اسلامی معاشرت


تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

اقبال کی یہ پیش گوئی جدید مغربی تہذیب کے جن شعبوں میں پوری ہوتی ہوئی صاف نظر آرہی ہے ،اُن میں خاندان کا شعبہ سر فہرست ہے۔گذشتہ صدی کے وسط میں ساری مغربی دنیا میں اور ان کی نو آبادیات میں جدید نظریات کا غلغلہ تھا۔ لبرل مکتب فکر، مغربی دنیا کا مقبول ترین مکتب فکر تھا۔ اس نے خاندان کے بارے میں یہ تصور پیش کیا کہ یہ ’’پدر شاہی ‘‘ (Patriarchal) ادارہ  ہے اور اس کا اصل مقصد عورت کا استحصا ل کرنا ہے‘‘۔مارکسی مفکرین نے اور آگے بڑھ کر کہا کہ ’’یہ بورژوا طبقہ کا ایک استحصالی آلہ کار ہے اور خاندان کے ادارے کا بنیادی مقصد دولت کی تقسیم کو روکنا اور بورژوا طبقے کی طاقت کو استحکام بخشنا ہے‘‘۔

ان سرگرم کار تصورات نے یہ یقین پیدا کیا کہ خاندان کی انسان کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ پہلے مرحلے میں شادی کے بغیر جنسی زندگی کا رواج شروع ہوا۔ میاں بیوی کی جگہ بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ نے لے لی ۔ بغیر شادی کے اور بغیر کسی طویل مدتی عہدنامےکے، ساتھ رہنے کا سلسلہ چل پڑا۔ جنسی آوارگی عام ہوگئی اور خاندانی ادارہ تیزی سے معاشرے سے غائب ہونے لگا۔

دوسرے مرحلے میں کج روی پر مشتمل جنسی رجحانات کی نئی اقسام کا تصور عام ہوا۔ فلسفیوں نے اسے انصاف اور مساوات کے تصور سے جوڑ ڈالا۔کسی نے اسے ’صنفی انقلاب‘ کا نام دیا اور کسی نے کہا کہ: ’’جنسی تعلق مرد اور عورت کے درمیان ہی ہو، یہ ضروری نہیں ہے۔ فطرت نے کئی طرح کے جنسی جذبے پیدا کیے ہیں۔مرد اور مرد یا عورت اور عورت مل کر ہم جنسی خاندان بھی بناسکتے ہیں‘‘۔ کہا گیا کہ ’’یہ جذبات بھی فطری ہیں اور ایسے جذبات رکھنے والے اگرچہ جنسی اقلیت ہیں مگر ان کے حقوق کا تحفظ عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ ہم جنسیت کے خلاف کچھ بولنا یہ ظلم کی تائید اور ظلم کی راہ ہموار کرنا ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔چنانچہ تمام مغربی معاشروں میں اور اس کے بعد مشرقی معاشروں میں ہم جنس جوڑے عام ہوگئے۔ کئی ملکوں میں ان کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہوگیا۔

تیسرے مرحلے میں مشینوں اور جنسی مصنوعات کے ساتھ صنفی تعلق کی ہمت افزائی کی جارہی ہے اور ایسے کھلونوں اور روبوٹوں کی یہ صنعت اب پچاس ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ گئی ہے جس میں ۳۰فی صد سالانہ کی رفتار سے ترقی ہورہی ہے۔ ایسے جنسی روبوٹ (sexbot) تیزی سے عام کیے جارہے ہیں، جو شوہر یا بیوی کا کردار ادا کرسکیں۔

ان سب بے ہودہ تصورات اور رواجوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ خاندانی نظام پوری طرح تباہ ہوگیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سو سالوں کے دوران میں امریکا میں شادی کی شرح میں ۶۶فی صد کمی آئی ہے۔ گویا سو سال پہلے ہر سال جتنی عورتیں شادی کرتی تھیں، آج اس کے مقابلے میں آبادی میں اضافے کے باوجود ۶۶فی صد کم عورتیں شادی کررہی ہیں۔ شادی کی عمر والے افراد میں صرف ۲۵ فی صد امریکی ہی رشتہ ازدواج میں بندھے ہوئے ہیں۔ تقریباً آدھی آبادی  ’خاندانی غلامی‘ سے ’آزاد‘ ہے۔ ۲۵فی صد بچے ’اکیلی ماں‘ کے ساتھ رہ رہے ہیں اور ان میں سے اکثر کے باپ کا تعین ممکن ہی نہیں ہے۔دوتہائی امریکی آبادی یہ تسلیم کرتی ہے کہ دو مرد یا دو عورتیں مل کر بھی فیملی بناسکتے ہیں اور بچوں کی پرورش کرسکتے ہیں۔۳۹ فی صد امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ ’’اب خاندان کا ادارہ اذکارِرفتہ (out date) اور متروک ہوتا جارہا ہے‘‘(تفصیلات دیکھیے: پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹThe Decline of Marriage and Rise of New Families)۔

ایک طرف یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف حالت یہ ہے کہ اب مغربی معاشروں میں یہ احساس بھی بڑھتا جارہا ہے کہ ’’خاندان کا تحفظ نہایت ضروری ہے اور خاندان کا بحران ایک بڑا سماجی بحران ہے‘‘۔محولہ بالا سروے میں ۹۶ فی صد امریکیوں نے کہا کہ ’’خاندان کی زندگی میں غیر معمولی اہمیت ہے۔ قدروں کے عالمی سروے (World Values Survey) کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ساری مغربی دنیا میں اب بہت بھاری اکثریت خاندان کی ضرورت او راہمیت کو محسوس کرنے لگی ہے۔ ایسا سوچنے والوں کی تعداد سال بہ سال بڑھتی جارہی ہے۔

چنانچہ اب امریکا کے صدارتی انتخابات میں جن موضوعات پر بحثیں ہوتی ہیں ان میں خاندان اور خاندانی قدروں کا موضوع بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ یورپ کے کئی ملکوں میں بھی یہی رجحان پایا جاتا ہے۔ آسٹریلیا میں تو ایک سیاسی جماعت اسی نعرہ کے ساتھ وجود میں آئی تھی اور اس کا نام ہی ’فیملی فرسٹ پارٹی‘ تھا۔ اسی نام سے یہ پارٹی گذشتہ پندرہ سالوں سے الیکشن لڑتی رہی اور اپنے نمایندوں کو منتخب کراتی رہی۔ تاہم اپریل ۲۰۱۷ء میں یہ پارٹی ایک اور پارٹی میں ضم ہوگئی۔

        امریکا کا مشہور دانش ور فرانسس فوکویاما، ملک کی ترقی حتیٰ کہ معاشی ترقی کے لیے بھی ایک چیز کو ضروری قرار دیتا ہے، اور اس کو وہ سماجی سرمایہ (Social Capital) قرار دیتا ہے۔ اس سرمایہ کی ضرورتوں میں خاندانی قدروں کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔

مختصر یہ کہ اب مغرب کا انسان خاندانی ادارے کے انتشار سے تنگ آچکا ہے اور چاہتا ہے کہ مضبوط خاندان کی بنیادیں دوبارہ بحال ہوں، لیکن جو طرز زندگی، جو اخلاقی تصورات اور جو سماجی روایات اب وہاں عام ہوچکی ہیں، ان کے پیش نظر اب واپسی کا امکان باقی نہیں رہا۔

اب یہ مریضانہ معاملہ صرف مغربی معاشروں تک محدود نہیں ہے۔ جاپان میں گذشتہ عشرے میں طلاق کی شرح میں ۶۶فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اور وہاں کے مزدوروں میں ’اکیلی ماں‘ کا تناسب ۸۵فی صد ہے۔چین میں بھی خاندانی نظام تیزی سے زوال کا شکار ہے۔چلی میں ۷۰فی صد اور میکسیکو میں ۶۸فی صد بچے غیر شادی شدہ پیدا ہوئے ہیں۔ یہی صورت حال اسٹونیا، بلغاریہ جیسے ملکوں کی ہے۔ بھارت کے شہری علاقوں میں بھی ہم جنس خاندانوں اور طلاق کی شرح تیزی سے ’ترقی کی منازل‘ طے کررہی ہے۔

اس طرح سنجیدہ جائزہ اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ خاندان کا نظام، مغربی دنیا میں زوال پذیر ہونے کے بعد اب تیزی سے مشرقی معاشروں میں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔ دوسری طرف جدید سرمایہ دارانہ استعمار نے اپنے مقاصد کے لیے عورت کا بدترین استحصال کیا ہے۔ یہ صورت حال بھی اب ساری دنیا میں تیزی سے عام ہوتی جارہی ہے۔اور مشرقی معاشروں میں عورت کا روایتی کردار پامال ہورہا ہے۔جدید عورت کو اب یہ بات سمجھ میں آرہی ہے۔ عورت کے وجود کے تحفظ کا اب آخری قلعہ اسلام ہی باقی رہ گیا ہے۔

       اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی قدریں، سماجی اور تاریخی روایات کی ناپائیدار بنیادوں پر نہیں کھڑی ہوئی ہیں۔ اسلام کی قدروں کی بنیاد نہایت مستحکم عقائد پر رکھی گئی ہے۔ ایک مسلمان معاشرہ خاندانی زندگی کی قدروں اور عورت کے نسوانی کردار کا تحفظ کرتا ہے تو اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہوتی کہ اس معاشرے کی قدیم روایتیں اس کا تقاضا کرتی ہیں، بلکہ اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ معاشرہ اس پر پختہ ایمان رکھتا ہے کہ یہ خدا کے احکا مات میں شامل ہیں، جن میں تبدیلی کا اسے کوئی اختیار نہیں ہے۔یہ پختہ ایمان ہی اُس بلاخیز طوفان کا مقابلہ کرسکتا ہے جو جدید مغرب کی دانش گاہوں سے اٹھا اور اب ساری دنیا کے سماجی اور خانگی ڈھانچوں کو ملیامیٹ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ خاندان اور عورت کے نسوانی وجود کی آخری پناہ گاہ، اسلام ہی ہے۔

اسلام کی یہ خصوصیت بہت سے لوگوں کے لیے زبردست کشش کا باعث ہے تو اسلام مخالف طاقتوں کے لیے اسلام سے خوف کا بھی ایک اہم سبب ہے۔مشہور نومسلم دانش ور مراد ولفریڈ ہوف مین نے اپنی کتاب Religion on the Rising:Islam in the Third Millennium میں بہت تفصیل سے واضح کیا ہے کہ ’’خاندانی نظام اور خاندانی قدریں، اسلام کی بہت بڑی قوت ہیں اور مستقبل میں یہ مغربی دنیا میں اسلام کے لیے بہت بڑی کشش پیدا کریں گی‘‘۔

ایک مشہور فیمی نسٹ دانش ور تھیریسا کوربن نے اسلام قبول کرکے حجاب اختیار کرلیا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ ’’حجاب تو استحصال اور ظلم کی علامت ہے‘‘ جس کا تھریسا نے دل چسپ جواب دیا: ’’ہاں، میں اسکارف پہنتی ہوں۔میرا اسکارف پشت پر میرے ہاتھ نہیں باندھتا۔ یہ کیسے میرے استحصال کا ذریعہ ہوسکتا ہے؟میرا اسکارف نہ دماغ میں خیالات کے داخلے میں کوئی رکاوٹ بنتا ہے اور نہ منہ سے اس کے اظہار کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ آج مجھے حیرت ہوتی ہے کہ میں ماضی میں کچھ ایسا ہی سمجھتی تھی۔میرا اسکارف البتہ مردوں کی ان ہوسناک نظروں کی راہ میں ضرور رکاوٹ بنتا ہے، جو عورت کے استحصال کی پہلی سیڑھی ہیں۔ یہ مجھے تحفظ اور احترام و عزّت عطا کرتا ہے… بلاشبہہ اسلام فیمی نسٹ تصورات سے ہم آہنگ نہیں ہے، لیکن فیمی نسٹ آئیڈیلز کی تکمیل کہیں ہوسکتی ہے تووہ صرف اسلام ہے۔ میری مراد یہ ہے کہ عورت کے وقار کی بحالی، تحفظ اور مقام‘‘۔

یہ صرف تھریسا کوربن کا ہی خیال نہیں ہے۔سفید فام عورتوں میں اب یہ تصور بہت تیزی سے عام ہوتا جارہا ہے۔ برطانیہ میں لگ بھگ ۵۰ہزار سفید فام برطانو ی ہر سال اسلام کی آغوش میں آتے ہیں۔ ان میں ۷۰فی صد خواتین ہوتی ہیں۔ ٹونی بلیر کی نسبتی بہن لارن بوتھ، بی بی سی کی نامہ نگار ایوان ریڈلی اور ایم ٹی کی میزبان کرسٹینا بیکر وغیرہ جیسی مشہور عورتیں بھی ان میں شامل ہیں۔چند سال پہلے کیمرج یونی ورسٹی کے سینٹر فار اسلامک اسٹڈیز نے ایک دلچسپ مطالعہ کیا تھا۔ اس نے نومسلم برطانوی خواتین سے یہ وجہ جاننے کی کوشش کی کہ انھوں نے اسلام کیوں قبول کیا؟ اس مطالعے کے سربراہ پروفیسر یاسر سلیمان نے برطانوی اخبار آبزرور کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:

ہم جدیدیت کے زمانے میں ہیں۔ہماری زندگیوں کا غالب ڈھانچا سیکولر ہے۔ اور اس میں اسلام کوایسے مذہب کے روپ میں دیکھا اور دکھایا جاتا ہے، جو نہایت ظالم، پرتشدداور جدید دنیا کے عقلیت پسند رویے سے غیر ہم آہنگ ہے۔ اس کے باوجود ہرسال کچھ انتہائی ذہین، کامیاب اور دل چسپ لوگ اسلام کے عقیدے میں اپنی الجھنوں اور سوالوں کا جواب پاتے ہیں اور اسلام کی آغوش میں پناہ حاصل کرتے ہیں۔ سوال کی وجہ تلاش کرنا اس مطالعے کا ایک اہم مقصد ہے۔

چنانچہ یہ تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ مکمل ہوا اور مارچ ۲۰۱۳ء میں اس کی تہلکہ خیز رپورٹ Female Perspective: Narratives of Conversion to Islamکے نام سے شائع ہوئی۔ اس میں اُن اعلی تعلیم یافتہ خواتین نے قبول اسلام کے جو اسباب بیان کیے، ا ن میں سے بیش تر کا تعلق عورت اور خاندان سے متعلق اسلام کی تعلیمات سے ہے۔ مثال کے طور پر کئی خواتین نے اسلام میں نکاح کے تصور اور بیوی کے مقام و مرتبے کو قبولِ اسلام کا ایک اہم سبب گردانا۔ شوہر اور بیوی کے درمیان فرائض و اختیارات کی تقسیم نے کئی خواتین کو اپیل کیا۔بعض خواتین حجاب کے تصور سے متاثر ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حجاب ہی اصل فیمی نسٹ علامت ہے۔ اس لیے کہ اس سے نسوانی شخصیت کا باعزّت اظہار ہوتا ہے اور معاشرہ جس طرح عورت کو جنسی علامت بنادیتا ہے، اس کا رد ہوتا ہے۔ شوہر بیوی کے حقوق کا تصور، شوہر کی خانگی ذمہ داریوں کی تفصیلات وغیرہ نے بھی کئی خواتین کو متاثر کیا۔ حیرت انگیز طور پر ان جدید اعلیٰ تعلیم یافتہ انگریز عورتوں میں ایسی عورتیں بھی تھیں، جنھیں اسلام کے تعدد ازدواج کے اصول نے متاثر کیا۔ایک خاتون نے کہا ، ’’شوہر کی دوسری بیوی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی خاندانی اور ازدواجی ذمہ داریاں آدھی ہوگئیں،جب کہ حقوق میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔میرے خیال میں یہ سودا تو عورت کے حق ہی میں ہے‘‘۔

دوسری طرف اسلام کے مخالفین، اسلام کی خاندانی زندگی کو اسلام سے خوف زدہ کرنے کے خبط میں مبتلا ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اسلام کی ایسی طاقت ہے جس کا کوئی توڑ ان کے پاس نہیں ہے۔ڈیوڈ سیلبورن (David Selbourne)ایک مشہور ’اسلاموفوبک‘ [یعنی ’اسلام سے خوف زدہ کرنے والے‘] مصنّف ہے، اس کی کتاب Losing Battle with Islam  (اسلام سے ہاری ہوئی جنگ ) بہت مشہور ہوئی۔ اس نے دس اسباب گنائے ہیں، جن کی وجہ سے اس کے خیال میں اسلام سے جنگ جیتنا امریکا اور مغرب کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ان میں ساتواں سبب امریکا کا اخلاقی افلاس، قدروں کا بحران اور اس کے مقابلے میں اسلام کا نہایت مستحکم اخلاقی نظام ہے۔ جب وہ قدروں کی بات کرتا ہے توخاص طور پر خاندانی قدروں کو اسلام کی بڑی قوت قراردیتا ہے۔

اس بحث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا خاندانی نظام، اور عورت کو اسلام میں دیا گیا مقام، اُن امور میں شامل ہے، جن کی وجہ سے اسلام میں جدید دور کے لوگوں کو کشش محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی مخالف طاقتوں کا ایک اہم ہدف مسلمان عورت اور اسلامی خاندان ہے۔

آج ساری دنیا میں مسلمانوں کے حوالے سے جو کوششیں ہورہی ہیں، ان میں ایک اہم کوشش یہ ہے کہ مسلمان شریعت اور شریعت کے خانگی قوانین سے دست بردار ہوجائیں، یا ان میں ’اصلاحات‘ کے لیے تیار ہوجائیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے اس عظیم اثاثے کی حفاظت کریں اور اسے زیادہ سے زیادہ اسلام کے نظام رحمت کی عملی شہادت کا ذریعہ بنائیں۔

اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم خاندان کے وجود کے زبردست وکیل اور عالمی سطح پر خاندان کے طاقت ور نگہبان کے طور پر سامنے آئیں۔ خاندان کی اہمیت پر بحث میں پرزور حصہ لیں۔ کسی تذبذب اور مداہنت کے بغیر اسلام کے عائلی اور خانگی احکام کی برکتوں کو اجاگر کریں۔

اس بات کو مستحکم سائنسی اور سماجی دلائل سے ثابت کیا جائے کہ خاندان انسانی معاشرے کی ضرورت ہے اور یہ کہ خاندان کے وجود کے لیے مردو عورت کے مخصوص صنفی و سماجی کرداروں کو تسلیم کیا جائے اور اس بنیاد پر قانونی طور پر تسلیم شدہ مرد ’شوہر‘ اور عورت ’بیوی‘ مل کر اپنے بچوں کی پرورش کریں___ نام نہاد غیر روایتی خاندان سے خاندان کاکوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا۔اور خاندان کی بقا کا کوئی راستہ اسلامی اخلاقیات کے سوا ممکن نہیںہے۔پھر اس بات کی زبانی شہادت کے ساتھ ساتھ عملی شہادت بھی دیں، جو اسی وقت ممکن ہے، جب ہمارے خاندانوں میں اسلامی احکام نافذ ہوں اور ہمارے خاندان، اسلام کی رحمتوں اور ثمرات کے عملی نمونے بن جائیں۔

خاندان اور اس کے تصورات

جدیدیت اور اسلام کے تصوراتِ زندگی میں جو فرق ہے، ان میں ایک نمایاں فرق خاندان کے ادارے کے حوالے سے ہے۔ اسلام، خاندان کے ادارے کو اہمیت دیتا ہے۔صنفی عدل کے حوالے سے اسلام کے اور جدید نسائی تحریکات (Feminist Movement)کے تصورات میں جو اصل فرق ہے، اس کا تعلق درج ذیل تین سوالات سے ہے:

       ۱-    مرد اور عورت مل کر ایک خاندان بنائیں، کیا یہ ایک تمدنی ضرورت ہے؟ کیا بچوں کا یہ حق ہے یا نہیں کہ انھیں پرورش کے لیے ایک شفیق خاندان کا آسرا میسرہو؟

       ۲-    کیا خواتین کا علیحدہ تشخص ہے یا نہیں؟ کیا صنفی فرق صرف جسمانی ساخت کا فرق ہے یا سماجی اور نفسیاتی سطحوں پر بھی مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق پایا جاتا ہے؟ یعنی کیا دونوںکی صورت حا ل ایک جیسی ہے یا الگ الگ ہے؟

       ۳-    اگر خاندان کی ضرورت ہے تو وہ کیسے چلے؟ اس میں مرد اور عورت کا الگ الگ کردار اور ذمہ داریاں ہوں یا نہ ہوں؟ کیا مرد اور عورت کے الگ الگ کردار، مصنوعی طور پر معاشرے کے پیدا کردہ ہیں یا فطری حقائق کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں؟

 بہت سے فیمی نسٹ ان سوالوں کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک خاندان ایک ’پدرشاہی‘( Patriarchal)ادارہ ہے۔ اس لیے مساوات کا تقاضا ہے کہ اسے ختم کردیا جائے۔ مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق صرف حیاتیاتی ہے، اور یہ حیاتیاتی فرق بھی ختم ہونا چاہیے‘‘۔ مشہور فرانسیسی فیمی نسٹ سیمون ڈی بوایر اپنی کتاب The Second Sex [دوسری جنس] میں عورت کے جسم اور اس کے حیاتیاتی وجود ہی کو ’’عورت کے ساتھ ناانصافی قراردیتی ہے‘‘۔ اس کے بقول چونکہ تولید کے عمل میں جن مشقتوں سے عورت کو گزرنا پڑتا ہے، اُن سے مرد نہیں گزرتا۔ اس میں مساوات کے لیے ضروری ہے کہ اس حیاتیاتی رکاوٹ پر قابو پایا جائے۔ حقیقی انصاف اس وقت ہوگا جب افراد کو اپنی جنس منتخب کرنے کا حق حاصل ہو‘‘۔

 ان معاشروں کے نزدیک: ’’ مردوں اور عورتوں کے الگ الگ سماجی رول، روایتی معاشروں کے پیدا کردہ ہیں اور روایتی سماجوں میں ہمیشہ مردوں کا تسلط رہا ہے۔ اس لیے عورتوں کے استحصال کے لیے انھوں نے یہ تصورات گھڑ رکھے ہیں۔ اول تو خاندان ضروری نہیں ہے، لیکن اگر مرد اور عورت مل کر ہی خاندان بنائیں تو اس میں مرد کا الگ رول اور عورت کا الگ رول ضروری نہیں۔ ہرکام جو مرد کرسکتا ہے، وہ عورت بھی کرسکتی ہے۔ اس لیے سماج کا پیدا کردہ ہر فرق ختم ہونا چاہیے۔ ان افکار کے نتیجے میں تشکیل پانے والا تصور یقینا اس تصور سے مختلف ہوگا جو خاندان کے ادارہ کی اہمیت اور اس کے لازمی اور فطری تقاضوں کے شعور کے نتیجے میں تشکیل پاتا ہے۔ ان ’نسائی تصورات‘ نے مغربی معاشروں میں عورتوں اور مردوں کے درمیان بظاہر غیر فطری مساوات تو قائم کردی، لیکن خاندان اور خود عورت کی ذات کو اس کے نتیجے میں پہنچنے والے نقصانات اب بہت واضح بھی ہوچکے ہیں۔

صنفی رول اورخاندان

اسلام کے مطابق مرد اور عورت کو اللہ نے الگ الگ سماجی کردار ادا کرنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ دونوں اصناف سماجی حیثیت کے لحاظ سے یقیناً برابر ہیں، لیکن ان کے جسم ، نفسیات اور معاشرتی کرداراور ذمہ داریوں میں فرق ہے۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے تکمیل کنندہ (complementary) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حیاتیاتی لحاظ سے بھی اور معاشرتی لحاظ سے بھی۔ مردعورت کے بغیر نامکمل ہے اور عورت مرد کے بغیر۔ اللہ نے ان کے درمیان حیاتیاتی فرق پیدا کیا ہے ، اس کی وجہ ہی یہ ہے کہ ان دونوں سے الگ الگ حیاتیاتی کردار اور ذمے داریاں بھی متوقع ہیں۔

نہ مرد اکیلے بچے پیدا کرسکتا ہے اور نہ بچوں کی پیدائش میں وہ کردار ادا کرسکتا ہے جو عورت کے لیے مخصوص ہے۔اسی سے خود بخود سماجی فرق واقع ہوجاتے ہیں۔ بچوں کی پرورش میں بھی بعض کردار ایک عورت ہی ادا کرسکتی ہے، مرد ادا نہیں کرسکتا۔ ماں کی کوکھ سے پیدا ہونے کی وجہ سے اور اس کا دودھ پینے کی وجہ سے جو ُانس اور قربت بچے ماں کے تئیں محسوس کرتے ہیں، وہ باپ سے نہیں کرتے۔بچوں کے باپ سے تعلق اور محبت کی نوعیت اور ماں سے تعلق کی نوعیت میں واضح فرق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان فطرت نے صرف جسمانی فرق نہیں رکھے بلکہ مزاج اور نفسیات کے بھی واضح فرق رکھے ہیں۔ عام طور پر ایک مرد، عورت سے زیادہ جسمانی طاقت رکھتا ہے۔ عام طور پر شیر خوار لڑکے بھی ٹرک اور کار کے کھلونے اٹھاتے ہیں اور شیرخوار لڑکیاں، گڑیاں اٹھاتی ہیں۔ اسکول میں لڑکے کچھ اور مضامین میں اچھے ہوتے ہیں اور لڑکیاں کچھ دوسرے مضامین میں۔ ان کے دماغ واضح طور پر ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ یہ سب حقائق اس بات کی دلیل ہیں کہ مردوں اور عورتوں میں معاشرتی کردار کے اعتبار سے بھی فرق ہے۔

جدید فیمی نسٹ تصور میں اور اسلام میں اصل فرق یہی ہے کہ اسلام کے نزدیک ’’خاندان ایک بڑی انسانی ضرورت ہے اور اس ادارہ کا تحفظ ہونا چاہیے۔ خاندان کے اس ادارہ کے تحفظ کا فطری طریقہ یہی ہے کہ مرد اور عور ت اپنے فطری دائروں میں اپنے اپنے رول ادا کریں۔دونوں کے رول چونکہ الگ الگ ہیں، اس لیے اس حوالے سے انصاف کے تقاضوں میں کچھ نہ کچھ فرق ہوگا۔ کچھ خصوصی مراعات عورت کو اس کردار کی وجہ سے حاصل ہوں گی تو کچھ اضافی اختیارات مرد کو اس کے رول کی وجہ سے۔ ماں کے حقوق باپ سے زیادہ ہیں۔ بیوی کو خصوصی معاشی مراعات حاصل ہیں۔ بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں کی پرورش کا زیادہ ثواب ہے۔دوسری طرف مرد کو  قوام کی حیثیت میں بعض اضافی اختیارات حاصل ہیں۔ اس فرق کا مقصد یہ ہے کہ دونوں اصناف اپنے اپنے دائروں میں اپنے تمدنی فرائض بہتر انجام دے سکیں اور اس کے نتیجے میں ایک خوش حال خاندان اور ایک خوش حال معاشرہ وجود میں آسکے‘‘___اسلام میں صنفی عدل کے تصور کو سمجھنے کے لیے ان بنیادی تصورات کو سمجھنا ضروری ہے اور اس فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے جو خاندان کے سلسلہ میں اسلام کے وژن میں اور جدید فیمنسٹ وژن میں پایا جاتا ہے۔

چونکہ اسلام کے نزدیک خاندان، معاشرے اور تمدن کی بنیادی ضرورت ہے، اس لیے اس ضرورت کی تکمیل کے لیے اس نے مردوں اور عورتوں کے حقوق و فرائض میں بعض فرق رکھے ہیں۔ پیدایش و رضاعت کی اہم تمدنی ضرورت کی تکمیل کے لیے عورت کو پُرمشقت مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور یہ فرق کسی معاشرے کا پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ فطری ہے۔ بچوں کی یہ ضرورت ہے اور ان کا حق ہے کہ ان کی پرورش ماں کے شفیق آنچل کے زیر سایہ ہو۔ماں سے جو قربت وہ محسوس کرتے ہیں اور جس طرح اس کا اثر قبول کرتے ہیں، اس کاتقاضا ہے کہ ان کی شخصیت ساز ی میں وہ اہم رول ادا کرے۔ خاندان کی اہم اکائی اور ادارہ کا نظم و انتظام بھی وقت اور توجہ چاہتا ہے۔ان سب ضرورتوں کی تکمیل کا کام اسلام نے عورت کے سپرد کیا ہے۔

ان کاموں میں اور اس کی جسمانی و نفسیاتی خصوصیات میں گہری مطابقت ہے ۔ یہ مطابقت سماجی اور تاریخی عوامل کی پیدا کردہ نہیں ہے، بلکہ فطرت کی پیدا کردہ ہے۔چنانچہ اسلام نے ان فرائض کی انجام دہی کے لیے عورت کو معاشی ذمہ داریوں سے فارغ رکھا ہے۔ خاندان کی کفالت شوہر کے ذمے ہے۔ بیوی اگر مال دار ہو تب بھی اس کی کفالت شوہر ہی کے ذمے ہے۔ مالی ضروریات کی تکمیل کے علاوہ بیوی کا تحفظ اور اس کی دل جوئی بھی شوہر کی ذمہ داری ہے۔ قوّام کی حیثیت سے اس کا یہ بھی فریضہ ہے کہ وہ خاندان کی تمام ذمہ داری قبول کرے اور اسے ادا کرے۔اسلام نے عورت کو معاشی مصروفیت سے منع نہیں کیا، بلکہ اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اور شریعت کے حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے، وہ معاشی مصروفیت بھی اختیار کرسکتی ہے، لیکن یہ اس کی بنیادی ذمہ داری نہیں ہے۔اس طرح اسلام کی خاندانی اسکیم میں معاشرے اور تمدن کی اہم ضروریات کا لحاظ بھی ہے اور مرد ، عورت اور بچوں کے ساتھ مکمل انصاف بھی۔

صنف کی بنیاد پریہ تقسیمِ کار، مغرب زدہ خواتین کو اس لیے کھٹکتی ہے کہ فیمی نسٹ تصورات کی ایک اہم بنیاد نسوانی شخصیت اور نسوانی رول کا استخفاف ہے۔ان کے نزدیک ہوائی جہاز میں مسافروں کی خدمت اور دفاتر استقبالیہ پر مہمانوں کی دل جوئی تو قابل احترام مصروفیت ہے، لیکن نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور خاندان جیسے بنیادی ادارے کا نظم و انصرام کوئی بڑا حقیر کام ہے۔ان تصورات نے عورت کے تشخص ، اس کے جذبات و نفسیات اور اس کے کردار کی قدر و منزلت کو اتنا گھٹا دیا کہ عورت اپنے عورت پن پر شرمندگی محسوس کرنے لگی۔ اسلام نے عورت ہی کو نہیں اس کے نسوانی وجود کو عزت و احترام بخشا ہے۔ اسلام میں عورت کو سماج میں قدر و منزلت حاصل کرنے کے لیے مرد بننا ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا خاندان کے استحکام کے لیے ناگزیر ہے کہ اسلام کا نہایت معتدل نقطۂ نظر عام کیا جائے۔

۱۹ دسمبر ۲۰۱۹ء کو چین کے شہرووہان میں’ کورونا وائرس‘ کی وبا پھوٹنے کی خبریں آئیں، جس نے اب تک تقریباً پوری دنیا کی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ ’کورونا وائرس‘ کو عالمی وبا قرار دیا جاچکا ہے، مگر بہت سے لوگ اب بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ ان میں اچھے خاصے دین دار مسلمان شامل ہیں۔ بعض حضرات احتیاطی تدابیر کو توکّل کے منافی سمجھتے ہیں۔ نیز ان کا خیال ہے کہ بیماری کا علاج کرنے سے مسلمان دائرہ متوکل سے نکل جاتا ہے۔ آئیے دیکھیں کہ اسلام کی نظروں میں ہمارے اس طرز عمل کی حیثیت کیا ہے؟ قرآن حکیم کی آیات کی روشنی میں طوفان ،آندھی، زلزلہ اور وبا جیسی آفات عذابِ الٰہی کی مختلف صورتیں ہیں، جو انسان کی سرکشی کا بدلہ ہوتی ہیں، یعنی یہ سزا انسان کے ہاتھ کی کمائی ہوتی ہے۔ عذاب یا آزمایش کا مقصد انسان کو رجوع الی اللہ کی طرف مائل کرنا ہوتا ہے، تاکہ وہ اپنے گناہوں پر نادم ہوکر توبہ کرے اور اپنے ربّ سے رجوع کرے۔ جیساکہ قرآن حکیم میں آیا ہے:

تاکہ خدا ان کو ان کے بعض عملوں کا مزہ چکھائے، عجب نہیں کہ وہ باز آجائیں۔ (الروم، ۳۰: ۴۱)

اور ہم ان کو (قیامت کے) بڑے عذاب کے سوا بھی دنیا کے عذاب کا مزہ چکھائیںگے شاید وہ باز آئیں۔ (السجدہ ۳۲:۳۱)

ہم نے ان کو عذاب میں پکڑ لیا تاکہ وہ باز آئیں۔ (الزخرف ۴۳: ۴۸)

وبا کے بارے میں اسلام کی تعلیمات بہت واضح اور روشن ہیں۔ اگر آج ’کورونا وائرس‘ کے پھوٹتے ہی ان احکام پر عمل کیا جاتاتو دنیا کتنی پریشانی سے بچ جاتی۔

۱۸ ھ میں شام میں وبا پھوٹی جو’ طاعون عمواس‘ کہلاتی ہے۔ اس وقت حضرت عمر ؓ شام کے سفر پر تھے۔ تبوک کے نزدیک’ سرغ‘ نام کے مقام پر پہنچے تو حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ ، حضرت یزید بن ابی سفیان ؓ ، حضرت شرحبیل ؓ بن حسنہ جیسے کبار صحابہ حاضر ہوئے۔ انھوں نے حضرت عمرؓ سے عرض کی کہ ’’شام میں وبا پھوٹ پڑی ہے‘‘۔ حضرت عمرؓ مخمصے میں پڑگئے کہ اب کیا کیا جائے؟ انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو حکم دیا کہ ’’مہاجرین اولین کو بلایا جائے‘‘۔ جب وہ حضرت عمر ؓ کے پاس آئے تو انھوں نے ان سے مشورہ کیا۔ انھوں نے الگ الگ رائیں دیں اور کسی ایک راے پر متفق نہ ہوسکے۔ ان میں سے بعض کی راے تھی کہ سفر جاری رکھا جائے اور بعض واپس لوٹ جانے کے حق میں تھے۔ حضرت عمر ؓ نے انھیں رخصت کیا اور انصار کو طلب کیا۔ انصار نے بھی الگ الگ رائیں دیں اور کسی راے پر متفق نہ ہوسکے۔ حضرت عمر ؓ نے انھیں بھی رخصت کیا اورحکم دیا کہ فتح مکہ میں جو مہاجرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے انھیں بلایا جائے۔ جب وہ آئے تو انھوں نے کوئی اختلاف نہیں کیا بلکہ عرض کی کہ ’’بہتر ہے کہ آپ واپس لوٹ جائیں اور ان کو خطرے میں نہ ڈالیں‘‘۔

ان کی راے سن کر حضرت عمر ؓ نے اعلان کیا کہ ہم کل صبح واپس جارہے ہیں۔ صبح لوگ جمع ہوئے تو حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ آئے اور حضرت عمر ؓسے کہا کہ’’ امیرالمومنین آپ تقدیر الٰہی سے بھاگ رہے ہیں ؟ـ‘‘جس کے جواب میں حضرت عمر ؓ نے کہا کہ’ ہاں، ہم اللہ کی ایک تقدیر سے اللہ کی دوسری تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں‘۔ حضرت عمر ؓ نے ایک مثال دی کہ ’’لوگ اپنے اونٹوں کو لے کر ایک وادی میں اُترتے ہیں، جس کا ایک کنارہ سر سبز و شاداب اور دوسرا خشک ہے۔ جو گروہ اپنے اونٹوں کو سر سبز شاداب حصے میں چرائے تو یہ تقدیر الٰہی سے ہے اور جو خشک و بنجر میں چرائے تو اس کا چرانا بھی تقدیر اِلٰہی ہی سے ہے؟ اسی اثنا میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ تشریف لائے، جو کہیں گئے ہوئے تھے اور اس موقعے پر موجو د نہ تھے۔ انھوں نے یہ ماجرا دیکھ کر کہا کہ ’’اس بارے میں میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح حکم موجود ہے۔ میں نے آپؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کسی علاقے میں وبا پھیلی ہو اور تم وہاں موجود ہو تو وہاں سے بھاگ کر نہ نکلو اور جب تم سنو کہ وبا پھیلی ہے تو اس علاقے میں مت جاؤ‘‘۔یہ حدیث سن کر حضرت عمر ؓ کو خوشی ہوئی اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے لوگوں سے کہا کہ چلو۔

حضرت عمر ؓ مدینہ واپس آئے تو حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ کو خط لکھا کہ ’’آپ سے ضروری کام ہے، مدینہ واپس آئیں‘‘۔مگر حضرت ابو عبیدہ ؓ بھانپ گئے کہ حضرت عمر ؓ انھیں شام سے نکالنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے اپنے فوجیوں کا ساتھ نہ چھوڑنے کا عذر پیش کرتے ہوئے اس حکم کی تعمیل نہیں کی اور لکھا کہ ’’میں ان حالات میں فوجیوں کو چھوڑ کر نہیں آسکتا معذور سمجھیں‘‘۔ حضرت عمرؓ نے دوسرا خط ارسال کیا کہ ’’آپ نشیبی علاقے میں ہیں۔ فوج کو پہاڑوں پر لے جائیں‘‘۔ حضرت ابو عبیدہؓ حکم کی تعمیل کرنے ہی جارہے تھے کہ ان پر وبا کا حملہ ہوا اور وہ جاں بحق ہوگئے۔ انھوں نے وفات سے پہلے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو اپنا جانشین بنایا مگر طاعون نے پہلے حضرت معاذ بن جبل ؓ کے فرزند اور پھر انھیں بھی اپنی گرفت میں لے لیا۔ دونوںاللہ کو پیارے ہوگئے۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ نے حضرت عمر و بن عاصؓ کو اپنا قائم مقام نامزد کیا۔ انھوں نے امیر ہوتے ہی مسلمانوں کے سامنے تقریر کی اور کہا کہ ’’وبا جب پھوٹتی ہے تو آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ تم لوگ الگ الگ ہوکر پہاڑوں میں چھپ جاؤ اور جانیں بچاؤ‘‘۔ یہ سن کر لوگ بھاگ بھاگ کر پہاڑوں میں جاکر چھپ گئے۔ چنانچہ بیماری کا زور کم پڑا اور کچھ دنوں کے اندر بالکل ختم ہوگیا۔

’طاعون عمواس ‘کی وبا مہینوں پھیلتی رہی۔ اکابرین صحابہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ حضرت معاذ بن جبل ؓ ، حضرت یزید بن ابی سفیان ؓ، حضرت حارث بن ہشامؓ ، حضرت سہیل بن عمروؓ، حضرت عتبہ بن سہیلؓ سمیت سیکڑوں اعیان واشراف وبا میں انتقال کرگئے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کی اولاد میں سے ۴۰؍ افراد جاں بحق ہوگئے۔ حارث بن ہشامؓ کے خاندان کے ستّر افراد میں سے صرف چار زندہ بچ گئے۔ مؤرخین کے مطابق اس وبا میں ۲۵ ہزار مسلمان شہید ہوگئے۔

 حضرت عمروبن عاصؓ کی طرف سے لوگوں کو منتشر ہونے کا حکم دینا،طبی لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی چیز کو ہم آجIsolation  یا  Social Distancing کہتے ہیں۔

ارشاد نبویؐ ہے کہ جہاں وبا ہو وہاں سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ اس میں ایک حکمت یہ ہے کہ وبا والے علاقے سے اگر لوگ باہر جائیں تو ایک تو علاقے میں افراتفری مچ جائے گی۔ تندرست لوگ وبا سے متاثر لوگوں کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے اور ان کی خبرگیری نہیں ہوگی۔ دوسرے یہ کہ وبا کے مقام سے بھاگنے والے لوگوں میں متاثرین بھی ہوں گے، جن کی وجہ سے دوسرے علاقوں کے لوگ بھی وبا کی گرفت میں آئیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’کوئی بیمار کسی تندرست شخص کے پاس ہرگز نہ جائے‘۔ نیز آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’ممرض (مرض پیدا کرنے والا مریض) تندرست کے پاس واردنہ ہو‘ ۔ ایک اور حدیث میں وباوالے علاقے سے نکلنے والے شخص کے بھاگنے کو میدان جہاد سے فرار قرار دیا گیا ہے۔ اما م غزالی ؒکے بیان کے مطابق: ’’وبا والے شہر کی متعفن ہوا سانس کے ذریعے جسم میں جاتی ہے اور دل، پھیپھڑوں اور اندورنی جسم کے پردوں پر مضر اثرات ڈالتی ہے۔ اس لیے وبا والے شہر سے نکلنے والے شخص کے بارے میں احتمال یہ ہے کہ وہ اندرونی طور پر بیماری سے متاثرہو‘‘۔ اس لیے طاعون زدہ شہر کے لوگوں کو حدیث میں تاکید کی گئی ہے کہ وہ اللہ پر توکل کرکے اسی شہر میں قیام کریں۔ اگر وہ وبا کی زد میں آکر فوت ہوجائیں تو انھیں شہید کا درجہ ملے گا۔

متعدی بیماری کے مریض سے دور رہنے میں بھی اسوہ رسولؐ موجود ہے۔ قبیلہ ثقیف کے وفد میں ایک شخص جذامی تھا ،جو بیعت کرنے کے لیے آرہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں سنا تو کہلا بھیجا کہ ’’تم وہیں سے واپس لوٹ جاؤ، ہم نے تمھاری بیعت قبول کرلی‘‘۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: ’’مجذوم سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو‘‘۔ ایک مرتبہ آپؐ نے ایک جذامی سے گفتگو فرمائی تو جذامی اور آپؐ کے درمیان ایک یا دونیزے کا فاصلہ تھا۔ ارشادات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیل کا ثمرہ تھا کہ قرون وسطیٰ کے دوران مسلمانوں نے عالم اسلام کے مختلف شہروں میں جذامیوں کے لیے نہ صرف علیحدہ ہسپتال قائم کیے تھے بلکہ انھیں شہر سے باہر علیحدہ بستیوں میں بسایا جاتا تھا ۔ ان بستیوں کو ’الحارہ‘ کہاجاتا تھا۔ ان میں بنیادی اور ضروری سہولیات میسر ہوتی تھیں۔

حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ ’’جس علاقے میں وبا پھوٹی ہو وہاں مت جاؤ‘‘۔ ایک مرفوع روایت میں آیا ہے کہ ’’وبا میں گھسے رہنا ہلاکت ہے‘‘۔ امام غزالی ؒ کا بیان ہے کہ ’’جو لوگ ابھی شہر میں داخل نہیں ہوئے ہیں، ان کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ باہر رہیں، کیوں کہ ابھی تک متعفن اور زہریلی ہوا ان پر اثر انداز نہیں ہوئی ہے‘‘۔ اما م موصوف یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’اگر شہر میں مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے کوئی نہ ہو، تو مریضوں کی اعانت کے لیے کچھ لوگوں کا شہر میں جانا مستحب قرار پاسکتا ہے‘‘۔ اس سے طبی عملے اور ان کے معاونین کی کارکردگی کا لائق تحسین ہونا معلوم ہوتا ہے۔

آفات و آلام اور بیماری سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا لازمی اور مستحسن ہے۔ قرآن حکیم نے مسلمانوں کو اپنا بچاؤکرنے کا حکم دیا ہے ، نمازِ خوف میں ہتھیاروں سے لیس رہنے کی تاکید کی ہے۔ دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے لیے ہتھیار درست اور گھوڑے تیار رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مریض اور مسافر کے لیے یا پانی نہ ملنے کی صورت تیمم کی اجازت دی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو دشمنوں کی تعاقب سے بچنے کے لیے حکم دیا کہ ’’میرے بندوں کو رات میں لے کر چل‘‘۔ اس حکم میں ایک مصلحت یہ تھی کہ دشمن کو پتا نہ لگے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کی نظروں سے بچنے کے لیے غار ثور میں پناہ لی تھی۔

اسباب کو کلی طور پر ترک کرنا تو کل نہیں ہے۔ آپ ؐ سے ایک شخص نے اونٹ کھلا چھوڑنے اور اللہ پر توکل کرنے کے بارے میں پوچھا۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ ’’اونٹ کے پاؤں میں دونا لگاؤ اور توکل کرو‘‘۔

بیماری اور علاج کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں ڈاکٹروں اور معالجوں کے لیے وافر ذخیرہ موجود ہے۔ چنانچہ ’الطب النبوی ‘  کے عنوانات سے علماے اسلام نے متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں۔ امام ابن قیم نے سیرت کی مشہور کتاب زادالمعاد  میں طب نبویؐ پر شان دار مواد جمع کیا ہے، جس میں کم و بیش ایسی دواؤں کا تذکرہ ہے۔ عہد رسالت میں حارث بن کلدہ عربوں کے مشہور طبیب تھے۔ انھوں نے’ خبدی شاپور ‘کے مدرسے میں طب کا علم حاصل کیا تھا۔ حضرت سعد بن وقاصؓ بیمار ہوئے تو آپ ؐ نے حارث بن کلدہ کو طلب فرمایا۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ نے کوئی ایسی بیماری نازل نہیں کی جس کی شفانہ ہو‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  صحابہ سے فرمایا کرتے تھے کہ ’’حارث سے علاج کراؤ‘‘۔ آپؐ نے حضرت سعد بن معاذ کی فصدکھلوائی۔ حضرت سعد بن زرارہ کو داغ لگوایا۔ حضرت علی ؓ آشوبِ چشم میں مبتلا تھے تو ان سے فرمایا کہ ’’کھجوریں نہ کھاؤ‘‘۔

آپؐ ہر شب سرمہ لگایا کرتے تھے۔ ہر ماہ پچھنے لگواتے تھے اور ہر سال سنا کاجلاب لیا کرتے تھے۔ زخم پر مٹی لگاتے تھے۔ پھنسی یا پھوڑے پر مہندی لگاتے تھے۔ سردرد میں آپؐ نے مہندی کالیپ کرایا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں حفظان صحت کے بہترین اصول و آداب موجود ہیں۔ آپؐ نے گھروں اور صحنوں کو صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا۔ راستوں سے تکلیف دہ اور گندی چیزوں کے ہٹانے کی تاکید کی ۔ آپؐ ہمیشہ مسواک کیا کرتے تھے۔ امّت کو بھی مسواک کا حکم دیا ہے۔ ایک حدیث میں ہاتھوں کی صفائی کا حکم آیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی چھینک آتی تو آپ اپنے ہاتھ یا کپڑے سے منہ ڈھانک لیتے اور آواز دھیمی کرلیتے‘‘۔

آج پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ بتارہے ہیں کہ ہاتھوں کو صابن سے دھویا کریں اور چھینکتے وقت کہنی یا کپڑے سے منہ کو ڈھکیں۔ ایک حالیہ تجزیے میں آیا ہے کہ چھینکتے وقت جو چھوٹے قطرات منہ سے نکلتے ہیں وہ آٹھ میٹر کی دوری تک دوسرے شخص کو متاثر کرسکتے ہیں۔ سنت رسولؐ  میں دنیا کے لیے کتنی بہترین رہنمائی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جیسی اہم عبادت میں بھی احوال و ظروف کا خیال فرمایا ہے۔ آپؐ کافرمان ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو اس کو ہلکی نماز پڑھانی چاہیے، کیوںکہ ان میں کمزور ، ناتواں ، بیمار اور کام والے ہوتے ہیں۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ ’’میں نماز شروع کرتا ہوں اور میرا ارادہ ہوتا ہے کہ اسے طویل کردوں ۔ پھر بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز میں تخفیف کردیتا ہوں کیونکہ مجھے وہ صدمہ معلوم ہے جو بچے کی ماں کو اس کے رونے سے ہوگا‘‘۔ آپؐ جب آسمان کے افق پر ابر دیکھتے تو کام چھوڑ دیتے اور اگر نماز میں ہوتے تو نماز کو مختصر پڑھ لیتے اور پھر دعا کرتے: ’اے اللہ، میں اس کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں‘۔

 سفر میں تاریک یا بارش والی رات مؤذن کو یہ منادی کرنے کا حکم دیتے کہ تم لوگ اپنی رہایش گاہ ہی میں نماز پڑھ لو۔ آپؐ نے مرض یا خوف کو نماز جمعہ کے لیے نہ آنے کا عذر قرار دیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے ایک دن، جب بارش ہورہی تھی، مؤذن کو حکم دیا کہ اذان میں اشھد اَن محمد الرّسول اللہ کہنے کے بعدیہ کہو: صلوافی بیوتکم (اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو)۔ لوگوں کو اس سے تعجب ہوا تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: ’’ایسا ہی اس ذات مقدس نے فرمایا ہے جو مجھ سے بہتر تھی(یعنی نبیؐ)۔ جمعہ فرض ہے اور مجھے یہ بات پسند نہ آئی کہ تمھیں گھروں سے بلالوںاور تم کیچڑ اور پھسلنے کی جگہوں سے گزر کر مسجد پہنچو‘‘۔

وباؤں کے بارے میں مؤرخین نے جو تفصیلات اپنی تواریخ میں درج کی ہیں، ان سے بھی بہت کچھ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ بعض علما نے طاعون کے موضوع پر مستقل کتابیں اور رسالے تحریر کیے ہیں۔ ایک تصنیف شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے تحریر کی ہے، جس میں انھوں نے اس ’طاعون ‘کے بارے میں جو مصر میں ۷۴۹ ھ میں پھوٹا تھا اور پھر ۸۳۳ ھ میں بھی نمودار ہوا تھا، لکھا ہے کہ قاہرہ میں جب وبا پھوٹی تو ۴۰ سے کم افراد فوت ہوئے۔ پھر لوگوں نے اجتماعی دعا اور تین دن روزہ رکھنے کا اِرادہ کیا۔ چنانچہ وہ صحرا کی طرف نکلے اور اجتماعی دعا کی۔ اجتماعی دعا کرنے کے بعد جب لوگ شہر کی طرف واپس آئے تو ہلاکتوں میں اضافہ ہوگیا اور روزانہ ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے بڑھ گئی۔ اضافہ کی وجہ یہ تھی کہ اجتماعی دعا میں جب لوگ جمع ہوئے تو تندرست اور بیمار لوگوں کا اختلاط ہوا، جس سے بیماری دوسرے لوگوں کو بھی لگ گئی تھی۔ مصر کی وبا کا تذکرہ ابن کثیرؒ نے بھی کیا ہے۔

اُوپر جس طاعون کا ذکر کیا گیا، وہی طاعون ہے جو یورپ میں ۱۳۴۸ ء میں بھی پھوٹا تھا اور جس نے نہ صرف پورے یورپ کو بلکہ مشرق وسطیٰ کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ مؤرخین کے بیان کے مطابق یورپ کی نصف آبادی اسی طاعون میں ہلاک ہوئی تھی اور۰ ۱۳۵ ء یعنی دوسال تک وبا کا زور رہا ۔ یورپ میں اسے Black Death کا نام دیا گیا ۔ مشرق وسطیٰ میں اس کے پھوٹنے کا تذکرہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒاور دوسرے مؤرخین نے کیا ہے۔ دمشق میں اس کی ہولناکیوں کے بارے میں حافظ ابن کثیر نے تفصیل دی ہے۔ یورپ کی ’کالی وبا‘ نے مشرق وسطیٰ میں جو تباہی مچائی تھی، اس کا ذکر ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامہ میں کیا ہے۔ ان کا بیان ہے کہ ’’اس وبا سے دمشق میں روزانہ دو ہزار لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے تھے اور قاہرہ اور مصر میں روزانہ ۲۴،۲۴ ہزار لوگ دنیا سے رخصت ہوتے تھے‘‘۔

کالی وبا کے زمانے ۱۳۴۸ء-۱۳۵۰ ء میں طاعون کے موضوع پر یورپ میں جو کچھ لکھا گیا ہے، اس میں دو بہترین شاہکار مسلمان حکمانے تحریر کیے ہیں۔ اہل یونان نے طاعون کو بالکل نظر انداز کردیا تھا مگر حکماے اسلام نے چیچک ، خسرہ اور طاعون کے بارے میں اپنی نادر اختراعات اور گراں قدر خیالات سے بنی نوع انسان کی رہنمائی کا کارنامہ انجام دیا۔ شیخ الرئیس حکیم بو علی سینا کو پہلی دفعہ سوجھا کہ بعض بیماریاں ایک بیمار سے دوسرے شخص کو لگتی ہیں۔ انھوں نے اس کے لیے  ایک تجربہ کیا اور ایک شخص کو چالیس دنوں کے لیے دوسرے لوگوں سے علیحدہ (Isolation)  رکھا۔ یہ تجربہ کامیاب رہا۔ بیماری قابو میں رہی۔ اسے انھوں نے ’اربعینہ ‘  کا نام دیا۔ بعد میں یہ طریقہ مسلمانوں میں عام ہوگیا۔ اٹلی کے وینس سے کچھ تاجر جب مسلمان ملکوں میں آئے، تو وہ ’اربعینہ‘ سے واقف ہوگئے۔ انھوں نے متعدی بیماری کو قابو کرنے کے لیے یہی اربعینہ (چالیس) اپنے ملک میں آزمایا اور اسے ’قرنطینہ‘ کا نام دیا، جو اربعینہ کا ترجمہ ہے ۔ شیخ الرئیس کا یہی اربعینہ آج ’قرنطینہ ‘کے نام سے پوری دنیا میں معروف اور رائج ہے۔

اوپر جن دو مسلمان حکما کے شاہکاروں کا ذکر آیا تھا، ان میں غرناطہ کے نامور حکیم اور مؤرخ لسان الدین ابن الخطیب (م: ۷۷۶ھ /۱۳۷۴ء) ہیں۔ جنھوں نے ان لوگوں کو جویہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ بیماریاں اڑکر لگتی ہیں: جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ وبائی امراض کے تعدیہ کا وجود تجربے ، مطالعہ، حواسِ خمسہ کی شہادتوںاور معتبر اطلاعات سے ثابت ہے۔ وبا کی حقیقت اس وقت واضح ہوجاتی ہے جب کوئی محقق یہ دیکھتا ہے کہ مریض کو چھونے والا خود بھی اسی مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے،جب کہ دُور رہنے والا شخص اس سے محفوظ رہتا ہے۔ نیز یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ یہ مرض بیماروں کے کپڑوں ، برتنوں اور زیوروں، کان کے آویزوں کے استعمال اور ایک گھر کے آدمیوں سے دوسرے لوگوں کو لگ گیا۔ مزید برآں طاعون زدہ علاقے سے آئے لوگ جب غیر متاثرہ بندرگاہ پر پہنچے تو وہاں بھی یہ بیماری پھیل گئی‘‘۔

وبا کے بارے میں دوسری اہم تحریر اسپین کے ابن خائمہ (م: ۷۷۱ھ ؍۱۳۶۹ء) کی ہے۔ انھوں نے طاعون کے موضوع پر ایک رسالہ لکھا ہے، جسے میکس میر ہوف (۱۸۷۴ء-۱۹۴۵ء) نے ان تمام رسالوں سے حددرجہ فائق قرار دیا ہے، جو چودھویں اور سولھویں صدی کے درمیان یورپ میں تحریر کیے گئے۔ ابن خائمہؔ نے رسالے میں لکھا ہے کہ ’’میرے طویل تجربے کا نتیجہ ہے کہ اگر کوئی کسی طاعون زدہ مریض کے ساتھ ربط رکھتا ہے، تو اسے فوراً طاعون لاحق ہوجاتا ہے اور اس میں بھی وہی علامات ظاہر ہوتی ہیں، جو پہلے مریض میں ہیں۔ اگر پہلے مریض کے تھوک میں خون آتا ہے تو دوسرے کو بھی تھوک میں خون آئے گا۔ اگر پہلے مریض کو پھوڑے نکل آئے ہوں، تو دوسرے مریض کو بھی انھی جگہوں پر پھوڑے نکل آئیں گے۔ اگر پہلے مریض کو ناسور نکل آیا ہے، تو دوسرے مریض کو بھی ناسور ہوگا اور اسی طرح دوسرا مریض بھی اس بیماری کو دوسروں تک منتقل کرے گا‘‘۔

مضمون کے خاتمے پر ۱۱۷ سالہ پرانا واقعہ سامنے آیا ہے۔ ۱۹۰۳ ء میں ڈوگرہ راج کے دوران ایک شخص راولپنڈی سے کوہالہ اور اوڑی میں تعینات اہلکاروں کو چکمہ دے کر وادیِ کشمیر میں داخل ہوا۔ یہ شخص بیماری سے متاثر تھا۔ اس کے ورود سے یہ بیماری وادیِ کشمیر میں بھی پھیل گئی۔

خلاصۂ تحریرہے کہ ’کورونا وائرس‘ کی وبا کے بارے میں آج جو احتیاطی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں، وہ اسلام ہی کی دین ہیں۔ طہارت و نظافت ، بدن کی صفائی ، چھینکتے وقت منہ کو کپڑے یا ہاتھ سے ڈھکنا، ہاتھوں کو بار بار دھونا، ملاقاتی سے کم از کم ایک میٹر دور رہنا، متاثرہ افراد سے بے تکلف ربط نہ رکھنا، دوسرے لوگوں سے سماجی دوری بنائے رکھنا ، قرنطینہ سازی ، میل جول کم کرکے گھروں میں رہنا، متاثر افراد کا دوسری جگہوں پر نہ جانا اور لوگوں سے نہ ملنا، گھروں میں توبہ و استغفار اور ذکر و اذکار اور عبادات میں مشغول رہنا: یہ سب اسلام ہی کی تعلیمات ہیں، جن پر عمل کرکے پوری انسانیت اس بیماری سے نجات پاسکتی ہے۔

کسی بھی معاشرے کو ظلم و زیادتی سے پاک کرنے، باہمی اعتماد و اعتبار اور عدل و انصاف کی فضا قائم کرنے کے لیے ایک اہم قدر امانت داری بھی ہے۔ یہ ایک ایسی بنیادی قدر ہے جسے کسی معاشرے کے ہر ایک فرد کے اندر پیدا کیے بغیر، اس معاشرے کو خوف، عدم اعتمادی، خیانت، دھوکا اور ظلم جیسی برائیوں سے پاک نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ہر دور اور ہر معاشرے میں خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب اور تہذیب سے ہو ، امانت داری کو پسند کیا گیا ہے۔ اسلام چونکہ دینِ فطرت ہے اور دنیا کو زندگی گزارنے کے لیے ایک بہتر جگہ بنانا، اس کے مقاصد میں سے ہے۔ اس لیے انسانیت کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے امانت داری کو ایک اہم مقام عطا کیا گیا ہے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت داری کو ایمان کا لازمی جزو قرار دیا ہے۔ آپؐ نے اکثر فرمایا : لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہُ وَ لَا دِیْنَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہُ (مسند احمد، حدیث: ۱۲۳۲۴، بروایت انسؓ بن مالک) ’’ اس کا کوئی ایمان نہیں جو امانت دار نہیں اور اس کا کوئی دین نہیں جو عہد کا پابند نہیں ‘‘۔ 
 قرآن کریم میں بھی امانت کی ادایگی پر سخت تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۝۰ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِہٖ ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا۝ (النساء۴:۵۸) ’’بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انھیں پہنچاؤ اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کرو، یقیناً وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمھیں اللہ کررہا ہے، بے شک اللہ سنتا ہے دیکھتا ہے‘‘۔
 نیز فرمایا:  اِنَّ  اللّٰہَ   لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ (الانفال ۸:۵۸)  ’’بے شک اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔ اس کے ساتھ ہی امانت داروں کے لیے قرآن میں جنت کی بشارت دی گئی ہے جو بڑی کامیابی کی ضمانت ہے۔ 
ارشاد ہے: وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ۝۳۲۠ۙ وَالَّذِيْنَ ہُمْ بِشَہٰدٰتِہِمْ قَاۗىِٕمُوْنَ۝۳۳۠ۙ وَالَّذِيْنَ ہُمْ عَلٰي صَلَاتِہِمْ يُحَافِظُوْنَ۝۳۴ۭ اُولٰۗىِٕكَ فِيْ جَنّٰتٍ مُّكْرَمُوْنَ۝۳۵ۭۧ (المعارج۷۰:۳۲-۳۵) ’’اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور وہ جو اپنی گواہیوں پر قائم رہنے والے ہیں، اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، یہی لوگ ( بہشت کے) باغات میں مکرم و معزز ہوں گے‘‘۔ 

ان ارشادات سے یہ پتا چلتا ہے کہ صفت امانت داری اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کتنی اہم اور پسندیدہ چیز ہے۔ لیکن دوسری اقوام کا تو کیا گلہ کیا جائے، خودمسلمانوں کے اندر اب یہ صفت عنقا ہوتی جارہی ہے۔ عوام تو عوام ، تعلیم یافتہ اور خواص کے طبقے میں بھی یہ صفت ناپید ہوتی جارہی ہے، جس کی وجہ سے پورا معاشرہ فسادات کی نذر ہو تا جارہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ جہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے حوالے سے ہماری عدم وفاداری اور اسلامی اقدار سے مجرمانہ رُوگردانی ہے، وہیں اس کی دوسری وجہ اسلامی تعلیمات سے دُوری کی وجہ سے امانت داری کا ناقص فہم و تصور بھی ہے۔ 

  •  امانت کا جامع تصور:عام طور پر امانت اس چیز کو کہتے ہیں جس کا کسی کو ذمہ دار اور امین بنایا جائے یاجس کے سلسلے میں کسی پر اعتبار کیا جائے۔ اس لیے امانت داری کے سلسلے میں لوگوں کا ذہن صرف اس طرف جاتا ہے کہ اگر کسی نے کچھ روپیہ یا مال و اسباب یا دیگر کوئی اور چیزہمارے پاس رکھ چھوڑا ہے، توہم اس کے امین ہیں اور جب وہ اسے طلب کرے تو بلاکسی کمی کے ہم اسے واپس کردیں۔ بلاشبہہ یہ بھی امانت داری ہے، لیکن اسلام میں امانت داری کا تصور یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔

 ’امانت‘ دراصل ایک وسیع مفہوم کا حامل لفظ ہے، جس کے دائرے میںاللہ کے وہ تمام حقوق بھی آتے ہیں، جو بندوں پر عائد ہیں، جیسے: نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، کفارہ، صدقات وغیرہ اور بندوں کے آپس کے وہ تمام حقوق بھی شامل ہیں، جو ایک دوسرے پر عائد ہیںجنھیں حقوق العباد کہاجاتا ہے۔ اس فکر پر سورۃ الانفال کی یہ آیت دلالت کرتی ہے: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝ (الانفال۸:۲۷)’’اے ایمان والو! خیانت نہ کرواللہ کی اور رسولؐ کی اور خیانت نہ کرو اپنی امانتوں میں، جب کہ تم جانتے ہو‘‘۔ 
یہاں اللہ اور رسولؐ کی خیانت کرنے سے باز رہنے سے مراد ان کے حقوق کو تلف کرنے سے باز رہنا ہے۔ درحقیقت انسان کامال واسباب ، اس کی صحت و تندرستی بلکہ پوری زندگی ہی اللہ کی امانت ہے کیوں کہ اللہ کا ارشاد ہے:  اِنَّ اللہَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ط (التوبۃ ۹:۱۱۱) ’’بلاشبہہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی‘‘۔ جب جان اور مال دونوںبک گئے، تواب جو یہ چیزیںہمارے پاس موجود ہیں، وہ اللہ کی امانت ہی ہوئیں اور اللہ نے اپنی عنایت سے ان میں تصرف کا اختیار دیا ہوا ہے، تو ان میں اللہ کی منشا کا خیال رکھنا واجب ہے۔

اسی طرح امانت داری کا اطلاق سیاسی اور انتظامی امور میں بھی ہے؛ ہر چھوٹا بڑا عہدہ امانت ہے اور ایک کلرک سے لے کر صدر مملکت تک ہر چھوٹے بڑے حکام، ملوک، رؤسا، وزرا، سب امانت دار ہیں۔ ان پر لازم ہے کہ جو عہدے انھوں نے اپنے ذمے لیے ہیں، ان کی ذمہ داری شریعت اسلامیہ کے دیے گئے اصولوں کی روشنی میں پوری کریں۔ ان سے عوام کے جو حقوق وابستہ ہیں، ان کا خیال رکھیں اور ان میں کسی قسم کی خیانت نہ کریں۔ ان میں جو کوئی بھی خیانت کا مرتکب ہوگا،گنہگارٹھیرے گا اور بوقت حساب پکڑا جائے گا۔ 
اسی طرح مسجدوں کے متولی، امام و مؤذن، مدرسوں کے مدرسین و مہتمم، عصری تعلیمی اداروں کے اساتذہ و سربراہان، دار القضاء کے قاضی، بیت المال کے نگران، اوقاف کے ذمہ داران، فلاحی اداروں کے سکریٹری و منتظمین، دینی و مذہبی جماعتوں کے چھوٹے بڑے عہدے دار اور شعبہ جات کے انچارج، یہ سب امانت دار ہیں۔ ان سب پر یہ لازم ہے کہ اپنے دائرۂ اختیار میں آنے والی ذمہ داریوں کو حسن و خوبی کے ساتھ ادا کریں بصورت دیگر اللہ کے سامنے جواب دہی کے لیے تیار رہیں۔

  • عہدوں کا امانت ہونا: یہ بات صرف منطقی طور پر ہی نہیں بلکہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحتاً بھی ثابت ہے۔ مشہور صحابی ابوذرؓ نے ایک بار آپؐ سے امارت (سرکاری عہدہ) کی خواہش ظاہر کی تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: یَا أَبَا ذَرٍّ اِنَّکَ ضَعِیْفٌ وَ اِنّھَا أَمَانَۃٌ وَ  اِنّھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ خِزْیٌ وَنَدَامَۃٌ اِلَّا مَنْ أَخَذَھَا بِحَقِّھَا وَ أَدَّی الَّذِی عَلَیْہِ فِیْھَا (مسلم،کتاب الامارۃ، باب کَرَاھَۃِ الْاِمَارَۃِ بِغَیْرِ ضَرُورَۃٍ، بروایت ابوذرؓ) ’’اے ابوذرؓ! تو کمزور ہے اوربلاشبہہ یہ (امارت) امانت ہے اور یہ قیامت کے دن کی رسوائی اور شرمندگی ہے سوائے اس شخص کے جس نے اس کے حقوق پورے کیے اور اس سلسلہ میں جو ذمہ داریاں اس پر عائد تھیںاس کو ادا کیا‘‘۔ 

اس حدیث میںرسول اللہﷺ نے نہ صرف عہدوں کو امانت بتایا بلکہ اس بات کی طرف اشارہ بھی دیا کہ جو شخص کسی منصب کی متعلقہ ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، اسے اس منصب سے باز رہنا چاہیے کیوں کہ آخرت میں وہ اس کی رسوائی کا سبب بن سکتا ہے۔ بروز جزا اللہ رب العزت ایک ایک عہدہ دار اور ذمہ دار سے اس کی ذمہ داریوں کے سلسلے میںحساب لینے والا ہے۔ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ، فَالْاَمِیْرُ الَّذِی عَلَی النَّاسِ رَاعٍ عَلَیْھِمْ وَ ھُوَ مَسْؤُوْلٌ  عَنْھُمْ، وَ الرَّجُلُ رَاعِی اَھْلَ بَیْتِہٖ وَھُوَ مَسْؤُوْلٌ  عَنْھُمْ، وَالْمَرْاَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی بَیْتِ بَعْلِھَا وَ وَلَدِہِ وَ ھِیَ مَسْؤُولَۃٌ عَنْھُمْ، وَ عَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلٰی مَالِ سَیِّدِہِ وَ ھُوَ مَسْؤُوْلٌ  عَنْہُ، فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ  یعنی  ’’تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میںسوال کیا جائے گا۔ لوگوں کا حکمران ان کا نگران ہے اور اس سے ان لوگوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگران ہے اس سے ان کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اورعورت اپنے شوہر کے گھر کی اور اس کی اولادکی نگران ہے اس سے ان کے بارے میںسوال کیا جائے گا، اور آدمی کا غلام( خادم) اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اس سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا، پس تم میں سے ہر ایک شخص نگران ہے اوراس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میںسوال کیا جائے گا‘‘۔ (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب ذِکْرُ الْبَیَانِ بِاَنَّ الْاِمَامَ مَسْؤُوْلٌ  عَنْ رَعِیَّتِہِ الَّتِیْ ھُوَ عَلَیْھِمْ رَاعِی، بروایت عبداللہ بن عمرؓ)
دوسری حدیث میں ان سوالات کی نوعیت کو بھی واضح کردیا گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ سَائِلٌ کُلَّ رَاعٍ عَمَّا اسْتَرْعَاہُ اَحَفَظَ اَمْ ضَیَّعَ (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب ذِکْرُ الْاِخْبَارِ بِسُؤَالِِ اللہِ جَلَّ وَ عَلَاَ کُلَّ مَنِ اسْتَرْعَی رَعِیَّۃً عَنْ رَعِیَّتِہِ ، بروایت انسؓ) ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر نگران سے اس کی نگرانی کے بارے میں سوال کرے گا کہ کیا اس نے اس کی حفاظت کی ہے یا اسے ضائع کردیا ہے؟‘‘۔ 

  • اسلامی اور غیراسلامی نظامِ حکومت میں امتیاز:معاشرتی، سیاسی اور انتظامی اُمور میں امانت داری کا یہی وہ تصور ہے، جو اسلامی اور غیر اسلامی معاشرت و نظام حکومت میں امتیاز پیدا کرتا ہے۔ اسلامی نظام میں جہاں عہدے اور ذمہ داریاں امانت تصور کیے جاتے ہیں، وہیں غیر اسلامی نظام میں انھیں مراعات (Privilege) سمجھا جاتا ہے، جو خدا کے سامنے جواب دہی کا تصور نہ ہونے کی وجہ سے لازماً خیانت کی طرف لے جاتا ہے۔ حکومتی عہدوں میں رہ کر جو لوگ عدل و انصاف کا معاملہ نہیں کرتے، عوام کے جو حقوق ان سے وابستہ ہیں انھیں ادا نہیں کرتے اور ان کے ساتھ احسان و خیرخواہی کا معاملہ نہیں کرتے ان کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بہت سخت ہیں۔ 

آپؐ نے فرمایا: مَا مِنْ عَبْدٍ اسْتَرْعَاہُ اللّٰہُ رَعِیَّۃً فَلَمْ یَحُطْھَا بِنَصِیْحَۃٍ اِلَّا لَمْ یَجِدْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ   (بخاری، کتاب الاحکام، باب مَنِ اسْتُرْعِیَ رَعِیَّۃً فَلَمْ یَنْصَحْ، بروایت معقل بن یسارؓ) ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو کسی رعیت کا حاکم بناتا ہے اور وہ خیرخواہی کے ساتھ اس کی حفاظت نہیں کرتاتو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا‘‘۔
ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: مَا مِنْ وَالٍ یَلِی رَعِیَّۃً مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ فَیَمُوتُ وَھُوَ غَاشٌّ لَھُمْ اِلَّا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ (بخاری، کتاب الاحکام، باب مَنِ اسْتُرْعِیَ رَعِیَّۃً فَلَمْ یَنْصَحْ، بروایت معقل بن یسارؓ)’’ اگر کوئی شخص مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں کا والی (حاکم) بنایا گیا اور اس نے ان کے معاملے میں خیانت کی اور اسی حالت میں مرگیا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کردیتا ہے‘‘۔ 
یہاں خیانت سے مراد عہدے کی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنا ہے جس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں؛ مثلاًان کے حقوق پورے طور پر نہیں دیے، یارعایا کا جو کام ان کے ذمے تھا، اسے نہیں کیا، یا جتنا وقت حکومت کی طرف سے رعایا کے لیے متعین تھا اس میں کمی کی، یا دوسرے کاموں میں ضائع کردیا اور کام کا حق ادا نہیں کیا، یا متعلقہ شعبے کے اشیا و اموال کا جو درحقیقت عوام کا سرمایہ ہیں، بے جا یا ضرورت سے زیادہ استعمال کیا، یا بیت المال سے اپنی مقرر شدہ تنخواہ اور مراعات (Allowances) سے زیادہ لے لیا وغیرہ۔ 
آخرالذکر صورت کے سلسلے میں نبی کریم ﷺ کا واضح ارشاد موجود ہے کہ آپ ؐنے فرمایا: مَنِ اسْتَعْمَلْنَاہُ عَلٰی عَمَلٍ فَرَزَقْنَاہُ رِزْقًا فَمَا أَخَذَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَھُوَ غُلُولٌ (سنن ابی داؤد، کتاب الخراج و الفيء و الامارۃ، باب فِي أَرْزَاقِ الْعُمَّالِ،بروایت بریدہؓ ) ’’ہم جس کو کسی کام کا عامل بنائیںاور ہم اس کی کچھ روزی (تنخواہ) مقرر کردیں پھر وہ اپنے مقرر ہ حصے سے جو زیادہ لے گا، وہ خیانت ہے‘‘۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ حکومت کے وہ عہدے جو وعدوں کی بنیاد پر لیے جاتے ہیںجیسا کہ ہمارے جمہوری نظام میں رواج ہے، ان کی ذمہ داریوں سے رُوگردانی کرنادوہرے وبال کا باعث ہے۔ ایک تو یہ خیانت ہے اور دوسرے وعدہ خلافی بھی۔

  • رشوت ستانی کا انسداد: اسی طرح رشوت ستانی کے ذریعے متعلقہ ادارے اور عوام کے مفاد کو نقصان پہنچانا بھی خیانت کی ایک شکل ہے۔ نیز کسی سرکاری محکمے کا ملازم اگر رشوت لے کر کوئی ایسا کام کرے، جو حکومت کے طے شدہ اصول و ضوابط کے خلاف ہو، تو یہ بھی خیانت ہے کیوں کہ جس کام کے لیے حکومت نے اسے متعین کیا اور جس کام کی اسے تنخواہ دی جاتی ہے، وہ کام اس نے نہیں کیا۔ اور اگر رشوت کسی جائز کام کے لیے لی، تو یہ اس فرد پر ظلم بھی ہے جس سے رشوت لی۔ 

ایک روایت میں ہے: لَعَنَ رَسُولُ اللّٰہِ الرَّاشِي والْمُرْتَشِي (سنن ابی داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فِي کَرَاھِیَۃِ الرِّشْوَۃِ، بروایت عبداللہ بن عمروؓ) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے اور رشوت لینے والے (دونوں) پر لعنت فرمائی ہے‘‘۔ آپؐ سے یہ بھی روایت ہے: الرَّاشِي والْمُرْتَشِي فِي النَّارِ (کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال، حدیث: ۱۵۰۷۷، بروایت ابن عمروؓ)’’رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنم میںہیں‘‘۔ 

  • تحائف رشوت کی ایک صورت: اس لیے ہراس شخص کو جو آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور کسی دنیوی عہدے پر فائز ہو، اسے نہ صرف رشوت بلکہ تحفے تحائف کو قبول کرنے سے بھی گریز کرنا چاہیے کیوں کہ عموماً وہ کسی مقصد کے تحت ہی دیے جاتے ہیں اور انسان ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سرکاری ملازم کا اپنے فرض منصبی کی ادایگی کے دوران کسی صاحب ِمعاملہ سے تحفہ قبول کرنے کوسخت ناپسند کیاہے۔ 

آپؐ نے ایک شخص کو زکوٰۃ، جزیہ اور ٹیکس وغیرہ وصول کرنے کے لیے عامل مقرر کیا۔ اپنے کام پورے کرکے جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لوٹے تو عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ ! یہ مال آپؐ کا ہے اور یہ مال مجھے تحفہ دیا گیا ہے۔ اس پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سخت نالاں ہوئے اور فرمایا: أَفَلَا قَعَدْتَّ فِي بَیْتِ أَبِیْکَ وَ أُمِّکَ، فَنَظَرْتَ أَیُھْدٰی لَکَ أَم لَا  ’’پھر تم اپنے ماں باپ کے گھر ہی میں کیوں نہیںبیٹھے رہے اور پھر دیکھتے کہ تمھیں کوئی تحفہ دیتا ہے یا نہیں؟‘‘۔ آپؐ نے اتنے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مسجد میںخطبہ دیا اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد ان ہی باتوں کا مجلس عام میں اعادہ کیا اور لوگوں کو خیانت کے وبال سے خوف دلایا۔ (بخاری، کتاب الایمان و النذور، باب کَیْفَ کَانَتْ یَمِیْنُ النَّبِيِّ ، بروایت ابوحمید ساعدیؓ)

  • غلط مشورہ دینے کی ممانعت: خیانت کی ایک اور شکل ہے ادارہ یا محکمے کے سربراہ کو غلط مشورے دینا۔ ایک موقعے پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اَلْمُسْتَشَارُ مُؤتَمَنٌ  (سنن ابن ماجہ، ابواب الادب، باب اَلْمُسْتَشَارُ مُؤتَمَنٌ، بروایت ابوہریرہؓ) ’’جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہے ‘‘۔ گویا اسے امانت داری کالحاظ کرتے ہوئے صحیح اور مفید مشورہ دینا چاہیے۔ جس طرح امانت میں خیانت جائز نہیں، اسی طرح کسی کو غلط مشورہ دینا بھی جائز نہیں۔ 

اس حدیث پاک کا سیدھا اطلاق سرکاری محکموں اور غیر سرکاری تنظیموں کے مشاورتی بورڈوں (Advisory Boards) پر بھی ہوگا،یعنی وہ سب بھی امانت دار قرار پائیں گے۔ مثال کے طور پر کابینہ، پارلیمنٹ، پارلیمانی کمیٹی ، اسمبلی، دستور ساز کونسل، مجلس شوریٰ، یونی ورسٹیوں کی اکیڈمک کونسل ، سینیٹ اورسنڈیکیٹ کے ممبران اور اسی طرح مساجد، مدارس، اوقاف کی کمیٹیوں وغیرہ کے ارکان، یہ سب امانت دار ہیں اور ان سے ان کی امانتوں کے سلسلے میں پوچھا جائے گا۔ ان سب کو چاہیے کہ ذاتی مفاد سے اُوپر اُٹھ کر اپنے اپنے اداروں اور قوم و ملت کی فلاح کو پیش نظر رکھ کر اپنے سربراہان کو مشورے دیا کریں۔

  • نااہل افراد کی تعیناتی: خیانت کی ایک اور بھی شکل ہے؛ وہ ہے کام، منصب یا ذمہ داری کسی ایسے شخص کو سپرد کرنا جو اس کا اہل نہ ہو۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کرو‘‘۔ پوچھا: یارسول ؐاللہ ! امانت کس طرح ضائع کی جائے گی ؟ (آپؐ نے ) فرمایا : ’’جب کام نااہل لوگوں کے سپرد کردیے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو‘‘۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب رفع الامانۃ)

اس حدیث سے بالکل واضح ہے کہ ذمہ داری نااہلوں کے سپرد کرنا بھی خیانت ہے اور دورِ حاضر میں تو یہ ایک بڑا فتنہ ہے کہ حکومت کے اہم مناصب، یا تو تعلقات کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں، یا سیاسی ہم فکری کی بنیاد پر، یا کبھی اس میں اقربا پروری کو دخل ہوتا ہے تو کبھی رشوت ستانی کو۔ اس سلسلے میں ان افراد کے ساتھ ظلم ہوجاتا ہے جو حقیقتاً اس منصب کے اہل ہوتے ہیں اور نااہلوں کو منصب دیے جانے کے نتائج بد کو ایک عرصے تک پوری قوم بھگتتی ہے۔ 
اس لیے حاکم اعلیٰ کو چاہیے کہ اپنے دائرۂ اختیار میں لائق ترین افراد کو تلاش کرکے انتظامی اختیارات ان کے سپرد کرے اور ایسے افراد کو تو بالکل نہ سونپے جو عہدے کے حریص ہوں۔  رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ہمیں یہی تعلیم ملتی ہے۔ آپؐ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: لَنْ (أَوْ ) لَا  نَسْتَعْمِلُ عَلٰی عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَہُ  (بخاری، کتاب اسْتِتَابَۃِ الْمُرتَدِّیْنَ وَالْمُعَانِدِیْنَ وَقِتَالِھِمْ، باب حُکْمِ الْمُرْتَدِّ وَالْمُرْتَدَّۃِ ، بروایتِ ابوموسیٰ اشعریؓ )’’ہم ہرگز کسی ایسے شخص کو عامل مقرر نہیں کریں گے جو عامل بننا چاہے‘‘۔ 
 صحیح ابن حبان کے الفاظ اس طرح ہیں: اِنَّا وَ اللّٰہِ لَا نُوَلِّي عَلٰی ھٰذَا الْعَمَلِ اَحَدًا سَاَلَہٗ، وَ لَا اَحَدًا حَرَصَ عَلَیْہِ  ’’اللہ کی قسم ! ہم اس کام کا نگراں کسی ایسے شخص کو مقرر نہیں کریں گے جو اسے مانگتا ہو، اور نہ کسی ایسے شخص ہی کو مقرر کریں گے جو اس کا لالچ کرتا ہو‘‘۔ (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب فی الخلافۃ والامارۃ ، بروایت ابوموسیٰ اشعریؓ)۔

  • عہدہ و منصب طلب کرنے کا جواز: یہاں ایک مسئلے کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ مذکورہ بالا احادیث اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِعمل (یعنی عہدہ طلب کرنے والوں یا اس کی خواہش رکھنے والوں کو عہدہ نہ دینا ) سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کا کوئی عہدہ خود طلب کرنا جائز ہی نہیں لیکن جمہوری نظام میں توبہت سے سرکاری مناصب (مختلف شعبوں کی ملازمت وغیرہ ) بغیر درخواست کے مل ہی نہیں سکتے، تو کیا ان سب سے دست بردار ہوجانا چاہیے ؟ ظاہر ہے کہ دست برداری کا موقف اختیار کرنا پوری قوم وملت کو سختی میں ڈالنے سے تعبیر کیا جائے گا۔ ہمیں اس سلسلے میں فقہا کے ان اصولوں کومدنظر رکھنا چاہیے، جو ان لوگوں نے سرکاری عہدے اور منصب کو طلب کرنے کے جواز کے سلسلے میں اختیار کیے۔

اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی سرکاری عہدے اور منصب کو طلب کرنا اس صورت میں جائزہے جب انسان یہ محسوس کرے کہ اس کے فرائض اور ذمہ داریوں کو صحیح طور سے انجام دینے والا کوئی دوسرا شخص موجود نہیں ہے، اور خود اپنے بارے میں اسے اندازہ ہو کہ وہ اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دے سکے گا اور اس کی نیت (جسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے) جاہ و مال کی نہ ہو بلکہ خلق اللہ کی صحیح خدمت اور انصاف کے ساتھ ان کے حقوق کی حفاظت کی ہو ۔ نیز اسے کسی گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ بھی نہ ہو۔ فقہا نے اپنے اس موقف پر سورئہ یوسف کی آیت ۵۵ سے استدلال کیا ہے جس میں حضرت یوسفؑ کا بادشاۂ مصر سے امور خزانہ پر مامور کرنے کی درخواست کرنے کا ذکر ہے اور یہ راے قائم کی ہے کہ یوسفؑ کا عہدے کا طلب کرنا انھی بنیادوں پر تھا۔ (معارف القرآن از مفتی محمد شفیع ؒ، مکتبہ معارف القرآن، ج۵، ص۹۰-۹۱)

  • منصبِ قضا کا تقاضا:اسی طرح جو لوگ نظام قضا (Judiciary) یامنصب قضا (Post of Adjudicator) سے وابستہ ہوں، وہ بھی بدرجۂ اولیٰ امانت دار ہیں۔ ان پر یہ ذمہ داری عائد ہے کہ قوانین و شواہد کی روشنی میںسیاسی دباؤ اور ذاتی مفادات سے بلند ہوکر عدل و انصاف کو قائم کریں۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں بلکہ بہت بڑی ذمہ داری ہے، جس پر ملک میں امن و سکون کے قیام کاانحصار ہے۔ اس میں خیانت کی وجہ سے انصاف سے محروم افراد قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوسکتے ہیں اورمختلف قسم کے فساد پھیلا کر ملک کا امن و سکون غارت کرسکتے ہیں جیساکہ موجودہ عالمی منظرنامہ عکاسی کررہا ہے۔ 

ظاہر ہے یہ اسلام کے ایک بنیادی مقصد، یعنی ’’دنیا کو زندگی گزارنے کے لیے ایک بہتر جگہ بنانا‘‘ کے خلاف ہے۔ اس لیے اس میں خیانت اللہ اور اس کے رسول کو کیسے پسند ہوسکتی ہے؟ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر دور میں اس ذمہ داری کو پورا کرنا ایک مشکل امر رہا ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ جُعِلَ قَاضِیًا بَیْنَ النَّاسِ، فَقَدْ ذُبِحَ بِغیْرِ سِکِّیْنٍ  (سنن ابی داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فِي طَلَبِ الْقَضَاءِ، بروایت ابوہریرہؓ)’’جو شخص لوگوں کے درمیان قاضی بنا دیا گیا (گویا) وہ بغیر چھری کے ذبح کردیا گیا‘‘۔ بغیر چھری کے ذبح کرنے میں جانور کو تکلیف اورمشقت چھری سے ذبح کرنے کے مقابلے میں یقیناً زیادہ ہوگی۔ 
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ جسے قاضی بنایا گیا اسے انتہائی مشقت اور آزمایش میں ڈال دیا گیا۔ آپ ؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں: ایک جنتی اور دو جہنمی۔ رہا جنتی تو وہ ایسا شخص ہوگا جس نے حق کو جانا اور اسی کے موافق فیصلہ کیا، اور وہ شخص جس نے حق کو جانا اور اپنے فیصلے میں ظلم کیا وہ جہنمی ہے۔ اور وہ شخص جس نے نادانی سے لوگوں کا فیصلہ کیا وہ بھی جہنمی ہے‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فِي الْقَاضِي یُخْطِیُٔ، بروایت ابوہریرہؓ)۔ 
اس کے بالمقابل حکمت اور حق کے ساتھ فیصلہ کرنے والے قاضی کی آپؐ نے تعریف بھی کی۔ 
ارشاد فرمایا: لَا حَسَدَ اِلَّا فِي اثْنَتَیْنِ: رَجَلٌ آتَاہُ اللّٰہُ مَالًا فَسَلَّطَہُ عَلٰی ھَلَکَتِہِ فِي الْحَقِّ وَآخَرُ آتَاہُ اللّٰہُ حِکْمَۃً فَھُوَ یَقْضِي بِھَا وَ یُعَلِّمُھَا (بخاری، کتاب الاحکام ، باب أَجْرِ مَنْ قَضَی بِالْحِکْمَۃِ ، بروایت عبد اللہ بن مسعودؓ)’’رشک بس دو آدمیوں پر ہی کیا جانا چاہیے۔ ایک وہ شخص جسے اللہ نے مال دیا پھر اس نے اسے حق کے راستے میں خرچ کیا، اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے حکمت (قرآن ، حدیث و فقہ کا علم) عطا کی اور وہ اس کے موافق فیصلے کرتا ہے اور اس کی لوگوں کو تعلیم دیتا ہے‘‘۔ 
ایک اور روایت میں ہے کہ آپؐ نے ان کے تعلق سے فرمایا: الْمُقْسِطُونَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی مَنَابِرٍ مِّنْ نُورٍ عَنْ یَّمِیْنِ الرَّحْمٰنِ، وَ کِلْتَا یَدَیْہِ یَمِیْنٌ، الْمُقْسِطُونَ عَلٰی اَہْلِیْھِمْ وَاَوْلَادَھُمْ وَ مَا وَلُّوا (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب فِی الخلافۃ والامارۃ، ذِکْرُ وَصْفِ الْاَئِمَّۃِ  فِي  الْقِیَامَۃِ   اِذَا کَانُوا عُدُولًا فِی الدُّنْیَا، بروایت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ) ’’(دنیا میں ) انصاف کرنے والے لوگ قیامت کے دن رحمان کے دائیں طرف نور کے ممبروں پر ہوں گے حالانکہ اس (رحمٰن) کے دونوں طرف دائیں ہیں، وہ لوگ جو اپنی بیویوں کے ساتھ اور اپنی اولاد کے ساتھ اور جس معاملے کے وہ نگراں بنتے ہیں اس کے ساتھ انصاف سے کام لیتے ہیں‘‘۔ 
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ جن سات قسم کے لوگوں کو اللہ پاک قیامت کے دن عرش کے سایے میں جگہ دیں گے ان میں ایک عادل حکمران بھی ہوگا۔ (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب ذِکْرُ اِظْلَالِ اللّٰہِ جَلَّ وَ عَلَا الْاِمَامَ الْعَادِلَ فِیْ ظِلِّہِ یَومَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلُّہُ، بروایت ابوہریرہؓ)

  • خلاصۂ کلام: آخرت میںصرف وہ لوگ سرخرو ہوں گے، جنھوں نے دنیا میں اپنے منصب اور عہدوں کو امانت سمجھ کر اس کی ذمہ داریوں کوعدل و احسان کے ساتھ انجام دیا ہوگا جو کہ آسان کام نہیں ہے، اور جس نے اپنی ذمہ داریوں میں خیانت کی ہوگی وہ وہاں رسوا اور ذلیل کیا جائے گا اور جہنم اس کا ٹھکانہ ہوگا۔ اس لیے اوّل تو ہمیں جاہ طلبی کے مرض سے ہی چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے کہ اکثر اوقات یہ دنیا میں بھی آزمایش اور رسوائی کا سبب ہوجاتا ہے جیساکہ آج کل عام طور پر دیکھنے کو ملتا ہے اور آخرت کا معاملہ تو فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کی صورت میں اور بھی سنگین ہے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے صحابی عبدالرحمٰن بن سمرہؓ کو ان الفاظ میں نصیحت فرمائی: یَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَۃَ، لَا تَسْأَلِ الْاِمَارَۃَ، فَاِنَّکَ اِنْ أُعْطِیتَھَا عَنْ مَسْأَلَۃٍ وُکِلْتَ اِلَیْھَا، وَ اِنْ أُعْطِیتَھَا عَنْ غَیْرِ مَسْأَلَۃٍ أُعِنْتَ عَلَیْھَا (بخاری، کتاب الاحکام، باب  مَنْ سَأَلَ الْاِمَارَۃَ    وُکِلِ    اِلَیْھَا، بروایت عبد الرحمٰن بن سمرہؓ) ’’اے عبد الرحمٰن بن سمرہ! کبھی امارت (حکومت کے کسی عہدے) کی درخواست نہ کرنا، کیوں کہ اگر تمھیں یہ مانگنے کے بعد ملے گا تو تم اسی کے حوالے کردیے جاؤگے (اللہ پاک اپنی مدد تجھ سے اٹھالے گا کہ تو جانے تیرا کام جانے)۔ اور اگر وہ عہدہ تمھیں بغیر مانگے مل گیا تو اس میں (اللہ کی طرف سے ) تمھاری اعانت کی جائے گی‘‘۔ 
اس حدیث میں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ عہدہ طلب کرنے پر اللہ کی طرف سے مدد بھی اُٹھ جاتی ہے اورا نسان آزمایش میں ڈال دیا جاتا ہے اور اگر عہدہ بغیر طلب کیے ملتا ہے تو اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہو خود عہدہ طلب کرنے سے ہمیں پرہیز کرنا چاہیے اور جب حکومتی یا ملی سطح سے کسی منصب کی پیش کش کی جائے تو اپنی صلاحیت اور حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بات کا جائزہ ضرور لینا چاہیے کہ اس کی ذمہ داریوں کو ہم کماحقہٗ ا دا کرسکیں گے یا نہیں۔ اگر نہیںتو ہمیں وہ منصب قبول ہی نہیںکرنا چاہیے، تاکہ دنیا و آخرت کی رسوائی سے محفوظ رہ سکیں، اور اگر قبول کریں تو عہدے کو امانت سمجھ کر اس کی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے۔ ہمیں اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ بروزِ حساب کہیں ہم ان لوگوں میں نہ شامل ہوں، جن کے بارے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں پیش گوئی کی ہے: 
وَیْلٌ لِلْاُمَرَائِ، لَیَتَمَنَّیَنَّ اَقْوَامٌ اَنَّھُمْ کَانُوا مُعَلَّقِیْنَ بِذَوَائِبِھِمْ بِالثُّرَیَّا، وَ اَنَّھُمْ لَمْ یَکُوْنُوا وُلُّوْا شَیْئًا قَــطُّ(صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب  فی الخلافۃ  دارالامارۃ، ذِکْرُ الْاِخْبَارِ عَمَّا یَتَمَنَّی ائُ الْأُمْرَاءُ  اَنَّھُمْ مَا وَلَّوْا مِمَّا وُلُّوْا شَیْئًا  ، بروایت ابوہریرہؓ) ’’ سرکاری   اہل کاروں کے لیے خرابی ہے۔ عنقریب کچھ لوگ اس بات کی آرزو کریں گے کہ انھیں ان کے بالوں کے ساتھ اوج ثریا پر لٹکا دیا جاتا، لیکن انھیں کسی چیز (حکومتی عہدے) کا اہل کار مقرر نہ کیا جاتا‘‘۔ 
اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس سیہ کار کی لغزشوں کو بھی معاف فرمائے اور اپنی منشا کے مطابق بقیہ زندگی گزارنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ نیز امت کے اندر امانت داری کے مٹتے ہوئے احساس کو بیدار فرمائے۔ آمین! 

پچھلے دنوں فیس بک پر عورتوں کے ساتھ جنسی ہراسانی کے خلاف ایک پوسٹ پر کچھ ایسا رد عمل دیکھنے میں آیا: ’’عورت کا دائرہ کار اس کا گھر ہے۔ اگر وہ گھر سے نکلے گی تو اس کے ساتھ یہ تو ہوگا، کیوںکہ یہ مرد کی فطرت ہے‘‘۔ یعنی جنسی ہراسانی اور دوسرے مسائل کا حل یہ ہے کہ صنف نازک کو گھر تک محدود رکھا جائے ورنہ ان برائیوں کا سد ِباب نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی کہا گیا کہ: ’’ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ عورتیں نامناسب لباس میں نکلتی ہیں‘‘۔ پوسٹ پر بہت بڑی تعداد میں پردہ دار خواتین نے (جن کی پوری زندگی نقاب اور حجاب میں گزری، یہاں تک کہ جنھوں نے کینیڈا، امریکا ، برطانیہ میں رہ کر بھی نقاب اور حجاب کو نہیں چھوڑا) گواہی دی کہ انھوں نے پردے کے باوجود پاکستان کی سڑکوں پر جنسی ہراسانی کا سامنا کیا ہے۔ بعض انصاف پسند مردوں نے بھی اس بات کی گواہی دی۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں جنسی ہراسانی کا موضوع عام طور سے نظر انداز رہتا ہے، اس وقت ہم بحث کا موضوع اس نکتے تک محدود رکھیں گے کہ ’’کیا واقعی اسلام، عورت کو اس سے محفوظ رکھنے کے لیے اسے محض گھر تک محدود کرنا چاہتا ہے؟‘‘ 
ہراسانی سے متعلق یہ دیکھتے ہیں کہ مغربی تعبیر کیا ہے: ’’جنسی ہراسانی، جنس کی بنیاد پر، کوئی بھی ایسا قولی یا جسمانی رویہ اختیار کرنا، جس سے دوسرے فرد کو اس کی مرضی کے خلاف کوئی ذہنی اور جسمانی اذیت پہنچے‘‘۔ اسلام اس ضمن میں فرد کی مرضی کی نفی کرتا اور جائز حدود سے تجاوز کی ممانعت کرتا ہے۔ صرف قانون ہی کو حرکت میں نہیں لاتا بلکہ آخرت میں دردناک عذاب کی وعید بھی سناتا ہے۔ہراسانی میں سڑکوں پر یا اسکول کالج یونی ورسٹی یا گھروں میں دوسری صنف کو نامناسب طریقے سے گھورنا، فقرے کسنا، غلط طرزتخاطب استعمال کرنا، تعلقات میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنا، موقع ملنے پر چھونے کی کوشش کرنا، یا اس سے آگے بڑھ کر اور کوئی نا مناسب رویہ اختیار کرنا شامل ہو سکتا ہے، جس سے دوسرا فریق اذیت محسوس کرے۔ یاد رہے، ضروری نہیں کہ ایسا رویہ خواتین کے خلاف ہی اپنایا جاتا ہو۔ اس موضوع پر ہماری تحقیق کے دوران ایک نو عمر لڑکے نے بھی اپنی استاد کے ہاتھوں ہراسانی محسوس کرنے کی شکایت کی۔ تیسری صنف نے بھی  اس حوالے سے اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے ایسے تلخ رویوں کی شکایات کی۔ افسوس کہ معاشرے میں اس حوالے سے تربیت یا اقدار کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ 
پاکستان میں مردوں کی عظیم اکثریت شریف النفس ہے۔ اس کے باوجود ہماری سڑکوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں ایسے لوگ موجود ہیں، جو اپنے گھر کے علاوہ باقی خواتین کی عزت کرنا نہیں جانتے۔ یہ مسئلہ اس وقت اور بھی گھمبیر ہو جاتا ہے، جب ایسا کرنے والے کو معاشرے یا خود متاثرین کی خاموشی کی وجہ سے رد عمل کا کوئی خوف باقی نہ رہے۔ 

ہراسانی پر عمومی رویہ 

یہ رویہ ہمارے معاشرے میں عام ہے، لیکن اسے کوئی قابل ذکر مسئلہ شاید اس لیے نہیں سمجھا جاتا، کہ ان کا شکار عموماً خواتین ہوتی ہیں اور ہمارے معاشرے میں شرم و حیا کے معیارات کچھ ایسے ہیں کہ ان میں اس مسئلے پر بات کرنا ممکن نہیں۔ چہ جائیکہ وہ اپنے اُوپر گزرنے والی واردات کی روداد کا کچھ ذکر بھی کر سکیں۔ تیسری صنف کے لوگ اس کے خلاف آواز اٹھانے کی مقدور بھر کوشش کرتے رہے ہیں اور بعض بیرونی این جی اوز ان کی مظلومیت کے بل پر اپنی  روزی روٹی کا بندوبست کر رہی ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر ہمارا معاشرہ ان مظلوموں کو بھی مذاق سے زیادہ اہمیت دینے پر راضی نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بیرونی این جی اوز سے پہلے ہم خود اس کے خلاف ہراسانی پر آواز اٹھاتے، لیکن سنجیدہ حلقوں کی توجہ اس طرف نہ ہونے کے برابر ہے۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر شریف خاندانوں کے مرد حضرات اپنی ہی ماؤں، بہنوں، اور بیٹیوں پر گزرنے والے ایسے واقعات سے مکمل طور پر بے خبر رہتے ہیں۔ خود خواتین کے لیے ان واقعات پر خاموشی کے علاوہ کسی اور رد عمل کی ہمت اور اختیار نہیں ہوتا۔ 
ہمارے معاشرے میں ان موضوعات پر بات کرنا اہم صرف اس وقت ہوتاہے جب ہم ’زینب قتل کیس‘ کی طرح کا کوئی سنسنی خیز دل دہلا دینے والا واقعہ سنتے ہیں۔ ایک عام لڑکی، سڑکوں اور پبلک مقامات پر کیسا محسوس کرتی ہے؟ اسے ہم عموماً ایک عام سا رویہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ خود خواتین نوجوانی کے دوران اس جبر کو معاشرے کا عمومی چلن سمجھ کر خاموش رہتی ہیں۔
ہمارے دیہی اور شہری علاقوں میں بیش تر خواتین ایسے تکلیف دہ تجربات سے گزرتی ہیں۔ پھر سڑکوں، گلیوں، پبلک مقامات پر خواتین کو ہراسانی سے بچانے کے لیے انھیں گھر بٹھا لینا ہی مسئلے کا حل سمجھا جاتا ہے، لیکن اس حقیقت کو بھلا دیا جاتا ہے کہ یہ عملاً ممکن نہیں اور نہ ہمارا دین ہمیں اس کا یہ حل بتاتا ہے۔ 
الحمدللہ ، ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو بہت تحفظ دیا جاتا ہے۔ شہروں کا ماحول دیہی علاقوں سے مختلف ہے، لیکن کبھی اُن بچیوں کے چہروں پر حسرت دیکھیے جو صرف اس لیے اسکول یا دینی مدرسے نہیں جا سکتیں کہ گاؤں کی گلیوں میں ایسے نوجوان موجود ہیں، جن سے ان کی عزت محفوظ نہیں اور لڑکیوں کے گھر والے، محلے دار اور گاؤں والے بجاے اس مسئلے کو حل کرنے کے، بچیوں کو گھر بٹھا لیتے ہیں۔ ضلع صوابی کے ایک گاؤں میں قیام پذیر ایک خاتون نے بتایا: ’’ہمارے گاؤں میں لڑکیوں کا اسکول تو موجود ہے، لیکن گاؤں کی گلیوں میں نوجوانوں کی فقرے بازی کی وجہ سے لوگ اپنی بچیوں کو اسکول بھیجنے کے بجاے گھر بٹھانے کو ترجیح دیتے ہیں‘‘۔ چترال سے ایک نوجوان ٹیچر نے بتایا: ’’ویسے تو کوئی بچی ہراسانی کی شکایت کی ہمت نہیں کرتی، لیکن اگر کہیں ایسا ہوجائے تو باقی اساتذہ یہی کہتے ہیں کہ لڑکی کا کوئی قصور ہوگا، لڑکی ٹھیک ہو تو اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا‘‘۔ یہ اذیت ناک جملہ ہمارے ہاں ضرب المثل کی طرح بولا جاتا ہے۔ 
بڑے شہروں میں رہنے والی بچیوں کو مختلف صورتوں میں جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن دیہی علاقوں میں یہ معاشرتی برائی بچیوں کی پوری زندگی پر منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے اور کرتی ہے۔ آبادی کا بہت بڑا حصہ دیہی اور نیم شہری علاقوں میں مقیم ہے۔بڑے شہروں میں رہنے والی خواتین، دیہی خواتین کے مسائل کو اپنے محدود تناظر میں دیکھنے کی عادی ہیں۔ شہر کی عورت، گاؤں کی عورت کے مقابلے میں زیادہ بااختیار نظر آتی ہے۔ اس کی آواز بھی توانا ہے، اس لیے اسے نسبتاً ایسے رویے کا کم ہی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 
ایک عمومی غلط فہمی یہ بھی ہے کہ ’’یہ ساری دنیا میں اسی طرح ہوتا ہے‘‘۔ لیکن عمومی مشاہدے کے مطابق سعودی عرب، مصر، ترکی، مغربی یورپ، اور شمالی امریکا میں سڑکوں یا پبلک مقامات پر ایسی حرکتیں بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہیں، جو ہمارے مسلم اور مشرقی معاشرے کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
بلاشبہہ مغرب میں جنسی جرائم ہوتے ہیں اور بڑے ہولناک ہوتے ہیں، مگر وہ اکثر ریکارڈ پر آجاتے ہیں، اور پھر اُن کے قوانین کے مطابق وہاں اخلاقی جرائم کے اکثر متاثرین کو آسانی سے انصاف ملتا ہے۔ ’می ٹو موومنٹ‘ نے مغربی معاشرے کی بچی کھچی اخلاقیات کی ساری قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ ترکی جیسے دیگر مسلم ممالک میں جنسی ہراسانی جیسی اخلاقی برائی سرے سے پائی ہی نہیں جاتی ہوگی، لیکن راقمہ نے محسوس کیا کہ معاشی اعتبار سے امیر دنیا میں اس مسئلے پر مکالمہ موجود ہے۔ اسے مسئلہ سمجھا جاتا ہے اور اس کے لیے اقدار کا ایک نظام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور متاثرہ کو ترچھی نظر سے نہیں بلکہ ہمدردی سے دیکھا جاتا ہے۔ انفرادی جرائم ہوتے ہیں لیکن قانون اور معاشرہ بہ حیثیت مجموعی ان غلط رویوں کا دفاع نہیں کرتا۔ دیکھا جائے تو ہراسانی کے کلچرل دیوالیہ پن کی مناسبت سے ہمارا معاشرہ مغرب کے مقابلے میں بھارتی معاشرتی بدتہذیبی سے قریب تر ہے۔ 
 ہمارے معاشرے میں اسلامی تعلیمات اور حیا کے فطری تقاضوں کی پاس داری کے لیے بچیوں کو چھوٹی عمر سے ہی دوپٹہ یا چادر لینے اور بغیر محرم گھر سے باہر نکلنے سے منع کیا جاتا ہے، جو بہت ضروری اور بہت بنیادی اقدامات ہیں۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اہلِ خانہ یا محرم کے ساتھ نکلنے پر بھی اور پردے کی پابندی کے ساتھ نکلنے پر بھی، ہراسانی کا سامنا بہرحال ہوتا ہے۔ اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ چونکہ یہ قابلِ ذکر مسئلہ زیربحث نہیں لایا جاتا، اس لیے اس کے خلاف کوئی عوامی رد عمل موجود نہیں۔ 
پھر معاشرے میں خواتین کے پردے کی کمی کو اس اخلاقی فتنے کا سرچشمہ سمجھا جاتا ہے، اور صنف نازک ہی کو مردوں کے اس غیر اخلاقی طرز عمل کا ذمہ دار گردانا جاتا ہے۔ لڑکوں کے ایسے کسی طرزِعمل کے بارے یہ تک کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’یہ مرد کی فطرت ہے اور خواتین کا دائرۂ کار ان کا گھر ہے۔ جب خواتین گھر سے نکلیں گی تو ان کے ساتھ یہ تو ہوگا‘‘۔ 

قرآن و سنت سے رہنمائی

قرآن و سنت نے چودہ سو سال پہلے ان مسائل کو معاشرے کے اہم مسائل قرار دے کر حدود اور قیود واضح کر دی تھیں۔ ہم وہ امت ہیں، جنھیں چودہ سو سال پیش تر ان ا قدار کے لیے مرد و عورت کے اختلاط کے مقامات پر غضِ بصر اور پردے جیسی ہدایات فراہم کر دی گئی تھیں۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ قرآن، اختلاط سے متعلق برائیوں کے خاتمے کی ذمہ داری مرد اور عورت دونوں پر ڈالتا ہے، لیکن معاشرہ عام طور سے مرد کے اخلاقی انحطا ط کی سزا بھی عورت ہی کو دینا چاہتا ہے۔ 
سورۂ نور آیت۳۰  میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اے نبیؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے‘‘۔ 
اس سے اگلی آیت ۳۱ میں ارشاد فرمایا گیا:’’اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔ وہ اپنا بناؤسنگھار نہ ظاہر کریں، مگر اِن لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، ا پنے مملوک، وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ وہ ا پنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہو،  اس کا لوگوں کو علم ہو جائے۔ اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے‘‘۔
یہ تو وہ احتیاطیں ہیں، جو مرد اور عورتوں دونوں کو گھر سے باہر نکلنے اور نا محرموں سے بات چیت اور معاملات کے حوالے سے بتا دی گئی ہیں۔ مرد کو نظر نیچی رکھنے، اور شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا گیا،جب کہ عورت کو سینوں پر اوڑھنیاں ڈالے رکھنے کا بھی اور اپنی زینت چھپانے کا بھی۔ اور ان محرم رشتوں کی تفصیل بھی بتا دی گئی ہے، جن سے باہر ہر رشتے میں یہ احتیاط ملحوظ رکھنا ہے۔ 
سورۂ احزاب آیت ۳۲ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’نبیؐ کی بیویو، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو‘‘۔
یہاں خواتین کو نا محرم مردوں سے بات کرتے ہوے اپنے لہجے کو راست، واضح اور  سخت رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حدود میں رہ کر ضرورت کے مطابق بات چیت کی اجازت ہے۔ اسلام بات کرنے پر پابندی نہیں عائد کرتا، اس کی تہذیب سکھاتا ہے۔
اس سے اگلی آیت ۳۳  میں ارشاد ہے:’’اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو اور سابق دورِ جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔ اللہ  تو یہ چاہتا ہے کہ اہلِ بیت ِ نبیؐ سے گندگی کو دور کرے اور تمھیں پوری طرح پاک کر دے‘‘۔
یہ دو آیتیں بظاہر تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو مخاطب کرتی ہیں، لیکن ایک عام اصول کے تحت اس کا اطلاق تمام مسلمان عورتوں پر ہوتا ہے۔ کیوںکہ نبیؐ کی بیویاں ہمارے لیے مثال ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس وقت ہمارے معاشرے اور خصوصاً دینی طبقات وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ  کا جو مطلب لیتے ہیں، کیا دورِ نبویؐ میں بھی اس کا مفہوم وہی تھا، یا اس معاملے میں آج کے مسلم معاشرے اور خصوصاً بر صغیر جنوب مشرقی ایشیا کی مسلم معاشرت افراط و تفریط کا شکار ہے؟ 
 جہاں تک قرآن کے اس حکم کا تعلق ہے کہ’’اپنے گھروں میں قرار کے ساتھ بیٹھو۔ دورِجاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو‘‘، تو دورِ رسولؐ کی مختلف مثالوں سے یہ بات واضح ہے کہ اس سے مقصد بناؤ سنگھار دکھانا اور بے پردہ نکلنے ہی کی ممانعت تھی ورنہ اسلامی تاریخ پر معمولی نظر رکھنے والا بھی اس امر سے واقف ہے کہ اس دور میں گھر سے باہر خواتین کے آنے جانے اور خرید و فروخت کی سرگرمیوں میں حصہ لینا عام تھا، بلکہ جو حدود و قیود اسلا م عورت کے لیے متعین کرتا ہے، وہ خود اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس کا باہر نکلنا مطلقاً منع نہیں۔ البتہ عورتوں کی تربیت کے ساتھ مردوں کی تربیت کا سامان بھی اسلام پیش کرتا ہے۔

آج کے دور میں جہاں اور بہت سی بُرائیاں اور بداخلاقیاں ہمارے معاشرے کو گھن کی طرح کھارہی ہیں، ان میں ایک بہت بڑی بیماری افواہیں پھیلانے کی ہے۔ شاید افواہیں پھیلانے والوں کو یہ اندازہ بھی نہ ہو کہ بسااوقات اس کے منفی اثرات معاشرے اور مملکت دونوں کے لیے خطرناک ہوتے ہیں، اور جس کے تباہ کن اثرات سے خود افواہ سازی کا کام کرنے والے بھی نہیں بچ سکتے۔
شرعی نقطۂ نظر سے افواہیں پھیلانا یا افواہوں کے ذریعے معاشرے میں فتنہ و فساد پھیلانا ایک بدترین جرم ہے۔ اس لیے کہ افواہیں بغیر کسی بنیاد کے معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان نہ صرف نفرت و حقارت پیدا کرتی ہیں، بلکہ بسااوقات بلاوجہ لڑائی جھگڑے کا سبب بھی ہوتی ہیں۔ افواہوں کے مہلک اور مضر اثرات کے پیش نظر اسلامی مملکت کے شہریوں پر یہ فریضہ شرعاً عائد ہوتا ہے کہ وہ خود کسی قسم کی افواہیں نہ پھیلائیں، بلکہ افواہیں پھیلانے والوں پر بھی کڑی نظر رکھیں اور انھیں بھی افواہیں نہ پھیلانے دیں۔ من گھڑت اور جھوٹی باتیں نہ صر ف دُنیوی اعتبار سے جرم ہیں،بلکہ آخرت میں بھی اس جرم کی پاداش میں سخت سزا بھگتنا پڑے گی۔ 
افواہیں خواہ حکومت کے خلاف ہوں یا کسی ادارے کے، جماعت مسلمین کے کسی فرد کے خلاف ہوں یا اُمت ِ مسلمہ کے کسی طبقے کے خلاف، ہرحالت میں قابلِ مذمت ہیں۔ تاریخ میں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ چندافراد کی پھیلائی ہوئی باتیں پوری قوم کے لیے شرمندگی اور پریشانی کا باعث بن گئیں، اور اس کے سنگین نتائج آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے۔
عہد ِ نبویؐ میں افواہیں پھیلانے کا کام منافقین کیا کرتے تھے۔منافقین نہ ملّت اسلامیہ کے خیرخواہ تھے اور نہ مملکت اسلامیہ کے۔ وہ ہرقت اس تاک میں رہتے تھے کہ کوئی موقع ملے تو ملّت اسلامیہ پر بھرپور وار کریں۔ خصوصاً ان حالات میں جب مسلمانوں پر جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہوتا تھا تو ان کی تخریبی سرگرمیاں مزید تیز تر ہوجاتی تھیں۔ منافقین کبھی خوف و ہراس پھیلانے کے لیے افواہیں پھیلایا کرتے تھے اور کبھی کسی واقعی خطرے کو چھپانے کے لیے غلط قسم کا اطمینان پیدا کرنے کے لیے بے بنیاد اور مبالغہ آمیز خبریں پھیلاتے تھے۔ قرآنِ حکیم نے اس کا سدّباب کرنے کے لیے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جب اس قسم کی غیرمصدقہ خبر یا افواہ پہنچے تو اُسے ہرگز لوگوں میں نہ پھیلایاجائے، بلکہ اس قسم کی بے بنیاد خبروں اور افواہوں کے بارے میں ارباب حل و عقد کو آگاہ کرنا چاہیے، تاکہ وہ اس قسم کی افواہوں کا جائزہ لیں اور ٹھیک ٹھیک صورتِ حال سے ملّت کو آگاہ کریں۔ اگر کوئی بات صحیح ہے اور اُمت کو اس سے آگاہ کرنا ضروری ہے تو حکومت خود اس خبر کی اشاعت کرے گی، اور معاشرے میں محض بے چینی یا فتنہ و فساد پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرے گی اور افواہوں کے مضر اثرات کی روک تھام کے لیے تمام ضروری اقدامات اُٹھائے گی۔
قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے:
وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ۝۰ۭ وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ۝۰ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُہٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا۝۸۳(النساء ۴:۸۳) اور جب اُن کو کوئی بات امن یا خطرے کی پہنچتی ہے تو وہ اسے پھیلا دیتے ہیں۔ اگر یہ اس کو رسول اور اپنے اولوالامر کے پاس پہنچا دیں تو وہ بات ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ بات کی تہہ تک پہنچ جائیں اور صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں۔ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تھوڑے سے لوگوں کے سوا تم شیطان کے پیچھے لگ جاتے۔
اس آیت میں افواہیں پھیلانے کو شیطانی عمل قرار دیا گیا ہے اور ذمہ دار شہریوں پر یہ فریضہ عائد کیا گیا ہے کہ وہ کوئی افواہ سنیں تو اربابِ حل و عقد کو اِس سے آگاہ کریں، خود اس افواہ کو بیان کر کے نہ پھیلائیں۔ بلاوجہ سنی سنائی بات کو لوگوں میں بیان کر کے اس مقصد میں شریک نہ ہوں، جو کوئی بدکردار اور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والا فرد افواہ پھیلا کر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑا سنہری اُصول بیان فرمایا ہے، جو ایک دستوری ہدایت بھی ہے:
کَفٰی بِالْمَرءِ  اِثْمًا  اَنْ یُحَدِّثَ  بِکُلِّ مَا سَمِعَ  ط (سنن ابوداؤد، کتاب الادب،  باب فی التشدید فی الکذب، حدیث:۴۳۶۱ ) گناہ کے لیے یہ بات کافی ہے کہ انسان  ہرسنی سنائی بات بیان کرنے لگے۔
قرآنِ حکیم اصلاحِ معاشرہ کے لیے جہاں ضروری ہدایات دیتا ہے ، وہاں ایسی باتوں کا بھی قلع قمع کرتا ہے جو معاشرے کے پُرامن اور پُرسکون ماحول کو بگاڑنے کا سبب ہوں۔
سورئہ بنی اسرائیل کی اس آیت ِ مبارکہ کو غور سے پڑھیے ، جو نہ صرف یہ کہ بے بنیاد باتوں کے پیچھے نہ لگنے کا حکم دے رہی ہے،بلکہ ذمہ داری کا شعور بھی بیدار کر رہی ہے:
وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِہٖ عِلْمٌ۝۰ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْہُ مَسْــــُٔــوْلًا۝۳۶  (بنی اسرائیل ۱۷:۳۶) جس چیز کا تمھیں علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو۔ یقینا کان، آنکھ اور دل سب کی بازپُرس ہوگی۔
یعنی جس چیز کے بارے میں تمھیں کامل اطمینان اور پوری طرح علم نہ ہو تو محض اٹکل اور گمان کی بنا پر اس کے پیچھے نہ لگ جایا کرو۔ تہمتیں، بدگمانیاں اور افواہیں سب ایک ہی قبیل کی بُرائیاں ہیں۔ ایک اچھے اور مہذب معاشرے کو ان بُرائیوں سے پاک ہونا چاہیے۔ اسلام جو معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے، اس کی بنیاد باہمی تعاون، اعتماد اور حُسنِ ظن پر ہوتی ہے۔لہٰذا، کسی معاملے میں کوئی ایسی بات زبان سے نہیں نکالنی چاہیے جو محض افواہ پر مبنی ہو، اور بدگمانی کی وجہ سے کسی کے بارے میں کوئی غلط بات نہ کہی جائے جس کی وجہ سے کسی فرد، جماعت، ادارہ یا طبقے کی عزت و شہرت کو نقصان پہنچتا ہو، یا کچھ لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہو۔
سورۃ الحجرات میں اُمت مسلمہ کی اجتماعی اور شہری زندگی کے لیے ایک جامع ضابطۂ اخلاق پیش کیا گیا ہے۔ اس سورہ میں ان تمام بُرائیوں سے اجتناب کی تاکید کی گئی ہے جو اجتماعی زندگی میں فتنہ و فساد برپا کرتی ہیں اور جن کی وجہ سے لوگوں کے باہمی تعلقات خراب ہوتے ہیں اور رنجشیں پیدا ہوتی ہیں، مثلاً ایک دوسرے کا مذاق اُڑانا، طعن و تشنیع کرنا، لوگوں پر پھبتیاں کسنا ، یا ان کے خلاف بدگمانیاں پیدا کرنا، لوگوں کی غیبت کرنا، عیب جوئی کرنا وغیرہ۔ یہ سب وہ افعال ہیں جو صراحتاً گناہ ہیں اور معاشرے میں بگاڑو فساد پیدا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام بُرائیوں کو نام بنام ذکر کرکے انھیں حرام قرار دیا ہے۔
موضوع کی مناسبت سے یہاں سورئہ حجرات کی ایک آیت خاص طور پر قابلِ توجہ ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ۝۶ (الحجرات ۴۹:۶) اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی اہم خبر لائے تو خوب تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ  تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو، پھر تمھیں اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔
اِس آیت مبارکہ میں واضح طور پر حکم دیا گیا ہے کہ اگر کوئی خبر یا اطلاع ناقابلِ اعتماد ذرائع سے آئے تو بغیر تحقیق و تصدیق اسے من و عن نہیں ماننا چاہیے، بلکہ خوب اچھی طرح اس کی تحقیق کرلینی چاہیے کہ آیا واقعی اس خبر میں کوئی صداقت ہے؟ بغیر کسی تحقیق اور بغیر کامل اطمینان کے اگر کسی ردعمل کا مظاہرہ کیا جائے گا تو اس کا نتیجہ سواے رُسوائی اور ذلّت کے کچھ نہیں ہوگا۔
مفسرین نے اس آیت کا جو پس منظر بیان کیا ہے وہ بھی اس مسئلے کی وضاحت کرتا ہے ۔ عہدنبویؐ میں بعض لوگوں نے قبیلہ بنی المصطلق کے بارے میں رسولِ کریمؐ اور مدینہ منورہ کے مسلمانوں کو غلط اطلاع دی تھی کہ اس قبیلے نے مرکز کے خلاف بغاوت کردی ہے۔ اور یہ کہ انھوں نے مرکز کو زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے لیکن مدینہ منورہ کی جانب سے کسی کارروائی سے قبل خود اس قبیلے کے سردار حارث بن ضرارؓ رسولِ کریمؐ کے پاس تشریف لائے تو انھوں نے تمام حقیقت بیان کی اور بتایا کہ اس قبیلے کے کسی فرد نے بھی زکوٰۃ کی ادایگی سے انکار نہیں کیا، اور نہ مرکز کی جانب سے بھیجے گئے محصِّل کو کسی نے قتل کی دھمکی دی ہے۔ دراصل قبیلہ بنو المصطلق سے مخالفت رکھنے والے بعض افراد نے غلط اطلاعات پھیلا کر مرکز کو اس قبیلے کے خلاف کارروائی پر اُبھارنے کی کوشش کی تھی۔ اصل حقائق معلوم ہونے پر مرکز نے بنو المصطلق کے خلاف کارروائی کا ارادہ موقوف کر دیا۔ قرآنِ حکیم نے اس موقعے پر یہ حکم دیا کہ اس قسم کی جب کوئی خبر یا اطلاع ملے تو اربابِ حل و عقد کو چاہیے کہ اس کی خوب تحقیق کرلیا کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ حالات سے مغلوب ہوکر یا جذبات میں آکر کسی بے گناہ طبقے کے خلاف اقدام کربیٹھیں جس پر بعد میں پچھتانا پڑے۔
عہد نبویؐ میں منافقین اور یہودی افواہیں پھیلانے اور اُمت مسلمہ کے مختلف طبقات کے درمیان منافرت پھیلانے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ اس کے لیے وہ ہرحربہ استعمال کرتے تھے۔ عبداللہ بن ابی نے انصار و مہاجرین کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کے لیے علاقائی تعصب بھی اُبھارنے کی کوشش کی۔ انصار و مہاجرین کے درمیان خوش گوار تعلقات اور اسلامی اخوت و محبت نے مدینہ منورہ میں جو وحدت پیدا کر دی تھی اس میں عبداللہ بن ابی کو اپنی سیاست چمکانے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ وہ باہمی نفرت پیدا کر کے اپنی قیادت کو آگے بڑھانا چاہتا تھا ۔ غزوئہ بنو مصطلق سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجرین کے بارے میں عبداللہ بن ابی نے یہ دھمکی آمیز الفاظ کہے تھے:
لَىِٕنْ رَّجَعْنَآ اِلَى الْمَدِيْنَۃِ لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّ ۝۰ۭ (المنافقون ۶۳:۸)  اگر ہم مدینہ لوٹ جائیں تو وہاں سے عزت والے لوگ بے حیثیت لوگوں کو نکال باہر کریں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان منافقین کی حرکتوں پر کڑی نظر رکھتے تھے اور ان کی تمام تخریبی حرکات کو اپنی حکمت عملی اور بصیرت سے غیرمؤثر بناتے رہے۔ منافقین کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ وہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اور سرگوشی کے انداز میں آپ سے باتیں کرتے۔ ان کی سرگوشیوں کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ عام لوگوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ ان کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خصوصی اور قریبی تعلقات ہیں۔ یہ تاثر پیدا کرکے وہ جو بات رسولِ کریمؐ کی طرف منسوب کرکے پھیلائیں گے عام لوگ اسے مان لیں گے۔ 
اسی طرح عام جگہوں پر کھڑے ہوکر سرگوشی کے انداز میں گفتگو کرتے تھے، جس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ لوگوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ کوئی خاص بات ہے جس کا صرف ان لوگوں کو علم ہے، یا شاید کوئی راز کی بات ہے جو انھیں معلوم ہوئی ہے۔ اس طرح ذہنی اور نفسیاتی طور پر راہ ہموار کی جاتی تھی، تاکہ جب کوئی افواہ پھیلائی جائے تو لوگ اس پر یقین کرلیں۔ یہ لوگ خفیہ اجتماعات بھی کرتے تھے جس کا مقصد اپنی تخریبی پالیسیوں کا جائزہ لینا اور ان کو عملی شکل دینے کی تدابیر کرنا ہوتا تھا۔ قرآنِ حکیم نے منافقین کے خفیہ اجتماعات کے تین مقاصد کا ذکر کیا ہے۔ یہ لوگ گناہ کے کاموں، ظلم و زیادتی اور رسول کریمؐ کی نافرمانی کے لیے اس قسم کے اجلاس کرتے تھے۔ منافقین کے اس طرزِعمل کی وجہ سے قرآنِ حکیم نے سرگوشیاں کرنے اور رازداری کے انداز میں گفتگو کرنے پر پابندی لگا دی، تاکہ یہ لوگ عام لوگوں میں کوئی غلط تاثر پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوں۔
قرآن کریم نے فرعون کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ بہت غرور میں مبتلا تھا، اپنے اقتدار کی خاطر لوگوں میں نسلی امتیاز پیدا کرتا تھا، اور ان میں پھوٹ ڈال کر ان پر حکومت کرتا تھا:
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَاۗىِٕفَۃً مِّنْہُمْ يُذَبِّحُ اَبْنَاۗءَہُمْ وَيَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَہُمْ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ۝۴ (القصص ۲۸:۴) فرعون نے زمین میں سر اُٹھا رکھا تھا۔ اس نے وہاں کے باشندوں کو فرقوں میں تقسیم کردیا تھا۔ اُن میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا۔ ان کے بیٹوں کو ذبح کردیتا اورلڑکیوں کو زندہ رکھتا، یقینا وہ فساد برپا کرنے والوں میں تھا۔
اس آیت مبارکہ میں فرعون کے بھیانک جرائم کو فساد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اُوپر ہم نے منافقین کی تخریبی حرکتوں کو بیان کیا ہے جن میں افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلانا بھی شامل ہے۔ سورئہ بقرہ میں منافقین کی ان حرکتوں کو فساد سے تعبیر کیا گیا ہے:
وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِى الْاَرْضِ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ۝۱۱ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰكِنْ لَّا يَشْعُرُوْنَ۝۱۲ (البقرہ۲:۱۱-۱۲) اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلائو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کررہے ہیں۔ خبردار! یہی لوگ فسادی ہیں ، مگر انھیں شعور نہیں۔
فساد اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں:
وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ۝۲۰۵ (البقرہ ۲:۲۰۵) اور اللہ تعالیٰ فتنہ انگیزی کو پسند نہیں کرتا۔
اخلاقی نقطۂ نگاہ سے غور کریں تو بھی افواہیں پھیلانا بہت گھٹیا اور مذموم حرکت ہے۔ اس لیے کہ غیبت کرنا، تہمتیں لگانا، جھوٹ بولنا، لوگوں کی کردار کشی کرنا اور تحقیر و تذلیل نہ صرف گناہِ کبیرہ ہیں، بلکہ وہ بُرائیاں ہیں جنھیں تمام اخلاقی نظام غیراخلاقی حرکت تصور کر کے رد کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ افواہیں پھیلانے میں ان تمام بُرائیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اسلام کا اخلاقی ضابطہ تو ایسے کردار کی تعمیر و تشکیل کرتا ہے جس کی بنیاد صداقت، امانت و دیانت داری، باہمی اخلاص و محبت، اعتماد اور عدل و انصاف پر ہوتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہرانسان فطرتاً اچھا ہے، بدگمانی گناہ ہے۔ حدیث نبویؐ میں ہے کہ اہلِ ایمان کے بارے میں اچھا گمان رکھو۔ بلاوجہ تجسّس اور عیب جوئی بھی جائز نہیں ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ قرآن و سنّت کی رُو سے افواہیں پھیلانا، بے بنیاد خبریں شائع کرنا قطعاً جائز نہیں۔ اس قسم کی حرکتوں میں جو لوگ ملوث ہوں گے وہ جرم میں ملوث تصور کیے جائیں گے۔ ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ قرآن و سنت میں جہاں اس قسم کی مذموم حرکتوں پر پابندی عائد کی گئی ہے، وہاں مملکت کے عام اور ذمہ دار شہریوں پر بھی یہ فریضہ عائد کیاگیا ہے کہ وہ بھی افواہوں کی روک تھام اور ملک و ملّت کی سلامتی کے معاملات میں پورا پورا تعاون کریں۔
افواہوں کی روک تھام میں حکومت کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ خاص طور پر نشرواشاعت کے وہ ادارے جو حکومت کی زیرنگرانی کام کر رہے ہیں، مثلاً ریڈیو یا ٹیلی ویژن وغیرہ۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کام یہ کرناہوگا کہ یہ ادارے عوام میں اپنا اعتماد پیدا کریں تاکہ لوگ ان اداروں کی مہیا کردہ اطلاعات پر بھروساکرسکیں۔ یہ ادارے کردار سازی کا تو کام کریں، لیکن کردار کشی کے لیے استعمال نہ ہوں۔ ان اداروں پر اعتماد بحال ہونے سے افواہ سازوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ ہماری ملکی اور ملّی صحافت پر بھی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ہمارے بعض اخبارات کا طرزِعمل تو بہت ہی غیرمحتاط ہوتا ہے۔ وہ غیرمصدقہ اور بے بنیاد خبریں شائع کرکے معاشرے اور مملکت دونوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اخبارات کو چاہیے کہ وہ ایسی خبریں جن کا براہِ راست اثر ملک و ملّت پر پڑتا ہو، یا جن سے ہمارے ملّی ادارے متاثر ہوتے ہوں، یا افراد کے کردار پر ان کا اثر پڑتا ہو، بلاتحقیق شائع نہ کریں۔ صرف ان چیزوں کو شائع کرنا چاہیے، جن کی اشاعت واقعی ضروری ہو اور ان کی اشاعت سے منفی اثرات معاشرے میں نہ پیدا ہوتے ہوں۔
اگر ہمارے ذرائع ابلاغ اِن آیاتِ قرآنی اور احادیث نبویؐ کی روشنی میں ایک ضابطۂ اخلاق طے کرلیں، تو یقینا مثبت اور صحت مند صحافت بھی افواہ سازی کے خلاف اپنا کردار ادا کرسکے گی۔

درخشاں نامی ایک خوبرو اور پڑھی لکھی لڑکی کو اس کے والدین میرے پاس لے کر آئے۔ وہ شادی کے لیے ہرگز تیار نہیں تھی۔ عام طور پر اس کی وجہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ: ’’لڑکی ہمارے تجویزکردہ رشتے سے خوش نہیں ہے، یا کسی اور سے شادی کرنا چاہتی ہے، یا مزید تعلیم حاصل کرنا اور کیریئر کو آگے بڑھانا چاہتی ہے‘‘۔ لیکن درخشاں کا ان میں سےکوئی بھی مسئلہ نہیں تھا۔ اس کی انجینیرنگ مکمل ہوچکی تھی۔ اب نہ اسے مزید پڑھائی سے دل چسپی تھی اور نہ وہ نوکری کرنا چاہتی تھی۔ وہ کسی سے بھی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ والدین کے لیے یہ فطری طور پر پریشانی کی بات تھی۔
درخشاں کے اس انکار کی وجہ وہی اندیشے تھے، جو اس عمر کی اکثر لڑکیوں میں عام طور پر پائے جاتے ہیں۔ درخشاں نے مجھ کو بتایا کہ: ’’میری شادی شدہ سہیلیوں نے بتایا کہ تنہا رہنا ہی بہتر ہے، اور اسی طرح زندگی کا زیادہ بہتر لطف اُٹھایا جاسکتا ہے۔ میری سہیلیاں ہمیشہ اپنے شوہروں کے غلط رویوں کا ذکر کرتی ہیں اور مجھ سے مشورے بھی مانگتی ہیں۔ یہ ساری باتیں مجھے پریشان کرتی اور شادی سے خوف دلاتی ہیں۔ میں شادی کے خلاف نہیں ہوں مگر مجھے ناخوش رہنے اور زندگی کا مزا کھودینے سے خوف آتا ہے‘‘۔ اس نے مجھ سے یہ بھی پوچھا کہ: ’’یہ جو فلموں  اور ڈراموں میں دکھاتے ہیں کہ لڑکا اور لڑکی شادی کرنے کے لیے تڑپتے ہیں، اور بعد میں    ایک دوسرے پر جان چھڑکتے ہیں۔ کیا یہ سب حقیقت میں بھی ہوتا ہے؟ ‘‘

  • ازدواجی تنازعات کا بنیادی سبب :یہ سوال ہرغیرشادی شدہ عورت کے ذہن میں آتا ہے اور چند لڑکیوں میں شادی کے بعد کے ممکنہ حالات کا خوف شادی کرنے کے قدرتی جذبے پر حاوی ہوجاتا ہے۔ اگر وہ شادی کے لیے تیار ہوتی بھی ہیں تو سخت اندیشوں کے ساتھ ۔ اپنی زندگی کا سب سے اہم اور خوب صورت دن، یعنی شادی کا دن، وہ سخت دبائو اور تنائو کی حالت میں گزارتی ہیں۔ خوف اور اندیشوں کا بوجھ لیے اپنے شریک ِ زندگی کے گھر میں داخل ہوتی ہیں۔

اس کی وجہ کیاہے؟ اس وجہ کو ہم سمجھ جائیں تو شاید اَزدواجی زندگی کے بیش تر مسائل پر قابو پالیں اور اپنے معاشرے کو اَزدواجی تنازعات کی لعنت سے پاک کرنے میں بھی کامیاب ہوجائیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک لڑکی کو اپنے اطراف و اکناف میں بہت کم خوش و خرم اور پُرجوش جوڑے نظر آتے ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں بہت سی عجیب باتیں پختہ روایات کا درجہ اختیار کرچکی ہیں۔ ’ساس بہو کی چپقلش‘ فلم، ڈرامے ، افسانے اور ناول سے لے کر گھریلو گپ بازیوں تک، ہرجگہ کا روایتی موضوع بن چکا ہے۔ یہ سب عناصر مل مل کر لڑکی کے اندر یہ یقین پیدا کردیتے ہیں کہ ’ساس ایک نہایت ظالم مخلوق کا نام ہے‘۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے دماغ کے دو اجزا بنائے ہیں: ایک شعور (Conscious Mind) اور دوسرا لاشعور (Unconscious Mind)۔ شعور دماغ کا وہ حصہ ہے جس پر ہمارا کنٹرول ہوتا ہے، جس سے کام لے کر ہم فیصلے کرتے، سوچتے اور مسائل حل کرتے ہیں۔ یہیں ہم چیزوں کو یاد رکھتے ہیں۔ اس کے بالمقابل لاشعور دماغ کا وہ حصہ ہے، جس پر ہمارا کنٹرول نہیں ہوتا۔ یہیں سے ہماری عادتیں چال ڈھال اور جذبات نمو پاتے، ہمارے رویے اور مزاج ڈھلتے ہیں۔
پیدا ہونے سے پہلے سے، یعنی شکم مادر کے اندر سے اب تک، جو کچھ باتیں ہم سنتے، دیکھتے، محسوس کرتے اور پھر اس دنیا میں تجربہ کرتے آئے ہیں، وہ بھی ہمارے لاشعور میں محفوظ ہوتی چلی جاتی ہیں اور ہمارے رویوں اور عادتوں کو جنم دیتی ہیں۔ بچپن کا ایک ناخوش گوار تجربہ ہمیں یاد بھی نہیں رہتا، لیکن ہمارے لاشعور میں محفوظ رہتا ہے، اور اس نامعلوم تجربے کی وجہ سے زندگی بھر ہمارا مزاج چڑچڑا اور غصیلا بن جاتا ہے۔ ہماری ہر عادت، ہر رویہ اور شخصیت کا ہرپہلو اسی طرح تخلیق پاتا ہے۔ اچھے رویے کے لیے ضروری ہے کہ لاشعور کی اچھی تہذیب و تربیت (پروگرامنگ) ہو۔
اب اگر کوئی لڑکی اپنے لاشعور میں یہ تصور لے کر سسرال میں قدم رکھے کہ: ’’ساس، نند، جٹھانی، یہ سب نہایت ظالم لوگوں کے نام ہیں، جب کہ خوشی میکے ہی میں ملتی ہے۔ سسرال تو بس مشقت اور آزمایش کی جگہ ہے‘‘ تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ سسرال اور سسرالی رشتہ داروں سے متعلق ہرمعاملے کو خوف اور شک کے زاویے ہی سے دیکھے گی۔ نند کی چھوٹی سی غلطی بھی بہت بڑی نظر آئے گی۔ جن باتوں پر ماں ہمیشہ ٹوکتی تھی، انھی میں سے کسی بات پر ساس کچھ کہہ دے تو یہ بڑا ظلم ہوگا (اس طرح کے غلط تصورات ساس کے دماغ میں بھی ہوتے ہیں اور اس کا بہو کے ساتھ رویہ واقعتاً خراب ہوسکتا ہے لیکن اس وقت چونکہ ہمارا موضوع لڑکیوں کی رہنمائی ہے،اس لیے اس کا ذکر مَیں نہیں کررہی ہوں)۔ ان لاشعوری تصورات کا اثر لڑکی کے رویے پر پڑے گا۔ وہ سسرال میں کسی کو اپنا سمجھے گی ہی نہیں، اور لاشعور میں موجود غیریت کا یہ احساس اس کی آواز، لہجے، حرکات و سکنات اور اس کے عمل، ہرچیز سے ظاہر ہوگا۔ ایک طرف کی سردمہری، دوسری طرف بھی سردمہری کو فروغ دیتی، بلکہ بڑھاتی ہے۔ 
اگر آنے والی بہو کے رویوں سے مستقل ناپسندیدگی اور غیریت ظاہر ہورہی ہو، تو سسرال والے محبت و اپنائیت کا جذبہ بھی رکھتے ہوں تو یہ جذبات بھی دھیرے دھیرے معدوم ہوجاتے ہیں اور بہت جلد دوطرفہ تلخیوں کے دور کا آغاز ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف سسرالی رشتہ داروں سے بلکہ شوہر سے بھی تنازعات شروع ہوجاتے ہیں۔ میرے پاس جو کیس آتے ہیں، ان کی روشنی میں، مَیں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اکثر ناکام شادیوں کی ناکامی کے عوامل، لڑکی یا لڑکے کے ماںباپ ان کی شادی سے بہت پہلے پیدا کرچکے ہوتے ہیں۔ لڑکی کے ماں باپ، اس کا ایسا ذہن بنا چکے ہوتے ہیں کہ وہ ایک اچھی بیوی یا اچھی بہو کا کردار ادا کرنے کے لائق ہی نہیں رہتی یا لڑکے کے ماں باپ اور دوست احباب، اس کا ایسا لاشعور بنا چکے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی بیوی کو خوش رکھنے کی نفسیاتی اور جذباتی لیاقت ہی سے محروم ہوچکا ہوتا ہے۔
اس لیے خاندانی زندگی کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ دولھا اور دلھن کو ایک تربیتی کورس سے گزارا جائے۔ آج کل معمولی معمولی کام بھی تربیت کے بغیر حوالے نہیں کیے جاتے۔ عقد نکاح تو ایک بہت بڑا کام ہے۔ اس کے ذریعے معاشرے کا ایک نہایت اہم ادارہ، یعنی ’خاندان‘ وجود میں آتا ہے۔ ایک کم عمر اور ناتجربہ کار لڑکی اور ایک نوعمر لڑکا، مل کر ایک ایسے ادارے کا نظام سنبھال رہے ہوتے ہیں، جس کی معاشرے میں بڑی اہمیت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کو تربیت اور رہنمائی کے عمل سے گزارا جائے (آج کل غیرمسلم معاشروں میں اس طرح کے کورس اور شادی سے قبل کونسلنگ یا مشاورت کا عمل بہت رواج پاچکا ہے)۔ 
مشاورت کی پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرنے کے دوران میں ایک عیسائی پادری (فادر) ہمارا ہم جماعت تھا، جو چرچ میں ازدواجی مشاورت کے کام پر مامور تھا۔ اسے چرچ نے دنیا کے  کئی ملکوں میں بھیج کر مہنگے کورس کرائے تھے۔ ان کے ذریعے معلوم ہوا کہ: ’چرچ میں مشاورت اور کونسلنگ اور خاندانی زندگی کی تربیت کا بہت پاے دار نظام بھی ہے اور عیسائی معاشرے میں اس کی مستحکم روایات بھی۔ چرچ کی باقاعدہ تربیت کے بغیر کوئی عیسائی جوڑا اپنی اَزدواجی زندگی شروع نہیں کرتا‘‘۔ میں نے کلاس میں بتایا کہ: ’’اسلام تو خاندانی زندگی کے سلسلے میں بہت تفصیلی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ہمارے علما نے لکھا ہے کہ اگر آپ کوئی کام کر رہے ہیں تو اس کام سے متعلق شریعت کا علم حاصل کرنا لازم ہوجاتا ہے‘‘۔ 
اس لحاظ سے اَزدواجی زندگی کے آغاز سے پہلے، اسلامی شریعت کی اس سے متعلق تعلیمات کو جاننا فرض ہے اور یہ معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا مناسب انتظام کرے۔ شادی سے قبل کونسلنگ کے اس پروگرام میں درج ذیل اُمور کا احاطہ ہونا چاہیے:

  • ازدواجی زندگی کے اسلامی احکام کا شعور:سب سے پہلی ضرورت تو یہ ہے کہ لڑکیوں اور لڑکوں کو اَزدواجی زندگی کے اسلامی احکام بتائے جائیں۔ انھیں بتایا جائے کہ یہ  اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام ہیں۔ ہمارے معاشرے اور خاندان کی روایتوں کا یہ مقام نہیں ہے کہ انھیں شریعت کے احکام پر فوقیت دی جائے۔ خاندانی روایتوں کا لحاظ ہونا چاہیے لیکن شریعت کے تابع اور اس دائرے کے اندر۔ جہاں روایت اور شریعت میں ٹکرائو ہو، وہاں شریعت کی بات ماننا ہی ہمارے ایمان کا تقاضا ہے۔ پھر ان کو تفصیل سے شوہر کے حقوق، بیوی کے حقوق، شوہر کی ذمہ داریاں، بیوی کی ذمہ داریاں، خاندان کے دیگر افراد کے حقوق اور   ذمہ داریاں، بچوں کے حقوق، تنازعات اور ان کے حل کے طریقے وغیرہ کے سلسلے میں اسلامی احکام بتائے اور ذہن نشین کرائے جائیں۔ ہوسکے تو اس کا امتحان بھی لیا جائے۔ اس موضوع پر رہنمائی کے لیے درج ذیل کتابوں سے بھی مدد لی جاسکتی ہے: حقوق الزوجین (مولانا مودودی)، اسلام کے عائلی قوانین (مولانا عروج قادری)، اسلام کا عائلی نظام (مولانا سیّد جلال الدین عمری)، آدابِ زندگی (محمد یوسف اصلاحی)۔
  • درست خطوط پر ذہنی تربیت:دوسری ضرورت یہ ہے کہ ان کے لاشعور کی صحیح تربیت کی جائے۔ ان کے غلط تصورات کو چیلنج کیا جائے۔ اَزدواجی زندگی کا دل کش اور دل ربا نقشہ ان کے ذہن میں بٹھایا جائے اور واقعہ یہ ہے کہ یہ رشتہ ہے بھی بہت خوب صورت ۔ زندگی کی بہار اور اس کی بے شمار مسرتیں، اس رشتے سے وابستہ ہیں۔ اسی لیے تو قرآن نے اسے سکون، رحمت اور مودت کا گہوارا قرار دیا ہے:

وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْہَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً۝۰ۭ (الروم ۳۰:۲۱) اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت و اُلفت پیدا کردی۔

تربیت دینے والی تربیت کار کی ذمہ داری ہے کہ وہ کوشش کرے کہ سسرال کی نئی زندگی کو لڑکی ایک خوب صورت اور پُرکشش مہم کے طور پر لے۔ لڑکیاں اس مثبت تصور کے ساتھ سسرال میں قدم رکھیں گی، تو بدمزاج سسرالی رشتے داروں تک کے بھی دلوں کو جیت لیں گی۔ ممکنہ سسرالی رشتے داروں کا تعارف کرایا جائے۔
آج الحمدللہ ہمارے مسلم معاشرے میں ایسی ساسوں کی کمی نہیں جو بہوؤں پر مائوں کی طرح ہی پیار لٹاتی ہیں۔ ایسی مثالیں سامنے لائی جائیں۔ لڑکے کے ذہن کے تصورات کو درست کیا جائے۔ اس کے ذہن میں بیوی کا تصور اگر محض ایک ہمہ وقتی خادمہ کا ہے تو اس تصور کو درست کیا جائے۔ اسے بتایا جائے کہ بیوی کا مطلب کیا ہے؟ شریعت نے اسے کیا مقام اور کیا حقوق دیے ہیں؟ مختصر یہ کہ تربیتی پروگرام میں لاشعور کی اس طرح تربیت کی جائے کہ شوہر اور بیوی نہایت مسرت اور ولولے کے ساتھ، لیکن درست اور حقیقت پسندانہ تصورات کے ساتھ، اپنی نئی زندگی کا آغاز کرسکیں اور نہایت خوش گوار ماحول میں ایک نئے خاندان کا سنگ بنیاد نصب ہوسکے۔ اس کے لیے تربیت کار کو بہت سے واقعات سنانے ہوں گے۔ 

  • شادی کے صحیح فیصلے کے لیے رہنمائی: ایک ضرورت یہ بھی ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو شادی سے متعلق صحیح فیصلے کے لیے تیار کیا جائے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں لڑکیاں اور لڑکے بھی، شادی سے متعلق فیصلہ کرنے کی لیاقت کم ہی رکھتے ہیں۔ وہ اگر خود اپنی ہونے والی دلھن (یا دولھے) کا انتخاب کرتے ہیں تو اس کی وجہ کوئی سوچا سمجھا فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ وقتی جذباتی محرکات ہوتے ہیں، جو اکثر پچھتاوے ہی کا سبب بنتے ہیں۔ اکثر دوسری صورتوں میں لڑکیاں ہی نہیں لڑکے بھی فیصلہ مکمل طور پر ماں باپ پر چھوڑ دیتے ہیں اور بعد میں خود بھی پچھتاتے ہیں اور ماں باپ سے بھی شکایت پیدا ہوجاتی ہے۔ اسلام نے شادی میں لڑکے اورلڑکی کی راے کو بہت اہمیت دی ہے۔ ایجاب و قبول اصل میں انھی کے درمیان ہوتا ہے۔ اس لیے حتمی فیصلہ اصلاً انھی کو کرنا ہے۔ مشاورت کا ایک مقصد یہ ہو کہ اس فیصلے کے لیے ان کو تیار کیا جائے۔ اس کے لیے درج ذیل مشورے مفید ہوسکتے ہیں:
    •    لڑکیوں سے (اور لڑکوں سے بھی) یہ پوچھا جائے کہ وہ اپنے شریکِ حیات کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں؟ اس سلسلے میں ان کی ترجیحات کیا ہیں؟ انھیں اس پر سوچنے کی مشق کرائی جائے اور کہا جائے کہ وہ جو کچھ سوچ رہے ہیں، اُسے قلم بند کرلیں۔ اسلام نے دین کو ترجیح دینے کا حکم دیا ہے، لیکن ذاتی ذوق اور پسند کے لحاظ سے دیگر معیارات کا بھی لحاظ رکھا ہے۔آپ اپنے آپ کو اور اپنے مزاج، ذوق اور مصروفیات کو سامنے رکھ کر سوچیے کہ شریک ِ حیات کیسا ہونا چاہیے؟ معاشرت، مزاج، پیشہ، شخصیت؟ کلچر، وطن وغیرہ، ان سب حوالوں سے سوالات کرکے ان کی مدد کیجیے۔
    •  انھیں کہیے کہ اب اس فہرست میں ترجیحات کا تعین کیجیے۔ کون سی باتیں ایسی ہیں جن پر کوئی مصالحت آپ کرنا نہیں چاہیں گے اور کون سی باتیں ہیں جن پر مصالحت ہوسکتی ہے۔ اگر ان کی باتیں غیرعملی اور خیالی ہیں تو ان سے مشاورت کیجیے اور افسانوی دنیا سے نکالیے۔ خوابوں کی دنیا سے انھیں حقیقت کی دنیا میں لے آیئے۔ یہاں تک کہ ان کی نہایت معقول، حقیقت پسند فہرست تیار ہوجائے۔ اسی طرح ایک منفی فہرست بھی تیار ہونی چاہیے، یعنی وہ کیا باتیں ہیں جو آپ اپنے شریک ِ حیات میں بالکل دیکھنا نہیں چاہتے؟ اس منفی فہرست کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اکثر ایسی باتیں ہی میاں بیوی کے درمیان سردمہری کا سبب بنتی ہیں۔ اس لیے شادی سے پہلے ہی ان کے بارے میں ذہن صاف ہو اور اس کی بنیاد ہی پر شریک ِ حیات کا انتخاب ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ ’’ہماری ہرپسند کا ہمیشہ لحاظ رکھا جائے‘‘، یہ مطالبہ حقیقی زندگی میں ممکن ہی نہیں رہتا۔ لڑکیوں کا رشتہ یوں بھی ہمارے معاشرے میں عام طور پر قدرے مشکل ہی سے طے ہوپاتا ہے۔ اس لیے ان کو ضروری مصالحانہ طرزِعمل (compromise) کے لیے بھی تیار کرنا چاہیے۔ لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ لڑکی کی کوئی پسندوناپسند ہی نہ ہو۔ اس کی ترجیحات اور اس کی پسند و ناپسند کو بھی اس کے ماں باپ کے علم میں ہونا چاہیے اور جس حد تک ممکن ہو، اُس کا لحاظ بھی رکھا جانا چاہیے۔
  • جذباتی نہیں، سوچا سمجھا فیصلہ:ان کو دماغ سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کے لائق بنایئے۔ شادی کا فیصلہ ایک دُور رس فیصلہ ہے۔یہ لڑکے اور لڑکی کی بقیہ زندگی کا رُخ متعین کرنے والا اور زندگی کے بیش تر حصے کو متاثر کرنے والا فیصلہ ہے۔ ایسا فیصلہ وقتی جذبات کے دبائو میں نہیں کیا جاسکتا۔ سوچ سمجھ کر ہی کیا جانا چاہیے۔ والدین کی راے کو اہمیت دینی چاہیے کہ وہ اس کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور تجربہ کار لوگوں میں ہمارے سب سے زیادہ خیرخواہ ہوتے ہیں۔ لڑکی جن لوگوں کی آرا پر اعتماد کرتی ہے، جن سے قربت محسوس کرتی ہے اور جن کے سامنے بے تکلف اپنی بات کہہ سکتی ہے، ان سے بھی اسے مشورہ کرنا چاہیے۔ عام طور پر یہ ماں ہی ہوتی ہے لیکن بعض اوقات بہن، بھائی، بھاوج، لڑکی کی کوئی سہیلی وغیرہ کو بھی یہ مقام مل جاتا ہے۔ ان سے مشورے کی ہمت افزائی کرنی چاہیے۔ لیکن بہرحال آخری فیصلہ لڑکی یا لڑکے کا ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں اگر کوئی ہچکچاہٹ ہو تو کونسلر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے دُور کرے اور شادی کے مسئلے پر لڑکے یا لڑکی کے اپنے والدین اور بھائی بہنوںسے صاف، بے تکلف گفتگو کی راہ ہموار کرے۔
  • باہمی مشاورت پر مبنی گھریلو زندگی:اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ شادی کے بعد شوہر کے ساتھ مل جل کر اسلام کے بتائے ہوئے شورائی طریقے سے فیصلے کرنے کی بھی انھیں تربیت دی جائے۔ نکاح کے بعد اب شوہر یا بیوی اکیلے نہیں رہے۔ وہ ایک ٹیم بن گئے ہیں۔ دونوں کی زندگی ہی نہیں، بلکہ زندگی کے سارے مراحل اور مسائل ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہوگئے ہیں۔ دونوںکو مل کر طے کرنا ہے کہ انھیں زندگی کیسے گزارنی ہے؟ ان کا گھر کیسا ہوگا؟ کس کی کیا ذمہ داری ہوگی؟ آیندہ پانچ برسوں میں اور دس برسوں میں وہ کہاں پہنچنا چاہیں گے ؟ وغیرہ۔ بعد میں بچے ہوں گے تو بچوں سے متعلق فیصلے بھی دونوں کو مل جل کر اسلامی شورائیت کے تقاضے نبھاتے ہوئے کرنے چاہییں۔ دونوں مل جل کر طے کریںگے اور مل جل کر اپنے فیصلوں کو نافذ کرنے کی کوشش کریں گے تو ان شاء اللہ تنازعات کا امکان کم سے کم ہوگا۔ اس لیے اس تربیت کی زیادہ ضرورت لڑکوں کو ہے، لیکن لڑکیوں کو بھی ہے۔
  • جذباتی ذہانت کی تربیت: کامیاب زندگی کے لیے اُس چیز کی بڑی ضرورت ہے جسے آج کل ’جذباتی ذہانت‘ کہا جاتا ہے۔ امریکی ماہر نفسیات ڈینیل گولمین نے ۲۰ سال پہلے ثابت کیا تھا کہ زندگی میں کامیابی کے لیے ذہانت (IQ)سے زیادہ جذباتی توازن (EQ)کی اہمیت، یا اس بات کی اہمیت ہے کہ وہ اپنے اور دوسروں کے جذبات کو شعور کے ساتھ کتنا سمجھتے ہیں؟ کیسا رویہ اختیار کرتے ہیں؟ سماجی پیچیدگیوں کا کیسے سامنا کرتے ہیں؟ جذبات کو کیسے قابو میں رکھتے ہیں اور کیسے اپنے اور لوگوں کے جذبات کا اس طرح لحاظ رکھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں ہمارے فیصلے اور اقدامات درست اور مطلوب نتائج کے حصول کا ذریعہ بنیں؟ اپنے اور دوسروں کے جذبات کو سمجھنے اور انھیں نظم و ضبط میں لانے (manage) کی صلاحیت کا نام ’جذباتی ذہانت‘ ہے۔ شادی کے نہایت اہم مرحلے میں ، جس کا گہرا تعلق جذبات سے ہے، اگر دولھا اور دلھن کو جذباتی ذہانت کے ضروری کورس سے گزارا جائے تو ان شاء اللہ ، اس کے بھی مفید نتائج برآمد ہوں گے۔
  • اظہارِ جذبات کی تربیت:ایک اہم ضرورت ابلاغ (کمیونی کیشن) کی ہے۔ امرِواقعہ ہے کہ شادی شدہ زندگی کے مسائل کا ایک بڑا سبب ناقص ابلاغ ہوتا ہے۔ دونوں میں سے کسی کے دل میں کوئی کدورت نہیں ہوتی، محبت ہی ہوتی ہےلیکن اس کیفیت کی ترجمانی زبان نہیں کرپاتی۔ لہجے اور زبان کا تیکھاپن رشتوں میں زہر گھول دیتا ہے۔ غیر واضح اور مبہم ابلاغ غلط فہمیاں پیدا کرتا ہے اور رشتوں میں دراڑیں ڈالتا ہے۔ بات کرنے میں ہچکچاہٹ، ٹال مٹول اور تاخیر، غلط فہمیاں بھی پیدا کرتی ہے اور فریقین کو الگ الگ اور ایک دوسرے سے جدا دائروں میں پہنچا دیتی ہے۔ اچھے، پاکیزہ اور صحت مند جذبات کا پُرجوش اظہار نہ ہو تو ان کی وہ غیرمعمولی طاقت ضائع ہوجاتی ہے، جس کے ذریعے وہ رشتوں کو بے پناہ مضبوطی عطا کرسکتے ہیں۔ دولھا اور دلھن کو ان سب کی تربیت ملنی چاہیے۔ ایک اچھے تربیتی پروگرام میں مشقوں، مثالوں اور کیس اسٹڈیز وغیرہ کے ذریعے دولھا اور دلھن کو اس لائق بنا دینا چاہیے کہ وہ جب بھی بولیں تو ان کے درمیان رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جائے۔ نہ صرف آپس میں، بلکہ سسرالی رشتہ داروں سے بھی بات کریں تو ابلاغی تعلق کو مضبوط تر ہی کرے۔
  • اللہ سے رجوع اور دُعا: شوہر اور بیوی کو یہ بھی معلوم ہو کہ ان کے رشتے پر اثرانداز ہونے والے عوامل صرف وہ خود اور ان کے قریبی رشتہ دار ہی نہیں ہیں۔ سب سے طاقت ور عامل، ربِ کائنات کی ذات ہے، اس لیے انھیں خدا سے رجوع کرنے کی تربیت بھی ملنی چاہیے۔ بہتر ہے کہ رشتے کے انتخاب اور شادی کے بعد بھی ہر اہم فیصلے سے پہلے استخارہ کریں۔ شوہر بیوی کے لیے اور بیوی شوہر کے لیے دُعا کرے۔ ایک دوسرے کے لیے دُعا محبت کو بڑھاتی اور تلخیوں کو مٹاتی ہے۔ سونے سے پہلے شوہر کا بیوی کے لیے اور بیوی کا شوہر کے لیے دعا کرنا سنت سے ثابت ہے۔ کبھی کبھی مل کر دُعا کریں۔ جب بھی کوئی مشکل ہو، کوئی تنازع ہو، یا رشتہ کسی مشکل سے دوچار ہو، تو سب سے پہلے اللہ سے مدد مانگی جائے۔ ایک مسلمان کی سب سے بڑی قوت دُعا، اللہ پر ایمان اور اس سے تعلق کی قوت ہی ہے۔ یہ قوت اَزدواجی رشتے میں بھی پوری طرح استعمال ہونی چاہیے۔

چند بنیادی اُمور

درج ذیل باتوں کی ضروری تربیت بھی اس تربیتی کورس کا حصہ ہونا چاہیے:

  • معاف کرنے کی تربیت دیں: معاف کرنا اور معافی چاہنا یہ دونوں مزاج کی بڑی اہم خصوصیات ہوتی ہیں۔ رشتوں کی مضبوطی میں اس کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ بہت سے لوگوں کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہوتی۔ اس مرحلے پر اس کی اہمیت بھی لڑکوں اور لڑکیوں کو معلوم ہونی چاہیے اور اس کی صلاحیت بھی ان کے اندر پیدا ہونی چاہیے۔ معافی چاہنا صرف بے جان جملے کا نام نہیں ہے، ایک بڑے جان دار اور احسن رویے کا نام ہے۔ 
  • شکرگزاری سکھائیں: دولھا اور دلھن کو سکھائیں کہ کیسے ایک دوسرے کے لیے، گھر والوں کے لیے اور خدا کے لیے شکرگزاری کے جذبات پروان چڑھائے جاسکتے ہیں۔ جس چیز کو آج کل مثبت طرزِ فکر (Positive Mental Attitude) کہا جاتا ہے، اس کا سب سے خوب صورت مظہر اسلام میں شکر کا تصور ہے۔
  • خوش رہنا سکھائیں: دولھا اور دلھن اپنی زندگی کے سب سے پُرمسرت دور کا آغاز کر رہے ہیں۔ انھیں سکھایئے کہ کیسے وہ ان لمحات کو یادگار بنا سکتے ہیں۔ چھوٹی موٹی کمزوریوں کو نظرانداز کرنا اور ایک دوسرے کی شخصیتوں کے حسین پہلوئوں پر نظریں جمادینا، یہی پاے دار اَزدواجی زندگی کا اصل راز ہے۔اسی سے یہ رشتہ محبت و مودت اور سکون و طمانیت کا گہوارا بن جاتا ہے۔
  • حقیقی حُسن: اس کے ساتھ ساتھ، لڑکے اور لڑکی کو اس کی تربیت بھی ملنا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے کیسے باعث ِ کشش بن سکتے ہیں۔ لڑکی کے لیے بنائوسنگھار ایک وقتی اور عارضی چیز ہے، اور بلاشبہہ اہم بھی۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ کشش کا تعلق جسمانی محاسن سے زیادہ باطنی محاسن سے ہے۔ گفتگو، لب و لہجہ اور رویے کا حُسن زیادہ دیرپا کشش پیدا کرتا ہے۔
  • رشتوں کا احترام: بتائیں کہ ہر رشتہ اہم ہوتا ہے۔ ماں اور ساس کے درمیان موازنے کی عادت صحیح نہیں ہے۔ ماں کی محبت اور ساس کی محبت کی نوعیت میں ویسا ہی فرق ہوتا ہے، جیسے مثلاً باپ کی محبت اور بھائی کی محبت میں فرق ہوتا ہے۔ محبت کی الگ نوعیت کا مطلب ساس کا عدم لگائو نہیں ہے۔ اسی طرح ہرگھر کا اپنا رہن سہن اور کلچر ہوتا ہے۔ اس کے اچھے پہلو بھی ہوتے ہیں اور خراب بھی۔ گھروں کے کلچر اور روایتوں کے بے جا موازنے سے بھی بچنا چاہیے۔
  • ایک دوسرے کی قدروقیمت کا احساس: لڑکی کو شوہر کے مال کی قدر کی عادت ہونی چاہیے۔ اس کے پیشہ اور مصروفیت کی بھی قدر ہونی چاہیے۔ اسی طرح لڑکے کو اپنی بیوی کی قربانیوں، مشقتوں اور کام کی قدر ہونی چاہیے۔

ایک اچھی تربیت کار، جو اسلام کی تعلیمات سے بھی واقف ہو اور رہنمائی و مشاورت کی جدید تکنیکوں سے بھی، وہ ان سب باتوں کا لحاظ کرتے ہوئے ایسا تربیتی کورس بنا سکتی ہے، جو مفید بھی ہو اور نہایت دل چسپ بھی۔ کہانیوں، قصوں،مشقوں، کیس اسٹڈیز وغیرہ کی دل چسپ و مؤثر تکنیکوں کے ذریعے سے انھیں لڑکے اور لڑکی کے اندر ضروری تبدیلی کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے۔ 

دین اسلام میں مسجد ایک انقلابی ادارہ ہے اور مسلم معاشرے میں اس کا مقام وہی ہے جو انسانی جسم میں قلب کا ہے۔ جب تک قلب متحرک ہے جسم میں جان ہوتی ہے اور جب قلب کمزور پڑجاتا ہے تو جسم بھی شل ہوجاتا ہے۔ مسجد نہ تو اتوار کے اتوار سرگرم ہونے والا چرچ ہے، نہ محض یومِ سبت کو گریہ و زاری کرنے والا معبد، اور گنتی کے چند مخصوص اوقات اور دنوں میں پوجا پاٹ کیا جانے والا مندر، بلکہ دن رات کے کسی بھی لمحے نہ صرف فرض نمازوں، سنتوں، نوافل، اعتکاف اور قیام و سجود کی جگہ ہے بلکہ عبادت، تربیت، دعوت اور خاص طور پر خدمت خلق کا ایک ایسا مرکز ہے، جس کی مثال کسی دوسرے مذہب میں نہیں مل سکتی۔
مسجد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو سب سے پہلے اپنے دست ِ مبارک سے مسجد قبا تعمیر کی اور یہاں پہلا جمعہ ادا کیا۔ اس کے بعد اپنے گھر تک کی تعمیر سے پہلے مسجد نبویؐ کی بنیاد رکھی اور اسے تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات کا مرکز قراردیا۔
امام بخاریؒ نے اپنی کتاب الجامع الصحیح میں مسجد کے احکام و آداب اور اس کے استعمال کے دائرے کی تفصیل ۵۰ سے زائد ابواب باندھ کر بیان کی ہے، جس سے مسجد کی اہمیت، اس کے استعمال کا وسیع دائرہ اور معاشرے میں اس کے مقام و مرتبے کے علاوہ انسانیت کی خدمت کا پتا چلتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مسجد نبویؐ قیامت تک کے لیے اُمت مسلمہ کے لیے ایک مینارئہ نور اور اسوئہ نبویؐ کا عملی نمونہ ہے۔ اس کسوٹی پر ہم اپنے معاشرے میں مساجد میں ہونے والے اُمور کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ہم نے اسے معاشرے میں عبادت، تربیت اور خدمت کا مرکز اور محور بنانے کے بجاے اسے مصنوعی تقدس دے کر نہ صرف مسلم معاشرے کو بلکہ پوری انسانی سوسائٹی کو اس کے حقیقی فوائد و ثمرات سے محروم کر دیا ہے۔ اس کی ظاہری بناوٹ، سجاوٹ اور صفائی و ستھرائی کی ماشاء اللہ بھرپور کوشش کی جاتی ہے لیکن اسے مسجد نبویؐ کی طرح حرکت و عمل اور مرجعِ خلائق کا ایک اعلیٰ اور مثالی نمونہ بنانے کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔
اسلام کے دورِ عروج میں مساجد کا یہی حرکی کردار مسجد نبویؐ کی طرح پوری دنیا میں پایا جاتا تھا۔ یہاں صرف مسجد نبویؐ کی دس اہم سرگرمیوں کو قدرے تفصیل سے پیش کیا جارہا ہے، تاکہ اس کسوٹی اور معیار کی روشنی میں ہم اپنی مساجد کی تعمیر، ان میںتعلیم و تربیت اور خاص طور پر اُمت اور انسانیت کی ضروریات اور خدمت ِ خلق کے اہم کاموں کا سنجیدگی سے جائزہ لیں اور مسجد کے انقلابی کردار کو بحال کرنے کی سعی و جہد کریں:

۱- تعلیم و تربیت

مسجد نبویؐ کے اندر ’صفہ‘ نام کا ایک مقام تھا، جو تعلیم کے لیے مخصوص تھا۔ صفہ چبوترے یا پلیٹ فارم کو کہتے ہیں۔ مسجد کے ایک حصے میں ڈائس کے طور پر ایک چبوترہ بنا دیا گیا تھا، جو دن کے وقت تعلیم گاہ کا کام دیتا اور رات کے وقت بے گھر لوگوں کے لیے سونے کی جگہ۔ گویا یہ پہلی اقامتی (residential) یونی ورسٹی تھی، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی۔
پہلے ہی دن سے شہر کے باشندے بھی وہاں آنے لگے۔ بے خانماں لوگ حصولِ تعلیم کے لیے وہیں رہتے تھے۔مختلف لوگوں کی ضرورتوں کے پیش نظر مختلف قسم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ جو لوگ بالکل ہی اَن پڑھ تھے ان کو لکھنا پڑھنا سکھایا جاتا ۔ اہلِ مدینہ اپنی انتہائی فیاضی کے باعث یہ کرتے تھے کہ جب کھجوروں کی فصل تیار ہوتی تو ہرشخص کھجوروں کا ایک ایک خوشہ تحفے کے طور پر لاتا اور اسے مسجد نبویؐ کے اندر صفہ میں لٹکا دیتا۔ ان میں سے کھجوریں گرتیں تو صفہ میں رہنے والے غریب مسلمان انھیں کھاتے۔ ان خوشوں کی حفاظت کے لیے بھی ایک شخص مقرر کیا گیا تھا۔
حضرت معاذ بن جبلؓ جب اپنی انتہائی فیاضی کے سبب مقروض ہوگئے تو قرض کی ادایگی کے سلسلے میں انھیں اپنا مکان تک فروخت کر دینا پڑا۔ انھیں بھی رہنے کے لیے صفہ میں جگہ دی گئی اور ان پر یہ ذمہ داری بھی ڈالی گئی کہ وہ ان خوشوں کی نگرانی کریں۔ اصحابِ صفہ کے لیے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرسے اور کبھی مختلف صحابہؓ کی طرف سے کھانے کا انتظام ہوتا ۔ روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن عبادہؓ نے ایک دن اہلِ صفہ کے ۸۰ آدمیوں کو کھانے کی دعوت دی۔ (حلیۃ الاولیاء، طبقات الاصفیاء)
ایک دن رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرئہ مبارک سے نکل کر مسجد کے اندر آئے اور دیکھا کہ دو گروہ ہیں: ایک گروہ تسبیح پڑھنے اور ذکر و اذکار میں مشغول تھا اور دوسر ا گروہ علم حاصل کررہا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’اگرچہ دونوں اچھا کام کر رہے ہیں لیکن وہ گروہ بہتر ہے جو تعلیم کا کام کر رہا ہے‘‘۔ پھرآپؐ بھی اس دوسرے گروہ میں شامل ہوگئے۔
اصحابِ صفہ کو تعلیم و تربیت کے علاوہ فوجی کام بھی کرنے پڑتے تھے، مثلاً بعض اوقات کسی قبیلے کے خلاف تدبیر اختیار کرنے کی ضرورت پڑتی، یعنی دشمن کو سزا دینے یا تعاقب کرنے کا مسئلہ درپیش ہوتا۔ اسی تربیت گاہ سے بڑی بڑی شخصیتیں تیار ہوئیں۔ مشہور فقیہ عبداللہ بن مسعودؓ، مشہور قاری سالم مولیٰ ابی حذیفہؓ، مشہور محدث عبداللہ بن عمرؓ، مشہور زاہد ابوذر غفاریؓ، صہیب رومیؓ، سلمان فارسیؓ، ابودرداؓ، حضرت ابن مکتومؓ ، مؤذنِ رسولؐ حضرت بلالؓ، غسیل الملائکہ حضرت حنظلہؓ، فاتح عراق سعد بن ابی وقاصؓ، فاتح آرمینیا حضرت حذیفہ بن الیمانؓ وغیرہ۔

۲- جسمانی تربیت کا اہتمام

تعلیم ہی کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی جسمانی تربیت کا بھی انتظام فرمایا۔ آپؐ ہمیشہ لوگوں کو ورزش کی ترغیب دیتے۔ نشانہ بازی کی مشق بھی ہوتی تو خود بھی وہاں جاتے اور اپنے سامنے گھڑ دوڑ، اُونٹوں کی دوڑ اور آدمیوں کی دوڑ کراتے، کشتی کے مقابلے کرواتے اور مختلف طریقوں سے ان کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔
آج بھی مسجد نبویؐ کے شمالی دروازے کے پاس ایک مسجد ہے ، جس کا نام’مسجد سبق‘ ہے۔ سبق کے معنی مسابقت میں حصہ لینا ہے۔ آپؐ اس جگہ بلندی پر کھڑے ہوتے اور جب گھڑسوار گھوڑے دوڑاتے ہوئے آتے تو خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ فرماتے کہ کون سا گھڑسوار پہلے نمبر پر ہے اورکون سا دوسرے نمبر پر۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ پانچ اوّل آنے والے گھڑسواروں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انعام دیا کرتے تھے۔ کبھی کھجور کی شکل میں کبھی کسی اور چیز کی صورت میں۔

۳- ادب اور تفریح

مسجد نبویؐ کے منبر پر جہاں جمعے کا خطبہ اور مختلف اوقات میں آپؐ کے خطبات و ارشادات کا معمول تھا، وہیں ادب اور شعروشاعری کی محافل بھی منعقد ہوتی تھیں اور حضرت حسان بن ثابتؓ اور دیگر اصحاب رسولؐ حمدِ خدا، مدحِ رسولؐ ، توصیف ِ اسلام اور جاہلی دور کے واقعات اور ادبی ذوق پر مشتمل اشعار بھی پڑھتے تھے۔ بخاری میں اس کی تفصیلات ملتی ہیں۔
مدینہ میں حبشیوں کی ایک تعداد بھی موجود تھی، جو نیزہ بازی اور دیگر جسمانی ورزشوں اور کھیلوں کا اہتمام خاص موقعوں پر کرتے تھے۔ عید کے دن ایک مرتبہ آپؐ نے مسجد نبویؐ میں حبشیوں کے کرتبوں پر مشتمل کھیل حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دکھائے جو آپؐ کی اُوٹ میں دیکھتی رہیںاور جب تھک گئیں تو واپس اپنے حجرے میں چلی گئیں۔

۴- مالی اور معاشی معاملات

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب کوئی اہم مالی معاملہ پیش آتا اور نماز کا وقت ہوتا تو نماز کے بعد اور اگر نماز کا وقت نہ ہوتا تو الصلٰوۃ الجامعۃ کا اعلان کر کے لوگوں کو جمع فرماتے اور معاملہ ان کے سامنے رکھتے۔
ایک دوپہر کو قبیلہ مضر کے لوگ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، جو تقریباً ننگے بدن، کمبل یا عبا لپیٹے ہوئے اور گلے میں تلوار لٹکائے ہوئے تھے۔ ان کے فقر اور فاقے کی یہ حالت دیکھ کر آپؐ کا چہرئہ مبارک متغیر ہوگیا۔ آپؐ گھر میں تشریف لے گئے۔ پھر باہر نکلے اور حضرت بلالؓ کو اذان دینے کی ہدایت فرمائی۔ چنانچہ حضرت بلالؓ نے اذان دی پھر اقامت کہی، آپؐ نے نماز پڑھائی۔
پھر آپؐ نے حاضرین کو خطاب فرمایا۔ سورئہ نساء کی پہلی آیت اور سورئہ حشر کی اٹھارھویں آیت پڑھی اور اس کے بعد فرمایا: ’’ہرشخص اپنے دینار و درہم، کپڑے، گندم اور جَو کی مقدار میں سے صدقہ و خیرات کرے‘‘۔ پھر فرمایا: (خیرات کرو) چاہے کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔ لوگ آتے گئے اور کھانے کی چیزوں اور کپڑوں کے ڈھیر لگ گئے،جسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ آفتاب کی طرح چمکتا ہوا دیکھا گیا۔ آپؐ نے قبیلہ مضر کے ان افراد کی بھرپور مدد کی۔
اسی طرح ایک انصاری صحابیؓ کا واقعہ ہے جو آپؐ کے پاس سوال کرنے کے لیے آئے۔ آپؐ نے پوچھا: ’تمھارے گھر میں کچھ نہیں ہے‘۔وہ بولے: ’کیوں نہیں، ایک کمبل ہے۔ کچھ اس میں ہم اوڑھتے ہیں اور کچھ بچھاتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں پانی پیتے ہیں‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’دونوں چیزیں ہمارے پاس لے آئو‘۔ وہ گئے اور دونوں چیزیں لے کر آئے۔ آپؐ نے ان دونوں کو ہاتھوں میں لیا اور فرمایا: ’کون خریدتا ہے ان دونوں چیزوں کو؟‘ ایک شخص بولا: ’میں لیتا ہوں دونوں کو ایک درہم کے بدلے میں‘۔ آپؐ نے پھر دو یاتین بار فرمایا کہ: ’’کون ایک درہم سے زیادہ دیتا ہے؟‘ آخر آپؐ نے نیلام کے ذریعے دو درہم میں دونوں چیزوں کو فروخت کر دیا اور اس انصاری صحابیؓ سے فرمایا کہ: ’ایک درہم کا اناج لے کے اپنے گھر میں ڈال دو اور ایک درہم کی کلہاڑی لائو‘۔ پھر اس کلہاڑی میں ایک دستہ اپنے ہاتھ سے ٹھوک کر فرمایا: ’جائو لکڑیاں کاٹو اور بیچو اور پندرہ دن بعد آنا۔ وہ صحابی گئے اور وہی کام کیا۔ پندرہ دن بعد انھوں نے دس درہم کما لیے تھے۔ کچھ درہم کا کپڑا خریدا اور کچھ کا غلہ۔ آپؐ نے انھیں نصیحت فرمائی کہ یہ کام ان کے لیے سوال کرنے سے بہتر ہے۔(ابن ماجہ، ابوداؤد)
اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہرین اقتصادیات کہتے ہیں کہ آج کے جدید دور کے مائیکروفنانس(Micro Finance) کی بنیاد یہی حدیث ہے۔ کسی شخص کے پاس جتنی کچھ بچت ہے، اسے کارآمد اور نفع بخش کمائی کا ذریعہ بنانا اور اس کے لیے رہنمائی فراہم کرنا اور اپنی معمولی بچت و حقیر سرمایے سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہی دراصل کامیابی کا راز ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی معمول تھا کہ نمازِ فجر اور عصر میں سلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھتے اور غیرحاضر اصحاب کے بارے میں دریافت کرتے اور اس کی وجہ جان کر ان کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش فرماتے۔

۵- شفاخانہ

مسجد نبویؐ میں مجاہدین کے لیے فوجی ہسپتال قائم تھا، جس میں ان کا علاج کیا جاتا تھا۔ زخمیوں کی مرہم پٹی ہوتی تھی۔ اس کام کی حضرت رفیدہؓ ذمہ دار تھیں جو زخمیوں کا علاج کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ مسجد میں اس مقصد کے لیے بنی غفار کا خیمہ بھی نصب کیا گیا تھا۔ جنگ ِ خندق کے موقعے پر حضرت سعد بن معاذؓ، جب شدید زخمی ہوگئے تو ان کے لیے خیمہ لگایا گیا تاکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی دیکھ بھال کرسکیں۔ (بخاری)

۶- مہمان خانہ اور وفود کا قیام

نجران کا ایک وفد آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ نے نہ صرف مسجد میں ان کی مہمان نوازی کی بلکہ عیسائی وفد کو جس کے افراد کی تعداد ساٹھ تھی، انھیں اجازت دی کہ وہ اپنے طریقے سے عبادت بھی کریں۔ اسی طرح قبیلہ ثقیف کا وفد آیا تو آپؐ نے نہ صرف ا ن کو مسجد میں بحیثیت مہمان ٹھیرایا بلکہ ان کے لیے مسجد نبویؐ میں ایک خیمہ نصب فرمایا اور ان کی تکریم کے لیے کئی صحابہؓ آگے بڑھے۔ مغیرہ بن شعبہؓ نے ان کی خدمت کے لیے بارگاہِ نبویؐ میں درخواست دی تو فرمایا کہ ان کی خدمت و تکریم سے تم کو نہیں روک رہا ہوں لیکن انھیں ایسی جگہ ٹھیرائو جہاں سے وہ قرآن سن سکیں۔ اس وفد میں ان کے سردار ابنِ عبدیالیل بھی تھے، جنھوں نے سفرطائف کے موقعے پر آپؐ سے بدسلوکی اور شہر کے لڑکوں اور غلاموں کو آپؐ کے پیچھے لگادیا کہ وہ آپؐ کی تضحیک و تحقیر کریں۔ انھوں نے آپؐ پر کیچڑ پھینکا اور پتھروں کی بوچھاڑ سے زخمی کر دیا۔ پیشانی مبارک کے خون نے بہہ کر پاے مبارک کو رنگین کر دیا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں:
آپؐ نے ان سخت بُت پرست اور اسلام کی عداوت میں سنگ دل لوگوں کو مسجد میں ٹھیرایا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ جس قبیلہ طائف کو مسلمانوں کی منجنیق ۴۰ دن تک سنگ باری کرکے فتح نہ کرسکی اس کے بسنے والوں کے دلوں کو آں حضرتؐ کے خلق عظیم، اسلام کی مصلحت، مسجد کے قیام اور اسلامی عبادت کے نظارے نے چند گھنٹوں کے اندر فتح کرلیا۔ لوہے کی تلوار کو سر پر روکا جاسکتا ہے لیکن محبت کی تلوار کے لیے کوئی سپر نہیں۔(جامع الشواہد،ص ۱۹)

۷- عورتوں اور بچوں کا داخلہ

دورِ نبویؐ میں عورتیں فرض نمازوں کی ادایگی کے لیے مسجد نبویؐ میں آیا کرتی تھیں۔ آج بھی مسجدنبویؐ میں باب النساء موجود ہے ، جہاں سے ان کا داخلہ ہوتا تھا۔ بعض مرتبہ مردوں کو خطاب کرنے کے بعد آپؐ خصوصی طور پر عورتوں کے پاس آتے اور انھیں نصیحت فرماتے۔ 
سیرت کی کتابوں میں آتا ہے کہ اس دور میں عورتیں عام طور پر فجر، مغرب اور عشاء کی نماز مسجد میں باجماعت ادا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ آپؐ نماز کے بعد عورتوں کی طرف تشریف لائے اور انھیں انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی۔ عورتوں نے اپنے گلے اور کانوں کی طرف ہاتھ بڑھائے اور اپنے زیور اُتار کر حضرت بلالؓ کو دے دیے۔ بچے بھی بالعموم عورتوں کے ساتھ آتے تھے۔ بچوں کے رونے کی آواز آتی تو آپؐ نماز کو مختصر کر دیتے تھے۔ نواسۂ رسولؐ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کا مسجد میں آنا اور اپنے ناناؐ کی گود میں بیٹھنا بھی مشہور ہے۔

۸-جہاد کی تیاری

جہاد کا سامان مسجد نبویؐ میں جمع ہوتا تھا اور مجاہدین کو دیا جاتا تھا۔ جنگ ِ تبو ک کے موقعے پر آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے تعاون کی اپیل کی، تو حضرت ابوبکرؓ نے گھر کا پورا اثاثہ لاکر پیش کر دیا۔ حضرت عمرؓ نے گھر کا آدھا سامان پیش کیا۔ بعض غریب صحابیؓ محنت مزدوری کرکے اور ایک صحابیؓ نے رات بھر کھیت میں کام کرکے مٹھی بھر کھجوریں پیش کیں تو آپؐ نے سامان کے ڈھیر کے اُوپر اس کو بکھیر دیا۔ بعض اوقات مالِ غنیمت، انفال اور ہدیہ کا مال بھی مسجد نبویؐ میں آتا اور حق داروں میں تقسیم کیا جاتا۔ اگر مال ایک دن میں تقسیم نہیں ہوتا تو آپؐ اس رات گھر تشریف نہیں لاتے بلکہ مسجد میں ہی قیام فرماتے تھے۔

۹- مسجد میں عدالت

مسجد کو قضا اور عدالت کے لیے مرکز بنانے کا سلسلہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوا۔ آپؐ مسجد میں فیصلے فرماتے، اور متعدد مدعی اور مدعا علیہ، ان کے گواہ اور دوسرے لوگ مسجد میں حاضر ہوتے ، جہاں ان کے بیانات لیے جاتے تھےاور فیصلہ سنایا جاتا تھا۔ ایک لحاظ سے یہ کھلی عدالت تھی، جس میں ہر شخص عدالتی کارروائی سننے اور دیکھنےآسکتا تھا۔ 
آپؐ نے عدالتی فیصلے مسجد میں کیے۔ جیسے فاطمہ مخزومی کی چوری ثابت ہونے پر ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ اور غامدیہ کے رجم کا فیصلہ۔ بنی قریظہ قبیلہ کے قلعے کے محاصرے کے دوران ان کے سرداروں نے آپؐ سے درخواست کی کہ آپؐ صحابی رسول ابولبابہؓ کو ان کے پاس بھیج دیں تاکہ وہ مشورہ کر کے کوئی فیصلہ کریں۔ ابولبابہؓ جب اس قبیلے کے پاس پہنچے تو عورتیں اور بچے دھاڑیں مارمار کر رونے لگے اور اس کیفیت کو دیکھ کر ان پر رقّت طاری ہوگئی۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ وہ ہتھیارڈال دیں لیکن ساتھ ہی حلق کی طرف اشارہ بھی کر دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ انھیں قتل کر دیا جائے گا، لیکن انھیں فوراً احساس ہوا کہ ان کا اس طرح اشارہ کرنا اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ خیانت ہے اور اپنے آپؐ کو مسجد نبویؐ کے ایک ستون سے باندھ لیا اور قسم کھائی کہ اب انھیں   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اپنے دست ِ مبارک سے کھولیں گے۔ ابولبابہؓ چھے رات مسلسل ستون سے بندھے رہے۔ اس کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی اور آپؐ نے انھیں کھول دیا۔ (تفسیر الرازی، سورئہ انفال ۸:۲۷-۲۸)

۱۰- مسجد میں قید خانہ

ثمامہ بن اثالؓ جو قبیلہ بنوحنیفہ کے ایک سربرآوردہ رئیس اور علاقہ یمامہ کے بادشاہوں میں سے ایک تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بے خبری میں اچانک حملہ کر کے کام تمام کرنا چاہتے تھے، لیکن صحابہ کرامؓ کے ایک فوجی دستے نے گرفتار کر کے مدینہ لاکر مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ آں حضوؐرنے جب ثمامہ کو دیکھا تو صحابہؓ سے فرمایا کہ ان کے ساتھ احسن طریقے سے پیش آنا اور پھر گھروالوں سے کہا کہ جو کچھ کھانا موجود ہے ، جمع کر کے ان کے پاس بھیج دیں اور ہدایت فرمائی کہ آپؐ کی اُونٹنی کا دودھ صبح و شام دوہ کر پیش کریں ، تاکہ ثمامہ اسلام کی طرف مائل ہوں۔ دو دنوں کے بعد آپؐ نے انھیں رہا کر دیا۔ اس کے بعد ثمامہ نے اسلام قبول کرلیا اور مرتے دم تک سچے اور مخلص مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزاری۔(بخاری، حدیث: ۴۳۷۲)

مسجد کو خدمتِ خلق کا مرکز بنایئے!

یہاں مسجد نبویؐ کی دس اہم سرگرمیوں کو قدرے تفصیل سے اس لیے پیش کیا گیا ہے، تاکہ ہم موجودہ دور کی مسجدوں سے ان کا موازنہ کر کے دیکھیں کہ ان دونوں میں کتنا فرق ہے۔ آج ہماری مسجدیں صرف خالق کی عبادت کے لیے مخصوص ہوکر رہ گئی ہیں۔ ان میں مخلوقِ خدا کی خدمت کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ ان میں مکاتب و بچوں کے لیے ناظرہ قرآن یابعض جگہ مدرسوں کا انتظام ہوتا ہے۔ نمازوں کےعلاوہ یا تو بند رہتی ہیں یا ان سے کوئی کام نہیں لیا جاتا۔
وقت آگیا ہے کہ ہم مساجد کو جن پر لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے کی رقم خرچ کر کے تعمیر کیا جاتا ہے، اس کی ظاہری بناوٹ،ان کے اندر اور باہر کی تعمیر اور سجاوٹ، یہاں تک کہ    ان کے میناروں تک پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں، انھیں خدمت ِ خلق کے مختلف کاموں کا مرجعِ خلائق بنائیں اور مسجد کے اس فعال اور حرکی تصور کو جو دورِ نبویؐ اور دورِ خلفاے راشدینؓ میں عروج پر تھا، دوبارہ زندہ کریں:

  • مساجد میں ایک عمدہ قسم کی لائبریری اور دارالمطالعہ ضرور بنائیں، تاکہ اس میں اصحابِ صفہ کی طرح طالبانِ علم آئیں اور علم کی پیاس بجھائیں۔ آج کے دور میں آڈیو، ویڈیو، سی ڈی اور کمپیوٹر کے ذریعے مختلف علوم کو حاصل کرنا آسان بھی ہوگیا ہے اور سستا بھی۔مثال کے طور پر شہر بنگلور کی سٹی جامع مسجد میں اس قسم کی عام تعلیم، فنی تعلیم اور تعلیم بالغاں وغیرہ کی فراہمی کا مناسب انتظام ہے، جو قابلِ تحسین ہے۔

  • مساجد میں صدقات و زکوٰۃ کے وصول اور اس کی تقسیم کا نظم بھی ہونا چاہیے اور ایسی سوسائٹیاں قائم کرنی چاہییں جو باقاعدہ محلے کا سروے کرکے ڈیٹابنک تیار کریں، جن میں اس محلے کے بے روزگاروں ، بیوگان اور معذوروں اور صاحب ِ نصاب مرد اور عورتوں کے پورے اعداد و شمار سافٹ ویئر میں جمع ہوں اور باہم اشتراک سے بلاسودی قرضہ جات، روزگار کی فراہمی، صدقات کی وصولی، شادی بیاہ کے لیے سہولیات کا اچھے انداز سے انتظام کریں۔

  • مساجد میں نکاح اور اس سے متعلقہ معاملات کے لیے سہولتیں فراہم کی جاسکتی ہیں اور آسان اور کم خرچ شادیوں کا اہتمام ہوسکتا ہے۔ شادی شدہ لڑکیوں کے مسائل کے حل کے لیے کونسلنگ سنٹر (Counselling Centres)، دارالقضا اور باہمی تنازعات کے حل کے لیے پنچایت وغیرہ کا قیام بھی بحسن و خوبی ہوسکتا ہے۔

  • تفریح آج کے دور کی اہم ضرورت ہے اور تفریح کے نام پر صرف فحش اور گندی چیزیں میسر ہیں۔ بھارت میں جیّد علماے دین پر مشتمل اسلامک فقہ اکیڈمی کے بیسویں اجلاس (رام پور) نے اس سلسلے میں توجہ دی ہے اور طے کیا ہے کہ: ’’ایسے کھیل جو انسان کے وسیع تر مفاد میں ہوں، جن سے جسمانی قوت، چستی، نشاط کی بحالی میں مدد ملتی ہو اور جن کھیلوں کے بارے میں احادیث میں ترغیب آئی ہے، ان کے مستحب ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیا ان سے ملتے جلتے جمناسٹک،   مارشل آرٹس، یا کم جگہ پر چھت تلے (indoor) کھیلوں کے لیے مواقع مسجد کے احاطے میں فراہم نہیں کیے جاسکتے ہیں؟ چھوٹے بچوں کے لیے تربیتی مقصد کے لیے خاکے بنانا، ان میں رنگ بھرنے، بچوں کے لیے نفسیاتی، اخلاقی اور لسانی نقطۂ نظر سے مفید اور جائز سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی ممالک، مثلاً امریکا، کینیڈا، جرمنی، سکنڈے نیوین ممالک اور برطانیہ میں مساجد اسلامک سنٹر کے نام سے موسوم کی جاتی ہیں، جہاں انڈرگرائونڈ (تہہ خانے میں) بچوں کے کھیلنے کی جگہ اور مختلف کھیلوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بیرونی احاطے میں حلال اور سستے کھانوں کے ریسٹورنٹس اور چھوٹی چھوٹی دکانیں ہوتی ہیں ، جن میں روز مرہ کی اشیا اور ہاتھ کی بنی مصنوعات فروخت ہوتی ہیں۔ بڑی عمر کے لوگوں کے لیے آرام کرنے کا خصوصی انتظام ہوتا ہے۔

  • صحت اور حفظانِ صحت کی ضرورت سے کس کو انکار ہوسکتا ہے۔ ابتدائی طبی امداد کی تربیت، آفات میں بحالی (Disaster Management)کے کورسس، کلینیکل لیبارٹریاں اور بلڈبنک کا قیام۔ ممکن ہو تو ایکسرے اور اسکیننگ کی سہولیات جہاں مرد اور عورتوں کے لیے علیحدہ اوقات اور الگ اصناف کے ماہرین کی فراہمی ہو تو یہ عمل دورِ نبویؐ کے شفاخانے اور زخمیوں کی تیمارداری کے مترادف ہوسکتے ہیں۔

  • مسجد کے اطراف کرایے کے لیے دکانوں کی تعمیر اور اس کے ذریعے آمدنی کے ذرائع فراہم کرنے کا رجحان عام طور پر پایا جاتا ہے۔ اس کے بجاے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ہوسٹلز یا کم از کم کمرے تیار کیے جائیں تو طلبہ و طالبات کو مسجد کے احاطے میں پاکیزہ ماحول مل سکتا ہے اور تعلیم کے علاوہ تربیت کے مواقع بھی مل سکتے ہیں۔ یہ مثال میرے علم میں ہے کہ ایک غریب محلے میں صاحب ِ خیر نے مسجد بنائی ہے، جو دن رات کھلی رہتی ہے اور سیکڑوں طالب علم اپنے گھر میں جگہ کی قلت کی وجہ سے مسجد میں لکھتے پڑھتے ہیں۔ یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ اس مسجد کی وجہ سے سیکڑوں نوجوان گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ بن کر نکلے ہیں اور آج بہتر ملازمت اور اچھے معاش کے حصول کے ذریعے معاشرے میں ایک باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔

جیساکہ یہ واقعہ کافی مشہور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری صحابی کو اپنا پیالہ اور چادر فروخت کرکے کلہاڑی خریدنے، اس کو دستہ لگا کر لکڑیاں کاٹنے کی رہنمائی کی۔ یہی دراصل آج کے مائیکروفنانس کا تصور ہے جس کی طرف مسلمانوں نے بہت کم توجہ دی ہے۔ اس قسم کی کوشش عین سنت ِ نبویؐ کی پیروی ہے اور یہ کام ہماری مسجد میں بڑی خوبی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔
ہمارے ہاں مساجد میں حج اور عمرہ کے فضائل و مسائل پر تو بیانات واجتماعات ہوتے ہیں جو مسلم معاشرے کے صاحب نصاب و اہلِ ثروت سے متعلق ہیں، لیکن غربت کے مارے اور مصیبت زدہ لوگوں کی امداد کے لیے زکوٰۃ و صدقات پر گفتگو کم ہی ہوتی ہے۔ کیا محسن انسانیتؐ کی وارننگ وَالْفَقْرُ عَسٰی اَنْ یَّکُوْنَ کُفْراً (عنقریب فقروافلاس لوگوں کو کفر کی طرف لے جائے گا) ہمارے سامنے نہیں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ بلاسودی سوسائٹیوں اور بیت الزکوٰ ۃ کا قیام وقت کی ضرورت ہے اور زیادہ اچھا ہو کہ یہ مسجد کے احاطے ہی میں ہو۔ فقرا و مساکین اپنی ضروریات کے لیے سودی قرضہ جات کے چکّر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ بالآخر اپنے مکانات اور زیورات ہی نہیں بلکہ غربت کی انتہا میں خواتین کے لیےزندگی بہت زیادہ پُرخطر ہوجاتی ہے۔

  • معروف محقق ڈاکٹر حمیداللہ مرحوم نے خطبات بہاول پور میں زکوٰۃ کے تالیف ِ قلب کی مد میں غیرمسلموں کی امداد اور حضرت عمرفاروقؓ کے بیت المال سے بلاسودی قرضوں کے اجرا کا ذکر کیا ہے۔ تکثیری (Pluralistic) معاشرے میں تعلقات کی خوش گواری اور خیرسگالی و ہمدردی کے جذبات کو اُجاگر کرنے اور اسلام کے نظامِ رحمت کو عملی طور پر پیش کرنے کے لیے مساجد سے بلاتفریق مذہب و ملّت بلاسودی قرضوں اور زکوٰۃ و صدقات کی رقوم کا ایک حصہ کیا غیرمسلم عوام کے لیے بھی استعمال ہوسکتا ہے ؟ بالغ نظر علماے دین اوردانش وران ملّت کو حقیقت پسندانہ انداز میں اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

اُمت مسلم اور خاص طور پر ہمارے ملک میں اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے لیے مسجد نبویؐ کے نمونے پر مساجد کے استعمال کے بارے میں انقلابی اور حرکی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس کی طرف ملّت کے علماے کرام اور عمائدین عظام کو خصوصی اورفوری توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری مساجد معاشرتی ماحول کی بدصورتی اور ظلم کے اتھاہ سمندر میں کنول کے پھول کی طرح نمودار ہوں۔ جہاں نہ صرف خالق کی عبادت و بندوں کی تربیت کا اہتمام ہو بلکہ وہ خلق خدا کی خدمت و مودت کا بھی مرکز ہو۔ معاشرے کے مجبور، معذور اور حاشیہ پر رہنے والے افراد کی داد رسی ہوسکے۔
واقعہ یہ ہے کہ اگر مسجدنبویؐ کے طرز پر ان تمام سرگرمیوں پر مشتمل چند مسجدوں کا قیام عمل میں آجائے تو دنیا اپنے سرکی آنکھوں سے اس کی افادیت و اہمیت کو دیکھ سکےگی۔ سنت نبویؐ کے اجرا کے اس عظیم الشان کام سے نہ صرف اُمت مسلمہ کی نشاتِ ثانیہ ہوسکے گی، بلکہ صدقۂ جاریہ کے  ایک ایسے سلسلے کا آغاز ہوگا ، جس سے ساری انسانیت مستفید ہوسکے گی اور ربِ جلیل و قدر کے ہاں بے پناہ اجر و ثواب کی مستحق بھی۔ساتھ ہی ہم اسلام کو ایک نظامِ رحمت و مودت کی عملی شہادت کے طور پر بھی پیش کرسکیں گے۔

مجھے ایک فاضل دوست نے خط کے ذریعے متوجہ کیا ہے کہ مَیں عورت اور معاشرے کے حوالے سے، مرد و عورت کے مقام اور ان کے باہمی تعلق کے بارے میں کچھ عرض کروں کہ اسلام نے اس سلسلے میں کیا احکام دیے ہیں، اور لوگوں کو اس پر اُبھاروں کہ وہ ان احکام پر مضبوطی سے عمل کریں۔
میں اس حقیقت سے واقف ہوں کہ اس طرح کے موضوع پر لکھنا کس قدر اہم ہے ،اور نہ اس سے بے خبر ہوں کہ عورت کے حال کی درستی و شیرازہ بندی اُمت کی فلاح و بہبود کے لیے  کس قدر ضروری ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ عورت ملت ِ اسلامیہ کی نصف آبادی پر مشتمل ہے، بلکہ یہ وہ نصف حصہ ہے جو اُمت کی زندگی پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتا ہے کہ عورت ہی وہ پہلا مدرسہ ہے جو گروہوں کی تشکیل کرتا اور نئی پود کو ڈھالتا ہے۔ بچہ جس انداز سے تربیت پاتا ہے اسی پر قوم اور ملّت کی زندگی کے رُخ کا انحصار ہوتا ہے۔ پھر بچپن ہی نہیں بلکہ اس کے بعد بھی نوجوانوں اور مردوں کی زندگی میں عورت ہی مؤثر حیثیت رکھتی ہے۔
میں ان میں سے کسی چیز سے بے خبر نہیں ہوں اور نہ دینِ حنیف نے اس معاملے کو واضح کیے بغیر یونہی چھوڑ دیا ہے۔ چوں کہ اسلام تمام انسانوں کے لیے نور اور ہدایت بن کر آیا ہے اور اس نے انسانی زندگی کی پوری باریک بینی کے ساتھ بہترین بنیادوں اور اصولوں پر تنظیم کی ہے۔ ہاں، دینِ حنیف نے یقینا اس معاملے کو واضح کیے بغیر نہیں چھوڑ دیا ہے کہ لوگ اِدھر اُدھر حیران و سرگرداں مارے مارے پھریں، بلکہ ان کے لیے اس قدر وضاحت سے بیان کیا ہے کہ مزید وضاحت کی ضرورت نہیں۔
درحقیقت یہ بات کچھ زیادہ اہم نہیں ہے کہ عورت اور مرد اور ان کے باہمی تعلقات و فرائض کے سلسلے میں اسلام کے نقطۂ نظر کا ہمیں علم ہو، کیوںکہ یہ علم قریب قریب ہرشخص کو ہے، البتہ جو چیز اہم ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا ہم اسلام کے احکام کے آگے سرجھکانے کو تیار ہیں؟
واقعہ یہ ہے کہ اس ملک، نیز دوسرے مسلم ممالک پر تقلید ِ مغرب کا شغف تیزو تند سیلاب کی طرح چھا گیا ہے اور لوگ اس میں ٹھوڑیوں تک غرق ہیں۔ پھر کچھ لوگ اسی پر بس نہیں کرتے کہ یورپ کی تقلید میں اس طرح ڈوب جائیں، بلکہ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اسلامی احکام کو ان مغربی خواہشات اور مغربی تہذیب کے مطابق ڈھال کر اپنے آپ کو دھوکا دے لیں، اور اس دین کی سہولت اور اس کے احکام کی نرمی کو ناجائز طور پر استعمال کرکے اور ان کی اسلامی صورت ختم کر کے انھیں ایسے نظاموں کی شکل دے دیں، جن کا دین سے کسی طرح کا جوڑ نہیں ہوسکتا۔ اس طرح اسلامی شریعت کی روح اور بہت سی نصوص کو جو ان کی خواہشات کے مطابق نہیں ہیں نظرانداز کردیں۔
فی الحقیقت یہ دوچند ہلاکت ہے، کیونکہ یہ لوگ صرف مخالفت پر بس نہیں کرتے بلکہ اس مخالفت کے لیے خودساختہ قانونی حیلے ڈھونڈتے ہیں اور ان کو جواز اور حلّت کا رنگ دیتے ہیں، تاکہ اس سے توبہ کرنے یا کسی دن اس سے باز آجانے کی نوبت ہی نہ آئے۔
پس، درحقیقت اب کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم اسلامی احکام پر ایسی نظر ڈالیں جو ہواے نفس سے پاک ہو اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کے قبول کرنے پر آمادہ کریں، خصوصاً اس معاملے میں،جو موجودہ ترقی و بیداری کے دور میں بنیادی و اساسی خیال کیا جاتا ہے۔

عورت کا مقام و دائرہ کار

اس لیے بے جا نہ ہوگا اگر ہم اس ضمن کے ان احکام کو بھی بیان کریں جن کا لوگوں کو علم ہے، اور ان کو بھی جن کا ان کے لیے جاننا ضروری ہے:
۱- سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسلام عورت کی قیمت و وقعت کو زیادہ کرتا ہے اور حقوق و فرائض میں اسے مرد کا شریک ٹھیراتا ہے۔ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کا صحیح و واقعی ہونا مسلّم ہے، کیوں کہ اسلام نے عورت کو اعلیٰ مقام بخشا اور اس کا مرتبہ بلند کیا اور اسے مرد کی بہن اور اسے اس کا ایسا شریکِ حیات ٹھیرایا، گویا وہ ایک دوسرے کا جزو ہیں، بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ۔ نیز اسلام نے عورت کے کامل شخصی حقوق، کامل تمدنی حقوق، کامل سیاسی حقوق کا اعتراف کیا ہے اور اس کے ساتھ اس حیثیت سے معاملہ کیا ہے کہ وہ ایک کامل الانسانیت ہستی ہے، جس کے کچھ حقوق ہیں اور اس پر کچھ فرائض ہیں۔ جب وہ اپنے فرائض ادا کرے گی تو مستحقِ شکرگزاری ہوگی اور جو اس کے حقوق ہیں ان کی ادایگی ضروری و لازم ہے۔ چنانچہ قرآن و حدیث میں ایسی نصوص بہت ہیں جن سے اس بات کی تائید و توضیح ہوتی ہے۔
۲- مرد اور عورت کے حقوق میں تفریق ان فطری و طبعی اختلافات کی بنا پر ہے جن سے مرد و عورت کو کوئی مفر نہیں، نیز یہ تفریق اس ذمہ داری کے مختلف ہونے کی وجہ سے ہے جو وہ دونوں انجام دیتے ہیں اور یہ ان حقوق کی حفاظت کے لیے ہے جو ہردو کو بخشے گئے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ: ’’اسلام نے مرد اور عورت میں بہت سے حالات و ظروف میں فرق کیا ہے اور ان میں کامل مساوات نہیں رکھی ہے‘‘۔ بظاہر یہ بات درست لگتی ہے، لیکن دوسری طرف یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اگر عورت کا حق ایک گوشے میں کچھ کم کیا گیا ہے تو اس سے بہتر حق اس کو دوسرے گوشے میں دے دیا گیا ہے یا حقوق کی یہ کمی پہلے اس کے فائدے اور بھلائی کے لیے ہے اور پھر کسی اور کے لیے۔ علاوہ بریں کیا کوئی بھی شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ عورت کی جسمانی و روحانی ساخت مرد کی جسمانی و روحانی ساخت کے بالکل مساوی ہے؟ یا کیا یہ دعویٰ ممکن ہے کہ عورت کو اپنی زندگی میں جو کردار ادا کرنا ضروری ہے کیا وہ بعینہٖ وہی ہے جو مرد کے لیے ضروری ہے؟ جب تک ہم مادریت و پدریت پر یقین رکھتے ہیں، اس وقت تک اس طرح کا دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے!
میرا یقین یہ ہے کہ عورت اور مرد کی ساخت مختلف ہے اور اسی طرح دونوں کے فرائض بھی مختلف ہیں، اور اس فرق کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ان دونوں سے متعلق نظمِ زندگی میں بھی اختلاف ہو۔ اسلام نے عورت اور مرد کے حقوق و واجبات میں جو فرق و امتیاز روا رکھا ہے، اس  کا راز یہی ہے۔
۳- عورت اور مرد میں ایک دوسرے کی طرف قوی فطری جاذبیت ہے اور یہی ان کے باہمی تعلق کی پہلی بنیاد ہے۔ اس جاذبیت کا حاصل اگرچہ یہ بھی ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے قربت اور تمتع کرتے ہیں، مگر اس کی اوّلین غایت و غرض یہ ہے کہ حفظ نوعِ انسانی اور مشکلاتِ زندگی کی برداشت میں باہمی تعاون پیدا ہو۔
اسلام نے اس نفسانی میلان کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کو پاک کرکے حیوانیت سے روحانیت کی طرف عمدگی کے ساتھ موڑ دیا ہے۔ اس کو باعتبارغرض و مقصود مقامِ بلند عطا کیا ہے اور اسے محض جنسی تمتع کی پستی سے نکال کر کامل تعاون کی صورت بخش دی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ مِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃً ط(الروم ۳۰:۲۱)اور اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے پیدا کیں تمھارے لیے خود تمھاری جنس سے تمھاری بیویاں، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرسکو اور تم میں باہم مودّت و رحمت پیدا کی۔
یہی وہ اصول ہیں، جن کو اسلام نے عورت کی حیثیت متعین کرتے وقت ملحوظ رکھا ہے اور انھی پر اسلام کی اس حکیمانہ قانون سازی کی بنیاد ہے، جو دونوں جنسوں کے درمیان باہم تعاون کی پختہ بنیاد فراہم کرتی ہے کہ دونوں سے ایک دوسرے سے سماجی سطح پر پورا فائدہ اُٹھا سکیں اور مسائلِ حیات میں ایک دوسرے کے معاون بن سکیں۔

عورت کی تربیت کے تقاضے

اسلامی نظریے کے مطابق معاشرے میں عورت کا مقام کیا ہے، مختصر طور پر دو نکات میں اسے بیان کیا جاسکتا ہے:
پہلا نکتہ یہ ہے کہ اسلام اس بات کو ضروری و لازم قرار دیتا ہے کہ ابتدا ہی سے عورت کے اخلاق کی درستی و پاکیزگی کی کوشش کی جائے اور اس کی تربیت اس طرح کی جائے کہ وہ فضائل و کمالات کی حامل بن سکے۔ اسلام والدین اور لڑکیوں کے سرپرستوں کو اس تربیت پر اُبھارتا ہے اور اس پر اللہ کی جانب سے اجرِعظیم کا وعدہ کرتا ہے اور اگر وہ ا س میں کوتاہی کریں تو سزا کی دھمکی دیتا ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَيْہَا مَلٰۗىِٕكَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ۝۶ (تحریم ۶۶:۶) اے ایمان والو! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ سے، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جس پر سخت اور متشدد فرشتے متعین ہیں، جو اللہ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے اور جن باتوں کا انھیں حکم دیا جاتا ہے، اس کی تعمیل میں مصروف رہتے ہیں۔
اور حدیث صحیح میں ہے:
تم میں سے ہرشخص ذمّہ دار ہے اور ہرشخص سے اس کی ذمہ داری میں دی ہوئی چیز کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ امیرالمومنین ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعیّت کے بارے میں سوال ہوگا ، آدمی اپنے اہل و عیال کا ذمہ دار ہے اور اسے ان کے بارے میں جواب دہی کرنی ہوگی، عورت اپنے شوہر کے گھر کی ذمّہ دار ہے اور اس سے اس سلسلے میں پوچھ گچھ ہوگی، اور نوکر اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس سلسلے میں سوال ہوگا، غرض تم میں سے ہرشخص ذمہ دار ہے اور اسے اپنی ذمہ داری کی جواب دہی کرنی ہے۔[  مسلم، کتاب الامارۃ، حدیث: ۳۴۹۶]
حضرت ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس مسلمان کی دو بیٹیاں ہوں اور وہ جب تک اس کے ساتھ رہیں یا وہ ان کے ساتھ رہے، ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کرتا رہے تووہ اسے جنّت میں پہنچانے کا باعث بنیں گی۔[ ابن   حبّان،کتاب البروالاحسان، حدیث:۴۴۷]
اور ابوسعید خدریؓ راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہے اور ان کے معاملے میں خداترسی کی روش اختیار کرے، تو وہ جنت کا مستحق ہے۔ [ترمذی، ابواب البّر والصلۃ، حدیث : ۱۸۸۸]
اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظِ حدیث انھی کے ہیں اور امام ابوداؤد نے بھی اسے روایت کیا، مگر ان کے الفاظ یہ ہیں کہ اس نے ان کو تربیت دی اور ان سے حُسنِ سلوک کیا اور ان کی شادی کرا دی تو اس کے لیے جنّت ہے۔
عورت کی حُسنِ تربیت کا ایک جزو یہ بھی ہے کہ اس کو ان چیزوں کی تعلیم دی جائے جو  اس کے لیے ناگزیر ہیں اور جن کی ضرورت اسے اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں پڑتی ہے، جیسے: لکھنا پڑھنا، حساب کتاب، دینی تعلیم، سلف صالح مردوں اور عورتوں دونوں کی تاریخ، تدبیر منزل، حفظانِ صحت، مبادی تربیت، اُمور ِ اَطفال اور وہ تمام اُمور جن کی ایک ماں کو گھر کے نظم اور بچوں کی نگہداشت کے سلسلے میں ضرورت پڑتی ہے۔
 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انصار کی عورتیں کتنی اچھی ہیں، انھیں دین میں بصیرت و تفقہ حاصل کرنے میں شرم مانع نہیں آتی۔[ابوداؤد، کتاب الطہارۃ، حدیث:۲۷۳]
چنانچہ سلف میں بہت سی عورتیں علم و فضل اور بصیرتِ دین میں بہت اُونچا مقام رکھتی تھیں۔ رہے وہ علوم جن کی عورت کو ضرورت نہیں تو ان پر زور دینا فضول و بے فائدہ ہے کیوںکہ عورت کو ان کی کوئی حاجت نہیں اور اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ اپنا وقت کسی مفید اور نفع بخش کام میں لگائے۔ چنانچہ عورت کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ اسے مختلف زبانوں میں تبحّر حاصل ہو اور نہ اسے خصوصی فنی معلومات کی ضرورت ہےکیوں کہ جیساکہ عنقریب معلوم ہوگا کہ عورت اوّل و آخر گھر ہی کے لیے ہے، نہ عورت کو اس کی حاجت ہے کہ اسے قانون میں مہارت حاصل ہو، بس اس کو قانون کا اتنا علم کافی ہے جس کی عام طور پر لوگوں کو ضرورت پڑتی ہے۔ 
مشہور قدیم عربی شاعر ابوالعلا المعری عورتوں کے بارے میں کہتا تھا:
ان کو کاتنا اور بُننا سکھائو اور نوشت و خواند چھوڑ دو۔ کیوںکہ ’حمد‘ اور ’اخلاص‘ کے ساتھ لڑکی کا نماز پڑھنا کافی ہے اور ’یونس‘ اور ’براءت‘ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔
لیکن ہم اس حد پر ٹھیرنے کا ہرگز ارادہ نہیں رکھتے، مگر ہم وہ بھی نہیں چاہتے جو یہ غالی اور افراط پسند لوگ چاہتے ہیں کہ عورت پر ان علوم و فنون کو لاد دیں جن کی اس کو کوئی ضرورت نہیں۔ اس کے برعکس ہم یہ کہتے ہیں کہ عورت کو وہ تعلیم دو جس کی اسے اپنی ان ذمہ داریوں اور خدمات کی ادایگی کے سلسلے میں ضرورت ہے جن کے لیے اللہ نے اسے پیدا کیا ہے، یعنی تدبیرمنزل اور بچّے کی نگہداشت و تربیت۔

مخلوط کے بجاے جداگانہ معاشرت

دوسرا پہلو :عورت اور مرد میں دُوری ___ اسلام عورت اور مرد کے اختلاط میں حقیقی خطرات محسوس کرتا ہے۔ اس لیے نکاح کی شکل کے علاوہ وہ دونوں کو ایک دوسرے سے دُور دُور رکھتا ہے۔ اس بناپر اسلامی سوسائٹی مخلوط سوسائٹی ہونے کے بجاے غیرمخلوط سوسائٹی ہے۔
اختلاطِ مرد و زن کے علَم بردار کہیں گے کہ عدمِ اختلاط میں دونوں جنسیں ملنے جلنے کی لذت اور انس کی اس شیرینی سے محروم ہوجائیں گی، جسے ان میں سے ہر ایک دوسرے سے سکون حاصل کرنے میں پاتا ہے اور جس سے ان کا شعور اُجاگر ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں بہت سے اجتماعی اخلاق پیدا ہوتے ہیں، مثلاً ملاطفت، حُسنِ معاشرت، شائستگی کلام اور نرم خُوئی وغیرہ وغیرہ۔  اسی طرح ملتے رہنے سے ایک دوسرے کی طرف میلان بڑھتا ہے۔
یہ لوگ اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں اور ان کی باتوں پر بہت سے نوجوان فریفتہ ہوجاتے ہیں، بالخصوص اس لیے کہ یہ طرزِفکر خواہشات و شہواتِ نفس کے عین موافق ہے۔ ہم ان لوگوں سے کہتے ہیں کہ باوجود یہ کہ ہم اس دلیل کو تسلیم نہیں کرتے، جو تم نے سب سے پہلے بیان کی ہے۔ ہم تم سے کہتے ہیں کہ اس لذتِ اجتماع اور حلاوتِ شہوت کے نتیجے میں جو آبروئوں کی بربادی، نیتوں کی خباثت، دلوں کا فساد، گھروں کی ویرانی، خاندانوں کی تباہی اور جرائم کی وبا رُونما ہوتی ہے، اور پھر اس اختلاط کے نتیجے میں اخلاق میں جو لوچ اور کردار میں جو ضُعف پیدا ہوجاتا ہے، اس کے نتیجے میں مردوں اور عورتوں کی فطرتیں تک تبدیل ہوجاتی ہیں۔ یہ سب نتائج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، جس کا انکار کوئی ضدی اور ہٹ دھرم انسان ہی کرسکتا ہے۔
اختلاط کے یہ تمام بُرے نتائج،ان کے متوقع فوائد سے ہزار درجے بڑھ کر ہیں اور اگر کسی شے میں مصالح و مفاسد کے دو متعارض پہلو موجود ہوں تو مفاسد کا دُور کرنا مصالح حاصل کرنے سے زیادہ بہتر ہے، خصوصاً اس وقت، جب کہ مفاسد کے مقابلے میں مصالح بالکل بے وزن و حقیر ہوں۔
اسی طرح دوسری دلیل بھی صحیح نہیں کہ اختلاطِ مرد و زن سے ایک دوسرے کی جانب میلان اور بھی بڑھتا ہے۔ ایک قدیم ضرب المثل ہے کہ کھانا بھوک کی خواہش بڑھاتا ہے۔ چنانچہ یہ ایک واقعہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کے ساتھ عمر بھر رہتا ہے، مگر اس کے باوجود وہ اس کی طرف ہمیشہ نیامیلان پاتا ہے، جب کہ جو عورتیں مردوں سے اختلاط رکھتی ہیں، وہ قسم قسم کی آرایش و زیبایش کی نمایش میں نئے نئے انداز اختیار کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتی ہیں اور اسی وقت راضی و خوش ہوتی ہیں، جب اس طرح وہ مردوں کی نگاہوں میں پسندیدہ قرار پاجائیں۔ اس مشق کا ایک بُرا اقتصادی نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ آرایش و نمایش میں حد سے تجاوز اور فضول خرچی کی وجہ سے افلاس، بربادی اور فقروفاقہ تک نوبت پہنچتی ہے۔
اس لیے ہم صاف صاف کہتے ہیں کہ اسلامی معاشرہ، بے مہار اور غیرقانونی مخلوط میل ملاپ کا معاشرہ نہیں ہے۔ اس میں مردوں کے لیے مردوں کا معاشرہ ہے اور عورتوں کے لیے عورتوں کا۔ چنانچہ اسلام نے عورتوں کے لیے عیدگاہ میں جانا اور جماعت میں شامل ہونا اور ضرورت پڑنے پر میدانِ جنگ تک میں پہنچنا جائز قرار دیا ہے، مگر اسلام اسی حد پر رُک گیا ہے اور اس کے لیے بھی اس نے سخت شرطیں لگائی ہیں، مثلاً یہ کہ عورت آرایش و زیبایش کے تمام مظاہر سے دُور رہے، ستر کا لحاظ رکھے اور اپنے جسم کو کپڑوں سے اس طرح ڈھانک لے کہ نہ تو جسم نمایاں ہو، نہ جھلکتا ہو اور کسی اجنبی کے ساتھ وہ تنہا نہ رہے خواہ کیسے ہی حالات ہوں، اور اسی طرح کی دوسری شرائط بھی۔
واضح اسلامی تعلیمات کی رُو سے یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ مرد کسی ایسی عورت کے ساتھ جو اس کی محرم نہ ہو،تنہائی میں رہے۔ چنانچہ اسلام نے دونوں جنسوں کے باہم اختلاط کے ضمن میں نہایت قوی اور محکم احکام دیے ہیں۔ چنانچہ اسلام کے آداب میں سے ایک بات یہ ہے کہ لباس میں ستر کو ملحوظ رکھا جائے، نیز احکامِ دین میں سے ایک حکم یہ ہے کہ اجنبی کے ساتھ تنہائی میں رہنا حرام ہے۔ اسی طرح اللہ کے دین نے اس بات کو ضروری قرار دیا ہے کہ نگاہیں نیچی رکھی جائیں۔ نیز یہ چیز اسلامی شعائر میں داخل ہے کہ عورتیں گھروں کے اندر رہیں، حتیٰ کہ نماز بھی گھروں ہی میں پڑھیں۔ اسی طرح اللہ کی مقرر کردہ حدوں میں سے ایک حد یہ ہے کہ بات یا اشارے کے ذریعے دوسروں کے جذبات کو مشتعل کرنے، نیز آرایش و زیبایش کے تمام مظاہر سے دُور رہا جائے بالخصوص باہر نکلتے وقت اور ان سب احکام کا مقصد یہ ہے کہ مرد اور عورت کے فتنے سے بچیں۔ چنانچہ آیات و احادیث میں یہ سب باتیں وضاحت سے بیان ہوئی ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سورئہ نُور میں فرماتا ہے:
 (اے نبیؐ) اہلِ ایمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی   شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہی روش ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ یقینا اللہ ان تمام کاموں سے باخبر ہے جو وہ کرتے ہیں اور اہلِ ایمان عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی زیبایش ظاہر نہ کریں مگر وہ جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے دوپٹوں کو اپنے گریبانوں پر ڈال لیں اور اپنی زیبایش ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں، اپنے باپوں ، اپنے خسروں، اپنے بیٹوں، اپنے شوہروں کے بیٹوں، اپنے بھائیوں، اپنے بھتیجوں، اپنے بھانجوں، اپنی عورتوں، اپنے غلاموں یا ماتحت مردوں کے سامنے جو عورتوں کی ضرورت نہیں رکھتے یا ان بچوں کے سامنے جو ابھی عورتوں کی پوشیدہ باتوں پر مطلع نہیں ہوئے اور اپنے پائوں نہ ماریں کہ جو زیبایش وہ چھپائے ہوئے ہیں اس کا علم ہوجائے اور اے مومنو! اللہ کی طرف تم سب پلٹو تاکہ تم فلاح پائو۔(النور ۲۴: ۳۰-۳۱)
اور سورئہ اَحزاب میں ہے:
اے نبیؐ! کہہ دیجیے اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہ لٹکا لیں اپنے اُوپر اپنی بڑی چادریں، اس طرح زیادہ آسانی سے وہ پہچان لی جائیں گی اور انھیں چھیڑا نہ جائے گا۔(الاحزاب۳۳:۵۹) 

حیا اسلامی معاشرت کا شعار

اسی طرح احادیث میں کثرت سے اس سلسلے کے احکام موجود ہیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق تعالیٰ کے اس ارشاد کو نقل فرمایا:
غیرمحرم پر نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک مسموم تیر ہے، تو جو کوئی میرے خوف سے اسے ترک کر دے، تو میں اس کے بدلے میں اسے ایمان کی حلاوت بخشوں گا جسے وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔[مسند الشھاب القضاعی ،حدیث:۲۸۳]
حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
تمھیں اپنی نظریں ضرور نیچی رکھنی چاہییں اور اپنی شرم گاہوں کی ضرور حفاظت کرنی چاہیے، ورنہ اللہ تمھارے چہروں کو مسخ کردے گا۔[المعجم الکبیر للطبرانی، باب مااسند ابوامامۃ،حدیث: ۷۷۰۴]
حضرت ابوسعیدؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
ہرصبح دوفرشتے ندا دیتے ہیں: ہلاکت ہو ان مردوں پر جو عورتوں کے چکّر میں پھنسے ہوں، اور ہلاکت ہو ان عورتوں پرجو مردوں کے چکّر میں پھنسی ہوئی ہوں۔(ابن ماجہ،  حاکم، کتاب الفتن، حدیث: ۳۹۹۷]
حضرت عقبہ بن عامرؓ راوی ہیں کہ اللہ کے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
عورتوں کے پاس ہرگز نہ جائوتو انصار میں سے ایک شخص نے پوچھا: کیا خیال ہے آپ کا دیور کے بارے میں؟ (کہ وہ بھابی کے پاس جائے) تو آپؐ نے فرمایا: دیور تو موت ہے۔ [بخاری،کتاب النکاح، حدیث: ۴۹۳۸،  مسلم،کتاب السلام، حدیث:۴۱۳۲]
اس حدیث میں دیور کے پاس جانے سے مراد تنہائی میں جانا ہے جیساکہ دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں جاتا ہے تو شیطان ان کا تیسرا ہوتا ہے۔[صحیح ابن حبان، کتاب السیّر، حدیث:۴۶۴۶]
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے مگر ا س وقت، جب کہ اس کا کوئی محرم بھی موجود ہو۔[بخاری، کتاب النکاح، حدیث: ۴۹۳۹]
حضرت معقل بن یسارؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
تم میں سے کسی شخص کے سر میں لوہے کی سلاخ چبھو دی جائے تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہوگا کہ وہ کسی ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے‘‘۔ [طبرانی، حدیث: ۱۷۲۸۴]
حضرت ابوامامہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورتوں سے تنہائی میں ملنے سے بچو کیوںکہ اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! جب بھی کوئی شخص کسی عورت سے تنہائی میں ملتا ہے تو شیطان ان دونوں کے درمیان میں داخل ہوجاتا ہے۔  کسی انسان کی کسی ایسے سور سے رگڑ لگ جائے جو گارے یا کیچڑ میں لت پت ہو، یہ اس سے بہتر ہے کہ اس کے کندھے کسی ایسی عورت کے کندھوں سے رگڑ کھائیں جو اس کے لیے حلال نہیں ہے‘‘۔[الطبرانی، باب الصاد، حدیث: ۷۶۹۴]
حضرت ابوموسیٰؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ہرآنکھ زانی ہے اور عورت جب خوشبو لگا کر کسی مجلس سے گزرے تو وہ بھی زانی ہے‘‘(ترمذی،باب الادب، حدیث:۲۷۸۱]۔اسی حدیث کو نسائی، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے: ’’جو عورت معطر ہوکر مردوں کے پاس سے اس لیے گزرے کہ وہ اس کی خوشبو پالیں، تو وہ زانیہ ہے اور ہر آنکھ زانیہ ہے‘‘۔’’ہر آنکھ زانیہ ہے‘‘ سے مراد وہ آنکھ ہے جو عورت کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھے۔
حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں، اور ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں‘‘۔(بخاری، ، کتاب اللباس، حدیث: ۵۵۵۴]
حضرت ابن عباسؓ ہی سے روایت ہے کہ ایک بار ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے کمان لگائے ہوئے گزری تو آپؐ نے فرمایا: اللہ نے ایسی عورتوں پر لعنت کی ہے جو مردوں کے ساتھ تشبّہ کرتی ہیں اور اسی طرح ان مردوں پر جو عورتوں کے ساتھ تشبّہ کرتے ہیں‘‘۔[المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث: ۴۰۹۷]
حضرت ابن مسعودؓ نے ایک بار فرمایا: ’’اللہ لعنت بھیجے گودنے والیوں اور گدوانے والیوں اور خوب صورتی کے لیے بال نوچنے والیوں اور دانتوں میں خلا پیدا کرنے والیوں پر، جو اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کو بگاڑتی ہیں‘‘۔[مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، حدیث: ۲۱۲۵]
اس پر ایک عورت نے ان پر اعتراض کیا تو انھوں نے فرمایا: ’’جس پر اللہ کے رسولؐ نے لعنت بھیجی اس پر میں کیوں نہ لعنت بھیجوں، جب کہ اللہ کی کتاب میں اللہ کا فرمان موجود ہے: ’’رسولؐ جو تم کو دیں اسے لے لو اور جس سے منع کردیں اس سے رُک جائو‘‘۔ (بخاری ،کتاب اللباس، حدیث: ۵۶۰۲]
حضرت ابوہریرہؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو نقل فرمایا ہے کہ: ’’اہلِ دوزخ میں سے دو گروہوں کو مَیں نے نہیں دیکھا۔ ایک وہ گروہ کہ جس کے ساتھ گائے کی دُم کے مانند کوڑے ہوں گے اور ان سے وہ لوگوں کو پیٹتے ہوں گے۔ اور ایک وہ عورتیں جو پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی، اپنی طرف دوسروں کو مائل کرنے والی اور ناز و اَدا سے چلنے والی ہوں گی، ان کے سر اُونٹوں کے کوہانوں کی طرح ہوں گے۔ وہ جنّت میں داخل نہ ہوں گی، اور نہ اس کی خوشبو پاسکیں گی حالانکہ اس کی خوشبو بہت دُور سے سونگھنے میں آتی ہے۔[مسلم، کتاب اللباس، حدیث: ۴۰۶۵]
حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ اسماءؓ بنت ابی بکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس طرح آئیں کہ وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا اور فرمایا: اے اسماءؓ، جب عورت بالغ ہوجائے تو اس کے جسم میں سے سواے اِس اور اِس کے___اور آپؐ نے چہرے اور ہتھیلی کی طرف اشارہ کیا___ اور کچھ نظر نہ آنا چاہے‘‘۔[الترغیب والترھیب، المنذری، حدیث: ۲۰۴۵]
نیز ابوحمید ساعدیؓ کی زوجہ اُمِ حمیدؓ فرماتی ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: ’’اے اللہ کے رسولؐ ! میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتی ہوں‘‘۔ تو آپؐ نے فرمایا: ’’مجھے معلوم ہے کہ تم میرے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہو مگر تمھارے لیے کوٹھڑی میں نماز پڑھنا اس سے بہترہے کہ کمرے میں پڑھو اور کمرے کی نماز گھر کی نماز سے بہتر ہے اور گھر کی نماز تمھارے لیے محلے کی مسجد کی نماز سے بہتر ہے اور محلے کی مسجد میں تمھارا نماز پڑھنا میری مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘‘۔[مصنف ابن ابن شیبہ، کتاب صلاۃ التطوع، حدیث:۷۵۰۳]
 اس پر اُمِ حمیدؓ نے اپنے لیے اپنے گھر کے آخری اور تاریک ترین حصے میں مسجد بنوالی اور اس میں نماز پڑھتی رہیں یہاں تک کہ وہ اللہ سے جاملیں۔(احمد، ابن خزیمہ، ابن حبان)

موجودہ روش اور اسلام

اس وضاحت کے بعد کسی وضاحت کی ضرورت نہیں اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ہماری جو روش ہے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، چنانچہ ہمارے مردوں اور عورتوں میں یہ کھلا ہوا اختلاط جو مدرسوں، اداروں، مجمعوں اور عام محفلوں میں ہوتا ہے اور عورتوں کا یہ کھیل کود کے مقامات اور ہوٹلوں اور پارکوں کی سیر کرنا اور یہ بازاری پن اور یہ آرایش و زیبایش جو ننگ پن اور حیافروشی کی حد تک پہنچ گئی ہیں، اسلام سے ان کا کوئی جوڑ نہیں لگایا جاسکتا،نیز اس کے بدترین نتائج ہماری اجتماعی زندگی میں رُونما ہورہے ہیں۔
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اسلام نے پبلک معاملات میں حصہ لینا عورت پر حرام نہیں کیا ہے اور کوئی بھی نص ایسی موجود نہیں ہے جس کا یہ مفہوم ہو،اگر ہے تو ایسی کوئی نص لائو جس میں اس کی حُرمت کی صراحت ہو؟ ان لوگوں کا حال اس شخص کی مانند ہے جو یہ کہے کہ والدین کو پیٹنا جائز ہے کیونکہ آیت میں صرف ’اُف‘کہنے سے منع کیا گیا ہے اور پیٹنے کے ممنوع ہونے پر کوئی نص نہیں۔
اسلام نے عورت کے لیے یہ بات حرام ٹھیرائی ہے کہ وہ اپنے بدن کا کوئی حصہ کھولے یا کسی غیر کے ساتھ تنہائی میں رہے اور اس سے ملے جلے اور اس کے لیے یہ بات پسندیدہ قرار دی ہے کہ وہ نماز اپنے گھر میں پڑھے۔ پھر اسلام غیرمحرم پر نظر ڈالنے کو ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر خیال کرتا ہے اور عورت کو اس بات پر بھی ٹوکتا ہے کہ وہ مردوں کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے کمان کو بھی لٹکائے۔ کیا اس کے بعد بھی کہا جائے گا کہ اسلام نے اس بات کی صراحت نہیں کی ہے کہ عورت کے لیے پبلک اُمور میں حصہ لینا جائز نہیں ہے۔ 
اسلام کے نزدیک عورت کی فطری و بنیادی ڈیوٹی گھر اور بچے کی ہے۔وہ ایک لڑکی ہے جسے اپنے گھریلو مستقبل کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔ وہ ایک بیوی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے گھر کے لیے وقف ہوجائے۔ وہ ایک ماں ہے جس کا اپنے شوہر اور اپنی اولاد اور گھر کے لیے فارغ ہونا ضروری ہے۔ مختصر یہ کہ وہ گھر کی مالک، منتظم اور ملکہ ہے اور اگر یہ صحیح ہے تو پھر وہ کسی اور ذمہ داری کو کس طرح سنبھال سکتی ہے کیونکہ وہ گھر کے فرائض سے کب فارغ ہوسکتی ہے؟ لیکن اگر اجتماعی ضروریات مجبور کریں کہ اس فطری ڈیوٹی کے ماسوا عورت کوئی اور کام بھی کرے تو عورت کو لازم ہے کہ اُن تمام شرائط کا پوری طرح لحاظ رکھے، جو اسلام نے اس لیے مقرر کی ہیں کہ عورت مرد کے فتنے سے دُور رہے اور مرد عورت کے فتنے سے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا یہ عمل بقدر ِ ضرورت ہی ہو، نہ یہ کہ یہ کوئی عام قاعدہ یا چلن ہو، جس کے مطابق عمل کرنا ہرعورت کا حق ہو___ لیکن اس معاملے کے بہت سے گوشے ہیں جو طویل بحث و تمحیص کے طالب ہیں، بالخصوص یہ پہلو کہ اس ’میکانکی و مادی‘ دور میں بے روزگاری اور مردوں کی بے کاری ہر قوم اور ہرحکومت کی مشکل ترین گتھی ہے۔

جس معاشرے میں عدل نہ ہو، وہاں افراد کا استحصال ہوتا ہے۔ عورتیں ہو ں یا مرد سب کے حقوق ماپال ہوتے ہیں اور یہ ظلم صنفی تخصیص کے بغیر ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی اگر عورت مظلوم ہے، تو مرد بھی اس ظالمانہ نظام کی چکّی میں اسی طرح پس رہا ہے۔ ایسے میں اگر ہم یہ واویلا کریں کہ چوںکہ عورتوں کو اپنے حقوق کا علم نہیں ہے اس لیے مرد ان پر زیادتیاں کرتے ہیں، یا عورتوں کو معاشی خود مختاری دی جائے تو ان کو ظلم سے نجات مل سکتی ہے___ سچی بات یہ ہے کہ    یہ سب مفروضات ہی ہوں گے، حقیقت کی دنیا میں ایسا نہیں ہے ۔ جو معاشرے سو فی صد خواندگی کا تناسب رکھتے ہیں اور جہاں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ معاشی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں، وہاں کی عورت تو اور بھی زیادہ مظلوم ہے۔ مسلم ممالک کے مقابلے میں مغربی ملکوں کی عورت زیادہ غیرمحفوظ ہے اور مشقت کی چکّی میں زیادہ بُری طرح پس رہی ہے۔پھر یہ کیسے تہمت لگائی جاسکتی ہے کہ ’’اسلام عورتوں سے امتیازی سلوک کرتا ہے اور اقوام متحدہ کا چارٹر عورتوں کے حقوق کا ضامن ہے‘‘۔

اوّل تو اسلامی نظام عملاً دنیا میں کہیں نافذ ہی نہیں ہے، لیکن مسلم ممالک میں جہاں بھی جس درجے میں اسلامی روایات کی پاس داری موجود ہے، وہاں کی عورت نہ صرف محفوظ ہے بلکہ مغربی عورت کی طرح جبری طور پر معاشی جدوجہد پہ مجبور بھی نہیں ہے۔

اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ اسلام عورت کو کیا سیاسی حقوق عطا کرتا ہے؟ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ: ’’اسلام دین اور سیاست کو علیحدہ نہیں سمجھتا۔ وہ ہر شعبۂ زندگی کو، خواہ سیاست ہو یا معاشرت، معیشت ہو یا تمدن، الٰہی تعلیمات کے تابع کرتا ہے۔ قرآن نے ہر شعبۂ زندگی کے بارے میں جو ہدایات دی ہیں، وہ صنفی تخصیص کے بغیر تمام انسانوں کے لیے ہیں۔

عام طور پر سیاست سے مراد قانون سازی کا عمل اور قانون کے عملی نفاذ کے لیے اختیارات کا حاصل ہونا ہے۔ قانون ساز اداروں میں شمولیت اور اس کے لیے کوششیں اور معاشرتی فلاحی امور میں شرکت کر کے ووٹر یا راے دہندہ کا اعتماد حاصل کرنا، یہ سب سیاسی سرگرمیاں شمار  کی جاتی ہیں۔ اس طرح اسلامی شریعت کی رُو سے ہر سیاسی سرگرمی بھی خالصتاً دینی سرگرمی ہی ہے ، کیوں کہ اس کا مقصد عوام کی مدد کرنا اور معاشرے کو ظلم ،ناانصافی اور منکرات سے پاک رکھنا ہے۔

معاشرے میں فرد کی سرگرمیاں جس دائرے میں بھی ہوں، اگر وہ اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے ہیں تو وہ مثبت بھی ہوں گی اور صحت مند بھی، کیوں کہ اسلام ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھتا ہے۔ حدود اللہ کے دائرے کو ملحوظ رکھتے ہوئے خواتین کے اوپر کسی بھی طرح کی سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی نہیں ہے۔ البتہ اسلام نہ صرف سیاسی بلکہ کسی بھی ایسی معاشی یا معاشرتی سرگرمیوں کو پسند نہیں کرتا کہ جہاں اختلاط ہو یا عورتوں کے تحفظ کا مسئلہ درپیش ہو۔

اسلامی تاریخ سے مثالیں

اسلامی تاریخ میں ایسی روشن مثالیں موجود ہیں کہ اگر عورت نے سبقت لے جانا چاہی تو اسے روکا نہیں گیا، مثلاً :

  • حضرت ام حبیبہ ؓ نے اپنے والد ابوسفیان کے ایمان لانے کا انتظار نہ کیا اور اپنے مسلمان ہونے کے لیے ان کی اجازت کو ضروری نہ سمجھا۔ وہ نہ صرف والد سے قبل ایمان لائیں بلکہ ہجرتِ حبشہ کرنے والوں میں شریک تھیں۔
  • تاریخ کی روشن مثال ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ اپنی بہن فاطمہؓ کی تلاوت سن کر اسلام لائے۔ عمر بن الخطابؓ کا جاہ وجلال کسی سے مخفی نہ تھا، مگر بہن نے نہ ان سے اجازت لی اور نہ ان کے ہاتھوں زخمی ہونے کے باوجود کلمہ سے منکر ہوئیں، بلکہ ان کی ایمانی استقامت حضرت عمرؓ کے دل کی نرمی کا سبب بنی۔
  • حضرت سمیہ ؓ جو غلام تھیں، مگر جب ان کو اسلام کی دعوت پہنچی تو انھوں نے اپنے آقا کے ردِ عمل کی پروا تک نہ کی اور پورے شرح صدر سے دائرئہ اسلام میں داخل ہوئیں اور ہر طرح کے  ستم برداشت کیے۔
  • اُمِ کلثومؓ بنت عقبہ بن ابی معیط بھی اسلامی تاریخ کی جگمگاتی شخصیت ہیں۔ ابھی کنواری تھیں کہ اسلام کی محبت دل میں گھر کرلیتی ہے۔ ہجرت کر کے مدینہ آجاتی ہیں۔ گھر والے آکر رسولؐ اللہ سے مطالبہ کرتے ہیں، چوںکہ بن پوچھے یہ قدم اٹھایا ہے، اس لیے انھیں خاندان کے حوالے کردیا جائے۔ آپؐ یہ مطالبہ مسترد کر کے نئے تشکیل پانے والے مسلم معاشرے کو یہ واضح پیغام دیتے ہیں کہ عورت مرد کی تابع مہمل مخلوق نہیں ہے۔ اس کو معاشرے میں وہی حقوق حاصل ہیں کہ جو اپنے فیصلوں کے ضمن میں مرد کو حاصل ہیں۔ اسی لیے آپؐ جس طرح مردوں سے بیعت لیتے تھے تو اسی طرح عورتوں سے بھی بیعت لیتے تھے۔ تاہم، طریق کار مختلف تھا۔ خواتین، مردوں کی طرح آپؐ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت نہیں کرتی تھیں۔

عورتوں کی ہجرت

آغازِ اسلام میں جب ہجرت کی گئی تو وہ شدید مشکل حالات تھے۔ سرزمین کفر سے جس طرح مردوں کو ہجرت کا حکم دیا گیا، اس طرح عورتوں پر بھی ہجرت واجب تھی۔ جب مسلمانوں نے مکہ کے مظالم سے تنگ آکر ہجرت حبشہ کی تو اگرچہ قافلہ مختصر تھا، مگر اس قافلے میں خواتین بھی شامل تھیں۔ (متفق علیہ)

اسی طرح ہجرتِ مدینہ کے موقعے پر خواتین، مردوں کے شانہ بشانہ تمام مشکلات کے باوجود ہجرت کرتی ہیں۔ حضرت اسماء ؓ سے مروی ہے کہ عبداللہ بن زبیرؓ اس وقت میرے حمل میں تھے اور حمل کی مدت پوری ہوچکی تھی تو میں مدینہ آئی، قبا کے مقام پر ٹھیری اور وہیں ولادت ہوئی۔ (بخاری ، مسلم)

قرآن پاک میں اللہ کریم نے عورتوں کے سیاسی حقوق سے متعلق بڑی واضح ہدایت دی ، فرمایا: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، جب مومن عورتیں ہجرت کر کے تمھارے پاس آئیں تو   (ان کے مومن ہونے کی) جانچ پڑتال کر لو، اور ان کے ایمان کی حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ پھر جب تمھیں معلوم ہوجائے کہ وہ مومن ہیں تو انھیں کفار کی طرف واپس نہ کرو۔ نہ وہ کفّار کے لیے حلال ہیں اور نہ کفار ان کے لیے حلال‘‘۔(الممتحنہ۶۰:۱۰)

گویا مسلمان عورت اپنے حقوق سے آشنا ہستی ہے۔ اگر وہ اپنے آبائی دین، یعنی کفر سے بغاوت کرتے ہوئے نہ صرف گھر بلکہ معاشرہ بھی چھوڑ دے تو معاشرہ اس فعل پر لعن طعن نہیں کرسکتا، بلکہ اسلام اس کو پورا تحفظ فراہم کرتا اور اسلامی سوسائٹی میں اس کی عزت وحرمت کا پاس ولحاظ کرکے باوقار مقام دیتا ہے۔ اس لیے کہ اب کفار سے ان کے تعلقات منقطع ہوچکے ہیں، لہٰذا   ان کی ذمہ داری مسلم معاشرے کو اٹھانا ہوگی۔

اسلامی ریاست کی بنیادی ذمہ داری امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے۔ جو مسلمان یہ کام کرتا ہے وہ ریاست کے ادارے کو مضبوط کرتا ہے۔ اس حوالے سے قرونِ اولیٰ کی مسلمان عورتوں نے بھرپور اور بااعتماد کردار ادا کیا۔

عورت کا فعال کردار

ابن سعد نے طبقات میں ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوطلحہ نے اُم سلیمؓ کو نکاح کا پیغام دیا۔  وہ بولیں: ’’اے ابوطلحہ! کیا تم نہیں جانتے کہ تم اپنے جس معبود کی پرستش کرتے ہو وہ زمین سے اُگنے والا ایک درخت ہے جس کو فلاں حبشی نے کاٹا ہے؟ ابوطلحہ! کیا تمھیں نہیں معلوم کہ جن خدائوں کی تم لوگ پوجا کرتے ہو، اگر تم ان میں آگ لگادو تو وہ جل جائیں گے؟ جس پتھر کی تم عبادت کرتے ہو وہ تمھارا نہ نقصان کرسکتا ہے، نہ نفع پہنچا سکتاہے‘‘۔ نسائی کی روایت میں ہے، پھر ابوطلحہؓ نے اسلام قبول کرلیا اور ان کا اسلام لانا ہی اُمِ سلیمؓ سے شادی کے لیے مہر قرار پایا۔ (نسائی، کتاب النکاح)

اُم سلیمؓ کے اس واقعے پر ہمیں ٹھیر کر اس معاشرے کا جائزہ لینا چاہیے جس نے عورت کو اتنی دلیری عطا کی کہ وہ نکاح کے پیغام دینے والے کو دلائل کی بنا پر مسترد کرتی ہے کہ میرے اور تمھارے درمیان تو معبودوں کا فرق ہے۔ یہ فرق ایک خاندان کی کیسے بنیاد رکھ سکتا ہے؟ اس مثال میں انھوں نے نکاح کے لیے دلیل دین کی بنیاد پر دی ہےاور بین السطور میںحق کا پیغام دیا تھا۔ ان کی دانائی اور بینائی کو چیلنج کرتے ہوئے سوال اُٹھایا تھا:’ عقل وشعور رکھتے ہوئے یہ تم نے کون سے معبود بنارکھے ہیں؟‘ یہاں آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام والا داعیانہ انداز نظر آتا ہے کہ جب انھوں نے نمرود کو آثار کائنات سے نشانیاں دے کر چیلنج کیا تھا۔ نمرود تو عقل کا اندھا تھا مگر حضرت ابوطلحہؓ کو اللہ نے قلب ِسلیم عطا فرمایا تھا۔ رشتہ جو ٹھکرایا گیا تو ان کی عقل روشن ہوگئی کہ  واقعی ایک عورت کا ایمان اس کے قلب کو کتنا منور کردیتا ہے کہ نہ انھوں نے مال ودولت اور خاندانی پس منظر دیکھا اور نہ ذرائع معاش پر بات کی، بلکہ ایمان کی کسوٹی پر انھیں مسترد کردیا، سو وہ ایمان کی دولت سے سرفراز ہوئے۔

عورتوں کی مساوات کی دہائی دینے والے تاریخ اسلام کی ان روشن مثالوں سے کیوں صرفِ نظر کرتے ہیں؟ اُس وقت کی عورت نبویؐ معاشرے میں تھی اور یہ سب کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہورہا تھا اور قیامت تک کے لیے مثالیں سامنے آرہی تھیں۔

بخاری اور مسلممیں ایک اور خاتون کا ذکر حضرت عمران بن حسینؓ کی روایت کے ذریعے سامنے آتا ہے کہ ایک سفر میں پانی کی سخت قلت تھی۔ ایک عورت جو سفر میں تھی اس کے دونوں پائوں دو مشکیزوں کے درمیان تھے۔ انھوںنے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ہے تو اس نے بتایا کہ پانی بہت دُور ایک رات اور ایک دن کی مسافت پر ہے۔ ہم اس عورت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تو آپؐ نے حکم دیا کہ: اپنے برتن بھرلو۔ ہم نے چھوٹے بڑے برتن بھرلیے۔ آپؐ نے فرمایا: تم لوگوں کے پاس جو کچھ ہے معاوضے میں اس عورت کو پیش کرو۔    ہم نے کھجوریں وغیرہ جمع کرکے اسے دے دیں، جن کو لے کر وہ اپنے گھر والوں کے پاس آئی اور بولی: میں جس آدمی کے پاس سے آئی ہوں، وہ جادوگر ہے یا نبی۔ پھر اس عورت نے اسلام قبول کرلیا۔ مسلمان آس پاس کی مشرک آبادیوں سے لڑتے تھے، مگر اس عورت کی وجہ سے اس کی  قوم پر حملہ نہیں کرتے تھے۔ اس عورت نے اپنی قوم کو توجہ دلائی کہ مسلمان تم پر جان بوجھ کر ہاتھ نہیں اٹھاتے، کیا اچھا ہو کہ تم سب اسلام قبول کرلو؟ روایات میں ہے کہ لوگ اس کی بات مان کر دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔ (بخاری ، مسلم)

یہ ہے ایک مسلمان عورت کا قائدانہ کردارکہ اس نے خود کو امور خانہ داری تک محدود تصور نہیں کیا۔ جہاں داعیانہ کردار کی ضرورت تھی، اس نے واضح طور پر وہ کردار ادا کیا۔ مردوں نے اس کی تقلید کی اور کسی نے چیلنج نہیں کیا کہ ہم کیوں ایک عورت کی بات پر کان دھریں؟ یا یہ نہیں کہا: ’اب عورتیں مردوں کو عقل کے درس دیں گی؟‘ وہ ایک انتہائی متمدن اور دانش مند معاشرہ تھا، جس میں صنفی تعصب نہیں تھا، حق اور صرف حق کی پہچان بنیاد تھی۔ عورتوں اور مردوں کے انھی شائستہ رویوں پر مبنی پاکیزہ معاشرے کی کرنوں نے ایک زمانے کو منور کردیا۔

میدانِ عمل کا یہ رُوپ

خانگی امور اور اولاد کی تربیت ایک مسلمان عورت کا بنیادی وظیفہ ہے۔ قرون اولیٰ کی خواتین اسلام اپنے جامع کردار سے بخوبی آگاہ رہیں۔ اگر میدان جنگ برپا ہوا، اور وہاں زخمیوں کی مدد کی ضرورت پڑی تو وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق حقِ جہاد ادا کرتی نظر آتی ہیں (یہاں لفظ استعمال کیا گیا ہے کہ ’ضرورت پڑی‘ تو۔ یعنی ایسا نہیں ہواکہ طبل جنگ بجا اور عورتیں اپنے بچے، گھر اور چولہے چھوڑ کر میدانِ جنگ میں پہنچ گئیں۔ نہیں، یہ مثال ضرورت کے تابع ہے)۔

اسی طرح یہ مثال بھی موجود ہے کہ مسلمان عورت اگر کسی غیر مسلم کو پناہ دیتی ہے تو آپؐ اس کی تائید فرماتے ہیں۔ اُمِ ہانیؓ بنت ابوطالب کی روایت ملتی ہے جس میں وہ آپ ؐ سے فرماتی ہیں کہ میں نے فلاں شخص کو پناہ دی ہے، جب کہ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں وہ اس کو قتل کردیں گے۔ آپؐ نے فرمایا: اُمِ ہانی نے جسے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دی۔ (بخاری ومسلم)

کتنے سنہرے ہیں یہ الفاظ۔ کس قدر تکریم ہے ان لفظوں میں ایک مسلمان عورت کی۔ حالاںکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کو قتل کرنے کے درپے ہیں۔ آپؐ یہ نہیں فرماتے کہ عورتیں ناسمجھ ہوتی ہیں، تمھیں کیا پتا کس کو پناہ دینا چاہیے کس کو نہیں۔ کس قدر پیارے انداز سے فرماتے ہیں کہ: ’’ جس کو اُمِ ہانی نے پناہ دی اس کو ہم نے پناہ دی‘‘۔ یعنی مسلمان امت کی ہر عورت بھی ایک دانا وبینا ہستی ہوسکتی ہے اور اس کو محض عورت ہونے کی بنا پر چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اس روایت سے ایک عورت کا وقار کس قدر بلند ہوجاتا ہے۔

اسلام سے ناواقف اطمینان سے کہہ دیتے ہیں کہ اسلام مسلمان عورت کو قانون سازی کے حقوق ہی نہیں دیتا۔ وہ اس پر تعلیم کے دروازے بھی بند رکھتا ہے اور اس کو گھر کی چار دیواری میں قید دیکھنا چاہتا ہے وغیرہ، وغیرہ۔ اسلامی تاریخ سے اتنی واقفیت تو ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ شریعت کا مزاج سمجھ سکے اور ان الزامات کی حقیقت جان سکے۔

اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ حق مہر کی کوئی حد مقرر کردی جائے۔ ان کے پاس ایسے مسائل آرہے تھے کہ نوجوانوں کے لیے نکاح کرنا مشکل ہوتا جارہا تھا۔ ایسی ہی مجلس میں ایک خاتون موجود تھیں جہاں انھوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تو خاتون نے   سورۂ نساء کی بیسویں آیت پڑھی کہ: ’’اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کرلو تو خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا‘‘ (النساء۴:۲۰)۔ خاتون نے نکتۂ اعتراض اٹھایا کہ قرآن تو ڈھیر سارے مال کی بات کررہا ہے تو عمر کون ہوتے ہیں مہر کی حد مقرر کرنے والے؟حضرت عمرؓ نے فوراً اپنی راے سے رجوع کرلیا اور فرمایا :’’عمر غلط کہہ رہا تھا، یہ خاتون درست کہہ رہی ہیں‘‘(طبقات ابن سعد)۔ان روایات کی روشنی میں مسلمان عورت کو حقوق کی دہائی دینے اور سڑکوں پر آنے کی ضرورت نہیں ہے۔

پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم امور مملکت تک میں خواتین کے مشوروں کی قدر فرماتے۔ بخاری  میں مذکور ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقعے پر جب معاہدے کی شقوں پر مسلمانوں کا دل تنگ ہوگیا تو آپؐ نے حکم دیا کہ اٹھو قربانی دو اور حلق کرائو۔ اس سال ہمیں واپس جانا ہوگا۔ آپؐ نے تین مرتبہ فرمایا، مگر کوئی عمل درآمد کے لیے آمادہ نہ ہوا تو آپؐ نے ام سلمہ ؓ سے مشورہ کیا۔ انھوںنے فرمایا: اللہ کے نبیؐ! آپؐ خود قربانی دیں اور حجام کو بلاکر حلق کرالیں۔ آپؐ نے ایسا ہی کیا تو صحابہ کرامؓ   بھی اُٹھ کھڑے ہوئے، جانوروں کی قربانی کی اور ایک دوسرے کا حلق کرنے لگے۔ وہ اُمت پر کتنا سخت وقت تھا۔ ایسے میں ایک بصیرت افروز خاتون کے مشورے سے مسلمان ایک اضطراری کیفیت سے نکل آئے۔

حضرت امیر معاویہؓ جو حاکم وقت تھے، انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو خط لکھا کہ: ’مجھے نصیحت فرمائیے‘۔ حضرت عائشہؓ نے جواب میں تحریر فرمایا: ’’السلام علیکم،امابعد، میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سناہے کہ جو شخص انسانوں کی ناراضی کی پروا نہ کرے وہ اللہ کو راضی کرے گا، اور جو اللہ کو ناراض کر کے انسانوں کی رضامندی کا طلب گار ہوگا، اللہ اس کو انسانوں کے حوالے کردے گا۔ والسلام !‘‘

سوچنے کی بات یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے یہ نہیں فرمایا کہ: ’اس امت کے اکابرین بھی موجود ہیں، جنھوں نے براہِ راست چشمۂ نبوت سے فیض حاصل کیا ہے۔ خلیفہ وقت ان مردوں سے مشورہ کریں۔ ایک عورت بھلا کہاں امورِ مملکت کی سوجھ بوجھ رکھتی ہے۔ عورت کا میدان کار تو اس کے گھر کا میدان ہے ،وہ بھلا سربراہِ اُمت کو کیا مشورہ دے سکتی ہے‘‘۔ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو مسلمان عورت کے مقام ومرتبہ سے آگاہ تھیں، انھوں نے مختصر ترین لفظوں میں اتنی بڑی حکمت آمیز نصیحت کردی کہ اللہ کا خوف اور اس کی محبت تمام بھلائیوں کی جڑ ہے۔

اسلام نے امورِ مملکت میں عورتوں پر ایسی قدغن نہیں لگائی کہ ان کو دوسرے درجے میں شمار کیا ہو۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ حساس ترین خانگی ذمہ داریوں کے سبب بڑے بڑے مناصب سے اس کو الگ رکھنا پسند کیا۔ یہ اس کی صلاحیتوں پر شک نہیں بلکہ اس کے ساتھ رعایت ہے کیوں کہ وہ پہلے ہی امور خانہ داری اور تربیت اولاد کی بھاری ذمہ داریوں میں جکڑی ہوئی ہے۔

  •  پاکستان کا آئین:دستورِ پاکستان میں خواتین کو آئین کے تحت تمام سیاسی حقوق حاصل ہیں مگر حقوق نسواں کی تنظیمیں ان حقوق پر مطمئن نہیں ہیں اور ’کچھ مزید‘ کی خواہش مند ہیں۔

۱۹۹۵ء میں بیجنگ میں منعقدہ خواتین کے حقوق کی عالمی کانفرنس کا مقصد عورتوں کے لیے مادرپدر آزادی، صنفی مساوات اور پالیسی ساز اداروں میں ان کی ۵۰ فی صد شمولیت کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ اسی طرح صدر مملکت، سربراہِ عدالت بننے کے مطالبے بھی شامل ہوتے جارہے ہیں۔

جن مغربی ملکوں سے حقوق نسواں کی تحریکیں اُٹھی ہیں، خود ان ملکوں کی تاریخ دیکھ لیں کہ کتنی خواتین حکومت کے کلیدی عہدوں تک پہنچی ہیں؟ پچھلے پچاس برس کے اعداد وشمار اٹھاکر دیکھ لیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے جو رپورٹس شائع کرتے ہیں ان کے مطابق دنیا بھر میں اعلیٰ حکومتی عہدوں پر تعینات خواتین کی تعداد مردوں کا صرف ۷فی صد ہے جو ان عہدوں پر فائز ہیں، جب کہ بیش تر ممالک میں تو یہ تناسب صفر ہے۔ پھر کیا واقعی عورت کی سربراہی عورتوں کے مسائل کا حقیقی حل ہے؟ ایسا ہے تو تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں۔

  •  سری لنکا: ۱۹۶۰ءمیں پہلی بار ایک خاتون سری لنکا میں وزیراعظم بنی۔ آج پانچ عشرے گزرنے کے باوجود کیا وہاں پارلیمنٹ اور دیگر اعلیٰ عہدوں پر تعینات خواتین کی تعداد مردوں کے برابر ہے؟ ۱۹۹۱ء میں بلدیاتی انتخابات میں۴ہزار ۳ سو ۸۲ سیٹوں پر ۵۵خواتین اور باقی مرد تھے۔ ۱۹۹۷ء میں ۳ہزار ۴سو ۹۰ نشستوں میں صرف ۳۹ پر خواتین تھیں۔ سوال یہ ہے کہ سری لنکا میں عورت کے ریاست کے اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچنے کے بعد کیا عورتوں کی سماجی حالت میں کوئی بہتری واقع ہوئی؟ عورتیں جو کل آبادی کا ۵۱ فی صد ہیں وہاں عورتوں پر گھریلو تشدد ۶۰فی صد سے زیادہ رپورٹ ہوا ہے، جب کہ امریکا کے بعد سب سے زیادہ خواتین سری لنکا میں مردوں کے ہاتھوں تشدد اور ریپ کا شکار ہوتی ہیں۔ یاد رہے کہ سری لنکا میں تعلیم کا تناسب ۹۳فی صد ہے۔
  •  بھارت :اندرا گاندھی بھارت میں طویل عرصے تک وزارت عظمیٰ پر فائز رہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ بھارت میں عورت کل بھی تشدد کا شکار تھی اور آج بھی ظلم کی چکی میں پس رہی ہے۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق شہروں میں آگ لگنے سے ۶۸ہزار، جب کہ گائوں میں ۹۵ہزار عورتیں ہلاک ہوئیں، نیز ۱۵ سے ۳۵سال کے درمیانی عمر کی ۶۵ فی صد سے زائد خواتین تشدد کا شکار ہیں۔ عورتوں کی جنسی بے حُرمتی کے اعداد وشمار مغربی ملکوں کو شرماتے ہیں۔
  •  بنگلہ دیش :بنگلہ دیش میں گذشتہ ۲۵برس سے خواتین ہی برسرِاقتدار ہیں، مگر یہاں  خواتین کی بڑی تعداد تلاش روزگار کے لیے بیرونِ ملک جانے پر مجبور ہے۔ حسینہ واجد اور خالدہ ضیاء کی وزارتِ عظمیٰ کے باوجود کیا یہاں تیزاب پھینکنے، جلا کر مارنے، تشدد کرنے اور جنسی تشدد کے واقعات میں کوئی کمی واقع ہوئی یا بہ تدریج خوف ناک اضافہ ہو رہا ہے؟
  •  پاکستان:کیا پاکستان میں بے نظیر بھٹو کے دو بار وزیر اعظم بننے سے یہاں پر عورتوں کی حالت زار میں کوئی نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی؟ کیا زچہ بچہ کے صحت کے مراکز کا جال بچھ گیا  اور تشدد کے واقعات میں کمی آئی؟ قبیح قبائلی رسوم کا خاتمہ ہوگیا؟ یا خواتین کے لیے مبینہ طور پر ملازمتوں اور انصاف کے دروازے کھل گئے ہوں؟ سارا منظر ہمارے سامنے ہے اور تاریخ نے یہ گواہی ثبت کردی کہ محض کسی عورت کے سربراہِ مملکت ہونے سے عورتوں کو حقوق حاصل نہیں ہوسکتے۔ اس کے لیے عادلانہ حکمرانی شرط ہے۔ حقوق کا تحفظ محض اس صنف کی سربراہی سے مشروط نہیں ہے۔

اسلام میں مردوزن کی مساوات

اسلام نے عورت کو تمدن اور معاشرت میں اس کے فطری مقام پر رکھ کر عزت وشرف کا مرتبہ عطا کیا ہے۔ ہماری اور مغربی تہذیب میں فرق یہی ہے کہ وہاں عورت کو اس وقت تک حقوق نہیں ملتے جب تک وہ مصنوعی مرد بن کر مردوں کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوجائے۔ اسلامی تہذیب عورت کو ساری عزت اور تمام حقوق عورت کی حیثیت میں ہی دیتی ہے اور تمدن کی انھی ذمہ داریوں کا بار اس پر ڈالتی ہے جو فطرت نے اس کے سپرد کی ہیں۔

لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مردوعورت دنیا میں پھیلادیے۔ اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پرنگرانی کررہا ہے۔ (النساء ۴:۱)

قرآن نے بتایا کہ جس نفس واحدہ سے مرد وجود میں آیا ہے اسی سے عورت بھی وجود میں آئی ہے اور مرد ہی کی طرح معاشرے کا ایک اہم ترین رکن ہے۔ دونوں کو معاشرے کی خدمت میں اپنی اپنی استعداد وقوت کے مطابق اپنا حصہ ڈالنا چاہیے:

اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے، اس کی تمنا  نہ کرو۔ جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ۔ ہاں، اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو، یقینا اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔(النساء ۴:۳۲)

یہاں ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو خصوصیات عورتوں اور مردوں کو عطا کی گئی ہیں اس میں کسی پر کسی کی فضیلت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ قدرتِ حق نے ہر ایک کو وہی دیا ہے، جس کی اسے اپنے دائرۂ کار کے لیے ضرورت تھی۔اسلام نے اس فرسودہ تصور ہی کو ختم کر دیا ہے کہ مرد  اس لیے سربلند اور باعزت ہے کہ وہ مرد ہے اور عورت اس لیے فروتر ہے کہ وہ عورت ہے۔

جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دُنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔(النحل۱۶:۹۷ )

مرد اور عورت کے درمیان فرق وامتیاز انسان کے ایک بازو اور دوسرے بازو کے درمیان فرق وامتیاز ہے۔ مردوزن کی مساوات کی اس سے بہتر مثال نہیں پیش کی جاسکتی۔ اسلام کا منشا یہ ہرگز نہیں ہے کہ امورخانہ داری کے علاوہ سارے کام عورت کے لیے ممنوع ہیں۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ اصلاً اور بنیادی طور پر گھر کی مالکہ اور منتظمہ ہے۔ اس کی سماجی خدمات اس کے اصل قلعہ ’گھر‘ کو کمزور کرنے کا باعث نہیں بننی چاہییں۔

سیاسی محاذ کیوں؟

دورِ اول کی مسلمان خواتین اگرچہ اعلیٰ سیاسی مناصب پر نظر نہیں آتیں، لیکن وہ اجتماعی سیاسی معاملات سے غیر متعلق بھی نہیں رہیں۔ صرف یہی نہیں کہ وہ سیاسی سوجھ بوجھ رکھتی تھیں بلکہ انھوں نے بوقت ضرورت اسلامی ریاست کے تحفظ کے لیے جدوجہد کی اور قربانیاں بھی پیش کیں، مشورے بھی دیے اور سیاسی خدمات بھی انجام دیں۔ جنگ جیسے حساس اور نازک مواقع پر بھی ہمیں خواتین کی شمولیت کی روایات ملتی ہیں۔

 لیلیٰ الغفاریہ کے بارے میں علامہ ابن عبد البر لکھتے ہیں: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں وہ جاتی تھیں، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں‘‘۔(ابن عبدالبر، الاستیعاب)

طبقات ابن سعد میں درج ہے کہ ’’اُم سلیطؓ اسلام لائیں، بیعت کی، اور خیبر اور حنین میں شریک ہوئیں‘‘۔ (ابن سعد طبقات الکبریٰ)۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’وہ ہمارے لیے احد میں مشک بھر بھر کر پانی لاتی تھیں‘۔ (الاستیعاب)

فاطمہ بنت قیسؓ مشہور صحابیہ ہیں۔ ابتدائی مہاجرین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ان کے حالات میں علامہ ابن عبدالبر لکھتے ہیں:’’وہ عقل وکمال والی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان ہی کے مکان پر اصحاب شوریٰ جمع ہوئے تھے اور انھوں نے وہ تقریریں کی تھیں جو  ان سے منقول ہیں۔ (الاستیعاب)

اس وقت سیاسی صورت احوال یہ ہے کہ عالمی اور ملکی سطح پر خواتین کی نمایندگی تقریباً تمام شعبوں میں پائی جاتی ہے۔ عالمی منظر نامے میں خواتین سیاست میں اہم مقام حاصل کرچکی ہیں۔   وہ اجتماعی زندگی کے فیصلوں اور قانون سازی جیسے معاملات میں مستقل طور پر کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس صورتِ حال میں دین کی علَم بردار اور باحجاب خواتین یہ محاذ خالی نہیں چھوڑ سکتیں۔ ان خواتین کے لیے سیاست اپنے ذاتی مفادات کے لیے نہیں بلکہ اقامت دین کے لیے ناگزیر ہے۔ جب دین قائم ہوگا تو نظام عبادت سمیت معاشرت، تمدن ہر چیز محفوظ ہوگی۔ جب سیلابی ریلا آتا ہے تو صرف اپنے گھر کی فکر سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر ریلے کے آگے اجتماعی قوت صرف کر کے بند باندھ دیا جائے تو سبھی کی حفاظت کا اہتمام ہوتا ہے۔ محض خود کو بچانے کی کوشش سب کو بہالے جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اقامت دین کی جدوجہد کے حوالےسے رہنمائی فرمائی ہے کہ’’اگر     اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں،  جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جائیں‘‘(الحج ۲۲:۴۰)۔یعنی دین کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ لادین لوگوں کو اقتدار سے بے دخل کیا اور غیرمؤثر بنایا جائے۔  دُنیوی زندگی کی تعمیروتشکیل اور ترقی کا مرکزی ہدف عقیدے اور عمل کے فساد کا خاتمہ ہے۔

اسی وجہ سے آپ ؐکے زمانے میں خواتین نے ہجرتیں بھی کیں، جنگ کے میدانوں میں بھی گئیں، جہادی مہمات میں کھانا تیار کرنے، زخمیوں کو پانی پلانے، مرہم پٹی کرنے، شہدا کی میّتوں کو میدانِ جنگ سے اٹھا کر واپس لانے کی ذمہ داری بھی ادا کی، حتیٰ کہ ام عمارہؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے سیکورٹی گروپ میں شامل ہوگئیں اور آپ ؐ کی حفاظت کا فریضہ مردانہ وار ادا کیا۔ آپ ؐ نے تحسین فرمائی ایک عورت کی اس شجاعت اور دلیری کی۔ فرمایا: ’’اُحد کے موقعے پر جدھر بھی رُخ کرتا اُمِ عمارہ کو سامنے موجود پاتا‘‘۔

آپؐ نے ام عمارہؓ کو اس خدمت پر مامور نہیں فرمایا تھا۔ اُمِ عمارہؓ نے خود یہ اجتہاد کیا کہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت دراصل اسلامی ریاست کی حفاظت ہے۔ آپؐ نے ان کی تعریف فرمائی۔ گویا اسلامی ریاست کی حفاظت عورتوں پر مردوں کی طرح لازم نہیں ہے، لیکن عورتیں اپنی صلاحیت کے مطابق حصہ لینا چاہیں اور اس دوران میں شریعت کی حدود کی پابند رہیں تو انھیں روکا نہیں جاسکتا۔ البتہ عورت کے ہاتھ میں خنجر دینا اس کی فطرت سے متصادم ہے۔ تاہم، اس کے باوجود اسلام عورتوں کو اپنی جان ومال اور آبرو کی حفاظت کے لیے ہتھیار اٹھانے کی اجازت دیتا ہے مگر بالعموم خواتین کو فوجوں میں بھرتی کرنا اور ان سے مردوں والی خدمات لینا اسلام کی پالیسی سے خارج ہے۔

جنگ حنین میں اُمِ سلیمؓ ایک خنجر ہاتھ میں لیے پھر رہی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ: ’یہ کس لیے ہے؟‘کہنے لگیں: ’اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا تو اس کا پیٹ پھاڑ دوں گی‘ ( مسلم)۔اُم عطیہؓ سات لڑائیوں میں شریک ہوئیں۔ کیمپ کی حفاظت، سپاہیوں کے لیے کھانا پکانا، زخمیوں اور بیماروں کی تیمارداری کرنا ان کے سپرد تھا۔ (ابن ماجہ)

اس وقت اُمت مسلمہ پر صلیبی، صہیونی اور لادینی حملہ ہوچکا ہے۔ یہ حملہ اس وقت سے ہے جب انگریز اور دیگر سامراجی قوتوں نے مسلم علاقوں پر قبضے کیے۔ اس وقت سے ان قوتوں نے اللہ کے نظام کو معطل کر کے طاغوتی نظام رائج کیے۔ آزادی کے بعد بھی اس نے اس بات کا اہتمام کیا ہوا ہے کہ اس کا نظام جاری وساری رہے۔ اگر کسی ملک میں جزوی طور پر اسلامی احکام جاری ہوگئے ہیں، تو انھیں منسوخ کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس بنا پر پاکستان میں اسلامی حدود، تعزیرات اور ناموس رسالتؐ کے قوانین کو ختم کرنے کے لیے کوششیں اور شور برپا کیا جاتا ہے۔

عالمی ایجنڈوں کے تحت خواتین کی مساوی شمولیت کی کوششیں بڑی قوت سے ہو رہی ہیں۔ اس وقت خواتین کو سیاست میں نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ ایسے میں دین دار خواتین کی اس میدان کے لیے عملی تربیت نہ کی گئی تو بڑے خسارے کا سودا ہوگا۔ مسلم اُمہ کے مجموعی طور پر اجتماعی، سیاسی، سماجی اور تعلیمی حالات بہت دگرگوں ہیں۔ جس میں اجتماعی سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے۔

اس بات کو اگر بڑی واضح مثال کے ساتھ پیش کیا جائے تو ذہن میں یہ منظر سامنے رکھیے: جس وقت خواتین لادینیت کی تبلیغ کررہی ہوں، تو کیا دین دار خواتین کو میدان لادین طبقے کے لیے خالی چھوڑ دینا چاہیے؟ بدقسمتی سے آج سیاسی میدان میں لادین قوتیں سرگرم عمل ہیں۔ خواتین اسلام ان کے لیے میدان کیوں خالی چھوڑدیں۔

قابل مبارک باد ہیں وہ خواتین جو ایک طرف چادر اور چار دیواری کے تقاضوں کے ساتھ اپنے خانگی امور انجام دے رہی ہیں، تو دوسری طرف سیاست کے میدان میں لادین عورتوں کا مقابلہ کررہی ہیں۔ ان شاء اللہ وہ اللہ کے ہاں دہرے اجر کی مستحق ہوں گی۔

(مآخذ: lاسلام اور مسلم خواتین،سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ lعورت اور سیاسی حقوق، جماعت اسلامی حلقہ خواتین lعورت اور اسلام،مولانا سید جلال الدین عمری)

ہر سال ۴ستمبر پوری دنیا میں ’عالمی یوم حجاب‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کا انعقاد فرانس میں حجاب پر پابندی کے بعد لندن میں ۲۰۰۴ء میں ایک کانفرنس کے موقعے پر عالم اسلام کے ممتاز رہنمائوں نے طے کیا تھا، جس کی قیادت علامہ یوسف القرضاوی کرر ہے تھے۔

اس کا پس منظر یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے مذہبی شعائر کے خلاف مغربی میڈیا کا تعصب بڑھتا ہی جارہا ہے۔ حجاب کے خلاف کہیں پارلیمنٹ میں قانون سازی ہورہی ہے تو کہیں جرمانے عائد کیے جارہے ہیں۔ ان شعائر کو جو اسلامی تہذیب کی علامات ہیں: انتہا پسندی، قدامت پرستی اور دہشت گردی سے جوڑا جارہا ہے۔ فرانس، ہالینڈ، ڈنمارک، بلجیم اور اٹلی حجاب پر پابندی عائد کرچکے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل سابق فرانسیسی وزیر برنر سٹازے کی زیرصدارت کمیٹی نے تمام سرکاری اداروں میں حجاب پر پابندی لگاتے ہوئے کہا: ’’ہم کوئی بھی دینی علامت لے کر تعلیمی اداروں میں آنے کی اجازت نہیں دے سکتے چاہے وہ حجاب ہو یا صلیب کا نشان ہو یایہودی ٹوپی ’کیپا‘‘‘، جب کہ مسلم ملک تیونس کے صدر نے برملا کہا کہ ’’حجاب میں جارحیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے‘‘۔

مشاہدے کی بات ہے کہ سیکورٹی فورسز کا ایک ملازم یہ چاہتا ہے کہ اس کے لباس سے لوگ اندازہ کرلیں کہ وہ قانون کا محافظ ہے، ایک عیسائی نن کے لباس یا ڈاکٹر کے سفید کوٹ سے لوگ ان کے کردار کی شناخت کرلیں۔ بالکل اسی طرح ایک مسلمان عورت کاساتر لباس یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ چاہتی ہے کہ لوگ اس کے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آئیں، تو پھر یہ حجاب ان کی نظر میں تشدد کی علامت کیسے ہوگیا؟

  • طرفہ تماشہ: طرفہ تماشا دیکھیے کہ جو معاشرے تیراکی کے مختصر لباس (bikini) کو انتہاپسندی اور اپنے کلچر کے لیے خطرہ نہیں سمجھتے ،وہ ایک مختصر سے کپڑے سے سر ڈھانپنے کو انتہاپسندی گردانتے ہیں۔ اگر مختصر ترین اسکرٹ اور بلائوز کسی عورت کا انسانی حق ہوسکتا ہے تو حجاب بھی انسانی حق ہے۔ لیکن حجاب کو مغرب میں ایسا ظلم قرار دیا جاتا ہے، جو گویا کہ مردوں کی طرف سے عورتوں پر مسلط کیا گیا ہو۔ پھر حجاب کو بنیاد پرستی سے جوڑ کر عورتوں پر تعلیمی اداروں اور ملازمتوں کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور اگر وہ شدید اصرار کریں تو ان کو جیل تک بھیج دیا جاتا ہے۔

ایک اور ظلم یہ کہ آزادیِ افکار کا راگ الاپنے والے معاشرے مسلمانوں کو حجاب کے حوالے سے اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ جب بھی حجاب کی وجہ سے مسلمانوں سے امتیازی سلوک کی شکایت کی جاتی ہے، تو جواب میں ایک ایسا پروپیگنڈا شروع کردیا جاتا ہے کہ جس میں دنیا کے سارے جرائم اور تشدد کو مسلمانوں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن گرداننے والے یہ مغربی انتہاپسند، مسلمان عورت کو گز بھر کپڑا سر پر رکھنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں، جب کہ حجاب صرف عورتوں ہی کی ضرورت نہیں بلکہ معاشرے کو بھی پاکیزہ بناتا ہے۔ جس طرح عریانی اور فحاشی کے معاشرے پر اثرات ہوتے ہیں اس طرح حجاب کے بھی معاشرے پر گہرے مثبت اثرات ہوتے ہیں۔ لیکن چاہے حجاب ہو یا داڑھی، ان کو بلاجواز متنازعہ بناکر ان پر پابندیاں لگائی اور طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں باحجاب طالبات کی تضحیک کی جاتی ہے اور ان کے اسکارف اتروائے جاتے ہیں۔ مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمان ان متعصب رویوں اور امتیازی قوانین کی وجہ سے بہت سے مسائل سے دوچار ہیں۔

  •  مغرب کا المیہ: دوسری طرف مغربی معاشروں میں فکری وجنسی بدراہی (perversion) نے ان کے خاندانی نظام کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ ان کی نوجوان نسلیں شدید فرسٹریشن کا شکار ہیں اور اکثریت ذہنی سکون کے لیے منشیات کا سہارا لیتی ہے۔ لیکن اپنی مادی قوت کے سہارے وہ اپنی اس بے لگام تہذیب کو جبری طور پر دنیا پر غالب دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے مسلمانوں کا خاندانی نظام اور پاکیزہ اقدار ان کا خاص ہدف ہیں۔ ہمارے خاندانی نظام اور نظامِ عفت وعصمت کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے وہ یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ اسلامی قوانین میں عورتوں پر زیادتیاں کی گئی ہیں۔ حجاب اور پردے کے ذریعے انھیں گویا پابند اور غلام رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مسلمان خواتین کو سازشوں کے ذریعے اکسایا جاتا ہے کہ ان پابندیوں کو توڑ کر ہی تمھیں آزادی نصیب ہوگی۔ حالانکہ ان پابندیوں کو توڑنے کا انجام خود ان کے ہاں بے راہ روی اور خاندانی نظام کی تباہی اور معاشرتی انتشار کی صورت میں سامنے آچکا ہے ۔ خاندانی نظام کھو کر اور رشتوں کا تقدس پامال کر کے وہ ایسی دلدل میں دھنس چکے ہیں جہاں سے نکلنے کی کوئی صورت انھیں نظر نہیں آتی۔
  •  لاتعلقی کا رویّہ کیوں؟ مسلمان اس مسئلے سے لاتعلق کیسے رہ سکتے ہیں؟ جب ریاست کے قوانین ہر ایک کو مذہبی آزادی کی اجازت دیتے ہیں تو پھر مسلمان اس سے مستثنیٰ کیوں ہوں؟ اگر اسکارف پر کہیں پابندی عائد کی جاتی ہے تو کیا عورتوں کو اسکارف اتار دینا چاہیے؟ یا گھروں میں قید ہو جانا چاہیے؟نہیں، انھیں انسانی حق کے لیے آواز اٹھانا چاہیے اور اس پابندی کے خلاف دلیل کی بنیاد پر مقدمہ پیش کرنا چاہیے۔ کیا ہمارے اہلِ اقتدار اور اہلِ دین و دانش نے کبھی سوچا کہ ہم اتنے کمزور کیوں ہیں کہ ہر کسی کے لیے ہمارے حق پر ڈاکا ڈالنا آسان ہوگیا ہے؟

ہمیں اس چیلنج کو سمجھنا ہوگا کہ مسلمان خاندان اور ان کے اسلامی شعائر، سامراج کی نظروں میں کھٹکتے ہیں اور دنیا بھر میں استحصالی قوتیں مسلمان عورت کے اس بنیادی حق کو سیکولر ازم کے بالمقابل دہشت گردی کی علامت کے طور پر پیش کررہی ہیں۔ باحجاب مسلمان عورت، مغرب یا مغرب زدہ لوگوں کی نظر میں ’پس ماندہ اور فرسودہ‘ ہے، جب کہ اس کے برعکس یہی مسلمان عورت حجاب میں خود کو زیادہ محفوظ اور باوقار محسوس کرتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان عورت کو حجاب نے کبھی صحت مند معاشرتی کردار ادا کرنے سے نہیں روکا۔

  • حجاب پسماندگی یا آزادی؟:اب مسلمان عورت کے سر پر اسکارف، آزادی کی توانا علامت اور مسلم شناخت کا احساس بن کر اُبھر رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ :

                oحجاب، عورت کو تقدس ہی نہیں تحفظ بھی عطا کرتا ہے۔ یہ شیطان اور اس کے حواریوں کی ناپاک نظروں سے بچنے کے لیے ایک محفوظ قلعہ ہے۔

                oجب عورت پردہ اتار دیتی ہے تو اس کی مثال فوج کے اس سپاہی جیسی ہوتی ہے، جو میدان جنگ میں اپنے ہتھیار پھینک دے اور خود کو دشمن کے حوالے کردے۔ کیوں کہ پردہ مسلمان عورت کی ڈھال ہے۔

                oایک مسلمان عورت کے لیے یہ ایمان کے بعد خوب صورت ترین تحفہ ہے، جو معاشرے سے بے حیائی کی جڑ کاٹ کر اس کی نسلوں کو پاکیزہ ماحول مہیا کرتا ہے۔

                oحجاب، عورت کو ظاہری نمود ونمایش اور غیر ضروری اخراجات سے روکتا ہے اور سادگی سکھاتا ہے۔

                oشرم وحیا، عورت کا سب سے بڑا زیور ہے اور اس قیمتی زیور کی حفاظت پردے کے بغیر ممکن نہیں۔

                oایک باحجاب عورت بلاضرورت گھر سے باہر نکلنے سے گریز کرتی ہے۔ اس طرح وہ اپنے گھریلو فرائض کے لیے زیادہ وقت نکال سکتی ہے۔ یہی وہ عمل ہے جس کو اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کا جہاد کہا ہے۔

                oایک باحجاب عورت خود کو محفوظ سمجھتی ہے، اور اسے معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

                oوہ ماحول کی آلودگی اور موسم کی شدتوں سے دیگر خواتین کی بہ نسبت زیادہ محفوظ ہوتی ہے۔

                oایسی عورتوں پر لعنت کی گئی ہے جو لباس پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ جنت کی خوشبو تک نہ پاسکیں گی۔

  •  حجاب اور شاعر مشرق: علامہ محمد اقبالؒ عورت کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں  ؎

بتولےؓ باش و پنہاں شو ازیں عصر

کہ در آغوش شبیرےؓ بگیری

[ارمغانِ حجاز]

سیّدہ فاطمۃ الزہرا [بتول] بن جائو، اور اس زمانے کی نظروں سے چھپ جائو کہ تمھاری گود میں ایک شبیرؓ پرورش پاسکے۔

ان کے خیال میں اللہ تعالیٰ کو یہ حجاب اور پردے کی صفت اتنی محبوب ہے کہ ہر تخلیق کرنے والی ہستی کو اپنی طرح حجاب میں رہنے کا پابند بناتا ہے، تاکہ وہ اپنی تخلیق کی بہتر حفاظت اور پرورش کرسکے۔ چنانچہ ایک شعر میں فرماتے ہیں   ؎

حفظِ ہر نقش آفریں از خلوت است

خاتمِ اُورانگین از خلوت است

[جاوید نامہ]

ہر نقش آفریں کی حفاظت خلوت سے ہے، اورخلوت ہی اس کی انگوٹھی کا نگینہ ہے۔

مراد یہ ہے کہ آفاق کے سارے ہنگامے پر نظر ڈالو۔ تخلیق کرنے والی ہستی کو جلوت کے ہنگاموں کی تکلیف نہ دو۔ اس لیے کہ ہر تخلیق کی حفاظت کے لیے خلوت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے صدف کا موتی خلوت میں جنم لیتا ہے۔

پھر فرماتے ہیں[ارمغانِ حجاز]  :

بہل اے دخترک ایں دلبری ہا

مسلماں را نہ زیبدکافری ہا

منہ دل بر جمالِ غازہ پرورد

بیاموز از نگہ غارت گری ہا

اے میری پیاری بیٹی، دلبری (آرایش وزیبایش) کے انداز چھوڑ دو کہ مسلمانوں کو یہ کافرانہ ادائیں زیب نہیں دیتیں ۔(یعنی، اس مصنوعی آرایش وغازے کی سرخی کو چھوڑ کر کردار کی طاقت سے دلوں کو مسخر کرنا سیکھو)۔

ایک ایسے وقت میں، جب کہ اقبال کی شاعری کو بطور فیشن ہر مقرر اپنی تقریر کی زینت بنارہا ہے ہمیں اُن کی شاعری کے اصل پیغام کو سمجھنا اور اُس پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔

ہمیں کیا کرنا ہے؟

                oہمیں مغرب کے منافقانہ طرز عمل کے خلاف ہر سطح پر آواز اٹھانا چاہیے اور دنیا بھر میں پردے اور حجاب کی بنیاد پر امتیازی سلوک یا تعصب کا نشانہ بننے والی خواتین کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنا چاہیے۔

                oمیڈیا اور کاروباری ادارے جس طرح عورت کی خوب صورتی کو تجارتی اور گھٹیاتشہیری مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، یہ عورت کی توہین ہے۔ خود خواتین کی جانب سے اس کی مذمت اور مخالفت کی جانی چاہیے۔

                oمعاشرے میں حیا کے چلن کے فروغ کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے، جس کے لیے قرآن وسنت دونوں اصناف (مردوں اور عورتوں) کو واضح ہدایات دیتے ہیں۔

                oمعاشرے میں عورت کے اس تحفظ اور احترام کو یقینی بنانا چاہیے، جس کی بنیاد پر ہم اسلام اور مسلمانوں کو مغرب سے بہتر سمجھتے ہیں اور اس برتری کو ثابت بھی کرتے ہیں۔

                oمغربی اور بھارتی فلمی کلچر کے اثرات کے باعث عورتوں کو عریانیت کی طرف لانے والے عوامل کی اصلاح کرنی چاہیے۔

                oیہ بتانا چاہیے کہ حجاب نہ صرف دل اور آنکھ کا ہے اور نہ صرف اُوڑھے ہوئے برقعے، چادر یا اسکارف کا، بلکہ آنکھ اور دل بھی ان کے ہم رکاب ہونے چاہییں۔

                m            ۴ستمبر یوم حجاب کے طور پر منایا جاتا ہے [یہ دن تو ایک علامت ہے، وگرنہ ایک مسلمان کے لیے ہر روز، ’یومِ حجاب‘ ہے]۔اس موقعے پر ہم اس بات کا عزم کریں کہ حجاب محض سر لپیٹنے کا نام نہیں ہے بلکہ ہمیں اپنے پورے معاشرے کو شیطان اور اس کے چیلوں سے آزادی دلانی ہے۔ یہ نظام شیطانی اخلاق سے آزادی حاصل کرنے اور اپنے معاشرے اور اپنے خاندان کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کا نظام ہے۔

                oحجاب ایک تحریک ہے، چادر بتولؓ اور یادگارِ فاطمہؓ و عائشہؓ ہے۔ بس یہی ایک ذریعہ ہے جس سے ہم اپنے معاشرے اور مستقبل کا تحفظ کرسکتے ہیں اور اپنے پیچھے ایک پاکیزہ نسلِ انسانی کو چھوڑ کر جاسکتے ہیں۔

                oاپنے بہترین خاندانی نظام اور اقدار کی حفاظت وقدردانی کریں اور اپنی نسلوں کی تربیت قرآن وسنت کی روشنی میں کریں تاکہ حیا کا کلچر پروان چڑھے۔

عورت ہی تہذیب کی عمارت کا ستون ہے۔ وہ مایوسیوں میں اُمید کے چراغ کو روشن کرتی ہے۔ اپنے خون جگر سے ایک بے جان لوتھڑے کو انسان بناتی ہے۔ وہ ایک روشن مشعل کی طرح اندھیروں سے لڑبھڑ جانے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ کبھی نہ بجھنے والے چراغ کی مانند نسلِ نو کی رہنمائی کرتی ہے۔ اُس کی پکار ہمیشہ محبت کی پکار ہوتی ہے۔ اُس کی صدا زندگی کا پیام بن کر صدیوں سے راہیں منور کررہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اُس کی ردا اُسے لوٹانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔

گھر کی رونق مکینوں سے ہوتی ہے، اور گھر کا حسن رشتوں کی استواری اور مضبوطی میں ہوتا ہے۔ کرۂ زمین کی ساری رونق انسانوں سے ہے، اور روے زمین کا سارا حسن انسانی تعلقات کی سازگاری اورخوش گواری سے ہے۔ اس بے بہا رونق اور اس بے پناہ حسن کی حفاظت کے لیے فکرمند رہنا زمین کے مکینوں، یعنی سارے انسانوں کی ذمہ داری ہے۔ پوری زمین کو اپنا گھر سمجھتے ہوئے حفاظت کی اس ذمہ داری کو ادا کرنے کا جذبہ ہر انسان کے اندرون سے اُبھرنا چاہیے، خواہ اس کے بیرون سے اسے کوئی ترغیب ملے یا نہ ملے۔

قرآن مجید کی روشنی میں دیکھیں تو انکشاف ہوتا ہے کہ تعلقات کی خرابی دراصل زمین کی خرابی ہی کی ایک صورت ہے۔ تعلقات خراب ہوتے ہیں، تو نفرتیں اور دشمنیاں جنم لیتی ہیں، اور پھر خون خرابہ ہوتا ہے۔ جس خوب صورت زمین میں محبتوں کی ندیاں رواں رہنی چاہییں، وہاں نفرت کی آگ سب کچھ جلادیتی ہے اور خون کا دریا سب کچھ بہا لے جاتا ہے، رشتے بھی اورقدریں بھی ۔ جو لوگ زمین کو سنوارنے کا شوق اور جذبہ رکھتے ہیں، وہ تعلقات بنانے کے لیے فکرمند رہتے ہیں، اور جو طاقتیں زمین کو فساد اور خرابی سے دوچار کرنا چاہتی ہیں، وہ تعلقات بگاڑنے کے درپے رہتی ہیں: فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْo (محمد۴۷: ۲۲) ’’پس اگر تم پھر گئے تو اس کے سوا تم سے کچھ متوقع نہیں کہ تم زمین میں فساد کرو اور آپس کی قرابتوں کو قطع کرو‘‘۔

زمین کو درپیش خطرات کی طویل فہرست ہے۔ ان کے سلسلے میں تشویش اور بے چینی کا اظہار بھی مختلف فورمز میں ہوتا رہتا ہے۔ تاہم، سمجھنا چاہیے کہ ان خطرات میں سرفہرست، اور ان میں سے بہت سے خطرات کی اصل وجہ انسانوں کے درمیان وسیع پیمانے پربڑھتی ہوئی خود غرضی ، خراب ہوتے تعلقات، اور کم ہوتی محبت ہے۔ انسانوں سے انسانوں کی محبت جس قدر عام ہوگی اسی قدر زمین کو درپیش خطرات کم ہوں گے۔

انسان دشمن طاقتیں انسانوں کو نقصان پہنچانے کے جو منصوبے بناتی ہیں، ان میں وہ رشتے توڑنا سرفہرست ہوتا ہے، جن کی استواری سے پورے معاشرے کی استواری ہوتی ہے، جیسے شوہر اور بیوی کا رشتہ۔ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْہُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِہِ  بَیْنَ الْمَرْء ِ وَزَوْجِہِ ط البقرہ۲: ۱۰۲) ’’پس یہ لوگ ان سے وہ بات سیکھتے جس سے میاں اور اس کی بیوی میں جدائی ڈال سکیں‘‘۔ یہ بنی اسرائیل کا تذکرہ ہے، کہ جب وہ کج روی کے شکار ہوئے تو ان کی سوچ اور پسند بھی نہایت گندی اور حد درجہ تخریبی ہوگئی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ یہ بھی سیکھ لینا چاہتے تھے کہ شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال کر کس طرح آباد گھروں کو برباد کریں۔ یہ ماضی کی بات ہے، اب تو انسانیت کے بدخواہ ایسے سماج کا تصور پیش کررہے ہیں، جہاں شوہر اور بیوی کے رشتے کا سرے سے وجود ہی نہ ہو۔ یہ انسانی سماج کے ساتھ کھلی دشمنی ہے۔ انسانوں کے خالق نے تو انسانوں کی فطرت میں ایسا انتظام رکھا ہے کہ شوہر اور بیوی کے ذریعے صرف اولاد ہی نہ ہو، بلکہ اس رشتے کے بعد ہونے والی اولاد سے مزید نئے رشتوں کی تعمیر وتشکیل ہو، اور زمین کا حسن بڑھتا ہی جائے: وَھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآئِ بَشَرًا فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّصِہْرًا ط وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا o الفرقان ۲۵: ۵۴) ’’اور وہی ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا اور پھر اس کو نسبی اور سسرالی (دادھیالی اور نانھیالی)رشتوں کا ذریعہ بنایا‘‘۔

شیطان انسانوں کا دشمن ہے۔ اس کو نہ یہ پسند ہے کہ یہ زمین انسانوں کے رہنے بسنے کے لیے سازگار رہے، اور نہ یہ گوارا ہے کہ اس زمین پر رہنے بسنے والے انسانوں کے آپس کے رشتے اور تعلقات خوش گوار رہیں۔ اس کی کوشش بس یہ ہوتی ہے کہ زمین میں تباہی پھیل جائے، اور رشتوں کی خرابی عام ہوجائے۔ اسے نہ زمین کا کارِ خلافت کے لیے موزوں ہونا منظور ہے، اور نہ  انسانوں کا منصب خلافت ہی کے قابل ہونا۔اس دشمنِ ازلی کی ساری تگ ودو یہ ہوتی ہے کہ انسانوں کو ہر طرح کی برائیوں میں ملوث کیا جائے۔ اس سے اس کا ایک مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ انسان اللہ سے دور ہوجائے، اور دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان برے کاموں میں پڑ کر انسانوں میں دشمنی اور بغض ونفرت عام ہوجائے: اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَ عَنِ الصَّلٰوۃِ ج  (المائدہ ۵:۹۱) ’’شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ تمھیں شراب اور جوئے میں لگاکر تمھارے درمیان دشمنی اور کینہ ڈالے اور تمھیں اللہ کی یاد سے اور نماز سے روکے‘‘۔

قرآن مجید سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان جب بھی اللہ کی ہدایت سے دور ہوگا وہ منصب خلافت کے تقاضے بھول جائے گا، اور بلندیوں کو سر کرنے کے بجاے پستیوں میں جا گرے گا۔ وہ اتنا گرجائے گا کہ جس زمین پر وہ رہتا ہے اسی زمین میں بگاڑ پھیلائے گا، اور آپس میں خون خرابہ کرے گا ۔ فرشتوں نے اللہ کے حضور یہی اندیشہ ظاہر کیا تھا: اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآئَ  (البقرۃ ۲:۳۰) ’’ اے رب کیا تو اس زمین میں اس کو خلیفہ مقرر کرے گا جو اس میں فساد مچائے اور خون ریزی کرے گا؟‘‘

 زمین میں فساد پھیلانے اور ایک دوسرے کا خون بہانے میں اتنا گہرا تعلق ہے کہ گویا دونوں ایک ہی طرح کے کام ہیں۔ مفسدوں کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ ان کی نگاہ میں   نہ انسانی تعلقات کی کوئی قدر وقیمت ہوتی ہے، اور نہ انسانی جان کا کوئی احترام ہوتا ہے۔

قرآن مجید کی تعلیمات میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ وہ سارے انسان جو قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہوں اور اس کی تعلیمات سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار اور آمادہ ہوں، دشمنی اور نفرت سے محفوظ رہیں، اور الفت ومحبت کے ساتھ زندگی گزاریں۔ جب قرآن مجید اہل ایمان کو باہمی اُلفت ومحبت کا درس دیتا ہے، تو اصل مقصود یہ ہوتا ہے کہ سارے انسان اہل ایمان بن جائیں، اور سارے ہی انسان نفرت وعداوت کی آگ میں جلنے اور جھلسنے کے بجاے، اُلفت ومحبت کی ٹھنڈی چھاؤں میں سکون اور راحت کی زندگی گزاریں۔

قرآن مجید میں تعلقات کی خوش گواری کے موضوع کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ عام انسانوں سے اہل ایمان کے تعلقات نفرت، ناانصافی اور زیادتی پر مبنی نہ ہوں، اور اہل ایمان کے آپس کے تعلقات محبت واخوت پر استوار ہوں۔ یہ تعلقات کے سلسلے میں قرآنی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔ قرآن مجید کی تربیت سے فیض یاب ہونے والا انسان اہل ایمان سے بے پناہ محبت کرتا ہے، اور نفرت کسی سے نہیں کرتا۔ اسے ہر انسان سے ہم دردی ہوتی ہے، خواہ وہ اس سے کتنی ہی دشمنی رکھتا ہو۔

قرآن مجید میں اہل ایمان کو اس کی ترغیب کہیں نہیں دی گئی ہے کہ وہ اپنے دل میں دوسروں سے دشمنی اور نفرت رکھیں، البتہ یہ حقیقت بار بار یاد دلائی گئی ہے کہ کفر کے سرغنہ اہلِ ایمان سے دشمنی رکھتے ہیں۔ ان کی دشمنی سے اہل ایمان کو ہوشیار اور چوکنا رہنا چاہیے۔ قرآن مجید میں دشمنی کے مقابلے میں دشمنی رکھنے یا اس دشمنی کو بڑھانے کی تعلیم بالکل نہیں ملتی ہے۔ صرف ان کی دشمنی کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھنے، اور ان کے سلسلے میں حد درجہ محتاط رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی امید دلائی گئی ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے جو دشمنی پیدا ہوگئی ہے وہ ختم بھی ہوسکتی ہے، اور اس کی جگہ دوستی آسکتی ہے، کیونکہ اللہ رحیم ہے، اور اس کی طرف سے تمام بندوں کی ہدایت کے لیے بھرپور انتظامات کیے گئے ہیں۔قرآن مجید کی تربیت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص اہل حق کی دشمنی میں کتنی ہی دور جاچکا ہو، اگر راہ حق کی طرف لوٹ آئے تو اہل حق کی طرف سے اس کا پُرتپاک خیر مقدم کیا جاتا ہے، اور وہ اہل حق کا دوست بن جاتا ہے: عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مِّنْھُمْ مَّوَدَّۃً ط وَاللّٰہُ قَدِیْرٌط وَّاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo (الممتحنۃ: ۶۰:۷)’’عین ممکن ہے کہ اللہ تمھارے اور ان لوگوں کے درمیان جن سے تم نے دشمنی کی، دوستی پیدا کردے۔ اور اللہ قدرت والا اور بخشنے والا، مہربان ہے‘‘۔

قرآن مجید کی رُو سے کسی امت کے اندر محبت اور اخوت کا فروغ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، جو امت اللہ کی اس نعمت سے خود کو محروم کرلیتی ہے، وہ تباہی کی طرف بڑھتی ہے۔ اخوت و محبت کی یہ نعمت امت مسلمہ کو زیادہ اہتمام اور خصوصیت کے ساتھ عطا کی گئی ہے۔ اس نعمت کی قدر کرنا امت مسلمہ کے لیے لازم ہے، اور اگر کبھی یہ محسوس ہو کہ امت اس نعمت سے محروم ہورہی ہے، تو امت کے ہر فرد کو بہت زیادہ تشویش میں مبتلا ہوجانا چاہیے، کیوںکہ امت کے اندر نفرت وعداوت کا پایا جانا کینسر جیسے خطرناک اور مہلک مرض کی علامت ہے۔ اس بیماری کے اسباب سے جتنی جلدی ہوسکے واقف ہونا اور اس کے علاج کی فکر کرنا فوری طور پر نہایت ضروری ہوجاتا ہے: وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا ص وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا ج وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۳)’’اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے پکڑو اور پراگندا نہ ہو۔ اور اپنے اُوپر اللہ کے اس فضل کو یاد کرو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمھارے دلوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا اور تم اس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے۔ اور تم آگ کے گڑھے کے بالکل کنارے پر کھڑے تھے تو اللہ نے تمھیں اس سے بچالیا‘‘۔

محبت واخوت کی اس نعمت سے ماضی میں بہت سی قوموں کو نوازا گیا مگرانھوں نے اس کی قدر نہیں کی اوروہ اس سے محروم ہوگئیں۔ ان کی محرومی کے اسباب کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے۔ یہود ونصاریٰ کی تاریخ کا اس پہلو سے بھی خصوصی مطالعہ ہونا چاہیے کہ ان کے اندر بغض وکینہ اور نفرت وعداوت جیسی بیماریوں نے کیسے جڑ جمائی۔قرآن مجید میں یہودیوں کی آپسی دشمنی کو ان کی بد اعمالیوں کا نتیجہ اور عذاب الٰہی بتایا گیا ہے: وَ لَیَزِیْدَنَّ  کَثِیْرًا مِّنْھُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا ط وَ اَلْقَیْنَا بَیْنَھُمُ الْعَدَاوَۃَ وَ الْبَغْضَآئَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط کُلَّمَآ اَوْ قَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَھَا اللّٰہُ لا وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا ط وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ (المائدہ ۵:۶۴) ’’ان میں سے بہتوں کی سرکشی اور ان کے کفر کو وہ چیز بڑھادے گی جو تیرے رب کی طرف سے تیری طرف اتاری گئی ہے۔ اور ہم نے ان کے اندر دشمنی اور کینہ قیامت تک کے لیے ڈال دیا ہے۔جب جب لڑائی کی آگ انھوں نے بھڑکائی اللہ نے اسے بجھادیا۔ یہ زمین میں فساد برپا کرنے میں سرگرم ہیں اور اللہ فساد برپا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ‘‘۔ نہ صرف یہودی بلکہ عیسائیوں کی تاریخ بھی ایسی ہی ہے: وَ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰٓی اَخَذْنَا مِیْثَاقَھُمْ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہٖ ص فَاَغْرَیْنَا بَیْنَھُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط وَسَوْفَ یُنَبِّئُھُمُ اللّٰہُ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَo (المائدہ ۵:۱۴) ’’اور جو لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں ، ہم نے ان سے بھی عہد لیا، تو جس چیز کے ذریعے سے ان کو یاددہانی کی گئی وہ اس کا ایک حصہ بھلا بیٹھے، پس ہم نے قیامت تک کے لیے ان کے درمیان عداوت اور بغض کی آگ بھڑکادی۔ اور جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں عن قریب اللہ اس سے ان کو آگاہ کرے گا‘‘۔ اوّل الذکر آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو قوم دشمنی اور عداوت کی بیماری میں گرفتار ہوتی ہے، وہ زمین میں فساد اور بگاڑ پھیلانے میں بھی بہت سرگرم رہتی ہے، کیونکہ دشمنی اور بُغض ونفرت سے فساد فی الارض کے راستے کھل جاتے ہیں۔

 ہر طرح کی برائیوں سے بچنے اور دور رہنے کی تاکید کی گئی ہے، خواہ وہ انفرادی برائیاں ہوں یا سماجی برائیاں۔ سماجی برائیوں کی بہت سی قسمیں ہوسکتی ہیں۔ ان میں ایک قسم وہ ہے جس سے تعلقات میں رخنے پڑ جاتے ہیں اور نہ صرف گھر، خاندان بلکہ پورا سماج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ سورۂ حجرات میں اس قسم کی برائیوں کا خاص طور سے ذکر کیا گیا ہے،اور ان برائیوں کا اصل علاج یہ بتایا گیا ہے کہ جذبۂ اخوت کو مضبوط اور طاقت ور کیا جائے۔ جذبۂ اخوت کمزور ہوتا ہے تبھی یہ برائیاں جنم لیتی ہیں، اور یہ برائیاں جیسے جیسے پھیلتی ہیں، جذبۂ اخوت رخصت ہوتا جاتا ہے۔ جذبۂ اخوت کی حفاظت کے لیے دل میں تقویٰ، یعنی اللہ کا خیال رہنا بہت ضروری ہے۔ تقویٰ سے آدمی نہ صرف اللہ سے قریب ہوتا ہے، بلکہ اللہ کی خاطر اللہ کے بندوں سے بھی بہت قریب ہوجاتا ہے۔ سورۂ حجرات میں جہاں تعلقات کی حفاظت کی تاکید کی گئی، وہاں دومرتبہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی گئی: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ o یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا  لَا یَسْخَرْ قَومٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ وَلَا نِسَآئٌ  مِّنْ نِّسَآئٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْہُنَّ ج  وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ط بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ ج وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ o یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلاَ تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا ط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ ط وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ o (الحجرات۴۹: ۱۰-۱۲) ’’مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو اپنے بھائیوں کے مابین مصالحت کراؤ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو کہ تم پر رحم کیا جائے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مردوں کی کوئی جماعت دوسرے مردوں کا مذاق اڑائے، ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ، کیا عجب وہ ان سے بہتر ہوں۔اور نہ اپنے لوگوں پر طنز کرو اور نہ آپس میں ایک دوسرے پر برے القاب چسپاں کرو اور ایمان کے بعد فسق کا تو نام بھی برا ہے، اور جو لوگ توبہ نہ کریں تو وہی لوگ ظلم کرنے والے ہیں۔ اے ایمان لانے والو، بہت سے گمانوں سے بچو، کیونکہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں۔ اور ٹوہ میں نہ لگو۔ اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟سو اس چیز کو توتم نے ناپسند کیا۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ بے شک اللہ بڑا ہی توبہ قبول فرمانے والا، مہربان ہے‘‘۔

سورۂ حجرات کی مذکورہ آیتوں میں اللہ تعالی نے ایک اصول بیان کیا کہ ’’مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘ اور ساتھ ہی ایک اصولی ہدایت دی کہ ’’اس اخوت کی حفاظت تمام اہل ایمان سے مطلوب ہے‘‘۔ اور اس ہدایت پر احسن طریقے سے عمل درآمد کو آسان اور یقینی بنانے کے لیے رہنمائی فرمائی ’’کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو‘‘۔ ان اصولی اور بنیادی تعلیمات کے بعد پھر کچھ ایسی حرکتوں اور عادتوں کا ذکر کیا جو اخوت کے رشتوں کو خراب کردیتی ہیں، اور ان سے بچنے کی تاکید کی۔ یہاں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ جن باتوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے بس ان ہی سے بچنا مطلوب ہے، بلکہ جاننا چاہیے کہ تعلقات کو خراب کردینے والے رویوں کی یہ کچھ نمایاں مثالیں ہیں۔ایسی اور بھی  بہت سی چیزیں ہوسکتی ہیں، جن سے تعلقات میں دراڑ پڑجائے، اور رشتوں کا شیرازہ بکھر جائے۔ اب یہ ہر مومن کے غوروفکر کا موضوع ہونا چاہیے کہ وہ کیا امور ہیں، جو رشتۂ اخوت کی حفاظت میں معاون ومددگار ہوسکتے ہیں، اور وہ کیا باتیں ہیں جو رشتوں کے لیے خطرناک اور تباہ کن ہوسکتی ہیں۔ یہ حقیقت ذہن میں رہنی چاہیے کہ قرآن مجید جب کچھ باتوں کا حکم دیتا ہے، اور کچھ باتوں سے روکتا ہے، تو دراصل وہ سوچنے کا ایک رخ متعین کرتا ہے۔ اس طرح وہ اس رخ پر بہت دور تک سوچنے کی ترغیب بھی دیتا ہے، اور سوچنے کی راہیں بھی ہموار کرتا ہے۔

قرآن مجید کا اندازِ تربیت یہ ہے کہ وہ حکمت کا ایک اصول دیتا ہے، اور اس اصول کی کچھ مثالیں بیان کرتا ہے، اور اس کے بعد قاری کے اوپر ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ ان مثالوں پر غور کرکے اس اصو ل کے اندر مزید جتنی صورتوں تک رسائی ہوسکے انھیں اخذ کرتا رہے۔ اس طرح قاری کو متعین طور پر کچھ حکمتیں تو بغیر محنت وجستجو کے مل جاتی ہیں، اور پھر مزید حکمتیں تلاش کرنے کی رغبت اور تربیت حاصل ہوتی ہے۔ جو اس جستجو میں جس قدر آگے بڑھتا ہے، اسی قدر اس پر آگاہی کے دروازے کھلتے ہیں، اور وہ قرآن مجید کی منشا سے قریب ہوتا ہے۔

دراصل ایک بندۂ مومن کو یہ معلوم ہوجانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو اہل ایمان کے باہمی تعلقات کی بہتری مطلوب ہے، اور خرابی ناپسند ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس منشا کو جان لینے کے بعد یہ شاہراہ پوری طرح روشن ہوجاتی ہے، اور بندۂ مومن اللہ کی منشاکی روشنی میں سامنے آنے والے ہررویے کے خوب وناخوب ہونے کا فیصلہ آسانی سے کرسکتا ہے۔

غور کرنے کی بات ہے کہ سورۂ حجرات میں تعلقات کی حفاظت کے ذیل میں جن باتوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے، ان میں سے کوئی بات بھی انسانوں کے لیے نئی اور انوکھی نہیں ہے۔    یہ ایسی باتیں بھی نہیں ہیں جن سے کوئی اختلاف کرے۔ یہ وہ باتیں ہیں کہ ان کا تذکرہ نہیں ہوتا تب بھی انسانوں کو وہی کرنا چاہیے تھا جس کی اس قدر تاکید اور اہتمام کے ساتھ تعلیم دی گئی ہے۔ تاہم اہتمام کے ساتھ تذکرہ کردینے سے اللہ کی منشا اچھی طرح واضح ہوگئی، اور وہ یہ کہ تعلقات کی حفاظت کو انسانی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہیے، اور اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔

سورۂ حجرات میں مذکور تعلیمات کا تقاضا ہے کہ اہل ایمان اپنے باہمی تعلقات کی حفاظت کے سلسلے میں تمام انسانوں سے زیادہ سنجیدہ اور حساس ہوجائیں۔ باہمی تعلقات کی حفاظت لوگوں کے غوروفکر کا خاص موضوع بنے۔ اس موضوع پر بھرپور علمی وفکری سرمایہ تیار کیا جائے، اور اس سلسلے میں کسی بھی پہلو کو علم وعمل کی سطح پر تشنہ نہیں رہنے دیا جائے۔

قرآن مجید میں خاص طور سے سورۂ مجادلہ میں نجویٰ (سرگوشی) کے سلسلے میں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ہدایت کی گئی ہے: اِنَّمَا النَّجْوٰی مِنَ الشَّیْطٰنِ لِیَحْزُنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا (المجادلہ ۵۸: ۱۰) ’’یہ سرگوشیاں شیطان کی طرف سے ہیں تاکہ وہ ایمان والوں کو رنج پہنچائے‘‘۔ واقعہ یہ ہے کہ نجویٰ کے ماحول میں دشمنی کے ماحول کو پنپنے کا بہت زیادہ موقع ملتا ہے۔ شرپسند عناصر نجویٰ کو نفرت وعداوت پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور بہت سے بھولے بھالے لوگ ان کے جھانسے میں آجاتے ہیں، کیوںکہ بے باکی اور شفافیت کے ماحول میں تو سازشیں آسانی سے   بے نقاب ہوجاتی ہیں، لیکن اگر نفرت وعداوت کا گندا کھیل نجویٰ کے پردے میں کھیلا جارہا ہو، تو بہت سے لوگ غلط باتوں پر یقین کرلیتے ہیں۔وہ اپنی غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کا ازالہ نہیں کرپاتے ہیں اور بلاتحقیق دشمنی کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ انسانی معاشرے میں نجویٰ کے بجاے شفافیت اور صاف گوئی کو زیادہ سے زیادہ فروغ ملنا چاہیے۔

غیبت تو ایک ہلاکت خیز زہر ہے۔ وہ جس معاشرے میں سرایت کرجاتا ہے، اس معاشرے میں ساری اعلیٰ قدریں مرجھانے لگتی ہیں۔ غیبت دراصل سماج میں نفرت کی کانٹے دار جھاڑیاں ہر طرف بونے کی ایک مکروہ شکل ہے۔ ایک شخص پہلے اپنے دل میں نفرت کا پودہ اُگاتا ہے، اورپھر غیبت کے راستے سے اس کی قلمیں تیار کرکے سب کے دلوں میں اسے اُگانے کی کوشش کرتا ہے۔ غیبت کے سلسلے میں قرآن مجید کا انداز بیان بہت سخت ہے، اور غور کیا جائے تو واقعی غیبت ایسی برائی ہے کہ اس سے جتنی نفرت کی جائے کم ہے، کیوںکہ سماج میں نفرت اگر سب سے زیادہ پھیلتی ہے تو غیبت کے ذریعے ہی سے پھیلتی ہے۔ ان لوگوں کی عقل اور ذوق پر ماتم کرنا چاہیے جو غیبت سے نفرت کرنے کے بجاے غیبت کے جال میں پھنس کر انسانوں سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔

قرآن مجید میں یہ بھی بتایا گیا کہ شیطان شراب اور جوئے کے ذریعے سے انسانوں کے درمیان دشمنی اور کینہ ڈالنا چاہتا ہے۔ قرآن مجید کی یہ رہنمائی بہت قیمتی اور اہم ہے۔ شراب اور جوئے میں وہ کیا چیزیں ہیں جو انسانوں کو انسانوں کا دشمن بنادیتی ہیں، اس کا گہرا تجزیہ ہو، اور پھر تلاش کیا جائے کہ وہ اور کون کون سے امور ہیں، جن کے اندر تعلقات کے سلسلے میں شراب اور جوئے جیسی تاثیرِ بد پائی جاتی ہے۔غرض شراب اور جوئے ہی سے نہیں، ایسی ہر چیز سے پرہیز لازم ہے جس کے اندر دشمنی اور نفرت کے جراثیم پائے جاتے ہوں۔

سماج میں مثالی تعلقات کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ جذبۂ اخوت کی دل پر حکمرانی ہو۔ اس جذبے کو انانیت اور نفسانیت کے مقابلے میںہمیشہ ترجیح دی جائے۔ آدمی ایسے رویوں سے دور رہنے کی کوشش کرے جو اخوت کے شیرازے کو کمزور کرتے ہیں۔ فرد اور اجتماعیت کی سطح پر   جذبۂ اخوت کو بہترین اور قوت بخش غذائیں پہنچانے کی تدبیریں اختیار کی جائیں۔ اورکبھی نہیں بھولنے کی بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں ان غذاؤں کا بھرپور انتظام موجود ہے۔

معاشرے کی تعمیر و ترقی میں عورت کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ہر معاشرے میں نسل نو کی تعمیر اسی کے ہاتھوں ہوئی ہے اور ہو سکتی ہے۔ ’ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ‘ کے تصور نے عورت کی حیثیت اور کردار کو مزید مستند بنایا ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ کسی عورت کی معاشرے میں صرف بحیثیت ماں اہمیت نہیں ہوتی، بلکہ ہمارے معاشرے اور تہذیب میں خاندانوں اور نسلوں کے بننے اور بگڑنے میں ایک عورت بحیثیت بہن، بیٹی، ساس، بہو اور دیگر تمام رشتوں میں بہت اہم کردار کی حامل ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کردار کے ساتھ اس معاشرے نے کیا کیا؟ اور اس کردار کی تشنگی کو دُور کرنے کا راستہ کیا ہے؟

عورت کا یہ استحقاق دنیا بھر میں متاثر رہا ہے اور آج بھی ہے۔ بیداری کی تمام تحریکوں کے باوجود بھی عورت زیر عتاب ہی چلی آئی ہے اور اس کے حالات تبدیل نہیں ہوسکے۔

پاکستان کے دیہی علاقوں پر اگر نظر دوڑائیں تو جنوبی پنجاب کے بعض دیہات میں ’ونی‘ کی رسم اب بھی جاری ہے۔ اس رسم میں کسی بھی جرم چوری، ڈاکا، اغوا، رہزنی، قتل اور پسند کی شادی سمیت ہر قسم کے تنازعات، دشمنی اور رنجشوں میں راضی نامہ کرتے ہوئے پنچایت یا جرگہ کے تحت ملزم فریق کی لڑکیوں کو مدعی فریق کے مردوں کے نکاح میں دے دیا جاتا ہے۔ ایسی خواتین مدعی فریق کی غلام بن کر رہتی ہیں،جب کہ ان میں سے کچھ کو پھرسے صلح بدل رشتہ، یعنی ’ونی‘ کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ بسا اوقات ’ونی‘ کی صورت میں ملنے والی خواتین کو قتل اور فروخت بھی کر دیا جاتا ہے۔

وجوہ کاجائزہ                                                                          

ان جاہلانہ رسم و رواج پر مبنی واقعات کی چند بڑی وجوہ ہیں، مثلاً یہ کہ: جہاں پورے کا پورا نظام ظلم اور ناانصافی پر مبنی ہو تو وہاں کسی کو انصاف کیوں کر مل سکتاہے؟ جہاں عورت ہی کیا  سب کے سب ظلم کی چکّی میں پس رہے ہوں، وڈیروں، جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کا سکہ چلتا ہو، جہاں عمر رسیدہ لوگ پنشن کی تھوڑی سی رقم کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے رہنے پر مجبور ہوں، جہاں بچے تعلیم، صحت اور خوراک جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہوں، جہاں میرٹ پر ہوتے ہوئے آگے بڑھنے کے لیے راستہ نہ ملتا ہو، جہاں تعلیم و روزگار کے مواقع دولت، رشوت اور سفارش کی بنیاد پر حاصل کرنا آسان ہو، تو وہاں کسی ایک طبقے (عورت) کو انصاف کیسے مل سکتا ہے؟

تبدیلی کیوں نہیں آرہی؟

۱- سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاںایک بڑی تعداد میں این جی اوز، افراد، اداروں اور تنظیموں نے عورت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا ہو،تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہاںبہتری نہ آئے۔ دراصل اسلامی جمہوریہ پاکستان میںکام کرتے ہوئے جو غلطی کی جارہی ہے، وہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح ریاضی یا فزکس کا کوئی سوال حل کرتے ہوئے شروع میں کلیہ غلط استعمال کرلیں تو لاکھ کوشش کے باوجود ہم سوال ٹھیک نہیں حل کر سکتے، جب تک کہ ہم درست کلیہ نہیں لگائیں گے اور اس کے مطابق حل نہیں نکالیں گے۔ جو لوگ اس وقت میدانِ عمل میں اس جدوجہد میں کوشاں ہیںاور حقوق نسواں کے حوالے سے کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں،ان سے دردمندانہ درخواست ہے کہ وہ رک کر اس بات پر ضرور غور کریں کہ جس معاشرے میں ہم کام کررہے ہیں، وہاں یہ ’کلیہ‘ چلنے والا نہیں ہے جو ان میںسے اکثرنے لگایا ہوا ہے۔

لہٰذا، انھیں رُک کر سوچنا چاہیے کہ منزل کو پانے کے لیے جو راستہ چُنا گیا ہے، وہ منزل کو جاتا ہی نہیں۔ مسئلے کا حل عورت کو یہ باور کرانا نہیںکہ: ’’تمھارے ساتھ مردوں کی جانب سے زیادتی ہورہی ہے، اس لیے تمھیں مرد کے خلاف ڈٹ جاناچاہیے‘‘۔ نیز میڈیا کا دن رات یہ باور کراناکہ: ’’مردوںکے اس معا شرے میںعورت کو کس طرح مردوں کو مات دینی ہے اور اس کی بہتری کی راہ میں اگر کوئی حائل ہے تو وہ صرف مرد ہے‘‘۔یقین جانیں یہ مسئلے کا حل نہیں۔ صدیاں گزر جائیں گی مگر مسائل اس طرح نہیں حل ہو سکتے کہ مرد و عورت آپس میں ٹکراتے رہیںاور جو غالب آجائے وہ فاتح ہو۔

۲- جو لوگ عورت کے استحصال کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں ان کی اکثریت، اسلام کے عورت کو عطا کردہ ضابطۂ کار کا حقیقی علم و ادراک ہی نہیں رکھتی، یا پھر اسلام کے خلاف اس   ڈس انفارمیشن سے متاثر ہے جو جان بوجھ کر پھیلائی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ معاشرے میں ہے وہ چودہ سو سال پرانی تعلیمات ہیں جن پر علما نے کبھی اجتہادنہیں کیا، وغیرہ وغیرہ۔

 ۳ - جو اس کا علم اور ادراک رکھتے ہیں ان کی اکثریت نہ جانے کیوں اس موضوع کو اپنا موضوع نہیں بناتی؟ اور کام کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کرتے؟ وہ دنیا کے سامنے یہ حقیقت نہیں لاپاتے کہ ہمارے پاس کتنی بڑی دولت غیرمترقبہ ہے جس کے بعد ہماری سوسائٹی کو اور بالخصوص طبقۂ نسواں کو کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی۔ اس معاملے میں رہی سہی کسر ان پیشہ ور مذہبی چہروں نے پوری کر دی، جو اسلام کو صرف اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا جانتے ہیں، اور اپنی زبان اور عمل سے دنیا کے سامنے اسلام کا کچھ ایسا نقشہ پیشہ کرتے ہیں کہ اسلام تو شائد عورت کو قید کر کے رکھنا چاہتا ہے اور اسے دوسرے اور تیسرے درجے کا انسان قرار دیتا ہے۔

سدھار کا واحد راستہ

  •  اسلام عورت کو جتنے اور جیسے حقوق دیتا ہے، اور آج سے نہیں بلکہ چودہ سو سال پہلے دے چکا ہے، اس کی ایک جھلک بھی حقوق نسواں کے علَم بردار ٹھیک سے دیکھ لیں تو حیرت زدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اس حوالے سے جو ہدایات اسلام دیتا ہے، اس کے برعکس دنیا کے سارے قانون دان، دانش وَر عورتوں کے محسن اور ہمدردان بھی مل کر کوئی قانون اور کوئی چارٹر بنانا چاہیں تو وہ اس سے بہتر نہیں ہو سکتا، جو آج سے چودہ سوسال پہلے اسلام اس کے بارے میں دے چکا ہے۔اسلام نے پستیوں میں گری اور کچلی ہوئی عورت کو اٹھا کر عملاً ایک اعلیٰ مقام پر فائز کیا ہے۔
  •  عورت کو بحیثیت بیٹی رحمت کہا گیا۔ اس کی پرورش میں برابری کا حکم دیا۔ بچیوں کی  تعلیم و تربیت کے لیے یکساں ہدایت اور اس پر عمل کرنے پر جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ بالکل یہی احکامات بہنوں کے حوالے سے بھی ہیں۔ بحیثیت ماں عورت کو باپ کے ایک درجے کے مقابلے میں تین درجے دیے گئے ہیں اور ماں کے پیروں تلے جنت رکھی گئی ہے۔
  •   نکاح میں عورت کی رضامندی کو لازم قرار دیا گیا ہے اور خلع بھی عورت کی مرضی سے واقع ہوسکتا ہے۔ ایک مرتبہ ایک لڑکی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میرے والد نے میری مرضی کے بغیراپنے بھتیجے سے میری شادی کردی ہے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: تمھیںپورا اختیار ہے، چاہے اس نکاح کو باقی رکھو، چاہے ختم کردو۔ یہ سن کر لڑکی نے کہا: یارسولؐ اللہ!  میرے ماں باپ نے جوکچھ کیا ہے وہ مجھے خوش دلی کے ساتھ منظور ہے ۔میں تو صرف لڑکیوں کو یہ بتانا چاہتی تھی کہ ان کے ماں باپ اس معاملے میں آزادو خود مختار نہیں ہیں۔
  •  بعض تہذیبوں میں بیوہ عورت کے بارے میں تحقیر آمیز تصورات رائج ہیں، بالخصوص ہندو معاشرت میں۔ اسلام بیوہ کے لیے نہ صرف اجر اور جنت کی بشارت دیتا ہے بلکہ اس کے ساتھ حُسن سلوک کرنے والے کے لیے بیش بہا اجر ہے۔ وہ اس کے باپ بھائی اور قریبی رشتہ داروں کو قانوناً اس کی کفالت اور سرپرستی کا سختی سے پابند کرتا ہے، اور جس کا کوئی عزیز نہ ہو، اس کا ذمہ ریاست پر عائد کرتا ہے۔ بیوہ کا اس کی مرضی سے نہ صرف جلد نکاح کی ہدایت دیتا ہے بلکہ اس سے نکاح کو اجروثواب کا باعث کہا ہے۔ خود رسولؐ اللہ نے حضرت عائشہؓ کے علاوہ باقی تمام شادیاںبیوہ عورتوں سے ہی کی تھیں(ہمارے ہاں بیوگان کی شادی کے مسئلے کا ذمہ دار برہمنی کلچر ہے)۔
  •  معاشی طور پر بھی اسلام عورت کو بہت مستحکم بناتا ہے اور وراثت میں اس کو حصہ اپنے والدین کی طرف سے بھی ملتا ہے اور شوہر کی طرف سے بھی اور اس ترکے کی وہ بلاشرکت غیرے مالک ہوتی ہے۔ جو کچھ اس کے پاس ہے یا وہ اپنی کوشش سے حاصل کرتی ہے، دولت، جایداد، یا کوئی اور اثاثہ وہ سب کچھ بلا شرکت غیرے اس کی ملکیت ہوتا ہے۔ اس کا نان نفقہ، یعنی خوراک، لباس، علاج معالجہ، مکان اور اگر استطاعت ہو تو خادم کا انتظام کر کے دینا شوہر کی ذمہ داری اور عورت کا حق ٹھیرا۔عورت خواہ کتنی ہی مال دار ہو تب بھی مرد پر اس کا یہ حق ساقط نہیں ہوتا۔ عورت کو ملکیت کا حق اس حد تک دیا گیا ہے کہ وہ شوہر کے مال سے بوقت ضرورت اس کی اجازت کے بغیر لے سکتی ہے،جب کہ بیوی کے مال پر شوہر اس قسم کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ اگر وہ اپنے پیسے سے کوئی کاروبار کرنا چاہے تو وہ بھی کر سکتی ہے۔ اگر مرد اپنا پیسہ اپنی بیوی اور اپنے گھر والوں پہ خرچ کرتا ہے تو اس پر بہت سے اجر کی بشارت کے باوجود یہ اس کا فرض ہے۔اور اگر ایسا عورت کرے تو اجر کی بشارت کے باوجود وہ احسان شمار ہو گا اور اگر نہ کرنا چاہے تو نہ کرے ، جب کہ مرد کو یہ رعایت نہیں۔
  •  شادی کے وقت مہر کی ادایگی شوہر پر فرض کی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کسی مرد نے کسی عورت سے تھوڑے یا زیادہ مہر پر نکاح کیا اور اس کے دل میں مہر ادا کرنے کا ارادہ نہیں ہے، تو اس نے اس عورت کو دھوکا دیا اور پھر وہ مہر ادا کیے بغیر مر گیا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اس حال میں حاضر ہو گا کہ وہ زنا کا مجرم ہو گا۔ (الترغیب والترہیب)
  •  حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں کسی حکمت عملی کے تحت مہر کی رقم کی حد مقرر کرنا چاہی تھی، لیکن ایک عورت نے جا کر سوال اٹھایا کہ جس چیز کی اجازت اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہمیں دی ہے، آپ کیسے اس پر پابندی لگا سکتے ہیں؟ اس پر حضرت عمرؓ نے یہ راے واپس لے لی۔
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے: ’’تم میں سے اچھا وہ ہے جو گھر والوں کے لیے سب سے اچھا ہو‘‘۔کوئی یہاںصرف تصور ہی کرے اُس معاشرے کا کہ جہاں نیک بیوی کو دنیا کی بہترین متاع اور مرد کی اچھائی کا سرٹیفکیٹ اس کا اپنے گھر والوںکے ساتھ اچھا ہو نا ہو، تو اس سے بہتر ماڈل نہ صرف اس سوسائٹی کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے اور کیا ہو سکتا ہے!

اسلام اتنی اَن گنت مراعات دے کر عورت کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کی شکرگزار اور فرماںبردار ہو اور اس کے پیچھے اس کے گھرکی نگران ـہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’نیک بیویاںشوہر کی اطاعت کرنے والی ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت ونگرانی میںان کے حقوق اور امانتوں کی حفاظت کرتی ہیں‘‘(النساء۴:۴۳) ۔اور صرف ایک بنیادی کام اس کو سونپا ہے کہ وہ انسانیت سازی، یعنی انسانی تخلیق اور تعمیر اور نسلِ نو کی آبیاری کا کام کرے اور اپنی اس بنیادی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے، نیز اسلام کی حدود کا خیال رکھتے ہوئے وہ ترقی کی ہر سیڑھی پر قدم رکھ سکتی ہے۔ اسلام اس کو کسی طرح کے حصول تعلیم و تربیت (بلکہ حصول علم کو تو عین فرض کہا ہے)، ملازمت، کاروبار،سفر، مہم جوئی، حتیٰ کہ بنائو سنگھارتک کے راستے میں رکاوٹ نہیں ڈالتا۔

عملی تدابیر: سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کیا جانا چاہیے :

  •  اصولاً تو سب سے بڑی ذمہ داری بھی انھی کے کندھوں پر آتی ہے، جو اسلام کا ٹھیک اور تفصیلی علم رکھتے ہیں۔ان کو ہی یہ سوچنا ہو گا کہ آج کی عورت اور آج کے معاشرے کو اس نعمت غیرمترقبہ سے کیسے روشناس کرایا جائے۔ یہ ہمارے معاشرے کی کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمارے پاس اتنی بڑی نعمت موجودہے اور ہم للچائی ہوئی نظروں سے دوسروں کی طر ف دیکھ رہے ہیں۔
  • کوئی بھی اصلاح جو ہم کرنا چاہتے ہیں وہ کسی ایک جز کو لے کر نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مجموعی اصلاح کی بات ہو۔ کیونکہ تمام اجزا ایک دوسرے پر اپنے اثرات رکھتے ہیں۔ اس لیے صرف عورت کی تعلیم اور اس کے استحکام کی بات کر کے ہم کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ دراصل مرد و عورت دونوں کی تعلیم و تربیت اور معاشرتی شعور کی بات ہونی چاہیے۔  معاشرے، گھر اور خاندان کا یونٹ تو دراصل مرد و عورت دونوں سے بنتا ہے۔ اگر مرد تعلیم یافتہ اور باشعور نہیں ہو گا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ عورت کے حقوق اور اس کو احترام دے سکے۔مردوں کی جہالت کے باعث ہی تو عورت پہ ظلم ہوتا ہے۔
  • اکثر دیہات میں جہالت اور غربت اور اس کے نتیجے میں جو اخلاقی گراوٹ پیدا ہو رہی ہے، اس کا کوئی عام سی تعلیم اور شعور رکھنے والا فرد تصور بھی کر لے تو جھرجھری آنے لگتی ہے۔ ہمارے ہاں این جی اوز کی بڑی تعداد تعلیم، طب، معاش، قانون اور استحکام خاندان جیسے میدانوں میں کام کر رہی ہے۔ کرپشن کی بیماری جس طرح ہمارے خون میں سرایت کر گئی ہے، اس کے زیراثر بہت سی این جی اوز کا مطمح نظر بھی فلاحی کاموں کے نام پر فنڈز بٹورنا ہو گا۔ لیکن انھی میں سے کچھ ایسی     این جی اوز ،تنظیمیں اور ادارے بھی ہیں جو حقیقی معنوں میں خیر خواہی کے جذبے سے کام کر رہے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں۔
  •  خاص طور سے وہ این جی اوز، جو CEDAW،بیجنگ ایجنڈا اور UNOچارٹر جیسے عنوانات کو لے کر میدان میں اتر ی ہیں، اور عورت کی آزادی اور ترقی کی بات کر رہی ہیں۔ ان کو   یہ سمجھنا ہوگا کہ یہاں اس انداز سے یہ کام نہ صرف ممکن نہیں بلکہ نتیجہ خیزبھی نہیں ہے۔ خود ان کے ذمہ داران کو اپنی آنکھوں سے تعصب کی پٹی اُتار کر یہ بات جاننے کی کوشش کرنی ہو گی کہ اسلام کا عورت کو دیا ہوا مقام اور حقوق ان کے پاس موجود چارٹر سے بہتر ہیں کہ نہیں؟ اگر وہ یہ جانے بغیر اپنے کام کا تسلسل اسی طرح جاری رکھیں گے تو اس طرح ان کو شاید چند رول ماڈل تو مل جائیں، جن کو پیش کر کے وہ دنیا کے سامنے اپنے کام کا غلغلہ دکھا سکیں اور ان چند کرداروں کو میڈیا اور بین الاقوامی فورمز پر پیش کر کے یہ ثابت کر سکیں کہ یہ پاکستان کی بیٹی ہے اور اس طرح وہ کوئی خاص ایجنڈا یا خاص مقصد پورا کر سکیں، لیکن اس طرح کوئی حقیقی تبدیلی اور نچلی سطح سے تبدیلی نہیں آنے والی۔
  •  وہ لوگ جو بلا تعصب اس معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں ان کو ایک میز پر بیٹھ کر حل سوچنا ہو گااور یہ دیکھنا ہو گا کہ مشترکہ جدوجہد کے ذریعے کیا کیا جا سکتا ہے۔
  • یہاں علما کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ نہ صرف زبانی طور پر عوام کے سامنے عورت کے کردار کی اہمیت اور اس کے مقام و حقوق کو واضح کریں، بلکہ عورت اور اسلام کے حوالے سے جو غلط فہمی پائی جاتی ہے، اس کو دُور کریں۔
  •  دین کی دعوت کا کام کرنے اور دین کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کا داعیہ رکھنے والے افراد، گروہوں، تنظیموں اور اداروں کو چاہیے کہ عورت کے حوالے سے دیے گئے اسلام کے احکامات کا معاشرے میں ادراک کرائیںکجا یہ کہ معذرت خواہانہ رویہ رکھیں یا صرف رد عمل تک محدود رہیں، بلکہ اپنے کاموں کے عنوانات میں ایک بنیادی عنوان اس کو بنائیں۔
  •  اصلاحی اور اسلامی تنظیمیں،ادارے اور گروہ سب سے پہلے خود کو بحیثیت رول ماڈل پیش کریں۔ دینی احکامات پر عمل کی کوشش کا داعیہ رکھنے والے اس بات کو اپنے گھروں، خاندانوں اور اپنے ممبران اورملازمین کے لیے بھی اس معیارکو لازم کریں کہ ان کی نجی زندگیوں میں مہر، وراثت اور کفالت وغیرہ جیسے حقوق نہ تلف کیے جائیں۔ بالخصو ص وہ اسلامی تنظیمیںاور ادارے جو اپنے ممبران کو حلال ذریعۂ معاش وغیرہ کا پابندکرتے ہیں تو وہ اس بات کا پابند بھی کرسکتے ہیںتاکہ دنیا کو رول ماڈل پیش کیے جاسکیں۔
  •  دیکھا گیا ہے کہ اصلاحی اور سیاسی تنظیمیں، رفاحی اور خدمتی ادارے وغیرہ جو بھی     اس معاشرے میں بہتری وبھلائی کا کوئی کام کرنے نکلتے ہیں تو وہ سر دھڑ کی بازی لگا ڈالتے ہیں۔ معیار کے بجاے مقدار کو بڑھاتے چلے جاتے ہیں اور اپنے تئیںاس بڑھوتری کو ہی کامیابی کا معیار سمجھتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ حکومت کا نعم البدل نہیں ہوسکتے۔اس لیے انھیں حکومت کی تبدیلی یا حکومت چلانے والوںکو قائل کرنے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور تنظیمی سطح پر آپس میں تعاون کرنا چاہیے۔
  •  کسی دینی اور دنیاوی تعلیمی اداروں میں مطالعہ صنفیات (جنڈر اسٹڈیز) کی نوعیت کا کوئی نصاب شامل ہونا چاہیے، تاکہ کوئی ٹریننگ اور کوئی تعلیم ایسی دی جا سکے جو ایک مرد کو اچھا مرد اور ایک عورت کو اچھی عورت بنا سکے۔
  •  ہمارے نظامِ تعلیم سے تربیت کے فقدان کو دو طرح ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے:

۱- ایک قلیل مدتی کورس میں طلبہ و طالبات کو موجودہ نصاب کے ساتھ مختصر دورانیے کے کورسزکروائے جائیں، جو تربیت کی اس ضرورت کو پوراکریںاور ان کورسز کوڈگری کے حصول سے مشروط کیا جائے۔ اور فی الوقت جو ادارے کسی بھی طرح کاتعلیم کا کام کر رہے ہیں، مثلاً اسکول، کالج یونی ورسٹیاں اور مدارس و غیرہ کے لیے یہ کورس ان کے طلبہ و طالبات کے لیے لازمی کیے جائیں۔

۲- دوم: طویل مدتی کورس جس میں نظام تعلیم کا جائزہ لے کر اس میں تربیت، اخلاقیات اور اقدار کو شامل کیا جائے۔ معاشرے کے مؤثر افراد اور اداروں کو طے کرنا ہوگا کہ یہ کام آیا حکومت خود کرے گی، یا اس پہ دبائو کے ذریعے کروایا جائے گا، یا سول سوسائٹی اور پبلک سیکٹر خود کریں گے، یا دونوں مل کے کریں گے۔

پاکستانی عورت کو بالخصوص یہ بات سمجھنی چاہیے کہ یہ ملک جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، جس کا دستور کہتا ہے کہ ’’چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے، اور پاکستان کی جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا وہ ایک مقدس امانت ہے‘‘۔وہاں عورت کو اپنے حقوق، اپنے مقام، اپنی آزادی اور معاشی مضبوطی کے لیے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے اور اس کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ دراصل اس جدوجہد کی ضرورت ہے کہ جو طاقت اور بلند مقام ایک عورت کو خالق کائنات نے اور کائنات کے سب سے بڑے بادشاہ نے عطا کر دیا ہے اس کو غصب کرنے کا حق دنیا کے چھوٹے چھوٹے خداؤںسے واپس لیا جائے۔