ خوراک اور بودوباش کے مغربی طور طریقے رائج ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر موجود کروڑوں فحش ویب سائٹس‘ سیکڑوں    ٹی وی چینلز پر چلنے والی بے ہودہ فلموںاور اشتہارات نے اخلاقیات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ رہی سہی کسر ہندوانہ کلچر نے پوری کر دی ہے۔

خاندان کے ادارے کو لاحق اندرونی خطرات

معاشرے کے اہم ترین یونٹ یا ادارے خاندان کی بنیاد رکھنے والے عوامل سے بغاوت یا پہلوتہی نے نکاح کو ایک مشکل ترین کام بنا ڈالا ہے۔ چنانچہ نکاح کے راستے میں آنے والی جن رکاوٹوں کو اسلام نے دُور کیا تھا ہم پاکستانی مسلمانوں نے انھیں پھر سے واپس لاکھڑا کیا ہے۔ ان عوامل کا مختصر جائزہ پیش ہے جو نکاح کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں:

۱-            مناسب عمر میں نکاح سے گریز: اسلام کے مطابق ایک مسلمان لڑکا اور لڑکی بلوغت کی عمر کو پہنچ کر نکاح کے قابل ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ حکم ہے کہ اپنے نوجوانوں کے نکاح جلد از جلد کرو۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اے نوجوانو! تم میں جو نکاح کی ذمہ داری اٹھانے کی سکت رکھتا ہو‘ اسے نکاح کرلینا چاہیے کیونکہ یہ نگاہ کو نیچا رکھتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے۔ جو نکاح کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی وسعت نہیں رکھتا‘ اسے چاہیے کہ شہوت کا زور توڑنے کے لیے وقتاً فوقتاً روزے رکھا کرے‘‘۔(بخاری‘  مسلم)

لڑکیوں سے متعلق ارشاد ہوا: ’’جب تمھارے پاس شادی کا پیغام کوئی ایسا شخص لائے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے شادی کر دو۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑی خرابی پیدا ہوگی‘‘۔(ترمذی)

ہمارے ہاں لڑکے اور لڑکیوں کی شادی دیر سے کرنے کا رواج خاندان کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ خود لڑکے اور لڑکیاں اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے‘ یا ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے ‘یا تعلیمی میدان میں مقابلہ بازی کے لیے اس معاشرتی ضرورت اور اسلامی فریضے سے جان چھڑاتے ہیں۔ یہ مغربی اثرات کا شاخسانہ ہے‘ کہ شادی؟ ابھی نہیں‘ ابھی عمر ہی کیا ہے… کہہ کر اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے دیگر ذرائع تلاش کرتے ہیں۔ نفسانی خواہشات کی تسکین کے غلط طریقے اختیار کر کے مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور جب پختہ عمر کو پہنچتے ہیں تو شادی کا خیال آتا ہے۔ اس وقت جب گھر بسانے کی خواہش پوری ہوتی ہے تو بعض عادات عمر کے ساتھ ساتھ پختہ ہوچکی ہوتی ہیں۔ نتیجتاً شادی کے وہ بہترین نتائج جو سکون واطمینان کی صورت میں سامنے آنے چاہییں‘ نہیں آتے اور ازدواجی زندگی بے سکونی کا شکار ہوجاتی ہے۔ یہیں سے خاندان میں دراڑ پڑنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔

۲-            مادہ پرستی:جوں جوں مسلمان اسلام سے دُور ہو رہے ہیں‘ مادہ پرستی ان پر غالب آ رہی ہے۔ ایک دوسرے کے لیے قربانی دینے کے جذبات جو ایک خاندان کی بقا و سلامتی اور سکون کے لیے لازمی جز ہیں‘ ختم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ نہ شوہر بیوی کے لیے قربانی دینا چاہتا ہے‘ نہ بیوی شوہر کے لیے۔ پھر دونوں بچوں کے لیے قربانی دینے سے گریز کرنے لگتے ہیں۔ اس وجہ سے ایک دوسرے سے قربت کی بجاے نفرت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اصل میں نکاح کے لیے نبی اکرمؐ نے جو شرط عائد کی ہے‘ وہ اس حدیث سے واضح ہے۔ فرمایا: ’’عورتوں سے ان کے حُسن و جمال کی وجہ سے شادی نہ کرو‘ ہو سکتا ہے کہ ان کا حُسن ان کو تباہ کرے۔ اور نہ ان کے مال دار ہونے کی وجہ سے شادی کرو‘ ہو سکتا ہے کہ ان کا مال انھیں طغیان اور سرکشی میں مبتلاکردے‘ بلکہ دین کی بنیاد پر شادی کرو‘‘۔(بخاری‘مسلم‘ ابوداؤد‘ ابن ماجہ)

۳- مشترکہ خاندانی نظام: ہمارا المیہ یہ ہے کہ ۵۶ سال گزرنے کے باوجود بھی ہمارا اپنا ایسا معاشرتی نظام وجود میںنہیں آیا جو اسلامی اقدار و روایات سے آراستہ ہو۔ ہمارے خاندانی رسوم و رواج پر پہلے ہندوانہ رسوم و رواج کے اثرات تھے۔ اس سے بیزاری اور مسائل پیدا ہوئے تو ہم مغرب کی طرف لپکے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اندر اسلامی اصولوں کو برتنے کی جرأت اور خواہش پیدا ہی نہیں ہوئی۔ حالانکہ اسلام ہمیں وہ راستہ دکھاتا ہے جو درمیان کا راستہ ہے۔

اسلام مشترکہ خاندانی نظام پر زور نہیں دیتا‘ نہ اسلام مشترکہ خاندانی نظام سے روکتا ہے ‘ نہ اس کی ہدایات کرتا ہے۔ اسلام نے چند اصول پیش کر دیے ہیں۔ اسلام معروف طریقوں پر زندگی گزارنے کا حکم دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ عائلی زندگی میں پرائیویسی کا تحفظ چاہتا ہے جو عائلی زندگی کی جان ہے۔ لہٰذا ایک خاندان کو کم از کم دو کمروں کا مکان میسر ہونا چاہیے کہ ان کی نجی زندگی میں خلوت اور سکون کے لمحات انھیں میسرہوں۔ چنانچہ شادی اور ولیمے کی تقریبات پر لاکھوں روپے رسوم و رواج اور دھوم دھڑکے پر ضائع کرنے سے بہتر یہ ہوگا کہ نئے جوڑے کے لیے ایک علیحدہ گھر کا بندوبست کرنے کی کوشش کی جائے۔

نعیم صدیقی اپنی کتاب عورت معرض کش مکش میں میں بیان کرتے ہیں کہ: ’’مرد اپنے درجے کی بنیاد پر بعض استحقاقات رکھتے ہیں لیکن اولین ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ خود اس درجے کی وجوہ سے عائد ہونے والی ذمہ داری کو پورا کریں۔ اس درجے کی وجہ سے مرد کی ذمہ داری یہ ہے کہ کھانے پینے‘ رہنے اور دوا دارو کے انتظامات اپنی آمدنی کے لحاظ سے اور خود اپنے ذوق و مصارف کے لحاظ سے معیاری مہیا کرے۔ بیوی کو رہنے کی ایسی جگہ فراہم کرے خواہ وہ ایک جھونپڑی ہی کیوں نہ ہو‘ جہاں وہ کسی مداخلت کے بغیر پوری پرائیوسی کے ساتھ رہ سکے‘ ورنہ نہ تو اسے آزادی حاصل ہو سکتی ہے اور نہ وہ جھگڑوں سے بچ سکتی ہے‘‘۔ (ص ۲۷۹‘ مطبوعہ ۱۹۹۸ئ)

نعیم صدیقی صاحب نے خاندان کے استحکام کے حوالے سے ایک اہم مسئلے کی نشان دہی کی ہے جس کی وجہ سے خاندانی عزت و وقار‘ استحکام و مضبوطی‘ امن و خوش حالی اور پرائیویٹ زندگی کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس سے اچھے اچھے دین دارلوگ نظریں چراتے ہیں اور اسے محض بہو کا عالمی مسئلہ کہہ کر نظرانداز کرتے ہیں‘ جب کہ یہ مسئلہ زندگی کا اہم ترین مسئلہ ہوتا ہے۔

مشترکہ خاندانی نظام کا روایتی تصور ہمیں ہندوانہ ثقافت سے ورثے میں ملا ہے۔ ہندوانہ نظام میں ایک لڑکی جب شادی کے بعد اپنے شوہر کے گھر آتی ہے تو اسے اپنی شخصیت کو فراموش کر کے شوہر کی شخصیت میں ضم کر دینے کا حکم اس حد تک ہوتا ہے کہ اگر شوہر مرجائے تو اسے شوہر کے ساتھ ستی کرنا نیکی اور ثواب میں شمار ہوتا ہے۔ ان کے مطابق شوہر کے گھر اس کا ڈولا اترتا ہے تو وہاں سے اس کا جنازہ ہی نکل سکے گا‘ جب کہ اسلام عورت کی الگ شخصیت‘ اس کی ذاتی و نجی زندگی‘ اس کے حقوق و فرائض کا تعین بڑے عدل و انصاف سے کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کی ازدواجی زندگی کو مکمل پرائیویسی کے ساتھ دیکھنا چاہتا ہے۔

اسلام نے چند بنیادی اصول‘ محرم نامحرم‘ حقوق الزوجین اور اخلاقیات سے متعلق وضع کر کے باقی انسان کی عقل‘ صوابدید‘ ایثار اور معروف طریقے کے مطابق عمل پر چھوڑ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام کے کھوکھلے اور فرسودہ اصولوں کے بجاے ضرورت‘ سہولت اور وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے عائلی زندگی کو گزارنے کا بندوبست کیا جائے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا خاندان انتشار کا شکار رہیں گے اور پیدا ہونے والے مسائل کاحل ممکن نہیں ہو سکے گا۔

۳-            نکاح کی تقریب پر فضول خرچی: ہمارے معاشرے میں نکاح اور ولیمے کی تقریبات پر اپنی بساط سے بڑھ کر اخراجات کرنے کا رجحان فیشن سے تجاوز کر کے ضرورت بنتا جا رہا ہے۔ اسلام کی تعلیم کے مطابق نکاح کے عمل کو سادہ اور سہل ہونا چاہیے۔ نہ تو اسلام بھاری بھرکم جہیز کی اجازت دیتا ہے‘ نہ بھاری بھرکم مہر کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور نہ اصراف کو۔

منیراحمد خلیلی اپنی کتاب عورت اور دورجدید میں لکھتے ہیں:’’نکاح نبیوں کی سنت‘ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ عمل‘ بقاے نسلِ انسانی اور استحکام معاشرے کا بڑا ذریعہ ہے۔ خاندانی نظام کے تسلسل کو برقرار اور اخلاقی بگاڑ و فساد سے محفوظ رکھنے کا مؤثر اور آسان راستہ ہے۔ جس قوم یا معاشرے میں نکاح کے عمل کو مشکل بنا دیا جاتا ہے وہاں زنا کو فروغ ہوتا ہے۔ زنا تمدنِ انسانی کے انہدام اور بربادی کا سبب بنتا ہے‘‘۔

۴-            بے جوڑ شادیاں: شریعت اسلامی میں نکاح کے معاملے میں کفو‘ یعنی مرد اور عورت کا چند خاص امور میں ہم پلہ ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ان امور کی تعداد چھے بتائی جاتی ہے: خاندان‘ اسلام‘ پیشہ‘ حریت‘ دین اور مال۔

آج کل بے جوڑ شادیاں ہو رہی ہیں۔ لوگ پیسہ دیکھ کر لڑکی دیتے ہیں‘ نہ ان کا   حسب نسب دیکھا جاتا ہے‘ نہ خاندان کا پس منظر۔ اسی طرح کردار کی تحقیق بھی نہیں کی جاتی۔ چنانچہ بعض مرتبہ اس قدر سنگین نوعیت کی حقیقت سامنے آتی ہے کہ سواے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ یا تو لڑکی گھٹ گھٹ کر زندگی گزار دیتی ہے‘ یا طلاق یا خلع کے ذریعے علیحدگی اختیار کرکے اپنے ساتھ اپنے والدین کے لیے بھی مسائل و مصائب کا باعث بنتی ہے۔ دونوں صورتوں میں خاندان کی بنیادوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ چنانچہ رشتے طے کرتے وقت ان امور کا خیال رکھنا اور ذمہ داری کے ساتھ رشتہ طے کرنا‘ ایک نئے خاندان کو مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔

۵-  نـان و نـفقہ: نفقہ کے لغوی معنی خرچ کرنے اور نکال دینے کے ہیں۔ فقہ کی اصطلاح میں نفقہ کے معنی اس خرچ کی ذمہ داری ہے جو شوہر پر عائد ہوتی ہے۔ اسے پورا کرنے کے لیے ضروریات کا مہیا کرنا ہے۔ اس میں کھانا‘ لباس‘ گھر اور دوسری متعلقہ چیزیں جن کی زندگی میں ضرورت پڑتی ہے‘ شامل ہیں۔

اس کی شرعی حیثیت ’امر واجب‘ کی ہے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ عورت کو نفقہ مہیاکرنا خاوند‘ باپ یا آقا کی ذمہ داری ہے۔ اس کے موجبات تین ہیں: شادی‘ قرابت داری اور ملکیت۔ ان تینوں صورتوں میں نفقہ کی ادایگی کا واجب ہونا قرآن و سنت اور اجماع سے ثابت ہے۔ چنانچہ   اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’مرد عورتوں پر نگہبان ہیں۔ اس فضیلت کی بنا پر جو اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر دی ہے اور اس مال کے ذریعے جو مرد عورتوں پر خرچ کرتے ہیں‘‘ (النساء ۴:۳۴)۔ نیز ارشاد فرمایا: ’’صاحبِ اولاد کے ذمے ان کا کھانا اور کپڑا ہے‘‘ (البقرہ۲:۲۲۲)۔  نفقہ زوجیت تین اقسام پر مشتمل ہے: ۱- بیوی کو نان نفقہ اور اس کے لوازمات آٹا‘ چولہا اور پانی وغیرہ مہیا کرنا ۲- بیوی کا لباس ۳- گھر۔(کتاب الفقہ‘ ج ۴‘ علما اکیڈمی پنجاب‘ ص ۶۹)

افسوس ناک بات یہ ہے کہ آج کے مادہ پرستانہ ماحول کے زیراثر اب مرد ایسی بیویاں تلاش کرتے ہیں جو کمانے والی ہوں تاکہ ان کے معاشی معاملات میں ان کا ہاتھ بٹائیں۔ اس کے بھی بداثرات عائلی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔

خاندان کی شکست و ریخت میں این جی اوز کا کردار

معاشرہ تعلقات کے نظام سے تشکیل پاتا ہے جو رضا و رغبت کی بنیاد پرقائم ہوتا ہے۔ مذہبی معاشرے کی بنیاد محبت ہوتی ہے اور اس میں ایک فرد کا دوسرے سے تعلق خود غرضی سے پاک ہوتا ہے‘ جب کہ اس کے برعکس ایک سول سوسائٹی میں جو جدید مغربی و لادینی نظریات نے متعارف کروائی ہے‘ افراد کے مابین تعلقات غرض کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔چنانچہ سول سوسائٹی میں جس ادارے کو سب سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے وہ خاندان ہے۔ نتیجتاً خاندان کی شکست وریخت سے فرد تنہا رہ جاتا ہے۔

این جی اوز کا اصل ہدف خاندانی نظام ہے۔ ان کا مقصد اُن اداروں کی تباہی ہے جو کسی قوم کو متحد و مستحکم رکھتے ہیں ۔ سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت بھی یہی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے این جی اوز نے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے مدمقابل لاکھڑا کیا‘ جب کہ اسلام کہتا ہے کہ: ’’وہ تمھارا لباس ہیں تم ان کا لباس ہو‘‘ (البقرہ ۲:۱۸۷)۔ این جی اوز نے خاندانی منصوبہ بندی کے ذریعے معاشرے میں بے حیائی اور بے غیرتی کو فروغ دیا ہے۔ سوشل اسٹیٹس کو بلند کرنے کے خوب صورت خواب دکھا کر عورت کو معاشی ذمہ داری کا مکلف بنا دیا ہے۔ مرد اور عورت کی مساوات کا نعرہ لگا کر عورتوں کو ان کی اصل ذمہ داری سے بے بہرہ کر دیا ہے۔ مسلم خواتین ان کا خاص نشانہ ہیں۔ کیونکہ خواتین خاندانی زندگی کی بقا و سلامتی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر ان کو گھروں سے لاتعلق کر دیا جائے تو معاشرے کا توازن بگڑنے میں دیر نہیں لگے گی اور اسلامی تہذیب و تمدن کا شیرازہ بکھر جائے گا۔

دین سے دُوری

خاندان کی شکست و ریخت کے حوالے سے جن مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے‘ ان کا زیادہ تر تعلق دین سے دُوری سے ہے۔ اسلامی تعلیمات کے تحت جو کام ہوگا وہ یقینا آسان ہوگا۔

ایک خاندان کے افراد آپس میں اتفاق‘ یگانگت اور میل محبت سے اسی وقت رہ سکتے ہیں جب ان میں ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا خیال و اہمیت اور ایثار و قربانی کا جذبہ ہو۔ نیز خاندان کی تشکیل اور بقا و سلامتی میں جو عوامل کارفرما ہوتے ہیں ان سے یہ افراد اچھی طرح واقف ہوں۔ والدین کے حقوق‘ والدین کی اطاعت اور بزرگوں کا احترام‘ چھوٹوں سے شفقت اور رواداری کا برتائو‘ روپے پیسے اور دیگر اشیا کی منصفانہ تقسیم‘ والدین کا اولاد کے لیے قربانیاں دینا‘ ان کی جائز ضرورتوں کا جائز آمدنی سے پورا کرنا‘انھیں اچھے برے کی تمیز سکھانا‘ ان میں دینی شعور بیدار کرنا‘ ان کی تعلیم و تربیت صحیح خطوط پر کرنا‘ انھیں درست سمت میں چلنے کی ہدایت کرتے رہنا اور حقوق العباد ادا کرنے کی تلقین و تربیت کرنا‘ دراصل ایک اچھے مہذب‘ مضبوط اور خوش حال خاندان کی بنیاد رکھنے میں معاون و مددگار عوامل ہیں۔

ہمارے ہاں نوجوان اہلِ مغرب کے انداز اپنانے کی کوشش میں ان تمام ذمہ داریوں سے بچتے ہیں۔ نہ صرف لڑکے بلکہ لڑکیاں بھی ان تمام باتوں کو فضول‘ دقیانوسی اور بے کار سمجھتی ہیں۔ مائیں اپنی بچیوں کی تربیت میں‘ ان تمام عوامل کا خیال نہیں رکھتیں‘ انھیں شوہر اور سسرال والوں کے ساتھ مستحسن سلوک کے طور طریقے نہیں سکھاتیں۔ لڑکیاں کام کاج سے بھاگتی ہیں۔ ذمہ داریوں سے گھبراتی ہیں۔ انھیں نہیں معلوم ہوتا‘ شوہر کے حقوق کیا ہیں‘ بچوں کی تربیت کیا ہے‘ عورت کی بحیثیت ماں اور بیوی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ وہ شادی سے قبل خوابوں کی زندگی گزارتی ہیں۔ ان کی نظر میں شادی محض قیمتی کپڑے‘ زیور‘ گھومنا پھرنا‘ انجوائے کرنا ہے۔ ٹی وی کے ڈراموں‘ فلموں اور گانوں نے انھیں یہی سکھایا۔ والدین نے صرف ان کی ڈگری کی فکر کی‘ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ جب ان کے کاندھوں پر شوہر اس کے گھر بار اور اولاد کی ذمہ داری پڑی تو ان کے تمام خواب چکنا چور ہو گئے۔ وہ خوب صورت ہوائی قلعے زمین بوس ہوگئے اور حقیقت بڑی تلخ اور کڑوی محسوس ہوئی۔ اب زندگی بوجھ لگنے لگی اور خاندان میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں۔

ادھر لڑکے کے ذہن میں خوابوں کی ایک پری تھی جو ہر دم پورے میک اَپ اور   خوب صورت لباس کے ساتھ ناز و ادا سے اٹھلاتی اس کا دل بہلاتی تھی‘ مگر جب دلہن یا محبوب کی اصل صورت نظر آئی تو بوکھلا گئے۔ پھر نہ وہ دلفریب باتیں رہیں‘ نہ وہ ہنسی مذاق‘ نہ وہ رعنائی۔ تیوریوں پر بل پڑ گئے‘ زبانیں زہر اگلنے لگیں اور دن رات عذاب بن گئے۔

اسلام ایک سچا مذہب ہے۔ یہ حقیقت پر مبنی ہے۔ وہ شان و شوکت اور دکھاوے کی بات نہیں کرتا۔قرآن کہتا ہے: ’’ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو، ’’وہ تمھارا لباس ہیں تم ان کا لباس ہو‘‘،’’عورت پر جیسے فرائض ہیں ویسے ہی ان کے حقوق ہیں‘‘۔حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت جب پانچوں وقت کی نماز پڑھے‘ رمضان کے روزے رکھے‘ اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے‘ اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے‘‘۔

حرفِ آخر

خاندان کو لاحق خطرات کا تجزیہ کیا جائے تواس کا ممکنہ حل تلاش کیاجا سکتا ہے۔ اس ضمن میں یوں تو ایک ہی نکتہ ذہن میں آتا ہے کہ لوگوں کو دین کے زیادہ سے زیادہ قریب لایا جائے‘ خصوصاً نوجوان نسل میں دینی شعور اور مذہبی جذبات کو بیدار کیا جائے‘ اہلِ مغرب کی ثقافتی یلغار اور ہندوانہ رسوم و رواج کے اثرات کو زائل کیا جائے۔ تاہم‘ یہاں چند تجاویز پیش کی جا رہی ہیں جن پر اگر توجہ دی جائے تو مذکورہ بالا مسئلے کے حل کے راستے نکل سکتے ہیں:

                                ائمہ کرام ‘ علما‘ دانش ور حضرات معاشرتی و عائلی زندگی کے مسائل کو اسلامی تناظر میں آسان اور قابلِ عمل طریقوں پر حل کریں۔

                                میڈیا‘ اسلام کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ اسلام سے متعلق شبہات اور خدشات کا ازالہ بھی کرے۔

                                اپنے وسائل کو بروے کار لاتے ہوئے نوجوان نسل کی خصوصی تربیت کی زیادہ سے زیادہ کوشش کی جائے۔

                                اجتہاد اور اجماع کے ذریعے جدید فقہی مسائل کا حل تمام مسالک متفقہ طور پر نکالنے کی کوشش کریں۔

                                اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل درآمد کی کوششوں کو تیز کیا جائے۔

                                اُن این جی اوز کو جو مغربی ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں‘ بے نقاب کرکے اسلامی خطوط پر کام کرنے والی تنظیمیں قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔