اسلامی معاشرت


مسلمان فقہا کے درمیان ہر دور میں اختلافات پائے گئے ہیں، کیوںکہ وہ لوگ زمانے کی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کا شرعی حکم معلوم کرنے کے لیے اجتہاد کیا کرتے تھے اور اجتہاد میں اختلاف کا وقوع پذیر ہونا ناگزیر ہے۔ بقول مفتی محمد شفیع صاحب ’’اختلاف صرف احمقوں میں نہیں ہوتا یا ان ضمیر فروش لوگوں میں کہ جو اپنے آقائوں کی ہر بات آنکھیں بند کر کے مان لیتے ہیں‘‘۔ چنانچہ سلف صالحین میں بھی اختلاف راے کا سلسلہ جاری رہا۔ مزید برآں بعض اوقات سیاسی مخالفت کی بنا پر محاذ آرائی کی نوبت آئی ۔ ایسے تمام مراحل میںاسلاف کا عمل جاننے کے لیے ہم یہاں پر کچھ واقعات پیش کرتے ہیں، جس سے یہ اندازہ ہو گا کہ بظاہر کسی نہ کسی انداز میں مخالفت کے باوجود دینی معاملات اور شرعی احکامات کے سلسلے میں وہ لوگ نہایت احتیاط برتتے تھے اور ان کا یہ اختلاف راے کبھی بھی دین میں شقاق وفرقہ بندی کا باعث نہیں بنی۔

  •  امام بیہقی نے سنن میں راویت کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے ان کے آزاد کردہ غلام کریب نے آ کر یہ شکایت کی کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تین کے بجاے ایک وتر پڑھتے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ’’معاویہ ٹھیک ہی کرتے ہوں گے کیوںکہ وہ ہم سے بڑھ کر عالم ہیں‘‘ ۔ یاد رہے عبد اللہ بن عباس ؓ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی تھے، جب کہ اس وقت حضرت معاویہؓ ،حضرت علی ؓ سے برسرِ پیکار تھے۔
  • حضرت علی ؓ کے خلاف اہل شام نے جو بغاوت کی تھی اور ان کے لیے جو مشکلات پیدا کی تھیں ان سے ہر صاحبِ علم واقف ہے، مگر جب حضرت علی ؓ سے ان کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ کافر ہیں؟ تو آپؓ نے فرمایا:’’ نہیں ! کفر سے تو وہ بھاگے ہیں‘‘۔پھر پوچھا گیا:ــ’’ کیا وہ منافق ہیں؟ ‘‘ حضرت علی ؓ نے فرمایا: ’’ نہیں ،منافق کثرت سے خدا کو یاد نہیں کرتے اور وہ لوگ خدا کو کثرت سے یاد کرتے ہیں‘‘۔ سوال کیا گیا کہ پھر وہ کیا ہیں ؟ آپ نے جواب دیا : ’’ وہ ہمارے بھائی ہیں جنھوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے ‘‘ ۔
  • مولانا مفتی محمد شفیع  ؒ نے معارف القرآن میں تفسیر در منشور کے حوالے سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ: ایک مرتبہ ان کو کسی نے یہ خبر دی کہ فلاں فلاں آدمیوں کے مابین سخت جھگڑا ہے اور وہ ایک دوسرے کو مشرک کہتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے یہ سن کر فرمایا: ’’ تمھارا کیا خیال ہے کہ میں تم سے کہوں گا کہ جائو اور ان سے لڑو ؟ ہرگز نہیں ، جائو اور ان کو نرمی سے سمجھائو۔ مان جائیں تو ٹھیک ورنہ اپنی فکر کرو۔ (تفسیر سورئہ مائدہ، معارف القرآن، ۳، ص ۲۵۱)
  • ابو حنیفہ دینوری ؒ اخبار الطوال  میں لکھتے ہیں کہ: ایک دفعہ حضرت علی ؓ کو یہ خبر پہنچی کہ ان کے بعض رفقا اہل شام کو برا کہتے ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو پیغام بھیج کر ایسا کرنے سے منع فرمایا۔ انھوں نے جواب دیا : ’’ اے امیر المومنین ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور وہ باطل پر نہیں ہیں ؟ ‘‘ حضرت علی ؓ نے فرمایا : ’’بے شک، مگر میں تمھارے لیے پسند نہیں کرتا کہ تم لعن طعن کرو‘‘۔
  • امام مالکؒ خود ایک فقہی مسلک کے بانی تھے، مگر جب ان سے امام ابو حنیفہؒ کی استعداد علمی کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے قریب ہی واقع ایک ستون کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ’’ابوحنیفہ پتھر کے اس ستون کو سونے کا ثابت کرنا چاہیں تو دلیل سے ثابت کر دکھائیں گے‘‘۔
  • شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اپنے رسالہ الانصاف فی بیان سبب الاختلاف میں علامہ سیوطیؒ کے حوالے سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ: ایک مرتبہ خلیفہ ہارون الرشید عباسی نے امام مالک سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ: ان کی کتاب موطا  خانہ کعبہ میں آویزاں کر دی جائے اور لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اختلاف ترک کر دیں اور اس کتاب کے مطابق عمل کریں۔ یہ سن کر حضرت امام مالک نے فرمایا : ’’ایسا نہ کیجیے ۔ فروعی مسائل میں خود صحابہ کرامؓ آپس میں اختلاف رکھتے تھے اور وہی صحابہ کرام اطراف ممالک اسلامی میں بکھر گئے ہیں اور یہ انھی کے مختلف طریقے ہیں جو مختلف علاقوں میں پھیل چکے ہیں‘‘۔
  •  امام ابو حنیفہ ؒ کو فقہ اسلامی پر بہت زیادہ عبور حاصل تھا اور اکثر ائمہ انھیں امام تسلیم کرتے تھے۔ ان کے شاگردوں اور زیر تربیت لوگوں میں کئی ایک مجتہد اور فقہ کے امام ثابت ہوئے ۔ تا ہم، فتنہ معاصر کی وجہ سے بعض لوگوں کی ان سے مخالفت تھی اور وہ ان پر سخت لعن طعن  کیا کرتے تھے۔ مگر امام صاحب کا حال یہ تھا کہ ان کے بارے میں عبد اللہ بن مبارک ؒ نے سفیان ثوری ؒ سے کہا: تعجب ہے ابو حنیفہ کے ہاں غیبت بالکل نہیں ہے‘‘۔سفیان ثوری ؒ نے جواب دیا : ’’اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟ ابو حنیفہ نادان نہیں کہ اپنے نیک اعمال دوسروں کو دے ڈالیں‘‘ (حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص دوسروں کی غیبت کرتا ہے قیامت کے دن اس کی نیکیاں اس شخص کے لیے شمار کی جائیں گی جس کی غیبت اس نے کی ہو گی)۔
  • علامہ شبلی نعمانی نے امام ابو حنیفہ کے حالات بیان کرتے ہوئے دوواقعات نقل کیے ہیں:

___ امام سفیان ثوری کو امام ابو حنیفہ سے کچھ شکر رنجی تھی۔ ایک شخص نے آکر امام ابو حنیفہ سے کہا کہ سفیان ثوری آپ کو برا کہتے ہیں۔ امام صاحب نے فرمایا کہ: اللہ، میری اور سفیان دونوں کی مغفرت کرے۔ سچ تو یہ ہے کہ ابراہیم نخعی کے ہوتے ہوئے بھی اگر سفیان ثوری دنیا سے اُٹھ جاتے تو مسلمانوں کو سفیان کے مرنے کاماتم کرنا پڑتا۔

___ ایک دن حلقۂ درس کے دوران ایک نو عمر لڑکے نے کوئی مسئلہ پوچھا۔ امام ابوحنیفہ  نے جواب دیا۔ اس لڑکے نے کہا : ’’امام صاحب! آپ نے غلط جواب دیا ہے‘‘۔ابوالخطاب جرجانی درس میں موجود تھے۔ انھیں لڑکے کی بات سن کر بڑا غصہ آیا اور حاضرین کو مخاطب کر کے کہا : ’’تعجب ہے کہ ایک لونڈا جو بھی منہ میں آئے امام سے کہہ دے اور آپ لوگ ٹس سے مس نہ ہوں‘‘۔امام ابوحنیفہ نے ابوالخطاب سے کہا : ’’ان لوگوں پر کچھ الزام نہیں، میں اس جگہ بیٹھا اس لیے ہوں کہ لوگ آزادانہ میری غلطیوں کی نشان دہی کریں اور میں تحمل سے سنوں ‘‘ ۔

  • امام احمد بن حنبلؒ نکسیر پھوٹنے سے وضو کے ٹوٹ جانے کے قائل تھے۔ کسی نے ان سے پوچھا : ’’ کیا آپ ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھیں گے جس نے جسم سے خون نکلنے کے بعد وضو نہ کیا ہو ؟‘‘امام احمد بن حنبل نے فرمایا: ’’ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں امام مالک اور سعید بن المسیب کے پیچھے نماز نہ پڑھوں ‘‘(یاد رہے کہ یہ دونوں حضرات اس بات کے قائل تھے کہ نکسیر پھوٹنے سے وضو نہیں ٹوٹتا ) ۔
  •  عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ اپنے ایک مرید کو نصیحت فرماتے ہوئے کہا : ’’خدائی اور نبوت کا دعویٰ مت کرنا ‘‘۔اس نے حیرت سے پوچھا : ’’حضرت! کیا اس بات کا امکان ہے کہ بندۂ ناچیز اس قسم کا دعویٰ کرے ؟ ‘‘ انھوں نے فرمایا :’’ اللہ وہ ہے جو وہ کہہ دے وہی اٹل ہے اور اس کی خلاف ورزی ممکن نہیں۔ پس جو انسان اپنی راے کو یہ حیثیت دے کہ اس سے اختلاف کرنا ممکن نہ رہے تو اس سے بڑھ کر خدائی کا دعویٰ کیا ہو گا ؟ اسی طرح نبی وہ ہے جو بات وہ کہے وہی سچ ہے اور اس میں جھوٹ کا احتمال نہیں۔ پس جو شخص اپنے قول کے بارے میں یہ دعویٰ کرے کہ یہی سچ ہے تو اس نے نبوت کا دعویٰ کیا‘‘۔
  • اختلافِ راے کے باوجود رواداری ، خیر خواہی اور احترام باہمی کی ایک اعلیٰ اور عمدہ مثال امام شافی نے قائم کی ہے۔ آپ نے ایک مرتبہ امام ابو حنیفہ کی قبر کے قریب نماز فجر پڑھتے ہوئے دعاے قنوت چھوڑ دی۔ جب ان سے دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا : ’’ بعض اوقات  ہم اہل عراق کے مسلک پر بھی عمل کر لیتے ہیں‘‘۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ امام صاحب نے فرمایا : ’’صاحب قبر کے لحاظ نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کر دیا ہے ‘‘۔

ان واقعات پر غور کرنے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ ہمارے سلف صالحین میں اختلاف راے اور سیاسی مخالفت کے باوجود کس قدر رواداری پائی جاتی تھی اور وہ باہمی احترام اور عزت نفس کو کس قدر ملحوظ رکھتے تھے۔ انھوں نے اختلاف راے کو کبھی اپنی اَنا کا مسئلہ نہیں بنایا اور کبھی یہ نہ کہا کہ صرف میری ہی بات حق ہے اور دوسروں کی باطل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ معمولی معمولی فقہی اُمور پر لڑتے ہوئے امت میں افتراق پیدا کرنا نہایت خطرناک اور دین دشمنی سمجھتے تھے اور اس سے سختی سے پرہیز کرتے تھے۔ تاہم، اس سے یہ تاثر نہ لیا جائے کہ موجودہ دور میں اس قسم کے لوگ بالکل نہیں پائے جاتے اور یہ خاصیت صرف اسلاف کی تھی جو اب ناپید ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ تعصب اور تنگ نظری کے اس ظلمت کدہ میں اب بھی ایسے ستارے موجود ہیں جو ہمارے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو وسعت نظر اور حقیقی دین داری سے بہرہ مند فرمائے ۔ آمین    !

’معاشرہ‘ افراد کے مجموعے کا نام ہے۔ فرد کی مثال اس ’مرکزہ‘ (Nucleus) کی ہے،  جس کے ارد گرد خلیے جمع ہوتے ہیں اور پھر ایک وجود تشکیل پاتا ہے۔ یہ مرکزہ جس نوعیت کا ہوتا ہے، اُس کو وجود میں لانے کے پیچھے جو نظریہ، مقصد اور ارادہ کار فرما ہوتا ہے، معاشرہ بھی اسی نوعیت کا وجود میں آتا ہے۔ ایک پودے کے مرکزہ سے پودا ہی پیدا ہوتا ہے اور برگ وبار لاتا ہے۔    کسی جانور کے خلیے کے مرکزہ سے جانور ہی جنم لیتا ہے اور انسان کے مرکزہ سے انسان ہی  صورت پذیر ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی معاشرے کے مرکزوں (افراد ) سے ویسا ہی معاشرہ وجود میں آئے گا، جس نوعیت کے وہ مرکزے ہوں گے۔ پھر جس طرح کسی پودے اور درخت کی پیدایش او ر نشو ونما کا انحصار مخصوص طریقِ کاشت ، زمین کی خاصیت اور آب و ہوا کی نوعیت پر  ہوتا ہے، اسی طرح کسی جانور اور انسان کو وجود میں لانے کے لیے مخصوص مرکزوں اور خلیوں، مخصوص تخلیقی عمل، خصوصی ماحول، خاص قسم کی غذا اور دوسرے منفرد عوامل درکار ہوتے ہیں۔

ایک فرد جس ماحول میں پرورش پاتا ہے، اس کی فکری صلاحیتیں ، خالقــ کائنات اور کائنات میں انسان کا مقام متعین کرنے والے جس فلسفے اور نظریے کے تحت نشوونما پاتی ہیں، اُس کی سیرت جس اخلاقی سانچے میں ڈھلتی ہے اور وہ زندگی کے جس مقصد کو اپنا کر اپنا منہاج ـــعمل متعین کرتا ہے اس سے تشکیل پانے والا معاشرہ اسی ماحول، اسی فلسفے اور نظریے ، اسی سیرت وکردار، انھی اخلاقی اصولوں اور اسی منہاج عمل کا حامل ہو گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ افراد کے افکار و نظریات، مقصد زندگی اور اخلاقی اصول تو کچھ اور ہوں، مگر ان کے مجموعے سے جو معاشرہ صورت پذیر ہو، وہ بالکل بر عکس ہو۔

معاشرے پر افکار و نظریات کے اثرات

افراد کے افکارونظریات اور سیرت و کردار کے سانچے میں معاشرہ کس طرح ڈھل جاتا ہے اُس کا جائزہ اس مختصر مقالے میں ممکن نہیں۔ اس لیے ہم صرف دورِ حاضر کو سامنے رکھتے ہیں۔

جدید عمرانیات میں انسان کو معاشرتی حیوان (Social Animal) قرار دیا گیا ہے۔ اس تصور کی بنیاد پر دو قسم کے معاشرے وجود میں آئے ہیں۔ ایک وہ جس میں انسان جانور ہی کی طرح آزاد ہے کہ جو روش چاہے اختیار کرے، جس کھیت اور چراگاہ میں چاہے منہ مارے ، اُسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ اس لیے کہ وہ بنیادی طور پر جانور ہے اور یہ اس کی جبلّت کا تقاضا ہے___مگر چونکہ وہ عام جانوروں سے ذرا زیادہ مہذّب ، شائستہ اورصاحب عقل ودانش ہے اور اس کے لیے معاشرتی زندگی بسر کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس لیے کچھ حدود مقرر کر دی گئی ہیں کہ بس وہ کسی کھیت میں منہ مارتے وقت، اپنے نفس کی کوئی خواہش پوری کرتے وقت اس بات کا خیال رکھے کہ یہ سارے کام دوسرے متعلقہ معاشرتی جانور کی رضا مندی سے ہوں۔ یہ رضا مندی اُسے حاصل ہو جائے تو پھر کوئی بدی بدی نہیں، کوئی لاقانونیت لاقانونیت نہیںہے ۔ کسی کی حق تلفی حق تلفی نہیں، کسی کی بے آبروئی بے آبروئی نہیں، اور کسی کی عصمت وناموس عصمت و ناموس نہیں ۔ وہ فریق ثانی کی رضا کے ساتھ ہر غیر اخلاقی فعل ، ہر ظلم اور ہر جرم کر سکتا ہے۔ دوسرے معاشرتی جانوروں کو لوٹ کھسوٹ کر اپنا گھر بھر سکتا ہے۔ کسی کی ناموس کو اپنے گھر میں ڈال سکتا ہے یا گھر میں ڈالے بغیر اس سے کھیل سکتا اور نفس کی آگ بجھا سکتا ہے۔ البتہ وہ یہ باتیں اگر جبراً کرتا ہے تو یہ جرم ہے اور بری بات۔

یہ نقطۂ نظر اُس ریاست کی قانون سازی میں پوری طرح کار فرما ہوتا ہے، جسے یہ ’معاشرتی جانور‘ قائم کرتے ہیں۔ اس طرح یہ حیوانی آزادی محض افراد تک محدود نہیں رہتی بلکہ اجتماعی صورت اختیار کر لیتی ہے اور ہر ادارے میں ان کی حیوانیت رقصاں دیکھی جا سکتی ہے۔ جب اس جانور کا سابقہ اپنے معاشرے سے باہر دوسرے معاشروں سے پڑتا ہے تو اس کی حیوانیت ، اس کے شائستہ فلسفے اور ترقی پسندانہ قوانین اور ضابطے سب دھرے رہ جاتے ہیں۔ پھر وہ درندہ بن کر نمودار ہوتا ہے جو اپنے سے کمزور ’جانوروں ‘ کو چیرتا پھاڑتا، اُن کے حقوق غصب کرتا، اُن کی زمینوں پر قبضہ کرتا اور انھیں اپنا غلام بناتا ہے اور اس راہ میں وہ کسی حد اور رکاوٹ کا قائل نہیں رہتا۔

پھر ایک دوسرا معاشرہ وہ ہے، جس میں ’معاشرتی جانوروں ‘ کا ایک چھوٹا سا چالاک اور ہنرمند گروہ اپنے عام ہم جنسوں یا اُن کے ایک خاص طبقے کے نام پر معاشرے کی باگ ڈور سنبھال لیتا ہے اور پھر ان کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کرتا ہے۔ انھیں اُسی طرح لاٹھی سے ہانکتا ہے ،  اس ظالمانہ سلوک میں مرد اور عورت میں کوئی امتیاز نہیں کرتا۔

ایسے معاشرے پوری کوشش کرتے ہیں کہ معاشرتی جانوروں میں آزادانہ سوچنے سمجھنے اور بولنے کی جو صلاحیتیں پائی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انھیں انتخاب اور ارادے کی جو آزادی بخشی ہے، اُن سے وہ کام نہ لینے پائیں، بلکہ سوچ کا جو سانچا وہ مہیا کریں اُس میںیہ صلاحیتیں ڈھل جائیں اور اُن کی خودی موت کے گھاٹ اتر جائے اور وہ عام جانوروں کی طرح انتخاب اور ارادے کی قوت اور آزادی سے محروم ہو جائیں۔ ایسے نظریے کی بنیاد پر جو معاشرہ وجود میں آتا ہے اُس کا فلسفہ یہ ہے کہ یہ جانور اپنے کسی پیدا کرنے والے کے آگے جواب دہ نہیں ۔ اُن کی زندگی بس اسی دنیا تک محدود ہے اور ان کاکام بجز اس کے کچھ نہیں کہ ذرا عام جانوروں کی نسبت مہذب انداز میں رہیں سہیں، چریں چگیں، نسل بڑھائیں اور مر جائیں۔

اسلام کا تصورِ انسان

 اسلام کا تصوّر انسان کے بارے میں اس سے بالکل مختلف ہے۔ اس کے نزدیک وہ خدا کی افضل ترین (Most Exalted) مخلوق ہے:

وَّ ھُوَ فَضَّلَکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَo (الاعراف۷:۱۴۰) وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں دنیا بھر کی قوموں پر فضیلت بخشی ہے۔

جس کو اس نے بہترین ساخت کے ساتھ پیدا کیا ہے:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍo(التین۹۵:۴) ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔

اسے زبر دست فکری و عملی قوتیں اور صلاحیتیںعطا کی ہیں :

ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَکُمْ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ ط (الملک۶۷ :۲۳) اللہ ہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا، تم کو سننے اور دیکھنے کی طاقتیں دیں اور سوچنے سمجھنے والے دل دیے۔

اور زمین میں اپنا نائب (vicegerent) بنایا ہے۔

پھر اس افضل ترین ، بہترین ساخت اور اعلیٰ صلاحیتیں رکھنے والی مخلوق کو بے مقصد نہیں پیدا کیا کہ کھائے پیئے،چند روزہ زندگی کے مزے لوٹے اور مر جائے۔ نہیں، وہ آزمایش کے لیے پیدا کی گئی ہے اور اس مقصد کے لیے اسے حق وباطل ، نیکی اور بدی کی راہ کو منتخب کرنے اور اس پر چلنے کی پوری آزادی بخشی گئی ہے:

اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ صلے نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًام بَصِیْرًا o اِنَّا ہَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا o (الدھر۷۶:۲-۳) ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اُسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔ ہم نے اُسے راستہ دکھا دیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔

بے شک اس افضل ترین مخلوق ___ انسان ___ کے ساتھ ایک حیوان بھی ہے ۔ اس کے بغیر انسان کی انسانیت کی تکمیل ہی نہیں ہو سکتی تھی۔ تا ہم، انسانی جسم کی پوری مشینری میں اسے بالکل ناگزیر حیثیت دی گئی اور اسے کنٹرول کرنے کے لیے انسان کو بدی اور نیکی کا احساس اور اُن میں امتیاز کرنے کے لیے ضمیر کی قوت اور علم (وحی الٰہی)کی روشنی بخشی ۔ اِس حیوان کے حدود عمل بھی متعین کر دیے کہ ان کے دائرے میں رہ کر اپنا تخلیقی فریضہ سر انجام دے۔ اس حیوان کا انسان پر بس اتنا حق ہے کہ وہ اسے زندہ رہنے کا اس قدر سامان فراہم کرتا رہے کہ اس کی یہ زندگی انسان کو اپنے فرائض ادا کرنے کے قابل بنائے رکھے اور اتنا نہ پالے پوسے کہ وہ اسے اللہ کے مقابلے میں بغاوت اور سر کشی پر آمادہ کر دے ۔ گویا اسلام انسان کے حیوان کو نہیں انسان کو اہمیت دیتا ہے اور اس انسان کی بقا اور ترقی اور اچھے انجام کو اُس کا اصل مقصدِ تخلیق قرار دیتا ہے۔

یہ سارا اہتمام انفرادی طور پر کیا گیا ہے، یعنی پورے معاشرے یا کسی خاص طبقے کو اجتماعی طور پر نہیں ، ہر شخص کو فرداً فرداً اگر دانا گیا ہے اور آخرت میں بھی ہر شخص اس کی بار گاہ میں اسی طرح فرداً فرداً حاضر ہو گا جس طرح وہ فرداًا فرداً دنیا میں آیا تھا:

وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰی کَمَا خَلَقْنٰکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ (انعام ۶:۹۴) اب تم ویسے ہی تنِ تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے جیسا ہم نے تمھیں پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا تھا۔

اور پھر اُس سے دنیوی زندگی کے شب و روز کے ایک ایک لمحے کا حساب لیا جائے گا اور اُسے پوری پوری جزا اور سزا دی جائے گی۔

وَاَنَّ سَعْیَہُ سَوْفَ یُرٰی o ثُمَّ یُجْزٰیہُ الْجَزَآئَ الْاَوْفٰی o (النجم۵۳: ۴۰- ۴۱) اور یہ کہ اس کی سعی عن قریب دیکھی جائے گی اُس کی پوری جزا اسے دی جائے گی۔

وہاں ہر فرد کو اپنا بوجھ اُٹھانا ہوگا اور دنیا کی زندگی میں اس نے جیسی کچھ جدوجہد آخرت کی زندگی کے لیے کی تھی اس کا ویسا ہی پھل اسے مل جائے گا۔

اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی o وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی o (النجم ۵۳: ۳۸-۳۹)  یہ کہ کوئی بوجھ اُٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا، اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی۔

اور اس کا یہ عُذر قابلِ سماعت نہ ہوگا کہ وہ معاشرے کے مقابلے میں بے بس تھا اور اُسے دنیوی رہنمائوں اور مذہبی پیشوائوں نے غلط اور سرکشی کے راستے پر چلنے پر مجبور کر دیا تھا۔

اس طرح اسلام انسان کا مقام ومرتبہ متعین کرنے کے ساتھ ساتھ فرد اور معاشرے کا مقام اور حیثیت بھی متعین کر دیتا ہے، یعنی فرد معاشرے کی تخلیق نہیں بلکہ بہت سے افراد مل کر معاشرے کی تخلیق کرتے ہیں۔ یہ افراد جن افکارونظریات اورعقائدو اخلاق کے سانچے میں ڈھلے ہوں گے معاشرہ بھی ان ہی افکار و نظریات اور عقائد و اخلاق پر مبنی ہوگا۔اور چوںکہ قیامت کے روز ہر فرد انفرادی طور پر اپنے اعمال وافعال کا جواب دہ ہے، اس لیے معاشرے کو یہ حق نہیں ہے کہ افراد کو ان کے افکار ونظریات اور عقائد واخلاق کے مطابق زندگی  بسر نہ کرنے دے اور انھیں اپنی مرضی کی لاٹھی سے جانوروں کی طرح ہانکتا پھرے۔ انسان جانور نہیں اشرف المخلوقات ہے۔

اسلامی معاشرے کی اساس

اسلام کے نقطۂ نظر سے انسان کے اس مقام اور اس کی انفرادی حیثیت کو مدّ نظر رکھیے کہ اسلام کس قسم کا معاشرہ وجود میں لانا چاہتا ہے۔ اسلامی معاشرہ دنیا کے تمام معاشروں سے بالکل جداگانہ رنگ رکھتا ہے۔ یہ نہ تو نسل ونسب پر مبنی ہے اور نہ زبان اور وطن پر بلکہ یہ تہذیبی اور نظریاتی بنیادوں پر تشکیل پاتا ہے ۔ اس کی تشکیل بھی وہی لوگ کر سکتے ہیں اور اسے راست بنیادوں پر قائم بھی وہی رکھ سکتے ہیں جو ان بنیادوں کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ اپنی انفرادی زندگی کو ان پر ٹھیک ٹھیک استوار بھی کرتے ہیں خواہ وہ کسی سر زمین سے تعلق رکھتے ہوں اور نسل ونسب کا رنگ ، زبان اور وطنی قومیت وغیرہ کی کوئی قدر مشترک اُن کے درمیان نہ ہو۔

اسلامی معاشرے کا کلمۂ جامعہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہِ ہے ۔ یہ وہ پاک کلمہ ہے جس پر ایمان لانے کے بعد ایک شخص اسلامی معاشرے کو تشکیل دینے والی اکائی بن جاتا ہے۔ یہی مختصر سا بول اسلامی معاشرے کو وہ تہذیبی و نظریاتی بنیادیں فراہم کرتا ہے جس پر اس کی عظیم اور دلکش عمارت کھڑی کی گئی ہے۔ اسی کلمے کو ادا کرنے کے بعد ایک شخص یہ تسلیم کر لیتا ہے کہ اس کا اور اس کے گردوپیش پھیلی ہوئی ساری کائنات کا خالق ، مالک، آقا اور حکمران اللہ تعالیٰ ہے جس نے اپنے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے نوعِ انسان کو وہ نظامِ فکر وعمل بخشا ہے جو زندگی کے ہر ایک شعبے پر حاوی ہے اور جسے اپنائے بغیر انسان نہ دنیا کی زندگی چین اور اطمینان سے بسر کر سکتا ہے اور نہ آخرت میں نجات پا سکتا ہے۔

یہ نظامِ فکر وعمل افراط وتفریط سے پاک ہے۔ انسان کے لیے دو انتہائوں سے ہٹ کر متوسط راہ متعین کرتاہے ۔ اس طرح اسلامی معاشرہ ایک متوازن معاشرہ ہے۔ عبادت ہو یا سیاست، معاشرت ومعیشت ہو یا کوئی اور شعبۂ زندگی ، اس کے احکام اور تعلیمات ہر معاملے میں اعتدال پسندانہ ہیں۔ پھر یہ ایک غیر طبقاتی معاشرہ ہے جس میں کالے گورے، عربی وعجمی ، امیر وغریب، آقا و غلام کے درمیان کوئی امتیاز نہیں۔ نہ یہاں پیدایش یا پیشے کے اعتبار سے کوئی شخص شریف یا رذیل ہے۔ سب انسان برابر ہیں ۔

اسلامی معاشرہ بے مقصد معاشرہ نہیں۔ یہ انسان کو دنیا میں نیکی، راست روی اور حق پرستی کی زندگی بسر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ امت مسلمہ کا مقصد وجود یہ ہے کہ عالم ِ انسانیت کے سامنے اپنے عمل سے گواہی دے کہ اسلام زندگی کا جو نظام دیتاہے وہی دنیا وآخرت میں فلاح وکامرانی کا بہترین نظام ہے:

وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ(البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت ِ وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو۔

اس لحاظ سے یہ ایک مثالی معاشرہ ہے اور ساری دنیا کے لیے بہترین نمونۂ اتباع۔

اسلامی معاشرہ: تربیت کی بنیادیں

ایسا مثالی معاشرہ، مثالی اور کامل المعیار افراد ہی وجود میں لا سکتے ہیں۔ اسی لیے اسلام افراد کی فکری وعملی تربیت کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ وہ انھیں قانون کی لاٹھی سے ہانکنے یا اجتماعی قوت کے ذریعے اپنا نظام مسلّط کرنے کے بجاے اُن کے فکرو نظر میں انقلاب برپا کرتا ہے۔ ان کے سوچنے سمجھنے کے زاویے بدلتا ہے۔ زندگی اور کائنات اور خدا کے بارے میں اُن کے غلط تصور کو بدل ڈالتا ہے۔ ان کی پسند اور ناپسند کا معیار بدلتا ہے۔ ان کی دل چسپیوں کے مرکز اور دائرے تبدیل کرتا ہے۔ غرض وہ تمام تبدیلیاں جو دوسری نظریاتی اور تہذیبی قوتیں جبر وتشدّد کے ہتھیاروں سے لاتی ہیں، وہ اسلام دل ونگاہ کی تبدیلی سے لاتا ہے۔ اس تبدیلی کے بعد ان کی سیرت وکردار کو تربیت کے مخصوص سانچے میں ڈھال دیتا ہے۔ وہ قانون نافذ کرتا بھی ہے تو ایسی فضا اور ماحول پیدا کرنے کے لیے جس میں افراد کو اُس تربیت میں مزید مدد مل سکے اور اس تربیت کے منافی اور ناساز گار ماحول جنم نہ لے سکے۔

اسلام کی اس تربیت کے چند بنیادی اور اہم رُخ حسب ذیل ہیں:

  •  اسلامی نظریۂ حیات کی برتری: یہ تربیت ایک مسلمان فرد میں اسلامی نظریۂ حیات کی برتری اور اس کے بر حق ہونے کاپختہ وکامل یقین پیدا کرتی ہے تاکہ وہ دنیا کے دوسرے نظریات سے مرعوب نہ ہونے پائے۔ یہ نظریات زمانے میں کتنے ہی رائج اور غالب وطاقت ور کیوں نہ ہوں، اُن کے باطل ہونے پر اُس کا ایمان ہو۔ ان کے پھیلائے ہوئے فکری ونظریاتی اور مادی جال کو تارِ عنکبوت سمجھے جو حقیقت وصداقت اور ایمان کی قوت کے آگے نہیں ٹھیر سکتا ۔ حالات چاہے کیسے ہی رُوح فرسا اور مایوس کن ہوں اور دنیا کا دھارا چاہے کتنے ہی مخالف رُخ پر جا رہا ہو، اس کا دل یقین کے اس نور سے منور رہے کہ حق وہی ہے جس پر وہ ایمان لایا ہے۔
  •   قول و فعل کی ہم آہنگی: یہ تربیت نظریے پر ایمانِ کامل اور پختہ یقین پیدا کرنے کے ساتھ اُس کی زندگی کو عمل کے رنگ میں اس طرح رنگتی ہے کہ وہ پکار پکار کر شہادت دیتی ہے کہ اس کا واقعی اس نظریۂ حیات کے برحق ہونے پر ایمان ہے۔ قول وعمل کی ہم آہنگی ہی وہ قوت ہے جو حق کی تلاش میں سرگرداں اور حق کی خواہاں دنیا کو متاثر کرتی ہے۔ قول وعمل کا تضاد منافقت کی علامت ہوتی ہے اور نفاق وہ روگ ہے جو کسی معاشرے کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے۔ اس لیے اسلام کے تربیتی پروگرام میں قول وعمل میں مطابقت پر بہت زور دیا جاتا ہے۔
  •  مضبوط کردار: مقصد سے محبت اور عزم راسخ مضبوط کردار پیدا کرتے ہیں تا کہ وہ حق کے سوا ہر چیز کو ٹھکرا دے۔ اپنے موقف پر پہاڑ کی طرح جما رہے۔ اصولوں پر نہ مصالحت کرے اور نہ مداہنت پر آمادہ ہو۔ نہ لوگوں کی خواہشات کا اتباع کرے ۔ حق میں کسی کو شریک   نہ بنائے ۔ مزاحم قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور باطل کے دبائو میں نہ آئے۔
  •  خدا خوفی: خدا پرستی اللہ کے ساتھ گہرا لگائو پیدا کرتی ہے ۔ دل ودماغ میں یہ بات راسخ کر دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طاقت سب طاقتوں سے بالا اور زبر دست ہے ۔ مسلمان کو چاہیے کہ اس کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے اور ہر غیر اللہ سے کٹ کر اُسی کا ہو جائے ۔ اُسی پر توکل اور بھروسا کرے۔ اُس کی راہ میں آنے والی مشکلات ومصائب کا مقابلہ صبرو استقامت سے کرے۔ خداپرستی اُس کے شب وروز کو خداخوفی ، تقویٰ ، امانت ودیانت ، عدل واحسان ، عہد وپیمان کا پاس، راست بازی ، پاکیزگی سیرت ، طہارت ِ کردار اور اخلاقِ فاضلہ کے سانچے میں ڈھالتی ہے۔ معاشرے کو بگاڑنے والے اسباب وعوامل کے خلاف اُ س کے دل میں نفرت کے نہ مرنے والے بیج بو دیتی ہے۔ توحید ، رسالت اور آخرت کے بنیادی عقائد سے دنیا اور آخرت میں جو اخلاقی نتائج رُو نما ہوتے ہیں، خداخوفی ان کا احساس قلب وذہن میں اتنا گہرا بٹھاتی ہے کہ جب بھی انسان کو ئی کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے، اُس کے نتائج وعواقب اس کے لوحِ ذہن پر ابھر آتے ہیں۔ اور اگر  وہ نتائج برے ہوں تو اس کا یہ احساس فورًا اُس کے قدم روک دیتا ہے۔
  •  اجتماعیت: جماعتی شعور اور نظم وضبط پیدا کرتی ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور بے چون وچرا اطاعت کا سبق سکھاتی ہے۔
  •  حق گوئی و بے باکی : حق گو، بے باک اور بے خوف بناتی ہے تا کہ مسلمان، معاشرے کو سیدھے راستے پر گامزن رکھنے میں ساعی ہوں اور غلط راہوں پر جانے سے روکیں ۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے علَم بر دار بن کر رہیں۔ انھیں برپا ہی اسی لیے کیا گیا ہے:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ  وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّہِ ط (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

اس فرض کو انجام نہ دینے سے ایمان تک مشتبہ ہو جاتا ہے۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا:

 جو شخص کسی منکر کو دیکھے اس کو چاہیے کہ وہ اُسے ہاتھ سے روک دے۔ لیکن اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو اُس کے خلاف آواز بلند کرے۔ اور اگر اس کی ہمت بھی نہ ہو تو پھر کم ازکم اپنے دل میں اُسے بُرا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔(   مسلم)

 ایک اور حدیث پاک میں ہے: ’’اس میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہیں ہے ‘‘۔

 یعنی منکر کو اگر کوئی مسلمان دل میں بھی بُرا نہیں سمجھتا، اس سے ساز گاری پیدا کر لیتاہے، یا اس کے ساتھ غیر جانب دارانہ رویہ اختیار کرتا ہے تو اسے اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔

  •  اخلاص:  خدا خوفی اس قدر اخلاص پیدا کرتی ہے کہ وہ نیکی کا جو کام بھی کرتا ہے محض اللہ کی خاطر اور خوش نودی کے لیے کرتا ہے۔

اسلامی معاشرے کی انفرادیت

یہ ہے وہ تربیت جو اسلام اپنے حلقہ بگوش افراد کی کرتا ہے جن کے جماعتی زندگی بسر کرنے سے اسلامی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّی زندگی کے ۱۳برسوں میں جو افراد تیار کیے انھیں انھی خطوط پر تربیت دی اور ان کا تزکیۂ کردار کیا اور پھر جب ان افراد نے مدینہ کی زندگی میں باقاعدہ ایک معاشرے کی صورت اختیار کر لی اور ایک اسلامی ریاست قائم ہوگئی، اور یَدْخُلُوْنَ فِی دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا کا سماں بندھنے لگا، تب بھی دورِ امن ہوتا یا زمانۂ جنگ ، حضور ِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کی تربیت باقاعدہ کرتے رہتے تھے۔ مدینہ کی زندگی میں اسلامی تہذیب وتمدّن ، عبادات ، معاشی زندگی اور سیاسی نظام کے احکامات دیے اور قوانین نافذ کیے گئے، لیکن ان احکامات اور قوانین کو نافذ کرنے سے پہلے افراد کو ذہنی طور پر تیار کیا گیا تا کہ وہ انھیں اپنی دنیا اور آخرت کی زندگی سنوارنے کا موجب سمجھتے ہوئے پوری خوش دلی اور ذہنی ہم آہنگی کے ساتھ قبول کریں۔ حضوؐر کی حیات مبارکہ میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ کسی قانون یا حکم کو  بہ جبر نافذ کیا گیاہو بلکہ کیفیت یہ تھی کہ اہل ایمان اشارۂ اَبرو کے منتظر رہتے تھے کہ حضوؐر کوئی حکم فرمائیں اور وہ اس کی پیروی کر کے دنیا اور آخرت کی سعادت سمیٹیں۔

اس تربیت سے جس قسم کے افراد تیار ہوئے ، دنیا کا کوئی معاشرہ اور غیر مسلم تاریخ کا کوئی دور ان کی نظیر پیش نہیں کر سکتا ۔ تصور کیجیے جس معاشرے کے افراد صرف ایک اللہ کی غلا می اور ایک رسول کی قیادت تسلیم کرتے ہوں، پاک دل و پاک باز ہوں، اخلاقِ فاضلہ سے جن کی زندگیاں مزین ہوں، جو ایک دوسرے کی جان ومال اور آبرو کا احترام ہی نہ کرتے ہوں محافظ بھی ہوں ۔ جھوٹی تہمتیں نہ باندھیں ، جادو اور توہمات کے اسیر نہ ہوں، علم وروشنی سے جن کے قلب وذہن تابندہ ہوں ، جو امانت دار ہوں ، عہد وپیمان کے پابند ہوں ، انصاف پسند ہوں، جن کا دامن شراب خوری ، زنا ، ڈاکا زنی، چوری ، جھوٹ ، منافقت ، حرص و طمع اور دوسرے اخلاقی ذمائم سے پاک ہوں ۔ فحش گوئی اور فحاشی سے دور بھاگتے ہوں ۔ یتیموں اور کمزوروں کے حقوق غصب نہ کرتے ہوں۔ ایک دوسرے کے معاون اور مدد گارہوں۔ صدقہ وخیرات اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے مسابقت کرتے ہوں۔ نوعِ انسانی کے غم خوار اور ہمدرد ہوں اور آپس میں بھائی بھائی، اہل حق کے لیے نرم خُو ہوں اور باطل پرستوں کے لیے سخت فرض شناس اور ذمہ دار ہوں۔ صداقت شعار، وفاشعار ، حق پرست ، حق گو، نڈر ہوں۔ ایک اللہ کے سوا کسی کے آگے نہ جھکتے ہوں، نہ خوف کھاتے ہوں۔ ایسے افراد سے جو معاشرہ وجود میں آئے گا اس کی کیا کیفیت ہو گی؟

ایسا ہی معاشرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار فرمایا تھا۔ اسلام سے پہلے عرب جاہل ، ان گڑھ اور اَن پڑھ تھے ۔لیکن جب اس جاہلی معاشرے کی جگہ اسلامی تربیت یافتہ افراد پر مشتمل اسلامی معاشرے نے لی تو یہی لوگ ایسے عظیم عالم، جج، جرنیل، سیاست دان اور قانون دان بن کر اُٹھے کہ جس طرف نکل گئے انھوں نے زمانے کا رخ موڑ دیا۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی کا دھارا  نئی شان و شوکت سے نئی راہ پر بہنے لگا۔ پہلے ہرطرف جہالت و وحشت کی تاریک رات طاری تھی، یہ حق کا پیغام لیے جہاں پہنچے صبحِ روشن نمودار ہو گئی۔

اسلامی معاشرے کا انحطاط

یہ اسی تربیت اسلامی کا اثر تھا کہ اسلامی معاشرہ صدیوں تک دنیا کے تمام معاشروں پر چھایا رہا۔ یورپ نے علم وتہذیب کی روشنی اس سے لی اور اپنی تاریک راہوں کر منور کیا۔ جب تک افراد کی تربیت ِ اسلامی کا اہتمام اسلامی معاشرے میں ہوتا رہا، دنیا کی علمی ، تہذیبی اور سیاسی قیادت اس کے ہاتھ میں رہی ۔ لیکن جب یہ اہتمام پہلے کمزور پڑا اور پھر آہستہ آہستہ ختم ہو گیا تو دوسری نظریاتی اور تہذیبی قوتیں اس پر حملہ آور ہو گئیں۔ یہاں تک کہ اسلامی قلعے کی جو فصیلیں تربیت اسلامی نے تعمیر کی تھیں وہ ایک ایک کر کے منہدم ہوتی چلی گئیں۔ مسلمانوں کی گود میں پلنے والے تربیت اسلام سے عاری ایسے نوجوان بہ کثرت پیدا ہونے لگے جو ان بیرونی تہذیبی طاقت وروں سے متاثر تھے۔ دشمن باہر سے حملہ آور تھا اور یہ اندر سے نقب لگا رہے تھے اور باقی معاشرے پر سحرزدگی کا عالم تھا کہ وہ خود اس اسلامی تربیت سے تہی دامن ہو چکا تھا، جس نے اسے شعور ِ وجود بخشا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان ملک نہ صرف سیاسی طور پر اُن حملہ آوروں کے غلام بن گئے بلکہ وہ ان کی تہذیبی یلغار کے آگے بہہ نکلے۔

آج عالمِ اسلام جن حالات سے دوچار ہے وہ صحیح اسلامی تربیت کے فقدان ہی کا نتیجہ ہے۔ اسلامی معاشروں میں ساری کمزوریاں اسی راہ سے آئی ہیں۔ امام مالک بن انس کا قول ہے کہ   اس امت کے پہلے حصے کی اصلاح جس چیز کی بدولت ہوئی ، اُسی کے ذریعے آخری حصے کی بھی اصلاح ہوگی ۔ ہم اپنے ملّی واسلامی تشخص کی باز یافت کی جو جدوجہد کر رہے ہیں، اس میں اُسی وقت کامیاب ہوں گے جب ہمارے معاشرے اپنے افراد کی تربیتِ اسلامی انھی خطوط پر کریں جن پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اوّلین اسلامی معاشرے کے افراد کی تربیت کی تھی۔

 ایمان لانے کا ایک قدرتی نتیجہ مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے سے محبت کی صورت میں ظاہر ہو تا ہے۔ آج ہم اپنا جائزہ لیں کہ کیا ایسا ہے؟ اور اگر نہیں تو اپنے ایمان کی فکر کریں کہ کہاں کیا نقص رہ گیا ہے۔ آج اُمت اختلاف کا شکارہو گئی ہے اور اس کا ایک بڑا مسئلہ آپس کی مخالفت اور تفرقہ ہے۔ اس کے نتیجے میں اُمت ذہنی اور عملی خلفشار اور معاشرتی انتشار کا شکار ہو گئی ہے۔ اگرچہ اس حالت کی بہت سی وجوہ ہو سکتی ہیں جن میں سے کچھ اپنوں اور کچھ غیروں کی پیدا کردہ ہیں لیکن یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ تفرقے کی یہ بیماری اُمت کے وجود کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے۔

 تفرقہ بازی شیطان کا راستہ ہے اور ہمیں اس راستے کو چھوڑ کر رحمٰن کے بتائے ہوئے اتفاق و اتحاد کے سیدھے راستے کی طرف آنا ہو گا جس کا ذکر خود اللہ تعالیٰ نے سورۂ انعام میں فرمایا:

وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِـیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ج وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ط ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo  (انعام ۶:۱۵۳) اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اُس کے راستے سے ہٹا کر تمھیں پراگندا کر دیں گے ۔ یہ ہے وہ ہدایت جو تمھارے رب نے تمھیں کی ہے ، شاید کہ تم کج روی سے بچو۔

بدقسمتی سے آج عملی طور پر مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ اللہ اور رسولؐ کے احکامات کو پسِ پشت ڈال کر ایک ہونے کے بجاے ٹکڑوں میں بٹ گئے ہیں۔ نتیجتاً مسلمان پستی، کمزوری اور ذہنی غلامی کا شکار ہوگئے ہیں۔ قرآنِ مجید میں انتہائی سخت الفاظ میں تفرقہ بازی کرنے والوں پر وعید کی گئی ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْہُمْ فِیْ شَیْ ئٍ ط اِنَّمَآ اَمْرُہُمْ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ یُنَبِّئُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَo (انعام ۶:۱۵۹) جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمھارا کچھ واسطہ نہیں،ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا کہ انھوں نے کیا کچھ کیا ہے۔

غور فرما ئیں کہ رسولؐ اللہ کو کہا جا رہا ہے کہ تفرقوں میں پڑنے والے ان لوگوں کی مرضی ہے جدھر چاہیں جائیں، ان کا تم سے کوئی تعلق ہی نہیں (استغفراللہ)۔

امت کے اس اختلاف اور جھگڑوں کے اس منطقی نتیجے کو قرآن نے بیان فرما دیا:

وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَـہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا ط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَo (انفال۸:۴۶) اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی، اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی ۔ صبر سے کام لو،یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔

یہ تو اس دنیا میں اختلافات کا نتیجہ ہے جو ہم بھگت رہے ہیں اور اختلافات اور تفرقے کا جو انجام آخرت میں ہو گا وہ کڑے عذاب کا سامنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُ ط وَاُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ o یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْہٌ ج ( ٰالِ  عمرٰن ۳ :۱۰۵-۱۰۶)کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے۔ جنھوں نے یہ روش اختیار کی وہ اس روز سخت سزا پائیں گے، جب کہ کچھ لوگ سرخ رُو ہوں گے اور کچھ لوگوں کا منہ کالا ہوگا۔

تفرقہ بازی کا علاج

مسلمانوں کی اس بیماری کی تشخیص کے لیے کارگر تو بس وہی نسخہ ہے جو اللہ اور اللہ کے رسولؐ کا تجویز کردہ ہے۔

سورئہ آلِ عمران کی آیت وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا ص ( ٰال عمرٰن ۳:۱۰۳) ’’سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوط پکڑلو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘کی تشریح میں مولانا مودودی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس رسی کو ’مضبوط پکڑنے‘ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں اصل اہمیت دین کی ہو، اسی سے ان کو دل چسپی ہو، اسی کی اقامت میں وہ کوشاں رہیں اور اسی کی خدمت کے لیے آپس میں تعاون کرتے رہیں ۔ جہاں دین کی اساسی تعلیمات اور اس کی اقامت کے نصب العین سے مسلمان ہٹے اور ان کی توجہات اور دل چسپیاں جزئیات و فروع کی طرف منعطف ہوئیں، پھر ان میں لازماً وہی تفرقہ و اختلاف رونما ہو جائے گا جو اس سے پہلے انبیا علیہم السلام کی امتوں کو ان کے اصل مقصد حیات سے منحرف کر کے دنیا اور آخرت کی رسوائیوں میں مبتلا کر چکا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، اوّل،ص ۲۷۶-۲۷۷)

مولانا محمود حسن نے فرمایا کہ مسلمانوں کی موجودہ پستی کے دو ہی سبب ہیں:ترکِ قرآن اور باہمی اختلاف۔ اور مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’مسلمانوں کو تو میں یہی کہتا ہوں کہ ان کے لیے تو صرف یہی لائحہ عمل ہے کہ وہ قرآن پر متفق ہو جائیں اور اگر فہم قرآن اور تفسیرِ قرآن میں اختلاف ہو بھی اور یہ اختلاف حدود کے اندر رہے تو نہ وہ مذموم ہے اور نہ انسان کے لیے مضر___ قرآن پہ تمسک کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے بکھری ہوئی قوتیں جمع ہوتی ہیں اور ایک مُردہ قوم حیات تازہ حاصل کرتی ہے۔ پھر سورۂ شوریٰ کی آیت اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا (۴۲:۱۳) کی تشریح میں احادیث کے حوالوں کی روشنی میں اس بات کی مزید وضا حت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اجتماعی اور متفق علیہ احکام میں تفرقہ ڈالنے کی شدید ممانعت ان احادیث ِصحیحہ میں آتی ہے۔ـ(معارف القرآن)

دین کی بنیاد

 یہ بات یاد رہے کہ ائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہم نے فقہ کی تدوین کر کے اس اُمت پر بہت بڑا احسان کیا ہے اور اس طرح رسولؐ اللہ کی سنت کے ہر پہلو پر عمل کرنے کو ممکن بنا دیا ہے۔ ’فقہ‘     فی نفسہٖ دین نہیں بلکہ دین پر عمل کرنے کا طریقہ اور ذریعہ ہے۔ یہ ائمہ کرام کا وہ علمی کام ہے    جس میں قرآن و سنّت کی روشنی میں عرف، انسانی ذوق اور عصری علوم کی روشنی میں زندگی کے  مختلف مسائل کا سنّت کے قریب ترین حل مدوّن کرنے کی کوشش گئی ہے اور انھی اصولوں کے مطابق آج بھی فقہاے کرام زندگی کے مختلف النوع مسائل کا حل تجویز کرتے ہیں۔

اسی طرح ’مسلک‘ بھی بنیادی طور پر وہ عملی نظام ہے جو علما ، فقہا اور ائمہ کرام نے زبردست محنت اور کوشش سے لوگوں کے لیے قرآن، سنت اور فقہ کی روشنی میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام پر عمل کرنے کے لیے مرتب کیا ہے اور مختلف مسائل کے حل کو یک جا کر دیا ہے، تاکہ عام مسلمانوں کے لیے دین کے مطابق زندگی گزارنے میں آسانی پیدا کی جا سکے۔

رسولِ کریمؐ نے اختلاف راے کو نعمت قرار دیا ہے۔ اس اختلاف سے انسان کی علمی اور تخلیقی استعداد کو جِلا ملتی ہے۔ اس کا ایک اور بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ جس صورت پر بھی عمل ہو، انسان شریعت کے دائرے کے اندر ہی ہوتا ہے۔ اور غلطی کے امکان یا شک کا فائدہ اس شخص کو ہی ملتا ہے جو نیک نیتی کی بنیاد پر کوئی بھی راے اختیار کر لیتا ہے۔ فقہی اور مسلکی اختلافات کو مخا لفت میں تبدیل کرنا انصاف کے منافی ہے اور اس صورت میں یہ رحمت نہیں بلکہ زحمت کا باعث بن جاتا ہے۔

کسی بھی فقہی راے کو اختیار کرنے سے کوئی شخص اسلام کے دائرے سے خارج نہیں ہوجاتا، البتہ فقہی اختلافات کی بنا پر یا اس کو بہانہ بنا کر قرآن یا حدیث کا بالواسطہ انکار اور  خواہش نفس کی پیروی کرنا دوسری بات ہے۔ یہی حال فتاویٰ کا بھی ہے۔ اگر ایک مسئلے میں ائمہ اربعہ یا فقہاے کرام کی دو مختلف راے موجود ہوں تو ایک کے اختیار کرنے اور دوسری کو چھوڑ دینے کو کفر اور اسلام کا معاملہ نہیں بنایا جاسکتا۔ البتہ کسی بھی راے کے اختیار کرنے کی بنیاد ہواے نفس نہیںبلکہ احکام شریعت پر بہتر طریقے سے عمل کی کوشش ہونی چاہیے۔

قرآن و حدیث کے واضح احکام کے بعد اپنی راے یا مسلک کے لیے تاویلات نہیں ڈھونڈنی چاہییں، مگر یہ بات یاد رہے کہ کسی مسئلے میں راے قائم کرنے کا اختیار ہر شخص کا کام نہیں۔ یہ صرف علماے کرام کا کام ہے اور عام لوگوں کو انھی کی راے کو اختیار کرنا چاہیے۔ جس طرح ہم زندگی کے مختلف شعبوں میں اس شعبے کے اسپیشلسٹ کے پاس جاتے ہیں اور اس کی راے یا ہدایت ہی پر عمل کرتے ہیں اسی طرح شرعی معاملات میں بھی شریعت کے ماہرین (علما و فقہا) کے پاس جانا چاہیے اور ان کی راے اور ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔

متفقہ اُمور کو بنیاد بنایئے

سورئہ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍم  بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط      فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ o (الِ عمرٰن ۳:۶۴)کہہ دو کہ  اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی ہے) اس کی طرف آؤ، وہ یہ کہ خدا کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا کار ساز نہ سمجھے۔ اگر یہ لوگ (اس بات کو) نہ مانیں تو (ان سے) کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم (خدا کے) فرماںبردار ہیں۔

اگرچہ اس آیت میں مسلمانوں کو یہ ہدایت اہلِ کتاب کے بارے میں دی جا رہی ہے  مگر قرآن نے اصولی طور پہ ایک قاعدہ بیان کر دیا ہے کہ بات کی ابتدا کیسے کی جائے؟ جب بات نیک نیّتی سے اس طرح شروع کی جائے تو اس بات کا قوی امکان پیدا ہو گا کہ اختلافات ختم ہوجائیں ورنہ کم تو ضرور ہو جائیں گے۔ جہاں کہیں اختلاف کی بات آئے تو تھوڑی دیر کے لیے اس اختلاف کو پس پشت ڈال کر ان امور پر توجہ دیں، جن پر آپ کا اور دوسرے فریق کا اتفاق ہے۔اس طرح خود ہی یہ بات سامنے آّ جائے گی کہ اہم امور کے اکثریتی معاملوں پرتو پہلے سے ہی اتفاق موجود ہے اور اختلاف تو صرف ذیلی امور (عموماً فروعات) میں ہی ہے۔

اہلِ علم سے استفادہ

 جس بات میں مشکل درپیش ہو اس پر اَڑنے کے بجاے اہلِ علم سے رجوع کریں اور اختلاف سے بچیں۔ سورئہ نحل میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْہِمْ فَسْـــئَـلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo  (النحل ۱۶:۴۳)اور ہم نے تم سے پہلے نہ بھیجے مگر مرد جن کی طرف ہم وحی کرتے، تو اے لوگو! علم والوں سے پوچھو اگر تمھیں علم نہیں۔

اس آیت میں بھی علم نہ ہونے کی صورت میں حقیقت اور صحیح بات معلوم کرنے کا ایک قاعدہ بیان کر دیا گیا ہے۔مسائل (جو اکثر فروعات میں ہی ہوتے ہیں) کی صورت میں کھلے ذہن کے ساتھ اہلِ علم سے صحیح صورتِ حال معلوم کر لی جائے اور باہم اختلافات کو ہوا دینے کے بجاے مسلمانوں کے اتحاد اور اتفاق کو قائم رکھنے کے لیے دوسروں کی راے کا احترام کیا جائے۔ اختلافات سے بچنے کا یہ ایک کارگر نسخہ ہے۔ ایسے موقعے پر یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ مسئلے کی حقیقت جاننے کی بنیاد خلوص ہے نہ کہ خواہش نفس کی تسکین اور کسی دوسرے کو نیچا دکھانے اور کسی بھی طرح اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے کی ضد اور کوشش۔

رسولؐ اللہ نے اختلاف کے تدارک کی تلقین کی ہے۔آپؐ نے حضرت معاذؓ اور حضرت ابوموسیٰؓ کو جانبِ یمن روانہ کرتے وقت یہ فرمایا کہ تم دونوں آسانیاں کرنا اور سختی  نہ کرنا، خوش خبری سنانا اور لوگوں کو متنفر نہ کردینا، باہم اتحاد و انصاف رکھنا اور اختلاف نہ ہونے دینا۔(بخاری)

قرآن پر عمل

قرآن کو سمجھ کر عمل کر نے کے نقطۂ نظر سے پڑھیں۔بدقسمتی سے ہم قرآن کو ثواب کی کتاب سمجھ کر پڑھتے ہیں۔ اور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ کتاب بنیادی طور ہمیں زندگی گزارنے کے اصول اور طریقے بتانے اور دکھانے کے لیے نازل کی گئی ہے۔ اس کے پڑھنے کا ثواب تو یقینا ہے لیکن صرف اس کو پڑھنا اس کتاب کا بنیادی مقصد نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اسی کتاب میں فرماتے ہیں:

کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ  لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِo (صٓ ۳۸:۲۹)۔ یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے محمدؐ) ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر والے اس سے سبق لیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے مُبٰرَکٌ کہہ کر بات ختم نہیں کر دی بلکہ متصلاً فرمایا کہ یہ کتاب تمھارے غور و فکر کے لیے ہے۔ اصولاً ہمیں قرآن اس نیت سے پڑھنا چاہیے کہ ہمیں قرآن سے اپنی زندگی کے لیے عملی اقدامات، اصول اور ہدایات ڈھونڈنی ہیں۔ کسی بھی مسئلے کی تشریح کے لیے علما سے رجوع کر کے اپنی مشکل یا شک کا حل ڈھونڈیں۔

قرآن عمل کرنے اور زندگی میں نافذ کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ اس کو عمل کے لیے پڑھنے کی ذیل میں ایک مثال دی جاتی ہے جو اس بات کی بھی وضاحت کرتی ہے کہ اس قرآن نے صحابہ کرامؓ کی زندگی کو تو یکسر بدل دیا لیکن یہی قرآن پڑھ کر ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔

 جب آیت لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ط (اٰل عمرٰن ۳:۹۲) نازل ہوئی تو حضرت عمرؓ نے خیبر میں اپنی بہترین زمین، حضرت طلحہ ؓنے اپنا سب سے نفع بخش اور بہترین باغ، حضرت زیدؓ نے اپنا بہترین اور محبوب گھوڑا اللہ کی راہ میں دے دیے، اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اپنی سب سے محبوب کنیز کو اللہ کی رضا کے لیے آزاد کر دیا۔

قرآن سمجھ کر پڑھنے اور اس پرعمل کرنے کے بارے میں علامہ اقبال فرماتے ہیں   ؎

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن

قاری نظر آتا ہے ، حقیقت میں ہے قرآن

شیطان ہمیشہ اسی کوشش میں رہتا ہے کہ مسلمان کہیں قرآن کی طرف پلٹ نہ آئیں۔ وہ یہ جانتا ہے کہ اس کتاب کے بغیر مسلمان کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ مسلمانوں کو قرآن سے دور رکھے۔ اقبال اسی بات کو ابلیس کی زبان سے یوں بیان کرتے ہیں:

جانتا ہوں میں یہ اُمت حاملِ قرآں نہیں

ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں

جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں

بے یدِ بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں

ہے یہی بہتر الٰہّیات میں الجھا  رہے

یہ کتابُ اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے

سنّتِ رسولؐ  کا             ا تّباع        

اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اپنے ساتھ ساتھ رسولؐ کے اتباع کا بھی حکم دیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ج فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْ ئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا (النساء ۴:۵۹)اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں ، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دواگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔یہی ایک صحیح طریقِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔

سورئہ نساء کی ایک اور آیت میں تو یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ رسولؐ اللہ کی اطاعت کے بغیر اللہ کی اطاعت اور رضامندی کا حصول ممکن ہی نہیں۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:’’ جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی اور جو منہ موڑ گیا، تو بہرحال ہم نے تمھیں اُن لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے‘‘۔(النساء۴:۸۰)

اللہ کی اطاعت اور رسولؐ اللہ کے اتباع کے بارے میں دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ ایک تو وہ نصوص اور احکام ہیں جن پر عمل پوری امت کا فرض ہے۔ دوسرے وہ اُمور ہیں  جن کا تعلّق اوّل الذکر احکامات سے نہیں اور ان میں اجتہاد کی گنجایش موجود ہے اور ائمہ اربعہ نے اپنے اپنے علم کی بنیاد پر قرآن اور حدیث کی روشنی میں اپنی راے بیان کی ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جن میں اختلاف کی گنجایش موجود ہے اور اسی لیے اس میں اپنی ہی راے پر تشدد کی حد تک اصرار اختلاف سے بڑھ کر مخالفت کا سبب بن جاتا ہے اور نتیجہ امت میں تفرقہ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

اختلافی اُمور میں سلف کا طرز عمل ہمارے لیے روشنی کا مینار ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے زمانے میں ابوجعفرمنصور اسلامی دنیا کے خلیفہ تھے۔ انھوں نے امام صاحب کو تجویز دی کہ ان کی کتاب موطا کو تمام مملکت کا قانون بنا دیا جائے جسے امام مالک رحمہ اللہ نے قبول نہ کیا اور کہاکہ: رسولؐ اللہ کے صحابہ پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں اور ہر ملک والوں کے پاس اپنا اپنا علم ہے۔    اگر آپ سب کو ایک راے پر مجبور کریں گے تو فتنہ کھڑا ہو جائے گا۔

اُمت مسلمہ باہمی اختلاف و انتشار سے جس کمزوری سے دوچار ہے اُس سے نجات کی راہ قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھامنے اور اس سے رہنمائی لینے، نیز اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ اپنانے میں ہے۔ اسی طرزِعمل کے نتیجے میں اُمت میں اختلاف و انتشار کا سدباب ہوسکے گا۔

السلام علیکم کے معنی ہیں تم پر سلامتی ہو ۔ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کو سلام کرتا ہے اور السلام علیکم کہتا ہے تو یہ صرف اظہارِمحبت ہی نہیں دعا بھی ہے۔ دُعا کے معنوں میں یہ ایک بہترین دُعا ہے کہ تم میری طرف سے ہر طرح محفوظ رہو۔ ’السلام‘ ہر طرح کی سلامتی ، ظاہری سلامتی بھی اور باطنی سلامتی بھی، یعنی تمھاری زندگی، صحت، جان و مال ، اولاد، ایمان اور اخلاق ہر چیز سلامتی میں رہیں، کیوںکہ صرف سلام نہیں السلام ہے۔ ’ال‘ استغراق کے لیے ہے ، یعنی مکمل سلامتی۔ پھر دنیا کی نہیں آخرت کی بھی۔ اس اعتبار سے السلام علیکم بہت جامع الفاظ ہیں ۔

  •  السلام علیکم کی انفرادیت: ہمارے معاشرے میں اس کے مقابلے میں جو الفاظ رواج پارہے ہیں ان میں ’ہیلو‘ اور ’ہائے‘ جیسے بے معنی اور مبہم الفاظ ہیں۔ اسی طرح دنیا کی دوسری زبانوں میں جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں، مثلاً چائینز میں ’نی ہائو‘ کیا آپ خیریت سے ہیں۔ یہاں بھی وہی انداز ہے۔ دُعا نہیں سوال کیا گیا ہے۔ ہیبرون میں ’شیلون‘ کا لفظ بولا جاتا ہے۔  اس کے معنی سلامتی اور دوسرے معنی صحت مند، بُرائی سے محفوظ کے ہیں۔ جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ یہودیت بھی ایک الہامی دین ہے اس لیے ان کے ہاں جو لفظ استعمال ہوا وہ سلام کا ہم معنی ہے۔ ہندی میں ’نمستے‘ کہتے ہیں اس کے ایک معنی خوش آمدید کے ہیں، اور دوسرے معنی یہ کہ میرے اندر کا خدا آپ کے اندر کے خدا کی تعظیم کرتا ہے۔ ہیوالین میں ’زے لوہا‘ کو خوش آمدید کے معنوں میں استعمال کیا جاتاہے۔ اٹالین میں ’چائون‘ کے معنی بھی ’ہائے‘ کے ہیں۔ اسی طرح افریقین میں ’راکسی‘، جرمن میں ’گنج تحانگ‘، تمھارا دن اچھا گزرے۔ جنوبی افریقہ میں ’ہوایست‘ جو اصل میں ’ہائوازاٹ‘ سب کچھ کیسا ہے؟ کا جواب ہے۔ ’جینیو‘ کچھ گڑبڑ نہیں، اسی طرح ہنگی میں ’جاناپوڈ‘  جس کا معنی ہے گڈ ڈے۔ سائوتھ افریقہ کے بعض دیگر ممالک میں ’انہیبارہ‘ آپ کا کام کیسا ہے۔ ’زولوسائیونا‘ آپ مجھے نظر آرہے ہیں۔ اسی طرح ’سیلولیمنازینجو‘ لمبی زندگی پائو۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک و مذاہب میں سلام کا جو مترادف ہے وہ اپنے معنی کے اعتبار سے کامل اور جامع نہیں ہے اور اس کی ادایگی خواہ مقامی زبان کی واقفیت کے بعد بہترین تلفظ کے ساتھ بھی کی جائے تو السلام علیکم جیسی مٹھاس اور خوش گواری سے بہت دُور معلوم ہوتی ہے۔

عربوں میں یہ رواج تھا صباح الخیر (اچھی صبح ہو)، صباح النور (روشن صبح ہو)۔ انگریزی الفاظ گڈمارننگ، گڈ ایوننگ کا مفہوم بھی وقتی سلامتی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس میں دعا کا پہلو نہیں بلکہ توقع ظاہر کی گئی ہے کہ تمھاری صبح و شام اچھی ہو لیکن اسلام ’السلام‘ کہنے کی ہدایت کرتا ہے جو صبح و شام تک محدود نہیں مکمل سلامتی کی بات ہے اور اگر وسیع معنوں میں لیا جائے تو آخرت کی سلامتی بھی۔

ایک مسلمان مفکر کا قول ہے: وہ پوچھتے ہیں کہ تم جانتے ہو سلام کس چیز کا نام ہے؟ پھر وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ سلام کرنے والا دراصل یہ کہتا ہے کہ تم میری طرف سے بالکل مطمئن رہو، بے خوف رہو، یعنی مجھ سے تمھیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔

غور کریں کہ جب ہم کسی سے ملنے جاتے ہیں اور السلام علیکم کہتے ہیں اور پھر اس کو طعنے دینے لگیں، اس کو بُرا بھلا کہیں تو یوں اس کے اور اپنے اعمال کو برباد کرنے لگتے ہیں۔ اگر اس کے ساتھ جھوٹ، دھوکا اور فریب کا معاملہ کرنے لگیں تو ہمارے قول و فعل میں تضاد ہوجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سلام ایک ایسی یاد دہانی ہے جو ہمیں احساس دلاتا ہے کہ تم جس سے مل رہے ہو نہ تو اس کو تکلیف دینا مقصود ہے اور نہ اس کی جانب سے تکلیف کا امکان ہی ہے۔ شاید ہم نے سلام کی روح کو نہیں سمجھا اور کبھی شعوری طور پر سلام نہیں کیا۔ صرف ایک روایت کی طرح اظہار کرتے ہیں۔

ہم سب مسلمان ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض علاقوں میں سلام کے بجاے آداب کہنے کا رواج ہے۔ یہ ہی نہیں اس کی ادایگی کے لیے بھی مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ سیدھی ہتھیلی کو کچھ گولائی میں خم دے کر جھک کر آداب کیا جاتا ہے۔ جتنی محترم بزرگ اور عمررسیدہ ہستی کو آداب کرنا ہو اس قدر جھکتے ہیں۔ کہیں آداب عرض کیا جاتا ہے تو اس کے جواب میں جیتے رہو کی دُعا دی جاتی ہے۔ اسی طرح جوڈوکراٹے کی ابتدا میں ایک دوسرے کو جھک کر سلام کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات جلدی میں سام علیکم کہہ دیتے ہیں جس میں ’لام‘ کی ادایگی نہیں ہوتی تو معنی   بدل کر موت کے ہوجاتے ہیں۔ بعض علاقوں میں سلام کرتے ہوئے پائوں چھوتے ہیں۔ اگر ایسا  نہ کیا جائے تو اسے بدتہذیبی سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح پگڑی اُتار کر پیروں میں رکھنا، پیروں اور گھٹنوں کو چھونا، زبان سے سلام کرنے کے بعد مصافحہ پھر ہاتھوں کو چومنا بھی لازمی سمجھا جاتا ہے۔

نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے جب حضرت آدم ؑ کو پیدا کیا تو فرمایا: جائو سلام کرو فرشتوں کے ان گروہوں کو جو بیٹھے ہوئے ہیں۔ پھر غور سے سننا جو وہ تم کو کہیں گے۔ وہ تمھارا اور تمھاری اولاد کا سلام ہوگا۔حضرت آدم ؑ نے جاکر کہا: السلام علیکم تو انھوں نے کہا: وعلیک السلام ورحمۃ اللہ۔ جواب میں السلام علیکم سے بڑھ کر ورحمۃ اللہ اضافی کہا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب تمھیں کوئی سلام کرے تو اُسے اس سے کچھ زائد دعا دو ورنہ اس کے برابر جواب تو ضرور دو۔ روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض باتوں کا حکم دیا۔ بیمار کی مزاج پُرسی کا، جنازے کے پیچھے چلنے کا، یعنی اس میں شریک ہونے کا، چھینکنے والے کی چھینک کا جواب دینے کا، یعنی یرحمک اللہ کہنے کا، کمزور کی مدد کرنے کا، مظلوم کی فریاد رسی کرنے کا، سلام پھیلانے کا اور قسم دلانے والے کی قسم پوری کرنے کا۔ ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بڑا بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل کرے۔

  •  جنت میں لے جانے والا عمل:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کی بہت تاکید کی ہے، فرمایا: ’’تم لوگ جنت میں نہیں جاسکتے جب تک مومن نہیں بنتے اور اس وقت تک مومن نہیں بن سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ میں تمھیں وہ تدبیر کیوں نہ بتا دوں جسے اختیار کرکے تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو؟ آپس میں سلام کو پھیلائو‘‘۔

حضرت ابویوسف عبداللہ بن سلامؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا: اے لوگو! سلام کو پھیلائو، لوگوں کو کھانا کھلائو، رشتوں کو ملائو، صلہ رحمی کرو، اور اس وقت نماز پڑھو جب لوگ سوئے ہوں۔ تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجائو گے۔

نبی کریمؐ نے فرمایا: وہ آدمی اللہ کے زیادہ قریب ہے جو سلام میں پہل کرتا ہے۔ ایک روایت میں ہے: ’’اس شخص کا دل کبر اور تکبر سے خالی ہوتا ہے جو سلام کرنے میں پہل کرتا ہے‘‘۔ ہم انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کوئی ہمیں سلام کرے۔ اگر ایسا خیال دل میں آئے تو اسے تکبر سمجھتے ہوئے سلام میں پہل کرنی چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اسلام کی کون سی بات سب سے زیادہ بہتر ہے؟    آپؐ نے ارشاد فرمایا: تم بھوکے کو کھانا کھلائو اور ہرشخص کو سلام کرو چاہے تم اسے پہچانو نہ پہچانو۔

ہمارا عمل یہ ہے کہ ہم صرف ان کو سلام کرتے ہیں جنھیں پہچانتے ہیں بلکہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ مجلس میں جاکر نام لے کر سلام کرتے ہیں، جب کہ ایسے موقع پر سب کو سلام کرنا چاہیے۔ ممکن ہے آپ کسی اجنبی کو اس لیے سلام نہیں کر رہے کہ آپ اسے نہیں جانتے لیکن ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ سلام کرنے سے اجنبیت دُور ہوجائے، اور ہم ایک دوسرے کے شناسا بن جائیں۔ بظاہر سلام کرنا چھوٹی سی چیز ہے مگر اس کے ذریعے محبت کی پہلی اینٹ رکھی جاتی ہے۔

  •  سلام کب کرنا چاھیے؟: ملاقات کے موقعے پر ابتدا میں ، یعنی بات چیت شروع کرنے سے قبل سلام کیا جائے۔حضور اکرم ؐنے فرمایا ہے: جو کوئی سلام سے پہلے کوئی بات کرنے لگے تواس کا جواب نہ دو۔ یہاں تک کہ وہ سلام سے اپنی گفتگو کا آغاز کرے۔ اسی طرح گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کرنے کا حکم ہے: ’’جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے نفسوں کو سلام کرو۔ یہ اللہ کے احکامات ہیں۔ یہ طریقہ بہت مبارک اور عمدہ ہے‘‘ (النور ۲۴:۱۶۱)۔ اپنے آپ کو  سلام کرنے سے مراد یہ ہے کہ جب آپ گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کریں گے تو جواب میں آپ کے لیے بھی دعائیں نکلیں گی۔ لہٰذا انسان خود اپنی بھلائی کی خاطر دوسروں کو سلام کرتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو اپنے گھر کے سوا کسی دوسرے کے گھر میں داخل نہ ہو یہاں تک کہ تم اجازت لے لو اور اس گھر میں رہنے والوں کو سلام نہ کرلو‘‘ (النور۲۴:۲۱)۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کہا:  ’’اے بیٹے! جب تم اپنے گھر والوں کے پاس جائو تو سلام کرو، تمھارے گھر والوں پر برکت ہوگی‘‘۔ مذکورہ حکم سے ظاہر ہوا کہ گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کرنے سے گھر میں برکت ہوتی ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ اللہ کا دیا سب کچھ ہے مگر گھر میں برکت نہیں۔ ذرا غور کریں تو ممکن ہے گھر میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت سلام نہ کرنے اور اہلِ خانہ کے جواب نہ دینے کی وجہ سے یہ صورتِ حال پیدا ہوئی ہو۔ اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’جب کسی مجلس میں جائو تو سلام کرو اور جب رخصت ہونے لگو تو بھی سلام کرو‘‘۔ اور فرمایا: پہلا اور دوسرا ہردو سلام ضروری اور اجر کے حساب سے برابر ہیں۔

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کتنی بار سلام کریں۔ احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ کا طریقہ تو یہ تھا کہ کسی درخت کی اُوٹ سے دوبارہ ظاہر ہونے پر ایک بار پھر سلام کرتے تھے۔اس سلسلے میں نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جب کوئی اپنے بھائی سے ملے تو اسے سلام کرے۔ اگر درخت یا دیوار یا پتھر کی اُوٹ سے دوبارہ سامنے آئے تو پھر سلام کرے‘‘۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب کسی کو سلام کرو تو اپنا سلام اس کو سنائو۔ اس لیے کہ سلام اللہ کی طرف سے نہایت پاکیزہ اور برکت والی دُعا ہے۔ حضرت مقدادؓ فرماتے ہیں: ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ان کے حصے کا دودھ اُٹھا کر رکھ دیا کرتے تھے۔ جب حضور اکرمؐ تشریف لاتے تو اس طرح سلام کرتے کہ سویا ہوا بیدار نہ ہو اور جاگتا ہوا جواب دے۔

حضوؐر کسی ایسے شخص کو سلام کرنا چاہتے جو آپؐ سے فاصلے پرہوتا اور آواز پہنچنا مشکل ہوتا تو ہاتھ کے اشارے سے بھی سلام کرلیتے تھے۔ حضرت اسماء بنت یزیدؓ سے روایت ہے کہ آپؐ ایک دن مسجد سے گزرے تو مسجد میں خواتین کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی۔ اس موقعے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا۔ ایک بات سلام کرتے وقت یہ اپنانی چاہیے کہ  خندہ پیشانی اور مسکراتے ہوئے خوش دلی کے ساتھ سلام کیا جائے۔ حضرت عبداللہ بن حارثؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرمؐ سے زیادہ کسی کو مسکراتے ہوئے نہیں پایا۔

ایک جگہ سے دوسری جگہ، یعنی کسی دوسرے شہر یا ملک جانے والوں کے ذریعے بھی اپنے جاننے والوں کو سلام بھیجنا چاہیے۔ اسی طرح خطوط، ایس ایم ایس اور دوسرے ذرائع سے بھی سلام لکھنا چاہیے۔ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خطوط لکھے تو ان میں اس طرح السلام لکھا کہ سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کو اپنا لے۔ یہ طریقہ ایسے لوگوں کے لیے ہے جو دائرۂ اسلام میں نہ ہوں، جب کہ کسی بھی مسلمان کو مخاطب کرتے ہوئے السلام علیکم یا احسن طریقے پر ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بھی لکھنا چاہیے۔ اسی طرح ٹیلی فون پر جب مخاطب سامنے نہ ہو تو گفتگو کا آغاز السلام علیکم سے کرنا چاہیے۔

  •  کون کسے سلام کرے؟: بہتر یہ ہے کہ ہر کوئی دوسرے کو سلام کرنے میں پہل کرے۔ کسی خاص یا جاننے والے کی تفریق کے بغیر ہر ایک کو سلام کیا جائے۔ ہاں، تربیت کی خاطر چھوٹے بڑوں کو ، چلتا ہوا بیٹھے ہوئے کو، سوار راہ میں کھڑے لوگوں کو سلام کرے۔

حضور اکرمؐ نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے قطع تعلق کیے رکھے، یعنی ایک ادھر منہ پھیرے ہوئے ہو تو دوسرا دوسری جانب۔ ان میں افضل وہ ہے جو سلام میں پہل کرلے۔نبی کریمؐ سے پوچھا گیا جب دو آدمی ایک دوسرے سے ملیں تو ان میں کون پہلے سلام کرے؟ آپؐ نے فرمایا: جو ان دونوں میں اللہ کے نزدیک ہو۔

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سلام کرنے میں اتنی پہل کرتے کہ کوئی دوسرا ان پر سبقت نہ لے پاتا۔ چھوٹے بچوں کو سلام سکھانے کے لیے ان کو سلام کرنے میں پہل کرنی چاہیے۔ جو بچہ بولنا سیکھ رہا ہو اس کو سلام کیا جائے اور مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا جائے، تو آپ دیکھیں گے وہ بچہ زبان سے سلام تو ادا نہ کرپائے گا مگر آپ کو دیکھتے ہی ہاتھ آگے بڑھا دے گا۔ سلام کی عادت ڈالنے کے لیے سلام میں پہل کی جانی چاہیے۔ حضرت انسؓ چھوٹے بچوں کے پاس سے گزرے تو انھیں سلام کیا اور کہا کہ حضور اکرمؐ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ خط میں بھی بچوں کو سلام لکھا کرتے تھے۔ عام حالت میں چھوٹوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر سلام کریں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: چھوٹا بڑے کو، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو، اور تھوڑے افراد زیادہ کو سلام میں پہل کریں۔ اسی طرح سوار پیدل چلنے والوں کو سلام کرے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ اُوپر والا نیچے والے کو سلام کرے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ تکبر کا خاتمہ ہو۔

  •  کب سلام نھیں کرنا چاھیے؟: اسلام دین فطرت ہے۔ اس لیے وہ آداب و سلیقہ بھی سکھاتا ہے تاکہ نیکی کرنے کے لیے مواقع کا تعین بھی ہوسکے۔ بلاوجہ موقع بہ موقع ایسا عمل نہ کیا جائے جو آداب کے خلاف ہو۔ جب لوگ قرآنِ کریم اور احادیث پڑھنے یا پڑھانے میں مصروف ہوں، سلام نہ کیا جائے۔ باہر سے ایسی صورت میں آنے والا بلند آواز سے سلام کرے گا تو سب کی توجہ اس کی طرف بٹ جائے گی۔ پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بار بار لوگ آئیں، سلام کریں اور نظم و ضبط متاثر ہو۔ یہ احتیاط بھی کریں کہ جب کوئی شخص تنہا قرآن کریم کا مطالعہ کر رہا ہو تو بھی اسے سلام نہیں کرنا چاہیے۔ جب خطبہ دیا جا رہا ہو تو بھی سلام نہ کیا جائے کیوںکہ اس طرح گفتگو کا تسلسل ٹوٹ سکتا ہے اور جس موضوع پر بات ہو رہی ہو اور لوگ انہماک سے سن رہے ہوں تو سب کا دھیان بٹ سکتا ہے۔ جب کوئی اذان دے رہا ہو یا تکبیر کہہ رہا ہو تو اس دوران بھی سلام نہ کریں کیوںکہ اس طرح وہ اذان یا تکبیر روک کر آپ کے سلام کا جواب نہیں دے پائے گا۔ اسی طرح جب کوئی دینی مجلس ہو اور وہاں کسی موضوع پر بات یا سوال کا جواب دیا جا رہا ہو تو آنے والے کو خاموشی سے بیٹھ کر شرکت کرنی چاہیے۔ اس موقعے پر بلند آواز سے سلام کرنے میں یہ امکان ہے کہ خطیب یا مخاطب ہردو کا تسلسل ٹوٹ جائے۔ ہاں، مجلس ختم ہوجائے تو پھر سلام کرسکتے ہیں۔ جب کوئی استاد اپنے طلبہ کو پڑھانے میں مصروف ہو خواہ وہ دینی علوم ہوں یا دیگر علوم اس موقعے پر بھی سلام کر کے کلاس کو متاثر نہ کریں۔ اسی طرح جب کوئی شخص قضاے حاجت یا غسل میں مصروف ہو تو اسے بھی سلام نہیں کرنا چاہیے۔ کوئی شخص حرام، فحش یا بے حیائی کا کام کر رہا ہو تو اسے بھی سلام نہیں کرنا چاہیے۔ کیوںکہ ان اوقات میں وہ سلامتی کا مستحق نہیں۔

یہود و نصاریٰ اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی سلام کرنے میں پہل نہ کریں۔ ہاں، اگر مختلف مذاہب کے لوگ مشترک بیٹھے ہوں تو سلام میں پہل کرسکتے ہیں۔ روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا: جب اہلِ کتاب تمھیں سلام کریں تو وعلیکم کہہ دیا کرو۔

  •  سلام کا جواب دینے کی فضیلت: یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ سلام کرنے والے کو جواب دینے والے کے مقابلے میں زیادہ ثواب ملتا ہے۔ حضرت عمران بن حصینؓ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ ایک شخص نے آکر السلام علیکم کہا تو آپؐ نے سلام کا جواب دیا اور کہا: ۱۰۔ پھر دوسرا شخص آیا اور اس نے کہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ تو آپؐ نے فرمایا: ۲۰۔ پھر تیسرا شخص آیا اور اس نے کہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپؐ نے فرمایا: ۳۰‘‘ ۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ یہ مکمل سلام ہے۔۱۰، ۲۰ اور ۳۰ سے مراد نیکیاں ہیں۔

حضرت عباسؓ نے فرمایا کہ سلام برکت پر مکمل ہوجاتا ہے۔ اس سے آگے کچھ نہ بولو۔ کیوںکہ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ جنت حلال اور دوزخ حرام وغیرہ نہ جانے کیا کیا سلام کے ساتھ ملاتے ہیں۔

  •  خواتین کا سلام کرنا:خواتین کے لیے غیرمردوں کو سلام کرنے کے حوالے سے یہ احتیاط لازم ہے کہ اگر فتنے کا ڈر نہ ہو تو بازار میں دکان دار اور گاڑی میں ڈرائیور وغیرہ کو سلام کرنے میں کوئی حرج نہیں۔اسی طرح اگر دکان دار ڈرائیور وغیرہ سلام کریں تو اس کا جواب بھی دیا جاسکتا ہے کیوںکہ جب مول تول اور کرایے کے بارے میں بات ہوسکتی ہے تو سلام کیوں نہیں ہوسکتا۔  اگر یہ خدشہ ہو کہ سلام کرنے سے بات آگے بڑھے گی اور خرابی پیدا ہونے کا خدشہ ہے تو سلام    نہ کریں۔ ایسی صورت میں صرف ضرورت کی بات کریں اور وہاں سے ہٹ جائیں ۔ اسی طرح جب گھر میں کوئی رشتہ دار وغیرہ آئیں اورسلام کریں تو جواب دیا جاسکتا ہے۔ ٹیلی فون پر بات کرنے سے پہلے سلام کریں کیوںکہ جب کسی سے بات کی جاسکتی ہے تو سلام کرنے میں کیا حرج ہے۔

 مصافحہ اور معانقہ: سلام کے علاوہ مصافحہ اور معانقہ بھی ہے۔ مصافحہ صفح سے نکلا ہے جس کا معنی ہے ہتھیلی کو ہتھیلی سے ملانا۔ ارشادرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: جب تک دو بھائی ہاتھ ملائے رکھتے ہیں گناہ جھڑتے رہتے ہیں۔ ایک اور موقعے پر ارشاد فرمایا: تم مصافحہ کیا کرو اس سے دلوں کا کینہ ختم ہوجاتا ہے۔ تاہم، یہاں بھی اعتدال ہونا چاہیے۔ سلام کریں اور ہاتھ ملائیں۔  یہ نہیں کہ ہاتھ پکڑ لیں تو چھوڑنا بھول جائیں ، اور یہ بھی نہیں کہ ہاتھ ملائیں تو اس زور سے دبائیں کہ دوسرے کی چیخ ہی نکل جائے۔ایک روایت ہے کہ فرشتے اس مسلمان پر تعجب کرتے ہیں جو دوسرے مسلمان کے پاس سے گزرتا ہے اور سلام نہیں کرتا۔

معانقہ کا مطلب ہے گردن سے گردن ملانا، یعنی گلے ملنا۔ یہ لفظ عُنق سے بنا ہے۔  حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑتے ہوئے آتے تو آپؐ فرطِ محبت سے ان دونوں کو گلے سے لگا لیا کرتے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ بچوں سے سلام کریں تو پیار کرتے ہوئے انھیں گلے سے لگائیں۔

سلام صرف زندوں کو نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ جب قبرستان میں داخل ہوں تو اہلِ قبور کو سلام کریں اور اگر قبرستان کے پاس سے گزریں تو بھی ان کے لیے دعا کریں۔

تبدیلی ایک فطری عمل ہے ۔ صرف ایک عشرہ گزرتے ہی دنیا میں معاشرتی سطح پر کچھ نہ کچھ تبدیلی فطری طور پر محسوس ہونے لگتی ہے ۔ پھر ایک نسل کے بعد دوسری نسل نمایاں تبدیلی کے ساتھ آتی ہے ۔ تاہم ۸۰کے عشرے سے لے کر اب تک آنے والی تبدیلی، بلاشبہہ تبدیلی کی ایک بڑی لہرہے، جس میں ٹکنالوجی اور خصوصاً میڈیا نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔معلومات کی ایک یلغار ہے، جو ہر طرف سے ذہنوں تک پہنچ کر انھیں متاثر کر رہی ہے ۔ ہر کوئی یہ استعد اد نہیں رکھتا کہ معلومات کے اس سیلاب میں سے اپنی اقدار اور اپنی اصل (roots) کے مطابق چیزوں کو پرکھ اور چھانٹ کر الگ کرسکے ۔ پھر تیزرفتار گلوبلائزیشن کے اس عمل میں ہر طبقۂ فکرنے اپنی سمجھ، عقل اور استعداد کے مطابق اپنے کام کو آگے بڑھایا اور اپنے اہداف حاصل کرنے کی پوری کوشش کی ۔

دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ کسی معاشرے کی تہذیب اس کی اقدار و روایات، اس کی اٹھان اور اس کا مزاج بنیادی طور پر عورت کے ہاتھوں تشکیل پاتا ہے اور آیندہ نسلوں تک منتقل ہوتا رہتا ہے۔عورت میںقدرتی طور پر وہ خصوصیات پائی جاتی ہیں، جو نہ صرف نسلوں کی آبیاری کرتی ہیںبلکہ ان پر بہت زیادہ اثرات بھی مرتب کرتی ہیں۔اسلامی تاریخ میں حضرت خدیجہؓ ،    حضرت عائشہؓ اور بہت سی مسلم خواتین ہیں، جن کا معاشرے کے بنائو بلکہ قانون سازی میںبھی کلیدی کردار رہا ہے، جس کی نمایاں مثالیںحضرت عمرؓکے دورمیںنظر آتی ہیں ۔

۱۹۴۵ء میں اقوام متحدہ نے وجود میں آتے ہی انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے کمیشن بنائے۔ بعدازاں خواتین کے حقوق کی مناسبت سے متعدد عالمی کانفرنسیں اور عالمی معاہدے تشکیل دیے گئے۔ دسمبر ۱۹۷۹ء میں خواتین کو استحصال سے نجات دلانے کا معاہدہ طے کیا گیا، جس کے تحت عورت کے خلاف امتیازی سلوک و قوانین کے خاتمے اور عورت کو معاشی ، سماجی ، آزادی ، اسقاطِ حمل اور شادی ختم کرنے کے یکساں اختیارات جیسے حقوق پر بات کی گئی ہے۔اس معاہدے کی بنیاد انصاف کے بجاے مساوات پر رکھی گئی۔ پھر نہ صرف پہلے سے قائم تنظیموں اور اداروں نے ان عنوانات کو اپنے پروگراموں میں شامل کیا ، بلکہ بہت سی نئی این جی اوز کو یہ ایجنڈا دے کر    ترقی پذیر ممالک میں سر گرم عمل کیا گیا ۔ اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے:

نیویارک میں ہونے والے یو این ویمن کے ایگزیکٹو بورڈ کے پہلے عمومی اجلاس ۹فروری۲۰۱۶ء میں یو این ویمن ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا:’’ ہمارا۲۰۳۰ء تک کے لیے مرکزی ایجنڈایہ ہوگا: ’جنسی تفریق سے بالاتر مساوات‘ اور ’خواتین کی خودمختاری‘ ۔

ہم دیکھتے ہیں کہ پچھلے برسوںمیں عورت کے حوالے سے مخصوص ایجنڈے کے تحت سیمی نار اور کانفرنسیں بھی ہوئیں ۔ مختلف فلمیں اور دستاویزی پیش کشیں تیار کی گئیں، جو اپنی اثر پذیری کی وجہ سے افراد اور معاشرے تک اپنا پیغام کامیابی سے پہنچا رہی ہیں۔ اپنی کار کردگی کو بہتر بنانے کے لیے انھیں فراہمیِ فنڈ کی کوئی کمی نہیں اور تیسری طرف وہ ایوارڈز اور حوصلہ افزائی کی بھی حق دار ٹھیرتی ہیں۔ آغا خان فائونڈیشن کے این جی اوز ریسورس سینٹر کی رپورٹ کے مطابق: ’’پاکستان میں کام کرنے والی این جی اوز کو ۵۲کے قریب ادارے فنڈز فراہم کرتے ہیں، جن میں سے ایک چوتھائی کے دفاتر امریکا اور ۱۲ فی صد کے لندن میں ہیں ‘‘۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ: ’’۸۷فی صد فنڈز خواتین کے حوالے سے کام کرنے والی این جی اوز کو دیے جاتے ہیں ‘‘۔

اس وقت ملک میں ۵۰ہزار سے زائد این جی اوز کام کر رہی ہیں، جب کہ غیرملکی این جی اوز کی تعداد اس کے علاوہ ہے ۔ اگر چہ ان میں سے بعض کاکام صرف کاغذ کی بنیاد پر ہی ہے، لیکن کچھ ایسی بھی ہیں جو بلاشبہہ خدمتی کام انجام دے رہی ہیں۔ یہ صحت وصفائی و ماحولیات وغیرہ کے حوالے سے کاموں کا بیڑا اٹھانے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ ان میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ہیں اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بھی، او ر بہت سے ایسے افراد اور گروہ بھی کام کررہے ہیںجن کا شمارواضح طور پر دائیں یا بائیں بازوئوں میںسے کسی سے نہیں، لیکن وہ خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں۔ البتہ خواتین سے متعلق ایشوز کے حوالے سے دیکھا جائے تووہاں پر ہمیں لبرل خیالات کے حامل افرادہی سرگرم نظر آتے ہیں، جو بہت منظم اور مضبوط تنظیموںاوراداروں کی شکل میں متحرک ہیں۔ اس کے برعکس اگر مذہبی شناخت رکھنے والی چند این جی اوزاس عنوان پرکام کر بھی رہی ہیں، تو وہ اپنے وزن کے اعتبار سے ان سے بہت کم اور چھوٹی ہیں ۔

خواتین ایشوز پر تنظیموں کا کام

’پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل اور قانون کا نفاذ‘ کے موضوع پر ملیحہ ضیا کئی برسوں سے کام کررہی ہیں۔ ان کے نزدیک ’غیرت کے نام پرقتل‘ کا مسئلہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں زیادہ گمبھیر ہے۔ خواتین کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں میں ’وار‘ نامی این جی او نے کاروکاری کے خلاف، اپنے دعوے کے مطابق ۲۶۰ مقدمات رپورٹ کیے ۔ دیگر مختلف گروپوں نے     ’قتلِ غیرت‘، گھریلو تشدد ، کاروکاری ، جہیز ایک لعنت، اجتماعی زیادتی جیسے عنوانات کو موضوع بحث بناتے ہوئے ’تحریک حُریت ِ نسواں‘ کے کام کو آگے بڑھایا اور قانون سازی کے لیے بھی کا م کیا۔

پچھلے ۲۰برسوں میں ملک کی بڑی یونی ورسٹیوں میں ’ویمن ڈویلپمنٹ‘ اور مطالعہ صنفیات (Gender Studies) کے شعبے کھلے ہیں۔ ابتدائی زمانے میں اگر ان میں رجسٹریشن کم بھی رہی، تو گلگت، چترال اور تربت وغیرہ سے لا کر طالبات کو وظائف پر داخلے دیے گئے۔ یہاںپر بھی انھی نظریات اور انھی گروہوںکی برتری اور نمایاںکردار رہا،جنھوںنے ان عنوانات پر جم کر کام کیا تھا۔

آزاد اور تیز رفتار الیکٹرانک میڈیا بھی ’عورت کے موضوع‘ پر خاطر خواہ خدمات انجام دینے میں کسی سے پیچھے نہیں ہے ۔ عورت اور اس کی خود انحصاری، مردوں سے عورت کی بغاوت ، اپنے حقوق کا مطالبہ اور اس کے لیے ڈٹ جانا ، یعنی عورت بمقابلہ مرد، میڈیا کا مسلسل اور سلگتا ہوا موضوع چلا آرہا ہے ۔ تفریحی چینلوں پر آنے والے ہر پانچ میں سے چار پروگرام خواہ کوئی ڈراما ہو، بحث مباحثہ ہو یا صبح کے پروگرام، وہ اسی نقطۂ نظر کو آگے بڑھاتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ چند ڈرامے سماجی مسائل پر بھی بنے، لیکن ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ اس وقت ملک میں لائسنس یافتہ ۱۲۰سے زائد ٹیلی ویژن چینل کام کررہے ہیں،جب کہ انٹرنیٹ ٹی وی اور ریڈیووغیرہ اس کے علاوہ ہیں۔ان میں بمشکل ہی کوئی گروہ ڈھونڈے سے ملتاہے، جو کسی درجے میں یہ کہے کہ بغاوت کے بجاے وہ قوم کو کوئی اچھا پیغام دینے یا ان کی تر بیت کی کوشش کر رہاہے۔

اسی طرح کم عمری کی شادی پر ’دختر‘ کے عنوان سے فلم بنی۔ اس فلم کی ڈائریکٹر نے پاکستان کے مشہور اداروں سے پڑھنے کے بعد کولمبیا یونی ورسٹی امریکا سے تعلیم حاصل کی اور پھر ینگ ویمن کرسچن ایسوسی ایشن سے وابستگی اختیار کی، اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے لیے کام کیا۔

 پاکستان میں عورتوں کے چہروں کو تیزاب سے جلائے جانے پر ’سیونگ فیس‘ نام کی دستاویزی فلم بنی۔ دیگر فلموں کے علاوہ ’غیرت کے نام پہ قتل‘ پر دستاویزی فلم ’اے گرل ان دی ریور‘ بنائی گئی، جس نے آسکر ایوارڈ بھی حاصل کیا۔

اثرات : اس ساری صورت حال سے جو نتائج سامنے آئے وہ درج ذیل ہیں :

  • عورت کے حوالے سے دنیا کے نقشے پر پاکستان کا چہرہ انتہائی بھیانک بناکر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ گویا یہاں عورت پر جسمانی و نفسیاتی مظالم روا رکھے جاتے ہیں اور اس کو  کسی طرح کی آزادی حاصل نہیں ہے ۔کیوںکہ پاکستان اور اسلام کا آپس میں گہرا تعلق ہے، اس لیے اس سارے منظر نامے کو اسلام سے نتھی کر دیا جاتا ہے ۔ کہیں یہ نہیں کہا جاتا کہ یہ مذہبی نہیں بلکہ رسم و رواج کا مسئلہ ہے ۔ یہ نہیں بتایاجاتاکہ اسلام بذات خود ان مظالم کی نفی کرتا ہے ،لیکن دنیا بھر میں اس تمام تر جہالت کو اسلام کے خلاف پرو پیگنڈے کے لیے بطورِ ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔
  •  مرد اور عورت کے امتزاج سے بننے والے معاشرے کی عمارت میں جہاں مرد و عورت دونوں کو متوازن و مضبوط ستونوں کی حیثیت میں کھڑا نظر آنا چاہیے تھا، وہاں انھیں ایک دوسرے کے مد مقابل لا کھڑا کیا گیا ہے ۔ جہاں گاڑی کے دونوں پہیوّں کو کمال مہارت سے زندگی کی گاڑی کو منزل کی طرف رواں دواں کرنا چاہیے تھا، وہاں ان کی آپس میں ٹکر لگوانا شروع کر دی گئی ہے ۔
  • بجاے اس کے کہ مردوں کو پیغام یہ ملتا کہ عورت ماں ، بہن ، بیوی اور بیٹی کے روپ میں محبت ، قدر اور احترام کے قابل ہے، اس کو یہ سکھایا جاتا کہ میدان عمل میں جہاں جہاں عورت اس کے ساتھ شریک عمل ہے، وہاں اس کو عورت کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کرنا ہے،۔اُلٹا عورت کو  یہ سمجھایا جانے لگا کہ اس معاشرے میں اگر عورت پر کوئی ظلم ہو رہا ہے یا اس کی حق تلفی ہو رہی ہے تو اس کا ذمہ دار صرف اور صرف مرد ہے۔ لہٰذا، اسے اپنے حقوق کے لیے مرد کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے۔ حالاںکہ مرد و عورت دونوں کو یہ پیغام پہنچنا چاہیے تھا کہ زندگی تصادم کا نہیں بلکہ سمجھنے، سمجھانے اور باہم چلنے کا نام ہے ۔ صرف حقوق کا نہیں بلکہ حقوق و فرائض میں توازن کا نام زندگی ہے ۔
  • عورت کو ’مرد گریز‘ پیغام دینے میں جن ذرائع اور وسائل کو بروے کار لایا گیا، انھی وسائل وذرائع سے مرد کی تربیت کی بھی یہ کوشش کی جانی چاہیے تھی کہ اس کے کیا فرائض اور ذمہ داریاں ہیں؟ اس کا کام صرف اپنی بات منوانا نہیں بلکہ بحیثیت ’قوام‘ اس معاشرے کی صورت گری کرنا اور اپنے ساتھ چلنے والوں کے حقوق بھی ادا کرنا ہے۔ دوسری طرف عورت اس باز گشت کے نتیجے میں ’نسوانی خوداختیاریت‘ کے نام پر منفی انداز کے ’حُریت نسواں‘ کا شکار ہونے لگی ،حتیٰ کہ دینی سوچ رکھنے والے بعض گروہوں اور تنظیموں میں بھی کسی درجے میں یہ اثرات پیدا ہونے لگے ۔
  •  بلاشبہہ تعلیم کے مواقع ، اظہار راے کی آزادی ، اپنے حقوق کا شعور ، اپنے اوپر اعتماد ، صحت کے مواقع ، زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کے یکساں مواقع اور معاشی مضبوطی یہ سب کچھ عورت کا بالکل بنیادی حق ہے، لیکن عاقبت نااندیش نا خدائوں کے اندھا دھند کام اور ترجیحات کو اُلٹ پلٹ دینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ معاشرے کی ترتیب و تنظیم ہی تلپٹ ہو کر رہ گئی ۔ مردوں نے محنت سے جی چرانا شروع کر دیا ۔ ان میں آگے بڑھنے کا جذبہ معدوم ہونے لگا ۔ اپنی ذمہ داریوں کو آگے بڑھ کر قبول کرنے کے بجاے دوسروں کے کاندھوں پر ڈالنے میں انھیں آسانی محسوس ہونے لگی ۔

آج صورتِ حال یہ ہے کہ اگر حالات کا دھارا اسی رُخ پر بہتا رہا تو پاکستان میں مستقبل میں تعلیم یافتہ مردوں کی قلت ہوجائے گی۔ زیادہ تر یونی ورسٹیوں میںلڑکیوں کی تعداد ۷۰ فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ اس بات کا اندازہ درج ذیل شواہد سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ۲۰۱۳ء اور۲۰۱۴ء میں کراچی یونی ورسٹی میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کے مقابلے میں ۷۳ فی صد تھی ، جب کہ این ای ڈی یونی ورسٹی میں ۵۰:۵۰کا تناسب تھا۔ پنجاب یونی ورسٹی میں زیادہ تر شعبوں میں نمایاں طور پر طالبات کی برتری دوتہائی سے زیادہ ہے۔ اسی طرح صرف آغاخان میڈیکل کالج کراچی میں ۲۰۱۳ء اور ۲۰۱۴ء میں مردوں اور عورتوں کا تناسب ۵۰:۵۰ پایاگیا، جب کہ سندھ میڈیکل یونی ورسٹی اورڈائو میڈیکل یونی ورسٹی میںیہ تناسب لڑکوں کے مقابلے میں ۷۰ اور ۷۳ فی صد طالبات ہیں۔

 ہمارے یہاںکی لڑکیوں میں محنت سے آگے بڑھنے کا جذبہ پایاجاتاہے اور اس کے لیے مواقع بھی محدود ہیں۔ دوسری جانب افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ مردوں کے لیے محنت اور آگے بڑھنے کے راستے میںکوئی طبعی رکاوٹ موجود نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود اعلیٰ تعلیمی اداروںمیں ان کی تعداد کا گراف تیزی سے نیچے جارہا ہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کر ہوا ؟ اگر بگاڑ کی قوتیں کام کر رہی ہیں تو سدھار کا عندیہ رکھنے والوں کے لیے بھی میدان کھلا ہے ۔ اگر ایک طرف معاشی مضبوطی و خود انحصاری ہے، تو دوسری طرف مخلص اور مضبوط نظریات کی حامل قیمتی افرادی قوت بھی موجود ہے ۔ بھلا یہ کیوں کر   ممکن ہے کہ کسی معاشرے میں کارو کاری ، قتلِ غیرت ، گھریلو تشدد ، عورتوں کی وراثت ہڑپ کرجانا، غیرموزوں نسبتیں اور شادیاں ، جہیز کو وراثت کا نعم البدل سمجھ کر وراثت کے تصو ر کو مٹادینا ، مہر کو صرف ایک کاغذی کارروائی بنا دینا ، لڑکیوں کے لیے ابتدائی تعلیم کے یکساں مواقع نہ ہونا ،تیزاب اور چولھا پھٹنے سے عورتوں کا جلناور اسی نوع کی دیگر ناانصافیاں اور زیادتیاں ہوں اور خیر کا جذبہ رکھنے والے اور اصلاحِ معاشرہ کے لیے کام کرنے والے گروہ تڑپ نہ اٹھیں؟ اگر عملی کام میں دشواریاں ہوں، تب بھی اس ظلم کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں سب سے بلند ان کی آواز کیوں نہ ہو ؟ سب سے سنجیدہ کام انھی کا کام کیوں نہ ہو ؟ کسی ایک گروہ کا مؤثر کام نہ کرنا، یااپنے حصے کا کام    نہ کرنا کسی دوسرے گروہ کے لیے یہ جواز فراہم نہیں کرتا کہ وہ بھی اس میدان میں کام نہ کرے ۔

کرنے کے کام

۱- یکسوئی کے ساتھ سوچ بچار اور غورو فکر کا عمل بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ قرآن میں بھی باربار اس عمل کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ صرف بھاگنے دوڑنے اور ہنگامی انداز سے کیا جانے والا کوئی کام، خواہ وہ استعداد سے چار گنا زیادہ کیوں نہ ہو، وہ نتیجہ نہیں لا سکتا جو ماضی ، حال اور مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے، سوچ بچار اور تجزیے کے بعد کیا جانے والا کام لاسکتا ہے۔ اسی لیے دنیا بھر میںبہت سی سیاسی پارٹیاں ، حکومتیں اور کمرشل ادارے بھی اپنے ہاں مراکز غوروفکر (R&D سنٹرز)کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں اور اس کے لیے بجٹ بھی مختص کرتے ہیں۔

دینی اداروں اور تنظیموں کو اور دینی وسیاسی پارٹیوں کو یا تو مشترکہ طور پر ورنہ کم از کم اپنے اپنے ہاں ایسے تھنک ٹینک بنانے چاہییں، جواپنے معاشرے کا بالخصوص اور عالمی دنیا کا با لعموم تجزیہ کریں، گمراہی کے گڑھے کی طرف لے جانے والے بنیادی نوعیت کے مسائل اور وجوہ کی نشان دہی کریں۔ اسی طرح ان اچھی صفات کا بھی ادراک کریں، جو اس معاشرے کو تبدیل کرنے میں جوہری کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ان سب سے پہلے اپنا بھی تجزیہ کریں اور اپنے رویے کی اصلاح پر بھی سوچیں کہ اگر ہم بحیثیت فرد یا بحیثیت گروہ کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی کن کمزوریوں کو دُور کرنا ہو گا اور کن خوبیوں کو بہتری کے لیے استعمال کرنا ہو گا ۔ بالخصوص عورت کے حوالے سے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس معاشرے کے حقائق کیا ہیں ؟ کون سے مظالم ایسے ہیں ، جن کو کسی بھی صورت میں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، اور کون سے حقائق ایسے ہیں جو کسی اور مسئلے کی پیداوار ہیں، ان کو کیسے حل کیا جائے ؟ یہاں بھی رد عمل کے بجاے مثبت اور فعال سوچ اپنانے کی ضرورت ہے ۔

۲- معاشرے میںمثبت کام کرنے کا دعویٰ رکھنے والی تمام تنظیموں کو اپنی ممبر شپ کی شرائط میں بھی اپنے خاندان کی خواتین کے نان نفقہ، مہر اور وراثت وغیرہ جیسے حقوق کی ادایگی کو شامل کرنا چاہیے۔

۳- اس کے لیے فوری اور جلد نتیجہ دینے والے کاموں کو اہمیت دینا ہو گی تا کہ طوفان کا رُخ موڑا جائے ۔ جب تک یہ غوروفکر اور عمل و تدبیر کی فعال شکلیں نہیں بنیں گی تب تک طویل المیعاد منصوبہ نہیں سوچا جا سکے گا، کوئی دور رس منصوبہ نہیں بن پائے گا اور وہ ٹھوس اقدامات نہیں ہوسکیں گے، جن کے نتیجے میں ۱۰سال ،۲۰ سال اور ۵۰ سال بعد کوئی مطلوب تبدیلی آ سکتی ہو۔

۴- ہر سال طویل المیعاد منصوبے کی روشنی میں کچھ طلبہ و طالبات کوتخصص کے لیے رہنمائی دی جانی چاہیے کہ دیگر موضوعات کے علاوہ پاکستانی سماج اور عورت اور پاکستانی سوسائٹی کے حوالے سے کچھ اہداف خصوصاً طے کر کے تخصص حاصل کرایا جانا چاہیے۔

۵-مسائل کا حل ڈھونڈنے اور قوانین بنانے سے پہلے آگاہی اور تربیت کا مرحلہ ہوتا ہے۔ اگر کسی معاشرے میں اس کا ہی فقدان ہو تو وہاں قانون کچھ نہیں کر سکتا ۔ یہ ذمہ داری بھی انھی کی ہے کہ جو قانون کی اہمیت کو بھی سمجھتے ہیں۔ لہٰذا وہ اعلیٰ تعلیمی ادارے ، ریسرچ سنٹر اور وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد، جو سمجھتے ہوں کہ عورت کے عنوان اور اس کی مظلومیت کا سہارا لے کر اس معاشرے کی ترتیب کو اُلٹ پلٹ کیا جا رہا ہے، اس کے ذریعے خاندانی نظام پر کاری ضرب لگائی جا رہی ہے، ان صالح فطرت لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور صنفی موضوعات پر مطالعے کی نفی کے بجاے اس کو اپنی اقدار کی بنیاد پر استوار کریں ۔ یہ مطالعے صرف خواتین کی ترقی کے موضوع پر نہ ہوں، بلکہ اس کا موضوع مجموعی انسانی ترقی ہو، جہاں مرد اور عورت دونوں کی ترقی اور تربیت کے لیے کام کیا جائے۔ عورت کی ترقی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مرد کی ترقی نظر انداز کی جائے بلکہ دونوں کو ترقی کی طرف گامزن کرنا ضروری ہے ۔ اس سلسلے کی ایک کوشش یہ ہو سکتی ہے کہ کوئی ایسا نصاب تیار کیا جائے، جہاں خاندانی استحکام کے حوالے سے عورت اور مرد دونوں کو ان کی سماجی ذمہ داریوں سے آگاہی دی جائے (جو بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی نظام میں مفقود ہے)۔ اپنے فرائض اور مخالف صنف کے حقوق بتائے جائیں ۔ ان کی بہتر بجاآوری کے لیے بیداری پیدا کی جائے۔

اس قسم کی توجہ مبذول کرانے کے مختلف طریقے ہو سکتے ہیں، مثلاً جس طرح کمرشل اور دعوتی ادارے مختلف عنوانات پر ورکشاپس کراتے ہیں، ان عنوانات پر بھی پروگرام ہوسکتے ہیں، یا جس طرح کمیونٹی ورک کے کچھ گھنٹے پورے کرنے پر ہی ڈگری کا حصول ممکن ہے، اداروںمیںاس ٹریننگ کو بھی ڈگری سے مشروط کرانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ ڈگری جاری کرنے والے اداروں کو یہ سفارش بھیجی جا سکتی ہے کہ ڈگری کا اجرا اس ٹریننگ سے مشروط کیا جائے، لیکن اس سے بھی پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ بہت اچھے اور معیاری کورسز تیار کیے جائیں، جو اعلیٰ تعلیمی اداروں سے نکلنے والے طلبہ و طالبات کو ایک بہتر ذمہ دار شہری بنانے میں بحیثیت مرد یا عورت مدد گار ثابت ہوں۔

۶- تحفظ خواتین پر موجود قوانین پر عمل درآمد تو بلاشبہہ حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن اس پر مطلوبہ ٹھوس کام،اس کے نفاذ کا مطالبہ، اس کے لیے معاشرے ،حکومت اورقانون نافذکرنے والے اداروں پر دبائو ڈالنا، اور اس کے لیے پریشر گروپ کے طور پہ کام کر نا بھی بہت ضروری ہے۔

۷-تعلیم براے روزگار کے تصور کے بجاے تعلیم براے تربیت کو ہر سطح پر اجاگر کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ بالخصوص لڑکیوں کو عملی زندگی کے مطابق نہ صرف کیرئیر کونسلنگ فراہم کی جائے، بلکہ معاشرے میںملازمتوں میںلچک دار اوقات کار کے تصور کو بھی اُجاگر کیا جانا چاہیے۔

جس طرح طوفان اور زلزلے زمین کی جغرافیائی ہیئت کو بدل دیتے ہیں،اسی طرح موجودہ دور کی اس تبدیلی کے طوفانی جھٹکوں سے ہمارا معاشرہ بھی تیزی سے اپنی ہیئت کی تبدیلی (transformation ) کی طرف بڑھ رہاہے ۔ اس ساری صورت حال میں جن لوگوں کو اس طوفان اور اس کی شدت اور اس سے ہونے والے نقصان کا ادراک ہی نہیں، ان کے بارے میں توکچھ نہیں کہا جاسکتا ،لیکن جو اس کا ادراک رکھتے ہیں ، جن کو اللہ نے دانش مندی ،سوجھ بوجھ اور رہنمائی سے نوازاہے ،ان کے سامنے آج بھی بہت بڑا سوال ہے، اور کل بھی وہ جواب دہ ہیں کہ ان کی کیا استعداد تھی؟ اس کے مطابق انھوں نے کیاکیا ؟جو لوگ تبدیلی کے خواہاں ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس معاشرے کے تمام مسائل کے حل کے لیے الہامی ہدایات موجود ہیں اور وہ اس نقشۂ کار کے وارث ہیں کہ جس پر چل کر ’شر‘ کے بجاے ’خیر‘ کو لایا جاسکتا ہے، تو یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ میدان خالی نہ چھوڑیں اور اپنے کاموں کی منصوبہ بندی میں اپنی ترجیحات کا رُک کرضرورجائزہ لیتے رہیں کہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا کرنا تھا؟ کیا نہیں ہوسکا؟ اور کس طرح بہتر انداز سے آیندہ پیش رفت کرنی ہے؟

اسلام نے حقوق کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک کو ہم حقوق اللہ اور دوسرے کو حقوق العباد کے نام سے جانتے ہیں ۔دونوں کی اہمیت وافادیت مسلّم ہے اور ان کا پاس و لحاظ رکھنا اسلام کی نگاہ میں انتہائی ضروری ہے۔مسلمان کے مسلمان پر حقوق کے ضمن میں چندگزارشات پیش ہیں:

مسلمان مسلمان کا بہائی ھے!

اسلام نے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا دینی بھائی قرار دیا ہے۔جس طرح سے ایک حقیقی بھائی اپنے بھائی کے جان و مال اور اس کی عزت و آبرو کامحافظ اور ضامن ہو تا ہے ، اس کی ہرضرورت وحاجت کو ملحوظ رکھتا ہے، بالکل اسی طرح دینی بھائی اس کے لیے نہ صرف نگہبان ہوتا ہے بلکہ اس کی ہر ضرورت کو پورا کر نے کے ساتھ ساتھ اس کے جذبات و احساسات کی بھی قدر کرنا اپنی ذمہ دار ی سمجھتا ہے۔ جس طرح سے خونی رشتے مضبوط ہو تے ہیں اسی طرح ایک مسلمان کو  دوسرے مسلمان سے جو ایمانی رشتہ ہوتا ہے اسے نہ صرف قائم ودائم بلکہ مزید سے مزید تر مستحکم بنانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ  ( الحجرات ۴۹:۱۰ ) ’’بے شک اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہے‘‘۔

اہل ایمان کو آپس میں بھائی بھائی قرار دینے کے بعد یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ (الحجرات ۴۹:۱۰)، یعنی آپس میں دوبھائیوں میں ملاپ کرا دیا کروــ۔چنانچہ اپنے بھائی کی اصلاح حال کی فکر کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ آپس میں ہمدرد و غم گسار اور شفیق و حلیم بن کر رہیں۔اللہ کے رسول ؐ نے اس کی مزید وضاحت اس طرح فر مائی:

 مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کر تا ہے نہ اس کو کسی ہلاکت میں ڈالتا ہے۔  جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کر تا ہے تو اللہ اس کی ضرورت پوری فرماتا ہے اور جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی سے کو ئی مصیبت دُور کر ے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی مصیبتوں میں سے کو ئی مصیبت دُور کرے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان بھائی کی پردہ پو شی کر ے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پر د ہ داری فرمائے گا۔(بخاری)

 ایک مسلمان کسی بھی تکلیف ،مصیبت اور پر یشانی میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ اس کے مسلمان بھائی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو مصائب اور پر یشانیوں سے آزادکر ے۔ اگر اس کو کوئی حاجت پیش ہو تو اس کی حاجت روائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ اگر وہ بیمار ہو تو اس کے علاج کا انتظام کرے اوراس کے دکھ درد کو دُور کر نے کا ذریعہ بنے۔اس کو کسی ظلم و جبر کے شکار ہو نے سے بچائے۔ اس کو نصیحت کر نا اپنا فرضِ منصبی سمجھے۔اس کو نیکی کی طر ف را غب کر نے اور برائی سے نفرت پیدا کرنے کی حتی الامکان کو شش کر ے۔ علاوہ ازیں اس کے بال بچوں کی تعلیم و تر بیت کا بھی خیال رکھے۔

مسلمان مسلمان کا آئینہ  ھے!

ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے آئینے کی طرح ہو تا ہے۔ آئینہ انسان کو اس کے  جسم پر اور بالخصوص اس کے چہرے پر جو داغ دھبے ہو تے ہیں وہ ان کو من و عن دکھا تا ہے اور   اس میں ذرہ بر ابر بھی کمی بیشی نہیں کر تا۔ آئینہ ہی ایک ایسی چیز ہے جو ایک انسان کو اس کی موجودہ حالت کو پوری دیانت داری سے دکھاتا ہے۔ اللہ کے رسول ؐ نے ایک مو من کو دوسرے مومن کا آئینہ قرار دیا ہے ۔چنانچہ فر مایا:’’ایک مومن دوسرے مو من کا آئینہ ہے اور ایک مو من دوسرے مو من کا بھائی ہے۔ اس کے ضر ر کو اس سے دفع کر تا ہے اور اس کی عدم موجودگی اس کی نگہبانی کر تا ہے۔ (سنن ابوداؤد )

آئینہ کسی بھی شخص کو غلط فہمی میں نہیں رکھتا ہے اور نہ کسی کو دھو کا ہی دیتا ہے بلکہ وہ اس کو  اپنی اصل ہیئت و شکل سے بخو بی آگاہ کر تا ہے تب جا کے وہ اپنی صورت اور حلیے کو ٹھیک کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح سے مسلمان کو چاہیے کہ وہ دوسرے مسلمان کی خامیوں اور ان کے عیبوں کی بھر پور  اصلاح کر نے کی کو شش کر ے۔وہ نہ صرف اپنے بھائی کے ظاہری خدوخال کو صحیح کر ے بلکہ باطنی امراض کوبھی دُور کر نے کی حتی الامکان کو شش کر ے۔اس کی عادات و اطوار کو دُرست کر نے میں پہل کرے۔ اس کو تحفظ فر اہم کر نے میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے اور اسے کسی بھی غیر قانونی کام میں مبتلا نہ ہو نے دے اور نہ اس کو بغیر کسی جرم ہی کے قید میں دیکھنا پسند کر ے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اگرکسی وقت قید میں ہو تو اس کو قید سے چھڑانے کی بھر پور کو شش کرے۔مسلمان آپس میں جسدِ واحد کی طرح ہوتے ہیں۔اس کی مثال اللہ کے رسولؐ نے بہت ہی جامع انداز میں یوں دی:’’آپس کی محبت اور شفقت میں مسلمانوں کی مثال ایک جسد واحد کی سی ہے کہ اگر کسی عضو کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم اس کے لیے بے خواب اور بے آرام ہوجاتا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ، کتاب الادب)

 مسلمان مسلمان کا خیر خواہ ھوتا ھے !

مسلمان جس امت سے تعلق رکھتا ہے وہ خیر امت کہلا تی ہے ۔خیر امت کا بنیادی کام یہ ہے :

اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰)  اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی   ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

خیر اُمت اور خیر خواہی کا سب سے اہم تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو مطلق سچائی اور اُخروی کا میابی کی طر ف بلاتا رہے اور اس کو دوسرے افکار و نظریات اور مذاہب کے برے اثرات سے محفوظ رکھے۔دین ہرایک کے لیے نصیحت ہے ۔اس لیے اللہ کے رسول ؐ نے فر مایا: الدین نصیحۃ ، یعنی دین سراپا نصیحت ہے۔ یہ جملہ اللہ کے رسول ؐ نے تین مر تبہ دُہرایا۔ اس کے بعد ایک صحا بی نے عر ض کیا کہ یہ کن کے لیے نصیحت ہے ؟۔ فر مایا : اللہ تعالیٰ ،اس کی کتاب، مسلم حکمرانوں اور تمام مسلمانوں کے لیے۔(ترمذی )

’خیر‘ کے لغوی معنی فائدہ ، بھلائی اور نفع کے ہیں اور اس کے اصطلاحی معنی کسی چیز کو بہتر طریقے سے اپنے کمال تک پہنچانے کے ہیں ۔ امام راغب کے مطابق ’ النصح ‘ کسی ایسے قول یا فعل کا قصد کرنے کو کہتے ہیں جس میں دوسروں کی خیر خواہی ہو ۔ ہر ایک کے ساتھ خیرخواہی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سب کے ساتھ خیر خواہی کر نا ہی حقیقتاً دین داری ہے۔ اگر مسلمان بھی اللہ تعالیٰ اور     اس کے رسول ؐ ،قرآن مجید اور عام مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی اور وفاداری نہ کر ے تو وہ اپنے دعوے میں جھو ٹاہے۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے وہی چاہے جو اپنے لیے اور اپنے   اہل و عیال کے لیے چاہتا ہو ۔حضوؐر نے فر مایا:’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مو من نہیں ہوسکتا    جب تک وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے واسطے وہی بات نہ چاہے جو وہ اپنے لیے چاہتا ہو‘‘۔(بخاری ،کتا ب الایمان )

ایک مو من دوسرے مومن کا خیر خواہ ہو تا ہے۔ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان بھائی کی فلاح وبہبود اورتر قی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔خیر خواہی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے لیے ہدایت اور اسلام پر ثابت قدم رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے۔

دین سے آگاہ کرتا ھے!

ایک مسلمان کے او پر یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو علم کی روشنی سے  منور کر ے۔ اگر وہ خو د اسے علم نہ سکھا سکے تو وہ اس کام کے لیے کسی دوسرے فر د کو تعینات کر ے۔ علم و حکمت ایک ایسی دولت ہے جو دنیا کی تمام نعمتوں سے افضل ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ     علم و حکمت ہی تمام بھلائیوں کی کنجی ہے تو مبالغہ نہ ہو گا ۔اللہ تعا لیٰ کا ارشاد ہے :

وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط( البقرہ ۲:۲۶۹) جسے حکمت عطا کی گئی اسے بہت بڑ ی دولت عطا کی گئی۔

دوسری جگہ علم و حکمت کے حصول کے لیے ابھاراگیا ہے۔ رب کریم نے فر مایا :

وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًاo ( طٰہٰ۲۰:۱۱۴)  اور دعا کرو کہ اے پروردگار مجھے مزید علم عطا کر۔

ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:

 تمھارے پاس لو گ علم حا صل کر نے کی غرض سے آئیں گے۔ جب تم انھیں دیکھو    تو انھیں علم سکھا ئو۔ایک مسلمان کی یہ بہت بڑ ی ذمہ داری ہے کہ اگر اس کے پا س   علم و حکمت کی بات ہو تو وہ اسے دوسرے تک پہنچائے۔ (ابن ماجہ، کتا ب السنہ)

علم و حکمت کی بات کو پہنچانے کے سلسلے میں ایک مسلمان کو ہر گز بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اللہ کے رسول ؐ نے اس پر سخت و عید سناتے ہو ئے فر مایا:’’ جس شخص سے کو ئی علم کی بات پوچھی جائے اور وہ اس کو چھپائے تو قیامت کے دن اس کو آگ کی لگام دی جائے گی‘‘ (ابن ماجہ ،کتاب السنہ)۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان کو علم کی بات سکھا نے کوا فضل صد قہ قر ار دیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا :’’ افضل صدقہ یہ ہے کہ ایک مسلمان شخص علم حاصل کرے اور اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو سکھا دے‘‘۔( ابن ماجہ، کتاب السنہ )

ایک مسلمان کو علم چھپانے والو ں ( کتمان علم ) میں اپنے آپ کو شامل نہیں کرنا چاہیے ۔ جو مسلمان دینی تعلیم وتربیت اور اپنی عملی اور اخلاقی حالت کے لحاظ سے کمزور ہو تو دوسرے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کی نہ صرف فکر بلکہ کوشش بھی کریں۔

مسلمانو ں کا باھمی تعلق

مسلمانوں کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح جڑ ے رہنا چاہیے۔ ان کے آپس میں محبت و مودت، ملنسار ی اور گہرے روابط ہو نے چاہییں ۔انھیں ان مضبوط اینٹوں کی طر ح رہنا چاہیے جو دیوار میں ایک دوسرے کا سہارا بن کر دیوار کی مضبوطی میں چار چاند لگا دیتی ہیں۔ اس کی ایک مثال اللہ کے رسول ؐ نے اس طرح دی ہے:’’مسلمان مسلمان کے لیے عمارت کی طر ح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تقویت پہنچاتا ہے‘‘ (مسلم)۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ’’مو من مومن کے لیے دیوار کی طر ح ہو تا ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبو ط بنا تا ہے ‘‘۔(بخاری)

 ایک مسلمان کا ایمان تب ہی پایۂ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے جب وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے سراپا خیر اور ہمدرد ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم میں سے کو ئی آدمی اس وقت مومن نہیں ہو گا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہ نہ چاہے جو اپنے لیے چاہے‘‘۔( متفق علیہ )

مسلمان کا مسلمان پر ظلم کرنا حرام ھے!

مسلمان پر ہر قسم کی ظلم و زیادتی کرنا حرام ہے ۔ یہ ظلم و زیادتی چاہے اس کے سامنے کی جائے یا اس کی پیٹھ پیچھے، دونوں صورتوں میں حرام ہے۔اللہ کے رسولؐ نے اس ضمن میں واشگاف انداز میں تنبیہ فرمائی: ’’مسلمان کا دوسرے مسلمان پر اس کا خون،مال اور اس کی آبرو پر حملہ کرنا حرام ہے‘‘۔(مسلم)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃالوداع کے موقع پریہ عالم گیرا علان فرمایا:

 تمھاری جانیں ، تمھارے مال، تمھارے عزت وآبرو، تمھارے درمیان اسی طرح محترم اور مُقدس ہیں جس طرح آ ج کے دن کی حرمت تمھارے اس مہینے اور اس شہر میں  محترم اور مقدس ہے۔(بخاری، کتاب الحج)

اسی طرح ظلم کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ظلم سے بچو ! اس واسطے کہ ظلم قیامت کے دن تاریکی ہی تاریکی ہے۔ ظلم کا مرتکب شخص ہر حال میں نقصان اور خسارے میں رہے گا اور ظالم کو اللہ تعالی قیامت کے دن رُسوا کن عذاب میں مبتلا کرے گا ۔(بخاری،حدیث رقم:۲۴۴۷)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَمَنْ یَّظْلِمْ مِّنْکُمْ نُذِقْہُ عَذَابًا کَبِیْرًاo (الفرقان۲۵:۱۹) اورجو بھی تم میں سے ظلم کرے اسے ہم سخت عذاب کا مزا چکھائیں گے۔

 ظلم کے علاوہ ایک مسلمان پر یہ بھی حرام کیا گیا کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کو ڈرائے اور دھمکائے یا اس کو کسی بھی قسم کے ہتھیا ر سے خوف زدہ کرے۔ اور جو کوئی ایسا کرے وہ گویا کہ مسلمان ہی نہیں۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے پر زور الفاظ میں ارشاد فرمایا: ’’جس نے ہم پر اسلحہ یا ہتھیار ظاہر کیا وہ ہم میں سے نہیں‘‘ (ابن ماجہ)۔ اس کی مزید وضاحت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسری حدیث میںفرمائی:’’تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طر ف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے۔تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے ا ور وہ قتلِ ناحق کے نتیجے میں جہنم کے گڑھے میں جاگرے‘‘۔ اللہ کے رسولؐ نے ہتھیار ظاہر کرنے والے شخص کو لعنت کا مستحق ٹھیرایا۔ ’’مسلمان پر ہتھیار سے اشارہ کرنے والے پر فرشتے لعنت بھیجتے ہیں‘‘۔ (ترمذی )

اسلام تو اپنے مسلمان بھائی کو گالی دینے یا اس پر ہاتھ اٹھانے کی بھی اجازت نہیں دیتا کجاکہ وہ اس کے خلاف ہتھیار یا اسلحہ اٹھائے۔ جو شخص اپنی شرارتوں سے اپنے مسلمان بھائی کو پریشان کرتا رہتا ہو اور اپنی کمینگی کی وجہ سے اس کے سُکھ اور چین پر شب خون مارتا ہو، تو وہ مومن نہیں ہے ۔لہٰذا، ایک مسلمان کو اس بات پر چوکنا رہنا چاہیے کہ اس سے کسی کو کوئی تکلیف تو نہیں پہنچ رہی ہے؟

مسلمان کو حقیر سمجہنا حرام ھے!

اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو خلیفہ کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ مکر م بھی بنایا ہے ۔اس لیے ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی عزت و احترام کر نے میں کسی بھی کو تاہی سے گریز کر ے۔ باہمی  عزت و احترام خو ش گوار ماحول کی ضمانت ہے۔ اس کے بر عکس ایک دوسرے کو حقیر سمجھنا یا جاننا خوش گوار ماحو ل کو بگاڑ نے کا ایک اہم سبب ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے پر استہزا کرنے سے منع فر مایا کیوں کہ باہمی تعلقات کے بگڑنے کی ابتدا یہیں سے ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اُڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اُڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔   آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں‘‘۔(الحجرات۴۹:۱۱ )

ایک شخص دوسرے شخص پر استہزا اور مذاق اسی وقت کر سکتا ہے جب وہ اپنے آپ کو    اعلیٰ وبر تر اور دوسروں کو اپنے سے کم تر سمجھتا ہو اور انھیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہو۔ایک دوسرے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے کا رجحان عورتوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس لیے انھیں قرآن میں   الگ سے مخاطب کیا گیا ہے ۔ حضوؐر نے اس ضمن میں ارشاد فر مایا :’’ اے مسلمان عورتو! تم میں سے کوئی اپنی پڑوسی عورت کا استہزا نہ کر ے‘‘۔(بخاری )

کسی کو حقیر جاننا، اپنے سے کم تر سمجھنا اور استہزا کر نا ایک گھناؤنا فعل ہے جس کی ممانعت قرآن و حدیث میں واضح انداز میں موجود ہے ۔ حدیث کے مطابق حق کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا جنت میں جانے کی رکاوٹ بن سکتا ہے (مسلم،کتاب الایمان )۔ اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا: ’’آدمی کے بُرا ہو نے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو حقیر سمجھے‘‘(مسلم)۔لہٰذا اسلامی سماج کی تعمیر اور خوش گوار تعلقات کو فروغ دینے میں ایک مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کو اپنا حقیقی بھائی سمجھ کر عزت واحترام کے ساتھ اس سے تعلقات قائم کر ے۔

اسی طر ح سے جب ایک مسلمان کو اپنے دوسرے مسلمان سے ملاقات کرنی ہو یا کو ئی معاملہ در پیش ہو تو اس کے ساتھ نر می و شفقت سے پیش آئے ۔جو شخص نر می و شفقت کے دامن سے خالی ہو تو اللہ کے رسو ل ؐ کی زبان میں وہ ہر خیر سے محروم ہے ۔چنانچہ فر مایا :’’جو شخص نر می کے صفت سے محر وم ہو وہ ہر خیر سے محر و م ہے‘‘۔(مسلم )

مذکورہ حقوق کے علاوہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھے عمو می حقوق ہیں۔ ان چھے حقوق کا تذ کرہ حضورِ اکرم ؐ نے اس طرح فرمایا:

 ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھے حق ہیں۔ پو چھا گیا: یارسولؐ اللہ! وہ کو ن سے ہیں ؟ آپ ؐ نے فرمایا: جب ملاقات ہو تو اسے سلام کر ے ،جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرے، جب نصیحت کا طالب ہو تو اس کونصیحت کر ے۔جب اس کو چھینک آئے اور وہ الحمدللّٰہ کہے تو یرحمک اللّٰہ کے ساتھ جواب دے۔جب بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے، اور جب وہ انتقال کر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جائے۔(بخاری، مسلم، ابوداؤد)

ان گزارشات کی روشنی میں اگر ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے حقوق کا پاس و لحاظ رکھا جائے تو نہ صرف اخوت و محبت کو فروغ ملے گا بلکہ باہمی اصلاح اور ہمدردی و خیرخواہی کے جذبات بھی فروغ پائیں گے، نیز ظلم و زیادتی کا ازالہ بھی ہوسکے گا۔ آج اسلامی معاشرت کے اس نمونے کو عملاً پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

عصر حاضر میں اسلام اورمسلمانوں کے حوالے سے پائے جانے والے تاثرات میں مسلم معاشروں میں عورت کا مقام و کردار ایک مرکزی موضوع کا مقام اختیار کرگیا ہے اوربعض غلط العام تاثرات کی تکرار نے بہت سے مسلم اہل قلم کو مدافعانہ انداز میں اسلامی تعلیمات کو پیش کرنے پر آمادہ کردیا ہے۔ کسی بھی عصری مسئلے کا علمی جائزہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ پہلے اس مسئلے کی نوعیت، اس کے اسباب اوراس سے نکلنے والے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے معروضی طورپر یہ دیکھا جائے کہ جس بنیادپر دلائل کی عمارت تعمیر کی گئی ہے، کیا وہ درست ہے یا اس کی ٹیڑھ پوری عمار ت کے ایک جانب جھک جانے کاسبب ہے اورکیا واقعی مقصود ایک ٹیڑھی عمارت ہے یا سیدھی تعمیر۔

تقابلی مطالعوں میں عموماً ایک محقق کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس مواد کو یک جا کردے جو تحقیقی مفروضے سے مطابقت رکھتاہو اور منطقی طور پر وہ نتیجہ حاصل کرلے جو پہلے قیاس کی حیثیت رکھتا تھا۔ چنانچہ اکثر مغربی تجزیوں کا آغاز مسلم دنیا میں پائی جانے والی چند بے ضابطگیوں سے ہوتا ہے جنھیں عموم کا مقام دے کر وہ نتیجہ حاصل کرلیا جاتاہے جس کو مستحکم کرنے کے لیے مواد جمع کیا گیا تھا۔مجھے اس امر کا پورا احساس ہے کہ کوئی انسان جو کسی معاشرے اورکسی علمی روایت سے وابستہ ہو مکمل طورپر اپنے آپ کو اپنے ثقافتی ماحول سے آزاد نہیں کرسکتا، لیکن اگرایک محقق کو اپنی محدودیت اوراپنے تصورات کا پورا اِدراک ہو اورساتھ ہی وہ دیگر نظریات کو عادلانہ نظر سے دیکھے جس کا حکم قرآن کریم نے شہادت کے حوالے سے دیا ہے کہ چاہے وہ شہادت ایک فرد کے خونی رشتہ دار ہی سے تعلق رکھتی ہو، شہادت حق ہی ہو اوراس میں رشتے کا تعصب نہ آنے پائے۔ چنانچہ علمی جائزے میں بھی اس حقیقت کو جاننے کے باوجود کہ ایک مسلمان محقق اسلامی نظام حیات کی حقانیت پر ایمان رکھتاہے، اس کا فرض ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات اور دیگر تصورات کو معروضی طورپر ایک کھلے ذہن کے ساتھ اورپہلے سے تصورکردہ مفروضوں سے نکل کر جائزہ لینے کے بعدایک قول ِفیصل تک پہنچے۔

اس بنیادی اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو عصرحاضرمیںمغربی فکر اورمغرب زدہ مفکرین جن امور پر اپنی توجہ مرتکز کرتے ہیں انھیںاسلام میں خواتین کے حقوق خصوصی دل چسپی کا باعث نظر آتے ہیں۔ہمارے خیال میں ایسا ہونا کوئی تعجب کی بات بھی نہیں کیونکہ خود مسلم اہل فکر نے اس موضوع پر یا توفقہی نقطۂ نظر سے فقہی احکام کی تشریح کرتے ہوئے عورت اورمرد یا شوہر اوربیوی کے حقوق پر سیر حاصل بحث کی ہے، یا بعض اختلافی مسائل میں اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے قانون اورفقہی آرا کا دفاع کیا ہے۔ چنانچہ حدود اورقصاص ودیت کے معاملات میں ایک عورت کی شہادت کی حیثیت کیا ہوگی، وراثت میں تقسیم کا جو تناسب اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیا ہے اس پر کوئی ’نظرثانی‘ ہوگی یا نہیں، ایک شادی شدہ شخص کو دوسری شادی کرنے کا اختیار ہے یا نہیں، اورریاست اس سلسلے میں کیا قدغن لگا سکتی ہے___ وہ موضوعات ہیں جو توجہ کا مرکز رہے ہیں۔

اسلامی قانون کے حوالے سے بحث کرتے وقت عموماً جو رویہ اختیار کیا جاتاہے وہ بھی قابلِ غور ہے۔ اکثر مغربی جامعات سے فارغ التحصیل مسلم مفکرین، مغربی فلسفۂ قانون کے مطالعے اور اس کے بنیادی مفروضوں پر ایمان لانے کے بعد اسلامی فقہ اورقانون کے بارے میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ چونکہ فکری بنیاد مغربی فلسفۂ قانون ہوتا ہے، اس لیے بار بار وہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں جو نہ تو نئے ہیں اورنہ منطقی طورپر صحت رکھتے ہیں۔ مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ وہ قانون جو ساتویں صدی عیسوی میں یا نویں صدی عیسوی میں وجود میں آیا، آخر کس طرح اکیسویں صدی کے تغیر شدہ ماحول و حالات میں قابل عمل ہو سکتاہے، یا یہ کہ قرآن کے احکامات جو خواتین سے متعلق ہوں یا مردوں سے یا معاشرے کے مسائل سے ، آج کس طرح نافذ ہوسکتے ہیں، جب کہ ہم ’بدوی‘ معاشرے سے آگے نکل چکے ہیں!

خواتین کی قانونی شہادت ، وراثت میں تناسب، تعلیم کا حصول ، گھرمیں فیصلہ کن معاملات میں مقام، سیاسی کردار، معاشی میدان میں عمل دخل، فوج اورپولیس میں یکساں نمایندگی، نکاح میں مرد کی طرح ایک سے زائد شوہروں سے زواج قائم کرنا، نماز میں امامت اورجمعہ کا خطبہ دینا وغیرہ وہ مسائل ہیں جن پر اس انداز سے بات کی جاتی ہے گویا یہ مسائل اچانک دریافت کرلیے گئے ہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ اورشارع اعظم کے علم میں ان کا کہیں آس پاس بھی سراغ نہیں پایا جاتا تھا۔ ان مسائل سے لاعلمی پر مبنی ایک شریعت ہمارے حوالے کردی گئی، اوراب چونکہ یہ مسائل یکایک دریافت ہوگئے ہیں اس لیے وہ شریعت جو ان سے لاعلمی کی بناپربنی تھی خود بخوداپنی قانونی قوت کھوبیٹھی ہے!

علمی اورمعروضی تحقیقی حکمت عملی کا بنیادی مطالبہ ہے کہ پہلے یہ بات طے کرلی جائے کہ شریعت ہے کیا؟کیا یہ ایک مردانہ ذہن کے پیداکردہ تصورات اورحدود و قیود پر مبنی ہے، یا اسے خالق کائنات اورصانعِ انسان نے انسان اورانسانی معاشرے کی ضروریات، مستقبل کے مطالبات اورضروریات کے پیش نظر نازل کیا ہے؟ اگر شریعت زمان و مکان کی قید میں ہے تو لازماً اسے   تغیر و تبدیلی سے گزرنا ہوگا لیکن اگر شریعت زمان و مکان کی قید سے آزاد اُن آفاقی اصولوں پر مبنی ہے جن پر انسانی خمیر کی تعمیر کی گئی ہے، تو اس میں آفاقیت ہوگی اورتبدیلیِ زمان و مکان سے اس کی قانونی قوت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوسکتی۔

مرد اورعورت سے متعلق جو ہدایت نامہ قرآن کریم کی شکل میں اور اس کا عملی نمونہ حیاتِ مبارکہ سید الانبیا خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں ہمارے سامنے رکھا گیا ہے، ان دونوں میں  عدم تغیر، آفاقیت اورعالم گیریت کو اپنی مکمل شکل میں رکھ دیا گیا ہے ۔اس بنا پر قرآن کریم نے سنت کو تشریعی مقام دیا ہے۔ سنت، مدینہ اورمکہ کی زمانی و مکانی قید سے آزاد ہے۔ یہ اسوۂ حسنہ محض اخلاقی نصائح تک محدود نہیں ہے۔ یہ حدود کے اجرا، بین الاقوامی معاہدات، سفرا کے تقرر، قاضیوں اورمفتیوں کی نامزدگی، زکوٰۃ کے نصاب، مرتدین کے خلاف قتال، معاندین زکوٰۃ کی سرکوبی، غرض ان تمام معاشرتی ، معاشی ،سیاسی اورقانونی معاملات سے تعلق رکھتا ہے جو منصب ِنبوت کے فرائض میں شامل تھے۔

بعض سادہ لوح افراد قرآن فہمی کے دعووں کے ساتھ جب یہ بات کہتے ہیں کہ قرآن میں تو ’رجم‘ کا ذکر نہیں پایا جاتاتو یہ بھول جاتے ہیں کہ قرآن کریم شارع اعظم کو حکماً یہ اختیاردیتاہے کہ وہ تحلیل و تحریم کریں۔ نتیجتاً ان کے تحکیم کردہ معاملات کو حتمی مقام حاصل ہوجاتاہے:’’(پس آج   یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس رسول نبی امّی (صلی اللہ علیہ وسلم)کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اورانجیل میں لکھا ہوا ملتاہے۔ وہ انھیں نیکی کاحکم دیتا ہے بدی سے روکتاہے۔ ان کے لیے پاک چیزیں حلال اورناپاک چیزیں حرام کرتاہے، اوران پرسے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اوروہ بندشیں کھولتا ہے جن میںوہ جکڑے ہوئے تھے‘‘ (اعراف ۷:۱۵۷)۔ یہاں پر براہِ راست رسولؐ کو تحریم و تحلیل کا اختیار دیا گیا ہے۔

اس بنا پر کہا گیا ہے کہ آپؐ کافیصلہ اللہ کے فیصلے کی طرح ہے اورجو اس فیصلے کو قرآن کے احکامات سے الگ سمجھتا ہے اس کا مقام و مرتبہ ایمان سے گرا ہوا ہے۔ایمان کی شرائط میں سے یہ شرط قرآن کریم خود بیان کرتاہے کہ جب تک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اورفیصلے کو کشادہ دلی کے ساتھ، بلا کسی تردد کے نہ مانا جائے، اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہوسکتاہے: ’’ نہیں، (اے محمدؐ) تمھارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بہ سر تسلیم کرلیں‘‘(النساء ۴:۶۵)۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اللہ سبحانہ کی اطاعت قرار دیتے ہوئے فرقانِ حکیم فرماتا ہے: ’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی ،اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی اورجو منہ موڑ گیا، تو بہر حال ہم نے تمھیں ان لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے‘‘(النسائ۴:۸۰)۔ اس سلسلے میںحرف ِآخر وہ فرامین ہیں جو یہ کہتے ہیں:’’مومنو! اللہ کی اطاعت کرو اوررسولؐ کی اطاعت کرو اوراپنے اعمال کو ضائع نہ ہونے دو‘‘ (محمد۴۷:۳۳)۔ مزید یہ کہ ’’اورجب ان سے کہا جاتاہے کہ آئو اس چیزکی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے تو ان منافقوں کو    تم دیکھتے ہو کہ یہ تمھاری طرف آنے سے کتراتے ہیں‘‘۔ (النساء ۴:۶۱)

اس ضمنی توضیح سے قطع نظر، جو بات بلاجھجک کہنے کی ضرورت ہے وہ بہت آسان ہے۔    وہ یہ کہ اسلام اپنے تصورِ عدل کی بناپر مرد اورعورت دونوں کے حوالے سے جوہدایات دیتا ہے ان کی بنیاد جنسی تفریق نہیں ہے، جب کہ مغربی اورمشرقی فکر چاہے وہ مذہبی مصادر میں ہو یا معاشرتی علوم میںاس کی بنیاد جنس(gender)کی تفریق (discrimination)پرہے۔ چنانچہ اسلام نے جو حق خواتین کو ساتویں صدی عیسوی میں دیا کہ وہ ریاستی امور میں اپنی راے خلیفہ کے انتخاب کے موقعے پر دیں (حضرت عثمانؓ کی خلافت کے انتخاب کے موقعے پر مدینہ کے ہر گھر کی خواتین سے ان کی راے سرکاری طور پر لی گئی )، وہ حق یورپ میں ۱۸۹۲ء میںصرف اصولی طور پر تسلیم کیاگیا، جب کہ اس پر عمل بیسویں صدی میں ہوا۔

آج بھی مغرب اورمشرق میں خواتین کاغذی حد تک تو بعض حقوق رکھتی ہیں لیکن زمینی حقائق اس سے متضاد صورتِ حال پیش کرتے ہیں۔

اسلامی نظام حیات کا بنیادی نکتہ ’عدل‘ ہے۔ عدل اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ ایک فرد پر اس کی برداشت اوراستعداد سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے، اس کی وسعت کے لحاظ سے اس کی  جواب دہی ہو۔ یہ قرآنی اصول کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَاط (البقرہ ۲:۲۸۶)، ’’اللہ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا‘‘۔

چونکہ اسلام ایک مہذب معاشرے کے قیام کے لیے خاندان کو بنیادی ادارہ قرار دیتا ہے اورمذاہب عالم کے تمام تصوراتِ ’تقویٰ و پاک بازی‘ کے بر خلاف رشتۂ ازدواج اورشوہر اوربیوی کے صحت مندانہ اخلاقی تعلق کو تقویٰ اورایمان کی علامت سمجھتا ہے، اس بنا پر عدل کا مطالبہ ہے کہ خواتین کی سیاسی، معاشی، معاشرتی سرگرمیوں کو خاندان کے تناظر میں دیکھتے ہوئے شریعت کے بنیادی مقاصد اور ’مصلحت‘ کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عادلانہ رویہ اختیار کیا جائے۔ اسلام میں شادی کا مقصد ایک ’کمائو بیوی‘کا حصول نہیںہے بلکہ آنے والی نسلوں کی معمار اورگھر کے اندر سکون، رحمت اورموّدت کا ماحول فراہم کرنے والی بیوی کا حصول ہے۔

اسلام کا تصورِ اجتماعیت اس کے عدلِ اجتماعی سے منطقی طور پر وابستہ و پیوستہ ہے اور یہ تصور مغربی اور مشرقی تصورِ انفرادیت کی مکمل ضد ہے۔ اس میں فرد کو جائز قانونی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی مقام کا تحفظ دیتے ہوئے معاشرتی رشتے میں جوڑا گیا ہے، جب کہ دیگر نظاموں میں، وہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے، فرد کو عبادات میں محض اپنے خدا سے رشتہ جوڑنے کا تصور اختیار کیا گیا ہے۔ چنانچہ مشرقی اور مغربی تصورِ عبادت یہ مطالبہ کرتا ہے کہ مذہب اللہ اور بندے کے درمیان ایک نجی (private)اور ذاتی(personal) رشتہ ہے۔ اسلام اس کی تردید کرتے ہوئے حکم دیتا ہے کہ نماز جماعت کی شکل میں قائم کرو اور اجتماعی طورپر نہ صرف نماز بلکہ صیام ،حج اور زکوٰۃ کو ادا کرو۔ قرآن کریم ان عبادات کے لیے ریاست کو ذمہ دار بناتا ہے کہ وہ ان کے قیام اور تحفظ کے لیے اپنی قوت نافذ ہ کا استعمال کرے۔ یہ بنیادی نظریاتی فرق اگر سامنے نہ رکھا جائے تو پھر اہلِ علم بھی اس دوڑ میں لگ جاتے ہیں کہ مغرب یا مشرق عورت کو کون سے ’انفرادی حقوق‘ دیتا ہے اور مقابلتاً اسلام کون سے ایسے حقوق دیتا ہے۔

مسئلہ یہ نہیںہے کہ انفرادی حقوق کی دوڑ میں کون کس سے آگے ہے، مسئلہ یہ ہے کہ عدل کس بات کا مطالبہ کرتا ہے۔ کیا یہ عدل ہوگا کہ ایک خاتون سے یہ کہا جائے کہ وہ اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کرے،ایمان کی تکمیل کے لیے شادی کرے اور اپنی خاندانی ذمہ داریوں کو جو وہ ایک سماجی معاہدے کے ذریعے اختیار کرتی ہے، پوری ذمہ داری سے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ صبح سے شام تک کم از کم ۸گھنٹے ایک معاشی کارکن کے طور پر کام کرے، اور جب گھر واپس آئے تو پھر اپنے خاندانی وظائف میں مصروف ہوجائے اور اس بات پر فخر کرے کہ وہ ’مرد کے شانہ بہ شانہ‘ ، ’معاشی دوڑ‘ میں اپنا کردار ادا کررہی ہے! چاہے اسے اس دوڑ کے لیے اپنے اعصابی تنائو کو قابو میں رکھنے کے لیے صبح شام ادویات کا استعمال کرنا پڑے، ہر روز کام پر جانے کے لیے دو گھنٹے سخت ہجوم میں ٹیکسی،بس یااپنی ذاتی گاڑی میں سفر کرنا پڑے اور دفتر میں جنسی استحصال کا نشانہ بننا پڑے، لیکن وہ یہ سب کچھ اس لیے کرے کہ مغربی اور مشرقی تہذیب ایک کارکن خاتون کو زیادہ پیداآور (productive) کہتی ہے ! اگر معروضی طور پر صرف اس آمدنی اور اس خرچ کا ایک میزانیہ تیار  کرلیا جائے جو ایک ’کارکن عورت‘ اپنی ’دفتری ضرورت‘ کے طور پر ذاتی تزئین پر خرچ کرتی ہے تو ـ’معاشی ترقی‘ کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ اندازہ ہو جائے گا کہ جو آمدنی گھر لائی جا رہی ہے اور جس کا تذکرہ بطور ’دو تنخواہوں‘ کے ہر صحافیانہ تحریر میں پایا جاتا ہے وہ اصلاً کتنی آمدنی ہے۔

مسئلہ آسان ہے۔ مغرب و مشرق کا ذہنی سانچہ جنسی تقسیم اور استحصال پر مبنی ہے۔ مغرب کی پوری تہذیب میں، جواب مشرق میں بھی عام ہے، عورت ایک ’شے‘ (commodity)سے زیادہ مقام نہیں رکھتی اور وہ بھی ایسی شے جس کااستحصال کر کے ایک مرد انہ معاشرہ اپنے مقاصد حاصل کرے ۔ اس کے بر خلاف اسلامی شریعت کی بنیاد عدل کے اصول پر ہے جو یہ مطالبہ کرتا ہے کہ  کسی فرد پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے، اوراسے اس کی ذاتی حیثیت میں اور اجتماعی حیثیت میں یکساں حقوق حاصل ہوں۔

مسلم اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ اسلامی شریعت کے آفاقی پہلو کو اور اس کے نتیجے میں ایک ایسے انسانی معاشرے کے وجود میں آنے کو، جو عدل اجتماعی پر مبنی ہو، مرکزِگفتگو بناتے ہوئے یہ جائزہ لیں کہ اطلاقی سطح پریہ اصول کہاں تک مسلم معاشروں میں پایا جاتا ہے۔ بلاشبہہ مغربی معاشرے میں عورت کا استحصال، اس کی عصمت وعفت پر حملے، اس کے حقوق کی پامالی کی داستان ایک اذیت ناک کہانی ہے لیکن مسئلے کا حل محض یہ کہہ کر نہیں ہوسکتا کہ مغرب خواتین کے ساتھ ظلم کر رہا ہے۔ ہمیں خود اپنے معاشروں میں ہونے والے مظالم کو ختم کرنا ہوگاجن کی بنیاد وہ جاگیر دارانہ ذہن ہے، جس کے لیے یہ شرط نہیںہے کہ کوئی فرد جاگیردار ہی ہو۔ یہ ایک ذہنیت ہے جو ایک مزدور میں بھی اتنی ہی شدت سے پائی جاسکتی ہے جتنی ایک لاکھوں ایکڑکے مالک وڈیرے یا سردار میں پائی جاتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں دین سے ناواقفیت اوردین کے نام پر دوانتہائوں کا پایا جانا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے کہ ایک جانب یہ ایسی شدت پیدا کرتی ہے کہ ایک خاتون اپنے گھر میں اجنبی اور ایک کمرے میں مقید ہو کررہ جائے اور وہ صرف شوہر اور حقیقی اولاد کے ساتھ تو بات چیت کر سکے، بلاتکلف کھانے میں شریک ہو سکے لیکن ان کے علاوہ اقربا اور رشتہ داروں سے مکمل قطع رحمی پر مجبور کرد ی جائے۔ دوسری طرف وہ انتہا بھی ہے کہ حجاب کو محض نگاہ تک محدود کردیاجائے اور جسم کی عریانی کو معاشرتی ضرورت قرار دے دیا جائے۔ ہمیں ان دونوں انتہائوں سے نکلنا ہوگا اور    مدینہ منورہ کے معاشرے میں صحابیاتؓ کے طرز عمل کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی اور اجتماعی اخلاقیات کے اصولوں کی روشنی میں ایک نیا معاشرہ تعمیر کرنا ہوگا۔ وہ معاشرہ جو قرآن و سنت کے بنیادی اصولوں، شرم و حیا، عفت و عصمت، پاک بازی اور تقویٰ کو عملی زندگی میں ڈھال کر پیش کرسکے۔

اس سلسلے میں تعلیمی حکمت ِعملی ، معاشرتی رسوم و رواج کی تبدیلی، اور سب سے بڑھ کر افراط و تفریط والے ذہن کو بالاے طاق رکھتے ہوئے پوری دیانت اور نفس کے تجزیے و احتساب کے ساتھ اپنے معاملات کو شریعت کے دائرے میں لانا ہوگا۔

شریعت کادائرہ نہ قیدو بند پر مبنی ہے نہ مادرپدر آزادی پر۔ یہ وہ حد و دہیں جو معروف پر مبنی ہیں۔ یہ معروف وہ ہے جو خالق کائنات نے خود متعین کیا ہے۔ یہ معاشرتی تبدیلی و ارتقا کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتا۔ یہ قرآن و سنت کی طرح سے آفاقیت اور عالم گیریت کا حامل ہے۔ اگر گفتگو معروف ہو، اگر معاشرت معروف ہو، اگرمہر معروف ہو، اگر رخصتی بھی معروف ہو، اگر معیشت معروف ہو تو پھر عدل کا قائم ہونا ایک منطقی عمل ہے۔

اس قیامِ عدل کے لیے راستہ صرف ایک ہے: قرآن و سنت سے براہِ راست تعلق، اس کی تعلیمات و احکامات کا کسی حیل و حجت کے بغیر اور مغرب و مشرق کی فکری غلامی سے آزادی کے ساتھ اس کا نفاذ۔

اسلامی شریعت کی بنیاد نہ جنس کی تفریق ہے نہ رنگ و نسل اور زبان کی تفریق ۔ یہ آفاقی اور عالمی حیثیت کے اصولوں پر مبنی وہ شریعت ہے جو قیامت تک کے لیے اصولِ حکمرانی فراہم کرتی ہے اور وعدہ کرتی ہے کہ کسی متنفس کے ساتھ ذرہ برابر بھی ظلم روا نہیں رکھا جائے گا۔ یہ تمام انسانوں کے لیے یکساں حقوق کی علَم بردار اور ان کے عملی نفاذ کی مثال پیش کرتی ہے۔ یہ انسان کو وقار، عزت، اکرام اور معاشرتی وجود سے نوازتی ہے۔ یہ محض مسلم معاشرے میں نہیں بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی اس پر عمل کیا جائے گا ایک صحت مند معاشرے کو وجود میں لائے گی۔ یہی سبب ہے کہ یورپ و امریکا کے وہ بے شمار متلاشیانِ حق جو اپنے معاشروں کے ظلم و استحصال سے بے زار ہیں   یہ جاننے کے باوجود کہ یہ زریں اصولِ شریعت بہت سے مسلم ممالک میں بھی ابھی تک اجنبی ہیں اور مسلم ممالک کے غلام ذہن رکھنے والے فرماںرواان اصولوں کے مفید اور قابل عمل ہونے کا شعور نہیں رکھتے۔ یہ متلاشیِ حق بادِ مخالف کے باوجود اسلام کے سچا اور برحق دین ہونے اور اس دور میں قابلِ عمل ہونے کو دل سے تسلیم کرتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ کامیابی اسلام کی کامیابی ہے۔ اس میں مسلمانوں کی اپنی معاشرتی مثال کا کوئی دخل نہیں۔ اگر مسلمانوں کے معاشرے میں بھی اسلام کو وہ مقام حاصل ہو جائے جو ان متلاشیانِ حق کے دلوں میں اسلام کو حاصل ہے، تو پھر پوری انسانیت کو اس عدل کو دیکھنے کا موقع مل سکتا ہے جوقیامت تک کے لیے صرف اورصرف حق و صداقت ہے اور انسانیت کو معراج پر لے جانے کا واحدراستہ ہے۔

اسلام کی تعلیمات زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہیں۔ ان کا تعلق عقائد کے باب سے ہو یا عبادات سے،یا معاملات، اخلاقیات اورمعاشرت سے، اسلام کا اپنے ماننے والوں سے یہ تقاضا ہے کہ دوسروں کے جو حقوق تم پر عائد ہو تے ہیں، انھیں حتی الامکان پورا کرنے کی کوشش کرو۔ چاہے وہ حقوق چھوٹے چھوٹے مسائل سے متعلق ہوں یا بڑے بڑے مسائل سے ان کا تعلق ہو۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بڑے مسائل کے حل کے لیے کوششیں تو ضرور کرتے ہیں مگر چھوٹے چھوٹے معاملات ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔

انھی میں ایک اہم مسئلہ ’راستے کے حقوق‘ کا  ہے ۔کوئی شخص راستے میں مستقل ٹھکانا نہیں بناتا مگرراستے سے گزرتے ہوئے اس سے اگر کسی کو تکلیف پہنچے تو اس کا اثر کافی دیر تک محسوس کیا جاسکتا ہے ۔راستے کے حقوق کیاہیں؟ شریعت نے کن امور کی نشان دہی کی ہے؟ کن امور کا خیال رکھنا اور کن کاموں سے بازرہنے کی اس نے تلقین کی ہے تاکہ ہر کسی کی زندگی اچھے طریقے سے گزرے؟ ان سوالوں کا جواب اس تحریر میں پیش ہے۔

راستے سے مراد صرف گلی یا سڑک کاراستہ نہیں، بلکہ اس کے مختلف مفاہیم ہیں، مثلاً: lکسی محلے/سوسائٹی میں جانے والا راستہ lکسی تعلیمی/کاروباری ادارے میں مختلف کلاسوں یا دفاتر میں جانے والا راستہ l شاہراہیں (موٹر ویز اور عمومی پگڈنڈیاں بھی)۔

ان راستوںکے کچھ حقوق ایک جیسے ہیں اور کچھ متفرق ہیں۔ ان تمام میں مشترک بات  یہ ہے کہ یہ تمام لوگوں کی مشترکہ گزرگاہ ہو، اس پر کسی کی خاص ملکیت نہ ہو۔ 

راستے کے حقوق کے حوالے سے متعدد احادیث مروی ہیں جن میں مختلف احکامات ملتے ہیں۔ ایک حدیث میں حضرت ابو سعید خدری ؓ روایت کرتے ہیں، رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’راستوں پر بیٹھنے سے پر ہیز کرو‘‘۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: ’’ہماری مجبوری ہے کہ ہم محفل جماتے ہیں اور آپس میں گپ شپ کر تے ہیں‘‘۔رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’اگر اتنی ہی مجبوری ہے تو راستے کا حق ادا کرو‘‘۔صحابہؓ نے پوچھا: ’’راستے کا حق کیا ہے ؟‘‘فرمایا:’’نظروں کو جھکا کر رکھو،تکلیف دہ چیز کو دُور کرو،سلام کا جواب دو اور امر بالمعروف  اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرو‘‘۔(بخاری، ۲۴۶۵)

اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ نبی کریمؐ نے راستوں میں بیٹھنے کی ممانعت فرمائی ہے، لیکن اگر اتنی ہی مجبوری ہے تو پھر چند امور کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔واضح رہے کہ راستوں پر بیٹھنے سے مراد دکانوں ،ہوٹلوں ،مساجد کے باہر،گلی کے کونے میں کھڑے ہو نا اور اسی طرح بیچ راستے میں گاڑی روک کر بات چیت کرنا یا کسی کا انتظار کرنا بھی، اس میں شامل ہے ۔

آج کل ہم پریشان ہوتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں تو اخلاق کا خیال رکھ کر گفتگو کی جاتی ہے مگر یہ چھوٹے بچے کہاں سے گالیاں اور اخلاق سے گری ہوئی باتیں سیکھ کر آتے ہیں ؟اگر اس کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ بچے باہر سے یہ سب کچھ سیکھ کر آتے ہیں ۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات بازار میں موجود دکان داروں کا رویہ ہے۔ اکثر ان کی گفتگو اخلاقیات سے عاری ہوتی ہے۔   وہ اس چیز کا خیال نہیں رکھتے، حتیٰ کہ بازاری گفتگوکا محاورہ عام ہوگیا ہے۔لہٰذا جو شخص بھی راستے میں بیٹھا ہے یا دکانوں کے آگے کرسیاں لگا کر بیٹھا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنی گفتگو میں اخلاقیات کا خیال رکھے، تاکہ غیر اخلاقی گفتگو نہ ہو، اور بچوں کی اخلاقیات پر بھی اس کا اثر نہ پڑے۔

وہ امور جن کا خیال رکھنا ضروری ہے:

  •  نظروں کی حفاظت: راستے کا سب سے پہلاحق ہے کہ وہاں بیٹھنے والا اپنی نظروں کی حفاظت کرے ۔کیوںکہ وہاں سے گزرنے والوں میں خواتین بھی شامل ہوں گی۔ اس لیے آدمی وہاں بیٹھ کر ہرکسی کو گھورتا نہ رہے، خاص طور پر خواتین کو۔ ایک تو اس لیے کہ یہ شریعت کے منافی ہے، دوسرے یہ کہ اس میں اخلاقی قباحت بھی ہے ۔حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نظر پڑجانے کے حوالے سے پوچھا تو نبی کریمؐ نے مجھے حکم دیا کہ: ’’میں اپنی نگاہ پھیر لوں‘‘۔(مسلم، ۲۱۵۹)

اس میں صرف وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو باہر راستے پر جارہے ہوں بلکہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جو کسی کاروباری ادارے میں کام کرتے ہیں یا کسی کام کے سلسلے میں ان کا وہاں جانا ہوتا ہے۔ اور اسی طرح وہ لوگ بھی اس حکم میں شامل ہیں جو کسی مخلوط تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان کا واسطہ نامحرم سے پڑتا ہے۔

  •  تکلیف دہ اشیا ھٹانا: اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ایمان کے ستّر اور کچھ شعبے ہیں یا فرمایا: ساٹھ اور کچھ شعبے ہیں ،پس اس میں سب سے افضل لا الہ الا اللہ اور سب سے ادنیٰ راستے سے تکلیف دہ چیز کو دُور کرنا ہے، اور حیا ایمان کا حصہ ہے۔(مسلم)

یعنی ’ایمان‘ دراصل اعمال اور معاملات تک کا نام ہے۔ کسی ایک جز کو ’ایمان‘ نہیں کہتے، بلکہ تمام اجزا مل کر ایمان کی تکمیل کرتے ہیں ۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹانا اجر کا کام ہے اور اس میں ضروری نہیں کہ کوئی بہت بڑی چیز آپ دُور کریں، حتیٰ کہ تکلیف دینے والا ایک کانٹا ،کوئی اینٹ کا ٹکڑا بھی اگر کسی نے ہٹایا تو اس پر بھی اس کو اجر ملے گا۔

رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا:’’ ایک شخص راستے سے گزر رہا تھا کہ اس نے ایک کانٹا دیکھا اور اسے راستے سے ہٹا دیا، پس اس فعل پر اللہ نے اس کی قدر دانی کی اور اسے بخش دیا‘‘۔(بخاری، ۲۴۷۲)

اس شخص کواللہ تعالیٰ نے اس لیے معاف کر دیا کہ اس کے فعل کا فائدہ دوسروں کو پہنچ رہا تھا اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے جنت میں داخل کردیا ۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں: رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ ہے‘‘۔پھر فرمایا:اور راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانابھی صدقہ ہے ۔ (بخاری، ۲۹۸۹)

’تکلیف دینے والی‘ وہ تمام چیزیں ہیں، جو وہاں سے گزر نے والوں کے لیے تکلیف دینے کا سبب بنیں۔ان میں بے سبب بیریئر لگانا بھی شامل ہے۔ جو شخص اس طرح کے بیرئیر ہٹانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو اجر ملے گا اور وہ جنت کا مستحق بھی ہوگا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ایک شخص نے راستے سے کانٹا ہٹایا جس نے کبھی نیک کام نہیں کیا تھا ،یا راستے میں [رکاوٹ بننے والا] درخت تھا جسے اس نے کاٹ کراکھاڑ دیا،یا  وہ درخت راستے میں گرا ہوا تھا، اس نے ایک طرف کر دیا، پس اس کے اس عمل کی اللہ نے قدر دانی کی اور اسے جنت میں داخل کر دیا‘‘۔(سنن ابوداؤد، ۵۲۴۵)

راستے میں تکلیف کی باعث چیزیں

حدیث کے الفاظ کَفُّ الْاَذَیٰ ایک جامع کلمہ ہے۔ اس میں ہر طرح کی تکلیف دیناشامل ہے، چاہے وہ اپنے عمل کی وجہ سے ہو یا اپنے قول یا اشارے سے، حتیٰ کہ صرف نظروں سے بھی کسی کو تکلیف دینا شامل ہے ۔جو چیزیں راستے میں تکلیف کا باعث بنتی ہیں وہ درج ذیل ہیں :

  •  پروگرامات کا انعقاد: قناتیں لگا کر راستہ بند کرنا بھی تکلیف دینے میں شامل ہے۔ البتہ ایسی جگہ پر قنات/شامیانا لگانا جہاں لوگوں کو کوئی اعتراض نہ ہوتو اس کی گنجایش ہوسکتی ہے۔ اس میں ہر طرح کے پروگرامات شامل ہیں، چاہے وہ شادیاں ہوںیا مذہبی نوعیت کے پروگرامات۔  اگر اس سے لوگوں کو تکلیف پہنچ رہی ہے تو راستہ بند کرکے ان پروگرامات کا انعقاد شریعت کی نظر میں ناپسندیدہ کام ہے ۔
  •  نظروں سے تکلیف دینا :تکلیف دینے میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ کوئی شخص وہاں سے سامان لے کر گزر رہا ہو اور راستے میں بیٹھا شخص اس کے سامان پر نظریں جما کر بیٹھ جائے، تانک جھانک کرے کہ یہ کیا لے کر جا رہا ہے ۔
  • کہانے کی چیزیں راستے میں ڈالنا: تکلیف دہ چیز راستے سے ہٹانے سے مراد  کیلے کے چھلکے بیچ راستے میں نہ پھینکے جائیں، پانی اور کولڈ ڈرنک کی بوتلیں راستے میں نہ پھینکی جائیں اوراسی طرح کی جو  چیزیں تکلیف دینے کا باعث ہوں ان سے اجتناب کیا جائے ۔
  • راستے میں کہدائی کرنا : یہ بات بھی تکلیف دہ ہے کہ بیچ راستے میں کوئی شخص اپنے مقصد کے لیے گڑھا وغیرہ کھودے اور پھر اس کو صحیح طریقے سے ہموار کرکے بند نہ کرے ۔اس میں انفرادی طور پر بھی لوگ شامل ہیں اور ادارے بھی۔ کیوںکہ کچھ ادارے، مثلاً واپڈا ،سوئی گیس، ٹیلی فون وغیرہ کے ادارے اپنے صارفین کو سہولیات مہیا کرنے کے لیے سڑکوں کی کھدائی کردیتے ہیں مگر پھر صحیح طور پر اسے بند نہیں کرتے ۔لہٰذا، انھیں چاہیے کہ سہولت مہیا کرنے کے بعد انھیں اذیت میں مبتلا نہ کریں بلکہ اس راستے کو صحیح طور پر بند کریں ۔
  • پانی کی ٹنکی بنانا / رکہنا:آج کل راستوں میں مسافروں کے لیے جگہ جگہ پانی کی ٹنکیاں رکھی جاتی ہیں، جو ایک اچھی سوچ اور قابلِ اجر کام ہے۔لیکن اس میں بھی اس بات کا خیال رکھنابے حدضروری ہے کہ یہ کسی ایسی جگہ پر نہ ہوں کہ ان کی وجہ سے راستے میں کیچڑ ہو اور وہاں سے گزرنے والوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایک شخص راستے سے گزر رہا تھا کہ اس  دوران اسے پیاس لگی تو وہاں اس نے ایک کنواں پایا۔ پس وہ اس میں اُترا اور سیراب ہو کر باہر نکلا تو اس نے وہاں ایک کتا دیکھا جو پیاس کی شدت سے مٹی چاٹ رہا تھا۔  اس نے سوچا کہ اسے بھی اتنی ہی پیاس لگی ہے جتنی تھوڑی دیر قبل مجھے لگی تھی۔ پس وہ کنویں میں اترا اور اپنا موزہ پانی سے بھرا اور کتے کو پلا دیا۔ اللہ نے اس کی قدر دانی کی اور اس کی بخشش فرما دی‘‘۔ صحابہ ؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! کیا جانوروں میں بھی ہمارے لیے اجر ہے ؟آپؐ نے فرمایا: ہرذی روح جگر والے میں اجر ہے ۔(بخاری، ۲۴۶۶)

امام بخاری ؒ نے اس حدیث کا عنوان بَابٌ فِی الْآبَارِ عَلَی الطُّرُقِ اِذَا لَمْ یَتَأَذَّ بِہَا باندھا ہے،یعنی راستے میں کنواں بنانے کاحکم، جب اس سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے ۔اس کامطلب یہ ہے کہ پانی پلانابڑے اجر وثواب کا کام ہے اور ایک ایسا کام ہے کہ اگر کسی جانور کی بھی پیاس بجھائی جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی بھی قدر کرتے ہیں۔ تاہم، اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس سے کسی کو تکلیف نہ ہو ۔نہ اس کی وجہ سے راستہ تنگ ہو اور نہ راستے میں کیچڑ اور گندگی وغیرہ پیدا ہو ۔ 

  •  اوور ٹیکنگ(overtaking): گاڑی چلاتے وقت بے ڈھنگے انداز میں اوور ٹیکنگ کرکے کسی کو پریشانی میں مبتلا کرنا بھی تکلیف دینا ہے۔ البتہ اگر او رٹیکنگ کے قواعد کا لحاظ رکھا جائے اور جہاں قانون اجازت دے تو پھر وہاں اس کی ممانعت نہیں ہے،مثلاً جب تک آپ محفوظ طریقے سے ایسا نہ کرسکتے ہوں اور ٹیک نہ کریں ۔آئینوں کا استعمال کیجیے اور باہر کی طرف نکلنے سے پہلے اشارہ جلائیں ۔رات اور کم روشنی کے وقت جب گاڑیوں کی رفتار اور فاصلے کا اندازہ مشکل ہوتا ہے اور ٹیک کرنے کے وقت زیادہ احتیاط کریں۔(شاہراہوں اور موٹر وے کا ضابطہ، محمدزکریا ساجد، ص ۳۳)
  • اشارے کی خلاف ورزی: اس میں دوسری طرف سے آنے والی سواری پریشانی میں مبتلا ہوسکتی ہے۔ایسے چوک پر جہاں ٹریفک اشاروں سے کنٹرول کی جاتی ہے ۔وہاں سرخ بتی جلنے پر لازم ہے کہ آپ سڑک کے آرپار بنائی گئی سفید رکنے والی لکیر کے پیچھے سڑک پر سبز بتی کے جلنے تک کھڑے رہیں(ایضاً، ص ۳۷)۔اسی طرح دھواں چھوڑتی گاڑیوں کی وجہ سے راہ گزرتے مسافر پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے لوگوں کو سانس کی تکلیف ہوتی ہے اور سامنے کچھ نظر بھی نہیں آتا۔ اس لیے یہ چیز بھی ممنوع ہے ۔
  •  ھارن اور آلات ِ موسیقی کا استعمال :اسی طرح کَفُّ الْاَذَیٰ میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ کسی نے اپنی گاڑی میں تیز آواز والا پریشر ہارن لگوایا ہو اور اسے بجاتا ہواگزرے یا بغیر سائلنسر والی گاڑی میں سوار ی کرے جس کی آوازکی وجہ سے لوگوں کو تکلیف ہواوراسی طرح  تیز آواز میں گاڑی کا ساؤنڈ چلائے ۔اس میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے :  جب آپ کی گاڑی چل رہی ہو تو ہارن کا صرف اس وقت استعمال کریں جب آپ دیگر سڑک استعمال کرنے والوں کو اپنی موجودگی کے بارے میں متنبہ کرنا چاہتے ہوں، اور کبھی بھی ہارن کو غصے میں نہ بجائیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور باربرداری والی گاڑیوں میں آلات ِ موسیقی، مثلاً ریڈیو، ٹیپ ریکارڈ یا مونو گرام وغیرہ کا استعمال ممنوع ہے۔ (ایضاً، ص ۴۹)

یہ امر بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ اس میں صرف لہو و لعب کی موسیقی منع نہیں ہے بلکہ تیز آواز میں تلاوت یا نعت وغیرہ بھی سننا منع ہے۔ کیوںکہ اس سے بھی لوگ ذہنی طور پر متاثر ہوتے ہیں کہ کوئی کسی کام میں مصروف ہو ،کوئی بیمار ہو یا کوئی نماز پڑھ رہا ہو توان کے ان کاموں میں خلل پیدا ہوتا ہے۔

  • غلط پارکنگ:گاڑی کو غلط جگہ پر کھڑا کرنا بھی کسی کو ایذا دینے میں آتا ہے ۔اس میں ہوتا یہ ہے کہ ایک شخص کسی غلط جگہ گاڑی پارک کرتا ہے تو بعد میں وہاں گاڑی پارک کرنے والے اس کی پیروی کرتے ہوئے گاڑی پارک کرتے ہیں اور گاڑیوں کی لائن لگ جاتی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کا وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور آمدورفت میں پریشانی بھی ہوتی ہے۔حتیٰ کہ جہاں گاڑی پارک کرنا ممنوع ہوتا ہے، وہاں پہ بھی گاڑی پارک کرنے سے لوگ نہیں چوکتے اور قانون کی خلاف ورزی کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ شریعت کی نگا ہ میں ناپسندیدہ عمل ہے کہ انتظامی اور عوام کی بھلائی کے لیے کوئی قانون بنایاجائے اور اس کی خلاف ورزی کرکے عوام کو پریشانی میں مبتلا کیا جائے ۔ کہیں کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ جن کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو غلط پارکنگ سے روکیں الٹا وہ خود پبلک ٹرانسپورٹ چلانے والوں کی غلط مقامات پر کھڑے ہونے کی سرپرستی کر رہے ہوتے ہیں۔لہٰذا ٹریفک پولیس کے ادارے کو بھی اس کا جائزہ لینا چاہیے اور سختی سے اس کو روکنا چاہیے تاکہ لوگ اس ادارے پر اعتماد کر سکیں اور ان کے بنائے ہوئے قوانین پر بخوشی عمل کریں۔     
  •  جارحانہ انداز میں گاڑی چلانا: جارحانہ انداز میں ڈرائیونگ نہ کریں ۔اگر کوئی دوسرا ڈرائیور مسئلہ پیدا کر رہا ہو تو درگزر کریں اور اس سے نہ الجھیں ۔اگر آپ کو غصہ آجائے تو گاڑی کھڑی کر لیں اور دل ودماغ کو پُر سکون ہونے دیں ۔ رہایشی علاقوں کی تنگ سڑکوں جن پر گاڑیاں بھی کھڑی ہوتی ہیںعموماً آپ کو ۳۰کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بڑھنا نہیں  چاہیے۔(ایضاً، ص ۹۶)
  • زمین کی حدود سے بڑھ کر قبضہ کرنا:اپنے گھر کی حدود سے بڑھ کر زمین پر قبضہ کرنا ،دکان کے آگے قبضہ کرنا، یا راستے میں کوئی چیز بیچنے کے لیے کھڑے ہوجانا، یہ تمام چیزیں اس وجہ سے ممنوع ہیں کہ اس کی وجہ سے راستہ تنگ ہوجاتا ہے اور سڑک پر آمدو رفت اور ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے۔ کچھ دکان دار اپنی دکان کے آگے کسی اور کو اپنا سامان بیچنے کے لیے کھڑا کردیتے ہیں اور پھر اس سے پیسے بھی لیتے ہیں۔ یہ عمل تو اور زیادہ قبیح ہے۔ اس لیے کہ ایک توایسی  زمین پر قبضہ کیا جو اس کی ملکیت نہیں تھی اور پھر برائی کی سرپرستی کی کہ راستہ تنگ ہوگیا، اور اس پر مستزاد یہ کہ پیسے بھی وصول کیے جو اس کا حق نہیں تھا ۔یہ صرف انفرادی سطح کی بات نہیں ہے بلکہ آئے روز خبریں آتی ہیں کہ فلاں علاقے کی پولیس یا کوئی بڑا افسر ان ناجائز کاموں کی سرپرستی کررہا ہے ۔لہٰذا انفرادی اور اجتماعی/اداراتی سطح پر اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔
  • پرنالہ سڑک پر گرانا:راستے کے تکلیف دہ امور میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ اپنے گھر کا پرنالہ باہر سڑک پر گرائیں۔ اس کی وجہ سے سڑک پر پانی اور پھر کیچڑ جمع ہوتا ہے اور لوگوں کو آنے جانے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ چیزبھی ممنوع ہے ۔اسی طرح گھر کا صحن یا گلی دھو کر پانی سڑک یا گلی میں بہادینا ،جس سے آنے جانے والوں کو تکلیف ہو، یہ بھی مناسب نہیں۔

یہ تمام چیزیں صرف اس وجہ سے ممنوع ہیں کہ اس سے راستہ تنگ ہوجاتا ہے اور لوگوں کو آمدورفت میں تکلیف ہوتی ہے۔غرض یہ کہ راستے میں کسی کوآپ کے کسی بھی عمل سے تکلیف نہ پہنچے یہ شریعت کا مطالبہ ہے ۔  

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’لوگوں میں بہترین وہ ہے جو انھیں فائدہ پہنچا نے والا ہو‘‘(مسندالشہاب، ۱۲۳۴)۔لوگوں کو آپ کی ذات سے فائدہ پہنچے۔ کسی کو آپ کی وجہ سے نقصان یا پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔ اسی بات کو لے کر حضرت ابوذر ؓ نے نبی کریمؐ سے سوال کیا تھا: یارسولؐ اللہ! آپؐ کا کیا خیال ہے اگر میں کوئی بھلائی کا کام کرنے سے عاجز آجا ؤں؟آپؐ نے فرمایا: اپنے شر سے لوگوں کو بچائے رکھو، پس یہ تمھاری طرف سے تمھارے نفس پر صدقہ ہے۔(مسلم، ۱۱۹)

وہ شخص جو لوگوں کے لیے مصیبت کا باعث بنتا ہے اور اس کے شر کی وجہ سے لوگ اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیں تو قیامت کے دن اللہ کے نزدیک اس کا سب سے بد ترین درجہ ہو گا ۔ اس میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ آپ کے رویے کی وجہ سے لوگ آپ کی گلی سے گزرنا چھوڑ دیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’بے شک اللہ کے نزدیک قیامت کے دن سب سے بد ترین شخص وہ ہوگا جس کے شر سے بچنے کے لیے لوگ اس سے ملنا چھوڑ دیں‘‘۔(سنن ابوداؤد، ۴۷۹۱)

اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آپ کے قول وفعل یا کسی بھی عمل سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، چاہے وہ جسمانی تکلیف ہو یا روحانی،وقتی ہو یا دائمی،بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ۔ ہمیشہ آپ کی ذات سے دوسروں کو نفع پہنچے۔

ایک موقعے پرکچھ لوگ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس کھڑے ہوگئے اور ان  سے فرمایا :کیا میں تم میں سے بد ترین اور بہترین شخص کا نام بتاؤں؟ راوی کہتے ہیں کہ یہ سن کر وہ لوگ خاموش رہے۔آپؐ نے تین مرتبہ یہ بات پوچھی تو ایک شخص نے کہا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! ہم میں سے بد ترین لوگوں میں سے بہترین اشخاص کی نشان دہی فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا:تم میں سے بہترین وہ ہے، جس سے بھلائی کی امید ہو اور جس کے    شر سے لوگ محفوظ ہوں ،اور تم میں سے بد ترین وہ ہے جس سے خیر کی ذرا بھی امید نہ ہو اور اس کے شر سے بھی حفاظت نہ ہو۔ (بخاری، ۲۲۶۳)

  •  سلام کا جواب دینا: اسلام کی بنیاد اور اس کی پہچان امن و سلامتی ہے۔ اس کے اظہار کے لیے اپنے ماننے والوں سے اس کا مطالبہ ہے کہ سلام پھیلائو۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسولؐ اللہ سے پوچھا: اسلام میں بہترین عمل کون سا ہے ؟آپؐ نے فرمایا:کھانا کھلانا اور جسے پہچانتے ہو یا نہیں پہچانتے اسے سلام کرنا ۔ (بخاری، ۲۸)

سلام کرنے کی وجہ سے سامنے والے کوایک طرح کا  اطمینان ہو جاتا ہے کہ اس شخص سے مجھے کوئی خطرہ نہیں ہے۔سلام کا جواب دینا بھی راستے کے حقوق میں سے ایک حق  ہے ۔نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا :اور جس سے ملاقات ہو اسے سلام کرنا صدقہ ہے (سنن ابوداؤد، ۵۲۴۵)۔  خود قرآنِ مجید میں حکم دیا گیا ہے کہ سلام کا اس سے اچھے طریقے سے یااسی طرح جواب دو:’’اور جب تمھیں سلام کیا جائے تو اس سے احسن انداز میں اس کا جواب دو یا اسی طرح لو ٹا دو۔ بے شک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے‘‘(النساء ۴:۸۶)۔ حدیث میں آتا ہے کہ جو جتنے اچھے طریقے سے سلام کرتا ہے اسے اتنا ہی اجر ملتا ہے ۔

حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے السلام علیکم کہا۔ آپؐ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور وہ شخص بیٹھ گیا۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: ۱۰۔پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہا اور بیٹھ گیا۔ آپؐ  نے اس کے بھی سلام کا جواب دیا اورفرمایا: ۲۰۔ پھر ایک تیسرا شخص آیا اور اس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا اور بیٹھ گیا۔اس کے بھی سلام کا جواب دینے کے بعد آپؐ نے فرمایا:۳۰۔(سنن ابوداؤد، ۵۱۹۵)

راستے میں مختلف طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ کوئی پیدل ہوتا ہے تو کوئی گاڑی میں سوار، کوئی بیٹھا ہوتا ہے تو کوئی گزرنے والا۔ اب اس میں مختلف احکامات ہیں کہ کون کسے سلام کرے۔ اس کے احکامات بھی ہمیں اسلام کی تعلیمات میں ملتے ہیں۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا: سوار، پیدل چلنے والے کو سلام کرے، پیدل گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو،اورکم لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔ (بخاری، ۶۲۳۳)

آج کل سلام نہ کرنے کا اتنا رواج ہو چلا ہے کہ اگر راہ چلتے کو ئی کسی کو سلام کر ے تو وہ شخص پریشان ہو جا تا ہے کہ مجھے کس نے سلام کر دیا؟ اس لیے سلام کوعام کرنے کی ضرورت ہے۔نبی کریمؐکی حدیث کی رو سے جنت میں لے جانے والے اعمال میں سے ایک اہم عمل آپس میں سلام کوپھیلانابھی ہے۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم جنت میں ہرگز داخل نہیں ہو سکتے، حتی ٰ کہ ایمان نہ لے آؤ۔اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔کیا میں تمھیں ایک ایسی چیز کے بارے میں نہ بتاؤںکہ تم اسے اختیار کرو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے؟آپس میں سلام کو پھیلاؤ۔ (مسلم، ۱۹۴)

 خیال رہے کہ کچھ لوگ ہاتھ ملانا درست نہیں سمجھتے۔ ہاتھ ملانا ضروری نہیں ہے، لیکن اگر کوئی شخص سلام کرنے کے ساتھ ہاتھ بھی ملاتا ہے تو کوئی مضائقہ نہیں اور ہاتھ ملانے یا نہ ملانے کے حوالے سے شدت اختیار نہیں کرنی چاہیے۔کیوںکہ یہ کوئی لازمی حکم نہیں ہے کہ اس کو اختیار نہ کرنے سے گناہ ہوگا۔ یہ کوئی ایسا کام بھی نہیں ہے کہ اس کو اختیار کرنے سے بدعت کا ارتکاب ہوگا کیوںکہ حدیث مبارکہ میں اس کے جواز کا پہلو ملتا ہے ۔حضرت براء ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بھی دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے ان کی بخشش کر دی جاتی ہے۔(سنن ابوداؤد، ۵۲۱۲)

  • امر با لمعروف ونہی عن المنکر: راستے کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ جو شخص وہاں منکر ہوتے ہوئے دیکھے تو اسے اپنی استطاعت کے مطابق روکے اوراسی طرح وہ اچھائی کا حکم دینے کا فریضہ ادا کرے۔مسلمان پر جس طرح نماز ،روزہ ،زکوٰۃ فرض ہے، اسی طرح امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض بھی ایک اہم فریضہ ہے ۔اس فریضے کو ادا کرنے کے مختلف درجات ہیں۔ صرف قوت و اقتدار ہی اس میں شامل نہیں ہے۔

حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو تم میں سے منکر ہوتے ہوئے دیکھے پس اسے چاہیے کہ اس کو ہاتھ سے روکے۔اگر اس کی استطاعت نہ ہوتو اپنی زبان سے۔اگر اس کی استطاعت نہ ہوتو اپنے دل میں اسے براکہے اور یہ ایمان کا سب سے ادنیٰ درجہ ہے ۔ (مسلم، ۷۸)

اس حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فریضہ ہر مسلمان  پر لازم ہے۔ یہ صرف حکومتی ذمہ داران کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اسی طرح اس فریضے کی ادایگی کا طریقۂ کار بھی مختلف ہے۔ صرف ایک ہی طریقۂ کار وضع نہیں کیا گیا ۔البتہ فضیلت کی بنیاد پر مختلف درجات ہیں۔ سب سے اعلیٰ درجہ برائی کو ہاتھ سے روکنا ہے ،اس کے بعد زبان سے اس کے خلاف جہاد کرنے کا درجہ ہے، اور آخر میں دل میں اسے بُراکہنے کا درجہ ہے ۔اسی طرح منکر کے حوالے سے ذہن نشین رہے کہ اس سے مراد کسی انسان کی طبیعت جس کی طرف مائل نہیں ہوتی وہ،یا کوئی فقہی اختلافی مسئلہ مراد نہیں ہے بلکہ شریعت کی نگاہ میں جو کام ناجائز ہے وہ مراد ہے۔اگر کوئی راستے میں دیکھتا ہے کہ ایک شخص دوسرے پر زیادتی کر رہا ہے تو وہ کان لپیٹ کر وہاں سے گزر نہ جائے بلکہ زیادتی کرنے والے کو اس سے روکے، یہ راستے کے حقوق میں سے ہے۔

  •  قضاے حاجت سے ممانعت:راستے کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی بھی قضاے حاجت راستے میں نہ کرے کیوںکہ راستے سے گزرنے کا حق سب لوگوں کا ہے۔ اس لیے کسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ راستوں یا انتظار گاہ (جو مسافروں کے لیے بنائی جاتی ہے) میں قضاے حاجت کرکے مسافروں کو پریشانی اور تکلیف میں مبتلا کرے۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسولؐ اللہ نے فرمایا: لعنت کیے گیے لوگوں سے بچو۔ صحابہ ؓ نے پوچھا یارسولؐ اللہ! وہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا: جو لوگوں کے راستے یاان کے سایے کی جگہ میں قضاے حاجت کرتا ہے ۔(مسلم، ۳۹۷)

یاد رہے کہ راستوں کو آلودہ کرنے کے حوالے سے یہ چیز بھی شامل ہے کہ راستے میں  کوڑا کرکٹ ،گندگی اور اسی طرح کی دیگر اشیاڈالی جائیں۔اسی طرح انتظار گاہ میں تھوکنایا ادارے کے اندرونی راستوں پر تھوکنا یہ چیز بھی گندگی پھیلانے کے زمرے میں آتی ہے ۔

راستوںکوصاف ستھرارکھنے میں انفرادی اور اداراتی سطح پر کام کرنے والے لوگ بھی شامل ہیں،مثلاً: بلدیہ کا کام ہے کہ سڑکوں اور گلیوں کی صفائی رکھے اورنکاسی آب (سیوریج) کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے نالوں کی صفائی کرے۔ الا ماشاء اللہ اگر کہیں یہ نظام ٹھیک ہو تو ہو بحیثیت مجموعی جہاں یہ صفائی کرتے ہیں تو ساری گندگی باہر سڑک پر ڈال دیتے ہیں اور اس کو وہاں سے اٹھانے کا کوئی مؤثر انتظام نہیں ہوتا۔ لہٰذا اداروں کو بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

  • راستہ بہولنے والے کو راستہ بتلانا: راستے کا ایک حق یہ بھی ہے کہ کوئی شخص راستہ بھول جائے تو اسے صحیح راستے کی طرف رہنمائی کرنا ۔اس میں کسی نابینا کو راستہ بتلانا بھی شامل ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: جس نے دودھ دھونے کے لیے جانور بطور ہبہ کسی کو دیا، یا کسی کو راستہ بتلایا اس کے لیے ایک غلام آزادکرنے کا اجر ہے (ترمذی، ۱۹۵۷)۔ امام ترمذی ؒ نے اس کی تشریح میں لکھا ہے : آپؐ  کا قول أَوْ ہَدَی زُقَاقًا سے مراد راستہ بتلانا ہے، یعنی راستے کی رہنمائی کرنا ۔

کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اگر ان سے کوئی راستہ پوچھے تو اسے صحیح راستہ نہیں بتلاتے۔ یہ انتہائی نا مناسب عمل ہے ۔ایک حدیث میں تو اللہ کے رسولؐ نے راستہ بتلانے کو صدقات میں شمار کیا ہے۔حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے، رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: راستہ بتلانا بھی صدقہ ہے ۔ (بخاری، ۲۸۹۱)

  •  سواری پر سوار کرنا یا سامان اٹہانے میں مدد دینا: راستے سے گزرتے ہوئے اگر کوئی بزرگ گاڑی پر سوار نہ ہوسکے یا کوئی اورہو جسے سواری پر سوار ہونے میں دقّت پیش آئے، تو اسے سوار ہونے میں مدد دینا، اور اسی طرح کسی کا سامان اٹھانے میں مدد دینا بھی راستے کے حقوق میں سے ہے۔ نبی کریمؐ نے اسے صدقات میں شمار کیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسولؐ اللہ نے فرمایا: ہر جوڑ کے بدلے میں ہر دن صدقہ ہے۔آدمی کو سوار ی پر سوار ہونے میں مدد دینا ، یا اس کا سامان سواری تک اٹھانے میں مدد کرنا بھی صدقہ ہے ۔ (بخاری، ۲۹۸۹)

ہمیں دیکھنا چاہیے اور اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم کہاں تک راستے کے حقوق ادا کرتے ہیں۔ اگر راستے میں جاتے ہوئے کوئی ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھ کر اس پر عمل کرے، تو یقینا اس کی اپنی زندگی بھی خوش گوار ہوگی اور وہ لوگ بھی خوش و خرم ہوں گے جن کواس شخص کی نیکی کی وجہ سے پریشانی سے نجات مل جائے گی۔ اس طرح ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا جذبہ پیدا ہوگااور معاشرے میں سکون و اطمینان اورمحبت و اخوت کی فضا قائم ہوگی ۔ 

مذاہب ِ عالم کا مطالعہ کیا جائے تو اُن کی تعلیمات میں سائلین، محرومین، مستضعفین اور کسی بھی انداز کی معذوری اور محتاجی کے سدباب کے اشارے یا واضح اسلوب موجود ہیں۔ قبل مسیح کے دیگر مختلف افکار اور مذاہب کے راہ نما اپنے اپنے صحائف اور اخبارات کے ذریعے معاشرے کے محروم اور ضرورت مند لوگوں کی بھلائی کے بارے مقتدر حضرات کو آگاہ کرتے رہے۔ بعدازاں ان کی سرداری اپنے ہاتھ میں لے کر ظلم و جبر کا کاروبار عام کرنے والے کامیاب ہوگئے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی آسمانی کتابوں زبور اور انجیل میں اِن طبقات کی فلاح اور بھلائی کے باب موجود ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اللہ کے اذن سے اندھوں کو بینائی بخشنا اور کوڑھ کے مریضوں کو شفایاب کرنا، اُن کی تعلیمات کا عملی نمونہ ہے۔ حتیٰ کہ یہ سلسلۂ ادیان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت مطہرہ تک آن پہنچا اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں معذور افراد کے بارے واضح اور کھلے احکامات کا ذکر کرتے ہوئے آںحضوؐر کی زندگی میں ہی عملی اقدامات کا بندوبست فرمایا۔

  •  تکریمِ انسانیت: رب کائنات نے جتنی مخلوقات کو وجود بخشا، سب سے افضل اور  مکرم انسان کو بنایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍo (التین ۹۵: ۴)ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔

وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ (بنی اسرائیل ۱۷: ۷۰)اور یہ تو ہماری عنایت ہے کہ   ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی۔

متذکرہ بالا آیاتِ مقدسہ کے اسباق میں یہ امر واضح ہو رہا ہے کہ خالقِ کائنات نے نفس انسانی کو بہت عزت و تکریم اور احترام و احتشام سے نوازا ہے۔

  •  رنگ و نسل اور مذھب سے بالاتر: دینِ اسلام ہمیں انسانیت کی تکریم کا جو درس دیتا ہے وہ رنگ و نسل اور مذہب سے بھی بلند ہے۔ انسان کا احترام اُس کے رنگ، اُس کی نسل، خاندان یا مذہب کے باعث نہیں بلکہ انسانیت کا احترام اس کے انسان ہونے کے باعث ہے۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ حجۃ الوداع میں انسانیت کو جو عزت اور وقار عطا کیا گیا ہے وہ دنیا کا کوئی بھی دستور نہیں دے سکتا۔ آپؐ نے فرمایا:

اے بنی نوع انسان! تمھارے خون، تمھارے اموال اور تمھاری عزتیں تم پر اِسی طرح حرام ہیں جس طرح اِس ماہ (ذوالحجہ) اِس شہر (مکہ) میں تمھارے لیے اِس دن (یومِ عرفہ) کی عزت ہے۔(السیرۃ النبویہ، ابن ہشام)

آں حضوؐر نے انسان کی عزت، جان اور مال کو ایک دوسرے پر حرام قراردیا ہے۔ گویا عزت اور جان و مال کے سلسلے میں ساری انسانیت برابر ہے۔ آپؐ کا ذاتی کردار تکریمِ انسانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ایک مرتبہ آں حضوؐر کے سامنے سے ایک جنازہ گزرا۔ آپؐ کھڑے ہوگئے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! یہ یہودی کا جنازہ تھا۔ ارشاد فرمایا: میں نفسِ انسانی کے احترام میں کھڑا ہوا ہوں۔

تکریمِ انسانیت کی بلند ترین سطح یہ ہے کہ انسان دوسرے انسان کی دِل آزاری نہ کرے، اِس کا مذاق نہ اُڑائے، اسے اس کے عیبوں کا طعنہ نہ دے، اسے بُرے ناموں یا القاب سے     نہ پکارے، اسے اپنے سے کم تر یا گھٹیا محسوس نہ کرے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے تکریم انسانیت کا یہ درس دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اُڑائیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ  ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اُڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ    ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد رکھو۔(الحجرات۴۹ : ۱۱)

دینِ اسلام نے زندگی کے معاملات میں ہر انسان کو بلا تمیز رنگ و نسل یا سماجی مرتبہ مساوی حیثیت عطا کی ہے۔ یہ عام سماجی رویہ ہے کہ معذور افراد کو زندگی کے عام معاملات اور میل جول میں نظرانداز کرنے کی روش اختیار کی جاتی ہے۔ قرآنی تعلیمات نے اِس روش اور عادت کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے ہر انسان کو لائقِ عزت و وقار قرار دیا ہے۔

  •  معاشرتی رتبہ اور توجہ کا حق:ایک موقعے پر آںحضوؐر رئوساے مشرکین کو تبلیغ فرما رہے تھے کہ اتنے میں نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن اُم مکتومؓ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دوسروں سے مصروف گفتگو ہونے کی وجہ سے آپؐ حضرت عبداللہ بن اُم مکتومؓ کی طرف متوجہ نہ ہوسکے تو اِس عدم توجہی پر یہ آیت نازل ہوئی:

عَبَسَ وَتَوَلّٰیٓ  o اَنْ جَآئَہُ الْاَعْمٰی o وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰیٓ  o اَوْ یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْرٰیo (عبس۸۰: ۱- ۴) تُرش رُو ہوا اور بے رُخی برتی اس بات پر کہ  وہ اندھا اس کے پاس آگیا۔ تمھیں کیا خبر، شاید وہ سُدھر جائے یا نصیحت پر دھیان دے اور نصیحت کرنا اس کے لیے نافع ہو؟

اِن آیاتِ مبارکہ کے توسط سے اُمت کو یہ تعلیم دی گئی:

 ۱- معذور افراد دیگر افرادِ معاشرہ کی نسبت زیادہ توجہ کے مستحق ہیں۔ دوسرے افراد کو اِن پر ترجیح دیتے ہوئے انھیں نظر انداز نہ کیا جائے۔

 ۲- عزت و وقار کے مرتبے کا تعین سماجی یا معاشرتی حیثیت کو دیکھ کر نہ کیا جائے بلکہ اس کے لیے ذاتی کردار، تقویٰ، اصلاح طلبی اور نیکی کے جذبے کو معیار بنایا جائے۔

 ۳- معذور افراد کو تعلیم سے بہرہ مند کیا جائے کیونکہ وہ دیگر انسانوں کی طرح مفید اور کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔

دین اسلام نے کسی شخص کے جسمانی نقص یا کمزوری کی بنا پر اُس کی عزت و توقیر اور معاشرتی رُتبہ کو کم کرنے کی ہرگز اجازت نہ دی ہے، بلکہ جا بجا ایسے واقعات اور احکامات موجود ہیں جن کی بنیاد پر اللہ اور اس کے رسولؐ نے ایسے لوگوں کو دوسرے انسانوں کی نسبت زیادہ عزت بخشی ہے۔

حضرت عبداللہ بن اُمِ مکتوم نابینا تھے۔وہ حضوؐر کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا کچھ مدعا بیان کرنا چاہتے ہیں اور تعلیماتِ رسولؐ سے بہرہ مند ہونے کی خواہش رکھتے ہیں۔ بینائی نہ ہونے کی وجہ سے اُنھوں نے حاضرِ خدمت ہو کر اپنا مدعا بیان کرنا شروع کر دیا، عین اُسی وقت کچھ اشرافِ قریش بھی آپؐ کے پاس بیٹھے تھے جنھیں آپؐ  دین حق کی تبلیغ فرما رہے تھے۔ دعوتِ حق کی حکمت عملی اور محویت کے باعث آپؐ  عبداللہ ابن مکتوم کی طرف توجہ نہ دے سکے اور اُن کے سوالات کا جواب بھی نہ دیا، بلکہ ابن مکتوم کی بار بار نِدا اَور مداخلت سے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو قدرے ناگواری ہوئی۔ مگر باری تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرمؐ کو متوجہ فرماتے ہوئے اُن کی مخلصانہ طلب اور راہِ حق کی سچی جستجو کو زیادہ اہمیت دینے کی نشان دہی فرمائی۔

ایک اور واقعہ جو بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ حضرت عمرؓ لوگوں کو کھانا کھلا رہے تھے۔ آپؓ نے دیکھا ایک شخص بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا ہے۔ آپؓ نے فرمایا کہ اے بندۂ خدا! دائیں ہاتھ سے کھا۔ اُس نے جواب دیا کہ ’’وہ مشغول ہے‘‘۔ آپؓ آگے بڑھ گئے جب دوبارہ گزرے تو پھر وہی فرمایا اور اُس شخص نے پھر وہی جواب دیا۔ جب تیسری بار آپؓ نے اُس کو ٹوکا تو اُس نے جواب دیا کہ ’’موتہ کی لڑائی میں میرا دایاں ہاتھ کٹ گیا تھا۔‘‘ یہ سن کر آپؓ رونے لگے اور پاس  بیٹھ کر اُس سے پوچھنے لگے کہ: تمھارے کپڑے کون دھوتا ہے اور تمھاری دیگر ضروریات کیسے پوری ہوتی ہیں؟ تفصیلات معلوم ہونے پر آپؓ نے اس کے لیے ایک ملازم لگوا دیا۔ اسے ایک سواری دلوائی اور دیگر ضروریاتِ زندگی بھی دِلوائیں۔ (کتاب الآثار از یوسف ۱:۲۰۸ رقم ۹۲۷ھ)

اِس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومتِ اسلامیہ کا فرض ہے کہ وہ معذور افراد کی ضروریات کا خیال رکھنے میں کوتاہی اور سستی کی مرتکب نہ ہو۔

 ایک پگلی عورت کا واقعہ بھی حدیث میں نقل ہوا ہے جسے متعدد محدثین مثلاً امام مسلمؒ، ابودائودؒ، قاضی عیاضؒ، قسطلانیؒ، ابولیلیؒ اور ذہبیؒ نے حضرت انسؓ کی زبانی تحریر کیا ہے کہ مسجد نبویؐ میں آںحضورؐ صحابہ کرام کے پاس بیٹھے کچھ اہم موضوعات پر گفتگو فرما رہے تھے کہ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک بڑھیا مجمع کے آخر میں کھڑے ہو کر کچھ کہنا چاہ رہی تھی۔ آپؐ اُس کی طرف متوجہ ہوئے۔ اُس نے عرض کیا کہ حضورؐ میں کچھ عرض کرنا چاہتی ہوں مگر سب کے سامنے نہیں۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ عورت پاگل ہے اور ایسے ہی آپؐ  کا وقت ضائع کرے گی۔ آپؐ  کا     چہرۂ اقدس متغیر ہوا فرمایا کہ: ’’پاگل ہے تو کیا انسان نہیں ۔ کیا اِس کی خواہشات اور تمنائیں نہیں ہیں۔ یہ کچھ کہنے آئی ہے‘‘۔ لہٰذا آپؐ  مسجد نبوی سے نکل کر اُس کے ساتھ چل پڑے۔ آپؐ  نے اُس سے اُس کی ضرورت پوچھی اور ساتھ ہی فرمایا کہ تیری ہر بات تسلیم کی جائے گی۔ بڑھیا آگے آگے چلتی رہی اور سرکار دو عالمؐ اُس کے پیچھے پیچھے چلتے رہے۔ مدینے کی ایک گلی کی نکڑ پر بڑھیا نے آپؐ  سے کہا کہ آپ زمین پر تشریف رکھیں۔ آپؐ  بیٹھ گئے۔ بڑھیا نے اپنی پوری داستان سنائی اور رحمتِ دوعالمؐ نے اُس کی ساری ضروریات پوری کر دیں۔ اِس طرح بے سہاروں کو سہارا دینا بھی ایک بڑی عبادت ہے۔

  •  اھلِ قرابت کے نان نفقہ کا حق: اسلام نے جہاں خصوصی افراد کو معاشرے میں عدم توجہی سے محفوظ رکھنے کے احکامات جاری کیے وہاں اُن کے سماجی تحفظ کا بھی اہتمام کیا ہے۔ قدرت نے جہاں انھیں کسی ایک صفت سے محروم کیا وہیں اُن کی معاونت اور مدد کے لیے ان کے حقو ق کا حکم بھی صادر کر دیا:

کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا، یا لنگڑا، یا مریض (کسی کے گھر سے کھالے) اور نہ تمھارے اُوپر اس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھائو یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے، یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچائوں کے گھروں سے، یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے، یا اپنے ماموئوں کے گھروں سے، یا اپنی خالائوں کے گھروں سے، یا اُن کے گھروں سے جن کی کنجیاں تمھاری سپردگی میں ہوں، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھائو یا الگ الگ۔(النور۲۴: ۶۱)

یہاں بے بصر اور جسمانی طور پر معذور افراد کے لیے ایک نعمت اور عطیۂ خداوندی کا اعلان کرتے ہوئے اُنھیں فاقہ کشی اور بھوک و ننگ سے محفوظ کر دیا ہے کہ اہلِ قرابت اُن کی ضروریات اور حقوق سے جان چھڑاتے نہ پھریں اور نہ خصوصی افراد اپنی بے بسی اور اپنوں کی بے مروتی کے باعث خودکشیاں کرتے پھریں۔ دیکھیے کتنے عظیم اور بنیادی چارٹر کا اعلان :

۱- اندھے، بیمار اور جسمانی طور پر معذور (لولے لنگڑے) افراد چونکہ جنگ میں شریک نہ ہو سکتے تھے، لہٰذا اُنھیں قریبی رشتہ داروں کے گھروں سے کھانا کھانے کی اجازت دی گئی۔

۲- قریش اور سردارانِ مکہ معذور افراد کو منحوس اور قابل نفرت خیال کرتے تھے۔ لہٰذا اللہ نے اُن کی تکریم کرتے ہوئے ، اُن کے حقوق اور عزتِ نفس کا اعلان کیا اور جاہلانہ رسوم کا قلع قمع کر دیا۔

۳- ماں باپ اور بہن بھائی معذور افراد کو کراہتاً رشتہ داروں کے گھر چھوڑ آتے تھے تاکہ وہ خود تو خوب سیر ہو کر کھالیں اور یہ کہیں سے روکھی سوکھی کھا لیں۔ رب العزت کو یہ بات پسند نہ تھی لہٰذا ترغیباً والدین اور بہن بھائیوں یا قریبی رشتہ داروں کے گھر سے کھانے کی اجازت دی۔

۴- بہن بھائیوں، چچائوں، پھوپھیوں، ماموئوں، خالائوں کے گھروں سے یا اُن کی   عدم موجودگی میں بھی اُن کے ہاں کھانا کھانے کی اجازت اور رخصت دی گئی۔

۵- رشتہ داروں کے بعد جن گھروں کی کنجیاں اُن کے حوالے کی گئیں وہاں سے بھی کھانے کی اجازت دی گئی۔ دوست احباب کے گھر کو بھی رشتہ داروں کے گھروں سے تشبیہہ دی گئی تاکہ یہ قربت بھی عظمت کی علامت رہے اور خصوصی افراد کے حقوق یہاں بھی محفوظ رہیں۔

۶- بعض لوگ معذور لوگوں کو حقیر سمجھ کر الگ تھلگ بٹھاکر کھانا دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تنہا خوری کی کراہت کو ختم کرتے ہوئے اپنے رسولؐ کے ذریعے اکٹھے کھانے کی ترغیب دی۔

حضرت عمرؓ کا گزر کسی کے دروازے پر سے ہوا جہاں ایک سائل بھیک مانگ رہا تھا۔    وہ ایک بوڑھا آدمی تھا جس کی بصارت زائل ہو چکی تھی۔ آپؓ نے پوچھا: تم اہلِ کتاب کے کس گروہ سے ہو؟ اُس نے کہا :یہودی۔ آپؓ نے اس سے پوچھا: تمھیں کس چیز نے بھیک مانگنے پر مجبور کیا ہے؟ اُس نے جواب دیا: میں بڑھاپے، ضرورت مندی اور جزیہ کی وجہ سے بھیک مانگ رہا ہوں۔ حضرت عمرؓ اُس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور گھر میں سے اُسے کچھ لا کر دیا اور پھر آپؓ نے بیت المال کے نگران کو بلایا اور فرمایا: اِس کا اور اِس جیسے دوسرے لوگوں کا خیال رکھو۔ (کتاب الخراج، اَز ابو یوسف،ص ۱۳۶ )

مدینہ کے اطراف میں ایک نابینا بڑھیا رہتی تھی۔ حضرت عمر فاروقؓ روزانہ علی الصبح اِس کے جھونپڑے میں جا کر اس کے لیے پانی اور دیگر ضروری خدمات انجام دیتے تھے۔ کچھ عرصے بعد آپ کو محسوس ہوا کہ کوئی شخص اِن سے پہلے آکر یہ کام کر جاتا ہے۔ ایک روز تحقیق کی غرض سے  آپ ؓ کچھ رات گزرنے کے بعد وہاں تشریف لے گئے تو دیکھا خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ  اِس ضعیفہ کی خدمت گزاری سے فارغ ہو کر اس کے جھونپڑے سے نکل رہے تھے۔

حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اِس بات کا خاص اہتمام کر رکھا تھا کہ ممالک محروسہ میں کوئی شخص فقر و فاقہ میں مبتلا نہ ہو۔ آپؓ نے حکم جاری کر رکھا تھا کہ ہر مفلوج اور اپاہج فرد کو بیت المال سے ماہانہ وظیفہ دیا جائے۔ (ہندی، کنزالعمال، اسلام اور کفالت عامہ،ص ۷۷)

  •  جھاد اور دفاعی ذمہ داریوںسے استثنا: قرآن حکیم نے اسلامی ریاست کے فروغ اور غلبۂ دین حق کی جدو جہد کے لیے جہاد میں حصہ لینے کو ایمان و استقامت کی جانچ کے معیار کے طور پر بیان کیا اور اس بنیادی ذمہ داری سے راہِ فرار اختیار کرنے کو عذابِ الیم کا سبب قرار دیا۔ تاہم معذور افراد کو اِس کلیدی اور بنیادی ذمہ داری سے مستثنیٰ قرار دیا گیا:

ہاں اگر اندھا اور لنگڑا اور مریض جہاد کے لیے نہ آئے تو کوئی حرج نہیں۔ جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گا اللہ اُسے اُن جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، اور جو منہ پھیرے گا اسے وہ دردناک عذاب دے گا۔(الفتح ۴۸:۱۷)

گویا قانونِ اسلام نے معذور افراد کو ناقابل برداشت ذمہ داریوں سے مستثنیٰ قرار دیے جانے کو اُن کا بنیادی حق قرار دیا اور مزید برآں اِس استثنا سے اِس بات کی نفی کی گئی کہ اِن افراد کو  کم تر نہ سمجھا جائے کہ وہ جہاد میں شریک نہیں ہوئے۔ اسلام کی تعلیمات سے یہ امر واضح ہے کہ:

۱- اسلام معذور افراد کو معاشرے کا قابلِ احترام اور باوقار حصہ بنانے کی تلقین کرتا ہے۔

۲- اسلام اِس امر کی تعلیم دیتا ہے کہ معذور افراد کو خصوصی توجہ دی جائے اور اُنھیں یہ احساس قطعاً نہ ہونے دیا جائے کہ اُنھیں زندگی کے کسی شعبے میں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

۳- معاشرتی اور قومی زندگی میں ان پر کسی بھی ایسی ذمہ داری کا بوجھ نہ ڈالا جائے جو اِن کے لیے ناقابلِ برداشت ہو۔

۴- اسلام کے عطا کردہ جملہ حقوق کی ادایگی میں معذوروں کو ترجیحی مقام دیا جائے تاکہ معاشرے میں اِن کے اِستحصال یا محرومی کی ہر راہ مسدود ہو جائے۔

غزوۂ احد کا واقعہ ہے کہ حضرت عمرو بن جموعؓ جو سب انصارکے بعد اسلام لائے۔ وہ ایک پائوں سے لنگڑے تھے۔ جب آپؐ نے صحابہ کرام کو غزوۂ بدر میں شریک ہونے اور اللہ کی راہ میں جہاد کی تبلیغ فرمائی، وہ جنگ میں شامل ہونے کے لیے تیار ہو گئے۔ اُنھیں اُن کے بیٹوں نے جانے سے منع کر دیا۔ پھر جنگ ِاُحد کا موقع آیا، اُنھوں نے اس بار جہاد میں شرکت کا قوی ارادہ کر لیا۔  مگر اُن کے بیٹوں نے اس بار بھی انھیں بوجہ عذر جنگ میں شمولیت سے منع کیا اور ارادہ ترک کرنے کی ترغیب دی۔ اُنھوں نے اپنے بیٹوں کی بات نہ مانی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! اگر میرے بیٹے جنگ میں شریک ہوسکتے ہیں تو میں بھی ضرور جائوں گا۔ خدا کی قسم میں امید رکھتا ہوں کہ میں شہید ہو کر اپنے لنگڑے پن کے ساتھ جنت میں جائوں گا۔آپؐ  نے فرمایا کہ تمھاری معذوری کی وجہ سے تم پر جہاد فرض نہیں ہے ۔یہ اللہ کی طرف سے تمھارے لیے چُھوٹ ہے مگر حضرت عمرو بن جموعؓ نے کہا کہ میں جہاد میں ضرور جائوں گا۔ آپؐ  نے انھیں جہاد میں شریک ہونے کی اجازت مرحمت فرما دی اور وہ اُسی جنگ میں شہید ہو گئے۔ (اسد الغابہ، حصہ ہفتم، ص ۶۷۸)

  • محروم اور سائل کا حق: اللہ تعالیٰ نے جہاں خصوصی افراد کو کئی ایک معاملات میں استثنیٰ سے نوازا ہے، وہاں اسلامی سوسائٹی کو اُن کے کئی ایک حقوق سے بھی خبردار کیا ہے تاکہ معاشرے کے افراد محرومین کا حق اور اپنا فرض سمجھ کر ادا کریں:

البتہ متقی لوگ اُس روز باغوں اور چشموں میں ہوں گے، جو کچھ اُن کا رب اُنھیں دے گا اِسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے۔ وہ اُس دِن کے آنے سے پہلے نیکو کار تھے، راتوںکو کم ہی سوتے تھے، پھر وہی رات کے پچھلے پہروںمیں معافی مانگتے تھے، اور  اُن کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے۔(الذّٰریٰت۵۱: ۱۵-۱۹)

یہاں متقی مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے حسب ذیل خوبیاں بیان فرمائی ہیں:

 ۱- متقی لوگ اللہ کی نعمتوں پر خوش ہوں گے اور اِس راحت کے عوض وہ مخلوق میں سے محتاج اور معذور لوگوں کے خیر خواہ اور مددگار ہیں، خواہ وہ اُن سے طلب نہ کریں۔

۲- مالِ صدقات، خیرات اور زکوٰۃ کے علاوہ بھی محروم لوگوں پر اپنے رزق اور مال سے خرچ کرتے رہتے ہیں۔

۳- محروم لوگوں پر رحم کرنے کے بجاے اپنے فرائض کی بجاآوری خیال کرتے ہوئے ضرورت مند لوگوں کو تلاش کر کے اُن کی معاونت کرتے ہیں۔

۴- ضرورت مند افراد کو تلاش کر کے اُن کی ضروریات کو پورا کرنا ہی کافی نہیں سمجھتے بلکہ  یہ عمل کرنے کے بعد اللہ کا شکر بھی ادا کرتے ہیں۔

یہ بات جان لینی چاہیے کہ اہل ایمان کے مال و دولت میں سائل اور محروم کے جس حق کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے اُس سے مراد زکوٰۃ نہیں ہے جو شرعاً اُن پر فرض کی گئی ہے، بلکہ یہ وہ حق ہے جو زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی ایک صاحب ِاستطاعت مومن اپنے مال میں خود محسوس کرتا ہے۔

معذور افراد کی زندگی کو باسہولت بنانے کے لیے مناسب سہاروں کو مہیا کرنا اسلامی معاشرے اور حکومت کا فرض ہے۔موجودہ دور میں معذور اور خصوصی افراد کو وہیل چیئرز، ٹرائی سائیکل، بیساکھیاں، آلۂ سماعت، خصوصی موٹر بائیک، گاڑی، مصنوعی اعضا وغیرہ کی فراہمی کے علاوہ اُن کے لیے تعلیمی سکول، ٹیکنیکل ٹریننگ سنٹر اور دیگر ضروری ادارہ جات کا قیام اسلامی روایات کی روشنی میں صاحبِ استطاعت لوگوں اور حکومت پر فرض ہے۔

کتنے خسارے کی بات ہوگی کہ اگر ہم مسلمان اور مومن بھی کہلوائیں اور اللہ کے بندوں سے تحقیر کا رویہ بھی اختیار کریں۔ زبانیں حمد و نعت سے مزین ہوں اور ان پر طعنے اور بدزبانی بھی رہے۔ رب کو راضی کرنے کا دعویٰ بھی ہو، اور اُس کے بندوں کو ستائیں بھی۔ لوگ ہماری عزت ہمارے شر کے خوف سے کریں۔ ایسے کردار کے حامل لوگوں کے بارے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہماری راہ نمائی اور آخرت کی بہتری کے لیے کافی و شافی ہے:

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ: یَحْسَبُ اَمْرِیْ مِنَ الشَّرِّ اَنْ یَّحْقِرُ اَخَاہُ الْمُسْلِمِ (مسلم،کتاب البرواصلۃ ولادب ج۴، رقم ۲۵۲۴) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مسلمان کے لیے اتنی برائی ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔

اِسلام کے عائلی نظام کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں خاندان کے عناصر کی تعداد بہت وسیع ہے۔ اسلام نے اس حوالے سے جس اہتمام کے ساتھ احکام بیان کیے ہیں، اگر حقیقتاً مسلمان اُن سے آگاہ ہو جائیں، اُن پر اُسی طرح ایمان رکھیں جس طرح ایمان رکھنے کا حق ہے اور حقیقی طور پر اُن کا نفاذ کر لیں تو ایک مضبوط، خوشحال اور باہمی محبت کا خوگر خاندان وجود میں آسکتا ہے۔ اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ ایک مربوط و مضبوط خاندان کی تشکیل عمل میں آئے۔

مغرب اور اسلام کے تصورِ خاندان میں یہ فرق ہے کہ مغرب میں یہ صرف ایک مرد اور ایک عورت کے جوڑے پر مبنی ہے اور کہیں اولاد میں سے بھی کوئی شامل ہوتا ہے ورنہ بیٹے بیٹیاں جوانی کو پہنچتے ہی اپنی راہ لیتے ہیں۔ بچوں کے جوان ہو جانے کے بعد والدین کا اُن سے کوئی عملی تعلق نہیں رہ جاتا۔ اسلام میں خاندان کی بنیادی اکائیاں اگرچہ میاں بیوی ہیں مگر ان کے ساتھ ماں  باپ، بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، بھائی بہنیں، چچا اور پھوپھیاں، ماموں اور خالائیں بھی خاندان کی تشکیل میں شریک ہیں۔ اسلام میں خاندان سمٹا اور سکڑا ہوا نہیں بلکہ وسیع اور پھیلا ہوا ہے۔ یہ چچائوں اور پھوپھیوں کی اولاد (عَصَبَات) اور ماموئوں اور خالائوں کی اولاد (اَرحام) پر مشتمل ہے۔

اسلام متعدد احکام کے ذریعے خاندان کے باہمی تعلقات کومضبوط اور مربوط کرتا ہے۔ اسلام نے ان خاندانی تعلقات کو احکام کے ایک جال کی صورت باہم مربوط کر رکھا ہے۔ صاحب ِاستطاعت اور کشادہ دست کے اوپر ذمہ داری ڈالی گئی کہ وہ تنگ دست اور مجبور و ضرورت مند پر خرچ کرے۔ ایسے مسائل جن میں اس طرح کے مختلف مصارف پر خرچ کرنے کے احکام بیان کیے گئے ہیں انھیں احکامِ نَفَقات (فی سبیل اللہ خرچ کے احکام)کہا جاتا ہے۔ اَحکامِ دیت کے تحت قتلِ خطا کی دیت کا بیان ہے کہ مقتول کے عَصَبَات (باپ کی طرف سے قرابت دار) اور قبیلہ اس کا حق دار ہے۔ احکامِ میراث کے تحت وراثت کے مسائل بیان کیے گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میراث میں معیّن درجات اور حصوں کے مطابق اقارب کا حق مقرر کیا ہے۔ اسلام کا یہ اہتمامِ احکام بتاتا ہے کہ خاندان کا شیرازہ اس نظام میں متحد رہنا چاہیے۔ کسی شاخ کو اپنی اصل سے جدا نہیں ہونا چاہیے۔

رشتہ و قرابت کے استحکام اور نشوو ارتقا میں اسلام نے خصوصی ترغیب و تحریص سے کام لیا ہے۔ قریبی رشتہ داروں کا حق بیان کرتے ہوئے فرمایا:

 یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِط (البقرہ۲:۲۱۵)لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو۔

کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَ نِ الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ ج حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ (البقرہ۲:۱۸۰) تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو، تو والدین اور رشتے داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔

 لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ وَ لِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْکَثُرَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا (النسائ۴:۷) مردوں کے لیے اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو۔ خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔

احسان کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا:

وَ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی (النسائ۴:۳۶) اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو، ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئو۔

وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا (النسائ۴:۱) اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ  تم پر نگرانی کر رہا ہے۔

قطع رحمی کے انجام سے ڈراتے ہوئے فرمایا:

فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْo اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمْ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمْ وَاَعْمٰٓی اَبْصَارَہُمْ(محمد ۴۷:۲۲-۲۳) اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم الٹے منہ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور رشتہ و قرابت کی رسیاں کاٹ ڈالو گے؟ یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور اُن کو اندھا اور بہرا بنا دیا۔

قرآنِ مجید کی ان تعلیمات اور احکام کی تائید میں احادیثِ رسولؐ بھی وارد ہوئی ہیں: حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسولؐ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ عزّوَجلّ  نے فرمایا ہے: میں اللہ ہوں، میں رحمن ہوں، میں نے رحم (رشتے)کو پیدا کیا ہے، اور اس کا نام اپنے نام سے اخذ کرکے رکھا ہے۔ جو شخص اس رحم کو قائم رکھے گا میں بھی اُس کو قائم رکھوں گا، اور جو اِس کو توڑ دے گا میں بھی اُس کو توڑ دوں گا۔

ایک حدیث میں آیا ہے:مسکین کو صدقہ دینے کا اجر ایک صدقے کا اجر ہے ، جب کہ رشتے دار کو صدقہ دینے کا اجر دوہرا ہے، ایک صدقے کا اور ایک رشتے کا۔

ایک حدیث میں تو یہاں تک آیا ہے:بہترین صدقہ وہ ہے جو ناراض (مخالف اور دشمن) رشتے دار کو دیا جائے۔ اس لیے کہ اُس کے اور صدقہ دینے والے کے تعلقات میں دراڑ آ گئی ہے، محبت اور مودّت باقی نہیں رہی، لہٰذا اُس کے اوپر صدقہ کرنا اپنے نفس کو مارنا اور اِس کے اُوپر غالب آنا ہے اور یہی نفسِ انسانی کی تربیت اور تزکیہ ہے۔

ان اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ صورتِ حال بہت مختلف ہے۔ بھائی اپنے بھائی سے کینہ و کدورت رکھتا ہے۔ دنیا کے مال نے بھائی کو بھائی سے جدا کر دیا ہے۔ یہ صورتِ حال اُس وقت تو اور زیادہ بُر ی ہو جاتی ہے جب معاملہ کسی وراثت سے حصہ لینے کا ہو۔ ہر کوئی لینا ہی چاہتا ہے دینا نہیں چاہتا۔

عفوودرگزر، رواداری اور برداشت کہاں چلی گئی؟ ایثار اور مودّت کا کیا ہوا؟ حالانکہ یہی بھائی اجنبی لوگوں کے ساتھ نہایت درگزر، بے پناہ محبت و الفت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ کمال اخلاق، کشادہ ظرفی اور اعلیٰ انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، مگر بھائی اپنے بھائیوں کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ایک چاہتا ہے کہ دوسرے کو گرا مارے، اُسے تباہ کرکے اپنا آپ سنوار لے۔

یہ درست ہے کہ مفادات کی یہ کش مکش اور جنگ قدیم انسانی تاریخ میں بھی تھی جب انسان واحد کنبہ تھا۔ اُس وقت صرف میاں بیوی اور بیٹے بیٹیاں ہی انسانی خاندان کے کل عناصر تھے۔ اس چھوٹے سے خاندان کے ایک فرد نے بھی اپنے بھائی کوقتل کر دیا تھا اور حسد کا مظاہرہ کیا تھا۔

اس واقعے کی صداقت اپنی جگہ، مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آیندہ بھی ایسے ہی واقعات کا تسلسل جاری رہے۔ انسان کیوں یہ پسند کرتا ہے کہ وہ آدم کا شرپسند اور خبیث بیٹا بن جائے۔ وہ اچھا اور طیب ابن آدم بننا کیوں پسند نہیں کرتا؟ یعنی وہ صالح، نفیس اور امن پسند انسان جس نے قتل ہونا گوارا کر لیا مگر اپنے بھائی پر ہاتھ اٹھانا ایمان کے منافی سمجھا۔ اُس موقعے پر کہے گئے اُس کے الفاظ کے اندر اُس کے صالح جذبات اور ایمانی احساسات کا بھرپور مظاہرہ موجود ہے۔ اُس نے کہا:

لَئِنْم بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ مَآ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْکَ لِاَقْتُلَکَ ج اِنِّیْٓ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَo(المائدہ۵:۲۸) اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہ اٹھائوںگا۔ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔

آج کا انسان قابیل جیسا انسان کیوں بننا چاہتا ہے کہ قیامت تک جو بھی قتل ہو گا اُس کا جرم اور گناہ اُس پہلے قاتل پر بھی ہو گا کیونکہ اُسی نے اس زندگی میں قتل کی روایت کا آغاز کیا ہے۔  خدا کی قسم یہ حقیر دنیا اس قابل نہیں کہ اس کی بنا پر انسانوں کا قتل ہوتا رہے۔ بھائی اپنے بھائی سے دست و گریباں ہو اور تھانے کچہریوں میں مقدمات چلیں، پھر جیلیں اور قید خانے آباد ہوں۔   رشتہ دار اپنے رشتہ دار سے دشمنی مول لیں۔ واللہ یہ دنیا اس قابل نہیں!اگر اس دنیا کا وزن اور قیمت اللہ کے ہاں مچھر کے پَر کے برابر بھی ہوتا تو اللہ کافروں کو اس سے پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پینے دیتا۔

یہ بات باعث افسوس ہے کہ باہمی عداوتوں اور مخاصمتوں میں مبتلا لوگوں کی اکثریت صاحب مال، اہل دولت اور امیروں کی ہے۔ فقیر اور تنگ دستوں کی مخاصمت کے واقعات بہت تھوڑے ہیں۔ اُن بے چاروں کے پاس ہوتا ہی کچھ نہیں جس کے اوپر وہ نزاع کھڑا کریں،جب کہ نزاع پیدا کرنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جن کی سوچ اور خیال یہ ہوتا ہے کہ میں کروڑوں نہیں اربوں کیسے حاصل کر سکتاہوں؟ سوچنا چاہیے کہ انسان یہ اربوں حاصل کرکے بھی اپنے استعمال میں کتنا لاتا ہے؟ انسان دولت کے یہ انبار چھوڑ کر چلا جائے گا کچھ بھی ساتھ نہیں لے جائے گا۔ انسان کو اپنے تعلقات ایسے بنانے چاہییں کہ اُس کے بعد دوسرے اُس کے لیے دعائیں کریں، اور یہ کام خاندان کے افراد کے ساتھ تعلق اُستوار کرکے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

دولت کی قیمت پر خاندان کے تانے بانے کو بکھیرنا، بھائیوں کی جمعیت کو پارہ پارہ کرنا بہت ہلکا سودا ہے۔ یہ شیطان کی پیروی ہے۔ شیطان انسان کو اکساتا ہے، سازشیں کرتا ہے، یہاں تک کہ رشتے داریاں تڑوا ڈالتا ہے۔ دین انسانی زندگی کی دو بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ پہلی بنیاد یہ ہے کہ انسان اور اُس کے معبود، یعنی اللہ کے درمیان تعلق مضبوط تر ہو۔ دوسری بنیاد یہ ہے کہ انسان کے دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات قائم اور اُستوار ہوں، مضبوط اور بہتر ہوں۔ اس تعلق بین الناس کے بھی دو پہلو خصوصی اہمیت رکھتے ہیں:اہل ایمان کے مابین محبت و اُلفت اور اقارب و رشتہ داروں کے مابین تعلقاتِ محبت!چونکہ رشتہ و قرابت کے عناصر کو دیگر لوگوں کی نسبت زیادہ حقوق حاصل ہیں اس لیے مسلم خاندان کی بقا، تحفظ اور نشوو ارتقا کی خاطر ان روابط اور تعلقات کے معاملے میں ہرلمحے خوفِ خدا سے کام لیا جائے۔ ان معاملات میں اپنی دانش مندی، دین داری اور دین پسندی کا مظاہرہ ہو۔ رب کے قرآن اور رسولؐ کی سنت سے رہنمائی لی جائے۔

محبت و اُلفت اور احترام و اکرام پر مبنی روابط اور تعلقات کو قائم رکھنا سب کا فرض ہے۔ رشتہ و قرابت کے تعلقات کو برابری کی سطح پر قائم رکھنا بے معنی اور بے مقصد ہے۔ حدیث رسولؐ میں آیا ہے: رشتے کے ربط و تعلق کو وہ شخص قائم نہیں رکھتا جو بدلے اور برابری کی سطح پر ایسا کرے، بلکہ وہ شخص رشتہ قائم رکھتا ہے جس سے رشتے کو توڑا جائے تو وہ اُسے توڑنے کے بجاے جوڑے۔

صلہ رحمی وہ نہیں کرتا جو جواباً صلہ رحمی کرے۔ دوسرے سے محبت ملے تو وہ بھی اُس سے محبت کرے، کوئی احسان کرے تو وہ بھی احسان کرے، کوئی میل ملاقات رکھے تو وہ بھی اُسے ملتا رہے، کوئی تحفہ تحائف دے تو وہ بھی ایسا کرے۔ ایسا شخص حقیقی صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے۔ صلہ کا معنی ہی ٹوٹی ہوئی چیز کو جوڑنا ہے۔ حقیقی صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جو تم سے کٹ جائے اُس سے جڑے رہو، اور جو تمھیں کچھ نہ دے اُسے تم عطا کرو۔ جو تم پر ظلم کرے اُسے معاف کر دو، اور جو تم سے    بُرا سلوک کرے اُس سے تم حسنِ سلوک سے پیش آئو۔ یہ ہے وہ شان جو ایک خاندان کے افراد و عناصر کے درمیان ہونی چاہیے۔

جب دولت کم تھی، صرف گزارا ہوتا تھا تب خاندان کے ہر معاملے میں لحاظ رکھا جاتا تھا، اب دولت کی ریل پیل ہے مگر خاندانی روابط کو مستحکم کرنے اور صلہ رحمی کا کوئی اہتمام نہیں۔ تنگی و خوش حالی کی ان دونوں حالتوں کا موازنہ کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ تنگی کے وہ دن بہتر تھے جب خاندانی تعلقات کو قائم رکھنا اہم سمجھا جاتا تھا مگر آج یہ آسانی کے ایام بے وقعت ہیں جب خوش حالی کی بنا پر باہمی عداوتیں اور مخاصمتیں زوروں پر ہیں۔ تعلقات ٹوٹ رہے ہیں، محبتیں کمزور ہو رہی ہیں، کدورتیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ محسن انسانیتؐ نے بجا فرمایا ہے کہ امیری سامان کی کثرت سے نہیں ملتی بلکہ نفس کی بے نیازی اصل امیری ہے۔(qaradawi.net)

اسلام دینِ حق ہے۔ کلمۂ طیبہ کے اندر اللہ کی وحدانیت، ربوبیت اور حاکم مطلق ہونے کا ایمان وعقیدہ موجود ہے۔ یہ کلمہ پڑھنے کے باوجود بدقسمتی سے آج کے مسلمان بھی ان خرابیوں میں ملوث ہوگئے ہیں جن میں مشرکین عرب مبتلا تھے۔ شگون،فال گیری، جادو اور ٹونے ٹوٹکے اس حد تک ہمارے معاشرے میں رواج پا چکے ہیں کہ بعض اوقات یوں لگتا ہے جیسے یہ معاشرہ اسلامی نہیں جاہلی معاشرہ ہے۔ جادواور فال گیری کا دھندہ کرنے والے معاشرے میں یوں نمایاں ہوگئے ہیں کہ ملک کے درودیوار پر جابجا چاکنگ نظر آتی ہے۔ اب تو یہ بیماری یہاں تک پھیل چکی ہے کہ اخبارات اور ذرائع ابلاغ کے اندر بھی اشتہار بازی کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو اس سے برا شگون لینا۔ اسی طرح اور مختلف باطل تخیلات، مثلاً کوئی پرندہ دائیں سے بائیں جائے گا تو کامیابی ملے گی اور اگر بائیں سے دائیں جائے گا تو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا وغیرہ وغیرہ۔ جادو گروں نے عام لوگوں کا ذہن مسموم اور ماؤف کردیا ہے۔ محبت میں کامیابی وناکامی، دشمن کو زیرکرنے کے لیے گنڈے، تعویذ کا گھناؤنا دھندہ عام ہوگیا ہے۔ کمزور ایمان اور باطل عقائد کی وجہ سے کاروبار چمکانے کے لیے ان نوسر بازوں سے رجوع، یہ سال کیسا ہوگا اور یہ ہفتہ کیسا؟ غرض  کون سی بیماری ہے جو یہاں نہیں پائی جاتی۔ اس معاشرے میں منجّم اور ستاروں کا علم رکھنے کے دعوے دار بھی خوب چاندی بنارہے ہیں۔ بے چارے جہلا نہیں جانتے کہ یہ سب انجم شناس محض دعوے اور اٹکل پچو کے ذریعے ان کی جیبیں کاٹ رہے ہیں۔

بقول اقبالؒ     ؎

ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے

کہ خاکِ زندہ ہے ُتو ، تابعِ ستارہ نہیں

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس معاشرے میں تشریف لائے وہ مکمل اندھیرے میں ڈوبا ہوا جاہلی معاشرہ تھا۔ آپؐ نے اس معاشرے کو پہلے باطل عقائد سے پاک کیا، پھر صحیح اسلامی عقائد کے مطابق اعمال اختیار کرنے کی تربیت دی اور بالکل ایک نئی ملت کو وجود بخشا، جس کا ہر کام قرآن وسنت اور دلیل ومنطق کے معیار پر پورا اترتا تھا۔ مشرکین عرب ماہِ صفر اور ماہِ شوال کو منحوس سمجھتے تھے،  حضرت محمد بن راشدرضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اہلِ جاہلیت صفر کو  منحوس سمجھتے ہیںتو آپؐ نے جواب میں فرمایا کہ یہ باطل عقیدہ ہے۔ ماہِ صفر میں کوئی منحوس بات نہیں ہے(سنن ابی داؤد، ح۳۹۱۶)۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ    عرب شوال کو منحوس سمجھتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس مہینے میں شادی نہیں کرنی چاہیے اور نہ کسی مہم پر نکلنا چاہیے،کیوںکہ اس مہینے میں کوئی فعل کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکتا۔ مزید فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلط رسم کو ختم کیا اور آپؐ نے میرے ساتھ ماہِ شوال ہی میں نکاح کیا تھا۔ پھر یہ دیکھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی زوجہ مجھ سے زیادہ نصیبے والی ثابت ہوئی۔ (مسلم، ح ۳۵۴۸)۔حضرت عائشہؓ اپنے خاندان کی بچیوں کی شادی کے لیے ماہِ شوال منتخب کیا کرتی تھیں تاکہ شوال کے بارے میں پرانے عقائد کہیں پھر سے سر نہ اٹھا لیں۔

قرآن پاک میں واضح طور پر بیان فرما دیا گیا ہے کہ نفع ونقصان کا تعلق نہ کسی دن اور موسم سے ہے اور نہ کسی خاص چیز اور مخلوق ہی سے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا اختیار ہے کہ وہ کس کو کب نفع دے گا اور کب اس کے مقدر میں نقصان ہوگا۔ انسان کو ہر عمل شروع کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہیے کہ کام بذات خود حلال اور جائز ہے یا حرام اور ناجائز۔ اگر حلال وجائز نہ ہو تو اس کا ارادہ بھی ترک کردینا ہوگا۔ حلال ہے تو اس کا آغاز اور نیت کرتے ہوئے بسم اللہ پڑھنی چاہیے اور اللہ رب العالمین سے خیروبرکت مانگنی چاہیے۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ نفع ونقصان کا مالک اللہ ہے۔ ساری دنیا کے انسان بھی مل کر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اگر اللہ نہ چاہے۔  اسی طرح تمام بنی نوع انسان مل کر بھی کسی کو نفع نہیں دے سکتے اگر اللہ نہ چاہے۔ صرف حوالے کے لیے ایک آیت لکھ رہے ہیں، اگرچہ اس موضوع پر بہت سی آیات قرآن مجید میں موجود ہیں۔ ارشاد باری ہے: وَ اِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَـلَا کَاشِفَ لَہٗ اِلاَّ ہُوَ وَإِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ یُصِیْبُ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔‘‘ اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے، اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (یونس۱۰:۱۰۷)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ساری دعائیں ہیں جن میں آپؐ نے درپیش کام اور مہم میں کامیابی کے لیے اللہ سے رجوع کیا۔ ایک مختصر اور جامع دعا یہ ہے: اَللّٰہُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَاَنْتَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ، مَاشَائَ اللّٰہُ کَانَ وَمَا لَمْ یَشَائْ لَمْ یَکُنْ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ، اے اللہ تو میرا رب ہے تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں میں تجھی پر توکل کرتا ہوں اور تو عرش عظیم کا مالک ہے، اللہ جو چاہے وہی ہوتا ہے اور جو وہ نہ چاہے وہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ میرا کوئی زور اور قوت نہیں سوائے اللہ پر بھروسے کے، جو بہت بلند اور عظمت والا ہے۔ (البیہقی، الاسماء والصفات، باب ماشاء اللّٰہ کان، ح۳۴۰، روایت حضرت ابوالدرداءؓ)۔ جو لوگ کمزور عقیدے اور توہمات کے جال میں پھنس جاتے ہیں ان کو منزل ہاتھ نہیں آتی۔ بعض اوقات ان کی حرکتیں اپنے انھی توہمات کی بدولت انھیں اضحوکہ (مضحکہ خیز) بنادیتی ہیں۔ یہ مثالیں آج بھی نظر آتی ہیں اور عربوں کے بھی بے شمار واقعات تاریخ میں مذکور ہیں۔ کالے علم کا دھندہ کرنے والے بعض اوقات اپنے ہی گاہکوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتر جاتے ہیں، جب کہ کم وبیش تمام گاہک بھی اپنی عزت، آبرو اور جان تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس سے بڑا نقصان اور المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ایمان اور عاقبت کو برباد کرلیتے ہیں۔

مفسرین نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک عرب اپنے باپ کے قاتل سے بدلہ لینا چاہتا تھا۔ ذوالْخَلَصَہ نامی بت کے آستانے پر جاکر اس نے فال کھلوائی۔ جواب نکلا یہ کام نہ کیا جائے۔ اس پر عرب طیش میں آگیا، کہنے لگا:

لَوْکُنْتَ یَاذَالْخَلَصِ الْمَوْتُوْرَا

مَثَلِیْ وَکَانَ شَیْخُکَ الْمَقْبُوْرَا

لَمْ تَنْہَ عَنْ قَتْلِ الْعُدَاۃِ زُوْرَا

(اے ذوالخلصہ اگر میری جگہ تو ہوتا اور تیرا باپ مارا گیا ہوتا تو ہر گز تو جھوٹی بات نہ کہتا کہ ظالموں سے بدلہ نہ لیا جائے۔)

ایک اور عرب اپنے اونٹوں کا گلہ اپنے معبودسعد نامی کے آستانے پر لے گیا تاکہ ان کے لیے برکت حاصل کرے۔ یہ ایک لمبا تڑنگا بت تھا، جس پر قربانیوں کا خون لتھڑا ہوا تھا۔ اُونٹ اسے دیکھ کر بدک گئے اور ہر طرف بھاگ نکلے۔ عرب اپنے اونٹوں کو اس طرح تِتر بِتر ہوتے دیکھ کر غصے میں آگیا۔ بت پر پتھر مارتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ ’’خدا تیرا ستیاناس کرے۔ میں آیا تھا برکت لینے کے لیے اور تونے میرے رہے سہے اونٹ بھی بھگا دیے۔(تفہیم القرآن، جلد۳، ص۴۶۵-۴۶۶)

اللہ تعالیٰ نے سورئہ مائدہ کی آیت ۹۰ میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ ’’شراب، جوا، آستانے اور پانسے، یعنی فال گیری اور نیک وبدشگون لینا سب گندے شیطانی اعمال ہیں۔ ان سے پرہیز کرو‘‘۔  غلط رسومات اور جادو کے دھندے میں ایسے ایسے حرام کام کرنے کی اطلاعات میڈیا میں آتی رہتی ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ عرب بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔ سورۂ انعام آیت۱۳۸ میں  اللہ نے فرمایا کہ یہ جاہل لوگ سمجھتے ہیں کہ کچھ جانور ایسے ہیں جن پر سواری اور باربرداری حرام ہے اور کچھ جانور ایسے ہیں جن کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام نہیں لینا چاہیے۔ یہ سب کچھ ان کی طرف سے اللہ پر افترا باندھا گیا ہے۔ بہت جلد اللہ ان افتراپردازیوں پر ان کو سزا دے گا۔ (۶:۱۳۶)

نجومیوں اور دست شناسوں کے پاس جانا اور ان سے مستقبل اور غیب کی خبریں جاننے کی کوشش کرنا ضعفِ ایمانی اور عقیدے کی کمزوری کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح ستاروں اور سیاروں کے حساب اور زائچے سب لغو اور فضول اعمال ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب فرمایا    ؎

ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا

وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبوں

مختلف آفات سے بچنے کے لیے بلاشبہ اللہ کا کلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسنون دعائیں بہت کارگر ہیں۔ مُعَوِّذَتَیْن (سورۃ الفلق و سورۃ الناس) آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے وقت میں نازل ہوئی تھیں جب آپؐ پر یہودیوں نے جادو کیا تھا۔ ان کو پڑھ کر انسان اللہ کی پناہ میں آجاتا ہے۔ اسی طرح آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی دعائیں بھی بہت بااثر ہیں۔ یہ دعائیں بے شمار ہیں مگر ایک آدھ دعا بھی یاد ہو تو انسان کو اللہ رب العالمین کی طرف سے حفاظت مل جاتی ہے۔ آپؐ صحابہؓ کو بھی تلقین کرتے تھے کہ وہ گھروں کے اندر اور بچوں کے اوپر آنے والی بلاؤں سے ان دعاؤں کے ذریعے اللہ کی پناہ حاصل کریں۔ آپ کی ایک مختصر دعا ہے: اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ، میں اپنے آپ کو اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں، اس کے جامع کلمات کے ذریعے، ہر مخلوق کے شر سے۔ (مسلم، ح۷۰۵۳) اسی طرح آپ نے یہ دعا بھی سکھائی: اَعُوْذُ بِعِزَّۃِ اللّٰہِ وَقُدْرَتِہٖ مِنْ شَرِّ مَا اَجِدُ وَاُحَاذِرُ، یعنی میں اللہ کی عزت وقدرت کی پناہ میں اپنے آپ کو دیتا ہوں ہر اس شر کے مقابلے پر جس سے میرا سامنا ہو کہ اللہ مجھے اس سے محفوظ رکھے۔ (مسلم، ح۵۸۶۷) ۔قرآن پاک میں بھی اللہ نے بہت سی دعائیں سکھائی ہیں: وَقُل رَّبِّ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ ہَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ o وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ o (المومنون ۲۳: ۹۷-۹۸) یعنی دعا کرو کہ ’’پروردگار، میں شیاطین کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بلکہ اے میرے رب، میں تو اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں‘‘ ۔ اسی طرح ایک اور دُعا ہے: رَبِّ یَسِّرْ وَلاَتُعَسِّرْ وَتَمِّمْ بِالْخَیْرِ، ’’اے میرے رب میرے کام کو آسان بنا دے مشکلات دور فرما دے اور اس منصوبے کو خیروبرکت کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچا دے‘‘۔

انسان جب مخالف سمت میں محوِ سفر ہو تو اُس کو تھکاوٹ کے سوا کیا حاصل ہوسکتا ہے۔ نہ وہ منزل کو پاسکتا ہے اور نہ منزل اُس سے قریب ہوسکتی ہے۔ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ قرآنِ مجید کا نسخۂ ہدایت ہمارے گھروں کی زینت ہے۔ لائبریریوں میں موجود ہے، گاڑیوں میں رکھا ہوتا ہے، غرض یہ کہ قرآن ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔ ہم جدید و قدیم ہر ذریعے سے اس کو سن اور تلاوت کرسکتے ہیں۔ ہم میں سے کثیرتعداد اس کی تعلیم اس لیے حاصل کرتی ہے کہ وہ اس کو ناظرہ پڑھ سکیں، زبانی یاد کرسکیں۔ ہم اس قرآن کو نمازوں میں سنتے اور پڑھتے ہیں۔ خود بھی سال بھر بلکہ ساری زندگی اس کی تلاوت کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ ضروری ہے، بہت قابلِ رشک ہے___ مگر سوال یہ ہے کہ ہم یہ سب کچھ کیوں کرتے ہیں؟ کیا اس لیے کہ قرآن کو ہم اپنے لیے وہ دستورِ حیات سمجھتے ہیں جو ہمارے خالق و مالک نے ہمارے لیے نازل کیا ہے اور اس کو اپنی زندگیوں میں نافذ کرنے کا حکم دیا ہے؟ کیا ہم واقعی دنیا اور اس کے بچھے ہوئے جال سے بچ کر خوشنودیِ رب اور سعادتِ دارین کی خاطر ایسا کرتے ہیں؟

قابلِ تعریف بات تو یہی ہے کہ ایسا ہی ہو مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جگہ جگہ درسِ قرآن کی محافل منعقد ہوتی ہیں۔ لوگ ایسی آیات کے دروس سننے کے لیے ذوق و شوق سے آتے ہیں جو آیات محبت ِ الٰہی پر اُبھارتی ہوں، ان میں سامعین کی دل چسپی بہت گہری ہوتی ہے۔لیکن جونہی آپ  اُن سے کسی ایسی آیت پر گفتگو کریں جو انسانی عادات اور معاشرتی رویوں کے خلاف ہو ، تو لوگوں کے ذہن ایسی باتوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ بیش تر معاشروں میں کسی آیت کے نفاذ کو لوگ اہمیت نہیں دیتے ہیں، حالانکہ یہ معاشرے اسلامی ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے اُن کے رسوم و رواج اور عادات و اطوار تو بالکل آیاتِ قرآن سے متصادم نہیں ہونے چاہییں۔ افسوس کے ساتھ مَیں آپ کو ایک ایسے ہی واقعے سے متعارف کروانا چاہتی ہوں، تاکہ ایسے معاشرتی رویوں کی خطرناکی واضح ہوسکے جن کی اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی مگر وہ ہمارے معاشروں کی اقدار، روایات، رواج اور عُرف و عادت کے طور پر فرض کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔

ایک خاتون اچھے مشاہرے پر ملازم تھی۔ ایک طویل انتظار کے بعد اس کی شادی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اُس کو اولاد کی نعمت سے نوازا۔ وہ اپنے بچوں کے درمیان ایک خوش گوار احساس لیے زندگی بسر کر رہی تھی ___مگرایک روز ایسا ناخوش گوار واقعہ پیش آگیا جو اکثر گھروں میں پیش آتا ہے، یعنی شوہر کے ساتھ ناچاقی کا حادثہ۔ خاتون کے خیال میں اُس کا شوہر بعض اہم گھریلو  ضروریات پوری کرنے سے قاصر تھا۔ اُس نے بہت سے وعدے کیے مگر کوئی ایفا نہ ہوا۔ پھر خاتون نے بھی وہی کیا جو عمومی طور پر آج کی عورتیں کرتی ہیں۔ اُس نے شوہر کا گھر چھوڑا اور میکے میں جاکر رہنا شروع کر دیا۔ جاتے ہوئے یہ تک کہہ گئی کہ تم وعدہ پورا کرو گے تو مجھے واپس لاسکو گے۔

پھر دنوں پر دن گزرتے رہے، شوہر تنہا رہا، البتہ شیطان اُس کا ساتھی تھا۔ شیطان اس واقعے کو اُس کے لیے بہت اہم بناکر اُسے غیرت دلاتا رہا، اُس کو عدم مردانگی کا طعنہ دیتا رہا کہ وہ بیوی کی بغاوت کو بھی نہیں کچل سکا۔شوہر بیوی سے یہ کہتے ہوئے ملا کہ : ’’گھر آکر اپنی تمام ذاتی اشیا لے جائو‘‘۔ شوہر نے اس کے لیے وقت مقر کردیا اور خود اتنا وقت گھر سے باہر رہنے کا کہا۔ آخر میں یہ کہا: ’’آج کے بعد تو اس گھر میں داخل نہیں ہوسکتی‘‘۔ خاتون شوہر کے ساتھ جس گھر میں رہایش پذیر تھی وہ اس کے شوہر کے والد کی جایداد تھی۔ خاتون نے ایک دفعہ تو سوچا کہ میں اور میرے بچے اس گھر کے سوا کہاں گزارا کریں گے کیونکہ اپنے والدین کے ساتھ تو میں بچوں سمیت رہ نہیں سکوں گی۔ پھر اُس نے اپنی ساس سے ملاقات کی اور اس سے شکایت کرنا چاہی مگر بدقسمتی سے وہ بھی الٹا الزام تراشی کرنے لگی کہ میرے بیٹے نے تو یہ سب کچھ تنگ آکر کیا ہے۔ خاتون کو یقین نہیں آرہا تھا کہ میں جو کچھ سن رہی ہوں یہ حقیقت ہے۔

خاتون کے والدین کو اس واقعے کا علم ہوا تو والد غضب ناک ہوکربولا: کیا اس کا شوہر   یہ رشتہ لینے اس کے والدین کے گھر نہیں آیا تھا؟ اب ایسے اہم مسئلے میں وہ لڑکی کے والد سے رجوع کیوں نہیں کرسکتا؟ فضا خاصی ناسازگار ہوگئی تھی۔ سب کا خیال تھا کہ جو کچھ ہوا ہے یہ بڑی رُسوائی ہے، اس کا ازالہ اس مرد سے طلاق لے کر ہی ہوسکتا ہے۔ بالآخر طلاق ہوگئی۔

خاتون کے تعلقات ایک تحریکی ساتھی کے ساتھ تھے۔ اُس نے وقت ضائع کیے بغیر اُس سے رابطہ کیا اور آہ و بکا کے بعد ذرا پُرسکون ہوئی تو اپنی داستان سنانے لگی اور اُسے اپنے اور اپنے بچوں کے اُوپر ہونے والے ظلم کی انتہا قرار دیا۔ تحریکی ساتھی نے کہا: اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے اس طرح کی مشکلات کے حل کے لیے ہمیں ایک دستور عطا کیا ہے۔ تم دونوں کا یہ عمل کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ پر پیش کرتے ہیں تاکہ حقیقت میں دیکھ سکیں کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون؟ خاتون کے سانس بحال ہوئے، اور وہ ہرلفظ کو بڑے غور اور توجہ سے سننے کی کوشش کررہی تھی۔ تحریکی ساتھی نے کہا: تو نے اپنا گھر کیوں چھوڑا جب تو اپنے شوہر سے ناراض تھی؟ تجھے معلوم نہیں کہ وہ ایک مشکل مرحلے میں ہے، یعنی طلاق دے چکا ہے۔ رجعی طلاق میں عورت کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اپنا گھر چھوڑ دے۔ یہ اللہ سبحانہٗ کا حکم ہے، فرمایا:

لَا تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْ م بُیُوْتِہِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ اِِلَّا ٓ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ط وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ ط وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ (الطلاق ۶۵:۱) (زمانۂ عدت میں) نہ تم انھیں اُن کے گھروں سے نکالو، اور نہ وہ خود نکلیں، الا یہ کہ وہ کسی صریح بُرائی کی مرتکب ہوں۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اُوپر خود ظلم کرے گا۔

لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب عورت کو پہلی طلاق دی جاتی ہے تو وہ فوراً اپنے میکے چلی جاتی ہے۔ یہ غلط اور حرام ہے کیونکہ اللہ کا حکم ہے کہ نہ تم انھیں گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود وہاں سے نکلیں۔ استثنائی صورت ہے تو صرف یہ کہ وہ عورت کسی بے حیائی کا ارتکاب کرے۔ پھر فرمایا:

وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ ط وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ (الطلاق ۶۵:۱)  یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اُوپر خود ظلم کرے گا۔

اس کے بعد اس حکم کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا (الطلاق ۶۵:۱) ’’تم نہیں جانتے ، شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی) کوئی صورت پیدا کردے‘‘۔لہٰذا مسلمانوں پر واجب ہے کہ حدود اللہ کا خیال رکھیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کریں۔ شرعی اُمور و احکام کو معاشرتی اور ذاتی روایات کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ اسلام اس مشکل کے حل کے لیے کیسے راہ نکالتا ہے۔ فرمایا:

وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنْ اَھْلِھَاج اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَھُمَا ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا (النساء ۴:۳۵) اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے  مقرر کرو، وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے۔

یہاں بات صرف شقاق (بگاڑ) کے خدشے کی ہے۔ اگر یہ خدشہ نظر آجائے تو اس سے ڈرنا چاہیے اور اُس وقت دو حَکم (ثالث) ، ایک عورت کی طرف سے اور ایک مرد کی طرف سے مداخلت کریں۔ ان دونوں کا مقصد اصلاح ہو۔ اب میاں بیوی لازماً ایک ہی گھر میں رہیں گے۔ یہ دونوں ثالث اُن کے پاس اصلاح اور صلح و صفائی کی غرض سے جائیں گے جہاں یہ دونوں میاں بیوی مقیم ہوں گے اور انھیں اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کا احساس بھی ہوگا کہ وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا۔

یہ اس معاملے کے حل کی قرآنی صورت ہے۔ اب اس صورت حال کو پیدا کرنا مرد و عورت کو الگ الگ رکھ کر ممکن نہیں، نہ ٹیلی فون پر گفتگو کے ذریعے اس نتیجے پر انھیں پہنچایا جاسکتا ہے۔ لیکن آج کل یہی ہوتا ہے، جس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا ہے۔چنانچہ تحریکی ساتھی نے اُس سے کہا کہ تو کیوں غضب ناک ہوکر اپنا گھر چھوڑ آئی؟ اُس گھر کو تیرا گھر تو اللہ تعالیٰ نے قرار دیا ہے۔ عورت اپنے میکے کی طرف نہیں جاسکتی خواہ اُس کے اور شوہر کے درمیان بگاڑ کا خدشہ ہی ہو، بلکہ وہ اپنے گھر میں جم کر رہے اور اصلاح کی پوری کوشش کرے۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ آئے گا، یعنی اُس کی ذاتی کاوش کے بعد اگلا مرحلہ ثالثوں کی کوشش کا ہوگا۔ نہ تم نے یہ کیا ہے اور نہ تمھارے شوہر نے۔ خاتون نے بڑی انکساری سے پوچھا: تو پھر اب اس کا حل کیا ہے؟ تحریکی ساتھی نے جواب دیا: اپنے گھر واپس چلی جائو۔ اُس نے کہا: یہ تو مشکل ہے۔ مجھے جو کچھ کہا گیا ہے میرے جانے کے بعد اب وہ کیسے مجھے برداشت کریں گے؟ میں اس صورت حال میں خود اپنی عزت کو کیسے رُسوائی سے دوچار کرسکتی ہوں؟

تحریکی ساتھی نے کہا: سبحان اللہ، کیا تجھے شروع میں ہی یہ اندازہ نہیں ہوا کہ اسی طرح کی کیفیت میں تو اللہ تعالیٰ کوئی راستہ نکالے گا۔ پھر بات یہ ہے کہ یہی ابلیس کا مسئلہ تھا۔ وہ بھی ہماری طرح جانتا تھا کہ اللہ ایک ہے۔ زمین و آسمان کی حکومت اُس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ یہ سب کچھ جانتا تھا مگر جب اللہ نے اپنی بادشاہت میں زمین پر ایک خلیفہ بنانا چاہا تو یہاں شیطان نے اعتراض کر دیا۔ آج اپنے گردوپیش میں ہم بھی یہی کچھ دیکھتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ایک ہے، وہی نگہبان و نگران ہے۔ ہم اسماے حسنیٰ کا ورد کرتے ہیں، اپنے خالق و مالک کے لیے نماز ادا کرتے اور روزہ رکھتے ہیں۔ کبھی صدقہ و خیرات بھی کردیتے ہیں۔ خالق اور معبود کے ساتھ اپنی محبت کا واشگاف اظہار کرتے ہیں۔ لیکن جونہی اس خالق اور معبود کا کوئی ایسا قانون ہمارے سامنے آتا ہے جو ہماری عادات سے ٹکراتا ہو، ہماری خواہشات کے برعکس ہو، تو اس کے نفاذ کی بات ہمارے اُوپر سکتہ طاری کردیتی ہے۔ جب ہمارا عمل یہ ہے تو پھر ہم معبود کی ربوبیت اور اُلوہیت کے کیونکر قائل ہوسکتے ہیں؟ اُس کے حکم کو سن کر کیوں اس پر عمل کرنا لازمی نہیں سمجھتے؟ مَیں سمجھتی ہوں کہ آپ کے والد نیک آدمی ہیں، آپ اُن سے کہیں کہ وہ آپ کے شوہر کو بلائیں اور اُس کی بات سنیں۔ اگر وہ اُس کے ساتھ گفتگو میں کسی حل پر نہ پہنچ سکیں تو مرد کے خاندان سے کسی ثالث کو بلالیں، اور اس کے ساتھ بیٹھ کر اس بکھرتے ہوئے خاندان کو یک جا کرنے کی کوئی سبیل نکالیں۔

خاتون کے شوہر کو بلایا گیا تو اُس نے آکر خاتون کے والد سے کہا کہ یہ اب آپ کی بیٹی ہے، یعنی میں اس کو طلاق دے چکا ہوں۔ والد اس کو رسوم و رواج کے مقابلے میں قرآن کی تعلیمات سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اس نے کہا کہ اس حالت میں تمھیں اپنی بیوی کو اپنے گھر میں رکھنا چاہیے کیونکہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ خاتون کے والد نے اللہ کا وہ دستور اُس کے سامنے کھول کر رکھ دیا جس دستور کی بنیاد پر اُس کی بیٹی اس مرد کی بیوی قرار پائی تھی۔ سورئہ طلاق کی پہلی آیت اُس کے سامنے رکھی۔ نوجوان نے آیت دیکھ لی مگر کہتا رہا کہ ہم تو ایسا نہیں کریں گے۔ مطلقہ لڑکی اپنے والدین کے گھر میں ہی رہتی ہے، شوہر کے گھر میں نہیں۔ طلاق کے بعد اب وہ کیسے میرے پاس رہ سکتی ہے؟ خاتون کے والد نے مومنانہ وقار کے ساتھ کہا: ایک گھنٹہ قبل مَیں بھی تمھاری طرح ہی سوچ رہا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے صحیح راہ کی طرف میری رہنمائی کردی اور میں نے فیصلہ کیا کہ اب اپنی عمر کا اختتام اس آیت کے نفاذ پر کروں۔ تم یہ خیال نہ کرو کہ یہ فیصلہ میرے لیے کوئی آسان تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اُس کے احکام ہیں جس کی ہم نے تمھارا نکاح کرتے ہوئے اطاعت کی تھی۔

معاملہ شوہر کے ہاتھ میں چلا گیا۔ وہ بیوی کو طلاق دینا چاہتا تھا اور بیوی اُس کے گھر سے اپنی ذاتی اشیا اُٹھا کر واپس لانا چاہتی تھی۔ گویا معاملہ ایسا معمولی تھا کہ کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ لیکن اب مرد اپنے گھروالوں سے کیا کہے۔ اس پر اُس کی والدہ کا ردعمل کیا ہوگا۔ طلاق کے بعد وہ گھر میں کیسے رہ سکے گی؟ نوجوان نے خاتون کے والد سے کچھ مہلت مانگی کہ وہ سوچ بچار کرلے پھر جواب دے گا۔

خاتون نے تحریکی ساتھی سے یہ ساری صورت حال بیان کی تو اُس نے خاتون کو اپنے گھر چلے جانے کا مشورہ دیا۔ اس کے شوہر سے بھی کہا کہ وہ بیوی کو گھر لے آئے کیونکہ بہرحال یہی خاتون کا گھر ہے۔ خاتون کے دل میں جنگ برپا تھی کہ وہ کیسے ایک بار پھر سسرال کے ہاں جائے گی؟ اُن کا ردعمل کیا ہوگا؟ تحریکی ساتھی نے اُس کو کثرت کے ساتھ ذکر الٰہی کرنے اور اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت  اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ پڑھنے کو کہا۔بالآخر خاتون اپنے بچوں کو لے کر اپنے گھر چلی گئی۔

پاک ہے وہ ذات جس نے فرما رکھا ہے:  لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا (الطلاق ۶۵:۱) ’’تم نہیں جانتے ، شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی) کوئی صورت پیدا کردے‘‘۔ جب بیوی اور شوہر باہر نکلے تو وہ اپنے ساتھ پیش آنے والے حالات پر گفتگو کر رہے تھے۔ بیوی نے اپنے گھر سے نکل کر شریعت کے خلاف عمل پر معذرت کی۔ اُس نے دراصل اس واقعے سے ایک سبق سیکھا اور قرآنِ کریم کی ایک آیت کے اُوپر عمل اور اس کے حقیقی نفاذ کو ممکن بنایا۔ وہ ہزاروں درسِ قرآن بھی سنتی تو آیات کی ایسی تفہیم اُسے حاصل نہ ہوسکتی جو اَب ہوچکی تھی۔

اُس کے شوہر نے سوچنے کے لیے وقت مانگا، مگر جب بیوی بچے اُس کے پاس چلے گئے تو  حالات نے اُس کو عملی کیفیت میں لاکھڑا کیا۔ اُس نے اپنے بچوں کو دیکھا،بیوی پر نگاہ پڑی کہ وہ خود کو تبدیل کرنا چاہتی ہے، تو برف پگھلی اور میاں بیوی کے درمیان رحمت و مؤدت اُبھری۔  تحریکی ساتھی کے ساتھ آخری گفتگو میں خاتون نے بتایا کہ معاف کیجیے گا میرے پاس وقت نہیں، میرے شوہر میرا انتظار کر رہے ہیں۔ انھوں نے مجھے شام کے کھانے کی دعوت دی ہے۔ بچے کہاں ہیں؟ اُس نے کہا: اُنھیں اُن کی دادی کے پاس چھوڑ آئے ہیں، ہم اکیلے جارہے ہیں۔ اُس کی آواز فرحت و مسرت سے سرشار تھی۔ تحریکی ساتھی نے فون بند کیا اور وہ کہہ رہی تھی: ’’اے رحمن و رحیم!  وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے تیری آیات پر عمل کیا‘‘۔(mugtama.com)