اسلام وہ واحد دین ہے جو اپنے ماننے والوں سے ہر قدم پر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خالقِ کائنات کی نازل کردہ ہدایات و احکام کو غورو فکر اور تحقیق کے بعد اختیار کریں۔ اسی بنا پر قرآن و حدیث اسلام کو ’مذہب‘ نہیں بلکہ ’دین‘ قرار دیتے ہیں:
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (اٰل عمرٰن ۳:۱۹) اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔
’دین‘ قرآن کریم کی ایک جامع اصطلاح ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کی بندگی اور اللہ کی حاکمیت قائم کرنے سے عبارت ہے۔ دیگر مذاہب میں اگر ان کے بنیادی معتقدات پر سوال اٹھایا جائے تو نوبت اخراج تک جا پہنچتی ہے، جب کہ اسلام چاہتا ہے کہ حق کو شعوری طور پر جانچ پرکھ کر اختیار کیا جائے۔ عقل و فکر کا یہ کردار اتنا اہم ہے کہ اسے سنت ِانبیا ؑبنا دیا گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حیات ثانی کے بارے میں رب کریم سے سوالات کے ذریعے تقویت ایمان چاہی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے سفرِحکمت میں حضرت خضر ؑسے سوالات کرنے میں تکلف محسوس نہیں کیا۔
اس تناظر میں کسی غیرمسلم یا کسی مسلمان کا اسلام میں تصورِ خلافت کے پائے جانے پر استفہام نہ کسی تعجب کا باعث ہونا چاہیے اور نہ یہ ضرورت ہے کہ ایسے سوالات کے پیچھے چھپے محرکات تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے بجاے ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ جو سوالات اٹھائے جائیں، ان کا جواب ہدایت کے ان دو مستقل مآخذ و مصادر میں تلاش کیا جائے جو قیامت تک تمام انسانیت کے مسائل کا حل واضح اور بیّن طور پر فراہم کرتے ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب اس اہم موضوع کا پوری علمی دیانت کے ساتھ معروضی (objective) انداز میں مطالعہ کیا جائے اور تعصب اور مرعوبیت کے ہرسایے سے اس بحث کو محفوظ رکھا جائے۔ اسلامی تحریکیں آج وجود میں نہیں آئی ہیں۔ ان کے افکار اور ان کا تاریخی کردار ایک صدی پر محیط ہے۔ دینی مدارس بھی صدیوں سے اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور جو نصاب آج رائج ہے، اس میں تبدیلی اور بہتری کی گنجایش تو بلاشبہہ ہے اور اس کی نشان دہی بھی کی جاتی رہی ہے اور کچھ اصلاحات لائی بھی گئی ہیں مگر جن نتائج کا شجرۂ نسب آج ان سے جوڑا جا رہا ہے، ان کی کوئی مثال برعظیم کی کم از کم ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں نظر نہیں آتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ دین اور ریاست کے تعلق کو معروضی انداز میں دیکھا جائے۔
یہ سوال کہ ’خلافت‘ اسلامی اصطلاح ہے یا نہیں؟ اسے خود قرآن کریم سے کیا جائے اور جو جواب ملے، اسے محلے والوں کی ناراضی یا خوش نودی سے بلند ہو کر صدق دل سے مان لیا جائے۔ کیونکہ انسانی تعبیرات و تشریحات بظاہر کتنی ہی خوش منظر اور متاثر کن نظر آتی ہوں، ان کو اللہ کے آخری پیغام اور آخری ہادی علیہ الصلوٰۃو السلام کے ارشاد ات کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا اور اگر وہ ان سے ہم آہنگ نہیں ہیں تو ان کو رد کردیا جائے گا۔
یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ قرآن کریم میں خلافت کی اصطلاح اپنی مختلف شکلوں میں ۱۴ مقامات پر استعمال ہوئی ہے۔ سورئہ نور میں فرمایا گیا:
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ (النور ۲۴:۵۵) اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بناچکا ہے۔
اس آیت میں آگے چل کر فرمایا جارہا ہے کہ :
وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنْ م بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا ط یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا ط وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ o (النور ۲۴:۵۵) ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے اور ان کی (موجودہ) حالت ِخوف کو امن سے بدل دے گا، پس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔
استخلاف فی الارض کی یہ قرآنی اصطلاح تقریباً اسی معنی میں سورئہ اعراف میں استعمال ہوئی ہے:
قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہِ اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰہِ وَ اصْبِرُوْا ج اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ قف یُوْرِثُھَا مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ ط وَ الْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَo قَالُوْٓا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَ مِنْ م بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ط قَالَ عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّھْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَ یَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ o(الاعراف ۷: ۱۲۸-۱۲۹) موسٰی ؑ نے اپنی قوم سے کہا ’’اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخر کامیابی انھی کے لیے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں‘‘۔ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا ’’تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جارہے ہیں‘‘۔ اس نے جواب دیا: ’’قریب ہے وہ وقت کہ تمھارا رب تمھارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘۔
سورئہ انعام میں اسی حوالے سے فرمایا گیا:
وَ رَبُّکَ الْغَنِیُّ ذُوالرَّحْمَۃِ ط اِنْ یَّشَاْ یُذْھِبْکُمْ وَ یَسْتَخْلِفْ مِنْ م بَعْدِکُمْ مَّا یَشَآئُ کَمَآ اَنْشَاَکُمْ مِّنْ ذُرِّیَّۃِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَ o (الانعام ۶:۱۳۳)تمھارا رب بے نیاز ہے اور مہربانی اس کا شیوہ ہے اگر وہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور تمھاری جگہ دوسرے، جن کو چاہے، لے آئے جس طرح اس نے تمھیں کچھ اور لوگوں کی نسل سے اٹھایا ہے۔
ان تینوں مقامات پر استخلاف کی اصطلاح کی وضاحت قرآن کریم خود کر رہا ہے کہ اس کا مفہوم اللہ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ایک قوم کو خلافت یا حکمرانی کا دیا جانا ہے۔ ہم نے صرف ان تین مقامات کا ذکر اختصار کی خاطر کیا ہے ورنہ دیگر مقامات پر اور خود تخلیق آدم کے واقعے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ملائکہ سے انسان کا تعارف جس اصطلاح سے کرایا وہ خلیفہ ہی کی اصطلاح تھی۔ ظاہر ہے کہ قرآن کریم ایک نہیں ۱۴ مقامات پر اس اصطلاح کو اس کی مختلف شکلوں میں استعمال کر رہا ہے تو اسے اسلامی اصطلاح ہی ہونا چاہیے۔
اسلام کا مخاطب: فرد یا اجتماعیت
یہ سوال اٹھانا بھی کسی غیرمسلم اور مسلمان کے لیے ممنوع نہیں ہے کہ ’’کیا اسلام میں ریاست کا کوئی مذہب ہے؟‘‘ یا دوسرے الفاظ میں کیا اسلامی ریاست ایک سیکولر ریاست ہے؟ یا ایک وقت میں یورپ میں پائی جانے والی کلیسائی ریاست (Theocracy) کے مماثل ہے؟گو یہ سوال نہ تو نیا ہے اور نہ اس بات کا مستحق ہے کہ اسے ایک نئی بحث (discourse) یا ردِّبیانیہ (counter narrative) یا صرف بیانیہ (narrative)کا عنوان دے کر ندرت خیال تصور کرلیا جائے۔ یہ بات مستشرقین اور مغربی جامعات سے اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لے کر آنے والے دانش ور سیکڑوں مرتبہ دُہراتے رہے ہیں۔ ان دانش وروں کا اصل مسئلہ وہ تصورِ علم اور تصورِ تحقیق ہے جس کے زیر سایہ وہ اپنی اعلیٰ تعلیم کو مکمل کرتے ہیں، چنانچہ غیرمحسوس طور پر وہ تجربی طریقِ تحقیق (Empirical Research Methodology) پر ایمان بالغیب لانے کے بعد، اسی عینک سے اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو انھیں اسلام سیکولر نظر آتاہے یا تھیاکریٹک۔ اس لیے ہم نے آغاز میں یہ گزارش کی کہ اسلام اور ریاست کے موضوع پر ایک معروضی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
’جوابی بیانیہ‘ کا مرکزی تصور یہ مفروضہ ہے کہ ’’اسلام کی دعوت اصلاً فرد کے لیے ہے۔ وہ اس کے دل و دماغ پر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس نے جو احکام معاشرے کو دیے ہیں، ان کا مخاطب بھی وہ افراد ہیں جو مسلمانوں کے معاشرے میں ارباب حل و عقد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ دعویٰ اپنے اندر صرف جزوی صداقت رکھتا ہے، اس لیے زیادہ سے زیادہ اس کو ’نصف سچائی‘ (half truth) ہی کہا جاسکتا ہے جو ایک کے بعد دوسرے مغالطے کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے اور پورے بیانیے کو تضادات کی آماج گاہ بنادیتا ہے، اور صورتِ حال یہ ہوجاتی ہے ؎
خشتِ اوّل چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
بلاشبہہ فرد کی اصلاح اسلام کی دعوت کا اہم ستون اور نقطۂ آغاز ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فرد از اوّل تا آخر اجتماعیت کا حصہ ہے۔ وہ خود اس دنیا میں اپنی کسی مرضی سے وجود میں نہیں آتا۔ اللہ کی مشیت کے مطابق دو افراد کے لیے ایک اجتماعی فیصلہ اور عمل کے نتیجے میں اس کے سفرِحیات کا آغاز ہوتا ہے۔ دوسری مخلوقات کی طرح اپنی بقا اورترقی و تکمیل کے لیے اس کا انحصار بنیادی طور پر جینیاتی (genetic )عوامل پر نہیں بلکہ جینیاتی عمل کے ساتھ ساتھ اس کو سماجی اور اداراتی عوامل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ مرغی کا چوزہ انڈے سے نکلنے کے ساتھ ہی اپنا رزق تلاش کرنے کی صلاحیت لے کر آتا ہے لیکن انسان کا بچہ ماں کی گوداور اس کے دودھ کا محتاج ہے۔ تہذیب اور ثقافت کا ورثہ اسے جینیات کے ذریعے نہیں، خاندان، تعلیم اور معاشرے کی آغوش میں حاصل ہوتا ہے۔ وہ ایک خاندان، ایک معاشرے، ایک تہذیب و تمدن، ایک معیشت اور ایک ریاست میں نشوونما پاتا اور اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی دعوت کا مرکز و محور جہاں یہ فرد ہے، وہیں وہ معاشرہ، وہ اجتماع اور وہ ریاست بھی ہے جس سے اسے ہرلمحہ سابقہ درپیش ہے اور اس کی آماج گاہ ہے۔
بلاشبہہ اسلام جو نظامِ زندگی قائم کرنا چاہتا ہے، وہ فرد کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فرد کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل ہے مگر فرد کو جو مشن سونپا گیا ہے، وہ صرف اپنی اصلاح اور تزکیے تک محدود نہیں اور آخرت میں ہرفرد کو فرداً فرداً جو جواب دہی کرنی ہے، وہ صرف اس کی ذاتی زندگی تک محدود نہیں بلکہ وہ زندگی کی تمام وسعتوں پر محیط ہے۔ اسلام کی دعوت فرد اور معاشرے دونوں کے لیے ہے۔ اس لیے کہ دنیا میں انسان کو پوری زندگی حق و باطل کی کش مکش کے درمیان بسر کرنی ہوتی ہے اور جو فرد اللہ کو اپنا رب تسلیم کرتا ہے، وہ پوری زندگی کو اس کی اطاعت اور بندگی میں دینے کا سودا کرتا ہے۔ اس لیے قرآن نے اس عہد کو خریدوفروخت کے ایک معاملے سے تعبیر کیا ہے کہ:
اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ط یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ قف وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِ ط وَ مَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ ط وَ ذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ ط وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ o (التوبہ ۹:۱۱۱-۱۱۲) حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں۔ اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں منائو اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اللہ کی طرف باربار پلٹنے والے، اس کی بندگی بجالانے والے، اس کی تعریف کے گن گانے والے، اس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے، اس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے (اس شان کے ہوتے ہیں وہ مومن جو اللہ سے بیع کا معاملہ طے کرتے ہیں) اور اے نبیؐ! ان مومنوں کو خوش خبری دے دو۔
سورئہ صف میں اہلِ ایمان کا کردار اس طرح واضح کیا گیا ہے:
یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ o کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ o اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ o (الصف ۶۱:۲-۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
اور پھر ان کو یہ بشارت بھی دی کہ:
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ o یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ o تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا ط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ o (الصف ۶۱:۸-۱۳) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے بچا دے؟ ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ اللہ تمھارے گناہ معاف کردے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمھیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔ اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبیؐ! اہلِ ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔
فرد کی زندگی حق و باطل اور نیکی اور بدی کے درمیان کش مکش کے درمیان گزرتی ہے اور فرد کی اصلاح کا مقصد اس کش مکش میں اس کے صحیح کردار کی ادائی ہے۔ اس پر گرفت صرف اس بات پر نہیں ہوگی کہ اس کے انفرادی کردار یا محرکات میں کیا خرابی یا کوتاہی ہے بلکہ اس پر بھی ہوگی کہ جس معاشرے میں وہ زندگی گزار رہا ہے، اس کو ظلم اور طاغوت کی حکمرانی سے نجات دلانے میں اس نے کیا کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے کہ فرد کا اپنی ذات کا تزکیہ اور اجتماعی زندگی کی اصلاح اور تاریخ کے دھارے میں حق پرستی اور عدل وانصاف کی کش مکش کی جدوجہد میں تعاون ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ان کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ فرد کی اصلاح کو مرکزی اور کلیدی مقام حاصل ہے مگر دنیا میں کامیابی اور آخرت میں نجات کا انحصار صرف فرد کی اصلاح پر نہیں بلکہ اصلاح یافتہ افراد کے اس کردار پر ہے جو وہ اپنی اصلاح کے ساتھ معاشرے کی اصلاح ، اور انسانی زندگی کے ادارے کی الہامی ہدایت کی روشنی میں تعمیر اور تشکیل نو کے لیے انجام دیتے ہیں، اور بالآخر تاریخ کے دھارے کو اللہ کی بندگی میں ڈھالنے اور انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کے قیام کے لیے انجام دیتے ہیں۔ فرد اجتماعیت کا حصہ ہے۔ معاشرے میں معیشت اور تمدن میں خیروشر کے درمیان جو کش مکش برپا ہے اس میںاحقاقِ حق اور ابطالِ باطل کے لیے فرد جو کردار ادا کرتا ہے اور جدوجہد میں حصہ لیتا ہے، اس ہمہ گیر جدوجہد کا نام جہاد ہے جو ایمان کا تقاضا ہے۔ یہ جہاد اپنے نفس کی اصلاح اور نفسِ امارہ کو زیر کرنے سے شروع ہوتا ہے لیکن جہاد باللسان، جہاد بالعمل اور جہاد بالسیف سے عبارت ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ ماضی میں جو مشن انبیاے کرام ؑنے انجام دیا، نبی آخرالزماںؐ کی سنت کے طور پر اب اُمت کی ذمہ داری ___ ہرہر فرد کی ہے۔ اُمت کا بحیثیت اُمت اس مقصد کے لیے اجتماعیت اور امامت کا قیام بھی ضروری ہے۔ فرد اور اجتماعیت دونوں کو اس وظیفے کو انجام دینا ہی ’اسلام‘ کا مقصود و مطلوب ہے۔ اس کا کام اقامت ِ دین ہے اور یہی استخلاف کا تقاضا ہے۔ شاہ ولی اللہ ازالۃ الخفا میں اُمت کے اس مشن کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
خلافت اس عمومی سربراہی اور ریاست ِعامہ کا نام ہے جو اقامت ِ دین کے کام کی تکمیل کے لیے وجود میں آئے۔ اس اقامت دین کے دائرے میں علومِ دینیہ کا احیا، ارکانِ اسلام کا قیام، جہاد اور اس کے متعلقات کا انتظام، مثلاً لشکروں کی ترتیب، جنگ میں حصہ لینے والوں کے حصص و مالِ غنیمت میں ان کا حق، نظام قضا کا اجرا، حدود کا قائم کرنا، مظالم اور شکایات کا ازالہ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرض کی ادائی شامل ہے اور یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت اور نمایندگی میں ہونا چاہیے۔
فرد کی اصلاح اس ہمہ گیر مقصد کے لیے ہے، خود مقصود بالذات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے صاف الفاظ میں متنبہ کردیا ہے کہ فرد کی محض اپنی ذات کی اصلاح کافی نہیں مگر معاشرے کے بگاڑ کی زَد بھی اس پر پڑتی ہے، اور اگر وہ اس کی اصلاح اور اسلامی اصولوں کے مطابق اجتماع کے ہرادارے میں انصاف اور عدل کے قیام سے غافل رہتا ہے تو وہ اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکے گا:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ج وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْئِ وَ قَلْبِہٖ وَ اَنَّــہٗٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ o وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً ج وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ o (انفال ۸:۲۴-۲۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسولؐ کی پکار پر لبیک کہو، جب کہ رسولؐ تمھیں اُس چیز کی طرف بلائے جو تمھیں زندگی بخشنے والی ہے، اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جائو گے۔ اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
اسلام کا طرئہ امتیاز ہی یہ ہے کہ اس نے فرد اور اجتماعیت کے درمیان توازن قائم کیا ہے۔ نہ انفرادیت کو اس حد تک آزاد چھوڑا ہے کہ انسان اپنی ذات کے سوا کسی کو خاطر میں نہ لائے اور نہ اجتماع ،جماعت اور ریاست کو ایک شتربے مہار بننے کا موقع دیا ہے کہ فرد، اس کی آزادی، حقوق اور تعمیر میں اور تشکیلی کردار کی نفی کردے اور اسے مشین کا ایک بے جان پرزہ بنا دے۔ اس نے فرد کو اہم ترین اکائی بنایا ہے لیکن جس کلمے کی بنیاد پر وہ اللہ کا بندہ بنتا ہے اور رب کے خلیفہ کا مقام حاصل کرتا ہے، اس کلمے کی بنیاد پر اسی لمحے ملت ِ اسلامیہ او رحزب اللہ کا رکن بن جاتا ہے اور جماعت کی تقویت کا باعث اور اس کے ڈسپلن کا پابند بن جاتا ہے۔ یہ توازن اور توافق زندگی کے ہر میدان میں قائم کیا گیا ہے خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا کام و دہن کی لذت سے، خاندانی زندگی سے ہو یا معاشی سرگرمی سے، سیاست سے ہو یا معاشرت سے، ادب سے ہو یا ثقافت سے۔ بقول اقبال ؎
فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے ، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
آیئے، اسلام کے اس تاریخی کارنامے کے چند پہلوئوں پر غور کریں تاکہ اسلام اور ریاست کے تعلق کو سمجھنے اور استخلاف کے کردار کی ادائی اور اس کے تقاضوں کے صحیح ادراک اور ان کو پورا کرنے کے لیے جو منہج دین نے مقرر کیا ہے اور جس کا بہترین نمونہ حضور اکرمؐ نے مکہ اور مدینہ کی زندگی میں پیش فرمایا اور جس کا تسلسل دورِ خلافت راشدہ میں بہ تمام و کمال تاریخ کا حصہ بن گیا ہے اور اُمت کے لیے ہمیشہ کے لیے روشنی کا مینار ہے، اس منہج کی روشنی میں اجتماعیت کے بارے میں اسلام کے رویے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ بات کا آغاز ہم خود عبادات پر غوروفکر سے کرتے ہیں۔
اسلام کا تصور عبادت دیگر مذاہب سے جوہری طور پر مختلف اس بنا پر ہے کہ یہاں مسئلہ محض ذاتی نجات (Personal Salvation) کا نہیں ہے بلکہ اپنے ارد گرد کے افراد کی اصلاح اور اخروی کامیابی کی فکر کا ہے۔ آخرت میں جواب دہی بھی نہ صرف انفرادی ہے بلکہ ہر مسلمان کو جواب دینا ہوگا کہ اگر اس تک صرف ایک آیت ہی پہنچی تھی تو کیا اس نے اسے دوسروں تک پہنچایا؟ اپنے ماحول، معاشرے اور دنیا میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حاکمیت قائم کرنے کے لیے اپنی صلاحیت و اختیار کو کہاں تک استعمال کیا؟ قرآن کریم نے دو ٹوک انداز میں فرمایا ہے:
ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم ۶۶:۶)اے لوگو جو ایمان لائے ہو بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔
اسلام کے تصور عبادت کی روح اجتماعیت میں ہے۔ وہ نماز ہو یا زکوٰۃ کا نظام یا عمرہ اور حج یا روزہ اور جہاد ہو، ہر عبادت اجتماعیت کا پہلو رکھتی ہے اور اجتماعی طور پر معروف کے قیام اور منکر اور فواحش کے انسداد کی تعلیم دیتی ہے۔
قرآن کریم نے توحید کی اساسی تعلیم کے ذریعے اس غلط فہمی کی اصلاح کر دی ہے کہ انسان اپنی زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم کرسکتا ہے۔ توحید کا مطالبہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت محض اس گوشت کے لوتھڑے تک محدود نہ کردی جائے جس کا نام قلب ہے بلکہ اس قلب کو مزّکی کرنے کے بعد پورے جسم اور زندگی کی تمام وسعتوں پر اس کی حکمرانی قائم کی جائے، تاکہ جسمِ انسانی کے ساتھ کاروبارِ حیات کے تمام شعبوں میں اللہ کی حاکمیت اور حتمی اقتدار کو نافذ کیا جائے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اسلام فرد کا تو دین ہو لیکن جس نظام سیاسی میں وہ رہے وہ مشرکانہ، جاہلانہ یا مادہ پرست ہو۔ اگر ہم قرآن کریم سے اس کا جواب پوچھیں تو صاف طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ تسلط، اقتدار، حکم اور حرفِ آخر اگر کسی کا ہے تو وہ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ہے۔ صرف وہ مقتدرِ اعلیٰ (Sovereign) ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی زبانی ارشاد ہوا:
یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ o مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ ط اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ o (یوسف ۱۲:۳۹-۴۰)اے زنداں کے ساتھیو! تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ اکیلا اللہ جو سب پر غالب ہے؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم اور تمھارے آباو اجداد نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرماںروائی کا اقتدار (حاکمیت) اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی دین قیم (صحیح طریق زندگی) ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
اس آیت مبارکہ نے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ (Sovereignty) کے الفاظ استعمال کرکے یہ بات طے کر دی کہ کوئی انسان Sovereign نہیں ہو سکتا۔ حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے۔ حاکمیت کا دائرہ اثر صرف ذاتی معاملات میں نہیں بلکہ یکساں طور پر سیاسی، معاشی، معاشرتی، ثقافتی، قانونی اور بین الاقوامی معاملات میں بھی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ مسجد میں تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اعظم، اعلیٰ اور اکبر ہو لیکن پارلیمنٹ میں پارلیمان اعلیٰ، اکبر اور اعظم بن جائے۔ اور پارلیمان طے کرے کہ اسلام کے کس حکم کو ماننا اور نافذ کرنا ہے اور کس کو نظر انداز کر دینا ہے۔ نہ یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ مسجد میں تو سجدے کا مستحق ہو لیکن بازار میں کھوٹے سکے سجدے کے مستحق بن جائیں، یا نام نہاد ثقافتی دنیا میں عریانی، فحاشی اور صنم پرستی تہذیب کا معیار بن جائے۔
اسلام میں داخلہ کوئی جزوقتی کام نہیں ہے کہ جمعے کے دن مسجد میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو رب مان لیا جائے اور بقیہ دنوں میں ذاتی مفاد، شہرت اور دولت، پارلیمان کی رکنیت علامت ِبندگی بن جائے۔
خلافت کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ سیاسی نظام جس میں حکومت اور حکام اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع ہوں۔ یہ نہ تھیاکریسی ہے نہ آمریت، نہ فوجی ڈکٹیٹرشپ، نہ موروثی بادشاہت اور ملوکیت۔
خلافت، تاریخ کی روشنی میں، انبیاے کرام کی پیروی کرتے ہوئے خالق کائنات کی شریعت کو اس کی زمین پر اور اس کی مخلوق پر نافذ کرنے کا نام ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام ہوں یا حضرت سلیمان علیہ السلام یا حضرت دائود علیہ السلام، ان سب کا اسوہ استخلاف فی الارض، یعنی اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کی اعلیٰ مثال پیش کرتا ہے۔ قرآن کریم کا خود اس معاملے کو واضح کردینے کے بعد کسی دانش ورانہ نکتہ سنجی کی گنجایش باقی نہیں رہتی۔
اگر پھر بھی اصرار کیا جائے تو معروضی طور پر اس دور کے معروف مفسر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کی تالیف اسلامی ریاست (مطبوعہ لاہور، دارالتذکیر ۲۰۰۲ئ) کے صفحات ۱۸ تا ۲۴ کا مطالعہ کر لیا جائے۔ کم از کم وہ حضرات جو مجازی طور پر انھیں کسی وقت اپنا استاد مانتے رہے ہوں، ان صفحات کا مطالعہ ان کے تصورِ خلافت کے خطوط پر چھائی ہوئی دھند کو بآسانی دُور کر دے گا۔
مولانا اصلاحی اس حوالے سے خلافت کے آٹھ تضّمنات پر روشنی ڈالتے ہیں: ۱- یہ کہ خلافت کا شعور خود انسانی فطرت کا مقتضا ہے۔ ۲- یہ کہ اس زمین پر انسان کا فطری منصب ایک خود مختار اور مطلق العنان ہستی کا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ اور نائب کا ہے۔ ۳- یہ کہ اس زمین پر اصل حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے۔ ۴- یہ کہ منشاے تخلیق کے اعتبار سے اس منصب کے اہل سارے انسان ہیں۔ ۵- اس منصب کی ذمہ داریوں کی ادائی میں اگر انسان اللہ کی اطاعت نہ کرے تو فساد فی الارض کا ہونا یقینی ہے۔ ۶- یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر بغیر ہدایت و رہنمائی کے نہیں چھوڑا ہے۔ ۷- یہ کہ خلافت کی اساس وطن، نسل، نسب یا قبیلہ نہیں ہے بلکہ خلافت ایک اصولی اور نظریاتی ریاست ہے۔ ۸- یہ کہ اسلام کا سیاسی نظام عدل و مساوات کو یقینی بناتا ہے۔
اسلام میں قومیت کی بنیاد اسلام نہیں ہے جس طرح عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں کسی جگہ یہ نہیں کہا گیا کہ مسلمان ایک قوم ہیں یا انھیں ایک ہی قوم ہونا چاہیے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ (مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں)۔ تحریک پاکستان کے مخالفین کا استدلال یہی تو تھا کہ مسلمان کوئی الگ قوم نہیں ہیں۔ چنانچہ مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم، مولانا حسین احمد مدنی مرحوم اور جمعیت علماے ہند کے دیگر زعما نے اس تعبیر پر ایمان رکھتے ہوئے انڈین نیشنل کانگریس کا ساتھ دیا، جب کہ علامہ اقبال، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا عبد الحامد بدایونی اور مولانا مودودی نے مسلمانوں کے ایک الگ قوم ہونے کے تصور کی نہ صرف حمایت کی بلکہ مولانا مودودی نے اپنی کتاب مسئلۂ قومیت میں جمعیت علماے ہند کے تصورِ قومیت کو قرآن و سنت کی روشنی میں رد کیا اور مسلم لیگ نے اس کتاب کو بڑے پیمانے پر ملک میں تقسیم کیا۔ مسلمانوں کے ایک قوم ہونے کے حوالے سے قائد اعظم محمدعلی جناح نے ایسوسی ایٹڈ پریس امریکا کے نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے تصور ِ قومیت کی وضاحت اس طرح کی تھی:
ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف بہت گہرا ہے اور اسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ہم ایک قوم ہیں، ہماری نمایاں ثقافت اور تہذیب، زبان اور ادب، فن اور تعمیرات، نام اور نام رکھنے کا نظام ہے۔ نسبت اور تناسب کا شعور، قانون اور اخلاقی ضابطے، رواج اور جنتری، تاریخ اور روایات، میلان طبع اور اُمنگوں کے اعتبار سے۔ مختصراً زندگی اور زندگی کے متعلق ہمارا اپنا نمایاں نقطۂ نظر ہے بین الاقوامی قانون کے جملہ ضابطوں کے لحاظ سے ہم ایک قوم ہیں۔(قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلدسوم، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، امریکی نامہ نگار سے گفتگو، بمبئی، یکم جولائی ۱۹۴۲ئ، ص ۶۷)
قرآن کریم اہل ایمان کو ایک دوسرے کا بھائی اور ایک سیسہ پلائی دیوار اور ـ’خیر اُمت‘ یا ’اُمت وسط‘ کے نام سے پکارتا ہے۔ اس امت کی بنیاد نہ رنگ ہے، نہ نسل، نہ زبان، نہ جغرافیائی سرحدیں۔ اس کا نظریۂ حیات اسے ایک قوم میں تبدیل کر دیتا ہے۔ پاکستان کا وجود میں آنا اس کی روشن دلیل ہے۔ برعظیم کے پٹھان ہوں یا پنجابی یا سندھی اور بلوچ، ان کی پہچان اور تشخص واحد قوم کی شکل میں پاکستانی ہونا ہے۔
مولانا حسین احمد مدنی مرحوم پر علامہ اقبال کی شدید تنقید اور یہ سوال اُٹھانا کہ ہند میں مسلمان سیّد بھی ہیں، مرزا بھی ہیں، افغان بھی ہیں لیکن ان سب حوالوں کے ساتھ کیا وہ مسلمان بھی ہیں؟ دراصل نسل اور ذات پر مبنی قومیت کے علَم برداروں کے موقف پر یہ بات واضح کرنا تھا کہ ان کی یک جہتی اور ایک قوم ہونے کی اصل بنیاد اسلام ہے۔
قرآن کریم نے مختلف مقامات پر اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں کا تذکرہ کرکے اس غلط فہمی کہ ’’ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا‘‘ کی اصلاح کر دی ہے۔ فرمایا گیا:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ ط (الحج ۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ (نظام) نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔
ان چار اہم کاموں کو کون کرے گا؟ کون زکوٰۃ وصول کرکے تقسیم کرے گا؟ محصلین زکوٰۃ کا تقرر کون کرے گا؟ کیا لوگ بزعم خود محـصلین زکوٰۃ بن جائیں گے؟ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ریاست پر عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام وسائل کو بھلائی کے قائم کرنے اور منکروفحش کو دُور کرنے میں صرف کرے اس کی تمام انتظامیہ منکر کو مٹانے میں لگ جائے۔
آیت کا واضح مفہوم سیاسی اقتدار کے ذریعے بھلائی کو عام کرنا اور منکر و فحش کو دُور کرناہے۔ اگر اسلام ایک انفرادی دین ہے تو پھر قرآنی قوانین و حدود کا اجرا کون کرے گا؟ قاضی کا تقرر کون کرے گا؟ جہاد کا اعلان کون کرے گا؟ کیا یہ سب کام انفرادی طور پر کیے جائیں گے اور اگر کیے جائیں تو کیا کوئی نظم و ضبط اور قانون کا احترام ہو سکتا ہے؟ یا اسلام کے ہر حکم کی روح کے مطابق تعمیل اسی وقت ممکن ہے جب اقتدار اور ریاست مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے تابع ہو۔
یہ کہنا کہ شرک، کفر اور ارتداد یقینا سنگین جرائم ہیں لیکن ان کی سزا کوئی انسان نہیں دے سکتا، قرآن کریم کے واضح احکامات سے متصادم ہے۔ قرآن کریم مسلسل نبی کریمؐ اور اہل ایمان کو حکم دیتا ہے کہ:وَ قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ فَاِنِ انْتَھَوْا فَاِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo ’’ ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے‘‘ (انفال ۸:۲۹)۔ نہ صرف یہ بلکہ رسولؐ اللہ سے کہا گیا ہے کہ وہ اہل ایمان کو جنگ پر ابھاریں۔یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ (انفال۸:۶۵) ’’اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر ابھارو‘‘۔ اللہ چاہتا ہے کہ مشرکین اور کفار کے خلاف گھوڑے تیار رکھے جائیں ۔
آخر ان تمام احکامات کی ضرورت کیا تھی اگر کفروشرک کی سزا صرف یوم الحساب کے بعد ہی دی جانی تھی! مشرکین اور کفار کا آخری ٹھکانا تو جہنم ہو گا ہی لیکن اس دنیا میں ان کے خلاف جہاد کا حکم دوٹوک الفاظ میں دیا گیا ہے: یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ ط وَمَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ ط وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ o (التوبہ ۹:۷۳)’’اے نبی، کفار اور منافقین دونوں کا پوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آئو۔ آخر کار ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بدترین جاے قرار ہے‘‘۔
شرک اور کفر ہی نہیں جو لوگ اللہ اور رسولؐ کے خلاف جنگ کرتے یا زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، اسلامی ریاست کا فرض ہے کہ ان کو بھی اس دنیا میں سزا دے۔ ’’جو لوگ اللہ سے اور اس کے رسولؐ سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں، یا ان کے ہاتھ اور پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا وہ جلاوطن کردیے جائیں۔یہ ذلت و رُسوائی تو ان کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں ان کے لیے اس سے بڑی سزا ہے‘‘(المائدہ ۵:۳۳)۔ اس دنیا میں سزا کا نفاذ کون کرے گا اگر ریاست قرآن و رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ رکھتی ہو اور اگر ہر گمراہی کی سزا صرف آخرت میں دی جانی ہو؟ علمی دیانت کا تقاضا ہے کہ خلط ِمبحث نہ کیا جائے اور قرآن کریم اور سنت مطہرہ کے واضح احکام کو بلا کسی دلیل کے مختلف فیہ نہ بنا یا جائے۔ اس طرزِ فکر (mind-set) کو نہ تو جدت سے اور نہ اجتہاد سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اختلافِ راے بلاشبہہ اُمت کے لیے رحمت ہے لیکن اسی وقت تک جب اختلاف ادب کے دائرے میں کیا جائے۔ اسلام کی بنیادوں کو چھوڑ کر کوئی اور راستہ نکالنا دین کی حکمت سے متعارض رویہ ہے۔
قرآن کریم اور دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان، قرآن و سنت کو پارلیمان سے بالا قرار دیتا ہے، اس لیے اگر تمام دانش ور مل کر بھی یہ مطالبہ کریں کہ پارلیمان حرفِ آخر ہونی چاہیے، تو قیامت تک نہ اُمت ِمسلمہ کا ضمیر اور نہ دستورِ پاکستان اس طرزِ فکر کو درست تسلیم کرے گا۔
ہمارے ملک کے ابلاغِ عامہ میں، خواہ وہ اخباری صحافت ہو یا برقی ابلاغِ عامہ، گذشتہ دودہائیوں سے مسلسل ایک بات کی تکرار کی جارہی ہے کہ دینی مدارس کا نصاب انتہاپسندی پیدا کرتا ہے۔ ایک سوال عموماً نظرانداز کردیا جاتا ہے کہ اگر یہ وہی نصاب ہے جسے مُلّا نظام الدین سیالوی نے مرتب کیا تھا اور جسے دیوبند، سہارن پور اور بریلی کے مدارس میں اور بعض اصلاحات کے ساتھ فرنگی محل اور بعد میں ندوۃ العلماء میں بطور بنیاد کے استعمال کیا گیا تو کیا ان تمام مدارس سے صرف دہشت گرد اور انتہاپسند ہی پیدا ہوئے؟
کیا صورتِ حال کچھ ایسی نہیں ہے کہ جہادِ افغانستان کے بعد جب ہوا کا رُخ بدلا تو جو کل تک مجاہد تھے،وہ دہشت گرد قرار دیے جانے لگے۔ مزید یہ کہ جن مدارس کے طلبہ کو تربیت دے کر طالبان کے نام سے افغانستان کی حکومت کے خلاف کھڑا کیا گیا وہی ہوا کا رُخ بدلنے پر شدت پسند اور جدیدیت کے لیے خطرہ بن گئے۔
یہ سوال بھی غورطلب ہے کہ کیا سیکولر تعلیم اعتدال پسندی، رواداری، صبروتحمل اور انکساری پیدا کرتی ہے یا سیکولرازم خود ایک انتہاپسندانہ تصور ہے جو اپنی حقانیت کے علاوہ کسی اور بات کو حق نہیں مانتا، اور خصوصاً دین کو ذاتی معاملہ قرار دے کر مسجد، چرچ یا مندر تک محدود کردینے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ کیا اسی کا نام رواداری، برداشت اور تکثیریت (Pluralism)ہے؟
اسی سلسلۂ کلام میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اسلامی تحریکات اور مذہبی و سیاسی جماعتیں شب و روز انتہاپسندی کی تبلیغ کرتی ہیں۔ اس تجاہلِ عارفانہ پر سواے حیرت کے اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ تحریکاتِ اسلامی وہ واحد ادارہ ہیں جنھوں نے فرقہ واریت، مسلک پرستی اور تنگ نظری اور عدم رواداری کے خلاف ہمیشہ جدوجہد کی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تحریکات ِاسلامی اجتہادی تحریکات ہیں جو مروجہ محدود مذہبیت سے ہٹ کر دین کی جامع اور متحرک تصویر پیش کرتی ہیں تو بے جانہ ہوگا۔ انڈونیشیا، ترکی، شام، سوڈان ہو یا ’پاکستان اسلامی تحریکات نے اپنے اپنے حالات کے مطابق اور اپنے اپنے انداز میں ہمیشہ شدت پسندی اور انتہاپسندی کے منطقی رد اور علمی محاکمے کے ذریعے ایک متوازن اور عدل پر مبنی معاشرے کے قیام کی جدوجہد کی ہے۔ حتیٰ کہ وہ جماعتیں بھی جن کی پہچان میں مسلک کا بھی ایک کردار اور رنگ ہے، مثلاً: جمعیت علماے پاکستان یا جمعیت علماے اسلام یا جماعت اہلِ حدیث یا تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ، وہ بھی دستوری جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں، اور پاکستان کے دستور میں طے شدہ شورائی اور جمہوری نظام ہی کو اپنی سیاست کا مرکز و محور بنائے ہوئے ہیں۔ ان کی خواہش اور کوشش ہے کہ جس دستور کو پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر منظور کیا ہے اور جس میں اسلام کے کم سے کم تقاضوں کو سمودیا گیا ہے، اس پر اس کی اصل روح کے مطابق مکمل طور پرعمل کیا جائے اور جو بھی اس دستور کا منکر یا اس سے منحرف ہو اس سے اپنا رستہ جدا رکھیں۔
پاکستان کے تناظر میں تحریکِ اسلامی نے ہمیشہ دستوری ذرائع سے ہی ملک میں اصلاح اور تبدیلی کو درست سمجھا ہے اور اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔علمِ سیاست کا ہرطالب علم اس امر سے آگاہ ہے کہ ریاست مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ سے تعبیر کی جاتی ہے۔ یہ تینوں اعضا دستور کے تحفظ کے ذمہ دار اور امین ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر ایک دستور جس پر ایک ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا ہو، ریاست کو اسلامی قرار دیتا ہو اور حکمرانی کے لیے بھی اسلام پر ایمان اور اسلام کے نفاذ کا عہد، عہدنامۂ صدارت و وزارتِ عظمیٰ میں شامل ہو، تو پھر یہ کہنا کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہونا چاہیے، ایک خواہش تو ہوسکتی ہے لیکن اسے دستور سے وفاداری نہیں کہا جاسکتا۔
اسلام حکمرانی کے آداب میں اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ حکمران اور قاضی بغیر کسی تعصب اور فرقہ پسندی کے عدل اور مکمل عدل کے ساتھ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے معاملات کا فیصلہ کریں۔ اس لیے ریاست اور ریاست کے اہل کاروں کا ایمان دار ہونا ہی عدل و انصاف کی ضمانت دے سکتا ہے۔ ایمان اور تقویٰ میں جتنی کمی ہوگی، ظلم و ناانصافی میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ ایک سیکولر نظام اپنے آپ کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ سے آزاد قرار دیتا ہے، اس لیے ایسے نظام میں خداخوفی کے ساتھ فیصلہ کرنے کا کوئی منطقی جواز نہیں رہتا۔ چنانچہ نفسا نفسی، اقرباپروری اور ظلم و استحصال بغیر کسی رکاوٹ کے معاشرے کو اپنا شکار بنا لیتا ہے۔
اسلامی ریاست انبیاے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی سنت ہے اور مدینہ منورہ میں قائم کی جانے والی اسلامی ریاست میں ہمیں وہ اصول کارفرما نظر آتے ہیں جو قیامت تک کسی بھی معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ پاکستان کے قیام کا مقصد اس کے بانیوں کی نگاہ میںصرف اور صرف یہی تھا کہ یہاں قرآن و سنت کا نظام رائج ہو اور یہ دنیا کے سامنے اسلامی ریاست کی شکل میں ایک قابلِ عمل نمونہ پیش کرسکے۔
ایک جانب یہ اصرار کہ نمازِ عید اور جمعہ سربراہِ مملکت پڑھائے اور دوسری جانب یہ تصور کہ ریاست سے نفاذِ شریعت کا مطالبہ بھی نہ کیا جائے___ ایک گہرے تضاد کا پتا دیتا ہے۔ دین اسلام مکمل نظامِ حیات ہے۔ یہ مناسکِ عبودیت کو مسجد تک محدود نہیں کرتا بلکہ عدلیہ اور مقننہ کو بھی اللہ کی بندگی کا پابند بناتا ہے۔ مقننہ وہی قانون سازی کرسکتی ہے جو قرآن و سنت سے مطابقت رکھتی ہو۔ اس لیے ریاست کے فرائضِ منصبی میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ملک سے قتل و غارت گری کو ختم کرنے کے لیے اپنی قوتِ نافذہ استعمال کرے۔ وہ ظلم و بغاوت کو دُور کرے۔ وہ انسانوں کو ان کے حقوق دلائے اور مقاصد ِ شریعت جو مقاصد ِ انسانیت بھی ہیں کا تحفظ کرتے ہوئے دین، جان، عزت، عقل، نسل اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائی ریاستی سرپرستی اور نگرانی میں انجام دے۔
اسلامی ریاست کا اپنا تشخص ہے اور وہ روایتی مذہبی ریاست (Theocracy) اور لبرل لادینی قومی ریاست (Liberal Secular Nation State) دونوں سے یکسر مختلف ہے۔ اس میں کسی مذہبی گروہ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنی راے دوسروں پر مسلط کرے، یا اللہ کے نام پر اپنی حکمرانی قائم کرے۔ اسی طرح یہ لبرل سیکولر ریاست سے بھی مختلف ہے جہاں عوام کی حاکمیت کے نام پر ریاست اخلاق اور اقدار کی ہرقید سے آزاد ہوجائے اور حلال و حرام اور حق و باطل کو انسانی اغراض اور اہوا کا تابع بنا دے۔
مغرب میں جسے ’قومی ریاست‘ (National State)کہا جاتا ہے، وہ اپنا ایک خاص تاریخی پس منظر رکھتی ہے اور اس کا کوئی ایک متفق علیہ ماڈل بھی نہیں ہے۔ نیز قومی ریاستوں میں ایک سے زیادہ قومیں بستی ہیں اور تمام اقلیتوں کے مساوی حقوق کے دعووں کے باوجود رنگ، نسل، زبان، قومیت، مذہب اور ثقافت کی بنیاد پر اقلیتوں سے امتیازی سلوک کیاجاتا ہے۔ پھر پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بعد استعماری طاقتوں نے اپنے مفاد کے مطابق اور اپنے اقتدار اور اثرات کو دوام دینے کے لیے سیاسی نقشے کی کتربیونت کی ہے اور مختلف تعصبات کو فروغ دے کر اپنے مفاد میں ریاستوں کو وجود بخشا ہے اور انھیں قومی ریاستوں کا عنوان دیا ہے۔ عرب دنیا اور افریقہ میں یہ کھیل بڑی چالاکی اور عیاری سے کھیلا گیا اور اب بھی کھیلا جا رہا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود متعدد قومی ریاستوں پر مذہب کی چھاپ موجود ہے۔ فرانس سیکولرزم کے نام پر ایک نظریاتی دہشت گردی کا مرتکب ہے۔ اسرائیل مُصر ہے کہ وہ ایک یہودی ریاست ہے۔ نیپال ایک ہندو ریاست اور برما ایک بدھ مت کی علَم بردار ریاست ہے۔ عیسائیت کہیں Liberation Theology اور کہیں Christian Democracy کے جھنڈے تلے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ اور بھارت جسے سب سے بڑی جمہوری ریاست کہا جاتا ہے وہ ’ہندوتوا‘ کی نقیب ہے مگر ساتھ ساتھ ’سیکولر نیشن اسٹیٹ‘ ہونے کی بھی دعوے دار ہے۔
یورپ اور امریکا کی جدید تاریخ پر نظرڈالیں تو اس نیشن اسٹیٹ نے عالمی سامراجی نظام کے فروغ اور دنیا کو الم ناک جنگوں کی آگ میں جھونکنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اور دوسری جنگ ِعظیم کے بعد خود یورپ میں جو ہوائیں چل رہی ہیں، ان کا عنوان Beyond Nation State ہے اور یورپی یونین پانچ ریاستوں سے ۱۹۵۸ء میں اپنے سفر کا آغاز کرکے آج ۲۸ریاستوں کا ایک Supranational Political Order قائم کرنے کے سفر میں سرگرمِ عمل ہے۔ ایک کرنسی اور ایک مرکزی بنک بن گیا ہے۔ یورپین پارلیمنٹ اور یورپین کورٹ وجود میں آچکے ہیں لیکن ہمارے دانش ور ہیں کہ ابھی تک ’نیشن اسٹیٹ‘ ہی کو نمونہ اور مثالیہ بنانے پر مصر ہیں۔
اسلامی ریاست اللہ کی حاکمیت، انسان کی خلافت، قرآن و سنت کی بالادستی اور تمام انسانوں کے درمیان انصاف اور عدل کے ساتھ مشاورت کی بنا پر حکمرانی کا تصور دیتی ہے۔ انسانی حقوق کا تحفظ محض ایک سیاسی مصلحت نہیں بلکہ دین کا تقاضا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضمانت کا ثمرہ ہے۔ اسلام کے نام پر اگر چند گروہ کوئی غلط رویہ اختیار کرتے ہیں تو ان کی غلطی پر بھرپور گرفت اور ہرغلط کاری کا سدباب ہونا چاہیے لیکن اس طرح کے انحرافات کی بنیاد پر اسلامی ریاست کے تصور ہی کو غیرضروری قرار دینا ایک ایسی جسارت ہے جس سے دین کا حلیہ ہی بگڑ جائے گا۔ وہ کون سا مذہب اور نظریہ ہے جس کے نام پر کچھ لوگوں نے غلط کاری نہ کی ہو۔ جو بھی کسی غلطی کا ارتکاب کرتا ہے اس پر گرفت اور غلطی کے حجم کی مناسبت سے جوابی اقدام حق بجانب ہے لیکن اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا کہ ایسے بودے سہارے لے کر دین کے مسلمات ہی کو مسخ کرنے اور نت نئے بیانیے وضع کرنے کا راستہ کھولا جائے۔ یہ فتنہ اور فساد کا راستہ ہے اور ہم اس سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
معاشرہ کوئی جامد چیز نہیں ہے۔ زندگی اور موت، تعمیر اور تخریب کا معاشرتی زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ تاہم جب موت کے سایے گہرے اور تخریب کے حوالے بڑھ جائیں تو معاشرہ بیماری کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس صورت حال میں زندگی اور تعمیر کی قوتوں کے لیے ناگزیر ہوجاتا ہے کہ وہ اپنا بھرپور اورمثبت کردار ادا کرکے معاشرے کو زندگی اور تعمیر کا نمونہ بنائیں۔
پاکستانی معاشرہ بھی اسی طرح کی کش مکش سے دوچار ہے۔ یہاں ایک طرف اگر تعمیر کا نشان بلند ہوتا ہے تو ساتھ ہی تخریب کی موجیں اسے زیرآب لے جانے کے لیے اُمڈ آتی ہیں۔ پاکستان کی نئی نسل کے لیے آج کے حالات کی شدت بے مثال ہے، لیکن انھیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ: ’ہم لائے ہیں طوفاں سے کشتی نکال کے‘ بھی ایک حقیقت ہے۔ ہمارا معاشرہ آج اچانک کسی عفریت کے جبڑوں میں نہیں جکڑا گیا، بلکہ یہ کام بہت پہلے شروع ہوا، اور یہ عفریت اپنی کینچلی اور رنگ بدل بدل کر اس معاشرے کی کمرتوڑنے کے درپے رہا ہے۔ یہ سب کچھ یکایک رُونما نہیں ہوگیا بلکہ اس میں درجہ بدرجہ بہت سی قوتوں نے حصہ ڈالا ہے، بالخصوص طاقت ور منفی طبقوں نے!
یہاں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ (۲۵ ستمبر ۱۹۰۳ئ-۲۲ستمبر ۱۹۷۹ئ)کی چند تحریروں اور بیانات کی روشنی میں پاکستانی تاریخ کے اوراق اُلٹے ہیں کہ اس موسمِ خزاں نے گلستانِ وطن کو کس کس طرح اُجاڑا ہے۔
پاکستان میں دستور سازی کا عمل ابتدائی منازل طے کررہا تھا، مگر طاقت کے حریص طبقے، ملک و قوم کے مستقبل سے بے پروا ہوکر باہم جنگ و جدل میں مصروف تھے۔ مغربی پاکستان سے جاگیردارانہ پس منظر کے حامل سیاست دان، کھلے عام اعلیٰ سول افسروں سے مل کر اور پس پردہ اعلیٰ فوجی افسروں سے سازباز کرکے، زیر تشکیل دستور میں نقب لگا رہے تھے۔ وہ اس امر سے بے پروا تھے کہ اس کا نتیجہ مشرقی پاکستان میں کیا نکلے گا اور خود یہاں مغربی پاکستان میں کیا عذاب آئے گا۔ جدید تعلیم یافتہ اور انگریزی طور طریقوں کا رسیا یہ حاکم طبقہ اپنی دُھن میں ہرچیز کو تہس نہس کر رہا تھا۔ ۱۴؍اکتوبر ۱۹۵۰ء کو مولانا مودودی نے قوم کو متنبہ کرتے ہوئے لاہور میں خطاب کے دوران کہا تھا:
کسی زندہ قوم کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ چند آدمیوں کے ہاتھ میں دے کر خاموش بیٹھ جائے، اور ان کی مرضی پر چھوڑ دے کہ وہ جس طرح چاہیں ملک کے نظام کو ڈھال دیں۔(سیّد مودودی: دستوری سفارشات پر تنقید و تبصرہ،ص ۴۱)
دراصل وہ خبردار کر رہے تھے کہ قومی معاملات کو چند ہاتھوں میں دے دینے کا نتیجہ محلاتی سازشوں اور ان کے نتیجے میں تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔ ظاہر ہے کہ ملک میں لاقانونیت اور غیردستوری کلچر کے فروغ سے ظلم کے علاوہ کون سی فصل برگ و بار لاسکتی ہے؟ اور جب مسئلہ ملک کے دفاع کا ہو تو حسِ انصاف کو بیدار رکھنا اور بھی ضروری ہوجاتا ہے، بجاے اس کے کہ جنگی صورتِ حال میں عدل کو بھی گولی کا نشانہ بنادیا جائے۔ یہاں مولانا مودودی کی ایک طویل تقریر سے اقتباس دیا جا رہا ہے۔ یہ تقریر انھوں نے ۲۲جولائی ۱۹۵۱ء کو لاہور میں کی تھی۔ تب بھارتی افواج، پاکستان پر حملے کے لیے تیار کھڑی تھیں اور ملک سخت ہیجانی کیفیت میں مبتلا تھا۔ مولانا نے بنیادی اخلاقی اصولوں کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے فرمایا تھا:
یہ بات ہرجگہ ذہن نشین کرانے کی کوشش کریں کہ [قومی] مورال کے بحال رکھنے کے لیے جھوٹ کے بجاے سچ کا ہتھیار استعمال کیا جائے۔ خالی خولی پُرجوش باتوں سے مورال اگر بحال ہو بھی جائے تو یہ مستقل نہیں، عارضی ہوتا ہے۔
ایک اور چیز جسے دفاع کے معاملے میں خاص اہمیت حاصل ہے، وہ یہ ہے کہ ملک کے اندر ظلم و ستم اور بے انصافیوں اور حق تلفیوں کو قطعی طور پر بند ہونا چاہیے۔ ظلم سے بڑھ کر قومی دفاع کو کمزور کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سرزمین [پاکستان] ہمارا نہیں بلکہ اسلام کا گھر ہے۔ ہمارے لیے یہ سب سے بڑی نعمت ہے، اور ہم ہرقیمت پر اس کی حفاظت کے لیے تیار ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ہرمسلمان میں اس نعمت کی قدر کا جذبہ پیدا کریں، اور اس کے قلب و روح میں یہ خیال جاگزیں کردیں کہ اس نعمت کی حفاظت میں کوئی قربانی بھی گراں نہیں ہے۔l(اخبار سہ روزہ کوثر، لاہور، ۲۸جولائی ۱۹۵۱ئ)
اس تقریر میں مولانا مودودی نے جنگی صورتِ حال میں جھوٹے پروپیگنڈے کی اشاعت اور ’نظریۂ ضرورت‘ کے تحت محض جوشیلے طرزِ بیان کی نفی کی ہے۔ ساتھ ہی یہ بتایا ہے کہ بھلے لوگو، جب ملک جنگی صورتِ حال سے دوچارہو تو اپنے معاشرے میں اور زیادہ عدل و انصاف کی دولت لٹائو، نہ کہ عدل و انصاف کو صدمہ پہنچائو، اور یہ بھی کہ اسلام کے گھر کے مانند پاکستان کی حفاظت کرنے کے لیے ہر آن تیار بھی رہو۔
اس تقریر کو اڑھائی ماہ اور پاکستان کو قائم ہوئے ابھی چار برس گزرے تھے کہ اوّلین وزیراعظم لیاقت علی خاں کے قتل (۱۶؍اکتوبر ۱۹۵۱ئ) نے پاکستان کو خونیں دلدل میں دھکیل دیا۔ تلوار اور تشدد کے اس پہلو کو مولانا مودودی نے ’قاضیِ شمشیر‘ کی اصطلاح سے منسوب کیا، اور جماعت ِ اسلامی کے کُل پاکستان اجتماع منعقدہ کراچی میں خطاب کے دوران فرمایا:
کسی ملک کے لیے اس سے بڑھ کر اور کوئی بدقسمتی نہیں ہوسکتی کہ اس میں فیصلے کا آخری اختیار عقل، شعور، دلیل اور راے عام سے چھین کر ’قاضیِ شمشیر‘ کے سپرد کردیا جائے۔ یہ قاضی کوئی عادل اور صاحب ِ فکر قاضی نہیں ہے۔ یہ اندھا، بہرا اور گونگا قاضی ہے۔ اس سے جب کبھی فیصلہ چاہا گیا ہے ، اس نے حق اور انصاف دیکھ کر نہیں، بلکہ خون کی رشوت لے کر فیصلہ کیا ہے، اور جس نے بھی زیادہ خون چٹا دیا، اسی کے حق میں اس نے فیصلہ دیا ہے، خواہ وہ حق پر ہو یا ناحق پر، خواہ وہ نیک ہو یا نہ ہو۔
کوئی قوم جو خود اپنی دشمن نہ ہو، اور جس کی عقل کا دیوالیہ نہ نکل چکا ہو، ایسی بے وقوف نہیں ہوسکتی کہ اپنے معاملات کا فیصلہ: شعور و استدلال کے بجاے تلوار کے اندھے قاضی کے سپرد کردے۔ اگر ہم اپنا مستقبل تاریک نہیں کرنا چاہتے تو ہمیںپوری قوت کے ساتھ اپنے ملک کے حالات کو اس خطرناک رُخ پر جانے سے روکنا چاہیے۔(۱۰نومبر ۱۹۵۱ئ، رُوداد جماعت اسلامی،ششم: ص ۵۴)
مولانا مودودی کی جانب سے ’قاضیِ شمشیر‘ کا یہ اشارہ ہر اس اندھی بہری قوت کی طرف ہے، جو عدل کے نام پر عدل کوقتل کرے یا تشدد کے لیے خودساختہ اُصولوں کی بنیادپر دوسروں کی جان لینے کے بہانے گھڑے اور وسیلے تراشے۔ یہ فعل کسی کے بھی ہاتھوں رُونما ہوسکتا ہے: سیاسی لبادے میں ایم کیو ایم جیسے طائفے ہوں یا ’محرومی‘ کے نام پر قوم پرستوں کی پُرتشدد خفیہ تنظیمیں، یا مذہب کے نام کو استعمال کرنے والے خونیں گروہ، یا پھر عدل و انصاف کے مسلّمہ اصولوں سے بالاتر ادارے۔ انسانی جان لینے کے کھیل میں یہ سب ’قاضیِ شمشیر‘ بن جاتے ہیں۔
جب وزیراعظم لیاقت علی خاں کا قتل ہوا تو اُس وقت ملک میں دستورسازی اور اختیارات کی تقسیم کا معاملہ زیربحث تھا۔زیربحث کہنا درست نہیں، درست بات یہ ہے کہ دستورسازی کے موقعے پر مختلف طاقت ور گروہ زیادہ سے زیادہ اختیارات چھیننے کی دوڑ میں باہم معرکہ آرا تھے۔ ان حالات میں ۳۰جنوری ۱۹۵۳ء کو لاہور کے جلسۂ عام میں مولانا مودودی نے زیربحث بہت سی دستوری سفارشات کے بعض پہلوئوں پر مفصل تبصرہ کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کے بارے میں چنداصولی نکات ارشاد فرمائے۔ یاد رہے کہ اُن کی تقریر کا یہ حصہ عام (سویلین) شہریوں کے حوالے سے نہیں بلکہ خود فوجیوں کے بارے میں اور فوجی عدالتوں کے حوالے سے تھا۔ انھوں نے دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے فرمایا تھا:
’دستوری سفارشات کی رپورٹ‘ میں فوجی عدالتوں کے مقدمات کے خلاف سماعت کرنے سے سپریم کورٹ کو روک دیا گیا ے۔ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیںآتی، حالانکہ خود انگلستان میں، سپریم کورٹ میں ہرعدالت کے [فیصلے کے] خلاف اپیل کی جاسکتی ہے، حتیٰ کہ فوجی عدالت کے خلاف بھی، اور پھر یہ بات کسی طرح ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر ہمارے سپاہی کس پاداش میں انصاف سے محروم رکھے جائیں؟ جس طرح سے ایک عام آدمی کے لیے ملک کی آخری عدالت سے انصاف حاصل کرنے کا امکان ہے، اسی طرح سے ہمارے فوجیوں کے لیے بھی انصاف کے حصول کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے۔ کوئی شخص کہتا ہے کہ اس طرح فوج میں ڈسپلن قائم نہیں رہتا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ فوج میں بے انصافی سے ڈسپلن کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری فوج کے بھی ہرسپاہی کو پوری طرح سے یہ اطمینان حاصل ہونا چاہیے کہ اس کے ساتھ بے انصافی کبھی نہیں ہوسکے گی، اور یہ ایسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ وہ کورٹ مارشل کے مقابلے میں سپریم کورٹ سے اپیل کرسکے۔ دستور میں کورٹ مارشل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گنجایش نہ رکھنا قطعی طور پر اسلامی اصولِ عدل کے خلاف ہے۔ (ماہ نامہ چراغِ راہ، کراچی، مدیر: نعیم صدیقی، خصوصی ضمیمہ، جولائی ۱۹۵۳ئ)
یاد رہے یہ اُس وقت کی بات ہے جب پاکستان کا نظامِ حکومت ۱۹۳۵ء کے برطانوی ترمیم شدہ ایکٹ کے تحت چل رہا تھا اور ابھی تک دستورسازی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ اب، جب کہ دستور بن چکا ہے اور ۶۰برس کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد دستوری روایات اور عدالتی عمل اپنی گہری بنیادیں استوار کرچکے ہیں، تو فوج کے داخلی نظام میں فوجی عدالتوں کا معاملہ اور ان کا اختیارِ سماعت کہیں زیادہ واضح انداز میں طے ہوچکا ہے۔
اس دستور ی بحث کے دوران ۱۹۵۳ء کے ابتدائی مہینوں میں صوبہ پنجاب ’فتنۂ قادیانیت‘ کے مسئلے پر ہنگاموں میںگِھر گیا (ان ہنگاموں کی صورت گری کرنے والے چہروں سے کب کا نقاب اُترچکا، مگر ہمارا مقبوضہ میڈیا ان کے نام لینے سے شرماتا ہے)۔ پنجاب کے حاکم آگے بڑھے، سول اور فوجی اعلیٰ افسروں سے مل کر لاہور میں ۶مارچ کو مارشل لا لگادیا۔ اس اقدام سے ’قاضیِ شمشیر‘ نے اقتدار کا ذائقہ چکھا اور اپنی قوت کا اندازہ بھی لگایا۔ فوجی عدالت لگی، سرسری سماعت ہوئی اور ۱۱مئی ۱۹۵۳ء کے روز مولانا مودودی کو سزاے موت سنانے کا فیصلہ صادر ہوا۔ ازاں بعد شدید عوامی اور بین الاقوامی ردّعمل اور احتجاج کے نتیجے میں یہ سزا عمرقید میں تبدیل ہوگئی۔ وہ مولانا مودودی جو صرف ساڑھے چار ماہ قبل فوجیوں کے لیے انصاف اور اپیل کا حق مانگ رہے تھے، چند ہی ماہ بعد خود اُنھیں فوجی عدالت میں دھر لیا گیا اور اعلیٰ سول عدالت میں اپیل کے حق کا تو کوئی سوال ہی نہ تھا۔
انھی ہنگاموں کی تحقیقات کے لیے جسٹس محمد منیر (م: ۱۹۷۹ئ) اور جسٹس ایم آر کیانی (م:۱۹۶۲ئ) پر مشتمل ایک ’تحقیقاتی عدالت‘ ۱۹جون ۱۹۵۳ء کو قائم کی گئی۔ اس خصوصی عدالت میں ۱۳فروری ۱۹۵۴ء کو مولانا مودودی نے اپنا تیسرا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے فرمایا:
ایک جمہوری نظام میں یہ بات نہیں مانی جاسکتی کہ قوم خود اپنے مفاد کی دشمن ہے، اور اس کے مفاد کو [فقط] چند افسرزیادہ جانتے ہیں۔
دراصل یہ نشان دہی تھی اس خطرے کی، کہ ملک کے کاروبارِ حکومت اور فیصلہ سازی کے عمل کو چند (سول یا فوجی) افسروں کے ہاتھ میں دے دینے کا نتیجہ جمہوری بساط کے لپٹنے کی صورت میں سامنے آئے گا۔ پہلے مارشل لا کی فوجی عدالتوں نے سول شہریوں کو سزائیں سنائیں، پھر تحقیقات کے نام پر انڈین سول سروس کے تیار کردہ عدالتی افسروں نے مذکورہ بالا تحقیقاتی عدالت کی ایک رپورٹ مرتب اور ۱۰؍اپریل ۱۹۵۴ء کو جاری کی گئی، جس میں دینی اصولوں اور علما کا مذاق اُڑایا گیا تھا اور بہت سی غیرمتعلقہ بحثیں بھی ٹھونس دی گئیں۔ حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کی یہ واحد تحقیقاتی رپورٹ ہے جو سرکاری طور پر بیک وقت انگریزی، اُردو اور بنگلہ زبان میں بڑے پیمانے پر شائع کی گئی (اور اب بھی لاہور کے فٹ پاتھوں سے دستیاب ہوجاتی ہے)۔ یہ رپورٹ دراصل تحقیقات سے زیادہ سیکولرزم کے جواز کا مقدمہ پیش کرنے کی دستاویز تھی، جسے سیاسی مقتدرہ اور اعلیٰ افسرشاہی نے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔
رپورٹ کی بے سروپا اور حددرجہ متنازع باتوں کا مولانا مودودی نے جیل ہی میں بیٹھ کر جواب لکھا، جو ۱۹۵۵ء میں تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر تبصرہ کے نام سے شائع ہوا۔ مولانا مودودی نے برطانیہ میں اصولِ قانون کے مایہ ناز پروفیسر البرٹ وین ڈائسی (Dicey: ۱۸۳۵ئ-۱۹۲۲ئ) کی معروف کتاب The Law of Constitution (طبع نہم) کے حوالے سے لکھا:
مارشل لا کا مفہوم یہ ہے کہ ایک ملک کی یا اس کے کسی حصے کی حکومت عارضی طور پر فوجی عدالتوں کے ذریعے چلائی جائے… سپاہی ایک فساد کو اسی طرح دباسکتے ہیں جس طرح وہ ایک بیرونی حملے کو دفع کرسکتے ہیں۔ وہ باغیوں سے اسی طرح جنگ کرسکتے ہیں، جس طرح وہ غیرملکی دشمنوں سے کرسکتے ہیں۔ مگر وہ [یعنی فوجی] ازروے قانون اس کا کوئی حق نہیں رکھتے کہ فساد یا بدامنی کی سزا لوگوں کودیں۔ امن قائم کرنے کی کوشش کے دوران میں لڑتے باغیوں کو قتل کیا جاسکتا ہے، اور قیدیوں کو اگر وہ بھاگ نکلنے کی کوشش کررہے ہوں گولی سے ماراجاسکتا ہے، مگر کوئی ایسی سزاے موت، جو ایک کورٹ مارشل کی طرف سے دی جائے، غیرقانونی ہے بلکہ اصولاً ایک مجرمانہ قتل ہے۔(ایضاً،ص ۲۹۳).... جب باقاعدہ عدالتیں کھلی ہوں اور مجرموں کو ان کے حوالے کیا جاسکتا ہو، تاکہ وہ عام قانون کے مطابق ان کے بارے میں کارروائی کرسکیں، تو تاج [ریاست]کو دوسرا کوئی طریق کارروائی اختیار کرنے کا حق نہیں ہے۔ (ایضاً، ص ۱۹۸)
مولانا مودودی کسی بھی درجے میں ریاست یا ریاستی اداروں کوعدل اور انصاف کے مسلّمہ اصولوں سے ہٹ کر چلنے سے روکتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ریاست اور حکومت ایک مہذب حوالہ ہیں، جنھیں قانون شکن اور عدل کے قاتل باغیوں کے برعکس راستہ اختیار کرنا چاہیے ۔ اسی لیے وہ مذکورہ تبصرے میں ڈبلیو فورسائیتھ کی کتاب Cases and Opinions on Constitutional Law کے حوالے سے لکھتے ہیں:
۱۸۶۶ء میں جمیکا کی بغاوت کو کچلنے کے لیے جو مارشل لا لگایا گیا تھا، اس پر انگلستان کے دو ممتازماہرین قانون بحث میں لکھتے ہیں: بغاوتوں کو فوجی طاقت سے دبانا بلاشبہہ قانونی فعل ہے، مگر غیرقانونی [یعنی فوجی] عدالتوں کے ذریعے سے جرائم کے مرتکبین کو سزا دینا ایسی کارروائی ہے جو ’دستاویز حقوق‘ (Petition of Rights) کے ذریعے ممنوع ہے۔ فوجی حکام کا یہ فرض تھا کہ قیدیوں کو دیوانی اقتدار کے سپرد کردیتے… اگر مسٹرگورڈن نے فی الواقع غداری کی بھی تھی تو وہ [یعنی فوجی حکام] اس کو سزا دینے کا کوئی حق نہ رکھتے تھے۔ ان کا دائرۂ اختیار صرف طاقت کے ذریعے دبا دینے تک محدود تھا، نہ کہ وہ جرائم کی سزا بھی دینے لگیں۔
قانون کے سب ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جہاں عام ملکی عدالتیں کھلی ہوئی ہوں، یا کھل سکتی ہوں، وہاں فوجی عدالتیں قائم کر کے لوگوں کو سزائیں دینا بالکل ناجائز ہے۔(تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر تبصرہ، ص ۶۰)
آگے بڑھنے سے پیش تر تاریخ کا یہ باب دیکھنا مفید ہوگا۔وزیراعظم محمدعلی بوگرہ [م:۱۹۶۳ئ] قوم کو یہ خوش خبری سناچکے تھے کہ: ’’۲۵دسمبر ۱۹۵۴ء کے روز قوم کو دستور کا تحفہ دیں گے‘‘۔ مگر منفی قوتوں کی شرانگیزی متحرک ہوئی، جسے یہاں پر ڈاکٹر صفدرمحمود کی کتاب مسلم لیگ کا دورِ حکومت سے نقل کیا جارہا ہے۔ یہ نثرپارہ بلاتبصرہ بہت کچھ بیان کرتا ہے۔ یاد رہے ۲۸؍اکتوبر کو اسمبلی کا اجلاس منعقد کرنے کا اعلان ہوچکا تھا کہ:
گورنر جنرل [ملک] غلام محمد نے ۲۴؍اکتوبر ۱۹۵۴ء کو [پاکستان کی] مرکزی وزارت کو برطرف کر دیا، دستور ساز اسمبلی کوتوڑ دیا۔ یہ اقدامات فوج کے سربراہ [جنرل محمد ایوب خان] اور بیوروکریسی کی مکمل حمایت سے کیے گئے۔ امریکا میں خفیہ مواد کے سامنے آنے سے پتا چلا ہے کہ دستور سازاسمبلی کو واشنگٹن کی آشیرباد اور منظوری کے بعد توڑا گیا تھا۔ عملی اقدام سے پہلے اسکندر مرزا اور واجد علی (امریکا میں پاکستانی سفیر امجدعلی کے بھائی) نے امریکی سفیر [متعینہ پاکستان] کو اپنے ارادوں، منصوبوں اور سخت اقدامات سے آگاہ کیا، اور اسے بتایا کہ: ’’اس اقدام کا مقصد پاکستان کو مُلّاازم سے بچانا ہے‘‘ (ص ۲۳۵)۔ جب غلام محمد نے، جو عوام کے منتخب نمایندے نہیں تھے، نے دستورساز اسمبلی کو منسوخ کردیا تو… اسے [مسلح افواج پاکستان کے]کمانڈر انچیف محمدایوب خان کی بھی حمایت حاصل رہی (مسلم لیگ کا دورِ حکومت، ناشر: جنگ پبلشرز، لاہور، مارچ ۱۹۹۳ئ، ص ۲۳۶)
[ملک] غلام محمد کبھی کبھی اپنے فیصلوں پر ریوالور کی رہنمائی میں بھی عمل کرایا کرتے تھے۔ [سابق وزیراعظم] چودھری محمد علی (مسلم لیگ کا دورِ حکومت) اور اسکندر مرزا (غیرمطبوعہ سوانح عمری) دونوں راوی ہیں، امریکا سے واپسی پر [وزیراعظم] محمدعلی بوگرہ کو[گورنر جنرل ملک] غلام محمد کے سامنے پیش کیا گیا، تو غلام محمد نے تکیہ کے نیچے سے ریوالور نکال لیا اور جب تک بوگرہ نے [دستور ساز اسمبلی توڑنے کی] تجویز سے اتفاق نہ کرلیا غلام محمد انھیں قتل کی دھمکیاں دیتے رہے۔ اس کارروائی کے دوران [جنرل محمد] ایوب خان ریوالور ہاتھ میں پکڑے پس پردہ کھڑے رہے۔ ( خوشامدی ادب اور سیاست، القمر انٹرپرائزز، لاہور،۱۹۹۴ئ، ص ۲۷)
اس دعوے کی تردید کبھی سامنے نہیں آئی۔ اس میں سے ریوالور کی بات کو نظرانداز کر بھی دیں تو ’طاقت ور‘ کے قلم اور چھڑی میں بہرحال ریوالور سے زیادہ طاقت ہوتی ہے۔
اس دستور ساز اسمبلی کے توڑنے کے واقعے پر تڑپ کر میاں طفیل محمد (سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان) کراچی پہنچے اور جماعت اسلامی کراچی کے امیر چودھری غلام محمد کے ہمراہ تمیزالدین (م: ۱۹۶۳ئ) اسپیکردستور ساز اسمبلی کو بڑی مشکل سے آمادہ کیا کہ وہ اس آمرانہ اور ملکی سالمیت کے لیے تباہ کن اقدام کو عدالت میں چیلنج کریں۔ میاں طفیل محمد اپنی کتاب مشاہدات (نومبر۲۰۰۰ئ) میں تفصیل (ص ۲۳۲-۲۴۴) سے بیان کرتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے وکلا کی فیس تک کے لیے مالی وسائل جماعت اسلامی نے فراہم کیے اور سندھ ہائی کورٹ میں اس اقدام کو کس طرح چیلنج کیا گیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے گورنر جنرل غلام محمد کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا، مگر سپریم کورٹ نے پاکستانی سیکولر لابی کے نظریہ ساز رہنما چیف جسٹس محمدمنیر کی سربراہی میں گورنر جنرل کے فیصلے کو ایک کے مقابلے میں چار کی اکثریت سے سند ِ جواز عطا کی ۔ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کی تائید اور جسٹس منیر کے فیصلے سے اختلاف کرنے والے وہ واحد رکن جسٹس اے آر کارنیلیس تھے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ۱۹۵۳ء میں لاہور میں نافذ ہونے والا مارشل لا عملی سطح پر سیاست دانوں کی ناکامی کا اعلان اور فوجی اقتدار کی ریہرسل تھا۔ چنانچہ اس کامیاب ریہرسل کے بعد، صدر اسکندر مرزا (م: ۱۹۶۹ئ) نے ۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو اسمبلیاں توڑ کر اور سول حکومتیں برطرف کر کے پورے پاکستان میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ مسلح افواج کے کمانڈرانچیف جنرل محمد ایوب خان کو وزیراعظم اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا۔ (یاد رہے کہ ’قائد عوام‘ ذوالفقار علی بھٹونے اس مارشل لائی کابینہ میں وفاقی وزیر کا عہدہ حاصل کیا تھا)۔ ۲۰روز بعد ۲۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو جنرل ایوب خان، صدر اسکندرمرزا کو برطرف کر کے کرسیِ صدارت پر بھی متمکن ہوگئے۔ یاد رہے اس مارشل لا کے نفاذ سے قبل یہ اعلان ہوچکا تھا کہ فروری ۱۹۵۹ء میں عام انتخابات ہوں گے۔اس مارشل لا سے صرف دوماہ قبل سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی زیرادارت ماہ نامہ ترجمان القرآن، لاہور (اگست ۱۹۵۸ئ) میں جو اداریہ (اشارات) شائع ہوا، اس کے انتباہ کو ملاحظہ کیجیے کہ کس قدر دُوراندیشی سے آنے والے خطرات سے قوم کو خبردار کیا گیا تھا، کس اندازسے سیاست دانوں کو جھنجھوڑا گیا تھا اور کن الفاظ میں اعلیٰ فوجی قیادت کو عقل و خرد کی بات سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ لکھا تھا:
اسے مسلمان ممالک کی بدقسمتی کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ دنیا نے آج تک اجتماعی زندگی کے بارے میں جتنے مفید سبق سیکھے ہیں، نہ صرف ان سب کو بھلا دیا جاتا ہے بلکہ اُن غلطیوں کو باربار دُہرایا بھی جاتا ہے۔ مثال کے طور پر فوج کے غلط استعمال کو ہی لیجیے۔ ہرمعمولی عقل و خرد رکھنے والاآدمی بھی اس حقیقت سے واقف ہے کہ فوج اپنے ملک پر حکومت کرنے کے لیے نہیں بلکہ ملک کو بیرونی دشمنوں سے بچانے کے لیے منظم کی جاتی ہے۔ اس وجہ سے دنیا کے تمام عقل مند لوگ ملکی معاملات میں فوج کی دخل اندازیوں کو پسند نہیں کرتے، مگر ہماری شومیِ قسمت کہ جو لوگ ہمارے ہاں اقتدار پر قابض ہیں، وہ چونکہ عوامی تائید کی قوت سے محروم ہیں، اس لیے وہ اس کمی کو فوج کی طاقت اور پشت پناہی سے پورا کرتے ہیں۔ جہاں کسی حلقے میں اضطراب یا عدم اطمینان دکھائی دیا، اُسے فوراً فوج کی مدد سے دبا دیا۔ بظاہر یہ نسخہ بڑا سستا اور آسان ہے، لیکن اس کے نتائج ملک، قوم، اصحابِ اقتدار اور خود فوج کے حق میں نہایت مہلک ہوتے ہیں۔ اس کا پہلااثر یہ پڑتا ہے کہ ملک کے باشندے خود اپنی فوج سے بوجوہ متنفر ہوجاتے ہیں اور ملک کی حفاظت کے لیے فوج اور قوم کا تعاون ممکن نہیں رہتا۔ یہ صورتِ حالات ’سامراجی من چلوں‘ کے لیے بڑی ہی حوصلہ افزا ثابت ہوتی ہے اور اس سے بسااوقات ملک کی آزادی پر آبنتی ہے۔
فوجی افسروں کے منہ کو جب ایک دفعہ اقتدار کا [ذائقہ] لگ جاتا ہے، تو پھر پوری فوج کا نظم تہ و بالا ہوجاتا ہے۔ ملک کے یہ پاسبان ہمیشہ اس تاک میں رہتے ہیں کہ باہر چاہے انھیں کچھ فتح کا موقع ملے یا نہ ملے، مگرانھیں گھر کو ضرور فتح کرڈالنا چاہیے۔ اگر اخلاقی حیثیت سے اس معاملے کو دیکھا جائے تو یہ بے حد افسوس ناک ہے۔ اس سے بڑی غداری اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک فوج جن لوگوں کے روپے سے منظم اور مسلح ہوتی ہے، وہ طاقت پاکر خود اپنی قوم کی گردن پر ہی سوار ہوجائے اور سنگین کی نوک پر ملک میں اپنا حکم منوانا شروع کردے۔
معاملہ صرف ایک انقلاب تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ فوجی انقلاب ایک ایسا شیطانی چکر ہے کہ کوئی ملک بدقسمتی سے اس میں ایک دفعہ گرفتار ہوجائے تو اس سے بچ نکلنے کی کوئی اُمید باقی نہیں رہتی۔ ایسا ملک پیہم انقلاب اور ناگہانی تغیرات کی آماج گاہ بن جاتا ہے، اور کش مکش اور چھین جھپٹ کی بیماری سیاسی پارٹیوں سے نکل کر فوج کے مختلف طبقوں میں سرایت کرنا شروع کردیتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے جو معاملات بساطِ سیاست پر سیاسی جوڑتوڑ سے طے کیے جاتے تھے، اب ان کے فیصلے کے لیے ’قاضیِ شمشیر ‘کی طرف رجوع کرنا بالکل ناگزیر ہوجاتا ہے، اور یہ قاضی اپنے مزاج کے اعتبار سے اس قسم کا بے حس واقع ہوا ہے کہ اسے اگر ایک مرتبہ عدالت کی کرسی پر متمکن کردیا جائے تو پھر یہ اُس وقت تک چین نہیں لیتا، جب تک کہ سارا ملک تاخت و تاراج نہ کردیا جائے۔
اس کے علاوہ فوجی انقلاب کے وقت خواہ نعرے کتنے ہی خوش کُن اور احساسات و جذبات خواہ کتنے پاکیزہ ہوں، لیکن یہ انقلاب اپنی کامیابی اور بقا کے لیے اس بات پر مجبور ہے کہ کسی ایسے جابرانہ نظام کو جنم دے، جس میں نہ صرف لوگوں کے جسم گرفتار ہوں بلکہ ان کی روح بھی پابہ زنجیر رہے۔ اور لوگ دم بخود ہوکر ان فوجی آمروں کے افعال و اعمال دیکھتے چلے جائیں۔ پوری قوم بھیڑ بکریوں کا ایک بے زبان گلہ بن کر رہے جسے یہ ’مصلحین قوم‘ میکانکی طور پر جس طرف چاہیں ہانک کرلے جائیں۔
اس صورت ِ حال کو برقرار رکھنے کے لیے سب سے پہلے فوجی آمر کے کارناموں کو بڑے ہی مصنوعی اندازسے بڑھاچڑھا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ یہ آمر ایک عام انسان کے بجاے فوق البشر دکھائی دے اور قوم اُسے اپنا واحد نجات دہندہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو۔ چنانچہ دیکھیے، ان فوجی آمروں کی کارگزاریوں کو کس مبالغہ آمیزی کے ساتھ مختلف طریقوں سے نشر کیا جاتا ہے اور قوم کے ذہن میں یہ خیال راسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان لوگوں کے کارنامے بالکل غیرمعمولی ہیں۔ دوسرے قوم کی ذہنی تربیت کے لیے ایک ایسا پروگرام طے کیا جاتا ہے، جس سے وہ ہرمعاملے کو فہم و فراست کی معتدل میزان پر تولنے کے بجاے اُسے جذبات کی شعلہ فشانیوں سے حل کرتی ہے اور اندھی پیروی کی اتنی خوگر بنادی جاتی ہے کہ تباہ کن حوادث میں مبتلا ہونے کے بعد بھی اُس کی آنکھیں کھلنے نہیں پاتیں۔
اس قسم کی تلاطم خیز ذہنی کیفیت پیدا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جذبات کے سمندر میں طوفان اُٹھائے جائیں۔ یہ کام معمولی طریقوں سے تو سرانجام نہیں پاسکتا، اس کے لیے بڑے ہی غیرمعمولی حربے استعمال کیے جاتے ہیں، مثلاً سب سے پہلے پوری قوم کو ٹھوس حقائق کی دنیا سے نکال کر سپنوں کی ایسی فضا میں آباد کیا جاتا ہے، جہاں وہ صرف آرزوئوں اور تمنائوں پر مرنا سیکھتی ہے ۔جہاں وہ عقل کی بات بتانے والوں کو دشمن اور خوش کن باتیں بنانے والوں کودوست سمجھنے لگتی ہے۔ جہاں صرف خواب و خیال کی پرستش ہوتی ہے اور جہاں رہبرانِ قوم کے اخلاقی اور ذہنی اوصاف نہیں دیکھے جاتے بلکہ صرف اس بات کا اندازہ کیا جاتا ہے کہ وہ لاف گزاف میں کس قدر مشّاق اور زبان کے استعمال میں کس حد تک مطلق العنان ہیں۔
پھر اس قوم کے بارے میں اس بات کا بھی التزام کیا جاتا ہے کہ اُس کے دل و دماغ پر مستقل خوف کی کیفیت طاری رہے تاکہ وہ اپنے بچائو اور حفاظت کے لیے ایک فوجی آمر کی آمریت بخوشی قبول کرلے۔ اس صورتِ حال کے نتائج دیکھ کر ہر حساس مسلمان تڑپ اُٹھتا ہے۔ آئے دن کے تغیرات نے بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے وقار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ آخر مسلمانوں کو وہ کیا بیماری لاحق ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال نہیں کرسکتے اور اپنی قومی طاقت کو آپس کی کش مکش میں تباہ کردیتے ہیں۔
یہ وہ وقت ہے، جب کہ ہمارے فرماں روائوں کو اپنی آنکھیں کھولنی چاہییں۔ اپنے محلات میں بیٹھ کر وہ یہ نہ سمجھیں کہ آج سے ہزار سال پہلے کی فضا، جیسی کہ اُن کے محلوںکے اندر ہے، ویسی باہر بھی موجود ہے۔ زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے، باہر انقلاب کی بڑی بڑی موجیں اُٹھ رہی ہیں، وہ ان کے دروازوں پر دستک دے رہی ہیں۔ ان سے صرفِ نظر کرکے چلنا کوئی دانش مندانہ فعل نہیں۔ ملکی اقتدار یا قیادت، خواہ وہ کسی نوعیت کی ہو، اُس کے بچائو کی صورت صرف یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس جمہوری دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کر کے عوام کو اُن کے پورے پورے جمہوری حقوق بہم پہنچانے میں قطعاً بخل سے کام نہ لے۔ نیز عوام کے حقیقی مسائل کو سمجھے اور اپنی عیاشیوں میں مست رہنے کے بجاے اُن کی ضروریات کو پورا کرنے کا انتظام کرے… ہر شخص اور ہرملّت کے صبر کا ایک پیمانہ ہوتا ہے۔ اس میں خواہ کتنی ہی وسعت ہو، مگر ایک حد ایسی ضرور آتی ہے جہاں پہنچ کر وہ اپنی ساری وسعتوں کے باوجود چھلک پڑتا ہے۔ یہ حد بڑی ہی خطرناک اور ہلاکت خیز ہوتی ہے۔ اس سے ہمارے اصحابِ اقتدار کو بچنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اگر یہ حضرات وقت کے اس مطالبے کو پورا نہیں کریںگے تو زمانے کی کروٹ انھیں اس مطالبے کی تعمیل پر مجبور کرے گی اور یہ تعمیل اکثروبیش تر بہ نوکِ شمشیر ہی ہوا کرتی ہے۔(ماہنامہ ترجمان القرآن، لاہور، اگست ۱۹۵۸ئ)
اور پھر یہی ہوا کہ ملک میں ایسے مادرپدر آزاد انتخابات ہوئے، کہ جن میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن اور ان کی عوامی لیگ کو کھلی چھٹی دی گئی۔ مارشل لا حکومت کے زیرسایہ یہ فسطائیت خوب تروتازہ ہوئی، اور دھاندلی و غنڈا گردی کے زور پر پورا انتخاب ہی لُوٹ کر لے گئی۔ پھر نہ اُس ’دستورساز اسمبلی‘ کا اجلاس ہوا اور نہ آئین بنا، البتہ پاکستان ضرور ٹوٹ گیا۔
گذشتہ برس پاکستان کی وفاقی حکومت کی ہٹ دھرمی اور اس کے جواب میں دھرنا کریسی نے عملاً ریاست اور جمہوریت کو کمزور کیا ہے۔ حاکموں اور حاکموں سے لڑنے والوں کی کم فہمی کا یہ نتیجہ ہے یا پس پردہ قوتوں کی جادوگری کہ سیاست دانوںکو نااہل ثابت کردیا جائے، جیسا سوال یہاں زیربحث نہیں لا رہے، مگر نتیجہ تو یہی نکلا ہے۔ اس کھیل کے لیے کس نے کس کا کندھا استعمال کیا، یا کس نے اپنا کندھا پیش کیا، عملی سطح پر طاقت کے سرچشمے اپنی جگہ سے سرک کر وہاں جاپہنچے ہیں، کہ جہاں سے انھیں درست جگہ پر لانے کے لیے بڑی قربانیاں دی گئی تھیں۔
ہمہ وقتی وزیرخارجہ کو مقرر نہ کرنا، وزارتِ دفاع کا قلم دان ایسی شخصیت کو تھمانا کہ جن سے دفاعی ادارے ویسے ہی مغائرت محسوس کرتے ہیں، پالیسیوں کو عارضی (ایڈہاک) بنیادوں پر چلانا، بھارت سے تجارتی تعلقات کے لیے شوق و ذوق کا مظاہرہ کرنا اور فیصلہ سازی کو گنتی کی چند رکنی ٹیم کا کھیل بنانا، بہرحال کسی سازش کا نتیجہ نہیں، البتہ کم فہمی کا ثمرہ ہے۔ حماقت ایسی بلا ہے کہ جو بہت سی بلائوں کو جنم دیتی ہے۔ پھر وطن عزیز ایک جانب حالت ِ جنگ میں ہے تو دوسری جانب میڈیا گروپ ۲۴گھنٹے سنگ زنی میں مشغول ہیں، دلیل اور دلیل سے عاری گوناگوں میزائلوں سے لیس ہیں۔ اس عالم میں بے چاری جمہوریت کی کمزور سی عمارت کہاں تک ان حملوں کا مقابلہ کرتی۔ پھر طویل عدالتی جنگ کے نتیجے میں عدل کے ایوانوں کی کسی حد تک جو آزادی بحال ہوئی تھی، اسے ریاست و حکومت کی جانب سے اعانت کی ضرورت تھی، لیکن شاہانہ اندازِ حکومت نے بھی گویا ایک ایک کرکے اختیار کے سارے پتے بکھیر دینے کی ٹھان رکھی تھی۔ اور دکھائی یہ دیتا ہے کہ ریاستی اختیار و اقتدار کے قلم دان عملاً دوسری جگہ منتقل ہوچکے ہیں۔ آج اخبارات اور ٹیلی ویژن پروگراموں میں کہیں دبے الفاظ میں اور کہیں کھلے الفاظ میں کہا جا رہا ہے کہ: ’’سیاست دان نااہل، کرپٹ اور نالائق ہیں، یہ ملک نہیںچلاسکتے‘‘۔
ان جملوں میں پیغام صاف ظاہر ہے۔ اس طرح نہ صرف معاملات کوخاص جانب دھکیلا جارہا ہے، بلکہ ایک ایک کرکے حد توڑی جارہی ہے، اور ہر کام خود سیاست دانوں سے کرایا جا رہا ہے۔ ماضی میں اسی قسم کے شوروغوغے پر مولانا مودودی نے سبھی کو متنبہ کیا اور ۲۹؍اگست ۱۹۶۲ء کو چوک یادگار پشاور میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا:
جب انتقام کے جذبے سے مغلوب قوم پرست بھگوڑے اور ان کے ہم نوا بھتّاخور ایک کمزور جمہوری حکومت کا مذاق اُڑاتے ہوئے کھلے عام فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دیتے ہیں تو انھیں مولانا مودودی کا یہ انتباہ یاد رکھنا چاہیے:
یہ کہنا کہ ملکی اقتدار کی آخری ذمہ داری فوج پر ہے، ایک غلط پالیسی ہے۔ فوج کی ذمے داری ملک کوبیرونی حملہ آوروں سے بچانے کی ہے، نہ کہ ملک چلانے کی۔ ملک فوج کا نہیں بلکہ اپنے باشندوں کا ہے۔ اور یہ باشندوں کا اپنا ہی کام ہے کہ وہ اپنے گھر کے معاملات کو چلائیں بھی اور بگڑ رہا ہو تو اسے درست بھی کریں۔ ملازمین خواہ فوج کے ہوں یا سول، ان کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ ملک کا نظامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں۔(تحریکِ جمہوریت: اسباب اور مقاصد، ۱۹۶۷ئ،ص ۹)
یہ عاقبت نااندیش عناصر صرف دعوتِ اقتدار ہی نہیں دیتے بلکہ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ فوج کھلے عام فوجی آپریشن کرے۔ ظاہر ہے کہ کچھ آپریشن تو ہوچکے اور کچھ آپریشن ہو بھی رہے ہیں، مگر معاملات سلجھنے کے بجاے اُلجھ رہے ہیں۔ اسی قسم کے خطرات کو بھانپتے ہوئے مولانا مودودی نے فرمایا تھا:
اس سے زیادہ غلط کام کوئی نہ ہوگا، اور اس ملک کا کوئی بدخواہ ہی ایسا کام کرسکتا ہے کہ ملک کی فوج کو ملک کے عوام سے لڑا دے۔ اگر فوج سے ہم وطنوں پر گولیاں چلانے کا کام لیا گیا تو اس سے فوج اور قوم دونوں کو نقصان پہنچے گا۔ بڑا ظالم ہوگا وہ حاکم، جو ملک کی فوج کو اپنے عوام کے سامنے لاکھڑا کرے۔ (۵-اے، ذیلدار پارک، اوّل: مرتبہ: مظفر بیگ،ص ۲۴۳)
درحقیقت جو عناصر قومی افواج کو سول آبادی میں آپریشن اور اقتدار سنبھالنے پر اُبھارتے ہیں، و ہ بظاہر دوست بن کر، لیکن عملاً دشمن کا سا کردار ادا کرتے ہیں۔ ۳۵برس تک فوج ملک کے سیاہ و سفید کی مالک رہ چکی ہے، مگر اس دوران میں معاملات کی کوئی کل سیدھی نہ ہوسکی، بلکہ ایسے ایسے اُلجھائو پیدا ہوئے کہ عشرے گزر جانے کے باوجود تار سلجھائے نہیں جاسکے۔
پاکستان میں ۲۱ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں جو فوجی عدالتیں قائم ہوئی ہیں ، ان کے بارے میں روزنامہ The Newsنے اپنی رپورٹ ۴جنوری ۲۰۱۵ء میں لکھا ہے:
دہشت گردی کے ملزموں پر پاکستان آرمی ایکٹ (PAA) کے تحت مقدمے چلائے جائیں گے، جنھیں کسی بھی سول عدالت میں اپیل کا کوئی حق حاصل نہیں ہوگا۔ سینیروکیل کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحمن کے بقول دہشت گردوں کو فوج گرفتار کرے گی، تفتیش کرے گی اور بند کمرے میں مقدمے کی سماعت کرے گی۔ پاکستان آرمی ایکٹ کے مطابق کورٹ مارشل کے فیصلوں کے خلاف کوئی دادرسی نہ ہوسکے گی۔ تاہم دفعہ ۱۴۳ کے تحت چیف آف آرمی اسٹاف ہی سزامیں کمی یا معافی کا اختیار رکھتے ہیں۔
یقینا بہت سوچ بچار کے بعد یہ اصول وضع کیے گئے ہوںگے، مگر یوں انصاف اور صفائی کے اصولوں کی کس حد تک پاس داری ممکن ہوگی؟ ایک نازک سوال ہے۔ اور کیا اس کے نتیجے میں واقعی معاملات سلجھ جائیںگے یا پھر عجلت میں سخت فیصلے، کسی اور بڑے ردعمل کی فصل بوئیں گے؟
جن تشدد پسندوں اور دہشت گردوں نے ملک کے امن کو تباہ کیا ہے، ان کی سرکوبی پر قوم میں اتفاق پایا جاتا ہے۔ ان عناصر کی ہمدردی یا اعانت کے لیے کوئی قابلِ ذکر آواز پاکستانی معاشرے میں سنائی نہیں دیتی۔ لیکن کیا انصاف کے طے شدہ ضابطوں کے برعکس اس بیماری کا علاج صرف گولی ہے؟ اس ضمن میں مولانا مودودی بڑی وضاحت کے ساتھ اسلام کا اصول بیان کرتے ہیں:
شریعت ِ الٰہی کسی بُرائی کو محض حرام کردینے یا اسے جرم قرار دے کر اس کی سزا مقرر کردینے پراکتفا نہیں کرتی، بلکہ وہ ان اسباب کا بھی خاتمہ کردینے کی فکر کرتی ہے جو کسی شخص کو اس بُرائی میں مبتلا ہونے پر اُکساتے ہوں، یا اُس کے لیے مواقع بہم پہنچاتے ہوں یا اس پر مجبور کردیتے ہوں۔
نیز شریعت، جرم کے ساتھ اسبابِ جرم، محرکاتِ جرم اور رسائل و ذرائع جرم پر بھی پابندیاں لگاتی ہے، تاکہ آدمی کو اصل جرم کی عین سرحد پر پہنچنے سے پہلے کافی فاصلے ہی پر روک دیا جائے۔ وہ اسے پسند نہیں کرتی کہ لوگ ہر وقت جرم کی سرحدوں پر ٹہلتے رہیں اور روز پکڑے جائیں اور سزائیں پایا کریں۔
وہ [شریعت ِ الٰہی] صرف محتسب (prosecutor) ہی نہیں ہے، بلکہ ہمدرد، مصلح اور مددگار بھی ہے۔ اس لیے تمام تعلیمی، اخلاقی اورمعاشرتی تدابیر اس غرض کے لیے استعمال کرتی ہے کہ لوگوں کو بُرائیوں سے بچنے میں مدد دی جائے۔(تفہیم القرآن، سوم، سورۃ النور، حاشیہ ۲۳،ص ۳۷۲)
اندریں حالات معاشرے کی تمام مقتدر اور ذمہ دار قوتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ باہم تصادم کے بجاے اس خطرناک صورتِ حال سے نکلنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کریں، ٹھنڈے دل و دماغ سے کوششیں کریں، اور جو عناصر ان کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنے یا گہری دلدل میں دھکیلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، ان کی شرانگیزی سمجھنے کی بصیرت حاصل کریں۔
اس تمام صورتِ حال کو پیش نظر رکھیں تو پاکستان کی تاریخ کے تناظر میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ’شمشیر‘ اور ’قاضیِ شمشیر‘ کے ہاتھوں یہ مسائل حل ہونے مشکل ہیں، بلکہ اس مقصد کے لیے قانون کی عمل داری اور جمہوری راستے کے سوا ہرراستہ سواے خرابی کے کچھ بھی نتیجہ نہ دے سکے گا۔مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کے کارکنوں کے سامنے لائحہ عمل پیش کرتے ہوئے ۱۹۵۷ء میں واضح طور پر یہ فرمایا تھا:
تیسری یہ کہ ایک آئینی و جمہوری نظام میں رہتے ہوئے تبدیلیِ قیادت کے لیے کوئی غیرآئینی راستہ اختیار کرنا شرعاً آپ کے لیے جائز نہیں ہے اور اسی بناپر آپ کی جماعت کے دستور نے آپ کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ آپ اپنے پیش نظر اصلاح و انقلاب کے لیے آئین و جمہوری طریقوں ہی سے کام کریں۔(تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل، ۱۹۵۷ئ، ص ۱۳۸)
سانحۂ پشاورایسا الم ناک اور اندوہناک سانحہ ہے جس سے پوری قوم سوگوار ہے۔اتنے دن گزرنے کے بعد بھی کسی کو یقین نہیں آرہا کہ کلیوں کو ایسے مسلا جا سکتا ہے، پھولوں کو ایسے روندا جاسکتا ہے۔ ورسک روڈ پر واقع پاک فوج کے زیرانتظام اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے ۱۳۴بچوں سمیت ۱۴۴؍افراد شہیدکو کیا ،۱۲۰ سے زائد زخمی ہوئے۔ اسکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی بھی حملے میں شہید ہوئیں۔ قطار میں کھڑے کیے گئے بچے زورزور سے لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کا ورد کرتے اور اللہ کے واسطے دیتے رہے، آسمان کی طرف دیکھتے فریاد کرتے رہے اور ہاتھ جوڑتے رہے لیکن انھیں معاف نہیں کیا گیا۔سب سے پہلی گولی اسلامیات کے استاد کو لگی۔ پھول جیسے بچے جن میں سے بعض قرآن کریم کے حافظ تھے۔ ان معصوم بچوں کے چہرے دیکھ کریوں محسوس ہورہا تھا جیسے یہ معصوم فرشتے ہیں جنھیں سفید کپڑوں میں لپیٹ کر مٹی کے حوالے کیا جارہا ہے۔ میں نے خود کئی بچوں کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس دوران یوں محسوس ہوا جیسے میرے اپنے بچے سامنے پڑے ہیں۔
حالیہ تاریخ میں بدامنی سے سب سے زیادہ نقصان پشاور شہر کو پہنچاہے۔ گذشتہ تین عشروں سے اس کے گلی کوچوں اور گلیوں بازاروں میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔سابق سوویت یونین گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے افغانستان پر حملہ آور ہوا تولاکھوں افغان مہاجرین نے ادھرکا رُخ کیا۔ افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ کا بدلہ روسی ایجنٹوں نے پشاور سے لیا اور اس کے معصوم شہری انتقام کا نشانہ بنے۔ امریکا، ناٹو فوجوں کے ساتھ افغانستان میں داخل ہوا تو اس کا بھی سب سے زیادہ نقصان پشاور کو ہوا۔ یہاں کے شہریوں نے کئی بار انسانی چیتھڑوں کو دیواروں، درختوں اور شاخوں پر دیکھاہے۔ یہ کبھی پھولوں کا شہر تھا،لیکن گذ شتہ تین عشروں سے افغانستان میں استعماری قوتوں کی مسلط کردہ جنگوں کی وجہ سے اس کے چوک، چوراہے اور گلیاں اور بازار خون رنگ ہوگئے ہیں۔ پاک افغان بین الاقوامی سرحد کے آرپار گذشتہ تین عشروں میں اتنا بارود اور ایسے خطرناک ہتھیار استعمال ہوئے ہیں کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے سینیر ڈاکٹروں کے ایک گروپ کاریسرچ کے بعد کہناہے کہ: ’’اس علاقے میں بعض ایسی بیماریاں اور علامات مریضوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں جو ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کے استعمال کے بعد دیکھنے کو ملتی تھیں۔ یہاں کی زمین اورپہاڑوں کے پتھروں، درختوں اورپانی کے چشموں نے جنگی ہتھیاروں کا اتنا زہریلا مواد جذب کیا ہے کہ آیندہ ۳۰۰سال تک اس کے اثرات رہیں گے‘‘۔ یہ اتنا بڑا انسانی المیہ ہے جو اب تک نظروں سے پوشیدہ ہے اور کوئی اس پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
آرمی پبلک اسکول جہاں یہ قیامت ٹوٹی،پشاور کے حساس ترین علاقے میں واقع ہے۔ وہاں سے چند گز کے فاصلے پر سرکاری دفاتر ہیں، گورنر ہاوس، وزیر اعلیٰ ہاوس اور سیکرٹریٹ ہے۔ وہاں بغیر کسی رکاوٹ کے دہشت گردوں کے پہنچ جانے اور بڑے پیمانے پر بے گناہ بچوں کے قتلِ عام نے عوام الناس کے ذہنوں میں بے شمار سوالات پیدا کیے ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اوران کے بے شمار ادارے حادثات کے بعد توچند دنوں کے لیے متحرک ہوتے ہیں لیکن ایسے حادثات کا قبل از وقت اِدراک کرنے میں ناکام کیوں رہتے ہیں؟ سانحے کے اگلے دن وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے پشاور میں پارلیمانی پارٹیوں کا سربراہی اجلاس بلایا۔ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے مل کر پشاور کا دورہ کیا، ایک جگہ سرجوڑ کر بیٹھے اور صورت حال کا جائزہ لیا۔ حالات کا تقاضا بھی یہی تھا کہ ذاتی اور پارٹی مفادات سے بالاتر ہو کر اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے سب ایک ہوجائیں۔ اگر اس موقعے پر بھی سیاسی قیادت ایک نہ ہوتی تو پھرکبھی آپس میں مل بیٹھنا ممکن نہ ہوتا۔
سربراہی اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں نے قیام امن اور ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں۔ ہماری طرف سے یہ تجویز پیش کی گئی کہ ملک میں استحکام اورقیام امن کے لیے عدل و انصاف کی حکمرانی ضروری ہے۔ قصاص اللہ کا حکم ہے مگر یورپی یونین کے دبائو کی وجہ سے اسے معطل کر دیا گیا ہے۔ آئین میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن عملی طور پر اس سے انحراف کیا جا رہا ہے۔ اسے عملاً نافذ اور حدود اللہ پر عمل درآمد کیاجانا چاہیے، اوریہ مناسب موقع ہے کہ آئین کی جن اسلامی دفعات کوعملی طور پر معطل کیا گیا ہے، انھیں بحال کیا جائے۔ ہماری تجاویز کا تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے خیرمقدم کیا۔ قانون نافذ کرنے میں کسی قسم کے بیرونی دبائو کو یکسر مسترد کر دینا چاہیے۔قصاص اللہ تعالی کا حکم ہے اورقرآن مجید میں اسے زندگی قرار دیا گیا ہے:
وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرہ ۲:۱۷۹)عقل و خرد رکھنے والو!تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے اُمید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے ۔
جب کوئی قتل کا مرتکب ہوتا ہے اورجرم ثابت ہوجاتا ہے تو صدر پاکستان ، ریاست اورحکومت کویہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ سزا کو معاف کر دے یا اس پر عمل درآمد نہ کرے۔ قاتل کو معاف کرنے کا حق وارث کاہے ،ریاست یا اس کے سربراہ کا نہیں۔ حکومت صلح کی کوشش کرواسکتی ہے لیکن اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں یورپ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے حدوداللہ کو معطل کرنا قابل قبول نہیں ہے۔ پاکستان میں جب حدود اللہ کے نفاذ کی بات ہوتی ہے تو یورپ سے متاثر بعض عناصراس پر واویلا کرتے ہیں کہ ملک کو اسلامی شریعت کے نفاذ کی طرف لے جایا جارہا ہے۔ ایسے تمام عناصر کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور اس کی منزل اسلامی نظام ہی ہے۔ مسلمانان پاکستان کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی نظام قابلِ قبول نہیںہے۔ اسلامی نظام سے ہی ملک کو خوش حالی و ترقی نصیب ہوگی۔ اسلامی پاکستان بنے گا تو امن آئے گا،رزق میں کشادگی ہو گی اورقوم کے اندر وحدت پیدا ہوگی۔
اس اجلاس میں ہم نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ اگر پورے اخلاص کے ساتھ ۲۰۱۵ء کو امن کا سال قرار دیتے ہوئے سیاسی قیادت اور قوم اس کے لیے یکسو ہو جائیں تو امن کو واپس لایا جا سکتا ہے۔ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے متفقہ طور پر وزیراعظم کو قیام امن کے لیے اعتماد اور مینڈیٹ دیا گیا۔اب یہ وزیراعظم اور حکومت کا امتحان ہے کہ وہ آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے ایسا جائز راستہ اختیار کرے کہ اس کے نتیجے میں امن یقینی ہوجائے۔ حکومت کا اولین کام ہی یہ ہے کہ وہ اپنی قوم ،اپنے بچوں اورمائوں بہنوں کو تحفظ دے۔ یہ ذمہ داری مرکزی حکومت کی بھی ہے اور خیبرپختونخوا حکومت کی بھی ۔ اپنے بچوں کو تحفظ فراہم نہ کرپانا، کسی ایک حکومت یا ادارے کی نہیں ، سب کی اجتماعی ناکامی ہے ۔ پوری قوم کی نظریں اس وقت وفاقی حکومت پر ہیں۔ وہ بجا طور پر توقع رکھتی ہے کہ حکومت اور اس کے ادارے اپنی کمزوریوں اور غلطیوںکا جائزہ لیں اور ان کے ازالے کی فوری کوشش کریں تاکہ آیندہ اس طرح کا کوئی روح فرسا واقعہ نہ ہو۔ ماضی کا تجربہ یہ ہے کہ ہر سانحے اور حادثے کے بعد کچھ عرصے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اورادارے متحرک ہو جاتے ہیں لیکن پھرسانحے کو بھلا دیا جاتا ہے اور معمول کی کارروائی شروع ہو جاتی ہے۔ سانحات اور حادثات کے تدارک کے لیے جامع لائحہ عمل بنایا جانا چاہیے اور قیام امن کے لیے امریکا اور یورپ کے بجاے اللہ تعالی اور اپنی قوم اور آئین و قانون کی طرف دیکھنا چاہیے۔
اس اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے مطالبے کے بعد حکومت نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جامع پالیسی بنانے کا اعلان کیا ہے،اور اس کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں پارلیمنٹ میں موجود ہر پارٹی سے ایک ممبر لیا گیاہے۔ جماعت اسلامی کی نمایندگی قومی اسمبلی میں اس کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ کر رہے ہیں اور ان کے ذریعے جماعت اسلامی نے اپنی تجاویز کمیٹی میں پیش کی ہیں۔ہمارے خیال میں اس واقعے کی وجہ سے چند نمایشی اور وقتی اقدامات کے بجاے پورے سسٹم پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اس لیے اس کا مقابلہ یک رُخی حکمت عملی سے نہ ہوگا بلکہ اس کے لیے کثیرجہتی حکمت عملی درکار ہے۔ قوت کا استعمال کرتے ہوئے مختلف پہلوئوں کو سامنے رکھا جائے۔
مسلمانوں کو قتل کرنا کافروں کا کام ہے۔ حجۃ الوداع کے موقعے پر حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ دیکھو میرے بعد کافروں کی طرح نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہو۔ ایک اور حدیث میں آنحضوؐرنے ارشاد فرمایا کہ اگر کسی نے ایک انسان کو قتل کرنے کے لیے اُقتل پورا نہیں کہا، صرف اُق کہہ کر ارادہ کیا اورابھی بات مکمل نہیں کی تو وہ بھی قتل میں شریک ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تلوار یا تیر لے کر مسلمان کی طرف اشارہ نہ کرو، اس سے بھی اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے مروی حدیث میں آپؐنے فرمایاکہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور حقیقت میں مہاجر وہ ہے جو ان باتوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے۔کسی انسان کا قتل آنحضوؐر کو اتنا ناپسند تھا کہ جب ایک جنگ کے دوران بھی صحابی نے کلمہ پڑھ لینے والے دشمن کو قتل کیاتو آپؐ نے اس پر ناگواری کا اظہار فرمایا اور صحابی کو بلا کر پوچھا کہ جب اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا تواسے قتل کیوں کیا؟ صحابی نے جواب دیا کہ حضوؐر اس نے توخوف کی وجہ سے کلمہ پڑھا تھا تو نبی مہربانؐ نے فرمایا کہ کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا۔ حضور نبی کریمؐ نے جنگ کے بھی آداب سکھائے اور اس کے اصول متعین فرمائے کہ خواتین ، بچوںاور بوڑھوں پر ہاتھ نہ اٹھانا ،پودوںاور فصلوں کو تباہ نہ کرنا، عبادت گاہوں کو نقصان نہ پہنچانا، دشمن کی لاش کا مثلہ نہ کرنا، کسی کی شکل کو نہ بگاڑنا۔
اصولی طور پر کسی ریاست کے خلاف جنگ کا اعلان کرنے کا حق کسی فرد یا کسی جماعت اور گروہ کو نہیں ہے، یہ ریاست اور حکومت کا کام ہے۔ اسی طرح حدود جاری اور تعزیرات قائم کرنابھی ریاست اور حکومت کے ذمے ہے۔کوئی فرد یا گروہ کسی چور کو پکڑ کر اس کا ہاتھ نہیں کاٹ سکتا۔ اس راستے پر چلنے کے نتیجے میں معاشرے میں انتقامی جذبات پروان چڑھتے ہیں اور پورا معاشرہ فساد کا شکار ہوجاتا ہے۔ برائی دیکھ کر ہاتھ سے منع کرنے کا حکم بھی حکومت کے لیے ہے۔جو حکومت میں نہیں ہے اور جس کی ذمہ داری نہیں ہے اس کا کام دعوت دینا ہے، افہام و تفہیم کے ذریعے منع کرنا ہے، اوراگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل میں نفرت اور ناگواری کا اظہار کرنا ہے۔ ایک انسانی معاشرے میں ریاست کا کام ریاست کو کرنا ہے اوربحیثیت فرد ایک مسلمان کو اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنا فرض ادا کرنا ہے ۔ اگر کسی تنظیم اور گروہ نے من مانی کرتے ہوئے ازخود اپنے آپ کو قاضی کے منصب پر فائز کر لیا اوراپنی عدالتیں لگا کر سزائیں دینا شروع کر دیں، تو اس سے معاشرے میں فساد برپا ہوجائے گا اورہر چوک اور چوراہے اور ہر گلی اور بازارمیں خون خرابہ ہوگا اور پورا ملک دار الفساد بن جائے گا۔
جنگ عظیم اول کے بعد عالمِ اسلام کو استعماری طاقتوں نے تقسیم در تقسیم کیا ،اور برطانیہ ، فرانس، اٹلی اوردیگر ممالک نے مسلم ممالک پر قبضے کیے۔ فرانس اور برطانیہ نے ۱۹۱۷ء میں اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی اور خطے کی تقسیم کے نتیجے میں آزاد مسلم ممالک وجود میں آئے۔ اس تقسیم کا مقصد آزاد مسلم ممالک کے درمیان خانہ جنگی کروانا اور ان کی معدنیات پر ہاتھ صاف کرنا تھا۔ خزانے لوٹ کر اپنے ممالک میں پہنچائے گئے۔ جب مسلمانوں کی تہذیب اور زبان کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو ہر خطے میں ایسے لوگ اٹھے جنھوں نے ان استعماری طاقتوںکے خلاف طویل جدوجہد کرکے آزادی کی شمعوں کو روشن اور خوابیدہ مسلمانوں کو بیدارکیا۔پاکستان سے لیبیا تک آزاد ممالک وجود میں آگئے۔ اقوام متحدہ کے نقشے پر جگہ جگہ مسلم ریاستیں نمودار ہوئیں اور انھوں نے وحدت و ترقی کا سفر شروع کیا۔ ان ریاستوں میں قدرت کے عنایت کردہ پوشیدہ ذخائر تھے۔ تیل کے سمندر اور سونے وہیرے جواہرات کے ذخائر دریافت ہوئے۔
ترقی و خوش حالی کی طرف مسلمانوں کا گلوبل مارچ شروع ہوا تو سامراجی قوتوں نے پہلا وار پاکستان پر کرکے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنادیا۔ عراق، جہاں کی فوج اور کرنسی دونوں مضبوط تھیں، اسے پہلے ایران اور پھر کویت سے لڑا یااورپھر اس پر براہ راست حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، اورکارپٹ بمباری کے ذریعے وہاں کی فوج کو منتشر اور وحدت کو پارہ پارہ کیا۔عراقی صدر صدام حسین کو پھانسی دی اور شیعہ سُنّی فسادات شروع کروا کر ملک کو تقسیم کر دیا۔ افغانستان نے روسیوں کے خلاف طویل جہاد میں ۱۵لاکھ شہدا کی قربانی دے کر آزادی حاصل کی، مگر ابھی شہدا کا خون خشک نہیں ہوا تھا اورافغان قوم نے آزادی کی بہار نہیں دیکھی تھی کہ اس پر بھی ۵۲-بی بم بار طیاروں سے بمباری ہوئی اور ۴۶ممالک کی فوجوں نے امریکی قیادت میں افغانستان کو قبرستان بنادیا۔ لیبیا میں براہ راست کارروائی کرکے وہاں نظام کو درہم برہم کیا گیااور اس وقت وہاں پر مسلح تنظیمیں ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہی ہیں۔ شام میں لاکھوں مسلمان شہید کر دیے گئے اور تباہی کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے ۔ ہر طرف یہی استعماری قوتیں مدد دے رہی ہیں اوران کی سازشوں سے اس وقت تقریباً اسلامی ممالک میں باہمی جنگیں جاری ہیں۔
عالمی استعماری قوتیں ہمیشہ سے اسلامی ممالک میں جمہوریت کی حوصلہ شکنی کر تی رہی ہیں اور ہر جگہ بادشاہوں اور فوجی آمریت کو سپورٹ کیاہے۔ آمرانہ حکمرانی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ مفیدمطلب حکومتوں کو بروے کار لایاگیا ہے۔ جہاں بھی عوام حق راے دہی کے ذریعے اپنے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں ، وہاں اسے سازشوں کے ذریعے سبوتاژکر دیا جاتا ہے۔ الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ الیکشن میں جیت گیامگر اسے اس لیے تسلیم نہیں کیا گیا کیوں کہ اس کی منزل اسلام تھی۔فوج کے ذریعے وہاں جمہوریت کا گلا دباکر ۸۰ہزار کارکنان کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ فلسطین میں حماس کی جیت کو تسلیم نہیں کیا گیا اور تبصرہ کیا گیا کہ دو سَروں والا سانپ ہے جس کے ایک سر پر ووٹ ہے اور دوسرے پر گولی۔مصرکو طویل عرصے کے بعد جمہوری حکمران ملا تو اس کے خلاف سازش کی گئی اورفوج کو استعمال کرکے ہزاروں کارکنان کو شہید کرنے کے بعد صدر محمدمرسی کو ہزاروں کارکنان کے ساتھ جیل میں ڈال دیا گیا۔پاکستان میں بھی امریکا اور یورپ نے ہمیشہ فوجی آمریت کی حمایت کی۔ جمہوریت کے مقابلے میں آمریت کو ترجیح اور جمہوری حکمرانوں کے مقابلے میں فوجی ڈکٹیٹروں کوزیادہ امداد دی۔ کیونکہ پارلیمنٹ کی موجودگی میں وہ فوائد نہیں لیے جاسکتے جو ڈکٹیٹر سے لیے جا سکتے ہیں۔ جمہوری حکومت، عوام اور اداروں کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے، جب کہ ڈکٹیٹرکی جڑیں عوام میں نہیں ہوتیں اور وہ مغرب کا محتاج ہوتا ہے۔
امریکا اور اس کے مغربی حواری چاہتے ہیں کہ عالمِ اسلام میں جنگ ہواور مسلمان آگے بڑھ کر تعلیم وترقی کے میدان میں ان کا مقابلہ کرنے کے بجاے آپس میں دست و گریباں رہیں اور ایک دوسرے سے لڑکر تباہ ہوتے رہیں۔ اس وقت جہاں جہاں جنگ ہو رہی ہے تو یہ ان کی باقاعدہ طویل منصوبہ بندی کی وجہ سے ہے۔ امریکا اور مغرب کی اسلحہ سازی کی صنعت ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔ اسی لیے وہ جنگوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور اپنے لیے نئی مارکیٹ تلاش کرتے ہیں۔ جنگ ہوتو ان کی اسلحہ انڈسٹری ترقی پاتی اور زرمبادلہ کماتی ہے۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کے پاس کتاب اور دلیل کی قوت ہے اور مغرب کی جنگی مشینری کا مقابلہ اسی سے کیا جاسکتا ہے ۔ ضروری ہے کہ امریکا و یورپ کی سازش کا شکار ہونے کے بجاے نئی نسل کے ہاتھ میں قلم اور کتاب دی جائے اور لائبریریوں اور لیبارٹریوں کو آبادکیا جائے۔ مسلمانوں کا شان دار ماضی ان کے شان دار مستقبل کی نوید ہے۔ مغرب کے زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں ان کے پاس عدل و انصاف پرمبنی اسلامی نظام ہے۔
انسان کی جسمانی و روحانی اور معاشرتی و معاشی اور تہذیبی ضرورتوں کوصرف اسلام ہی پورا کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ یہ اللہ کا پسندیدہ نظام اور عدل و انصاف کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
اِعْدِلُوْا قف ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط (المائدہ۵:۸) عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔
اللہ رب العالمین کا فرمان ہے کہ مومن کو قصداً قتل کرنے والے کی سزا جہنم ہے۔ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اللہ کا غضب اور لعنت ہے اس پر اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کیا گیا ہے۔
وَمَنْ یَّقْتُلْ مُوْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاوُہ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہ وَاَعَدَّ لَہ عَذَابًا عَظِیْمًاo (النساء ۴:۹۳)رہا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اُس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور اُس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے ۔
بڑے عذاب جہنم کا اعلان اور غضب و لعنت اس لیے ہے کہ اللہ رب العالمین بحیثیت خالق اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے اور جو مخلوق کو نقصان پہنچاتا ہے ، اس پر غضب ناک ہوتا ہے ۔ فرمانِ الٰہی ہے کہ جس نے ایک نفس کو بغیر کسی وجہ کے قتل کیا تو یہ ایسے ہی جیسے اس نے ساری انسانیت کو قتل کیا ہو، اور جس نے ایک انسان کو بچایا تو یہ ایسے ہے جیسے اس نے ساری انسانیت کو بچایا :
مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط وَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ط (المائدہ۵:۳۲) جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا، اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔
قرآن کریم میںبارہا جہنم کا تذکرہ ہوا ہے۔ اس کی ہولناکی کا اندازہ اس حدیث ِمبارکہ کے مفہوم سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جہنم میں آگ کے بہت بڑے بڑے گڑھے ہیں اور ہر گڑھا بذات خود ایک عذاب ہے لیکن ہر گڑھا اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہے کہ میرے پڑوس میں آگ سے بچا۔ جہنم ایسی جگہ ہے جہاں آگ دوسری آگ سے پناہ مانگتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو کائنات میں اپنا خلیفہ بنا کر اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔ اسے کائنات اور اپنے پورے نظام میں وی آئی پی کا درجہ دیا ہے ، توجو بھی اس کو ذلیل اور رُسوا کرتا ہے، اس پر اپنی خدائی مسلط کرنے کی کوشش کرتا اور انھیں اپنا بندہ اور غلام بنانے کی کوشش کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے پسند نہیں فرماتا۔
ملت اسلامیہ بالعموم اور پاکستانی قوم بالخصوص اس وقت بہت بڑی آزمایش سے دوچار ہے۔ ایک انتہائی افسوس ناک صورت حال کا سامنا ہے۔ قتل و غارت گری کا ایک بازار ہے جو اسلام کے نام پر سجایا گیا ہے ۔ جو ذبح ہو رہا ہے وہ اشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ کا ورد کر رہا ہے اور جس نے اس کے گلے پر چھری رکھی ہے وہ بھی لا الٰہ الا اللّٰہ کا نعرہ لگا رہا ہے۔ اسلام کتنا مظلوم ہو گیا ہے اور دینِ رحمت کو کیسے یرغمال بنا لیا گیا ہے؟ سارے عالم کے لیے سراپارحمت وشفقت نبی کی امت کا آج یہ حال ہو گیا ہے۔ اس چہرے کے ساتھ دنیا کو اسلام کی دعوت کیسے دی جائے گی؟جب بھی پشاور جیسا کوئی سانحہ ہوتا ہے تو ایک مخصوص لابی اسے اسلام اور مذہب کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے حالانکہ مذہب اس سارے معاملے میں بذاتِ خود مظلوم ہے ۔ دین تو نام ہی انسان کے عقیدے اور جان و مال کی حفاظت کا ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسانی جان کے بچانے کو پوری انسانیت کو بچانا قرار دیا ہے۔
سانحۂ پشاور کے بعد ہم نے قوم سے اپیل کی کہ اپنے رب کے حضور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے جائیں کہ مسلمان پر جب بھی سخت وقت آتا ہے تو وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور دعا و التجا کے ذریعے اس سے رجوع کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی چھت نہیں کہ جہاں پناہ لی جائے۔ مسلمان کی شان یہی ہے کہ وہ خوشی کے لمحے میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اورتکلیف کے لمحے میں صبراور دعا کرتا ہے۔ پوری قوم دعا گو ہے کہ ان بچوں کی شہادتوں کے بدلے اللہ تعالیٰ وطن عزیزکو امن کا تحفہ اورسکون کی نعمت عطا فرمائے ۔
بحیثیت مسلمان اور بحیثیت قوم ہمیں ایک طویل جدوجہد درپیش ہے۔ جماعت اسلامی کے ایک کارکن کے طور پر ہمیں آبادی کے ۵۰ فی صد سے زائدنوجوان نسل کو اسلام کا حقیقی پیغام دینا ہے اور اسے منظم کرنا ہے۔ شرح تعلیم میں اضافہ کرنا ہے اور سکول اور کالجوں کے علاوہ مساجد کو بھی عبادت کے ساتھ تعلیم کا مرکز بنانا ہے۔ رنگ ، نسل، علاقے، زبان اور مسلک کی بنیاد پر اختلافات ختم کرکے اپنی قوم کو ایک امت بنانا ہے۔وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کے دل پر دستک دی جائے اور اسے ذہن نشین کرایا جائے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل اسلامی نظام میں ہے۔ اس نظام سے بے وفائی کے نتیجے میں ہم آدھا ملک کھو چکے ہیں اور باقی ماندہ ملک خطرات سے دوچار ہے۔
ملک اور قوم کو بحران سے نکالنے اور تحریک پاکستان کا وعدہ ایفا کرنے کے لیے جماعت اسلامی نے اسلامی پاکستان کی جدوجہد کا آغاز کیا ہے۔ ہماری منزل ایک خوش حال اور ترقی یافتہ پاکستان ہے، اور یہ اسلامی پاکستان ہی سے ممکن ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ملک کے مؤثر ادارے اور مراعات یافتہ طبقے موجودہ صورتِ حال اور اسٹیٹس کو کے ساتھ ہیں اور سیاست و جمہوریت اور ریاست و حکومت کو انھوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ بنک غریبوں کا استحصال کرکے اسی اسٹیٹس کو ،کو آکسیجن مہیا کرتا ہے،اور نام نہاد آزاد میڈیا اسی کو مسلط رکھنے میں پیش پیش ہے مگرہمیں اپنے رحمان و رحیم رب کے اس وعدے پر کامل یقین ہے:
وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَـنَہْدِیَنَّہُمْ سُـبُلَنَا ط وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِـنِیْنَ o (العنکبوت۲۹:۶۹) جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقینا اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے ۔
اس فانی دنیا میں باعزت اور باوقار زندگی گزارنے کا اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ بتایا ہے کہ نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔نبی کریم نیکی کا بہترین نمونہ تھے۔ اس لیے ہمیں ان کے اُمتی ہونے کے حیثیت سے ہر لمحے نہ صرف خود نیکی اختیار کرنی ہے بلکہ نیکی کا حکم بھی دینا ہے۔ برائی سے خود بھی رُکنا ہے اور دوسروں کوبھی روکنا ہے۔ جس کلمہ توحید کی بنیاد پر یہ ملک بنا تھا__ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہَ مُحَمَدٌ رَّسُوْلُ اللّہ اس کا مقصد بھی نیکی عام کرنا اور بدی کی روک تھام کرناہے۔ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرفخر ہے۔ آئیے ہم مل کر ان پر دل کی گہرائیوں سے درود و سلام پیش کریں۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اُمت ِوسط، یعنی اعتدال والی امت کا درجہ دیا ہے۔ ایک ایسی امت جو انصاف پسند ہو ، جو حق کی نصیحت کرنی والی ہو اور ظلم کے خلاف ایک مضبوط قوت ہو۔ ظلم کو روکنا اور ظلم کو ہونے سے بچانا دونوں اس امت کے فرائض میں شامل ہیں۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ تُؤْ مِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰل عمران ۳:۱۱۰) دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہواور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
اس کا تقاضا ہے کہ ہم اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائیں۔ ہماری انفرادی زندگی اور اجتماعی زندگی میں کوئی تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ ظاہر اور باطن ایک ہونا چاہیے۔ہمارا گھر اسلام کامرکز اور جنت کا نمونہ ہونا چاہیے۔ جہاں والدین کواحترام ملے۔ بڑوں کو عزت ملے۔ بچوں کو شفقت ملے اور جہاں میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس بنیں۔ ایک گھر ہمار ا یہ ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی ہے۔۔ہمیں اس کی عافیت اور بہتری بھی مطلوب ہے۔ ہمیں اس گھر میں بھی اللہ اور اس کے رسول کا حکم نافذ کرنا ہے۔
ہم نے اسی جذبے کے ساتھ اس اجتماع عام کا انعقاد کیا۔ ہم نے تجدید عہد کرنے کے لیے اپنے بھائیو، بہنو ،جوانوںاوربزرگو ں کویہاں مشورے کے لیے بلایا۔ میں نے آج تک وہ جذبہ نہیں دیکھا جو آج میں دیکھ رہاہوں۔تاکہ اس ملک میں انصاف کے قیام اورحق کی گواہی قائم ہوجائے۔ اجتماع عام کاانعقاد ایک غیرمعمولی فیصلہ تھا۔ ہمارے پاس نہ وسائل تھے اور نہ خفیہ قوتوں کی آشیر باد۔ہم نے صرف اللہ کے نام پر سب کو یہاں اکٹھا کیا۔ تحریک پاکستان کے نام پر سب کو اکٹھا کیا۔
اس اجتماع کے انعقاد کے لیے کارکنان جماعت اسلامی، مرد و خواتین سب نے دن رات اَن تھک محنت کی۔یہاں ہم سب اللہ کی رضا کے لیے آئے ہیں اور ان شاء اللہ آپ یہاں سے محبت ، اخوت اور بھائی چارے کا پیغام لے کر جا رہے ہیں۔
قائد اعظم ؒ نے فرمایا تھا کہ تحریک پاکستان اُس وقت شروع ہو گئی تھی جب ہندستان میں پہلا مسلمان داخل ہواتھا۔ تحریک پاکستان برسو ں جا ری تھی مگر قراردادِ پاکستان۱۹۴۰ء میں منظور ہوئی۔ اس قرارداد میں مملکت پاکستان کا واضح نقشہ رکھ دیا گیا اور مرکز اور محور قرآن و سنت کو قرار دیا گیا۔ مغرب زدہ لوگ آج بھی قائد اعظم پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ پاکستان کو سیکولر بنانا چاہتے تھے حالانکہ قائد اعظم، پاکستان کو اسلام اور جمہوریت کا مرکز بنانا چاہتے تھے اور کہتے تھے کہ ’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اُس اسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر ؐاسلام نے ہمار ے لیے بنایا ہے‘‘۔ انھوں نے یہ بھی فرمایاتھا کہ: ’’مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے جائیںگے ہم میں زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گاکیونکہ ہم ایک خدا، ایک رسولؐ اور ایک امت کے پیروکار ہیں‘‘۔
مؤرخ پاکستان ڈاکٹر صفدر محمود نے …… آج میں یہ بات بڑے واضح طو ر پر کہنا چاہتا ہوںکہ تحریک پاکستان میںاس وقت تیزی آئی تھی جب ۱۹۴۵ء میں یہ نعرہ لگا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا اللہ الا اللہ۔ پھر دنیا نے دیکھاکہ دو سال کی قربانیوں کے بعد پاکستان وجود میں آگیا۔ یہ تھی طاقت لا اللہ الا اللہ کی۔ اور آج سب لوگ جان لیں لیںکہ اس ملک کا مستقبل ان الحکم الااللہ ہے یہاں کوئی دوسرا نظام نافذ نہیں ہو سکتا۔ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ قائد اعظم کی اس مسجد میں کوئی دوسرا اِزم نافذ کر سکتا ہے۔
قائد اعظم ؒ نے تو پاکستان اسلام اور جمہوریت کے لیے بنایا مگر یہاں نہ اسلام کو نافذ ہونے دیا گیا اور نہ جمہوریت کو۔ قائداعظم کی وفات کے بعد اس ملک پر مفاد پرستوں نے قبضہ کر لیا۔ انگریز کے ٹکڑوں پر پلنے والے جاگیرداروں ، سرمایہ داروں ، سول اور ملٹری ڈکٹیٹروں نے بار بار شب خون مارا۔اسلام اور جمہوریت کے خلاف سازشیں کیں۔شہری آزادیاں سلب کیں اور قومی خزانے کو لوٹنا شروع کیا۔ ۱۹۵۴ئمیں غلام محمد نے اقتدار سنبھالا۔ ۱۹۵۶ئمیں پہلا آئین بنا لیکن اس کو چلنے نہیں دیا گیا اور ایوب خانی مارشل لا آگیا۔ ۱۹۶۲ء میں دوسرا آئین بنا اور یحییٰ خان کا مارشل لا آگیا۔ اس عرصے میں اس ملک میں نفرتوں کے بیج بوئے گئے اور سیاسی جماعتوں کو کام نہیں کرنے دیا گیا۔ اخبارات پر پابندی لگائی گئی۔ سیاسی لیڈروں اور صحافیوں کو جیلوں میں ڈالا گیا اور ظلم کی انتہا کر دی گئی۔ ۱۹۷۰ئمیں جب پہلے عام انتخابات ہوئے تو اس کے نتائج کو اسٹیبلشمنٹ اور مفاد پرست جاگیرداروں نے قبول نہیں کیا۔ عوام کے فیصلے کو قبول نہیں کیا گیا۔ اقتدار اکثریتی جماعت کو سپر د نہیں کیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے دونوں حصوں کو ایک دوسرے سے جدا کردیا گیا۔
۱۹۷۳میں تیسرا آئین بنا۔ یہ وہ متفقہ آئین تھا جس میں چاروں صوبوں اور ملک کی تمام جماعتوں نے دستخط کیے۔ اس میں مقتدرِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو تسلیم کیاگیا۔اس دستور میں قرار داد مقاصد شامل ہے۔ اس آئین میں وفاقی شرعی عدالت ہے۔ اس آئین کے مطابق کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا ، اس آئین کے مطابق قرآن و سنت کی تعلیمات کو عام کرنا ہے ، عربی زبان کو سکھانااور اس آئین کے مطابق اسلام کے منافی کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا۔ اس آئین کے مطابق کوئی طالع آزماجمہوریت کو ختم نہیں کر سکتا، میرٹ کو ختم نہیں کر سکتا ،بنیاد ی حقوق کوختم نہیں کرسکتا ، شہری آزادیوں کو ختم نہیں کر سکتا ،اظہار راے کو ختم نہیں کر سکتا عورتوں پر تعلیم کے دروازے بند نہیں کر سکتا ، ریاست کے خلاف بغاوت نہیں کر سکتا اور آزادیِ اظہار کو بھی ختم نہیں کرسکتا۔ اس آئین میں صوبوں کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ وسائل کی تقسیم کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کو فیصلوں کا اختیار دیا گیاہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا گیاہے۔ شفاف انتخابی نظام اور الیکشن کمیشن کی گارنٹی دی گئی ہے مگر کیا یہاں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا گیا۔۱۹۹۹ئمیںپرویز مشرف نے ایک مرتبہ آئین کو توڑنے کا گناہ کیا۔ اور پھر دوسری مرتبہ ۲۰۰۷ئمیںبندوق کے زو ر پر آئین کو پامال کیا اور ملک کی عزت کو ایک ٹیلی فون کال پر امریکا کے سپرد کیا۔اپنی بہنو ںاور بھائیوںکوڈالروں کے عوض بیچ ڈالا۔آج بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور کئی پاکستانی امریکا کے جیلوں میں پرویز مشرف کی وجہ سے پڑے ہوئے ہیں۔سیکڑوں پاکستانی لاپتا ہو گئے ہیں۔ بلوچستان کے اندر آپریشن کے ذریعے بلوچوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا پہاڑوں پر چڑھ کر گوریلاجنگ کرنے پر مجبور کر دیا۔ ہندستان کے ساتھ ساز باز کر کے مسئلہ کشمیر کو سردخانے میں ڈالا اور لاکھوں کشمیری شہدا کے خون سے بے وفائی کی۔ یہاں تک کہ اسرائیل کے ساتھ بھی پینگیں بڑھائی۔ جو قبلہ اول اور مسجد اقصیٰ پر قابض ہے اور وہ ہزاروں فلسطینیوں کا قاتل ہے۔ ملک میں انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا ، بے حیائی کا سیلاب بہایا گیا اور ملک کے تعلیمی نصاب کو غیر اسلامی بنانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن جب وہ اپنے اقتدار سے ہٹا تو اس کے جرائم پر پردہ پوشی کرتے ہوئے اسے گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ وی آئی پی بنایا گیا۔ یہ دنیا کا واحدملک ہے کہ جہاں ملک توڑنے والوںکو ، آئین توڑنے والوں کو ، اپنی بہنوںکو بیچنے والوں کو اور اپنی فضائیں دشمنوں کو دینے والوں کو وی آئی پی بنا کر رکھا جاتاہے اور جب وہ مرتے ہیں تو پاکستان کے جھنڈے میں ان کو دفنایا جاتا ہے۔
آئین کی بار بار پامالی سے یہ ملک بھی ٹوٹا ، اس کے ادارے بھی تباہ ہوئے۔ یہ آئین کئی مرتبہ بے توقیر ہوا۔ اس ملک میں نہ اسلام کو آنے دیا گیا ، نہ جمہوریت کو جڑ پکڑنے دی گئی۔ جس کے پاس دولت تھی یا بندوق، اُس نے اس ملک کے عوام کا ستیاناس کر دیا۔ اس ملک کی بنیادیں ہلادیں۔ اس ملک کے شہریوں کو بنیادی حقوق سے محروم کیا۔ اسلامی حقوق، معاشی حقوق اور معاشرتی حقوق سے محروم کیا۔ تعلیم سے محروم کیا۔ صحت سے محروم کیا۔ اچھے ماحول سے محروم کیا۔ خواتین پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ نوجوانوں پر ملازمتوں کے دروازے بند کیے گئے۔ ہسپتال اور سکولوں میں طبقاتی نظام لایا گیا۔ مزدوروں کو حق نہیں دیا گیا ، بچوں سے مشقت کروائی گئی۔ ان کو اپنا غلام سمجھا گیا۔ اس ملک میں کرپٹ اشرافیہ نے آمروں اور مفاد پرستوں کے ساتھ مل کرپاکستان کی بیوروکریسی کو تباہ کیا، پولیس کو تباہ کیا ،ٹیکسوں کے نظام کو تباہ کیا ، کرپشن کو عام کیا ، اقرباء پروری کو عام کیا ، طبقاتی نظام کو دوام بخشااور سارے اداروں کو تباہ و برباد کیا۔ آج ملک کا کوئی بھی ادارہ چوروں اور لٹیروں سے ، ظالموں اور استحصالیوں سے خالی نہیں۔ ہر طرف وی آئی پی کلچر کا راج ہے۔ تھانوں میں ، عدالتوں میں ، ہسپتالوں میں ، سکولوں میں ، دفتروں میں۔ دوسری طرف اس ملک کو اس مٹھی بھر اشرافیہ نے اپنے مفادات کی خاطر تقسیم در تقسیم کیا۔ مذہبی منافرت پھیلائی ، مسلکی جھگڑے پیدا کیے ، فرقہ پرستوں کی حوصلہ افزائی کی اور سیاسی انتشار پیدا کیا۔ کسی کو اقتدار میںلائے اورکسی کو محروم کیا۔ انتخابات ، پارلیمنٹ اورقومی اداروں کو بے وقعت کیا۔ اپنے اقتدار کو دوام پخشنے کے لیے امریکی دہشت گردی کا ساتھ دیا۔ معاشی نظام کو بر باد کر کے غریبوں سے دو وقت کی روٹی چھین لی۔ مہنگائی میں اضافہ کر دیا۔ سی این جی کو نایاب کردیا۔ گیس اور بجلی کے بلوں میں اضافہ کردیا۔ کرایے بڑھ گئے ، فیسیں بڑھ گئیں۔ہر طرف بھوک کے سائیے نظر آرہے ہیں۔ ہر طرف غربت ناچ رہی ہے۔ ہر طرف لاقانونیت ہے ، بھتے ہیں ، کمیشن ہے اور ٹارگٹ کلنگ ہے۔ کیا یہ قائد اعظم ؒ کی خوابوں کی تعبیر ہے ؟ کیا اس کے لیے مسلمانوں نے قربانی دی تھی ؟ کیا اس کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا؟
سوات آپریشن کے دوران لاکھوں لوگوں کو اپنے ملک میں مہاجر بنایا گیا اور کیمپوں میں ان کی تذلیل کی گئی۔ اب فاٹا میں اور شمالی وزیرستان میں آپریشن کیاجارہا ہے۔ ۹ لاکھ قبائلی پاکستانی اپنے ہی ملک میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ وہ خواتین جو حیا کی وجہ سے ڈاکٹروں کے پاس بھی نہیں جاتی تھیں ان کو کیمپوں میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا۔ آج ان کا کوئی والی وارث نہیں۔ آج امریکا کو بتایا جا رہا ہے کہ ہندستان کی کاروائیوں کی وجہ سے پاکستانیوں کے خلاف آپریشن متاثر ہو گیا ہے۔ میں واضح کرنا چاہتاہوں کہ قبائلی پاکستانی ہیں ان کی تذلیل بند کی جائے اور ان کے خلاف آپریشن بند کیا جائے۔ اور ان کو اپنے گھروں کو عزت کے ساتھ جانے دو۔ قبائلیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کا ازالہ کرواور امریکا کی جنگ سے باہر نکلو۔
اس ملک میں کرپٹ اشرافیہ نے اقتدار میں باریاں لگائی ہوئی ہے۔ ایک اقتدار میںآجاتا ہے تو دوسرے کے مفادات کی حفاظت کرتاہے۔ یہ اقتدار پرستوں کی جائنٹ فیملی ہے جس میں میڈیابھی ان کے قدموں کے اندر بیٹھتا ہے۔ دولت کی ریل پیل میں حق اور سچ سامنے نہیں آتا۔
ایسے میں اس ملک کے اندر ہم امید کی کرن دکھانے کے لیے اجتماع عام کر رہے ہیں تاکہ قائد اعظم کے نامکمل مشن کو اور پاکستان کے نامکمل ایجنڈے کو تکمیل تک پہنچائیں۔ تحریک پاکستان کا دوبارہ آغاز ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ قائد اعظم کے مشنـ اسلام، جمہوریت اور عوام کی فلاح کوپوراکریں جس ملک کا قیام اسلامی بنیادوں اور اسلامی جذبوں کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اسی طرح اس کا تحفظ ، اس کی سلامتی اور آزادی بھی اسلام کے سچے اور عادلانہ نظام کے بغیر ممکن نہیں۔ ہم اس ملک کو اسلامی اورخوش حال پاکستان اس لیے بنانا چاہتے ہیں کہ یہاں پر طبقاتی تقسیم ختم ہو، کرپشن ، ناانصافی ، ظلم و زیادتی ، جہالت اورغربت ختم ہو۔ ہماری تحریک پاکستان کے ذریعے اختیارات اور اقتدار عوام کے حقیقی نمایندوں کو سپرد کرنے کے لیے نچلی سطح تک منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم قومی زبان کو ترویج دیں گے اور مقابلہ کا امتحان بھی قومی زبان میں کرائیں گے۔ تحریک پاکستان کی اس تحریک میں ہم صوبائیت اور علاقائی تعصبات کو ختم کریں گے۔ غیر مسلم برادری کے حقوق دوسرے شہریوں کے برابرہوں گے۔ ان کو مذہبی اور معاشی آزادیاں حاصل ہوں گی۔ ہم تحریک پاکستان کی اس تحریک میں عوام کے سیاسی شعور میں اضافہ کر کے آمریت کی ہر شکل کو بے نقاب کریں گے۔ ہم دھاندلی سے بننی والی حکومتوںکو بے نقاب کریں گے۔ ہم سیاستدانوں کی خریدوفروخت کی گھنائونی سازشوںکو طشت ازبام کریں گے۔ ہم عوام کو ظاہری اور باطنی حکومتوں کا فرق سمجھائیں گے۔ اس لیے میں پاکستان کے ہر مرد اور عورت کو ،ہر پاکستانی کو ، ہر نوجوان کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ تحریک پاکستان کی اس نئی جدوجہد کا حصہ بنے پاکستان کو ایک جدید ریاست بنانے کے لیے ، اسلامی ریاست بنانے کے لیے اور خوش حال پاکستان بنانے کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔
میں ہر پاکستانی سے اپیل کرتا ہوں کہ اسلامی پاکستان اور خوشحال پاکستان کی خاطر تحریک پاکستان کا پیغام گھر گھر تک پہنچائیں۔یہ ہماری تقدیر کا سوال ہے ،یہ ہمارے مستقبل کا سوال ہے۔ میں پاکستان کے عوام کو کہتا ہوں، اور سب سے کہتا ہوںکہ ہم نے جو عوامی ایجنڈا آپ کو دیا ہے۔ یہ قومی ایجنڈا ہے ، یہ پاکستان کو بچانے کا ایجنڈا ہے۔ ہم واضح طور پر کہتے ہیں کہ تحریکِ پاکستان کو راستہ دے دو تاکہ یہ ملک ترقی کر جائے۔ہماری جدوجہد سیاسی ہے۔ قائد اعظم نے پاکستان لشکر کشی کے ذریعے سے حاصل نہیںکیا تھا نہ گوریلا جنگ کے ذریعے سے بلکہ پاکستان عوامی اور جمہوری جدوجہدکے بعد حاصل کیا گیا تھا اور ہم بھی عوامی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے سے قائد اعظم کے وژن کے مطابق پُرامن ذرائع سے پاکستان کو حقیقی اسلامی ، جمہوری ، سیاسی اور پروگریسو ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو یاد رکھو کہ تمھاری جاگیریں اور تمھارا پیسہ اور تمھاری طاقت صدانہیں رہے گی۔ نا م صرف اللہ کا رہے گا ، اسی اللہ تعالیٰ کا حکم چلے گا۔ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ (انعام۶ :۵۷)
نائن الیون کے بعد امریکا نے ہمارے ملک پر ایک علانیہ جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ پرویز مشرف ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہو گیاتھا۔ عالمی ایٹمی قوت ہونے کے باوجود امریکا اور نیٹو فورسز نے افغانستان پر قبضہ کرنے کے لیے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہوگئیں۔ جوان قتل ہو گئے۔ اس پر بس نہیں کیا بلکہ امریکا نے پاکستان میں ایک خفیہ جنگ مسلط کی۔ جن کی وجہ سے داخلی انتشار میں مزید اضافہ ہوا۔ ۵۵ہزار پاکستانی شہید ہوگئے مگر امریکا اب بھی قلعہ بند ہو کر افغانستان پر قابض ہے۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ ہم افغانستان کے عوام کے ساتھ ہیں اور ان کی آزادی ، سلامتی اور خودمختاری کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ افغان اتحاد اور اتفاق کا مظاہرہ کر کے اپنی آزادی کو امریکا سے واپس لیں گے۔
تحریک پاکستان کے آغازِ نو پر میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ جماعت اسلامی دنیا کے کسی ملک کے خلاف نہیں۔ ہم سب کی آزادی اور خودمختاری کا احترام کرتے ہیں۔ ہم امریکا کے عوام کے خلاف نہیں بلکہ امریکی حکمرانوں کی ظالمانہ پالیسی کے خلاف ہیں جو وہ مسلمانوں اور مسلمان ممالک کے خلاف اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ہم یورپ و امریکا سے اچھے تعلقات برابری کی بنیاد پر چاہتے ہیں۔ ہم بین المذاہب مکالمہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم تمام مذاہب کااحترام کرتے ہیںاور ہر قسم کے عالمی تعصب کے مخالف ہیں۔
ہم امریکا اور یورپ سے کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف عالمی جنگ کو ختم کریں۔ اگر تم دنیا میں امن لانا چاہتے ہو اور لڑنا چاہتے ہو تو غربت ،جہالت اور ناخواندگی کے خلا ف لڑو۔
جماعت اسلامی پاکستان تمام اسلامی اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو اولیت دیتی ہے۔ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات، قطر ، کویت اور دوسرے عرب ممالک میںلاکھوں پاکستانی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جویہاں زرمبادلہ بھیجتے ہیں ہم ان کا احترام اور ان کے احسان مند ہیں۔ مسلم ممالک کے باہمی تنازعات کے بارے میں ہماری رائے ہے کہ اس کو بات چیت اور نیک جذبوں سے حل کیا جائے۔ اخوان المسلمین اور حماس کے بارے میں بعض دوست ممالک کو غلط فہمی ہو گئی ہے۔ ہم اپیل کرتے ہیںکہ مسلم امت کی خاطر اپنے بھائیوں اور اپنی طاقت کو تقسیم نہ کریں اور متحد ہوجائیں۔ ہم اسرائیل کی فلسطین اور فلسطینی بچوں ، عورتوں اوربوڑھوں پر اور سکولوں اور ہسپتالوں پر بمباری کی مذمت کرتے ہیں اور قبلہ اول کی آزادی تک فلسطینی عوام کی حمایت کرتے رہیں گے۔
ہم ہمسایہ ممالک ، چین ایران ، افغانستان کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پر بہترین تعلقات کے خواہاں ہیں۔ ہم ہندستان کے ساتھ بھی اچھے اور دوطرفہ تعلقات چاہتے ہیں مگر تعلقات، کشمیر کی قیمت پر نہیں ہو ں گے۔ پیاز اور ٹماٹر ڈپلومیسی یا کرکٹ ڈپلومیسی سے بہتر نہیں ہوں گے۔ جنوب مشرق ایشیا میں امن قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے ذریعے حل کیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں بچوں ، جوانوں اور بوڑھوں کا قتل عام بند کیا جائے۔ کشمیریوں کی نسل کشی بند کی جائے۔ مَیں کشمیر کے مسلمانوں کو پیغام دیناچاہتا ہوںکہ آپ کی جدوجہد زمین کے ٹکڑے کے لیے نہیں بلکہ اسلامی پاکستان کی تکمیل کی جدوجہد ہے۔ آپ کا جذبہ جہاد اور شوق شہادت اور طویل جدوجہد پر پاکستان کے عوام آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیںاور امید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ وہ وقت آنے والا ہے جب سری نگر اسلامی پاکستان کا گرمائی دارالخلافہ بنے گا۔
جماعت اسلامی نے ہمیشہ پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی۔ ۱۹۷۱ء میں جب مشرقی پاکستان پر ہندستان نے حملہ کیا اور جماعت اسلامی کے رضا کاروں نے ہندستان کی تربیت یافتہ فورس کے خلاف مادروطن کی حفاظت کی۔ ہزاروں نوجوان بھارتی فوج اور ان کی تربیت یافتہ مکتی باہنی کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ فوج نے ہتھیار ڈال دیئے مگر ایک طرف ہمارے ملک میں بعض لوگوں نے مادر وطن کی حفاظت پر جماعت اسلامی کو طعنے دئیے تو دوسری طرف بنگلہ دیش بننے کے بعد جماعت اسلامی کے کارکنوں کو آزادی دشمن اور پاکستان دوست قرار دیا اور آج ۴۴سال گزرنے کے باوجود جماعت اسلامی کے بزرگ رہنمائوںکو جھوٹے مقدمات میں سزائے موت اور عمر قید کی سزائیں دی جا رہی ہیں۔ ہم حسینہ واجد کے انتقام کی مذمت کرتے ہیں مگر ساتھ ہی اپنی حکومت سے پوچھتے ہیں کہ پاکستان کی حمایت اگر جرم ہے تو پھر کل کیوں اس مادرِ وطن کے لیے قربانی دینے کے لیے کوئی تیار ہو گا۔
یہ بنگلہ دیش کا داخلی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک عالمی معاملہ ہے۔ عالمی معاہدوں کا تقدس ہوتا ہے ایک طرف حکومت مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر اور دوسری طرف بنگلہ دیش کے ساتھ عالمی معاہدوں پر عمل درآمد نہیں کروا سکی۔ کیا بنگلہ دیش کو اس لیے تسلیم کیا تھا کہ وہ عالمی معاہدوں سے روگردانی کر ے اور ظلم اور فاشزم کا ثبوت دے۔
سوال یہ ہے کہ نظام کیسے تبدیل ہوگا؟
مولانا مودودی ؒ نے فرمایا تھا کہ پُرامن آئینی جدوجہد کرو، ذہنوں کو تبدیل کرو، انسان کو اندر سے تبدیل کرو، پھر عوام کو منظم کرو اور قیادت مہیا کرو۔ منتشر معاشرے کو ایک کرنا، عوام کو روشنی دینا، عوام کو منزل دینا یہ قیادت کا کام ہے۔ ہم زیرزمین سازشوں، گوریلا جنگ یا ڈنڈے کے زور پر یقین نہیںرکھتے۔ دلوں کی دنیا کو تبدیل کریں تو معاشرہ تبدیل ہوگا۔ اگر آپ اس ملک میں اسلامی نظام چاہتے ہیں تو دلوں کو فتح کرنا ہوگا۔ خیالات اور خواہشوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اچھا اخلاق اور کردار ہماری قوت ہیں۔
مَیں کارکنانِ جماعت سے اپیل کرتا ہوں کہ سورج کی طرح کرنیں بکھیرو، چاند اور تاروں کی طرح جگمگانا سیکھو، گلاب کے پھول بنو اور کردار کی خوشبو تقسیم کرو۔ ان شاء اللہ خلقِ خدا تمھارے گرد جمع ہوجائے گی۔معاشرے کے خدمت گار بنو۔ یتیموں، مسکینوں، بیوائوں اور بوڑھوں کا سہارا بنو۔ مظلوموں کی آواز بنو اور ان کی دُعا بنو۔ خالق کو راضی کرنا ہے تو مخلوقِ خدا کی خدمت کرو۔
ہم جانتے ہیں کرپٹ اشرافیہ نے صرف پاکستان کو منزل سے ڈی ریل ہی نہیں کیا بلکہ انھوں نے بیوروکریسی کو بھی کرپٹ کیا، پولیس کا نظام بھی تباہ کیا۔ ٹیکس کا نظام عوام کو نچوڑنے کا اور اِن کی تجوریاں بھرنے کا ذریعہ ہے۔ انھوں نے اس ملک میں کرپشن، اقرباپروری اور طبقاتی نظام کو دوام دیا۔ ریلوے غریبوں کی سواری ہے، اس کو تباہ کیا۔ کرپشن کی وجہ سے ہی پی آئی اے کو مفلوج کیا۔ پارلیمنٹ پر عوام کروڑوں روپے خرچ کر رہے ہیں لیکن اس سے کچھ حاصل نہیں ہو رہا۔ مظلوم کو سننے کے لیے کوئی ادارہ نہیں ہے۔ چور اور لٹیروں کو پکڑنے کا کوئی نظام نہیں ہے۔
پاکستان کے آئین میں اللہ کی بادشاہت اور انسانوں کی خلافت کو تسلیم کیا گیا ہے مگر یہاں منافقت کا نظام ہے۔ کرپٹ اشرافیہ کا نظام ہے، جاگیرداروں کا نظام ہے، امریکی وفاداروں کا نظام ہے۔ اللہ کا نظام کہیں نظر نہیں آتا اور نہ خلافت کا نظام نظر آتا ہے۔ آئینِ پاکستان قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا، لیکن سارا معاشی نظام سود پر چلتا ہے۔ سود تو اللہ اور رسولؐ کے ساتھ جنگ ہے۔
ہم آئینِ پاکستان کے ساتھ ہیں اس لیے کہ اس آئین نے پاکستان کو جوڑ رکھا ہے۔ اس میں اللہ کی حاکمیت کو اقتدارِاعلیٰ تسلیم کیا گیا ہے۔ اگر پاکستان کا آئین ختم ہوا تو فساد کی قوتیں دوبارہ ایسا متفقہ دستور نہیں بننے دیں گی۔ وفاقی شرعی عدالت ختم ہوجائے گی۔ پھر صوبوں کو اکٹھا کرنا مشکل ہوگا۔ یہاں سامراجی قوتیں ہمیشہ غیرجمہوری نظام کی حمایت کرتی ہیں تاکہ اس ملک کا تشخص بدل ڈالیں، اور اس ملک کو بھارت کا غلام بنا ڈالیں۔ ان کے لیے ایک ڈکٹیٹر سے سودا کرنا آسان ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں مسئلہ آئین کا نہیں، قیادت کا اور قیادت کی بے عملی کا ہے۔ عوام کو جب موقع ملتا ہے تو انھی لوگوں کو جھولیاں بھربھر کر ووٹ دیتے ہیں جنھیں بعد میں جھولیاں بھرکر بددعائیں دیتے ہیں۔ خود ہی سانپوں کے منہ میں دودھ ڈالتے یں اور جب وہ اژدھا بن کر ڈستے ہیں تو پھر خوب روتے بھی ہیں۔
ان اژدھوں نے آپ کو دبایا ہوا ہے۔ یہی سانپ خزانے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے مقصد پاکستان کو سبوتاژ کیا اور پاکستان کے جغرافیے کو بھی۔ چین اور ملایشیا کو اچھی قیادت ملی تو ترقی کرگئے اور ایشیا کے ٹائیگر بن گئے۔ یہاں استحصالی طبقے نے خود کو امیر اور آپ کو غریب بنایا۔ انھوں نے ہماری صنعت کو تباہ کیا۔ انھوں ہماری زراعت کو تباہ کیا۔ ان کی وجہ سے غریب اور مزدور فاقوں کا شکار ہیں۔ ان کے بچے باہر پڑھتے او رہمارے بچے گندگی کے ڈھیر میں رزق تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔ آپ ان کو ووٹ دیتے ہیں اور وہ آپ کو بجلی اور گیس کے ظالمانہ بل بھیجتے ہیں اور یہ وی وی آئی پی کلچر تو یہودیوں کا ہے۔ کیا اس ملک میں ہم سب برابر نہیں ہیں؟ ہسپتالوں میں، ہوٹلوں میں، دفاتر میں، ہر جگہ وی آئی پی کلچر ہے۔ محمود اور ایاز کب ایک صف میں نظر آئیں گے۔ جب اسلامی حکومت قائم ہوگی تو تعلیمی اداروں میں طالب علم ، ہسپتالوں میں بیمار، اور عدالتوں میں ہرمظلوم وی آئی پی ہوگا۔ ہم موجودہ وی آئی پی کلچر کو ختم کریں گے تو لوگ خود کہہ اُٹھیں گے کہ ع
رہے نہ کوئی عالی جاہ ، لا الٰہ الا اللہ
ہمیں قوم کو روشنی کے گرد اکٹھا کرنا ہے، اُمید کی شمع روشن کرنی ہے۔ میں محروموں کو، مظلوموں، مزدوروں اور مجبوروں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ جماعت اسلامی عام آدمیوں اور غریب عوام کی اصل جماعت ہے۔ یہاں موروثی اور خاندانی سیاست نہیں ہے۔ یہاں کوئی گدی نشین نہیں ہے۔ آئیے ہم سب مل کر مٹی بھر کر پٹ اشرافیہ کی کرپٹ فیملی کا مقابلہ کریں۔ اسلامی پاکستان کے لیے، جمہوری پاکستان کے لیے، فلاحی پاکستان کے لیے، پروگریسیو پاکستان کے لیے ایک ہوجائیں تاکہ محمود و ایاز ایک صف میں نظر آئیں۔
مَیں عوامی ایجنڈے میں یہاں ہر فرد کو خوش حال دیکھنا چاہتا ہوں۔ فرد خوش حال ہوگا تو قوم خوش حال ہوگی، پھر ریاست بھی خوش حال ہوگی۔ اس کے لیے انقلابی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ میں مانتا ہوں کہ یہاں پرانے سیاسی کھلاڑیوں اور سیاسی پنڈت بڑے مضبوط ہیں۔ ان کے پاس وسائل ہیں، امریکا ان کے ساتھ ہے اور میڈیا پر بھی ان ہی کا بول بالا ہے۔
ہمارے پڑوس چین میں غریب کسان جاگیرداروں کے خلاف اکٹھے ہوئے اور انقلاب برپا کر دیا۔ فرانس میں مزدور ساہوکاروں کے خلاف اکٹھے ہوئے اور کامیاب ہوگئے۔ ترکی میں اسلامی تحریک کے کارکنوں نے ۱۸، ۱۸ بار ایک ایک گھر پر دستک دی اور کامیاب ہوگئے۔ ہم تو ۱۸کروڑ ہیں۔ ہمارے ساتھ اللہ ہے، ہاتھوں میں قرآن ہے اور ہمارے ساتھ ایک شان دار ماضی ہے۔ اگر عوام بیدار ہوگئے تو کوئی ہماراراستہ نہیں روک سکتا۔
جب اسلامی حکومت قائم ہوگی تو ہر بے روزگار ہنرمند نوجوان کو روزگار دیں گے ، اور روزگار ملنے تک بے روزگاری الائونس دیں گے۔
ہمارا عزم ہے کہ اسلامی حکومت قائم ہوگی تو یکساں نظامِ تعلیم کو رواج دیںگے۔ جس سکول میں وزیراعظم کا بیٹا پڑھے گا اسی میں مزدور اور ہاری کا بیٹا بھی پڑھے گا۔ یکساں ماحول ہوگا تو پتا چل جائے گا کہ کون ہیرو ہے اور کون زیرو؟
ہمارے معاشرے میں ۵۱ فی صد خواتین ہیں۔ اس شرح سے ان کے لیے سکول، کالج اور یونی ورسٹیاں بھی ہونی چاہییں مگر تنگ نظر حکومتوں نے ان کو بھی تعلیم سے محروم رکھا ہے۔ اڑھائی کروڑ بچے سکول سے باہر رہ جاتے ہیںیا نکل جاتے ہیں۔
ہم غیرترقیاتی اخراجات کو کم کرکے تعلیم کو مفت اور عام کریںگے۔ میٹرک تک تعلیم لازمی ہوگی۔ تعلیم کا ذریعہ قومی زبان ہونا چاہیے اور قومی اور علاقائی زبانوں کو ان کا قرار واقعی مقام ملنا چاہیے۔ انگریزی اہم ہے لیکن انگریزی کو ذریعۂ تعلیم بنانا اوراس کی بالادستی قائم کرنے سے اجتناب ضروری ہے۔ انگریزی زبان کی بادشاہت میں کروڑوں نوجوان زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ تعلیم دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اسلامی پاکستان میں علم کے نور سے منور پاکستان میں تعلیم مرکز اور محور ہوگی۔
اسلامی فلاحی حکومت قائم ہوگی تو بڑی بیماریوں کا علاج مفت کریں گے۔
اللہ اللہ! جس غیرمسلم کی طرف سے وکیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں، کیا ہم اسے تکلیف دے سکتے ہیں۔ ملک کے وسائل پر آپ کا بھی اسی طرح حق ہے جس طرح مسلمانوں کا ہے۔
اسلامی حکومت قائم ہوگی تو بنکوں کے دروازے عام لوگوں کے لیے کھل جائیں گے۔ حکومت اسلام کے معاشی نظام کو اپنائے گی تو عام آدمی ترقی کرے گا۔
ہم حکومت سے بھی کہتے ہیں کہ وہ سود کے حوالے سے سپریم کورٹ سے اپنی اپیل واپس لے ورنہ ہم عوام سے سودی اداروں کے بائیکاٹ کی اپیل کریں گے۔ سودی نظام کی وجہ سے مہنگائی ہے۔ عالمی بنک کے قرضے بھی امیروں پر خرچ ہوتے ہیں اور ہتھکڑیاں غریبوں کو پہنائی جاتی ہیں۔ ہم زکوٰۃ کا نظام نافذ کریں گے کہ ہر بیوہ اور یتیم کی کفالت کا سامان ہوسکے۔ غریب کے لیے مفت علاج کا انتظام ہوسکے اور جو مظلوم عدالت میں اپنا فیصلہ، اپنا کیس خود نہیں چلا سکتا تو سرکار ان کو یہ سہولت دے گی۔
یہ کیسی عجیب بات ہے کہ الیکشن سے پہلے صوبے اور علاقے تقسیم کیے جاتے ہیں۔ یہاں ظاہری حکومت ایک ہے اور باطنی حکومت دوسری اور جب دونوں ایک پیج پر نہیں ہوتے تو عوام بھی مشکل سے دوچار ہوتے ہیں اور باہر کی دنیا بھی حیران ہوتی ہے کہ ظاہر حکومت سے معاہدے کرے یا باطنی سے۔ الیکشن کا راستہ ہی تبدیلی کا راستہ ہے۔ جب پُرامن جدوجہد کے راستے بند ہوجاتے ہیں پھر مسلح جتھے بنتے ہیں۔
عوام کا مطالبہ ہے کہ متناسب نمایندگی کی بنیاد پر الیکشن ہو تاکہ کسی کا ووٹ ضائع نہ ہو۔ موجودہ طریقے میں پارٹی اور لیڈر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں اور دولت مندوں کے ہاتھوں یرغمال ہوتے ہیں۔ متناسب نمایندگی میں لوگ پارٹی کو ووٹ دیں گے، منشور کو ووٹ دیں گے اور میرٹ کی بنیاد پر لوگ آئیں گے۔ پھر ہر کوئی نہیں کہے گا کہ ہمارے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے۔
ہم پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی ریاست جہاں حاکمیت اور شریعت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ہوگی اور حکومت عوام کے مخلص بندوں کی۔ اس مقصد کے لیے عوام ہمارا ساتھ دیں۔ ہمارے پاس وژن ہے، ہمارے پاس مخلص ماہرین کارکنان کی ٹیم ہے۔ ہم عوام کے تعاون سے ’اسٹیٹس کو‘ کو شکست دیں گے۔
جماعت اسلامی ہی تبدیلی لاسکتی ہے۔ کرپشن کا سومنات ہم ہی توڑ سکتے ہیں۔ ہم نے ہردور میں قربانی دی ہے۔ پاکستان کی محبت میں جماعت اسلامی کے قائدین کے جنازے جیلوں سے نکل رہے ہیں۔ ہم زلزلوں اور سیلاب کی مصیبت میں عوام کے ساتھ کھڑے تھے۔ ہم نے ہمیشہ فلسطینیوں کا ساتھ دیا ؎
سر جلائے ہیں مشعلوں کی طرح
یوں بھی لوگوں کی رہبری کی ہے
ہمارا ایجنڈا قوم نے قبول کیاتو ہم آپ کو ایک ایسی حکومت دیں گے جس میں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہوگا۔ ایک ایسی حکومت جس کا وزیراعظم ۱۸کروڑ عوام کی قیادت کرسکے۔ مسجد میں امامت بھی کرسکے اور اقوام متحدہ میں ایک ارب مسلمانوں کی نمایندگی بھی کرسکے۔ مَیں ساری جماعتوں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس ملک کی خاطر ہمارے ایجنڈے کو تسلیم کرلیں تاکہ یہ ملک ترقی کرسکے۔ یہ پارٹی کا نہیں، قومی ایجنڈا ہے۔
میرے بھائیو اور دوستو!
۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کا جو پودا لگایا گیا تھا، وہ اب ایک تناور درخت بن گیا ہے۔ جو قطر ہ تھا وہ اب ایک سمندر بن گیا ہے۔ یہ ذرّہ اب فولادی چٹان بن گیا ہے۔ ہمارے ہاتھوں میں قرآن ہے اور ہمارے رہنما نبی آخرالزمانؐ ہیں۔ ہم حق پر ہیں۔ ہمیں حق کے ساتھ چلنا ہے، حق کے ساتھ جینا ہے، اور حق کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔
انسانی تاریخ میں برپا ہونے والے انقلابات کا جائزہ لیا جائے تو یوں نظرآتا ہے جیسے مکافاتِ عمل کا ایک سلسلہ ہے جس پر غور کرنے سے کامیابی یا زوا ل اور تباہی کا راستہ واضح شکل میں نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے۔ اگر تاریخی حقائق سے آنکھیں بند کرلی جائیں تو سورج کی روشنی بھی منظر کو صاف طور پر نہیں دکھاسکتی۔ قرآن کریم نے اسی انسانی فطرت کے پیش نظر جگہ جگہ اور باربار نئے سے نئے پیرایے میں اہلِ دانش، اہلِ ہوش اور اہلِ فکر کو پکارا ہے: کدھر جارہے ہو؟ این تذھبون! آنکھیں کھولو، مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ، زمین کو، آفاق کو، اپنی ہستی کو تجزیاتی نگاہ کے ساتھ جائزہ لے کر دیکھو۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی تخلیق کردہ اشیا میں ایسی خوب صورتی ، ایسا تناسب، ایسا حُسن رکھ دیا ہے جو ہر دیکھنے والے کو اس کی قدرت، کمال اور قوت سے آگاہ کرتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ دیکھنے والے کے پاس نگاہِ بینا ہو اور اس نے عقل کے دروازے بند نہ کردیے ہوں۔ فرمایا گیا: دیکھو آسمانوں اور زمین میں، رات اور دن کے اختلاف میں منہ بولتی روشن نشانیاں ہر اُس فرد کے لیے رکھ دی گئی ہیں، جو سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۰)
کلامِ عزیز کی روشن آیات اور حق و صداقت کے یہ جواہر باشعور تحریکی کارکنوں کو متوجہ کرتے ہیں کہ جب تک وہ اپنے آپ کو اپنے رب کے ساتھ: بازار میں اور دفتر میں، گھر میں اور مسجد میں، جہاں کہیں بھی ہوں، اس کی حمد، اس کے کلام پر غوروفکر اور اس کے حضور رات کی تنہائی میں اپنی بندگی کا ثبوت پیش نہیں کریں گے، ان کے کام میں برکت پیدا نہیں ہوگی۔
اس عظیم کتابِ ہدایت، ذکریٰ اور نور کے سایے میں زندگی گزارنے کا عہد کرنے والے ہرلمحے اپنے رب سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ انھیں ان افراد میں سے کردے، جنھیں وہ خود جہنم کی آگ سے محفوظ کر دے گا اور اپنے دامنِ عفو و مغفرت میں، اپنی اُس رحمت میں جس کی وسعتیں زمین اور آسمانوں کی مجموعی وسعتوں سے زیادہ ہیں، لیتے ہوئے نہ صرف اُخروی زندگی میں ہی نہیں بلکہ اس دنیا کی زندگی میں، یہاں کے کاروبارِ حیات میں شرمندگی اور ناکامی سے بچاتا رہے، اوران میں شامل نہ کرے جو اپنے اُوپر ظلم کرنے والے ہوں۔ ان ابدی کلماتِ ہدایت کو اگر روزمرہ کی زندگی کی سرگرمیوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو نقشۂ عمل بڑا واضح نظر آتا ہے۔
اس اعلانِ توحید کا تقاضا ہے کہ اللہ کو اپنا رب ماننے والا ہر شخص اور خصوصیت سے تحریکِ اسلامی کا ہر کارکن اپنا جائزہ لے کر دیکھے کہ وہ جس مالک کی بندگی میں آنے کا اعلان زبان سے کرتا ہے، اُس عہد کا پاس کرتے ہوئے اُس نے اپنی زندگی کے ایک دن میں، ہفتے کے سات دنوں میں اور مہینے کے ۳۰دنوں میں کتنا وقت اپنے کاروبار اور پروفیشن کی ترقی میں صرف کیا، اور کتنے لمحات احتسابِ نفس کرتے ہوئے، اپنے ہرہرکام کو ستایش اور خودپرستی کی شکل میں نہیں، بلکہ اپنے کام میں کمی اور کمزوری تلاش کرنے میں صرف کیے۔
یہ کہنا بڑا آسان ہے کہ ہمارا واسطہ ایسے لوگوں سے ہے، جو بدنظمی کے عادی اور قانون شکنی پر فخر کرتے ہیں، جو مادیت کے غلام اور سیاسی مفادات کے بندے ہیں۔ یہ لوگ ہلڑبازی، ناچ گانے کے رسیا ہیں۔ ہماری باتیں سن کر ہوا میں اُڑا دیتے ہیں۔ بھلا ہم انھیں کیسے تبدیل کریں؟ کیوں نہ ہم بھی انھی نسخوں کو استعمال کریں؟ شاید اسی طرح بات دلوں میں اُتر جائے! لیکن وہ شعور جو قرآن کریم دیتا ہے وہ ایک نئے زاویے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ حسنِ صوت کو تو تسلیم کرتا ہے لیکن چیخ پکار اور دھمکیوں کی سیاست کی جگہ حکمت ِدعوت اورموعظۂ حسنہ کی حکمت عملی سے روشناس کراتا ہے۔
یہ حکمت عملی وہی ہے جو انبیاے کرام ؑ نے ہر دور میں اختیار کی۔ یہ دعوت بھی وہی ہے جسے انبیاے کرام ؑ نے ہر دور میں اپنے دور کے اُن جباروں، ناچ گانوں کے رسیا اور اپنی ذاتی عظمت اور اپنی شخصیت اور بزعمِ خود اپنی کرشمہ سازی پر فخر کرنے والوں کے سامنے پیش کی۔ یہ لوگ انبیا ؑ کی دعوت کا مذاق اُڑانے کے عادی تھے۔ اس کے باوجود انبیاے کرام ؑ بددل نہیں ہوئے، مایوس نہیں ہوئے اور انھوں نے دعوت کا کام جاری رکھا۔ ایسے افراد ہر دور میں رہے ہیں اور دعوتِ دین کا اعجاز یہی ہے کہ وہ ایسے افراد کو جو گمراہی کے گرو سمجھے جاتے ہوں، انھیں خیارکم فی الاسلام میں تبدیل کردیتی ہے۔ یہ دعوت ان لوگوں کو جو ہادیِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کے پیاسے ہوں، پلک جھپکتے شمعِ رسالت کے پروانے بنادیتی ہے۔ یہی تو وہ چیلنج ہے، جسے ایک داعی اور ایک کارکن کو اپنے رب کی نصرت پر بھروسے کے ساتھ آگے بڑھ کر اختیار کرنا ہے۔ یہی اقامت ِ دین کا تقاضا ہے۔
اس دعوت اور دعوت کے طریق کار کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں نمود و نمایش اور ریا کا کوئی دخل نہ ہو۔ خودستائی اور ہربات کی تان ’میں‘ پر آکر نہ ٹوٹتی ہو۔ اس دعوت کے طریقے میں حکمت ِ دین کو اختیار کیا گیا ہو، یعنی دعوتی ترجیحات متعین ہوں اور ایک ترتیب سے ،ایک منصوبے کے تحت اقدامات کیے جائیں۔ اگر رب کریم نے ایسے مواقع پیدا کردیے ہوں کہ کسی مقام پر برسوں سے قابض سیاسی قوتوں کی نااہلی، خرابی اور بدمعاملگی کی بنا پر عوام کوئی اور راستہ تلاش کرنے لگے ہوں، تو ایسے حالات میں اپنے رب کے ساتھ اپنی وابستگی میں اضافہ، اپنی کمزوریوں کا جائزہ اور اس کی نصرت کے سہارے روشن مستقبل کی حکمت عملی پر بلاتاخیر دن رات کی محنت سے کام میں لگ جانا ہی دینی مصلحت ہے۔
اقامت ِ دین کی جدوجہد اور جہاد فی سبیل اللہ کو دن اور رات کی متاعِ حیات سمجھتے ہوئے اختیار کیا جائے، اس تگ و دو اور جہاد کا مقصد نہ محض حصولِ اقتدار ہو، نہ عوامی مقبولیت و شہرت، نہ علمی کمال کا اعتراف، بلکہ صرف اور صرف وتوفنا مع الابرار کی تمنا اور اس تمنا کی تکمیل کے لیے ہمہ تن شہادتِ حق میں مصروف ہوجانا ہو۔
اس جدوجہد میں مصروف ایک کارکن ہو یا قائد، اس کا ہر چھوٹا یا بڑا عمل، وہ جو عالم الغیب والشہادہ ہے ،اسے اپنے پاس محفوظ کرلیتا ہے اور ضائع نہیں ہونے دیتا۔ ایک عام دیکھنے والی آنکھ یہ سمجھتی ہے کہ اقامت ِ دین کی جدوجہد میں کسی اجتماع گاہ میں کرسیوں کی صف بنانا، یا دریاں بچھانا، یا شرکاے اجتماع کا خوش دلی سے استقبال کرنا ایک چھوٹا سا عمل ہے، لیکن وہ جو سراپا رحم و رحمت ہے، وہ ایسے کام کو بھی جس میں جیب سے ایک پیسا خرچ نہ ہو رہا ہو، ایک صدقہ قرار دیتا ہے۔ لکھنے والے اس چھوٹے سے عمل کو بھی ایسے لکھتے ہیں جیسے اس نے اپنی جیب سے سونے کا پہاڑ اللہ کی راہ میں انفاق کر دیا ہو۔
اقامت ِ دین کی مستقبل کی حکمت عملی کا ہدف جہاں اس دنیا میں متوقع نتائج کے تناظر میں ہونا ہے، وہاں اُس سے بھی زیادہ آخرت میں کامیابی کے نقطۂ نظر سے طے ہونا چاہیے۔ اس دنیا میں سیاسی اتحاد ہو یا معاشی اتحاد، وقتی افہام و تفہیم ہو یا طویل المیعاد اسٹرے ٹیجک تعاون، ایسے تمام معاہدوں پر غور کرتے ہوئے مقصود و مطلوب حصولِ اقتدار نہیں بلکہ حصولِ رضاے الٰہی ہونا چاہیے۔ اس جادۂ حق پر عمل کرتے ہوئے حصولِ مقصد کے لیے عمرنوح ہی کیوں درکار نہ ہو۔
یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے یہود و نصاریٰ کے حوالے سے بُرہانِ قاطع ہمارے سامنے رکھ دی ہے کہ وہ کبھی اسلامی جماعت کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے۔ اگر یہودو نصاریٰ کے رویے پر اصولی نقطۂ نظر سے غور کیا جائے تو وہ طرزِعمل غیریہودی اور غیرنصاریٰ میں بھی پایا جاسکتا ہے، یعنی جو اپنے وعدوں کو مسلسل توڑنے اور ان کے خلاف عمل کرنے کی ایک تاریخ رکھتے ہوں۔
اس تناظر میں تحریکاتِ اسلامی کو اپنے روشن مستقبل کے حوالے سے یہ سخت فیصلہ کسی نہ کسی مرحلے میں کرنا پڑتا ہے کہ ایک وقتی مفاد کو ترجیح دی جائے یا ابدی کامیابی کے لیے طویل جدوجہد کے راستے کو اختیار کیا جائے۔ یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جس میںحکمت دین (جو اللہ کی طرف سے ایک عطیہ ہے) کے ساتھ زمینی حقائق کا جامع علم رکھنا انتہائی اہم اور ضروری ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر کہیں مڈٹرم انتخابات کا معاملہ ہو تو اپنی مقبولیت و شہرت کا اظہار کرنے کے لیے ہرہرمقام سے افراد کو قیادت کے لیے کھڑے کر دینا جذباتی اعتبار سے تو شاید قابلِ فہم ہو مگر طویل عرصے کی حکمت ِعملی کے اعتبار سے محلِ نظر ہے۔ ہماری کامیابی کا انحصار اصولی اور اخلاقی برتری پر ہے، عوامی برتری پر نہیں۔ ممکن ہے قریب تک دیکھنے والی نگاہ کے لیے ایک اچھا کام ہو، لیکن وہ جو دُور رس نگاہ رکھتا ہو اس کے لیے فوری اور بھاری کامیابی کی جگہ وہ عمل جو چاہے چھوٹا نظرآئے مگر دیرپا ہو اور مطلوبہ تبدیلی کے لیے مؤثر ذریعہ بنے، کہیں زیادہ اہم ہے۔ انبیاے کرام ؑ اور اہلِ حق کی نظر ظاہری سے زیادہ اس کامیابی پر رہی ہے جو جوہری اعتبار سے دین کے قیام کے لیے ممدومعاون ہو اور سب سے بڑھ کر جو آخرت میں جواب دہی کے وقت ساتھ دے سکے۔ گویا سیاسی حکمت عملی ہو یا انسانوں کو دین کی طرف بلانے کے ذرائع، ہرشعبے میں اصل ہدف آخرت کی کامیابی اور ’ابرار‘ کے ساتھ جنت میں داخلے کی طلب ہو، تو پھر دنیوی اعتبار سے بھی مفید اور دیرپا اثرات رُونما ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی یہی توشۂ نجات ہوں گے۔ اس پس منظر میں ہماری کامیابی اور ناکامی کا معیار محض دنیا طلب قوتوں سے مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کبھی یہاں کی ظاہری ہاری ہوئی بازی بھی بہت بڑی کامیابی میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
ایک ظاہربین نگاہ کے لیے تو قریب المیعاد کامیابی ہی قوت کا مظہر ہوتی ہے کہ کسی طرح اقتدار پر قابض ہوجائے۔ کسی طرح ایک مروجہ نظام کو چیخ پکار کے ذریعے ایک نام نہاد، غیرمنصفانہ، غیرجمہوری نظام قرار دے کر گلی کوچے میں ہلڑبازی کرنے والوں کی مدد سے گرا کر کرسیِ اقتدار پر قبضہ کرلیا جائے۔ مگر ایسی تبدیلی صرف قصرِاقتدار کے پہرے داروں کی تبدیلی ثابت ہوتی ہے۔ لیکن وہ جو بجاے خود نہ اقتدار کا طالب ہو، نہ سیدھے یا ٹیڑھے قوتِ نافذہ پر قبضہ کرلینے کو فتح سمجھتا ہو، بلکہ اُس کے لیے اصل مقصود اللہ رب العالمین کی رضا اور خوشنودی ہوتی ہے، وہ اُس راستے کو اختیار کرتا ہے جو چاہے طویل ہو لیکن ہرقدم انبیاے کرام ؑ کے نقوشِ پا کی پیروی میں آگے بڑھ رہا ہو۔
وہ جو روشن مستقبل اور اُخروی کامیابی کے لیے پکارتے ہیں، جو نمازوں میں خشیت اختیار کرتے اور اپنی عبادات میں توازن و اعتدال اختیار کرتے ہیں، جو اپنے وعدوں اور عہد کی پاسداری کرتے ہیں، جو اپنی پاک بازی پر قائم رہتے ہیں، جو اپنے اہلِ خانہ کو اپنے عمل سے دعوت دے کر نارِ جہنم سے بچانے والے ہوتے ہیں___ ایسے ہی اہلِ ایمان کے لیے کہا گیا ہے کہ اگر وہ اقامت ِ دین کی جدوجہد میں صرف ۲۰ افراد ہوں تو ۲۰۰ پر غالب آئیں گے۔ دنیا ہجوم جمع کر کے اپنی قوت کا مظاہرہ کرتی ہے اور غضب ناک ہجوم کے بل پر نظاموں کو تہس نہس کرنے کا اعلان کرتی ہے، جب کہ ربِ کریم ان اہلِ ایمان کی صرف ۲۰ کی نفری کو جنھیں ہم کسی شمارقطار میں نہیں لاتے ۲۰۰؍افراد پر بھاری ہونے کا فیصلہ فرماتے ہیں۔ سوچنا ہوگا کہ وہ ۲۰؍ افراد کیا اپنی قوتِ ایمانی، ایثار و قربانی، مقصد کی لگن، منزل کے واضح شعورسے کس حد تک آگاہ ہیں۔ اگر ان کا تصورِ منزل دھندلا گیا ہو، اگر ایثاروقربانی کی جگہ نفسا نفسی ہو، اگر قوتِ ایمانی کی جگہ محض افرادی قوت کو کامیابی کا پیمانہ بنابیٹھیں، تو یہ قصور حکمت ِعملی کا نہیں ان افراد کا ہے جو آغازِ سفر ہی کو اپنی منزل سمجھ بیٹھے ہوں۔
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جو راہِ حق میں داعی بن کر نکلا ہے، کیا اُس نے واقعی وہ ہجرت کی ہے جو اسے ان تمام تعلقات اور وابستگیوں سے آزاد کرے، جو ماضی میں اس کی زندگی کا حصہ رہی ہیں؟ کیا وہ اب بھی اپنے کاروبار میں وسعت و برکت کی بنا پر اپنے آپ کو طاقت ور انسان سمجھتا ہے؟ کیا وہ اب بھی قیادت و سربراہی کرنے والے افراد کے اردگرد رہ کر اپنے مستقبل کے روشن امکان تلاش کرتا ہے؟ کیا وہ منظرنامے میں نظر نہ آنے کو پسند کرتا ہے اور اُس اینٹ کی طرح جو منوں ملبے کے بوجھ تلے دب کر بنیاد کا حصہ بن جاتی ہے اور جسے کبھی کوئی پرچم لگاکر نمایاں نہیں کیا جاتا، خاموش کارکن کی حیثیت سے اپنے دعوتی کام میں مصروفِ عمل رہتا ہے۔ کیا وہ اللہ کی راہ میں باطل کے خلاف جدوجہد کرتے وقت نہ صرف اپنے وقت، اپنی صلاحیت، اپنے مال، بلکہ اپنی جان کو بھی بازی پر لگانے کے لیے تیار رہتا ہے۔
ایسے افراد کے لیے ان جنتوں کا وعدہ ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ جہاں ہر وہ شے ہے جو ایک متلاشیِ حق کو خوش، مطمئن اور مسرور کرسکتی ہے۔ اس حقیقی منزل تک پہنچنے کا راستہ جس وادی سے گزرتا ہے، وہ یہی چند روزہ دنیا ہے جہاں اصل کارزارِ حیات حق و باطل کی کش مکش ہے۔ جہاں ایک شخص کو صرف اور صرف ہدایتِ الٰہی اور سنتِ رسولؐ سے اپنی حکمت عملی اور طریق کار کو اخذ کرنا ہے۔ ہمارے لیے غورطلب بات یہ ہے کہ کیا ہم ان ۲۰؍افراد میں سے ہیں جن کی کامیابی کا وعدہ وہ ہستی کر رہی ہے جس کا ہر وعدہ سچا ہوتا ہے!
اس منزل کے حصول کے لیے جو وصیت قرآن کریم فرماتا ہے وہ بڑی واضح، عملی اور جامع ہے، یعنی اہلِ ایمان کا صبر کی روش کو اختیار کرنا اور مضبوطی کے ساتھ، یکسو ہوکر اسلامی دعوت میں لگ جانا۔ موعظۂ حسنہ اور حکمت کے ساتھ دین کو بلاکسی تردد اور مداہنت کے پیش کرنا۔ وہ ایوانِ حکومت ہو یا عوامی اجتماع، حق کی بات کو پہنچانا اور اس میں کمی بیشی نہ کرنا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ بعض سیاسی اتحادوں سے وقتی فائدے ہوسکتے ہیں، جو شاید دعوت کی توسیع میں آسانی پیدا کردیں گی، اس کے باوجود ان قوتوں کے ساتھ شامل نہ ہونا جو اپنی ذاتی زندگی میں اور سیاسی تاریخ میں دین کا احترام نہ کرتی ہوں۔ عقل کہتی ہے کہ کشاکش کا حصہ بننے سے تنہا صدیوں تک جدوجہد کرنا زیادہ برکت کا باعث ہے۔
بلاشبہہ بعض مشروط اتحاد ایسے ہوسکتے ہیں جو وقتی مصلحت کی بنا پر کیے جائیں لیکن وہاں بھی اس بات کا خیال رکھنا کہ تحریک کسی ایسے کام میں تعاون نہ کرے جو دین کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہو۔ جس طرح کفر ملت واحدہ ہے ایسے میں قرآن کریم چاہتا ہے کہ اسلامی جماعت کے افراد کی پہچان صبر، ربط باہمی اور تقویٰ ہو: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (الِ عمرٰن ۳:۲۰۰) ’’اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، صبر پر قائم ہوجائو، صبر پر ثبات کے ساتھ قائم رہو، آپس میں جڑجائو، ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح سے، تمھارے دل اور تمھارے احساسات سب یک جان ہوجائیں‘‘۔
اصْبِرُوْا کہنے پر اکتفا نہیں کیا گیا اور فوری طور پر کہا گیا وَ صَابِرُوْا، یعنی یہ ایک انفرادی صفت ِ محمودہ نہیں ہے بلکہ اسے اجتماعی طور پر اختیار کیے بغیر کامیابی نہیں ہوسکتی۔ اس صبر کا مفہوم نہ صرف انفرادی طور پر استقامت ہے بلکہ تحریک کا مجموعی طور پر اس طرزِعمل کو اختیار کرنا ہے جو اس کے اخلاص، تقویٰ، بے لوثی اور صرف اور صرف رضاے الٰہی کے حصول کا مظہر ہو۔
تحریکاتِ اسلامی کی مستقبل کی حکمت عملی میں جائزہ و احتساب کو مرکزیت حاصل ہے کہ ہماری آج تک کی پالیسی میں کہاں خلا تھا، کہاں عاجلانہ اقدام کیا گیا، اور کہاں مستقبل کے مطالبات کو سمجھتے ہوئے حکمت عملی اختیار کی گئی، جس کی بنیاد قرآن و سنت کے اصول ہوں، تو پھر وہ غیبی نصرت، جس کا وعدہ ماضی میں انبیاے کرام ؑ کی اُمتوں سے کیا گیا تھا، جس کا وعدہ اُمت محمدیہؐ سے کیا گیا ہے، وہ نصرت آئے گی۔
قوموں کی زندگی میں ایسے مواقع بارہا آتے ہیں جب دیکھنے والی آنکھ یہ سمجھے کہ ملک میں افراتفری ہے،قانون کو پامال کیا جا رہا ہے، حکومت اور مہذب معاشرہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر رہے، حکومت ماضی اور حال سے کوئی سبق لیے بغیر اپنی روش پر قائم ہے، معیشت غیرمستحکم ہے، ثقافتی یلغار جاری ہے۔ جس ملک کو پسندیدہ قرار دیا جاتا ہے وہ ہماری شہری آبادی پر بم باری کر رہا ہے اور سیاسی بیانات میں خصوصاً کشمیر کے حوالے سے وہ باتیں دہرا رہے ہیں جن کا ہرلفظ زہر، عناد اور تکبر سے بھرا ہوا ہے۔ ان حالات میں دارالحکومت میں دھرنے کی شکل میں دو سیاسی جماعتوں نے اپنی حمایت اور قوت کے مظاہرے کے ساتھ ایسی صورت حال پیدا کردی کہ اچھے خاصے باشعور افراد بھی ملک کی سالمیت، یک جہتی اور تحفظ کے حوالے سے خاصے فکرمند نظر آتے ہیں۔
اس تناظر میں کیا ایک عام شہری سیاسی منظرنامے کے پیش نظر مستقبل کو روشن اور کامیابی سے ہم کنار دیکھ رہا ہے یا اُس میں ہمت اور ارادے میں کمی اور شدید مایوسی کی کیفیت پیدا ہورہی ہے؟ اس حوالے سے برقی ابلاغ عامہ نے خصوصاً جو کردار ادا کیا ہے، قوم اسے کس نگاہ سے دیکھتی ہے، اور اس عرصے میں جو سیاسی مطالبات بار بار دہرائے جاتے رہے ہیں، ان کے کیا اثرات ملک کے اندر اور عالمی تناظر میں پاکستان کی تصویر (image) پر پڑ رہے ہیں؟ ملک میں سیاسی ارتقا کے نقطۂ نظر سے دو جماعتوں کی مہم جمہوری روایت کو تقویت دے گی یا تبدیلی یا انقلاب کا نعرہ دوبارہ قوم کو اُس مقام پر لاکھڑا کرے گا کہ ماضی کے چار مارشل لائوں کی طرح ایک مرتبہ پھر خدانخواستہ سیاسی بساط کو لپیٹ دیا جائے، اور فوج ملک کی نجات دہندہ بن کر ایک پیشہ ورانہ نمایندہ حکومت اپنی سرپرستی میں قائم کرنے کے بعد یہ طے کرے، کہ اسے دوبارہ اپنی بیرکوں میں واپس جانا ہے، یا ماضی کی طرح کم از کم ۱۰ برسوں کے لیے ملک میں اصلاح کے نام پر فوج کو سابقہ فوجی سربراہوں کی طرح جمہوریت کے احیا کے نام پر جمہوریت کا قتلِ عام کرنا ہے؟
یہ وہ چند سوالات ہیں جو آج قوم کے ہرباشعور فرد کو پریشان اور متفکر کر رہے ہیں۔ یہ سوالات کوئی نئے سوالات نہیں ہیں۔ ماضی میں جب بھی فوج نے سیاسی اقتدار سنبھالا تو اسی نوعیت کے سوالات قوم کے ذہن میں اُبھرے تھے۔ اب ان کی شدتِ تاثیر میں اضافہ ہوگیا ہے۔ برقی ذرائع ابلاغ عامہ مسلسل مایوسی اور الزام تراشی کو ہوا دے رہے ہیں۔ ایک جانب حکومت مخالف صحافتی اتحاد اور دوسری جانب حکومت حمایتی صحافتی اتحاد جس طرح حالات کا رُخ دکھا رہا ہے، اس نے ابلاغ عامہ کی غیرجانب داری اور معلومات کو ان کے صحیح تناظر میں پیش کرنے اور براہین پر مبنی واقعات پیش کرنے پر سے قوم کے اعتماد کو اُٹھا دیا ہے اور ابلاغ عامہ صحافتی دیانت (professional integrity) سے عوام کو حالات و واقعات سے مطلع کرنے کے بجاے خود سیاسی پریشر گروپوں کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔
جب برقی ابلاغ عامہ دن کے کم از کم ۱۰ گھنٹے مسلسل دو متضاد تصاویر پیش کر رہے ہوں، ایک حکومت کے اقدامات کی توثیق اور عقلی جواز اور دوسری جانب چند ہزار افراد کے ایک ہجوم کا مطالبہ کہ اپنی ناکارہ کارکردگی کی بنا پر حکومت ِوقت مستعفی ہوجائے اور پانچ سال تک انتظار کرنے کے بجاے فوری طور پر مستعفی ہوجائے اور چند ماہ میں تازہ انتخابات کرائے جائیں، تو نہ صرف مغالطہ بلکہ حالات سے مایوسی کا رجحان بھی تقویت پکڑنے لگتا ہے۔
ان حالات سے نجات کی راہ کیا ہو اور کس طرح فوج کی دخل اندازی کے بغیر حالات کو صحت مند اور تعمیری رُخ پر لے جایا جائے؟ یہ وہ اہم سوال ہے جس پر ملک کے ہرباشعور شہری کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
دو سیاسی جماعتوں کے گذشتہ مہینوں کے احتجاجی منظرنامے نے بعض بنیادی پہلو اُجاگر کیے ہیں۔ ایک یہ کہ ملک کے عوام پاکستان میں دو پارٹیوں اور فوج کے یکے بعد دیگرے ملک پر حکمرانی کرتے رہنے سے تنگ آچکے ہیں اور اب دو نام نہاد بڑی پارٹیاں عوام کے اعتماد سے محروم ہو چکی ہیں۔ دونوں کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ فرق صرف انیس بیس کا ہے۔ جب ایک پارٹی پانچ سال حکومت کرتی ہے تو لوگ ایک ایک دن گن کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں کب ان سے نجات دے گا، اور جب دوسری پارٹی برسرِاقتدار آتی ہے تو محض چند دن کے لیے تویہ احساس اُبھرتا ہے کہ شاید یہ اپنی ماضی کی غلطیوں پر نادم ہوکر قوم کو معاشی، سیاسی، اخلاقی اور اندرونی وبیرونی خطرات سے محفوظ کرنے میں کوئی پیش رفت کرے گی، لیکن چند ماہ کے بعد ہی یہ اُمید دم توڑتی نظر آتی ہے اور پھر تبدیلی کے انتظار کی گھڑیاں شروع ہوجاتی ہیں۔
لیکن آخر کب تک؟ یہی وجہ ہے کہ حالیہ احتجاج نے قوم کی ایک نفسیاتی ضرورت کو پورا کیا اور اسے بلندآواز سے یہ اعلان کرنے کا موقع دیا کہ وہ دو موروثی سیاست والی جماعتوں کی جگہ ایک تیسری نجات دہندہ قوت کی منتظر ہے۔ یہ ایک انتہائی مثبت طرزِعمل ہے جو اُبھر کر سامنے آیا ہے۔
اس فضا میں جو سوالات ہرباشعور شہری کے ذہن میں اُبھر رہے ہیں وہ بھی کچھ غیراہم نہیں ہیں، مثلاً یہ کہ ملک کی آبادی کا تقریباً نصف یا ۶۰ فی صد حصہ نوجوان آبادی کا ہے اور کم از کم ایک سیاسی پارٹی نے ان نوجوانوں کو سابقہ انتخابات اور حالیہ احتجاج کی مہم میں شامل کر کے اس بات کا ثبوت فراہم کیا ہے کہ اگر نوجوانوں کو صحیح طور پر متحرک کیا جائے تو ملکی حالات میں اصلاح کے لیے ایک تیسرے عنصر کا اُبھرنا اور کامیاب ہونا ایک ممکن بات ہے۔ بزرگ اور معمر سیاست کاروں کی سیاسی دانش مندی، تجربہ اور حکمت کے اعتراف کے ساتھ اب دَور نوجوان قیادت کا ہی ہے۔ اس لیے وہی سیاسی جماعت قیادت کی زیادہ مستحق ہوگی جو بڑی تعداد میں نوجوانوں کو اپنے ساتھ لے کر ان کی قوت کو تعمیری رُخ دے اور روایتی سیاست سے ہٹ کر قومی مفادات کے حصول اور عوام کی مشکلات کے حل کے لیے خود قوم کی عملی شرکت کے ذریعے تبدیلی کی راہ ہموار کرے۔
یہ بات بھی کھل کر سامنے آگئی ہے کہ تبدیلی کی ضرورت پر قومی اجماع ہے لیکن تبدیلی کون سی؟ اور نوجوانوں کو متحرک کرنے والا کون سا نعرہ؟مستقبل کی تعمیرواصلاح کی کون سی حکمت عملی اور کون سا ٹھوس قابلِ عمل منصوبہ قوم کو اس دلدل سے نکال سکے گا؟
۱۸ کروڑ انسانوں نے اپنی آنکھوں سے تبدیلی کے نام پر ہرشب نوجوانوں کو موسیقی اور رقص میں مصروف جو منظر دیکھا، اس پر قوم یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ تبدیلی لانے کے دعوے دار ایک جانب جس معاشی اور سیاسی حل کا ذکر کر رہے ہیں، کیا ان کے پاس کوئی واضح پروگرام ہے اور کیا ایسی ٹیم موجود ہے جو اہلیت اور دیانت کے ساتھ انقلابی تبدیلیوں کا سفر کامیابی سے انجام دے سکے؟ محض جوش اور بھنگڑوں کے ذریعے تو یہ کام انجام نہیں پاسکتا۔ اس کے لیے جہاں نوجوان خون ازبس ضروری ہے، وہیں مقصد اور منزل کا صحیح شعور رکھنے اور اعلیٰ صلاحیت اور اچھے اخلاق کی حامل نئی قیادت بھی بشرط لازم ہے۔ ضرورت ایسے نوجوانوں کی ہے جو اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے دیے ہوئے تصورِ پاکستان پرسنجیدگی سے یقین رکھتے ہوں۔ جن کے شب و روز اس ملک کی نظریاتی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں صرف ہورہے ہوں، جنھیں محض موسیقی اور رقص کی کشش کھینچ کر نہ لائی ہو بلکہ وہ سوچ سمجھ کر اس ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ہرقربانی دینے کے لیے تیار ہوں اور جن سے اعلیٰ کارکردگی اور بہترین اخلاق دونوں کی توقع کی جاسکے۔
اس پہلو سے دیکھا جائے تو جس طرح ایک طوفان کی طرح تبدیلی کا نعرہ اُبھرا اور اسے پذیرائی ملی، اس رفتار سے شام کی محفلوں، بیانات اور عمل میں تضاد نے اُس تیسرے راستے (option ) کی اُمید کی لَو کو مدہم کردیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ نوجوانوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے انھیں محض شورشرابے اور اُچھل کود کی جگہ ایک واضح نقشۂ عمل دے کر متحرک کیا جائے، تاکہ قوم مایوسی اور نااُمیدی سے نکل سکے اور نوجوان علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے تصورِ پاکستان کو عملی شکل دے سکیں۔
ملک کی دو آزمودہ سیاسی پارٹیوں اور دیگر جماعتوں نے اس سیاسی ارتعاش کے دوران جس عزم کے ساتھ دستورِ پاکستان کی پاس داری پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا ہے، چاہے اس کا سبب ان کی اپنی کوئی ذاتی ضرورت ہی کیوں نہ ہو، اس کے باوجود یہ ایک قابلِ تحسین عمل ہے۔ اس کے مقابلے میں جن جماعتوں نے دستور اور اسمبلی کے ادارے کو یا عدلیہ کو نظرانداز کرتے ہوئے ماوراے دستور اقدامات کا مطالبہ کیا ہے، شاید انھیں جلد یا بدیر اپنے موقف کی کمزوری کا احساس ہوجائے گا۔
سیاسی عمل کا تحفظ اور تسلسل ملکی مسائل کے دیرپا حل کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ ملک سے افلاس، بھوک، تعلیم کی کمی، مغرب کی اندھی تقلید اور غلامی، ریاستی اداروں کی کمزوری، فرقہ واریت، اسلام کے نام پر تشدد کا استعمال، اور تشدد کو دُور کرنے کے بہانے اسلام پر ہاتھ صاف کرنے کی خواہش، جہاد کو دہشت گردی سے وابستہ کرنا، بعض علاقائی اور قبائلی روایات کو پہلے اسلام قرار دینا اور پھر ان کے پردے میں دراصل اسلام پر تنقید کرنا، ان مسائل کو جو ہمارے آج اور مستقبل سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، انھیں بلاضرورت اُبھار کر پیش کرنا___ یہ اور ان جیسے مسائل کا حل صرف ایک ہے کہ قوم کے سامنے ایک ایسا واضح اور قابلِ عمل نقشۂ کار پیش کیا جائے جو بجاے نظری حل پیش کرنے کے، عملی حل پیش کرے۔ پاکستان کی نظریاتی اساس کا فیصلہ تو مفکرِپاکستان علامہ اقبالؒ اور بانیِ پاکستان محمد علی جناحؒ کے ۱۰۰ سے زیادہ ارشادات کی روشنی میں قرارداد مقاصد اور دستور پاکستان میں دوٹوک الفاظ میں رقم کیا جاچکا ہے کہ اس ملک کی بنیاد صرف اور صرف اسلام ہے۔ اصل کرنے کا کام یہ ہے کہ دستور میں دیے ہوئے قومی پالیسی کے اصولوں کی روشنی میں عوام کے مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں، مفاد پرست طبقات کی گرفت سے قوم کو نجات دلائی جائے اور تعمیرو تشکیلِ نو کے لیے صحیح ترجیحات کے تعین کے ساتھ ان پر عمل درآمد کے لیے حکمت عملی اور مدت کے تعین کے ساتھ نقشۂ کار پیش کیا جائے، تاکہ قوم جس تیسری قیادت کی تلاش میں ہے، اُس قیادت کی طرف سے قوم کے سامنے ایک قابلِ عمل منصوبہ آسکے۔ نعروں، احتجاجوں اور دھرنوں کی جگہ معاشی، معاشرتی، تعلیمی، قانونی، ضلعی سطح پر پیش آنے والے مسائل کے حل شریعت کی روشنی میں ترتیب دینے کے ساتھ، ملک کے نوجوانوں کو اُس تبدیلی کے عمل میں مصروف کیا جائے جو مصلحانہ جہاد کا درجہ رکھتی ہو۔
قرآنِ کریم نے ہمیں بار بار اس طرف متوجہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اپنی حکمت ِعملی شیطان کی سو حکمت ِعملیوں پر غالب ہوتی ہے۔ پاکستان لازمی طور پر ایک ایسے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے جب عوام نے ایک تیسرے حل اور تیسری پسند کے بارے میں کھل کر حمایت کا اعلان کیا ہے۔ تحریکِ اسلامی نے اس بحران میں اللہ تعالیٰ کی مدد سے اپنے ناقدین اور حامیوں اور حمایتیوں دونوں کی نگاہ میں ایک اچھا مقام حاصل کیا ہے، اور آج پاکستانی عوام اس بات کے شاہد ہیں کہ سنجیدہ، بے لوث، قابلِ اعتماد اور تعمیری رُخ پر لے جانے والی قیادت تحریک میں موجود ہے۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ بلاتاخیر ملک کے نوجوانوں کو تحریک سے وابستہ کرنے کے لیے شہروں اور ضلعوں کی بنیاد پر ایک منصوبۂ عمل بنایا جائے۔ اس میں اس بات کا خیال رہے کہ ہم کن تعمیری سرگرمیوں کو اختیار کرسکتے ہیں اور کم سے کم مدت میں نوجوانوں کی کتنی تعداد کو دعوتِ حق سے روشناس کرانے کے بعد ان کی زندگیوں میں عملی تبدیلی لاسکتے ہیں۔ کردار کی تبدیلی اور خلوصِ نیت کے ساتھ اللہ کی بندگی اختیار کیے بغیر نوجوانوں کا کوئی جمِ غفیر ایک ہجوم تو فراہم کرسکتا ہے، حقیقی سماجی تبدیلی نہیں لاسکتا۔
آج تحریک کے لیے سنہری موقع ہے کہ تاریخ اسلامی تحریک کو ایک کلیدی کردار کی دعوت دے رہی ہے جس میں ملک و ملّت سے تمام مخلص اور خیرخواہ عناصر کو جمع کر کے اور نوجوانوں کی قوت کو صحیح طور پر منظم کر کے پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی اور جمہوری ریاست کی اس منزل کی طرف رواں دواں کیا جاسکتا ہے جو تحریکِ پاکستان کا اصل مقصد اور ہدف تھا۔
اس تبدیلی کی بنیاد محض ہمارے دعوے نہیں ہوسکتے۔ ہمیں قوم اور خصوصیت سے نوجوانوں کو متعین طور پر ایک ایسا منشور اور نقشۂ کار دینا ہوگا جو ان کی اُمنگوں، قوتوں اور صلاحیتوں کو تعمیری اور مثبت رُخ پر لے جائے، اور وہ ہنگاموں اور بھنگڑوں کی ثقافت سے نکل کر اقبال کے شاہینوں کی طرح نئے اُفق اور نئے محاذوں پر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد کے سہارے ملک و ملّت کا پرچم سربلند کرسکیں۔
قرآنِ کریم تعداد کی قوت کی جگہ تقویٰ، ایمان، اخلاص اور ایثار و قربانی کی بنیاد پر ایک نئی نسل کی تعمیر چاہتا ہے۔ جیساکہ پہلے عرض کیا گیا وہ صرف ایسے ۲۰ باشعور، مخلص، عادل نوجوانوں کو تربیت دے کر یہ اصول بیان کرتا ہے کہ یہ ۲۰ اللہ کے سپاہی، ۲۰۰ مسلح اور اعلیٰ ٹکنالوجی سے لیس افراد کو بآسانی شکست دے سکیں گے۔ گویا سوال صرف ۲۰ نوجوانوں کا ہے۔ یہ تربیت یافتہ نوجوان جن کے سامنے منزل واضح ہو اور لائحہ عمل قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب کرلیا گیا ہو، اپنے سے ۱۰گنا زیادہ باطل نظام کے ماننے والوں پر بھاری رہیں گے۔ یہ اعلان اُس کی طرف سے ہے جو انسانوں اور کائنات کا خالق ہے۔ جس کا ہر وعدہ سچا ہوتا ہے۔ کیا وقت نہیں آگیا کہ نوجوانوں کو متحرک و سرگرم کرکے ملک گیر پیمانے پر عوام کی انتظار کی گھڑیوں کا جواب فراہم کیا جائے!
قرآن کریم نے توحید کو انبیاے کرام ؑ کی دعوت کا مرکزی مضمون قرار دیا ہے۔ ہر دور میں ہراُمت کو دعوت دیتے وقت انبیاے کرام ؑ نے صرف یہی کہا : اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ (النحل ۱۶:۳۶)، یعنی ایک مثبت رویہ اور طرزِعمل کو اختیار کرتے ہوئے صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بندگی اور اپنے آپ کو ہرقسم کے باغیانہ اور نافرمانی کے رویے سے نکال کر اللہ کی پناہ میں آجانا۔ اسلام اللہ کی بندگی، اللہ کی حاکمیت، ربوبیت اور آخرت میں مالکِ حقیقی ماننے اور اپنے عمل سے اطاعت کے رویے کے اظہار کا نام ہے۔ توحید کے مطالبات میں سے ایک مطالبہ یہ ہے کہ رب کریم اپنی رحمت و ربوبیت میں جوشِ کمال کے سبب یہ چاہتا ہے کہ اسے خوش کرنے کے لیے اس کے بندوں کی خلوص کے ساتھ مدد، رہنمائی اور دست گیری کی جائے۔ ایسا کرنے میں اللہ کا بندہ،نہ صرف ربِ کریم کے عبد کی حیثیت سے اس کی عبادت کر رہا ہوتا ہے، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ایک اعلیٰ صفت کو ادنیٰ انسانی درجے پر اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کے اخلاقِ حمیدہ کی پیروی کر رہا ہوتا ہے۔
تحریکِ اسلامی کی دعوت کا بنیادی نکتہ بھی اللہ تعالیٰ کی بلاشرکت غیربندگی اور اللہ کی حاکمیت کو زمین پر قائم کرنے کی جدوجہد کرنا ہے۔ تحریکِ اسلامی کے ہر باشعور کارکن کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ دین کی دعوت چند مراسمِ عبودیت کی طرف بلانے تک محدود نہیں ہے، بلکہ اللہ کے بندوں کو مشکلات سے نکالنے، ان کی خدمت کے ذریعے ربِ کریم کو خوش کرنے کا نام ہے۔ مکہ مکرمہ میں دعوتِ توحید محض نظری دعوت نہ تھی، بلکہ مظلوم کو ظالم کے چنگل سے نکالنے اور لوگوں پر سے بوجھ اُتارنے کا نام تھی۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے ہزارہا اشرفیاں ان معمر اور کمزور افراد کو رہا کرانے میں صرف کردیں جن سے انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اس طرح حضرت ابوبکرؓ نے خدمت ِ خلق اور رفاہِ عامہ کے کام کا اجر اپنے رب کے پاس محفوظ کرلیا۔
قرآنِ کریم کے بنیادی مضامین سے ایک اہم مضمون انفاق فی سبیل اللہ ہے جس کی وضاحت خود قرآن کریم نے کردی ہے: یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ط وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ o (البقرہ ۲:۲۱۵)’’لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتہ داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے اللہ اس سے باخبر ہوگا‘‘۔
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ فعل خیر کی اصطلاح کا استعمال حقوق العباد کی ادایگی میں غیرمعمولی وسعت پیدا کردیتا ہے: وَمَآ اَدْرٰکَ مَا الْعَقَبَۃُ o فَکُّ رَقَبَۃٍ o اَوْ اِِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ o یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ o اَوْمِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ o (البلد۹۰:۱۲-۱۶)’’ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گھاٹی؟ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا، یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا‘‘۔ یہ وہ فعلِ خیر ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّکُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o(الحج ۲۲:۷۷) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو رکوع اور سجدہ کرو، اپنے رب کی بندگی کرو اور نیک کام کرو اسی سے توقع کی جاسکتی ہے کہ تم کو فلاح نصیب ہوگی‘‘۔
سورئہ ماعون میں مزید فرمایا گیا: اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ o فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ o وَلاَ یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ o (الماعون۱۰۷:۱-۳)’’تم نے دیکھا اُس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے، اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اُکساتا‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ یومِ آخرت اور دین کا انکار صرف اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان سے انکار تک محدود نہیں، بلکہ حقوقِ انسانی کی ادایگی کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ نے جو احکام دیے ہیں ان کا مکمل اہتمام بھی ضروری ہے، اور مسکین کو کھانا نہ کھلانا اور یتیم کے حقوق کی ادایگی کا اہتمام نہ کرنا بھی دین اور آخرت کے انکار کے مترادف ہے۔ حقوقِ انسان کی ادایگی کے لیے اس سے بڑا چارٹر اور کون سا ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک میں ایمان اور عملِ صالح کے ساتھ اقامت ِ صلوٰۃ اور انفاق کا حکم دیا گیا ہے اور یہ ناقابلِ تقسیم ہے۔ حقوق العباد کی ادایگی کے بغیر ایمان کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔
حدیث فعلِ خیر کی مزید وضاحت کرتی ہے اور اہلِ ایمان کو اللہ کے بندوں کے حوالے سے ذمہ داریوں سے آگاہ کرتی ہے کہ ربِ کریم جو رحمت ہی رحمت ہے، کرم اور بندوں کی بھلائی کے جذبے سے بھرپور ہے، ہم سے کیا توقع رکھتا ہے۔
حدیث قدسی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انسان سے کہے گا: اے ابن آدم! میں بیمار پڑا رہا لیکن تو نے میری عیادت نہیں کی۔ انسان گھبرا کر عرض کرے گا: اے میرے رب! تو سارے جہانوں کا پروردگار، تو کب بیمار تھا اور میں تیری عیادت کیسے کرتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے نہیں معلوم تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے لیکن اس کے باوجود تو اس کی تیمارداری کے لیے نہیں گیا۔ اگر تو اس کے پاس جاتا تو مجھے وہاں پاتا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔ انسان عرض کرے گا: اے رب العالمین! تو کب بھوکا تھا اور میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا لیکن تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا۔ اگر تو نے اس کا سوال پورا کیا ہوتا تو آج اس کا ثواب یہاں پاتا۔
اسی طرح رب العالمین فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ انسان عرض کرے گا: اے دوجہاں کے پروردگار! تو کب پیاسا تھا اور میں تجھے پانی کیسے پلاتا؟ فرمایا جائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا تھا لیکن تو نے اس کی پیاس بجھانے سے انکار کر دیا تھا۔ اگر تو نے اس کی پیاس بجھائی ہوتی تو آج اس کا ثواب پاتا‘‘۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ)
حدیث قدسی واضح پیغام دے رہی ہے کہ اگر اللہ کو خوش کرنا ہے تو اس کا راستہ اس کے بندوں کی خدمت ہے۔ جب اہلِ ایمان کی جماعت زمین پر بسنے والوں سے رحمت و شفقت کا سلوک کرے گی تو الرحم الراحمین جو سراپا عفو و درگزر اور محبت و کرم ہے وہ زمین پر بسنے والوں پر رحمت کرے گا۔ اگر ایک ملک میں سیلاب نے تباہی مچائی ہو، اللہ تعالیٰ کی ہدایات پر عمل نہ کرنے کے سبب اللہ کی طرف سے ایک سخت انتباہ (red warning) کے طور پر پانی کے ریلے نے اللہ کے بندوں کو، حیوانات کو گھر سے بے گھر کر دیا ہو، تو عقل کا تقاضا ہے کہ نہ صرف اس پیغام کو سمجھا جائے، بلکہ جو لوگ سیلاب سے متاثر نہ ہوئے ہوں وہ اپنے رب کا شکر ادا کرنے اور متاثرین کی امداد کے ذریعے اپنے رب کو خوش کرنے کے لیے گھروں سے نکل آئیں۔
اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ جب کسی آبادی میں ظلم، حقوق کی پامالی، اپنے احکامات کی خلاف ورزی، سودی کاروبار، فحاشی اور عریانی کو حد سے گزرتا دیکھتا ہے، تو وہ آبادی والوں کو مختلف آفات کے ذریعے متنبہ کرتا ہے کہ وہ سنبھل جائیں اور جس دنیاطلبی، منافع خوری اور دولت کے جمع کرنے کے لیے وہ بڑی بڑی زمینوں پر کاشت کاری اور کئی کئی منزلہ مکانوں کی تعمیر کے ذریعے اپنی بڑائی اور تکبر کا اظہار کرنا چاہتے ہیں، ان سب کو پانی کے ایک ریلے سے تباہ کردیتا ہے کہ انسان سبق لے اور اس کی طرف لوٹ آئے۔ دوسری جانب دیکھنے والی آنکھ اور محسوس کرنے والے دل رکھنے والوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ سیلاب سے بچ گئے تو ان کی نجات ہوگئی۔ جب تک وہ اپنے فرائض، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو جیساکہ ان کا حق ہے، ادا نہیں کریں گے وہ بھی خطرے سے محفوظ نہیں ہوسکتے ۔ اگر کسی رحم و کرم کی بنا پر ان کی گرفت فوری طور پر اس دنیا میں نہیں ہوسکی تو بہرصورت آخرت میں اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ بلاشبہہ اللہ کی گرفت سب سے زیادہ شدید گرفت ہے اور اُس سے بچنے کے لیے اگر انسان اس دنیا میں اپنی تمام جمع کردہ پونجی بھی لگا دے تو سودا بہت سستا ہے۔
قرآن و سنت کا بڑا واضح رجحان یہ نظر آتا ہے کہ وہ ایک بندئہ مومن اور خصوصاً ان افراد میں جو اپنے آپ کو تحریکِ اسلامی سے وابستہ تصور کرتے ہیں، اجتماعیت کا احساس جاگزیں کرنا چاہتا ہے۔ اسلام کی اعلیٰ پہچان اس کی اجتماعیت میں ہے جو اس کے ہرہر مطلوب عمل میں پائی جاتی ہے۔ وہ نماز ہو، روزہ ہو، حج ہو یا جہاد، اجتماعیت کے بغیر اس سے صحیح استفادہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام میں عبادات جہاں انفرادی نجات کے لیے ضروری ہیں وہیں اجتماعی فلاح کا بھی ذریعہ ہیں، اور ان دونوں کے درمیان کوئی تفریق جائز نہیں۔ اس کا اظہار پانچ وقت اذان کے کلمات میں بھی صاف نظر آتا ہے۔ اس اجتماعیت میں قرآن کریم نہ صرف خاندان کی مرکزیت کو بلکہ خاندان سے باہر کے حلقے کے افراد کو بھی شامل کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اہلِ ایمان اُس فطری داعیے کو جو اپنے والدین یا اولادکی ضروریات پورا کرنے کا انسانوں ہی میں نہیں حیوانات تک میں پایا جاتا ہے، اسے مزید آگے بڑھائیں اور اللہ کی مخلوق کو اس میں اہم مقام دیں۔ فرمایا گیا: ’’اور تم سب اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو، ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آئو، اور پڑوسی رشتہ دار سے ، اجنبی ہمسایے سے ، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے اور ان خدمت گاروں سے جو تمھارے قبضے میں ہوں احسان کا معاملہ رکھو۔ یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے‘‘۔ (النساء ۴:۳۶)
اس آیت مبارکہ میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بندگی اور اطاعت کے مطالبے کے فوراً بعد جس فریضے کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ والدین کے ساتھ احترام، خدمت اور بھلائی کا رویہ ہے۔ پھر اسے مزید وسعت دیتے ہوئے اجتماعیت کی روح پیدا کرنے کے لیے حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ اقربا جو رشتہ دار بھی ہوں اور پڑوس میں بھی ہوں، اور پھر وہ جو رشتہ دار تو نہ ہوں لیکن صرف پڑوسی ہوں، پھر جو مستقل پڑوسی نہ ہوں بلکہ وقتی طور پر پڑوسی بن گئے ہوں جیسے ویگن میں سفر کرتے وقت برابر بیٹھا شخص یا ٹرین یا جہاز میں ساتھ سفر کرنے والا، ان سب کے حقوق ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ گھر کے خدمت گار ہوں، یا جن پر ایک شخص کو حاکم بنا دیا گیا ہو اس کے تمام ماتحت، ان کے ساتھ بھلائی کا رویہ اور ان کی خدمت اختیار کی جائے تاکہ صحیح اجتماعیت معاشرتی فلاح کی ضامن ہو۔
معاشرے کے بے بس، ضرورت مند افراد کی امداد اور مصیبت زدہ افراد کو وسائل فراہم کرنا اللہ کی مخلوق کے حقوق میں شامل ہے۔ یہ کسی پر احسان کرنا نہیں ہے بلکہ خود اپنے اُوپر احسان کرنے کی ایک شکل ہے۔ اسی بات کو کئی مقامات پر یوں فرمایا گیا کہ ’’ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے‘‘۔ (المعارج ۷۰:۲۵)
اسی تصور کو قرآن کریم نے انفاق فی سبیل اللہ کی جامع اصطلاح سے بیان کیا ہے کہ ’’لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتہ داروں پر، یتیموں اور مسکینوں او ر مسافروں پر خرچ کرو۔ اور جو بھلائی [خیر] بھی تم کرو گے اللہ اس سے باخبرہوگا‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۱۵)
اسی سورۃ میں چند آیات کے بعد دوبارہ اس طرف متوجہ فرماتے ہوئے کہا گیا: ’’پوچھتے ہیں ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ بھی تمھاری ضرورت سے زیادہ ہو‘‘۔ اس طرح اللہ تمھارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے شاید کہ تم دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرو‘‘۔(البقرہ ۲:۲۱۹)
یہاں قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ نہ صرف ان رشتوں پر جو معروف ہیں بلکہ ان اللہ کے بندوں پر جو اجنبی اور غیرمعروف ہیں، خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی اور اللہ کو خوش کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ مزید یہ کہ ایک شخص کی اپنی ضروریات سے زائد جو کچھ بھی ہو وہ اسے اللہ کی راہ میں لگادے تاکہ یہ عملِ خیر اس کے لیے توشۂ آخرت بن جائے۔احادیث صحیحہ بھی اسی بات پر زور دیتی ہیں کہ ایک شخص اگر حلال کمائی خود اپنی اولاد اور بیوی پر اور ماں باپ پر خرچ کرتا ہے تو یہ ایک قسم کا صدقہ ہے۔ اسی طرح اپنے ایک بھائی سے مسکرا کر ملنا بھی صدقہ ہے۔
صدقے کا غلط العام تصور جو ہمارے ہاں پایا جاتا ہے اس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ صدقہ دراصل سچائی کے ساتھ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ایک کام کا کرنا ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا: وَ اٰتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃً (النساء ۴:۴) ’’اور عورتوں کے مہر صدقِ دل کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو‘‘۔
صدقِ دل کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لینا دوہرے اجر کا باعث ہے۔ جہاد بجاے خود وہ عمل ہے جس کو قرآنِ کریم نے سب سے افضل قرار دیا اور پھر اسے صدقِ دل سے کرنا، اپنے وقت کا، مال کا اور اپنی جان کا صدقہ ہے۔یہ صدقہ نہ صرف قابلِ محسوس اور قابلِ پیمایش (measurable) اعمال میں ہے، بلکہ اجتماعیت کی روح پیدا کرنے والے رویوں میں بھی ہے۔ اگر ایک صاحب ِ ایمان اپنے بھائی یا بہن کو مسکراہٹ کے ساتھ خوش آمدید کہتا ہے تو اس کا مسکرانا صدقہ ہے۔ سبحان اللہ، وہ دین کتنا اعلیٰ ہوگا جو مسکراہٹ کو بھی عبادت کا حصہ بنادے اور اپنے پاس سے ایک روپیہ خرچ کیے بغیر محض اپنے بھائی کو دیکھ کر محبت و الفت کے اظہار کے لیے مسکرانے کو صدقہ قرار دے دے۔
احادیث ِ شریفہ میں خدمت ِ خلق اور رفاہِ عامہ کے لیے اپنے مال، وقت، صحت کو لگانا صدقہ قرار دیا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں رفاہی کاموں کا براہِ راست تعلق اللہ تعالیٰ کی بندگی، اس کی حاکمیت اعلیٰ کے قیام، اور ایک بندے کی عاجزی اور صرف اللہ کو خوش کرنے کے لیے انسانوں کی خدمت کرنے کے عمل کے ساتھ ہے۔ حضرت ابوموسیٰ الاشعریؓ سے روایت ہے، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہر مسلمان پر صدقہ کرنا واجب ہے۔ اس پر صحابہ نے سوال کیا کہ اگر کسی کے پاس صدقے کے لیے کچھ نہ ہو تو کیا کرے؟ فرمایا: اپنے ہاتھ سے کوئی کام کرے ،جو ملے ا س سے خود بھی فائدہ اُٹھائے اور دوسروں پر خرچ کرے۔ صحابہ نے عرض کیا: اس کی بھی طاقت نہ ہو تو کیا کیا جائے؟ فرمایا: کسی ضرورت مند اور مصیبت زدہ کی (مال کے علاوہ کسی اور طریقے سے) مدد کرے۔ عرض کیا گیا: اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو کیا کیا جائے؟ فرمایاکہ: معروف کا حکم دے۔ عرض کیا گیا کہ: اگر کوئی شخص یہ بھی نہ کرسکے تو اس کے لیے کیا ہدایت ہے؟ فرمایا: وہ بُرائی سے رُک جائے۔ یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔(بخاری، کتاب الادب، باب کل معروف صدقہ، مسلم، کتاب الزکوٰۃ)
موجودہ حالات میں اس حدیث کی صداقت اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ لاکھوں کروڑوں میں کھیلنے والا ایک شخص ہو یا بمشکل نان جویں پر گزربسر کرنے والا شخص، حتیٰ کہ ایک ایسا شخص بھی جو یہ بھی نہ کرسکتا ہو کہ کسی کو بھلائی کا حکم دے، دعوتِ دین دے، دین کا علم سکھائے، تو ایسا شخص بھی اللہ تعالیٰ کو خوش کرسکتا ہے صرف اپنے آپ کو بُرائی سے روک کر۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ الرحم الراحمین کس کس طریقے سے اپنے بندوں پر رحم و کرم کرنا چاہتا ہے کہ اگر ایک شخص نے کسی مصیبت زدہ کی، سیلاب سے متاثر خاندان کی مالی مدد کر دی، کھانا کھلا دیا، کپڑا دے دیا، تو یہ لازماً صدقہ ہے۔ لیکن اگر وہ یہ سب کچھ نہ کرسکے اور صرف ان مصیبت زدہ افراد کا ہاتھ پکڑ کر سواری پر سوار کرا دے تو یہ بھی صدقہ ہے۔
ایک دوسری حدیث میں یہی بات فرمائی گئی ہے کہ کسی کو سواری پر سوار کرا دینا بھی صدقہ ہے۔ راستے سے ایک کانٹے یا پتھر کا ہٹانا بھی صدقہ ہے، تاکہ معاشرتی ذمہ داری کا احساس پیدا ہو اور ایک صاحب ِ ایمان اپنی ذات سے باہر نکل کر یہ سوچے کہ وہ معاشرے کو کیا دے رہا ہے۔ معاشرے کی بھلائی کے لیے کون سے کام کر رہا ہے، یا وہ صرف روزمرہ کی دفتری کارروائیوں کی حد تک اسلام پر عامل ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمام مخلوق اللہ کی عیال (کنبہ) ہے، سو ان میں سے اللہ کو سب سے زیادہ پیارا شخص وہ ہے جو اُس کے عیال کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہے‘‘۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص دنیا میں کسی مومن کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دُور کرے گا، جو شخص کسی مشکل میں پھنسے ہوئے آدمی کو آسانی فراہم کرے گا، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لیے آسانی فراہم کرے گا۔ جو کسی مسلمان کی سترپوشی کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی سترپوشی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگارہتا ہے‘‘۔ (مسلم، کتاب الذکر والدعا)
حدیث کے آخری کلمات غیرمعمولی طور پر تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے حکم کا درجہ رکھتے ہیں اور آج ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی نفسا نفسی کا حقیقی علاج ہیں، یعنی جب تک ہم اپنے بھائی کی مدد، اس کی مشکل کے حل اور اس کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہیں گے، تو خود ہمارے لیے اللہ تعالیٰ آسانیاں پیدا کرتا رہے گا۔ جب اجتماعیت کو چھوڑ کر ہم فرد بن جائیں، محض اپنی نجات ، محض اپنے مفاد کی فکر ہوگی، تو اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت اور حمایت بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس حدیث کی تائید اُس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ لَایَرْحَمُ اللّٰہُ مَنْ لَّا یَرْحَمُ النَّاسُ، یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں فرماتا جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا۔ (بخاری، کتاب التوحید)
جو لوگ آفات و مصائب کا شکار ہوں، جو گھر سے بے گھرہوگئے ہوں، جن کے مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہوں، جن کے کھیت اور گھر طوفانی پانی کی نذر ہوگئے ہوں، ان سے زیادہ امداد کا مستحق کون ہوسکتا ہے۔ تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے اسلام کی دعوت ان مصائب کے شکار افراد کی دلجوئی، ان کی مالی اور جسمانی مدد ہے لیکن یہ اُسی وقت تک عبادت ہے جب اس سے کوئی غرض وابستہ نہ ہو۔ نہ ستایش نہ تمغہ، نہ سرٹیفیکیٹ، یا کوئی سیاسی مفاد بلکہ صرف اور صرف اللہ رب العالمین کو خوش کرنے کے لیے اس کے بندوں کی خدمت۔
ایک آخری بات یہ کہ اللہ کے بندوں کی خدمت اور امداد کرتے وقت تحریکی کارکنوں اور اداروں کو (مثلاً الخدمت) یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آفات و مصائب میں گرفتار افراد میں سے بعض تو وہ ہوں گے جو خود آگے بڑھ کر امداد طلب کریں گے یا اُس کے خواہاں ہوںگے لیکن کچھ افراد ایسے بھی ہوں گے جو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے یا اپنا دُکھ درد بیان کرنے سے گریزاں ہوں گے۔ ایسے سفیدپوش ،خوددار، غیرت مند، قناعت کرنے اور سوال نہ کرنے والے افراد کو نظرانداز کرنا اور بظاہر ضرورت مند نہ سمجھنا قرآنی دعوت کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ نہ صرف ان کی جو آنکھوں کے سامنے امداد کی توقع کر رہے ہوں، بلکہ ان کی بھی جو آگے بڑھ کر امداد مانگنے سے گریز کریں ، یکساں بلکہ زیادہ امداد کی جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھِر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسب ِ معاش کے لیے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے۔ ان کی خودداری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں۔ تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو مگر وہ ایسے نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں۔ ان کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کرو گے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۷۳)
خدمت ِ خلق اسلامی دعوت کا ایک لازمی جز ہے۔ تحریکاتِ اسلامی کے کارکنوں کی ترجیحات میں اس کا مقام اعلیٰ ہونا چاہیے اور ربِ کریم کے حضور اس کا اجر اس کی خصوصی رحمت کی بناپر حدوشمار سے زیادہ ہے۔ اس لیے ایسے مواقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے، جن میں حقوق العباد کی ادایگی کے ذریعے، ہم معاشرے میں بھلائی اور نیکی پھیلانے کا کام صداقت اور دل کی یکسوئی کے ساتھ کرسکیں۔ اگر دیکھا جائے تو تحریکِ اسلامی کی دعوت اس کے سوا کیا ہے کہ لوگوں کو موعظۂ حسنہ کے ذریعے نصیحت کی جائے۔ خود ایسا کرنا بھی صدقہ اور عبادت کا حصہ شمار کیا جاتا ہے۔
حضرت تمیم بن ادس الداریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین سراپا خیرخواہی [نصیحۃ] ہے۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہم نے پوچھا: کس کے لیے خیرخواہی ہے؟ فرمایا: اللہ کے لیے، اس کے رسول ؐکے لیے، اللہ کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے سربراہوں کے لیے، اور اُمت کے عام لوگوں کے لیے۔(بخاری)
عام مسلمانوں کی خیرخواہی یہی ہے کہ ان کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی حقوق کے حصول میں ان کی مدد کی جائے۔ ان کے مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں حل کیا جائے، اور رحم و شفقت کے رویے کے ساتھ ہر مصیبت زدہ کو مصیبت سے نجات دلانے میں اپنی تمام قوت صرف کردی جائے۔ معاشرے میں ظلم و استحصال کا خاتمہ اور عدل و سلامتی کے نظام کے قیام کی جدوجہد اس نصیحت کا لازمی جزو ہے۔ یہی وہ دین کی اجتماعی فکر ہے جس کی بنا پر مسلمان ایک جسدِ واحد کی طرح ہوجاتے ہیں کہ اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو تمام جسم اس کی کسک کو محسوس کرے، اور ایک صاحب ِ ایمان اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہو۔
اگست ۲۰۱۴ء کا یہ مہینہ پاکستان پر بہت ہی بھاری پڑا ہے۔ اس وقت ملک اور قوم جس خطرناک صورتِ حال سے دوچار ہیں، اس پر ہر محب وطن دل گرفتہ اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دست بہ دُعا ہے کہ حکومت اور اسے چیلنج کرنے والے دونوں ہی گروہ ذاتی اور گروہی مفادات اور اَنا کے ہر جذبے سے بلند ہوکر، اس ملک کے مفاد میں، جو تاریخ اور ملت اسلامیہ پاک وہند کی ہم سب کے ہاتھوں میں بڑی قیمتی امانت ہے، افہام و تفہیم کے ذریعے دستور، قانون اور اجتماعی اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے سیاسی حل نکالیں، اور جو خطرات سیاسی اُفق پر منڈلا رہے ہیں ان کے پورے اِدراک کے ساتھ تصادم اور خون خرابے کی ہرشکل سے اجتناب کریں۔ جماعت اسلامی نے الحمدللہ اس زمانے میں مفاہمت اور مسائل کے سیاسی حل کے لیے جو کوششیں بھی کی ہیں ہم ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ ان شاء اللہ ان کے اچھے نتائج نکلیں گے۔ جماعت اسلامی اس جدوجہد میں تنہا نہیں، دوسری سیاسی اور دینی قوتیں بھی اپنااپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ہمیں توقع ہے اور شب و روز اللہ تعالیٰ سے دُعا کررہے ہیں کہ وہ ان کوششوں کو بارآور فرمائے اور یہ ملک تصادم، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، تنقید اور تنقیص میں ہرحد کو پامال کردینے اور کفن اور قبرستان کے المیے سے بچ جائے، اور ملک و ملت کے بدخواہ جو خطرناک کھیل پورے عالم اسلام میں کھیل رہے ہیں اس سے پاکستان محفوظ رہے۔ بلاشبہہ حالات بے حد سنگین ہیں لیکن ہمیں اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور ہرسطح پر اپنی کوششوں کو جاری رکھنا چاہیے۔ ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بے حدوحساب ہے اور اس کا ارشاد بھی یہی ہے کہ اہلِ ایمان کبھی بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں (لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط الزمر ۳۹:۵۳)۔
یہ صورتِ حال کیوں رُونما ہوئی، بگاڑ کے اس مقام تک پہنچنے میں کس نے کیا اور کتنا کردار ادا کیا اور مسئلے کے مستقل حل خصوصیت سے نظامِ حکمرانی کی اصلاح، حقیقی اسلامی جمہوریت کے فروغ، اور ایک عوام دوست فلاحی معاشرے کا قیام، انتخابی نظام کی تشکیلِ نو، سیاسی اختلاف اور تبدیلی کے طریقے کے بارے میں صحیح حدود کا تعین اور ان کے مطابق عملی جدوجہد کے آداب کا تعین اور ان کا احترام، اختلاف کی حدود اور تنقیدواحتساب کی زبان___ یہ سب وہ اُمور ہیں جن پر کھل کر بات کرنے اور قومی اتفاق راے کے ذریعے سیاست کو صحیح خطوط پر استوار کرنے، اور ہرسطح پر اور ہر قوت کے لیے دستور اور قانون کی حدود میں رہ کر اپنے اپنے پروگرام کے مطابق جدوجہد کرنے کے مکمل اور کھلے مواقع فراہم کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ ان شاء اللہ !
آیندہ ہم ان اُمور کے بارے میں اپنی معروضات پیش کریں گے لیکن اس وقت اللہ تعالیٰ سے ہدایت، رہنمائی اور توفیق کی دعائوں کے ساتھ حکومت اور اسے چیلنج کرنے والی قوتوں سے پوری دل سوزی کے ساتھ یہی درخواست کرتے ہیں کہ تصادم سے ہرقیمت پر پرہیز کریں۔ ہرپارٹی چند قدم پیچھے ہٹائے اور ملک و قوم کے اعلیٰ مفاد میں بیچ کا راستہ نکالنے اور ماضی کے اُمور پر انتقام کی جگہ آگے کے حالات کی اصلاح کو اولیت دے۔ احتساب ضرور ہونا چاہیے لیکن اس کے لیے بھی مناسب ماحول بنانا ضروری ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ احتساب قانون کے دائرے میں ہونا چاہیے، ورنہ احتساب انتقام بن جاتا ہے جو بڑے فساد کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ اس سے بچنا اس وقت ہم سب کے لیے ضروری ہے۔
ان حالات میں، اس دُعا اور گزارش کے ساتھ ہم اس مہینے کے ’اشارات‘ کو کچھ اصولی باتوں کی یاددہانی کے لیے مخصو ص کر رہے ہیں تاکہ ہم سب اپنا اپنا جائزہ لے سکیں اور نفس کی اُکساہٹوں سے بلند ہوکر اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ ایک مظلوم قوم اور ملک کے مفاد کی خاطر وہ راستہ اختیار کریں جو فساد سے پاک اور خیروصلاح کی راہوں کو استوار کرنے کا ذریعہ بن سکے۔ رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا سکتۃ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ o (اعراف ۷:۲۳) ’’اے رب، ہم نے اپنے اُوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہوجائیں گے‘‘___ (مدیر)
قرآنِ کریم نے اہلِ ایمان کی جماعت اور معاشرے کو باہم دگر محبت ، نرمی، رواداری، گرم جوشی، عفو و درگزر اور اخوت و یک جائی کی صفات سے متصف جماعت قرار دیا ہے۔ یہ وہ پہلو ہیں جو اہلِ ایمان کے اپنے رب کو رب مان کر اس پر مستقیم ہوجانے اور اپنی عبادات اور قربانیوں کو صرف اللہ کے لیے خالص کردینے کے نتیجے میں شخصیت کا لازمی حصہ بن جاتے ہیں۔ ان صفات پر مبنی جماعت جہاں آپس میں ریشم کی طرح نرم ہوتی ہے، وہاں ایک محبت کرنے والے باپ کی طرح بیک وقت گرفت کرنے والی اور شفیق، اور ایک درگزر کرنے والے بھائی کی طرح نظرانداز کرنے والے معاشرے کی مثال ہوتی ہے۔
ربِ کریم نے اس جماعت کے بارے میں یوں بیان فرمایا : مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ (الفتح ۴۸:۲۹) ’’محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں‘‘۔ اس آیت مبارکہ میں اہلِ ایمان کی دو بنیادی صفات کو، جو ان کی پہچان قرار دی گئی ہیں نمایاں کیا گیا ہے۔ ایک مثبت صفت جس کا تعلق ان کے باہمی تعلقات اور معاملات سے ہے۔ یہ ہے کہ جب وہ آپس میں کوئی معاہدہ کرتے ہیں تو اپنے جائز حق کو بھی اپنے بھائی کے لیے قربان کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ جب ان کے ایک بھائی کو دنیا کے کسی خطے میں تکلیف پہنچتی ہے وہ غزہ ہو، بنگلہ دیش ہو، تھائی لینڈ ہو، کشمیر ہو، عراق ہو، مصر ہو یا شام، اس کے درد کی کسک وہ نہ صرف محسوس کرتے ہیں بلکہ ایک رحیم شخصیت ہونے کی بنا پر اس کو سکون پہنچانے، امن دینے، ان کی جان و مال کے تحفظ میں اپنی تمام قوت صرف کردیتے ہیں۔
ایک رحیم ماں یا باپ یہ کیسے برداشت کرسکتے ہیں کہ ان کا لخت ِ جگر درد میں مبتلا ہو اور وہ سکون کی نیند سو سکیں۔ ان کی بے چینی اور اضطراب محض پریشانی کی حد تک نہیں بلکہ ان کے عمل کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اور وہ آگے بڑھ کر اپنا مال، اپنی جان، اپنی قوت، اپنی صلاحیت ہرشے کے ساتھ اپنے بھائی کو ظلم سے بچانے، اس کی جان کا تحفظ کرنے، اس کے مال کو ظالم سے بچانے کے لیے بے خطر میدان میں کود پڑتے ہیں۔ یہ ایک عظیم عطیہ الٰہی ہے کہ وہ جو کل تک ایک دوسرے کے مال پر نگاہیں جمائے ہوئے تھے، قبائلی تعصبات اور نسلی دشمنیوں میں گھرے ہوئے تھے، اس نے انھیں آپس میں رحیم بنا کر ان کے دلوں کو، ان کی روحوں کو، ان کی فکر کو، ان کے طرزِعمل کو ایک اعتماد کے رشتے میں جوڑ دیا اور وہ دیکھتے دیکھتے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔
دوسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کفار پر سخت (اشداء) ہوتے ہیں۔ ایک تو خود کفر میں سخت ہونا ہے جس کا تذکرہ سورئہ توبہ میں یوں ہوا: اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ کُفْرًا وَّ نِفَاقًا (التوبہ ۹:۹۷) ’’یہ بدوی عرب کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں‘‘۔کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کو شدید قرار دیا گیا ہے: وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ (البقرہ ۲:۱۹۶) ’’خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے‘‘۔ دوسری جانب کفار پر سخت ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ جب اہلِ ایمان اور اہلِ کفر ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہوتے ہیں تو پھر خون اور خاندان یا قبیلے کی محبت درمیان میں نہیں آتی۔ نظریاتی جنگ میں اہلِ ایمان اہلِ کفر کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔ دین کے معاملے میں کسی کے ساتھ رعایت نہیں کرتے اور اپنے موقف پر جم کر استقامت کے ساتھ کفر کو اس کے انجام تک پہنچاتے ہیں۔
پھر کیا وجہ ہے کہ مسلم دنیا میں اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کبھی فرقہ پرستی کے نام پر اور بعض اوقات قبائلی عصبیت اور جغرافیائی قومیت کی بنیاد پر ایک مسلمان دوسرے کے سامنے صف آرا ہوجاتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ وہ جنھیں باہم شیروشکر ہونا چاہیے تھا نہ صرف زبان سے بلکہ ہاتھ سے اپنے بھائی کو نقصان پہنچانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں؟انفرادی اور معاشرتی سطح پر تشدد، عدم رواداری اور عدم برداشت کیوں پیدا ہوتی ہے؟ کیا اس کا علاج مزید شدت، عسکریت اور قوت کے ساتھ اس کو دبانے سے کیا جاسکتا ہے یا ان برائیوں کو اچھائیوں میں تبدیل کرنے کے لیے کسی خاص حکمت عملی کی ضرورت ہے؟ اس تحریر کا مقصد ان سوالات کا جواب تلاش کرنا ہے۔
انسانی معاشرے میں بُرائی، ظلم و استحصال اور طاغوت کا آغاز غیرمحسوس طور پر ایک بظاہر معصومانہ غلطی سے ہوتا ہے اور وہی غلطی جو کل تک غیرمحسوس تھی انسان کو گھنائونے جرم تک لے جاتی ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور حدیث ہے کہ برائی کا آغاز انسان کے دل پر ایک چھوٹے سے داغ سے ہوتا ہے۔ اگر مسلمان توبہ کرلے اور نیکی کی طرف پلٹ آئے تو یہ داغ مٹ جاتا ہے لیکن اگر وہ دوبارہ غلطی کا ارتکاب کرے تو یہ داغ بڑھتا رہتا ہے، حتیٰ کہ یہ پورے قلب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ جب پورا قلب اس کی گرفت میں آجاتا ہے تو پھر انسان کے ذہن سے برائی کے برائی ہونے کا احساس ختم ہوجاتا ہے۔ ہم عموماً یہ بات کہتے ہیں کہ کیا کوئی انسان ایسا گھنائونا جرم کرسکتا ہے کہ وہ ایک بچی یا بچے کو زیادتی کا نشانہ بنائے، یا کسی مسلمان بھائی پر قتل کی نیت سے ہاتھ اُٹھائے، یا کسی راہ چلتے کو، یا مسجد میں اللہ کے حضور اپنا سر جھکانے والے کو مسجد میں گھس کر نشانۂ قتل بنائے؟ اس حدیث ِ مبارکہ میں سمجھایا گیا ہے کہ شقاوتِ قلبی کس طرح پیدا ہوتی ہے۔ قرآن کریم جن دلوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ شقاوتِ قلبی میں پتھر بلکہ اس سے زیادہ سخت ہوجاتے ہیںکیونکہ بعض پتھر ایسے بھی تو ہوتے ہیں جو پھٹ پڑتے ہیں اور ان سے پانی کا چشمہ رواں ہوجاتا ہے۔ لیکن جو قلب احساسِ بندگی کو دبا کر نفسی نفسی کے زیراثر داغ دار ہوچکے ہوں پھر وہ انسان جن کے دل میں ایک دھڑکنے والا قلب ِ سلیم نہ ہو بلکہ پتھر کا ایک ٹکڑا ہو تو وہ نہ اپنی آنکھ سے سچائی اور جھوٹ میں تمیز کرسکتے ہیں، نہ اپنے کان سے اچھی اور فحش بات میں تمیز کرسکتے ہیں۔ قرآن کریم نے صحیح کہا ہے: صُمٌّم بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَo (البقرہ ۲:۱۸) ’’یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، یہ اب نہ پلٹیں گے‘‘۔
عدم رواداری، شدت پسندی، ظلم، ناانصافی، حقوق پر ڈاکا، بچوں اور خواتین کے ساتھ ظالمانہ رویہ، معاشرے میں دھوکا دہی، رشوت، عدم تحفظ، غرض تمام برائیوں کا آغاز ایک فرد کے دل کے داغ دار ہو جانے سے ہوتا ہے اور جب کئی دل داغ دار ہوجائیں تو پورے معاشرے میں فساد و بدامنی پھیل جاتی ہے۔
اس داخلی سبب کے ساتھ ساتھ بعض بیرونی عناصر بھی انسان میں انتقام، توڑ پھوڑ، ظلم و استحصال کے جذبے کو فروغ دیتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم انسانوں کے حقوق کا پامال کرنا ہے۔ اگر ایک معاشرہ یا ریاست اپنے باشندوں کو ان کے حقوق سے محروم کرے اور خود آسایش اور ثروت کی زندگی گزارے تو حقوق سے محروم افراد میں انتقامی جذبہ اُبھرنا ایک فطری عمل ہے۔ ایک حدیث میں اس طرف یوں اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے پڑوسی کو عمدہ اور قیمتی پھل نہ کھلا سکتا ہو تو کم از کم پھل کھانے کے بعد ان کے چھلکے اپنے دروازے کے سامنے گلی میں نہ پھینکے۔ احساسِ محرومی اور فقر انسان میں جو ردعمل پیدا کرتا ہے حدیث میں اسے شرک سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور شرک ایک شخص کو کسی بھی ایسے کام پر آمادہ کرسکتا ہے جو اسلام کے اعلیٰ اخلاقی رویے کی ضد ہو۔ چوری، ڈاکا، قتل کا ایک سبب یہی احساسِ محرومی ہوتا ہے کہ ایک فرد یہ سمجھتا ہے کہ جس دولت میں سے اسے کچھ ملنا چاہیے تھا وہ صرف چند افراد کے قبضے میں ہے، اس لیے وہ اسے غیر اسلامی ذرائع سے چھین کر حاصل کرنا چاہتا ہے۔
ریاست اور معاشرہ اپنی اس ذمہ داری سے اسی وقت عہدہ برآ ہوسکتا ہے جب وہ ناداروں کو ان کا حق دے، بے علم افراد کو تعلیم سے آراستہ کرے اور بے روزگار افراد کو روزگار فراہم کرے۔ یہ شہریوں کے وہ حقوق ہیں جو اسلام نے آج سے تقریباً پندرہ سو سال قبل قرآن اور سنت کے واضح احکامات کی شکل میں ہم کو دیے ہیں۔ ہم نہ ان احکامات سے واقفیت حاصل کرنے کی جستجو کرتے ہیں اور نہ انھیں معاشرے اور ریاست میں نافذ کرنے کی۔ آخر زکوٰۃ کو ایک عبادت اور فریضہ قرار دینے کا مقصد اور کیا تھا۔ زکوٰۃ کو ایک ٹیکس قرار دینا زکوٰۃ کے مفہوم اور روح سے ناواقفیت کی علامت ہے۔ یہ دراصل معاشرے سے افلاس، فقر، بھوک، جہالت، بیماری اور عدم تحفظ کے خاتمے کے شرعی نظام کا نام ہے۔ نہ صرف زکوٰۃ بلکہ وسیع تر پیمانے پر صدقات اور انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے اسلامی معاشرے کے ہر مجبور، نادار اور ضرورت مند کو اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
معاشرے اور فرد میں بغاوت و انتقام کا جذبہ پیدا کرنے میں جہالت کا کردار اہم ہے۔ اسی بنا پر قرآن و سنت میں تعلیم کو ایک فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ تعلیم محض چند صلاحیتوں کا پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ بنیادی اخلاقی رویوں کے اختیار کرنے کا نام ہے۔ وہ تعلیم اُمت کے لیے زہر ہے جو اخلاق و آداب اور تعمیر سیرت کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک اعلیٰ معاشی مزدور تو پیدا کرتی ہو لیکن اسے اخلاق، عدل و انصاف، سچائی، پابندیِ عہد اور انسانوں کے حقوق سے آگاہ نہ کرتی ہو۔
انسانی کردار کی تعمیر کی پہلی بنیاد گھر کی چار دیواری میں رکھی جاتی ہے۔ اگر ایک بچے کو ماں باپ کی طرف سے محبت، توجہ اور اچھے اخلاق و عادات کو پیدا کرنے پر متوجہ نہ کیا جائے اور بچوں کو مصروف رکھنے اور ان کے سوالات سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے ٹی وی اسکرین کے حوالے کردیا جائے، تو پھر وہ روزِ اوّل سے تشدد ، ماردھاڑ ، قتل و غارت، چالاکی ، دھوکادہی اور عریانیت و فحاشی کو کارٹونوں کی شکل میں بار بار دیکھ کر اُس حدیث کے مصداق احساسِ مروت، احساسِ شرم، احساسِ فرض سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہوجاتے ہیں جس میں دل کی سختی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔جدید تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ ایک بچہ عموماً دن میں چار تا آٹھ گھنٹے ٹی وی کے سامنے گزارتا ہے، اور مسلسل چار تا آٹھ گھنٹے تک جب آنکھ کے پردے پر تشدد کے مناظر دہرائے جائیں تو ان کے نقوش یادداشت کے پردے پر مرتسم ہوجاتے ہیں۔ پھر ایک بچے کا ہنسنا، رونا، روٹھنا، مطالبہ کرنا، چلنا، اپنے چہرے سے مختلف قسم کے تاثرات کا اظہار کرنا، غرض اس کا پورا کردار کارٹون کے کردار کا ایک چربہ بن جاتا ہے۔
جنسی مساوات (Gender Equality) کے زیرعنوان خاندان کے تقدس و احترام کو بڑی تیزی کے ساتھ پامال کیا جارہا ہے اور اس میں ابلاغِ عامہ اور سرکاری تعلیم کے نصاب کا بڑا دخل ہے۔ تعلیمی ادارے سرکاری ہوں یا نجی، دونوں شکلوں میں جو کتب استعمال کی جارہی ہیں ان میں انفرادی امتیازات (individualities) اور جنسی مساوات کو مثالوں اور بیانات کی شکل میں بار بار دہرایا جاتا ہے،حتیٰ کہ ایک طالب علم اس مغربی تصور ہی کو حق سمجھتا ہے۔ یہ تصور نہ صرف اس کی ذاتی شخصیت بلکہ اس کی خاندانی زندگی کو اجتماعیت کی جگہ انفرادیت میں تبدیل کردیتا ہے۔ ایک شوہر اور بیوی دونوں اپنی اَنا، ذاتیت اور انفرادیت کے خول میں گرفتار رہتے ہیں۔ ان کی فکر، ان کا طرزِعمل، ان کا اظہارِ محبت بھی اسی کا اسیر ہوتا ہے اور کسی لمحے بھی اپنے آپ کو بدلنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے۔ شوہر کی ہرمعاملے میں اپنی پسند ، وہ کھانا ہو، لباس ہو، گھر کا رہن سہن ہو، تفریح ہو، باہمی تعلقات ہوں، اور ایسے میں بیوی کا اپنی ذاتی پسند پر اصرار ، گھریلو عدم تعاون، جذباتی فاصلے اور آخرکار گرم گفتاری اور پھر گھریلو تشدد تک پہنچتا ہے۔ جدید اعداد و شمار، انتہائی تشویش ناک حد تک یہ پتا دیتے ہیں کہ اس وقت ۸۰، ۸۵ فی صد شادیاں اس بحران یا انتشار سے دوچار ہیں۔ یہ وبا ایک معاشرتی کینسر کی شکل اختیار کرگئی ہے اور جب تک تشدد، خودرائی اور انفرادیت کے بتوں کو گھر کے اندر مسمار نہیں کیا جائے گا، ان بتوں کی پرستش سے معاشرہ پاک نہیں ہوسکتا۔
جو بچے ایسے ماحول میں تربیت پائیں گے جہاں گھر روزانہ ایک معرکۂ جنگ کی شکل پیش کرتا ہو وہ معاشرے کو امن و سکون نہیں دے سکتے۔ جو بچہ باپ کو ماں پر ہاتھ اٹھاتے دیکھتا ہے یا جو ماں باپ اپنے بیٹے کو اپنی بہن کو دھکا دے کر گرانے پر سزا نہیں دیتے وہ گھریلو اور معاشرتی فساد کو کبھی نہیں روک سکتے۔
جس کھیت سے دہقان کو تو روزی میسر نہ ہو لیکن اس کھیت کے مالک کے گھر میں ہر شام محفلِ موسیقی اور پُرتکلف دعوتیں ہورہی ہوں وہ کب تک اپنی ناداری پر نازاں ہوسکتا ہے۔ معاشرے میں معاشی ظلم و استحصال جب بھی بڑھے گا ، عدم تحفظ، تشدد اور توڑپھوڑ کے عمل میں اضافہ ہوگا۔ اس برائی کا دُور کرنا نہ صرف ریاست بلکہ معاشرے کے ہرفرد کا فرض ہے۔ اجتماعی اصلاح کا احساس اس کے لیے مناسب اداروں کا قیام اور سیاسی اور سماجی تحریکات کا ان معاملات میں آگے بڑھ کر اصلاح کا آغاز کرنا ہی معاشرے کو دوبارہ امن و سکون دے سکتا ہے۔
معاشرے میں جب سیاسی عدم استحکام ہوگا اور کسی کو یقین نہیں ہوگا کہ کل کیا ہونے والا ہے، حکومت کتنے دن کی مہمان ہے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کا تقدس بھی متاثر ہوگا، اور جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اثر معاشرے میں نہیں ہوگا تو بدامنی ، قانون شکنی اور فساد زمین پر پھیلے گا۔ بیرونی دشمن ہمیشہ یہی حکمت عملی اختیار کرتا ہے کہ کسی ملک کو اندورنی خلفشار میں مبتلا کردے تو پھر بغیر کسی جنگ یا عسکری فتح کے وہ دوسرے ملک کو ناکارہ بنا سکتا ہے۔ جب بھی سیاسی عدم استحکام اور بدامنی ہوگی معاشی بدحالی اور بدانتظامی کا دور دورہ ہوگا تو یہ مزید استحصال، ظلم اور عدم تحفظ کو پیدا کرے گا۔ اس طرح بیرونی سرمایہ کار اس ملک کا رُخ کرتے ہوئے ہچکچائیں گے اور مقامی سرمایہ کار اپنا سرمایہ ملک سے باہر منتقل کرنا چاہیںگے۔ نتیجتاً معاشی انتشار، زوال اور بے روزگاری اور قتل و غارت کا بازار گرم ہوگا۔
اس لیے معاشرتی توڑ پھوڑ کے عمل کو چند خوب صورت سیاسی بیانات سے دُور نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے حکومت ِ وقت اور معاشرے کے ذمہ دار ارکان کو یکساں طور پر اپنے فرائض کو پورا کرنا ہوگا۔
کسی بھی معاشرے کے بگاڑ میں سب سے بنیادی دخل اس معاشرے کی اخلاقی اقدار کا ہوتا ہے۔ اگر اخلاق گر گیا تو معاشرہ بھی گرے گا اور اگر اخلاق اعلیٰ اور بلند ہوگا تو معاشرہ بھی صاف ستھرا، پُرامن اور پُرسکون ہوگا۔
ہم نے مغرب کی اندھی نقالی میں اپنے اخلاقی سرمایے کو ایک طرف لپیٹ کر رکھ دیا ہے اور ہرہرشعبے میں مغربی اخلاق و اقدار کے منفی پہلوئوں کو عالم گیریت کے نام پر سینے سے لگا لیا ہے۔ چنانچہ مغرب کی پابندیِ وقت، محنت کرنے کی عادت، عوام کو جواب دہی، عدالتوں میں قانون کی بالادستی جیسی عادات کی جگہ مغربی فحاشی ، آزادی کے نام پر احترام اور تقدس کو تارتار کرنا، مساوات کے نام پر خواتین کا استحصال اور انھیں ایک معاشی کھلونا بنا دینا، دین کی جامع تعلیمات کی جگہ اسلام کو مذہب قراردینا اور پھر مذہب کو تمام معاشرتی، ثقافتی، تعلیمی، معاشی، سیاسی اور قانونی معاملات سے خارج کرنے کو ترقی پسندی کا نام دے دیا ہے۔
اسلام کے اعلیٰ اخلاقی نظام کی جگہ ہم نے لادینی مفاد پرست اخلاقیات کو ہرسطح پر رائج کرنے کے لیے اپنے ابلاغِ عامہ کو بداخلاقی کے ہراول دستے کا مقام عطا کردیا ہے۔ ہمارا ابلاغِ عامہ ملک سے مایوسی، ملک کے محافظوں سے نفرت، ملک کی اخلاقی اقدار کی جگہ ہندوانہ ثقافت کو رائج کرنے میں پیش پیش ہے، اور ہر وہ بُرائی جو سرحد پار کے معاشرے میں رائج ہو اسے مزید بدتر شکل میں ہمارے ہاں متعارف کرانے میں مصروف ہے۔
اس غیر اخلاقی عمل کو ہم نے ’ابلاغِ عامہ کی آزادی‘ کے خوش کن نعرے کی شکل دی ہے اور آزادیِ اظہار کی ایک نئی تعریف ایجاد کی ہے جس کے نتائج معاشرے میں جابجا نظر آرہے ہیں۔
ہر وہ معاشرہ جو اسلامی تصور صبر، قناعت، مسابقت فی الخیرات، اخوت، قربانی اور تعاون علی البر کی جگہ درآمد کیے ہوئے ہندوانہ یا مغربی تصورات و اقدار کو اختیار کرے گا، اس میں معاشرتی توڑ پھوڑ کا عمل فطری طور پر ہوگا اور قوتِ برداشت کی جگہ فوری فائدے کے حصول کی نفسیات کارفرما ہو گی۔
قرآن و سنت کا دیا ہوا حل نہ صرف آسان ہے بلکہ انتہائی عملی ہے۔ زندگی کے ہرمرحلے کے لیے اس نے جو حکمت عملی دی ہے ہم نے اسے اپنی ناسمجھی کی بنا پر پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ اسلام کایہ حل نہ وقت میں قید ہے نہ مکان میں بلکہ ہر دور میں اور ہرمقام پر یکساں قابلِ عمل ہے۔ اس حکمت عملی کے چند نمایاں پہلو یہ ہیں:
توازن اور عدل کا رویہ:قرآن کریم کاہر فرمان ایک فرد، خاندان، معاشرے اور ریاست ہر سطح پر امن و سکون پیدا کرنے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ ہمیں اسے گھر، تعلیم گاہ اور معاشرے میں متعارف کرانا ہوگا۔
قرآنِ کریم کی بنیادی تعلیمات میں توحید کے بعد سب سے اہم تعلیم، عدل، توازن اور اعمال کو جیساکہ اس کا حق ہے ادا کرنے کی ہے۔ ’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور عدل کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ توازن سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ کی روش سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘ (المائدہ ۵:۸)۔ یہ عدل انسان کے ذاتی، خاندانی، معاشرتی اور بین الانسانی معاملات میں خوب صورتی اور حُسن پیدا کرتا ہے اور اس عدل کی کمی ، ظلم، استحصال اور ناانصافی کو پیدا کرتی ہے۔ اس لیے عدل کے بغیر کسی معاشرے میں بھلائی اور اصلاح نہیں ہوسکتی ۔ معاشی بدحالی سے زیادہ عدل کا فقدان تباہی کا باعث بنتا ہے۔
وہ حقوق والدین کے ہوں یا بیوی اور بچوں اور پڑوسیوں کے، ہمیں انھیں اولیت دینا ہے اور مغربی انفرادیت کے خول سے نکل کر اسلام کے اجتماعیت کے تصور کو اختیار کرنا ہے۔اسلام ایک جامع اجتماعی نظام ہے، یہ محض ایک فرد کی انفرادی اصلاح کا نسخہ نہیں ہے۔ حقوق کی ادایگی باہمی رواداری، اخوت کو پروان چڑھانے اور طبقاتی نظام سے نجات کا ذریعہ بنے گی۔ فقرا و مساکین کی ضروریات کا پورا کرنا کوئی ’خیراتی‘ کام نہیں ہے۔ یہ انفرادی اور اجتماعی فریضہ ہے۔ اس لیے فرمایا گیا: وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذاریات ۵۱:۱۹)یعنی’’ تمھارے اموال میں سائل اور محروم کا حق ہے‘‘۔
مسلمان کے مسلمان پر حقوق کو تعلیم گاہوں، دفتروں، تجارتی مراکز، غرض ہر مقام پر تعلیمی اور دیگر ذرائع کا استعمال کرکے ان حقوق کی آگاہی اور ان پر عمل کو ضابطہ بنانا ہوگا۔ اس سلسلے میں جو کم از کم عملی کام کرنے ہوں گے وہ اختصار سے درج ذیل ہیں:
یہ وہ شیطانی عمل ہے جو ایک انسان کو چند لمحات کے لیے عقل و دانش کی جگہ انتقام اور زیادتی کی طرف لے جاتا ہے۔ ارشاد رحمۃ للعالمینؐ ہے: ’’جو (خلافِ حق بولنے سے) اپنی زبان کی حفاظت کرے گا، اللہ اس کے عیب پر پردہ ڈالے گا، اور جو اپنے غصے کو روکے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عذاب کو اس سے ہٹائے گا،اور جو خدا سے معافی مانگے گا خدا اس کو معاف کردے گا‘‘۔(عن انسؓ، مشکوٰۃ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت موسٰی ؑ نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا: ’’اے میرے رب! آپ کے نزدیک آپ کے بندوں میں سے کون سب سے پیارا ہے؟‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’وہ جو انتقامی کارروائی کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردے‘‘۔(عن ابوہریرہؓ، مشکوٰۃ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’طاقت ور وہ شخص نہیں ہے جو کُشتی میں دوسروں کو پچھاڑ دیتا ہے بلکہ طاقت ور تو درحقیقت وہ ہے جو غصے کے موقعے پر اپنے اُوپر قابو رکھتا ہے (یعنی غصے میں آکر کوئی ایسی حرکت نہیں کرتا جو اللہ او رسولؐ کو ناپسند ہو)۔(عن ابوہریرہؓ، بخاری)
ہر وہ شے جھوٹ ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیے گئے معاہدۂ اطاعت و فرماں برداری سے ٹکراتی ہو۔ ایفاے عہد، خوش کلامی، عفو و درگزر، امانت داری یہ وہ احکامات ہیں جن کے خلاف کوئی عمل کرنا جھوٹ پر عمل کرنا ہے۔
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’چار خصلتیں جس شخص میں ہوں گی وہ پکا منافق ہوگا اور جس شخص کے اندر ان میں سے کوئی ایک خصلت ہوگی تو اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہوگی، یہاں تک کہ اس کو ترک کردے۔ وہ چار خصلتیں یہ ہیں: جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو وہ خیانت کرے، اور جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے، اور جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، اور جب کسی سے اس کا جھگڑا ہوجائے تو گالی پر اُتر آئے‘‘۔(عن عبداللہ بن عمروؓ، بخاری، مسلم)
ہمارے معاشرے میں دوعملی اور دورُخاپن ایک بیماری کی شکل اختیار کرگیا ہے جو آخرکار تشدد و ٹکرائو کا باعث بنتا ہے۔ ہمیں دورُخے پن کو ختم کر کے اخلاص اور بھلائی کی تلقین کا رویہ اختیار کرنا ہوگا۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’جو شخص دنیا میں دو رُخاپن اختیار کرے گا تو قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی دو زبانیں ہوں گی‘‘۔( عن عمارؓ، ابوداؤد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم قیامت کے دن بدترین آدمی اُس شخص کو پائو گے جو دنیا میں دو چہرے رکھتا تھا۔ کچھ لوگوں سے ایک چہرے کے ساتھ ملتا تھا اور دوسرے لوگوں سے دوسرے چہرے کے ساتھ‘‘۔(متفق علیہ)
ظلم اور عدم رواداری کا ایک بڑا سبب برائی کا دفاع، اپنی برادری یا قبیلے کا ساتھ دینے کی بنا پر کرنا ہے۔ یہ ایک عظیم گناہ اور معاشرتی بگاڑ کا ایک بڑا سبب ہے۔ جو شخص اس مرض میں گرفتار ہوا اس کی آنکھ وہی دیکھتی ہے جو اس کی برادری، قبیلہ یا جماعت اسے دکھائے۔
ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرض کی نشان دہی یوں فرمائی: ’’وہ شخص ہم میں سے نہیںہے جو عصبیت کی دعوت دے، اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں ہے جو عصبیت کی بنیاد پر جنگ کرے، اور وہ بھی ہم میں سے نہیں ہے جو عصبیت کی حالت میں مرے‘‘۔( عن جبیر بن مطعمؓ، ابوداؤد)
راوی کہتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ’’اپنے لوگوں سے محبت کرنا کیا عصبیت ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’نہیں، بلکہ عصبیت یہ ہے کہ آدمی ظلم کے معاملے میں اپنی قوم کا ساتھ دے‘‘۔(عن ابونسیلہؓ، مشکوٰۃ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص (کسی ناجائز معاملے میں) اپنی قوم کی مدد کرتا ہے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کوئی اُونٹ کنویں میں گر رہا ہو اور یہ اس کی دُم پکڑ کر لٹک گیا ہو تو یہ بھی اس کے ساتھ جاگرا‘‘۔(عن ابن مسعودؓ، ابوداؤد)
ہم اکثر اپنی وابستگیوں اور تعلقات کے اتنے غلام ہوجاتے ہیں کہ عدل اور حق ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ لسانی عصبیت ہو یا قبائلی اور نسلی عصبیت ان بتوں کو پوجنے کے لیے ہم ایسی اصطلاحات ایجاد کرلیتے ہیں جو ہمیں محبت کے نام پر نفرتوں کو پھیلانے کی آزادی دے دیں۔
کسی طاغوتی طاقت کو امن و سلامتی کا رکھوالا سمجھنا، کسی سودی قرض دینے والے ادارے کی ہرطرح کی شرائط تسلیم کرکے قوم کو قرض کے بوجھ تلے دبا دینا، کسی نام نہاد عالمی ادارے کو خوش کرنے کے لیے اسلامی شریعت کے منافی دستوری ترمیمات کے ذریعے شرعی احکام کو پامال کرنا، اپنے ذاتی مفاد اور معاشی فائدے کے لیے قومی مفاد کو پسِ پشت ڈال دینا___ یہ سب معاملات شہادت زور (جھوٹی گواہی) کی تعریف میں آتے ہیں اور جب تک ان سے توبۃ النصوح نہ کی جائے اور ان کی طرف پھر کبھی رُخ نہ کیا جائے اس وقت تک معاشرے میں امن و سکون، رواداری اور اخوت و محبت پیدا نہیں ہوسکتی۔
آج شہادت زور ٹی وی اسکرین پر ہو یا عدالت میں یا کسی عظیم الشان اجتماع میں، اسے ایک فنکارانہ صلاحیت اور چابک دستی قرار دیاجاتا ہے۔ اس کی اصلاح کے بغیر معاشرہ اور فرد بھلائی اور سکون حاصل نہیں کرسکتا۔ شارع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرض کی طرف یوں اشارہ فرمایا ہے: ’’خریم بن فاتکؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی اور جب لوگوں کی طرف رُخ پھیرا تو بیٹھے رہنے کے بجائے آپؐسیدھے کھڑے ہوگئے اور تین بار فرمایا: ’’جھوٹی گواہی دینا اور شرک کرنا دونوں برابر کے گناہ ہیں‘‘۔(ابوداؤد)
پھر آپؐ نے پڑھا: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ (تو تم ناپاکی یعنی بتوں سے دُور رہو اور جھوٹی بات کہنے سے دُور رہو اور خدا کے لیے یک سُو ہوجائو، شرک چھوڑ کر توحید اختیار کرو)۔
شہادتِ زور کو الرجس قرار دینا خود اس کے گھنائونا ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ جھوٹی گواہی محض عدالتوں میں نہیں بلکہ ایمان کے دعوے کے بعد نماز کی ادایگی نہ کرنا، زکوٰۃ کا ادا نہ کرنا، ظلم ہوتے ہوئے دیکھ کر خاموش رہنا، طاغوتی قوتوں کے خلاف کلمۂ حق بلند نہ کرنا غرض زندگی کے تمام معاملات میں اس اہم تعلیم کا دخل ہے۔ اسلامی شخصیت کی تعمیر اسی وقت ہوسکتی ہے جب شہادتِ زور سے مکمل طور پر نجات حاصل کی جائے۔
آج آزادیِ صحافت اور آزادیِ راے کے نام پر جس بے دردی کے ساتھ حقائق کا گلا کُندچھری سے ذبح کیا جاتا ہے وہ اپنی مثال آپ بن گیا ہے۔ یہ افواہیں بُرائی کے فروغ اور ظلم و استحصال کے لیے سازگار فضا پیدا کرتی ہیں اور لوگوں کو ورغلا کر سڑکوں پر آکر توڑپھوڑ اور معصوم شہریوں کی اِملاک کو نقصان پہنچانے پر اُبھارتی ہیں۔ اس فتنے کی اصلاح بلاتاخیر کرنی ہوگی۔ دین کی حکمت کو قیامت تک سب سے زیادہ سمجھنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’شیطان آدمی کے بھیس میں کام کرتا ہے، وہ لوگوں کے پاس آکر جھوٹی باتیں بیان کرتا ہے۔ پھر لوگ جدا ہوجاتے ہیں (یعنی مجلس ختم ہوجاتی ہے اور یہ لوگ منتشر ہوجاتے ہیں) تو ان میں سے ایک آدمی کہتا ہے کہ مَیں نے یہ بات ایک آدمی سے سنی ہے جس کا چہرہ تو مَیں پہچانتا ہوں لیکن نام نہیں جانتا‘‘۔ ( عن ابن مسعودؓ، مسلم)
معاشرے کے ہر کلمہ گو فرد کو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر عمل کرتے ہوئے اصلاح اور نیکی کے قیام کے لیے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام دینا ہوگا۔ وہ افراد جو اپنے آپ کو اسلامی تحریک سے وابستہ سمجھتے ہوںان پر یہ فریضہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ عائد ہوتا ہے کہ وہ ہرہرسطح پر اپنے ہاتھ،اپنی زبان اور اپنے دل کے ساتھ امربالمعروف ونہی عن المنکر اور خیرخواہی اور نصیحت کے فریضے کو انجام دیں۔
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’دین خلوص و خیرخواہی کا نام ہے‘‘۔ یہ بات آپؐ نے تین دفعہ فرمائی۔ صحابہؓ نے عرض کیا: کس کے لیے خلوص اور خیرخواہی؟ آپؐ نے فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے اجتماعی نظام کے سربراہوں کے لیے، اور عام اہلِ اسلام کے لیے‘‘۔(عن تمیم داریؓ، مسلم)
خلوصِ نیت سے اصلاحِ احوال کے لیے بھلائی کا مشورہ دینا، امر بالمعروف کرنا اور اس مشورے میں کوئی تخصیص نہ کرنا دین کا تقاضا ہے۔ یہ نصیحت ہرہرسطح پر کرنی ہوگی۔ وہ ایوانِ اقتدار ہو یا کسی تحریک کا نظم، وہ عام کارکن ہوں یا مرکزی ذمہ داران، اس سے کسی کو بھی مستثنیٰ نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک یہ پُرخلوص تنقید ہوتی رہے گی ادارے، تحریکات اور ملک کے سربراہان راہِ راست پر رہیں گے۔ جب مصلحت، بزرگی اور منصب کے احترام کی بنا پر حق بات کا نہ کہنا عام ہو جائے تو پھر نہ کوئی ادارہ، نہ کوئی گھر، نہ کوئی جماعت اور نہ کوئی ملک صحیح خطوط پر ترقی کرسکتا ہے۔
دین کے تمام معاملات کا انحصار تعلق باللہ پر ہے۔ اس لیے امربالمعروف اور نصیحت ہو یا افواہوں کو رد کرتے ہوئے حق کی گواہی دینے کا مرحلہ، تحریک کے اندر کسی کمزوری کی نشان دہی اور خلوصِ نیت کے ساتھ اس کی اصلاح کی کوشش ہو یا احتسابِ نفس اور ذمہ داران کا احتساب، ہرہرعمل کی بنیاد تعلق باللہ پر ہے۔ جتنا ہمارا تعلق اپنے رب سے، اس کے بھیجے ہوئے کلامِ قرآنِ مجید اور اس کے مقرر کردہ ہادی اعظمؐ اور خاتم النبیینؐ سے انتہائی قریبی نہیں ہوگا، ہماری کوئی کوشش بارآور نہیں ہوسکتی۔ ربِ کریم کا وعدہ ہے اور اس کا ہر وعدہ حق ہوتا ہے کہ جب اہلِ ایمان اللہ کو رب مان کر اس پر استقامت سے جم جاتے ہیں اور کسی اور کی حاکمیت ماننے کو تیار نہیں ہوتے، تو وہ اَن دیکھی قوتوں سے ان کی نصرت کرتا ہے اور کامیابی کو ان کا مقدر بنا دیتا ہے۔
معاشرہ، خاندان اور ریاست سے تشدد کا خاتمہ مزید تشدد سے نہیں دین کی حکمت اور دین کی واضح تعلیمات کے نفاذ ہی سے ہوسکتا ہے۔ عدل کا قیام، سچائی کا فروغ اور امانتوں کا ان کے اہل افراد کے سپرد کرنا کامیابی کی بنیادی شرط ہے۔
بلاشبہہ اس کائنات کے ذرے ذرے میں اللہ تعالیٰ کی آیات اور نشانیاں بکھری پڑی ہیں، اور یہ نشانیاں ہیں ہی اس لیے کہ ان پر غوروفکر کیا جائے اور ان کی روشنی میں اپنا رویہ اور عمل مرتب کیا جائے۔ مگر افسوس کہ انسانوں کی عظیم اکثریت ان نشانیوں پر کوئی توجہ نہیں دیتی اور اندھوں اور بہروں کی طرح اللہ کی روشن نشانیوں سے معاملہ کرتی ہے۔ قرآن بار بار انسانوں کو اللہ کی ان نشانیوں پر غور کرنے اور کھلی آنکھوں اور کھلے دماغ سے ان سے روشنی حاصل کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ یُبَیِّنُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ o(البقرہ۲:۲۲۱) ’’اور وہ اپنی نشانیاں واضح طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ سبق سیکھیں‘‘۔ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ o(النحل ۱۶:۱۱) ’’اس میں ایک بڑی نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں‘‘۔ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّذَّکَّرُوْنَo(النحل ۱۶:۱۳) ’’ان میں ضرور نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو سبق حاصل کرنے والے ہیں‘‘۔
ملت ِاسلامیہ پاکستان کے لیے ۱۴؍اگست کا دن بھی اللہ کی ایک نشانی ہے۔ صرف سات سال کی بھرپور اور پُرامن جدوجہد کے نتیجے میں دنیا کے سیاسی نقشے پر، اور وہ بھی ایک ایسے سیاسی نقشے پر جس کے سبھی نقش مغربی تہذیب، مادیت، سیکولرزم اور لبرلزم کے رنگوں سے آلودہ تھے، عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر ایک ریاست کا قیام ایک تاریخی کرشمے سے کم نہ تھا۔ تحریکِ پاکستان کی اصل بنیاد اور روح ہی یہ تھی کہ برعظیم ہند میں مسلمان محض دوسری اکثریت نہیں بلکہ ایک نظریاتی قوم ہیں۔ ان کا مقصد صرف یورپی استعمار سے آزادی ہی نہیں، توحید اور رسالت ِ محمدیؐ کی بنیاد پر ایک نئے سیاسی اور اجتماعی نظام کا قیام ہے۔ جو بہرحال وقت کے غالب تصورات سے بغاوت اور ایک نئے نظریاتی مستقبل کی تعمیر کے عزم سے عبارت تھا۔ آزادی کا حصول اس اصل مقصد کے لیے تھا۔ ان دونوں میں لازم و ملزوم کا رشتہ تھا، جسے علامہ محمد اقبال نے اپنے ۱۹۳۰ء کے خطبے اور پھر قائداعظم محمدعلی جناح کے نام اپنے خطوط میں بہت صاف الفاظ میں بیان کردیا تھا:
انگریزوں سے آزادی اور حصولِ ملک براے قیامِ نظامِ اسلامی‘ ہی تحریکِ پاکستان کی امتیازی خصوصیت ہے اور قائداعظم کی قیادت میں جو تاریخی کامیابی قیامِ پاکستان کی شکل میں حاصل ہوئی، اس کا سہرا اسی تصور اور اس تصور کی خاطر برعظیم کے مسلمانوں کی جدوجہد اور قربانیوں کے سر ہے۔ ۱۴؍اگست کی اصل اہمیت ہی یہ ہے کہ یہ تاریخ ہرسال پوری قوم کو تحریکِ پاکستان کے اصل مقصد اور ہدف و منزل کی یاددہانی کراتی ہے، اور ہمیں اس امر پر سوچنے کی دعوت دیتی ہے کہ سات سال میں کیا کچھ اس قوم نے حاصل کرلیا تھا پھر آزادی کے چھے عشروں میں اس اصل مقصد کے باب میں غفلت اور بے وفائی کا راستہ اختیار کیا، تو اب ٹامک ٹوئیاں مارنے کے نتیجے میں موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا ہیں، لیکن افسوس تو یہ ہے کہ اللہ کی اس نشانی سے سبق سیکھتے ہوئے راہِ راست کی طرف آنے کی کوشش اور جدوجہد نہیں کررہے۔
آزادی کی ۶۸ویں سالگرہ کے موقعے پر ہم قوم کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ اس عظیم موقعے کو محض چند روایتی اور نمایشی کارروائیوں کی نذر کرنا ایک سنگین مذاق اور بڑا المیہ ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری دیانت داری کے ساتھ اس عظیم دن کی اصل نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ پھر اس سبق اور پیغام کو حرزِ جاں بنایا جائے جس کی نشانی (آیت) ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء، ۲۷رمضان المبارک ۱۳۶۶ھ ہے۔
پاکستان کا قیام ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ اس ملک کے قیام کی جدوجہد جہاں زوال پذیر برطانوی استعمار اور اُبھرتے ہوئے ہندو سامراج کی گرفت سے آزادی کی تحریک تھی، وہیں اس سے زیادہ یہ ایک نظریاتی اور تہذیبی احیا کی تحریک تھی۔ اس کا اصل مقصد برعظیم کے ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے، وہاں کے لوگوں کو اپنے دین، ایمان، تصورِ حیات، روایات اور ملّی عزائم کی روشنی میں آزاد فضا میں ایک روشن مستقبل کی تعمیر کا موقع فراہم کرنا تھا۔ سیاسی آزادی اور دینی اور تہذیبی تشکیلِ نو کا مقصد اور عزمِ تحریکِ پاکستان کے دو اہداف تھے، جو ایک ہی تصویر کے دو رُخ کی حیثیت رکھتے ہیں___ ان دونوں کا ناقابلِ انقطاع تعلق اسلامیانِ پاکستان کی قوت کا راز ہے اور ان میں تفریق اور امتیاز بگاڑ اور خرابی کی اصل وجہ ہے۔
تحریکِ پاکستان کا یہ کارنامہ ہے کہ اس نے برعظیم کے مسلمانوں کو ان کی قومی شناخت دی اور اس شناخت کی بنیاد پر ایک آزاد مملکت کے قیام کے لیے ان کو سرگرم اور متحرک کردیا، جس کا نتیجہ تھا کہ سات سال کی مختصر مدت میں برعظیم کے دس کروڑ مسلمانوں نے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند اپنی آزادی اور دین کے تحفظ کی جنگ لڑی اور بلالحاظ اس کے کہ پاکستان کے قیام سے کس کو کیا فائدہ پہنچے گا اور کس کو کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی، ایک نظریاتی جنگ کے نتیجے میں ایک آزاد ملک قائم کیا۔
تحریکِ پاکستان کی بنیاد اسلام کا تصورِ قومیت ہے جس کی روشنی میں قوم کی آزادی اور آزادی کے سایے میں قوم کی اجتماعی زندگی کی تشکیل نو کے لیے مملکت کا حصول عمل میں آیا۔ لیکن پاکستان کے ساتھ یہ المیہ رُونما ہوا کہ وہ قوم جسے مختصر ترین وقت میں یہ مملکت ِ خداداد ملی تھی، اسی قوم کے اہلِ حل و عقد اسلامی قومیت کی بنیاد پر ملک کی تعمیر سے غافل ہوگئے۔ نظریاتی شناخت اور بنیاد سے ہٹ کر ملک کو ’ترقی یافتہ‘ بنانے کی سعی لاحاصل میں ملک کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا۔ جس کانتیجہ ہے کہ صرف ۲۴برس بعد ۱۹۷۱ء میں ملک دولخت بھی ہوگیا اور آج جو کچھ موجود ہے، اس کی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ آج جس حقیقت کے اِدراک اور اقرار کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کا قیام اور پاکستان کے وجود،بقا اور ترقی کا انحصار اس نظریے پر ہے، جو تحریک کی روح اور کارفرما قوت تھی۔ قائداعظم نے ایک جملے میں اس حقیقت کو بیان کردیا تھا:
اسلام ہمارا بنیادی اصول اور حقیقی سہارا ہے۔ ہم ایک ہیں اور ہمیں ایک قوم کے طور پر آگے بڑھنا ہے۔ تب ہی ہم پاکستان کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوں گے۔
لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ قائد کے اس انتباہ کو ہم نے بحیثیت قوم نظرانداز کیا۔
۱۴؍اگست ایک عظیم یاددہانی ہے، اور یہ ایک انتباہ بھی ہے کہ اگر ملک اور نظریے کے رشتے کو نظرانداز کیا گیا تو ملک کا وجود بھی معرضِ خطر میں ہوگا (یوں تو اس وقت بھی معرضِ خطر ہی میں ہے) ۔ ہم قیامِ پاکستان کی ۶۸ویں سالگرہ کے موقعے پر اسی بنیادی نکتے پر قوم کو غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں کہ ملک آج جن مشکلات میں پھنسا ہوا ہے، ان سے نکلنے کے لیے اس بنیاد کی طرف لوٹ کر آنے کے سوا کوئی راستہ نہیں، جو تحریکِ پاکستان کی اساس ہے، جو ہماری قوت کا اصل منبع ہے، جس کے ذریعے ہم یہ ملک حاصل کرسکے اور جس کے بغیر ہم اس کو نہ قائم رکھ سکتے ہیں اور نہ ترقی دے سکتے ہیں۔
آج سب سے بڑی ضرورت قوم اور ملک کے اس تعلق کو سمجھنے اور اس پر سختی سے قائم رہنے میں ہے کہ اللہ کی سنت یہ بھی ہے کہ اگر ایک فرد یا قوم اس کی نعمتوں پر شکر کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو اس کے انعامات میں بیش بہا اضافہ ہوتا ہے اور اگر وہ کفرانِ نعمت کرتے ہیں تو پھر اس کی پکڑ بھی بہت ہی شدید ہے___ اور ناشکری کے نتیجے میں جو بگاڑ اور تباہی رُونما ہوتی ہے، اس کی ذمہ داری صرف اور صرف فرد اور قوم کے اپنے رویے اور کرتوتوں پر ہوتی ہے:
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَ لَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ o (ابراہیم ۱۴:۷) اور یاد رکھو، تمھارے رب نے خبردار کردیا تھا کہ اگر تم شکرگزار ہو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔
اور یاد رکھو:
وَ مَا کُنَّا مُھْلِکِی الْقُرٰٓی اِلَّا وَ اَھْلُھَا ظٰلِمُوْنَ o(القصص ۲۸:۵۹) اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے رہنے والے ظالم نہ ہوجائیں۔
جیساکہ ہم نے عرض کیا پاکستان کا قیام ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ جس میں ہمیں آزادی کی نعمت حاصل ہونے کے ساتھ یہ موقع بھی ملا کہ آزاد فضا میں اپنے تصورات کے مطابق نئی زندگی تعمیر کریں۔ لیکن افسوس کہ ابتدائی چند برسوں کے بعد ہی جو عناصر قیادت پر قابض ہوگئے تھے، انھوں نے نہ صرف ان مقاصد کو فراموش کیا بلکہ ملک کو انھی باطل نظریات اور مفادات کے حصول کی بھٹی میں جھونک دیا جن سے نکلنے کے لیے تحریکِ پاکستان برپا کی گئی تھی۔ وہ یک سوئی جو تحریکِ پاکستان کا طرئہ امتیاز تھی ختم ہوگئی اور ملک اندرونی کش مکش اور بیرونی سازشوں کی آماج گاہ بن گیا اور آج ہماری آزادی بھی معرضِ خطر میں ہے اور ملک بھی معاشی، سیاسی، ثقافتی، اخلاقی غرض ہر اعتبار سے تنزل کا شکار نظر آتا ہے۔
۱۴؍اگست ہمیں دعوت دے رہا ہے کہ ان اصل مقاصد کی نشان دہی کریں جو قیامِ پاکستان کی جدوجہد کا محرک اور اس تحریک کی امتیازی خصوصیت تھے اور پھر اس بگاڑ کی نشان دہی کریں جس نے ہمیں تباہی کے کنارے پر پہنچا دیا ہے۔ اس تجزیے کی روشنی میں ایک بار پھر اس راستے اور منزل کی نشان دہی کریں جو اس تباہی سے بچنے اور اصل مقاصد کے حصول کی طرف پیش قدمی کا راستہ ہے۔
تحریکِ پاکستان کا پہلا اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعے دورِحاضر میں برعظیم کے مسلمانوں نے اپنی خودی کو پہچانا اور اس طرح اپنے حقیقی وجود کو پایا۔ تحریکِ پاکستان نے پاکستانی قوم کو اس کا اصل تشخص دیا تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس اور سامراجی قوتیں جو خطرناک کھیل کھیل رہی تھیں، وہ ناکام ہوئیں اور مسلمانوں نے اپنے اصل تشخص کی بقا اور استحکام کے لیے جان کی بازی لگادی۔ انھوں نے بھی جن کو اس جدوجہد کے نتیجے میں سیاسی آزادی ملی اور انھوں نے بھی جو جانتے تھے کہ سامراج کے رخصت ہونے کے بعد وہ خود حقیقی آزادی کی روشن صبح سے محروم رہیں گے۔ انھیں یہ یقین تھا کہ مسلمانوں کی ایک ایسی آزاد مملکت قائم ہوگی، جو اسلام کا مظہر اور سارے مظلوم انسانوں کا سہارا ہوگی۔ نظریاتی وطن کے قیام کی اس کامیاب جدوجہد نے مغرب کی لادینی قومیت کے بت کو پاش پاش کردیا اور ملت اسلامیہ پاک و ہند نے اقبال کا ہم زباں ہوکر انسانیت کے لیے ایک نئے روح پرور تشخص کی یافت سے ایک نئے دور کا آغاز کیا:
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
قیامِ پاکستان کا یہی وہ پہلو ہے کہ ۱۹۴۷ء کے بعد پوری مسلم دنیا میں اسلامی ریاست اور اسلامی تہذیب کے احیا کی لہریں بار بار اُٹھ رہی ہیں اور سارے نشیب و فراز کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے اور ان شاء اللہ جاری رہے گا۔
قیامِ پاکستان کا دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ اس کے نتیجے میں ایک طرف اہلِ پاکستان نے غلامی کی زنجیریں توڑیں، دوسری طرف برعظیم کے مسلمانوں کو امن کی جگہ میسر آئی۔ برعظیم کے مسلمانوں کے ایک بڑی تعداد ’’ہے ترکِ وطن سنت محبوب الٰہی‘‘ پر عمل کرتے ہوئے اپنے گھربار چھوڑ کر اس نئے ملک کی تعمیر کے لیے سرگرمِ عمل ہوگئی۔ جس جذبے اور جن عزائم سے یہ ترک و اختیار، واقع ہوئے، وہ ہماری تاریخ کا نہایت ایمان افروز اور روشن باب ہے۔ یہی وہ جذبہ تھا، جس نے پاکستان کو ان اولیں ایام میں ایسے تمام خطرات کا مقابلہ کرنے کے لائق بنایا، جو اس نوزائیدہ ملک کو درپیش تھے اور جن حوادث کا ہدف اس غنچے کو پھول بننے سے پہلے ہی مَسل دینا تھا۔ آزادی خود ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اس کا پورا اِدراک انھی لوگوں کو ہوسکتا ہے، جنھوں نے غلامی کی تاریک رات کی صعوبتوں کو برداشت کیا ہو۔ آزادی کی شکل میں جو نعمت آج اہلِ پاکستان کو حاصل ہے، وہ ہر دوسری نعمت سے زیادہ قیمتی اور حیات افروز ہے۔
اس تحریک کا تیسرا پہلو یہ تھا کہ یہ ایک عوامی اور جمہوری تحریک تھی۔ قائداعظمؒ نے مسلمان قوم کو بیداراور منظم کیا اور سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے عوامی قوت اور تائید کے ذریعے سات سال کی قلیل مدت میں وہ کام کردکھایا، جسے دوسرے، سالہا سال میں بھی انجام نہ دے سکے۔ تحریکِ پاکستان ایک عوامی تحریک تھی۔ جن کی نظر تحریکِ پاکستان کی تاریخ پر ہے، وہ جانتے ہیں کہ سیاسی اشرافیہ (elites) نے کس کس طرح اس تحریک کاراستہ روکنے کے لیے سازشوں کے جال بُنے۔ لیکن اللہ کے فضل سے قائداعظمؒ کی قیادت اور عوام کی تائید و اعانت نے اس تحریک کو آزادی کی منزل سے ہم کنار کیا۔
اس تحریک کاچوتھا پہلو یہ تھا کہ قیامِ پاکستان ،اس تحریک کی آخری منزل نہیں تھا بلکہ پہلا سنگِ میل تھا۔ اصل ہدف ایک ایسے معاشرے اور ریاست کا قیام تھا، جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی سچی وفادار اور ان تعلیمات کی آئینہ دار ہو، جو انھوں نے انسانیت کو عطا کی ہیں۔ جس میں اخلاقی اقدار کو بالادستی حاصل ہو، جہاںفرد کے حقوق کی پوری حفاظت ہو، جہاں ہر مرد اور ہرعورت کی جان، مال اور آبرو محفوظ ہو۔ جہاں تعلیم کی روشنی سے بلاتخصیص مذہب و عقیدہ ہرفرد نورحاصل کرسکے۔ جہاں قانون کی حکمرانی ہو۔ جہاں حلال رزق اور معاشی ترقی کے مواقع تمام انسانوں کو حاصل ہوں۔ جہاں عدلِ اجتماعی کا بول بالا ہو اور جہاں ریاست اور اس کے کارپرداز عوام کے خادم ہوں۔ اسلام اور اس کے دیے ہوئے جمہوری اور عادلانہ نظام کا یہ تصور تھا، جس نے مسلمانوں کو اس تحریک میں پروانہ وار شریک کیا تھا اور وہ برملا کہتے تھے ہمیں ایک بار پھر اس دور کا احیا کرنا ہے، جس کی مثال اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خلفاے راشدینؓ نے قائم کی تھی۔
آیئے، قیامِ پاکستان کے ان مقاصد اور عزائم کے پس منظر میں اپنی قومی زندگی کے اس نئے سال کے آغاز پر اس امر کاجائزہ لیں کہ پاکستانی قوم اور اس کی قیادتوں نے کہاں تک ان اہداف کی طرف پیش قدمی کی اور ملک عزیز کو آج کون سے مسائل، خطرات اور چیلنج درپیش ہیں۔ نیز ان حالات میں اصل منزل کی طرف پیش رفت کے لیے صحیح حکمت عملی اور لائحہ عمل کیا ہے۔
تحریکِ پاکستان اور تاریخ ِ پاکستان کے معروضی تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قیامِ پاکستان کا اصل سہرا اللہ تعالیٰ کے فضلِ خاص کے بعد اگر کسی کے سر جاتا ہے تو وہ قائداعظم کی فراست و قیادت اور مسلمان عوام کا جذبہ اور قربانی ہے۔ آزادی کے فوراً بعد ان کی بیماری اور وفات نے ایک ایسی صورت حال پیدا کردی، جس میں وہ کھوٹے سکے، جو ان کے گرد جمع تھے، اقتدار پر قبضہ جماکر ریاست کی مشینری کو بالکل دوسرے ہی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے میدان میں کود پڑے۔
پہلے وزیراعظم کو گولی کا نشانہ بنا کر قومی منظر سے ہٹا دیا گیا، دوسرے وزیراعظم کو برطرفی کی تلوار کے بل پر نکال باہر کیا گیا اور ان کے مخلص ساتھیوں کو سازشوں کے ذریعے غیر مؤثر بنادیاگیا، اور چند ہی برسوں میں بساط سیاست ایسی اُلٹی کہ اصل نقشہ درہم برہم کرکے یہ مخصوص ٹولہ اقتدار کے ہرمیدان پر قابض ہوگیا۔قانون اور ضابطے کا احترام ختم ہوگیا۔ منتخب دستور ساز اسمبلی کو بار بار توڑ دیا گیا۔ انتظامیہ اور پولیس کو سیاسی قیادت نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، جو بالآخر انھی کے ہاتھوں اسیر ہوکر رہ گئی۔ فوج کو بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور پھر فوج نے اپنے لیے سیاسی کردار حاصل کرلیا۔ عدلیہ نے کچھ مزاحمت کی، لیکن اسے بھی زیردام لانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔
نوسال بعد پہلا دستور بنا، جسے دوہی سال کے بعد توڑ دیا گیا، اور دستور شکنی کی ایک ایسی ریت چل پڑی، جس کے مذموم اثرات سے آج بھی نجات ممکن نہیں۔ جس احساس تشخص نے قوم کو جوڑا تھا، اس پر ہر طرف سے تیشہ چلایا گیا، لادینی نظریات، علاقائیت، لسانیت، برادری کا تعصب، قبائلیت، غرض کون سا تیشہ ہے جو اس پر نہ چلایا گیا ہو۔
آزادی کے بعد۲۳سال تک بالغ راے دہی کی بنیاد پر انتخاب نہ کرائے گئے اور پھر دسمبر ۱۹۷۰ء میں انتخابات منعقد ہوئے تو وہ دھونس، دھاندلی اور بدعنوانی کا شاہ کار رہے کہ عوامی مینڈیٹ ایک مذاق بن گیا۔ سیاسی جماعتوں میں ذاتی بادشاہت، خاندانی قیادت اور علاقائی اور لسانی تعصبات کا غلبہ رہا اور حقیقی جمہوریت کے فروغ کا ہر راستہ بند کردیا گیا۔ جس کے نتیجے میں علاقائی تعصبات نے سیاست کو آلودہ کیا اور قومی سیاست کی گاڑی پٹڑی سے اُتر گئی۔ مغربی اور ہندو تہذیب کو رواج دینے کی دانستہ کوشش کی گئی۔
معاشی ترقی کا وہ راستہ اختیار کیا گیا جس نے ملک کو ایک طرف طبقاتی تصادم میں مبتلا کیا تو دوسری طرف مغرب کے سودی سامراج کے چنگل میں اس طرح گرفتار کردیا کہ آج ملک اندرونی اور بیرونی قرضوں کے پہاڑ جیسے بوجھ تلے سسک رہاہے۔ بیرونی قرضے ۶۰؍ارب ڈالر کی خبر لارہے ہیں اور قرضوں کا کُل حجم ۱۵کھرب روپے سے متجاوز ہے۔ وفاقی حکومت کے کُل سالانہ بجٹ کا تقریباً ایک تہائی صرف سود اور قرضوں کی ادایگی کی نذر ہورہا ہے اور ملک کا ہر بچہ، جوان اور بوڑھا ۸۰ ہزار روپے کا مقروض ہے۔
پاکستان کا اصل المیہ ہی یہ ہے کہ اصل اقتدار اور اختیار آج تک عوام کی طرف منتقل نہیں ہوا، اور سارے وسائل پر ایک طبقہ قابض ہے جس کا تعلق سیاسی، انتظامی اور عسکری اشرافیہ سے ہے اور جو باری باری اقتدار پر براجمان ہوکر ملک کے سفید و سیاہ کا مالک بنا ہوا ہے۔ قومی دولت کا ۸۰فی صد آبادی کے اُوپر کے ۱۰ فی صد کے پاس ہے۔ ۱۰/۱۲ہزار بڑے خاندان ہیں جو زراعت، صنعت اور تجارت پر مکمل تصرف رکھتے ہیں اور یہی خاندان سیاست پر بھی چھائے ہوئے ہیں۔ پارٹی خواہ کوئی بھی ہو، سول بیوروکریسی اور عسکری اسٹیبلشمنٹ بھی اس گٹھ جوڑ کا حصہ ہے۔
دستور موجود ہے مگر اس کا بڑا حصہ عملاً معطل ہے۔ قانون صرف کتاب قانون کی ’زینت‘ ہے، اور عملاً قانون، ضابطے اور میرٹ کا کوئی احترام نہیں۔ پولیس سیاسی قیادت کی آلۂ کار بنی ہوئی ہے۔ ہرسمت کرپشن کا دور دورہ ہے ۔ عوام کے مسائل اور مشکلات کا کسی کو درد نہیں اور نہ کوئی ان کا پُرسانِ حال ہے۔ عدالت، خصوصیت سے اعلیٰ عدالت نے کچھ آزادی حاصل کی ہے مگر اس کے فیصلوں اور احکام کو بھی کھلے بندوں نظرانداز کیا جاتا ہے، یا عملاً انھیں غیرمؤثر (frustrate) کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ بجلی،گیس اور پانی کے بحران نے تباہی مچائی ہوئی ہے اور لاقانونیت اور دہشت گردی کے سبب عوام کی جان، مال اور عزت، سب معرضِ خطر میں ہیں۔
ان حالات کو اور بھی سنگین بنادینے والے چند پہلو اور بھی ہیں، جن کا اِدراک ضروری ہے۔
ان میں سب سے اہم محاذ یہ ہے کہ ملک کے معاملات میں بیرونی قوتوں اور خصوصیت سے امریکا اور مغربی اقوام کی دراندازیاں ہیں۔ یہ سلسلہ توملک غلام محمد اور جنرل ایوب خان کے دور ہی سے شروع ہوگیا تھا مگر جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے اَدوار میں یہ اپنے عروج کو پہنچ گیا اور یہی اُلٹا سفر آج بھی جاری ہے۔ ویسے تو قوم کو اس کا پورا پورا اِدراک تھا مگر وکی لیکس، ریمنڈ ڈیوس، ایبٹ آباد کے واقعے اور شکیل آفریدی کے اسکینڈل، این آر او اور پھر جنرل مشرف کے صدارت سے استعفے کے ڈرامے، فوجی سلامی کے ساتھ رخصتی، اور پھر بیرونِ ملک روانگی کے سلسلے میں جو تفصیلات سامنے آرہی ہیں اور ان میں جو کردار سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ امریکا اور برطانیہ کے سفارت کاروں کا سامنے آیا ہے، اس نے تو ملک کی آزادی اور ہماری سیاسی قسمت کی تخریب و تعمیر میں بیرونی کردار کا پردہ بالکل ہی چاک کر کے رکھ دیا ہے۔
معاشی اعتبار سے بھی انھی قوتوں کی گرفت ہماری معیشت پر مضبوط تر ہورہی ہے اور سیاسی اعتبار سے بھی اندرونی معاملات کی باگ ڈور انھی کے ہاتھوں میں نظر آرہی ہے۔ سول اور فوجی تعلقات کے جو نشیب و فراز قوم نے رواں سال میں دیکھے ہیں اور دیکھ رہی ہے، معاشی پالیسیوں کی صورت گری جس طرح عالمی بنک اور عالمی مالیاتی فنڈ کے اشاروں پر کی جارہی ہے اور سیاسی اُفق پر تبدیلیوں کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، اس نے آزادی اور قومی خودمختاری کی حقیقت کا بھانڈا پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
اس پر مستزاد وہ نظریاتی انتشار ہے جو ملک و قوم اور خصوصیت سے نئی نسلوں پر مسلط کیا جارہا ہے۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ بھی آج متنازع بنایا جارہا ہے۔ قراردادِ مقاصد ہدف تنقید و ملامت ٹھیری ہے۔ تاریخ کے قتل کا ہوّا دکھا کر تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ ریاست اور مذہب کے تعلق کو زیربحث لایا جا رہا ہے۔
ایک فی صد سے بھی بہت کم تعداد رکھنے والا سیکولر اور لبرل طبقہ ہے جو میڈیا پر قابض ہے، اور آزادیِ فکر کے نام پر قومی زندگی کے مسلمات کو چیلنج کر رہا ہے اور ملک و قوم میں فکری انتشار اور خلفشار پیدا کرنے اور بھارت اور مغربی اقوام کے سامراجی ایجنڈے کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ان ۶۷برسوں میں جو طبقہ حکومت، معیشت اور سیکورٹی کے نظام پر قابض رہا ہے وہ یہی سیکولر گروہ ہے جو کبھی سوشلزم کے نام پر، کبھی سرمایہ داری کے نام پر، اور کبھی روشن خیال جدیدیت کے نام پر حکمران رہا ہے اور سارے بگاڑ کا سبب رہا ہے۔ ملّا کو گالی دینا اور ہر خرابی کو ضیاء الحق کے سر تھوپنا تو اس کا وتیرا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ غلام محمد کے دور سے لے کر مشرف اور زرداری کے دور تک اقتدار اگر کسی طبقے کے ہاتھوں میں رہا ہے تو وہ یہی سیکولر مراعات یافتہ اشرافیہ ہے۔ سول دور ہو یا عسکری ، اس دوران میں یہی سیکولر طبقہ حکمران رہا ہے ۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں کچھ چیزیں اسلام کے احکام کے مطابق ضرور ہوئیں، لیکن بحیثیت مجموعی اس دور میں بھی اصل فکر اور اصل کارفرما ہاتھ بہت مختلف نہ تھے۔ اس لیے اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ آزادی کے چھے عشروں میں اگر کوئی فکر اور کوئی طبقہ حکمران رہا ہے تو وہ یہی سیکولر فکر اور سیکولر طبقہ ہے۔ چند مغربی محققین نے بھی اس امر کا برملا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان اور عرب ممالک میں خود مسلمانوں کی مغرب زدہ سیکولر قیادت ہے جو ناکام رہی ہے اور بگاڑ کی بھی بڑی حد تک ذمہ دار یہی بدعنوان اور نااہل قیادت ہے۔ اس سلسلے میں پروفیسر ولفریڈ کینٹ ول اسمتھ اور پروفیسر کیتھ کیلارڈ نے بہت صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ ان ممالک میں آج جو بھی حالات ہیں وہ مذہبی قوتوں کے پیدا کردہ نہیں ہیں، بلکہ ان ممالک میں مغرب نواز سیکولر قیادتیں ان کی ذمہ دار ہیں۔
انھی حالات کا نتیجہ ہے کہ پاکستان آج صرف سیاسی اور معاشی بحران ہی کا شکار نہیں، نظریاتی، اخلاقی اور تہذیبی انتشارمیں بھی مبتلا ہے۔ حالات کی اصلاح کے لیے اس طرح کی ایک ہمہ جہتی نظریاتی تحریک اور جدوجہد کی ضرورت ہے، جیسی برعظیم کے مسلمانوں کو برطانوی اور برہمن سامراج سے نجات دلانے کے لیے اقبال کی فکری اور قائداعظم کی سیاسی رہنمائی میں برپا کی گئی تھی۔
یہی حال قانون سازی کا ہے۔ قانون بناتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جا رہا کہ ملک و ملّت کا مفاد کیا ہے یا، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کیا ہے؟ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ امریکا اور مغرب کس بات پر خوش ہوں گے؟ اور کس پر نکتہ چیں؟ چونکہ مغرب نے آج کل فنڈامنٹلزم اور تشدد کا ہوّا کھڑا کر رکھا ہے اس لیے ہماری قومی قیادت کی جانب سے نہ صرف قسمیں کھائی جارہی ہیں کہ ہم فنڈامنٹلسٹ نہیں ہیں بلکہ ہرقانون اور اخلاقی قدر کو پامال کر کے واشنگٹن اور اس کے گماشتوں کے آگے ناک رگڑی جارہی ہے اور انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ان بھیڑیوں اور درندوں کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔ خود اقتدار میں آنے اور اقتدار میں رہنے کے لیے عوام اور پارلیمنٹ کے بجاے واشنگٹن کی خوش نودی حاصل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔
غرض سیاست، معیشت اور ثقافت و تمدن ہر میدان میں ہم اپنی آزادی اور حاکمیت پر سمجھوتے کر رہے ہیں اور جو کچھ مسلمانانِ پاک و ہند نے اپنی جان، مال اور آبرو کی قربانی دے کر حاصل کیا تھا اسے چند طالع آزما اپنے مفاد کی خاطر مسلسل دائو پر لگاتے چلے آرہے ہیں۔
یہ ہے وہ حالت ِزار جس میں، آزادی کے ۶۷سال کے بعد ماضی کے کچھ فوجی اورماضی اور حال کی کچھ نام نہاد جمہوری قوتوں کی حکمرانی کے طفیل پاکستان اور اہلِ پاکستان مبتلا ہیں۔ وہ ملک جو پوری ملت اسلامیہ کے لیے نئی اُمیدوں اور ایک روشن مستقبل کا پیغام لے کر سیاسی اُفق پر نمودار ہوا تھا، اسے ان اتھاہ تاریکیوں میں پہنچا دیا گیا ہے اور بگاڑ اس انتہا کو پہنچ گیا ہے کہ جہاں لوگ خود ملک کے مستقبل کے بارے میں مایوس ہوکر یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ع
وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ!
صورتِ حال کے بگاڑ اور تاریکی کی شدت کا انکار ، دراصل حقیقت کے انکار اور عاقبت نااندیشی کے مترادف ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود ہماری نگاہ میں مایوسی کی کوئی وجہ نہیں۔ اس لیے بھی کہ مایوسی کفر ہے، اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ حالات کیسے ہی خراب کیوں نہ ہوں، مومن کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتا (لَاتَقْنَطُوا مِن رَحْمَۃِ اللّٰہ) ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مخلص انسانوں کی قربانیوں کو کبھی رائیگاں نہیں کرے گا، جن کے خون اور عصمتوں کی قربانی سے یہ ملکِ عزیز وجود میں آیا ہے۔ اس لیے بھی کہ تاریخ کا یہی فیصلہ ہے کہ بگاڑ کی قوتیں ایک خاص حد پر پہنچنے کے بعد شکست و ریخت کا نشانہ بنتی ہیں اور خیر اور صلاح کی قوتیں بالآخر غالب ہوتی ہیں۔ جس طرح زوال اور انتشار ہماری تاریخ کی ایک حقیقت ہے، اسی طرح تجدید اور احیا بھی ایک درخشاں حقیقت ہیں ؎
گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے
آغوش میں ہرشب کے سحر ہوتی ہے
سوال یہ ہے کہ اصلاح کا راستہ کیا ہے؟ ہماری نگاہ میں نہ فوج کی مداخلت حالات کو درست کرسکتی ہے اور نہ تشدد کی سیاست۔ ملکی سیاست میں تصادم اور تلخی جس حد کو پہنچ گئی ہے، اس سے صرف سیاست ہی نہیں ملک کا وجود بھی خطرے میں ہے، جس کی بڑی وجہ حکومتوں کی آمرانہ روش، تنگ دلی اور تنگ نظری ہے۔ اگر ایک طرف معاشی بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے اور وسائلِ حیات کی قلت اور مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے تو دوسری طرف لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ اور اب تو عالم یہ ہے کہ کراچی سے راولپنڈی تک معصوم انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے اور کسی کی آنکھ نہیں کھل رہی۔ یہی وہ حالات ہیں جو تشدد کی سیاست کو جنم دیتے ہیں۔
اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک کے وہ تمام عناصر جو حالات سے غیرمطمئن ہیں، بگاڑ کے اسباب پر متفق ہیں اور جو اصلاح کے خواہاں ہیں، وہ مل جل کر مؤثر سیاسی جدوجہد کے ذریعے نظام کو بدلنے کی جدوجہد کریں۔ بگاڑ کے ایک ایک سبب کو دُور کرنا ہوگا اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ایک نئی قیادت اُبھرے جس کا دامن پاک ہو ، جو عوام میں سے ہو اور جو عوام کے سامنے جواب دہ ہو۔
قائداعظمؒ نے اپنا مقدمہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور روایتی سیاست کاروں کے سامنے نہیں، برعظیم کے مسلم عوام کی عدالت میں پیش کیا تھا۔ ان کو بیدار اور متحد کرتے ہوئے ایک ایسی عوامی اور جمہوری لہر پیدا کی تھی کہ روایتی قیادتیں اس سیلاب کے آگے بہہ گئیں۔ آج پھر اس کی ضرورت ہے کہ جمہوری ذرائع سے جمہور کو بیدار اور منظم کیا جائے اور قیامِ پاکستان کے مقاصد کے لیے ان کو متحرک کیا جائے۔ ملکی اور غیرملکی سازشی عناصر کا اصل توڑ عوام کی بیداری اور ان کی منظم قوت ہے۔
خودقائداعظم نے اپنی ۱۹۳۶ء کی ایک تقریر میں قیادت کے لیے بڑے نپے تلے انداز میں مطلوبہ معیار کی نشان دہی کی تھی، جس پر آج ہمیشہ سے زیادہ عمل کی ضرورت ہے۔ طلبہ کو مشورہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا: ’’ملکی حالات کا بغور مطالعہ کیجیے، تجزیہ کیجیے اور سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ اس بات کو یقینی بنایئے کہ مقننہ (Legislature) میں دیانت دار، حقیقی، مخلص اور محب ِ وطن نمایندے پہنچیں‘‘۔
اس کے لیے ایک طرف امریکا کی اعلان کردہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے ہمارانکلنا ضروری ہے، تو دوسری طرف ملکی وسائل کی بنیاد پر معاشی ترقی کا نقشۂ کار بنانا ضروری ہے۔ عسکری میدان میں بھی پہلے قدم کے طور پر اسلحے کے نظام اور خریداری میں مختلف ممالک سے رابطوں کی ضرورت ہے تو دوسری طرف جو حکمت عملی ۱۹۷۰ء میں بنیادی صنعتوں کے قیام اور فروغ کے سلسلے میں ہیوی مکینیکل کمپلیکس اور اسٹیل ملز کے قیام کی صورت میں اختیار کی گئی تھی، اسے نئے حالات کی روشنی میں ایک نئے انداز میں فروغ دینا ضروری ہے۔
شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی جو صورت حال ہے اسے بھی جلد اور ایک متعین شکل دے کرکے مسئلے کے اصل سیاسی، معاشی اور تعلیمی ذرائع سے حل کی طرف بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں بھارت سے تعلقات کے باب پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ملکی مفاد کا تقاضا ہے کہ جزوی اُمور میں اُلجھنے کے بجاے اصل بنیادی مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کی جائے اور اس کے لیے فوری اور دیرپا دونوں نوعیت کی پالیسیاں بنائی جائیں۔ کشمیر اور پانی کے مسئلے کے حل ہی پر بھارت سے سیاسی اور معاشی تعلقات کا دیرپا بنیادوں پر فروغ ممکن ہے۔ ان اساسی پہلوئوں کو نظرانداز کرکے محض ’اعتماد سازی‘ کے اقدامات اور تجارت کا راستہ اختیار کرنا سیاسی اور معاشی ہردوپہلو سے مہلک ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک آزاد اور حقیقی معنی میں پاکستانی مفادات اور ترجیحات پر مبنی خارجہ پالیسی اختیار کی جائے اور اس کے لیے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے پاکستانی عوام کے حقیقی جذبات اور خطوطِ کار میں بعدالمشرقین ہے۔ تمام عوامی سروے اس امر کا ثبوت ہیں کہ پاکستانی قوم امریکا اور بھارت کو اپنا دوست نہیں سمجھتی اور ان کی پالیسیوں کو ملک کے لیے سب سے اہم خطرہ شمار کرتی ہے، جب کہ جنرل مشرف دور سے اب تک حکومت کی پالیسی اور ترجیحات عوام کے جذبات اور خواہشات کی ضد ہیں۔
یہ وہ گیارہ نکات ہیں جن پر عمل کر کے قوم ایک بار پھر اسلام کے حیات بخش نظام کے قیام کے لیے متحد اور سرگرمِ عمل ہوسکتی ہے اور چمن میں اس کی روٹھی ہوئی بہار واپس آسکتی ہے۔
۱۱مئی ۲۰۱۳ء کو منعقد ہونے والے قومی انتخابات کو، اپنی تمام تر خامیوں اور بے قاعدگیوں کے باوجود، ملکی حالات میں تبدیلی اور اصلاح کے باب میں ہوا کا ایک تازہ جھونکا سمجھا جا رہا تھا اور توقع تھی کہ دو بار کا تجربہ رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے صدر جناب نواز شریف صاحب کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت مشرف اور زرداری اَدوار کی روش کے مقابلے میں پاکستان کے حقیقی مفادات اور عوام کے جذبات اور توقعات کے مطابق اور خود اپنے ماضی کے تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے ملک و قوم کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگادے گی جس میں وہ پھنسی ہوئی ہے۔ سب ہی نے کھلے دل سے اس کو موقع دیا اور اچھی توقعات وابستہ کیں۔ راے عامہ کے جائزے اور اخبارات کے صفحات اس کے غماز ہیں۔
اس فضا میں پارلیمنٹ کی تمام پارٹیوں نے اپنے اپنے انداز میں اور سارے تحفظات کے باوجود، دست ِ تعاون بڑھایا اور نواز شریف صاحب نے بھی ملک کے دستور اور مسلم لیگ (ن) کے منشور کی پاس داری کے دعوے کے ساتھ اچھی طرزِ حکمرانی کا وعدہ کر کے اُمیدوں کے کچھ چراغ روشن کیے۔ عدلیہ سے ماضی کی حکومت کا جو ٹکرائو چل رہا تھا، وہ ختم ہوتا نظر آیا۔ سول اور عسکری اداروں میں نئے صحت مند تعاون اور اعتماد باہمی کی بات ہونے لگی۔ میڈیا کا رویہ بھی بحیثیت ِ مجموعی مثبت اور اُمید افزا تھا اور پھر صوبہ سندھ میںپیپلزپارٹی اور صوبہ خیبرپختونخوا میں تحریکِ انصاف کی اکثریت کا احترام کرتے ہوئے ان کی حکومتوں کے قیام، اور بلوچستان کے مخصوص حالات کی روشنی میں قومی وطن پارٹی کی اکثریت نہ ہوتے ہوئے بھی مسلم لیگ (ن) کی مدد سے مخلوط حکومت کا قیام ایک اچھا آغاز تھا۔ لیکن چند ہی ہفتوں میں پرانی سیاست کے تاریک سایے مطلع کو سیاہ آلود کرنے لگے، عوامی مسائل اور انتخابی وعدے پسِ پشت پڑنے لگے اور شخصی ترجیحات اور خاندانی سیاست ایک نئی شان کے ساتھ جلوہ فگن ہوگئی۔ اُمیدیں دم توڑنے لگیں، تصادم اور کش مکش کی لہریں اُٹھنے لگیں، مفادات کا کھیل پھر شروع ہوگیا، اور اُمیدوں کے جو چراغ روشن ہوئے تھے، ایک ایک کرکے بجھنے لگے۔ عوام اور سیاسی حلقوں میں مایوسی کی ایک لہر اُبھرنے لگی جو اَب شدید مایوسی کا رُوپ اختیار کرچکی ہے۔ گیلپ کے تازہ جائزے کی رُو سے ملکی آبادی کا ۴۴ فی صد حکومت کی کارکردگی سے غیرمطمئن ہے اور صرف ۸ فی صد نے مکمل طور پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ پہلے ہی سال کی اس ’کارکردگی‘ پر بے ساختہ زبان سے نکلتا ہے ع
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
جنرل مشرف کے اقتدار کے نو سال اور پیپلزپارٹی کی حکمرانی کے پانچ سال ہماری تاریخ کا تاریک باب ہیں۔ دونوں کی پالیسیوں میں ایک گونہ تسلسل تھا اور یہ اُس این آر او (مفاہمتی گٹھ جوڑ) کا ایک حد تک فطری نتیجہ تھا، جس کے تحت پیپلزپارٹی برسرِاقتدار آئی تھی اور جو امریکا اور برطانیہ دونوں کے بنائے ہوئے نقشے کے مطابق اور ان کی سفارت کاری کا ثمرہ تھا۔ یہ اور بات ہے کہ حالات نے کچھ ایسی کروٹ لی اور حزبِ اختلاف نے ایک خاص کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں گو جنرل مشرف کو سلامی دے کر بھی ملک سے رخصت کردیا گیا، مگر بدقسمتی سے مشرف کی بنائی ہوئی پالیسیوں کو اس کے ساتھ رخصت نہ کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں نوازشریف صاحب نے جب جون ۲۰۱۳ء میں اپنے دورِ حکومت کا آغاز کیاتو ملک اندرونی اور بیرونی ہرمحاذ پر شدید ترین بحرانوں کی گرفت میں تھا۔
یہ تھے وہ سات بڑے بڑے چیلنج جو نواز حکومت کو درپیش تھے اور توقع تھی کہ وہ ان میں سے ہر ایک کے باب میں مناسب اور مؤثر حکمت عملی بنائے گی اور ایک واضح نقشۂ راہ کے ذریعے ملک کو اس دلدل سے نکالنے کی خدمت انجام دے گی۔
حکومت نے عوام کی اچھی توقعات اور سیاسی اور دینی قوتوں کے تعاون کی فضا میں سفر کا آغاز کیا۔ پھر نواز حکومت کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل تھی اور مخلوط حکومت کی جو مجبوریاں ہوتی ہیں، وہ اس کی راہ میں حائل نہ تھیں۔ سب سے بڑے صوبے، یعنی پنجاب میں مسلم لیگ کی اپنی حکومت تھی اور بلوچستان میں بھی مسلم لیگ کو اسمبلی میں مضبوط پوزیشن حاصل تھی اور وہ حکومت کا حصہ تھی۔ ۲۰۱۳ء تک جو سفر جمہوریت نے طے کیا تھا اس میں بھی یہ اشارے موجود تھے کہ اگر حکومت اچھی حکمرانی کا مظاہرہ کرے تو تمام دوسرے ادارے اور قوتیں دستور میں دیے ہوئے توازنِ اختیارات کی طرف سفر جاری رکھ سکیں گے اور جو عدم توازن مشرف دور میں راہ پاگیا تھا، وہ اچھی حکمرانی، آزادعدلیہ اور فعّال میڈیا کی بدولت آگے کے مراحل کامیابی سے طے کرسکے گا۔ پھر یہ بھی توقع تھی کہ مسلم لیگ کے پاس نسبتاً زیادہ تجربہ کار اور باصلاحیت ٹیم ہے جو پارلیمنٹ کی تائید اور رہنمائی میں ملک کو درپیش بحرانوں سے نکالنے اور وقت کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ ان تمام مثبت پہلوئوں کی موجودگی میں توقع کی جارہی تھی کہ حالات نئی کروٹیں لیں گے، ملک مسائل سے نکل سکے گا اور پاکستان حقیقی ترقی کی منزل کی طرف ایک آزاد اور اسلامی اور فلاحی ملک کی حیثیت سے پیش رفت کرسکے گا۔ لیکن یہ تمام توقعات ان ۱۲ مہینوں میں پاش پاش ہوگئی ہیں اور پانی کی تلاش میں سرگرداں قوم کا مقدر ایک اور سراب کا نشانۂ ستم بنتا نظر آرہا ہے۔
اس ایک سال میں نواز شریف حکومت نے جو کارکردگی دکھائی ہے، اس نے قوم کو مایوس کیا ہے اور بے اطمینانی بڑھ رہی ہے۔ وہ عناصر جو جمہوریت کو ترقی کرتے نہیں دیکھناچاہتے، پَرتول رہے ہیں کہ کس طرح وار کریں اور جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اُتار دیں۔ ہم بڑے دکھ اور دل سوزی سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ حالات کو بگاڑنے میں بیرونی عناصر کی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ ذمہ داری خود مرکزی حکومت کی بے عملی، غلط حکمت عملی، بُری حکمرانی، بے تدبیری ، وقتی اقدامات (adhocism) اور مہم جوئی (adventurism) پر بھی آتی ہے۔ اگر حکومت نے اپنی روش فی الفور تبدیل نہیں کی تو ہمیں خطرہ ہے کہ جمہوریت کی گاڑی کے پٹڑی سے اُترنے کے خدشات خدانخواستہ حقیقت کا رُوپ اختیار کرسکتے ہیں۔
ابھی وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لیے جائیں اور حالات کو قابو میں لانے کے لیے سرتوڑ کوشش کی جائے اور اس کے لیے تمام سیاسی اور دینی جمہوری قوتوں کا تعاون حاصل کیا جائے۔
نواز حکومت کے اس پہلے سال کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو درج ذیل حقائق سامنے آتے ہیں، جن کا اِدراک اور پھر اصلاحِ احوال کے لیے مؤثر حکمت عملی کی تشکیل اور اس پر عمل ہی ملک کو تباہی سے بچاسکتے ہیں۔ وقت اور مہلت کی گھڑیاں کم ہیں، اس لیے فوری توجہ اور عملی اقدام کی ضرورت ہے۔ اس جائزے سے جو باتیں سامنے آئی ہیں ان کو دو بڑی بڑی درجہ بندیوں میں بیان کیا جاسکتا ہے: ایک کا تعلق طرزِحکمرانی سے ہے اور دوسری کا پالیسی کے اہداف اور خطوط کار سے۔
طرزِ حکمرانی کے باب میں صاف نظر آرہا ہے کہ وزیراعظم صاحب نے مشاورت اور فیصلہ سازی کے معروف جمہوری اور اداراتی راستے کو اختیار کرنے کے بجاے شخصی حکمرانی اور ذاتی وفاداریوں کی بنیاد پر کاروبارِ حکومت چلانے کے طریقے کو ترجیح دی ہے، جو بگاڑ کی بنیادی وجہ ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ساری فیصلہ سازی ایک مختصر ٹولے میں محدود ہے جس کا انتخاب خون کے رشتے یا ذاتی دوستی یا مفادات کے اشتراک پر ہے‘ صلاحیت، تجربے اور فہم وفراست پر نہیں۔
اچھی حکمرانی کا انحصار اصول اور ضابطۂ کار پر اعتماد، مشاورت کے وسیع تر نظام، پالیسی سازی میں تحقیق اور تجزیے کا اہتمام، اور ہر کام کے لیے صحیح ترین فرد کا انتخاب اس کی صلاحیت اور دیانت کی بنیاد پر ہے۔ ذاتی پسند و ناپسند سے ادارے تباہ ہوجاتے ہیں اور مسائل وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔
ہر کامیاب نظام کے لیے، اور خصوصیت سے جمہوری نظام کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ، کابینہ، پارلیمنٹ اور کابینہ کی کمیٹیوں ، تحقیقی اداروں، صوبوں اور ملک کے دوسرے تمام متعلقہ اداروں اور اسٹیک ہولڈرز سے مؤثر اور مسلسل مشورہ ہو۔ اس طرح پالیسی سازی باہمی مشاورت، مذاکرات اور تعاونِ باہمی کے ذریعے انجام دی جائے۔ پارلیمنٹ اور میڈیا میں کھلی بحث ہو۔ مرکزی حکومت کے بارے میں عام شکایت یہ ہے کہ چند افراد پورے ملک کی قسمت کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ پارلیمنٹ میں نہ کوئی قابلِ ذکر قانون سازی ہوئی ہے اور نہ پالیسی اُمور پر بحث۔ پھر وزیراعظم صاحب پورے سال میں صرف آٹھ بار پارلیمنٹ میں تشریف لائے ہیں اور وہ بھی رسمی طور پر ۔ وزیراعظم نے بمشکل دو پالیسی بیان اس زمانے میں پارلیمنٹ میں دیے ہیں۔ سینیٹ میں پورے سال کے بعد اب ایک بار چند منٹ کے لیے شریک ہوئے ہیں، وہ بھی اس شان سے کہ جو تقریر قومی اسمبلی میں کی ہے وہی سینیٹ میں دہرا کر رخصت ہوگئے، اور مقامِ حیرت ہے کہ اس تقریر میں یہ جملہ بھی اسی طرح ادا کردیا جس طرح قومی اسمبلی میں کیا تھا کہ ’’میں نے ۲۹جنوری کو اس ایوان میں جو اعلان کیا تھا‘‘ اس سہل انگاری پر ماتم کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے۔
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس بار بار یاددہانی کرا رہی ہیں لیکن اہم ترین اداروں پر یا تو تقرریاں ہوہی نہیںرہی ہیں یا اگر ہورہی ہیں تو قواعد کے مطابق مستقل تقرریوں کی جگہ ایڈہاک انداز میں نامزدگیاں کی جارہی ہیں یا قائم مقام کام چلا رہے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ ۱۰ماہ سے خالی ہے، پیمرا کے سربراہ کا عہدہ خالی ہے، ۴۰ سے زیادہ سرکاری ادارے ہیں، جن کے سربراہوں کا تقرر اس ایک سال میں نہیں ہوسکا۔ اخباری اطلاع کے مطابق نو اہم اداروں کے سلسلے میں سمری وزیراعظم کے دفتر میں موجود ہے، لیکن ان پر فیصلے کی نوبت نہیں آتی۔ نیشنل کمیشن براے ہیومن رائٹس بل پارلیمنٹ میں مئی ۲۰۱۲ء کو منظور ہوا تھا، مگر کمیشن اور اس کے سربراہ کا تقرر آج تک معرضِ التوا میں ہے۔ دہشت گردی کے مقابلے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کا اعلان وزیرداخلہ نے پارلیمنٹ میں کرتے ہوئے کہا تھا کہ NACTA کے سربراہ کا تقرر، Rapid Deployment Force کا قیام اور جائنٹ انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کا نظام دواڑھائی ماہ میں متحرک ہوجائے گا۔ یہ اعلان ۱۳؍اگست ۲۰۱۳ء کو ہوا ہے مگر ان میں سے کوئی بھی ادارہ اب تک عملاً اپنا کام شروع نہیں کرسکا ہے۔
اعلان کیا گیا تھا کہ کابینہ کی قومی سلامتی کی کمیٹی کا اجلاس ہر ماہ ہوا کرے گا اور دستوری ادارہ مشترکہ مفادات کی کونسل (Council of Common Intersts) کا اجلاس ہر تین ماہ میں ایک بار ضرور ہوگا لیکن کوئی بھی ادارہ اپنے وقت پر اپنا اجلاس منعقد نہیں کر رہا ہے۔ بات صرف ان ایک یا دو اداروں کی نہیں، اس سلسلے میں باقی ادارے بھی تقریباً اسی حالت میں ہیں۔
ہم بڑے دکھ سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ شخصی حکمرانی اور اہم ترین تقرریوں میں کوتاہی یا ذاتی پسند و ناپسند کا دور دورہ محض مرکز ہی میں نہیں‘ صوبوں میں بھی عام ہے۔ پنجاب تو میاں صاحب کی روایات کا اسیر ہے، لیکن خود سندھ کے حالات بھی کچھ مختلف نہیں۔ کراچی جو ۳۰سال سے دہشت گردی کی لعنت کی گرفت میں ہے وہاں پولیس اور انتظامیہ سیاسی قیادتوں کی دخل اندازیوں سے تباہ ہے۔ کراچی پولیس کے سربراہ کے تقرر کو سیاسی کھیل بنایا ہوا ہے۔ پچھلے ۱۸مہینوں میں چھے سربراہ تبدیل ہوئے ہیں۔ اوسط مدت ملازمت ۱۲ہفتے بنتی ہے۔ شاہدحیات کو سب سے زیادہ زمانہ ایڈیشنل آئی جی رہنے کا موقع ملا، لیکن انھیں بھی نومہینے میں تبدیل کردیا گیا اور یہ سب اس کے باوجود کہ ڈی جی رینجرز ان کو قیامِ امن کے لیے عہدے پر فائز دیکھنا چاہتے تھے اور مرکزی وزیرداخلہ بھی اس تبدیلی پر کھلے بندوں احتجاج پر مجبور ہوئے، مگر چہیتوں کو تقرر کرنے والوں کا ہاتھ کوئی نہ روک سکا۔ شاید کچھ قوتیں چاہتی ہی نہیں کہ کراچی میں امن قائم ہو۔
سرکاری وسائل کو کس طرح ذاتی نام و نمود پر خرچ کیا جا رہا ہے، اس کی داستان بھی بڑی دل خراش اور شخصی حکمرانی کی بدترین مثال ہے۔ اس وقت جب تھر میں قحط پڑ رہا تھا اور بچے بھوک، پیاس اور ادویہ کی عدم فراہمی سے لقمۂ اجل بن رہے تھے، بلاول صاحب کے ’ذوقِ ثقافت‘ کی تسکین کے لیے موہن جوڈارو کا فیسٹیول منعقد کیا گیا جس پر ۲؍ارب روپے سرکاری خزانے سے خرچ کیے گئے۔ زرداری حکومت نے تحریکِ خواتین کی مدد کے پروگرام کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام دے کر سیاسی فائدہ اُٹھانے کا سامان کیا۔ اب سندھ حکومت نے بے نظیر شہید ڈویلپمنٹ پروگرام شروع کیا ہے۔ پھر لیاری میں سرکاری خرچ پر بلاول انجینیرنگ کالج قائم کیا جا رہا ہے اور لیاری ہی میں آصفہ انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹرانکس قائم کیا جارہا ہے۔ یہ سب شخصی حکمرانی کی بدترین مثالیں ہیں۔ قومی وسائل جو ایک امانت ہیں، ان کو بے دریغ ذاتی اور سیاسی مصالح کے لیے صرف کیا جا رہا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام کے لیے سمِ قاتل کا درجہ رکھتی ہے۔
اندازِ حکمرانی کی اس تباہ کاری کے ساتھ قومی سلامتی و خارجہ پالیسی، اور سیاسی اور معاشی حکمت عملی کے باب میں بھی حکومت کا ریکارڈ نہایت مایوس کن ہے۔
سب سے پہلے ملک کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری کے مسئلے کو لیجیے۔ آزاد خارجہ پالیسی کی سمت میں کوئی پیش قدمی کسی سطح پر بھی نظر نہیں آتی۔ امریکا کا عمل دخل حسب سابق جاری وساری ہے۔ ڈرون حملے چھے ماہ کے تعطل کے بعد پھر اسی زور و شور سے شروع ہوگئے ہیں اور مغربی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ حکومت پاکستان کی اجازت اور فوجی انٹیلی جنس کے تعاون سے ہماری حاکمیت پر یہ حملے کیے جارہے ہیں۔ امریکاکو ۱۰سال کی کوشش اور دبائو کے بعد شمالی وزیرستان میں آپریشن کرانے میں کامیابی حاصل ہوگئی ہے اگرچہ اس کی ذمہ داری خود لی جارہی ہے، لیکن حقیقت وہی ہے جس کا اظہار ۱۵جون کے اقدام کے دو دن بعد ۱۷؍جون ۲۰۱۴ء کے انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز میں کیا گیا ہے۔ یعنی: ’’۱۰سال بعد جاکر امریکی مطالبے کو بڑی مشکل سے پذیرائی ملی، اگرچہ پاکستانی سیاسی اور عسکری قیادت کے لیے بہت بڑا رسک ہے‘‘۔ ۲۶ جون کو امریکا میں پاکستان کے سفیر جناب جلیل عباس جیلانی نے صاف الفاظ میں اس دعوے پر یہ کہہ کر مہرتصدیق ثبت کردی ہے کہ: ’’امریکا وزیرستان آپریشن کے بارے میں مثبت رویہ رکھتا ہے اور کولیشن سپورٹ فنڈوزیرستان آپریشن کے لیے ہے ۔ امریکا پاکستانی فوج کی قربانیوں کا معترف ہے‘‘۔
قومی سلامتی اور خارجہ امور کے بارے میں وزیراعظم کے مشیر نے ایک سے زیادہ بار اس امر کا اظہار کیا ہے کہ: پاکستان افغانستان سے امریکی افواج کی ۲۰۱۴ء کے اختتام پر واپسی پر ناخوش ہے اور وہ امریکی افواج کے مزید افغانستان میں رہنے کاقائل ہے۔ حالانکہ علاقے میں امن کے قیام کا اس وقت تک کوئی امکان نہیں جب تک امریکی اور ناٹو افواج کاافغانستان سے مکمل انخلا نہیں ہوجاتا اور افغانستان میں ایک ایسی قومی حکومت وجود میں نہیں آتی، جس میں تمام افغان، بشمول طالبان، شریک ہوں۔لیکن ہماری حکومت وہی راگ الاپ رہی ہے جو مشرف نے امریکی صدر بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر کی آواز میں ملاکر شروع کیا تھا۔
طالبان کے تصورِ اسلام کے بارے میں ہمارے تحفظات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ہم نے ان کا اظہار اس وقت کیا جب طالبان افغانستان میںبرسرِاقتدار تھے اور امریکا کی خفیہ تائید انھیں نہ صرف حاصل تھی بلکہ ان کے ساتھ توانائی اور معدنیات کی دریافت کے لیے کھلے مذاکرات کیے جارہے تھے۔
۱۳سال کی افغان جنگ کے بعد اب امریکی قیادت اور تحقیقی ادارے یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ طالبان افغانستان میں ایک حقیقت ہیں اور ان سے مذاکرات اور ان کی حکمرانی میں شرکت کے بغیر وہاں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ امریکا اور طالبان میں مذاکرات کے سلسلے بھی ڈھکے چھپے اورکھلے بندوں جاری ہیں اور قیدیوں کا تبادلہ بھی کھلے عام ہورہا ہے۔
ان حالات میں پاکستان کی قیادت کا ان کے خلاف اور خصوصیت سے حقانی گروپ جس سے پاکستان کوکبھی کوئی خطرہ نہیں تھا کے خلاف ہونا ایک ناقابلِ فہم معاملہ ہے۔ تحریکِ طالبان پاکستان اور اس کے نام پر کی جانے والی ان تمام کارروائیوں کی ہم نے ہمیشہ مذمت کی ہے، جن میں معصوم انسان شہید کیے گئے ہیں یا ریاستی اور قومی املاک کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اسی طرح ہم قوت کے ذریعے شریعت یا جمہوریت اور سیکولر لبرلزم دونوں کے قیام کے ہمیشہ سے مخالف رہے ہیں اور اسے اسلام اور معروف جمہوری اور سیاسی اصولوں کے خلاف سمجھتے ہیں۔ نیز ہم نے ہمیشہ اس راے کا اظہار کیا ہے کہ دہشت گردی کی کوئی ایک قسم نہیں ہے اور اس کی ہرہرنوعیت کو سامنے رکھ کر اس کا مقابلہ اور ازالہ کرنے کی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔ لیکن ہماری آواز مقتدر حلقوں کے لیے صدابصحرا ثابت ہوئی اور فوجی آپریشن کے دائرے کو شمالی وزیرستان تک وسیع کردیا گیا ہے۔
ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اب بھی پاکستانی حکومت، ہماری افواج اور خود طالبان کو ہدایت دے اور وہ بندوق کے بجاے دلیل اور افہام و تفہیم سے معاملات کو طے کرنے کا راستہ اختیار کریں۔ پاکستان کی افواج ہماری قیمتی متاع ہیں اور ہم قوم اور وطن کے لیے ان کی خدمات اور قربانیوں کے دل سے معترف اور ان کی قوت اور کامیابی کے لیے دعاگو ہیں لیکن جس عمل کو ہم بے فیض دیکھ رہے ہوں تو اس کے بارے میں اپنے تحفظات کے اظہار کے باب میں کسی مداہنت کو بھی صحیح نہیں سمجھتے۔ ہماری کوشش تھی کہ نوبت آپریشن تک نہ آئے اس لیے ہم مذاکرات شروع کرانے کے لیے کوشاں رہے۔ لیکن اب، جب کہ آپریشن شروع ہوگیا ہے تو ہماری خواہش اور دعا ہے کہ یہ جلد از جلد ختم ہو اور معاملات کے سدھار اور اصلاح کا کوئی معقول راستہ اب بھی نکل آئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہرممکن کوشش اس امر کی ہو کہ اس سے جو مشکلات اور مسائل علاقے کے عوام کے لیے پیدا ہوگئے ہیں، ان کے فوری حل کے لیے تمام وسائل بروے کار لائے جائیں۔
جماعت اسلامی کے کارکن اور الخدمت کے سرفروش مقدوربھر کوشش کر رہے ہیں کہ ۷لاکھ افراد جو بے گھر ہوگئے ہیں اور دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ان کی ہرممکن مدد کی جائے۔ پتا نہیں ان کی آزمایش کی مدت کتنی طویل ہوگی۔ اس موقعے پر اس امر کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ مرکزی حکومت نے اس آپریشن کے نتائج سے نبردآزما ہونے کے لیے کوئی تیاری نہیں کی، حالانکہ اسے چھے مہینے ملے تھے کہ خراب سے خراب صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے پیش بندی کرتی، صوبائی حکومت کو اعتماد میں لیتی، مناسب مقامات پر بے گھر ہونے والے متاثرین (IDPs) کے قیام اور طعام کا انتظام کرتی اور اس کے لیے مناسب وسائل فراہم کرتی، تاکہ مرکز اور صوبے دونوں کے تعاون اور اشتراک سے اس صورتِ حال کا مقابلہ ہوسکتا۔
یہاں بھی حکومت نے اس سہل انگاری کا مظاہرہ کیا جو اس کے اندازِ حکمرانی کا خاصّہ بن گیا ہے۔ پہلے ۱۰ دن میں ساڑھے چار لاکھ افراد صرف بنوں کے علاقے میں رجسٹر ہوچکے تھے۔ سوات اور دوسرے علاقوں کی طرف منتقل ہونے والے افراد اس کے علاوہ ہیں۔ کم سے کم اندازہ ہے ان ۱۰دنوں میں ۷لاکھ افراد بے گھر ہوگئے ہیں اور ان کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ وفاقی حکومت نے کمالِ فیاضی سے اس کے لیے ۵۰کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کیا، جب کہ اقوامِ متحدہ کے تخمینے کے مطابق فوری طور پر کم از کم ۲۸؍ارب روپے درکار ہوں گے۔ اس حکومت کی ترجیحات کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اسی زمانے میں پنڈی اسلام آباد ۲۴کلومیٹر کے میٹروبس پراجیکٹ کے لیے ۴۴؍ارب ۲۱کروڑ کی رقم رکھی گئی ہے۔
یہ تو فوری ضرورت ہے، لیکن دہشت گردی کے مسئلے کا صرف یہی ایک پہلو نہیں۔ اس کے تمام پہلوئوں کے بارے میں مناسب حکمت عملی کی فوری ضرورت ہے۔ اس وقت جہاں بے گھر ہونے والے متاثرین کا مسئلہ سب سے اہم مسئلہ بن گیا ہے اور فوری توجہ چاہتا ہے، وہیں دہشت گردی کے تمام اسباب کو سامنے رکھ کر ہمہ گیر پالیسی بنانے کی بھی ضرورت ہے، جس سے صرفِ نظر تباہ کن ہوگا۔ امریکا سے تعلقات پر نظرثانی اور امریکی جنگ سے نکلنے کے راستوں سے غفلت بہت ہی خسارے کا سودا ہوگا۔ ملک کے باقی تمام علاقوں میں جو دہشت گردی ہے، اس سے نبٹنے کے لیے بھی صحیح پالیسی اور اقدام درکار ہیں۔ یک رُخی پالیسی کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ نیز جو پالیسی محض ردعمل میں بنائی جائے یا جس کا محرک غصہ، بدلہ یا انتقام ہو، وہ خیروبرکت کا باعث نہیںہوسکتی۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ حکومت تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو اعتماد میں لے اور کھلے ذہن کے ساتھ مسئلے کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر زیادہ سے زیادہ قومی اتفاق راے پیدا کرکے ہمہ جہتی پالیسی بنائے۔ حالات کو سنبھالنا، نقصانات کو کم سے کم کرنا اور تباہ حال خاندانوں کو سینے سے لگانا اور ان کی مشکلات کو دُور کرنا ہم سب کی مشترک ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں کوئی بھی کوتاہی بڑی مہنگی پڑسکتی ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ فاٹا پر ہمارا دستور ۶۷سال سے لاگو نہیں ہے اور سوات، باجوڑ اور دوسرے علاقوں میں جہاں فوجی آپریشن ہوا ہے پانچ سال گزرنے کے باوجود سول نظام بحال نہیں ہوسکا ہے۔ شمالی وزیرستان کے آپریشن کے ۱۰، ۱۱ دن ہی میں جو کیفیت پیدا ہوگئی ہے اور جو خطرات منڈلا رہے ہیں ان سے صرفِ نظر تباہ کن ہوگا۔ ٹی وی اینکر اور کالم نگار سلیم صافی نے بڑی دردمندی کے ساتھ متنبہ کیا ہے کہ ذرا سی غلطی کتنی خطرناک ہوسکتی ہے:
اللہ کے بندو! اس ملک اور اس قوم پر رحم کرو۔ ہماری خاطر نہیں اپنی اولاد کی خاطر۔ یہ ۷لاکھ آئی ڈی پیز [بے گھر ہم وطن] نہیں ہیں۔ آپ لوگوں کا رویہ یہ رہا تو یہ ۷لاکھ خودکش بمبار بن جائیں گے۔ آج آپ لوگ سیاست اور اقتدار کے نشے میں مبتلا ہو لیکن یاد رکھو آپ پر بھی کبھی یوسف رضا گیلانی والاوقت آسکتا ہے اور خاکم بدہن آپ میں سے بھی کسی کا بیٹا حیدرگیلانی یا شہباز تاثیر بن سکتا ہے۔ ہماری خاطر نہیں، اپنے بچوں کی خاطر ان ۷ لاکھ وزیرستانیوں کی طرف توجہ دو تاکہ وہ خودکش بمبار، طالب یا پھر اغواکار بن کر مستقبل میں آپ کے بچوں کے ساتھ وہ کچھ نہ کریں، جو انھوں نے ایک سابق گورنر اور سابق وزیراعظم کے بیٹے کے ساتھ کیا ہے۔ (روزنامہ جنگ، ۲۴جون۲۰۱۴ء)
اندازِ حکمرانی کی اصلاح کے ساتھ بیرونی اور اندرونی سلامتی کی پالیسی کی اصلاح کو اولیں اہمیت دینا وقت کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا مرکزی ہدف درست ہونا چاہیے۔ پاکستان کی سلامتی اور اس کو درپیش حقیقی خطرات___ بیرونی اور اندرونی دونوں پر توجہ مرکوز رکھنا ضروری ہے۔ اندرونی خطرات کو نظرانداز کرنا خودکشی کے مترادف ہوگا اور اندرونی خطرات کے غبار میں بیرونی خطرات سے صرفِ نظر اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اندرونی خطرات کے اسباب کے ساتھ ان کے بیرونی رابطوں کا شعور اور ان کے مقابلے کی حکمت عملی بھی سلامتی پالیسی کا اہم حصہ ہے۔
افغانستان سے اختلافات اور نوک جھونک تو قیامِ پاکستان کے وقت سے رہی ہے، لیکن افغانستان سے پاکستان کی سلامتی کو کبھی حقیقی خطرہ نہیں رہا۔ پہلی بار واضح خطرے کاسگنل افغانستان میں روس کی بالواسطہ مداخلت (ترکی ریولیوشن) سے رُونما ہوا، اور ڈیڑھ سال کے اندر اندر بالآخر دسمبر ۱۹۷۹ء میں روس کی بلاواسطہ فوج کشی کی صورت میں ایک فوری خطرے کی شکل اختیار کرلی۔ پاکستان کا ردعمل اسی وجہ سے ہوا اور اسی سے ہمارے دفاعی اور سلامتی کے ڈھانچے میں ایک بنیادی تبدیلی واقع ہوئی اور اس وقت سے آج تک افغانستان ہماری خارجہ پالیسی کا ایک مرکزی ایشو بن گیا۔
افغانستان میں بھارت کا کردار ۱۹۴۷ء سے تھا، مگر افغانستان پر امریکی فوج کشی اور بھارت اور امریکا کی اسٹرے ٹیجک شراکت کاری نے افغانستان میں اور افغانستان کے راستے میں بھارت کے کردار کو ایک نئی شکل دی ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں ایک ایسا رشتہ کہ دونوں ایک دوسرے کا سہارا اور پشتی بان ہوں، دونوں کے مفاد میں ہے اور اس کا راستہ ایک دوسرے کے معاملات میں حقیقی عدم مداخلت کے ساتھ تعاون اور افغانستان میں ایسے نظام کا ہے جو قومی مفاہمت اور یک رنگی سے عبارت ہو۔ تاہم، یہ اسی وقت ممکن ہے، جب افغانستان کے تمام عناصر اور خصوصیت سے پشتون، ہزارہ اور تاجک مل کر اپنے معاملات کو سنبھالیں۔ طالبان سے مذاکرات اور مفاہمت کی ضرورت خود امریکا محسوس کر رہا ہے اور پاکستان کا بہترین مفاد بھی اُس افغان یک جہتی کے حصول میں ہے جس میںسب افغان شریک ہوں۔ وزیرستان میں آپریشن اس کا ذریعہ نہیں ہوسکتا بلکہ اس مقصد سے دُور کرنے کا باعث ہوگا۔ ہماری قومی سلامتی کی پالیسی میں اس پہلو کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان بھارت سمیت اپنے تمام ہمسایوں سے دوستی چاہتا ہے لیکن بھارت سے جو خطرات ہماری قومی سلامتی کو درپیش ہیں، ان سے صرفِ نظر کرنا بدترین تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔ افغانستان میں نئے صدارتی انتخاب کے نتیجے میں جو بھی تبدیلی آئے گی اور جو بھی نئی قیادت برسرِاقتدار آتی ہے، پاکستان کو اس سے یک جان و دو قالب کے رشتے کو استوار کرنے کو اوّلیت دینی چاہیے۔ اس کے ساتھ بھارت میں جس نئی قیادت نے زمامِ کار سنبھالی ہے اس کے عزائم، تاریخ اور ترجیحات کا بھی گہری نظر سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور بھارت میں دوستانہ تعلقات دونوں ممالک کی ضرورت ہے، لیکن یہ مقصد یک طرفہ طور پر حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جو بنیادی تنازعات موجود ہیں، ان کو حق وانصاف کے مطابق طے کیا جائے اور محض طاقت اور معیشت کے حجم کی بنیاد پر یاجزوی اور شخصی مفادات کو اولیت دے کر لیپاپوتی کے ذریعے حالات کو نارمل بنانے یا سمجھنے کی حماقت نہ کی جائے۔ جناب نواز شریف کا ذہن اس سلسلے میں بڑا پراگندا ہے۔ وہ بھارت کی تاریخ ، اس کے سیاسی اور معاشی عزائم اور اس کی سیاست کے پیچ و خم سے واقف نہیں اور اس غلط فہمی اور خوش خیالی میں مبتلا ہیں کہ تجارت اور معاشی لین دین سے تعلقات کو نئی جہت دے سکتے ہیں۔
ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ بھارت کی طرف سے خطرات کا ان کو صحیح اِدراک نہیں اور جناب نریندرمودی، بی جے پی اور آر ایس ایس کی حکومت کے بارے میں وہ شدید غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اس سلسلے میں وزارتِ خارجہ اور ہماری عسکری قیادت کو حالات کا بہتر اِدراک ہے۔ بھارت سے مستقبل کے تعلقات کے مسئلے کو شخصی پسنداور ترجیحات کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاسکتا۔ اس سلسلے میں پوری سوچ بچار اور تمام پہلوئوں پر گہرے غوروفکر کے ساتھ کسی تاخیر کے بغیر ایک دیرپا پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ نواز شریف صاحب نے جس طرح نریندرمودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے موقعے پر معاملات انجام دیے ہیں، وہ بہت محل نظر ہیں۔ وہ اپنے کاروباری صاحب زادے حسن نواز کو اس دورے میں ساتھ لے کر گئے، چنانچہ بھارت میں لوہے کی صنعت کے کرتادھرتا سے ان کی ملاقاتوں کے بارے میں بجاطور پر سوالیہ نشان اُٹھائے گئے ہیں، جو سنجیدہ غوروفکر کا تقاضا کرتے ہیں۔ پھر کشمیر کے مسئلے پر جس طرح اس دورے میں خاموشی کا روزہ رکھ لیا گیا اور حسب سابق کشمیری قیادت سے ملاقات تک کی زحمت نہیں کی گئی وہ بہت تشویش ناک ہے۔ آزاد خارجہ پالیسی کے باب میں بھارت کے بارے میں پالیسی اور جنوب سے اُبھرتے ہوئے خطرات کی روشنی میں عسکری اور سفارت کاری کے میدانوں میں صحیح حکمت عملی کی صورت گری ازبس ضروری ہے۔
آزاد خارجہ پالیسی کے سلسلے میں سب سے اہم مسئلہ امریکا سے تعلقات کی تنظیم نو ہے جو خواہشات کی بنیاد پر نہیں،اصل زمینی حقائق اور پاکستان کے مفادات کی بنیاد پر مرتب ہونی چاہیے۔ نیز مشرق وسطیٰ خصوصیت سے شام، عراق، لیبیا، مصر اور ایران کے سلسلے میں امریکا کی جو پالیسی ہے، اسے بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔ حالیہ افغان جنگ میں امریکا نے جو کچھ کھو دیا ہے اور جو کچھ پایا ہے، اس پر امریکا کے علمی، سفارتی، صحافی اور سیاسی حلقوں میں بحث ہورہی ہے اور اس بحث کے دُور رس نتائج مرتب ہونے کی توقع ہے۔ امریکا کی خارجہ پالیسی میں اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کو جو حیثیت حاصل ہے وہ بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح امریکا اور بھارت کے تعلقات نے جو رُخ گذشتہ ۱۰سال میں اختیار کیا ہے، اس کا پاکستان اور اس کی خارجہ اور داخلی پالیسیوں سے گہرا تعلق ہے۔ امریکا میں راے عامہ اور سیاسی اور سفارتی حلقوں میں پاکستان کا جو تصور ہے، اس سے صرفِ نظر کرکے خیالی پالیسیاں بنانا بڑا خسارے کا سودا ہوسکتا ہے۔ اس لیے پوری عرق ریزی کے ساتھ اور حقیقت پسندی کا دامن تھامتے ہوئے تعلقات کا ایک نیا دروبست بنانے کی ضرورت ہے۔
یہ بات بھی سامنے رہے کہ پاکستانی عوام کی نگاہ میں امریکا سب سے زیادہ ناقابلِ اعتماد ملک ہے اور امریکی راے عامہ کی نگاہ میں پاکستان کی یہی تصویر ہے۔ دونوں ممالک میں باہمی اعتماد کا شدید فقدان ہے اور تعلقات کو نئی جہت دینے کا کام ان زمینی حقائق کو نظرانداز کرکے انجام دینا بڑی حماقت ہوگی۔ ہیلری کلنٹن نے اپنی یادداشتیں مرتب کی ہیں، اس میں اس نے اعتماد کے فقدان کا کھل کر اعتراف کرتے ہوئے صاف لکھا ہے کہ اسی وجہ سے ایبٹ آباد کے امریکی آپریشن کا اہتمام پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر کیا گیا۔ یہ صرف ہیلری کلنٹن کے خیالات نہیں پوری امریکی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی اور ذہنی قیادت کی سوچ کا آئینہ ہے۔ امریکا اس وقت مشرق وسطیٰ کے سیاسی نقشے کی تشکیل نو میں جو کردار ادا کر رہا ہے اور افغانستان اور عراق میں امریکی مداخلت کا جس سے گہرا تعلق ہے، اس کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ امریکی دانش ور اور عسکری تجزیہ نگار پاکستان اور عرب دنیا کے نقشوں کی ٹوٹ پھوٹ کی جو تصویریں بنا رہے ہیں، وہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔
نائن الیون کے بعد سے اسلام اور مسلم دنیا کو جس طرح ہوّا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، وہ محض شاعرانہ خوش خیالی نہیں، سیاسی عزائم اور ایجنڈے کا اہم حصہ ہے۔ دوستی اور تعاون کے رشتوں کو قائم رکھنے کے تمام دعوئوں کے ساتھ جو ذہن بنایا جا رہا ہے، وہ یہ ہے کہ امریکا کے لیے اصل خطرہ پاکستان ہے۔ اس کا بڑا ہی کھل کر اظہار اسی مہینے شائع ہونے والی کتاب The Wrong Enemy میں کیا گیا ہے جس کی مصنفہ ایک مشہور صحافی کارلوٹا گال ہے، جس نے گذشتہ ۱۲برس افغانستان اور پاکستان سے نیویارک ٹائمز کی نمایندے کی حیثیت سے کام کیا ہے اور جسے امریکا میں دونوں ممالک پر ایک مستند حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ موصوفہ کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ افغانستان پر فوج کشی کرکے ہم نے ناحق اپنے فوجیوں کی جانیں اور اپنے ٹیکس دینے والوں کی دولت کو ضائع کیا۔ ہمارا اصل دشمن تو پاکستان ہے اور جب تک اسے ٹھکانے نہیں لگایا جاتا، امریکا کے مفادات معرضِ خطر میں رہیں گے۔ ملاحظہ ہو ، کیا ارشاد ہے:
جنگ ایک المیہ رہی ہے جس کی قیمت اَن گنت زندگیوں نے چکائی ہے۔ یہ بہت طویل عرصے سے جاری ہے۔افغانی کبھی بھی دہشت گردی کے وکیل نہیں رہے، لیکن نائن الیون کے بعدسزا کا اصل دبائو انھوں نے ہی برداشت کیا۔پاکستان جو اتحادی فرض کیا جاتا ہے دھو کے باز ثابت ہوا۔ اس نے افغانستان میں تشدد کو اپنی بالادستی جیسے مقاصد کے لیے آگے بڑھایا ہے۔ پاکستان کے جرنیلوں اور ملائوں نے اپنے آپ کو، اپنے افغان پڑوسیوں کو اور ناٹو کے حلیفوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ افغانستان نہیں، پاکستان حقیقی دشمن رہا ہے ۔ (The Wrong Enemy: America in Afghanistan (2001-2014) by Carlotta Gall, Houghton Mifflin Harcourt, Boston- New York-2014)
ہم ایک بار پھر واضح کرناچاہتے ہیں کہ پاکستان کو دنیا کے تمام ممالک سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے چاہییں۔ ہم دوست بنانا چاہتے ہیں، دشمن نہیں۔ لیکن یہ تعلقات حقائق پر مبنی ہونے چاہییں، اور پاکستان کے حقیقی مفادات کے حصول کو اولیت حاصل ہونی چاہیے۔ حقائق کو نظرانداز کرکے جو اڑان بھی کی جائے گی، وہ مفید نہیں ہوسکتی ع
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
نواز حکومت نے اس ایک سال میں خارجہ پالیسی، قومی سلامتی اور دہشت گردی کے باب میں جو بھی پالیسیاں بنائی ہیں اور اقدامات کیے ہیں، ہم بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ وہ بڑی حد تک سابقہ اَدوار کے تسلسل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ملک کے اسٹرے ٹیجک مفادات اور عوام کے جذبات جن تبدیلیوں کا تقاضا کر رہے تھے، ان کی کوئی جھلک ان میں دُور دُور نظر نہیں آتی۔ جو بات خارجہ پالیسی، قومی سلامتی کی پالیسی اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی حکمت عملی کے سلسلے میں درست ہے، کم و بیش وہی ملک و قوم کو درپیش دوسرے چیلنجوں اور مسائل پر بھی صادق آتی ہے جن پر حسب توفیق ہم آیندہ گفتگو کی کوشش کریں گے۔ البتہ اس پہلے سال کے جائزے کا یہ پیغام واضح ہے کہ ملک و قوم کو جس تبدیلی کی ضرورت تھی، اس کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ ابھی وقت ہے اورحکومت اگر چاہتی ہے کہ پاکستان اس دلدل سے نکلے اور جمہوریت کی گاڑی آگے چل سکے، تو اسے اپنی روش میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔
اسلامی زندگی کی عمارت کو قائم ہونے اور قائم رہنے کے لیے جن سہاروں کی ضرورت ہے، ان میں سب سے مقدم سہارا یہ ہے کہ مسلمانوں کے افراد میں فرداً فرداً اور ان کی جماعت میں بحیثیت مجموعی وہ اوصاف پیدا ہوں جو خدا کی بندگی کا حق ادا کرنے اور دنیا میں خلافت ِ الٰہی کا بار سنبھالنے کے لیے ضروری ہیں۔
وہ غیب پر سچا اور زندہ ایمان رکھنے والے ہوں۔ وہ اللہ کو اپنا واحد فرماں روا تسلیم کریں اور اس کے فرض شناس اور اطاعت کیش بندے ہوں۔ اسلام کا نظامِ فکرونظریۂ حیات ان کی رَگ رَگ میں ایسا پیوستہ ہوجائے کہ اسی کی بنیاد پر اُن میں ایک پختہ سیرت پیدا ہو، اور ان کا عملی کردار اسی کے مطابق ڈھل جائے۔ اپنی جسمانی اور نفسانی قوتوں پر وہ اتنے قابو یافتہ ہوں کہ اپنے ایمان واعتقاد کے مطابق ان سے کام لے سکیں۔ ان کے اندر منافقین کی جماعت اگر پیدا ہوگئی ہو یا باہر سے گھس آئی ہو تو وہ اہلِ ایمان سے الگ ہوجائے۔ ان کی جماعت کا نظام اسلام کے اجتماعی اصولوں پر قائم ہو، اور ایک مشین کی طرح پیہم متحرک رہے۔ ان میں اجتماعی ذہنیت کارفرما ہو۔ ان کے درمیان محبت ہو، ہمدردی ہو، تعاون ہو، مساوات ہو، وحدتِ روح اور وحدتِ عمل ہو۔ وہ قیادت اور اقتدار کے حدود کو جانتے اور سمجھتے ہوں اور پورے نظم و ضبط کے ساتھ کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ یہ تمام مقاصد چونکہ نماز کی اقامت سے حاصل ہوتے ہیں، لہٰذا اس کو دین اسلام کا ستون قرار دیا گیا۔ یہ ستون اگر منہدم ہوجائے تو مسلمانوں کی انفرادی سیرت اور اجتماعی ہیئت دونوں مسخ ہوکر رہ جائیں اور وہ اس مقصد ِعظیم کے لیے کام کرنے کے اہل ہی نہ رہیں جس کی خاطر جماعت وجود میں آئی ہے۔ اسی بنا پر فرمایا گیا کہ نماز عماد الدین ہے، یعنی دین کا سہارا ہے جس نے اس کو گرایا اس نے دین کو گرا دیا۔
ان مقاصد کی اہمیت اسلام میں اتنی زیادہ ہے کہ ان کو حاصل کرنے کے لیے صرف نماز کو کافی نہ سمجھا گیا بلکہ اس رکن کو مزید تقویت پہنچانے کے لیے ایک دوسرے رکن روزے کا بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ نماز کی طرح یہ روزہ بھی قدیم ترین زمانے سے اسلام کا رُکن رہا ہے۔ اگرچہ تفصیلی احکام کے لحاظ سے اس کی شکلیں مختلف رہی ہیں مگر جہان تک نفسِ روزے کا تعلق ہے وہ ہمیشہ الٰہی شریعتوں کا جزولاینفک ہی رہا۔ تمام انبیا علیہم السلام کے مذہب میں یہ فرض کی حیثیت سے شامل تھا۔ جیساکہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے:
کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ (البقرہ ۲:۱۸۳) تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔
اس سے یہ بات خودبخود مترشح ہوتی ہے کہ اسلام کی فطرت کے ساتھ اس طریقِ تربیت کو ضرور کوئی مناسبت ہے۔
زکوٰۃ اور حج کی طرح روزہ ایک مستقل جداگانہ نوعیت رکھنے والا رُکن نہیں ہے بلکہ دراصل اس کا مزاج قریب قریب وہی ہے جو رکنِ صلوٰۃ کا ہے اور اسے رکنِ صلوٰۃ کے مددگار اور معاون ہی کی حیثیت سے لگایا گیا ہے۔ اس کا کام انھی اثرات کو زیادہ تیز اور زیادہ مستحکم کرنا ہے جو نماز سے انسانی زندگی پر مترتب ہوتے ہیں۔ نماز روزمرہ کا معمولی نظامِ تربیت ہے جو روز پانچ وقت تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے آدمی کو اپنے اثر میں لیتا ہے اور تعلیم و تربیت کی ہلکی ہلکی خوراکیں دے کر چھوڑ دیتا ہے، اور روزہ سال بھر میں ایک مہینے کا غیرمعمولی نظامِ تربیت (special training course) ہے جو آدمی کو تقریباً ۷۲۰ گھنٹے تک مسلسل اپنے مضبوط ڈسپلن کے شکنجے میں کَسے رکھتا ہے تاکہ روزانہ کی معمولی تربیت میں جو اثرات خفیف تھے وہ شدید ہوجائیں۔ یہ غیرمعمولی نظامِ تربیت کس طرح اپنا کام کرتا ہے، اور کس کس ڈھنگ سے نفسِ انسانی پر مطلوب اثر ڈالتا ہے ، اس کا تفصیلی جائزہ ہم ان صفحات میں لینا چاہتے ہیں۔
روزے کا قانون یہ ہے کہ آخر شب طلوعِ سحر کی پہلی علامات ظاہر ہوتے ہی آدمی پر یکایک کھانا پینا اور مباشرت کرنا حرام ہوجاتا ہے اور غروبِ آفتاب تک پورے دن حرام رہتا ہے۔ اس دوران میں پانی کا ایک قطرہ اور خوراک کا ایک ریزہ تک قصداً حلق سے اُتارنے کی اجازت نہیں ہوتی اور زوجین کے لیے ایک دوسرے سے قضاے شہوت کرنا بھی حرام ہوتا ہے۔ پھر شام کو ایک خاص وقت آتے ہی اچانک حُرمت کا بند ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ سب چیزیں جو ایک لمحے پہلے تک حرام تھیں یکایک حلال ہوجاتی ہیں اور رات بھر حلال رہتی ہیں، یہاں تک کہ دوسرے روز کی مقررہ ساعت آتے ہی پھر حُرمت کا قفل لگ جاتا ہے۔ ماہِ رمضان کی پہلی تاریخ سے یہ عمل شروع ہوتا ہے اور ایک مہینے تک مسلسل اس کی تکرار جاری رہتی ہے۔ گویا پورے ۳۰دن آدمی ایک شدید ڈسپلن کے ماتحت رکھا جاتا ہے۔ مقرر وقت تک سحری کرے، مقرر وقت پر افطار کرے، جب تک اجازت ہے، اپنی خواہشاتِ نفس پوری کرتا رہے اور جب اجازت سلب کرلی جائے تو ہر اس چیز سے رُک جائے جس سے منع کیا گیا ہے۔
اس نظامِ تربیت پر غور کرنے سے جو بات سب سے پہلے نظر میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام اس طریقے سے انسان کے شعور میں اللہ کی حاکمیت کے اقرار و اعتراف کو مستحکم کرنا چاہتا ہے، اور اس شعور کو اتنا طاقت ور بنادینا چاہتا ہے کہ انسان اپنی آزادی اور خودمختاری کو اللہ کے آگے بالفعل تسلیم (surrender) کردے۔ یہ اعتراف و تسلیم ہی اسلام کی جاں ہے، اور اسی پر آدمی کے مسلم ہونے یا نہ ہونے کا مدار ہے۔
دین اسلام کا مطالبہ انسان سے صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ بس وہ خداوندعالم کے وجود کو مان لے، یا محض ایک مابعد الطبیعی نظریے کی حیثیت سے اس بات کا اعتراف کرلے کہ اس کائنات کے نظام کو بنانے اور چلانے والا صرف اللہ واحد قہار ہے، بلکہ اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ آدمی اس امرواقعی کو ماننے کے ساتھ ہی اس کے منطقی اور فطری نتیجے کو بھی قبول کرے۔ یعنی جب وہ یہ مانتا ہے کہ اس کا اور تمام دنیا کا خالق، پروردگار، قیام بخش اور مدبر امر صرف اللہ تعالیٰ ہے، اور جب وہ تسلیم کرتا ہے کہ نہ تخلیق میں کوئی اللہ کا شریک ہے، نہ پرورش میں، نہ قیامِ بخشی میں اور نہ تدبیر امر میں، تو اس تسلیم و اعتراف کے ساتھ ہی اسے اللہ کی حاکمیت و فرماں روائی کے آگے سپرڈال دینی چاہیے۔ اپنی آزادی و خودمختاری کے غلط اِدعا سے خیال اور عمل دونوں میں دست بردار ہوجانا چاہیے، اور اللہ کے مقابلے میں وہی رویّہ اختیار کرلینا چاہیے جو ایک بندے کا اپنے مالک کے مقابلے میں ہونا لازم ہے۔
یہی چیز دراصل کفر اور اسلام کے درمیان فارق ہے۔ کفر کی حالت اس کے سوا کچھ نہیں کہ آدمی اپنے آپ کو اللہ کے مقابلے میں خودمختار اور غیرجواب دہ سمجھے اور یہی سمجھ کر اپنے لیے زندگی کا راستہ اختیار کرے، اور اسلام کی حالت اس کے سوا کسی اور چیز کا نام نہیں کہ انسان اپنے آپ کو اللہ کا بندہ اور اس کے سامنے جواب دہ سمجھے اور اسی احساسِ بندگی و ذمہ داری کے ساتھ دُنیا میں زندگی بسر کرے۔ پس حالت ِ کفر سے نکل کر حالت ِ اسلام میں آنے کے لیے جس طرح اللہ کی حاکمیت کا سچا اور قلبی اقرار ضروری ہے، اسی طرح اسلام میں رہنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی کے دل میں بندگی کا احساس و شعور ہردم تازہ، ہروقت زندہ اور ہر آن کارفرما رہے ۔ کیونکہ اس احساسِ شعور کے دل سے دُور ہوتے ہی خود مختاری و غیرذمہ داری کا رویّہ عود کرآتا ہے، اور کفر کی وہ حالت پیدا ہوجاتی ہے جس میں آدمی یہ سمجھتے ہوئے کام کرتا ہے کہ نہ اللہ اس کا حاکم ہے اور نہ اسے اللہ کو اپنے عمل کا حساب دینا ہے۔
جیساکہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے، نماز کا اوّلیں مقصد انسان کے اندر ’اسلام‘ کی اسی حالت کو پے درپے تازہ کرتے رہنا ہے ، اور یہی روزے کا مقصد بھی ہے، مگر فرق یہ ہے کہ نماز روزانہ تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے اس کو تازہ کرتی ہے، اور رمضان کے روزے سال بھر میں ایک مرتبہ پورے ۷۲۰گھنٹوں تک پیہم اس حالت کو آدمی پر طاری رکھتے ہیں، تاکہ وہ پوری قوت کے ساتھ دل و دماغ میں بیٹھ جائے اور سال کے باقی ۱۱مہینوں تک اس کے اثرات قائم رہیں۔ اول تو روزے کے سخت ضابطے کو اپنے اُوپر نافذ کرنے کے لیے کوئی شخص اس وقت تک آمادہ ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اللہ کو اپنا حاکم اعلیٰ نہ سمجھتا ہو اور اس کے مقابلے میں اپنی آزادی و خودمختاری سے دست بردار نہ ہوچکا ہو۔ پھر جب وہ دن کے وقت مسلسل ۱۲،۱۲؍۱۳،۱۳گھنٹے کھانے پینے اور مباشرت کرنے سے رُکا رہتا ہے، اور جب سحری کا وقت ختم ہوتے ہی نفس کے مطالبات سے یکایک ہاتھ کھینچ لیتا ہے، اور جب افطار کا وقت آتے ہی نفس کے مطلوبات کی طرف اس طرح لپکتا ہے کہ گویا فی الواقع اس کے ہاتھوں اور اس کے منہ اور حلق پر کسی اور کی حکومت ہے، جس کے بند کرنے سے وہ بند ہوتے اور جس کے کھولنے سے وہ کھلتے ہیں، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس دوران میں اللہ کی حاکمیت اور اپنی بندگی کا احساس اس پر ہروقت طاری ہے۔ اس پورے ایک مہینے کی طویل مدت میں یہ احساس اس شعور یا تحت الشعور سے ایک لمحے کے لیے بھی غائب نہیں ہوا۔ کیونکہ اگر غائب ہوجاتا تو ممکن ہی نہ تھا کہ وہ ضابطے کو توڑنے سے باز رہ جاتا۔
احساسِ بندگی کے ساتھ خود بخود جو چیز لازمی نتیجے کے طور پر پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو جس کا بندہ سمجھ رہا ہے اس کے حکم کی اطاعت کرے۔
ان دونوں چیزوں میں ایسا فطری اور منطقی تعلق ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو ہی نہیں سکتے، نہ ان کے درمیان کبھی تناقض (inconsistency) کے لیے گنجایش نکل سکتی ہے۔ اس لیے کہ اطاعت دراصل نتیجہ ہی اعترافِ خداوندی کا ہے۔ آپ کسی کی اطاعت کر ہی نہیں سکتے جب تک کہ اس کی خداوندی نہ مان لیں، اور جب حقیقت میں کسی کی خداوندی آپ مان چکے ہیں، تو اس کی بندگی و اطاعت سے کسی طرح باز نہیں رہ سکتے۔ انسان نہ اتنا احمق ہے کہ خواہ مخواہ کسی کا حکم مانتا چلا جائے درآں حالے کہ اس کے حقِ حکمرانی کو تسلیم نہ کرتا ہو۔ اور نہ انسان میں اتنی جرأت موجود ہے کہ وہ فی الواقع اپنے قلب و روح میں جسے حاکمِ ذی اقتدار سمجھتا ہو، اور جسے نافع و ضار اور پروردگار مانتا ہو، اس کی اطاعت سے منہ موڑ جائے۔ بس درحقیقت خداوندی کے اعتراف اور بندگی و طاعت کے عمل میں لازم و ملزوم کا تعلق ہے، اور یہ عین عقل و منطق کا تقاضا ہے کہ ان دونوں کے درمیان ہر پہلو سے کامل توافق ہو۔
آقائی و خداوندی میں توحید لامحالہ بندگی و طاعت میں توحید پر منتج ہوگی، اور آقائی و خداوندی میں شرک کا نتیجہ لازماً بندگی و اطاعت میں شرک ہوگا۔ آپ ایک کو خدا سمجھیں گے تو ایک ہی کی بندگی بھی کریں گے۔ دس کی خداوندی تسلیم کریں گے تو بندگی و طاعت کا رُخ بھی ان دسوں کی طرح پھرے گا۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ آپ خداوندی دس کی تسلیم کر رہے ہوں اور اطاعت ایک کی کریں۔
ذاتِ خداوندی کا تعین لامحالہ سمت ِ بندگی کے تعین پر منتج ہوگا۔ آپ جس کی خداوندی کا اعتراف کریں گے لازماً اطاعت بھی اسی کی کریں گے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ خداوند ایک کومانیں اور اطاعت دوسرے کی کریں۔ تعارض کا امکان زبانی اعتراف اور واقعی بندگی میں تو ضرور ممکن ہے، مگر قلب و روح کے حقیقی احساس و شعور اور جوارح کے عمل میں ہرگز ممکن نہیں۔ کوئی عقل اس چیز کا تصور نہیں کرسکتی کہ آپ فی الحقیقت اپنے آپ کو جس کا بندہ سمجھ رہے ہیں اس کے بجاے آپ کی بندگی کا رُخ کسی ایسی ہستی کی طرف پھر سکتا ہے جس کا بندہ آپ فی الحقیقت اپنے آپ کو نہ سمجھتے ہوں۔ بخلاف اس کے عقل یہ فیصلہ کرتی ہے کہ جس طرف بھی آپ کی بندگی کا رُخ پھر رہا ہے اُسی کی خداوندی کا نقش دراصل آپ کے ذہن پر مرتسم ہے، خواہ زبان سے آپ اس کے سوا کسی اورکی خداوندی کا اظہار کررہے ہوں۔
خداوندی کے اعتراف اور بندگی کے احساس میں کمی بیشی لازماً اطاعت ِامر کی کمی بیشی پر منتج ہوگی۔ کسی کے خدا ہونے اور اپنے بندہ ہونے کا احساس آپ کے دل میں جتنا زیادہ شدید ہوگا اسی قدر زیادہ شدت کے ساتھ آپ اس کی اطاعت کریں گے، اور اس احساس میں جتنی کمزوری ہوگی اتنی اطاعت میں کمی واقع ہوجائے گی، حتیٰ کہ اگر یہ احساس بالکل نہ ہو تو اطاعت بھی بالکل نہ ہوگی۔
ان مقدمات کو ذہن نشین کرنے کے بعد یہ بات بالکل صاف، واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کا مدّعا اللہ کی خداوندی کا اقرار کرانے اور اس کے سوا ہر ایک کی خداوندی کا انکار کرا دینے سے اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی بندگی و اطاعت نہ کرے۔ جب وہ اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ [آگاہ رہو اللہ ہی کے لیے ہے اطاعت ِ خالص۔الزمر۳۹:۳] کہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اطاعت خالصاً و مخلصاً صرف اللہ کے لیے ہے، کسی دوسری مستقل بالذات اطاعت کی آمیزش کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔ جب وہ کہتا ہے کہ:
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ (البینہ۹۸:۵) اور نہیں حکم دیے گئے سواے اس کے کہ اللہ کی بندگی کریں خالص کرتے ہوئے اس کے لیے دین۔
تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صرف اللہ ہی کی بندگی کرنے پر انسان مامور ہے اور اس کی بندگی کرنے کی شرط یہ ہے کہ انسان اس کی اطاعت کے ساتھ کسی دوسرے کی اطاعت مخلوط نہ کرے۔ جب وہ کہتا ہے کہ:
قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ (الانفال ۸:۳۹) لڑتے رہو اُن سے یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہوجائے۔
تو اس کا صاف اور صریح مطلب یہ ہوتا ہے کہ مسلمان کی اطاعت پوری کی پوری اللہ ہی کے لیے وقف ہے اور ہر اس طاقت سے مسلمان کی جنگ ہے جو اس اطاعت میں حصہ بٹانا چاہتی ہو۔ جس کا مطالبہ یہ ہو کہ مسلمان خداوندعالم کے ساتھ اس کی اطاعت بھی کرے، یا خداوندعالم کے بجاے صرف اسی کی اطاعت کرے۔ پھر جب وہ کہتا ہے کہ:
ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَـہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ط (الفتح۴۸: ۲۸) وہی ہے جس نے بھیجا اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ وہ غالب کردے اسے سارے دین پر۔
تو اس کا صاف اور صریح مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی اطاعت تمام اطاعتوں پر غالب ہو، اطاعت اور بندگی کا پورا نظام اپنے تمام شعبوں اور سارے پہلوئوں کے ساتھ اطاعت ِ الٰہی کے نیچے آجائے، جس کی فرماں برداری بھی ہو، خداوندعالم کی اجازت کے تحت ہو، اور جس فرماں برداری کے لیے وہاں سے حکم یا سند ِ جواز نہ ملے اس کا بند کاٹ ڈالا جائے، یہ اس دین حق اور اس ہدایت کا تقاضا ہے جو اللہ اپنے رسولؐ کے ذریعے سے بھیجتا ہے۔
اس تقاضے کے مطابق خواہ انسان کے ماں باپ ہوں، خواہ خاندان اور سوسائٹی ہو، خواہ قوم اور حکومت ہو، خواہ امیر یا لیڈر ہو، خواہ علما اور مشائخ ہوں، خواہ وہ شخص یا ادارہ ہو جس کی انسان ملازمت کرکے پیٹ پالتا ہے، اور خواہ انسان کا اپنا نفس اور اس کی خواہشات ہوں، کسی کی اطاعت بھی خداوندعالم کی اصلی اور بنیای اطاعت کی قید سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتی۔ اصل مطاع اللہ تعالیٰ ہے۔ جو اس کی خداوندی کا اقرار کرچکا اور جس نے اس کے لیے اپنی زندگی کو خالص کرلیا، وہ جس کی اطاعت بھی کرے گا، اللہ ہی کی اطاعت کے تحت رہ کر کرے گا۔ جس حد تک جس کی بات ماننے کی وہاں سے اجازت ہوگی اسی حد تک مانے گا، اور جہاں اجازت کی حد ختم ہوجائے گی وہاں وہ ہرایک کا باغی اور صرف اللہ کا فرماں بردار نکلے گا۔
روزے کا مقصد آدمی کو اسی اطاعت کی تربیت دینا ہے۔ وہ مہینے بھر تک روزانہ کئی کئی گھنٹے آدمی کو اس حالت میں رکھتا ہے کہ اپنی بالکل ابتدائی (elementary) ضرورت پوری کرنے کے لیے بھی اس کو خداوندعالم کے اذن و اجازت کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ غذا کا ایک لقمہ اور پانی کا ایک قطرہ تک وہ حلق سے گزار نہیں سکتا جب تک کہ وہاں سے اجازت نہ ملے۔ ایک ایک چیز کے استعمال کے لیے وہ شریعت ِ خداوندی کی طرف دیکھتا ہے۔ جو کچھ وہاں حلال ہے وہ اس کے لیے حلال ہے، خواہ تمام دنیا اُسے حرام کرنے پر متفق ہوجائے ، اور جو کچھ وہاں حرام ہے وہ اس کے لیے حرام ہے، خواہ ساری دنیا مل کر اُسے حلال کردے۔ اس حالت میں خداے واحد کے سوا کسی کا اذن اس کے لیے اذن نہیں، کسی کا حکم اس کے لیے حکم نہیں، اور کسی کی نہی اس کے لیے نہی نہیں۔ خود اپنے نفس کی خواہش سے لے کر دنیا کے ہرانسان اور ہر ادارے تک کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جس کے حکم سے مسلمان رمضان میں روزہ چھوڑ سکتا ہو یا توڑسکتا ہو۔ اس معاملے میں نہ بیٹے پر باپ کی اطاعت ہے، نہ بیوی پر شوہر کی، نہ ملازم پر آقا کی، نہ رعیّت پر حکومت کی، نہ پیرو پر لیڈر یا امام کی۔ بالفاظِ دیگر اللہ کی بڑی اور اصلی اطاعت تمام اطاعتوں کو کھاجاتی ہے اور ۷۲۰گھنٹے کی طویل مشق و تمرین سے روزے دار کے دل پر کالنقش فی الحجر یہ سکّہ بیٹھ جاتا ہے کہ ایک ہی مالک کا وہ بندہ ہے ، ایک ہی قانون کا وہ پیرو ہے، اور ایک ہی اطاعت کا حلقہ اس کی گردن میں پڑا ہے۔
اس طرح یہ روزہ انسان کی فرماں برداریوں اور اطاعتوں کو ہر طرف سے سمیٹ کر ایک مرکزی اقتدار کی جانب پھیر دیتا ہے اور ۳۰ دن تک روزانہ ۱۲،۱۲؍ ۱۴،۱۴ گھنٹے تک اسی سمت میں جمائے رکھتا ہے، تاکہ اپنی بندگی کے مرجع اور اپنی اطاعت کے مرکز کو وہ اچھی طرح متحقق کرے اور رمضان کے بعد جب اس ڈسپلن کے بند کھول دیے جائیں تو اس کی اطاعتیں اور فرماں برداریاں بکھر کر مختلف مرجعوں کی طرف بھٹک نہ جائیں۔
اطاعت ِ امر کی اس تربیت کے لیے بظاہر انسان کی صرف دو خواہشوں (یعنی غذا لینے کی خواہش اور صنفی خواہش) کو چھانٹ لیا گیا ہے اور ڈسپلن کی ساری پابندیاں صرف انھی دو پر لگائی گئی ہیں۔ لیکن روزے کی اصل روح یہ ہے کہ آدمی پر اس حالت میں خدا کی خداوندی اور بندگی و غلامی کا احساس پوری طرح طاری ہوجائے اور وہ ایسا مطیع امر ہوکر یہ ساعتیں گزارے کہ ہراُس چیز سے رُکے جس سے خدا نے روکا ہے، اور ہراُس کام کی طرف دوڑے جس کا حکم خدا نے دیا ہے۔ روزے کی فرضیت کا اصل مقصد اسی کیفیت کو پیدا کرنا اور نشوونما دینا ہے نہ کہ محض کھانے پینے اور مباشرت سے روکنا۔ یہ کیفیت جتنی زیادہ ہو، روزہ اتنا ہی مکمل ہے، اور جتنی اس میں کمی ہو اتنا ہی وہ ناقص ہے۔ اگر کسی آدمی نے اس احمقانہ طریقے سے روزہ رکھا کہ جن جن چیزوں سے روزہ ٹوٹتا ہے ، ان سے تو پرہیز کرتا رہا اور باقی تمام ان افعال کا ارتکاب کیے چلاگیا جنھیں خدا نے حرام کیا ہے، تو اس کے روزے کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک مُردہ لاش کہ اس میں اعضا تو سب کے سب موجود ہیں، جن سے صورتِ انسانی بنتی ہے مگر جان نہیں ہے جس کی وجہ سے انسان انسان ہے۔ جس طرح اس بے جان لاش کو کوئی شخص انسان نہیں کہہ سکتا اسی طرح اس بے روح روزے کو بھی کوئی روزہ نہیں کہہ سکتا۔ یہی بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی کہ:
من لم یدع قول الزور والعمل بہٖ فلیس للّٰہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ وشرابہ (بخاری، کتاب الصوم) جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو اس کی حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا اور پینا چھوڑ دے۔
جھوٹ بولنے کے ساتھ ’جھوٹ پر عمل کرنے‘کا جو ارشاد فرمایا گیا ہے یہ بڑا ہی معنی خیز ہے۔ دراصل یہ لفظ تمام نافرمانیوں کا جامع ہے۔ جو شخص خدا کو خدا کہتا ہے اورپھر اس کی نافرمانی کرتا ہے وہ حقیقت میں خود اپنے اقرار کی تکذیب کرتا ہے۔ روزے کا اصل مقصد تو عمل سے اقرار کی تصدیق ہی کرنا تھا، مگر جب وہ روزے کے دوران میں اس کی تکذیب کرتا رہا تو پھر روزے میں بھوک پیاس کے سوا اور کیا باقی رہ گیا؟ حالانکہ خدا کو اس کے خلوئے معدہ کی کوئی حاجت نہ تھی۔ اسی بات کو دوسرے انداز میں حضوؐر نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
کم من صائم لیس لہ من صیامہ الا الظماؤکم من قائم لیس لہ من قیامہ الاسھر(سنن الدارمی) کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا، اور کتنے ہی راتوں کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں جنھیں اس قیام سے رت جگے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
یہی بات ہے جس کو قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح تر الفاظ میں ظاہر فرما دیا کہ:
کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo (البقرہ۲:۱۸۳) تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔ توقع ہے کہ اس ذریعے سے تم تقویٰ کرنے لگو گے۔
یعنی روزے فرض کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو۔ تقویٰ کے اصل معنی حذر اور خوف کے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں اس سے مراد خدا سے ڈرنا اور اس کی نافرمانی سے بچنا ہے۔ اس لفظ کی بہترین تفسیر جو میری نظر سے گزری ہے، وہ ہے جو حضرت ابی ابن کعبؓ نے بیان کی۔ حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا: تقویٰ کسے کہتے ہیں؟ انھوں نے عرض کیا: امیرالمومنینؓ! آپؓ کو کبھی کسی ایسے رستے سے گزرنے کا اتفاق ہوا ہے جس کے دونوں طرف خاردار جھاڑیاں ہوں اور راستہ تنگ ہو؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: بارہا۔ انھوں نے پوچھا: تو ایسے موقعے پر آپ کیا کرتے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: میں دامن سمیٹ لیتا ہوں اور بچتا ہوا چلتا ہوں کہ دامن کانٹوں میں نہ اُلجھ جائے۔ حضرت ابی ؓ نے کہا: بس اسی کا نام تقویٰ ہے۔
زندگی کا یہ راستہ جس پر انسان سفر کر رہا ہے، دونوں طرف افراط و تفریط ، خواہشات اور میلاناتِ نفس، وساوس اور ترغیبات (temptations) ، گمراہیوں اور نافرمانیوں کی خاردار جھاڑیوں سے گھِرا ہوا ہے۔ اس راستے پر کانٹوں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے چلنا اور اطاعت ِ حق کی راہ سے ہٹ کر بداندیشی و بدکرداری کی جھاڑیوں میں نہ اُلجھنا، یہی تقویٰ ہے، اور یہی تقویٰ پیدا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کیے ہیں۔ یہ ایک مقوّی دوا ہے جس کے اندر خداترسی و راست رَوی کو قوت بخشنے کی خاصیت ہے، مگر فی الواقع اس سے یہ قوت حاصل کرنا انسان کی اپنی استعداد پر موقوف ہے۔ اگر آدمی روزے کے مقصد کو سمجھے ، اور جو قوت روزہ دیتا ہے اس کو لینے کے لیے تیار ہو، اور روزے کی مدد سے اپنے اندر خوفِ خدا اور اطاعت ِ امر کی صفت کو نشوونما دینے کی کوشش کرے، تو یہ چیز اس میں اتنا تقویٰ پیدا کرسکتی ہے کہ صرف رمضان ہی میں نہیں بلکہ اس کے بعد بھی سال کے باقی ۱۱مہینوں میں وہ زندگی کی سیدھی شاہراہ پر دونوں طرف کی خاردار جھاڑیوں سے دامن بچائے ہوئے چل سکتا ہے۔ اس صورت میں اس کے لیے روزے کے نتائج، ثواب اور منافع (اجر) کی کوئی حد نہیں۔ لیکن اگر وہ اصل مقصد سے غافل ہوکر محض روزہ نہ توڑنے ہی کو روزہ رکھنا سمجھے اور تقویٰ کی صفت حاصل کرنے کی طرف توجہ ہی نہ کرے، تو ظاہر ہے کہ وہ اپنے نامۂ اعمال میں بھوک پیاس اور رت جگے کے سوا اور کچھ نہیں پاسکتا۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کل عمل ابن اٰدم یضاعف الحسنہ بعشر امثالھا الٰی سبع مائۃ ضعف قال اللّٰہ تعالٰی الا الصوم فانہ لی وانا اجزی بہ(متفق علیہ) آدمی کا ہر عمل خدا کے ہاں کچھ نہ کچھ بڑھتا ہے۔ ایک نیکی ۱۰ گنی سے ۷۰۰ گنی تک پھلتی پھولتی ہے۔ مگر اللہ فرماتا ہے کہ روزہ مستثنیٰ ہے، وہ میری مرضی پر موقوف ہے، جتنا چاہوں اس کا بدلہ دوں۔
یعنی روزے کے معاملے میں بالیدگی و افزونی کا امکان بے حد و حساب ہے۔ آدمی اُس سے تقویٰ حاصل کرنے کی جتنی کوشش کرے اتنا ہی وہ بڑھ سکتا ہے۔ صفر کے درجے سے لے کر اُوپر لاکھوں، کروڑوں، اربوں گنے تک وہ جاسکتا ہے بلکہ بلانہایت ترقی کرسکتا ہے۔ پس یہ معاملہ چونکہ آدمی کی اپنی استعداد اخذ وقبول پر منحصر ہے کہ روزے سے تقویٰ حاصل کرے یا نہ کرے، اور کرے تو کس حد تک کرے۔ اس وجہ سے آیت مذکورہ بالا میں یہ نہیں فرمایا کہ روزے رکھنے سے تم یقینا متقی ہوجائو گے، بلکہ لَعَلَّکُمْ ۱؎کا لفظ فرمایا جس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ توقع کی جاتی ہے، یا ممکن ہے کہ اس ذریعے سے تم تقویٰ کرنے لگو گے۔
یہ تقویٰ ہی دراصل اسلامی سیرت کی جان ہے۔ جس نوعیت کا کیرکٹر اسلام ہرمسلمان فرد میں پیدا کرنا چاہتا ہے اس کا اسلامی تصور اس تقویٰ کے لفظ میں پوشیدہ ہے۔ افسوس ہے کہ آج کل اس لفظ کا مفہوم بہت محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک خاص طرز کی شکل و وضع بنالینا، چند مشہور و نمایاں گناہوں سے بچنا اور بعض ایسے مکروہات سے پرہیز کرنا جنھوں نے عوام کی نگاہ میں بہت اہمیت اختیار کرلی ہے، بس اسی کا نام تقویٰ ہے۔ حالانکہ دراصل یہ ایک نہایت وسیع اصطلاح ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ قرآنِ مجید انسانی طرزِخیال و طرزِعمل کو اصولی حیثیت سے دو بڑی قسموں پر تقسیم کرتا ہے:
ان میں سے پہلی قسم کے طرزِخیال و طرزِعمل کا جامع نام قرآن نے فجور۱؎ رکھا ہے، اور دوسرے طرزِ خیال و عمل کو وہ تقویٰ ۲؎ کے نام سے یاد کرتا ہے۔ یہ دراصل زندگی کے دو مختلف راستے ہیں جو بالکل ایک دوسرے کی ضد واقع ہوئے ہیں اور اپنے نقطۂ آغاز سے لے کر نقطۂ انجام تک کہیں ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ فجور کے راستے کو اختیار کرکے آدمی کی پوری زندگی اپنے تمام اجزا اور تمام شعبوں کے ساتھ ایک خاص ڈھنگ پر لگ جاتی ہے جس میں تقویٰ کی ظاہری اشکال تو کہیں نظر آسکتی ہیں مگر تقویٰ کی اسپرٹ کا شائبہ تک نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ فجور کے تمام فکری اجزا ایک دوسرے کے ساتھ منطقی ربط رکھتے ہیں اور تقویٰ کے فکری اجزا میں سے کسی جُز کو بھی ان کے مربوط نظام میں راہ نہیں مل سکتی۔ برعکس اس کے تقویٰ کا راستہ اختیار کرکے انسان کی پوری زندگی کا ڈھنگ کچھ اور ہوتا ہے، وہ ایک دوسرے ہی طرز پر سوچتا ہے۔ دنیا کے ہرمعاملے اور ہرمسئلے کو ایک دوسری ہی نگاہ سے دیکھتا ہے، اور ہرموقع و محل پر ایک دوسرا ہی طرز اختیار کرتا ہے۔
ان دونوں راستوں کا فرق صرف انفرادی زندگی ہی سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اجتماعی زندگی سے بھی اس کا اتنا ہی تعلق ہے۔ جو جماعت فاجر افراد پر مشتمل ہوگی یا جس میں فاجرین کی اکثریت ہوگی اور اہلِ فجور کے ہاتھ میں جس کی قیادت ہوگی، اس کا پورا تمدن فاجرانہ ہوگا۔ اس کی معاشرت میں، اس کے اخلاقیات میں، اس کے معاشیات میں، اس کے نظامِ تعلیم و تربیت میں، اس کی سیاست میں، اس کے بین الاقوامی رویے میں، غرض اس کی ہرچیز میں فجور کی روح کارفرما ہوگی۔ یہ بہت ممکن ہے کہ اس کے اکثر یا بعض افراد ذاتی خود غرضیوں اور منفعت پرستیوں سے بالاتر نظر آئیں، مگر زیادہ سے زیادہ جس بلندی پر وہ چڑھ سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کو اس قوم کے مفاد میں گم کردیں۔ جس کی ترقی سے ان کی اپنی ترقی اور جس کے تنزل سے ان کا اپنا تنزل وابستہ ہے۔ لہٰذا اگر کسی شخصی سیرت میں فجور کا رنگ کم بھی ہو تو اس سے کوئی فرق واقع نہ ہوگا۔ قومی رویہ بہرحال افادیت، ابن الوقتی، مصلحت پرستی اور مادہ پرستی ہی کے اصولوں پرچلے گا۔
اسی طرح تقویٰ بھی محض انفرادی چیز نہیں ہے۔ جب کوئی جماعت متقین پر مشتمل ہوتی ہے یا اس میں اہلِ تقویٰ کی کثرت ہوتی ہے، اور متقی ہی اس کے رہنما ہوتے ہیں، تو اس کے پورے اجتماعی رویے میں ہرحیثیت سے خدا ترسی کا رنگ ہوتا ہے۔ وہ وقتی اور ہنگامی مصلحتوں کے لحاظ سے اپنا طرزِعمل مقرر نہیں کرتی بلکہ ایک مستقل دستور کی پیروی کرتی ہے اور ایک اٹل نصب العین کے لیے اپنی تمام مساعی وقف کردیتی ہے، قطع نظر اس سے کہ دنیوی لحاظ سے قوم کو کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے یا کیا نقصان پہنچتا ہے۔ وہ مادی فائدوں کے پیچھے نہیں دوڑتی بلکہ پایدار اخلاقی و روحانی منافع کو اپنا مطمح نظر بناتی ہے۔ وہ مواقع کے لحاظ سے اصول توڑتی اور بناتی نہیں ہے بلکہ ہرحال میں اصولِ حق کا اتباع کرتی ہے۔ کیونکہ اسے اس کی پروا نہیں ہوتی کہ اس کی مدِّمقابل قوموں کی طاقت کم ہے یا زیادہ، بلکہ اُوپر جو خدا موجود ہے و ہ اس سے ڈرتی ہے اور اس کے سامنے کھڑے ہوکر جواب دہی کرنے کا جو وقت بہرحال آنا ہے اس کی فکر اسے کھائے جاتی ہے۔
اسلام کے نزدیک دنیا میں فساد کی جڑ اور انسانیت کی تباہی و بربادی کا اصلی سبب ’فجور‘ ہے۔ وہ اس فجور کے سانپ کو ہلاک کردینا چاہتا ہے یا کم سے کم اس کے زہریلے دانت توڑ دینا چاہتا ہے، تاکہ اگر یہ سانپ جیتا رہے تب بھی انسانیت کو ڈسنے کی طاقت اس میں باقی نہ رہے۔ اس کام کے لیے وہ نوعِ انسانی میں سے ان لوگوں کو چُن چُن کر نکالنا اور اپنی پارٹی میں بھرتی کرنا چاہتا ہے جو متقیانہ رجحانِ طبع رکھتے ہوں۔ فجور کی جانب ذہنی رجحان (Bent of Mind) رکھنے والے لوگ اس کے کسی کام کے نہیں، خواہ وہ اتفاق سے مسلمانوں کے گھر میں پیدا کیے گئے ہوں اور مسلم قوم کے درد میں کتنے ہی تڑپتے ہوں۔
اسے دراصل ضرورت ان لوگوںکی ہے جن میں خود اپنی ذمہ داری کا احساس ہو، جو آپ اپنا حساب لینے والے ہوں، جو خود اپنے دل کی نیتوں اور ارادوں پر نظر رکھیں، جن کو قانون کی پابندی کے لیے کسی خارجی دبائو کی حاجت نہ ہو بلکہ خود اُن کے اپنے باطن میں ایک محاسب اور آمر بیٹھا ہو جو انھیں اندر سے قانون کا پابند بناتا ہو اور ایسی قانون شکنی پر بھی ٹوکتا ہو جس کا علم کسی پولیس، کسی عدالت اور کسی راے عام کو نہیں ہوسکتا۔ وہ ایسے افراد چاہتا ہے جنھیں یقین ہو کہ ایک آنکھ ہرحال میںا نھیں دیکھ رہی ہے، جنھیں خوف ہو کہ ایک عدالت کے سامنے بہرحال انھیں جانا ہے، جو دنیوی منافع کے بندے، ہنگامی مصالح کے غلام اور شخصی یا قومی اغراض کے پرستار نہ ہوں۔ جن کی نظر آخرت کے اصلی و حقیقی نتائج پر جمی ہوئی ہو، جن کو دنیا کے بڑے سے بڑے فائدے کا لالچ یا سخت سے سخت نقصان کا خوف بھی خداوندعالم کے دیے ہوئے نصب العین اور اس کے بتائے ہوئے اصولِ اخلاق سے نہ ہٹا سکتا ہو، جن کی تمام سعی و کوشش صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو، جنھیں اس امر کا پختہ یقین ہو کہ پایانِ کار بندگیِ حق ہی کا نتیجہ بہتر اور بندگیِ باطل ہی کا انجام بُرا ہوگا، چاہے اس دنیا میں معاملہ برعکس ہو۔
پھر اس کو جن آدمیوں کی تلاش ہے وہ ایسے آدمی ہیں جن کے اندر اتنا صبر موجود ہو کہ ایک صحیح اور بلند نصب العین کے لیے برسوں بلکہ ساری عمر لگاتار سعیِ بے حاصل کرسکتے ہوں، جن میں اتنی ثابت قدمی ہو کہ غلط راستوں کی آسانیاں، فائدے اور لطف و لذت کوئی چیز بھی ان کو اپنی طرف نہ کھینچ سکتی ہو، جن میں اتنا تحمل ہو کہ حق کے راستے پر چلنے میں خواہ کس قدر ناکامیوں، مشکلات، خطرات، مصائب اور شدائد کا سامنا ہو، ان کا قدم نہ ڈگمگائے، جن میں اتنی یکسوئی ہو کہ ہرقسم کی عارضی اور ہنگامی مصلحتوں سے نگاہ پھیر کر اپنے نصب العین کی طرف بڑھے چلے جائیں، جن میں اتنا توکّل موجود ہو کہ حق پرستی و حق کوشی کے زیرطلب اور دُور رس نتائج کے لیے خداوندعالم پر بھروسا کرسکیں، خواہ دنیا کی زندگی میں اس کام کے نتائج سرے سے برآمد ہوتے نظر ہی نہ آئیں۔ ایسے ہی لوگوں کی سیرت پر اعتماد کیا جاسکتا ہے ، اور جو کام اسلام اپنی پارٹی سے لینا چاہتا ہے اس کے لیے ایسے ہی قابلِ اعتماد کارکنوں کی ضرورت ہے۔
تقویٰ کی اس صفت کا ہیولیٰ (ابتدائی جوہر) جن لوگوں میں موجود ہو ان کے اندر اس صفت کو نشوونما دینے اور اسے مستحکم کرنے کے لیے روزے سے زیادہ طاقت ور اور کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ روزے کے ضابطے پر ایک نگاہ ڈالیے، آپ پر خود منکشف ہونے لگے گا کہ یہ چیز کس مکمل طریقے سے ان صفات کو بالیدگی اور پایداری بخشتی ہے۔ ایک شخص سے کہا جاتا ہے کہ روزہ خدا نے تم پر فرض کیا ہے۔ صبح سے شام تک کچھ نہ کھائوپیو۔ کوئی چیز حلق سے اُتارو گے تو تمھارا روزہ ٹوٹ جائے گا۔ لوگوں کے سامنے کھانے پینے سے اگر تم نے پرہیز کیا اور درپردہ کھاتے پیتے رہے، تو خواہ لوگوں کے نزدیک تمھارا شمار روزہ داروں میں ہو، مگر خدا کے نزدیک نہ ہوگا۔ تمھارا روزہ صحیح اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ خدا کے لیے رکھو، ورنہ دوسری کسی غرض، مثلاً صحت کی درستی یا نیک نامی کے لیے رکھو گے تو خدا کی نگاہ میں اس کی کوئی قیمت نہیں۔ خدا کے لیے اپنا روزہ پورا کرو گے تو اس دنیا میں کوئی انعام نہ ملے گا اور توڑو گے یا نہ رکھو گے تو یہاں کوئی سزا نہ دی جائے گی۔ مرنے کے بعد جب خدا کے سامنے پیش ہو گے اسی وقت انعام بھی ملے گا اور اسی وقت سزا بھی دی جائے گی۔ یہ چند ہدایات دے کر آدمی کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کوئی سپاہی، کوئی ہرکارہ، کوئی سی آئی ڈی کا آدمی اس پر مقرر نہیں کیا جاتا کہ ہروقت اس کی نگرانی کرے۔ زیادہ سے زیادہ راے عام اپنے دبائو سے اس کو اس حد تک مجبور کرسکتی ہے کہ دوسروں کے سامنے کچھ نہ کھائے پیے، مگر چوری چھپے کھانے پینے سے اس کو روکنے والا کوئی نہیں، اور اس بات کا حساب لینا تو کسی راے عام، یا کسی حکومت کے بس ہی میں نہیں کہ وہ رضاے الٰہی کی نیت سے روزہ رکھ رہا ہے یا کسی اور نیت سے۔
یہ کیفیات ہیں جو پہلے روزے کا ارادہ کرتے ہی انسان کے نفس میں اُبھرنی شروع ہوتی ہیں۔ جب وہ عملاً روزہ رکھتا ہے تو یہ بالفعل ایک طاقت بن جاتی ہیں۔ جب ۳۰دن تک مسلسل وہ اسی فعل کی تکرار کرتا ہے تو یہ طاقت راسخ ہوتی چلی جاتی ہے، اور بالغ ہونے کے بعد سے مرتے دم تک تمام عمر ایسے ہی ۳۰،۳۰ روزے ہرسال رکھنے سے وہ آدمی کی جبلّت میں پیوست ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے نہیں ہے کہ یہ صفات صرف روزے ہی رکھنے میں اور صرف رمضان ہی کے مہینے میں کام آئیں، بلکہ اس لیے ہے کہ انھی اجزا سے انسان کی سیرت کا خمیر بنے۔ وہ فجور سے یکسر خالی ہو اور اس کی ساری زندگی تقویٰ کے راستے پڑجائے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس مقصد کے لیے روزے سے بہتر کوئی طریقِ تربیت ممکن ہے؟ کیا اس کے بجاے اسلامی طرز کی سیرت بنانے کے لیے کوئی دوسرا کورس تجویز کیا جاسکتا ہے؟(اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر، ص۶۴-۹۲)
مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے دعوتی زندگی کا آغاز ۱۹۳۳ء میں ترجمان القرآن کے ذریعے کیا۔ آٹھ سال کی مسلسل جدوجہد کے ذریعے فکری میدان میں باطل نظریات پر ضربِ کاری لگائی اور اسلامی فکر کی تشکیلِ نو اور محکم دلائل سے اس فکر کی بالادستی کو وقت کی اصل ضرورت قرار دیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے چومکھی لڑائی لڑی اور مسلمانوں کے سامنے اسلام کی روشن شاہراہ واضح کرکے اصل منزل کی ان کے سامنے نشان دہی کردی۔ برعظیم پاک و ہند کی، اس وقت کی ذہنی فضا میں ، جہاں یہ ایک منفرد اور چونکا دینے والی آواز تھی، وہیں قرآن و سنت کی اصل دعوت کے احیا کے لیے یہ ایک انقلابی اقدام بھی تھا۔
اسلامی احیا کا یہ تصور ہمارے معاشرے میں اپنی جڑیں رکھتا تھا، جو ہمارے اکابر کی علمی، فکری اور دعوتی جدوجہد کا فطری اور منطقی نتیجہ تھا۔ برعظیم کے مسلمانوں پر مغربی تہذیب اور یورپی استعمار کے فکری اور سیاسی و تہذیبی غلبے کے خلاف اور اسلامی احیا کے لیے سیّداحمدشہید، سیّداسماعیل شہید، مولانا قاسم نانوتوی، شبلی نعمانی، مولانا محمودحسن، مولاناابوالکلام آزاد، مولانا اشرف علی تھانوی، اور علامہ محمداقبال اپنے اپنے انداز میں مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے اسلام کے احیا اور دین حق کی اقامت کی جدوجہد کو مسلمانوں کے اصل اور حقیقی مقصد ِ زندگی کے تصور کے طور پر پیش کیا۔ انھوں نے اقامت ِ دین کے تصور کو مدلل، منطقی اور دعوتی اسلوب میں قرآن و سنت کے محکم دلائل کے ساتھ واضح کیا۔ تجدید و احیاے دین کے سلسلے کی ۱۴ سو سال پر پھیلی ہوئی مسلمانوں کی تابناک تاریخ کے پس منظر میں انھوں نے بتایا کہ اسلام کا اصل مدعا اور مقصود کیا ہے، اور مسلمانوں کی اصل پہچان اور ان کی زندگی کا حقیقی مشن کیا ہے۔
دراصل اسلام نام ہے اللہ کو اپنا رب تسلیم کرنے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا پیغمبر اور انسانوں کا اصل ہادی اور راہبر ماننے، اور اپنی پوری زندگی کو اللہ کی بندگی اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت میں د ے دینے کا۔ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کا اقرار اور اعلان پوری زندگی کے لیے ایک راستہ اور نظام کار طے کرنے کا عہد ہے۔ یہ عہد محض چند الفاظ کے زبان سے ادا کرنے اور چند عبادات کا اہتمام کرنے سے عبارت نہیں ہے۔ عقیدہ اور عبادات وہ دو ستون ہیں جن پر اسلام پوری زندگی کی عمارت تعمیر کرتا ہے۔
مولانا مودودی نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور اسوئہ حسنہ کے اس پہلو کو اُجاگر کیا کہ اسلام عقیدے اور عمل کا ایک حسین امتزاج ہے اور قرآن و سنت کی روشنی میں انسانی زندگی کے لیے ایک مکمل نظامِ زندگی کا نقشہ پیش کرتا ہے، تاکہ انسان، زندگی کے ہر میدان میں طاغوت کی غلامی سے نجات پاسکے اور اپنی انفرادی اور اجتماعی، روحانی، اخلاقی اور مادی زندگی کے ہرپہلو کی تشکیل جدید کے ذریعے، اُسے آخرت میں کامیابی حاصل ہو۔جماعت اسلامی اسی وژن کی حامل ہے اور اس دعوت کو عملی طور پر مسلمانوں کے لیے اور بالآخر پوری انسانیت کے لیے جاری و ساری کرنے کی اجتماعی کوشش کا نام ہے۔ اس کا پیغام اصولی اور آفاقی ہے، البتہ اس کی عملی جدوجہد کا مرکز و محور وہ خطۂ زمین ہے، جہاں اس نظامِ زندگی کو قائم کرکے اُمت مسلمہ اور انسانیت کے لیے ایک نمونہ پیش کیا جاسکتا ہے۔
ان معروضات کی روشنی میں آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ جماعت اسلامی اپنی اصل کے اعتبار سے ایک نظریاتی، فکری اور تہذیبی تحریک ہے۔ یہ محض ایک مذہبی یا سیاسی جماعت نہیں، بلکہ وسیع معنی میں ایک اصولی تحریک (Ideological Movement) ہے اور قرآن و سنت کی فراہم کردہ ہدایت کو زندگی کے ہر شعبے میں عملاً نافذ کرنا چاہتی ہے۔ یہ جماعت کوئی قوم پرست یا محض وطن پرست جماعت بھی نہیں ہے، بلکہ اس کا نظریۂ حیات عالم گیر ہے اور پوری انسانی تہذیب کی تشکیل نو اس کے پیش نظر ہے۔ یہ پوری زندگی کو اللہ کی بندگی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فراہم کردہ ہدایت اور ان کے سکھائے ہوئے منہج کے مطابق استوار کرنا چاہتی ہے۔ صرف مسلمانوں ہی کی اصلاح و نجات اس کے پیش نظر نہیں، بلکہ وہ پوری انسانیت کی فلاح اور اس کی دنیوی اور اُخروی کامیابی چاہتی ہے۔ اس جامع نصب العین کو اس کے دستور میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصود عملاً اقامت ِ دین (حکومت الٰہیہ یا اسلامی نظامِ زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضاے الٰہی اور فلاحِ اُخروی کا حصول ہوگا(دفعہ ۴)۔
اقامت ِ دین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے، بلکہ پورے دین کی اقامت ہے، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے۔ نماز، روزہ اور حج و زکوٰۃ سے ہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیرضروری نہیں ہے۔ پورے کا پورا اسلام ضروری ہے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیے و تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہرمومن کو اسے بطورِ خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اہلِ ایمان کو مل کر اس کے لیے جماعتی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اگرچہ مومن کا اصل مقصدِ زندگی رضاے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں خدا کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے مومن کا عملی نصب العین اقامت ِ دین اور حقیقی نصب العین وہ رضاے الٰہی ہے جو اقامت ِ دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔
زندگی کا یہ تصور اور اس کا یہ مشن جماعت اسلامی کا اصل امتیاز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تنظیم، اس کا اسلوبِ کار، اس کا دائرۂ عمل اور اس کی سرگرمیوں کا پھیلائو محض ایک سیاسی جماعت جیسا نہیں۔ بلاشبہہ جب پاکستان کی پہلی دستور سازاسمبلی نے مارچ ۱۹۴۹ء میں قراردادِمقاصد منظور کی، تو اس کے بعد سے وہ معروف معنی میں ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے کام کررہی ہے۔ لیکن وہ محض ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ اسلام کے مشن کے مطابق ایک ہمہ گیر نظریاتی اور تہذیبی انقلاب کی داعی جماعت ہے۔ یہی اس کی امتیازی حیثیت ہے، یہی اس کی بہت سی خوبیوں اور خصوصیات کی بنیاد ہے اور یہی اس کی متعدد تحدیدات (limitations) کا سبب بھی ہے جسے سمجھنا اور جاننا بہت ضروری ہے۔
جماعت اسلامی کے قیام کے پہلے دن سے ’نظامِ امر‘ کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے لیکن یہ ’نظامِ امر‘ ایک دستور اور اس کے مطابق ضابطہ کار اور روایات سے عبارت ہے، جس کی صورت گری قرآن و سنت کی ہدایات اور تحریکِ اسلامی کی ضروریات اور تجربات کی روشنی میں کی گئی ہے۔
اس نظامِ جماعت میں وفاداری کا اصل مرکز وہ نصب العین ہے، جس کے حصول کے لیے جماعت قائم ہوئی ہے اور اس کے پورے نظام کی تشکیل و تعمیر ایک تحریری دستور کے ذریعے کی گئی ہے، جو خود بلاشبہہ ارتقائی مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ تاہم یہ ہردور میں اور ہرسطح کے لیے نقشۂ کار فراہم کرتا ہے۔ جو صرف تبرک کے لیے نہیں بلکہ معاملات کو طے کرنے میں اصل رہنما اور کارفرما حیثیت رکھتا ہے۔ الحمدللہ جماعت اسلامی اور اس کے تمام ادارے دستور کے مطابق کام کرتے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جو جماعت اسلامی کو دوسری جماعتوں سے ممتاز کرتی ہے۔ جماعت اسلامی میں کسی ایک فرد، گروہ یا خاندان کی بات نہیں چلتی بلکہ سب ایک خاندان کی طرح، ایک دستور کے تحت، اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اجتماعی زندگی میں پالیسی سازی، ڈسپلن، اطاعت، تعاون، ہم آہنگی، مشاورت اور تنقیدو احتساب کا وہ ماحول پیدا کرنے کوشش کی گئی ہے جو اسلام کا منشا اور اچھی حکمرانی (good governance)کی ضرورت ہے۔
جماعت اسلامی کا پورا نظام، اس کے دستور اور ضابطہ کار کے مطابق کام کر رہا ہے اور اس کی اصل پہچان اسلامی اصولوں پر مبنی جمہوری اور شورائی نظام ہے۔ انسانوں کی جماعت ہونے کے ناتے کوتاہیوں اور کمزوریوں سے کوئی پاک نہیں لیکن الحمدللہ، بحیثیت مجموعی اس جماعت میں مشاورت اور احتساب کا ایک مضبوط نظام قائم ہے، جس پر پوری شفافیت کے ساتھ عمل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں شخصی وفاداری، خاندانی سیادت اور گروہ بندی کا کوئی کردار نہیں۔ دستور کے مطابق ایک نظامِ مشاورت و احتساب قائم ہے۔ اس نظام میں جہاں ایک دوسرے کی معاونت اس کا لازمی حصہ ہے، وہیں غلطیوں اور کمزوریوں کی اصلاح بھی ہرشریکِ کار کی ذمہ داری ہے۔
مارچ ۲۰۱۴ء میں جماعت اسلامی میں امارت کا تیرھواں انتخاب دستور کے مطابق ہوا جس میں ارکانِ جماعت نے کثرت راے سے برادرم سراج الحق کو امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب کیا اور ۹؍اپریل ۲۰۱۴ء کو منصورہ میں منعقدہ ایک روح پرور اجتماع میں انھوں نے جماعت اسلامی کے پانچویں امیر۱؎ کی حیثیت سے امارت کا حلف اُٹھا کر اللہ سے وفاداری، دستورِ جماعت کی پاس داری اور نظامِ جماعت کے سامنے جواب دہی کا عہد کیا اور بڑے انکسار کے ساتھ اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے دین کی سربلندی کی اس جدوجہد کے لیے اپنی ساری توانائی کو صرف کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ قدم قدم پر ان کی رہنمائی فرمائے، انھیں اس عظیم ذمہ داری کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کی توفیق سے نوازے، وہ اس تاریخی امانت کے سچے امین ثابت ہوں، تحریک کے قدم آگے بڑھیں اور ان کی قیادت میں اللہ تعالیٰ اس تحریک، اس ملک اور اس ملت کو دنیا اور آخرت کی کامیابیوں سے شادکام فرمائے، آمین! تحریک اسلامی کے تمام ساتھیوں اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کے تمام خیرخواہوں کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔
جماعت اسلامی میں قیادت کے انتخاب کے باب میں ایک منفرد پہلو یہ ہے کہ اس میں امارت ایک عہدہ نہیں بلکہ ایک بڑی گراں بار ذمہ داری ہے۔ امیر کا انتخاب جماعت کے دستور کے مطابق ارکانِ جماعت ہر پانچ سال کے بعد کرتے ہیں۔ یہاں امارت کے لیے کوئی مدعی اور طالب نہیں ہوتا اور نہ کوئی انتخابی مہم ہوتی ہے۔ ایک ضابطے کے مطابق مرکزی شوریٰ تین نام تجویز کرتی ہے وہ بھی صرف رہنمائی کے لیے۔ ارکان ان مجوزہ تین ناموں میں سے کسی ایک کو یا ان کے علاوہ بھی، اپنی نگاہ میں کسی اور اہل تر فرد کو اس ذمہ داری کے لیے ووٹ دے سکتے ہیں۔ باہر کی دنیا کے لیے یہ عمل خواہ کتنا ہی اجنبی ہو، لیکن اسلامی تحریک کے مزاج اور اس کی ضرورت کے لیے اس سے بہتر انتظام مشکل ہے۔ انتخابِ امیر کے اس انتظام اور تحریکِ اسلامی کے مزاج کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ جماعت کی تاسیس کے وقت، اس جماعت کی جو خصوصیات داعیِ تحریک نے بیان کی تھیں، وہ ہرلمحے سامنے رہیں۔ آج شاید ان کا جاننا اور ذہن نشین رکھنا یقینا اس سے بھی کچھ زیادہ ضروری ہے ،جتنا تاسیس جماعت کے وقت تھا۔ اس وقت داعیِ تحریک مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی مرحوم نے فرمایا تھا:
جو لوگ ایک ہی عقیدہ، ایک ہی نصب العین اور ایک ہی مسلک رکھتے ہوں، ان کے لیے ایک جماعت بن جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ان کا ایک جماعت بن جانا بالکل ایک فطری امر ہے.... اب، جب کہ آپ کی جماعتی زندگی کا آغاز ہورہا ہے۔ تنظیم جماعت کی راہ میں کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے آپ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام میں جماعتی زندگی کے قواعد کیا ہیں؟
میں اس سلسلے میں چند اہم باتیں بیان کروں گا:
اسی طرح اپنے رفقاے جماعت کی خیرخواہی کا جو فرض آپ میں سے ہرشخص پر عائد ہوتا ہے، اس کے معنی یہ ہرگز نہیں ہیں کہ آپ اپنی جماعت کے آدمیوں کی بے جا حمایت کریں اور ان کی غلطیوں میں ان کا ساتھ دیں، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ معروف میں ان کے ساتھ تعاون کریں، اور مُنکر میں صرف عدم تعاون ہی پر اکتفا نہ کریں، عملاً ان کی اصلاح کی بھی کوشش کریں۔ ایک مومن دوسرے مومن کے ساتھ سب سے بڑی خیرخواہی جو کرسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ جہاں اس کو راہِ راست سے بھٹکتے ہوئے دیکھے، وہاں اُسے سیدھا راستہ دکھائے، اور جب وہ اپنے نفس پر ظلم کر رہا ہو تو اس کا ہاتھ پکڑلے۔ البتہ آپس کی اصلاح میں یہ ضرور پیش نظر رہنا چاہیے کہ نصیحت میں عیب چینی اور خُردہ گیری [نکتہ چینی ] اور تشدد کا طریقہ نہ ہو، بلکہ دوستانہ دردمندی و اخلاص کا طریقہ ہو۔ جس کی آپ اصلاح کرنا چاہتے ہیں، اس کو آپ کے طرزِعمل سے یہ محسوس ہونا چاہیے کہ اس اخلاقی بیماری سے آپ کا دل دُکھتا ہے، نہ کہ اس کو اپنے سے فروتر دیکھ کر آپ کا نفسِ متکبر لذت لے رہا ہے۔
چنانچہ ۱۹۴۱ء میں جب تاسیس جماعت اور حلف ِرکنیت کے بعد، امیر کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو فطری طور پر نظر انتخاب داعیِ تحریک مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی پر پڑی اور انھیں متفقہ طور پر امیرجماعت منتخب کیا گیا۔ اس وقت تاسیسی ارکان کا خیال یہ تھا کہ امیر کا انتخاب تاحیات ہونا چاہیے، لیکن مولانا مودودی نے اس وقت کسی فقہی بحث میں پڑے بغیر ،ارکانِ جماعت پر واضح کیا کہ وہ امارت کو تاحیات جاری رکھنے کے قائل نہیں اور ارکان کو ہراجتماع کے موقعے پر انتخابِ نو کا موقع دیں گے۔ بعد میں دستورِ جماعت میں امیر کے لیے پانچ سال کی مدت اور فطری طور پر نئے انتخاب کا ضابطہ مقرر کردیا گیا، جس پر آج تک پوری دیانت داری سے عمل ہورہا ہے۔
۲۷؍اگست ۱۹۴۱ء کو امیر کے انتخاب کے بعد، مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے جو تقریر کی، وہ بھی جماعت کے نظامِ امر اور اس کے مزاج کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ الحمدللہ یہ جماعت اس روایت کی سچی امین ہے:
میں آپ کے درمیان نہ سب سے زیادہ علم رکھنے والا تھا، نہ سب سے زیادہ متقی، نہ کسی اور خصوصیت میں مجھے فضیلت حاصل تھی۔ بہرحال، جب آپ نے مجھ پر اعتماد کر کے اس کارِعظیم کا بار میرے اُوپر رکھ دیا ہے، تو مَیں اب اللہ سے دعا کرتا ہوں اور آپ لوگ بھی دعا کریں کہ مجھے اس بار کو سنبھالنے کی قوت عطا فرمائے اور آپ کے اس اعتماد کو مایوسی میں تبدیل نہ ہونے دے۔ مَیں اپنی حد وسع تک انتہائی کوشش کروں گا کہ اس کام کو پوری خدا ترسی اور پورے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ چلائوں۔ میں قصداً اپنے فرض کی انجام دہی میںکوئی کوتاہی نہ کروں گا۔ میں اپنے علم کی حد تک کتاب اللہ و سنت ِ رسولؐ اللہ اور خلفاے راشدینؓ کے نقشِ قدم کی پیروی میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھوں گا۔ تاہم، اگر مجھ سے کوئی لغزش ہو اور آپ میں سے کوئی محسوس کرے کہ مَیں راہِ راست سے ہٹ گیا ہوں، تو مجھ پر یہ بدگمانی نہ کرے کہ مَیں عمداً ایساکر رہا ہوں، بلکہ حُسنِ ظن سے کام لے اور نصیحت سے مجھے سیدھا کرنے کی کوشش کرے۔
آپ کا مجھ پر یہ حق ہے کہ مَیں اپنے آرام و آسایش اور اپنے ذاتی فائدوں پر جماعت کے مفاد اور اس کے کام کی ذمہ داریوں کو ترجیح دوں، جماعت کے نظم کی حفاظت کروں، ارکانِ جماعت کے درمیان عدل اور دیانت کے ساتھ حکم کروں، جماعت کی طرف سے جو امانتیں میرے سپرد ہوں ان کی حفاظت کروں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے دل و دماغ اور جسم کی تمام طاقتوں کو اس مقصد کی خدمت میں صَرف کردوں، جس کے لیے آپ کی جماعت اُٹھی ہے۔
میرا آپ پر یہ حق ہے کہ جب تک مَیں راہِ راست پر چلوں، آپ اس میں میرا ساتھ دیں، میرے حکم کی اطاعت کریں، نیک مشوروں سے اور امکانی امداد و اعانت سے میری تائید کریں اور جماعت کے نظم کو بگاڑنے والے طریقوں سے پرہیز کریں۔ مجھے اس تحریک کی عظمت اور خود اپنے نقائص کا پورا احساس ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ یہ وہ تحریک ہے جس کی قیادت اولوالعزم پیغمبروں ؑ نے کی ہے، اور زمانۂ نبوت گزرجانے کے بعد وہ غیرمعمولی انسان اس کو لے کر اُٹھتے رہے ہیں، جو نسلِ انسانی کے گُل سرسَبد تھے۔ مجھے ایک لمحے کے لیے اپنے بارے میں یہ غلط فہمی نہیں ہوئی کہ مَیں اس عظیم الشان تحریک کی قیادت کا اہل ہوں، بلکہ مَیں تو اس کو ایک بدقسمتی سمجھتا ہوں کہ اس وقت اس کارِعظیم کے لیے آپ کو مجھ سے بہتر کوئی آدمی نہ ملا۔ مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اپنے فرائضِ امارت کی انجام دہی کے ساتھ مَیں برابر تلاش میں رہوں گا کہ کوئی اہل تر آدمی اس کا بار اُٹھانے کے لیے مل جائے اور جب مَیں ایسے آدمی کو پائوںگا تو خود سب سے پہلے اُس کے ہاتھ پر بیعت کروں گا۔ نیز مَیں ہمیشہ ہر اجتماعِ عام کے موقعے پر جماعت سے بھی درخواست کرتا رہوں گا،کہ اگر اب اس نے کوئی مجھ سے بہتر آدمی پالیا ہے تو وہ اُسے اپنا امیر منتخب کرلے، اور مَیں اس منصب سے بخوشی دست بردار ہوجائوں گا۔ بہرحال، مَیں ان شاء اللہ اپنی ذات کو کبھی خدا کے راستے میں سدِّراہ نہ بننے دوں گا، اور کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ دوں گا کہ ایک ناقص آدمی اس جماعت کی رہنمائی کر رہا ہے، اس لیے ہم اس میں داخل نہیں ہوسکتے۔
نہیں، مَیں کہتا ہوں کہ کامل آئے اور یہ مقام جو آپ نے میرے سپرد کیا ہے ہر وقت اس کے لیے خالی ہوسکتا ہے، البتہ مَیں اس کے لیے تیار نہیں ہوں کہ اگر کوئی دوسرا اس کام کو چلانے کے لیے نہ اُٹھے تو مَیں بھی نہ اُٹھوں۔ میرے لیے تو یہ تحریک عین مقصد ِ زندگی ہے۔ میرا مرنا اور جینا اس کے لیے ہے۔ کوئی اس پر چلنے کے لیے تیار ہو یا نہ ہو، بہرحال مجھے تو اسی راہ پر چلنا اور اسی راہ میں جان دینا ہے۔ کوئی آگے نہ بڑھے تو مَیں بڑھوں گا۔ کوئی ساتھ نہ دے گا تو مَیں اکیلا چلوں گا۔ ساری دنیا متحد ہوکر مخالفت کرے گی تو مجھے تن تنہا اُس سے لڑنے میں بھی باک نہیں ہے۔ (رُوداد جماعت اسلامی، اوّل،ص ۲۹-۳۱)
یہی وہ جذبہ اور اسپرٹ ہے جو بعدازاں بھی جماعت کے امرا میں موجود رہی ہے۔ مولانا محترم سے لے کر سیّدمنورحسن تک ہر ایک نے جب یہ محسوس کیا کہ وہ اس عظیم ذمہ داری کے تقاضوں کو پورا کرنے کی طاقت اپنے میں نہیں پارہے تو ازخود ارکان سے ذمہ داری سے فراغت کی درخواست کی، اور اگر اس کے باوجود جماعت نے کوئی ذمہ داری ان پر ڈالی تو وہ ہر قربانی دے کر اسے انجام دینے کے لیے سینہ سپر ہوگئے۔ اس تحریک میں جو جس مقام سے بھی، جو خدمت بھی انجام دے سکے، وہ ایک سعادت اور اعزاز ہے۔ اور ہر ایک کی خواہش، کوشش اور دعا ہوتی ہے کہ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَo (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۰۲) ’’تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو‘‘۔
تحریکوں کی مثال دریا کی سی ہے جس کی بلارکاوٹ روانی کا انحصار نئے پانی کی آمد پر ہے۔ اب جماعت کی تیسری نسل امارت کی ذمہ داری کو سنبھال رہی ہے۔ مولانا محترم اور میاں طفیل محمد صاحب بانی ارکان میں سے تھے۔ محترم قاضی حسین احمد اور برادرم سیّدمنور حسن کا تعلق دوسری نسل سے تھا۔ الحمدللہ، اب قیادت تیسری نسل کی طرف منتقل ہوئی ہے اور ان شاء اللہ یہ سلسلہ اسی خوش اسلوبی کے ساتھ چلتا رہے گا۔ تحریک کی زندگی اور قوت کا راز تسلسل اور تبدیلی میں ہے۔ اگرکسی تحریک میں تبدیلی کے راستے بند ہوجائیں تو وہ جمود کا شکار ہوجاتی ہے اور دریا ’جوے کم آب‘ کا منظر پیش کرتا ہے۔ وہ تبدیلی جو تسلسل سے اپنا رشتہ توڑلیتی ہے، کٹی ہوئی پتنگ بن جانے کے خطرے سے اپنے کو دوچار رکھتی ہے۔ ’بحر بے کراں‘ وہی تحریک ہوتی ہے جس کا امتیاز تسلسل اور تبدیلی دونوں کا امتزاج ہو۔ اور سماں یہ ہو کہ ؎
فصلِ بہار آئی ہے، لے کررُت بھی نئی، شاخیں بھی نئی
سبزہ و گل کے رُخ پر لیکن، رنگ قدامت آج بھی ہے
جماعت اسلامی کے حالیہ انتخابِ امیر کا ایک قابلِ غور پہلو وہ ردعمل بھی ہے جو پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اور سیاسی ، مذہبی اور دانش ور حلقوں کی طرف سے سامنے آیا ہے۔ غالباً پاکستان کی تاریخ میں کسی جماعت کی مرکزی قیادت کے انتخاب پر ایسا بھرپور ردعمل نہیں ہوا اور یہ ملک کے سوچنے سمجھنے والے حلقوں کی جماعت اسلامی میں دل چسپی ہی کا مظہر نہیں، بلکہ کئی حیثیتوں سے ملک کی سیاسی زندگی کے کچھ پہلوئوں پر بڑی روشنی ڈالنے والا عمل ہے اور خود جماعت اور اس کی قیادت کے لیے بھی اس میں غوروفکر کا بڑا سامان ہے۔ اس لیے چند پہلوئوں پر کچھ اشارات کرنا مفید محسوس کرتا ہوں۔
سب سے پہلے مَیں ان تمام افراد کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جنھوں نے اپنے اپنے نقطۂ نظر سے اور اپنے اپنے انداز میں ہمارے انتخابی عمل اور نتائج پر تبصرہ کیا ہے اور جماعت اسلامی، اس کے نظام کار، سیاسی کارکردگی اور مستقبل کے کردار کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ان میں سے ہر تحریر میں ہمارے لیے سوچنے کا کچھ نہ کچھ مواد موجود ہے، اس لیے جماعت بلاتفریق سبھی نقطہ ہاے نظر سے واقفیت اور استفادے کی کوشش کرے گی۔ البتہ اس حقیقت کا اِدراک بھی ضروری ہے کہ مختلف تحریروں اور تجزیوں میں جماعت کا جو امیج پیش کیا گیا ہے، وہ حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ بہرحال ہماری جن کمزوریوں کی نشان دہی کی گئی ہے، ہمیں ان کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے اور جو آرا غلط فہمیوں، معلومات کی کمی اور تعصب اور مخاصمت پر مبنی ہیں، ان کے بارے میں یہ کوشش ہونی چاہیے کہ مذاکرے اور بہتر ربط و ارتباط (dialogue, engagement and communication) کے ذریعے اپنے نقطۂ نظر کی توضیح و تشریح کریں۔
صاف نظر آرہا ہے کہ جماعت اسلامی کے نصب العین، اس کے نظامِ کار، اس کی خدمات، اس کی پالیسیوں اور جو تبدیلیاں پاکستان میں لانا چاہتی ہے، ان سے صحیح معنوں میں واقفیت اور اِدراک کے باب میں بڑی کمی ہے۔ اس کی ذمہ داری بڑی حد تک خود ہم پر بھی آتی ہے کہ ہم اپنی بات قوم اور اس کے بااثرطبقات تک مناسب انداز میں لے جانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود ہم اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ دوست اور مخالف سب اس امر کا اعتراف کررہے ہیں کہ جماعت اسلامی ہی وہ جماعت ہے، جس میں باقاعدگی سے انتخابات منعقد ہوتے ہیں، جس کے ارکان اپنی آزاد مرضی سے اپنی قیادت کو منتخب کرتے ہیں، جس میں شخصی، موروثی یا گروہی قیادت کا کوئی تصور نہیں، جس میں دولت اور سیاسی اثرورسوخ کا کوئی کردار نہیں ہے، جس میں متوسط طبقے کے افراد کو ان کی صلاحیت، دیانت، مقصد ِ تحریک سے وابستگی اور وفاداری اور تحریک اور عوام کی خدمت کی بنیاد پر قیادت کی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔
الحمدللہ، جماعت اسلامی میں خود احتسابی کا عمل بھی زندہ ہے۔ جس میں عہدوں کی بندربانٹ بھی نہیں ہوتی بلکہ عہدے کا تصور ہی بدل گیا ہے___ یہاں قیادت کے لیے باہمی کوئی مقابلہ نہیں ہوتا اور نہ کسی کی ’فتح‘ یا ’شکست‘ کا کوئی تصور پایا جاتا ہے۔ امارت اور قیادت ایک ذمہ داری ہے جسے ارکان اپنے میں سے زیادہ سے زیادہ مناسب فرد کے سپرد بطور امانت کرتے ہیں، جو اسے عبادت کے جذبے سے انجام دیتا ہے۔ جس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ ادایگیِ فرض کے جذبے سے اس بوجھ کو اُٹھاتا ہے، اور جو اس ذمہ داری سے بچ جاتا ہے، وہ ایک حد تک خود کو سبک بار محسوس کرتا ہے لیکن اس کی وفاداری اور سرگرمی کا مرکز و محوریہی دعوت اور تحریک ہی رہتی ہے۔ یہ ایک دوسری ہی نوعیت کا جماعتی کلچر ہے، جس کی حکمت، تاثیر اور لذت سے وہ آشنا نہیں جو اس قافلے کے ہم سفر نہ ہوں۔
جماعت اسلامی کا اصل ہدف فرد، معاشرہ اور ریاست کی سطح پر ان تبدیلیوں کو برپا کرنا ہے جو اسلام کو مطلوب ہیں۔ اس کی کوشش ہے کہ نہ صرف افراد بلکہ پورے معاشرے اور ریاست کو اسلامی اخلاق و آداب کا آئینہ دار بنایا جائے۔ اس کام کو انجام دینے کے لیے زندگی کے ہر شعبے میں ایک ایسی قیادت بروے کار لائی جائے جو اسلام کی صحیح نمایندہ ہو۔ اس کے لیے دعوت و ارشاد، تعلیم و تربیت، ترغیب و ترہیب، معاشی اور سماجی اصلاح، اور قانون اور میڈیا، سب کا استعمال اپنے اپنے دائرے میں ضروری ہے۔
اس تبدیلی کا آغاز انسان کے قلب سے ہوتا ہے۔ اس کے فکروذہن کی اصلاح کے ساتھ اخلاق و آداب کی اصلاح، خاندان اور معاشرتی اداروں کی تشکیلِ نو اور انفرادی اور اجتماعی وسائل کا مؤثر استعمال ضروری ہے۔ اس تاریخی عمل میں فرد اور معاشرے کے ساتھ ریاست کا کردار بھی فیصلہ کن ہے۔ اس لیے جماعت اسلامی ضروری سمجھتی ہے کہ دستورِ پاکستان نے وطن عزیز کو ایک اسلامی، فلاحی اور جمہوری ریاست بنانے کے لیے جو نقشۂ کار دیا ہے، اس پر پوری دیانت اور بہترین صلاحیت کے استعمال سے کام کیا جائے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے، جب اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہو، جو اپنے فکرونظر، اخلاق و کردار اور صلاحیت کار کے اعتبار سے اسلام کے اچھے نمایندے ہوں اور ریاست کے وسائل کو امانت تصور کرتے ہوئے عوام کی خدمت اور پاکستان کی اسلامی خطوط پر تعمیروترقی کے لیے استعمال کریں۔
اسی غرض کے لیے جماعت اسلامی پُرامن، آئینی اور جمہوری طریقوں سے نظامِ حکومت کو بدلنا چاہتی ہے۔ اس کے پیش نظر پاکستان کو ایک ایسی ریاست بنانا ہے:
یہ ہیں جماعت اسلامی کے مقاصد___ جو لوگ اِن مقاصد سے اتفاق رکھتے ہوں، انھیں ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان کے حصول میں ہمارے ساتھ تعاون کریں۔ (منشور جماعت اسلامی)
جماعت اسلامی، ماضی کی طرح آج بھی فرد، معاشرے اور حکومت کی سطح پر ان تمام تبدیلیوں کو رُوبہ عمل لانے کے لیے مصروفِ عمل ہے، جو اسلام کو مطلوب ہیں اور جو ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لیے ناگزیر ہیں۔ ان شاء اللہ، نومنتخب امیر جماعت کی قیادت میں ہمارا سفر روزِاوّل کے سے عزم اور ایمان و ایقان کے ساتھ جاری رہے گا!
دعوتِ اسلامی اورآزمایش کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرنے اور بندوں کو بندوں کی غلامی سے نجات دلانے کی دعوت و تحریک کو کبھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا گیا۔ اقبال نے تاریخ کی گواہی کو کس خوب صورتی سے بیان کیا ہے ؎
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تاامروز
چراغ مصطفویؐ سے شرارِ ُبولہبی
اور اللہ تعالیٰ نے خود بھی اپنی راہ میں جدوجہد کرنے والے بندوں کو آگاہ کردیا تھا، بلکہ بہ الفاظ صحیح تر متنبہ کردیا تھا کہ کامیابی کی منزل کش مکش، آزمایش اور ابتلا کے مراحل سے گزر کر ہی حاصل ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں بار بار خاک و خون کے دریا پار کرنا ہوں گے اور پھر ان شاء اللہ آزمایش کی بھٹی میں سونے کو سہاگا بنانے والے اس عمل سے گزرنے والوں ہی کو غلبہ و کامیابی نصیب ہوگی:
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ o وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ o اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَا ط سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَo (العنکبوت ۲۹:۲-۴) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالاںکہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمایش کرچکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔ اور کیا وہ لوگ جو بُری حرکتیں کر رہے ہیں یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ ہم سے بازی لے جائیں گے؟ بڑا غلط حکم ہے جو وہ لگا رہے ہیں۔
وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ َوالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ط وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ o الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ o اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ قف وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۵-۱۵۷) اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘۔ انھیں خوش خبری دے دو۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اُس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوۃِ ط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۳) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ گویا استقامت اور دعوتِ حق پر قائم رہنا اور شر اور ظلم و زیادتی کا بھی خیر اور صلاح کے ذریعے مقابلہ کرنے میں کامیابی کا راستہ ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
اِِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ o نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ ج وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ o نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ o وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ o وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ o وَمَا یُلَقّٰھَآ اِِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقّٰھَآ اِِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ o (حم السجدہ ۴۱:۳۰-۳۵) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجائو اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہرچیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمھاری ہوگی، یہ ہے سامانِ ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفورورحیم ہے‘‘۔
اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔ اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اُکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔
ان آیاتِ مبارکہ میں ہمارے رب نے ہمیں ان مراحل سے بھی آگاہ کردیا جن سے اہلِ حق کو گزرنا پڑتا ہے، اور ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی اور راہِ عمل کی طرف بھی رہنمائی فرما دی جس کے ذریعے مخالفتوں کا مقابلہ کیا جانا چاہیے۔ جواب میں انتقام اور بدی کے بدلے بدی کا راستہ اختیار کرنے سے منع فرما دیا اور صبرواستقامت اور حق و شرافت کے ہتھیاروں سے غلط فہمیوں کو دُور کرنے اور انسانوں کے دل میں خیر کا جو عنصر ودیعت کیا گیا ہے، اسے بیدار کرکے نیکی کی راہ کو غالب کرنے کی جدوجہد کو اختیار کرنے کی ہدایت کی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ صبرواستقامت کا راستہ عدل و انصاف سے عبارت ہے۔ انتقام اور ظلم و زیادتی اختیار کرنا مقصد کو فوت کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں، اور انسانی زندگی ایک خرابی کے بعد دوسری خرابی کی آماج گاہ بن جاتی ہے۔ اصلاح اورخیر کا راستہ بدی کو نیکی اور بھلائی سے دُور کرنا ہے اور جہاں غلط کار قیادت اور اُولی الامرکے غلط فیصلوں اور اقدام پر مداہنت کا راستہ بند کیا ہے، وہیں اصلاحِ احوال کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے ہی کو اختیار کرنے اور اس پر قائم رہنے کی ہدایت کی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًاo (النساء ۴:۵۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَ اتَّقُوْا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَo (المائدہ ۵:۸) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کو ’اُمت وسط‘ قرار دیا ہے اور اُمت کے افراد کے درمیان بلالحاظ رُتبہ، نسل، اور حیثیت، وحدت اور اخوت کا رشتہ قائم کیا ہے اور ان کے باہمی تعلقات کو رحماء بینھم کے حسنِ تعلق کی شکل میں بیان فرمایا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ:
اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ ___ دین ایک دوسرے کی خیرخواہی کا نام ہے۔
اصحابِ رسول رضوان اللہ اجمعین نے پوچھا: لمن؟ ’’کن سے؟‘‘
آپؐ نے فرمایا:
لِلّٰہِ وَلِرَسُوْلہٖ وَلِکِتَابِہٖ وَلِاٰئِمَّۃِ المُسْلِمِیْنَ وَعَامَّتَِھِمْ
اللہ سے، اللہ کے رسولؐ سے، اللہ کی کتاب سے، مسلمانوں کے اولی الامر سے اور عام مسلمانوں سے۔
نصیحت کا یہی وہ تعلق ہے جس کی بنا پر ہم مسلمان حکمرانوں، خصوصیت سے عرب دنیا کے حکمرانوں کو پوری دل سوزی کے ساتھ دعوت دیتے ہیں کہ مصر میں عالمِ عرب کی سب سے بڑی اسلامی تحریک اخوان المسلمون کے ساتھ اس وقت جو ظلم ہو رہا ہے، نہ اس پر خاموش تماشائی بنیں اور نہ کسی طرح بھی اور کسی شکل میں بھی ظلم کرنے والوں کے لیے تقویت کا ذریعہ بنیں۔ صحیح راستہ اس ظلم کو رُکوانے اور مصر کی حکومت کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کا ہے جس کے لیے ہر صاحب ِ امر اور صاحب ِ خیرکو متحرک ہوناچاہیے۔ اُمت مسلمہ کا اجتماعی ضمیر اس باب میں یکسو ہے کہ جس طرح مصر میں ایک منتخب صدر کو ہٹایا گیا ہے اور پھر جس طرح اخوان المسلمون اور دوسرے تمام جمہوریت پسند عناصر کو نشانۂ ظلم وستم بنایا جارہا ہے وہ حق وا نصاف کا خون ہے اور خود مصر اور عالمِ عرب کے مفاد سے متصادم ہے۔
اسلام اور اسلامی تحریکات کے خلاف جو عالم گیر جنگ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے برپا کی ہوئی ہے اور جس کی فکر ی نکیل اسرائیل اور صہیونی عناصر کے ہاتھ میں ہے، ہمارے حکمرانوں کو اس ناپاک کھیل کو سمجھنا چاہیے اور تصادم کی جگہ افہام و تفہیم کے ذریعے اسلامی اقدار کی پاس داری، ملک کے دستور اور قانون کے احترام اور جمہوری روایات کے فروغ کے راستے کو اختیار کرنا چاہیے۔ اس میں سب کے لیے خیر ہے اور یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر عرب اور مسلمان ملک اپنی آزادی، سلامتی اور اسلامی شناخت کی حفاظت کرسکتے ہیں۔
اخوان المسلمون ایک نظریاتی، اصلاحی اور جمہوری تحریک ہے۔ غلطی سے پاک کوئی انسانی کوشش نہیں ہوسکتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اخوان المسلمون ایک خیر کی دعوت ہے، اور اس نے اپنی ساری جدوجہد اسلامی مقاصد کے حصول کے لیے اخلاقی آداب اور معروف جمہوری روایات کے دائرے میں انجام دی ہے، اور عرب اور مسلم دنیا کے حقیقی مفادات کے تحفظ اور مسئلۂ فلسطین کے منصفانہ حل کے لیے اس کی خدمات نوشتۂ دیوار ہیں۔ مصر میں فوجی حکمران اسے جس طرح نشانہ بنائے ہوئے ہیں، وہ ایک صریح ظلم اور خود مصر، فلسطین اور عالمِ عرب کے حقیقی مفادات پر ضربِ کاری ہے۔ ان حالات میں مظلوم کی مدد تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔
اس پس منظر میں ہمیں اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی حکومتوں کا مصر کی تقلید میں اخوان المسلمون اور حماس کو ’دہشت گرد‘ تنظیمیں قرار دینا نہایت تکلیف دہ اور افسوس ناک ہے۔ الدین نصیحۃ پرعمل کرتے ہوئے ہم پوری دل سوزی سے ان تمام حکمرانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنے رویے پر نظرثانی کریں اور حق و انصاف کے تقاضوں کی پاس داری کرتے ہوئے اس روش کو تبدیل کریں اور خود مصر میں اصلاح احوال کے لیے مثبت کردار ادا کریں، ورنہ اُمت میں مزید انتشار بڑھے گا اور حکمرانوں اور عوام میں خلیج وسیع تر ہوگی، اور خود عرب ممالک میں اختلاف اور تقسیم در تقسیم کی کیفیت پیدا ہوگی، جو اُمت کے مفادات کے خلاف ہے اور جس سے ہمارے دشمنوں کے عزائم کو تقویت ملے گی۔
اخوان المسلمون کوئی خفیہ تنظیم نہیں۔ وہ ۱۹۲۸ء سے دعوت و اصلاح کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ ہزاروں صفحوں پر پھیلا ہوااس کا لٹریچر، اس کی فکر، دعوت، طریق کار اور خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس نے ابتلا اور آزمایش کے اَدوار میں بھی اپنے اصولی، اصلاحی ، اخلاقی اور جمہوری مسلک پر پوری استقامت سے قائم رہ کر عوام کے دلوں میں اَنمٹ مقام بنالیا ہے۔ محض مغربی اقوام کے پروپیگنڈے اور مصر میں جمہوریت کا خون کرنے والے عناصر کے بیانات سے اخوان المسلمون کی ۸۰سالہ جدوجہد کو پادر ہوا نہیں کیا جاسکتا۔ ہم مصر کے حکمرانوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ شخصی اقتدار کی خاطر مصر، فلسطین، عرب دنیا اور مسلم اُمت کے حقیقی مفادات کو قربان نہ کریں، اور تصادم کی جگہ حق و انصاف پر مبنی مفاہمت کی راہ اختیار کرکے تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے کا راستہ اختیار کریں، اور ان عرب ممالک کے ارباب حل و عقد سے بھی اپیل کرتے ہیں جو اخوان کی مخالفت کے ناقابلِ فہم راستے کی طرف بڑھ رہے ہیں اور مسلمان عوام میں اضطراب اور مایوسی میں اضافہ کرنے کا باعث ہورہے ہیں کہ وہ اپنے رویے پر نظرثانی کریں۔
اخوان المسلمون نے چند عرب حکمرانوں کے حالیہ اعلان پر جس ردعمل کا اظہار کیا ہے، وہ بڑا محتاط اور اصلاحِ احوال کے لیے ایک حکیمانہ ردعمل ہے۔ اخوان المسلمون کے اس سرکاری بیان پر ٹھنڈے دل سے اور اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے، جس کی ہم اُمت مسلمہ کے تمام ہی اولی الامر کو خصوصیت سے دعوت دیتے ہیں۔
اخوان المسلمون کے مطابق: ’’سعودی وزارتِ داخلہ کی جانب سے اچانک اخوان کا نام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے پر اخوان المسلمون کو انتہائی حیرت ہوئی ہے۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ فیصلہ اس مملکت کی طرف سے سامنے آیا ہے، جسے عوامی مفادات کے تحفظ، اُمت مسلمہ کی وحدت، معاشرتی اور قومی تعمیروترقی میں مؤثر کردار ادا کرنے اور صحیح اسلامی فکر کی ترویج کے لیے اخوان کی کوششوں کا سب سے زیادہ علم ہے اور جس نے ان مساعی کو ہمیشہ سراہا ہے۔ سعودی عرب اس راستے میں اخوان کو پیش آنے والی تکالیف اور آزمایشوں سے بھی بخوبی آگاہ ہے۔
سعودی عرب میں بھی تمام لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ اخوان ہمیشہ علی الاعلان کہتی رہی ہے کہ جس حق پر وہ ایمان رکھتے ہیں، وہ کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ کی تعلیمات سے ماخوذ طریقۂ کار ہے اور نص صریح اور دلیل واضح پر مبنی ہے۔
جماعت اخوان ہرشہری کی آزاد اور عزت بخش زندگی یقینی بنانے کے لیے سیاسی میدان میں ملک کے تمام شہریوں سے تعاون پر یقین رکھتی ہے۔ سیاسی، دینی یا مذہبی اختلافات کے باوجود مختلف قومی شخصیات و جماعتوں سے اشتراک و اتحاد کرتی ہے اور یہ واضح اعلان کرتی ہے کہ وہ اسلام کے نام پر لوگوں کی نگران یا ٹھیکے دار نہیں بنائی گئی۔ جماعت اخوان اعلیٰ اخروی ہدف رکھتی ہے اور اس کا حصول تمام نظریاتی، معاشرتی، سیاسی اور دینی گروہوں سے گفت و شنید کے ذریعے ہی ممکن سمجھتی ہے۔
اخوان خیرخواہی کی راہ پر چلتے او رملک و قوم کے مفادات کے برعکس کیے جانے والے ہراقدام کی مخالفت جاری رکھتے ہوئے یہ واضح کرتی ہے کہ وہ اپنی سیاسی اور اصلاحی جدوجہد کو کسی بھی ملک میں محض کسی حکمران کی مخالفت کی بنیاد پر شروع نہیں کرتی۔ وہ ہرقسم کے تشدد، ایذارسانی اور انتہاپسندی سے دُور رہتے ہوئے حکمت پر مبنی دعوت اور خیرخواہی پر مبنی نصیحت پر یقین رکھتی ہے‘‘۔
پاکستان کے عوام اُمت مسلمہ کی عظیم اکثریت کی طرح اخوان المسلمون کو مظلوم سمجھتے ہیں اور چند عرب حکمرانوں کے اخوان کو دہشت گرد جماعت قرار دینے پر بے حد مغموم اور مضطرب ہیں۔ تمام اسلام پسند قوتیں تو اس پر دل گرفتہ اور شکوہ سنج ہیں ہی لیکن خود لبرل عناصر بھی اس پر اپنے انداز میں تنقید کررہے ہیں اور عرب حکمرانوں کو اپنے رویے پر نظرثانی کی دعوت دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں روزنامہ ڈان کے ادارتی تبصرے کے چند اقتباس پاکستان کی مجموعی راے عامہ جو ہرطبقے اور مکتب فکر کے دل کی آواز ہے، کو سمجھنے میں ممدومعاون ہوں گے:
سعودی عرب کے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے فیصلے سے قدامت پسند بادشاہت کے اُس وہم کے پیش نظر تعجب نہیں ہونا چاہیے، جو وہ نہ صرف انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے کھڑی ہونے والی تحریکوں بلکہ ان اسلامی گروپوں یا تحریکوں کے بارے میں بھی رکھتی ہے جو جمہوریت پر یقین رکھتی ہیں۔ اخوان المسلمون کا اپنا ایجنڈا ہوسکتا ہے اور اس کے اپنے اہداف اور مقاصد ہوسکتے ہیں جو زمانے کے تقاضے کے مطابق نہ ہوں، لیکن ایک طویل مدت سے حسن البنا کی قائم کردہ یہ جماعت اقتدار حاصل کرنے کے لیے جمہوری عمل پر یقین رکھتی ہے۔
لیکن ریاض نے اخوان کی منتخب حکومت، جس کے سربراہ محمدمرسی تھے، کو برطرف کرنے والے فوجی انقلاب کو خوش آمدید کہا۔ صرف سعودی عرب ہی اس میں تنہا نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں خلیج کی دو اور بادشاہتوں___ امارات اور بحرین___ نے قطر سے اپنے سفیرا واپس بلوا لیے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ قطر مصر میں غلط گھوڑے کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
سیاسی تحریکوں پر پابندیاں لگانے یا عسکریت پسند گروپوں کو پراکسی کے طور پر استعمال کرنے کے مؤثر ہونے کی اُمید نہیں۔ ان کے برعکس نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔ ان حکومتوں کی یہ ضرورت ہے کہ اپنے ممالک اور معاشروں میں وسعت پیدا کریں اور اختلاف راے اور عوام کی مرضی کو جگہ دیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔حقیقت یہ ہے کہ شرقِ اوسط کے علاقے کی مطلق العنان حکومتوں کو اب اپنی داخلی اور علاقائی پالیسیوں پر ازسرِنوغوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ تبدیلی لانے والی عرب بہار کا تقاضا ہے کہ بنیاد پرستوں سے پہلے ہر ایک ازسرِنو غوروفکر کرے۔(روزنامہ ڈان، ۱۰مارچ ۲۰۱۴ء)
یہ جذبات و احساسات صرف پاکستانی مسلمانوں ہی کے نہیں ہیں، درحقیقت پوری دنیا کے مسلم عوام کے ہیں جو بالعموم اور خصوصیت سے دینی قوتیں مصر اور چند عرب ممالک کے اس رویے پر بے حد مایوس ہوئی ہیں اور اسے حق و انصاف کے خلاف اور اُمت مسلمہ کے مفادات سے متصادم سمجھتی ہیں۔ ان ممالک کے حکمرانوں اور اربابِ حل و عقد کو مسلمان عوام کے جذبات کے بارے میں ضروری حساسیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بھارت کے مسلمانوں کے جذبات کا اندازہ نئی دہلی سے شائع ہونے والے Home Slider ___ Indian Muslims کی اس رپورٹ سے ہوسکتا ہے جو ۱۵مارچ کو شائع ہوئی ہے:
اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے پر سعودی حکمرانوں کی مذمت برابر بڑھ رہی ہے۔ دارالعلوم ندوۃ العلما کے بعد نمایاں مسلم علما اور تنظیموں نے سعودی حکومت کو اخوان اور حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے پر سخت لتاڑا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سعودی حکمرانوں نے جو حرمین شریفین کے والی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، پوری دنیا میں مسلمانوں کو اپنے اس غیرمنصفانہ اور خلافِ اسلام فیصلے سے تکلیف پہنچائی ہے۔
جماعت اسلامی ہند، مرکزی جمعیت علما، آل انڈیا دینی مدارس بورڈ اور بہت سی دوسری مسلم تنظیموں نے سعودی عرب کے مصر میں قائم ہونے والی اخوان المسلمون کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے فیصلے پر سخت تنقید کی ہے اور اُمید کی ہے کہ سعودی بادشاہت فوری طور پر فیصلے پر نظرثانی کرے گی۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا جلال الدین عمری نے کہا کہ اخوان المسلمون نے جس تحریک کا آغاز کیا ہے وہ اسلامی اصولوں پر مبنی ہے۔ اس لیے اس پر پابندی یقینا پوری مسلم دنیا کو تکلیف دے گی۔ انھوں نے کہا کہ اخوان المسلمون ایک بین الاقوامی اصلاحی اور سماجی تنظیم ہے، اور حماس وہ تنظیم ہے جو شرق اوسط میں صہیونی ریاست کا بے خوفی سے مقابلہ کررہی ہے۔
ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا عیسٰی منصوری، فتویٰ موبائل سروس کے مفتی محمدارشد فاروقی، مدارس بورڈ کے سربراہ مولانا یعقوب بلندشہری اور جمعیت کے سیکرٹری مولانا فیروز اختر قاسمی نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ سعودی حکمرانوں نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دے کر ایک بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ انھوں نے شاہ عبداللہ اور سعودی عرب کے سرکردہ علما سے اپیل کی ہے کہ اخوان کے بارے میں اس فیصلے کو واپس لیں۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ ساری دنیا کے مسلمان سعودی عرب کے اس اقدام کی مذمت کریں گے اور مزاحمت کریں گے۔ انھوں نے اُمید ظاہر کی کہ سعودی علما سعودی حکمرانوں کو قائل کریں گے کہ وہ اس فیصلے کو واپس لیں۔ سعودی علما کا یہ فرض ہے کہ اپنے حکمرانوں پر اس حوالے سے دبائو ڈالیں، اس لیے کہ تمام مسلمان اس اقدام پر مشتعل ہیں۔
انھوں نے توجہ دلائی کہ مسلمان سعودی عرب کا بہت احترام کرتے ہیں، اس لیے کہ یہاں اسلام کے مقدس مقامات موجود ہیں، جب کہ اس ملک کے مطلق العنان حکمرانوں کے لیے جو مغربی طاقتوں کے آلۂ کار ہیں، ان کے پاس کوئی محبت نہیں ہے۔ اس سے قبل دارالعلوم ندوۃ، لکھنؤ کا تاریخی ادارہ سعودی وفد کی آمد پر اس کی تحقیر کرکے اس ضمن میں سبقت لے گیا۔
اسلام اور اُمت مسلمہ کے دشمنوں اور مخالفین کی کوشش ہے کہ مسلمانوں میں انتشار اور تصادم بڑھے اور مسلمان اپنی تمام قوتوں کو یک جا کرکے اصل مخالفین کا مقابلہ کرنے کے بجاے ایک دوسرے کا گریبان چاک کرنے اور اندرونی خلفشار اور جنگ و جدال میں اُلجھ کر اپنی قوت کو پارہ پارہ کرلیں۔ ہنری کسنجر نے تو ۱۹۶۰ء کی دہائی میں کہا تھا کہ: ’’مشرق وسطیٰ کو قابو میں رکھنے اور اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے شرق اوسط کو فرقہ واریت اور لسانی اور نسلی گروہ بندیوں کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کیا جائے‘‘۔
چار سال پہلے تیونس سے عوامی انقلاب اور عرب دنیا کی بیداری کی جو نئی لہر اُبھری تھی، اس نے مغربی دنیا میں خطرے کی گھنٹیاں بجادیں۔ ترکی اور عرب دنیا میں جو قربت ترکی میں طیب اردگان کی قیادت کی کوششوں سے رُونما ہورہی تھی، اس نے اسرائیل اور امریکاو یورپ کے حکمرانوں کی نیندیں حرام کردیں۔ عراق اور افغانستان میں امریکی افواج کی ناکامی نے اس علاقے کے بارے میں جو امریکا اور یورپ کے عزائم تھے، ان کو خاک میں ملا دیا ۔ ان حالات میں ایک بار پھر مسلمان اور عرب ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے اور عوام کو شیعہ اور سُنّی، ترک اور کرد، عرب اور عجم، بنیاد پرست اور لبرل، مسلمان اور قبطی کی تقسیم اور ان کے درمیان تصادم کی راہ پر ڈالنے کی سرتوڑ کوششیں ہورہی ہیں۔
ان حالات میں عوام اور حکمران سب کے لیے ضروری ہے کہ مخالفین کے کھیل کو سمجھیں اور اپنی صفوں میں انتشار اور خلفشار کو راہ نہ پانے دیں۔ ذاتی، گروہی اور دوسری عصبیتوں اور مفادات کی سطح سے بلند ہوں اور ایک دوسرے کو کھلے دل سے تسلیم کر کے مشترکات کی بنیاد پر تعاون کی راہیں استوار کریں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اسلام اور اُمت مسلمہ کے مفاد کی بنیاد پر نئی سوچ اختیار کی جائے اور مفاہمت اور تعاون کے ذریعے ایک دوسرے کی تقویت کا ذریعہ بنا جائے۔ ہم پوری دل سوزی سے مصر کے حکمرانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اخوان المسلمون اور دوسری اسلامی اور جمہوری قوتوں کو نشانہ بنانے کے بجاے انھیں اتحادِ اسلامی اور تعمیرنو کی جدوجہد میں اعوان و انصار کا درجہ دیا جائے۔ اس کے نتیجے میں ان شاء اللہ سب کے لیے خیر اور استحکام کا حصول ممکن ہوگا، جو اُمت کی تقویت کا باعث ہوگا۔ اور اس طرح مسلمان اپنے گھر کی اصلاح کے ساتھ انسانیت کی تعمیرنو میں ایک اہم کردار ادا کرسکیں گے۔