گھر زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ گھر مقامِ رہایش ہی نہیں ایک جاے پناہ بھی ہے جو موسم کی سختیوں اور دیگر خطرات سے حفاظت کرتا ہے۔ تمام جاندار بشمول حشرات الارض‘ جنگلی درندے‘ چرندپرند اپنے لیے گھرتعمیر کرتے ہیں جہاں وہ آزادی سے رہ سکیں اور آرام و سکون حاصل کرسکیں۔
ہر جانور اپنے خالق رب کریم کی عطا کردہ دانش اور رہنمائی کے مطابق اپنے لیے گھر تعمیر کرتا ہے جو اپنی جنس کے لحاظ سے منفرد ہوتا ہے۔ ’بیا‘ کا گھونسلا‘ مکڑی کا جالا‘ شہد کی مکھیوں کا چھتہ‘ چیونٹیوں کے زیرزمین بِل‘ سب اپنی نوعیت کے لحاظ سے فن تعمیر کے شاہکار ہیں۔ مکڑی خود کو اپنے گھر میں محفوظ اور مطمئن خیال کرتی ہے اگرچہ اس کے گھر کی کمزوری کی گواہی اس کے مالک و خالق رب نے خود دی ہے: وَاِنَّ اَوْھَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْکَبُوْتِم (العنکبوت۲۹:۴۱) ’’اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھرمکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے‘‘۔
رب کریم نے ہر جانور کی فطرت میں گھر بنانے کا داعیہ رکھ دیا ہے۔ ان میں سے کوئی درخت کی ٹہنیوں پر اپنا گھر تعمیر کرتا ہے‘ کوئی اس کی کھوہ میں۔ کوئی پہاڑوں کے غاروں میں بسیرا کرتا ہے تو کوئی ان کی بلندیوں پر۔ پالتو جانور اپنے گھر خود نہیں بناتے۔ انسان ان کے لیے جو قیام گاہیں بنا دیں وہیں قیام کرلیتے ہیں۔ شہد کی مکھی کا گھر تمام گھروں سے نرالا ہے۔ یہ ایک گھر ہی نہیں ایک فوڈ فیکٹری ہے‘ سٹورہائوس ہے۔ ہزاروں مکھیوں کو رہایش اور جاے کار مہیا کرنے والی ایک کالونی ہے جس کا نظم و ضبط اپنی مثال آپ ہے۔ شہد کی مکھی نے کسی ماہرتعمیرات سے رہنمائی حاصل نہیں کی بلکہ اپنے عظیم المرتبت خالق کی براہِ راست نگرانی میں اپنی ذمہ داری ادا کررہی ہے۔ رب کریم کا ارشاد ہے:
اور دیکھو‘ تمھارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں‘ اور ٹٹّیوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں‘ اپنے چھتّے بنا‘ اور ہر طرح کے پھلوں کا رس چوس‘ اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔ (النحل ۱۶:۶۸-۶۹)
۱- وہ اپنے گھر راستوں سے ہٹ کر اس طرح بناتے ہیں کہ راستوں میں رکاوٹ نہ پیدا ہو۔
۲- وہ ناجائز تجاوزات نہیں کرتے۔
۳- وہ اپنی کم سے کم ضرورت پر بڑا گھر نہیں بناتے۔
۴- وہ ایک دوسرے کی ملکیت کا احترام کرتے ہیں۔ کسی دوسرے کے گھر پر ناجائز قبضہ نہیں کرتے۔
۵- گھر کی ملکیت یا قبضے پر بالعموم ان کے مابین جنگ نہیں ہوتی۔
۶- وہ اپنا گھر خود بناتے ہیں۔ گھر کی تعمیر کے معاملے میں کسی دوسرے کی مدد حاصل نہیں کرتے۔
۷- وہ اپنے گھر صاف ستھرے رکھتے ہیں۔
ان خصوصیات کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ معیاری اور فطری خصوصیات ہیں۔
جنت ارضی پر آمد کے ساتھ ہی انسان اپنے لیے موزوں رہایش کی تعمیر وتلاش میں مصروف ہوگیا۔ غاروں کو مسکن بنانے والا انسان جلد ہی تعمیراتی علوم و فنون میں مہارت بڑھاتا چلا گیا۔ اس عظیم خلاق کی ودیعت کردہ ذہانت اور اہلیت کی بنیاد پر نئی نئی اختراعات کا شوقین غاروں اور گھاس پھوس کے جھونپڑوں سے نکل کر عظیم الشان محلات‘ باغات‘ اہرام اور فلک بوس عمارتیں تعمیر کرنے لگا۔ ماحول‘ موسم‘ فیشن اور وقت کے تقاضوں کے مطابق رہایشی بستیاں تعمیر کی جانے لگیں۔ مکانوں کی تزئین و آرایش میں مسابقت شروع ہو گئی۔ گھر ایک بنیادی ضرورت ہی نہیں‘ معیارِ زندگی کی علامت قرار پایا۔ انسان کی ساری زندگی کی تگ و دو ایک آرام دہ‘ شان دار گھر کے لیے قرار پانے لگی۔ جہاں سے اسے تحفظ حاصل ہو‘ جو اس کی خلوتوں کا پردہ پوش‘ اس کے وقار اور ذوق کا آئینہ دار ہو!
گھر کی چار دیواری میں ایک شخص کی اپنی سلطنت ہے جہاں کا وہ خود حاکم ہے‘ اس کو اپنی من مانی کی آزادی ہے۔ گھر کے معاملے میں انسان کی ضرورت کی کوئی حد نہیں۔ کہیں تو ایک مختصر سا گھاس پھونس کا جھونپڑا اس کی تمام ضروریات کے لیے کافی نظرآتا ہے اور کہیں ہزاروں ایکڑ پر مشتمل وسیع و عریض محلات بھی اس کی طمع کی تسکین سے قاصر ہوتے ہیں جن کی تزئین و آرایش اور انتظام و انصرام پر ہی لاکھوں ڈالر ماہانہ اٹھ جاتے ہیں اور پھر معیار برقرار رکھنے اور حفاظت و انتظام کے لیے مزید لاکھوں ڈالر درکار ہوتے ہیں۔
انسانی ضروریات کی وسعت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ایک آراستہ و پیراستہ گھر ان کی تکمیل سے قاصر ہے۔ وہ گردونواح میں ایک پوری بستی کا محتاج ہے‘ دوسرے انسانوں کے تعاون کا متلاشی ہے۔ وہ اپنے دکھ سکھ میں دوسروں کو شریک دیکھنے کا خواہش مند ہے۔ یوں ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ مختلف گھروں کی تعمیرسے ایک ماحول وجود میں آتا ہے۔ ایک ماحول‘ ایک معاشرے میں رہنے والے افراد ایک دوسرے پراثرانداز ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے لیے راحت رساں ہوتے ہیں اور باعث آزار بھی! اچھی بستی اور معاشرہ وہ ہے جہاں کے رہنے والے ایک دوسرے کے لیے زیادہ سے زیادہ مددگار ہوں۔ ایک دوسرے کو دکھ دینے والے نہ ہوں۔ اسلامی معاشرت کا بنیادی اصول یہی ہے:
المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔
بستیوں کی اس بنیادی ضرورت کے پیشِ نظرایک مہذب معاشرے میں انسانوں کی بودوباش اور تعمیروتشکیل کے کچھ بنیادی اصول و ضوابط طے کر دیے جاتے ہیں تاکہ افراد ایک دوسرے کے لیے باعث راحت ہوں۔ گھروں اور عمارتوں کی تعمیر کے لیے مقتدرانتظامیہ کی جانب سے تعمیراتی ضوابط (building rules) مقرر ہوتے ہیں۔ ملک کے بڑے شہروں کے ترقیاتی ادارے ان ضوابط کے اجرا اور عمل درآمد کی نگرانی پر مامور ہیں۔ قصبوں میں یونین کونسل یا ضلعی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان ضوابط پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
۱- عمارت صحت و صفائی کے اصولوں کے مطابق تعمیرہو۔ اس میں روشنی اور ہوا کی آمدورفت کا مناسب انتظام ہو۔
۲- عمارت کی تعمیر پڑوس کے لیے باعث آزار نہ ہو۔
ان اصولوں کی بنیاد پر ہی شہروں اور بستیوں کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے‘ حتیٰ کہ پورا قصبہ یا شہر ایک وجود کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ بستیاں اور شہر کسی قوم کی تہذیب و تمدن کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ’’انسان شہر تعمیر کرتے ہیں اور شہر انسان بناتے ہیں‘‘۔
شہر بسانا ایک سائنس ہے اور آرٹ بھی۔ شہر کچھ متعین حقائق مدنظر رکھ کر ہی تعمیر کیے جاتے ہیں۔ بستیوں کو حسن‘ ترتیب اور توازن عطا کرنا ایک بڑا آرٹ ہے۔ کسی شہر کی تعمیرکی منصوبہ بندی میں جمالیاتی ذوق کی تسکین ہی مقصود نہیں ہوتی بلکہ شہریوں کی مناسب جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی ایک اہم ضرورت ہے۔
گھر کے لیے مناسب اور باوقار جگہ کی فراہمی۔
بستی میں گھروں کی ایک ترتیب اور منظم تعمیر۔
تجارتی علاقوں کی تخصیص۔
صفائی اور پاکیزگی کا مناسب اہتمام اور کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا انتظام۔
ناجائز تجاوزات اور تعمیرات کی روک تھام‘ خطرناک صنعتوں کے بارے میں ضوابط۔
رہایشی علاقوں میں آلودگی کا باعث بننے والی صنعتوں کے قیام کی حوصلہ شکنی۔
بستیوں میں حفاظت اور تفریح کا معقول انتظام۔
تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی۔
بستی کے مکینوں کی فلاح و بہبود کا انتظام۔
۱- سہولتوں کی فراہمی ۲- خدمات کی فراہمی ۳- صحت مند ماحول
اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ انفرادی اور اجتماعی حقوق و فرائض میں ایک خوب صورت توازن پیدا کرتا ہے۔ وہ انسان کے انفرادی تشخص اور خودمختاری کو تسلیم کرتے ہوئے اسے ایسے ضوابط اور حدود کا پابند بناتا ہے کہ اس کی یہ خودمختاری کسی دوسرے فرد کے لیے باعث رنج نہ ہو۔ وہ انسان کو اس بنیادی حقیقت سے آگاہ کرتا ہے کہ وہ اپنے ہر عمل کے لیے اپنے اللہ رب العزت کے حضور جواب دہ ہے۔ جواب دہی کا یہ احساس معاشرتی زندگی میں انسانی عمل کو بے لگام نہیں ہونے دیتا۔ اسے ایک ذمہ دار شہری بناتا ہے جو صرف اپنے لیے نہیں جیتا بلکہ پورے معاشرے کے لیے خدمت گزار اور راحت رساں ہوتا ہے۔ اسلام ہر انسان کو معاشرتی قواعد و ضوابط کا پابند بناتا ہے۔ یہ ہماری دینی ذمہ داری ہے کہ اولی الامر کی اطاعت کی جائے جب تک کہ ان کی جانب سے اپنے رب کی معصیت کا حکم نہ دیا جائے۔ قرآن پاک کا ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ (النساء ۴:۵۹) اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور جو تم میں سے اولی الامر ہیں۔
حکام بالا کی اطاعت سے گریز صرف اس صورت میں ممکن ہے جب ان کے حکم پر عمل درآمد سے اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔
اپنے ہاتھ اور زبان سے کسی دوسرے کے لیے باعث آزار نہ ہوں۔
جو کچھ اپنے لیے پسند کریں‘ وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کریں۔
ہمسایگی کا حق ادا کریں۔
حسن سلوک اور مہربانی اخلاق و کردار کی بنیاد ہیں۔
معاشرتی ضابطوں کی حفاظت ایک عہد ہے۔ جب تک وہ اللہ کے احکام سے نہ ٹکراتے ہوں ان کی ادایگی لازم ہے۔
ہر انسان کی یہ خواہش ہے کہ اسے پُرامن اور آرام دہ زندگی گزارنے کا موقع حاصل ہو۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم میں سے ہر ایک دوسرے کے لیے امن و اطمینان فراہم کرنے والا اور راحت رساں ہو۔ یہ طرزِعمل بستیوں کو جنت کا نمونہ بنا سکتا ہے ع
بہشت آنجا کہ آزارے نباشد
اسلام کے ان بنیادی قواعد کو مدنظر رکھتے ہوئے گھروں اور بستیوں کی تعمیر کے لیے جو احکام دیے گئے ہیں‘ ان کا تفصیلی تذکرہ کرنے سے پہلے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس امر کی یاددہانی کرلی جائے کہ اللہ رب العزت نے انسان کو ارادے کی جو قوت نصیب کی ہے اس کو بروے کار لاتے ہوئے جب وہ کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کر گزرتا ہے۔ ہر لمحے اپنے ہاتھ اور زبان کی نگرانی کرنے والا انسان کسی ایسی حرکت کا تصور بھی نہیں کرسکتا جس سے کسی دوسرے کی حق تلفی تو کجا معمولی تکلیف کا بھی احتمال ہو۔
کشادگی: راستوں کی کشادگی اسلامی فنِ تعمیرکی ایک اہم خصوصیت ہے۔ اس کا اصل مقصد راستہ چلنے والوں کی سہولت ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ بستیوں کے راستے ہر طرح کی رکاوٹ اور تکلیف دہ امور سے پاک ہوں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: ایک مرتبہ ایک معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ راستے کی کم سے کم چوڑائی سات ذرع (تقریباً ۱۰فٹ) رکھی جائے۔ (بخاری)
اس دور کی ٹریفک کو مدنظر رکھتے ہوئے ۱۰ فٹ چوڑا راستہ کافی کشادہ سمجھا جا سکتا ہے۔ اس اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی بھی بستی میں ٹریفک کے متوقع دبائو کے پیش نظر گلیوں اور سڑکوں کی چوڑائی کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے تاکہ ٹریفک کے بہائو میں کوئی رکاوٹ نہ آنے پائے۔
رکاوٹوں کو دُور کرنا: اسلام اس بات کو قطعاًناقابلِ قبول خیال کرتا ہے کہ راستوں میںکسی طرح کی رکاوٹ پیدا کی جائے۔ اسے تو راستے میں بیٹھنا یا کھڑا ہونا بھی گوارا نہیں ہے‘ اس لیے کہ اس سے راہ گیروں کے لیے رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
راستوں میں نہ بیٹھو اور اگر تمھیں ایسا کرنا ہی ہے تو اس کا حق ادا کرو۔ صحابہ کرامؓ نے دریافت فرمایا: یارسولؐ اللہ! راستے کا حق کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ۱- اپنی آنکھوں کی حفاظت کرو ‘۲- دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث نہ بنو‘ ۳- سلام کا جواب دو‘ ۴-راہ گیر کی رہنمائی کرو‘ ۵- امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرو۔
راستوں کو تکلیف دہ امر سے محفوظ رکھنا اس قدر اہم خیال کیا گیا کہ راستے سے پتھر کے ایک چھوٹے ٹکڑے کو ہٹانا بھی صدقہ اور نیکی قرار دیا گیا۔ انسانوں کو خوش کرنا اتنا پسندیدہ ٹھیرا کہ مسکرا کر دیکھنا بھی نیکی قرار پایا۔
۱- گھروں کے باہر ایسے تھڑے تعمیر نہ کیے جائیں جو راستے کی رکاوٹ کا باعث ہوں۔ اس کا اطلاق اب گیٹ کے راستے پر بھی ہوتا ہے۔
۲- راستے میں اس طرح درخت نہ لگائے جائیں جو رکاوٹ اور تنگی کا سبب بن جائیں۔
۳- گھر سے باہر نکلی ہوئی بالکونیاں ‘ چھجے اور برآمدے تعمیر نہ کیے جائیں۔
۴- کھونٹے اور لکڑیاں گاڑ کر راستے میں تجاوزات کی کوشش نہ کی جائے۔
۵- راستے میں جانوروں کو نہ باندھا جائے جو راہ گیروں کے لیے اذیت‘ رکاوٹ اور پریشانی کا باعث ہوں۔ اس کا اطلاق اب گاڑیوں کی پارکنگ پر ہوتا ہے۔
۶- راستے میں چھلکے اور کوڑا کرکٹ نہ پھینکا جائے۔
۷- راستے میں پانی نہ چھڑکا جائے جو کیچڑ اور پھسلن کا باعث ہو۔ گھروں کا استعمال شدہ پانی راستوں میں بہانے سے احتراز کیا جائے۔
۸- کوئی ایسی تجاوزات نہ کی جائیں جو پانی کے بہائو میں رکاوٹ کا باعث بن جائیں۔
ایک شخص کا یہ عمل اسے جنت میں لے جانے کا باعث بن گیا کہ اس نے راستے میں درخت کی ایک شاخ دیکھی جو لوگوں کے لیے تکلیف کا سبب بن رہی تھی۔ اس نے کہا کہ وہ یہ شاخ کاٹ ڈالے گا تاکہ یہ راہ گیروں کے لیے تکلیف کا سبب نہ بنے۔ (مشکوٰۃ‘ ج ۱۶‘ ص ۱۸۰۷)
راستے سے پتھر ‘ کانٹا یا ہڈی کا ہٹانا صدقہ ہے۔ (مشکوٰۃ‘ ج ۲۳‘ ص ۱۸۱۴)
اے اللہ کے رسولؐ! مجھے کوئی ایسا عمل بتایئے جو نفع دینے والا ہو؟آپؐ نے فرمایا: راستے کو اذیت دینے والی اشیا سے صاف کرو۔ (مشکوٰۃ‘ ج ۱۸‘ ص ۱۸۰۹)
اگر کوئی مسلمان ایک درخت لگاتا ہے تو وہ اس کا اجر پائے گا‘ اس لیے کہ اس سے دوسرے انسان اور جانور فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ (بخاری)
درخت جان داروں کے لیے غذا کی فراہمی میں معاون ہوسکتے ہیں۔ راہ چلنے والوں کے لیے سایہ فراہم کرتے ہیں۔ آلودہ فضا کو صاف کرتے ہیں‘ راستوں کو خوب صورت اور خوش نما بناتے ہیں۔ چنانچہ معاشرے کو آرام دہ اور خوب صورت بنانے کا یہ عمل صدقہ جاریہ بن جاتا ہے۔
اسی ترغیب کا نتیجہ تھا کہ حضرت عمرؓنئے شہروں کی تعمیرمیں یہ ہدایت فرماتے کہ مختلف محلوں کے درمیان خالی جگہ چھوڑی جائے جس میں درخت لگائے جائیں‘ حتیٰ کہ بستیوں کے چاروں طرف درخت ہوں۔
اسلام جسم اور روح کی پاکیزگی اور طہارت کو ایمان کا لازمی جزو قرار دیتا ہے۔ روح کی پاکیزگی کے بغیر تو کوئی شخص مسلم ہو ہی نہیں سکتا۔ جسم کی طہارت اور صفائی ایک صحت مند ماحول اور معاشرے کی تشکیل کے لیے حددرجہ لازم ہیں۔ پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو خالق کائنات کی محبت کی خوشخبری دی گئی ہے۔ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُطَّھِّرِیْن(التوبۃ ۹:۱۰۸) ’’اور اللہ پاک لوگوں سے محبت کرتا ہے‘‘
وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْo وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ o (المدثر ۷۴:۴-۵)
اور اپنے کپڑے پاک کرو اور گندگی سے دُور رہو۔
صفائی اور نظافت کی اس درجہ اہمیت کے تحت ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے۔ اور پاکیزگی نصف ایمان ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امورفطرت کا ذکر کیا جن پر عمل ہرپاکیزہ فطرت والا شخص پسند کرتا ہے اور جنھیں تمام انبیا علیہم السلام کی تعلیمات میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ان امور میں سے ۹۰ فی صد طہارت اور پاکیزگی سے متعلق ہیں۔ مناسک عبودیت کی ادایگی میں طہارت بنیادی شرط ہے۔ جب تک جسم‘ لباس اور جگہ پاک صاف نہ ہو‘ نماز ادا نہیں ہوتی۔ حج اور عمرہ مکمل نہیں ہوتے۔
نماز کی ادایگی پر عمل کرنے والا شخص ناپاک نہیں رہ سکتا‘ گھر اور ماحول کو غلیظ نہیں رکھ سکتا۔ مدینہ کی ریاست اپنے ابتدائی دور میں مالی تنگی اور عسرت کا شکار تھی۔ جہاں کم ہی گھرانے ایسے تھے جنھیں دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر نصیب ہوتی لیکن صفائی اور پاکیزگی کے اعلیٰ معیار کے باعث وہاں بیماری شاذ تھی۔ ایک ایسی سرزمین جہاں پانی کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ تھا وہاں اس امر پر زور دیا گیا کہ اجتماعی اجلاس اور باجماعت نماز میں اپنے جسم کی بو سے بھی دوسروں کو محفوظ رکھا جائے۔ جہاں ہر وقت باوضو رہنے کا اہتمام ہو‘ جہاں گلی اور راستے میں کوڑا کرکٹ تو کجا استعمال شدہ پانی تک پھینکنے کو روا نہ خیال کیا جائے‘ جہاں راستوں میں تھوکنے اور غلاظت ڈالنے کا تصور تک نہ ہو‘ ایسا معاشرہ کیوں صحت مند معاشرہ نہ ہوگا۔ پاک روح‘ پاکیزہ جسم ہی میں قیام کرتی ہے‘ اور پاکیزہ ماحول ہی میں پنپتی ہے۔
عمدہ معاشرت کی بنیاد ادایگی حقوق پر ہے۔ جس معاشرے کا ہر فرد دوسروں کے حقوق سے متعلق اپنی ذمہ داریاں پہچانتا اور ان کو ادا کرتا ہے‘ وہ مطمئن اور پرسکون معاشرہ ہے۔ پڑوسی سب سے زیادہ ایک دوسرے کے اچھے یا برے طرزِعمل اور اخلاق سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس لیے قرآن پاک ادایگی حقوق کی فہرست میں ’’پہلوکے ساتھی‘‘ کا خاص طور سے ذکر کرتا ہے‘ حتیٰ کہ دورانِ سفر عارضی قائم ہونے والے پڑوسی کے ساتھ بھی احسان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ (النساء ۴:۳۶)
پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان کا رویہ ماحول کو خوش گوار رکھنے میں نہایت اہم ہے۔ ایک دوسرے کے لیے احترام اور لحاظ کا جذبہ بہت سی بدمزگیوں کو پیدا ہی نہیں ہونے دیتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا: ’’کوئی شخص اس وقت تک سچا مسلم نہیں ہو سکتا‘ جب تک وہ اپنے پڑوسی کے لیے وہی نہ پسند کرے جو اپنے لیے کرتا ہے‘‘ (مسلم)۔ ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم وہ شخص مسلمان نہیں جس کی شرارت سے اس کے پڑوسی محفوظ نہیں‘‘۔ (بخاری‘ مسلم)
بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو۔
وفات پا جائے تو اس کے جنازے پر جائو۔
قرض مانگے تو اس کو قرض دو۔
اگر اس کے پاس لباس نہ ہو تو اسے لباس پہنائو۔
اسے کوئی نعمت ملے تو اسے مبارک (برکت کی دعا) دو۔
اسے رنج پہنچے تو اس سے ہمدردی کرو۔
اپنا گھر اس کے گھر سے بلند نہ کرو کہ اس کی روشنی اور ہوا میں رکاوٹ ہو۔
اپنے چولہے کے دھوئیں سے اسے تکلیف نہ دو۔
اسلام کو یہ ہرگز گوارا نہیں کہ کوئی شخص خود توپیٹ بھرکر کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔ وہ تواس لیے شوربا پتلا کرنے کی ترغیب دیتا ہے تاکہ پڑوسی کو اس سالن میں شریک کیا جاسکے۔ وہ تو پھلوں کے چھلکے بھی پڑوسی کے سامنے پھینکنے کی اجازت نہیں دیتا۔ مبادا اس کے بچوں کو پھل دستیاب نہ ہونے کے باعث چھلکے دیکھ کر احساسِ محرومی ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسی کو ایذا پہنچانے کے کچھ کام گنواتے ہوئے ان سے واضح الفاظ میں منع فرمایا:
اپنے گھر کی دیوار اور کھڑکی سے پڑوسی کے گھر نہ جھانکو۔
اس کی دیوار پر اپنی تعمیر نہ اٹھائو۔
اپنے گھرکا پرنالہ اس کے گھرکی سمت مت لگائو۔
اس کے گھر کے سامنے کوڑا نہ پھینکو۔
اس کے گھر کا راستہ تنگ نہ کرو۔
’’جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسیوں کے لیے باعث ایذا نہیں ہو سکتا‘‘۔ (بخاری‘ کتاب الادب)
اسلام اس لحاظ سے بالکل منفرد نظامِ حیات ہے کہ وہ انسان کی نجی زندگی کے اخفا کو برقرار رکھنے کا حددرجہ اہتمام کرتا ہے۔ وہ تو گھر کے افراد کو بھی یہ حق نہیں دیتا کہ وہ بغیر اطلاع اپنے گھر میں داخل ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے ساتھیوں کو ہدایت تھی کہ اپنے گھروں میں داخلے سے پہلے کوئی ایسی آواز ضرور پیدا کرلو تاکہ گھر والوں کو تمھارے آنے کی اطلاع ہوجائے۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ نبیؐ کے گھروں میں بلااجازت نہ چلے آیا کرو۔ (الاحزاب۳۳:۵۳)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں نہ داخل ہوا کرو جب تک کہ گھروالوں کی رضا نہ لے لو اور گھروالوں پر سلام نہ بھیج لو‘ یہ طریقہ تمھارے لیے بہتر ہے۔ توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے۔ پھر اگر وہاں کسی کو نہ پائو تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دے دی جائے۔ (النور۲۴:۲۷-۲۸)
جب نگاہ داخل ہوگئی تو پھر خود داخل ہونے کے لیے اجازت مانگنے کا کیا موقع رہا؟ (ابوداؤد)
اجازت مانگنے کا حکم تو اسی لیے ہے کہ نگاہ نہ پڑے۔ (ابوداؤد)
اگر کوئی شخص تیرے گھر میں جھانکے اور توایک کنکری مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو کچھ گناہ نہیں۔
اسلام کی اسی حساسیت کی بنا پر ہر دور میں مسلم گھروں کی تعمیرمیں پردے کا خصوصی اہتمام رہا۔ گھر اس انداز میں تعمیر کیے جاتے کہ گھروں کے اندر کمروں‘ صحن اور چھت پر بھی کسی کی نگاہ نہ پڑے۔ صحن اور چھت کی چار دیواری اتنی بلند رکھی جاتی کہ اہل خانہ وہاں بیٹھے ہوں تو کسی کی نظر پڑنے کا احتمال نہ ہو‘ اور اہل خانہ اطمینان سے کھلی ہوا اور روشنی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ حفظانِ صحت کے لحاظ سے یہ بات اہم ہے کہ روشنی اور تازہ ہوا کا حاصل ہو۔ ان کی موجودگی بذاتِ خود کئی بیماریوں اور معذوریوں سے بچائو کا سامان فراہم کرتی ہے۔ کھلی فضا میں بیٹھنے یا رات کو سونے سے توانائی کی بچت بھی ممکن ہے جو آج کے دور کا ایک اہم مسئلہ ہے۔
انسانی زندگی کا سکون اور توازن برقرار رکھنے کے لیے لازم ہے کہ موجود وسائل پر انسانوں کی ملکیت کا حق تسلیم کیا جائے۔ حق ملکیت قائم کرنے کے لیے تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ ضابطے رواج پاتے گئے تاکہ باہم نزاع نہ پیدا ہو۔ اسلام انسان کے اس حق کے احترام اور تحفظ کا پورا اہتمام کرتا ہے۔
گھر کے حق ملکیت کا احترام فطری تقاضا ہے۔ جانور تک اپنے اس حق کے بارے میں بڑے حساس ہوتے ہیں اور بالعموم وہ ایک دوسرے کے حق کا احترام کرتے ہیں۔ ہر پرندہ اپنا گھونسلا خود تعمیر کرتا ہے۔ کسی دوسرے کے گھونسلے میں قیام پسند نہیں کرتا۔ جنگلی جانور دوسرے جانوروں کے بھٹ میں داخل نہیں ہوتے۔ پالتو جانور تک اپنی کھرلی کو بڑی اچھی طرح پہچانتے ہیں اور ایک دوسرے کی جگہ پر قبضے کی کوشش نہیں کرتے اور اگر کوئی دوسرا کرنے کی کوشش کرے تو اس پر زبردست جنگ کا امکان رہتا ہے۔
انسانوں کے مابین پیدا ہونے والے جھگڑوں کی ایک بڑی وجہ ’زمین‘ ہے۔ انسانوں کے قیمتی وسائل اور صلاحیتیں ان جھگڑوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ قومیں باہم برسرِپیکار ہوتی ہیں تو نسلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔
اسلام مسائل کو ان کی جڑ سے اکھاڑ دینے کا قائل ہے۔ ان تنازعات کی اصل اُس زمین کی محبت ہے جہاں انسان کا قیام بڑی مختصرمدت کے لیے ہے۔ اسلام انسانوں کو اس حقیقت کی جانب مسلسل متوجہ کرتا ہے کہ یہاں کیا جانے والا ہر عمل آخرت میں پیش ہوگا اور انھی اعمال کی بنیاد پر آخرت کے انجام کا فیصلہ ہوگا۔ لہٰذا انسان کوئی ایسا کام نہ کرے جس پر اس روز ندامت کا سامنا کرنا پڑے۔
زمین کی ملکیت کے بارے میں ایک تنازع پیش ہونے پر فیصلے سے قبل آپ ؑ نے ان الفاظ میں فریقین کو متنبہ فرمایا:
ممکن ہے تم میں سے کوئی ایک اپنی قوتِ گفتار کی بنا پر فیصلہ پر اثرانداز ہوجائے لیکن اس طرح اگر کوئی شخص ایک ایسی چیز حاصل کر لیتا ہے جو درحقیقت اس کی نہیں ہے تو اسے زمین کا وہ ٹکڑا قیامت کے روز اپنے سر پر اٹھانا پڑے گا۔
یہ تنبیہہ ان سچے متبعین کے لیے کافی تھی۔ متنازعہ زمین لینا ایک کٹھن کام خیال کیا جاتا۔ ہر ایک اس طوق کو اپنی گردن سے اسی زندگی میں اتاردینا چاہتا۔
ملکیت کے اس حق کا احترام افراد کے لیے بھی ہے اور اداروں اور حکومتوں کے لیے بھی۔ جس طرح انفرادی ملکیت پرناجائز قبضہ ناقابلِ قبول ہے‘ اسی طرح اجتماعی ملکیت پر بھی ناحق قبضہ حرام ہے۔ اجتماعی جگہ پر ناجائز تجاوزات نہ صرف دوسروں کے حق ملکیت میں دخل اندازی ہے بلکہ راستے کے حق کا اتلاف بھی ہے۔ ایک انچ جگہ بھی غلط طور پر اپنے گھر میں شامل کرنا یا عام افراد کے لیے ناقابلِ استعمال بنانا‘ ایک ایسا غلط کام ہے جس پر مواخذہ ہوگا۔
جائز ذرائع سے مکان کی تعمیر اور اس کے رنگ روغن میں کوئی قباحت نہیں۔ بالخصوص جب اس کا مقصد موسم کی سختیوں سے بچائو اور گھرکی حفاظت ہو لیکن اسلام اسراف کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ مسرفین وہ لوگ ہیں جن سے ان کا رب کوئی محبت نہیں کرتا۔ گھروں کی ایسی تزئین و آرایش جس میں نمایش کا جذبہ ہو‘ ہرگز پسندیدہ نہیں۔ گھروں کو عیاشی کا مرکزو مظہربنا دینا قطعاً مطلوب نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھروں کے معاملے میں ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سادگی کی تلقین فرماتے۔
غیرضروری تزئین و آرایش سے اگلا قدم لاحاصل تعمیرات کا ہے۔ قرآن ایسی اقوام کا ذکر نہایت ناپسندیدگی سے کرتا ہے جن کا شیوہ یہ تھا کہ ہر اُونچے مقام پر ایک لاحاصل تعمیر بناڈالتے۔ سورۃ الشعرا میں ایسی اقوام کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے:
یہ تمھارا کیا حال ہے کہ ہر اونچے مقام پر لاحاصل ایک یادگار عمارت بنا ڈالتے ہو‘ اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو‘ گویا تمھیں ہمیشہ رہنا ہے۔ (الشعرا ۲۶:۱۲۸-۱۲۹)
کیا تم ان سب چیزوں کے درمیان ’جو یہاں ہیں‘ بس یونہی اطمینان سے رہنے دیے جائو گے؟ ان باغوں اور چشموں میں؟ ان کھیتوں اور نخلستانوں میں جن کے خوشے رس بھرے ہیں؟ تم پہاڑ کھود کھود کر فخریہ ان میں عمارتیں بناتے ہو۔ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (الشعراء ۲۶: ۱۴۶-۱۵۰)
عاد اور ثمود دونوں عمارتوں کی تعمیر میں نام آور ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان اقوام کے جرائم کی فہرست میں ان کے اس انہماک کا خاص طورسے تذکرہ فرماتے ہیں۔ ان دونوں اقوام کو ان کے ایسے ہی جرائم کی پاداش میں تباہ و برباد کر دیا گیا۔
قرآنِ پاک میں جن امور کی محبت کو رب کریم کے ساتھ تعلق میں رکاوٹ قرار دیا گیا ہے ان میں بھی گھر شامل ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:
اے نبیؐ، کہہ دو کہ اگر …وہ گھر جو تم کو پسند ہیں‘ اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے‘ اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔ (التوبہ ۹:۲۴)
گھر اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے لیکن اگر یہ نعمت بندے کو اپنے رب کا شکرگزار بنانے کے بجاے غفلت میں ڈالنے کا سبب بن جائے تو یہ اس کی انتہائی بدقسمتی ہوگی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک وسیع گھر کی دعا بھی مانگتے تھے اور گھروں میں انہماک اور تفاخر کا اظہار کرنے والی تعمیرات سے اظہارناپسندیدگی بھی فرماتے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے:
بغیر ضرورت کے تعمیر کی گئی عمارت میں کوئی بھلائی نہیں۔
ہر عمارت اپنے مالک کے لیے مصیبت ہے سواے اس کے جو کسی ضرورت کی تکمیل کے لیے تعمیر کی جائے۔
جو شخص بغیر ضرورت کے تعمیر کرتا ہے قیامت کے روز اسے کہا جائے گا کہ وہ اس عمارت کو اپنے سر پر اٹھائے۔
قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ لوگ عمارتوں کی تعمیر میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے۔
لاحاصل تعمیر پر خرچ ہونے والی رقم میں کوئی برکت نہیں۔
ضروریات پر خرچ کی جانے والی رقم صدقہ ہے‘ جب کہ نمایش کی غرض سے خرچ کی جانے والی رقم میں کوئی بھلائی نہیں۔ (ترمذی‘تعلیمات اسلامی)
بے مقصد تعمیرات اسراف ہیں‘ وقت اور وسائل کا ضیاع۔ دنیا کی رہنمائی کے منصب پر فائز اُمت مسلمہ کس طرح اپنے وسائل لاحاصل مشاغل کی نذر کر سکتی ہے؟
بستیوں کی صورت حال
اسلام کے احکام اور رہنما ہدایات کو پیشِ نظر رکھا جائے تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہماری بستیوں کی وہ صورت حال ہو جس میں وہ اس وقت ہیں‘ مثلاً:
سڑکیں اور گلیاں تنگ ہیں جنھیں باڑھ یا جنگلے لگا کر ناجائز تجاوزات کے ذریعے مزید تنگ کیا جا تا ہے۔
پانی کے بہائو اور نکاسی کا نظام درست نہ ہونے کے باعث بارش وغیرہ کے نتیجے میں پانی سڑکوں پر کھڑا رہتا ہے۔
گھروں کی تعمیرمیں سڑک کے لیول کا خیال نہ رکھنے سے بھی پانی کے بہائو میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
گٹرکھلے ہوتے ہیں۔ ان سے غلیظ پانی رِس رہا ہوتا ہے۔
دیہاتوں میں نالیاں کھلی ہیں‘ ان کی صفائی کا کوئی انتظام نہیں۔
خالی جگہوں پر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں جس سے بستیاں آلودہ ہوتی ہیں۔ مکھی‘ مچھر اور دیگر حشرات الارض پیدا ہوتے ہیں اور صحتیں برباد ہوتی ہیں۔
ناجائز تجاوزات کی تو اس قدر بھرمار ہے کہ ایک اندازے کے مطابق لاہور کی جدید بستیوں میں ۹۰ فی صد کے قریب گھر اس مرض کا شکار ہیں۔
گھروں کی تعمیر میں روشنی اور ہوا کی آمدورفت کا خیال نہیں رکھا جاتا۔
گھروں کی تعمیر میں پردے کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ چنانچہ صحن یا چھتوں پر بیٹھنا کم ہوتا جا رہا ہے۔ تازہ ہوا اور روشنی جیسی عظیم الشان نعمتوں سے محرومی کئی مسائل کا باعث بنتی ہے۔
گھر ہمارے رب کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے جیسا کہ فرمایا گیا کہ جسے سرچھپانے کو گھر ملا‘ سفر کے لیے سواری ملی‘ اور صبح شام پیٹ بھر کر کھانا مل گیا‘اس پر نعمتیں مکمل ہوگئیں۔ اللہ کی اس نعمت پر شکرگزاری کا تقاضا ہے کہ یہ گھر:
اللہ کے دین کی خدمت میں مددگار ہوں۔
ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کے راستے میں جہاد سے روکنے والے نہ ہوں۔
یہ تکبر اور فخر کی علامت نہ بن جائیں۔
یہ اللہ کے بندوں کے لیے کسی اذیت کا باعث نہ ہوں۔
پڑوسیوں کے لیے باعث آزار نہ ہوں کہ ان کی ہوا اور روشنی میں رکاوٹ ڈالیں۔ ان کے لیے بے پردگی کا باعث ہوں اور ہمارے گھروں کا شوروغل ان کے آرام میں خلل انداز ہو۔
ان گھروں کی تعمیر کے لیے حاصل کردہ زمین میں ایک انچ بھی ناجائز طور پر حاصل کردہ نہ ہو۔ ان کی تعمیر میں مال حرام نہ استعمال ہو۔
یہ گھر راستوں کی تنگی کا باعث نہ ہوں۔ بستیوں کے راستے کشادہ ہوں۔
ہمارے گھر اور راستے صفائی‘ پاکیزگی اور نظافت کا عمدہ معیار رکھتے ہوں۔ یہ سادگی اور اسلامی شعار کے عکاس ہوں‘ نیز ہمیں اپنے رب کا شکرگزار بندہ بنانے والے ہوں۔
ان امور کا اگر خیال رکھا جائے تو پھرہی یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ انسان اس روز کی جواب دہی سے بچ جائے جب نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا---!
ملک میں خواتین پر بڑھتے ہوئے گھریلو تشدد کے انسداد کے پیشِ نظر پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے لیے ’’مسودہ قانون انسداد گھریلو تشدد پنجاب مصدرہ ۲۰۰۳ئ‘‘ پیش کیا گیا ہے تاکہ شادی کے تقدس اور عورتوں اور بچوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے اور متاثرہ فرد کے لیے کوئی کارگر قانونی دادرسی کی صورت نکل سکے۔
ہمارے معاشرے میں خواتین پر تشدد ایک حقیقت ہے۔ آئے دن اخبارات میں اس حوالے سے خبریں دیکھنے میں آتی ہیں۔ معمولی معمولی باتوں پر جھگڑا‘ گالم گلوچ‘ تضحیک‘ مارپیٹ‘ روز مرہ استعمال کی ضروریات کو پورا نہ کرنا یا ہاتھ تنگ رکھنا ‘ مرضی کے بغیر یا کم عمری میںشادی کرنا‘دولت اور جایداد کے لیے بڑی عمر کے مرد سے نکاح‘ غیرت کے نام پر قتل‘ کاروکاری‘ قرآن سے شادی‘ وراثت سے محروم رکھنا--- ایک طویل فہرست بنائی جاسکتی ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا ایک کرب ناک پہلو ہے‘ اس پر جتنا بھی دکھ کا اظہار کیا جائے کم ہے۔ خواتین پر روا رکھا جانے والا یہ تشدد اسلام کی تعلیمات کے بھی صریحاً خلاف ہے۔ اس کا کوئی جواز نہیں۔ گھریلو تشدد کے انسداد کے بل کا بنیادی محرک بھی غالباً یہی جذبہ ہے کہ اس ظالمانہ اور غیر اخلاقی رویے کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ گھریلو تشدد کا ایک پہلو خواتین کے ہاتھوں مردوں کو مختلف قسم کے معاشی و ذہنی دبائو کا سامنا بھی ہے جو ان کی زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے۔ البتہ یہ بات غور طلب ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے جو طریق کار وضع کیا جا رہا ہے وہ کس حد تک قابلِ عمل ہے اور آیا اس کے نتیجے میں گھریلو تشدد کا خاتمہ ہو سکے گا اور گھریلو اور ازدواجی زندگی سکون کا باعث بن سکے گی‘ یا ایک مسئلے کا حل نکالتے نکالتے کوئی نیا بگاڑ یا انتشار پیدا ہوجائے گا۔
یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ محض قانون سازی سے اگر معاشرتی فساد کا خاتمہ ہو سکتا تو جدید تہذیب کے حامل ترقی یافتہ ممالک یورپ اور امریکہ میں خواتین پر تشدد کا خاتمہ ہو جانا چاہیے تھا جہاں خواندگی کی شرح تقریباً۱۰۰ فی صد اور قانون کی بالادستی معاشرے کا شعار ہے۔ عملاً صورت حال کیا ہے؟ اس کا اندازہ امریکہ کے محکمہ سراغ رسانی کی اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ میں ہر تیسری بیوی شوہر سے مار کھاتی ہے۔یہاں تک کہ حاملہ بیوی کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ ہر دوسری حاملہ عورت پٹتی ہے اور ایک تہائی بچے مار کا اثر لیے پیدا ہوتے ہیں (نواے وقت‘ ۱۲ نومبر ۲۰۰۳ئ)۔ یہ وہ ملک ہے جہاں ایک ٹیلی فون کال پر پولیس گھرپہنچ کر خاوند کو گرفتار کرکے لے جاتی ہے‘ جیل میں بند کر دیا جاتا ہے اور قید یا جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔
پنجاب اسمبلی میں پیش کیا جانے والا انسداد گھریلو تشدد بل بھی کچھ اسی نوعیت کی قانون سازی چاہتا ہے۔ اس بل کے تحت تجویز کیا گیا ہے کہ ہر تھانے کی سطح پر پروٹیکشن افسر کی تعیناتی کی جائے جس کا عہدہ پولیس انسپکٹر یا گزٹیڈ افسر کے برابر ہو۔ دیہی اور شہری علاقوں کے لیے فیملی مصالحتی کونسل تشکیل دی جائے گی جو پانچ ممبران پر مشتمل ہوگی جن میں سے ایک ممبرخاتون ہوگی۔ گھریلو تشدد کی اطلاع ملنے پر یا ازخود پروٹیکشن افسر فوری طور پر موقع پر پہنچے گا۔ اسے اختیار حاصل ہوگا کہ متاثرہ فرد کو کسی ’’محفوظ جگہ‘‘ (رشتے دار‘ فیملی فرینڈ یا خدمات فراہم کنندہ کی طرف سے تیار کردہ محفوظ مقام یا دارالامان) منتقل کر دے۔ خیال رہے کہ ازخود اقدام کا اختیار تو مغرب میں بھی نہیں دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں نجی زندگی کا تصور بری طرح مجروح ہوجائے گا۔
مصالحتی کونسل مصالحت کے لیے اقدام کرے گی اور معاملہ جوڈیشل مجسٹریٹ درجہ اول کے سپرد کرسکتی ہے۔ مجسٹریٹ دیگر اقدامات کے علاوہ‘ مجوزہ بل کی شق ۶-ii اور ۶-iii کے تحت اگر وہ گھریلوتشدد کا محض شائبہ پائے تو ضمانت طلب کر سکتا ہے اور پروٹیکشن آرڈر کے ذریعے مجرم کو اپنی ہی رہایش گاہ یا کسی دیگر حصے میں داخل ہونے سے منع کر سکتا ہے اور متاثرہ فرد کو گھر اور گھریلو اشیا کے استعمال کا حق دلوائے گا۔ اس قسم کے ’’محفوظ مقام‘‘ کا تعین اور اس پر عمل درآمد کی نوعیت‘ جھگڑے کے تصفیے کے دوران اہلِ خانہ کی ضروریات پورا کرنا یا بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات وغیرہ جیسے پہلو بھی بہت اہم ہیں۔ یہ اقدامات بجاے بہتری کے گھرکے انتشار کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ یہ بل اسلام کے قانون ازدواج اور اس کی روح مودت و رحمت سے بھی کئی حوالوں سے متصادم ہے۔ اس کی شرعی حیثیت کا تعین بھی ایک اہم پہلو ہے۔البتہ بظاہر یہ تشدد سے بچائو کے لیے ایک اچھا اقدام لگتا ہے لیکن اس کے دُور رس اثرات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔
دُور جانے کی ضرورت نہیں خود مغرب کا تجربہ اس کا کھلا ثبوت ہے۔ مغرب نے اپنے تمدن کی بنیاد مرد و عورت کی مساوات‘ عورت کے معاشی استقلال‘ مردوزن کا آزادانہ اختلاط اور عورت کے قانونی تحفظ پر رکھی۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گھر جو تمدن کی بنیاد ہے بکھر کر رہ گیا ہے اور خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اگرچہ عورت کو قانونی تحفظ حاصل ہے مگر اس کے باوجود خواتین کا مردوں کے ہاتھوں پٹنا‘ طلاق کی کثرت‘ جنسی تشدد‘ فواحش کی کثرت‘ شہوانیت اور بے حیائی کا فروغ‘ سرے سے نکاح کرنے سے اجتناب اور بلانکاح ساتھ رہنے کا رجحان‘ نسل کشی اور تحدید آبادی‘ بچوں اور نئی نسل کی بے راہ روی‘ جسمانی قوتوں کا انحطاط‘ ذہنی و نفسیاتی امراض کا اضافہ جیسے مسائل کا مغرب کو سامنا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ مرد اور عورت کے باہمی تعلق یا قانون ازدواج کی بے اعتدالی ہے۔ ہمارے ہاں بھی مادیت کے اثرات اور دیگر عوامل کی بنا پر رشتۂ ازدواج متاثر ہو رہا ہے۔ اس کا اندازہ فیملی کورٹس میں طلاق‘ خلع اور بچوں کے مسائل کے حوالے سے پیش ہونے والے مقدمات میں روز افزوں اضافے سے لگایا جا سکتاہے۔ انسدادِ گھریلوتشدد کے اس بل کے حوالے سے معاشرتی انتشار کا یہ پہلو خاص طور پر غورطلب ہے۔
معاشرے کی پایدار بنیادوں پر اصلاح کے لیے ایک ٹھوس اساس و بنیاد اور متوازن و معتدل نظریۂ حیات اور لائحہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر اس کو معاشرے کا چلن بننا چاہیے اور ان اصول و ضوابط سے انحراف کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ امیروغریب سب کے لیے اصول ایک ہو‘ خلاف ورزی تادیب کی مستحق ٹھیرے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہمارے لیے نمونہ ہے۔ آپ ؐ نے جب اصلاح معاشرہ کی تحریک کا آغاز کیا تو قانون سازی کو بنیاد نہیں بنایا تھا بلکہ ایک کلمے کے اقرار کو بنیاد بنایا تھا جو اس بات کا اعلان تھا کہ ایک خدا کے سوا ہم کسی کی اطاعت نہ کریں گے۔ پسند وناپسند کا معیار اور کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی بنیاد خدا کی ذات اور رسولؐ اللہ کا طریقہ ہوگا۔ یہ محض ایک اعلان نہیں تھا بلکہ ایک عہد وپیمان تھا کہ اگر کوئی معیار یا اصول ہے تو وہ قرآن و سنت ہیں۔ یہ وہ اصول اور ضابطہ تھا جس پر آپؐ نے معاشرے کی اصلاح کی بنیاد رکھی‘ اور اسلام کی متوازن اور ابدی تعلیمات وہ لائحہ عمل تھا جس پر عمل کرنا ایمان‘ حبِ رسولؐ اور قانون ٹھیرا۔
اس کے نتیجے میں وہ معاشرہ قائم ہوا جہاں گھر کی بنیاد مودت و رحمت تھی نہ کہ ظلم و تشدد اور جبر۔ اچھا خاوند وہ شمار ہوتا جو اہل خانہ کے ساتھ بہتر رویہ رکھتا ہو‘ ان کے جذبات کا احترام کرتا ہو اور ان کی ضروریات کو اپنا فرض جان کر پورا کرتا ہو۔خاوند اپنے فرائض خوشدلی سے ادا کرے اور بیوی خاوند کے حقوق۔ اگر کسی کو فکر تھی تو یہ کہ کسی کوتاہی کے مرتکب ہوکر خدا کے ہاں پکڑ نہ ہو جائے۔ میاں بیوی کے تنازعات کے حل کے لیے ایک منصفانہ اورمعتدل قانون ازدواج تھا۔ زوجین ہزار کوشش کے باوجود ساتھ نہ رہ سکیں اور حدود اللہ ٹوٹنے کا خدشہ ہوتا تو خوشدلی سے الگ ہو جاتے اور عدالتی چارہ جوئی کے لیے مواقع یکساں تھے۔ فرائض کی ادایگی اور جواب دہی کا احساس ہی وہ محرک تھا جو لوگوں کو حدود کا پابند بناتا تھا نہ کہ محض پولیس مداخلت یا قانون سازی۔
لہٰذا اصلاحِ معاشرہ کے لیے اور گھریلو تشدد کے انسداد کے لیے ہمارے لیے بھی بنیاد اسی اصول کو بننا چاہیے‘ یعنی خدا کی اطاعت‘ فرائض کی ادایگی اور جواب دہی کا احساس!
پہلی ضرورت شعور کی بیداری ہے کہ ہم خدا کے بندے ہیں اور ایک مسلمان مرد اور عورت کے یہ یہ فرائض اور ذمہ داریاں ہیں جنھیں ادا کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے ذرائع ابلاغ کے ذریعے وسیع پیمانے پر ’’اصلاح اخلاق‘‘ کی مہم چلائی جانی چاہیے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا‘ رسائل و جرائد‘ سماجی تنظیمیں‘ سب کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اُبھارا جانا چاہیے۔ نظامِ تعلیم اسی فکر کو پروان چڑھانے اور تربیت کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ اس کے لیے حکومت اقدامات اٹھائے۔ معاملات کی بنیاد ذاتی پسند ناپسند نہیں بلکہ قرآن و سنت اور دین کی تعلیمات کو ٹھیرایا جانا چاہیے۔ یہ بہت مضبوط بنیاد ہے۔
اسلام چاہتا ہے کہ گھریلو تنازعات گھر کی سطح پر ہی حل ہوں۔ اس لیے خاندان کے بزرگوں اور بڑے بوڑھوں کو اپنا کردار خوش اسلوبی سے نبھانا چاہیے۔ اس کا احساس اُجاگر کرنے‘ نیز بزرگوں کے احترام کی معاشرتی قدر کو بھی مضبوط بنانے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
محلے کی سطح پر کمیٹی یا معززین کی پنچایت کے ذریعے محلے اور علاقے کے تنازعات کوحل کرنا پہلی ترجیح ہونا چاہیے۔ بلدیاتی سطح پر مصالحتی عدالت ایک منتخب فورم ہونے اور اہلِ علاقہ کے معاملات سے باخبر ہونے کے لحاظ سے زیادہ موثر کردار ادا کر سکتی ہے اور پولیس تھانے میں جانے سے پہلے مصالحت کی بنا پر معاملات بخوبی نمٹائے جا سکتے ہیں۔ مقامی سطح پر کیے جانے والے فیصلوں کو قانونی حیثیت دی جانی چاہیے اور عدالت ان کو تسلیم کرے تو عدلیہ پر بڑھتا ہوا دبائو بھی کم ہو سکتا ہے۔ مصالحتی عدالت کے ہوتے ہوئے مجوزہ بل کے تحت ’’فیملی مصالحتی کونسل‘‘ کا قیام اضافی امرہے۔
سب سے اہم پہلو جو توجہ چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ بے حسی ختم ہونا چاہیے۔ اگر کہیں بھی کسی کی حق تلفی ہو‘ کسی قسم کی زیادتی کی جائے ‘ تو اس پر خاموش تماشائی نہ بنا جائے۔ گھر کے افراد‘ خاندان کے بزرگ‘ برادری‘ ہمسایہ‘ اہلِ محلہ و علاقہ‘ معززین علاقہ‘ منتخب کونسلر‘ سماجی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران‘ سب سماجی و اخلاقی دبائو کے تحت زیادتی کرنے والے کا آگے بڑھ کر ہاتھ روکیں اور اس کو اخلاقی ذمہ داری اور فرائض سے کوتاہی کی طرف توجہ دلا کر اصلاح کی بھرپور کوشش کریں۔ ماضی کی طرح آج بھی یہ سماجی دبائو بہت سی اخلاقی خرابیوں کے سدّباب کے لیے موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ اسلام برائی کو دیکھ کر اسے برداشت کرنے کی نہیں بلکہ حسب ِ استطاعت قوت کے ذریعے مٹانے پر زور دیتا ہے۔ اس سب کے باوجود اگر گھریلو تشدد کا راستہ نہ رکے تو پھر قانون ازدواج کے تحت عدالت کا دروازہ بھی کھلا ہے۔
جس معاشرے میں خرابی اور بگاڑکا سدّباب نہ ہو اور بہتری کی کوشش ساتھ ساتھ جاری نہ رہے تو بگاڑ بالآخر انحطاط اور اجتماعی خودکشی پر منتج ہوتا ہے۔ لہٰذا معاشرے کی اصلاح اور گھریلو تشدد کے انسداد کے لیے جہاں قانونی اقدامات کو موثر بنانے کی ضرورت ہے‘وہاں عوامی سطح پر شعور کی بیداری اور اخلاقی خرابیوں کے سدّباب کے لیے اپنا فرض ادا کرنے کی فکر اور تڑپ کے چلن کو عام کرنا بھی ناگزیرہے۔ حکومت کو اپنی اس ذمہ داری کو بھی محسوس کرنا چاہیے۔
ہر انسان امن، محبت، سکون اور اس طرح کی دیگر نفسیاتی و جذباتی ضروریات کی تسکین کا حاجت مند ہے۔ لیکن مرد بعض ضروریات کی تسکین کے طریق کار میں عورت سے مختلف ہوتا ہے اور اس اختلاف سے ناواقفیت میاں بیوی کو بعض مشکلات میں مبتلا کر دیتی ہے۔
میاں اور بیوی کی جذباتی ضروریات جن کی تسکین ضروری ہے بڑی حد تک انسان کے طرزِعمل کو متاثر کرتی ہیں۔ انسان کا طرز عمل انھی کے زیر اثرہوتا ہے سوائے اس صورت کے کہ مرد کی جذباتی ضروریات مکمل طور پر عورت کی ضروریات سے مختلف ہوں۔ افسوس یہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کی اکثریت ایک دوسرے کی جذباتی ضروریات کے اختلافات کو نہیں سمجھتی۔ اس عدم واقفیت کے نتیجے میں وہ ایک دوسرے کوسمجھنے سے قاصر رہتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اس فہم کا مثالی اسلوب کیا ہو، نیز وہ مطلوب تعاون کس طرح پیش کریں اور مشکلات سے کیسے بچیں۔ان میں سے ایک اہم مشکل غلط فہمی ہے۔
زوجین میں سے ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ اس نے دوسرے کی ضروریات کی خاطر بہت کچھ پیش کیا ہے اور بڑا ایثار کیا ہے لیکن اس سے کوئی سود مند نتیجہ برآمد نہیں ہوا بلکہ جو کچھ پیش کیا گیا وہ سارے کا سارا ضائع ہوگیا اور حسن سلوک کا اعتراف نہیں کیا گیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ زوجین نیک نیتی کے ساتھ محبت، مہربانی، شفقت اور معاونت کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن غلط اسلوب متوقع حسنِ سلوک کو بیگانگی میں تبدیل کردیتا ہے۔ جو چیز معاملات کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے وہ یہ کہ طرفین میں سے کوئی یہ خیال کر لے کہ یہ پریشانیاں (دوسرے فریق کی) عمداً پیدا کردہ ہیں۔جیسے کہ مرد کوئی کام بیوی کی خوشنودی اور بھلائی کے لیے کرے لیکن وہ بیوی کو اس انداز سے پیش کرے ‘ گویا کہ وہ کسی دوسرے مرد کو پیش کر رہا ہے ‘ نہ جس طرح کہ عورت کو پیش کیا جانا چاہیے ۔ اسی طرح سے عورت اپنے شوہر کو اس انداز سے پیش کرے جیسا کہ اس کی ضرورت مند کوئی عورت ہو، نہ کہ مرد۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ فریقین میں سے ہر ایک کو دوسرے فریق کی ضروریات اس طرح نظر آئیں جیسے کہ وہ اس کی اپنی ہوں۔ وہ ضروریات حسب ذیل ہیں:
۱- اعتماد: میاں‘ بیوی کے ساتھ معاملات میں شرکت اور تعاون کرتا ہے‘ اس کی حفاظت و پاسبانی کے لیے مستعد رہتا ہے‘ اور جو کچھ بھی وہ خرچ کرتاہے وہ بیوی اور خاندان کی خوشنودی اورخوش حالی کے لیے خرچ کرتا ہے‘ نیز یہ کہ وہ ہمیشہ اپنے خاندان کی بہتری کے لیے کوشاں رہتا ہے۔لہٰذا اسے محسوس ہونا چاہیے کہ اسے اپنی بیوی کا اعتماد حاصل ہے اور وہ اس کی قدر دا ن ہے ۔
۲- قبولیت: بیوی کی طرف سے میاں کو کسی اصلاح و تبدیلی کی شرط کے بغیر قبول کر نا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کامل فرد ہے‘ جب کہ کمال توصرف اﷲ وحدہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کے لیے ہے، لیکن وہ قبولیت ‘ اس بات کی دلیل ہوگی کہ بیوی شوہرسے مطمئن ہے‘ اور وہ باور کرتی ہے کہ شوہر اپنی غلطیوں کی اصلاح کا اہل ہے اور بیوی کی دائمی نصیحتوں کا حاجت مند نہیں ہے ۔ اس صورت میں بیوی کے لیے سہولت پیدا ہو جائے گی کہ شوہر اس کی بات پر دھیان دے اور اس کی رائے کو قبول کرلے۔
۳- تحسین و قدردانی: شوہر بیوی کی طرف سے تحسین و قدردانی محسوس کرے۔ جب بھی وہ خاندان کے لیے زبانی یا عملی طور پر کوئی چیز پیش کرے تو بیوی کی طرف سے احسان مندی‘ شکر گزاری اور حسن سلوک کے اعتراف کا اظہار ہونا چاہیے‘ اور اسے شوہر کی شخصیت اوراس کی رائے کو قدر و منزلت کی نظرسے دیکھنا چاہیے۔
۴- پسندیدہ نگاہ : شوہر کی عملی زندگی میں کامیابی کی بنیاد‘ اس کے خاندان میں اندرونی امن و سکون‘ اس کی بیوی کی طرف سے اس کی شخصیت ‘ اور اس کی داد و دہش کو پسندیدہ نگاہوں سے دیکھنا شوہر کی اپنی ثابت قدمی اور پختہ ارادے پر منحصر ہے ۔ یہ سب کچھ مل کر شوہر کی زندگی میں اہم اور بنیادی مقاصدکی تسکین کا باعث بنتا ہے۔
۵- تائید: یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ہر شوہر ایسا مردِ میدان بننے کا خواہش مند ہوتا ہے جو اپنی بیوی کی تمناؤں کا مصداق ہو۔ یہ مقام حاصل کرنے کی وہ سرتوڑ کوشش کرتا ہے ، اور بہترین حوصلہ افزائی جوشوہرکو اس دوران میں حاصل ہوسکتی ہے وہ اس کی بیوی کی تائیدہے۔ البتہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بیوی کی تائید کا مطلب شوہر کے ہر کام میں دائمی موافقت نہیں اور نہ یہ موافقت ہی خود اس کام کے لیے ہوتی ہے بلکہ یہ موافقت اور تائید ان اسباب اور نیک ارادوں پر بھی ہو سکتی ہے جو شوہر اس کام کے بارے میں بروے کار لاتا ہے۔
۶- حوصلہ افزائی: بیوی کی طرف سے شوہر کی حوصلہ افزائی اور بلند خواہشات کے حصول کے لیے اس کی ثابت قدمی پراس کے عزم و ارادے کو تقویت دینے سے شوہر سمجھتا ہے کہ بیوی پورے طور پر اس کی مزاج شناس ہے‘ نیز شوہر کی کامیابی کے لیے بیوی کا خواہش مند ہونا ایک ایسا امرہے جوبیوی اور اس کے خاندان کی کامیابی کو یقینی بنا دیتا ہے۔
۱- توجہ اور دل چسپی: بیوی اپنے میاں کی طرف سے توجہ کے اظہار اور دل چسپی کی ضرورت مند ہوتی ہے ۔ اسے آگاہی ہونی چاہیے کہ وہ میاں کی نظر میں ایک ممتاز شخصیت ہے اور شوہر کی زندگی میں اسے ایک قابل ذکر مقام حاصل ہے۔
۲- ہمدردی : بیوی محسوس کرے کہ اس کا شوہر اس کی نسوانی حالت سے باخبرہے اور اس کے احساسات کے ساتھ تعامل میں اپنے اوپر گزرنے والی نفسیاتی کیفیات کو سمجھتا ہے‘ اور یہ کہ وہ اس کا ہمدرد ہے۔
۳- احترام: بیوی کی ضروریات میں سے ایک اہم ضرورت شوہر کی طرف سے بیوی کے اس احساس کو پختہ کرنا ہے کہ وہ بذات خود ایک قابل احترام اور آزاد شخصیت ہے ‘ اور دلیل کے طور پر وہ اس کی بات کو دل چسپی سے سنتا ہے اور اس کی رائے اور خیالات کواہمیت دیتاہے۔
۴- ترجیح: جب شوہربیوی کی ضروریات کو ترجیحاً پورا کردیتا ہے اور پوری مستعدی کے ساتھ اس کی تائید اور اس کے ساتھ تعاون کرتا ہے ‘ تو بیوی اپنے تئیں اپنی حاجات کو پا لیتی ہے اور اپنے لیے اپنے شوہرکے جذبہ ( محبت ) کو محسوس کرتی ہے ۔ وہ سمجھتی ہے کہ وہ شوہر کی منظور نظر ہے حتیٰ کہ شوہر اسے اپنی ذات پر بھی ترجیح دیتا ہے تو وہ اس سے متاثر اور خوش ہو کر پورے اعتماد کے ساتھ اپنی زندگی کو اپنے شوہر اور خاندان کے لیے وقف کر تی اوراپنے احساسات کو ان پر نچھاور کر دیتی ہے۔
۵- اظہار احساسات کی آزادی : شوہر کی طرف سے بیوی کواسے تمسخر کا نشانہ بنائے بغیر اظہارخفگی کا استحقاق اور اسے اپنے احساسات کی تعبیر کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔
۶- مستقل یقین دہانی: اکثر شوہریہ سمجھتے ہیں کہ شوہر کی اپنی بیوی کے ساتھ طویل رفاقت اور بیوی کے حسن سلوک کا مطلب لازماً یہ ہے کہ وہ اس کے اخلاص اور ایثار کے باعث اسے ایک مثالی شخص باور کرتی ہے جو اس کے احساسات اور وفاداری کا ثبوت ہے‘ نیزیہ کہ وہ اس کے جذبات کی سچائی کی دلیل ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیوی مستقل یقین دہانی چاہتی ہے کہ وہ شوہر کے جملہ احساسات کی مالکہ ہے، اس کی توجہ اور دل چسپی کا محور و مرکز ہے اور شوہر کے ہاں مرورزمانہ کے ساتھ اس کی قدر ومنزلت میں کوئی کمی نہیں ہوئی ‘ بلکہ بڑھی ہے۔ یہ جواب ہے جو بیوی اپنے شوہر سے سننا چاہتی ہے۔ جب وہ ایک عمر کے بعد اس کے احساسات کی سچائی کے متعلق سوال کرنا چاہے توشوہر کی طرف سے سردمہری کی کیفیت اسے صدمے سے ہم کنار کر دیتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں بیوی میں سے ہر ایک ان جملہ کیفیات کا ضرورت مند ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میاں توجہ ، دل چسپی ، احترام، ترجیح وغیرہ کا حاجت مند نہیں ہوتا اور نہ یہ کہ بیوی اعتماد وتائید وغیرہ نفسیاتی حاجات سے بے نیاز ہوتی ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ میاں اپنی مخصوص چھ حاجات حاصل کرلے، وہ دوسری قسم کی حاجات ہرگز نہیں حاصل کر سکتا اور یہی صورت بیوی کے بارے میں ہے کہ جب تک وہ اپنی بنیادی حاجات کو حاصل نہیں کر لیتی‘ دوسری قسم کی حاجات حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔ طرفین میں سے ہر ایک جب اپنی اپنی ضروریات حاصل کر لے گا تب ہی وہ دوسری جانب سے بڑے پیمانے کی تحسین و موافقت حاصل کرنے کے قابل ہو گا۔
اﷲ عزوجل نے میاں بیوی کی نفسیاتی حاجات میں اس اختلاف کو اسی وقت پیدا فرمادیا جب اس نے آدم و حوا‘مذکر و مؤنث کو پیدا فرمایا اور تخلیق کے اس اختلاف کی بنیاد پر دیگر اختلافات مرتب ہوئے اور یہی دونوں کی جسمانی ساخت اورنشوونما کی بنیاد ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے انھیں تذکیر و تانیث اور متعین ذمہ داریاں ودیعت فرمائیں۔
نفسیات، تربیت، عادات وروایات کے اس بنیادی اختلاف نے ضروریات میں اختلاف پیدا کر دیا۔ ہمارا اس سے اتفاق نہیں کہ اختلاف زندگی کے بگاڑ کا باعث ہے ‘ بلکہ وہ تو اس کا خدمت گار ہے کیوں کہ طرفین ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اور ان کے مابین نفسیاتی موافقت تکمیل پا جاتی ہے۔
ان ضروریات کے کچھ مخصوص عوامل ہیں جن کی تکمیل کا طریقہ ، فطری طریقہء کار سے مختلف ہو گیا ہے۔ لہٰذا اس نے ماں کی مامتا‘ بیوی کی زندگی اور عورت کی کامیابی کے معاملے کو بگاڑ کر رکھ دیا ۔ نتیجتاً توازن بگڑ گیا ہے۔
قبل ازیں ماں اپنی بیٹی کی تربیت اس حیثیت سے کرتی تھی کہ پہلے اس نے بیوی بننا ہے، اس کے بعد ماں۔ مراحل کی یہ وہ ترتیب ہے جس کا اسے نفسیاتی طور پر اہل بنایا گیا ہے۔ مراحل کے توازن کا بگاڑ بہت بڑی غلطی کا ارتکاب ہے۔ لہٰذا ہم نہ صرف نفسیاتی حاجات کے مطالعہ کے ضرورت مند ہیں بلکہ ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم باہمی کش مکش کے مراحل‘جو میاں بیوی کے درمیان بُعد پیدا کرتے ہیں‘ سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بہت زیادہ نفسیاتی تعلیمات حاصل کریں۔
ازدواجی زندگی سے متعلق فریقین کا تصور الگ الگ ہوتا ہے لیکن بنیاد ی طور پر ضروریات میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا جیسا کہ حاجت پوری کرنے کے درجے میں بھی کوئی ضابطہ نہیں ہوتا۔ البتہ بعض حالات میں بیوی ا عتماد‘ توجہ یا تائید وغیرہ کی زیادہ مقدار کی حاجت مندہوسکتی ہے۔
۱- زوجین کے حقوق یا ان میں سے کسی ایک کی حاجات کا نظر انداز کر دینا ۔ اگر ان کی تکمیل کا براہ راست اور فوری طورپر اہتمام نہ کیا جائے تو وہ دردانگیز احساسات اکٹھے ہوتے اور ایک لمبے عرصے تک تہ بہ تہ جمع ہو تے رہتے ہیں حتیٰ کہ وہ کسی غیر مناسب وقت پر پھٹ پڑتے ہیں۔ لہٰذا فریقین کا فرض ہے کہ وہ بلاتاخیر معاملات کو نمٹالیں۔
۲- طرفین میں سے کوئی ایک اپنی بہت سی خواہشات کو ایثارو قربانی کے نام پر ترک کر دے تاکہ وہ ایثار کیش شمار کیا جائے‘ جب کہ وہ ان خواہشات کو پورا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ ہاں ‘ اگر ان میں سے کسی ایک پر ایثار کرنا ناگزیر ہو تو ضرور کیا جائے اور زوجین اپنا نصب العین بنا لیں کہ وہ جو کچھ بھی اپنے خاندان کے لیے کریں ‘ وہ ایک ہی نہر میں ڈالا جائے جو ان کے خاندان کی سعادت مندی اور خوشحالی کی نہر ہے۔
اگر میاں یا بیوی کی طرف سے مذکورہ چھ ضروریات میں سے کوئی ضرورت سے زیادہ بطور عطیہ پوری کی جائے توا ن کے مابین تائید ،حوصلہ افزائی اور نصائح کی کثرت کے ساتھ ایسا تعلق پیدا ہو جائے گا جیسا کہ ماں کا بیٹے کے ساتھ۔ نتیجتاً معاملہ دو طرح تقسیم ہو جائے گا ‘ یا تو میاں اس بار ے میں کوفت و پریشانی میں مبتلا رہے گا اور یا ہتھیار ڈال دے گا اور اس دوران میں بیوی کو شکایت رہے گی کہ خاندان میں ہر شے کے بارے میں وہی مسئول اول بن کر رہ گئی ہے۔
۳- زوجین کو یہ حقیقت معلوم ہو جانی چاہیے کہ مرد اپنے فیصلے میں تائید کا طلب گار ہوتاہے‘ جب کہ عورت اپنے فیصلے میں شرکت کی خواست گار ہوتی ہے۔ مردکی فطرت آزادی اور خوداعتمادی پر مشتمل ہوتی ہے‘ جب کہ عورت شرکت کی طرف مائل ہوتی ہے اور شرکت بھی اس کی ، جسے وہ پسند کرتی ہو۔
۴- سوے ظن اور بدگمانی ازدواجی زندگی کی رفتار میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ قرآن حکیم اور سنت مطہرہ میں ہمیں لوگوں سے بدگمان ہونے سے منع فرمایا گیا ہے اور میاں کی بیوی سے یا بیوی کی میاں سے بدگمانی بدرجہ اولیٰ اجتناب کی متقاضی ہے۔ لازم ہے کہ بیویاں اپنے شوہروں اور شوہر اپنی بیویوں کے ساتھ حسن ظن کا رویہ اختیار کریں ‘ اور کمال تو صرف اﷲ وحدہ لاشریک ہی کے لیے ہے۔ لیکن زوجین کے مابین حقیقی اشتراک و ہم آہنگی تو وہ ہے جو زندگی کے باہم متصادم نقطہ ہاے نظرمیں آئے۔ (انٹرویو: ایمان الشوبکی‘ ترجمہ: خدابخش کلیار‘ ہفت روزہ المجتمع ۲۵مئی ۲۰۰۲ء )
انسانی وجود کے کئی پہلو ہیں۔ وہ محض ایک بے جان مشین نہیں بلکہ روح بھی رکھتا ہے اور جسم بھی‘ عقل بھی رکھتا ہے اور احساس و جذبات بھی۔ ان میں سے ہر پہلو کے کچھ مخصوص تقاضے ہیں جن کا پاس و لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اب اگر کسی ایک پہلو ہی پر نظر رکھی جائے اور دوسرے پہلو کو یکسرنظرانداز کر دیا جائے تو یہ بڑی غلطی ہوگی‘ مثلاً ایک کارخانے دار اپنے کارکنوں کے جسموں ہی پر توجہ دیتا ہے کہ وہ کتنے گھنٹے کام کرتے ہیں اور کتنی پیداوار ان سے حاصل ہوتی ہے اور ان کے احساسات و جذبات کو نظرانداز کر دیتا ہے‘ تو آخرکار کارکنوں کی معنوی پژمردگی کارخانے کی پیداوار پر بھی اثرانداز ہو کر رہتی ہے۔
آپ ایک شخص سے بات کرتے ہیں۔ آپ کا اندازِ گفتگو اس کے دل میںآپ کے لیے احترام و قدر بھی پیدا کر سکتا ہے اور بے قدری و بیزاری بھی۔ آپ کسی کا شکریہ ادا کرتے ہیں‘ آپ کے اندازِبیان سے محسوس ہو جاتا ہے کہ آپ دل سے شکریہ ادا کر رہے ہیں یا یہ محض ایک تصنّع اور بناوٹ ہے اور آپ صرف زبانی خانہ پُری کر رہے ہیں۔ ایک شخص آپ سے کوئی بات کہتا ہے‘ آپ پوری توجہ سے سنتے ہیں یا محض ہوں ہاں کر کے اسے ٹال دیتے ہیں۔ اس طرح کی چھوٹی چھوٹی مختلف چیزیں آپ کے مخاطب کو آپ کے بارے میں یہ رائے قائم کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں کہ آپ ایک بامقصد و بامعنی بات کرتے ہیں یا بے مقصد اور لایعنی بات کرنے والے ہیں۔ اس لیے طرزِگفتگو میں شائستگی اور آداب کا لحاظ رکھنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔
انسانی سلوک و معاملت کے پس پشت عوامل و محرکات کا دارومدار دراصل انسان کے عقیدے اور نظریۂ زندگی پر ہوتا ہے۔ ایک غیر مومن شخص سچ بولتا ہے‘ خندہ پیشانی سے پیش آتا ہے‘ وعدہ کا پابند ہے اور اسی طرح دیگر امور میں بھی خوش گوار طرزِعمل اپناتا ہے تو اس کا محرک ذاتی شرافت‘ مصلحت اورکسی نفع کی امید یا نقصان کا خوف بھی ہوسکتا ہے۔ مثلاًایک شخص چوری نہیں کرتا لیکن اس کی وجہ نگرانی اور پکڑے جانے کا خوف بھی ہو سکتا ہے۔اگر یہ مصلحت یا خوف باقی نہ رہے‘ تو وہ شخص اپنے حقیقی رنگ میں آجاتا ہے۔ آج بہت سے لوگ امریکہ اور یورپ کی دیانت داری کا ذکر ستایش کے ساتھ کرتے نہیں تھکتے لیکن اسی امریکہ کے ایک شہر میں آٹھ گھنٹوں کے لیے بجلی چلی جاتی ہے--- اور یہ بہت مشہورواقعہ ہے--- تو اس مختصر وقفے میں چوری کی ۵ ہزار وارداتیں درج کرائی جاتی ہیں کیونکہ بجلی چلے جانے کی وجہ سے کیمروں نے کام کرنا بند کر دیا تھا اور لوگوں کو پکڑے جانے کا ڈر نہیں رہ گیا تھا۔
مومن کو اللہ کا نیک بندہ اور شریف انسان بننے کی ہدایت کی گئی ہے۔ چنانچہ وہ بندگانِ خدا کے ساتھ حسن سلوک دراصل اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لیے کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں کہ ’’لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو سب سے اچھے اخلاق کا حامل ہو‘‘۔ بہترین اخلاق پر مومن اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر وثواب کا امیدواررہتا ہے۔ خوش اخلاقی کامظاہرہ اس کی ذاتی مصلحت پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ اس کے مقصدِ زندگی کا عین تقاضا ہوتا ہے‘ چاہے لوگ خوش ہوں یا ناراض‘ تعلقات خوش گوار ہوں یا ناخوش گوار‘ محبت و اعتماد حاصل ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو‘ وہ بہرصورت اپنے رب کو خوش رکھنے کے لیے کوشاں رہتاہے۔ یہی اس بات کی ضمانت ہوتی ہے کہ اس سے بہترین اخلاق پر برابر قائم رہنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں: ’’انسان اپنے اچھے اخلاق کی بدولت مستقل طور پر رات کو نمازیں پڑھنے والے اوردن میں روزے رکھنے والے شخص کے درجات حاصل کر لیتاہے‘‘۔
خوش اخلاقی مومن کی بہترین صفات میں سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں: ’’مومن (دوسروں سے) مانوس ہوتا بھی ہے اور انھیں مانوس کرتا بھی ہے۔ اور جو ایسا نہ کرے اس میں کوئی بھلائی نہیں۔ لوگوں میںسب سے بہتر وہ شخص ہے جولوگوں کوسب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہو۔ (جامع صغیر)
اللہ تعالیٰ نے جس طرح بہترین اخلاق اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اسی طرح یہ ہدایت بھی فرمائی ہے کہ ہم اللہ کے راستے کی طرف بھی لوگوں کوحکمت اور بہترین خیرخواہی کے ساتھ دعوت دیں۔
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ (النحل ۱۶:۱۲۵) اے نبیؐ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو‘ حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ۔
یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا تو سب سے اچھی بات ہے ہی‘بلانے کے لیے انداز بھی حکیمانہ اور دل کو موہ لینے والااختیارکرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے خود رسولؐ اللہ کی صفت نرم دلی بتائی ہے جو انسان کو خوش گوار سلوک کا پیکر بناتی ہے۔ فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَ نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ (آل عمران ۳:۱۵۹)’’یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم دل واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے‘‘۔
بہترین سلوک کی ایک شکل غلطیوں سے درگزر کرنا بھی ہے۔ یہ لوگوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بھی ہوتا ہے۔ کسی قدیم دانش ور کا قول ہے کہ لوگوں کے ساتھ محبت آمیز برتائو کرنا نصف عقل ہے۔
اگر اخلاق کی پشت پر کارفرما عوامل بہترین اور پسندیدہ نہیں ہوتے توان کی بنیاد نہایت کمزور اور ناپایدار ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کے اثرات بھی وقتی اور ناپایدار ہوتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ماتحت اپنے افسر کے ساتھ بظاہر بڑے اخلاق سے پیش آتے ہیں‘ اس کی خوشی و غم میں شریک ہوتے ہیں لیکن اس کے ریٹائر ہوجانے پراس سے کوئی ربط و تعلق باقی نہیں رہ جاتا۔ اگر تعلق کی بنیاد خلوص اور بے غرضی ہوتی‘ تو ربط و تعلق کا یکسر خاتمہ نہ ہو جاتا۔
جس طرح اچھے اخلاق کی بنیاد خدا ترسی اور اس کی رضا کا حصول ہے‘ اسی طرح اس کے کچھ ضابطے اور احکام بھی ہیں جو ہمارے اپنے مقرر کردہ نہیں بلکہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقرر ہیں۔ جس چیز کو حرام قرار دیا گیا ہے وہ حرام اور قابل اجتناب ہے اور جس چیز کو لازم قرار دیا گیا ہے اسے چھوڑنے کی کوئی گنجایش نہیں۔ مثلاً والدین کے ساتھ حسن سلوک اور رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کی بڑی اہمیت ہے۔ اسی طرح جن امور کی نشان دہی رسولؐ اللہ نے فرمائی ہے ان میں بھی کسی چوں چرا کی گنجایش نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے لیے ان میں سراسر بھلائی ہی بھلائی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سے واقف ہونے کی ہم مسلسل اور سنجیدہ کوشش کرتے رہیں اور جس حد تک واقفیت ہو‘ ان پر عمل پیرا ہوں۔
لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور حسنِ معاملہ کے کچھ فطری اصول وقواعد ہیں جو ساری دنیا میں اور تمام قوموں میں تسلیم کیے جاتے ہیں لیکن انھیں تسلیم کرنے اور ماننے کا فائدہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہماری زندگی مخلصانہ طور پر ان ہی اصولوں پر استوار ہو اور حالات کی نرمی و سختی ہماری راہ میں حائل نہ ہو سکے۔
نارمل لوگوں کے ساتھ تو اکثر ان ہی قواعد کے مطابق سلوک کیا جاتا ہے کیونکہ یہ انسان کی فطرت ہے کہ اس کے ساتھ اگر حسنِ سلوک ‘ عزت اوراحسان کا معاملہ کیا جاتا ہے تودل میں قدر کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص نارمل نہیں ہے‘ تو اس سے معاملہ کرتے وقت اس کے مزاج و طبیعت کا لحاظ رکھا جائے۔
اپنے علم و ادراک اور فہم و شعور کے اعتبار سے بھی لوگوں کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک انسان ذہین اور سمجھ دار ہوتا ہے۔ دوسرا کم عقل اور کم فہم ہوتا ہے‘ اس کا علم بھی کچھ زیادہ نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ لوگوں کی ذہانت اور صلاحیت کے مطابق ہی ان سے گفتگو کی جائے۔ یہی نصیحت حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے اس قول سے بھی ملتی ہے کہ ’’تم لوگوں سے اگر کوئی ایسی بات کروگے جو ان کے ذہن سے بلند تر ہو تو وہ بات ان کے لیے فتنہ بن جائے گی‘‘ (مسلم)۔ اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ وہ یا تو اس بات کو سمجھ ہی نہیں پائیں گے یا غلط سمجھ بیٹھیں گے۔
یہ ایک فطری بات ہے کہ لوگ اس شخص کو پسند کرتے ہیں جو ان میں ذاتی طور پر بھی دل چسپی لیتا ہو‘ ان کے خیالات و مسائل پر بھی توجہ دیتا ہو‘ جو ان کی ضروریات پوری کرتا ہو اور انھیں تحفے تحائف سے بھی نوازتا ہو۔ حدیث میں آتا ہے: ’’باہم تحفے دیا کرو‘ اس سے باہمی محبت پیدا ہوتی ہے‘‘ (مؤطا)۔ تحفہ چاہے معمولی قیمت ہی کا کیوں نہ ہو‘ اس سے توجہ اور یگانگت کا اظہار ہوتاہے۔ کھانے کی دعوت بھی لوگوں کے درمیان قربت پیدا کرنے کاذریعہ بنتی ہے۔
اگرچہ کسی شخص کو کسی کام کے کرنے یا اس سے باز رہنے کا مشورہ دینا بھی نیکی ہے‘ لیکن بہت سے لوگوں پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔ آپ جس چیز کی طرف دعوت دینا چاہتے ہیں‘ حسنِ سلوک اور حسنِ اخلاق کے ذریعے دیں‘ اس سے بھی دل چسپی پیدا ہو جاتی ہے۔ طبرانیمیں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ شخص وہ ہے جولوگوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو اور سب سے زیادہ پسندیدہ عمل یہ ہے کہ آپ کسی مسلمان کو خوش کر دیں‘ یا اس کی کوئی پریشانی دُور کردیں‘ یا اس کا کوئی قرض ادا کر دیں‘یا اس کی بھوک مٹا دیں۔ اگر آپ اپنے بھائی کے ساتھ اس کی کوئی ضرورت پوری کرنے کے لیے جائیں تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ آپ ایک مہینے تک مسجد میں اعتکاف کیے رہیں‘‘۔
اگر ذمّے داران اور ملازمین یہ سمجھ لیں کہ لوگوں کے معاملات جلدنمٹانا‘ بلاتاخیر ان کی ضرورت پوری کرنابھی حسنِ سلوک سے تعلق رکھتا ہے اور باعث اجر ہے‘ تو وہ جلد جلدمعاملات کو نمٹانے لگیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر لوگ ٹھیک طور سے اسلامی تعلیمات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے لگیں تو معاشرہ مثالی بن جائے اور ہم مغربی ممالک کی مثالیں نہ دیں۔
فرانس میں ایک بار ایسا ہوا کہ کارخانوں کے ملازمین نے ہڑتال کر دی ‘لیکن کچھ ملازمین ہڑتال میں شریک نہیں ہوئے۔ یہ وہی لوگ تھے جن کے افسران اور ذمّے داران ان سے ذاتی روابط رکھتے تھے‘ مسائل حل کرنے میں ان کی مدد کرتے تھے اور انھیں مشینوں کے بجائے باعزت انسان قراردیتے تھے۔ جن کارخانوں اوردفتروں میں ملازمین کے ساتھ ذمّے دار حضرات ہمدردی و انسانیت کاسلوک کرتے ہیں وہاں ملازمین بھی خوش دلی کے ساتھ ان کا حکم مانتے اور اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر ان کارخانوں کی پیداوار بھی بڑھ جاتی ہے۔
لوگوں کو یہ اچھا لگتا ہے کہ کوئی ان کی باتیں توجہ سے سنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرے۔ یہ نہیں کہ ہمیشہ اپنی ہی باتیں سناتا رہے۔ اگر آپ اچھی گفتگو کرنے والے بننا چاہتے ہیں تو پہلے اچھے سننے والے بنیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں آپؐ صحابہ کرامؓ کی ضرورتوں سے واقف ہو کر ان کے ذاتی مسائل میں دل چسپی لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
دُکھ سکھ ‘ ملازمت کے لیے تقرری‘ ترقی اور شادی و غمی وغیرہ سے متعلق لوگوں کے ذاتی مسائل میں دل چسپی لینا اور ان کے ساتھ ہمدردانہ رویّہ اختیار کرنا محبت و یگانگت کا باعث ہوتا ہے۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ گفتگو میں بے مقصد تکرار اور بحث و مباحثہ پسند نہیں کیا جاتا۔ اگر آپ دوسرے کی عزت کریں گے تو وہ آپ کی عزت کرے گا۔ انسان کے اندرچھپے ہوئے پاکیزہ جذبات کو اُبھارنا چاہیے اوراس پہلو کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ کسی کو بھی اپنے مقابلے میں کم تر سمجھنا اور اسے حقارت کی نظر سے دیکھنا انسانیت و شرافت کا نہیں‘ شیطنت اور کمینگی کا خاصہ ہے۔ اپنے عیوب اور خامیوں پراور دوسرے کی خوبیوں پر نظر رکھنا حقیقی انسانی شخصیت کے ارتقا کا باعث ہوتا ہے۔ اپنے سے چھوٹے منصب یا عمر والوں کی بھی عزت کرنی چاہیے اوران سے بھی مشورہ کرنا چاہیے۔
جن لوگوں سے آپ کو سابقہ پڑتا ہے انھیں مناسب مواقع فراہم کر کے ان میں خود اعتمادی پیدا کیجیے۔ کسی کی صلاحیتوں کو نظراندازکرنا اس کے اندر دل شکستگی اور بیزاری پیدا کرتا ہے۔ اگرچہ مومن اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے کام کرتا ہے‘ تاہم انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ قدردانی اور حوصلہ افزائی کو پسند کرتا ہے۔
ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے انسانوں کا شکریہ نہیں ادا کیا اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر بھی نہیںکیا‘‘۔ کسی کے حق میں کلمۂ خیر کہنا اور اسے دُعا دینا بھی حوصلہ افزائی کا ایک بڑا ذریعہ ہے جس سے مزید اچھے کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ہاں‘ کسی کی جھوٹی تعریف نہیںکرنی چاہیے۔
یہ بھی ایک بہت اہم اور پسندیدہ بات ہے کہ لوگوں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ان کی غلطیوں اور خامیوں کی حکمت و دانائی سے اصلاح کی جائے اور مثبت پہلو اُبھارا جائے۔ مثلاً ایک صاحب علم شخص آپ سے مشورہ کرتا ہے کہ وہ تجارت کرنا چاہتا ہے۔ آپ اس کے اندر نہ اس کا ذوق پاتے ہیں اور نہ اس کی صلاحیت‘ تو آپ اس سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ ایک صاحب ِ قلم و صاحب ِ فکر شخص ہیں‘ اس میدان کو نہ چھوڑیے۔ اس کے بجائے اگر آپ نے کچھ ایسی بات کہہ دی کہ وہ کوئی کاروباری صلاحیت ہی نہیں رکھتا تو عین ممکن ہے کہ آپ کی بات اسے ناگوار ہو۔
یہ بات بھی لوگوں کو اچھی لگتی ہے کہ انھیں اچھے ناموں سے پکارا جائے‘ تحقیر آمیز انداز نہ اختیار کیا جائے۔
اس میں اختلاف رائے نہیں ہو سکتا کہ لوگ برسرِعام نصیحت کو ناپسند کرتے ہیں اور ہرگز نہیں چاہتے کہ ان کے عیب اور برائیاں لوگوں کے سامنے بیان کی جائیں۔ اگر کسی شخص کونصیحت کرنا چاہتے ہیں تو تنہائی میں کیجیے۔ اس طرح وہ شخص نصیحت قبول کرنے کی طرف زیادہ مائل ہوگا اور اس کے دل میں آپ کی قدر اور احسان شناسی کا جذبہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے۔
بعض لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی نصیحت سے انسان فوراً مکمل طور پر بدل جائے۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نصیحت کو سمجھنے‘ قبول کرنے اور اس کے مطابق اپنے آپ کو بدلنے کے لیے انسانی مزاج کو وقت درکار ہوتا ہے۔
انسان براہِ راست نکتہ چینی پسند نہیں کرتا۔ اسے یہ بھی گراں گزرتا ہے کہ اس سے حکم کے انداز میں کہا جائے کہ یہ کرو‘ وہ نہ کرو۔ اگر وہی بات مناسب موقع پر اور حکمت کے ساتھ کہی جائے تو توقع کی جا سکتی ہے کہ زیادہ قابل قبول ہوگی۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکمت و نرمی والا اسلوب اختیار فرماتے تھے۔ مثلاً کچھ خستہ حال لوگ آپؐ کے پاس آئے۔ آپؐ ان کی حالت دیکھ کر متاثر ہوئے اور مسجد میں ان کی مدد پر اُبھارنے کے لیے لوگوں کے سامنے تقریر فرمائی۔ لیکن بجائے براہِ راست حکم دینے کے آپؐ نے ماضی کے واقعے کے طور پر ذکر فرمایا کہ کسی نے دینار و درہم صدقہ کیا‘ کسی نے کپڑے اور کسی نے کھجور۔ اس کے بعد ایک انصاری کافی کھجور لاد کر لائے۔ بوجھ سے ان کے پیر کانپ رہے تھے۔ آپؐ کا چہرہ کھل گیا۔ دوسرے لوگ بھی لا لا کر آپؐ کے پاس ڈھیر کرتے رہے۔ آپؐ نے خوش ہو کر فرمایا: ’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ نکالا اسے وہ طریقہ اختیار کرنے والوں کے برابر ثواب ہمیشہ ملتا رہے گا‘‘۔ (مسلم)
غور کیجیے آپؐ نے کس حکمت کے ساتھ لوگوں کو صدقہ کرنے پر اُبھارا اور پھر کس طرح صدقہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی فرمائی۔
ایک استاد اپنی میز کلاس روم میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا چاہتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ طلبہ بھی اس کا ہاتھ بٹائیں۔ اب اگر وہ کہتا ہے کہ آئو یہ میز اُٹھا کر وہاں رکھ دیں‘ یا اس طرح کہتا ہے کہ اگر یہ میز اُٹھا کر وہاں رکھ دی جائے تو تم لوگوں کے خیال میں کیسا رہے گا؟ نتیجہ دونوں صورتوں میں ایک ہی نکلے گا‘ لیکن دوسری صورت طلبہ کے لیے زیادہ پسندیدہ ہوگی۔
ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ جوکام کرانا چاہتے ہیں اس کی اہمیت مخاطب کے دل میں پیدا کردیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ آپؐلوگوں کو جو حکم دینے والے ہوتے پہلے اس کے بارے میں شوق پیدا کردیتے‘ مثلاً غزوئہ خیبر کے موقع پر ایک دن آپؐ نے فرمایا: ’’کل میں جھنڈا اس شخص کو دوںگا جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کو محبت ہے‘‘ (متفق علیہ)۔ ہر شخص تمنا کرنے لگا کہ کاش وہ شخص میں ہی ہو جائوں‘ یا مثلاً آپؐ نے حضرت ابوذرغفاریؓ کو امارت سے منع کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں تمھارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں جو خود اپنے لیے پسند کرتا ہوں۔ کبھی دو آدمیوں کے بھی امیر مت بننا‘‘۔ (مسلم)
ایک شخص چند مہمانوں کوکھانے پرمدعو کرتا ہے۔ اب اگر وہ اپنی اہلیہ کو براہِ راست حکم دیتا ہے کہ فلاں فلاں چیز پکا لو۔ پھر بعد میں نکتہ چینی کرتا ہے کہ فلاں چیز کیوں بھول گئیں تو اس انداز میں‘ اور اس طریقے میں زمین آسمان کا فرق ہو جائے گا کہ وہ اپنی اہلیہ سے کہے کہ آج فلاں وقت کچھ مہمان آنے والے ہیں اور کھانے سے گھر والوں کے ذوق ومعیارکاپتا چلتاہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم لوگوں کا سرنیچا نہ ہونے پائے۔ ایسی صورت میںاہلیہ زیادہ خوش دلی اور توجہ سے کام کرے گی۔
لوگوں کو یہ اچھا نہیں لگتا کہ ان کے عیبوں اور خامیوں کو تو تلاش کیا جائے اوران کی اچھائیوں کو نظرانداز کر دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے نفرت نہ کرے۔ اگر اس کی کوئی بات اسے ناپسند ہے تو کوئی دوسری بات پسند بھی ہوسکتی ہے‘‘۔ (مسلم)
کوئی شخص بھی خامیوں سے مبرا نہیں ۔ اور نہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ ایک شخص میں خامیاں ہی خامیاں ہوں اور خوبی کوئی نہ ہو۔ ایسے شخص کی تلاش جس میں صرف خوبیاں ہی خوبیاں ہوں‘ کوئی بھی خامی نہ ہو‘ محض خیالی بات ہو گی۔ ہم بعض لوگوں کی کچھ چیزیں ناپسند کرتے ہیں لیکن جب وہ ہم سے دُورہو جاتے ہیں اور دوسرے لوگوں سے سابقہ پڑتا ہے اوروہ ان سے بدتر ثابت ہوتے ہیں تب پہلے لوگوں کی قدر معلوم ہوتی ہے۔
زندگی گزارنے کے دوطریقے ہیں۔ ایک طریقہ منفی ہے۔ اس کی بنیاد لوگوں کی برائیوں ہی پر نظر رکھنے پر ہوتی ہے۔ اس میںغلطیاں اصلاح کی خاطر نہیں دیکھی جاتیں بلکہ خود غرضی اورلوگوں کے استحصال کا جذبہ اس کا محرک ہوتا ہے۔ دوسرا طریقہ مثبت ہے اوروہ یہ کہ آپ لوگوں کی خوبیوں پر توجہ دیں اوران کی حوصلہ افزائی کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کی فضیلت کا ذکرکرتے ہوئے اسی طریقے کی نشان دہی فرماتے ہیں: ’’میں تمھیں انصارکے بارے میں وصیت کرتا ہوں‘ کیونکہ یہ لوگ میرے خاص الخاص ہیں۔ انھوں نے اپنا حق ادا کر دیا (یعنی بیعت عقبہ میں جوعہد کیا تھا وہ پورا کر دیا)۔ اب ان کے حق کی ادایگی باقی رہ گئی ہے۔ لہٰذا ان میں سے جو اچھا کرے اسے قبول کرو اور جو کوئی غلطی کر جائے اس سے درگزر کرو‘‘۔(بخاری)
لوگ ایسے اشخاص کوناپسندکرتے ہیں جوان کی غلطیوں کو بھولتے نہیں بلکہ یاد رکھتے ہیں اورموقع بہ موقع یاددلاتے رہتے ہیں۔ اگر کسی کو معاف کر دیتے ہیں تو اس پر احسان جتاتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے کردار کو سراہا ہے جو لوگوں کو معاف کردیتے ہیں‘ ان کی پردہ پوشی کرتے ہیںاور بھول جاتے ہیں۔ آپ جس کے ساتھ کوئی بھلائی کریں گے تو یہ عین متوقع ہے کہ وہ اس بھلائی کو نہیں بھولے گا لیکن احسان جتانے سے تو بھلائی تلخی میں بدل جاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا‘‘۔ (مسلم)
اور یہ تو نہایت معیوب بات ہے کہ لوگوں کے ساتھ حقارت آمیز برتائوکیا جائے اور ان پر اپنی بڑائی جتائی جائے۔ اس کے بجائے انکسار و تواضع پر بہت زیادہ زور دیا گیاہے۔ امام احمد بن حنبلؒ کا ایک واقعہ ان کے ایک شاگرد نے بیان کیا ہے کہ امام صاحب ایک رات میرے گھر آئے۔ دروازہ کھٹکھٹایا‘ میں نکلا توسلام کلام کے بعد فرمایا‘ آج میرے دل میں ایک چیز بار بارکھٹکتی رہی۔ میں دن میں گزرا تو آپ لوگوں سے حدیث بیان کر رہے تھے۔ آپ سائے میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ دھوپ میں کاغذ قلم لے کر لکھ رہے تھے۔ ایسا نہیں کرناچاہیے۔ سب لوگوں کے ساتھ ہی بیٹھنا چاہیے۔ دیکھیے امام صاحب نے تنہائی میں کس خوب صورتی کے ساتھ نصیحت کی۔ اور یہ واقعہ بیان کرنے والے بھی ان کے وہی شاگرد ہیں۔ خودامام صاحب نے کسی سے بیان نہیں کیا۔ اپنے کسی ساتھی کو بھی سب کے سامنے ٹوکنا پسندیدہ نہیں ہے۔
دوستوں کو جلد جلد ملاقات نہ کرنے پر بھی ملامت نہیں کرنی چاہیے۔دراصل محبت کا تقاضا باربار کی ملاقات سے پورا نہیں ہوتا۔ کتنے دوست ایسے ہوتے ہیں جن سے بہت دنوں کے بعد ملاقات ہو پاتی ہے لیکن ان کی محبت پختہ اور مخلصانہ ہوتی ہے۔
لوگ اس بات کو بھی پسند نہیں کرتے کہ کوئی شخص اپنی غلطی پر مصر رہے۔ اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی اس کی تلافی کی کوشش کرنی چاہیے۔ غلطی سے محفوظ رہنے کی ایک اہم تدبیر یہ بھی ہے کہ جس چیز کے بارے میںصحیح معلومات نہ ہوں‘ اس کے بارے میں اظہار رائے کرنے سے احتراز کیا جائے۔ کسی چیز کے بارے میں اپنی لاعلمی ظاہر کر دینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
انسان کی یہ خصلت بھی بدذوقی کی علامت ہوتی ہے اور ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے کہ وہ ہر کامیابی کو اپنی طرف منسوب کرے اور غلطیاں اورناکامیاں دوسروں کے سر ڈالے۔
جب بندہ اپنے پروردگارپرسچا ایمان رکھے گا اور آخرت کے محاسبے پر اوراس بات پر اسے پورا یقین ہوگا کہ ہر ایک نیکی اور بدی کا اسے بدلہ ضرور ملے گا تو اس کا یہ یقین اسے اس امر کا مستحق بنائے گا کہ اللہ کی ہدایت اسے سیدھی راہ اختیار کیے رہنے کا موقع عنایت کرے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرے گا‘ اس کی نافرمانی سے بچے گا‘ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے گا۔ دیانت دار و امانت دار بن کر رہنے کی کوشش کرے گا۔ ایفائے عہد کرے گا‘ نیکی اور خدا ترسی کے کاموں میں دوسروں کے ساتھ تعاون کرے گا‘ صداقت شعار ہوگا‘ اس کے لینے اور دینے کے پیمانے ایک ہوں گے اور اپنی پوری زندگی کو اسی اصول پر استوار کرنے کی کوشش کرے گا۔ اَوْفُوْا الْکَیْلَ وَلاَ تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ o وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ (الشعرا ۲۶:۱۸۱-۱۸۲) ’’پیمانے ٹھیک بھرو اور کسی کو گھاٹا نہ دو‘ صحیح ترازو سے تولو‘‘۔ وہ خرید و فروخت میں کشادہ دلی سے کام لے گا۔ دوسروں پر اپنے حقوق کے تعلق سے نرمی اختیار کرے گا‘ کسی کے ساتھ دھوکا نہیںکرے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ سامانِ تجارت کی قیمت بڑھا چڑھا کر نہیں بتائے گا‘ نہ جھوٹی قسمیں کھائے گا۔ وہ قیمتیں بڑھانے کے لیے ذخیرہ اندوزی بھی نہیںکرے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جس نے غذائی اشیا ۴۰ دن تک روکے رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اس سے بری الذمہ ہو گیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے دُور ہو گیا‘‘ (احمد و حاکم)۔ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو پیش نظر رکھے گا کہ سچا دیانت دار تاجر نبیوں‘ صدیقوں‘ شہیدوںاور صالحین کے ساتھ ہوگا۔
اگر وہ کسان ہے تو زمین سے غلّہ وغیرہ پیدا کرنے کی پوری کوشش کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے مقصد سے اس پر پوری توجہ دے گا کیونکہ پیداوار کے ساتھ اسے اجر و ثواب بھی ملے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ ’’جو مسلمان بھی کوئی پودا لگاتا ہے یا کوئی کھیت بوتا ہے۔ اس سے انسان ‘ پرندے اور جانور جو بھی کھاتے ہیں اسے اس کا ثواب ملتا ہے‘‘۔
وہ لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کرے گا جو اللہ اور اس کے رسولؐ کو پسند ہو۔ پڑوسیوں کے کھیتوں کی بھی حفاظت کرے گا۔ بغیر اجازت ان میں داخل نہیں ہوگا اور نہ کوئی نقصان پہنچائے گا۔ کسی کو مدد کی ضرورت ہو تو کترائے گا نہیں۔ بیج اور زرعی آلات کی ضرورت ہو تو وہ بھی دے گا اور اپنے مفید تجربات سے بھی انھیں فائدہ پہنچائے گا۔ کسی کی برائی نہیں کرے گا‘ نہ کسی سے حسد کرے گا۔ اگر وہ کوئی ہنرمند ہے تو یہ سمجھ کر کہ اللہ تعالیٰ کسی اچھے کام کا اجر ضائع نہیں ہونے دیتا اور یہ کہ ’’اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ جب کوئی شخص کوئی کام کرے تو اسے اچھی طرح کرے‘‘ (بخاری) ۔ اپنے ہنر کے مطابق بہترین کام کرنے کی کوشش کرے گا۔ لوگوں سے جو وعدہ کرے گا اسے پورا کرے گا۔ وقت پر کام پورا کر کے دے گا۔ کسی طرح کی فریب کاری نہیں کرے گا۔ اس طرح اس کی شہرت بھی بڑھے گی اوراس کی آمدنی بھی۔ ساتھ ہی وہ قوم و وطن کی خدمت کرکے دنیا و آخرت کی سعادت بھی حاصل کرے گا۔
اگر وہ ایک معلم و استاد ہے تو اپنے فرائض کی اہمیت محسوس کرے گا اور یہ سمجھے گا کہ طلبہ کی اصلاح کا دارومدار خود اس کی اصلاح پر ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو رہنمابنائے گا کہ ’’میں تم لوگوں کے لیے ویسا ہی ہوں جیسا باپ اپنے بیٹوں کے لیے ہوتا ہے‘‘۔ وہ طلبہ سے نرمی و محبت کا برتائو کرے گا‘ ان پر سختی نہیں کرے گا۔ اپنے شریفانہ سلوک و اخلاق سے ان کی عملی تربیت کرے گا۔ ان کی تعلیمی ترقی اور کامیابی کے لیے پوری کوشش کرے گا۔ انھیں بلندہمتی اور محنت سکھائے گا۔ ساتھ ہی وہ طلبہ کی ذہنی سطح کا لحاظ بھی کرے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ہم انبیا کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ہم لوگوں سے ان کے مرتبہ و مقام کے مطابق برتائو کریں اور ان کی ذہنی سطح کے مطابق ہی ان سے گفتگو کریں‘‘۔ اچھا استاد اپنے شاگردوں کو اپنا پورا علم سکھانے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جس نے کوئی مفید علم چھپایا وہ قیامت کے دن آگ کی لگام لگائے ہوئے پیش ہوگا‘‘۔ پھر اپنے علم کے مطابق عملی نمونہ بھی پیش کرے گا۔ تاکہ لوگوںپر علم کا فائدہ ظاہر ہو سکے اور وہ بھی علم سیکھنے کی کوشش کریں ورنہ لوگ اس کے علم کو بیکار سمجھ کر اس سے بے نیازی اختیار کریں گے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ہے کہ ’’جب عالم اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کرتا تو جاہل علم سیکھنے ہی سے رُک جاتا ہے‘‘۔
اگر وہ شاگرد طالب علم ہے تو اپنے استاد کی عزت کرے گا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ ہارون رشید نے اپنے کسی درباری سے پوچھا: آج کے دور میں سب سے زیادہ معزز شخص کون ہے؟ اس نے جواب دیا: ہم تو امیرالمومنین (ہارون رشید)سے زیادہ کسی کو معزز نہیں جانتے۔ خلیفہ نے کہا: نہیں‘ کسائی مجھ سے زیادہ معزز ہیں‘ میں نے امین اور مامون (شاہزادوں) کو ان کے جوتے اُٹھانے کے لیے دوڑتے دیکھا ہے۔
غرضیکہ ہر طرح کے حالات اور اپنی ہر ایک حیثیت میں آئین و ضوابط اور پاکیزہ روایات کا پابند ہو کر رہنے کی کوشش کرے گا۔
خود بھی نیکی کرنا ایک انسانی ذمّے داری ہے اور دوسروں کو نیکی کرنے پر آمادہ کرنا بھی نہایت پسندیدہ کام ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے کسی بھلائی کی طرف رہنمائی کی اسے (وہ بھلائی) کرنے والے جیسا ہی اجر ملے گا‘‘۔ (مسلم)
یعنی جس نے کسی دینی یا دنیاوی بھلائی کی طرف کسی شخص کی رہنمائی کی یا اسے آمادہ کیا‘ اسے بھی بھلائی کرنے والے کے برابر ثواب ملے گا۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سب سے بہتر نیکی لوگوں کے درمیان صلح صفائی کرانا ہے۔ اسی طرح لوگوں کی کسی قسم کی مدد کرنا‘ انھیں سہارا دینا‘ ضرورت مند کی داد رسی کرنا‘ معذور کی مدد کرنا‘ قرض دینا‘ کوئی چیز مستعار دینا‘ تحفہ دینا وغیرہ اچھی بات ہے۔
مسنداحمد میں حضرت ابوحزی جہنیؓ کی روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی کے بارے میں دریافت کیا توآپؐ نے فرمایا: کسی بھی نیکی کو حقیروکم تر نہ سمجھو‘ چاہے کسی کو رسّی کا ایک ٹکڑا ہی دیا ہو یا جوتے کی کیل ہی دی ہو یا کسی کے برتن میں پانی ہی ڈالا ہو یا راستے سے کوئی تکلیف دہ چیز ہی ہٹائی ہو یا اپنے بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملے ہی ہویا ملنے پر اپنے بھائی کو سلام ہی کیا ہو وغیرہ۔
ابن حبان میں حضرت ابوذرؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیکی کے بہت سے کام گنانے کے بعد فرمایا کہ اگر کچھ بھی نہ ہو سکے تو لوگوں کو ایذا رسانی ہی سے محفوظ کردے۔
مسلمان بھائی کے حقوق ادا کرنا بھی نیکیوں میں شامل ہے جیسے مریض کی عیادت کرنا‘ مظلوم کی مدد کرنا‘ سلام کرنا‘ دعوت قبول کرنا‘ جنازے میں شریک ہونا وغیرہ۔
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کہتے ہیں: جو اپنے بھائی کے کسی کام سے جائے تو اس کا ہر قدم نیکی ہے۔ اسی طرح کسی تنگ دست پر قرض ہو تو اسے ڈھیل دیتے رہنا بھی نیکی ہے‘ حتیٰ کہ جانوروں سے اچھا برتائو کرنا بھی نیکی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: فی کل کبد رطبۃ اجر ’’ہر جان رکھنے والے جگر میںاجرہے‘‘۔
ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ایک زانی عورت نے پیاس سے تڑپتی ہوئی ایک بلی کو پانی پلا دیا تھا اس کی بخشش اسی بات پر کر دی گئی۔
جو مسلمان بھی کوئی درخت لگائے گا تو اس میں سے جو کھایا جائے گا وہ اس کا صدقہ ہوگا‘ جو اس میں سے چرا لیا جائے گا وہ اس کا صدقہ ہوگا‘ جو جانور یا پرندے کھا لیں گے وہ اس کا صدقہ ہوگا اوراس میں جو بھی کم ہو گا وہ اس کا صدقہ ہوگا۔ ایک روایت میں ہے کہ اس کا صدقہ قیامت تک کے لیے ہوگا۔
تاریخ بخاری میں حضرت جابرؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کوئی کنواں کھودا تو انسانوں‘ جنوں‘ جانوروں اور پرندوں میں سے جو بھی پیاسا پیے گا اس کا ثواب اسے قیامت تک ملتا رہے گا۔
ایک دوسری روایت میں عمارت بنانے کے سلسلے میں بھی ایسا ہی قول منقول ہے۔ اس طرح کے کام اسی لیے صدقہ جاریہ کہلاتے ہیں۔ الغرض معاشرے کو صحت مند اور خوش گوار بنانے کے لیے حتی المقدور اچھے کام کرتے رہنا انسان کی ذمّے داری ہے اور یہی مثبت اور تعمیری طرزِعمل ہے جس سے معاشرہ امن و سکون اور محبت و یگانگت کا گہوارا بنتا ہے۔
یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ساری مخلوق خدا کا کنبہ ہے اس لیے خدمت ِ خلق یا بالفاظِ دیگر سماجی خدمات کی نہایت اہمیت ہے۔ ان کے ذریعے انسان نہ صرف اپنے معاشرے کی خدمت کرتاہے بلکہ وہ پورا ماحول سازگار بناتا ہے جس میں خود اسے زندگی گزارنی ہوتی ہے۔ دنیا کی دیگر قوموں نے سماجی خدمات میں حصہ لینا اپنی زندگی کا ایک اہم جز بنا رکھا ہے۔ تعلیمی اداروں‘ یتیم خانوں‘ بے سہارا لوگوں کے لیے پناہ گاہوں اور بیماروں کے لیے ہسپتالوں وغیرہ کا جال پھیلا کر وہ اپنے معاشرے کے دکھ درد کوبانٹنے کی کوشش بھی کرتی ہیں اور دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ یہ بھی انسانی سلوک کا ایک لازمی جز ہے کہ انسان حیوانوں کی سطح سے اُوپراُٹھ کر دوسرے بھائیوں کی ہمدردی اور راحت رسانی کو بھی اپنی ذمّے داریوں میں شامل سمجھے۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت سے پہلے بھی اس طرح کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے جس کی وجہ سے قوم آپؐ کو اپنی آنکھوں کا تارا سمجھتی تھی۔ وحی کے نزول کے بعد جب آپؐ پر ایک طرح کی گھبراہٹ طاری تھی تو اُم المومنین حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کے انھی اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے آپؐ کوتسلی دی تھی کہ آپؐ رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں‘ لوگوں کے لیے مشقت اٹھاتے ہیں‘ مہمانوں کی خاطر تواضع میں کسر نہیںچھوڑتے اور لوگوں کی راحت رسانی کے لیے ایسے ایسے کام کرتے ہیں جو عام طور پر نایاب ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ آپؐ کو ضائع نہیں کرے گا۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ مسجد میں اعتکاف کر رہے تھے کہ ایک شخص پریشان و مغموم آپ کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ آپ نے پریشانی کا سبب معلوم کیا تو اس نے بتایا کہ فلاں شخص کا مجھ پر قرض ہے اور میں ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ حضرت ابن عباسؓ فوراً مسجد سے نکل کر اُس شخص کے پاس گئے اور اس سے (مہلت دینے کے لیے) بات کی۔ مقروض شخص نے عرض کیا: آپ تو اعتکاف میں ہیں‘ کیا بھول گئے؟ آپ نے فرمایا: نہیں‘ بھولا نہیں‘ لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور یہ زیادہ دن کی بات بھی نہیں (اور یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے) کہ ’’جوشخص اپنے بھائی کی ضرورت کے لیے قدم اٹھائے اور پوری کر دے تو یہ اس کے لیے دس برس کے اعتکاف سے زیادہ بہتر ہوگا‘‘۔
مسلمان کی زندگی خیرخواہی‘ عالی ظرفی اور میانہ روی سے عبارت ہوتی ہے اور وہ پورے وقار اور ذمّے داری کے ساتھ اپنی ہرڈیوٹی انجام دینے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔
انسانوں کے ساتھ سلوک میں یہ بات بھی ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ تمام انسان ایک ہی ماں باپ (حضرت آدم ؑ و حوا ؑ) کی نسل سے ہیں۔ ان میں کسی طرح کا نسلی امتیاز نہیں ہے۔ دنیا کی حیثیت ایک گلشن کی ہے اور مختلف قوم و وطن اور مختلف رنگوں کے لوگ اس گلشن کے رنگ برنگے پھولوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ اس گلشن کے حسن کا ذریعہ ہے ورنہ ایک ہی رنگ کے پھول اسے کشش سے محروم کر دیتے۔ پھر علم و فضل‘ صحت و جسم‘ مال و دولت وغیرہ کی تقسیم خدا کی طرف سے ہے۔ ان میں کسی بھی بنیاد پر دوسرے انسانوں کو کم تر نہیں سمجھنا چاہیے۔ خدا کے نزدیک بہتر صرف وہ ہوگا جوزیادہ پاک باز ہوگا‘ لہٰذا ذہن میں کسی طرح کے تعصب و تنگ نظری کو دخل نہیں دینا چاہیے اور جب ذہن میں کوئی تنگ نظری نہیں ہوگی تو معاشرے میں عدل و انصاف کابول بالا ہوگا جس سے پورا ماحول سازگار ہوگا۔
فرد معاشرے کا ایک جزو ہوتا ہے‘ اس سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس لیے نہیں پیدا کیا ہے کہ وہ اختلاف کا شکار ہوں بلکہ انھیں وحدت کا سبق دیا ہے۔ توحید کے ماننے والوں پر تو یہ اور بھی لازمی ہے کہ وہ وحدت کی لڑی میں پروئے رہیں‘ اسی لیے جماعت کے ساتھ نماز کا ثواب تنہانماز سے پچیس گنا رکھاگیا ہے۔ اسلام اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ انسان خود اپنے دائرے میں محدود ہو جائے بلکہ یہ ہدایت دیتا ہے کہ دیگر بھائیوں کے ساتھ منسلک و مربوط ہو کر رہاجائے۔ باہمی پھوٹ تو طاقت ور قوموں کو بھی کمزور کر دیتی ہے اور کمزور قوموں کوتو صفحۂ ہستی سے مٹا دیتی ہے۔
کسی بزرگ سے کہا گیا کہ جلدی سے مسجد پہنچیے‘ لوگ باہم لڑ رہے ہیں۔ انھوں نے دریافت کیا: کس بات پر؟ بتایا گیا کہ کچھ لوگ تراویح آٹھ رکعتیں پڑھنا چاہتے ہیں اور کچھ لوگ ۲۰ رکعتیں۔آپ کے فیصلے کا شدت سے انتظار ہو رہا ہے۔ بزرگ نے کہا: میرا فیصلہ یہ ہے کہ مسجد بند کر دی جائے اور اس میں تراویح کی نماز کی اجازت نہ دی جائے‘ کیونکہ تراویح کی نماز نفل ہے اور مسلمانوں کا اتحاد فرض ہے۔ فرض کو ختم کرنے والی نفل نماز کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
جب انسان کے ذہن میں یہ سب باتیں صاف رہیںگی‘ وہ کسی تعصب و تنگ نظری کا شکار نہیں ہوگا۔ بہترین کردار و اخلاق ہر وقت اس کے ذہن نشین ہوں گے تو اس کے طرزِعمل پر لازماً ان باتوں کا بہترین اثر پڑے گا اور بہترین سلوک کا نمونہ بن سکے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمھیں تمھارے برے لوگوں کے بارے میں نہ بتا دوں؟ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! اگر آپؐ پسند فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا: تم میں برا وہ ہے جو اکیلا سفر کرتا ہے‘ اپنے غلام کو پیٹتا ہے اور کسی کو مدد نہیں پہنچاتا۔ پھر آپؐ نے فرمایا: کیا میں تمھیں اس سے زیادہ برے کے بارے میں نہ بتا دوں؟ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! اگر آپؐ پسند فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا:جو لوگوں کو ناپسند کرتا ہو اور لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں۔ پھر آپؐ نے فرمایا: کیا میں تمھیںاس سے زیادہ برے لوگوں کے بارے میں نہ بتا دوں؟ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! اگر آپؐ پسند فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا: جو کسی لغزش کو قبول نہیں کرتے نہ کوئی معذرت قبول کرتے ہیں نہ کوئی خطا معاف کرتے ہیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا: کیا میں اس سے زیادہ برے کے بارے میں نہ بتا دوں؟ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! آپؐ نے فرمایا: جس سے بھلائی کی امید نہ کی جائے اور جس کے شر سے محفوظ نہ سمجھا جائے۔ (طبرانی)
اللہ تعالیٰ نے والدین کو جس اعزازسے نوازاہے وہ اسلام کے سوا دُنیا کا کوئی بھی مذہب اور کوئی تمدن عطا نہیں کر سکا۔ مائیں تو ساری دنیا میں قابل احترام ہیں مگر ایک مسلمان ماں کی شان ہی نرالی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کی محبت میں مٹھاس اور اس کے دل میں ایثار و قربانی کا بے مثل جذبہ رکھ دیا ہے۔ اپنی صفت رحمت و شفقت سے وافر حصہ اس رشتے کو عطا کر دیا۔ وہ رب العزت خود خالق ہے ‘صفت ِتخلیق عورت کو عطا کر کے اسے عظمت کی بلندیوںتک پہنچا دیا۔ اپنے بچے سے محبت کا یہ انداز اس خالق کائنات اور رب العالمین نے ہی عطا کیا ہے کہ تکلیف پہ تکلیف اُٹھا کر ماں بچے کو جنم دیتی ہے‘ مگر اس پہ ایک نظر ڈالتے ہی تمام دکھ‘ تکالیف بھول جاتی ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمت ہے کہ شادی سے پہلے ہر لڑکی بچوں کو پیار کرتی ہے اورہر چھوٹا بچہ اس کے لیے کشش رکھتاہے۔ مگر یہ محبت اور کشش عورت ہونے کے ناطے فطری جذبے تک محدود رہتی ہے۔ یہی نوعمر لڑکی جب تخلیقی مراحل کا حصہ بن کر خود ماں کا درجہ حاصل کر لیتی ہے تو بچہ اور اس کا ہر کام اس کی زندگی کا مشن بن جاتا ہے۔ اپنے بچے کا آرام ماں کی اوّلین ترجیح ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ماں کے دل میں محبت و شفقت اور رحم کی یہ صفت نہ رکھ دیتا تو شاید دنیا میں بچوں کی سب سے بڑی دشمن ماں ہی ہوتی۔ جس قدر تکلیف دہ مرحلوں سے ماں پرورش کے دوران گزرتی ہے‘ اس کا اندازہ اُسی ذات باری تعالیٰ کوہے‘ جبھی تو ایک مسلمان ماں کو اعلیٰ ترین ’’اعزازات‘‘ سے نوازا گیا۔ ان عظمتوں کو حاصل کرنا‘ اور انھیں شعوری طور پر برقرار رکھنا بھی مائوں کی ذمہ داری ہے۔ والدین کی ذمہ داری اسی روز سے شروع ہوجاتی ہے‘ جب وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتے ہیں۔ بچوں کی تربیت کے لیے والدین کو بہت سے ادوار اور بے شمار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
اگر اُمت مسلمہ کے ہر گھرسے ایک بچہ بھی اسلام کے انسانِ مطلوب کی صورت میں نصیب ہو جائے تو آیندہ ایک دو عشروں میں ہی دُنیا میں ’’اسلامی انقلاب‘‘ برپا ہو سکتا ہے۔ اس خوش نصیبی کو پانے کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بندی اور تطہیر افکار و اعمال ہی وہ بنیادی عنصر ہے جو کسی بھی فرد یا قوم کے مقدر کو سنوار سکتا ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ ہم نئی نسل کی اسلامی خطوط پر تربیت کرکے قوم کی تعمیرنو میں اپنا حصہ ادا کریں‘ اور ایک مہم کے طور پر ہر مسلمان کو اس کی اہمیت کا شعور دیا جائے۔کسی بھی مرد و عورت کی عملی زندگی کا آغاز نکاح سے ہوتا ہے۔ پھر باقی پوری زندگی میں دونوں نسل نو کی فلاح و بہبود کے لیے وقف ہو جاتے ہیں۔ کسی مرحلے میں عورت کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں اور کہیں مرد کی‘ اور اس میں مختلف مراحل طے کرنا پڑتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ نکاح کا رشتہ دو اجنبی مرد و عورت کو باہم مضبوط رشتے میں جوڑ دیتا ہے۔ حقوق و فرائض کی ادایگی میں بدنیتی وہ زہر ہے جو ہر اچھے سے اچھے کام کو عیب دار بنا دیتا ہے‘ بلکہ ہرے بھرے پھل دار باغ کو راکھ کا ڈھیر بنا دیتا ہے۔ زوجین کو اپنے اپنے حقوق و فرائض کا کتاب و سنت کی روشنی میں پورا شعور ہونا چاہیے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ شادی سے پہلے بچوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے بخوبی آگاہ کریں۔
زوجین کا باہمی تعلق: میاں بیوی کا باہمی تعلق ’’ایک دوسرے کے لیے لباس‘‘ کا ہی ہونا چاہیے۔ معنوی طور پر بھی‘باطنی اور روحانی طور پر بھی۔ زوجین کا باہم رشتہ محض صنفی جذبات کی تسکین کا ذریعہ ہی نہ سمجھا جائے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زوجین کے باہم تعلق کو جس شائستگی اور وقار کے ساتھ نبھانے کاطریقہ بتایا ہے اس کو مدنظر رکھا جائے۔ زوجین کو باہم محبت بڑھانے کے لیے‘ اس کو قائم و استوار رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیے۔کسی بھی ایسے عمل سے گریز کرنا چاہیے‘ جس سے میاں بیوی کے دلوں میں دُوری پیدا ہونے کا خدشہ ہو۔ شیطان کو سب سے زیادہ خوشی میاں بیوی کے درمیان‘ رنجش‘ جدائی یا بدگمانی ڈال کر ہوتی ہے اور یہ کام کرنے کے لیے وہ ہمہ وقت کوشاں رہتاہے۔
نسل نو کی اسلامی خطوط پر تربیت کرنا والداور والدہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو کھیتی سے تشبیہ دی ہے اور اس کھیتی میں جس قسم کا بیج ہوگا ویسا ہی پھل نصیب ہوگا۔ جس طرح ایک جاہل‘ نالائق‘ ذمہ داریوں سے لاپروا باغباں اپنے کھیت اور باغ سے کماحقہ ٗ رزق حاصل نہیں کر سکتا‘ اسی طرح اسلامی شعور اور ذوقِ آگہی سے بے بہرہ مرد اور عورت اپنی اولاد سے پوری طرح فیض یاب نہیں ہو سکتے۔
ہر بچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانیت کے لیے ایک پیغام ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کون سا بچہ والدین کے لیے باعث سعادت اور معاشرے کے لیے باعث رحمت ہوگا۔ بچوں کی پیدایش پہ دل میں تنگی محسوس کرنا‘ چاہے وہ کسی بھی سوچ کے ساتھ ہو‘ نرم سے نرم الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے۔
بچے کا تعلق ابتدائی دنوں ہی سے ماں کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔ وہ ننھا سا خلیہ (cell)محض ایک جرثومہ نہیں‘ بلکہ ایک مکمل شخصیت کا نقطہء آغاز ہوتا ہے اور وہ اپنی ماں سے خاص نسبت رکھتا ہے۔ تخلیق کے عمل سے گزرنے والی خاتون پر اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری لازم آتی ہے کہ خالق کائنات نے اشرف المخلوقات کی تخلیق کے لیے اُسے منتخب کیا ہے۔ ایک سچی مسلمان عورت یہ زمانہ مصیبت سمجھ کر نہ گزارے‘ نہ اپنی تکلیف کو دوسروں کے لیے باعث آزار بنائے بلکہ ان تکالیف کو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اس کے روز مرہ کے فرائض کو اجر کے حساب سے زیادہ نفع بخش ہونے کا وعدہ فرمایا ہے۔
باپ کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کو پاکیزہ اور صالح کردار پر اٹھانے کے لیے گھر میں ایسی کمائی لائے جو حلال اور طیب ہو۔ اپنی اولاد کو اگر حرام کمائی سے سینچا گیا تو اس کے کردار و اعمال میں شرافت کی سی تابندگی کیسے آئے گی؟ ہمہ وقت اللہ کا ذکر‘ نماز کی پابندی‘ باوضو رہنا‘ پاکیزہ گفتار ہونا‘ جسمانی ‘ روحانی اور ذہنی سکون کا باعث ہوتا ہے۔ ہر وہ غذا جو حاملہ عورت کھاتی ہے اس میں اُس ننھی سی جان کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے‘ جو والدین کی زندگی کا سرمایہ اور توشۂ آخرت ہے۔ اس زمانے میں جسمانی غذا معمول سے زیادہ درکار ہوتی ہے تو روحانی غذا کا تناسب بھی پہلے سے زیادہ ہونا چاہیے۔
مدت حمل میں بچہ ماں سے خوراک ہی حاصل نہیں کرتا‘ بلکہ وہ اس کے جذبات‘ احساسات‘ خوشی اور غم میں بھی شریک ہوتا ہے۔ ماں کی افسردگی‘ بے چینی اور بے آرامی کا بھی اُس پر اثر ہوتا ہے۔ اس زمانے میں وہ کیا سوچتی ہے؟ اس کا دل کن جذبوں سے آراستہ رہتا ہے؟ بچے کی شخصیت اسی کا پرتو ہوتی ہے۔
ایک مسلمان ماں اپنے بچے کو ’’مثالی مسلمان‘‘ بنانا چاہتی ہوگی تو وہ ضرور شعور و آگہی کے ساتھ ان سب امور کا خیال رکھے گی۔ آج بھی ایسی مثال مل سکتی ہے کہ جب ماں نے مدت حمل میں ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت سنی‘ خود بھی ورد زبان بنایا اور ایک ہی قاری کی زبان اور لب و لہجہ میں کثرت سے قرآن سنا تو اس کااثر یہ ہوا کہ نومولود کی جب قرآن سیکھنے کی عمر ہوئی تو حیرت انگیز طور پر بہت جلد سیکھ گیا۔
ایک ذمہ دار اور حسّاس مسلمان ماں وہ ہے‘ جو زمانۂ حمل میں قرآن پر غوروفکر کرے اور درس و تدریس میں وقت گزارے۔ اپنی دیگر ذمہ داریوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے انجام دے اور علم کی محفلوں میں پورے انہماک سے شریک ہو۔ یہ ہماری دیکھی آزمائی بات ہے کہ مستقل بنیادوں پر منعقدہ قرآنی کلاسوںمیں شامل ہونے والی خواتین نے اس بچے کی عادات و اطوار میں نمایاں تبدیلی محسوس کی‘ جو قرآنی کلاسوں میں شریک ہونے کے زمانے میں رحم میں پرورش پا رہا تھا۔
ماں بننے والی خاتون کو شعوری کوشش کے ساتھ صبروقناعت اور قوت برداشت کی صفات کو اجاگر کرنا چاہیے۔ وہ بنیادی اخلاقی عیب جو انسانی زندگی کو بدصورت بناتے ہیں اور انسانیت کی توہین ہیں‘ مثلاً بغض‘ کینہ‘ حسد‘ تکبر‘ اور جھوٹ ‘ان سے بچنے کی کوشش کرے۔ بے جا‘ لایعنی‘ غیر ضروری بحث مباحثہ و گفتگو سے گریز کرے۔ ذکر و تسبیح کو اپنا معمول بنائے۔ یقینا اس کی عبادت‘ ذکرو تسبیح‘ نماز‘ روزہ و دیگر حقوق و فرائض کی ادایگی میں ایک معصوم روح بھی شریک ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی ماں کے ہر نیک عمل کی گواہ بھی ہوگی۔
جسمانی غذا کے ساتھ ساتھ روحانی غذا بھی اعلیٰ اور زیادہ مقدار میں ہونی چاہیے۔ روشن کردار اور اعلیٰ ذہنی و فکری استعداد کی مالک ماں ہی اپنے بچے کے روشن مستقبل کی فکر کر سکتی ہے۔ کم ظرف‘ جھگڑالو‘ پژمردہ حاسد‘ احساس برتری یا احساس کمتری کی ماری‘ ناشکری اور بے صبری عورت قوم و ملّت کو اعلیٰ کردار کا سپوت کیسے دے سکتی ہے۔
بیرونی ماحول اور ماں کے اپنے فکروعمل سے جنین اثرات قبول کرتا ہے۔ اس بات کا تجربہ مشاہدہ کرنے کے لیے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ ہیومن ڈویلپمنٹ نے حاملہ خواتین کو مختلف ماحول اور سرگرمیوں میں رکھا۔ اس جائزے میں ایک یورپی ماں کا اپنا تجربہ ہے: ’’جب میں نے یہ بات سنی کہ جنین پہ ماحول کا اور ماں کے اپنے اندازِ فکر وعمل کا اثر ہوتا ہے تو میں نے کمپیوٹر کی تعلیم سیکھتے ہوئے اپنے بچے کو شعوری طور پر مخاطب کر کے ہر سبق دہرایا اور ہر عمل میں اُس کو اپنے ساتھ محسوس کیا۔ پیدایش کے چند سال بعد وہ بچہ کمپیوٹر کے بارے میں رازداں نکلا‘‘۔
اسی ادارے نے تحقیق کے بعد بتایا کہ ’’پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ صرف جینیاتی (موروثی) اثرات ہی مزاج بنانے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ مگر اب ماحول کی اہمیت واضح ہو رہی ہے۔ پژمردہ مائوں کے بچے بھی پژمردہ پیدا ہوتے ہیں۔ جیرالڈین ڈاسن نے واشنگٹن یونی ورسٹی میں منعقدہ ایک سیمی نار میں اپنا مشاہدہ بیان کیا کہ: ’’جن بچوں کی مائیں پژمردگی کا شکار ہوتی ہیں‘ ان کے بچوں کے دماغ کا بایاں حصہ جس کا تعلق خوشی‘ دل چسپی اور دیگر مثبت عادات سے ہے‘ اپنا کام بہتر طریقے پر انجام نہیں دے سکتا‘‘۔
اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والی خاتون روحانی طور پر مضبوط اور پرُعزم ہوگی۔ اس زمانے میں عورت کے گھر کا ماحول اور خصوصاً شوہر کا رویہ اورانداز فکر بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس غیرمعمولی صورت حال میں شوہر کی ذمہ داریاں بھی غیرمعمولی طور پر بڑھ جاتی ہیں۔ رفیقہ حیات کی ذہنی ‘ جسمانی‘ روحانی طمانیت کے لیے شوہر کو بھرپور طریقے سے اپنا کردار انجام دینا چاہیے۔ یہ شوہر کا فرضِ عین ہے جس کی اس سے بازپرس ہوگی۔ دیگر رشتہ دار اور شوہر ایک نئی ہستی کو دُنیا میں لانے کے لیے عورت کو جتنی آسانیاں آرام‘ ذہنی و جسمانی سکون مہیا کریں گے ‘ لازماً اس کا صلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پائیں گے۔
حاملہ خاتون کو کچھ بیماریوں سے حفاظتی ٹیکے اور دوائیاں دی جاتی ہیں‘ تاکہ خاتون اور اس کا بچہ بیماریوں سے محفوظ رہے۔ بالکل اسی طرح کچھ روحانی بیماریوں سے بھی حفاظتی اقدامات کرنے چاہییں۔ ہر عورت اپنے عیب و محاسن کا جائزہ لے اور جو عیوب انسان کی زندگی کو عیب دار بناتے ہیں ان سے بچنے کے لیے مکمل توجہ کے ساتھ کوشش کرے‘ جس طرح رمضان میں اہتمام کر کے کوشش کی جاتی ہے۔ اگر جسمانی بیماریوں کا علاج ضروری ہے تو اخلاقی بیماریوں کا سدِّباب بھی ہونا چاہیے۔
نومولود‘ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو بچہ جننے کی تکلیف برداشت کرنے پر بے حساب اجر وثواب کی بشارت سنائی ہے۔ اگر ایمان و ایقان کی کھیتی شاداب ہو اور اس پورے عمل کو اللہ اور رسولؐ کی رضا کا وسیلہ سمجھا جائے تو پھر درد کی ہر لہر کو برداشت کرنے پر بے حد و حساب ثواب ملتا ہے۔ نومولود لڑکا ہو یا لڑکی‘ خوشی کا اظہار فطری ہے۔ لڑکی اللہ کی طرف سے رحمتوں کا پیغام لے کر آتی ہے اور ایک فرشتہ گھروالوں کو ان رحمتوں کی خوش خبری سناتا ہے۔ جس عورت کے ہاں صرف لڑکیاں پیدا ہوں اور وہ اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہ کرے‘ دل میں تنگی و ناگواری نہ لائے تو اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ جنت میں داخل ہونے کی خوش خبری سنائی ہے۔
نام: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے بچوں کو اچھے نام دو۔ عبداللہ‘ عبدالرحمن‘ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ نام ہیں‘‘۔ انبیا علیہم السلام کے ناموں پہ بچے کا نام رکھنے کی تلقین کی گئی۔ معنی کے لحاظ سے پسندیدہ‘ بامعنی‘ خوب صورت‘ خوشی‘ کامیابی‘ سکون و وقار والے ناموں کا اہتمام کرنا سنت نبویؐ ہے۔
لڑکے یا لڑکی کا جو بھی نام منتخب کیا جائے‘ اس کو پورے شعور کے ساتھ دل کی گہرائی سے احساس کرتے ہوئے پکارا جائے‘ کہ یہ نام نہیں حقیقت میں ایک دعا ہے‘ ایک آرزو ہے‘ تمنا ہے‘ آئیڈیل ہے جس کو پانا ہے۔ بچوں کو پیار ہی پیار میں بے معنی ناموں سے پکارنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
رضاعت: پیدایش کے فوراً بعد ہر جان دار مخلوق کا نومولود اپنی ماں کی طرف کشش رکھتا ہے‘ چاہے اُس کا انڈوں سے ظہور ہو یا رحم مادر سے۔ دودھ پلانے والے جانوروں میں مشاہدات کرنے والے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بچہ اپنی ماں کو اور ماں اپنے بچے کو ایک دوسرے کی بو (smell)سے پہچانتے ہیں۔
قدرت نے نوزائیدہ شیرخوار بچے کی ساری کائنات ماں کی گود اور ماں کے دودھ سے وابستہ کر دی ہے۔ بچے کو شروع ہی سے ماں کا قرب نصیب ہونا چاہیے۔ آج کل بچے کو ہسپتالوں میں ماں سے دُور نرسری میں رکھا جاتا ہے جس سے ماں اور بچہ ایک دوسرے کی مخصوص بو اور تعلق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کو دو سال تک دودھ پلانے کی ہدایت کی ہے۔ یہی دو سال کا عرصہ بچے میں تعلیم حاصل کرنے کی قوت اور ذہنی دبائو برداشت کرنے کی صلاحیت کو بڑھا سکتا ہے۔
بچہ رات کو بھوک سے روئے اور ماں اپنی نیند کی قربانی دے کر پوری محبت اور خوش دلی سے اسے دودھ پلائے تو فرشتے اس کو جنت کی بشارت دیتے ہیں۔ہمارے لیے قابل تقلید بزرگوں کی مائیں اپنے بچوں کو باوضو ہو کر دودھ پلاتی تھیں۔ ساتھ ساتھ کانوں میں کوئی بہترین پیغام‘ آیاتِ الٰہی ‘لوری کی صورت میں سناتی تھیں۔
بعض لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ نوزائیدہ بچے کو ۴۰ دن کے اندر اندر قرآن پاک کی تلاوت سنا دی جائے تو اس کے بہت سے مثبت اثرات سامنے آتے ہیں۔ اس زمانے میں بچہ زیادہ تر سویا رہتا ہے۔ ماں بھی اکثر کاموں سے فارغ ہوتی ہے اور زیادہ تربچے کے قریب ہی رہتی ہے۔ گھر کی دیگر ذمہ داریاں عموماً دوسرے ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اس دوران کیسٹ کے ذریعے ہلکی آواز میںقرآن پاک کی تلاوت بچے کے سرہانے لگا دی جائے۔ سوتے جاگتے بچے کو قرآن پاک کی تلاوت سے مانوس کیا جائے۔
بچہ بولنے کی کوشش کرنے لگے تو سب سے پہلے ’’اللہ‘‘ کا نام سکھایا جائے۔ اذان کی آواز پر متوجہ کیا جائے۔ کلمہ طیبہ‘ بسم اللہ‘ السلام علیکم جیسے بابرکت کلمات سے بچے کی زبان کو تر کیا جائے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب بچے کی زبان کھل جائے تو بچہ کو سورہ فرقان کی یہ آیت یاد کروائی جائے:
الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْ ئٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا o (الفرقان ۲۵: ۲)
وہ جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے‘ جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے ‘ جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے‘ جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی۔
ابتدائی چند سال: پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ: ’’صرف موروثی اثرات ہی مزاج بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں‘‘۔ مگر اب سائنس دان یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ : ’’بچپن کا ماحول بھی بچے کے مزاج کو ڈھالنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچپن کے تجربات پتھر پہ لکیر ہوتے ہیں‘‘۔ مثبت اور خوش گوار مشاہدات‘ جذبات و احساسات کا حامل بچہ اپنے لاشعور سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اس میں قوتِ اعتماد‘ قوتِ فیصلہ اور سمجھ بوجھ زیادہ پائی جاتی ہے۔
دنیا میں آنکھ کھولنے کے بعد بچے کو اچھا انسان اور بہترین مسلمان بننے کے لیے بہترین ماحول چاہیے۔ شخصیت کی صحت مندانہ نشوونما کے لیے ایک صحت مند تصورِ ذات بہت ضروری ہے۔ بچے کا ابتدائی تصور ذات‘ اُسے والدین اور اہل خانہ ہی فراہم کرتے ہیں۔ بہرحال جو اثرات ایک مرتبہ قائم ہو جائیں وہ ختم تو نہیں ہوتے‘ البتہ بعد کے حالات اُس میں تبدیلی ضرور لا سکتے ہیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے‘ ماحول اسے یہود و نصاریٰ بنا دیتے ہیں‘‘۔ اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ ایک پانی کا چشمہ اپنے فطری بہائو کے ساتھ فطری راستے پر بہہ رہا ہے۔ اگر اس راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کر دی جائے تو پانی فطری راستے کی بجائے مختلف اطراف میں بہنا شروع کر دے گا۔
چند سال کا بچہ ذرا سمجھ دار ہو جاتا ہے تو وہ ایک چھوٹا سا سائنس دان ہوتا ہے۔ گھٹنوں کے بل چلنے کی عمر سے لے کر تین چار سال تک وہ ہر نئی شے تک پہنچنے اور پرکھنے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ اپنی ذہنی استعداد کے مطابق بہت کچھ خود ہی سیکھ اور سمجھ لیتا ہے۔ اس کا لاشعور جو تربیت پا چکا ہوتا ہے وہ شعوری طور پر اس کااظہار کرنا چاہتا ہے‘ تاکہ اگلے مرحلے میں وہ اپنے ذہن کی مزید نشوونما کر سکے۔
بچے کی روحانی غذا شروع دن سے اسی طرح بڑھانی چاہیے‘ جس طرح جسمانی غذا بہ تدریج بڑھائی جاتی ہے۔ اگر جسمانی غذا شروع دن سے ناقص ہوگی‘ کم ہوگی‘ بروقت نہ ملے گی تو بچہ جسمانی طور پر کمزور ہوگا۔ مختلف بیماریوں کا شکار ہو جائے گا اور وہ معذور بھی ہو سکتا ہے۔ اگرچہ وہ صحت مند پیدا ہوا ہو۔ بالکل اسی طرح شروع دن سے روحانی غذا بروقت نہ ملے ‘ نامکمل اور ناقص ہو تو بچہ روحانی طور پر کمزور‘ بیمار اور شاید معذور ہوگا۔ جس طرح حاملہ عورت کو کچھ بیماریوں سے بچائو کے لیے حفاظتی ٹیکے لگانا ضروری سمجھا جاتا ہے‘ اسی طرح روحانی بیماریوں سے بچنے کے لیے بھی پیدایش سے پہلے حفاظتی اقدامات کرنے ہوں گے اور پیدایش کے بعد بھی ان کا علاج کرنا ہوگا۔ وہ نیت کی درستی‘ فرائض کی ادایگی میں پابندی اور قلب و نگاہ کو شعوری مسلمان بنانے کے علاوہ اور کیا ہے!
بچہ بہت جلد اپنے والدین کی خوشی و ناراضی کو محسوس کرنے لگتا ہے اور ماں بھی بچے کو سمجھانے کی خاطر اُسے باپ کی ناراضی کا احساس دلاتی ہے۔ یا اُس کے خوش ہونے کی وجہ بتاتی ہے کہ کس کام سے ابو ناراض اور کس کام سے خوش ہوں گے۔ شروع ہی سے بچے کے قلب و ذہن اور رگ و پے میں اللہ تعالیٰ کی محبت‘ رضا اورخوشی کا احساس بھی اسی طرح دلانا چاہیے۔
مسلمان مائوں کے لیے بچے ہی ان کے امتحانی پرچے ہیں۔ جس کے جتنے بچے ہیں اس کے اتنے ہی پرچے ہیں اور انھی پرچوں کے نتیجے پر ان کی دنیا و آخرت کی سرفرازی کا دارومدار ہے۔ ان پرچوں کا نتیجہ بھی خود اللہ تعالیٰ کو تیار کرنا ہے۔ کامیاب ہونے پر انعام سے نوازنا ہے اور انعام بھی کیا ہے؟ جنت جیسی عظیم نعمت اور اپنی رضا کی بشارت اور رب سے ملاقات کی نوید!
والدین کا اپنا طرزعمل بچوں کے لیے سب سے بڑا استاد ہے۔ بچے خاموشی سے اس طرزعمل کو نوٹ کرتے اور پھر اس پر عمل کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کو آپس میں یا دوستوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے‘ یا آپس میں کھیلتے ہوئے‘ ان کی سرگرمیوں اور پلاننگ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے والدین‘ رشتہ داروں اور استادوں سے کیا سیکھ رہے ہیں اور ’’کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا‘‘ کی حقیقت بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔
ایک مسلمان گھرانے کا ماحول بچے کو ایک ڈیڑھ سال کی عمر میں رکوع و سجود‘ اذان اور نماز سے آشنا کر دیتا ہے۔ گھر کا ماحول نمازی ہوگا تو بچہ لاشعوری طور پر اس کو زندگی کا ایک جزو سمجھے گا۔ نماز جتنی اہم عبادت ہے ‘ شیطان کو اس کی پابندی اتنی ہی گراں گزرتی ہے۔ وہ نماز کو مشکل ترین کام بنا کر مسلمانوں کو رب سے دُور کرنا چاہتاہے‘ اسی لیے اس کی ادایگی نفس پر گراں گزرتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ خود اپنی نمازوں کی حفاظت کریں: ’’بے شک نمازبے حیائی اور برائی سے روکتی ہے‘‘۔ مرد حضرات خود باجماعت نماز کی پابندی کریں‘ لڑکوں کو مسجد میں محبت اور شفقت سے لے جائیں۔ ننھے لڑکے کو مسجد سے محبت‘ انس اور تعلق پیدا کروانا چاہیے۔ جس طرح بچہ باپ کے ساتھ بازار جانے‘ کچھ حاصل کرنے کے شوق میں خوشی خوشی جاتا ہے بالکل اسی طرح مسجد میں جا کر خوشیوں کے حصول اور کچھ پالینے کی آرزو پیدا کی جائے۔
نماز کی پابندی کروانے کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ اُسے ابتدا میں یعنی تین سال کی عمر میں ضرور اپنی نماز ادا کرنے کے دوران اپنے ساتھ رکھا جائے۔ اسی عمر سے نماز کے کلمات یاد کروانے شروع کر دیے جائیں۔ جتنے بھی کلمات ترجمے کے ساتھ یاد ہو جائیں انھی کے ساتھ نماز کی ادایگی شروع کروائی جائے۔ لڑکے تو مسجد میں جا کر رکوع و سجود کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ لڑکیوں کو بھی گھر میں اس کی مکمل پہچان کروائی جائے۔ شروع میں بچے کو ایک نماز اور وہ بھی صرف فرض کی عادت ڈالی جائے اور یہ فجر کی نماز ہے۔ بچہ چاہے جس وقت بھی سو کر اُٹھے اسے معلوم ہو جائے کہ اُٹھنے کے بعد پہلا کام نماز کا ہوتا ہے۔ پہلے وضو اور نماز پھر ناشتہ--- صبح اپنے رب کے حضور حاضری کا تصور اس کے لازمی معمولات کا حصہ بن جائے۔ یہ عمل ایک سال تک جاری رکھا جا سکتا ہے۔ پھر فجر کی پوری نماز کی (فرض و سنت کے ساتھ) پابندی کرائی جائے۔
دوسری نماز جس کی پابندی آسان ہے وہ مغرب کی نماز ہے۔ چند ماہ ان دو نمازوں کی پابندی ہو۔ پھر بہ تدریج باقی نمازیں۔ چار پانچ سال تک مکمل توجہ‘ شعور‘ آگہی اوردعا و یقین کے ساتھ کی جانے والی یہ محنت ان شاء اللہ کبھی رائیگاں نہ جائے گی۔
پردے کی پابندی: ’’حیا ایمان کا حصہ ہے‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’جب تیرے اندر حیا نہ رہے تو پھر جو چاہے کرتا پھرے‘‘۔ سب سے پہلے تو خود والدین کو اس لفظ کا معنوی و حقیقی‘ اخلاقی و مذہبی لحاظ سے شعور ہونا چاہیے۔ شرم و حیا سے عاری گفتگو‘ انداز و اطوار ‘ حرکات و سکنات اور لب و لہجہ باقی تمام محاسن پر پانی پھیردیتا ہے۔ اگر اس باب میں احتیاط و شائستگی نہیں اختیار کی جاتی تو پھر بڑی باقاعدہ عبادت گزاری کا بھی بچے پر کوئی تاثر نہیں جم سکتا۔
لڑکے اور لڑکیوں کو عمر کے ساتھ ساتھ لباس کا احساس دلایا جائے۔ اگرچہ سالگرہ منانا اسلامی تہذیب کا رواج نہیں ہے‘ تاہم سالگرہ کا دن بچے میں خود احتسابی کے تصور کے ساتھ متعارف کروا دیا جائے تواس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ چھوٹے بچے کو سالگرہ کے دن اخلاقی نصاب کا کوئی ایک قرینہ سکھایا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیا۔ جس ماحول میں گفتگو سے لے کراعمال تک حیا نہ ہو اُس میں بچوں کے ناپختہ ذہنوں میں شرم و حیا کا تصور کیسے جاگزیں ہو سکتا ہے؟ جس معاشرے میں بچے ‘ جوان اور بوڑھے ایک ہی جیسے فحش و عریاں ماحول میں سانس لے رہے ہوں اور سب حیا سے عاری ہو جائیں تو انھیں ذلت و رسوائی سے کون بچا سکتا ہے۔
گھروں میں نوعمری میں ہی لڑکے لڑکیوں کی نشست و برخاست کا انتظام علیحدہ ہونا چاہیے۔ نرسری اور پرائمری اسکول عام طور پر مخلوط ہی ہوتے ہیں۔ انتہائی چھوٹی عمر میں بھی مخلوط تعلیم کے رواج کو ختم کیا جائے یا بچوں کو وہاں نہ بھیجا جائے۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر اسی عمر میں بچوں کو مخلوط اداروں میں بھیجنے سے پہلے یہ شعور دیا جائے کہ کان‘ آنکھ اور دل کے بارے میں حساب دینا ہو گا۔
معاشرتی تقاضے: بچوں کی تربیت کے سلسلے میں بچوں کے درمیان عدل اور انصاف کا برتائو اہم نکتہ ہے۔
والدین کی طرف سے بچوں کے درمیان بلاوجہ تفریق و امتیاز‘ نہایت قابل گرفت بات ہے۔ خصوصاً ایسے والدین کی طرف سے جو خود تو صالح ہیں اور اولاد کی طرف سے پریشان ہیں کہ وہ حق کو نہیں سمجھتی۔ ایسے بچوں کے ساتھ متشددانہ رویہ حالات کو مزید خراب کر دیتا ہے۔ پہلے عرض کیا جا چکا کہ بچے کا اپنے والدین خصوصاً ماں کے ساتھ مناسب تعلق قائم نہ ہو--- ماں کی مصروفیات چاہے کتنی ہی صائب اور ضروری کیوں نہ ہوں--- بچے سے دُوری اور لاتعلقی اپنا اثر دکھا کر رہتی ہے۔ بعد میں اگر حالات درست ہو جائیں‘ تعلق بحال ہو جائے‘ کمی دُور ہو جائے تو فبھا ورنہ یہ تعلق کی کمی اور تشنگی دُور نہیں ہوپاتی۔ بعض اوقات تو منفی ردعمل سامنے آتا ہے۔
والدین کو چاہیے کہ لڑکوں کو ’’قوام‘‘ کے درست معنی سمجھائیں‘ اور بتائیں کہ وہ عورتوں کے آقا اور مالک نہیں بلکہ وہ ان آبگینوں کے نازک جذبات ‘ احساسات‘ خواہشات اور ضروریات کے نگہبان ہیں۔ ہمارے معاشرے نے جو جھوٹی شان ‘ تمکنت‘ رعونت‘ کرختگی اور آمرانہ روش لڑکوں کے ذہنوں میں بے جا طور پر بٹھا دی ہے‘ وہ اسلام اور اخلاق دونوں حوالوں سے غلط ہے۔ مردانگی تو یہ ہے کہ عورت کو بحیثیت ماں‘ بیٹی‘ بیوی اور بہن کے قدرومنزلت دی جائے۔ یاد رہے‘ کہ ظلم کے کھیتوں میں کبھی بھی محبتوں اور شفقتوں کے پھول نہیں کھلتے۔ اگر ایک مرد اپنی بیوی‘ بہن اور بیٹی کے ساتھ ظلم یا خود پسندی کا رویہ اختیار کرے گا‘ تو ویسا ہی بیمار معاشرہ پیدا ہوگا‘ جیسا ہمیں اپنے ارد گرد دکھائی دیتا ہے۔ کیا ہمیں اس معاشرے کو نہیں بدلنا؟
عمومی سیرت و کردار کی پختگی: بچوں سے اپناتعلق (قلبی و ذہنی) مضبوط کرنے کے لیے گھرمیں قرآن و سنت کی ہفتہ وار مجلس رکھی جائے۔ ضروری نہیں کہ اس میں خشک اور یبوست زدہ ماحول ہی ہو۔ خوش گوار ماحول کے ساتھ علمی و ادبی گفتگو اور مسائل پہ تبادلۂ خیال ہو۔ بچوں کے آپس میں تنازعات پہ افہام و تفہیم ہو۔ بچوں کو دوسروں کی طرف سے صرف تعریف سننے کا عادی نہ بنایا جائے۔
والدین عموماً بچوں کی بہت سی عادات کو کھیل کود کی عمر کہہ کر نظراندازکرتے رہتے ہیں‘ مگر بالغ ہوجانے پر ایک دم ان کو احساس ہوتا ہے کہ بچے توغلط رخ پہ جا رہے ہیں۔ پھر وہ راتوں رات ان کو ہر لحاظ سے معیاری درجے پر دیکھنا چاہتے ہیں اور یہی ناسمجھی کی بات ہے۔ بچے کی پرورش‘ تعلیم و تربیت ہر سال‘ ہر مہینے‘ ہر ہفتے‘ ہر دن اور ہر گھنٹے اور ہر لحظے کی ختم نہ ہونے والی منصبی ذمہ داری (ڈیوٹی) ہے۔
جب زمین کے اندر بیج ہر قسم کے موسم‘ مصائب و آلام سے گزر کر ایک ثمربار درخت بنتا ہے۔ اس وقت اس درخت (باغ) کو پہلے سے زیادہ حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے ثمرات کو سمیٹنا‘فائدہ اٹھانا اور آیندہ کی منصوبہ بندی کرنا عقل مندی کی نشانی ہے۔ اسی طرح جوان اولاد‘ والدین کے لیے ثمربار درخت ہے۔ اس وقت اس کو ضائع کرنا‘ اس سے لاپروا ہونا‘غیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا‘ ساری محنت اکارت کر دینے کے مترادف ہے۔
نفسیاتی‘ ذہنی‘ جسمانی و صنفی تبدیلیاں بچوں کو ایک نئے موڑ پہ لاکھڑا کرتی ہیں۔
اس وقت والدین کی شفقت‘ اعتماد‘ گھر کے ماحول میں بچوں کی اہمیت انھیں سکون مہیا کرتی ہے۔ اس دور کے ذہنی و جسمانی اور ارتقائی مراحل قابل اعتماد رشتے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ لڑکے کے لیے باپ کی بھرپور توجہ‘ رہنمائی اور محبت اسے بھٹکنے سے بچا لیتی ہے۔ صنف مخالف کی توجہ حاصل کرنا ‘اس عمر کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ الل ٹپ پرورش پانے والے بچے غلط انداز فکر کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر اپنا بہت کچھ کھو بیٹھتے ہیں۔
اس عمر میں بچوں کو گھر کے ماحول سے سکون و طمانیت ملے۔ ننھیال‘ ددھیال میں ان کی شخصیت کو مانا اور تسلیم کیا جائے‘ لڑکے کو گھر کی خواتین والدہ‘ بہنیں‘ خالائیں‘ پھوپھیاں غرض محرم خواتین شفقت و محبت دیں‘ والد اسے اپنا دست و بازو گردانے تو اس کی ایک پرُاعتماد شخصیت سامنے آتی ہے۔ اسی طرح لڑکی کو گھر کے مرد‘ والد‘ بھائی‘ ماموں‘ چچا اپنے دست شفقت سے نوازیں اور والدہ اور دیگر رشتے دار خواتین اس کی شخصیت کو تسلیم کریں‘ تو شائستہ اطوار اور زیادہ نکھر کر سامنے آئیں گے۔
معاشرے میں جس بے راہ روی کو فروغ دیا جا رہا ہے‘ وہ ہماری معاشرتی زندگی کا المیہ ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو راہِ راست پرلانے کے لیے خصوصی منصوبہ بندی اور فوری عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ بچوں کو اس کے متبادل چیزیں لا کر دینے میں دیر کرنا بہت بڑے نقصان کا باعث ہوگا۔
والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ بچوں کی مناسب وقت پر شادی کر دیں۔ اس میں کسی قسم کی طمع و حرص اور اَنا کا دخل نہ ہو۔ نیک نیتی سے اُسی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے شادی کریں‘ جو معیار اللہ اور اس کے رسولؐ نے قائم کیا ہے۔ یہ سراسر زیادتی ہے کہ والدین اپنے بیٹے کے لیے پسند و ناپسند کا پیمانہ دوسرا رکھیں اور اپنی بیٹی کے لیے کوئی مختلف پیمانہ مقرر کریں--- اسی طرح جو بلند معیار اپنی بیٹی کے لیے ہے‘ وہی دوسروں کی بیٹی کے لیے قائم نہ رکھا جائے تویہ کھلی منافقت اور سراسر بدنیتی ہے۔
والدین کو چاہیے کہ تعلیم‘ خاندان‘ اسٹیٹس اورمعاش میں کفو کو نظرانداز نہ کریں۔ لیکن‘ جو سب سے اہم بات ہے وہ یہ کہ شعورو آگہی‘ اندازِ فکروفہماور نظریات میں بھی ’کفو‘ کا خیال رکھنا لازمی ہے۔ ذہنی ہم آہنگی نہ ہو تو ازدواجی زندگی اور تربیت اولاد کے سلسلے میں بے شمار مسائل جنم لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتے قائم کرنے کے لیے جو ترتیب بتائی ہے اسی کو مدنظر رکھا جائے‘ یعنی: دین‘ حسب نسب‘ شکل و صورت۔ جس چیز کو سب سے آخر میں رکھا گیا ہے لوگ اسی کو اول و آخر قرار دیتے ہیں۔ اگر کام کی فطری ترتیب کو اُلٹ دیا جائے تو معاشرہ ابتری کا شکار ہو جاتا ہے۔
بچے کی تربیت میں دیگر رشتہ داروں کا کردار
ہمارے معاشرے میں مشترکہ خاندانی نظام بہت سی خوبیوں اور کئی خرابیوں کا مرقع ہے۔ بچے کی شخصیت پہ مثبت و منفی دونوں طرح کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ہر گھر میں بچے پھولوں کی طرح ہوتے ہیں اور پودوں کی طرح پروان چڑھتے ہیں۔ اس باغیچے کے باغبان والدین ہی ہیں اور باغبان ہی اپنے پودوں اور پھولوں پھلوں کا اصل میں ذمہ دار اور نگہبان ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ پودوں کی نشوونما کس نہج پہ شروع ہوئی اور اب کس مرحلے میں ہے۔ پودوں کی کانٹ چھانٹ اور کیاریوں کی صفائی ستھرائی باغبان کا ہی کام ہے۔ ایک ترتیب دیے گئے باغیچے میں پھول‘ پھل پودے جب بہار دے رہے ہوتے ہیں تو باغبان ہی نہیں دیگر دیکھنے والے بھی آسودگی اور نظروں میں تراوٹ محسوس کرتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ والدین کو اپنی اولاد سے بڑھ کر کوئی عزیز نہیں ہوتا۔ بہتر سے بہترین بنانے کی لگن سے کوئی والدین غافل نہیں ہوتے۔ فرق صرف دنیا یا آخرت میں سرخرو ہونے کے تصور میں ہے۔
بچوں کی وہ خوشیاں جن کا تعلق حصولِ دین سے ہو‘ ان میں سب کو بھرپور خوشی منانی چاہیے‘ مثلاً علم قرآن و حدیث کے حصول پہ خوشی‘ چھوٹے بچے کی دُعا‘ آیت یا دینی امور میں نمایاں کامیابی‘ نماز‘ روزہ‘ غرض ہر نیکی کا صلہ خوشی‘ محبت ‘ حوصلہ افزائی اور انعام کی صورت میں دیا جائے۔ دین سے بے بہرہ لوگ دنیاوی کامیابیوں پہ جشن مناتے ہوں تو مسلمان بچے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوششوں میں ہونے والی کامیابیوں کی خوشیاں کیوں نہ منائیں؟--- وہ تقریبات جو شرعاً جائز ہیں ان کوباوقار طریقے سے اسلامی تہذیب و فکر کے ساتھ منایا جائے۔
اُمت مسلمہ جس پرآشوب دَور سے گزر رہی ہے اس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے‘ کہ آج ہی صدق دل سے ہر مسلمان اپنی ذمہ داری کو پہچانے اور نسل نو کی بحیثیت ایک مسلمان کے‘ دوا اوردُعا دونوں کے ساتھ آبیاری کرے۔
ہم اللہ تعالیٰ سے نسل نو کو مثالی مسلمان قوم بنانے کے لیے نصرت و حمایت کی دُعا کرتے ہیں:
رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۴)
اے ہمارے رب‘ ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے کر ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔
a