اسلامی معاشرت


اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے___ یہ ہمارا ایمان ہے اور دعویٰ بھی۔ ضابطۂ حیات کا مطلب ’زندگی گزارنے کے طریقوں کا جامع قانون اور دستورالعمل‘ ہے۔ اسلام کے مکمل ضابطۂ حیات ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب جب اور جہاں جہاں حیات ہوگی وہاں وہاں ا سلام کے احکام ہوں گے۔

انسانی حیات کی ابتدا اس کی پیدائش سے ہوتی ہے، اور ایک بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کی زندگی کا دورانیہ شروع ہوجاتا ہے۔ پھر اس وقت سے لے کر موت تک دُنیا کی زندگی جاری رہتی ہے اور اس پورے دورانیے میں اسلام کی رہنمائی قدم بقدم ساتھ رہتی ہے۔ انسانی زندگی کے جملہ پہلو خواہ محض کسی ایک شخص کی ذات سے متعلق ہوں یا دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے، اس کے جسم و جان کے بارے میں ہوں یا مال کے متعلق ، گھریلو زندگی ہو یا سماجی و معاشی، ہر پہلو کے اعتبار سے اسلامی تعلیمات موجود ہیں۔ یہی امر اس بات کی کامل دلیل ہے کہ دینِ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ کثیر جزوی اُمور پر صریح ہدایات کے ساتھ اسلام نے ایسے جامع قواعد و ضوابط اور قوانین عطا کیے ہیں کہ لاتعداد معاملاتِ  حیات میں اسلامی ضابطۂ حیات کی جامعیت واضح طور پر کھل کر سامنے آ جاتی ہے ،جن کی روشنی میں نئے پیش آمدہ معاملات میں مقصودِ شریعت اور روحِ دین کو سمجھ کر بآسانی عمل کیا جاسکتا ہے۔

 دنیا کے تمام معاشروں میں گھر اور اجتماعیت میں اخلاق، رہن سہن، حیا، لباس اور انداز و گفتار کے ضابطے طے کیے جاتے ہیں۔ اسلام کیونکہ خود مکمل ضابطۂ حیات ہے تو یہ ضابطے اسلام کی بنیادی تعلیمات، عبادات اور اخلاقی نظام میں ہی موجود ہیں۔ اسلام کا نظامِ اخلاق نہ صرف انفرادی طور پر میزانِ اعمال میں ایک مسلمان کی خوش بختی کا ذریعہ ہے بلکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پاسداری پر مبنی ایک پُر امن اور عادل معاشرے کے قیام کا بھی ضامن ہے اور اسلام کا نظامِ عفت و عصمت بھی درحقیقت اسلام کے مجموعی نظامِ اخلاق کا حصہ ہے۔ معاشرے کی عفت و عصمت کی حفاظت اور حجاب کے احکامات محض چند کپڑوں کے استعمال یا مخصوص اعمال کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد حیا کے وصف پر قائم کی گئی ہے۔

حیا کا جامع تصور

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیا کو ایک اخلاقی قدر کے طور پر متعارف کرایا، یہاں تک کہ اسے ایمان کا ایک لازمی جز قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حیا ایمان کا ثمرہ ہے اور ایمان کا مقام جنت ہے، اور بے حیائی و بے شرمی بدکاری میں سے ہے اور بدکاری دوزخ میں لے جانے والی ہے‘‘ (ترمذی، مسند احمد، ابن ماجہ)۔ ایک اور حدیث میں جس میں ایمان اور حیا کا باہمی تعلق واضح کیا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حیا اور ایمان دونوں ہمیشہ ساتھ اور اکٹھے ہی رہتے ہیں۔ جب ان دونوں میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا بھی اُٹھا لیا جاتا ہے‘‘۔ (مستدرک للحاکم، صحیح الجامع للألبانی)

درحقیقت حیا کا تصور بہت زیادہ وسعت اور جامعیت رکھتا ہے جس میں نہ صرف فواحش و منکرات سے اجتناب بلکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشا کے خلاف ہر بات اور ہر کام سے رُک جانا مقصود ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرامؓ سے فرمایا : ’’اللہ سے حیا کرو، جیساکہ حیا کا حق ہے۔ صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے نبیؐ ! الحمدللہ! ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حیا سے یہ مراد نہیں جو تم کہتے ہو‘ بلکہ جو شخص اللہ سے حیا کا حق ادا کرے تو اسے چاہیے کہ سر اور جو کچھ سر کے ساتھ ہے، اس کی حفاظت کرے، پیٹ اور جو کچھ پیٹ کے ساتھ ہے ،اس کی حفاظت کرے اور اسے چاہیے کہ موت کو اور ہڈیوں کے بوسیدہ ہونے کو یاد رکھے، اور جو شخص آخرت کی بھلائی کا ارادہ کرتا ہے وہ دنیا کی زینت وآرائش کو چھوڑ دیتاہے، پس جس شخص نے ایسا کیا تو اس نے اللہ سے حیا کی، جس طرح حیا کا حق ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ المصابیح)

اسلام میں عفت و عصمت کے وسیع تصور کو راسخ کرنے کے لیے حیا کے ہمہ گیر پہلوؤں کی مختلف احادیث کے ذریعے وضاحت کی گئی۔ حضرت ابو مسعود عقبہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگوں کے پاس کلامِ نبوت سے جو بات پہنچی ہے ان میں یہ بھی ہے: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر‘‘۔ (بخاری)

 حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایمان کی ستّر سے زائد شاخیں ہیں، (یا ساٹھ سے زائد، راوی کو شک ہے)، ان میں سب سے افضل لا الٰہ الا اللہ کہنا ہے، اور سب سے ادنیٰ راستے میں پڑی ہوئی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا ہے۔ اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم)

 حضرت انسؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فحش جس چیز میں بھی ہو اسے بدنما بنا دیتا ہے، اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت عطا کرتی ہے‘‘ (ابن ماجہ، ترمذی و احمد)۔

آپ ؐنے فرمایا: ’’حیا تو بس خیر ہی لاتی ہے‘‘۔ ( بخاری، مسلم)

نیز فرمایا:’ ’ہر دین کا ایک خاص وصف ہے اور اسلام کا وصف حیا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ)

احکاماتِ حجاب

اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بہت سے مقامات پر تزکیۂ نفس کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔ ایک جگہ فرمایا: ’’بے شک وہ کامیاب ہو گیا جو پاک ہو گیا۔ اور اس نے اپنے رب کا نام یاد کیا، پس نماز پڑھی‘‘۔ (الاعلٰی۸۷: ۱۴-۱۵ )

 اسی طرح ارشاد فرمایا گیا: ’’اور زنا کے قریب نہ جاؤ، بے شک وہ ہمیشہ سے بڑی بے حیائی اور برا راستہ ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل۱۷: ۳۲ )

 مزید ارشاد ہوا کہ ’’اور بے حیائیوں کے قریب نہ جاؤ، جو ان میں سے ظاہر ہیں اور جو چھپی ہوئی ہیں‘‘۔ (الانعام۶: ۱۵۱)

 ان آیاتِ مبارکہ پر غور و خوض کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فحاشی اور منکرات کے کاموں کو انتہائی ناپسند فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور میں اُن تمام اقدامات کا ذکر کیا ہے جن پر عمل پیرا ہوکرمعاشرے میں فحاشی‘ بے حیائی اور بدکرداری کو روکا جا سکتا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ۔یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ اے نبیؐ ! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود ظاہر ہو جائے‘‘۔(النور۲۴:۳۰-۳۱ )

سورۂ احزاب میں مومن عورتوں سے خطاب میں ارشاد فرمایا گیا : ’’تم اپنے گھروں کے اندر رہو اور بے پردہ ہو کر باہر نہ نکلو جس طرح پہلے زمانے کے دورِ جاہلیت میں عورتیں بے پردہ باہر نکل کر گھومتی پھرتی تھیں‘‘۔(الاحزاب۳۳: ۳۳)

اﷲ تعالیٰ نے برائی اور بے حیائی کے فروغ کی انتہائی سخت الفاظ سے مذمت فرمائی: ’’بے شک وہ لوگ جو اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے‘ ‘۔ (النور۲۴: ۱۹ )

حیا کو بنیاد بناتے ہوئے انسانی معاشرے میں عفت کا جو نظام ترتیب دیا گیا ہے، اس میں ایک انسان سے مطلوب انفرادی طرزِ زندگی اور پھر بتدریج خاندانی اور معاشرتی زندگی کے تمام دائروں کے لیے واضح اور تفصیلی ہدایات قرآن و احادیث مبارکہ کے ذریعے جاری کر دی گئی ہیں۔ قرآن مجید میں لباس کو اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی قرار دیتے ہوئے انسان کے لیے ستر پوشی، موسمی اثرات سے حفاظت اور زینت کا ذریعہ بتایا گیا ہے اور احادیثِ مبارکہ کے ذریعے مرد و خواتین کے لیے ستر کی حدود واضح کی گئی ہیں۔

سورۂ نور میں مرد و خواتین کے لیے نگاہوں اور عفت و عصمت کی حفاظت کا حکم دیا گیا تو پہلے مرد کو مخاطب کیا گیا، البتہ عورت کو اپنی اوڑھنیوں کے ذریعے اپنی نسوانیت کی حفاظت کا اضافی حکم دیا گیا۔ مزید یہ کہ نامحرم مردوں کے سامنے اپنی زینت کے اظہار کی ممانعت کر دی گئی۔ سورۂ احزاب میں خواتین کو دورِ جاہلیت کی طرز پر بن سنور کر گھر سے باہر نکلنے کی ممانعت کر دی گئی اور یوں اسے اپنی معاشرتی زندگی میں ایک وقار کے ساتھ شمولیت کی ضمانت دی گئی۔ یہی وہ تمام احکام ہیں جنھیں ہم احکاماتِ حجاب کے حوالے سے جانتے ہیں۔

گذشتہ گفتگو کے تناظر میں یہ حقیقت واضح ہے کہ حجاب کے احکام اس دائرے سے آگے بہت وسیع معنوں میں ہیں ، جن میں محرم اور نامحرم رشتوں کی تفریق، ان کے ساتھ تعلقات کی حدود، نکاح کے حوالے سے حرمت کے رشتے، افکار کی پاکیزگی، نگاہوں کی حفاظت ،زنا اور اس کے مقدمات کا سدباب، گفتگو میں شائستگی، فحش کلمات پر مبنی گانے، شاعری، لطائف اور گالم گلوچ کی ممانعت، تفریح کے نام پر اخلاق سوز اشتہارات اور مذہبی و معاشرتی اقدار کو پامال کرنے والی فلموں اور ڈراموں کی مذمت، معاشرتی زندگی کے دائروں میں بڑھتی ہوئی مخلوط محافل سے پرہیز، اور مرد و خواتین کے لباس میں بے حیائی کے بارے تشویش و دیگر امور شامل ہیں۔

اخلاقی اقدار کی پامالی اور معاشرتی انتشار

مغربی معاشروں میں الہامی ہدایت سے محرومی کے اثرات اخلاقی و خاندانی اقدار کی پامالی اور انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے لیے بے سمت جدوجہد کے نتائج، عریانیت، حدود و قیود سے ماورا جنسی آزادی، آزادانہ جنسی تعلقات، عورت کے لیے کلی تولیدی اختیارات، اسقاط حمل کا حق، ہم جنس پرستی، ہم جنس شادی اور تبدیلیٔ جنس کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہیں۔ یہ حقیقت بھی سامنے ہے کہ گلوبلائزیشن کے زیر اثر مسلم معاشرے بھی اخلاقی بے راہ روی میں اسی سمت بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔ جس نظام کے تحت خاندان کو اپنے مکینوں کے لیے ایک حفاظتی قلعہ سے تعبیر کیا گیا تھا وہاں لڑکے اور لڑکیوں کے لیے گھر سے باہر آزادانہ گھومنے پھرنے کو آزادی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ جس نظام میں عورت کے لیے حجاب کو تحفظ، وقار اور رحمت کا ذریعہ بنایا گیا تھا وہاں اسے ایک بوجھ تصور کیا اور باور کرایا جا رہا ہے۔

 جس معاشرے میں ایک مسلمان کی جان و مال اور آبرو کو دوسرے مسلمان کے لیے حرام قرار دیا گیا تھا، وہاں نوجوان اور کمزور معصوم بچیوں اور بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد درندگی سے قتل کیا جا رہا ہے۔ اس صورتِ حال میں ہمارے کرنے کے کام کیا ہیں؟ ہمیں اپنے معاشرے کو اس تباہ کن راستے سے بچانے کے لیے حیا اور حجاب پر مبنی نظامِ حیات کو لوگوں کے سامنے واضح کرنا، اس کی ترویج کرنا اور اسے قابلِ عمل بنانا ہو گا۔ یہ انفرادی سطح پر مرد و خواتین، اجتماعی طور پرخاندان، معاشرتی اور ریاستی اداروں، سب کی ذمہ داری ہے جس کے لیے ہم سب اللہ ربّ العالمین کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔

چنانچہ اوّلین سطح پر ہمیں نظام عفت و حجاب کو انفرادی اور خاندانی سطح پر اپنے مزاج اور کردار کا حصہ بنانا ہوگا۔ ابتدائی طور پر نسلِ نو کو بچپن سے ہی اخلاقی اقدار کی پاسداری کے لیے احتیاطی تدابیراورعملی ترغیبات دینے سے مستقبل میں ممکنہ مفاسد کا سد باب ہو سکتا ہے۔ بچپن سے ہی مہذب اور مکمل لباس پہنانا، تبدیلیٔ لباس اور رفع حاجت کے وقت تنہائی کا ماحول میسر کرنا،  دس سال کی عمر کے بعد بچوں کے بستر علیحدہ کر دینا، کزنز وغیرہ کے درمیان بے تکلفانہ اور خلوت والے ماحول کی حوصلہ شکنی کرنا، انداز گفتگو میں شائستہ الفاظ کا استعمال سکھانا، گالی گلوچ اور جھوٹ و غیبت سے بچانا، بڑے ہونے پر محرم اور غیر محرم رشتہ داروں سے میل ملاقات کے آداب اور حدود و قیود سے آگاہ کرنا، انٹرنیٹ اور دیگر سوشل میڈیا کے استعمال پر بلا حدود و قیود آزادی سے عمل کی اجازت نہ دینا، اس حوالے سے حکیمانہ طور پر رہنمائی فراہم کرنا اور نگرانی کرنا، بچوں کے گھر سے باہر جانے اور آنے کے دوران ان کے تحفظ کو یقینی بنانا، رشتہ داروں اور دوستوں کے گھر اپنی معیت کے بغیر رات گزارنے کی اجازت نہ دینا، ان تمام امور کے حوالے سے نوجوان اولاد کے ساتھ خصوصاً پیار اور حکمت کے ساتھ تمام معاملات کو لے کر چلنا انتہائی ضروری ہے۔

انفرادی اور خاندانی سطح پر ہم سب کو ان اصول و ضوابط کو اپنی شخصیت کا حصہ بنانے کے ساتھ معاشرے کی مجموعی اصلاح کے لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دینا ہوگا۔ تعلیمی اور تربیتی اداروں، اسکول، کالج، یونی ورسٹی، مساجد اور دیگر کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اور ریاست کے ذمہ داروں کو اپنی آئینی ذمہ داری کے تحت ریاستی قوانین اور ریاستی طاقت کے ساتھ ان مفاسد کو روکنے اور ان کے سدباب کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے جو کہ معاشرے کو خوش حالی، امن و سکون اور تحفظ کی آماجگاہ بناسکیں، تاکہ معاشرے کے تمام افراد یکسوئی کے ساتھ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے ساتھ اپنے فریضۂ حیات کو بہ احسن انجام دے سکیں۔

اس مادی دور میں ہماری اسلامی اقدار انحطاط کا شکار ہیں۔ ان میں سے ایک ہمارا مسجد کے ساتھ تنزل پذیر تعلق ہے۔ اگر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ پر نظر ڈالیں تو آپؐ کی مسجد سے وابستگی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے، مثلاً روزانہ پانچ وقت فرض نماز کی ادائیگی کے علاوہ جب کبھی کوئی مشکل پیش آتی تو آپؐ مسجد کا رُخ فرماتے اور نفل ادا کرنے کے بعد دُعا فرماتے۔ سورج گرہن ہوتا یا چاند گرہن آپؐ مسجد میں تشریف لے جاتے اور نوافل ادا فرماتے۔ سفر سے واپسی پر پہلے مسجد تشریف لے جاتے، نوافل ادا فرماتے اور پھر گھر تشریف لے جاتے،  علیٰ ہذا القیاس۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی ہمارے لیےبہترین نمونہ ہے (سورئہ احزاب، آیت۲۱)۔ جس کی پیروی کرتے ہوئے ہمارا مسجدوں سے گہرا تعلق قائم رکھنا لازم ہے۔

مسجد کی طرف باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے جانے والے نمازی کے عزّو شرف کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بندہ جس وقت بھی صبح کو یا شام کو اپنے گھر سے نکل کر مسجد کی طرف جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے واسطے جنّت کی مہمانی کا سامان تیار کراتا ہے، وہ جتنی دفعہ بھی صبح یا شام کو جائے (متفق علیہ)۔اس حدیث شریف کی رُو سے مسجد میں نماز ادا کرنے والا نمازی اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ مسجد میں آنے والوں کا میزبان ہے، (سبحان اللہ)۔

بات سمجھنے کے لیے اس مثال پر غور کریں۔ اگر کبھی ہمیں کوئی صاحبِ اقتدار یا جس ادارے میں ملازمت کرتے ہیں اس کے سربراہ (جو خوش یا ناراض ہوکر ہمیں کوئی دُنیاوی فائدہ یا نقصان پہنچانے کی حیثیت میں ہو) ہمیں اپنے گھر آنے کی دعوت دے تو ہمارے احساسات کیا ہوںگے؟ پہلے تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سمائیں گے اور اپنے دوست و احباب میں فخر سے ذکر کریں گے۔ پھر غور کریں کہ ہمارا رویہ کیا ہوگا؟ اچھے سے اچھے لباس کا انتخاب کریں گے۔ وقت کی پابندی کو ملحوظ خاطر رکھیں گے اور میزبان کے گھر پہنچ کر پوری طرح اہتمام کریں گے کہ محفل کے آداب کے خلاف کوئی حرکت نہ سرزد ہوجائے جس سے ہمارے میزبان کو ناگواری کا احساس ہو، اور ہرطرح سے اپنے میزبان کی خوشنودی حاصل کرنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھیں گے۔

اب ہم اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ کیا مسجد میں بھی ہمارا ایسا ہی رویہ ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب ہرنمازی اپنے ضمیر سے لے، یقین جانیئے ضمیر کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔

کبھی ہم نے غور کیا کہ جب ہم مسجد میں ہوتے ہیں تو کس ذات کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں؟ کون ہمارا میزبان ہوتا ہے؟ کون سی باتیں یا حرکات اللہ تعالیٰ (ہمارے میزبان) کو ناپسند ہیں جن کی نشان دہی نبی کریمؐ نے وضاحت سے فرمائی ہے؟ کیا ہمیں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ایک دُنیاوی میزبان سے بھی کم تر عزیز ہے ؟ کیونکہ مساجد میں ہم وہ سب کچھ کرتے ہیں جو ہم اپنے دُنیاوی میزبان کے گھر نہ کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں(انا للہ وانا الیہ رٰجعون)۔

ہماری آج کی بات چیت کا موضوع مساجد کے آداب ہی ہیں۔ اس ضمن میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام احکامات کا احاطہ تو اس مختصر مقالے میں ممکن نہیں۔ اس لیے ہم صرف چند احکامات کا تذکرہ کریں گے جو عہد ِ حاضر میں نہایت توجہ طلب ہیں۔

جب بھی مسجد کا ذکر ہو تو اذان کا خیال آنا بالکل فطری عمل ہے۔ لہٰذا بات چیت کا آغاز اذان سے کرتے ہیں۔

اذان: فلاح (کامیابی )کی طرف اللہ تعالٰی کا بلاوہ

روزانہ پانچ مرتبہ اللہ تعالیٰ کا ہرکارہ (مؤذن) مسلمانوں کو مسجد میں نماز کی ادائیگی کی دعوت دیتا ہے۔ بڑے خوش نصیب ہیں وہ مسلمان جو مؤذن کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے مسجد کا رُخ کرتے ہیں۔ ان خوش نصیب بھائیوں سے گزارش صرف اتنی ہے کہ مسجد میں آکر سارا وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں صرف کریں اور خدارا ایسے کام جانے یا انجانے میں ہرگز نہ کریں جن سے مسجد کا تقدس مجروح ہو، اللہ و رسولؐ کے احکام کی خلاف ورزی ہو۔ مسجد میں آنے کی غرض و غایت اللہ تعالیٰ کی عبادت کرکے اپنی بخشش کا سامان کروانا ہے، نہ کہ ممنوع کام (مسجد میں دُنیاوی باتیں کرنا، شوروغل کرنا، نمازیوں کی نماز میں خلل ڈالنا وغیرہ) کرکے گناہوں کے بوجھ میںا ضافہ کرنا۔

اذان کا جواب دینے والے کے لیے جنّت کی خوشخبری

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول ؐ اللہ کی خدمت میں حاضر تھے۔ حضرت بلالؓ نے اذان دی تو رسولؐ اللہ نے فرمایا: جس نے پورے یقین کے ساتھ اذان کا جواب دیا وہ جنّت میں داخل ہوگا۔ (النسائی، باب مواقیت الصلٰوۃ، حدیث: ۱۶۴۱)

اذان کا مسنون جواب

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: حضرت عمرؓ سے اذان کا جواب دینے کی فضیلت کے بارے میں روایت ہے کہ ہرکلمہ کا جواب وہی کلمہ ہے (یعنی جو کلمہ مؤذن کہے وہی کلمہ اذان سننے والا کہے) سوائے حی علی الصلٰوۃ ، حی علی الفلاح کے۔ان کے جواب میں لاحول ولا قوۃ اِلَّا باللہ کہنا چاہیے۔ ( مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب القول مثل قول المؤذن، حدیث: ۸۷۶)

اذان کے بعددُعا مانگنے پر نبی کریمؐ کی شفاعت کی بشارت

حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے اذان سن کر یہ کلمات کہے: اَللّٰھُمَّ  رَبَّ  ھٰذِہِ   الدَّعْوَۃِ التَّآمَّۃِ  وَالصَّلٰوۃِ الْقَآئِمَۃِ   اٰتِ  مُحَمَّدَانِ  الْوَسِیْلَۃَ  وَالْفَضِیْلَۃَ  وَابْعَثْہُ  مَقَامًا  مَّحْمُوْدَ انِ  الَّذِیْ  وَعَدْتَّہٗ  ’’اے اللہ!اس دعوتِ کامل اور قائم ہونے والی نماز کے عطا فرما محمدؐ کو وسیلہ اور فضیلت اور فائز فرما آپؐ کو مقامِ محمود پر جس کا آپ نے وعدہ فرمایا ہے ان سے‘‘، تو قیامت کے دن اس کی سفارش کرنا میرا ذمہ ہوگا۔(صحیح بخاری، کتاب الأذان، باب الدعاء، عندالنداء، حدیث: ۵۷۹)

سبحان اللہ! کتنا قلیل عمل اور اتنا بڑا اجر! کیا ہم ایسے شخص کی طرح ہونا پسند کریں گے کہ اذان ہورہی ہو اور وہ خوش گپیوں اور ہنسی مذاق میں مشغول ہو کہ اتنے بڑے اجر سے محروم ہوجائے؟  یقینا نہیں، لہٰذا اذان خاموشی سے سنیں اور جواب دیں۔ پھر مسنون دُعا مانگ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے حق دار بن جائیں، (بفضلہٖ تعالٰی)۔

مسجد جانے سے پہلے صاف ستھرے لباس کا اہتمام

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اے اولادِ آدمؑ! تم مسجد میں حاضری کے وقت اپنے آپ کو (صاف ستھرے لباس سے) مزین کرلیا کرو اور خوب کھائو اور پیو اور حدسے نہ نکلو۔ بے شک اللہ تعالیٰ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔(الاعراف۷:۳۱)

مسجد میں داخل ہونے سے پہلے موبائل فون ضرور بند کردیں

مسجد میں ہر وہ کام کرنا منع ہے جو نماز میں خلل ڈالے۔ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ ہرمسجد میں موبائل فون بند کرنے کا نوٹس لگا ہوتا ہے۔ خطیب حضرات بھی یاد دہانی کراتے رہتے ہیں۔ پھر بھی کسی نہ کسی کا فون بجتا ہے اور تمام نمازیوں کی نماز میں خلل ڈالتا ہے۔ لہٰذا سب نمازی بھائیوں سے گزارش ہے کہ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے اپنا موبائل فون ضرور بند کردیں اور مسجد کی انتظامیہ سے گزارش ہے کہ وہ مسجد میں موبائل فون جیمر(Jammer) لگادیں تاکہ نمازیوں کے خشوع و خضوع میں موبائل فون سے پیدا ہونے والے خلل کا سدباب ہوسکے۔

مسجد میں داخل ہونے کا ادب

مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے دایاں پائوں اندر رکھیں پھر یہ دُعا مانگیں: اللّٰھُمَّ افْتَحَ لِیْٓ  اَبْوَابَ  رَحَمَتِکَ ، ’’اے اللہ! میرے لیےاپنی رحمت کے دروازے کھول دے‘‘۔ (مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب ما یقول اذا دخل المسجد، حدیث: ۱۶۸۵)

مسجد میں داخل ہونے کے بعد تحیۃ المسجدادا کرنا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات مبارکہ ہیں:

  • حضرت قتادہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز ادا کرے‘‘۔ (بخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب اذا دخل احدکم المسجد فلیرکع رکعتین، حدیث: ۴۲۵)
  • حضرت سیّدنا ابوقتادہؓ سے روایت ہے کہ ایک دن مَیں مسجد میں گیا تو رسولؐ اللہ لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے تو میں بھی بیٹھ گیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ کس نے روکا تم کو دو رکعت پڑھنے سے قبل بیٹھنے کے لیے؟ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مَیں نے آپ ؐ کو اور لوگوں کو بیٹھے دیکھا (تو مَیں بھی بیٹھ گیا) تو آپؐ نے فرمایا: جب کوئی تم میں سے مسجد میں آئے تو جب تک دو رکعت نہ پڑھ لے وہ نہ بیٹھے۔ (مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب استحباب تحیۃ المسجد برکعتین، حدیث: ۱۶۸۸)

ان دونوں احادیثِ کریمہ سے تحیۃ المسجد کی اہمیت روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے لیکن اگر فرض نماز کی جماعت ہورہی ہو تو یہ حکم ساقط ہوجائے گا۔ کیونکہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب فرض نماز کی اقامت ہوجائے تو سوائے فرض نماز کے کوئی دوسری نماز نہیں ہوتی، (صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب استحباب     تحیۃ المسجد، حدیث:۱۶۷۸)۔

مسلمان بھائیو! یہ سنت کریمہ ہماری غفلت اور لاعلمی کی وجہ سے متروک ہوتی جارہی ہے۔ اس سنت کو ادا کرکے نماز کے ثواب کے ساتھ احیائے سنت کا ثواب بھی حاصل کریں۔

مساجد زمین پر اللہ تعالٰی کی محبوب ترین جگہیں

مساجد کا احترام کیجیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: سیّدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:شہروں اور بستیوں میں سے اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ان کی مسجدیں ہیں اور سب سے زیادہ مغضوب (ناپسندیدہ) ان کے بازار اور منڈیاں ہیں، (صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب فضل الجلوس فی مصلاۃ، حدیث: ۱۵۶۰)۔

مسجدوں کی صفائی اور خوشبو کے استعمال کا حکم

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا محلوں میں مسجدیں بنانے کا اور یہ بھی حکم دیا کہ ان کی صفائی کا اور خوشبو کے استعمال کا اہتمام کیا جائے۔ (صحیح ابن حبان، کتاب الصلوٰۃ،  باب المساجد،   ذکر الامر   بتـنظیف المساجد وتطبیقھا، حدیث: ۱۶۳۴)

مسجد کی صفائی کا گراں قدر معاوضہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے: ’’جو شخص مسجد کی گندگی نکالے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنّت میں گھر بنائے گا‘‘،(ابن ماجہ، کتاب المساجد والجماعات، باب تطہر المساجد، حدیث:۷۵۷)۔

مساجد میں ممنوع مشاغل

سیّدنا جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو پیاز یا لہسن کھائے وہ ہماری مسجد میں نہ آئے کیونکہ جس چیز سے آدمیوں کو تکلیف ہوتی ہے اس سے فرشتوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ (مسلم، کتاب المساجد، باب نھی من اکل ثوما او بصلًا، حدیث:۵۶۴)

اس حدیث مبارکہ کی رُو سے ہربدبُودار چیز کھانے یا استعمال کرنے کے بعد جب تک منہ کی صفائی نہ کرلی جائے، حتیٰ کہ بدبُو ختم نہ ہوجائے مسجد میں آنا منع ہے۔

مسجدوں میں شوروغل مچانا

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَاقْصِدْ فِيْ مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ۝۰ۭ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ۝۱۹ۧ (لقمان۳۱:۱۹) ’’اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کرو اور تم اپنی آواز کو کسی قدر پست رکھو۔ بلاشبہہ سب سے زیادہ ناپسندیدہ آواز گدھے کی ہے‘‘۔

غور فرمائیں اگر عام دُنیاوی زندگی میں آواز پست رکھنے کا حکم ہے تو قابلِ احترام مساجد میں اُونچی آواز میں دُنیاوی بات چیت کی کیسے اجازت ہوسکتی ہے؟ (العیاذ باللہ تعالٰی)

مسجد میں شور کرنے پر تنبیہ

حضرت سائب بن یزیدؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن مسجد میں سویا ہوا تھا۔ کنکری مار کر کسی نے جگادیا۔ دیکھا تو حضرت عمر فاروقؓ تھے۔ آپؓ نے دو شخصوں کی طرف اشارہ کیا جو مسجد میں شوروغل کر رہے تھے کہ ان کو پکڑ کر لائوں۔ میں نے حسب الحکم دونوں کو حاضرِ خدمت کردیا۔ آپؓ نے پوچھا:کہاں رہتے ہو؟ ان لوگوں نے طائف کا نام لیا۔ یہ سن کر آپؓ نے فرمایا: اگر تم مدینہ کے ہوتے تو تم کو سزا دیتا۔ تم مسجدِ رسولؐ اللہ میں شوروغل کرتے ہو۔ جائو آج صرف اس لیے معاف کرتا ہوں کہ تم باہر کے رہنے والے ہو‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب رفع الصوت فی المسجد، حدیث:۴۷۰)

چھوٹے بچوں، دیوانوں اور شوروشغب سے مسجدوں کی حفاظت

حضرت واثلہ بن الاسقعؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنی مسجدوں سے دُور اور الگ رکھو اپنے چھوٹے بچوں کو اور دیوانوں اور شرارتی لوگوں کو (ان کو مسجد میں نہ آنے دو) اور (اسی طرح مسجدوں سے الگ اور دُور رکھو) اپنی خریدوفروخت کو، اپنے باہمی جھگڑوں کو، اپنے شوروشغب کو ،حدوں کو قائم کرنے کو اور تلواروں کو میانوں سے نکالنے کو۔ (یعنی ان میں سے کوئی بات بھی مسجدوں کی حدوں میں نہ ہو، یہ سب باتیں مسجد کے تقدس اور احترام کے خلاف ہیں)۔(سنن ابن ماجہ، کتاب المساجد، باب ما یکرہ فی المساجد، حدیث:۷۵۰)

مسجد یں امن و سلامتی کا گہوارہ ہیں۔ ان میں اسلحہ کی نمائش اور تشدد کی کوئی گنجائش نہیں۔

نماز کی ادائیگی کے بعد

مسجد سے باہر نکلتے وقت بایاں پائوں باہر رکھتے ہوئے یہ دُعا پڑھیے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ  اَسْئَلُکَ  مِنْ  فَضْلِکَ ’’اے اللہ! میں تجھ سے تیرے فضل کا طالب ہوں‘‘۔(رواہ مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب ما یقول اذا دخل المسجد، حدیث: ۱۱۶۵)

حاصل تحریر:مسجد میں ہم احکم الحاکمین کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں، لہٰذا لازم ہے کہ نہایت باادب رہیں۔ ہمہ تن اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہیں۔ کوئی ممنوع کام نہ کریں یعنی دُنیاوی معاملات، خریدوفروخت، ہنسی مذاق، شوروغل وغیرہ نہ کریں۔ بلندآواز سے دُنیاوی بات چیت تو کسی طرح بھی مسجد کے شایانِ شان نہیں۔ اس سے نہ صرف اللہ و رسولؐ کی حکم عدولی ہوتی ہے بلکہ حاضرین مسجد کی عبادت میں خلل پڑتا ہے اور مسجد کا تقدس مجروح ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ رویہ اللہ اور رسولؐ اللہ کے احکامات سے لاپرواہی کے مترادف ہے۔

آیئے آج سے ہم عہد کریں کہ ہم مساجد کا کماحقہٗ احترام کریں گے اور تمام ممنوع کاموں سے، خصوصاً اُونچی آواز میں دُنیاوی بات چیت سے سختی سے اجتناب کریں گے۔

ہم اسلامی شریعت میں یہ مطالعہ کرتے ہیں کہ عورتوں کا وراثت میں حق ہے،لیکن زمینی صورت حال اس کے برعکس ہے۔ کہیں وراثت کا حق لڑکیوں کو دیا ہی نہیں جاتا ہے۔ کہیں یہ حق دینے سے بچنے کے لیے والد محترم بیٹے کے نام پر پوری پراپرٹی ہبہ کردیتے ہیں۔ کہیں پراپرٹی کو باہر جانے سے بچانے کے لیے خاندانوں میں بے جوڑ رشتوں کا رواج ہے،تو کہیں بھائی صرف ایک دولاکھ روپے پکڑواکر پہلو تہی کرلیتے ہیں۔کہیں یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ لڑکیوں کی شادی پر پیسہ خرچ کردیا،وہی وراثت تھی،اور جہاں خاتون کو وراثت میں سے حصہ مل جائے تو شوہر محترم اس مال پر اپنا پورا اختیار سمجھتے ہیں،بیوی کو اس میں تصرف کی آزادی نہیں ہوتی۔

اسی طرح کا واقعہ سناتے ہوئے ایک خاتون نے بتایا کہ ان کے شوہرِ نامدار نے اپنے پیسے جمع کرکے اپنے نام پر پانچ لاکھ کی زمین خریدی،تاکہ گھر بناسکیں گے، لیکن تعمیر کے لیے پیسے نہیں تھے،اس لیے بیوی کو کہا کہ اپنے بھائیوں سے وراثت کا حصہ طلب کرے۔بھائیوں سے مانگنے میں کسی حد تک وہ کامیاب ہوئیں،۲۰لاکھ کی رقم لے کر شوہر کو دی اور شوہر صاحب نے گھر کی تعمیر کی۔چونکہ ان کی صرف دو بیٹیاں تھیں،بیٹا نہیں تھا۔اس واقعے کے دس سال بعد شوہر کا انتقال ہوگیا۔ چونکہ مکان شوہر کے نام پر تھا،اس لیے شوہر کے بھائی اور بیٹوں کا حصہ بنا۔وہ کہتی رہیں کہ اس گھر کی تعمیر میں بڑی رقم میری ذاتی خرچ ہوئی ہے،لیکن چونکہ ثبوت کوئی نہیں تھا،اس لیے ان کو حصہ دینا پڑا۔

دراصل یہی ہمارے معاشرے کا مسئلہ ہے کہ بیوی کو اس کا مال علیحدہ اسی کے نام پر رکھنے کی اجازت نہیں ہے ۔اس کے مہر یا زیورات کی رقم ہو یا وراثت کی،یا اس کی اپنی کمائی،شوہر حضرات اس کے مال کا حاکم خود کو سمجھتے ہیں۔

قرآن نے اس آیت کے ذریعے دونوں کی ذمہ داریوں کی اچھی طرح وضاحت فرمادی ہے:

مرد عورتوں پر قوّام ہیں ، اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔(النساء ۴: ۳۴)

قوّام کا ترجمہ اکثر مترجمین نے لفظ’حاکم‘ سے کیا ہے۔حاکم کے مروجہ معنی مکمل حاکم کے آتے ہیں۔جس کی وجہ سے مسلم مردوں میں یہ احساس برسہا برس سے پنپ رہا ہے کہ بیوی کے مال،اس کی وراثت اور اس کی کمائی پر بھی شوہر کا حق ہے، جب کہ بیوی کو کمانے کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اجازت لے۔ درحقیقت بیوی کا کمایا ہوا مال اس کا اپنا مال ہے،اسے پورا اختیار ہے کہ جو اس نے کمایا ہے،اس سے وہ صدقہ خیرات کرے یا اپنے قرابت داروں کی مدد کرے۔

اسلام نے خاندانی نظام اس طرح استوار کیا ہے کہ بیوی پر اندورن خانہ گھر کی دیکھ بھال، شوہر کی خدمت اور بچوں کی پرورش و پرداخت کی ذمہ داری ڈالی ہے اور شوہر کو بیوی کے نان و نفقہ اور دیگر ضروریات زندگی فراہم کرنے کا پابند کیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دُوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے،اس کی تمنّا نہ کرو۔ جو کچھ مَردوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق ان کا حصّہ ہے،اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے،اس کے مطابق اُن کا حصّہ۔ہاں، اللہ سے اس کے فضل کی دُعا مانگتے رہو، یقیناً اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔(النساء ۴:۳۲)

خواتین تعلقات کے معاملے میں احتیاط سے کام لیتی ہیں اور تعلقات کے بگاڑنے میں خوف کا شکار رہتی ہیں،اس لیے مجبوراً اپنا مال شوہر کو سونپتے ہوئے دلی آمادگی کا اظہار کرتی ہیں۔ مہر کی رقم بھی اس سے واپس لی جائے تو وہ بے چون و چراں شوہر کے حوالے کردیتی ہے۔وراثت میں بھی وہ تعلقات کی خرابی کے ڈر سے کوشش کرتی ہے کہ شوہر کے حوالے کردے۔

شریعت کا ایسے معاملات میں موقف بالکل واضح ہے،جسے مولانا رضی الاسلام ندوی نے نقل کیا ہے:’’اگر باپ اور بیٹا دونوں تجارت کریں،تو باپ اور بیٹے کے تجارت میں بھی شیئر کو علیحدہ علیحدہ لکھ لیا جائے،تاکہ تجارت علیٰحدہ ہونے پر انصاف کے ساتھ تقسیم ہوسکے۔ اسی طرح بیوی کے مال یا اس کے شیئر کو بھی واضح طور پر لکھ کر دستاویزی ثبوت رکھنا چاہیے۔‘‘

ایک مرتبہ دوران گفتگو ایک خاتون استاد نے بتایا کہ پچیس سال سے گورنمنٹ کالج میں ملازمت کر رہی ہوں،لیکن ابتدا ہی سے میری چیک بُک میرے شوہر کے ہی پاس رہی،کبھی میری تنخواہ پر میرا اختیار نہیں رہا۔میرے شوہر جب چاہیں مجھے پیسے لاکر دیں، لیکن کبھی میرے اختیار میں نہیں رہا کہ کچھ رقم نکال کر ذاتی طور پر خرچ کرسکوں۔ابتدا میں میرے لیے یہ بات اہم نہیں تھی کہ شوہر اور میرا پیسہ ایک ہی ہے۔ وہ جاب نہیں کرتے تھے، ان کا بزنس تھا،کبھی چلتا اور کبھی نقصان میں رہتے تو برسوں تک ہمارے درمیان کچھ نہیں خراب ہوا۔پھر یوں ہوا کہ اپنے بہن بھائی کی مدد کے لیے مجھے پیسوں کی ضرورت پیش آئی۔اپنے بینک سے رقم نکالنا چاہی تو شوہر کے سوال جواب سے اس قدر پریشان ہوئی کہ مجھے احساس ہوا کہ میرے اپنے پیسوں پر میرا حق نہیں ہے۔اسی بات پر ہمارے درمیان تنازع رہنے لگا۔ایک عالم سے پوچھا تو موصو ف نے فرمایا کہ ’’عورت کی ہر چیز کا مالک شوہر ہے۔وہ چاہے تو بیوی کو جاب کے لیے باہر نکلنے کی اجازت دے،چاہے تو نہ دے‘‘۔ یہ سن کر میں خاموش ہوگئی،اور آج پچیس سال سے خاموش ہوں،لیکن اپنے آپ کو میں آدھی پاگل سمجھتی ہوں۔میرے شوہر کی وفات کے بعد میرے بینک کا کارڈ میرے بیٹے کے پاس ہے،اور میں اپنے بیٹے سے واپس لینے میں بھی خوف کھاتی ہوں۔اب وہ خاتون ذہنی مریضہ بن چکی ہیں،کہ ان کا ان کے اپنے ہی پیسوں پر اختیار آج بھی نہیں ہے۔

یوں اندازہ ہوتا ہے کہ خواتین میں خود اپنے مال کی حفاظت یا اسے اپنے اختیار میں رکھنے کا شعور نہیں ہے،یا تو بھائی سے وارثت نہیں ملی ہے یا اس کی کمائی پر شوہر اپنا حق سمجھتا ہے۔

مولانا رضی الاسلام ندوی نے اپنی کتاب:عورت ، خاندان اور سماج  میں لکھا ہے: اسلام نے عورت پر گھر کی ذمہ داری ڈالی ہے،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام نے عورت کے لیے کسبِ معاش کا دروازہ بالکل بند کر دیا ہے۔لڑکی شادی سے قبل باپ یا سرپرست کی اجازت سے اور شادی کے بعد اپنے شوہر کی اجازت سے معاشی سرگرمی انجام دے سکتی ہے۔ کسبِ معاش کی بنیادی طور پر دو صورتیں ہو سکتی ہیں :ایک براہِ راست معاشی سرگرمی کے ذریعے اور دوسرے بالواسطہ سرمایہ کاری کے ذریعے۔عورت ان دونوں صورتوں کو اختیار کر سکتی ہے۔وہ خرید و فروخت کر سکتی ہے، کاشت کاری کر سکتی ہے، صنعت و حرفت میں مصروف ہو سکتی ہے، اپنی کسی جائیداد، مکان و دکان وغیرہ کو کرایہ پر دے سکتی ہے،حدود شرع کی پابندی کرتے ہوئے کہیں ملازمت کر سکتی ہے،اپنی مزروعہ زمین کو بٹائی پر لگا کر پیداوار کی شکل میں منافع حاصل کر سکتی ہے۔ ان تمام صورتوں میں عورت جو کچھ کمائے گی اس کی وہ خود مالک ہو گی،شوہر کو اس پر قبضہ کرنے کا حق نہ ہوگا۔ایسی عورت کے مال دار ہونے کے باوجود شوہر پر اس کے اوراس کے بچوں کے اخراجات کی تکمیل واجب ہوگی۔عہد نبویؐ میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ خواتین مختلف ذرائع سے مال کماتی تھیں اور اس کو آزادانہ طور پر خرچ کرتی تھیں۔حضرت شفاءؓ العدویہ اور حضرت اسماءؓ بنت مخرمہ، عطر فروخت کیا کرتی تھیں۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی زینب کچھ کاری گری سے واقف تھیں، جس کے ذریعے وہ اچھا خاصا کما لیتی تھیں ۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:

’’کیا میں اپنا مال اپنے شوہر اور ان کے بچوں پر خرچ کر سکتی ہوں؟‘‘

یہی سوال ایک دوسری خاتون نے بھی کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا :

نَعَمْ لَهُمَا أَجْرَانِ: أَجْرُ الْقَرَابَةِ وَأَجْرُ الصَّدَقَةِ ،ہاں، ان دونوں کو دوہرا اجر ملے گا۔  ایک قرابت کا اجر اور دوسرے صدقے کا اجر۔

اگر تنگ دستی ہو،شوہر کے ساتھ اچھی دلی آمادگی کے ساتھ بیوی اپنا مال شوہر پر خرچ کرسکتی ہے۔گھر کے نظام کو بہتر بنانے اور ایک دوسرے سے تعاون کا ماحول بنانے کے لیے شوہر کے ساتھ مل کر بھی سرمایہ کاری کرسکتی ہے،تاہم اس خیال کے ساتھ کہ کسی کا استحصال نہ ہو۔

جہاں یہ شعور مردوں کے درمیان ہونا چاہیے کہ جو مال بیوی کو مہر یا تحفہ میں دیا گیا، یا جو زیورات بیوی اپنے ساتھ لائی ہے ،یا وراثت کا حق، یا اس کی اپنی کمائی، یہ تمام اموال بیوی کے ہیں،اور وہ ان کی مالک ہے۔ وہیں یہ شعور خواتین میں بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے مال کے استحقاق کا احساس رکھیں، ابتدا ہی سے وہ احساس دلائیں کہ یہ ان کا مال ہے۔

یہ غلطی اکثر خواتین کرتی ہیں کہ ابتدا میں اپنے شوہر کو دل کی آمادگی کے ساتھ مالک بنادیتی ہیں،اور تعلقات میں رنجش کے بعد وہ یہ اظہار کرتی ہیں کہ ’مجھ سے لے لیا گیا‘۔اس لیے بہتر ہے کہ شریعت کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا جائے۔شوہر کو مال دیں تو قرض کے بطور دیں اور اسے لکھ لیا کریں،تاکہ واضح رہے کہ آپ کو اپنی ملکیت کا احساس ہے۔اپنے مال سے صدقہ و خیرات ادا کریں تو اجازت نہ لیں،کیوں کہ اجازت لینے سے بھی یہ احساس دلاتی ہیں کہ شوہر ہی اس کے مال کا مالک ہے۔ہاں،کسی اجنبی کی مدد سے پہلے مشورہ ضرور کرلیں،تاکہ مستحق تک مدد پہنچانے میں شوہر کی مشاورت شامل رہے۔

سورئہ احزاب میں اہل ایمان مردوں اور عورتوں کے دس اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک وصف صدقہ کرنابھی ہے۔کہا گیا ہے :

وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ (الاحزاب ۳۳:۳۵ )صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں۔

جب خاتون کے مال میں مرد کو تصرف کی آزادی دی جائے تو اپنے مال سے بھی صدقہ کرنے کے لیے شوہر کی اجازت لازم کردی جاتی ہے۔

پڑھی لکھی باشعور خواتین بھی شرعی قوانین سے عدم واقفیت کی بنا پر اپنے اختیارات سے ناواقف رہتی ہیں،اور بعد میں اپنی غلطی پر پشیمانی کے احساس سے ذہنی حالت خستہ اور دل مجروح کرلیتی ہیں۔

عورت جس مال کی مالک ہے،اسلام نے اس میں تصرف کا اسے پورا اختیار دیا ہے۔ وہ اسے فروخت کر سکتی ہے، کرایہ پر لگا سکتی ہے، عاریت میں دے سکتی ہے،اس کا ہدیہ کرسکتی ہے،اسے وقف کر سکتی ہے، اسے بطور صدقہ و خیرات خرچ کر سکتی ہے۔ اس کے اولیا: ماں باپ ، شوہر ، بیٹے وغیرہ حسب ضرورت و موقع اسے مناسب مشورہ تو دے سکتے ہیں، لیکن اس پر اپنی مرضی نہیں تھوپ سکتے۔

عموماً یہ بات خواتین کے درمیان کہی جاتی ہے کہ ’’بھائی سے وارثت لینے کے بعد بھائی سے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں،اور وراثت کا حق بھی شوہر کو سونپنا پڑتا ہے،عورت کا کچھ ہے ہی نہیں‘‘۔ اس غلط خیال کی تردید ہونی چاہیے اور یہ خاتون کی ملکیت کے احساس کو اُجاگر کرکے ہی ممکن ہے۔

اور تمھاری بیویوں نے جو کچھ چھوڑا ہو اس کا آدھا حصّہ تمھیں ملے گا اگر وہ بے اولاد ہوں ، ورنہ اولاد ہونے کی صورت میں ترکہ کا ایک چوتھائی حصّہ تمھارا ہے، جب کہ وصیّت جو انھوں نے کی ہو پوری کر دی جائے، اور قرض جو انھوں نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے۔ اور وہ تمھارے ترکہ میں سے چوتھائی کی حق دار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو ، ورنہ صاحبِ اولاد ہونے کی صورت میں ان کا حصّہ آٹھواں ہوگا ، بعد اس کے کہ جو وصیّت تم نے کی ہو وہ پوری کر دی جائے اور جو قرض تم نے چھوڑا ہو وہ ادا کردیا جائے۔

اور اگر وہ مرد یا عورت (جس کی میراث تقسیم طلب ہے) ﴾ بے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں، مگر اس کا ایک بھائی یا ایک بہن موجود ہو تو بھائی اور بہن ہر ایک کو چھٹا حصّہ ملے گا، اور بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو کُل ترکہ کے ایک تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے،جب کہ وصیّت جو کی گئی ہو پوری کر دی جائے، اور قرض جو میّت نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے، بشرطیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو ۔ یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ دانا و بینا اور نرم خو ہے۔(النساء۴:۱۲)

شوہر کو بیوی کی وراثت سے آدھا حصہ ملے گا اگر ان کی کوئی اولاد نہ ہو ،اگر اولاد ہو تو شوہر کا حصہ ایک چوتھائی ہوگا ۔اسی طرح بیوی کو شوہر کی جائیداد میں سے ایک چوتھائی حصہ ملے گا اگر  ان کی اولاد نہ ہو، اور اگر اولاد ہو تو بیوی کو شوہر کی جائیداد میں آٹھواں حصہ ملے گا ۔

اگر وہ عورت یامردجس کے والدین حیات نہ ہوں،اور اولاد بھی نہ ہو تو ایسے شخص کو ’کلالہ‘ کہا جاتا ہے ۔اس کی جائیداد اس کے بہن بھائیوں میں تقسیم ہو گی ۔ایک بہن اور ایک بھائی ہو تو بھائی اور بہن دونوں کو ترکہ کا چھٹا حصہ ملے گا ۔بہن بھائی زیادہ ہو ں تو ترکےکے ایک تہائی میں سب شریک ہوں گے ۔مردوں کا دوہرا اور عورتوں کا اکہرا حصہ ہوگا۔

حدود اللہ کی اہمیت

یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کر جائے گا اسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رُسوا کن سزا ہے۔ (النساء۴:۱۳-۱۴)

خاندان کی اکائی کو مضبوط کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو ہدایات دی ہیں ان کو اللہ تعالیٰ اپنی حدود کہتے ہیں۔حدود کو تجاوز نہیں کرنا ہوتا ،بلکہ ان کے اندر رہنے میں ہی اللہ کی رضا اور اجر و انعامات کے وعدے بھی ہیں۔ اور یہ بھی فرما دیا،متصلًاکہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے گا ،حدود کو تجاوز کرے گا ،اللہ اس کو آگ میں ڈالے گا ،اور رُسوا کن عذاب مقدر ہو گا۔

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تمھارے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو ۔ اور نہ یہ حلال ہے کہ انھیں تنگ کر کے اُس مَہر کا کچھ حصّہ اڑا لینے کی کوشش کرو جو تم انھیں دے چکے ہو ۔ ہاں، اگر وہ کسی صریح بدچلنی کی مرتکب ہوں (تو ضرور تمھیں تنگ کرنے کا حق ہے)۔ ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو ۔ اگر وہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو ۔ (النساء۴:۱۹)

’’اس سے مراد یہ ہے کہ شوہر کے مرنے کے بعد اس کے خاندان والے اس کی بیوہ کو میت کی میراث سمجھ کر اس کے ولی وارث نہ بن بیٹھیں ۔ عورت کا شوہر جب مر گیا تو وہ آزاد ہے ۔ عدت گزار کر جہاں چاہے جائے اور جس سے چاہے نکاح کر لے‘‘ ۔(تفہیم القرآن، اوّل، سورئہ نساء، ص۳۳۴)

اگر عورت ناپسند ہو تو اس میں بھلائی سے مراد یہ ہے: ’’اگر عورت خوب صورت نہ ہو ، یا اس میں کوئی اور ایسا نقص ہو جس کی بنا پر وہ شوہر کو پسند نہ آئے ، تو یہ مناسب نہیں ہے کہ شوہر فوراً دل برداشتہ ہو کر اسے چھوڑ دینے پر آمادہ ہو جائے ۔ حتی الامکان اسے صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک عورت خوب صورت نہیں ہوتی مگر اس میں بعض دوسری خوبیاں ایسی ہوتی ہیں جو ازدواجی زندگی میں حُسنِ صورت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں ۔ اگر اسے اپنی ان خوبیوں کے اظہار کا موقع ملے تو وہی شوہر جو ابتداً محض اس کی صورت کی خرابی سے دل برداشتہ ہو رہا تھا ، اس کے حُسنِ سیرت پر فریفتہ ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح بسا اوقات ازدواجی زندگی کی ابتدا میں عورت کی بعض باتیں شوہر کو ناگوار محسوس ہوتی ہیں اور وہ اس سے بد دل ہو جاتا ہے ، لیکن اگر وہ صبر سے کام لے اور عورت کے تمام امکانات کو بروئے کار آنے کا موقع دے ، تو اس پر خود ثابت ہو جاتا ہے کہ اس کی بیوی برائیوں سے بڑھ کر خوبیاں رکھتی ہے ۔ لہٰذا یہ بات پسندیدہ نہیں ہے کہ آدمی ازدواجی تعلق کو منقطع کرنے میں جلد بازی سے کام لے ۔ طلاق بالکل آخری چارۂ کار ہے جس کو ناگزیر حالات ہی میں استعمال کرنا چاہیے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:ابغض الحلال الی اللہ الطلاق،’’ یعنی طلاق اگرچہ جائز ہے ، مگر تمام جائز کاموں میں اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند اگر کوئی چیز ہے تو وہ طلاق ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:تزوجوا ولا تطلقوا فان اللہ لا یحب الذواقین والذواقات،یعنی نکاح کرو اور طلاق نہ دو ، کیونکہ اللہ ایسے مردوں اور عورتوں کو پسند نہیں کرتا جو بھونرے کی طرح پھول پھول کا مزا چکھتے پھریں ‘‘۔(ایضاً، ص ۳۳۴-۳۳۵)

دوسری شادی

اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کر لو تو خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو ، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا ۔ کیا تم اسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر کے واپس لو گے؟ اور آخر تم اسے کس طرح لے لو گے، جب کہ تم ایک دوسرے سے لطف اندوز ہو چکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں؟ (النساء ۴:۲۰-۲۱)

یعنی پہلی بیوی کو جو مہر ،اور تحفہ تحا ئف دیے ہیں،ان میں سے کچھ واپس نہ لو۔ آخر تم جب اس کے ساتھ اَزدواجی تعلق رکھتے ہو تو یہ اموال کیوں کر واپس لو گے؟

سوتیلی ماں سے نکاح

اور جن عورتوں سے تمھارے باپ نکاح کر چکے ہوں اُن سے ہرگز نکاح نہ کرو، مگر جو پہلے ہو چکا سو ہو چکا۔ درحقیقت یہ ایک بے حیائی کا فعل ہے، ناپسندیدہ ہے اور بُرا چلن ہے۔(النساء۴:۲۲)

جا ہلیت کا ایک طریقہ سوتیلی ماں سے نکاح کا تھا ۔اسلام نے سختی کے ساتھ اس کی ممانعت فرمائی ہے ۔اسلامی قانون میں یہ فعل فوجداری جرم ہے اور قابلِ دست اندازیِ پولیس ہے۔ حضوؐر کا ارشاد ہے کہ ’’جو شخص محرمات میں سے کسی کے ساتھ زنا کرے اس کو قتل کردو‘‘۔

جن عورتوں سے نکاح حرام ہے

تم پر حرام کی گئیں تمھاری مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، اور تمھاری وہ مائیں جنھوں نے تم کو دودھ پلایا ہو، اور تمھاری دودھ شریک بہنیں، اور تمھاری بیویوں کی مائیں، اور تمھاری بیویوں کی لڑکیاں جنھوں نے تمھاری گودوں میں پرورش پائی ہے___ ان بیویوں کی لڑکیاں، جن سے تمھارا تعلق زن و شو ہو چکا ہو ۔ ورنہ اگر( ﴿صرف نکاح ہوا ہو) اور تعلق زن و شو نہ ہوا ہو تو (انھیں چھوڑ کر ان کی لڑکیوں سے نکاح کرلینے میں) تم پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے___ اور تمھارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمھاری صُلب سے ہوں۔ اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو ، مگر جو پہلے ہوگیا سو ہو گیا ، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ (النساء۴:۲۳)

ماں کا اطلاق سگی اور سوتیلی پر ہوتا ہے ،اور دونوں حرام ہیں۔ اسی طرح دادی اور نانی بھی حرام ہیں ۔اسی طرح بیٹی کے حکم میں پوتی اور نواسی بھی آتی ہیں۔ بہن، سگی،سو تیلی اور ماں شریک بہن اس حکم میں یکساں ہیں۔

 رضائی رشتوں کی حرمت بھی نکاح کے معاملے میں سگے رشتوں کی طرح ہے۔ عورت کی پچھلے خاوند کی بیٹی بھی حرام ہے، اور اس کا حرام ہونا اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ اس نے سوتیلے باپ کے گھر میں پرورش پائی ہے یا نہیں۔بلکہ اس پر تقریباً اجماعِ اُمت ہےکہ سوتیلی بیٹی آدمی پر حرام ہے،خواہ اس نے کہیں اور پرورش پائی ہو یا سوتیلے باپ کے گھر پر پرورش پائی ہو۔

 منکوحہ عورت سے نکاح کی ممانعت

اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں جو کسی دوسرے کے نکاح میں ہوں (محْصَنَات) البتہ ایسی عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں جو (جنگ میں) تمھارے ہاتھ آئیں۔ یہ اللہ کا قانون ہے جس کی پابندی تم پر لازم کر دی گئی ہے۔ ان کے ما سوا جتنی عورتیں ہیں انھیں اپنے اموال کے ذریعے سے حاصل کرنا تمھارے لیے حلال کر دیا گیا ہے ، بشرطیکہ حصارِ نکاح میں ان کو محفوظ کرو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو ۔ پھر جو ازدواجی زندگی کا لطف تم ان سے اٹھاؤ اس کے بدلے اُن کے مَہر بطور فرض کے ادا کرو ، البتہ مَہر کی قرارداد ہوجانے کے بعد آپس کی رضامندی سے تمھارے درمیان اگر کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، اللہ علیم اور دانا ہے ۔ (النساء۴:۲۴)

’’جو عورتیں جنگ میں پکڑی ہو ئی آئیں اور ان کے کافر شوہر دارالحرب میں موجود ہوںوہ حرام نہیں ہیں، کیوں کہ دارالحرب سے دارالاسلام میں آنے کے بعد ان کے نکاح ٹوٹ گئے ۔ایسی عورتوں کےساتھ نکاح بھی کیا جاسکتا ہےاور جس کے ملک ِ یمین میں ہوں وہ ان سے تمتع بھی کر سکتا ہے....

 لونڈیوں میں تمتع کے معاملے میں بہت سی غلط فہمیاں لوگوں کے ذہن میں ہیں، لہٰذا حسب ذیل مسائل کو اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے:

۱- جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوں ،ان کو پکڑتے ہی ہر سپاہی ان کے ساتھ مباشرت کر لینے کا مجاز نہیں ہے،بلکہ اسلامی قانون یہ ہےکہ ایسی عورتیں حکومت کے حوالے کر دی جائیں گی۔ حکومت کو اختیار ہے کہ چاہےان کو رہا کردے، چاہے ان سے فدیہ لے ، چاہےان کا تبادلہ  اُن مسلمان قیدیوں سے کرے جو دشمن کے ہاتھ میں ہوں، اور چاہے تو انھیں سپاہیوں میں تقسیم کردے۔ ایک سپاہی صرف اس عورت ہی سے تمتع کرنے کامجاز ہےجو حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کی ملک میں دی گئی ہو۔

۲- جو عورت اس طرح کسی کی مِلک میں دی جائے ،اس کے ساتھ بھی اُسں وقت تک مباشرت نہیں کی جا سکتی جب تک کہ اسے ایک مرتبہ ایام ماہواری نہ آ جائیں اور یہ اطمینان نہ ہولے کہ وہ حاملہ نہیں ہے ۔اس سے پہلے مباشرت کرنا حرام ہے۔ اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے بھی مباشرت ناجائز ہے ۔

۳- جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں سے تمتع کے معاملے میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب ہی میں سے ہوں۔ان کا مذہب خواہ کوئی ہو، بہرحال جب وہ تقسیم کر دی جائیں گی ،تو جن کے حصے میں وہ آئیں وہ ان سے تمتع کر سکتے ہیں ۔

۴-جو عورت جس شخص کے حصے میں دی گئی صرف وہی اس کے ساتھ تمتع کر سکتا ہے۔ کسی دوسرے کو اسے ہاتھ لگانے کا حق نہیں ہے۔ اس عورت سے جو اولاد ہوگی وہ اسی شخص کی جائز اولاد سمجھی جائے گی جس کی مِلک میں وہ عورت ہے ۔اس اولاد کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو شریعت میں صُلبی اولاد کے لیے مقرر ہیں۔ صاحب ِاولاد ہوجانے کے بعد وہ عورت فروخت نہ کی جا سکے گی اور مالک کے مرتے ہی وہ آپ سے آپ آزاد ہوجائے گی۔

۵- حکومت کی طرف سے حقوق ملکیت کا باقاعدہ عطا کیا جانا، ویسا ہی ایک قانونی فعل ہے جیسا نکاح ایک قانونی فعل ہے ۔لہذا کوئی معقول وجہ نہیں کہ جو شخص نکاح میں کسی قسم کی کراہت محسوس نہیں کرتاوہ خواہ مخواہ لونڈی سے تمتع کرنے میں کراہت محسوس کرے۔

۶- جس طرح شریعت نے بیویوں کی تعداد پر چار کی پابندی لگائی ہے، اُس طرح لونڈیوں کی تعداد پر نہیں لگائی ۔لیکن اس معاملے میں کوئی حد مقرر نہ کرنے سے شریعت کا منشا یہ نہیں تھا کہ مال دار لوگ بے شمار لونڈیاں خرید خرید کر جمع کرلیں اور اپنے گھر کو عیاشی کا گھر بنا لیں۔ بلکہ درحقیقت اس معاملہ میں عدم تعین کی وجہ جنگی حالات کا عدم تعین ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۴۰-۳۴۱)

غیرمنکوحہ عورت کے ساتھ بےتکلفی، گپ شپ، خلوت و جلوت میں ملاقاتیں جو شہوانی جذبات کو تحریک دینے والے اور آخر کار غلط کاری اور ناجائز تعلق پر منتج ہوں، اسلامی معاشرے کا چلن نہیں ہے۔ یہ حیا،دبی زبان سے بات نہ کرنے، تخلیہ میں غیر محرم کے ساتھ بات چیت نہ کرنے کی تلقین کرنےوالا، عورتوں کے لباس اوراظہار زینت کے دائرے مقرر کرنے والا دین ہے۔ جس سے ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے ۔نکاح ایک حفاظت یاحصا ر ہے،سرٹیفکیٹ نہیں ہے کہ ہرخاص وعام کے ساتھ بے تکلفانہ اور بے حجابانہ معاملے کی اجازت مل گئی۔ نکاح کرنے ،مہر ادا کرنے اور بیویوں کو نکاح کےحصار میں محفوظ کرنے کی تلقین ہے۔مرد اور عورت کو نکاح ،آزاد شہوت رانی اور گمراہی سے بچانے کے لیے ہے۔

کنیز/لونڈی سے نکاح کرنے کی سہولت

اور جو شخص تم میں سے اتنی مقدرت (طاقت) نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورتوں (محْصَنَات) سے نکاح کر سکے اسے چاہیے کہ تمھاری ان لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کر لے جو تمھارے قبضہ میں ہوں اور مومنہ ہوں۔ اللہ تمھارے ایمانوں کا حال خوب جانتا ہے ، تم سب ایک ہی گروہ کے لوگ ہو، لہٰذا ان کے سرپرستوں کی اجازت سے اُن کے ساتھ نکاح کر لو اور معروف طریقے سے ان کے مہر ادا کر دو ،تاکہ وہ حصارِ نکاح میں محفوظ (محْصَنَات) ہو کر رہیں، آزاد شہوت رانی نہ کرتی پھریں اور نہ چوری چھپے آشنائیاں کریں ۔ پھر جب وہ حصارِ نکاح میں محفوظ ہو جائیں اور اس کے بعد کسی بدچلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر اُس سزا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو خاندانی عورتوں (محصنَات) ﴾ کے لیے مقرر ہے ۔ یہ سہولت تم میں سے اُن لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے جن کو شادی نہ کرنے سے بندِ تقویٰ کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہو ۔ لیکن اگر تم صبر کرو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے ، اور اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (النساء۴:۲۵)

’’سرسری نگاہ میں یہاں ایک پیچیدگی واقع ہوتی ہے جس سے خوارج اور اُن دوسرے لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے جو رجم کے منکر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اگر آزاد شادی شدہ عورت کے لیے شریعت ِاسلام میں زنا کی سزا رجم ہے تو اس کی نصف سزا کیا ہو سکتی ہے جو لونڈی کو دی جائے ؟ لہٰذا یہ آیت اس بات پر دلیل قاطع ہے کہ اسلام میں رجم کی سزا ہے ہی نہیں‘‘ ۔ لیکن ان لوگوں نے قرآن کے الفاظ پر غور نہیں کیا ۔ اس رکوع میں لفظ ’محصنت‘ ( محفوظ عورتیں ) دو مختلف معنوں میں استعمال کیا گیا ہے ۔ ایک ’شادی شدہ عورتیں‘ جن کو شوہر کی حفاظت حاصل ہو ۔ دوسرے ’خاندانی عورتیں‘ جن کو خاندان کی حفاظت حاصل ہو ، اگرچہ وہ شادی شدہ نہ ہوں ۔ آیت زیرِ بحث میں ’محصَنات‘ کا لفظ لونڈی کے بالمقابل خاندانی عورتوں کے لیے دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے نہ کہ پہلے معنی میں ، جیسا کہ آیت کے مضمون سے صاف ظاہر ہے ۔ بخلاف اس کے لونڈیوں کے لیے محصنات کا لفظ پہلے معنی میں استعمال ہوا ہے اور صاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ جب انھیں نکاح کی حفاظت حاصل ہو جائے( فَاِذَآ اُحْصِنَّ ) تب ان کے لیے زنا کے ارتکاب پر وہ سزا ہے جو مذکور ہوئی ۔

اب اگر غائر نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ خاندانی عورت کو دو حفاظتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ ایک ، خاندان کی حفاظت ، جس کی بنا پر وہ شادی کے بغیر بھی ’محصنہ‘ ہوتی ہے ۔ دوسری ، شوہر کی حفاظت ، جس کی وجہ سے اس کے لیے خاندان کی حفاظت پر ایک اور حفاظت کا اضافہ ہو جاتا ہے ۔ بخلاف اس کے لونڈی جب تک لونڈی ہے ،’محصنہ‘@نہیں ہے ، کیونکہ اس کو کسی خاندان کی حفاظت حاصل نہیں ہے ۔ البتہ نکاح ہونے پر اس کو صرف شوہر کی حفاظت حاصل ہوتی ہے اور وہ بھی ادھوری ، کیونکہ شوہر کی حفاظت میں آنے کے بعد بھی نہ تو وہ ان لوگوں کی بندگی سے آزاد ہوتی ہے جن کی مِلک میں وہ تھی ، اور نہ اسے معاشرت میں وہ مرتبہ حاصل ہوتا ہے جو خاندانی عورت کو نصیب ہوا کرتا ہے ۔ لہٰذا اسے جو سزا دی جائے گی ، وہ غیر شادی شدہ خاندانی عورتوں کی سزا سے آدھی ہو گی ، نہ کہ شادی شدہ خاندانی عورتوں کی سزا سے ۔ نیز یہیں سے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ سورۂ نور کی دوسری آیت میں زنا کی جس سزا کا ذکر ہے ، وہ صرف غیر شادی شدہ خاندانی عورتوں کے لیے ہے ، جن کے مقابلے میں یہاں شادی شدہ لونڈی کی سزا نصف بیان کی گئی ہے ‘‘۔(ایضاً،ص ۳۴۲-۳۴۳)

جو لوگ شادی نہ کر سکنے کی وجہ سے صبر نہ کر سکتے ہوں، تقویٰ پر قائم نہ رہ سکتے ہو ں اُن کے لیے یہ سہولت دے دی گئی ہے ۔جو شخص اتنی طاقت نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورت سے نکاح کرنے کے اخراجات اٹھا سکے وہ کسی کی لونڈی سے نکاح کرلے۔(جاری)

جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدّت پوری کر لیں، تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیرِ تجویز شوہروں سے نکاح کر لیں، جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں۔ تمھیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہرگز نہ کرنا، اگر تم اللہ اور روز آخر پر ایمان لانے والے ہو۔ تمھارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔

جو باپ چاہتے ہوں کہ ان کی اولا د پوری مدتِ رضاعت تک دودھ پیے، تو مائیں اپنے بچوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں۔ اِس صورت میں بچے کے باپ کو معروف طریقے سے انھیں کھانا کپڑا دینا ہوگا۔ مگر کسی پر اس کی وسعت سے بڑھ کر بار نہ ڈالنا چاہیے۔ نہ تو ماں کو اِس وجہ سے تکلیف میں ڈالا جائے کہ بچہ اس کا ہے، اور نہ باپ ہی کو اس وجہ سے تنگ کیا جائے کہ بچہ اس کا ہے___ دودھ پلانے والی کا یہ حق جیسا کہ بچے کے باپ پر ہے، ویسا ہی اس کے وارث پر بھی ہے___ لیکن اگر فریقین باہمی رضامندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں، تو ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔(البقرہ ۲:۲۳۲-۲۳۳)

یعنی دودھ پلانے کا معاملہ اس صورت میں طے ہونا ضروری ہے، جب ماں باپ میں علیحدگی ہو چکی ہو ۔اس کے لیے نان نفقہ بھی دینا ہوگا۔ باپ کا انتقال ہو جائے تو یہ حق اس کو ادا کرنا ہوگا جو باپ کی جگہ ولی ہو۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ علیحدگی اور شوہر کی وفات کی صورت میں بچہ ددھیال والے لے لیتے ہیں کہ ہمارا بچہ ہے ہم خود دیکھ لیں گے۔ عورت کی خواہش کے برعکس ایسا کرنا ممتا کےلیے تکلیف دہ ہوتا ہے ۔اس لیے ایسے افعال سے بھی بچنے کی ضرورت ہے۔

بیوہ کی عدّت

تم میں سے جو لوگ مر جائیں، اُن کے پیچھے اگر اُن کی بیویاں زندہ ہوں، تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے، دس دن روکے رکھیں۔ پھر جب ان کی عدّت پوری ہو جائے، تو انھیں اختیار ہے، اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے جو چاہیں، کریں۔ تم پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ اللہ تم سب کے اعمال سے باخبر ہے۔(البقرہ ۲:۲۳۴)

’’یہ عدّ تِ وفا ت ان عورتوں کے لیے بھی ہے جن سے شوہروں کی خلوتِ صحیحہ نہ ہوئی ہو۔ البتہ حاملہ عورت اس سے مستثنیٰ ہے۔اس کی عدّتِ وفات وضع حمل تک ہے ،خواہ وضع حمل شوہر کی وفات کے بعد ہی ہو جائے یااس میں کئی مہینے صرف ہو ں۔ ' ’اپنے آپ کو روکے رکھیں‘ 'سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ وہ اس مدت میں نکاح نہ کریں ،بلکہ اس سے مراد اپنے آپ کو زینت سے بھی روکے رکھنا ہے۔چنانچہ احادیث میں واضح طور پر یہ احکام ملتے ہیں کہ زمانۂ عدّت میں عورت کو رنگین کپڑے اور زیور پہننے سے، مہندی اور سُرمہ اور خوشبو اور خضاب لگانے سے، اور بالوں کی آرائش سے پرہیز کرنا چاہیے۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ وہ اس زمانے میں گھر سے نکل سکتی ہیں یا نہیں؟ائمہ اربعہ اس بات کے قائل ہیں کہ زمانۂ عدّت میں عورت کو اسی گھر میں رہنا چاہیے جہاں اس کے شوہر نے وفات پائی ہو (البتہ ضر ورت کے لیے) وہ باہر جا سکتی ہے مگر قیام اس کا اُسی گھر میں ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس حضرت عائشہؓ اور تمام اہل الظاہر اس بات کے قائل ہیں کہ عورت اپنی عدّت جہاں چاہے گزار سکتی ہے اور اس زمانے میں سفر بھی کر سکتی ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، اوّل، حاشیہ ۲۵۹)

’عدّت‘ کے احکام سے بے خبری بھی عام ہے اور کچھ خود ساختہ آزادی یا پابندیاںہیں  جس پر عموماً معاشرے میں عمل ہوتا ہے ۔ایک رویہ یہ ہے کہ عورت کو سفید دوپٹہ اُ وڑھا دیا جائے، زیورات اتار دیئے جائیں ،قریب سے بھی آوازیں آتی ہیں 'ہائے بے چاری کیا کرے، کچھ نہیں ہوتا خوامخو ا ہ کی سختی نہ کریں ۔ملی جلی آوازوں میں، بیوہ بھی پریشان اور گومگو کی کیفیت میں چلی جاتی ہے کیونکہ خود علم نہیں ہوتا اور فوری طور پر علم حاصل کرنے کا موقع بھی نہیں ہوتا۔

عدّت کے دوران نکاح کی ممانعت

زمانۂ عدّت میں خواہ تم اُن بیوہ عورتوں کے ساتھ منگنی کا ارادہ اشارے کنایے میں ظاہر کر دو، خواہ دل میں چھپائے رکھو، دونوں صورتوں میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اللہ جانتا ہے کہ اُن کا خیال تو تمھارے دل میں آئے گا ہی۔ مگر دیکھو! خفیہ عہد و پیمان نہ کرنا۔ اگر کوئی بات کرنی ہے، تو معرف طریقے سے کرو۔ (البقرہ ۲:۲۳۵)

’عدّت‘ کے احکام کا علم نہ ہونے کی بنا پر، یا کئی اور نام نہاد مجبوریوں کی آڑ میں کبھی علانیہ اور اکثر خفیہ رکھ کر نکاح کر لیا جاتا ہے،جو کہ اللہ کے بتائے ہوئے احکامات کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اور اگر معاشرے کے سرکردہ لوگ ،اسی طرح کریں تو وہ بھی عوام الناس کے لیے وجۂ جواز بن جاتی ہے۔

رخصتی سے قبل طلاق

تم پر کچھ گناہ نہیں، اگر اپنی عورتوں کو طلاق دے دو قبل اس کے کہ ہاتھ لگانے کی نوبت آئے یا مہر مقرر ہو۔ اس صورت میں اُنھیں کچھ نہ کچھ دینا ضرور چاہیے۔ خوش حال آدمی اپنی مقدرت کے مطابق اور غریب اپنی مقدرت کے مطابق معروف طریقے سے دے۔ یہ حق ہے نیک آدمیوں پر۔ (البقرہ ۲:۲۳۶)

رشتہ جوڑ کر توڑ دینے سے عورت کی ساکھ کو نقصان تو پہنچتا ہے،اس لیے اللہ نے حسبِ استطاعت ازالے کا حکم دیا ہے۔

اور اگر تم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی ہو، لیکن مہر مقرر کیا جا چکا ہو، تو اس صورت میں نصف مہر دینا ہوگا۔ یہ اور بات ہے کہ عورت نرمی برتے (اور مہر نہ لے) یا وہ مرد، جس کے اختیار میں عقدِ نکاح ہے، نرمی سے کام لے (اور پورا مہر دے دے)، اور تم (یعنی مرد) نرمی سے کام لو، تو یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو۔ تمھارے اعمال کو اللہ دیکھ رہا ہے۔(البقرہ ۲:۲۳۷)

 یعنی نکاح ہوگیا ،رخصتی نہیں ہوئی اور مہر مقرر ہو چکا تھا تو اس صورت میں نصف مہر دینا ہوگا ۔اور اس میں شوہر اور بیوی دونوں کو فراخ دلی اور فیاضی برتنے کی تلقین کی گئی ہے، کہ انسانی معاشرے میں خوش گوار تعلقات کی اساس یہی ہے۔ اور یہی تقویٰ کا رویہ ہے۔

بیوہ کے حق میں وصیت

تم میں سے جو لوگوں وفات پائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑ رہے ہوں، اُن کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے حق میں یہ وصیت کر جائیں کہ ایک سال تک ان کو نان و نفقہ دیا جائے اور وہ گھر سے نہ نکالی جائیں۔ پھر اگر وہ خود نکل جائیں، تو اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے وہ جو کچھ بھی کریں، اس کی کوئی ذمہ داری تم پر نہیں ہے، اللہ سب پر غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے۔(البقرہ ۲:۲۴۰)

یہ احکامِ وراثت سے پہلے کی آیت ہے۔ بیوہ کا ورثے میں حصہ مقرر ہو جانے کے بعد، اس وصیت کر نے کا حکم منسوخ ہو گیا ،تاہم پسندیدہ یہی ہے کہ بیوہ سسرال میں ہی رہے۔ البتہ اگر سسرال میں قدرے مشکل ہو یا میکے میں آسانی ہو یا کوئی مجبوری ہو تو وہ دوسری جگہ بھی قیام کر سکتی ہے۔

علیحدگی کے وقت حسنِ معا ملہ

اِسی طرح جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، انھیں بھی مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔ اِس طرح اللہ اپنے احکام تمھیں صاف صاف بتاتا ہے۔ اُمید ہے کہ تم سمجھ بوجھ کر کام کرو گے۔(البقرہ ۲:۲۴۱-۲۴۲)

طلاق سے گو کہ شوہر اور بیوی کے تعلقات ختم ہو رہے ہیں۔ اور طلاق کا عمل بالعموم   آپس کے تعلقات کی خرابی کی وجہ سے پیش آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہاں ناراض ہونے، لڑنے یا تعلقات ختم کرتے ہوئے بھی حسن سلوک کا حکم دیتا ہے۔ تحا ئف دلوں کو نرم کرتے ہیں۔ رنج اور غصے کی کیفیت جو علیحدگی کے وقت طر فین پر طاری ہوتی ہے،کچھ دینے اور لینے سے بہتر ہوتی ہے۔

لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔(النساء ۴:۱)

آغاز اس سے کیا کہ ’تمھیں ایک ہی جان سے پیدا کیا‘۔خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا کے معنی ہیں اسی کی جنس سے۔ اگرچہ اس کے معنی لوگوں نے اور بھی لیے ہیں، لیکن جس کی بنیاد پر لیے ہیں وہ نہایت کمزور ہے۔ سورئہ نحل میں ہے: وَاللہُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا (۱۶:۷۲) کہ اللہ نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں۔ مراد یہ کہ نسلِ انسانی ایک ہی آدم کا گھرانا ہے۔ سب کو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی آدم و حوا کی نسل سے پیدا کیا ہے، اور نسلِ آدم ہونے کے اعتبار سے سب برابر ہیں، پھر یہ کہ جس طرح آدمؑ تمام نسلِ انسانی کے باپ ہیں، اسی طرح حواؑ تمام نسلِ انسانی کی ماں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حواؑ کو آدم ؑ ہی کی جنس سے بنایا ہے، اس وجہ سے عورت کوئی ذلیل، حقیر،فروتر اور فطری گنہگار مخلوق نہیں ہے، بلکہ وہ بھی شرفِ انسانیت میں برابر کی شریک ہے۔(مولانا امین احسن اصلاحی،تدبرقرآن، ج۲، ص ۲۴۵-۲۴۷)

آغاز میں یہ بھی وضاحت کردی گئی ہے کہ جس خدا کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے حق مانگتے ہو، رشتہ وقرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو ۔بہت اہم نکتہ یہ بیان کیا کہ ’’یہ یقین کرلو ،اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے‘‘ ۔یہ آیت ،یعنی سورۂ نساء ،کی پہلی آیت خطبۂ نکاح میں پڑھی جاتی ہے ۔اس میں یہ باور کرایا گیا ہے کہ اللہ، اس جوڑے کے باہمی معاملات کی نگرانی کررہا ہے۔ نکاح دُنیاداری یا رسمِ دُنیا نہیں، کچھ تقریبات ،کپڑوں اور زیورات کی نمائش نہیں ۔یہ کڑی ذمہ داری اور باہمی تعلقات کی ابتدا وعہد ہے جو رب کی رضا کے حصول کے لیے، رب کے حکم پر عمل کرنا ہے۔ کتنی بدنصیبی ہوتی ہے ،جب یہ تعلق ،اللہ کی رضا کی بجائے ،ہمارے طرزِ عمل کی وجہ سے اللہ کی ناراضی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

یتیم کے مال کی حفاظت

یتیموں کے مال اُن کو واپس دو، اچھے مال کو برے مال سے نہ بدل لو، اور اُن کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھا جاؤ، یہ بہت بڑا گناہ ہے۔(النساء ۴:۲) 

یعنی جب تک وہ بچے ہیں، ان کے مال انھی کے مفاد پر خرچ کرو، اور جب بڑے ہوجائیں تو جو ان کا حق ہے وہ انھیں واپس کر دو۔

تعدد ازدواج

اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کر لو۔ لیکن اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا اُن عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمھارے قبضہ میں آئی ہیں، بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرینِ صواب ہے۔(النساء ۴:۳)

اس کے تین مفہوم مفسرین نے بیان کیے ہیں :

۱-حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں جو یتیم بچیاں لوگوں کی سرپرستی میں ہوتی تھیں، ان کے مال اور ان کے حُسن و جمال کی وجہ سے، یا اس خیال سے کہ ان کا کوئی سر دھرا تو ہے نہیں ،جس طرح ہم چاہیں گے دبا کر رکھیں گے ،وہ ان کے ساتھ خود نکاح کرلیتے تھے اور پھر ان پر ظلم کیا کرتے تھے۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو دوسری عورتیں دنیا میں موجود ہیں،ان میں سے جو تمھیں پسند آئیں، ان کے ساتھ نکاح کر لو ۔اسی سورہ میں انیسویں رکوع کی پہلی آیت اس تفسیر کی تائید کرتی ہے۔

۲-ابن عباسؓ اور ان کے شاگرد عِکرمہ اس کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ جاہلیت میں نکاح کی کوئی حدنہ تھی ۔ایک ایک شخص دس دس بیویاں کر لیتا تھا ۔اور جب اس کثرتِ ازدواج سے مصارف بڑھ جاتے تھے تو مجبور ہو کر اپنے یتیم بھتیجوں ،بھانجوں اور دوسرے بے بس عزیزوں کے حقوق پر دست درازی کرتا تھا ۔اس پر اللہ تعالیٰ نے نکاح کے لیے چار کی حد مقرر کر دی ہے اور فرمایا کہ ظلم اور بے انصافی سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ ایک سے لے کر چار تک اتنی بیویاں کرو جن کے ساتھ تم عدل پر قائم رہ سکو۔

۳-سعید بن جُبیر اور قتادہ اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں ،کہ جہاں تک یتیموں کا معاملہ ہے اہلِ جاہلیت بھی ان کے ساتھ بے انصافی کرنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے ۔ لیکن عورتوں کے معاملے میں اُن کے ذہن عدل و انصاف کے تصور سے خالی تھے ۔جتنی چاہتے تھے شادیاں کر لیتے تھے اور پھر اُن کے ساتھ ظلم و جور سے پیش آتے تھے۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو عورتوں کے ساتھ بھی بے انصافی کرنے سے ڈرو۔ اول تو چار سے زیادہ نکاح ہی نہ کرو، اور اس چار کی حد میں بھی بس اتنی بیویاں رکھو جن کے ساتھ انصاف کر سکو۔نیز اس کامفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ ویسے انصاف نہیں کر سکتے تو اُن عورتوں سے نکاح کر لو جن کے ساتھ یتیم بچے ہیں ۔(تفہیم القرآن، ج اوّل، حاشیہ۴)

یہ بات بھی قابل غور ہےکہ یہ آیت چار بیویوں کی اجازت دینے کے لیے نہیں بلکہ تعددِ اَزواج کی تعداد کو چار تک محدود کرنے کے لیے نازل ہوئی ۔فقہائے امت کا بھی اجماع ہے کہ اس آیت کے ذریعے تعددِاَزواج کی حد مقرر کر دی گئی ۔اور یہ حکم ایک ہی وقت میں چار سے زیادہ بیویاں رکھنے سے منع کرنے کے لیے ہے۔

 دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ آیت ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کو عدل کی شرط کے ساتھ مشروط کرتی ہے۔ جو شخص بیویاں ایک سے زیادہ رکھتا ہےمگر ان کے در میا ن عدل نہیں کرتا، وہ اللہ کے اس حکم سے کہ ’ایک سے زیادہ بیویاں کرلو‘ سے تو فائدہ اٹھاتا ہے مگر عدل نہ کر کے گویا اللہ کے ساتھ دغا بازی کرتا ہے ۔

اسلامی حکومت کی عدالتوں کو ایسی بیوی یا بیو یو ں کی داد رسی کرنی چاہیے ،جن کو شوہر سے انصاف نہ ملے۔ ایک سے زیادہ بیویوں سے نکاح کرنا بعض حالات میں ایک تمدنی اور اخلاقی ضرورت بن جاتی ہے۔ اگر اس کی اجازت نہ دی جائے ،تو جو لوگ ایک بیوی پر صبر نہیں کرسکتے، دوسری عورتوں کے ساتھ صنفی تعلقات قائم کرتے ہیں اور تمدنی و اخلاقی مسائل کی وجہ بنتے ہیں، جس کے نقصانات معاشرے کو اس سے کئی گنازیادہ بھگتنے پڑتے ہیں بہ نسبت اس کے کہ ایک شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چار سے زیادہ بیویوں کی اجازت ملنا ایک استثنائی حکم ہے۔

اہل مغرب کی عیسائیت زدہ رائے کی بنا پر بعض احساسِ کمتری کا شکار قرآن کے اس حکم کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے بیویوں کی تعداد کو محدود کرنے کے لیے یہ ابتدائی حکم دیا تھا۔ گویا اصلاً ایک ہی بیوی ہونااسلام کا حکم ہے،یہ رائے غلط ہے۔(تفہیم القرآن، اوّل، حاشیہ۵)

آخر میں جو یہ فرمایا کہ ان عورتوں کو اپنی زوجیت میں لاؤ جو تمھارے قبضے میں ہیں ،تو اس سے مراد لونڈیاں ہیں۔ یہ وہ عورتیں ہیں ،جو جنگ میں گرفتار ہوکر آئیں اور حکومت ان کو علانیہ لوگوں میں تقسیم کرکے ان کی ملکیت بنا دے۔(ایضاً، حاشیہ نمبر۶)

ایک سے زیادہ نکاح کے بارے میں امت مسلمہ کے رویے مختلف ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کی عورت دوسری بیوی یا سوکن کو بہت مشکل سے گوارا کرتی ہے،اور اس گھر کے سو مسائل شروع ہوجاتے ہیں، جو مرد سنبھال نہیں پاتا۔ بقیہ دنیا میں ملا جلا معاملہ ہے ۔ مرد دوسرے نکاح تو کرلیتے ہیں مگر عدل کامعاملہ عموماً نہیں کر پاتے۔ جس پر نہ وہ خود مطمئن ہوتے ہیں اور یہاں تک کہ دین کی سمجھ رکھنے والی بیویوں کو بھی مطمئن نہیں کر پاتے۔

مہر

اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو، البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمھیں معاف کر دیں تو اُسے تم مزے سے کھا سکتے ہو۔ (النساء ۴:۴)

 بیویوں کے ’مہر‘ان کا حق ہے ۔اور اس ’مہر‘ کا ادا کیا جانا شوہر پر فرض ہے ۔نکاح کے موقع پر ہی مقررکردہ ’مہر‘ ادا کر دیا جانا اولیٰ ہےمگر ’معجل‘ اور’ غیرمعجل‘ کی رعایت بھی موجود ہے۔ بیوی شوہر کو حق مہر معاف بھی کر سکتی ہے ۔لیکن بعد ازاںاگر وہ پھر اس کا مطالبہ کرے تو شوہر کو یہ ادا کرنا ہوگا،اور عدالت عورت کو یہ دلوانے کی پابند ہوگی۔کیونکہ اس کا مطالبہ کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اپنی خوشی سے مہر یا اس کا کوئی حصہ چھوڑنا نہیں چاہتی۔

’مہر‘ کے معاملے میں ہمارے معاشرے میں بہت سی بے ضابطگیاں پائی جاتی ہیں۔ حق مہر کی ادائیگی طلاق دینے کے وقت تک مؤخرر کھی جاتی ہے ۔بہت زیادہ حق مہر لکھوائے جاتے ہیں کہ مرد لڑکی کو طلاق نہ دے سکے ۔باہم فریقین کا نباہ بھی نہیں ہوتا ،مگر تفریق کبھی نہیں ہو سکتی، کہ لڑکا لکھا ہوا حق مہر ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتا ۔

’حق مہر‘ کا ایک خود ساختہ تصور ’شرعی حق مہر‘ کا ہے جو کہ ۳۵ روپے ہے۔لوگ دین دار گھرانوں کو طعنہ دیتے ہیں کہ اب ان کی دین داری کہا ں ہےاور زیادہ مہر کیوں مقرر کر رہے ہیں؟ مہر بھی دین کا وہ حکم ہے جو دین دار حلقوں میں بھی کما حقہٗ متعارف نہیں۔ اس پر عمل ضروری ہے ،کہ اس کے بارے میں آگاہی بڑھائی جائے اور اس میں حیلے بہانے کرنے والوں کی کسی درجہ میں گرفت ہوسکے۔

وراثت کی تقسیم

 مردوں کے لیے اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔(النساء ۴:۷)

اس آیت میں واضح طور پر پانچ قانونی حکم دیے گئے ہیں:ایک یہ کہ میراث صرف مردوں ہی کا حصہ نہیں ہے بلکہ عورتیں بھی اس کی حق دار ہیں ۔دوسرے یہ کہ میراث بہرحال تقسیم ہونی چاہیے خواہ وہ کتنی ہی کم ہو، حتیٰ کہ مرنے والے نے ایک گز کپڑا چھوڑا ہے اور دس وارث ہیں ،تو اسے بھی دس حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔ یہ اور بات ہے کہ ایک وارث دوسرے وارثوں سے ان کا حصہ خرید لے۔تیسرے، اس آیت سے یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ وراثت کا قانون ہر قسم کے اموال و املاک پر جاری ہوگا، خواہ وہ منقولہ ہوں یا غیر منقولہ، زرعی ہوں یا صنعتی، یا کسی اور صنف مال میں شمار ہوتے ہوں۔چوتھے ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میراث کا حق اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مورث کوئی مال چھوڑ مرا ہو ۔پانچویں، اس سے یہ قاعدہ بھی نکلتا ہے کہ قریب کے رشتےدار کی موجودگی میں بعید تر رشتےدار میراث نہ پائے گا۔ (تفہیم القرآن، سورۃ النساء حاشیہ ۱۲)

وراثت میں حصہ مردوں اور عورتوں کا ہے اور رشتے کے لحاظ سے ہے ۔مرد بیٹا ہے ،یا باپ ہے، عورت بیٹی ہے ،یا ماں ہے ۔عملاً معاشرے میں اِلا ماشاء اللہ وراثت کی تقسیم شریعت کے مطابق ہو،تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے ۔ جہاں تقسیم ہوتی ہے وہاں صرف نقد رقم تقسیم ہو جاتی ہے۔ وہ بھی ۲۰ لاکھ بہن کے حصے میں آتا ہےتو ۱۰ لاکھ دے کر فارغ ہو جائیں گے ۔گھر بالعموم مشترکہ ہوتے ہیں، وہ تقسیم ہو تو کاروبار خراب ہوتا ہے،لہٰذا بہن کے حصے میں کچھ نہیں آ تا ہے ۔

گھر تقسیم کیسے ہوں؟ بہنوں کو حصہ کیسے دیں ؟ دے دیں تو ماں اور بیٹے کہاں رہیں ؟ لہٰذا تقسیم نہیں ہوسکتا اور نہیں ہوتا ۔رہا دوسرا سامان و غیرہ، تو وہ سب حساب میں لایا ہی نہیں جاتا ،ماں بھی بہوؤں کی ہم نوا بن جاتی ہے ، بیٹیاں اپنی قسمت کاکھا رہی ہیں ،یہاں کی چیزیں یہاں ہی رہنے دو ،یا ان چیزوں کی تقسیم کا کیا ذکر ہے؟

ماں باپ اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کر کے بیٹے اور بیٹیوں کے نام برابر ہدیہ کر دیتے ہیں کہ ہد یے میں تو برابری ہونی چاہیے ۔بعد میں بچے لڑتے نہ رہیں، بیٹیوں کو شاید حصہ نہ دیں یا یہ بھی ہوتا ہے کہ ساری جائیداد اپنی زندگی میں ہی بیٹوں کے نام کر دیں تو بیٹیاں عدالت جاپہنچیں۔ نہ بہوؤں کو اپنے میکے سے حصہ ملتا ہے، نہ وہ نندوں کو حصہ دینے کے حق میں ہوتی ہیں۔ اگر کہیں بیٹیاں خاموش رہنے کی بجائے ،زبان کھول کر مانگ لیں تو ساری عمر ان کا میکے میں داخلہ بند اور باہم لین دین ، شادی،خوشی کے موقع پر مل بیٹھنا سب ختم ہو جاتا ہے و غیر ہ ۔

قرآن میں قانونِ وراثت بڑی تفصیل سے مذکور ہے ،اس کو جاننا اور اس پر عمل کرنا ،اس کا ابلاغ کرنا، بحیثیت مسلمان ہماری سب کی ذمہ داری ہے ۔جس کے بارے میں یقیناا للہ پوچھے گا۔

یتیم کے مال کی حرمت

لوگوں کو اس بات کا خیال کر کے ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑتے تو مرتے وقت انھیں اپنے بچوں کے حق میں کیسے کچھ اندیشے لاحق ہوتے۔ پس چاہیے کہ وہ خدا کا خوف کریں اور راستی کی بات کریں۔(النساء ۴:۹)

یہاں پھر اللہ تعالیٰ خاندانوں میں رہنے والے یتیموں کے حقوق کے بارے میں یاد دہانی اور تاکید کرتا ہے ۔یتیم کا والی وارث دنیا سے چلا جاتا ہے۔ اللہ خود اس کے مال کے حوالے سے تمام مسلمانوں کو مالِ یتیم کی حرمت کے لیے یاد دہانی کراتا ہے۔

اولاد اور والدین کا میراث میں حصہ

تمھاری اولاد کے بارے میں اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ: مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انھیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے۔ اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے۔ اگر میت صاحب ِاولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے۔ اور اگر وہ صاحب ِاولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہو ں تو ماں کو تیسرا حصہ دیا جائے۔ اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصہ کی حق دار ہوگی۔ (یہ سب حصے اُس وقت نکالے جائیں گے)، جب کہ وصیت جو میت نے کی ہو پوری کر دی جائے اور قرض جو اُس پر ہو ادا کردیا جائے۔ تم نہیں جانتے کہ تمھارے ماں باپ اور تمھاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں، اور اللہ یقیناً سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔(النساء ۴:۱۱)

’میراث‘ کے معاملے میں اصول یہ ہے کہ مرد کا حصہ عورت کے حصے سے دوگنا ہو تا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد پر ا للہ نے خا ند ا نی زندگی میں معاش کا بوجھ ڈالا ہے ،اور عورت پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ مرد عورت کے نان نفقے کا ذمہ دار ہے۔

اگر اولاد میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہو ں تو حصوں میں نسبت ۱:۲ / لڑکا :لڑکی ہو گی، لیکن اگر وارث صرف لڑکیاں ہوں تو ان کو کل ترکےکا ۳/۲ملے گا اور ۳/۱  باقی وارثوںمیں تقسیم ہوگا۔

اگر اولاد میں صرف ایک لڑکا ہو تو اس پر اجماع ہےکہ وہ کل جائیداد کا وارث ہوگا، جب کہ دوسرے وارث موجود نہ ہوں۔

والدین میں ہر ایک کا حصہ ۶/۱ ہے ،اگر میت صاحب اولاد ہو ۔اولاد نہ ہونے کی صورت میں والدین میں سے ہر ایک کو ۳/۱  حصہ ملے گا۔ آیت میں وصیت کا ذکر قرض سے پہلے کیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ قرض کا ہونا ہر میت کے حق میں ضروری نہیں ہے اور وصیت کرنا اس کے لیے ضروری ہے ۔لیکن حکم کے اعتبار سے امت کا اجماع اس پر ہے کہ قرض پہلے ادا کیا جائے گا پھر وصیت یعنی ایک تہائی وراثت کے بارے میں میت نے جو کہا ہے وہ نکالا جائے گا۔ بعد ازاں وراثت وارثوں میں تقسیم ہو گی۔ یہ بھی یاد رہے کہ وصیت کل ورثے کا ۳/۱  حصہ ہوگا۔ اس میں کسی رشتے دار، یتیم پوتا پوتی ،دیگر ضرورت مند افراد یا اداروں کے حق میں وصیت کی جا سکتی ہے۔ وصیت اُس کے حق میں نہیں ہوگی جن کا حصہ اللہ تعالیٰ نے وراثت میں مقرر کر دیا ہے۔

قرض کی ادائیگی اور وصیت پر عمل ورثاکی ذمہ داری ہے۔ جس کو خوشی خوشی ناک منہ چڑھائے بغیر پورا کیا جانا چاہیے ۔اگر مرنے والے نے وصیت میں کچھ بے جاتصرف کیا ہے ،تو ورثا باہم مشورے و رضامندی سے کسی قاضی کے ذریعے ،یہ بے ضابطگی درست کروا سکتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے جو مبنی بر حکمت ہے ۔اس کو پوری طرح سے نافذ کرنا چاہیے ۔اور اس میں اپنی ناقص عقل سے اصلاحات تجویز کرنا ،یا ہیرا پھیری کے راستے تلاش نہیں کرنے چاہییں۔

طلاق رجعی

جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، وہ تین مرتبہ ایام ماہواری آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں، اور اُن کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ نے اُن کے رحم میں جو کچھ خلق فرمایا ہو، اُسے چھپائیں۔ اُنھیں ہرگز ایسا نہ کرنا چاہیے اگر وہ اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتی ہیں۔ اُن کے شوہر تعلقات درست کر لینے پر آمادہ ہوں، تو وہ اِس عدت کے دوران اُنھیں پھر اپنی زوجیت میں واپس لے لینے کے حق دار ہیں۔ عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق اُن پر ہیں۔ البتہ مردوں کو اُن پر ایک درجہ حاصل ہے۔ اور سب پر اللہ غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا موجود ہے۔(البقرہ ۲:۲۲۸)

 شوہروں کو حق حاصل ہے کہ وہ عورت کی عدت کے اندر رجوع کرسکتے ہیں۔ اسے رجعیت کہتے ہیں ،لیکن تیسری طلاق کے بعد یہ حق حاصل نہیں رہتا۔ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد عدت ختم ہونے سے پہلے ،شوہر کو اس کا اختیار حاصل ہے کہ وہ رجوع کرے ،اس پر بیوی کو انکار کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ تم تو مجھے طلاق دے چکے ہو، اب میں تمھاری بات ماننے کو تیار نہیں۔

عورتوں کے لیے اسی طرح حقوق ہیں جس طرح ان پر ذمہ داریاں ہیں، ان کی مناسبت سے حقوق بھی ہیں۔ مردوں کے لیے ان پر ایک درجہ فوقیت ہے۔ اسلامی شریعت میں مرد اور عورت کے درمیان یعنی شوہر اور بیوی کے درمیان مساوات نہیں ہے ۔گھر کے ادارے میں عورت اور مرد برابر نہیں ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ کسی بھی ادارے کے اندر دو برابر کے سربراہ نہیں ہوسکتے۔ اگر آپ کسی ادارے کے دو مینیجنگ ڈائریکٹر بنا دیں تو وہ ادارہ تباہ ہو جائے گا۔ لہٰذا جب ایک مرد اور ایک عورت سے ایک خاندانی ادارہ وجود میں آئے تو اس کا سربراہ کون ہوگا؟ مرد یا عورت؟ مرد اور عورت انسان ہونے کے ناطے برابر ہیں۔ شرفِ انسانیت میں فرد کی حیثیت سے دونوں برابر ہیں لیکن جب وہ دونوں مل کر خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں تو اب یہ برابر نہیں رہے۔اسی طرح  جیسے ایک دفتر میں چپڑاسی اور افسر برابر نہیں ہیں۔ دونوں کے الگ الگ اختیارات اور فرائض ہیں۔

آج سے تقریباً ۴۰برس قبل طلاق کا لفظ بولنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔اگر کسی کی بیٹی یا کسی عورت کو طلاق ہو جاتی تو وہ منہ چھپائےپھر تے تھے۔ اپنے قریبی عزیزوں کو بھی نہیں بتاتے تھے۔ پھرا س کا چلن اتناعام ہوا کہ عورتیں محفلوں میں بیٹھ کر کہتیں کہ مجھے طلاق ہوچکی ہے، اس بات کو بلاجھجک بیان کیا جاتا ہے۔ دوسر ی با ت یہ کہ آپ کو اپنے حلقۂ احباب میں ، اپنی جائے ملازمت پر، کسی بھی تقریب میں طلاق یافتہ خاتون مل جائے گی۔اعدادو شما ر بتا تے ہیں کہ شرح طلاق میں  اضافہ حیران کن اور پریشان کن ہے۔

تیسری تبدیلی جو معاشرے میں عام ہے، وہ گھروں میں میاں بیوی کی لڑائی اور بحث میں: ’مَیں طلاق دے دوں گا‘اور ’مَیں نے تمھیں طلاق دی‘ جیسے جملے بولے جاتے ہیں۔ اور غصہ کا فورہونے کے بعد دونوں میاں بیوی کمال اطمینان کے ساتھ رشتۂ زوجیت میں منسلک رہتے ہیں۔ بیوی کہتی ہے کہ میاں تو مجھے کئی بار طلاق دے چکا ہے ،پھر بات ختم ہو جاتی ہے، پتہ نہیں ہمارا ساتھ رہنا جائز بھی ہے یا نہیں ؟اس احساسِ گناہ کے ساتھ زندگی گزارتی رہتی ہے ۔تصفیہ نہیں کروایا جاتا، خود علم نہیں ،مولوی نے فتویٰ دے دیا تو کہاں جاؤں گی؟ بچے کیسے پالوں گی ؟وغیرہ۔

طلاقِ رجعی بھی ہو تو عدت کا حساب کتنا رکھا جاتا ہے ؟عدت گزر جائے تو کیا نکاح کیا جاتا ہے؟ اگر تین طلاق ایک وقت میں دے دیں اور غصہ ختم ہوا اور ہوش ٹھکانے آئیں تو پھر ہرعالم سے فتویٰ معلوم کرنا کہ میں نے تو غصے میں کہا تھا، ایک ہی طلاق ہوئی ہے نا؟

 حسب منشا فتویٰ ، جہاں سے مل جائے تو اطمینان ہو جاتا ہے اور بیوی کا ساتھ چلتا رہتا ہے۔ اگر یہ سمجھ آ جائے کہ تین بار طلاق کے بعد ،اس بیوی کے ساتھ نکاح صرف حلالہ ہے یعنی کوئی اور آدمی نکاح کرے، رخصتی ہو اور وہ کسی وجہ سے بیوی کو طلاق دے دے، تو پہلے شوہر کے لیے یہ عورت جائز ہوجائے گی۔ اب حلالہ کے لیے بھی حرام راستے ڈھونڈ لیے جاتے ہیں ۔اپنے آپ کو اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے حیلےکیے جاتے ہیں۔

 یہ سب دین کی تعلیمات سے لاعلمی اور جہالت کی بنا پر ہوتا ہے یا علم کے باوجودخدا اور آخرت کی پیشی سے بے خوفی ہوتی ہے، یا یہ پروانہ کہ ’دین آسان ہے، یہ تو مولویوں نے مشکل بنایا ہوا ہے‘۔

عدت میں شادی کرلینا اللہ نے تو منع کیا ہے لیکن بندوں نے اپنی مجبوریوں کی فہرست بناکر اس کو جائز کر لیا ہے ۔کسی کووزارت اعلیٰ کی اُمید، کسی کو ویزے کے حصول یا تنسیخ کا خطرہ،کسی کی نوکری، خاندان کی شادی وغیرہ مجبور کر لیتے ہیں۔

تین حیض کی مدت سے واضح ہو جاتا ہے کہ عورت حاملہ تو نہیں ہے کہ آنے والے بچے کا نسب مشکوک نہ ہو ۔اس میں بھی اگر حمل ہے تو وضع حمل تک عدت ہے۔اب وہ شوہر اور سسرال جو انتہائی مبغوض ہیں، ان کا بچہ چھ آٹھ ماہ تک اٹھائے اٹھائے پھرے، انکار اور پھر جان خلاصی کا حل بھی نکال لیا جاتا ہے۔ ان سب رویوں سے بچانے والا دین کے احکامات کا علم اور اس پر عمل ہے۔

 اللہ تعالیٰ تو یہ بھی فرماتا ہے کہ دوسری طلاق کے بعد عدت ختم ہو جانے سے پہلے شوہر کو اس کا اختیار حاصل ہے ،کہ وہ رجوع کرے۔ اس پر بیوی کوانکار کا اختیار نہیں۔ وہ را ضی ہوجائے، انکار نہ کرے۔مگر آج کی عورت خود انحصاری و خودمختاری کے نعرے سن سن کر اس مقام پر پہنچ رہی ہے، کہ اس کی اَنا کو پہنچی ہوئی ٹھیس کے زخم کسی طرح مندمل نہیں ہوتے۔ نتیجہ طلاق یا خلع کی صورت میں نکلتا ہے ۔مرد کو بھی اپنے جذبات اور زبان کو قابو میں رکھ کر مردانگی کا ثبوت دینا چاہیے ۔عورت کو بھی تحمل وبرد باری کا رویہ اپنانا چاہیے،اور فریقین کے والدین کو حوصلہ بلند کرکے مفاہمت کی کوشش کرنی چاہیے کہ جائز مگر ناپسندیدہ ترین عمل طلاق سے بچا جاسکے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ آج سب رشتوں سے بڑھ کر،دوست اور سہیلیاں ،غم خوار اور قابلِ اعتماد مشیر ہیں۔ ان کو بھی مثبت کردار ادا کرنا چاہیے ۔ہر ایک کی جنبشِ ابرو ،حالات بگاڑنے یا سنوارنے میں بڑا کردار ادا کرتی ہے۔

خلع

طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے۔ اور رخصت کر تے ہوئے ایسا کرنا تمھارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انھیں دے چکے ہو، اُس میں سے کچھ واپس لے لو۔ البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو۔ ایسی صورت میں اگر تمھیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے، تو اُن دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں، اِن سے تجاوز نہ کرو ۔اور جو لوگ حدودِ الٰہی سے تجاوز کریں، وہی ظالم ہیں۔(البقرہ ۲:۲۲۹)

یعنی ایک مرد رشتۂ نکاح میں اپنی بیوی پر حد سے حد دو ہی مرتبہ رجوع کا حق استعمال کرسکتا ہے ۔جو شخص اپنی منکوحہ کو دو مرتبہ طلاق دے کر اس سے رجوع کر چکا ہو،وہ اپنی عمر میں جب کبھی اس کو تیسری بار طلاق دے گا، عورت اس سے مستقل طور پر جدا ہوجائے گی۔ طلاق کا صحیح طریقہ جو قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے،یہ ہے کہ عورت کو حالت طُہر میں ایک مرتبہ طلاق دی جائے ۔اگر جھگڑا ایسے زمانے میں ہوا ہو،جب کہ عورت ایام ماہواری میں ہو تو اسی وقت طلاق دے بیٹھنا درست نہیں، بلکہ ایام سے اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرنا چاہیے۔ پھر ایک طلاق دینے کے بعد اگر چاہے ،تو دوسرے طُہر میں دوبارہ ایک طلاق اور دے دے،ورنہ بہتر یہی ہے کہ پہلی ہی طلاق پر اکتفا کرے ۔اس صورت میں شوہرکو یہ حق حاصل رہتا ہے کہ عدت گزرنے سے پہلے پہلے جب چاہے رجوع کرلے، اور عدت گزر بھی جائے، تو دونوں کے لیے موقع باقی رہتا ہے کہ پھر باہمی رضا مندی سے دوبارہ نکاح کرلیں۔ لیکن تیسرے طُہر میں تیسری بار طلاق دینے کے بعد نہ تو شوہر کا حق باقی رہتا ہے اور نہ اس کا ہی کوئی موقع رہتا ہے کہ دونوں کا پھر نکاح ہو سکے ۔رہی یہ صورت کہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے ڈالی جائیں، تو یہ شریعت کی رُو سے سخت گناہ ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی مذمت فرمائی ہے۔ اور حضرت عمرؓ سے یہاں تک ثابت ہے کہ جو شخص بیک وقت اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیتا تھا ،آپ اس کو درے لگاتے تھے۔ تاہم گناہ ہونے کے باوجود اَئمہ اربعہ کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور طلاق مغلظ ہوجاتی ہے،یعنی مہر اور وہ زیور اور کپڑے وغیرہ جو شوہر بیوی کو دے چکا ہو، ان میں سے کوئی چیز واپس مانگنے کا اسے حق نہیں ہے۔ یہ بات ویسے بھی اسلام کے اخلاقی اصولوں کی ضد ہے کہ کوئی شخص کسی ایسی چیز کو ،جسے وہ دوسرے شخص کو ہبہ یا ہدیہ یا تحفہ کے طور پر دے چکا ہو،واپس مانگے۔ اس ذلیل حرکت کو حدیث میں اُس کتے کے فعل سے تشبیہ دی گئی ہے، جو اپنی ہی قے کو خود چاٹ لے۔ مگر خصوصیت کے ساتھ ایک شوہر کے لیے تو یہ بہت شرمناک ہے کہ وہ طلاق دے کر رخصت کرتے وقت اپنی بیوی سے وہ سب کچھ رکھوا لینا چاہے جو اس نے کبھی اسے خود دیا تھا ۔اس کے برعکس اسلام نے یہ اخلاق سکھائے ہیں کہ آدمی جس عورت کو طلاق دے، اسے رخصت کرتے وقت کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرے۔(تفہیم القرآن،اوّل، حاشیہ ۲۵۰-۲۵۱)

شادی کے موقعے پر عورت کو حق مہر ادا کیا جانا چاہیے جو کہ اس کی ملکیت ہوتی ہے ۔حق مہر میں نقدی بھی ہو سکتی ہے یا کچھ اور مثلاً زیور، طلائی چوڑیاں یا سونے کا سیٹ حق مہر میں لکھا ہے اور اس وقت دلہن کو پہنایا بھی جاتا ہے ۔مگر بعد میں چالاکی سے کچھ نہ کچھ کہہ کر واپس لے لیا جاتا ہے اور اکثر اوقات بعد میں آنے والی بہو کو بھی دیا جاتا ہے۔ حق مہر لینا تو غلط ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ تحفے تحائف جو دلہن کو دیئے جاتے ہیں ،ان کا ذکر کر رہے ہیں، مگر اب تحائف،  زیورات، کچھ جوڑے وغیرہ دے کر واپس لے لینا تو معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا۔ حالانکہ تحفہ دے کر واپس لینا بھلے وہ چھوٹا سا ہی ہو، بُرا عمل ہے۔ جوڑوں اور خاندانوں میں بے اعتمادی کا بیج ، انھی چھوٹی چھوٹی باتوں سے جڑ پکڑتا ہے۔پھر بعد میں ان باتوں اور دیگر مسائل سے اس کو پانی ملتا رہتا ہے اور آپس کے تعلقات کی خرابی کا درخت ایسا تناور ہو جاتا ہے ،جو شادی کے اس قیمتی رشتے کو لے ڈوبتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے یہاں آیت میں اس بات کی بھی وضاحت فرما دی کہ ایسی صورت میں اگر میاں بیوی کو خدشہ ہو کہ وہ حدودِ الٰہی پر قائم نہ رہیں گے ،تو اُن دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے۔

’’شریعت کی اصطلاح میں اسے’ خلع‘ کہتے ہیں ۔یعنی ایک عورت کا اپنے شوہر کو کچھ دے دلاکر اس سے طلاق حاصل کرنا۔ اس معاملے میں اگر عورت اور مرد کے درمیان گھر کے گھر میں کوئی معاملہ طے پا جائے، تو جو کچھ طے ہوا ہو، وہی نافذ ہوگا۔

لیکن اگر عدالت میں معاملہ آجائے تو عدالت اس امر کی تحقیق کرے گی کہ آیا فی الواقع یہ عورت اس مرد سے اس حد تک متنفر ہو چکی ہے کہ اس کے ساتھ اس کا نباہ نہیں ہوسکتا۔ اس کی تحقیق ہو جانے پر عدالت کو اختیار ہے کہ حالات کے لحاظ سے جو فدیہ چاہے، تجویزکرے۔ اس فدیے کو قبول کر کے شوہر کو اسے طلاق دینا ہو گی ۔بالعموم فقہا نے اس بات کو پسند نہیں کیا ہے کہ جو مال شوہر نے اس عورت کو دیا ہو، اس کی واپسی سے بڑھ کر کوئی فد یہ اسےدلوایا جائے۔

خلع کی صورت میں جو طلاق دی جاتی ہے، وہ رجعی نہیں ہے، بلکہ با ئنہ ہوتی ہے ۔چونکہ عورت نے معاوضہ دے کر اس طلاق کو گویا خریدا ہے ،اس لیے شوہر کو یہ حق باقی نہیں رہتا کہ اس طلاق سے رجوع کر سکے ۔البتہ اگر یہی مرد و عورت پھر ایک دوسرے سے راضی ہو جائیں اور دوبارہ نکاح کرنا چاہیں، تو ایسا کرنا ان کے لیے بالکل جائز ہے ۔جمہور علما کے نزدیک خلع کی عدت وہی ہے جو طلاق کی ہے‘‘۔(تفہیم القرآن،اوّل، حاشیہ ۲۵۲)

آج سے ۳۰ سال قبل ’خلع‘کی اصطلاح سے کم ہی لوگ واقف تھے ۔طلاق کا تو سن رکھا تھا مگر خلع کا نہیں۔ آج خلع کی اصطلاح اور عمل اتنا ہی عام ہے جتنا طلاق کا۔اس کے کئی عوامل ہیں جن پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ شوہر اور بیوی کے دل نہ ملنا ،مرد کا اپنے حلقۂ دوستی کو بہت وقت دینا ،مال خرچ کرنا ،سیروتفریح کے لیے جانا ،کھانوں پر بلانا ،باہر کھانے کھانا ، بیوی کو بے زار کر دینا اور نہ مرد کو اس میں کوئی عیب محسوس ہوتا ہے بلکہ اُلٹا وہ بیوی کے اس تعلق میں اعتدال کی خواہش کو اپنی آزادی میں رکاوٹ جانتے ہیں اورتعلقات خراب ہوتے جاتے ہیں۔

دوسری صورت یہ ہے کہ عورت کا اپنے میکے میں ہی مگن رہنا، اپنی ملازمت کو اعلیٰ طریقے سے نبھانے کے لیے وقت بے وقت میٹنگز ،فنکشنز ، ٹریننگز، اور دفتر کی طرف سے سیروتفریح کے لیے جانا وغیرہ مرد کو بے زار کر دیتا ہے۔ بیوی کو اپنے تئیں یہ بالکل ضروری وجائز لگتا ہے۔ شوہر کی طرف سے اس بیزاری کا ادنیٰ اظہار اور ردعمل، بیوی کو خلع کا راستہ دکھادیتا ہے۔سسرال والوں کے رویے ،جملے، حجت بازیاں بھی مسائل میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے مشترکہ خاندانی نظام میں بیٹے پڑھ لکھ جاتے ہیں ۔تنخواہ شروع ہوجاتی ہے یا کبھی ملازمت نہیں ہوتی تو ماں باپ بچوں کو اچھے کھاتے پیتے گھرانوں میں بیاہ دیتے ہیں۔ کُھلا کھانے ،خرچ کرنے والی لڑکی کے لیے یہاں مال کی تنگی بھی مشکل پیدا کرتی ہے، نتیجہ خلع!

ہم سب کے رویوں کی اصلاح( شوہر، بیوی، میکہ ،سسرال ،مشیر خصوصی حلقۂ دوست و احباب وغیرہ) جوڑے کو گھر بسانے میں مدد دے سکتا ہے ۔ لہٰذا ہمیں سوچ سمجھ کرد ار اداکرنا چاہیے۔

طلاق مغلظ

پھر اگر (دو بارہ طلاق دینے کے بعد شوہر نے عورت کو تیسری بار) طلاق دے دی، تو وہ عورت پھر اس کے لیے حلال نہ ہو گی، الّا یہ کہ اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے ہو اور وہ اسے طلاق دے دے۔ تب اگر پہلا شوہر اور یہ عورت دونوں یہ خیال کریں کہ حدودِالٰہی پر قائم رہیں گے، تو ان کے لیے ایک دوسرے کی طرف رجو ع کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، جنھیں وہ اُن لوگوں کی ہدایت کے لیے واضح کر رہا ہے، جو (اس کی حدوں کو توڑنے کا انجام) جانتے ہیں۔(البقرہ ۲:۲۳۰)

’’احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی مطلقہ بیوی کو اپنے لیے حلال کرنے کی خاطر کسی سے سازش کے طور پر اُس کا نکاح کرائے اور پہلے سے یہ طے کرے کہ وہ نکاح کے بعد اسے طلاق دے دے گا، تو یہ سراسر ایک ناجائز فعل ہے ۔ ایسا نکاح، نکاح نہ ہوگا بلکہ محض بدکاری ہوگی‘‘۔(تفہیم القرآن،اوّل، حاشیہ ۲۵۳)

روکنا یا رخصت کرنا

اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہونے کو آ جائے، تو یا بھلے طریقے سے انھیں روک لو یا بھلے طریقے سے رخصت کر دو محض ستانے کی خاطر انھیں نہ روکے رکھنا یہ زیادتی ہو گی اور جو ایسا کرے گا، وہ در حقیقت آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرے گا۔ اللہ کی آیات کا کھیل نہ بناؤ۔ بھول نہ جاؤ کہ اللہ نے کس نعمت عظمیٰ سے تمھیں سرفراز  کیا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے کہ جو کتاب اور حکمت اُس نے تم پر نازل کی ہے، اس کا احترام ملحوظ رکھو۔ اللہ سے ڈرو اور خوب جان لو کہ اللہ کو ہر بات کی خبر ہے۔(البقرہ ۲:۲۳۱)

یعنی رجوع کرو تو اس نیت سے کرو ،کہ آئندہ حسن سلوک کرنا ہے ۔اگر ایسا نہیں کرنا تو بہتر یہ ہے کہ شریفانہ طریقے سے طلاق دے دو۔(جاری)

قرآنِ عظیم کس انداز سے انسانوں کو خاندان کے ادارے میں جوڑتا اور اس ادارے کو انسانیت کے لیے کس انداز سے پروان چڑھاتا ہے؟ اس سوال کا جواب ہم یہاںقرآن کریم کے متن کی ترتیب سے یکجا پیش کریں گے۔

قرآن کے آغاز میں ہم نے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی چاہی: اے اللہ! تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ربّ جلیل نے قرآن کے تیس پارے نازل فرما دیئے۔ زندگی کے انفرادی، اجتماعی معاملات کے لیے ہدایات کھول کھول کر بار بار مختلف پیرایۂ بیان میں واضح کر دیں۔ عائلی نظام یا خاندان اور معاشرے کی اکائی کے لیے تفصیلات بھی سمجھا دیں۔

سورۂ بقرہ: پہلا جوڑا

زمین پر پہلا جوڑا اُتارنے سے پہلے اُن کو علم عطا کیا، فرشتوں سے سجدہ کروایا، شیطان کے بارے میں متنبہ فرمایا اور جنّت میں کھانے پینے، رہنے سہنے کا سامان دیا۔ مگر ساتھ ہی چند اُمور سے خاص طور پر منع کرکے، باقی سب سے فائدہ اُٹھانے کا اذنِ عام دے دیا۔ شیطان نے انسان کو بہکانے کے لیے مہلت لی اور بہکاکر جنّت سے نکلوا دیا اور یوں حضرت آدمؑ، اماں حواؑ اور شیطان زمین پر آن آباد ہوئے۔ حضرت آدم ؑ نے اپنی غلطی پر معافی مانگ لی،مگر شیطان غلطی پر ڈٹا رہا۔ یوں انسان اور شیطان کے طرزِعمل کا فرق ظاہر ہوا:

پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمھارے ربّ نے فرشتوں سے کہا تھا کہ ’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘۔ انھوں نے عرض کیا: ’’کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خوں ریزیاں کرے گا؟ آپ کی حمدوثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کی تقدیس تو ہم کرہی رہے ہیں‘‘۔ فرمایا: ’’میں جانتا ہوں، جو کچھ تم نہیں جانتے‘‘۔اس کے بعد اللہ نے آدم ؑ کو ساری چیزوں کے نام سکھائے۔ پھر انھیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: ’’اگر تمھارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا) تو ذرا ان چیزوں کے نام بتائو‘‘۔ انھوں نے عرض کیا: ’’نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے۔ حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا، آپ کے سوا کوئی نہیں‘‘.....

پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم ؑ کے آگے جھک جائو، تو سب جھک گئے مگر ابلیس نے انکار کیا۔ وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا۔

پھر ہم نے آدمؑ سے کہا کہ ’’تم اور تمھاری بیوی دونوں جنّت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھائو، مگر اِس درخت کا رُخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہوگے‘‘۔آخرکار شیطان نے اِن دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انھیں اس حالت سے نکلوا کر چھوڑا جس میں وہ تھے۔ ہم نے حکم دیا کہ ’’اب تم سب یہاں سے اُتر جائو، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمھیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھیرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے‘‘۔ اس وقت آدمؑ نے اپنے ربّ سے چندکلمات سیکھ کر توبہ کی،جس کو اس کے ربّ نے قبول کرلیا، کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔(البقرہ ۲:۳۰ تا ۳۷)

اللہ تعالیٰ نے بنی آدم ؑ ،یعنی انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر زمین پر بھیجا کہ وہ اِس دُنیا میں جس کا مالک وہ خود ہے، اس کے عطا کردہ اختیارات کو اس کے نائب کی حیثیت سے استعمال کرے۔ کائنات کا اصل حاکم اور مالک تو اللہ تعالیٰ ہے، جو غیب میں ہے۔ انسان کا خلیفہ ہونے کے ناتے کام یہ ہے کہ جو ہدایت اللہ کی طرف سے مل رہی ہے اس پر بے چون و چرا عمل کرے۔ اگر کسی معاملے میں کوئی واضح ہدایت نہیں ہے تو غوروفکر کرے، اور جو بات دین کے اصولوں سے مطابقت رکھتی ہو، وہ اختیار کرے۔ جن کاموں سے اللہ نے منع فرما دیا ہے اِن سے رُک جائے۔ یہی خلافت ہے۔

خاندان کے ادارے کے استحکام کے لیے بھی اپنی اِس ذمہ داری کو، انسان ہونے کے ناتے، ہم سب کو پورا کرنا ہے۔ سو اِس سے کماحقہٗ آگاہی حاصل کرنا، ناگزیر ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو چیزوں کے نام یعنی اِن کی حقیقت کا علم دے دیا۔ایک الہامی علم جو اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے بھیجتا ہے اور دوسرا اکتسابی علم جوا نسان خود حاصل کرتا ہے اور انسانی زندگی کے مختلف دائروں کہ جن میں ایک عائلی نظام یا خاندان اور معاشرہ ہے، ان پر عمل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار کی آزادی سے نوازا کہ کائنات کے اَن گنت وسائل اور جسمانی صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے،اللہ کی فرماں برداری کرے یا نافرمانی کرے اور پھر اس پر جزا یا سزا کا مستحق ٹھیرے، یہی اس کا امتحان ہے۔ اس امتحان کا لازمی اور اہم پرچہ خاندان میں ہمارا کردار ہے۔

والدین اور رشتہ دار

یاد کرو ، اسرائیل کی اولاد سے ہم نے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ، رشتہ داروں کے ساتھ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا، لوگوں سے بھلی بات کہنا، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃدینا، مگر تھوڑے آدمیوں کے سوا تم سب اس عہد سے پھر گئے، اور اب تک پھرے ہوئے ہو۔(البقرہ ۲: ۸۳)

پہلا جوڑا رشتۂ زوجیت میں منسلک ہوکر ماں اور باپ بن گیا۔ اس بنیادی اکائی میں بچوں کا اضافہ ہوا، پھر یہ سلسلہ آگے چلا اور نسب اور مہر کے حوالے سے نئی رشتہ داریاں وجود میں آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق کے فوراً بعد، والدین کے حقوق کا ذکر کیا ہے۔ ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا۔ نیک سلوک کیوں کریں، کون سا سلوک نیک سلوک ہے، اور کون سا سلوک درست نہیں ہے؟ اس کی تفصیل بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بتادی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ نے مزید تفصیلات اور عملی رہنمائی دی۔ اس کے ساتھ ہی رشتہ داریوں کے دائرے بنے، خاندان میں وسعت ہوئی، اللہ نے سب کے ساتھ اچھے سلوک کی ہدایت فرمائی۔

آزمایش

اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمھاری آزمایش کریں گے۔ اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں  اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘۔ انھیں خوش خبری دے دو۔ (البقرہ۲: ۱۵۵-۱۵۶)

اللہ تعالیٰ نے یہ دُنیا آزمائش گاہ بنائی ہے۔انسان اپنے بال بچوں کے ساتھ، والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ، دُنیا کے مال و اسباب کے ساتھ، خوشی خوشی زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے آزمائش کا موقع و حالات پیدا کرتا ہے۔ وہ مختلف قسم کے خوف، وبا، بیماری، بدامنی،موت، بے روزگاری، مہنگائی، کم آمدنی اور حادثاتی پریشانیوں، نقصانات سے پرکھتا ہے کہ میرے بندے کا کیا رویہ ہے؟ خود اپنی آزمائش اور خاندان کے دیگر افراد کی آزمائش پر کیا طرزِعمل ہوتا ہے؟ جو اس آزمائش کو اپنے ہاتھوں لائی ہوئی مصیبت سمجھے اور اس آزمایش کے ذریعے اللہ سے معافی چاہے، یا اللہ کی طرف سے اجر میں بڑھوتری کے لیے موقع جانے اور رویہ یہ رکھے کہ ہم اللہ کے ہیں، اس کی رضا پر راضی ہیں اور اس کی طرف ہمیں واپس جانا ہے۔ وہ انصاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ اللہ اس سے بہتر معاملہ کرے گا، اجر سے نوازے گا۔یہ وہ لوگ ہیں جو سکینتِ قلب کے ساتھ، کامل رضامندی کے ساتھ، ربّ کی بتائی ہوئی حدود میں زندگی گزارتے اور اجر کے مستحق قرار پاتے ہیں، جب کہ ناشکری اور جزع و فزع اللہ کی ناراضی کا سبب بنے گی۔

خاندان کے لیـے قوانین اور نکاح کے لیے انتخاب

تم مشرک عورتوں سے ہرگز نکاح نہ کرنا، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن لونڈی مشرک شریف زادی سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تمھیں بہت پسندہو۔ اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا، جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن غلام، مشرک شریف سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمھیں بہت پسند ہو۔ یہ لوگ تمھیں آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے اذن سے تم کو جنّت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور وہ اپنے احکام واضح طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ سبق لیں گے اور نصیحت قبول کریں گے۔(البقرہ ۲: ۲۲۱)

عورت اور مرد کے درمیان نکاح کا تعلق محض ایک شہوانی تعلق نہیں ہے، بلکہ وہ ایک گہرا تمدنی، اخلاقی اور قلبی تعلق ہے۔ مومن اور مشرک کے درمیان، اگر یہ قلبی تعلق ہو، تو جہاں اس امر کا امکان ہے کہ مومن شوہر یا بیوی کے اثر سے مشرک شوہر یا بیوی پر اور اس کے خاندان اور آیندہ نسل پر اسلام کے عقائد اور طرزِ زندگی کا نقش ثبت ہوگا، وہیں اس امر کا بھی امکان ہے کہ مشرک شوہر یا بیوی کے خیالات اور طور طریقوں سے نہ صرف مومن شوہر یا بیوی بلکہ اس کا خاندان اور دونوں کی نسل تک متاثر ہوجائے گی اور غالب امکان اس امر کا ہے کہ ایسے اَزواج سے اسلام اور کفرو شرک کی ایک ایسی معجون مرکب اُس گھر اور اُس خاندان میں پرورش پائے گی، جس کو غیرمسلم خواہ کتنا ہی پسند کریں، مگر اسلام پسند کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔(تفہیم القرآن، اوّل، سورئہ بقرہ، حاشیہ۲۳۷)

آج ملک میں، اور بیرونِ ملک، اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ اوربہترین معاشی و سائل کے لیے سرگرداں، ہماری نوجوان نسل کو براہِ راست قرآن پاک سے استفادے کا موقع ملتا ہے، الاماشاء اللہ۔ تاہم، مل جل کر رہنا، دین کو ذاتی معاملہ بنا کر، اس کی بنیادی تعلیمات کو بھی غور کے قابل نہیں سمجھنا، اس دور کا المیہ ہے۔ جہالت اور احساسِ کمتری کے ساتھ، مغرب کے اُٹھائے گئے سوالات، بین المذاہب ہم آہنگی کے عنوان سے کی جانے والی بحثیں اور ان موضوعات کو ’مولوی کی سختی و تنگ نظری‘ کہہ کر آگے بڑھ جانا، موجودہ جدیدیت کا تقاضا بن گیا ہے۔ ہمارے اکثر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، اس جدیدیت پر عمل پیرا ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ان کی توجہ ، اصل ماخذ، قرآن حکیم کی طرف مبذول کروائی جائے اور دین کے احکامات کا علم اور اس پر عمل کرنے کا داعیہ پیدا کیا جائے۔

حیض کا حکم

پوچھتے ہیں: حیض کا کیا حکم ہے؟ کہو: وہ ایک گندگی کی حالت ہے، اس میں عورتوں سے الگ رہو، اور ان کے قریب نہ جائوجب تک کہ وہ پاک صاف نہ ہوجائیں۔ پھر جب وہ پاک ہوجائیں، تو اُن کے پاس جائواُس طرح جیساکہ اللہ نے تم کو حکم دیا ہے۔ اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے، جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں۔(البقرہ ۲:۲۲۲)

حیض گندگی بھی ہے اور بیماری بھی۔ طبّی حیثیت سے وہ ایک ایسی حالت ہے جس میں عورت تندرستی کی بہ نسبت بیماری سے قریب تر ہوتی ہے۔(ایضاً، اوّل، سورئہ بقرہ، حاشیہ ۲۳۸)

مختلف ہارمونز جو کہ ایک عورت کے جسم میں گردش کرتے ہیں، ان کے اُتارچڑھائو سے یہ تبدیلی آتی ہے اور ظاہر ہوتی ہے۔ یہ نہ صرف جسمانی بلکہ نفسیاتی بھی ہوتی ہے، بالعموم عورت چڑچڑی اور مایوسی کی طرف مائل ہوتی ہے۔ تھکاوٹ اور اکثر اوقات درد کی شدت کا شکار بھی ہوتی ہے۔

قرآن، ان کے قریب نہ جائو، الگ رہو، استعاروں اور کنایوں میں بیان کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرما دی کہ صرف مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیے مگر باقی تمام تعلقات برقرار رکھے جائیں۔ عورت کواچھوت نہ بنا دیا جائے جیساکہ یہود و ہنود اور بعض دوسری قوموں کا دستور ہے۔(ایضاً، سورئہ بقرہ، حاشیہ ۲۳۹)

قرآن کے اِن واضح اور صاف صاف بیان کیے گئے احکامِ دین میں تنگی نہیں ہے:

تمھاری عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں۔ تمھیں اختیار ہے، جس طرح چاہو اپنی کھیتی میں جائو، مگر اپنے مستقبل کی فکر کرو اور اللہ کی ناراضی سے بچو۔ خوب جان لو کہ تمھیں ایک دن اس سے ملنا ہے۔ اور اے نبیؐ! جو تمھاری ہدایات کو مان لیں انھیں (فلاح و سعادت کی) خوش خبری دے دو۔(البقرہ ۲:۲۲۳)

فطرۃ اللہ نے عورتوں کو مردوں کے لیے سیرگاہ نہیں بنایا ہے، بلکہ دونوں کے درمیان کھیت اور کسان کا سا تعلق ہے۔ کھیت میں کسان تفریح کے لیے نہیں جاتا، بلکہ اس لیے جاتا ہے کہ اس سے پیداوار حاصل کرے… خدا کی شریعت کا مطالبہ تم سے یہ ہے کہ جائو کھیت ہی میں،اور اس غرض کے لیے جائو کہ اس سے پیداوار حاصل کرنی ہے۔

’اپنے مستقبل کی فکر کرو‘کے دو مطلب نکلتے ہیں: ’’ایک یہ کہ اپنی نسل برقرار رکھنے کی کوشش کرو، اور دوسرے یہ کہ جس آنے والی نسل کو تم اپنی جگہ چھوڑنے والے ہو، اس کو دین، اخلاق اور آدمیت کے جوہروں سے آراستہ کرنے کی کوشش کرو۔ پھر یہ تنبیہہ بھی فرما دی کہ اگر ان دونوں فرائض کے ادا کرنے میں تم نے قصداً کوتاہی کی، تو اللہ تم سے بازپُرس کرے گا‘‘(ایضاً، سورئہ بقرہ، حاشیہ ۲۴۱-۲۴۲)۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے شوہر اور بیوی کے فطری تعلق کو ، دُنیاداری نہیں دین داری بنایا، اس کے لیے مقصد اور حدود مقرر کردیں اور اِن سے لاپروائی برتنے کو اللہ کی ناراضی کا سبب بنادیا۔ اس رشتے اور تعلق کو نبھانے کی بنیاد تقویٰ پر رکھ دی۔

ایلا - میاں بیوی کی قطع تعلقی

جو لوگ اپنی عورتوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھابیٹھتے ہیں، ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے۔ اگر انھوں نے رجوع کرلیا، تو اللہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ اور اگر انھوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی ہو، تو جانے رہیں کہ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔(البقرہ ۲: ۲۲۶-۲۲۷)

میاں بیوی کے درمیان قطع تعلقی کو شریعت کی اصطلاح میں ’ایلا ‘کہتے ہیں۔ میاں اور بیوی کے درمیان تعلقات میں اُتارچڑھائو آتا رہتا ہے۔ بگاڑ کے اسباب پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں۔ لیکن ایسے فطری اُتارچڑھائو کے نتیجے میں بڑے بگاڑ کو خدا کی شریعت پسند نہیں کرتی کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ قانونی طور پر تو رشتۂ ازدواج میں بندھے رہیں، مگر عملاً ایک دوسرے سے الگ رہیں۔ ایسے بگاڑ کے لیے اللہ تعالیٰ نے چارماہ کی مدت مقرر کر دی کہ یا تو اس دوران میں اپنے تعلقات درست کرلو، ورنہ اَزدواج کا رشتہ منقطع کردو۔(ایضاً، سورئہ بقرہ، حاشیہ ۲۴۵)

یہ حقیقت ہے کہ بیش تر میاں بیوی میں اَن بن ہوجاتی ہے، رنجشیں پیدا ہوتی ہیں مگر چند ہی روز میں صلح صفائی ہوجاتی ہے اور زندگی خوش گوار اسلوب میں گزرتی رہتی ہے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے بعد جھگڑا بڑھ جاتا ہے اور شوہر کچھ اس مفہوم کے کلمات کہہ دیتا ہے، یا بیوی ہی ایسی ناراض ہوجاتی ہے کہ وہ میکے آکر بیٹھ جاتی ہے۔ میکے آنا اور رہنا والدین کے علم اور رضا کے ساتھ ہی ہوتا ہے مگرعموماً واپس جانے ، صلح کرنے یا حتمی فیصلہ کرنے کے لیے کسی مدت کا لحاظ نہیں کیا جاتا۔ مہینے تو کیا سال بھی گزر جاتے ہیں۔ تعلقات اس مدت میں سدھرتے کم اور بگڑتے زیادہ ہیں۔ عموماً ایک دوسرے کو بدنام، بلیک میل کرنے، تنگ کرنے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ اسلام کا اصول ہے کہ جلدبازی میں فیصلے نہ کرو۔ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو۔ تعلق نبھانا ہے تو بھی اور ختم کرنا ہے تو بھی، دونوں صورتوں کے تمام پہلوئوں پر غور کرنے کے بعد، اس چارماہ کی مدت میں حتمی فیصلہ نہ کرنا سب خرابیوں، افراد اور خاندانوں کے تعلقات میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میںچار ماہ میں فیصلہ کرکے ، معاملہ نبٹا دینا ہی شریعت کے منشا کے قریب تر ہے۔(جاری)

’’خدا جانے میں نے ایسی کون سی خطا کی تھی جو تم جیسی نالائق اولاد سے مجھے نوازا‘‘۔

’’میری ساری اولاد نالائق نکل گئی‘‘۔

’’مجھ سے دوبارہ اس طرح بات مت کرنا، ورنہ تمھاری زبان کھینچ لوں گا‘‘۔

’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ جب تک معاف نہ کر دوں، تم جہنم میں رہوگے‘‘۔

یہ چند ایسے جملے ہیں، جو اکثر ہمارے آس پاس بدسلوکی کے شکار اور نظرانداز کیے جانے والے بچے اپنے والدین یا بزرگوں سے سنتے رہتے ہیں۔ زبانی بدسلوکی یا جسمانی تشدد، اکثر اوقات نادانستہ طور پر سرزد ہو جاتا ہے اور ہمیں اس کے خطرناک اثرات کا علم تک نہیں ہوتا۔

بچوں کے ساتھ بدسلوکی کو نظرانداز کرنے کے دُور رس اثرات ہوتے ہیں۔ ایسی بدسلوکی کا شکار شخص جوانی بلکہ بڑھاپے تک اس کے اثر سے نہیں نکلتا، اور نتیجے کے طور پر زندگی بھر دوسرے انسانوں کو جلاتا، گھلاتا اور تباہ کرتا رہتا ہے۔ ایسا رویہ اگر مذہبی گھرانے یا افراد کے ہاں پایا جائے تو متاثرہ بچہ، خود اسلام سے بے زار ہوسکتا ہے،اور بہت سی صورتوں میں ایسا دیکھا گیا ہے۔

اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں والدین یا خاندان کے بزرگوں کی طرف سے بچوں کے ساتھ بدسلوکی، بد تمیزی اور تشدد کو جائزبلکہ ان کی تربیت کے لیے ایک مناسب عمل تصور کیا جاتاہے، حالانکہ یہ ہمارے معاشرے کا ایک ایسا روگ ہے جو مستقل ہمارے گھر اور خاندان کو تباہ کر رہا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں۔

والدین کے ساتھ ساتھ دیگر رشتہ داروں کی جانب سے بھی کئی مرتبہ اس قسم کا رویہ روا رکھا جاتا ہے، مگر خاندان کی عزت کے نام پر ہم خاموش رہتے ہیں اور اس کا نوٹس تک نہیں لیتے۔ یقین جانیے اس طرح کے ظلم اور اذیت کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جو بچے کو اس کی بڑھتی عمر کے دوران منفی طور پر متاثر کر سکتے ہیں، جس کے اثرات اس کی ذہنی یا جسمانی صحت پر بھی پڑسکتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں تو خیر اسے کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھا جاتا، لیکن مغرب میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے چند طویل مدتی مطالعات کیے گئے ہیں،جن میں سے چند ایک کے نتائج کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے:دماغی نشوونما میں خرابی، زبان میں بگاڑ اور تعلیمی معذوری کا باعث بننا، خراب جسمانی صحت جیسے دل کی بیماری، ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس جیسی سنگین بیماریوں کا شکار ہونا۔ نفسیاتی مرض، کمزور اعصاب اور سماجی مشکلات کا پیدا ہونا۔ ڈیپریشن یا مسلسل مایوسی کا شکار ہونا، بے چین رہنا ، کسی لت میں پڑ جانا وغیرہ۔اسی طرح جنسی بے راہ روی، منشیات، شراب نوشی اور دوسروں کے ساتھ بدسلوکی جیسے مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ اپنے والدین یا خاندان کے دیگر افراد کی طرف سے بدسلوکی کے بعد ان بچوں کا اپنے بزرگوں کے ساتھ جو رشتہ ہوتا ہے وہ بھی کمزور ہوتا ہے، یا ٹوٹ جاتا ہے، اور بعض صورتوں میں تو اعتماد بحال کرنا ایک ناممکن کام بن جاتا ہے۔

ہارورڈ یونی ورسٹی کے مجلّے The Harvard Gazettte (اپریل ۲۰۲۱ء) کے مطابق سماجی علوم کی ماہر ڈاکٹر کیٹی مک لافلن (Katie McLaughln)اور جان لوئب (John Loeb) نے اپنی رپورٹ How Spanking may Affect Brain Development in Children? میں کہا ہے کہ تھپڑ مارنے اور جسمانی تشدد سے بچوں کی دماغی نشوونما کو عین اسی طرح نقصان ہوتا ہے جس طرح شدید تشدد میں ہوتا ہے۔ اس سے بچوں کی دماغی صحت متاثر ہوسکتی ہے۔  علاوہ ازیں دماغ کے وہ حصے بھی متاثر ہوتے ہیں جو فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اگرچہ یہ مطالعہ مختصر ہے، لیکن اس میں تین سے گیارہ برس کے ۱۴۷ ؍ایسے بچوں کا انتخاب کیا گیا، جو اسکول یا گھر میں مار کے شکار ہورہے تھے۔ ایسے بچوں کے ایک دماغی گوشے پری فرنٹل کارٹیکس (PFC) کی سرگرمی متاثر ہوتی ہے۔ بچوں پر تشدد سے ان کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ بچوں کی پٹائی دائمی ڈپریشن، اداسی اور بے چینی کی وجہ بنتی ہے۔

اسلام میں والدین کو بہت اعلیٰ مقام حاصل ہے ۔ والدین کی عزت و تکریم کانہ صرف حکم دیا گیاہے بلکہ انھیں اُف تک نہ کرنے کو کہا گیا ہے ۔ تاہم، اس احترام کے نام پر خود والدین کو بچوں کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔جہاں قرآن میں والدین کے حقوق کا تذکرہ کیا گیا، اسی طرح انصاف اور عدل کو بھی قائم کرنے کے لیے کہا گیا ہے، چاہے کسی کو اپنے والدین یا رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ بولنا پڑے۔ فرمایا:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاۗءَ لِلہِ وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَوِالْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ۝۰ۚ اِنْ يَّكُنْ غَنِيًّا اَوْ فَقِيْرًا فَاللہُ اَوْلٰى بِہِمَا۝۰ۣ فَلَا تَتَّبِعُوا الْہَوٰٓى اَنْ تَعْدِلُوْا۝۰ۚ وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللہَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا۝۱۳۵ (النساء ۴:۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زَد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب ، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگرتم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اتَّقُوْا اللّهَ  وَاعْدِلُوْا  بَیْنَ أَوْلَادِكُمْ (صحیح بخاری) ’’اللہ سے ڈرو،اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو‘‘۔ ایک اور روایت کے الفاظ یوں ہیں: فَلَا تَشْہدنی اِذَا فَاِنِّی لَا اشھد عَلٰی جور (صحیح بخاری ، صحیح مسلم) ’’تب مجھے گواہ مت بناؤ،میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا‘‘۔

یہاں پر ہم کچھ اپنے معاشرے سے مثالیں پیش کرتے ہیں، جن میں دیکھیں گے کہ والدین یا سرپرستوں کی جانب سے بچوں کے ساتھ اس قسم کا رویہ اپنایا گیا تو ان کے ساتھ کیا ہوا؟ ان براہِ راست مکالموں کی رپورٹنگ میں احتیاط کی خاطر شناخت ظاہر نہیں کر رہے۔

  • میرے والد نشے کے عادی ہیں۔انھوں نے ماضی میں اپنے والدین کے رویے کی وجہ سے بڑے ہوکر لوگوں کو دھوکا دیا،چوری کی اور ہر وہ غلط کام کیا جو وہ کر سکتے تھے۔ وہ مجھے اور میرے بہن بھائیوں کو مجبور کرتے ہیں کہ ہم انھیں بڑی رقم دیں، خاص طور پر جب ہمیں اپنی یونی ورسٹی سے وظیفہ ملتا ہے کہ وہ رقم انھیں دی جائے۔ ایک بار یوں ہوا کہ میں نے اپنی والدہ کو اس رقم کے بارے میں بتایا جو میں نے انھیں دی تھی۔ اس پر گھر میں قیامت برپا ہوگئی، غصے میں انھوں نے اماں کو طلاق دے دی اور آج بھی میرے والد مجھ پر ان سے طلاق کا الزام لگاتے ہیں۔

جب مجھے ان کے نشے کی لت کے بارے میں پتہ چلا تو میں نے انھیں سنبھالنے اور علاج کی کوشش کی۔ مگر اُن کا واحد مطالبہ پیسے ہیں، تاکہ وہ مرضی سے نشہ خریدیں۔ چونکہ یہ کام مجھ سے اُن کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتاتو وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ ’’میں تم سے خوش نہیں ہوں۔ اس لیے تم کبھی جنت کی خوشبو نہیں سونگھ سکو گے‘‘۔

کئی مرتبہ مجھ پر شدید نفسیاتی حملہ ہوا۔ ایک مرتبہ تو مجھے یقین ہو گیا کہ میرے والد نے جو کہا تھا وہ سچ تھا۔ میں نے اس وقت یہاں تک سوچا کہ خود کشی کرلوں اور اپنے آس پاس کے لوگوں پر بوجھ نہ بنوں۔ اب بھی صرف ایک ہی بار ان کی آواز سنتا ہوں جب انھیں پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اُن کی اس قابلِ رحم اور دوسروں کے نزدیک شاید قابلِ نفرت حالت کے پیچھے، میرے دادا کے ہاتھوں اُن پر بچپن کا تشدد اور تذلیل ہے، جس نے اُن کی شخصیت مسخ کرکے رکھ دی۔

  • ایک اور نوجوان کا کہنا تھاکہ ’’ماں باپ سے اولاد کے تعلق کے بارے میں کچھ بولنے یا بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارا پورا وجود والدین کے لیے سپاس گزاری کا تقاضا کرتا ہے۔ ہم میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جن کے دل اپنے بچپن کی نسبت سے، اپنے باپ کی طرف سے میلے اور دُکھی رہتے ہیں۔ اس کی ایک ہزار وجوہ ہو سکتی ہیں۔ اگر میں اپنی ماں کے ساتھ کسی کو بدتمیزی کرتے ہوئے مسلسل دیکھوں گا، اپنے یا اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ گالم گلوچ کرتے دیکھوں گا تو میرا دل اس شخص کے لیے کیسے نرم اورگداز ہوسکتا ہے؟ بھلے رشتے میں وہ میرا باپ ہی کیوں نہ ہو۔کیا کسی کے لیے ممکن ہے کہ وہ اپنی ماں کی سسکیاں، اس کی تذلیل، چہرے پر طمانچے سے پڑے نیل یا پھر کھانے میں معمولی نمک کی کمی پر پلیٹ اٹھا کر پھینک دینے اور گالم گلوچ کی اذیت کو بھول جائے؟ یا معمولی معمولی بات پر بہن بھائیوں کو تھپڑ جڑتے اور گالیاں اور طعنے سنتے دیکھے!

ہم سب کے حافظے میں ایسے واقعات یا اس سے ملتی جلتی وارداتیں محفوظ ہوتی ہیں۔ جس وقت ہماری ماں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہوتی ہے، اس وقت ہم اس لائق تو نہیں ہوتے کہ باپ کا ہاتھ پکڑ لیں، لیکن دل میں گانٹھ تو پڑ ہی جاتی ہے۔ اس کے بعد اگر کبھی ہم ابا جان پر جاں نثار ہونے کا مظاہرہ کریں تو اس حرکت کو کیا کہا جائے گا؟ منافقت؟ کیونکہ ہمارے دل میں والد کے لیے فطری احترام کا جذبہ ختم ہوچکا ہوتا ہے،اور تشدد نے اپنا زہر ہمارے وجود میں اُنڈیل دیا ہوتا ہے۔

ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں ان نصیحتوں کا تو انبار ہے کہ باپ کے سامنے اف تک نہ کرو، باپ کی فلاں فضیلت ہے، وہ اگر ہڈیاں بھی توڑ دے تو یہ اس کا حق ہے، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ یہی ناصحین اس پہلو سے تقریباً نہ ہونے کے برابر گفتگو کرتے ہیں کہ اولاد کا باپ پر کیا حق ہے؟ اب تک تو یہی بتانے پر زور ہے کہ سارے حقوق و فضائل باپ کے ہیں، ساری تعلیمات کا زور اولاد کو یہ باور کرانے پر ہے کہ انھیں کیا کرنا ہے؟ مگر باپ ہونے کے ناتے اولاد کے لیے اس کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کراتے رہنے کو شاید فضول جانتے ہیں!

اس طرح کی ہزاروں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ کیا اس کے ذمہ دار محض بچے یا اولاد ہیں یا مساوی طور پر وہ والدین ہیں جنھوں نے اپنی اولاد کو مستقل اذیت دے کر ان کی زندگیوں کو تباہ و برباد کیا ہے؟ اس حوالے سے ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم غیرشعوری طور پر اپنی اولاد کی نظروں میں ایک وِلن اور ناپسندیدہ انسان تو نہیں بن رہے ہیں؟

اس بابت جمعے کے خطبات اور دیگر ذرائع سے بھی لوگوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم والدین کے حقوق کے بارے میں تو ہر جگہ سنتے ہیں، لیکن بچوں کے حقوق اور عزّتِ نفس کے حوالے سے عموماً خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ ایک صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے ہمیں اس رویے کو نہ صرف ختم کرنا ہوگا بلکہ ایسے والدین اور سرپرستوں کو عظیم نقصان سے خبردار کرنا چاہیے۔ نیز نبی اکرمؐ جس شفقت سے بچوں سے پیش آتے تھے اس اسوئہ حسنہ کو بھی پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلام نے بہتر معاشرے کے قیام پر زور دیا ہے اور یہ معاشرہ اسی وقت ممکن ہے جب سب کے حقوق کا تحفظ ہو۔یہ بات ہمیں بچپن ہی سے بتائی جاتی ہے کہ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے پیار اسلامی تعلیمات کا اہم حصہ ہے ۔بدقسمتی سے بڑوں کے ادب کا خیال تو رہتا ہے مگر بچے پیار سے محروم رہ جاتے ہیں !

یہ سوال کہ ’’کیا اللہ تعالیٰ کے لیے ’عاشق‘ یا ’معشوق‘ یا ’مشوق‘ کے کلمات استعمال کرناجائز ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہارِ محبت کے لیے عشقِ رسول کا لفظ استعمال کرنا یایہ کہنا کہ ’’فلاں عاشقِ رسول ہے یا میں عاشقِ رسول ہوں‘‘،شرعاً جائز ہے ،نیزکیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معشوق کہنا جائز ہے؟ ہم عشق حقیقی اور عشق مَجازی کے الفاظ سنتے رہے ہیں، کیا ان میں کوئی معنوی فرق ہے ،نیزنعت یا سلام میں یہ شعر پڑھناکیسا ہے:’’امتی کیا،خود خدا شیدا ہے تمھارا؟‘‘

سب سے پہلے عشق کے معنی بیان کیے جاتے ہیں، اَلْمُعْجَمُ الْوَسِیْط کے مطابق: ’عشق‘ کے لغوی معنٰی ہیں:’’ بہت شدت سے محبت کرنا،کسی شئے کے ساتھ دل کا وابستہ ہو جانا ،چمٹ جانا‘‘۔  مِصْبَاحُ الْمُنِیْر میں ہے:’’ محبت میں اِفراط (یعنی حد سے تجاوز یا انتہائی درجے کی محبت) کو ’عشق‘ کہتے ہیں، اَلْمُنْجِد میں ہے : ’’بہت زیادہ محبت کرنا ،محبت میں حد سے بڑھ جانا،عَشِقَ بِالشَیٔ ِ : چمٹنا،العِشْقُ : محبت کی زیادتی،اس کا اطلاق پارسائی اور غیرپارسائی دونوں اعتبار سے ہوتاہے‘‘۔

ہندی میں ’عشق پیچاں‘ ایک بیل کو کہتے ہیں، اردو زبان میں اسے’آکاس بیل‘ کہتے ہیں، یہ درخت سے لپٹ جاتی ہے اور اس کو برگ و بار یعنی شاخوں، پتوں اور پھولوں سے محروم کردیتی ہے، پھر وہ زرد ہوجاتا ہے اور کچھ دنوں کے بعد خشک ہو جاتا ہے۔

پس جب ’عشق‘ قلبِ عاشق پہ چھا جاتا ہے تو اس کو زرد رُو اور لاغَر بدن بنادیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے عاشق ، معشوق اور مشوق کے کلمات استعمال کرنا شریعت کی رُو سے درست نہیں۔ شاقَ یَشُوْقُ شَوْقًا کے معنی ہیں:’’شوق دلانا‘‘، اس کی صفتِ مفعولی مشوق ہے۔ شَوقْ کے معنی ہیں:’’سخت خواہش، بڑی آرزو‘‘۔بعض فقہا وعلما نے اسے ’بدعت‘ کہاہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے ایسے کلمات استعمال کرنے والے کو بدعتی قرار دیا گیا ہے ،البتہ اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی، بعض علماء نے کہا ہے: ’ایسے شخص کو سزا دی جائے گی ‘۔

       اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آداب میںسے ایک یہ ہے :’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صریح اہانت کا کلمہ تو درکنار ، ایسا ذومعنی کلمہ بھی استعمال کرنا جائز نہیں ، جس کا ایک معنی تعظیم کا ہو اوربولنے والے کی نیت بھی تعظیم کی ہو ،لیکن اس کے ایک دور کے معنی اہانت کے بھی نکل سکتے ہوں ،کیونکہ کوئی بدنیت اور بدعقیدہ شخص ایسے کلمات بول کر اہانت کا معانی مراد لے سکتا ہے‘‘۔

       جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابۂ کرامؓ کے ساتھ مجلس منعقد ہوتی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ مبارکہ کا سلسلہ جاری ہوتا اور کوئی بات کسی صحابی کی سمجھ میں نہ آتی ،تو وہ عرض کرتے:  راعِنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ‘‘،’’یعنی اے اللہ کے رسولؐ! ہماری رعایت فرمایئے ، ہماری طرف توجہ فرمایئے ، اپنی بات مکرر ارشاد فرمایئے‘‘۔صحابۂ کرام رضوان اللہ اجمعین کی نیت درست ہوتی تھی ، لیکن بعض منافقین اوریہود بدنیتی سے اس لفظ کو اِمالہ(Tilt) کرکے رَاعِیْنَا  کہتے اورباہر آکر اپنی مجلسوں میں اس کا مذاق لیتے کہ ہم نے انھیں بنادیا،کیونکہ رَاعِیْنَا کے معنی ہیں: ’ہمارا چرواہا‘ اور بعض اسے ’رَعْن‘ سے لیتے اوررعونت کے معنی ہیں:’’بے وقوف ہونا‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ذومعنی لفظ کے استعمال سے منع فرمادیا اور تنبیہہ فرمائی کہ پہلی مرتبہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات غورسے سن لیاکرو، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ زحمت دینے کی نوبت ہی نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُولُوْا انظُرْنَا وَاسْمَعُوْا (البقرہ ۲:۱۴۰)’’اے ایمان والو!راعِنَا ‘‘نہ کہا کرو،بلکہ انظُرْنَا   (ہماری طرف توجہ فرمایئے!) کہاکرو اور (بہتریہ ہے کہ پہلے ہی ) توجہ سے سن لیا کرو‘‘۔ ذومعنی لفظ کو ہم انگریزی میں Ambigous سے تعبیر کرسکتے ہیں،لغت میں اس کے معنی ہیں:’’ایسا لفظ جس کے ممکنہ طور پر ایک سے زائد معانی ہوں، اس سے بعض صورتوں میں ابہام بھی پیدا ہوتا ہے‘‘۔

       نیز فرمایا: مِنَ الَّذِيْنَ ھَادُوْا يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَيَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَّرَاعِنَا لَيًّۢا بِاَلْسِنَتِہِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّيْنِ۝۰ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ وَاَقْوَمَ۝۰ۙ وَلٰكِنْ لَّعَنَھُمُ اللہُ بِكُفْرِہِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا۝۴۶ (النسآء۴:۴۶) ’’یہودیوں میں سے کچھ لوگ اللہ کے کلمات کو ان کی جگہوں سے پھیردیتے ہیں اورکہتے ہیں : ہم نے سنا اورنافرمانی کی (اور آپ سے کہتے ہیں:) سنیے آپ نہ سنائے گئے ہوں اوراپنی زبانیں مروڑ کر دین میں طعن کرتے ہوئے ’رَاعِنَا‘ کہتے ہیں اور اگر وہ کہتے : ہم نے سنا اورہم نے اطاعت کی اورآپ ہماری بات سنیں اورہم پر نظرِ کرم فرمائیں تویہ   اُن کے لیے بہتر اور درست ہوتا ، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کے سبب اُن پر لعنت فرمائی ہے، سوان میں سے کم لوگ ہی ایمان لائیں گے‘‘۔

قرآن کریم اور اَحادیثِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولؐ کے لیے ’حُبّ‘ کا کلمہ آیا ہے، اُس کی انتہا کو ’اَشَدَّ‘ سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَہُمْ كَحُبِّ اللہِ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا  لِّلہِ۝۰ۭ(البقرہ۲:۱۶۵)،’’بعض لوگ اللہ کے غیرکو اللہ کا شریک قرار دیتے ہیں اوراُن سے اللہ جیسی محبت کرتے ہیںاور جو لوگ ایمان لاچکے ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرنے والے ہیں‘‘۔

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی لکھتے ہیں: ’’بعض اولیائے کرام اور بعض متقدمین نے اللہ تعالیٰ سے اظہارِ محبت کے لیے لفظ معشوق اور مَشُوق استعمال کیا ہے، مگر اہل علم نے دو وجہ سے اسے ناپسند کیا ہے: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے مبارکہ توقیفی ہیں (یعنی نقل وسماع پر موقوف ہیں، عقل پر موقوف نہیں ہیں) اور دوم یہ کہ اس کا اطلاق جسمانی لذتوں میں (زیادہ) متعارف ہے، (تفسیر امام راغب اصفہانی،ج۱، ص ۴۹)‘‘۔علامہ ابن قیم لکھتے ہیں:’’ اہل علم نے اس میں اختلاف کیاہے کہ آیا یہ کلمہ (عاشق یا معشوق) اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے بولاجاسکتا ہے ،صوفیا کی ایک جماعت نے کہاہے: اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور انھوں نے اس بابت اثر نقل کیاہے، لیکن ایسا اثر کہیں ثابت نہیں ہے اور اُسی میں ہے :عشق کرنے والا کہے گا:’’ اس نے مجھ سے عشق کیایا میں نے اس سے عشق کیا‘‘اور جمہور علماء نے کہا : یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں نہیں بولا جائے گا ،پس یہ نہیں کہاجائے گا : ’’وہ (فلاں ) سے عشق فرماتا ہے ‘‘ اوریہ بھی نہیں کہاجائے گا : ’’اُس کے بندے نے اُس سے عشق کیا‘‘،محدثین کی اصطلاح میں ’’اثر‘‘قولِ صحابی کو کہتے ہیں۔

قرآن کریم میںاللہ تعالیٰ سے محبت کے حوالے سے البقرہ: ۱۶۵، ۱۹۵، ۲۲۲، آل عمران: ۳۱، ۷۶، ۱۳۴، ۱۴۶، ۱۵۹، توبہ: ۲۴ اور دیگر مقامات پر  أَحَبّ ، یُحِبُّ ، یُحِبُّونَ ، حُبّا  کے الفاظ آئے ہیں، نیز حدیثِ پاک میں ہے :’’ جومیری رضا کے لیے آپس میں محبت کریں، باہم مل بیٹھیں، ایک دوسرے سے ملاقات کریں اور ایک دوسرے پر مال خرچ کریں ،ان کی محبت میرے  ذمۂ کرم پر ہے ،(مسند احمد :۲۲۰۳۰)‘‘، بندوں پر اللہ تعالیٰ کے جو حقوق واجب ہیں، بندہ اُن کا حق ادا نہیں کرسکتا،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللہِ لَا تُحْصُوْہَا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۸ (النحل۱۶:۱۸) ’’اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گننے لگو تو تم اُن کاشمار نہ کر پائو گے، بے شک اللہ بہت بخشنے والا،نہایت مہربان ہے ‘‘۔ حدیث پاک میں ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ ! میں تیری ثناکا احاطہ نہیں کرسکتا ، تیری کمالِ ثنا وہی ہے جو تونے خود اپنی ذات کی فرمائی ،( صحیح مسلم:۴۸۶)‘‘۔

علامہ ابن حجر ہیتمی شافعی لکھتے ہیں:’’اگر اس نے کہا : میں ایسے مقام پر پہنچ گیا کہ میں غمِ جان سے آزادہوگیا‘‘،یہ کہنے سے اس کی تکفیر تونہیں کی جائے گی ،لیکن وہ مُبْتَدِع ہے(اور) فریب نفس میں مبتلا ہے،اسی طرح اگر کہا: ’’میں اللہ کا عاشق ہوں یاوہ مجھ سے عشق فرماتا ہے‘‘ تومبتدع ہے۔ علامہ سلیمان بن منصورشافعی لکھتے ہیں:’’ اللہ تعالیٰ کی ذات کوعاشق اورمعشوق کہنا جائز نہیں ہے ،بلکہ ایساکہنے والے کو سزا دی جائے گی [یعنی یہ ذات باری تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں ہے]،(حَاشِیَۃُ الْجُمَلْ عَلٰی شَرحِ الْمَنْہَجْ،جلد۲، ص ۱۹۴)‘‘۔

       امام احمد رضاقادری سے سوال ہوا:’’ اللہ تعالیٰ کو عاشق اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس کامعشوق کہنا جائزہے یانہیں؟‘‘،آپ نے جواب میں لکھا:’’ناجائز ہے ،کیونکہ عشق کامعنی اللہ عزوجل کے حق میں مُحالِ قطعی ہے اور ایسا لفظ بے ورُودثبوتِ شرعی حضرتِ عزّت کی شان میں بولنا ممنوعِ قطعی ہے، ردالمحتارمیں ہے:’’اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے کسی لفظ سے صرف مُحال معنی کا وہم بھی ممانعت کے لیے کافی ہے‘‘۔

        علامہ یوسف اردبیلی شافعی اَلْاَنْوَار لاَِعْمَالِ الاَبْرَار میں شافعی اور حنفی علماء سے نقل فرماتے ہیں :’’اگر کوئی شخص کہے : میں اللہ تعالیٰ سے عشق رکھتاہوں اور وہ مجھ سے عشق رکھتاہے‘‘ ،تو وہ بدعتی ہے، لہٰذا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ یوں کہے:’’ میں اللہ تعالیٰ سے محبت کرتاہوں اور وہ مجھ سے محبت فرماتاہے۔ جس طرح قرآنِ کریم میں ہے:’’اللہ تعالیٰ اُن سے محبت فرمائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کریں گے،(المائدہ۵:۵۴)‘‘،اسی طرح امام ابن حجر مکی نے’اِعلام‘ میں نقل فرما کراسے مقرّر رکھا،(فتاویٰ رضویہ ،جلد۲۱، ص۱۱۴ تا ۱۱۶)۔

مفتی محمد شریف الحق امجدی سے سوال ہوا:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا دل بر، دل رُبا اور معشوق کہہ سکتے ہیں‘‘، آپ نے جواب میں لکھا:’’ اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرتے ہوئے ان تینوں الفاظ:دل بر، دل رُبا اور معشوق میں سے کسی کا اطلاق صحیح نہیں ہے۔ یعنی یہ کہنا جائز نہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے دل بر یا دل رُبا یا معشوق ہیں، اس لیے کہ دل بر،  دل رُبا کہنے میں باری تعالیٰ کے لیے ایہامِ تجسّم (جسمانیت کا وہم پیداہوتا)ہے اور معشوق کہنے میں اثباتِ نَقص ،کیونکہ عشق کا حقیقی معنی محبت کی وہ منزل ہے جس میں جنون پیدا ہو جائے،(فتاویٰ شارح بخاری ،جلد۱، ص ۲۸۱)‘‘۔

مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے عاشق ومعشوق کے الفاظ اور اللہ تعالیٰ کی نسبت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’معشوق‘، ’دلبر‘ اور ’دل رُبا‘ کے الفاظ استعمال کرنا ذاتِ باری تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں ہے اورعلمائے کرام نے اس سے منع فرمایا ہے۔تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبین کے لیے ’عاشق‘ کالفظ بکثرت استعمال ہورہاہے ، اس کی جمع عُشّاق ہے اور ع کے فتحہ   کے ساتھ عَشّاق کے معنیٰ ہیں : ’’بہت زیادہ عشق کرنے والا ‘‘ ،یعنی یہ مبالغہ کا صیغہ ہے ۔البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’معشوق‘ کا لفظ کبھی نہیں سنا اوریہ لفظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے   شایانِ شان معلوم نہیں ہوتا ، اس سے اجتناب بہتر ہے ،حالانکہ معنوی اعتبار سے اس میں خرابی نہیں ہے، لیکن چونکہ یہ کلمہ مُبتذل ہے،سفلی جذبات کے لیے بھی استعمال ہوتاہے، اس لیے ہماری رائے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے معشوق کا کلمہ استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حبیب اورمحبوب کے کلمات استعمال کیے جائیں ، ان میں حرمت ہے، وقار ہے، تقدیس ہے اور قرآن وحدیث میں اس کی ترغیب دی گئی ہے، بلکہ اسے ایمان کا تقاضا قرار دیا گیا ہے کہ مومن کی نظر میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذواتِ مقدسہ صرف محبوب نہیں، بلکہ اَحَبّ(محبوب ترین) ہونی چاہییں۔

 احادیث مبارکہ میں ہے:

(۱)’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مومن (کامل) نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ وہ مجھے اپنے والد ،اپنی اولاد اور تمام لوگوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ محبوب (اَحَبّ)نہ جانے، (صحیح البخاری:۱۵)‘‘۔

(۲)’’عبداللہ بن ہشام بیان کرتے ہیں: ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، دراں حالیکہ وہ عمرؓ بن خطاب کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، حضرت عمرؓ نے عرض کی: یارسول اللہ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہرچیز سے زیادہ محبوب ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہیں ! اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ،تم اُس وقت تک مومنِ کامل نہیں ہوسکتے جب تک کہ میں تمھارے لیے تمھاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجائوں، اس پر حضرت عمرؓ نے عرض کی: یارسولؐ اللہ! بخدا!اب آپ میرے لیے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عمر! اب تم نے کمالِ ایمان کو پالیا ،(بخاری:۶۶۳۲)‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اللہ تعالیٰ کے لیے لفظِ ’’شیدا‘‘کے اطلاق کے بارے میں مفتی شریف الحق امجدی لکھتے ہیں:’’(اللہ تعالیٰ)کو شیدائے محمد کہنا بھی جائز نہیں کہ اس میں معنیٔ سوء کا احتمال ہے،کیونکہ شیدا کے معنی ہیں:’’ آشفتہ ، فریفتہ ، مجنون،عشق میں ڈوبا ہوا، عاشق‘‘، اللہ تعالیٰ ان تمام باتوں سے مُنَزَّہ (پاک)ہے،(فتاویٰ شارح بخاری، ج۱، ص۱۴۱)‘‘۔

ہوش مند اور باشعور مسلمان جو اپنے دین کے احکام کو اچھی طرح سمجھتا ہے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بہترین معاملہ کرتا ہے۔ ان کے ساتھ سب سے زیادہ نیک برتائو اور اچھا سلوک کرتا ہے اور مہر بانی اور رحم وکرم کے ساتھ پیش آتا ہے۔ پڑوسی کے ساتھ حُسنِ سلوک کے سلسلے میں وہ اسلامی تعلیمات کو پیش نظر رکھتا ہے۔اس لیے وہ پڑوسی کے بارے میں اسلام کی بیش قیمت تعلیمات اور بے بہا وصیتوں کو اپنے ذہن میں ملحوظ رکھتا ہے اور باہمی تعلقات کا مرتبہ جو اسلام نے عطا کیا ہے اسے پیش نظر رکھتاہے۔ اسلام نے پڑوسی کو اتنا بلند مقام اور عالی مرتبہ عطا کیا ہے جتنا نہ اس سے پہلے کسی شریعت نے دیا، اورنہ اس کے بعد کوئی نظام ہی اس کی ہمسری کر سکا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے پڑوسی کے ساتھ اچھا برتائو کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَـنْۢبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۝۰ۙ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْــتَالًا فَخُــوْرَۨا۝۳۶ (النساء ۴:۳۶)اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آئو، اور پڑوسی رشتہ دار سے ، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے، اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمھارے قبضے میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو۔ یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے۔

پڑوسی رشتہ دار سے مراد وہ شخص ہے جس کے ساتھ پڑوس کا تعلق ہونے کے ساتھ ساتھ نسب یا دین کا بھی رشتہ ہو، اور اجنبی ہمسایہ سے مراد وہ شخص ہے جس کے ساتھ نسب یا دین کا رشتہ  نہ ہو، اور پہلو کے ساتھی سے مراد ہر وہ شخص ہے جو کسی اچھے کام میں شریک اور ہمراہ ہو۔

  • پڑوسی کا مقام: معلوم ہوا کہ جو شخص بھی تمھارے پڑوس میں ہے تم پر اس کا حقِ جوار ہے، خواہ تمھارے اور اس کے درمیان نہ کوئی نسب کا تعلق ہو اور نہ دین کا رشتہ ۔ اس میں پڑوسی کی تکریم اور اس کا احترام شامل ہے۔غور کرنے کا مقام ہے کہ اسلام کی تابناک شریعت نے پڑوسی کی کتنی عزّت افزائی کی ہے۔

اسی طرح بہت سی احادیث رسولؐ میں بھی بلا کسی تخصیص کے پڑوسی کے ساتھ حُسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے، خواہ اس سے قرابت اور دین کا کوئی تعلق ہو یا نہ ہو، اور ان میں اسلام کے نزدیک پڑوسی کے تعلق کی اہمیت پرزور دیا گیا ہے۔ مثلاً: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

مجھے جبریلؑ برابر پڑوسی کے ساتھ حُسنِ سلوک کا معاملہ کرنے کی وصیت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ میں یہ گمان کرنے لگا کہ وہ اسے وراثت کا مستحق قرار دے دیں گے۔(بخاری)

حضرت جبریل علیہ السلام کی وصیت کے بالمقابل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پڑوسی کے ساتھ اکرام واحترام کا معاملہ کرنے اور حُسنِ سلوک کا برتائو کرنے کی ترغیب دی ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے حجۃ الوداع میں اپنے تاریخی خطبے میں (جس میں کہ ان تمام چیزوں کا خلاصہ پیش کر دیا تھا جن سے مسلمانوں کو آگاہ کرنا تھا) پڑوسی کے بارے میں بھی وصیت فرمائی ، اور اس کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے پر زور دیا۔ آپؐ نے اس جانب اپنے صحابی حضرت ابو امامہؓ کو متوجہ کیا۔ یہاں تک کہ وہ بھی یہ سمجھنے لگے کہ آپؐ اسے وراثت کا حق دار قرار دے دیں گے۔

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار تھے۔ اس حالت میں مَیں نے آپؐ کو فرماتے ہوئے سنا:

’’(لوگو!) میں تمھیں پڑوسیوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کی وصیت کرتا ہوں‘‘۔آپؐ نے یہ اتنی بار فرمایا اور اتنا زو ر دے کر فرمایا کہ میں سمجھنے لگا کہ آپؐ اسے وراثت میںحق دار قرار دے دیں گے۔ (بخاری ،  مسلم)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسی کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آنے اور اچھا برتائو کرنے کو اتنی اہمیت دی ہے کہ اس کے ساتھ اچھا برتائو کرنے اور اسے تکلیف نہ پہنچانے کو اللہ اور آخرت پر ایمان کی علامتوں میں سے ایک علامت اور اس کے بہترین نتائج میں سے ایک حتمی اور لازمی نتیجہ قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

جو شخص اللہ اور روز آخرپر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حُسنِ سلوک کرے، جو شخص اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے، جو شخص اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتا ہو وہ خیر کے کلمات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔ (بخاری ،  مسلم)

’’جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے‘‘۔(بخاری)

  • پڑوسی کے ساتھ نرمی کا برتاؤ: اس میں کوئی تعجب نہیں کہ سچا مسلمان جو اس دین کی تعلیمات سے اپنے دل اور عقل کو روشن کرتا ہے، اپنے پڑوسی کے ساتھ نرم خو اور خوش خلق ہوتا ہے۔ رہن سہن میں بھلائی کے ساتھ پیش آتا اور معاملات میں نرمی برتتا ہے۔ اس کے پڑوسی کو اگر اس کے گھر سے کوئی فائدہ پہنچ رہا ہو تو اسے روکتا نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  ’’کوئی پڑوسی اپنے پڑوسی کو دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے منع نہ کرے‘‘۔ (بخاری، مسلم)
  • پسند و ناپسند کی بنیاد:روشن بصیرت رکھنے والا اور اپنے دین کے نور سے رہنمائی حاصل کرنے والا مسلمان نرم دل ، بیدار مغز، خوش اخلاق اور ذکی الحس ہوتا ہے۔ اپنے پڑوسی کے احساسات میں شریک رہتا ہے۔ اس کی خوشی کو اپنی خوشی اور اس کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتا ہے۔ جو چیز اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی اس کے لیے پسند کرتا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو اپنے لیے مشعل راہ بناتا ہے:’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔

جب بھی اس کے گھر سے کسی چیز کے پکنے یا بھننے کی خوشبو آتی ہے تو وہ اپنے غریب پڑوسیوں کو فراموش نہیں کرتا بلکہ ان کا بھی خیال رکھتا ہے۔ اس پر شاق گزرتا ہے کہ اس کی ہانڈی کی خوشبو سے یا کسی چیز کے بھننے کی خوشبو سے اس کے تنگ دست پڑوسیوں کو تکلیف ہو کہ ان میں بھی لذیذ کھانے کی خواہش پیدا ہو اور وہ اپنی مفلسی اور تنگ دستی کی بنا پر اس کے حصول پر قادر نہ ہوں، جب کہ بسا اوقات ان میں ناسمجھ بچے، مفلس ، یتیم، مسکین، بیوہ اور بے بس بوڑھے ہوتے ہیں۔ چنانچہ سچا مسلمان ہمیشہ اجتماعی تکافل وتعاون کی اس روح کو بیدار رکھتا ہے جسے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے نفس میں جاگزیں کیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:’’اے ابو ذر !جب تم شور بے والی کوئی چیز پکائو تو اس میں شور با زیادہ کر دو اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو‘‘۔(مسلم)

حضرت جابرؓ سے مروی ہے:’’اپنے پڑوسی کو اپنی ہانڈی کی خوشبو سے تکلیف نہ پہنچائو‘‘۔

سچے مسلمان کا وجدان یہ برداشت نہیں کرسکتا اور اس کی حس یہ گوارا نہیں کر سکتی کہ اس کا پڑوسی تو تنگی ، فاقہ اور تنگ دستی میں ہو اور وہ فراخی ، خوش حالی اور عیش وآرام سے زندگی گزارے ۔ آخر وہ اپنے اور اپنے پڑوسی کے درمیان اس دوری کو کیسے گوارا کر سکتا ہے، جب کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سنتا ہے:’’وہ شخص مجھ پر ایمان نہیں لایا جو آسودہ ہو کر سوئے اور اس کی بغل میں اس کا پڑوسی بھوکا ہو اور اسے معلوم بھی ہو‘‘۔(طبرانی،  بزار)

  • انسانیت کی بدبختی کا سبب:آج انسانیت جس شقاوت اور بدبختی میں گھری ہوئی ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ سچا مسلمان زندگی کے میدان سے غائب ہے۔ اسلام کے عدل پر ور اصول ومبادی، خودساختہ اور پسماندہ اصولوں کے ڈھیر تلے چھپ گئے ہیں، جس سے انسانیت کو اس فضائی دور اور راکٹوں اور مصنوعی سیاروں کے عہد میں سوائے فقر وفاقہ، تنگ دستی وبدحالی، استحصال ، بھوک اور ننگے پن کے سوا کچھ نہ مل سکا، جب کہ انسان نے چاند پر بھی اپنی کمندیں ڈال دی ہیں۔

غور کرنے کا مقام ہے! کتنا زبردست فرق ہے اسلامی تہذیب میں (جس نے انسان کے لیے یہ تک پسند نہیں کیا کہ اس کی ہانڈی کی خوشبو سے اس کے پڑوسی میں لذیذ کھانے کی خواہش بھڑکے اور اسے تکلیف ہو) اور مغرب کی مادی تہذیب میں جس کی بدولت لاکھوں کروڑوں انسان بھوکوں مر رہے ہیں۔ مادی نظاموں کے پیچھے چل کر پریشان حال انسانیت کتنی بد بختی میں مبتلا ہو گئی ہے۔ مشرق و مغرب، ہر طرف انسانیت کس بے بسی کے عالم میں دم توڑ رہی ہے اور جاہلیت کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں بھٹک رہی ہے۔

ایسے میں مسلمان پر کتنی عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اُس نور کی مشعل کا حامل ہے جو نہ شر قی ہے نہ غربی ، کیونکہ اس سے جاہلیت کی تاریکیاں چھٹ سکتی ہیں اور صرف اسی کی روشنی سے دل و دماغ منور ہو سکتے ہیں اور انسانیت رشد وہدایت اور امن وسلامتی سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔

پڑوسی کے ساتھ حتی الامکان نیک سلوک: دین حنیف کی تعلیمات کو سمجھنے والا مسلمان حتی الامکان اپنے پڑوسی کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی طرف سبقت کرتا ہے اور اپنے پڑوسی کو معمولی چیز ہدیہ کرنے کو بھی حقیر نہیں سمجھتا۔ جیسا کہ بعض ناسمجھ سمجھتے ہیں اور اسے حقیر سمجھ کر اپنے پڑوسی کو دینے سے گریز کرتے ہیں۔ چنانچہ خود بھی اجر سے محروم رہتے ہیں اور اپنے پڑوسی کو بھی خیر سے محروم رکھتے ہیں۔ اسی چیز کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر عورتوں کو متنبہ کیا ہے کیوںکہ بیشتر اوقات وہی اپنی پڑوسنوں کو کوئی معمولی ہدیہ دینے سے شرماتی ہیں۔ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا:’’اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کو کوئی معمولی شے دینے میں حقارت نہ محسوس کرے خواہ بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو‘‘۔(متفق علیہ)

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَيْرًا يَّرَہٗ۝۷ۭ  (الزلزال۹۹:۷) ’’پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جہنم کی آگ سے بچو، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعے‘‘ ۔(بخاری)

مذکورہ بالا حدیث کا سیاق عام ہونے کی وجہ سے اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ معمولی چیز کو حقیر سمجھنے سے اس پڑوسن کو روکا جا رہا ہے، جس کو وہ چیز دی جائے۔ اس وقت اس حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ کوئی پڑوسن اس چیز کو حقیر نہ سمجھے جو اس کی پڑوسن نے اسے ہدیہ میں دی ہو خواہ وہ چیز قلیل اور معمولی ہی کیوں نہ ہو جیسے بکری کا کھر، بلکہ اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ اس کا شکریہ ادا کرے۔ کیوںکہ ہدیہ پر شکر یہ ادا کرنے سے پڑوسیوں کے درمیان اُلفت بڑھتی ہے، اور ان کی زندگی میں باہمی تعاون اور باہمی ہمدردی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہدیہ پر شکریہ ادا کرنا اسلامی اخلاق میں سے ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تاکید فرمائی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:’’جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا، وہ اللہ کا شکر بھی نہیں کرتا‘‘۔(الادب المفرد)

  • حُسنِ سلوک میں مسلم اور غیرمسلم کی تفریق نہیں: باشعور مسلمان حُسنِ سلوک کو صرف قریبی یا مسلمان پڑوسیوں تک محدود نہیں رکھتا بلکہ اس سے تجاوز کر کے وہ غیر مسلم پڑوسیوں کے ساتھ بھی حُسنِ سلوک کا معاملہ کرتا ہے۔ اس لیے کہ اسلام کی سماحت وفیاضی ، ادیان اور فرقوں کے اختلاف سے بالا ہو کرتمام انسانوں کے لیے عام ہے اور ان سب تک وسیع ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر وؓ کے یہاں جب بکری ذبح ہوتی ہے تو وہ اپنے غلام سے پوچھتے ہیں:کیا ہمارے یہودی پڑوسی کو ہدیہ کر دیا ہے؟کیوںکہ میں نے رسولؐ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:’’جبریلؑ مجھے پڑوسی کے ساتھ حُسنِ سلوک کی برابر وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں گمان کرنے لگا کہ وہ اسے وراثت کا حق دار قرار دے دیںگے‘‘۔(احمد، ابوداؤد،  ترمذی)

اسی لیے مسلمانوں کے پڑوس میں اہل کتاب امن وسکون اور اطمینان کے ساتھ زندگی گزارتے تھے۔انھیں اپنی جان ومال ،عزت وآبرو اور اعتقادات کے بارے میں کسی طرح کا خوف نہیں ہوتا تھا اور وہ حسن جوار،خوش معاملگی اور آزادیِ عقیدہ سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

لَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْہِمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۝۸ (الممتحنہ۶۰:۸) اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم اُن لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

قریب ترین پڑوسی کو مقدم رکھنا: اسلام نے پڑوسیوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ ان کے درمیان ترتیب وتنظیم کا لحاظ رکھا ہے۔ چنانچہ اس نے پڑوسیوں کے درمیان اُلفت ومحبت اور اتحاد واتفاق برقرار رکھنے کے لیے دو قریبی اورملے ہوئے پڑوسیوں سے تعلق کی نوعیت کی رعایت کرتے ہوئے قریب ترین پڑوسی کو حُسنِ سلوک میں مقدم رکھنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! میرے دو پڑوسی ہیں، میں ان میں سے کس کو ہدیہ کروں؟ فرمایا: دونوں میں جس کا دروازہ قریب ہو‘‘۔(بخاری)

صحابہ کرامؓ نے پڑوسیوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں اس بلند نبویؐ ارشاد کو ذہن میں رکھا۔ چنانچہ وہ اپنے حُسنِ سلوک اور احسان واکرام میں دور کے پڑوسی کو قریب کے پڑوسی پر مقدم نہیں کرتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں:آدمی حُسنِ سلوک میں دور کے پڑوسی کو قریب کے پڑوسی پر مقدم نہ کرے بلکہ قریب کے پڑوس کو دُور کے پڑوسی پر مقدم رکھے (الادب المفرد)۔

پڑوسیوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کا معاملہ کرنے میں اس ترتیب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو پڑوسی مسلمان کے گھر سے دُور رہتے ہیں ان سے گردن موڑ لے اور صرفِ نظر کر لے، کیونکہ جو بھی اس کے گھر کے حلقے میں رہتا ہے وہ پڑوس کے رشتے میں داخل ہے اور حقِ جوار رکھتا ہے ۔ قریبی پڑوسی کو مقدم کرنے کی ترتیب محض تنظیمی ترتیب ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریبی پڑوسی کی نفسیات کی رعایت کی ہے۔ کیونکہ ان کے درمیان عام طور پر روابط، معاملات اور مستقل تعلقات رہتے ہیں۔ ورنہ پڑوس کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ !میں بنی فلاح کے محلے میں رہنے لگا ہوں۔وہاں جس کا گھر میرے گھر سے سب سے زیادہ قریب ہے وہی مجھے سب سے زیادہ تکلیف پہنچاتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر ، عمر اور علی رضی اللہ عنہم کو بھیجا۔ وہ لوگ مسجد نبویؐ آئے۔پھر اس کے دروازے پر کھڑے ہو کر زور سے اعلان کیا:

لوگو! جان لو کہ چالیس گھر تک پڑوس ہوتا ہے اور وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ اور مامون نہ ہو۔(طبرانی)

  • سچا مسلمان بہترین پڑوسی: پڑوسی کے ساتھ حُسنِ سلوک سچے مسلمان کی وجدان کی گہرائیوں میں پایا جانے والا ایک احساس ہے اور ایسا وصف ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں بھی فائق کرتا ہے اور لوگوں کے درمیان بھی امتیازی شان عطا کرتا ہے ، کیوںکہ سچا اور باشعور مسلمان جس نے اسلام کے شفاف سر چشمے سے سیرابی اور آسودگی حاصل کی ہو اور اس کی روشن تعلیمات اس کے دل میں جاگزیں ہو گئی ہوں، ساتھیوں میں بہترین ساتھی اور پڑوسیوں میں بہترین پڑوسی ہوتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مصداق ہوتا ہے:’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک لوگوں میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے ساتھی کے لیے بہتر ہو اور پڑوسیوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے بہتر ہو‘‘۔(ترمذی)

اسلام نے نیک پڑوسی کو مسلمان کے لیے سعادت قرار دیا ہے۔ اس کا پڑوس ، پڑوسی کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتا ہے اور سعادت وخوش بختی ، راحت، امن وسکون اور اطمینان کا باعث ہوتا ہے۔ نیک پڑوسی کی عزت وتکریم اور عظمت ورفعت کے لیے یہی کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسلمان کی زندگی میں سعادت کا ایک رکن قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’مسلمان کی خوش بختی اور سعادت ان چیزوں میں ہے کہ اس کے پاس وسیع مکان ہو، نیک پڑوسی ہو اور آرام دہ سواری ہو‘‘۔(احمد ، حاکم)

نیک پڑوسی کا اسلاف کے نزدیک اس قدر عظیم مقام تھا کہ اس کے جوار کو وہ عظیم نعمت سمجھتے تھے جس کی قیمت نہیں لگائی جا سکتی ، اور اسے ایسی دولت سمجھتے تھے جس کے برابر دنیا کا کوئی سازو سامان نہیں ہو سکتا۔ حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کے پڑوسی نے ایک لاکھ درہم میں اپنے گھر کا بھائو تائو کیا پھر خریدار سے کہا کہ یہ تو گھر کی قیمت ہے اور سعید کا پڑوس کتنے میں خریدو گے؟ جب حضرت سعید کو یہ معلوم ہوا تو انھوں نے اسے قیمت بھیج دی اور اسے وہیں باقی رکھا۔

یہ ہے اسلام میں پڑوسی کا مقام !اور یہ ہے نیک اور مسلمان پڑوسی کا روشن کردار! اب بداخلاق اوربدکردار پڑوسی سے متعلق احادیث بھی ملاحظہ کرتے چلیے۔

  • بُرا پڑوسی ایمان کی نعمت سے بے بہرہ: بُرا پڑوسی ایمان کی نعمت سے عاری اور محروم ہوتا ہے۔ ایمان مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے اور اس زندگی میں تمام فضائل کی اصل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’اللہ کی قسم ! وہ شخص مومن نہیں ، اللہ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں ، اللہ کی قسم!وہ شخص مومن نہیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کون؟ فرمایا: جس کا پڑوسی اس کے شرور (حدیث میں بوائق کا لفظ آیا ہے جس کے معنی ہیں دھوکے بازیاں اور شرارتیں) سے محفوظ نہ ہو‘‘۔(بخاری ، مسلم)

مسلم کی ایک روایت میں ہے:’’وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کا پڑوسی اس کے شر ور سے محفوظ نہ ہو‘‘۔

کتنا سنگین جرم ہے جس کا ارتکاب برا پڑوسی اپنے پڑوسی کے حق میں کرتا ہے۔  چنانچہ یہ جرم اسے ایمان کی نعمت سے عاری کر دیتا ہے اور دخولِ جنت سے محروم کر دیتا ہے۔

سچا، باشعور اور ہوشمند مسلمان ان نصوص کو کھلے دل اور بیدار ذہن کے ساتھ سنتا ہے۔ چنانچہ اس کے دل میں یہ خیال تک نہیں کھٹکتا کہ وہ کبھی اپنے کسی پڑوسی کے ساتھ لڑائی جھگڑا کرے، بغُض وعداوت رکھے اور مکروفریب سے کام لے، کیونکہ ایسا کرنے سے ایمان ضائع ہو جاتا ہے اور آخرت میں ہلاکت مقدر ہو جاتی ہے۔ پھر کیا ایمان وآخرت کے خسارے سے بڑھ کر بھی کوئی خسارہ ہو سکتا ہے!یہ خیال آتے ہی متقی مسلمان کا دل لرزنے لگتا ہے۔

  • اعمال کا ضائع ہو جانا: پھر کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اس کے بعد نصوص میں صراحت ہو کہ بُرے پڑوسی کے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔ اپنے پڑوسی کو اذیت وتکلیف پہنچانے کی صورت میں اس کی کوئی طاعت و بندگی اسے فائدہ نہیں پہنچاتی۔ اس کے نیک اعمال شرف قبولیت سے نہیں نوازے جاتے۔ کیوںکہ اسلام میں عمل صالح ہمیشہ ایمان کی بنیاد پر معتبر اور قابل قبول ہوتے ہیں اور گذشتہ حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ بُرے پڑوسی کا ایمان معتبر نہیں۔ چنانچہ خواہ وہ کتنے ہی اعمال کر ڈالے مگر وہ قابل قبول نہیں ہوں گے بلکہ اللہ تعالیٰ انھیں ضائع کر دے گا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں نے بتلایا کہ اے اللہ کے رسولؐ! فلاں عورت رات میں نمازیں پڑھتی ہے اور دن میں روزہ رکھتی ہے۔ نیک اعمال کرتی ہے اور خوب صدقہ کرتی ہے مگر اپنی زبان درازی سے اپنے پڑوسیوں کو اذیت پہنچاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس میں کوئی خیر نہیں، وہ اہل جہنم میں سے ہے‘‘۔

پھر لوگوں نے بتلایا کہ فلاں عورت صرف فرائض ادا کرتی ہے۔ پنیر(اس کے لیے حدیث میں اتوار کا لفظ آیا ہے) صدقہ کرتی ہے لیکن کسی کو اذیت نہیں پہنچاتی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’وہ جنتیوں میں سے ہے‘‘۔ اسے امام بخاری نے الادب المفرد میں روایت کیا ہے۔

بُرے پڑوسی کے بارے میں وعید سناتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین آدمیوں کے اعمال ضائع ہیں۔ ایک وہ امام جس کے ساتھ احسان کا برتائو کرو تو شکریہ نہیں  ادا کرتا اور کوئی غلطی سر زد ہو جائے تو معاف نہیں کرتا۔ دوسرا وہ پڑوسی جو اپنے پڑوسی میں کوئی خیر دیکھے تو خاموش رہے اور کوئی بُرائی دیکھے تو اس کا لوگوں میں چرچا کرے۔اور وہ بیوی جو شوہر کی موجودگی میں اسے تکلیف پہنچائے اور اس کی عدم موجودگی میں خیانت کرے۔(طبرانی)

اس طرح متقی اور باشعور مسلمان کے خیال میں بُرے پڑوسی کی گھنائو نی تصویر نقش ہو جاتی ہے۔ چنانچہ وہ اس سے دُور رہتا ہے۔

  • پڑوسی کے ساتھ گناہ سے بچنا:سچا مسلمان خاص طور پر اپنے پڑوسی کے ساتھ کسی گناہ یا خطا کا ارتکاب کرنے سے بچتا ہے۔ کیونکہ پڑوسی کے ساتھ کسی گناہ میں ملوث ہونا، دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بھیانک اور سنگین جرم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ آپؐ نے صحابہؓ سے زنا کے بارے میں سوال کیا۔صحابہؓ نے عرض کیا: حرام ہے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:’’پڑوسی کی بیوی سے زنا دس عورتوں کے ساتھ زنا کے برابر ہے۔پھر آپؐ نے ان سے چوری کے بارے میں دریافت فرمایا:انھوں نے عرض کیا حرام ہے۔ اللہ عزوجل اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے۔ فرمایا:’’آدمی دس گھروں سے چوری کرے، یہ آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ اپنے پڑوسی کے گھر سے چوری کرے‘‘۔(مسند احمد)

اسلام میں پڑوسی کی عزت وآبرو محفوظ ہوتی ہے، جب کہ دیگر قوانین اخلاق اور انسانی شریعتوں میں اس کا کوئی تصور ہی نہیں، بلکہ وہ خود ساختہ قوانین وشرائع سے پڑوسی کی عزت وآبرو سے کھیل کرنے کو آراستہ اور خوش نما بنا کر پیش کرتے ہیں کیوںکہ عموماً پڑوسی کی آبرو وعزت سے کھیلنا آسان اور سہل الحصول ہوتا ہے۔ اس میں زیادہ دِقّت اور دشواری نہیں ہوتی اور دوسروں کی آبرو سے کھیلنے کے مقابلے میں اس کے مواقع زیادہ ملتے ہیں۔ اس کا تصور جاہلیت کے زمانے میں بھی نہیں تھا، چہ جائیکہ اسلام میں۔ جاہلیت کا ایک عظیم اور غیرت مند شاعر کہتا ہے:

وَاَغُضُّ طَرفٰی مَا بَدَتْ لِیْ جَارَتِیْ
حَتّٰی یُوَارِیَ جَارِتِیْ مَا وَاھَا

( دیوان عنترہ)

[جب مجھے میرے پڑوسی کی بیوی دکھائی دیتی ہے تو میں اپنی نگاہیں جھکا لیتا ہوںاور اس وقت تک جھکائے رکھتا ہوں جب تک وہ اپنے گھر میں نہ پہنچ جائے۔]

اسلام نے اس پاکیزہ انسانی خصلت کو ہم میں پروان چڑھایا ہے۔ اس نے پڑوسی کا خیال رکھنے ، اس کی آبرو کی حفاظت کرنے، اس کے شرف کو محفوظ رکھنے، اس کے عیوب کو چھپانے ، اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے، اس کے محارم سے نگاہیں نیچی رکھنے اور اسے شک میں مبتلا کرنے والی اور ناگوار چیزوں سے دُور رہنے کا حکم دیا ہے۔

اس لیے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ برحق اور سچا مسلمان انسانی معاشروں میں بہترین پڑوسی کی حیثیت سے زندگی گزارتا ہے۔ بیدار ذہن اور روشن بصیرت رکھنے والے ذکی الحس اور پڑوسیوں کے بارے میں دین کے اخلاق اوراس کی بلند معاشرتی تعلیمات وارشادات کو یاد رکھنے والے مسلمان اور اس کے پڑوسیوں کے درمیان اگر کبھی لڑائی جھگڑے کی نوبت آ جاتی ہے تو وہ اس کا ہزار بار حساب لگاتا ہے۔ کیوں کہ پڑوسیوں کے ساتھ لڑائی جھگڑا کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تنبیہ برابر اس کے کانوں میں گونجتی رہتی ہے:’’قیامت کے روز سب سے پہلے جو دو جھگڑا کرنے والے پیش کیے جائیں گے، وہ دونوں پڑوسی ہوں گے‘‘۔(احمد، طبرانی)

  • خیر کا معاملہ کرنے میں کوتاہی نہ کرنا: راسخ الایمان مسلمان اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان اور خیر کا معاملہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا۔ وہ اس کے لیے حفاظت ورعایت، محبت ومودت اور عزّت افزائی کے دروازے کھلے رکھتا ہے۔ وہ اپنی ذمہ داریاں سرانجام دینے میں کوتاہی نہیں کرتا اور ڈرتا ہے کہ کہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان اس پر صادق نہ آ جائے جو آپؐ نے ناشکرے ، بخیل اور خیرو احسان کا معاملہ نہ کرنے والے پڑوسی کے بارے میں فرمایا ہے۔

قیامت میں بہت سے پڑوسی ایسے ہوں گے جو اپنے پڑوسی کو پکڑیں گے اور کہیں گے: اے رب!اس نے میرے لیے دروازہ بند رکھا اور خیرواحسان کا معاملہ کرنے سے باز رہا (الادب المفرد)۔ غور کیجیے کہ قیامت میں بخیل اور احسان نہ کرنے والے پڑوسی کا کیسی شرمندگی کا مقام ہوگا۔

 اسلام کی نظر میں مسلمان ایک بلند وبالا، پرشکوہ اور مضبوط عمارت کی طرح ہیں۔ اس امت کے افراد اس کی اینٹیں ہیں۔ ضروری ہے کہ اس کی ہر اینٹ مضبوط اور پیوستہ ہو اور دوسری اینٹوں سے مضبوطی کے ساتھ جڑی ہوئی ہو تا کہ عمارت مستحکم ، راسخ اور مضبوط ہو، ورنہ عمارت میں دراڑیں پڑ جائیں گی۔ وہ کمزور ہو جائے گی اور جلد ہی منہدم ہو جائے گی۔

اسلام نے اپنی اینٹوں کو مضبوط اور مستحکم تعلق سے پیوستہ رکھا ہے جس سے اینٹوں میں استحکام، مضبوطی اور پائیداری باقی رہتی ہے اور مسلمانوں کی عمارت انتہائی مستحکم اور مضبوط رہتی ہے، نہ وقتاً فوقتاًپیش آنے والے واقعات اسے متزلزل کر سکتے ہیں۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں مسلمانوںکے باہم اتحاد واتفاق، تعاون اور مواخات کی کتنی دل کش اور حسین تمثیل ہے:’’ایک مومن دوسرے مومن کے لیے مضبوط عمارت کی طرح ہے کہ بعض کو بعض سے مضبوطی اور استحکام حاصل ہوتا ہے‘‘۔ (بخاری)

دوسری جگہ ارشاد ہے:’’باہمی محبت ومودت ، لطف وکرم اور رحم وہمدردی میں مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ جب اس کے کسی عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا بدن بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے اور نیند اُچاٹ ہو جاتی ہے‘‘۔ (بخاری)

جو دین امت کے افراد کو اس حیرت انگیز حد تک باہم دگر متحد اور ایک دوسرے سے پیوستہ رکھتا ہے، اس کے لیے بدیہی ہے کہ وہ پڑوسیوں کے مابین بھی تعلقات کو مستحکم رکھے اور انھیں مودت ومحبت ، بِرّواحسان ، تکافل وتعاون اور خوش معاملگی کی مضبوط اور راسخ بنیادوں پر قائم کرے۔

  • لغزشوں اور اذیتوں پر صبر کرنا:ان تمام باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے دین کی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کرنے والا مسلمان اپنے پڑوسی کی نازیبا حرکتوں اور تکلیفوں پر صبر سے کام لیتا ہے۔ اگر اس سے کوئی کمزوری سر زد ہو تی ہے تو بھڑک نہیں اٹھتا ۔ اسی طرح اگر اس سے کوئی لغزش ہو جاتی ہے یا وہ کسی تقصیر میںمبتلا ہو جاتا ہے تو اس پر اس کی گرفت نہیں کرتا بلکہ عفوودرگزر سے کام لیتا ہے اور معاف کر دیتا ہے۔ اس طرح وہ اللہ کی بار گاہ میں ثواب کی امید رکھتا ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کا عفو اور معافی اللہ کے یہاں ضائع نہیں ہوں گے بلکہ ان کے ذریعے اللہ کی محبت اور خوشنودی حاصل ہو گی۔

اس کی تصدیق حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث سے ہوتی ہے کہ جب ان سے حضرت مطرف بن عبداللہ کی ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا: اے ابوذرؓ!مجھے آپ کی یہ حدیث معلوم ہوئی تھی اور میں آپ سے ملنا چاہتا تھا۔ فرمایا: لوملاقات تو ہو گئی ۔ انھوں نے عرض کیا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ سے یہ فرمایا ہے کہ اللہ تین لوگوں سے محبت کرتا ہے اور تین لوگوں سے نفرت کرتا ہے۔ حضرت ابو ذرؓ نے فرمایا:  میں نہیں سمجھتا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھ رہا ہوں۔حضرت مطرف فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: وہ تین لوگ کون ہیں جن سے اللہ عزوجل محبت کرتا ہے؟ فرمایا: ایک وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں صبر کرتے ہوئے اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے جہاد کرے اور لڑتے لڑتے شہید ہو جائے۔ یہ چیز تو کتاب اللہ سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ (پھر یہ آیت تلاوت فرمائی): اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِہٖ صَفًّا كَاَنَّہُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ۝۴ (الصف۶۱:۴)’’اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔ میں نے عرض کیا اور کون؟ فرمایا: دوسرا وہ شخص جس کا پڑوسی بداخلاق ہو اور اسے اذیتیں پہنچاتا رہتا ہو مگر وہ اس کی اذیتوں پر صبر کرے۔یہاں تک کہ اسے موت آ جائے....الخ( احمد ، طبرانی )

  • بُرائی کا جواب بُرائی سے نہ دینا:اس دین کی تعلیمات میں یہ بھی ہے کہ کوئی شخص پڑوسی کی برائی کا جواب برائی سے نہ دے، بلکہ اس کی اذیتوں پر جس حد تک صبر کر سکتا ہو کرے، یہاں تک کہ وہ اس سے باز آجائے اور تکلیفیں پہنچانا بند کردے۔ وہ جب اپنے پڑوسی کو دیکھے تو اس کی بُرائی کا جواب اس کے مثل برائی سے نہ دے، بلکہ صبر کرے، حلم وبردباری سے کام لے اور خوش معاملگی سے پیش آئے ، اور خدا کی قسم! یہ بلند ترین اخلاق اور پاکیزہ سیرت ہے اور نفوس سے برائی کی بیخ کنی کرنے کے لیے تربیت کا بہترین نفسیاتی اسلوب ہے۔

حضرت محمد بن عبداللہ بن سلامؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور  عرض کیا:مجھے میرے پڑوسی نے تکلیف پہنچائی ہے۔ فرمایا:صبر کرو۔وہ دوبارہ حاضر ہوئے اور عرض کیا: مجھے میرے پڑوسی نے تکلیف پہنچائی ہے تو آپؐ نے فرمایا:اپنا سامان لے جاکر راستے میں ڈال دو اور جب کوئی شخص وہاں سے گزرے تو اس سے کہو کہ میرے پڑوسی نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے۔ اس طرح تمھارے پڑوسی پر لوگوںکی لعنت پڑے گی۔ جو شخص بھی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کا اکرام کرے۔(حیاۃ الصحابہ، ج ۴،ص۵۰)

  • پڑوسی کے حقوق پہچاننا:سچا مسلمان ہر لمحے اپنے پڑوسی کے حقوق پہچانتا ہے ، مصائب ومشکلات میں اس کی مدد کرتا ہے، اس کی خوش حالی میں خوشی ومسرت کا اظہار کرتا ہے ۔ اس کے رنج وغم اور خوشی وسرور میں شریک ہوتا ہے۔ اگر اس کا پڑوسی ضرورت مند اور محتاج ہوتا ہے تو اس کے ساتھ حُسنِ سلوک کرتا ہے اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ۔ اگر اسے کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے تو اس کی عیادت کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کا اظہار کرتا ہے اور  بوقت ِضرورت اس کے کام آتا ہے ۔ اگر اس کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس کے جنازے میںشریک ہوتا ہے۔ اس کے گھر والوں کو دلاسہ دیتا ہے اور اپنے خاندان کے احساسات کا لحاظ رکھتا ہے اور ان چیزوں سے احتراز کرتا ہے جن سے یہ احساس مجروح ہو یا کسی بھی حیثیت سے اسے ٹھیس لگے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ سے مروی ہے کہ کسی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا:مجھ پر میرے پڑوسی کے کیا حقوق ہیں؟ فرمایا:

  • اگر بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو
  • اگر اس کا انتقال ہو جائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو۔
  • جب تم سے قرض مانگے تو اسے قرض دو اور جب کسی چیز کا ضرورت مند ہو تو اس کی ضرورت پوری کرو۔
  • جب اسے کوئی خیر حاصل ہو تو اسے تہنیت پیش کرو۔
  • جب اس پر کوئی مصیبت نازل ہو تو اس کی تعزیت کرو،
  • بغیر اس کی اجازت کے اپنی عمارت کو اُونچی نہ کرو کہ اس کی ہوا رُک جائے۔ lاپنی ہانڈی کی خوشبو سے اسے تکلیف نہ پہنچائو اِلا یہ کہ اس میں سے اسے بھی کچھ دے دو۔
  • اگر کبھی پھل خریدو تو اسے بھی ہدیہ کرو۔ اگر ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو گھر میں خاموشی سے لے جائو اور احتیاط کرو کہ تمھارا بچہ اسے لے کر باہر نہ نکلے کہ اس کے بچے بھی اس کی ضد کرنے لگیں۔(طبرانی )

یہ ہے پڑوسی کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر!اور یہ ہیں اس کے بارے میں اسلام کی روشن اور عظیم تعلیمات !جن پر عمل کرنے کا اسلام ہر اس مسلمان سے مطالبہ کرتا ہے جو اسلام کی حقیقت کو سمجھتا ہو، اس سے پوری رہنمائی حاصل کرتا ہو، اور اس کے احکام وتعلیمات کو اپنے اُوپر اور اپنے خاندان پر منطبق کرنا چاہتا ہو۔

پھر کیا اس کے بعد بھی اس میں تعجب ہو سکتا ہے کہ بہترین مسلمان سچاپڑوسی ہو۔ ایسا پڑوسی جس کا کردار انسانی معاشروں میں سے سے افضل ، سب سے اعلیٰ اور سب سے نمایاں ہو!

ہم اکثر نکاح کا خطبہ سنتے ہیں لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ اس خطبے میں کیا کہا جارہا ہے؟ خطبۂ نکاح میں حمد وصلوٰۃ کے بعد قرآن کریم کے جن تین مقامات سے تلاوت کی جاتی ہے  ان تینوں میں حیرت انگیز طور پر نکاح کا کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے، بلکہ تینوں جگہ ایک ہی مضمون پر زور دیا گیا ہے اور وہ ہے ’تقویٰ‘۔ تقویٰ اور پرہیزگاری ایک ایسا مؤثر عنوان ہے جس کے تحت بہت سے مسائل خود حل ہوجاتے ہیں۔

اللہ ربّ ا لعزت نے خطبۂ نکاح میں تقویٰ و پر ہیزگاری کا حکم ارشاد فرما کر اس جانب توجہ دلائی ہے کہ میاں بیوی ایک خوش گوار ازدواجی زندگی اور ایک پُرسکون گھر اس وقت بنا سکیں گے جب دونوں ’تقویٰ و پرہیزگاری‘ کے زیور سے آراستہ ہوں۔ ان دونوں کو اپنے ہر عمل کی جواب دہی کی فکر لاحق ہو۔ اللہ کے ہاں جواب دہی کا احساس وہ واحد پیمانہ ہے جس سے سچائی اور امانت کا احساس جاگزیں رہتا ہے۔

اگر یہ احساس نہ رہے تو دنیا کی کوئی عدالت، کمیونٹی، انجمن، سربراہی یا خاندان ان دونوں کو جوڑ نہیں سکتے۔ چونکہ یہ ایسا گہرا تعلق ہے جس سے بڑھ کر قریب تر کوئی تعلق نہیں۔ دنیا کے ہررشتے میں سوتیلے پن کی گنجایش ہے لیکن اس میں نہیں۔ دنیا میں شاید کوئی تعلق مصنوعی پن یا جھوٹ کے سہارے چل سکتا ہو لیکن یہ تعلق بھرپور احساسات وجذبات کے بغیر ایک مُردہ جسم کی مانند بن جاتا ہے۔

  • گھر کا سکون:یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اس دنیا میں سب سے پہلے ’میاں بیوی‘ کے تعلق سے انسانی عالم کی ابتداء فرمائی ۔اس تعلق کے مقاصد اور پختگی کی کیا صورتیں ہوسکتی ہیں؟ اس حوالے سے اللہ رب العزت کلام پاک میں ارشاد فرماتے ہیں:

وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْہَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً۝۰ۭ (الروم۳۰:۲۱) اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم اُن کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔

اللہ رب العزت نے میاں بیوی کے تعلق کو سکون کے خزانے کی چابی قرار دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ سکون کا اصل مرکز انسان کا اپنا گھر ہونا چاہیے جہاں وہ اپنے بیوی بچوں کا چہرہ دیکھ کر سکون پاسکے لیکن اگر گھر میں سکون کی فضا نہ رہے اور گھر اینٹ پتھر اور فقط نقش ونگار کی آرایش سے مزین ہو تو وہ گھر گھر نہیں بلکہ ’ڈپریشن کا مرکز‘ بن جاتا ہے۔ پھر ہرکوئی ہوٹل ، کلب ، دوست یار، تفریح اور دیگر مصنوعی سرگرمیوں کے نام سے سکون کی تلاش میں فرار ہونے کی ناکام کوشش کرتا ہے ۔ کیونکہ جس کسی کو اپنے گھر میں سکون نہیں مل سکتا تو دنیا کے کسی کونے میں بھی وہ پُرسکون نہیں رہ سکتا۔

گھر کا یہ سکون کس طرح بحال ہوجائے؟ اس حوالے سے چند امور پیش نظر رکھنا لازمی ہے۔ ان میں سے کچھ کا تعلق مرد کی ذمہ داریوں سے ہے اور کچھ کا تعلق عورت کی ذمہ داریوں سے۔

  • زوجین کا رشتہ قرآن کی روشنی میں: اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ  لِبَاسٌ لَّھُنَّ  ط  (البقرہ۲:۱۸۷ ) وہ تمھارے لیے لباس کی مانند ہیں اور تم ان کے لیے لباس کی مانند ہو۔

اللہ ربّ العزت نے اس تعلق کو ایک انتہائی بلیغ تشبیہہ دے کر بات کو سمجھایا ہے کہ میاں بیوی فقط رسمی تعلق کا نام نہیں بلکہ لباس سے تشبیہ دے کر سمجھایا ہے۔ لباس انسانی بدن کے لیے کئی اعتبار سے اہم ہے، مثلاً ستر، عزت، تحفظ، زینت، صحت، تہذیب وغیرہ۔ جس طرح لباس ہماری سترپوشی کا ذریعہ ہے، یہ رشتہ بھی ہمارے عیوب کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ جس طرح لباس کی زینت عزت بخشتی ہے، ایسے ہی یہ رشتہ عزت افزائی کا ذریعہ ہے۔ جس طرح لباس ہمیں سردی گرمی سے محفوظ رکھتا ہے، اسی طرح لباس بھی ہمارے تحفظ کا ذریعہ ہے۔ ٹھیک اسی طرح میاں بیوی کا معاملہ ہے۔ ان کی عزت و ذلت، احترام اور مقام و مرتبہ، ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔    ان دونوں میں ہر ایک کے ذمّے ہے کہ وہ اپنے رشتے کو حادثات اور آفات سے بچا بچا کر رکھے۔

لباس سے متعلق ایک اہم بات یہ ہے کہ ہمارے لباس پر اگر راہ چلتے کوئی کیچڑ ،گندگی یا داغ لگ جائے تو ہم افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور اسے پھینکنے، پھاڑنے یا اس حصے کو کاٹنے کی بجائے بہت خیال کے ساتھ فوری طور پر صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹھیک یہی معاملہ  میاں بیوی کے تعلق کا ہے کہ انسانی فطرت کے سبب اگر کوئی اَن بن ، جھگڑا، اختلاف یا ناراضگی ہوجائے تو ان کو اپنے گھر کا خیال رکھتے ہوئے اس اختلاف کو فوری سمیٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

درحقیقت یہ رشتہ ذمہ داریوں کی تقسیم کا معاملہ ہے ۔ اس میں کسی ایک کو مکمل قصور وار ٹھیرانا حماقت ہے ۔ انسان خطا کا پتلا ہے اور انسان کا نام ہی نسیان سے ماخوذ ہے ۔ جس کا مطلب اس کی فطرت میں بھلکڑ پن اور غلطیاں کرنا شامل ہے۔ لہٰذا جس طرح شوہر ایک انسان ہے اسی طرح بیوی بھی ایک انسان ہے اور انسان ہونے کے ناطے دونوں کو اپنی کارکردگی پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ اور فقہ اسلامی کے ماہر فقہا نے دونوں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔

شکایات کا حل: اس ضمن میں سب سے پہلی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ ہر جوڑا شکایات کی ایک طویل فہرست ذہن میں لیے پھرتا ہے اور جہاں کہیں موقع ملتا ہے شکایات سنانا شروع کردیتا ہے۔ جس میں رشتہ ٹھیک جگہ نہ ہونا، خدمت میں کوتاہی، جھگڑا ، گالم گلوچ، مارپیٹ ، طعنے، رہایش، والدین، گھر والے، غرض ہر طرح کی شکایتیں سننے کو ملتی ہیں۔ ان تمام کے بعد ایک بہت بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اتنی خرابیاں سامنے آجانے کے بعد آپ کس صورتِ حال تک پہنچتے ہیں؟ آیا آپ نے ان خرابیوں کی وجہ سے یہ رشتہ ختم کرنا ہے ؟ اگر ہاں تو شریعت نے ہر دو کو یہ موقع دیا ہے تاکہ کوئی انسان فضول میں اپنی مختصر زندگی کا سکون غارت نہ کرے بلکہ خلع یا طلاق کے اختیارات استعمال کرکے علیحدہ ہوجائے اور اپنی نئی زندگی شروع کرے۔

لیکن حیرت انگیز طور پر اکثریت اس اختیار کو استعمال کرنے کا نہیں سوچتی بلکہ ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ جوڑا ایک دوسرے کے ساتھ رہنے میں دل چسپی رکھتا ہے ۔ اب اس موقع پر یہ بات بہت اہم ہے کہ جب آپ نے ساتھ ہی رہنا ہے تو شکایات و اعتراضات کا بھاری بوجھ اٹھانے کے بجائے معاملات کو حل کرنے والی گفتگو کی طرف آئیں۔ آپ اعتراض نہ کریں بلکہ سوال کریں کہ میرا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ میں کیسے اپنے شوہر کے ساتھ اچھی زندگی گزار سکوںگی؟ میں کیسے اپنی بیوی کے ساتھ پرسکون رہ سکوںگا؟ لہٰذا یہ پہلو واضح ہوا کہ وقت بے وقت، موقع بے موقع شکایتوں سے فقط غیبت ، حسد، بہتان ،گالم گلوچ، اور فتنہ وفساد کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا بلکہ قوت ِ فیصلہ کو استعمال میں لاتے ہوئے مسائل کے حل کی طرف آنے کی ضرورت ہے۔

 بیوی کی ذمہ داریاں

سب سے پہلے ان امور کو سمجھنے کی ضرورت ہے جن کا تعلق بیوی سے ہے:

  • عورت اور امور خانہ داری: بیوی کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر اور بچوں کی تربیت کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے اور اپنی تمام تر صلاحیتیں اپنے گھر کو جنت بنانے میں صرف کرے۔ ایک خاتون کو اپنے گھر کو جنت بنانے کے لیے کسی بڑے ساز وسامان کی ضرورت نہیں ہے بلکہ فقروفاقہ کی عین چوٹیوں میں رہ کر بھی یہ سب ممکن ہے۔

اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ بیوی خاتون خانہ بنے شمعِ محفل نہ بنے ، لیکن آج یہ بات سمجھنا ذرا مشکل ہوگیا ہے ۔ کیونکہ لڑکیاں بھی اعلیٰ تعلیم کے حصول میں پیش پیش ہیں اور ڈاکٹر، انجینئر، افسر لڑکیاں عام نظر آتی ہیں۔ ایک اعلیٰ تعلیم سے آراستہ لڑکی سے جب یہ کہا جاتا ہے کہ  آپ اپنے گھر پر زیادہ توجہ دیں تو ان کو یہ مشورہ دینے والا تنگ نظر دکھائی دیتا ہے۔

لڑکیاں تعلیم ضرور حاصل کریں اور ایسے شعبوں میں جہاں خواتین ماہرین کی ضرورت ہے وہاں اپنی خدمات پیش کریں لیکن وہ ایک استثنائی صورت ہے۔ عام حالات میں میاں بیوی دونوں اپنی معاشی مصروفیات کے سبب اپنے گھر اور بچوں کا ٹھیک خیال نہیں رکھ پاتے اور ایک ماسی رکھ کر کام چلایا جاتا ہے جس کے اپنے ہاتھ کے کھانوں میں نہ خلوص کا جذبہ ہے نہ اس کی تربیت ہی میں ماں کی ممتا ہے بلکہ وہ تو ایک ملازمہ ہے۔

گھر داری بظاہر ایک معمولی سا عنوان ہے لیکن درحقیقت یہ ایک طویل جدوجہد کا نام ہے جس کے اثرات نسلوں تک جا پہنچتے ہیں۔ مشہور ہے کہ ایک خاتون نے ایک عالم دین سے پوچھا کہ جتنے بھی انبیا ؑ آئے ہیں سب مرد ہیں۔ اللہ نے عورتوں کو نبی بناکر کیوں نہیں بھیجا؟ جواب میں عرض کیا کہ عورتیں نبی بن کر نہیں آئیں لیکن انبیا ؑ کو جنم دینے کا سہرا انہی خواتین کے سر ہے۔

  • خواتین کے لیے نبوی ؐ لائحہ عمل:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں بیویوں کو مختصر مگر ایک جامع نصاب کی طرح ان کی ذمہ داریاں بتائی گئی ہیں، فرمایا:

المرأۃُ اِذَا صلّٰتِ خَمْسَھَا وَصَامَتْ شَھْرَھَا وَحَفِظَتْ فَرْجَھَا وَاَطَاعَتْ بَعْلَھَا فَلْتَدْخُل مِنْ اَیِّ اَبْوَابِ الجنَّۃِ  شَاءَتْ (المعجم الأوسط للطبرانی ، باب العین، حدیث: ۸۹۷۷) ایک بیوی جب پنج وقتہ نماز کی پابندی کرے اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنی عزّت وعصمت کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی خدمت کرے تو اس کو اجازت ہے کہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے ۔

اس حدیث میں آپؐ خواتین کی ذمہ داریاں بتارہے ہیں:۱- فرض نماز کی ادائیگی ۲-فرض روزوں کی ادائیگی ۳- عزت وعصمت کی حفاظت کرنا ۴- شوہر کی خدمت کرنا۔

       اس حدیث میں آپؐ خواتین کو ایک بہت بڑی بشارت سنارہے ہیں کہ جنت کے تمام دروازے ان کے لیے کھل جائیں گے لیکن بدلے میں مطالبہ کسی لمبی چوڑی عبادت کا نہیں کیا جارہا ہے بلکہ فقط فرائض کی ادائیگی جس میں نماز اور روزے کی فرض عبادتیں اور اپنی عصمت کی حفاظت جس میں پردہ خاص طور پر شامل ہے اور آخری اہم بات اپنے شوہر کی خدمت ہے۔ شوہر کی خدمت میں وہ تمام کام آجاتے ہیں جو ایک بیوی اپنے گھر میں انجام دیتی ہے جس میں بچوں کی پیدایش، ان کی تربیت ، باورچی خانے کا انتظام، صفائی کا انتظام وغیرہ شامل ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ جن کاموں کو خواتین خالص دنیوی یا رسمی کام سمجھتی ہیں اور ایک معمول یا عادت یا بعض اوقات مجبوری کے تحت کرتی ہیں، اس خالص دنیوی عمل کو ’دینِ اسلام‘ ایک عظیم عبادت قرار دے کر اس کے بدلے میں اتنی بڑی بشارت سنارہا ہے۔ اللہ اکبر!

اس ضمن میں ایک اہم کام خواتین کے ذمے یہ ہے کہ وہ ’شکر‘کا اہتمام کریں۔ اللہ نے ان کو بڑی قربانیاں دینے والی فطرت دی ہے ۔ لہٰذا قربانی دینے کے بعد یا خدمت میں کھپ جانے کے بعد بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے ثواب کو بچاتے ہوئے اپنے ذہن اور اپنی زبان کو شکایات پر نہ لگائیں بلکہ اللہ نے جو بھی دیا ہے اسے غنیمت جان کر اپنے گھر کو خوش حال اور پُرسکون رکھیں ورنہ وقت بے وقت کی شکایتی راگنی ایک ایسی چنگاری ہے جو پورے گھر کو آگ لگاسکتی ہے ۔

مردوں کی ذمہ داریاں

اب ہم مزید کچھ گزارشات مردوں کے حوالے سے ذکر کریں گے:

  • مزاج شناسی:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے حقوق سے متعلق جو ہدایات ہیں ان میں ایک مجموعی طرز فکر یہ ہے کہ خواتین کا مزاج سمجھا جائے اور ان سے اسی مزاج کے موافق توقعات رکھی جائیں۔ خواتین کے حوالے سے تین باتوں کا سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔   اس سے اندازہ ہوگا کہ خواتین کس مزاج کی حامل ہیں:۱- تحفظ،۲- عزت ۳-حوصلہ افزائی۔

بیوی اپنے شوہر سے بھرپور امید اور توقع رکھتی ہے کہ میری اور میرے بچوں کی مکمل ذمہ داری میرا شوہر ادا کرے گا اور وہ رہائش ، خرچ اور ضروریات کی فکر میں لگے بغیر اپنے گھر کو سنبھالتی ہے۔ اس کے لاشعور میں یہ کھٹکارہتا ہے کہ میرا اب اس دنیا میں کوئی بھی نہیں سوائے میرے شوہر کے، تبھی وہ اپنے شوہر سے بے پناہ توقع رکھتی ہے ۔ اسی وجہ سے وہ سوتن سے ڈرتی ہے کیونکہ اسے یہ خوف لاحق ہوجاتا ہے کہ وہ اس کے تحفظ میں رکاوٹ کا ذریعہ بن جائے گی۔ اسی لیے شوہر اس بات کا خاص خیال رکھے کہ وہ دوسری شادی کرنا چاہتا ہے تو شوق سے کرے اور عدل کا خیال رکھے لیکن دوسری شادی کی مصنوعی دھمکیاں نہ دے۔ اس سے نقصان کا اندیشہ ہے ۔

بیوی عزت چاہتی ہے۔ اپنی، اپنے بچوں کی، اپنے والدین وغیرہ کی اسے عزت نہ ملے تو وہ خود کو ایک ملازمہ تصور کرتی ہے اور اسے عزت مل جائے تو جان کھپا کر بھی فخر کے جذبات رکھتی ہے۔

بیوی کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے بلکہ علما فرماتے ہیں کہ عورت چاہے کسی بھی روپ میں ہو ماں، بہن ، بیٹی، یا بیوی اسے حوصلہ افزائی کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اس کی فطری چاہت ہے جسے ختم نہیں کیا جاسکتا اور اگر اسے جائز طریقے سے حوصلہ افزا جملے سننے کو نہ ملیں تو وہ بعض اوقات ناجائز حوصلہ افزائی کی طرف متوجہ ہوسکتی ہے۔ اسی لیے اس کی سلیقہ شعاری، صفائی، کھانااور خوب صورتی و خوب سیرتی کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے۔

  • گھر کا  ماحول:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارک ہے، فرمایا:

خَــیْرُکُـمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ  وَاَنَـا خَیْرُکُمْ لِأَھْلِیْ، تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تم سب میں سب سے زیادہ اچھا ہوں۔(ترمذی، ابواب المناقب عن رسول اللہ ، باب فی فضل اَزواج النبیؐ، حدیث: ۳۹۱۰)

فرمایا کہ گھر میں تندخو، سخت مزاج یا آمر بن کر نہ رہو بلکہ ان کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آؤ، اور کوئی اگر باہر کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو لیکن گھر میں برا ہے تو وہ برا ہے۔

گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک رکھیئے اور اس نیت سے رکھیے کہ یہ بھی عبادت کا حصہ ہے اور مجھے اس حسن سلوک پر نیکیاں مل رہی ہیں۔

  • اہلِ خانہ کی تربیت: اس بات کا بہت افسوس ہے کہ مرد حضرات اپنے گھر میں اچھا ماحول دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اس اچھے ماحول کی آبیاری کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتے، حالانکہ وہ اپنی کوشش سے ایک نہایت خوب صورت ماحول تشکیل دے سکتے ہیں۔

وہ اپنے گھر والوں سے کپڑے ، کھانا، صفائی اور آرام کا مطالبہ کرتا ہے لیکن نماز کے متعلق نہیں پوچھتا ۔ تلاوتِ کلامِ پاک کے متعلق نہیں پوچھتا ۔ شاپنگ کے لیے لے جاتا ہے لیکن کسی نیکی کی مجلس میں نہیں لے جاتا۔ حالانکہ اگر سب گھر والے روزانہ صرف ۱۰منٹ بھی ایک اجتماعی ماحول قائم کریں، کوئی دینی کتاب کا مطالعہ کرلیں تو اس سے حیرت انگیز فوائد دیکھنے کو ملیں گے، ان شاء اللہ۔

  • ایک اہم معاملہ: ایک اہم مگر ضروری کام مرد کے ذمے یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ کھل کر بات کرسکے اور بیوی کو کھل کر بات کرنے کا حق دے۔ اس کے اظہار بیان پر کوئی بھی پابندی نہ ہو۔ یہاں تک کہ زوجین آپس میں اس معاہدے پر عمل کریں کہ ہمارے بیچ کوئی بھی مسئلہ ہوگا ہم دیگر افراد کو بیچ میں لائے بغیر بلاتردّد اس کو ایک دوسرے سے بیان کرکے حل کریں گے ۔

عین ممکن ہے کہ مرد کو اپنی ماں ، بہن کے متعلق بہت سی تلخ باتیں سننے کو ملیں۔ وہ یہ سب یہ سوچ کر سنے کہ اس کے ذمے خدمت، رضاعت ، حمل ، تربیت کی بہت سی ذمہ داریاں ہیں اور یہ ان سب کے باوجود طعن و تشنیع کے تیر بھی کھاتی رہتی ہے، لہٰذا اس وقت میں اگر اس کے دکھ درد (اگر چہ نہ ہوں) کی نہ سنوں تو اور کون سنے گا۔

لیکن احتیاط لازم ہے کہ فقط سنے اور سنتا جائے، لیکن اس شنوائی پر کوئی بھی رد عمل کا اظہار نہ کرے ورنہ اپنی بیوی بچوں کی فکر میں وہ حدِّاعتدال سے نکل کر والدین اور بہنوں، بھائیوں کے حقوق غصب کرے گا۔ٹھیک اسی طرح اپنی والدہ محترمہ کے پاس جائے تو وہاں بھی اہلیہ کے متعلق فقط سننے پر اکتفاء کرے ، اگر رد عمل کا اظہار کرے گا تو اپنے گھر سمیت خود بھی ٹوٹ جائے گا۔

خواتین اور مردوں کے مزاج کا فرق

 ایک اہم اور آخری بات یہ ہے کہ اپنی بیوی کا مزاج سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے خواتین کے لیے ایک مقام پر ’غافلات‘ کا صیغہ ذکر کیا ہے، جب کہ مردوں میں غفلت کا مطلب لاپروائی یا اپنی ذمہ داریوں کو پورانہ کرنے والے کو ’غافل ‘کہا جاتا ہے۔ لیکن جن معنوں میں ’غافلات‘ عورتوں کے لیے قرآن میں استعمال ہوا ہے اس کا معنی ہے بھولی بھالی یا ایسی عورت جو حد درجہ ہوشیاری نہ جانتی ہو بلکہ سیدھی سادی اور انتہائی مخلص مزاج ہو۔ جسے ہر بات کی فلسفیانہ وجوہات اور تہہ میں جاکر سمجھنا نہ آتا ہو۔ اندازہ لگائیں کہ اس عورت سے جب مرد باربار یہ شکایات کرتا ہے کہ تم بات نہیں سمجھتی ؟ تمھیں عقل نہیں ہے؟ تم ایک ہی بات بار بار کیوں کہتی ہو؟ تم تو پیچھے ہی پڑگئی ہو؟ یہ سارے وہ جملے ہیں جن میں مرد اپنی بیوی سے دانش مندی کی انتہا درجہ توقعات رکھتا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس نہج پر نہیں بنایا۔ البتہ کچھ خواتین واقعی علم وعقل اور شعور و دانش کی اعلیٰ سطح پر قائم رہتی ہیں لیکن وہ ایک استثنائی صورتِ حال ہے ۔

آپؐ اپنی ازواج مطہرات کے کس قدر مزاج شناس تھے اس حوالے سے آپؐ  حضرت عائشہ ؓ سے ایک مرتبہ فرماتے ہیں کہ ’’عائشہؓ! جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو یا ناراض ہوتی ہو تو مجھے پتا چل جاتا ہے۔پوچھا: کیسے؟ ‘‘

آپؐ فرماتے ہیں: ’’جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو وربِّ محمد (محمدؐ کے رب کی قسم) اور جب تم ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو: وربِّ ابراہیم (ابراہیم کے رب کی قسم)‘‘۔

اور جواب میں اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: مَا اَھْجُرُ اِلَّا  اِسْمَکَ ، (بخاری، کتاب النکاح، باب غیرۃ النساء، ووجدُھنّ، حدیث: ۴۹۳۴) ناراضی کے عین موقع پر بھی میں فقط آپؐ کا نام چھوڑتی ہوں باقی دل میں برابر آپؐ کی محبت برقرار رہتی ہے ۔

ان گزارشات پر بالخصوص شادی سے پہلے نوجوان جوڑوں کوضرور غوروفکر کرلینا چاہیے۔

اعمال کے مختلف درجات ہیں۔ ان کے اعتبار سے ان پر حاصل ہونے والے اجروثواب یا سزا و عذاب کے درجات بھی مختلف ہیں۔ کسی نیک عمل پر بڑے اجروثواب کا وعدہ کیا گیا ہے تو  کسی پر اس سے کم تر اجروثواب کا۔اسی طرح کسی گناہ کے کام پر دردناک عذاب کی خبر دی گئی ہے تو کسی پر اس سے کم تر عذاب کی۔ لیکن یہ بڑی نادانی کی بات ہوگی کہ کم تر اجروثواب والے عمل کو معمولی اور حقیر سمجھ کر اس پر توجہ نہ دی جائے اور معمولی گناہ کو ہلکا سمجھ کر اس سے بچنے کی کوشش نہ کی جائے۔ جو عمل بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت حاصل کرلے ، وہ انسان کو روزِ قیامت سرخ رو کرسکتا ہے، خواہ وہ عام لوگوں کی نظر میں کتنا ہی معمولی اور حقیر کیوں نہ ہو۔ اور جو عمل بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہو، وہ انسان کے لیے موجب ِ ہلاکت ہوسکتا ہے خواہ وہ عام لوگوں کی نظر میں کتنا ہی معمولی اور ہلکا کیوں نہ ہو۔ احادیث میں اس پہلو پر بہت زور دیا گیا ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر صحابہ کرامؓ کو بہ تاکید نصیحت فرمائی ہے کہ وہ کسی چھوٹے سے چھوٹے نیک عمل کو معمولی سمجھ کر نظرانداز نہ کریں۔

آپؐ نے فرمایا:  لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا (مسلم، ترمذی، سنن ابی داؤد، مسنداحمد) ’’اچھے کاموں میں سے کسی کام کو ہرگز معمولی نہ سمجھو‘‘۔

عربی زبان میں یہ اسلوب اس وقت اختیار کیا جاتا ہے جب کسی چیز سے سختی سے روکنا مقصود ہو۔ اس اسلوب میں جو زور پایا جاتا ہے ، اسے زبان شناس بخوبی محسوس کرسکتے ہیں۔

آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ بطریق اجمال اس طرف توجہ دلائی بلکہ اپنے ارشادات میں ایسے متعدد کاموں کا تذکرہ کیا جنھیں عام طور سے بہت معمولی سمجھا جاتا ہے اور زور دے کر فرمایا کہ انھیں ہرگز معمولی نہ سمجھنا چاہیے۔

  • خندہ پیشانی سے پیش آنا: حضرت ابوذر غفاریؓ بڑے جلیل القدر اور قدیم الاسلام صحابی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:

لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا وَلَوْ اَنْ تَلْقٰی أخَاکَ بَوَجْہٍ طَلِقٍ (مسلم) اچھے کاموں میں سے کسی کام کو ہرگز معمولی نہ سمجھو، خواہ یہ تمھارا اپنے بھائی سے خندہ روئی کے ساتھ ملنا ہو۔

کسی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا بظاہر ایک بہت معمولی عمل ہے۔ بسااوقات ہم میں سے کسی کی بھی توجہ اس طرف نہیں جاتی۔ لیکن عملی زندگی میں اس کی بہت اہمیت ہے۔ اس کا احساس ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب ہم کسی سے گفتگو کرنا یا اس سے کچھ دریافت کرنا چاہیں اور وہ ہماری طرف التفات نہ کرے یا ترش روئی کے ساتھ جواب دے۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ اگر بات کرنے والا یا کچھ دریافت کرنے والا سماجی اعتبار سے کم مرتبے کا ہے تو جواب دینے والا اس کی طرف اس طرح متوجہ نہیں ہوتا جس طرح ہونا چاہیے اور اس کے چہرے پر وہ انبساط نہیں آتا جو مطلوب ہے۔ ایک مومن کے شایانِ شان نہیں کہ وہ اپنے کسی بھائی سے اس حال میں ملے کہ اس کے چہرے پر تکبر اور رعونت کے آثار ہوں یا وہ بالکل سپاٹ اور انبساط، محبت اور اپنائیت کے احساسات سے عاری ہو۔

حضرت ابوجری جابر بن سُلیم الھجیمیؓ بصرہ کے رہنے والے تھے۔ ایک وفد کے ساتھ  آں حضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! ہم دیہات کے رہنے والے ہیں۔ ہمیں کچھ کارآمد باتوں کی نصیحت فرمایئے۔ آپؐ نے فرمایا:

لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا وَلَو اَنْ تَفْرَغَ مِنْ دَلْوِکَ فِیْ اِنَاءِ الْمُسْتَسْقِیْ ، وَلَوْ اَنْ تَکَلَّم اَخَاکَ وَوَجْھُکَ اِلَیْہِ مُنْبَسِطٌ  (مسنداحمد، ۵؍۶۳) اچھے کاموں میں سے کسی کام کو ہرگز معمولی نہ سمجھو، خواہ یہ تمھارے اپنے ڈول سے کسی پیاسے کے برتن میں پانی انڈیلنا ہو، یا تمھارا اپنے بھائی سے خندہ روئی کے ساتھ گفتگو کرنا ہو۔

دوسری روایت میں ابتدائی الفاظ یہ ہیں: لَا تَزْھَدَنَّ فِی الْمَعْرُوْفِ (یعنی کوئی نیک کام کرنے میں بخل سے کام نہ لو)۔

اسے معمولی سمجھ کر چھوڑ نہ دو۔ اس حدیث میں آپؐ نے خندہ روئی سے ملنے کے علاوہ ایک دوسری مثال بھی دی ہے۔ کسی پیاسے کو پانی پلا دینا بظاہر بہت معمولی کام ہے۔ لیکن آپؐ نے تاکید فرمائی کہ اسے بھی انجام دینا چاہیے اور اس پر اجروثواب کی امید رکھنی چاہیے۔ اسے ہرگز معمولی نہ سمجھنا چاہیے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کی ہمدردی میں اور محض اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی میں کیا جانے والا یہ معمولی عمل بھی انسان کو جنت کا مستحق بنا سکتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ آں حضرتؐ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک کتے کو شدید پیاسا دیکھ کر ایک عورت کو ترس آیا اور اس نے اسے پانی پلا دیا۔ وہ عورت بدکار تھی۔ اللہ تعالیٰ نے (اس عمل کی وجہ سے) اس کی مغفرت کردی۔(بخاری، کتاب الانبیاء، ترجمہ مسنداحمد، ۲؍۵۰۷)

جب حیوانات کے ساتھ ہمدردی کرنے اور انھیں پانی پلانے کا یہ اجر ہے تو انسانوں کی پیاس بجھانے کا کتنا بڑا اجر ہوگا؟

ہجیمی صحابی ہی سے مروی دوسری روایت میں کسی قدر تفصیل ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اچھے کاموں کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:

لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا ، وَلَوْ اَنْ تُعْطِیَ صِلَۃَ الْحَبْلِ ، وَلَوْ اَنْ تُعْطِیَ شِسْعَ النَّعْلِ ، وَلَوْ اَنْ تُفْرِغَ مِنْ دَلْوِکَ فِیْ اِنَاءِ الْمُسْتَسْقِیْ ، وَلَوْ اَنْ تُنَحِّیَ                    الشَّیْءَ مِنْ طَرِیْقِ النَّاسِ یُؤُ؎ذِیْھِمْ ، وَلَوْ اَنْ تَلْقَی اَخَاکَ وَوَجْھُکَ اِلَیْہِ مُنْطَلِقٌ ، وَلَوْ اَنْ تَلْقَی أَخَاکَ فَتَسَلَّمَ  عَلَیْہِ ، وَلَوْ اَنْ تُؤْنِسَ الْوَحْشَانَ فِیْ الْاَرْضِ

(مسند احمد ؍۴۸۳) اچھے کاموں میں سے کسی کام کو معمولی نہ سمجھو خواہ یہ کام ہوں: کوئی چیز باندھنے کے لیے رسّی دینا، جوتے کا تسمہ دینا ، اپنے برتن سے پانی کسی پیاسے کے برتن میں انڈیلنا، راستے سے لوگوں کو تکلیف پہنچانے والی کوئی چیز ہٹادینا، اپنے بھائی سے خندہ روئی سے ملنا، ملاقات کے وقت اپنے بھائی کو سلام کرنا، بدکنے والے جانوروں کو مانوس کرنا۔

حدیث ِ بالا میں جن کاموں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ دیکھنے میں بہت معمولی ہیں۔ روزمرہ کی ضرورت کی چیز کسی کو دینا، کسی پیاسے کو پانی پلانا، کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا، خوش روئی کے ساتھ کسی سے گفتگو کرنا اور اس طرح کے دیگر کام یوں تو بہت معمولی نوعیت کے ہیں۔ اتنے معمولی کہ بسااوقات ان کی طرف ذہن بھی نہیں جاتا۔ لیکن سماجی اور اخلاقی حیثیت سے ان کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔ اس لیے انھیں نظرانداز کرنا اور خاطر میں نہ لانا درست رویہ نہیں ہے۔

سادگی سے دعوت اور معمولی تحفے کو حقیر جاننا :عموماً کسی کو دعوت اس موقعے پر دی جاتی ہے یا کسی کو کھانا اس وقت کھلایا جاتا ہے جب گھر میں معیاری اور اچھے کھانے کا اہتمام ہو، ورنہ ایسا نہیں کیا جاتا۔ اس لیے کہ کھانے کے معیار کو کھلانے والے کی سماجی حیثیت سے جوڑا جاتا ہے۔ آدمی کسی کو گھر کا عام معیار کا کھانا کھلانے میں اپنی سبکی محسوس کرتا ہے۔ اسے اندیشہ ہوتا ہے کہ کھانے والے اس کے بارے میں پتا نہیں کیا کیا باتیں بنائیں اور کیسے کیسے تبصرے کریں؟ اسی طرح جس کو دعوت دی جاتی ہے وہ بھی کھانے کے معیار کو دعوت دینے والے سے اپنے تعلق کا پیمانہ بناتا ہے۔ دعوت کا زبردست اہتمام اس کے نزدیک قربت اور تعلقِ خاطر پر دلالت کرتا ہے اور اس کا عدم اہتمام تعلقات میں سردمہری کا پتا دیتا ہے۔ یہی معاملہ تحفے کے   لین دین کا بھی ہے۔ تحفہ دینے والے اور تحفہ لینے والے، دونوں کی نظر اس کے معیار اور مالیت پر ہوتی ہے۔ قیمتی تحفے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور معمولی اور کم قیمت تحفے کو کوئی حیثیت نہیں دی جاتی۔ اللہ کے رسولؐ نے اس رجحان پر تنقید فرمائی ہے اور یہ تعلیم دی ہے کہ اصل اہمیت دعوت یا تحفے کو دینی چاہیے نہ کہ اس کے معیار کو۔ اس لیے کہ ایک دوسرے کو دعوت دینے سے تعلقِ خاطر میں اضافہ ہوتا ہے اور تحائف کا تبادلہ کرنے سے باہم محبت بڑھتی ہے۔ صحابیِ رسولؐ حضرت جابرؓ کی خدمت میں کچھ دوسرے صحابہ ملنے آئے۔ اس وقت ان کے گھر میں صرف روٹی اور سرکہ موجود تھا۔ انھوں نے وہی ان کے سامنے پیش کردیا اور کہا: میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:

نِعْمَ الْاِدَامُ اَلْخَلُّ، اِنَّہٗ ھَلَاکٌ بِالرَّجُلِ اَنْ یَدْخُلَ عَلَیْہِ النَّفَرُ مِنْ اِخْوَانِہٖ  فَیَحْتَقِرَ مَا فِی بَیْتِہٖ اَنْ یُقَدِّمَہٗ اِلَیْھِمْ ، وَھَلَاکٌ بِالْقَوْمِ اَنْ یَحْتَقِرُوْا مَا قُدِّمَ اِلَیْھِمْ (مسنداحمد، ۳؍۳۷۱) بہترین سالن سرکہ ہے۔ اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جس کے پاس اس کے کچھ بھائی آئیں تو اس وقت اس کے گھر میں جو کچھ کھانے کو موجود ہو، اسے ان کے سامنے پیش کرنے میں شرمائے اور ان لوگوں کے لیے بھی ہلاکت ہے جو اس معمولی کھانے کو، جو ان کے سامنے پیش کیا جائے، حقارت سے دیکھیں۔

ایک دوسری حدیث حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

لَو دُعِیْتُ اِلٰی ذِ رَاعٍ اَوْ کُرَاعٍ لَأَجَبْتُ ، وَلَوْ أُھدِیَ اِلیَّ ذِراعٌ اَوْ کُرَاعٌ لَقَبِلْتُ (بخاری) اگر مجھے کھانے کی دعوت دی جائے تو میں قبول کرلوں گا خواہ کھانے میں دست ہو یا پائے۔ اور اگر مجھے تحفہ دیا جائے تو قبول کرلوں گا خواہ تحفہ میں دست ہو یا پائے۔

شاید عورتوں میں یہ جذبہ دوسروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ پایا جاتا ہے۔ وہ کسی کو کھانا کھلانا یا کسی کے یہاں کھانے کی کوئی چیز بھیجنا اس وقت پسند کرتی ہیں جب ان کے یہاں اہتمام ہو۔  دوسری صورت میں انھیں اپنی حیثیت مجروح ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی کے یہاں پڑوس سے کھانے کی کوئی معمولی چیز آگئی تو وہ اسے پسند نہیں کرتیں اور اس میں اپنی تحقیر محسوس کرتی ہیں۔ اسی لیے اللہ کے رسولؐ نے خاص طور سے عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کتنی ہی معمولی چیز کیوں نہ ہو، نہ اسے رشتے داروں اور پڑوسیوں کے یہاں بھیجنے میں شرمانا چاہیے اور نہ جس کے یہاں وہ بھیجی گئی ہو، اسے اس کو حقارت کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:

یَانِسَاءَ الْمُسْلِمَاتِ! لَا تَحْقِرَنَّ جَارَۃٌ لِجَارَتِھَا وَلَوْ فِرْسِنَ شَاۃٍ (مسلم)      اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کو حقارت سے نہ دیکھے خواہ تحفہ میں بھیجی جانے والی چیز بکری کا کھُر ہو۔

اسی مضمون کی ایک حدیث عمرو بن معاذ الاشہلی کی دادی (حضرت حواء بنت یزید بن سنان الانصاریہؓ) کے واسطے سے مروی ہے جس میں ’محرق‘ کا اضافہ ہے (مسنداحمد، ۶؍۴۳۵)، یعنی اگر کوئی بکری کا جلا ہوا کھُر بھی دے تو اسے حقیر نہ سمجھو۔

  • معمولی اور حقیر گناہ موجبِ ہلاکت: احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اچھے کاموں میں سے کسی کام کو حقیر اور معمولی سمجھ کر اسے ترک نہیں کرنا چاہیے اسی طرح بُرے اور گناہ کے کاموں میں سے بھی کسی کام کو معمولی سمجھ کر اس کے ارتکاب پر جری نہیں ہونا چاہیے۔ بُرا کام بُرا ہے خواہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ جس طرح قطرہ قطرہ مل کر دریا اور رائی کا ایک ایک دانہ جمع ہوکر پہاڑ بن جاتا ہے اسی طرح اگر انسان معمولی گناہوں سے شعوری طور پر بچنے کی کوشش نہ کرے تو معمولی معمولی بہت سے گناہ اکٹھا ہوکر اس کے لیے موجب ِہلاکت بن جائیں گے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اِیَّاکُمْ وَمُحَقَّرَاتِ الذُّنُوْبِ فِاِنَّھُنَّ یَجْتَمِعْنَ عَلَی الرَّجُلِ حَتّٰی یُھْلِکْنَہٗ (مسنداحمد، ۱؍۴۰۲-۴۰۳) معمولی گناہوں سے بچو، اس لیے کہ وہ اکٹھا ہوکر انسان کے لیے موجب ہلاکت بن سکتے ہیں۔

اسی بات کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تمثیل کے ذریعے سمجھایا ہے کہ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کچھ لوگ ایک بیابان میں ٹھیرے۔ وہاں انھیں کھانا پکانے کے لیے ایندھن کی ضرورت پڑی۔ تمام لوگ منتشر ہوگئے اور ایک ایک آدمی ایک ایک لکڑی لے آیا۔ اس طرح انھوں نے ڈھیر سا ایندھن اکٹھا کرلیا اور اس کے ذریعے کھانا تیار کرلیا۔ اسی طرح کہنے کو تو ایک بہت معمولی سا گناہ ہوتا ہے لیکن ایک ایک کرکے انسان بہت سے گناہوں میں لت پت ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہلاکت اور خسران اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ (مسنداحمد، ۱؍۴۰۲- ۴۰۳، ۵؍۳۳۱)

دنیا کی کوئی معمولی سے معمولی چیز بھی اللہ تعالیٰ کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ انسان جو کچھ یہاں کرتا ہے ، سب اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہے اور اس کے مقرر کردہ فرشتے اسے نوٹ کرتے رہتے ہیں:

وَّ لَاتَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیْکُمْ شُھُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ ط وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّکَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآئِ وَلَآ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِکَ وَ لَآ اَکْبَرَ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ o (یونس۱۰: ۶۱) اور لوگو، تم بھی جو کچھ کرتے ہو، اس سب کے دوران میں ہم تم کو دیکھتے رہتے ہیں۔ کوئی ذرہ برابر چیز آسمان اور زمین میں ایسی نہیں ہے، نہ چھوٹی نہ بڑی، جو تیرے رب کی نظر سے پوشیدہ ہو اور ایک صاف دفتر میں درج نہ ہو۔( مزید دیکھیے، السبا۳۴ :۳)

قیامت کے دن بارگاہِ الٰہی میں انسان کا نامۂ اعمال اس کے سامنے پیش کیا جائے گا تو وہ دیکھے گا کہ اس کا معمولی سے معمولی عمل بھی خواہ وہ نیکی کا ہو یا گناہ کا، اس میں درج ہوگا اور اس کے مطابق اس کے ساتھ برتائو کیا جائے گا:

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ o وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ o (الزلزال ۹۹:۷-۸) پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی، وہ اس کو دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی، وہ اس کو دیکھ لے گا۔

اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کو معمولی معمولی گناہوں سے بھی بچنے کی تاکید فرمایا کرتے تھے اور انھیں ہوشیار کرتے تھے کہ بارگاہِ الٰہی میں ان کا بھی حساب دینا ہوگا۔  اُم المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

یَاعَائِشَۃُ! اِیَّاکِ وَمُحَقَّرَاتِ الذُّنُوْبِ ، فَاِنَّ لَھَا مِنَ اللہِ عَزَّوَجَلَّ طَالِبًا (مسنداحمد ، ۶؍۷۰، سنن ابن ماجہ) اے عائشہ! معمولی گناہوں سے بچو، اس لیے کہ اللہ کے یہاں ان کا بھی حساب ہوگا۔

مسند احمد کی ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہؓ کو برابر اس کی تاکید فرماتے رہتے تھے۔

شیطان انسانوں کو بہکانے کے لیے اسی چور دروازے کا سہارا لیتا ہے۔ وہ ان کے سامنے بظاہر معمولی گناہوں کو ہلکا کرکے پیش کرتا ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ ان سے بچنا کسی انسان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اچھے اچھے لوگ آسانی سے اس کے اس بہکاوے میں آجاتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعے پر اپنی اُمت کو جہاں بہت سی چیزوں کی تعلیم دی تھی اور بہت سے معاملات میں انھیں متنبہ کیا تھا، وہاں آپؐ نے اس پہلو سے بھی ان کی رہنمائی فرمائی اور شیطان کے اس ہتھکنڈے سے انھیں ہوشیار کیا تھا۔ حضرت عمرو بن الاحوصؓ سے روایت ہے کہ آں حضرتؐ نے ارشاد فرمایا:

اَ لَا وَ اِنَّ  الشَّیْطٰنَ قَدْ  أَیِسَ اَنْ یُعْبَدَ فِیْ بِلَادِکُمْ ھٰذِہٖ اَبَدًا ، وَلٰکِنْ سَتَکُوْنُ لَہٗ طَاعَۃٌ فِیْمَا تَحْتَقِرُوْنَ مِنْ اَعْمَالِکُمْ فَسَیَرْضٰی بِہٖ (ترمذی، ابواب الفتن،               باب ماجاء فی تحریم الدماء والاموال، مسند احمد ،۲؍۳۶۸) خبردار! شیطان اس سے تو مایوس ہوچکا ہے کہ تمھارے اس علاقے میں اس کی پرستش کی جائے گی لیکن اس کا اندیشہ ہے کہ جن کاموں کو تم بہت معمولی سمجھتے ہو، ان میں اس کی اطاعت کرو گے اور وہ اسی سے خوش رہے گا۔

علما نے لکھا ہے کہ صغیرہ گناہ اگر کثرت سے اور بار بار کیے جائیں تو وہ کبیرہ گناہ بن جاتے ہیں۔ محدث ابن بطال فرماتے ہیں:

اَلْمُحَقَّـــرَاتُ اِذَا کَثُرَتْ صَارَتْ کِبَارًا مَعَ الْاِصْرَارِ (فتح الباری، ابن حجر عسقلانی، دارالمعرفۃ، بیروت،۱۱؍۳۳۰ ) یعنی معمولی گناہ جب بہت زیادہ ہوجائیں اور انھیں بار بار کیا جائے تو وہ کبیرہ گناہ بن جاتے ہیں۔

حضرات صحابہ کرامؓ اس معاملے میں بہت زیادہ محتاط رہتے تھے۔ وہ جتنی اہمیت کبیرہ گناہوں کو دیتے تھے اور ان سے بچنے کی کوشش کرتے تھے اتنی ہی اہمیت صغیرہ گناہوں کو دیتے تھے اور انھیں بھی موجب ِ ہلاکت و خسران تصور کرتے تھے اور شعوری طور پر ان سے بچنے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ حضرت انس بن مالکؓ نے اپنے شاگردوں میں جب اس معاملے میں تساہل دیکھا تو انھیں ٹوکتے ہوئے فرمایا:

اِنَّکُمْ لَتَعْمَلُوْنَ اَعْمَالًا ھِیَ اَدَقُّ فِیْ أَعْیُنِکُمْ مِنَ الشَّعْرِ ، اِنْ کُنَّا نَعُدُّھَا عَلٰی عَھْدِ النَّبِیِّ مِنَ الْمُوْبِقَاتِ (بخاری) تم لوگ ایسے کام کرتے ہو جو تمھاری نگاہوں میں بال سے زیادہ باریک ہیں (یعنی تم انھیں بہت معمولی سمجھتے ہو) لیکن ہم نبیؐ کے عہد میں انھیں موجب ِ ہلاکت تصور کرتے تھے۔

کامیاب انسان وہ ہے جو گناہوں کو صغیرہ اور کبیرہ کے خانوں میں تقسیم کر کے صغیرہ گناہوں کے معاملے میں ڈھیل نہ اختیار کرے بلکہ گناہ کے ہرکام سے بچنے کی کوشش کرے، چاہے وہ بڑے سے بڑا گناہ ہو یا چھوٹے سے چھوٹا۔ اور نیکی کے ہرکام کی طرف لپکے، چاہے وہ بڑے سے بڑا کام ہو یا معمولی سے معمولی کام۔