آج پاکستانی قوم ایک ایسی صورت حال سے دوچار ہے، جو اگرچہ الم ناک ہے، لیکن اپنے جلو میں ایک تاریخی موقعے کی حامل بھی ہے۔ پاکستان محض ایک ملک اور ایک خطۂ زمین کا نام نہیں___ یہ ایک تصور، ایک نظریہ، ایک آدرش ، ایک منزل اور ایک واضح وژن سے عبارت ہے جس کی شناخت اس کا اسلامی، جمہوری اور فلاحی کردار ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے اور اسلام ہی میں اس کی بقا اور ترقی کا راز مضمر ہے۔ اسلام اور پاکستان ایک تصویر کے دو پہلو اور ایک سکّے کے دو رُخ ہیں۔ تحریکِ پاکستان کی بنیاد نظریاتی قومیت کے تصورپر تھی اور علاقے کا حصول اس لیے تھا کہ اس نظریے کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے برملا کہا تھا کہ قیامِ پاکستان کی جدوجہد کا آغاز اس وقت ہوگیا تھا جب ہند میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا اور علامہ اقبال نے برعظیم پاک و ہند میں مسلمانوں کی ایک آزاد ریاست کی ضرورت کا جو اعلان ۱۹۳۰ء کے الٰہ آباد کے خطبۂ صدارت میں کیا تھا، اس میں اس مطالبے کے برحق ہونے کے لیے جو دلیل دی تھی وہ بڑی واضح تھی کہ اسلام کو بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے۔
تحریکِ پاکستان کے اس مقصد کو قائداعظم نے قیامِ پاکستان سے قبل جدوجہد کے دوران کم از کم ۱۰۰ بار اور قیامِ پاکستان کے بعد ۱۴بار صاف الفاظ میں بیان کیا اور اس طرح پاکستان کی اساس اور نظریے کی حیثیت ایک معاہدئہ عمرانی (social contract) کی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان اور اسلام لازم و ملزوم ہوجاتے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو بالآخر دستور کی زبان میں قرارداد مقاصد کی شکل میں پہلے ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو دستور ساز اسمبلی کی قرارداد میں سامنے آئی، اور پھر پاکستان کے ہردستور کا حصہ بنی۔ اس وقت یہ دستور کے دیباچے کے علاوہ اس کے operational (تنفیذی) حصے میں بھی شامل ہے (دفعہ ۲-الف)۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے اپنے ۱۹۷۳ء کے ایک فیصلے میں اس تاریخی اور دستوری حقیقت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:
پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے اور اس کا نظریہ ۱۹۴۹ء کی قرارداد مقاصد میں درج ہے، جسے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے منظور کیا ہے… مملکت پاکستان اسلامی نظریے کی بنیاد پر وجود میں لائی گئی تھی اور اسی نظریے کی بنیاد پر چلائی جائے گی۔ (پی ایل پی ۱۹۷۳ء، ص ۴۹ اور ص ۷۲-۷۳)
پاکستان کے اسلامی جمہوریہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے ہوئے قانون اور رہنمائی کو زندگی کے بالاتر قانون کی حیثیت حاصل ہوگی۔ قانون سازی اور پالیسی سازی دونوں میں رہنمائی کا اولیں سرچشمہ قرآن و سنت ہوں گے۔ مسلمانوں کو قرآن و سنت کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل و تعمیر میں ریاست ہرممکن کردارادا کرے گی۔
اس کے ساتھ ہی یہ اصول بھی اسلام ہی کا طے کردہ ہے کہ نظامِ حکومت کو چلانے اور قیادت کو منصب ِ قیادت پر لانے اور ہٹانے کا اختیار ملک کے عوام کو حاصل ہوگا اور ریاست کا سارا نظام اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ (ان کے معاملات باہم مشورے سے طے پاتے ہیں) کے قرآنی اصول کے مطابق انجام دیا جائے گا۔ تمام انسانوں کے بنیادی حقوق محترم اور مقدس ہوں گے اور اربابِ اختیار اللہ اور عوام دونوں کے سامنے جواب دہ ہوں گے، نیز ریاست کا کام انسانوں کے حقوق کی حفاظت کے ساتھ ان کو ان تمام سہولتوں کی فراہمی بھی ہوگا جن کے نتیجے میں وہ عزت اور سہولت کے ساتھ زندگی گزار سکیں، زندگی کے ہرشعبے میں انصاف قائم کیا جائے اور معاشرے میں ایثار، قربانی اور احسان کا دوردورہ ہو۔ یہ وہ لائحہ عمل ہے جس کے نتیجے میں ایک حقیقی جمہوری اور فلاحی معاشرہ اور ریاست وجود میں آئے گی۔ اس ریاست میں انسانی حقوق کے باب میں تمام انسان بلالحاظ مذہب، مسلک، زبان، نسل، خون، قبیلہ برابر ہوں گے اور ہرشخص اپنی انفرادی اور خاندانی زندگی استوار کرنے میں آزاد ہوگا اور اسے اجتماعی زندگی میں بھی قانون کے دائرے میں اپنا کردار ادا کرنے کے پورے مواقع ہوں گے۔ اسلام میں نہ شخصی آمریت کی گنجایش ہے اور نہ کسی بھی نوعیت کی پاپائیت کی۔ پاکستان کے لیے اصل ماڈل اور نمونہ صرف مدینہ منورہ کی وہ اسلامی ریاست اور معاشرہ ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں قائم ہوا اور ۱۴۰۰سال سے مسلمانوں کے لیے روشنی کا مینار اور اجتماعی زندگی کے لیے نمونہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
پاکستان کے اس تصور کی روشنی میں جب ماضی کے ۶۶ برسوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ الم ناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ قیامِ پاکستان کے چند سال کے بعد ہی ایک مفادپرست ٹولے نے اقتدار کو اپنی گرفت میں لے لیا اور اس میں سیاست دانوں کے ساتھ بیوروکریسی، فوجی جرنیل اعلیٰ سطح کی عدلیہ کے بعض عناصر، سرمایہ دار، وڈیرے اور جاگیردار سب ہی شریک تھے۔ ان سب نے مل کر ملک کی آزادی، نظریاتی تشخص اور تہذیبی شناخت سب کو پامال کیا، ملک کے وسائل کو ذاتی اور گروہی مقاصد کے لیے بے دردی سے استعمال کیا، کرپشن اور بدعنوانی کا بازار گرم کیا اور عوام کے لیے زندگی کو تلخ سے تلخ تر بنادیا۔ اعلیٰ ترین سیاسی دروبست میں پہلے بیوروکریسی اور پھر فوجی قیادت کی دراندازیوں نے جمہوریت، دستور اور قانون پر مبنی حکمرانی کے انتظام کو درہم برہم کردیا۔ دستورشکنی کو عدالتوں نے تحفظ فراہم کیا اور انتخابات کے نظام کو اس طرح اپنے مقاصد کے لیے استعمال ( manipulate) کیا گیا کہ عوام کی حکمرانی کا خواب چکناچور ہوگیا۔ ناانصافیوں کا دوردورہ ہوا اور حقوق کی پامالی اس مقام پر پہنچ گئی کہ دشمنوں کی مداخلت سے ملک کا ایک حصہ بدن سے جدا ہوگیا، جو بچا ہے وہ بھی لہولہان ہے۔
گذشتہ ۱۴برس ہماری تاریخ کے سیاہ ترین سال ہیں۔ پہلے نو سال ایک فوجی طالع آزما حکمراں رہا اور اسے ارباب سیاست، کارپردازانِ معیشت، سول اور فوجی انتظامیہ سب ہی میں سے مددگار میسر آگئے۔ بیرونی ممالک نے بھی اسے ہر طرح کی سرپرستی سے نوازا۔ ۲۰۰۸ء میں حالات نے کروٹ لی لیکن بدقسمتی سے پھر این آر او کے سایے میں وجود میں آنے والی حکومت نے نہ صرف وہی تباہ کن پالیسیاں جاری رکھیں بلکہ ان میں کچھ اور بھی رنگ بھرا جو فوجی حکمران کے دور میں امریکا کے اشارے پر ملک پر مسلط کی گئی تھیں۔ اس پر مستزاد، ان کے دور کی بُری حکمرانی (bad governance) ہے جس کے نتیجے میں کرپشن اور بدعنوانی میں ہوش ربا اضافہ، عوامی مسائل کو نظرانداز کرنا، توانائی کے بحران سے غفلت، تعلیم اور صحت کے باب میں مجرمانہ عدم توجہی کی لعنتوں کا اضافہ کردیا۔ ان پانچ سال میں ملک کو جو نقصان پہنچا ہے اور عوام جن مصائب سے دوچار ہوئے ہیں وہ پچھلے ۶۰برسوں سے بھی زیادہ ہیں۔ یہ دور ایسی حکومت کے اقتدار کا تھا جس میں حکمرانی ہی کا فقدان تھا۔ اس دور کی ناکامیوں اور غلط کاریوں کی فہرست بڑی طویل ہے لیکن اگر اہم ترین چیزوں کی نشان دہی کی جائے تو ان میں سرفہرست مندرجہ ذیل ہیں:
پاکستان اور اہلِ پاکستان کی اولیں قیمتی متاع ان کی آزادی اور خودمختاری ہے جو بڑی جدوجہد اور قربانی کے بعد حاصل کی گئی ہے۔ ایوب خان کے دور ہی میں اس آزادی پر امریکا، مغربی اقوام اور عالمی اداروں کا منحوس سایہ پڑنا شروع ہو گیا تھا اور آہستہ آہستہ آزادی اور خودمختاری میں کمی آرہی تھی۔ ہمارے قومی معاملات میں بیرونی مداخلت بڑھ رہی تھی اور ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں، خاص طور پر معاشی پالیسیاں، ملک اور قوم کے مفاد سے کہیں زیادہ بیرونی قوتوں کے مفاد میں بننے لگی تھیں مگر کمانڈو صدر جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں محکومی اور امریکا کی غلامی کا جو دور شروع ہوا ہے، وہ سب سے زیادہ تباہ کن تھا اور بعد کے دور میں بھی وہ کم ہونے میں نہیں آرہا۔ ملک کی آزادی، عزت و وقار اور سالمیت پر تابڑ توڑ حملوں کے باوجود حکمرانوں کی روش میں عملاً کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے بلکہ انھوں نے بہ رضاورغبت یا بہ جبر و اِکراہ اپنے کاندھے بیرونی قوتوں کے استعمال کے لیے فراہم کر دیے ہیں۔ اب قوم کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اپنی آزادی اور خودمختاری کو کس طرح دوبارہ حاصل کریں۔
۲۰۰۱ء میں نائن الیون کے بعد کولن پاول نے صدر جارج بش کی طرف سے جو دھمکی ’’ہمارے ساتھ ہو یا دہشت گردوں کے حامی ہو؟‘‘ کی شکل میں دی تھی اور جس پر مشرف صاحب چاروں شانے چت ہوگئے تھے، وہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ غلامی اور محکومی کی یہ کیفیت ہرغیور پاکستانی محسوس کرتا ہے اور بچشم سر دیکھ رہا ہے لیکن صرف ریکارڈ کی خاطر مشرف اور زرداری اور اس کے ساتھیوں کے اس مجرمانہ کردارکو ذہن میں تازہ کرنے کے لیے چند شواہد امریکا کے کارفرما عناصر کی زبان میں پیش کرنا مفید ہوگا تاکہ ۱۱مئی کے موقعے پر سابقہ قیادت کا اصل چہرہ سامنے رہے:
نیویارک ٹائمز کا نام وَر نمایندہ ڈیوڈ سانگر اپنی کتاب Confront and Conceal میں امریکی حکم اور پاکستانی قیادت کی نیازمندی کی یوں منظرکشی کرتا ہے:
جب امریکا نے افغانستان پر حملے کی تیاری کی تو اس نے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ طالبان اور القاعدہ کا ساتھ دینے یا واشنگٹن کا ساتھ دینے کے درمیان انتخاب کرے۔ پاکستان کے فوجی سربراہ پرویز مشرف کی کنپٹی پر بندوق تھی اور اس نے صرف وہی انتخاب کیا جو وہ کرسکتا تھا اور ملک افغانستان پر حملے کرنے کے لیے پلیٹ فارم بن گیا۔ (ص۱۲۹)
امریکا کی خارجہ سیکرٹری کونڈولیزا رائس نے اپنی سوانح عمری No Higher Honour میں بھی صاف لفظوں میں امریکا اور پاکستان کے حاکم اور محکوم والے تعلقات کو ستمبر۲۰۰۶ء میں مشرف اور بش کی ملاقات کے ذیل میں بیان کیا ہے۔ مشرف صاحب فاٹا میں امن کے معاہدوں کے باب میں امریکا کی اجازت چاہتے تھے مگر صدرِ امریکا نے ٹکاسا جواب دے دیا:
لیکن صدر نے اوول آفس کی میٹنگ میں ان پر یہ واضح کردیا کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہوا کہ ہماری سرحدات کو کوئی خطرہ ہے، نیز اس صورت میں بھی کہ ہمیں یہ معلوم ہوا کہ القاعدہ کے کلیدی رہنما ئوں کو وہاں پناہ دی گئی ہے،امریکا خود اقدام کرے گا۔ مشرف کو دوٹوک انداز میں (point blank) بتا دیا گیا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اقدام کسی کی اجازت کے بغیر اور ممکنہ طور پر اسلام آباد کے علم میں بھی لائے بغیر، ہمارا خصوصی استحقاق ہے۔
یہ ہے امریکا سے ہمارے تعلقاتِ غلامی کی اصل حقیقت۔ ۱۱مئی کو عوام کو یہ طے کرنا ہے کہ آیا وہ اپنی آزادی کی بازیافت کے بارے میں سنجیدہ ہیں اور کیا وہ وقت نہیں آگیا کہ یک سُو ہوکر ایسے لوگوں سے نجات پائیں جو اس ذلت کے ذمہ دار ہیں اور جو ایک بار پھر دھوکا دینے کے لیے میدان میں آگئے ہیں۔
امریکا کی غلامی اور اس کی بالادستی کے یوں تو دسیوں پہلو ہیں لیکن اس وقت ان میں سب سے اہم: ڈرون حملوں کا تسلسل ہے۔ یہ حملے پاکستان کی کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری پر حملہ اور ہمارے خلاف ایک طرح کا اعلانِ جنگ ہیں۔ امریکا نے پہلے کچھ پردہ رکھا مگر اب ایک سال سے اس نے کھل کر اعتراف کرلیا ہے کہ وہ حملے کر رہا ہے اور کرتا رہے گا___ تم جو چاہے کرلو۔ آج خود امریکا میں اور عالمی سطح پر ڈرون حملوں کے خلاف مؤثر آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ امریکا کے قانون دان امریکی قیادت کو چیلنج کر رہے ہیں کہ کانگریس کی واضح اجازت کے بغیر صدر یہ حملے نہیں کرسکتا۔ انھیں ٹارگٹ کِلنگ بھی قرار دیا جارہا ہے جو بین الاقوامی قانون اور امریکی قانون دونوں میں ممنوع ہیں۔ پھر یہ اعتراض بھی ہو رہا ہے___ اور صدرامریکا کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں___ کہ سی آئی اے جو ایک سول اور سراغ رسانی کا ادارہ ہے، اسے اس جنگی اقدام کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے کے اعتبار سے نقصان دہ ہونے (counter productive) کا بھی اعتراف کیا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رُوداد پیش کار (rapporteur) نے بھی انھیں اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
لیکن امریکا نے اپنی جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کوئی مؤثر کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں، بلکہ پرویز مشرف نے تو اب سی این این کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ اس نے ڈرون حملوں کی اجازت دی تھی۔ اس سے پہلے ایک انٹرویو میں اس وقت کے پرویز مشرف کے وزیرخارجہ اور آج کے تحریکِ انصاف کے ایک قائد جناب خورشید قصوری نے بھی اعتراف کیا ہے کہ حکومت وقت نے ان حملوں کی اجازت دی تھی۔ نیز شمسی ایئربیس کوئی خفیہ چیز نہیں تھی جس کو امریکا دھڑلے سے ان حملوں کے لیے استعمال کررہا تھا اور فوجی قیادت اور وزارتِ دفاع صرف غضِ بصر ہی نہیں کیے ہوئے تھی بلکہ پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کے سامنے خود پاکستان کی سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے پر لاعلمی کا اظہار کررہی تھی! جو کردار مشرف اور اس کی ٹیم کا تھا وہی زرداری، گیلانی اور کیانی کا ہے جن کے بارے میں امریکا کے سرکاری ذرائع کے بیانات کی روشنی میں لکھی جانے والی کتابوں اور مضامین میں کھلے الفاظ میں کہا جارہا ہے کہ سب کچھ ان کی مرضی سے ہورہا ہے۔
اب یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ امریکی تحقیقی اداروں کے مطابق ڈرون حملوں سے مارے جانے والوں میں سے صرف ۳ فی صد کے بارے میں یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ان کا تعلق القاعدہ یا دہشت پسندوں سے تھا اور تقریباً ۹۷ فی صد یقینی طور پر سویلین مرد، بچے اور عورتیں ہیں۔ خود پاکستان کے سینیٹ کی ڈیفنس کی کمیٹی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مرنے اور زخمی ہونے والوں کی عظیم اکثریت سویلین ہے۔ اس سب کے باوجود ڈرون حملوں کا مقابلہ کرنے اور امریکا کو انھیں روکنے اور کم از کم راہداری کی تمام سہولتوں کو ختم کرنے اور ہرممکن ذریعے سے ان کو ناکام بنانے کے واضح اعلان کا دُور دُور پتا نہیں۔ ۱۱مئی کو یہ طے ہوجانا چاھیے کہ مستقبل کی قیادت وہ ہوگی جو ان شاء اللّٰہ ڈرون حملوں کو رکوانے کے لیے کوئی کمزوری نہیں دکھائے گی اور سفارت کاری اور عسکری دفاع کا ہر طریقہ اس کو روکنے کے لیے استعمال کرے گی۔
جس طرح آزادی، حاکمیت اور خودمختاری کا تحفظ جسمانی وجود کی حفاظت ہے، اسی طرح پاکستان کی شناخت، اسلام اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی حفاظت اور ترقی روحانی وجود کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ پرویز مشرف اور زرداری، گیلانی، پرویز اشرف اور ان کے حلیفوں کے دور میں پاکستان کی اسلامی اساس کو کمزور اور اس کی شناخت کو تحلیل اور مجروح کیا گیا ہے۔ اسلام اب ہماری قانون سازی اور پالیسی سازی کے لیے مرکزی حوالے (point of reference) کی حیثیت سے باقی نہیں رہا ہے۔ تعلیم میں جو تھوڑا بہت اسلام اور اسلامی تاریخی روایات اور ادب کا حصہ تھا، اسے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کم یا ختم کیا جارہا ہے۔ میڈیا پر اسلام اور اسلامی اقدار کے خلاف ایک جنگ برپا ہے اور جو اسلام اور اسلامی اقدار کے تحفظ کی بات کریں، ان پر ’غیرت بریگیڈ‘ کی پھبتی کَسی جارہی ہے۔ دستور کی دفعہ ۶۲ اور ۶۳ کو استہزا کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور صادق اور امین جیسے مقدس الفاظ تک کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔ مغرب سے اسلام کے خلاف جو یلغار ہے، اور جہاد اور شریعت کو جس طرح ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے، یہاں بھی اعتدال پسندی اور لبرلزم کے نام پر اسی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور ’چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘ کی بزدلانہ اور منافقانہ روش کو عام کیا جا رہا ہے۔ معترضین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسلام، اس کے اصولوں اور تعلیمات کے دفاع کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ اگر ایک طرف قوم کو سیاسی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا جا رہا ہے تو دوسری طرف نظریاتی، تہذیبی اور اخلاقی غلامی کے طوق اس کی گردن میں ڈالنے کی کوشش ہورہی ہے اور حکمران طبقہ اور اشرافیہ اس میں عالمی استعماری قوتوں کے کارندوں کا کردار ادا کر رہا ہے۔ حالانکہ پاکستانی عوام امریکا سے بے زار، اس کی اسلام دشمن اور مسلم کش پالیسیوں پر آتش زیرپا اور اپنے دین اور اپنی اقدار کے تحفظ کے لیے جان کی بازی لگادینے کے لیے تیار ہیں۔ الحمدللہ، عوام اور اہلِ اقتدار میں سے بھی باضمیر افراد پاکستان کے اسلامی تشخص پر دل و جان سے یقین رکھتے ہیں اور حسب موقع اس کا اظہار بھی ہوتا ہے لیکن برسرِاقتدار طبقے کا عمومی رویہ وہی ہے جس کا ذکر ہم نے اُوپر کیا ہے۔ ۱۱مئی کو عوام کو اس بات کا بھی فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ایک ایسی قیادت کو برسرِکار لائیں جو دین کے بارے میں مخلص اور یک سو ہو اور جو معذرت خواہانہ رویے کی جگہ پورے اعتماد سے اپنے دین اور اپنی اقدار کا تحفظ کرنے کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہو۔
تیسرا اہم ترین مسئلہ ملک میں امن و امان کی ناگفتہ بہ حالت اور دہشت گردی کے دوردورے کا ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ‘ نہ ہماری جنگ تھی، نہ ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔ ہم اس دلدل میں اپنوں کی ہمالیہ سے بلند غلطیوں کی وجہ سے پھنس گئے ہیں اور جان، مال، آبرو اور آزادی ہر ایک کی پامالی کی شکل میں بیش بہا قیمت اداکررہے ہیں۔ ۵۰ہزار سے زیادہ افراد جان کی بازی ہارچکے ہیں۔ اس سے دوگنے زخمی ہوگئے ہیں،۲لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوچکے ہیں۔ معاشی اعتبار سے ۱۰۰؍ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان اُٹھا چکے ہیں اور پورے ملک میں جرائم اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ صرف کراچی میں گذشتہ چار سال میں ۷ ہزار سے زیادہ افراد قتل کیے جاچکے ہیں اور قاتل حکمران جماعتوں کی پناہ میں ہیں اور دندناتے پھر رہے ہیں۔
ملک کی فوج ملک کے دفاع کی جگہ خود اپنوں کے خلاف صف آرا ہے اور قوم اور فوج میں اعتماد اور محبت کا جو رشتہ ہے، وہ مجروح ہورہا ہے۔ اس سب کے باوجود امریکا کے عتاب کا بھی ہم ہی نشانہ ہیں اور ہمیں بے وفائی کے طعنے بھی سنائے جارہے ہیں۔ پارلیمنٹ نے تین بار متفقہ قراردادوں کے ذریعے فیصلہ دیا ہے کہ مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور ایک آزاد خارجہ پالیسی کے تحت مذاکرات، ترقی اور سدِّجارحیت (deterrence) کے سہ نکاتی فارمولے ہی کے ذریعے معاملات کو حل کیا جاسکتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ۱۱مئی کو قوم دوٹوک الفاظ میں ان کو رد کردے جو امریکا کی دہشت گردی کی اس جنگ میں قوم کو جھونکنے کے ذمہ دار ہیں، اور قیادت ان کو سونپیں جو جنگ سے نکلنے اور علاقے کو امریکا کی گرفت سے نکال کر علاقے کے تمام ممالک کے تعاون سے مسئلے کا حل نکالنا چاہتے ہوں۔
چوتھا بنیادی مسئلہ معاش کا ہے۔ یہ پانچ سال معاشی اعتبار سے تباہ کن رہے ہیں ۔وہ ملک جو ماضی میں چھے اور سات فی صد سالانہ کی رفتار سے معاشی ترقی کی منزلیں طے کر رہا تھا، آج معاشی جمود، کسادبازاری، افراطِ زر، بے روزگاری اور غربت کے گرداب میں گرفتار ہوگیا ہے۔ گذشتہ برسوں میں مجموعی قومی پیداوار (GDP ) کی سالانہ نمو کی رفتار ۶۰سالہ تاریخ میں سب سے کم اوسطاً ۳ فی صد کے لگ بھگ ہے، حالانکہ ۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۷ء تک اوسط ترقی کی رفتار پانچ اور ۶فی صد سالانہ کے درمیان رہی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلسل پانچ برس تک ۳ فی صد یا اس سے بھی کم رفتارِ ترقی کا چکر ہماری تاریخ میں کبھی نہیں رہا۔ان پانچ برسوں میں افراطِ زر ۱۰ اور ۱۲فی صد کے درمیان رہا جو خود ایک ریکارڈ ہے۔ اشیاے خوردنی کی قیمتوں میں ان پانچ برسوں میں تقریباً ۱۰۰ فی صد اضافہ ہوا ہے، یعنی تقریباً ۲۰ فی صد سالانہ۔ غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کی شاہ خرچیوں پر کوئی لگام دینے والا نہیں۔ کرپشن کا یہ عالم رہا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان پانچ برسوں میں مجموعی کرپشن کا اندازہ ۸۰۰۰؍ارب روپے سے زیادہ کا ہے۔ تجارت میں خسارہ، بجٹ میں خسارہ اور سرکاری تحویل میں چلنے والے اداروں کا خسارہ ملکی معیشت پر تازیانہ بن کر گرتے رہے ہیں۔ عوام تڑپ رہے ہیں اور کوئی سننے والا نہیں۔ پاکستان میں ۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۷ء تک جتنے قرضے حکومت نے لیے تھے وہ ۶ٹریلین روپے کے قریب تھے جو ان پانچ برسوں میں دگنے سے بڑھ کر ۱۲ اور ۱۳ٹریلین روپے کے درمیان ہیں اور ہر روز بڑھ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ ۲۰۱۳ء جو اسی مہینے شائع ہوئی ہے اس کی رُو سے پاکستان میں ترقی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارا شمار کم ترقی کرنے والے ملکوں کے زمرے میں ہوتا ہے اور دنیا کے ۱۸۶ممالک میں ہمارا نمبر ۱۴۶ ہے۔ شدید اور انتہائی غربت میں ہمارا مقام نیپال، بنگلہ دیش اور بھوٹان سے بھی خراب اور نیچے ہے، یعنی آبادی کا ۴ء۲۷ فی صد شدید غربت کا شکار ہے۔ عمومی غربت کو اگر دو ڈالر فی کس یومیہ کی آمدنی کی بنیاد پر شمار کیا جائے تو آبادی کا ۷۰ فی صد اس عذاب میں مبتلا ہے۔ ایک طرف معیشت کا یہ حال ہے اور دوسری طرف حکمرانوں کی شاہ خرچیوں اور بدعنوانیوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شرم و حیا کا کوئی وجود ہمارے معاشرے میں باقی نہیں رہا ہے۔
صدر اور وزیراعظم کے سرکاری محلوں کا خرچہ ایک سے دو لاکھ روپے یومیہ ہے۔ معاشی پالیسی سازی کے باب میں مجرمانہ رویے کی ایک مثال یہ ہے کہ پانچ سال میں پانچ بار وزیرخزانہ تبدیل ہوئے ہیں، چھے بار وزارتِ خزانہ کے سیکرٹری بدلے گئے ہیں اور چار باراسٹیٹ بنک کے گورنر کو تبدیل کیا گیا ہے۔ ستم یہ ہے کہ گذشتہ چار برسوں میں صرف ایس آر او کے ذریعے اپنے چہیتوں کو ٹیکس سے رعایت کی مد میں ۷۱۹؍ ارب روپے کی چھوٹ دے کر خزانے کو اس رقم سے محروم کیا گیا ہے، اور دوسری طرف سرکاری انتظام میں چلنے والے اداروں کو جن میں اپنی پسند کے ہزاروں افراد کو سیاسی بنیاد وں پر کھپایا گیا ہے اور جن کی قیادت اپنے من پسند کرپٹ اور نااہل افراد کو سونپی گئی ہے خسارے کے جہنم میں جھونک دیا گیا ہے۔ صرف ان پانچ سال میں سرکاری خزانے نے ان اداروں کو جو رقم مدد کے نام پر دی ہے وہ ۸ء۱ ٹریلین روپے ہے، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
ملک کو درپیش مسائل اور مصائب تو اور بھی ہیں لیکن ہم نے صرف اہم ترین چار مسائل کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ ان کا تعلق ملک کی آزادی، شناخت اور عوام کی زندگی کے سب سے اہم پہلو، یعنی امن و امان اور بنیادی معاشی ضروریات اور خوش حالی سے ہے۔ ان اور تمام دوسرے مسائل کی بڑی وجہ اربابِ اختیار اور زندگی کی ہرسطح پر خصوصیت سے مرکز اور صوبوں میں قیادت کی غفلت، نااہلی، وژن کی کمی، مفادپرستی اور بدعنوانی اور مؤثر احتساب کے نظام کے فقدان پر ہے۔ ملک کی آزادی اور خودمختاری کے باب میں غفلت اور بے وفائی، اسلام اور اس کے تقاضوں سے بے اعتنائی، عوام کے مفاد اور ضروریات سے لاپروائی اور اپنی ذات یا گروہ اور جماعت کے مفادات کی اندھی پرستش ہی بگاڑ کی اصل وجہ ہے۔ قیادت کی تبدیلی، اہل اور دیانت دار افراد کا ذمہ داری کے مناصب کے لیے انتخاب اور تقرر، اداروں کے درمیان تعاون اور باہمی احترام کا رشتہ، دستور اور قانون کی بالادستی، ہر حالات میں مکمل انصاف کا اہتمام اور ہرسطح پر جواب دہی کا مؤثر اور شفاف نظام ہی پاکستان کے استحکام اور ترقی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ان ۱۴برسوں کا اصل المیہ ہی یہ ہے کہ ان میں مسلسل تنزل کے باعث پاکستان میں آج پاکستان کا اصل تصور اور مقصد ہی نایاب ہوگیا ہے اور شاید یہ کہنا بھی غلط نہ ہو کہ آج سیاسی نقشے پر تو پاکستان موجود ہے مگر وہ تصور اور وہ وژن، جس سے پاکستان عبارت ہے، گم ہوگیا ہے۔ اب ملک کی بقا اور تعمیرنو کا انحصار تصورِپاکستان کی بازیافت پر منحصر ہے اور یہ عوام کی بیداری اور انتخاب کے موقع پر ان کے فیصلہ کن کردار ہی سے ممکن ہے۔ ۱۱مئی قوم کو ایک تاریخی موقع فراہم کررہی ہے کہ وہ اس اصل تصور اور وژن کو ایک بار پھر غالب وژن بنانے کے لیے ایک ایسی قیادت کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور دے جو اس ملک کی گاڑی کو اس کی اصل پٹڑی پر لے آئے اور اصل مقصد کی روشنی اور اس حقیقی وژن کے مطابق جو قیامِ پاکستان کا محرک تھا اس کی تعمیرنو کی خدمت انجام دے سکے۔
حال ہی میں برٹش کونسل نے نوجوانوں کے جذبات، احساسات اور خیالات کا ایک سروے کیا ہے جس میں ملک کے عوام اور خصوصیت سے نوجوان نسل کی مایوسیوں اور اُمیدوں کا عکس دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک نوجوان نے ملک و قوم کی موجودہ کیفیت کی عکاسی بڑے دردبھرے الفاظ میں کچھ اس طرح کی ہے کہ ’’آزادی سے پہلے ہم ایک قوم تھے اور ایک ملک کی تلاش میں تھے لیکن آج ایک ملک ہے مگر قوم مفقود ہے‘‘۔ اسلام ہی نے کل ہمیں ایک قوم بنایا تھا اور اسلام سے غفلت اور بے وفائی نے قوم کو خود اپنے شعور اور وحدت سے محروم کردیا ہے۔ اسلام ہی کو مضبوطی سے تھامنے سے ہم ایک توانا قوم بن کر ایک توانا پاکستان کی تعمیر کی منزل طے کرسکتے ہیں۔
برٹش کونسل کے اس سروے سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ملک کی بالغ آبادی کے ۸۷فی صد کی نگاہ میں ملک جس سمت میں جا رہا ہے، وہ غلط ہے لیکن نوجوانوں میں یہ احساس اور بھی زیادہ ہے، یعنی ۹۴ فی صد۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے ان نوجوانوں کا اعتماد اپنے ملک اور اس کے مستقبل پر غیرمتزلزل ہے اور وہ اس کی تعمیروترقی کا عزم رکھتے ہیں۔ ان کی عظیم اکثریت، یعنی ۶۷فی صد مرد اور ۷۵ فی صد خواتین اپنے کو روایت پسند (conservatives) کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور سروے کے مرتبین یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ : Conservatives seem dwarfing the number of moderates and liberals. (روایت پسند اعتدال پسندوں اور آزاد رووں (لبرل) پر تعداد میں چھائے ہوئے نظر آتے ہیں)۔
نوجوانوں میں سے ایک بڑی تعداد، یعنی ۳۸ فی صد یہ کہتی ہے کہ ملک کے لیے بہترین راستہ نظامِ شریعت کا نفاذ ہے اور ۲۹ فی صد جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔ رپورٹ کے الفاظ میں:
اسلامی شریعت کو اس وجہ سے پسند کیا جا رہا ہے کہ یہ اخلاقی اور مذہبی اقدار کو آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ شریعت کو عوام کے ان کے حقوق، آزادی، رواداری اور برداشت کے فروغ اور ملک کو ایک بہتر سرزمین بنانے کے لیے بہترین نظام بھی سمجھا جاتا ہے۔ (ص ۴۴۴)
نوجوان اس ملک میں کیسی قیادت دیکھنا چاہتے ہیں؟ اس کے جواب میں ان کا نقطۂ نظر بہت واضح ہے:
جب پوچھا گیا کہ وہ سب سے زیادہ اہم صفات کیا ہیں جو آپ اپنے لیڈر میں دیکھنا چاہتے ہیں تو (جواب دیا گیا کہ) وہ دیانت داری اور کرپشن سے پاک ہونا ہے۔ اس کے بعد پاکستان کو تبدیل کرنے کے لیے مضبوط خیالات۔ دوسرے الفاظ میں عملیت پسندی کافی نہیں ہے۔ نوجوان ووٹر اخلاقیات، شفافیت اور رواداری کے بارے میں سننا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ کسی ایسے کی تلاش میں ہوں جو انھیں اُمید دے سکے۔
اس رپورٹ میں جن کو روایت پسند کہا گیا ہے ان کی سوچ اور عزائم کا اظہار رپورٹ میں کچھ اس طرح ہوتا ہے:
ان کی ایک امتیازی شناخت ہے جو انھی کی نسل کا خاصّا ہے۔ وہ اُمید کرتے ہیں کہ پاکستان کو بہتر بنائیں گے۔ ایسا ملک جہاں کے ۹۸ فی صد لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے خواب کے مطابق زندگی گزاریں۔
حالات کتنے بھی خراب اور تشویش ناک ہوں، امید اور تبدیلی کا عزم رکھنے والے عوام اور نوجوان ہی ہمارا اصل سرمایہ ہیں۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ ؎
طولِ شبِ فراق سے گھبرا نہ اے جگر
ایسی بھی کوئی شب ہے کہ جس کی سحر نہ ہو
۱۱مئی ہمیں اس سحر سے قریب لاسکتی ہے اگر ہم سب اس دن اپنی ذمہ داری خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ ادا کریں۔
جماعت اسلامی پاکستان ملک کے تمام صوبوں سے مرکزی اور صوبائی، دونوں اسمبلیوں کے لیے انتخاب میں شرکت کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی محض ایک سیاسی جماعت ہی نہیں، ایک نظریاتی تحریک ہے جو دین حق کی بنیاد پر زندگی کے تمام شعبوں کی دورِ جدید کے حالات، مسائل اور وسائل کی روشنی میں تشکیل نو کرنے کی جدوجہد ۱۹۴۱ء سے کر رہی ہے۔ اس نے فکری تشکیل نو، کردار سازی اور تعمیراخلاق، تعلیم و تربیت، سماجی خدمت، نوجوانوں اور طلبہ میں اسلامی احیا کی تنظیم، جدوجہد، مزدوروں، کسانوں، وکیلوں، سائنس دانوں، تجار، غرض زندگی کے ہر میدان میں بے لوث خدمت کی اعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں۔ اس نے انتخابات کے ذریعے سیاسی تبدیلی کے لیے بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ۱۹۶۲ء کی اسمبلی میں اس کے صرف چار ارکان تھے مگر الحمدللہ ان کی مساعی سے جنرل ایوب خان نے دستور سے قرارداد مقاصد کو خارج کرنے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان سے ’اسلامی‘ کا لفظ نکالنے کی جو جسارت کی تھی، وہ دوسال کے اندر اسے واپس لینی پڑیں اور دستور کی اسلامی دفعات بحال ہوئیں۔
۱۹۷۱ء کی اسمبلی میں ڈاکٹر نذیر احمد کی شہادت کے بعد جماعت اسلامی کے صرف تین ارکان تھے لیکن دوسری دینی جماعتوں کے تعاون سے پروفیسر عبدالغفوراحمد، مولانا مفتی محمود اور مولانا شاہ احمد نورانی کی مساعی کا نتیجہ تھا کہ ۱۹۷۳ء کے متفقہ دستور میں اسلام کو مرکزی حیثیت رہی۔ ۲۰۱۰ء کی اٹھارھویں دستوری ترمیم کے موقعے پر جماعت اسلامی کے سینیٹ میں صرف تین ارکان تھے لیکن جماعت اور جمعیت علماے اسلام کی مساعی سے اٹھارھویں ترمیم میں دستور کی تمام اسلامی دفعات کو نہ صرف مکمل تحفظ ملا بلکہ بہت سی کمزوریوں کو دُور کیا گیا، خصوصیت سے وفاقی شرعی عدالت کے نظام میں جو سقم تھے اور جس کی وجہ سے اس کی آزادی اور کارکردگی بُری طرح متاثر ہورہی تھی، ان کو دُور کرکے اس کے لیے اعلیٰ عدالت کو وہ تمام تحفظات فراہم کیے گئے جو عدالت کی آزادی کے لیے ضروری ہیں۔
پلڈاٹ (PILDAT) جو ایک آزاد ادارہ ہے، اس کی رپورٹیں گواہ ہیں کہ خواہ ۲۰۰۲ء کی قومی اسمبلی ہو یا ۲۰۰۳ء سے ۲۰۱۲ء تک کی سینیٹ، ہرجگہ جماعت کے ارکان نے پارلیمنٹ کی کارروائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ان کی کارکردگی سب سے نمایاں رہی۔ سینیٹ کی ۲۰۱۲ء کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہرہرلحاظ سے ___ یعنی تقاریر میں سب سے زیادہ وقت، سب سے زیادہ سوالات، سب سے زیادہ قراردادیں، سب سے زیادہ نکتہ ہاے اعتراض___ گویا ہر معیار سے جماعت اسلامی کے ارکان کی کارکردگی سب سے اعلیٰ تھی۔
اسی طرح جب اور جس حد تک جماعت اسلامی کے نمایندوں کو لوکل باڈیز یا صوبہ خیبرپختونخوا میں ساڑھے چار سال خدمت کا موقع ملا، جماعت کی کارکردگی نمایاں رہی اور کرپشن کے ہرداغ سے پاک رہی۔ جماعت کے کارکن بھی انسان ہیں اور وہ ہرگز خطا سے پاک نہیں، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور صرف تحدیث نعمت کے طور پر یہ بات کہی جارہی ہے کہ جماعت کے تمام کارکنوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری دیانت، پوری محنت اور اپنے دامن کو ہر بدعنوانی اور ذاتی منفعت سے بچاکر انجام دیں۔ اس کا اعتراف دوست اور دشمن سب نے کیا ہے۔ جماعت اسلامی کوئی مسلکی جماعت نہیں، اس نے ہرتعصب سے بلند ہوکر اسلام اور پاکستان کی خدمت انجام دی ہے اور سب کو ساتھ لے کر چلی ہے۔ ۱۹۷۰ء سے اب تک مختلف اَدوار میں جماعت اسلامی کے مرد اور خواتین ممبران سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلی کی تعداد ۱۸۶ رہی ہے ،لیکن الحمدللہ ان میں سے ہرایک نے مقدور بھر خدمت کا ایک ایسا معیار قائم کیا جو اپنی مثال آپ ہے۔
کراچی میں جناب عبدالستار افغانی (۱۹۷۹ء-۱۹۸۳ء) اور جناب نعمت اللہ خان (۲۰۰۱ء-۲۰۰۴ء) نے علی الترتیب کراچی کے میئر اور سٹی ناظم کے فرائض انجام دیے اور دیانت اور خدمت کا بہترین ریکارڈ قائم کیا۔ افغانی صاحب نے جب میئر کی ذمہ داری سنبھالی تو بلدیہ کراچی ۱۰کروڑ کی مقروض تھی اور جب ۱۹۸۳ء میں بلدیہ تحلیل کی گئی ہے اور ان کو فارغ کیا گیا، اس وقت ۱۵کروڑ کے اضافی فنڈ موجود تھے۔ ان کے دور میں بلدیہ کا بجٹ ۵۰ کروڑ سالانہ سے بڑھ کر ایک ارب ۷۰کروڑ تک پہنچ گیا تھا، نیز اس دور میں بیسیوں تعمیراتی منصوبے ہرشعبۂ زندگی میں شروع کیے گئے۔اسی طرح جب جناب نعمت اللہ خان صاحب نے ناظم کراچی کی ذمہ داری سنبھالی تو سٹی نظم کا بجٹ ۶؍ارب روپے تھا اور چار سال کے بعد جب وہ فارغ ہوئے تو یہ بجٹ ۴۲؍ارب روپے سے زائد تھا۔ دونوں اَدوار میں جو پراجیکٹس شروع ہوئے، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔شہر کے انفراسٹرکچر میں غیرمعمولی ترقی ان اَدوار میں واقع ہوئی جسے ہرشخص نے بچشم سر دیکھا۔ اور سب سے بڑھ کر دونوں نے جس سادگی اور پروٹوکول کے بغیر اپنی ذمہ داریاں ادا کیں، وہ نفسانفسی کے اس دور میں تابناک مثالوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ افغانی صاحب ہوں یا نعمت اللہ صاحب، دونوں نے سرکاری مکان اور مراعات سے اپنا دامن بچایا۔ افغانی صاحب اپنے ۶۰گز کے فلیٹ ہی میں رہتے رہے اور نعمت اللہ خان نے سرکاری بنگلہ لینے سے انکار کر دیا۔ تنخواہ میں ملنے والی رقم ۴۰لاکھ روپے بھی الخدمت کے اکائونٹ میں جمع کرا دیے۔
ہم نے یہ چند باتیں صرف تحدیث نعمت کے طور پر عرض کی ہیں تاکہ قوم کے سامنے یہ بات آجائے کہ آج بھی اس قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اعلیٰ صلاحیت کے ساتھ دیانت اور خدمت کے جذبے سے معمور ہیں۔ انھیں قوم نے جب بھی جو ذمہ داری دی، اسے انھوں نے وقت اور صلاحیت کے بہترین استعمال سے انجام دیا اور دیانت اور امانت کی روشن مثال قائم کی۔
ہم قوم سے صرف یہ اپیل کرتے ہیں کہ ۱۱مئی کے تاریخی موقعے پر اپنی ذمہ داری اللّٰہ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ انجام دیں۔ووٹ کے لیے لازماً گھر سے نکلیں اور دوسروں کو بھی ووٹ ڈالنے کی ترغیب دیں۔ ووٹ ایک امانت ہے اور اس امانت کو امانت دار افراد کے سپرد کریں۔ جمہوریت کی کامیابی کا انحصار صرف اس امر پر ہے کہ اپنے ووٹ کا ٹھیک ٹھیک استعمال کریں اور ایسی قیادت کو بروے کار لائیں جو دیانت اور صلاحیت، دونوں معیارات پر پوری اُترتی ہو۔ اگر اسمبلیوں میں اچھی قیادت کی اکثریت ہو تو ملک کی قسمت چند برسوں میں بدل سکتی ہے۔ اگر ایسے لوگوں کی اکثریت نہ بھی ہو مگر وہ ایک معقول تعداد میں موجود ہوں تو وہ حالات کو متاثر کرنے میں ایک بڑا اور مؤثر کردار ضرور ادا کرسکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کے تعاون کے بغیر کوئی پایدار حکومت بن ہی نہ سکے، اور اگر ایسا نہ ہو جب بھی ایک جان دار، مؤثر اور اصول پرست اپوزیشن کی حیثیت سے وہ ملک کی پالیسیوں کو متاثر کرسکتے ہیں، احتساب کی خدمت انجام دے سکتے ہیں، عوام کی آواز کو اقتدار کے ایوانوں میں اُٹھا سکتے ہیں اور کم از کم بگاڑ کی قوتوں پر گرفت اور بگاڑ کی رفتار کو بریک لگاسکتے ہیں۔
۱۱مئی فیصلے کا دن ہے۔ اگر آپ نے صحیح فیصلہ کیا تو آپ ملک کی قسمت کو تبدیل کرسکتے ہیں اور اگر آپ نے اپنی ذمہ داری ہی ادا نہ کی تو پھر آپ نتائج کی ذمہ داری سے کیسے مبرا ہوسکتے ہیں۔ آیئے! اپنے آپ سے اور اپنے اللّٰہ سے عہد کریں کہ ۱۱مئی کو ہم پاکستان کے لیے ایسے لوگوں کو منتخب کریں گے جو اس کی آزادی، خودمختاری، حاکمیت، اسلامی شناخت اور فلاحی کردار کے حقیقی محافظ ہوسکیں، اور جو اپنی ذات کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ ملک کی خدمت کے لیے اپنے جان اور مال کی بازی لگانے والے ہوں۔ اگر ہم اپنے اس عہد کو ٹھیک ٹھیک پورا کرتے ہیں تو پھر اُس پاکستان کی بازیافت اِن شاء اللّٰہ ہوکر رہے گی جس کے لیے قیامِ پاکستان کی تحریک برپا کی گئی تھی اور جس پر اس ملک کے مستقبل کا انحصار ہے۔
کتابچہ دستیاب ہے، قیمت: ۱۰ روپے۔ سیکڑے پر رعایت۔ منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون:۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲
اکیسویں صدی میں تحریکاتِ اسلامی کو درپیش مسائل، خطرات اور امکانات کا جائزہ لیا جائے تو سرفہرست جو چیز نظر آتی ہے، وہ سیاسی تبدیلی کے ذریعے نفاذِ عدل ہے۔ اسلام اپنی تمام تعلیمات میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی حاکمیت ِاعلیٰ اور معاشرے میں عدل کے قیام کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ وہ انسانوں کے اپنے اعمال کے ذریعے پھیلائے ہوئے فساد کو اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت و اصلاح کی تعلیمات اور ان کے اُس عملی نمونے کے ذریعے (جو انبیاے کرام علیہم السلام اور خصوصاً خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے رہتی دنیا تک کے لیے پیش فرمایا) دُور کر کے اس فساد کو معاشرتی توازن، عدل، امن اور رحمت سے بدلنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے تمام انبیاے کرام ؑکی دعوت اور جدوجہد کا بنیادی نکتہ ہر طرح کے طاغوتوں کی بندگی سے نکل کر صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا اقرار اور زمین پر اس کا قیام تھا۔
اسی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو چار مختلف مقامات پر قرآن کریم انبیاے کرام ؑکے مقصد اور مشن کو انتہائی جامع الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴)درحقیقت اہلِ ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اُٹھایا جو اُس کی آیات انھیں سناتا ہے، اُن کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور اُن کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔
اور پھر صاف الفاظ میں یہ بھی واضح کردیا کہ تلاوتِ کتاب، تزکیۂ نفس، تعلیم، کتاب اور تعلیم حکمت کی اس ہمہ گیر جدوجہد کے نتیجے میں جو تبدیلی انسانی معاشرے میں رُونما ہوئی وہ قیام عدل و انصاف ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (الحدید ۵۷:۲۵) ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایت کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
اگر غور کیا جائے تو اس آیت مبارکہ میں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اور کارِنبوت کا مشن بیان کیا گیا ،ہے وہیں انسانوں اور معاشرے میں تبدیلی کے عمل کی بنیادیں بھی سامنے رکھ دی گئی ہیں۔ تبدیلی کے اس عمل کی بنیاد اللہ کی کتاب اور اس کی دی ہوئی ہدایت پر ہے اور اس کا عملی راستہ تزکیہ ہے، خواہ تزکیۂ فرد ہو یا تزکیۂ معاشرہ، تزکیۂ مال ہو یا تزکیۂ قیادت۔ فرد اور معاشرے کی صحیح نشوونما اور ارتقا کے لیے اگر کوئی صحیح حکمت عملی ہوسکتی ہے تو وہ صرف اللہ کی کتاب ہے۔ صرف اسی کتاب کی تعلیم کے ذریعے زندگی میں فکری اور عملی انقلاب ممکن ہے۔
قوت کے استعمال سے یہ تو ممکن ہے کہ بظاہر ایک وقتی تبدیلی آجائے لیکن چہروں کے بدلنے سے کوئی بنیادی فرق واقع نہیں ہوسکتا۔ اصل تبدیلی کے لیے اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی آیات کی صحیح تلاوت، ان کا صحیح فہم اور ان کی صحیح تطبیق کے ذریعے تبدیلیِ کردار وعمل سے ہی لائی جاسکتی ہے۔ ظاہر ہے انسان کے اندرون کی تبدیلی اس کی فکر کے زاویے کا درست کرنا، اس کے طرزِحیات کو بدلنا، اس کے معاش کو حلال کا تابع بنانا، اس کی سیاسی فکر کو ذاتی مفاد، نفسا نفسی اور قوت کے نشے سے نکال کر قیامِ عدل، اجتماعی فلاح اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصولوں کے تابع کرنا ہے جو ایک حادثاتی کام نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے مناسب تیاری، مناسب آبیاری، مناسب محنت اور مناسب وقت درکار ہوگا۔
تبدیلیِ قیادت کا تعلق محض برسرِ اقتدار افراد کی معزولی اور ان کی جگہ بس متبادل افراد کے تقرر سے نہیں ہے۔ قیادت کی تبدیلی اور اچھے افراد کو ذمہ داری کے ساتھ مناصب پر لانا ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ نظام کی تبدیلی اور نظام کی بنیادوں کی تبدیلی بھی ضروری ہے۔ ایک دیمک لگے ہوئے درخت کی ٹہنیوںمیں تازہ پھل باندھ کر لٹکا دینے سے درخت کی بیماری ختم نہیں ہوسکتی اور نہ اس میں تازہ پھل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ایسے ہی ایک غیرعادلانہ نظام کو چلانے والے ظالموں کی جگہ دوسرے افراد کے آجانے سے اس وقت تک اصلاح نہیں ہوسکتی جب تک افراد خود صالح اور باصلاحیت نہ ہوں اور نظام میں مناسب تبدیلیاں بھی کی جائیں۔
تحریکاتِ اسلامی کو عموماً ایک پیچیدہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ کیا تبدیلیِ نظام کے لیے وقتی طور پر مروجہ نظام میں شمولیت اختیار کی جائے یا پہلے نظام کو تبدیل کیا جائے، اور پھر نظام کی تبدیلی کے بعد اس میں شمولیت اختیار کی جائے؟ اس سوال کو ذہن میں اُٹھاتے وقت عموماً یہ بات محو ہوجاتی ہے کہ کیا نظام خود بخود اپنے آپ کو درست کرلے گا اور پھر دست بستہ تحریک سے عرض کرے گا کہ تشریف لاکر کرسیِ قیادت سنبھال لے۔ دوسری ممکنہ صورت یہی ہوسکتی ہے کہ پہلے نظام کو تہس نہس کیا جائے۔ اس کے بعد نیا نظام قائم کیا جائے۔ تاریخ اُمم کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اگر کوئی صحت مندتبدیلی آئی ہے تو اس میں ایک سے زیادہ مصالح اور حکمتوں کا دخل رہا ہے، تنہا ایک بے لچک حکمت عملی نے آج تک کوئی دیرپا تبدیلی پیدا نہیں کی۔
انبیاے کرام ؑ کی دعوت کا نقطۂ آغاز تمام خدائوں کا رد اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا اعلان ہی رہا ہے:
یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ o مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَo (یوسف۱۲:۳۹-۴۰) اے زندان کے ساتھیو! تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے آباواجداد نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اُس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی [دین] ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیںہیں۔
اسی حقیقت کو کلمہ طیبہ میں ہرمسلمان ادا کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے اور آخری رسول ہیں۔ جہاں کہیں بھی نظامِ ظلم پایا جاتا ہے، وہ ان دو صداقتوں سے انحراف کی بنا پر وجود میں آتا ہے۔ اگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حاکمیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم کرلیا جائے تو طرزِ زندگی، طریق خشیت، نظامِ سیاست و قانون، غرض زندگی کے ذاتی معاملات ہوں یا معاشرے کے مختلف پہلو، سب اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے ماتحت ہوجاتے ہیں۔ اسی کا نام نفاذِ شریعت اور قیامِ نظامِ اسلامی ہے۔
نفاذِ شریعت اور اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں بعض مواقع پر ایسا نظر آتا ہے کہ اسلامی جماعت یا تحریک اسلامی سمجھوتے (compromise) کر رہی ہے اور بظاہر اپنے مقصد سے انحراف کر رہی ہے۔ ایمان کا تقاضا یہ معلوم ہوتا ہے کہ حق و باطل کی کش مکش میں پہلے مرحلے ہی میں باطل کو مکمل طور پر بے دخل کرکے حق کو قائم کردیا جائے، جب کہ انسانی معاشرے میں تبدیلی عموماً ایک لمبے عمل کے بعد ہی آتی ہے، اور بعض اوقات طویل عرصے کی جدوجہد اور ہمہ تن توجہ کے باوجود مطلوبہ نتائج دُور دُور نظر نہیں آتے ، جس کا یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ تحریک ناکام ہوگئی۔ قرآن کریم اپنے ماننے والوں پر سعی اور کوشش کی ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ نتائج کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اختیار میں دے دیتا ہے، تاکہ مایوسی، اور نااُمیدی کو دلوں سے نکالتے ہوئے تحریکی کارکن نتائج سے بے پروا ہوکر اپنے کام میں پوری قوت کے ساتھ لگے رہیں۔
تحریکاتِ اسلامی کو عموماً ایسے مواقع کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب بظاہر ایک کارکن کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ تحریک اپنے اصل مقصد سے انحراف کر رہی ہے، حالاں کہ قیادت مکمل طور پر یقین رکھتی ہے کہ وہ صحیح سمت میں جارہی ہے۔ ایسے تمام حالات میں حکمت ِدین کا تقاضا ہے کہ قرآن و سنت کی طرف رجوع کرتے ہوئے دیکھا جائے کہ کیا واقعی اہداف میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے، یا اصل اہداف کے حصول کے لیے حالات کی روشنی میں ایک تدریجی طریقہ اختیار کیا گیا ہے؟
تمام تحریکاتِ اسلامی کا مقصد وجود اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے یہ تحریکات قرآن و سنت رسولؐ سے اخذ کردہ اصول و کلیات کی روشنی میں اپنی حکمت ِعملی وضع کرتی ہیں اور ترجیحات کا تعین کرتی ہیں۔ مسلم دنیا کے تناظر میں خصوصاً مصر اور ترکی میں جو تبدیلی کی لہر آئی ہے وہ تجزیہ و تحلیل کے لیے اہم مواد فراہم کرتی ہے۔ مصر میں اخوان المسلمون کی دعوت کا بنیادی نکتہ شریعت پر مبنی نظام کا قیام ہے۔ لیکن مصر کے سیاسی، عسکری اور معاشی حالات کے پیش نظر خصوصاً ایک بااثر عیسائی قبطی اقلیت کی موجودگی میں جو تعلیم، تجارت اور سیاست ہر میدان میں اپنا ایک مقام رکھتی ہے اور بالخصوص مصر کی امریکا سے ۳۰سالہ گہری وابستگی، اسرائیل کے ساتھ مفاہمت اور فوج کے براہِ راست سیاسی امور میں دخیل رہنے کی روایت کے پیش نظر، کیا تحریکِ اسلامی کے لیے مناسب راستہ یہ تھا کہ وہ باطل، کفر اور ظلم کی روایت کو بیک قلم منسوخ کر کے شریعت پر مبنی نظام کا اعلان کردے یا ایک بتدریج عمل کے ذریعے حالات کے رُخ کو تبدیل کرے؟ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ موجودہ قیادت کے بار بار یہ کہنے کے باوجود کہ وہ امریکا سے ٹکرائو نہیں چاہتی، حتیٰ کہ اسرائیل کے ساتھ بھی سیاسی مذاکرات سے دیرپا حل چاہتی ہے، مصر کے لادینی عناصر اور بیرونی قوتیں (بشمول بعض مسلم ممالک) پوری قوت سے موجودہ حکومت کو کمزور اور ناکام بنانے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔ ایسے حالات میں تحریکی ترجیحات کیا ہوں گی؟ کیا تحریک کا بیک وقت دس محاذ کھول کر اپنی تمام قوت کا رُخ اُدھر کر دینا حکمت کی بات ہوگی یا حالات کا جائزہ لینے کے بعد اور اولیات کا تعین کرنے کے بعد آگے چلنا قرآن و سنت سے زیادہ قریب ہوگا؟
قرآن کریم نے جابجا مثالیں بیان کر کے ہمیں ان اُمور پر غور کرنے کی دعوت دی ہے تاکہ ان سے حاصل کردہ علم کے ذریعے، نئے پیش آنے والے حالات کا مقابلہ کرنے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے حصول کی جدوجہد کو آگے بڑھانے میں مدد مل سکے۔
مدینہ منورہ میں مثالی اسلامی ریاست کے قیام کے بعد عقل کا تقاضا تھا کہ فوری طور پر قبلے کو درست کیا جائے۔ لیکن تقریباً دو سال انتظار کرنے کے بعد اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف سے حکم آیا کہ قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِی السَّمَآئِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰھَا فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ (البقرہ ۲:۱۴۴)، ’’اے نبیؐ! یہ تمھارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اُٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں۔ لو، ہم اُسی قبلے کی طرف تمھیں پھیرے دیتے ہیں، جسے تم پسند کرتے ہو۔ مسجدحرام کی طرف رُخ پھیر دو۔ اب جہاں کہیں تم ہو، اُسی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرو‘‘۔
وحی الٰہی کے آتے ہی اس پر عمل کیا گیا اور عین حالت نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام اصحابِ رسولؐ نے (جو اس وقت جماعت میں شریک تھے) بغیر کسی ہلڑاور افراتفری اور بغیر کسی حیل و حجت کے اپنا رُخ مکمل مخالف سمت میں پھیر دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مدینہ منورہ آتے ہی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی عطا کردہ حکمت دینی کی بناپر قائد تحریک اسلامی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ اقدام فوری طور پر کیوں نہیں اُٹھایا اور ۱۶،۱۷ماہ بعد ۲ہجری میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحویل قبلہ کے حکم کے آجانے کے بعد یہ اقدام کیوں کیا گیا؟
اس اہم واقعے پر عموماً جس زاویے سے غور کیا جاتا ہے اس کا محوریہی رہا ہے کہ اُمت مسلمہ کا قیادت و سیادت پر مقرر کیا جانا اور بنی اسرائیل کو اقوامِ عالم کی قیادت سے مطلق طور پر محروم کیا جانا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نقطۂ نظر سے یہ تاریخ کا ایک انقلاب انگیز واقعہ ہے کہ اب قیامت تک کے لیے اس دینِ حنیف اور اُس کے لانے والے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو تمام انسانوں کے لیے زندگی گزارنے کا لائحہ عمل قرار دیا گیا۔ تاہم، غیرمعمولی اہمیت کے حامل اس واقعے میں دینی حکمت عملی کے حوالے سے ہمارے لیے غوروفکر کا بہت سامان موجود ہے۔
پہلی بات جس کا تعین اس واقعے سے ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا قانونِ مکافاتِ عمل ہے۔ جب بنی اسرائیل نے اپنے عمل سے اللہ تعالیٰ سے وفاداری کا ثبوت نہیں دیا تو ان کی جگہ اُمت مسلمہ کو اقوامِ عالم کی قیادت بطور ایک امانت اور ذمہ داری کے دے دی گئی۔ دوسری بات یہ کہ جس قوم کو قیادت سونپی جاتی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اس فریضے کی ادایگی کے لیے جواب دہ بھی ہوگی۔ مزید یہ کہ اُمت مسلمہ کو اپنے تمام ثقافتی، فکری اور روایتی رابطوں کو توڑ کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا رنگ اختیار کرنا ہوگا۔ اور آخری بات یہ کہ اس واقعے کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے جس طرح قبلۂ اوّل کی طرف واپسی سے قبل مکہ میں ایمان لانے والوں کا امتحان لیا تھا کہ وہ بیک وقت حرمِ کعبہ اور حرم القدس الشریف کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھ رہے تھے، اسی طرح مدینہ آنے کے بعد اطاعت الٰہی اور اطاعت ِ رسولؐ کو جانچنے کے لیے جب یہ کہا گیا کہ اپنا رُخ موڑ دو تو حالت ِ نماز ہی میں سب نے اپنا رُخ موڑ دیا۔ دوسری طرف یہودِ مدینہ اور وہ نومسلم جو ماضی میں یہودیت سے وابستہ تھے، ان کے لیے بھی یہ امتحان تھا کہ اب وہ قبلۂ ابراہیمی ؑ کی طرف رُخ کر رہے تھے، اور حضرت موسٰی ؑکے مرکز دعوت کی جگہ بیت اللہ کو یہ مقام دوبارہ حاصل ہورہا تھا۔ اس امتحان نے یہ واضح کردیا کہ کون صدقِ دل سے اللہ تعالیٰ کے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرہرحکم کی بلاحیل وحجت اطاعت کرنے پر آمادہ ہے۔
تحریکی حکمت عملی کے نقطۂ نظر سے یہ واقعہ کئی اہم سوالات کی طرف اشارہ کرتا ہے:
پہلا سوال یہ اُبھرتا ہے کہ آخر تحویلِ قبلہ تقریباً دو سال کے بعد کیوں ہوا، جب کہ مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد ریاستی اختیار کے اظہار کے لیے اسے بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا؟
دوسرا سوال یہ کہ توحید خالص کی دعوت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کو قیامت تک کے لیے شریعت قرار دینے کے باوجود اس رواداری کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ قبلہ جیسی بنیادی چیز کو حکمت اور مصلحت دینی کی بنا پر مؤخر کیا جانا مقاصد شریعت سے مطابقت رکھتا ہے؟
ان سوالات کو اگر آگے بڑھایا جائے تو ایک اہم قابلِ غور پہلو یہ ہوگا کہ کیا کسی بھی مسلم ملک میں تحریکِ اسلامی اپنے اصل ہدف، یعنی رضاے الٰہی اور اقامت ِ دین پر قائم رہتے ہوئے وقت کی ضرورتوں کے پیش نظر اور دین میں معتبر حکمت اور مصلحت کی بنا پر مؤخر کرسکتی ہے؟ اور راہ ہموار کرنے کے لیے ایسے عناصر کے ساتھ جو دل سے تحریکِ اسلامی کو پسند نہ کرتے ہوں تعاون و اشتراک کرسکتی ہے؟ اس تناظر میں میثاقِ مدینہ کی حیثیت کیا ہوگی، اور کیا اسے ایک عبوری حکمت عملی سے زیادہ اہمیت دینا درست ہوگا؟ ان سوالات کا براہِ راست تعلق مسلم ممالک میں تحریکاتِ اسلامی کے سیاسی عمل کے ساتھ ہے اور جب تک ان پر کھلے ذہن اور جذبات اور تعصبات سے بلند ہوکر غور نہ کرلیا جائے تحریکاتِ اسلامی بہت سے مغالطوں کا شکار ہوسکتی ہیں اور اس خطرے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ کم از کم تحریک کے کارکن بغیر گہری فکر کے محض سطحی مسائل پر غور کرکے تحریک کے لائحہ عمل کے بارے میں شک کا شکار ہوسکتے ہیں، اور اس طرح شیطان ان کو اپنی تحریک سے بدظن کرنے حتیٰ کہ فرار تک اُبھار سکتا ہے۔
یہاں پہلی قابلِ غور بات یہ ہے کہ جس طرح مکے میں اوّلین مخاطب مشرکینِ مکّہ تھے، مدینہ منورہ میں اوّلین مخاطب یہود اور ان کے زیراثر اور ان کی روایات سے آگاہ دیگر قبائل کے افراد تھے جو یہود کی طرف رہنمائی کے لیے متوجہ ہوتے تھے۔
قرآن کریم نے ان کو یاد دلایا کہ حضرت ابراہیم ؑ سے لے کر حضرت موسٰی ؑاور حضرت عیسٰی ؑ تک تمام انبیا ؑ کی دعوت کا مرکز توحید تھی۔ اس لیے اسلام کو تسلیم نہ کرنے کا کوئی جواز ان کے پاس نہیں ہے۔
دوسری بات یہ سمجھائی گئی کہ ان کی اپنی کتب میں جس نبیِ برحق صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کی گئی تھی، اس کے آنے کے بعد اور ان نشانیوں کے ظاہر ہونے کے بعد جو اس کی آمد کے بارے میں خود ان کی روایات میں پائی جاتی ہیں، ان کا اس دینِ حق کا انکار دراصل اپنی کتب سے انحراف و بغاوت ہے، اس لیے انھیں اسلام کے قبول کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ جس طرح مکہ میں ۱۳سال تک مشرکینِ مکہ کو اس نئی دعوت پر غور کرنے، سمجھنے اور قبول کرنے کا آزادی کے ساتھ موقع دیا گیا، بالکل اسی طرح اب انھیں مہلت دی گئی کہ وہ مکمل آزادیِ راے کے ساتھ اس عرصے میں دعوتِ حق کو آگے بڑھ کر قبول کرسکیں۔
دوسری جانب اہلِ ایمان کو سمجھانے کے لیے کہ اہلِ کتاب کا اسلام کی حقانیت اور اس کے من جانب اللہ ہونے کا علم رکھنے کے باوجود اپنی ہٹ دھرمی کی بنا پر اسلام کی دعوت کو قبول نہ کرنا، اہلِ ایمان کو پریشان نہ کرے ۔ جو لوگ دنیا کی وقتی منفعت کے بدلے آخرت کی ہمیشہ رہنے والی زندگی کا سودا کرلیتے ہیں، ان کے ذہن مائوف، آنکھیں روشنی سے محروم اور کان سماعت کے لیے بند ہوجاتے ہیں۔ ان کے دل پتھر ہوجاتے ہیں ، ان ہٹ دھرم اہلِ کتاب کی شقاوت قلبی، قبولیت ِ دعوت میں مزاحم ہوتی ہے، اس لیے عموماً قصور دعوتِ حق کا نہیں ان ظالموں کا اپنے کانوں، آنکھوں اور دلوں کو غلافوں میں لپیٹ لینے کا ہوتا ہے۔
اس حقیقت ِنفس الامری کے باوجود تقریباً دو سال تک تحویلِ قبلہ کو مؤخر کیا گیا تاکہ اتمامِ حجت ہوسکے۔قرآنِ کریم کی اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر دعوتِ اسلامی اپنی تمام حقانیت کے باوجود ۷۰ برسوں میں وہ مقصد حاصل نہ کرسکی، جو اس کی دعوت کی بنیاد ہے، یعنی اقامت دین اور حاکمیت ِ الٰہیہ کا قیام تو اس میں حیرت، افسوس اور مایوسی کا کیا سوال! ثانیاً: اگر حکمت ِدینی اور مصلحت ِ دینی یہ مطالبہ کرتی ہے کہ مدینہ کے اہلِ کتاب کے ساتھ میثاق پر دستخط ہوں تو کیا ایک اعلیٰ تر مقصد کے حصول کے لیے دیگر تنظیموں کے ساتھ وقتی اور متعین مدت کے لیے میثاق اور معاہدے کرنا دین کے اصولوں کے منافی ہوسکتا ہے؟
مزید یہ کہ اُمت مسلمہ کے فرضِ منصبی کی ادایگی، یعنی شہادت علی الناس کے لیے کیا یہ ضروری نہ ہوگا کہ اس دور کے مؤثر ترین ذرائع کو اس کام کے لیے استعمال کیا جائے جن میں ایوانِ نمایندگان میں پہنچ کر حق کا کلمہ بلند کرنا اور حکومتی ذرائع کے توسط سے دین کی فکر کا پیش کیا جانا مرکزی مقام رکھتے ہیں۔ شہدا علی الناس بننے کے لیے ضروری ہے کہ ان تمام وسائل کا استعمال اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے دین کی صداقت کے اظہار کے لیے کیا جائے۔ یہ وہ امانت ہے جسے پہاڑوں نے اُٹھانے سے انکار کر دیا تھا لیکن جسے اللہ تعالیٰ اپنے انعام کے طور پر اپنے بندوں کو دیتا ہے۔ یہ اس کی میراث ہے جو اس کے عابد بندوں کو یہاں اور آخرت میں ملتی ہے۔
تحریکاتِ اسلامی کے کارکنوں کو قرآن و سنت کے سایے میں اپنے دور کے مطالبات کے پیش نظر آگے بڑھ کر ایسے معاہدے بھی کرنے ہوں گے، جو وقت کی ضرورتوں کی روشنی میں متعین اور محدود اہداف کے حصول کے لیے ہوں اور بالآخر جن کا مقصد دین کا قیام ہو۔
تحریکاتِ اسلامی کے کارکنوں کو تنقیدی نگاہ سے اپنی حکمت عملی کا جائزہ لینا ہوگا اور کسی مداہنت اور اصولوںسے انحراف کیے بغیر، اعلیٰ تر مقاصد کے حصول کے لیے وقتی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ یہی دین کا مدعا ہے اور یہی دین کی راست حکمت عملی ہے۔
تحویلِ قبلہ کے حکم کے سیاق و سباق پر غور کیا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے منصب ِ امامت سے معزول کیے جانے کا بنیادی سبب ان کا کتمانِ حق تھا [البقرہ۲: ۱۴۰]، اور اُمت مسلمہ کو یہ منصب سونپنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ تمام انسانوں پر گواہ بنا دیے جائیں اور وہ حق کی اُس شہادت کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفسِ نفیس دی، اقوامِ عالم تک پہنچانے کے لیے ذمہ دار اور جواب دہ بنا دیے جائیں [البقرہ۲: ۱۴۳]۔ اس اہم منصب پر فائز ہونے اور اللہ تعالیٰ کی نصرت سے مدینے میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد یہ جانتے ہوئے کہ یہود کی تاریخ مسلسل وعدہ خلافی، چکمے دینے اور دوعملی کی ہے، دوبارہ اتمامِ حجت کے لیے تقریباً دوسال یہودِ مدینہ کو یہ بات سمجھنے کا عملی موقع دیا گیا کہ دین اسلام، دین ابراہیمی ہے اور ان کی فلاح اسی میں ہے کہ وہ بھی اس دین کو قبول کرلیں۔ جب اتمامِ حجت ہوگئی تو پھر تبدیلیِ قبلہ کے ذریعے یہ پیغام پہنچا دیا گیا کہ اب مسلمان اور یہود ایک اُمت نہیں بن سکتے بلکہ یہ دو الگ الگ ملّتیں ہیں اور دونوں کے قبلے جدا ہیں۔
ان آیاتِ مبارکہ پر غور کرنے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ دعوتی مصالح کے پیش نظر ایک محدود اور متعین عرصے کے لیے ان افراد اور گروہوں سے بھی سیاسی اتحاد کیا جاسکتا ہے جن کے مقاصد میں کُلی اشتراک نہ ہو۔ یہ حاکمیت ِ الٰہیہ کے قیام کے لیے سیاسی جدوجہد کے جملہ پہلوئوں میں سے ایک ہے اور نظریاتی سیاست ہی کا ایک حصہ ہے۔
قرآنِ کریم شہادتِ حق کے تصور کو تفصیل سے ہمارے سامنے رکھتا ہے۔ ایک جانب دین اسلام کی تعلیمات کو تمام انسانوں تک پہنچانا شہادتِ حق ہے تو دوسری جانب اسلامی معاشرے اور ریاست کے قیام کے لیے ایسے افراد کو منتخب کرنا بھی شہادتِ حق کی ایک شکل ہے، جو ذمہ داری اُٹھانے کے اہل ہوں:
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًام بَصِیْرًاo (النساء ۴:۵۸)،مسلمانو،اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے، اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔
ایک مسلم معاشرے اور مملکت میں قیادت کے انتخاب کے حوالے سے بھی قرآنی ہدایات دوٹوک اور واضح ہیں۔ اگر ایک شخص کسی کو یہ جاننے کے باوجود کہ وہ ایک منصب یا ذمہ داری کی اہلیت نہیں رکھتا، اسے ووٹ دیتا ہے تو یہ قرآنی حکم کی صریح خلاف ورزی ہے اور بقول مفتی محمد شفیعؒ گناہِ کبیرہ ہے۔ حق کی شہادت اسی وقت دی جاسکتی ہے جب مختلف مناصب پر وہی لوگ مقرر کیے جائیں جن میں امانت، صدق، شفافیت، عدل، توازن، اللہ کا خوف، اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس اور اُمت مسلمہ کے مفاد کے تحفظ کی فکر پائی جاتی ہو۔
جس طرح اللہ کے حقوق میں یہ بات شامل ہے کہ صرف اس کی عبادت کی جائے، اسی طرح انسانوں کے حقوق میں یہ بات شامل ہے کہ انھیں امانت کے ساتھ ادا کیا جائے اور ہرمعاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ انصاف اور آخری سند اور معیار اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا ہو۔ اُمت مسلمہ اور خصوصاً پاکستان کا بنیادی مسئلہ نااہل افراد کا ناجائز ذرائع سے حکومت پر قابض ہوجانا ہے۔ تبدیلی کے ذرائع ، ایک سے زائد ہوسکتے ہیں، مگر جو ذریعہ یا ذرائع استعمال کیے جائیں، ان کے لیے شرط صرف ایک ہے کہ وہ اسلام کے دیے ہوئے راستے کے مطابق ہوں اور فساد فی الارض کا ذریعہ نہ بنیں۔
موجودہ حالات میں دعوتی حکمت اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ پاکستان کے عوام اپنے ووٹ کے حق کو امانت کے احساس کے ساتھ اہل افراد کو قیادت کے منصب پر لانے کے لیے استعمال کریں۔ پاکستان کا المیہ ہی یہ ہے کہ عوام قیادت کی ناکامیوں اور بے وفائیوں کا گلہ تو کرتے ہیں (اور بجا طور پر کرتے ہیں) لیکن اس امرپر غور نہیں کرتے کہ قیادت کے انتخاب کے وقت خود انھوں نے کہاں تک اپنی ذمہ داری ادا کی ہے۔ اگر وہ برادری، تعلّقِ خاطر، سیاسی مفاد پرستی، لالچ، دھونس یا ایسے ہی دوسرے عوامل کے زیراثر ووٹ دیتے ہیں تو پھر قیادت کی غلط کاریوں کی ذمہ داری سے اپنے کو کیسے بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں۔ ووٹ کا صحیح استعمال ہی تبدیلی کا مؤثر ذریعہ ہے۔ بدعنوان، مفاد پرست اور نااہل قیادت سے نجات کا ذریعہ انتخابات میں اس فرد اور جماعت کو ووٹ دینا ہے جس کے نمایندے باصلاحیت ہوں اور صاحب ِ کردار ہوں۔ قیادت کی سب سے ضروری صفات صلاحیت اور صالحیت ہیں۔ یہ دین کا تقاضا ہے اور اچھی سیاست کے فروغ کے لیے سب سے ضروری امر ہے کہ اچھے اور باکردار افراد کو ذمہ داری کے مناصب پر لایا جائے، اور ان کا ایسی جماعت سے وابستہ ہونا بھی ضروری ہے جس کا ریکارڈ قابلِ بھروسا ہو، جس کا ماضی بے داغ ہو، اور جس میں احتساب کا نظام موجود ہو۔
تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کا فرض ہے کہ خود بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں اور اپنے حلقے میں دوسرے تمام ووٹروں کو اس بات کو سمجھانے میں سردھڑ کی بازی لگادیں کہ اصلاح اور تبدیلی کا عمل ووٹ کے صحیح استعمال کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہ دین اور اچھی سیاست دونوں کے لیے کم سے کم تقاضا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت کی واضح ہدایت یہ ہے کہ امامت اور ولایت کی ذمہ داری صرف ان کے سپرد کی جائے جو ایمان، علم، دیانت، عدالت اور اعلیٰ صلاحیت کے حامل ہوں۔ قیادت کے لیے علم اور جسم یعنی صلاحیت اور قوتِ کار کو ضروری قرار دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود ؑکو قیادت پر فائز کیا تو اس کی یہی وجہ بتائی، فرمایا:
راست بازی، اعلیٰ کردار، حق شناسی اور دامن کے بے داغ ہونے کو ضروری قرار دیا:
انصاف پر قائم رہنا اور سب کے درمیان انصاف سے معاملہ کرنا قیادت کے لیے ازبس ضروری ہے۔
یہی وہ صفات ہیں جن کو خود پاکستان کے دستور میں سیاسی قیادت کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے اور جن کا ذکر دفعہ۶۲ میں ضروری صفات کی حیثیت سے اور دفعہ ۶۳ میں قیادت کو نااہل بنانے والی صفات کے طور پر کیا گیا ہے۔ ان کے چند اہم جملے ہم یہاں نقل کر رہے ہیں تاکہ ان سے ہر ووٹر کو روشناس کرایا جائے اور انھیں سمجھایا جائے کہ اگر وہ اپنے ملک کے حالات کی اصلاح چاہتے ہیں تو ووٹ دیتے وقت اُمیدوار کو اس کسوٹی پر جانچیں اور اس احساس کے ساتھ اپنے ووٹ کو استعمال کریں کہ وہ ایک امانت ہے جسے صرف امانت دار کو دینا ان کا فرض ہے۔ نیز ووٹ ایک شہادت اور گواہی ہے کہ جسے آپ ووٹ دے رہے ہیں اس کے بارے میں آپ یہ گواہی دے رہے ہیں کہ وہ اس ووٹ کا مستحق ہے، اور ووٹ ایک قسم کا وکالت نامہ ہے کہ آپ اپنی طرف سے ایک شخص کو یہ اختیار دے رہے ہیں کہ وہ آپ کے اور قوم کے معاملات کو آپ کی طرف سے ٹھیک ٹھیک انجام دے___ اور آپ کی دنیا اور آخرت میں ان تینوں اعتبار سے ووٹ کے استعمال کے باب میں جواب دہی ہوگی۔
(د) وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور ہو۔
(ہ) وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہ رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نہ ہو، نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو۔
(و) وہ سمجھ دار، پارسا نہ ہو اور فاسق ہو اور ایمان دار اور امین نہ ہو، عدالت نے اس کے برعکس قرار نہ دیا ہو۔
(ز) اس نے قیامِ پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام کیا ہو یا نظریۂ پاکستان کی مخالفت کی ہو۔
(ز) وہ کسی مجاز سماعت عدالت کی طرف سے کسی ایسی راے کی تشہیر کے لیے سزایاب رہ چکا ہو، یا کسی ایسے طریقے پر عمل کر رہا ہو، جو نظریۂ پاکستان یا پاکستان کے اقتدارِ اعلیٰ، سالمیت یا سلامتی یا اخلاقیات، یا امن عامہ کے قیام یا پاکستان کی عدلیہ کی دیانت داری یا آزادی کے لیے مضر ہو، یا جو پاکستان کی مسلح افواج یا عدلیہ کو بدنام کرے یا اس کی تضحیک کا باعث ہو، تاوقتیکہ اس کو رہا ہوئے پانچ سال کی مدت نہ گزر گئی ہو، یا
(ح) وہ کسی بھی اخلاقی پستی کے جرم میں ملوث ہونے پر سزایافتہ ہو، جس کو کم از کم دوسال سزاے قید صادر کی گئی ہو، تاوقتیکہ اس کو رہا ہوئے پانچ سال کا عرصہ نہ گزر گیا ہو، یا
(ن) اس نے کسی بنک، مالیاتی ادارے، کوآپریٹو سوسائٹی یا کوآپریٹو ادارے سے اپنے نام سے اپنے خاوند یا بیوی یا اپنے زیرکفالت کسی شخص کے نام سے دوملین روپے یا اس سے زیادہ رقم کا قرضہ حاصل کیا ہو جو مقررہ تاریخ سے ایک سال سے زیادہ عرصے کے لیے غیرادا شدہ رہے یا اس نے مذکورہ قرضہ معاف کرالیا ہو، یا
(س) اس نے یا اس کے خاوند یا بیوی نے یا اس کے زیرکفالت کسی شخص نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرتے وقت چھے ماہ سے زیادہ کے لیے ۱۰ ہزار روپے سے زائد رقم کے سرکاری واجبات اور یوٹیلٹی اخراجات بشمول ٹیلی فون، بجلی،گیس اور پانی کے اخراجات ادا نہ کیے ہوں۔
تحریکی کارکنوں پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ عوام کو دستور کی شق کی روح اور معنی سے متعارف کرائیں اور نئے نظام کے قیام کے لیے آگے بڑھ کر صرف ایسے مخلص افراد کو منتخب کریں جو اپنے وعدوں پر قائم رہنے والے ہوں، جو اللہ کے حضور جواب دہی کے احساس کے ساتھ اس کی مخلوق کی خدمت کو اپنا فرض سمجھیں، اور اپنے نفس کے بہکانے میں آنے کو تیار نہ ہوں۔
تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کو یہ امر بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ انتخابات ہمارے لیے جہاں نئی اور بہتر قیادت کو برسرِاقتدار لانے کی فیصلہ کن جدوجہد کا اہم ترین پہلو ہیں، وہیں خود عوام کی تعلیم، ان میں سیاسی، نظریاتی اور اخلاقی شعور کو بیدار کرنے، ان میں حق و باطل اور خیروشر میں تمیز اور تبدیلی اور اصلاح کے عمل میں شرکت کے لیے باہر نکلنے، راے عامہ کو تیار کرنے اور اپنا فرض ادا کرنے کا داعیہ پیدا کرنے کا مؤثر ذریعہ ہیں۔ یہ ہماری دعوت کا ایک اہم پہلو ہے اور ان شاء اللہ اس سلسلے میں صحیح نیت کے ساتھ مسلسل جدوجہد کا شمار عبادت اور جہاد میں شرکت کے زمرے میں ہوگا۔ وما توفیقی الا باللّٰہ۔
بات بہت واضح ہے۔ تاریخ کا لمحہ لمحہ گواہ ہے کہ مسئلہ آزادی، ایمان اور عزت کی حفاظت کا ہو یا ظلم و استبداد کے نظام سے نجات اور اعلیٰ مقاصد حیات کے حصول کا___ یہ بازی صرف ایک ہی طریقے سے سر کی جاسکتی ہے اور وہ عبارت ہے مسلسل اور پیہم جدوجہد، ایثار اور قربانی سے۔ اس حیات آفریں عمل ہی کو شریعت نے جہاد کا نام دیا ہے اور اس کے مقاصد و اہداف، اصول و آداب اور قواعد و ضوابط کار کا بھی پوری وضاحت سے تعین کردیا ہے۔ یہ جدوجہد نیت اور سمت کی درستی کے ساتھ وقت، جان اور مال، غرض ہر چیز کی قربانی کا تقاضا کرتی ہے اور اگر اس جدوجہد میں نوبت جان کو جانِ آفریں کے سپرد کرنے کی آجائے تو اسے کامیابی کی معراج قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح جان دینے والے کی موت کو عرفِ عام کی موت سے یہ کہہ کر ممیز کردیا گیا ہے کہ یہی اصل حیات ہے:
ایک اور پہلو اس مقام کو حاصل کرنے والوں کی زندگی کا یہ بھی ہے کہ وہ دوسروں کے لیے روشن مثال قائم کرتے ہیں، انسان کو موت کے خوف سے بے نیاز کرتے ہیں، زندگی کو ان مقاصد کے لیے قربان کرنے کا داعیہ پیدا کرتے ہیں جو محض ایک فرد نہیں بلکہ پوری اُمت اور تمام انسانوں کو زندگی کے اس مفہوم سے آشنا کرتے ہیں جس سے زندگی زندہ رہنے کے لائق بنتی ہے (what makes life worth living)۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کا اظہار اس طرح کیا گیا ہے کہ ع
شہید کی جو موت ہے ، وہ قوم کی حیات ہے
آج ایک خاص طبقہ کچھ مخصوص بلکہ مذموم مقاصد کے لیے ’جہاد‘ اور ’شہادت‘ کو ناپسندیدہ الفاظ بنانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن چاند پر تھوکنے سے چاند کی روشنی اور پُرکیف ٹھنڈک میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ ہر دور میں شہادت کا ہر واقعہ ایمان کی تازگی اور حق اور صداقت کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے مہمیز دینے کا ذریعہ رہا ہے۔ یہی وہ عمل ہے جس کے نتیجے میں بالآخر ظلم و استبداد کا ہرنظام سرنگوں ہوتا ہے اور آزادی، عزت، غلبۂ حق اور عدل و انصاف کی صبح طلوع ہوتی ہے۔ تاریخ کے در ودیوار سے یہ گونج مسلسل سنائی دیتی ہے کہ ؎
یہ خون جو ہے مظلوموں کا، ضائع تو نہ جائے گا لیکن
کتنے وہ مبارک قطرے ہیں، جو صرف بہاراں ہوتے ہیں
بھارتی غلبے اور استبداد کے خلاف جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی جدوجہد ہمارے دور کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ اس جدوجہد میں جو سعید روحیں جان کا نذرانہ پیش کرتی ہیں، وہ دراصل اُمید کا ایک چراغ روشن کرتی ہیں۔ بھارتی ظلم و استبداد کا نشانہ بننے والی ہر روح تاریکیوں کو چیلنج کرنے والے ایک چراغ کی مانند ہے۔ اس سلسلے کی تازہ ترین مثال ۹فروری ۲۰۱۳ء کو دہلی کی تہاڑ جیل میں ایک بے گناہ مجاہد محمد افضل گورو کو تختۂ دار پر چڑھانے کے ظالمانہ اقدام کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے جس نے بھارت کی نام نہاد جمہوریت اور اس کے عدالتی نظام کا اصل چہرہ ہی بے نقاب نہیں کیا، بلکہ عالمی قیادت کے اس مدعی ملک کی ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال بھی پوری دنیا کے سامنے پیش کردی ہے۔ یہ اس کے سیاسی اور اخلاقی دیوالیہ پن کا ثبوت اور اس کی کشمیر پالیسی کی ناکامی کی علامت ہے۔
اس امر میں ذرا بھی شبہہ نہیں کہ یہ اقدام ایک مکروہ سیاسی چال ہے اور تحریکِ آزادیِ کشمیر کو نہ صرف یہ کہ اس سے ان شاء اللہ کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ اس کے نتیجے میں اس جدوجہد کو نئی جِلا ملے گی اور نئی قوت میسر آئے گی۔ ذرا تصور کیجیے کہ ایک مظلوم انسان جسے ایک سازش کے تحت دہشت گردی کے ایک واقعے میں ملوث کیا گیا، اسے تین بار عمرقید اور دو بار پھانسی کی سزا دی گئی، جس کی (افسوس ہے کہ ) ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے کھلے بندوں، قانون اور عدل کی بنیاد پر نہیں، علانیہ طور پر سیاسی وجوہ سے توثیق بھی فرما دی۔ وہ ۱۳سال سے قید تنہائی میں تھا اور سات سال سے پھانسی کے تختے کا انتظارکررہا تھا۔ اسے اور اس کی اہلیہ کو قانون کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اطلاع دیے بغیر اور آخری وقت میں بیوی اور بچے سے بھی ملنے سے محروم رکھ کر تختۂ دار پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ جموں و کشمیر میں کرفیو لگا دیا جاتا ہے اور اخبارات، میڈیا، اور سیل فون تک کو خاموش کردیا جاتا ہے، اس کے باوجود مظلوم مجاہد کی جبیں پر کوئی شکن نہیں آتی۔ وہ فجر کی نماز پڑھ کر پورے اعتماد کے ساتھ تختۂ دار کی طرف شانِ استغنا کے ساتھ بڑھ جاتا ہے۔ اپنے خاندان اور تمام مسلمانوں کو پیغام دیتا ہے کہ ’’اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے اس مقام کے لیے چنا۔ باقی میری طرف سے آپ اہلِ ایمان کو مبارک ہو کہ ہم سب سچائی اور حق کے ساتھ رہے اور حق و سچائی کی خاطر آخرت میں ہمارا اختتام ہو۔ اہلِ خانہ کو میری طرف سے گزارش ہے کہ میرے مرنے پر افسوس کے بجاے اس مقام کا احترام کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کا حامی و ناصر ہو، اللہ حافظ!‘‘۔
یہ الفاظ کسی مجرم یا باطل سے دب جانے والے انسان کے نہیں ہوسکتے۔ یہ خطاب صرف اہلِ خانہ سے نہیں، تمام اہلِ ایمان سے ہے جو دلوں میں نیا ولولہ پیدا کریں گے اور اس جدوجہد کو نئی زندگی دیں گے۔ اس کا ایک ہلکا سا نظارہ ان واقعات میں بھی دیکھا جاسکتا ہے جو اس شہادت کے بعد رُونما ہوئے۔ ایک طرف خائف سوپر پاور ہے اور دوسری طرف بے سروسامان عوام___ لیکن وہ ہررکاوٹ کے باوجود احتجاج کر رہے ہیں۔ کرفیو ان کا راستہ نہیں روک سکتا اور گولی اور لاٹھی کی بوچھاڑ انھیں گھروں میں قید نہیں رکھ سکتی۔ بوڑھا سید علی شاہ گیلانی زیرحراست ہے لیکن اس کی آواز پر کشمیر کے مظلوم شہری ظالموں کے خلاف کمربستہ ہیں۔ دہلی تک میں مظاہرے ہوتے ہیں جن کی قیادت دہلی کالج کا وہی پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحمن گیلانی کر رہا ہے جس پر اس مقدمے میں شریکِ جرم ہونے کا الزام تھا، اسے بھی افضل گورو کے ساتھ سزاے موت ملی تھی جو بعد میں سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دی اور اسے بے گناہ قرار دیا۔ وہ نہ صر ف ا س احتجاج کی قیادت کر رہا ہے بلکہ برملا شہادت دے رہا ہے کہ محمد افضل گورو بے گناہ تھا اور اسے صرف اس لیے پھانسی کے تختے پر چڑھایا گیا ہے کہ وہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کا ایک مجاہد تھا اور اسے اس کے سیاسی خیالات کی وجہ سے موت کے گھاٹ اُتارا گیا ہے۔ مظاہرے میں شریک ہر نوجوان یہ عہد کر رہا ہے کہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کو جاری رکھے گا۔ بلاشبہہ افضل گورو کی شہادت سے اس تحریک کو ان شاء اللہ نیا ولولہ ملے گا۔
جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے، ۹فروری کی شہادت کی خبر سارے کرفیو اور تمام پابندیوں کے باوجود جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ کرفیو کے علی الرغم عوامی احتجاج ہرسُو رُونما ہوا اور قربانیوں اور شہادتوں کی نئی تاریخ رقم ہونے لگی۔ ہڑتالوں کا سلسلہ ان سطور کے لکھنے تک جاری ہے اور کشمیر ہی نہیں، دنیا بھر میں کشمیری نوجوان، وہ بھی جو پہلے اس جدوجہد میں شریک نہیں تھے، اب نئے جذبے کے ساتھ مزاحمت کی تحریک میں شرکت کے لیے بے تاب ہیں۔ نیویارک ٹائمز کی نامہ نگار برمنگھم یونی ورسٹی کی ایم فل کی ایک طالبہ عارفہ غنی کے اس عزم کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کرتی ہے:
جب مقبول بٹ کو پھانسی دی گئی تو میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔ جب میں نے اس کے بارے میں کچھ پڑھا تو پھر وہ ہمارا ہیرو ہوگیا۔ گورو کی پھانسی کے بعد میں جس طرح محسوس کررہی ہوں اس طرح کبھی بھی محسوس نہیں کیا۔ مگر ہم اپنے بڑوں کی طرح ہتھیار نہیں اُٹھائیں گے۔ ہم زیادہ ذہانت سے ردعمل دیں گے۔
(نیویارک ٹائمز کے نمایندے کی رپورٹ جو دی نیشن کی ۱۸فروری ۲۰۱۳ء کی اشاعت میں شائع کی گئی ہے)۔
یہ کیسی جمہوریت ہے اور یہ کیسی اُبھرتی ہوئی عالمی طاقت ہے جو مجاہدین کی لاشوں سے بھی خائف ہے اور جس نے نہ مقبول بٹ شہید کی لاش اس کے لواحقین کو دی اور نہ اب افضل گورو کی لاش دینے کے لیے تیار ہے؟ لندن کے اخبار دی گارڈین کے کالم نگار نے کس طنز سے لکھا ہے کہ:
یہ بات ضرور پوچھی جانی چاہیے کہ بھارتی ریاست کیا کہنے کی کوشش کر رہی تھی؟ یقینا اس کی وضاحت سادگی سے اس طرح نہیں کی جاسکتی تھی جیساکہ بعض تجزیہ نگاروں نے کی ہے کہ یہ محض انتخابی سیاست کی مجبوریوں کا ایک مکروہ اظہار ہے۔ بلاشبہہ یہ وہ عمل ہے جس میں بھارت کی سیاسی پارٹیاں اپنے حریفوں سے آگے بڑھنے کے لیے نئی اخلاقی پستیوں میں ڈوبنے کے لیے بے چین ہیں لیکن یہ اقدام دراصل کشمیری عوام کے لیے ایک پیغام ہے کہ ایک قابض طاقت بے اختیار عوام کو پوری گھن گرج کے ساتھ کہہ رہی ہے کہ تمھیں لازماً تعظیماً جھکنا پڑے گا۔ اس مقدمے کے اثرات پھانسی کے تختے سے بہت آگے بھی جاسکتے ہیں۔ اس کا تاریک سایہ ان کے بچوں کے لیے دودھ اور بزرگوں کے لیے دوائوں تک بھی پہنچ سکتا ہے۔دو لمحات تاریخ کا حصہ بنتے نظر آرہے ہیں۔ کشمیری، بھارت کی مزاحمت کی یاد میں گہری قبر کھود کر مقبرہ تعمیر کر رہے ہیں، اور بھارت بزدلانہ اعتراف کر رہا ہے کہ ایک کشمیری لاش بھی باغی ہوسکتی ہے، لہٰذا اسے جیل ہی میں ہمیشہ کے لیے مقید رہنا چاہیے۔
بھارتی قیادت کے عزائم اور اہلِ کشمیر کے لیے اس کا پیغام تو بہت واضح ہے۔ شہیدوں کی لاشوں تک سے ان کا خوف بھی الم نشرح ہے لیکن دی گارڈین کے مضمون نگار کا یہ خیال کہ جو قبریں سری نگر کے شہدا کے تاریخی قبرستان میں ان دو شہدا کے لیے بنائی گئی ہیں، وہ اپنے مکینوں کا انتظار کر رہی ہیں اور بس یادوں اور مزاحمتوں کا مقبرہ ہوں گی، شدید غلط فہمی پر مبنی ہیں۔ یہ قبریں تحریکِ مزاحمت کی علامت اور آزادی کی ناتمام جدوجہد کا عنوان ہیں۔ یہ آزادی کے کارواں اور اس راہ میں مزید قربانیوں کے لیے ایک تکبیرمسلسل کی حیثیت رکھتی ہیں اور اس آرزو اور عزم کا اظہار بھی ہیں کہ ایک دن ان شاء اللہ جموں و کشمیر کے مسلمان بھارت کے قبضے اور استبدادی نظام سے نجات پائیں گے، اپنی آزاد مرضی سے اپنا مستقبل طے کریں گے اور پھر شہدا کی وہ لاشیں، جن سے آج وہ محروم کر دیے گئے ہیں، وہ انھیں حاصل کرسکیں گے اور وہ وقت دُور نہیں جب یہ خالی قبریں اپنے اصل مکینوں کو خوش آمدید کہہ سکیں گی۔
بلاشبہہ محمد افضل گورو کی شہادت کا واقعہ اس جدوجہد میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس پہلو کے ساتھ یہ واقعہ کئی اور حیثیتوں سے بھی بڑے غوروفکر کا مواد فراہم کر رہا ہے۔ ہم ان میں سے چند پہلوئوں پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں تاکہ حالات کو ان کے صحیح تناظر میں دیکھا جاسکے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے صحیح پالیسیاں اور مناسب حکمت عملیاں تیار کی جاسکیں۔
بھارت نے پہلے دن سے کشمیر کو صرف قوت کے ذریعے اور بدترین سامراجی حربوں کے بے محابا استعمال کے بل بوتے پر اپنی گرفت میں رکھا ہوا ہے اور وہ ظلم و استبداد کے مکروہ سے مکروہ تر اقدام کا ارتکاب کررہا ہے۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۱ء کی جنگ بندی تک اپنے قدم جمانے اور جنگِ آزادی کو کچلنے کے لیے بھارتی اور ڈوگرہ افواج نے چار لاکھ افراد کا خون بہایا اور ۱۹۸۹ء سے رُونما ہونے والے تحریکِ آزادی کے دوسرے دور میں اب تک ایک لاکھ سے زیادہ افراد کو شہید کیا جاچکا ہے۔ لاکھوں زخمی ہوئے ہیں، ہزاروں لاپتا ہیں، ہزاروں جیلوں میں سڑرہے ہیں اور خاص و عام آبادی کے انسانی حقوق کو پوری بے دردی کے ساتھ پامال کیا جا رہا ہے۔ پاک باز خواتین کی آبروریزی بڑے پیمانے پر کی جارہی ہے اور جنسی زیادتی کو ایک جنگی حربے (military strategy) کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ جموں و کشمیر میں ۷لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجی ظلم کی یہ داستان رقم کررہے ہیں اور ان کو ایک مہذب معاشرے کے ہر قانون سے، حتیٰ کہ جنگی قانون تک سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔ Armed Forces Special Powers Act ایک ایسا جنگل کا قانون ہے جس نے بھارتی فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں کو دستور، قانون، جنگی قواعد و ضوابط اور سماجی روایات، ہرضابطے اور قاعدے سے آزاد کردیا ہے۔
جموں و کشمیر میں جو خونی کھیل کھیلا جارہا ہے اسے تمام دنیا کے میڈیا اور عالمی مبصرین کے لیے ’نوگو ایریا‘ بنادیا گیا ہے تاکہ دنیا اس سے بے خبر رہے جو کچھ مجبوروں کی اس بستی میں کیا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں محمدافضل گورو کی گرفتاری کا مقدمہ، اس کی قیدتنہائی، اس پر تعذیب کی دل خراش داستان، اس کی سزا، اس کی رحم کی درخواستوں پر کیا جانے والا معاملہ، اس کی پھانسی، پھانسی کی اطلاع سے خود اس کو اور اس کے اہلِ خانہ تک کو بے خبر رکھنا، اس کی میت سے بھی اس کے خاندان کو محروم رکھنا، اس کی پھانسی کی خبر تک کا گلا گھونٹنے کی کوشش___ یہ سب کشمیر کی حقیقی صورت حال کا ایک آئینہ ہے جس میں بھارت کے سیاسی اور عدالتی نظام کا اصل چہرہ بھی دیکھا جاسکتا ہے اور جسے اب دنیا سے چھپانے کی کوئی تدبیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بھارت کے جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے تمام دعووں کی قلعی صرف اس ایک واقعے کے ذریعے کھل جاتی ہے۔ کس طرح ہرسطح پر اور ہرہرقدم پر دستور، قانون، سیاسی آداب اور مسلّمہ اخلاقی اصول و ضوابط کو پامال کیا جاتا ہے اور کس ڈھٹائی سے انصاف کا خون کرکے ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال قائم کی گئی ہے۔ اس کیس کے حقائق کو ان کی اصل ترتیب میں دیکھنے سے بھارت کی سیاست اور عدل و انصاف کی زبوں حالی کی مکمل تصویر سامنے آجاتی ہے۔
یہ ستم ظریفی بھی قابلِ غور ہے کہ جس اصل نام نہاد ماسٹر مائنڈ، یعنی پروفیسر عبدالرحمن گیلانی کو محمد افضل تک رسائی کا ذریعہ ظاہر کیا گیا تھا، وہ تو اعلیٰ عدالت کے حکم سے بے گناہ ثابت ہوئے اور جو ان کے لیے بھی ایک بالواسطہ ذریعہ قرار دیا گیا تھا وہ اصل مجرم بن گیا اور سولی پر چڑھا دیا گیا۔
۱- اس کیس میں محمد افضل گورو کے ملوث ہونے کا کوئی واقعاتی یا شہادت پر مبنی ثبوت موجود نہیں۔
۲- کسی دہشت گرد تنظیم سے کسی سطح پر بھی محمد افضل گورو کا کوئی باقاعدہ تعلق ثابت نہیں۔
۳- جو بالواسطہ موادپولیس/تفتیشی عملے نے دیا ہے اس میں شفافیت نہیں بلکہ وہ تہ در تہ تضادات سے بھرا پڑا ہے، مثلاً پروفیسر عبدالرحمن گیلانی کے بارے میں کہا گیا کہ ان کے ذریعے محمدافضل گورو کا نام ملا، مگر محمد افضل گورو کو عبدالرحمن گیلانی کی گرفتاری سے پہلے ہی سری نگر میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔ جس لیپ ٹاپ کا ذکر ہے وہ محفوظ (protected) نہیں تھا اور ایسی شہادت جو محفوظ نہ ہو قابلِ قبول نہیں ہوتی۔ نیز جو معلومات اس پر تھیں وہ خود یہ ظاہر کرتی تھیں کہ کمپیوٹر سے بہت سی معلومات نکال دی گئی ہیں اور جو معلومات باقی ہیں، ان میں ہیرپھیر کردیا گیا ہے۔ سیل فون کے بارے میں سم کے حاصل کرنے کی جو تاریخ دی گئی ہے، وہ بے معنی ہے اس لیے کہ وہ سم اس تاریخ سے کم از کم تین ہفتے پہلے سے کسی کے زیراستعمال تھی اور بدیہی طور پر محمد افضل گورو نہیں تھا۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں، ورنہ کیس میں کسی سطح پر بھی کوئی جان نہیں تھی۔
ان تمام حقائق کو تسلیم کرنے کے بعد عدالت عالیہ نے جس بنیاد پر موت کی سزا کی توثیق کی ہے وہ عدل کی تاریخ میں ایک عجوبہ اور بھارت کے عدالتی نظام کے چہرے پر کلنک کا ٹیکا ہے۔ سپریم کورٹ ہی کے الفاظ میں عدل کے قتل اور قانونی دہشت گردی پر مبنی اس فیصلے کو ملاحظہ فرمائیں:
افضل گورو ان دہشت گردوں میں سے نہیں تھا جنھوں نے ۱۳دسمبر۲۰۰۱ء کو پارلیمنٹ ہائوس پر حملہ کیا۔ وہ ان لوگوں میں سے بھی نہ تھا جنھوں نے سیکورٹی اہل کاروں پر گولی چلائی اور چھے میں سے تین کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔جیساکہ بیش تر سازشوں کے ساتھ ہوتا ہے، یہاں بھی کوئی ایسی براہِ راست شہادت نہ ملی ہے اور نہ مل سکتی ہے جسے مجرمانہ سازش قرار دیا جاسکے۔اس واقعے نے جس میں ایک تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے پوری قوم کو ہلا دیا ہے اور معاشرے کا اجتماعی ضمیر اسی صورت میں مطمئن ہوسکتا ہے کہ مجرم کو سزاے موت دی جائے۔
یعنی ایک شخص کو صرف اس لیے سولی پر چڑھا دو تاکہ اس سے جس شے کو سوسائٹی کا ’اجتماعی ضمیر ‘کہا جا رہا ہے اس کی تسکین ہوسکے۔ عدل و انصاف کے قتل کی اس سے زیادہ قبیح اور اندوہناک صورت کیا ہوسکتی ہے؟
پھر یہی نہیں، قانونی اور دستوری نقطۂ نظر سے دستور اور قانون کے مسلّمہ اصولوں اور خود بھارت کی عدالت ِ عالیہ کے ایک درجن سے زیادہ فیصلوں کی بھی اس مقدمے اور سزا میں کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
۹فروری کو افضل گورو کی پھانسی بھارتی حکومت کا ایک غیرانسانی فعل تھا۔ افضل گورو کو ۴؍اگست ۲۰۰۵ء کو سپریم کورٹ کی طرف سے سزاے موت کے فیصلے کے سات سال بعد اور صدرِ بھارت کو ۸نومبر ۲۰۰۶ء کو دی گئی رحم کی اپیل کے چھے سے زیادہ سال بعد پھانسی دی گئی۔ اس عرصے میں اُس نے اور اس کے اہلِ خانہ نے اس کی قسمت کے بارے میں ہردن تکلیف و پریشانی میں گزارا۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس کی تمام مہذب ممالک اور ہماری سپریم کورٹ بھی مذمت کرتی ہے۔ صدرِ بھارت کی طرف سے اس کی رحم کی درخواست کو چھے سال کے بعد ۳فروری ۲۰۱۳ء کو مسترد کیا گیا ہے جسے ارادتاً خفیہ رکھا گیا اور اس کے اہلِ خانہ کو بھی اطلاع نہیں دی گئی کہ کہیں یہ عدالتی درخواست کی بنیاد نہ بن جائے۔ ۹فروری ۲۰۱۳ء کو اس کے اہلِ خانہ کو بتائے بغیر خفیہ طور پر اسے پھانسی دی گئی اور اتنی ہی خفیہ طور پر تہاڑجیل نئی دہلی میں ایک قبر میں اسے دفن کردیا گیا۔
۱۹۸۳ء میں شیرسنگھ بمقابلہ ریاست پنجاب کے مقدمے میں عدالت نے انھی باتوں کو دہرایا جو ایک اور مقدمہ تری وینی بن بمقابلہ ریاست گجرات میں وسیع تر دستوری بنچ نے طے کرنا چاہا، اور سپریم کورٹ نے دوبارہ انھیں دہرایا کہ پھانسی دینے میں تاخیر غیرمنصفانہ اور غیرمعقول ہوگی۔ عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ رحم کی اپیلوں کے فیصلوں میں پوری دنیا میں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ متعلقہ شخص ایک ذہنی ٹارچر میں مبتلا رہتا ہے بلالحاظ اس کے کہ اس کے ساتھ کوئی جسمانی بدسلوکی نہیں کی جاتی۔ اس لیے رحم کی اپیل کے استرداد کی اطلاع دینا لازمی تھا۔ جگدیش بمقابلہ ریاست مدھیہ پردیش مقدمہ ۲۰۱۲ء سپریم کورٹ نے نہ صرف ملزم کی اس اذیت کو نمایاں کیا جو اسے سزا ملنے میں تاخیر سے ہوتی ہے بلکہ اس تکلیف اور اذیت کو بھی جو اس کے قریبی رشتے داروں کو ہوتی ہے۔ ۱۹۹۴ء میں پرائیوی کونسل نے بھارتی سپریم کورٹ کی راے کو درست قراردیا اور اپنے فیصلے کے ایک پُرتاثیر حصے میں لکھا کہ پھانسی پانے کے احکامات کے خلاف ایک جبلی کراہت ہوتی ہے۔ یہ جبلی کراہت کس وجہ سے ہوتی ہے؟ جواب یہ ہے کہ ہم اس کو غیرانسانی فعل قرار دیتے ہیں کہ ایک آدمی کو پھانسی کی اذیت میں طویل عرصے تک رکھا جائے۔ کئی برس تک اپنی تحویل میں رکھنے کے بعد ان لوگوں کو پھانسی دینا ایک غیرانسانی سزا ہوگی۔ یورپی یونین کی انسانی حقوق کی عدالت نے ۱۹۸۹ء میں اور کینیڈا کی سپریم کورٹ نے بھی یہی موقف اختیار کیا۔ افضل گورو کو پھانسی دینے میں حکومت نے جان بوجھ کر سپریم کورٹ کے موقف کو نظرانداز کیا اور دوسری عدالتوں کے موقف کو بھی۔
ایک زیرالتوا مقدمہ خود افضل گورو کا تھا۔ عدالت نے مجھے اپنا مشیر مقرر کیا تاکہ غیرمعمولی تاخیر کے بعد سزا دینے کے مسئلے کو صحیح پس منظر میں دیکھا جائے۔ عدالت کے سامنے مَیں نے اپنے دلائل دیتے ہوئے خاص طور پر افضل گورو مقدمے کے حقائق کا حوالہ دیا۔ سماعت ۱۹؍اپریل ۲۰۱۲ء کو ختم ہوگئی۔ عدالت نے فیصلہ محفوظ رکھا (جس کا ابھی تک اعلان نہیں ہوا ہے)۔ حکومت اس بات سے پوری طرح آگاہ تھی کہ مجرموں کی پھانسی کی سزا میں طویل تاخیر کا مسئلہ قانونی طور پر سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ حکومت کے لیے لازم تھا کہ زیرالتوا فیصلوں پر سپریم کورٹ کے مستند فیصلے کا انتظار کرتی۔ لیکن حکومت نے ۹؍فروری کو افضل گورو کو پھانسی کی سزا دے دی۔ افضل گورو کی پھانسی بھارتی حکومت کے سزاے موت کے کیے ہوئے فیصلوں میں سب سے زیادہ بے رحمانہ فیصلہ سمجھا جائے گا۔
اس مضمون میں اُٹھائے گئے سوالات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک طرف عدالت عالیہ کا موت کا فیصلہ ہی کسی قانونی جواز کے بغیر تھا۔ یہ فیصلہ محض سیاسی وجوہ سے سوسائٹی کے اجتماعی ضمیر کا سہارا لے کر دیا گیا تھا لیکن اس کے علاوہ بھی کم از کم مندرجہ ذیل شکلوں میں دستور اور قانون کی دھجیاں بکھیردی گئیں:
۱- چھے سال تک رحم کی اپیل کو لٹکانا انسانی حقوق اور انصاف کے تقاضوں سے متصادم تھا اور ایسی صورت میں موت کی سزا کا ساقط کیا جانا قانون اور انصاف سے اقرب ہے جس پر بھارتی سپریم کورٹ تک کی متعدد آبزرویشن موجود ہیں۔
۲- رحم کی اپیل کے فیصلے میں تاخیر کے خلافِ انصاف ہونے کا مسئلہ بھارتی سپریم کورٹ میں زیرسماعت تھا۔ مقدمے کی سماعت مکمل ہوگئی تھی اور اس مقدمے میں افضل گورو کا کیس بھی شامل تھا۔ مقدمے کا فیصلہ ابھی آنا تھا جس میں اس کا امکان بھی تھا کہ کیس کے تمام متعلقہ افراد کی موت کی سزا کو ختم کیا جاسکتا تھا۔ فیصلہ آنے سے پہلے افضل گورو کو پھانسی دینا غیرقانونی فعل تھا اور اس طرح کا ایک اقدام قتل بن جاتا ہے۔
۳-اگر رحم کی اپیل رد کردی گئی تھی جب بھی یہ سزا پانے والے کا حق تھا کہ اسے اپیل کے رد کیے جانے کی اطلاع بروقت دی جاتی۔ اس لیے کہ سپریم کورٹ کے باربار کے فیصلے موجود ہیں کہ دستور کی دفعہ ۷۲ کے تحت موت کی سزا کے بارے میں رحم کی اپیل رد کرنے کے صدارتی فیصلے پر عدالتی محاکمہ (Judicial Review) ممکن ہے اور اس طرح رحم کی اپیل رد ہونے کے بعد بھی افضل گورو کی اہلیہ کو یہ حق تھا کہ عدالت سے ایک بار پھر رجوع کرے اور اپیل کے روکے جانے کے مبنی برحق و قانون ہونے کے بارے میں عدالت کی راے حاصل کرے، لیکن اپیل رد کیے جانے کے بعد افضل گورو اور اس کے اہلِ خانہ کو بروقت اطلاع تک نہ دی گئی اور انھیں اپنے اس حق سے محروم کر دیا گیا کہ وہ عدالتی اپیل کرسکیں۔ یہ ملک کے دستور اور قانون کی صریح خلاف ورزی تھی۔
اس طرح افضل گورو کو پھانسی کی شکل ہی میں ایک بار نہیں، چار بار عدل و انصاف کا خون ہوا اور بھارت کے جمہوری نظام ہی نہیں، پورے عدالتی نظام کے کھوکھلے ہونے اور سیاسی مصلحتوں کا اسیر ہونے کا تماشا تمام دنیا نے دیکھ لیا۔ نیز یہ بھی ثابت ہوگیا کہ اس ملک میں انصاف خاص لوگوں کے لیے (selective) اور امتیازی (discriminatory) ہے اور انصاف اور قانون کو سیاست اور مصلحت کے تابع کردیا گیا ہے۔ کیا ایسے نظام کو دستوری اور جمہوری نظام کہا جاسکتا ہے؟ دیکھیے بھارت اور عالمی سطح پر انصاف کے اس اسقاط (miscarriage of justice) کا کیسے اعتراف کیا جارہا ہے۔
بھارت کی مشہور ادیبہ اور سماجی کارکن ارون دھتی راے اپنے دو مضامین میں جو لندن کے اخبار دی گارڈین میں شائع ہوئے ہیں، افضل گورو کی پھانسی کے آئینے میں بھارت کا اصل چہرہ کس طرح پیش کرتی ہے۔ پہلا مضمون ۱۰فروری کو شائع ہوا ہے اور دوسرا ۱۸فروری کو۔ اپنے پہلے مضمون میں وہ لکھتی ہیں:
۲۰۰۱ء کے پارلیمنٹ کے حملے کے ملزم افضل گورو کو صبح خفیہ طور پر پھانسی دی گئی اور اس کے جسم کو تہاڑجیل میں دفن کر دیاگیا۔ کیا اسے مقبول بٹ کے ساتھ ہی دفن کیا گیا؟ (وہ دوسرا کشمیری جس کو تہاڑجیل میں ۱۹۸۴ء میں پھانسی دی گئی)۔ افضل گورو کی اہلیہ اور بیٹے کو اطلاع نہ دی گئی(کیا ستم ظریفی ہے کہ اس الم ناک واقعے نے پوری سیاسی قیادت کو متحد کردیا ہے)۔ اتحاد کے ایک شاذ لمحے میں قوم اور کم از کم اس کی بڑی سیاسی جماعتیں کانگریس، بی جے پی اور سی پی ایم، سواے ان چند کمزور آوازوں کے جو اس پھانسی میں تاخیر کے خلاف اُٹھیں، قانون کی بالادستی کا جشن منانے کے لیے متحد ہوگئیں۔ رہا معاملہ قوم کے ضمیر کا___ وہ تو وہی ہے جو ٹی وی سے براہِ راست ہرپروگرام میں نشر ہوتا ہے اور جس کی اجتماعی ذہانت نے سیاسیات کے جذبوں پر اپنی گرفت قائم کی ہوئی ہے اور حقائق تک کی صورت گری کرتی ہے۔ ان دنوں سیاسیات کے جذبے اور حقائق پر گرفت اور اپنی اجتماعی ذہانت کو چھوڑ دیا۔ حیف کہ ایک آدمی جو مرچکا تھا اور جابھی چکا تھا لیکن پھر بھی اس پر طاری تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بزدلوں کی طرح انھیں اپنے حوصلے کو قائم رکھنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت تھی۔ کیا یہ سب اس کا غماز نہیں کہ وہ بخوبی اپنے دل میں اس بات کو جانتے تھے کہ وہ لوگ ایک انتہائی غلط کام میں تعاون کر رہے تھے۔
وہ سینیرصحافی جو بہتر طور پر جانتے ہوں گے کہ ان کے بتائے ہوئے جھوٹے بیانات کے برعکس افضل گورو ان دہشت گردوں میں شامل نہیں تھا جنھوں نے ۱۳دسمبر ۲۰۰۱ء کو پارلیمنٹ پر حملہ کیا تھا اور جنھوں نے سیکورٹی اہل کاروں پر گولی چلائی تھی جس میں چھے ہلاک ہونے والوں میں سے تین کو اس نے گولی ماری (یہ بات بی جے پی کے راجیہ سبھا کے ایم پی چندن مترا نے ۷؍اکتوبر ۲۰۰۶ء کے دی پانیر میں کہی)۔حتیٰ کہ پولیس کی چارج شیٹ بھی اس پر یہ الزام نہیں لگاتی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ شہادتیں صرف قرائن پر ہیں۔ اس طرح کی سازشوں میں عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ مجرمانہ سازش کے لیے کوئی براہِ راست ثبوت فراہم نہیں ہوتا۔ آگے چل کر کہا گیا ہے کہ اس واقعے نے جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں اموات ہوئیں، پوری قوم کو ہلاکر رکھ دیا اور معاشرے کا اجتماعی ضمیر اسی صورت میں مطمئن ہوگا، جب کہ مجرم کو سزاے موت دی جائے۔ پارلیمنٹ پر حملے کے مقدمے میں کس نے اجتماعی ضمیر کو بنایا؟ کیا یہ صرف اخبارات کی خبریں ہیں؟کیا یہ ہوسکتا ہے کہ ہم نے یہ حقائق اخبارات سے اخذ کیے یا ان فلموں سے جو ہم ٹی وی پر دیکھتے تھے؟
پھر اس کا ایک پس منظر ہے۔ دوسرے بہت سے ہتھیار ڈالنے والے جنگ جوئوں کی طرح افضل گورو کے ساتھ کشمیر میں تعذیب، بلیک میل یا استحصال کرنا آسان تھا۔ وسیع تر اسکیم میں وہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ اگر کوئی پارلیمنٹ کے حملے کے راز کو واقعی حل کرانے میں دل چسپی رکھتا تھا تو اس کے لیے شہادتوں کی بڑی تعداد ایک سراغ کی طرح تھی جس کی پیروی کی ضرورت تھی، یہ کسی نے نہ کیا۔ اس طرح یہ یقینی ہوگیا کہ سازش کے اصل کردار شناخت نہ کیے جاسکیں گے اور ان کے خلاف تفتیش بھی نہیں ہوگی۔ اب، جب کہ افضل گورو کو پھانسی دی جاچکی ہے، مجھے اُمید ہے کہ ہمارا ’اجتماعی ضمیر‘ مطمئن ہوچکا ہے یا ہمارے اجتماعی ضمیر کا پیالہ ابھی تک خون سے صرف آدھا ہی بھرا ہے؟
بھارت کے روزنامہ دی ہندو نے افضل گورو کی پھانسی کو ’انصاف نہیں انتقام‘ قرار دیا ہے۔ ادارتی کالم میں ۱۰فروری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں کہا گیا ہے کہ:
آٹھ سال گزرنے کے بعد سپریم کورٹ نے محمد افضل گورو کو ۲۰۰۱ء کے پارلیمنٹ کے حملے کے کردار کی بنیاد پر پارلیمنٹ ہائوس حیرت ناک طور پر یہ کہتے ہوئے کہ: معاشرے کے اجتماعی ضمیر کو صرف اسی صورت میں مطمئن کیا جاسکتا ہے کہ ملزموں کو سزاے موت دی جائے، پھانسی کی سزا دی۔ گورو کو اس ہولناک رسم کی ادایگی کے لیے ہفتے کی صبح پھانسی کے تختے تک لے جایا گیا جو حکومتیں وقتاً فوقتاً روایتی دیوتائوں کے غیض و غضب کی تسکین کے لیے ادا کرتی ہیں اور آج یہ دیوتا انتقام کے طالب عوام بن گئے ہیں۔ اس وحشت ناک اور خفیہ حرکت کے نتیجے میں بھارت کا قد دُنیا میں بہت زیادہ چھوٹا کردیا گیا ہے۔ اس سزا کی وجوہات صرف وہ نہیں جو بظاہر نظر آتی ہیں بشمول اس کے کہ گورو پارلیمنٹ پر حملے میں ایک بالکل معمولی سا کردار تھا جس کا مقدمہ ضابطے کی خلاف ورزیوں اور جوہری اہمیت کی حامل غلطیوں کی وجہ سے خراب ہوگیا ہو۔ سزاے موت کے لیے دیے جانے والے دلائل کا ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے جائزہ لیا اور ان کو معیار سے کم تر پایا۔ لیکن ایک دلیل جس کا کھل کر جائزہ نہیں لیا گیا(اور جو فیصلہ کن دلیل بنی) وہ وہی تھی جس کی بنا پر گورو اور دیگر بھارتی شہریوں کو تختۂ دار پر لے جایا جاتا ہے اور وہ ہے مصلحت۔ گویا پھانسی کی سزا کو ترجیح دیے جانے کے سوال کے جواب کا تعلق بڑی حد تک مصلحت سے ہے، اور انصاف سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
بھارت کا سب سے سنجیدہ رسالہ اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلیہے، جو اپنے ۲۳فروری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں ادارتی کالم میں افضل گورو کی پھانسی کو انصاف کا خون اور بھارتی حکومت کے دامن پر بدنما دھبا قرار دیتا ہے۔ پھانسی کے فیصلے، پھانسی دیے جانے کے ڈرامے اور پھانسی کے بعد جس طرح حالات کو سیاسی مصلحتوں کا کھیل بنایا گیا، اس پر مؤثر احتساب کرتا ہے:
۹فروری کی صبح افضل گورو کی پھانسی موجودہ حکومت کے خراب ٹریک ریکارڈ پر شاید تاریک ترین دھبا ہے۔ افضل گورو کا قتل غیرقانونی اور ملکی قوانین کی رُو سے رُسوا کن تھا۔ افضل گورو کی ہلاکت غیرقانونی ہے اور اس جمہوری حکومت کے قوانین کے لیے بھی رُسوا کن ہے۔ صدر سے رحم کی اپیل کے مسترد ہونے کو خفیہ رکھا گیا، اس کے خاندان اور وکلا کو آگاہ نہ کیا گیا اور ایک مجرم کی حیثیت سے اسے جو حقوق حاصل تھے انھیں استعمال کرنے کی اجازت نہ دی گئی، رحم کی اپیل مسترد ہونے پر اپیل کا حق نہ دیا گیا، اپنے اہلِ خانہ سے ملنے نہ دیا گیا اور آخری خواہش کے اظہار کا موقع بھی نہ دیا گیا۔ حکومت نے حیران کن مکارانہ اقدام کے تحت اس کی پھانسی کی اطلاع سپیڈ پوسٹ کے ذریعے اس طرح سے دی کہ وہ اس کے خاندان کو پھانسی کے بعد اس وقت ملے جب وہ ٹیلی ویژن پر اس کی خبر سن چکے ہوں۔ یہ محض ہیومن رائٹس کے علَم بردار ہی نہیں بلکہ گوپال سبرامینم، سرکاری وکیل جس نے گورو کے خلاف مقدمہ لڑا، کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی کے حوالے سے یہ حکومت کی ’بہت بڑی فروگزاشت‘ ہے۔
گورو کی پھانسی کے مسئلے کو اگرایک طرف رکھ بھی دیا جائے تب بھی کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے کہ حکومت نے وادیِ کشمیر کی پوری آبادی کو اجتماعی سزا کا نشانہ بنایا اور اس کی پھانسی کے نتیجے میں لگنے والے کرفیو کی وجہ سے عوام ضروری اشیا، دوائوں اور خبروں سے بھی محروم ہوگئے جو شہریوں کے ان حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے جن کی ضمانت دستور نے شہریوں کو دی ہے۔ حد یہ ہے کہ خود دارالحکومت (یعنی دہلی) میں بھی پولیس نے غیرقانونی طور پر اس (یعنی افضل گورو) کے بہت سے حمایتیوں اور ان کے بچوں تک کو کسی متعین الزام کے بغیر گرفتار کیا۔ گویا حکومت نے نمایشی طور پر قانون کے پردے (fig leaf) کو نظرانداز کردیا اور عوام سے بالکل اس طرح معاملہ کیا جس طرح کوئی غنڈا کرتا ہے۔
ایسے اقدام کا لازمی نتیجہ ہے کہ لوگ دُور سے دُور ہوتے جائیں اور ان کے اور حکومت کے درمیان مغائرت ہی میں اضافہ ہو، اور یہ دُوری صرف کشمیر کے لوگوں تک ہی محدود نہیں بلکہ وہ لوگ بھی اس کا شکار ہوں گے جن کو اس حکومت سے یہ توقع تھی کہ وہ روشن خیالی پر کاربند ہے خواہ یہ روشن خیالی کتنی ہی جزوی اور کچی پکّی ہی کیوں نہ ہو۔
امریکی روزنامہ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں بھارت کے ایک صحافی مانو جوزیف نے پورے مسئلے پر بڑا بھرپور تبصرہ کیا ہے اور افضل گورو کے مقدمے اور حکومت کی کارکردگی اور اس کے تضادات پر جچی تلی تنقید کی ہے لیکن سب سے اہم سوال جو اس نے اُٹھایا ہے وہ بھارت کے نظامِ عدالت کے قابلِ بھروسا ہونے سے متعلق ہے'
افضل گورو کی پھانسی جس نے اس کے خاندان کو صدمے سے دوچار کیا ہے اس نے پوری قوم کو بھی حیرت میں مبتلا کردیا ہے۔ ہاں، اس پر مختلف پارٹیوں کے سیاست دانوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے اور عام شہریوں نے بھی۔ یہ کیسی دنیا ہے جو ایک طرف افضل کے بارے میں فتویٰ دیتی ہے کہ وہ اس زمین پر زندہ رہنے کے لیے موزوں نہیں، وہیں یہ ایک انسان کی موت پر جشن تک منانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسے لوگ بھی بہت بڑی تعداد میں تھے جو اس پر نالاں اور متنفر تھے اور انھوں نے احتجاج بھی کیا۔ اور ان لوگوں کا تعلق محض وادیِ کشمیر سے نہ تھا جو افضل کی جاے پیدایش ہے اور جہاں کرفیو لگا ہوا تھا۔ اس پھانسی نے بڑے بنیادی سوالات اُٹھا دیے ہیں جو ایک بڑی تعداد کے لیے وجہِ تشویش بن گئے ہیں۔ اگر ان تمام سوالات کو ایک جملے میں سمو دیا جائے تو ان کا حاصل یہ تشویش ناک صورت ہے کہ:
کیا بھارت کا نظامِ انصاف معیاری ہے، اور یہ کہ کیا اس کی اخلاقی سند (moral authority) اس امر کے لیے تسلیم کی جاسکتی ہے کہ اس کے حکم پر ایک انسانی جان کو ختم کیا جاسکے؟
محمد افضل گورو کی شہادت نے بھارت کے جمہوریت اور انصاف اور قانون کی بالادستی کے دعووں کی قلعی کھول دی ہے اور اس پالیسی کو بے نقاب کردیا ہے جسے ریاستی دہشت گردی کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔بظاہر اس پھانسی پر بھارت کے سیاسی حلقوں میں خوشی کے شادیانے بجائے جارہے ہیں لیکن فی الحقیقت یہ اس کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہے اور ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کا ذریعہ بن سکتا ہے جو بھارت سے خیر کی توقع رکھتے ہیں۔
جس طرح افضل گورو کو پھانسی دی گئی ہے اس پر دنیا میں بھارت کے عالمی شہرت کے ایک ماہرقانون فالی ایس نریمان نے برملا کہا ہے: ہمارا بدترین دشمن بھی اس سے بہتر نہیں کرسکتا تھا جس طرح یہ کیا گیا۔ یہ بعض کے لیے ایک بدقسمتی تھا اور اس کے نتیجے میں بھارتی ریاست نے اپنے کو چھوٹا کرلیا ہے اور اُمیدوں کے کم ترین معیار کو اختیار کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔
جہاں تک کشمیر کی تحریکِ آزادی کا تعلق ہے ہمیں یقین ہے کہ اس قسم کے ہتھکنڈوں سے نہ ماضی میں اسے دبا یا جاسکا ہے اور نہ مستقبل میں اسے کوئی نقصان پہنچانا ممکن ہوگا۔ اس لیے کہ ظلم اور استبداد کی چیرہ دستیاں حق پرستوں کا راستہ کبھی نہیں روک سکی ہیں اور آزادی کی تحریکیں خون کے ایسے ہی سمندروں کو عبور کر کے اپنی منزل کا سراغ پاتی رہی ہیں۔ ان شاء اللہ یہ خونیں واقعہ کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر ایک بار پھر توجہ کا مرکز بنانے کا ذریعہ بن سکتا ہے بشرط کہ پاکستان کی حکومت اور اُمت مسلمہ کی قیادتیں اپنے کشمیر ی بھائیوں کی اس مبنی برحق جدوجہد میں اپنا کردار ادا کریں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھارت نے اس خاص موقعے پر یہ اقدام کیوں کیا؟ ہماری نگاہ میں اس کی وجہ بھارت کی وہ بوکھلاہٹ ہے اور آنے والے حالات کے باب میں اس کا وہ اِدراک ہے جو پاکستان اور علاقے کی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کی بنا پر وہ محسوس کر رہا ہے۔ پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں کشمیر کے سلسلے میں جو قلابازیاں کھائی گئیں اور بھارت کے سلسلے میں جس پسپائی کا رویہ اختیار کیا گیا اور جسے زرداری دور میں زیادہ بھونڈے انداز میں جاری رکھا گیا ہے، صاف نظرآرہا ہے کہ اب اس سلسلے کا جاری رہنا محال ہے۔
چند مہینوں میں نئے انتخابات کے نتیجے میں نئی سیاسی قیادت برسرِکار آئے گی اور وہ امریکا اور بھارت دونوں کے بارے میں موجودہ پالیسیوں پر بنیادی نظرثانی کرے گی۔ افغانستان سے امریکا اور ناٹو کی افواج کی واپسی کی وجہ سے بھی علاقے کے حالات میں بڑی تبدیلیاں آنے والی ہیں۔ عالمِ اسلام کے حالات بھی بدل رہے ہیں۔ ترکی، مصر، تیونس اور دوسرے ممالک میں ہونے والی تبدیلیوں نے پورے علاقے کے زمینی حکمت عملی (geo-strategic) کے نقشے کو بدل ڈالا ہے۔ مصر میں فروری ۲۰۱۳ء میں منعقد ہونے والی اوآئی سی کانفرنس میں عالمِ اسلام کے مسائل کے ساتھ کشمیر کو نمایاں حیثیت دی گئی ہے۔ خود پاکستان میں اس سال ۵فروری کو جس جوش اور ولولے سے ’کشمیر سے یک جہتی کے دن‘ کے طور پر منایا گیا ہے وہ آنے والے دور کی ایک جھلک پیش کرتا ہے۔ افغانستان میں امریکا نے بھارت کو جو رول دیا تھا، وہ بھی اب معرضِ خطر میں ہے اور پاکستان کی موجودہ ناکام کشمیر پالیسی میں بھی تبدیلی ناگزیر ہے۔ نیز بھارت کے اپنے اندرونی سیاسی حالات جن میں اگلے سال ہونے والے انتخابات اور بی جے پی کی نئی سیاست اہم ہیں، کانگریس حکومت کی بوکھلاہٹ کا سبب بنے ہوئے ہیں۔
ان حالات میں بھارت نے ایک بار پھر قوت سے آزادیِ کشمیر کی تحریک کو دبانے کا اشارہ دیا ہے، لیکن اس کی حیثیت ایک ناکام پالیسی کو ایک بار پھر آزمانے کی حماقت سے زیادہ نہیں ہے ۔ تاریخ کا ایک تلخ سبق یہ ہے جن کو طاقت کا گھمنڈ ہوجاتا ہے وہ تاریخ سے کم ہی سبق سیکھتے ہیں اور وہی غلطیاں بار بار کرتے ہیں جو ماضی میں اقوام کی تباہی کا سبب بنی ہیں۔ ہم پاکستان اور مسلم اُمت کی قیادت کو دعوت دیتے ہیں کہ بھارت کے اس اقدام کے پس منظر میں غور کریں اور مقابلے کی حکمت عملی بنانے پر توجہ دیں۔
یہ بہت ہی افسوس ناک ہے کہ افضل گورو کی شہادت پر جو ردعمل پاکستان کی قیادت کی طرف سے آنا چاہیے تھا وہ نہیں آیا۔ بلاشبہہ عوام اور اسلامی قوتوں نے اس کی بھرپور مذمت کی ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ صدر، وزیراعظم اور وزیرخارجہ کو یہ توفیق بھی نصیب نہ ہوئی کہ واضح الفاظ میں اور پوری شدت کے ساتھ اس کی مذمت کرتے اور کشمیر ی عوام سے یک جہتی کا اظہار کرتے۔ وزارتِ خارجہ کا بھی ایک کمزور ردعمل واقعہ سے ۴۸گھنٹے کے بعد آیا ہے جو لمحۂ فکریہ ہے۔
پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کشمیر پالیسی پر فوری نظرثانی کرے جس پر حکومت گذشتہ ۱۲سال سے عمل پیرا ہے۔ ۲۰۰۳ء میں سیزفائر کے نام پر جو قلابازی کھائی گئی تھی اس نے تحریکِ آزادیِ کشمیر کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔ بھارت نے اسرائیل کی مدد سے بارڈر کو سیل کردیا ہے اور ایسی الیکٹرانک دیوار بنا دی ہے جس نے کشمیری عوام کی مشکلات میں اضافہ اور پاکستان کی حکمت کاری کے وزن (strategic leverage) کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ پھر جنگ ِ آزادی اور دہشت گردی کے جوہری فرق کو نظرانداز کرکے پاکستان نے اس کشمیر پالیسی کا شیرازہ منتشر کردیا ہے جس پر قائداعظم کے وقت سے لے کر آج تک قومی اتفاق راے تھا۔ جنوری ۲۰۰۴ء کا مشرف واجپائی معاہدہ ہماری قومی کشمیر پالیسی کو صحیح رُخ سے ہٹانے (derail) کا ذریعہ بنا اور پھر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظرانداز (by-pass) کرنے اور روایت سے ہٹ کر حل ( out of box solution) کی تلاش میں ہماری سیاسی قیادت نے وہ بھیانک غلطیاں کی ہیں جس نے پاکستان کی سلامتی خطرے میں ڈال دی ہے اور ہمارے اسٹرے ٹیجک مفادات بُری طرح متاثر ہورہے ہیں ۔
ان حالات میں وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ مشرف اور زرداری دور کی خارجہ پالیسی کو ترک کر کے پاکستان کے مقاصد اور مفادات کی روشنی میں حقیقی طور پر آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دی جائے جس میں ملک کے نظریاتی، سیاسی، معاشی، تہذیبی اور سیکورٹی کے حساس پہلوئوں کا ٹھیک ٹھیک احاطہ کیا جاسکے۔ یہ پالیسی پاکستان کی خارجہ پالیسی ہو، پاکستان کے لیے ایسی خارجہ پالیسی نہ ہو جس کی تشکیل پر واشنگٹن، لندن اور دبئی کا سایہ ہو۔ ہماری پالیسی پاکستان میں اور وہ بھی اسلام آباد میں عوام کی مرضی اور خواہشات کے مطابق پارلیمنٹ کے ذریعے بنائی جائے۔ ملک عزیز کو دوسروں پر محتاجی کی دلدل سے نکلا جائے اور خودانحصاری کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اس کا مقصد پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی، جمہوری، فلاحی اور وفاقی ریاست بنانا ہو۔ فطری طور پر اس میں کشمیر کی بھارت کے قبضے سے آزادی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کے مستقبل کے حل کو ایک مرکزی مقام حاصل ہوگا۔ نائن الیون کے بعد اختیار کی جانے والی کشمیر پالیسی جنرل پرویز مشرف کی اُلٹی زقند اور ژولیدہ فکری کانتیجہ ہے جس کی وجہ سے ہم اپنی منزل سے کوسوں دُور جاپڑے ہیں۔
کشمیر کے عوام پاکستان سے دلی لگائو رکھنے کے باوجود پاکستان کی حکومت اور اس کی پالیسیوں سے مایوس ہورہے ہیں اور خصوصیت سے نئی نسل پریشان اور سرگرداں ہے۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان کی نئی قیادت کشمیر پالیسی کی تشکیلِ نو کرے اور اس پالیسی کو بروے کار لائے جو پاکستان اور کشمیری عوام کی اُمنگوں سے مطابقت رکھتی ہے۔ مسئلۂ کشمیر کے تین فریق ہیں، پاکستان، بھارت اور کشمیر کے عوام___ اور اصل فیصلہ کشمیر کے عوام کو کرنا ہے، اور یہ سامنے رکھ کر کرنا ہے کہ ان کے مفادات کا بہتر حصول کس انتظام میں ممکن ہے اور ان کا مستقبل کس صورت میں روشن ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے پاکستان کی کشمیر پالیسی کو جموں اور کشمیر کے عوام کے جذبات، احساسات اور عزائم کی روشنی میں مرتب ہونا چاہیے جو مشترک سوچ پر مبنی اور مشترک جدوجہد سے عبارت ہو۔
کشمیر کو اب کسی طور پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا۔ حالات میں جیسے کہ اُبال آرہا ہے اور پھٹ پڑنے کو تیار ہیں۔ موجودہ چیلنج کا مقابلہ بالغ نظری کے ساتھ باہم مشاورت ہی سے کرنا ہوگا تاکہ ایک بہتر مستقل انتظام کی راہ ہموار ہوسکے۔ محمدافضل گورو کی شہادت نے ایک تاریخی موقع فراہم کیا ہے۔
کیا پاکستان اور کشمیر کے عوام اس موقعے سے فائدہ اُٹھائیں گے، اور کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو ایک ایسا آہنگ دینے کی کوشش کریں گے جو مجاہدین کی قربانیوں کے شایانِ شان ہو؟
(’افضل گورو کی شہادت‘، منشورات سے دستیاب ہے۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲)
آج ۲۸فروری اور پاکستان میں صبح سوا بارہ بجے کا وقت ہے۔ بنگلہ دیش میں ’جنگی جرائم‘ کے ٹربیونل کا ایک جج فضلِ کبیر اپنے دوساتھیوں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا ہے، سامنے کٹہرے میں مفسرِقرآن، بنگلہ دیش میں لاکھوں دلوں کی دھڑکن ، جماعت اسلامی کے نائب امیر دلاور حسین سعیدی کھڑے ہیں، جن کا چہرہ مطمئن اور دائیں ہاتھ میں قرآن کریم ہے۔
جج کے رُوپ میں انصاف کا قاتل ۱۲۰ صفحے کا فیصلہ پڑھتے ہوئے کہتا ہے: ’’دلاور حسین کے خلاف ۲۷،اور حمایت میں ۱۷ گواہ پیش ہوئے۔ چونکہ ۲۰ الزامات میں سے آٹھ الزامات ثابت ہوئے ہیں، اس لیے:He will be hanged by neck till he is dead. (انھیں پھانسی کے پھندے پر اس وقت تک لٹکا رہنے دیا جائے جب تک یہ مر نہیں جاتے)۔
اگلے ہی لمحے ڈھاکا میں کمیونسٹوں کا اخبار ڈیلی سٹار انٹرنیٹ ایڈیشن میں سرخی جماتا ہے: Sayeed to be hanged ۔ اور انڈین ٹیلی ویژن NDTV مسرت بھرے لہجے میں بار بار یہ سرخی نشر کرتا ہے: Senior Jamaat leader gets death sentence۔
علامہ دلاور حسین سعیدی دعا کے لیے ہاتھ اُٹھاتے ہیں اور چپ چاپ، جلادوں کے جلو میں پھانسی گھاٹ جانے والی گاڑی کی طرف مضبوط قدموں کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔
۱۹۷۶ء سے دلاور حسین سعیدی، اسلامیانِ بنگلہ دیش کے دلوں پر راج کرنے اور قرآن کا پیغام سنانے والے ہر دل عزیز خطیب ہیں، جو متعدد بار پارلیمنٹ کے رکن بھی منتخب ہوچکے ہیں۔ انھیں ۲۹ جون ۲۰۱۰ء کو حسینہ واجد کی حکومت نے گرفتار کیا۔ ڈھائی برس کے عدالتی ڈرامے کے بعد آج سیاہ فیصلہ اس حال میں سنایا کہ پورا ڈھاکا شہر اور دوسرے بڑے شہر ’بارڈر گارڈ بنگلہ دیش‘ (بی جی بی) اور ’ریپڈ ایکشن بٹالین‘(آر اے بی) کی سنگینوں تلے کرفیو کا منظر پیش کر رہے تھے۔ دوسری طرف شاہ باغ میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے زیراہتمام مظاہرہ پروگرام چل رہا ہے کہ ’’مارچ میں جماعت کے لیڈروں کو پھانسی دو‘‘۔ فیصلے کے اعلان کے بعد احتجاجی مظاہرہ کرنے والے اسلامی جمعیت طلبہ کے ۳۰ کارکنوں کو گولی مار کر شہید کر دیا، سیکڑوں کو زخمی اور ہزاروں کو گرفتار کرلیا گیا۔
ہمارے محسن اور قائد مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ’اشارات‘ کا ایک مخصوص اسلوب اختیار کیا تھا۔ حتی الوسع ہم نے اس کے اتباع کا اہتمام کیا ہے۔ اس ماہ محترم قاضی حسین احمدکے تذکرے کی خاطر اس منہج میں تبدیلی کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے لیے بھی مولانا مرحوم کے دور میں دو مثالیں موجود ہیں: ایک ۱۹۴۸ء میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کے انتقال پر اور دوسرے، مولانا مسعودعالم ندوی کے وصال پر___ مولانا نے ’اشارات‘ ہی میں اللہ کے ان فیصلوں پر اپنے احساسات کا اظہار کیا تھا۔ مَیں بھی اس ماہ عام روایت سے ہٹ کر ایک شاذ نظیر پر عمل پیرا ہورہا ہوں۔ مدیر
اتوار ۶جنوری ۲۰۱۳ء نمازِ فجر سے فارغ ہوکر حسب ِ عادت سیل فون کو بیدار (on) کیا تو ایک دم ایس ایم ایس کی یلغار رُونما ہوئی۔ ۲۰ سے زیادہ ایس ایم ایس تھے لیکن پیغام ایک ہی دل خراش اطلاع تھی کہ محترم قاضی حسین احمد کا انتقال ہوگیا ہے___ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ دل کو یقین نہیں آرہا تھا۔ ابھی ۱۰ دن پہلے پروفیسر عبدالغفور احمد کا جنازہ ساتھ پڑھ کر اسی جہاز سے ہم کراچی سے اسلام آباد آئے تھے۔ صرف ایک دن پہلے جمعہ کی نماز ساتھ پڑھ کر گرم جوشی سے ایک دوسرے سے رخصت ہوئے تھے۔ اب یہ کلیجہ پھاڑ دینے والی خبر کہ جو اللہ کا پیارا تھا، وہ اللہ کو پیارا ہوگیا!
اللہ کا حکم ہرچیز پر غالب ہے، اس کے فیصلے کے آگے سرِتسلیم خم ہے، مگر دل پارہ پارہ ہے اور آنکھیں اَشک بار ہیں۔ ۱۲ دن کے اندر اندر اپنے دو محبوب ساتھیوں، بزرگوں اور قائدین سے یوں محروم ہوجانا ؎
مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب ایک سانحہ سا ہوگیا ہے
بات تو معلوم ہوچکی تھی مگر پھر بھی رفقا سے تصدیق چاہی۔ میت اسلام آباد سے پشاور لے جائی جاچکی تھی۔ نمازِ جنازہ ۳بجے پشاور میں تھی۔تلاوت اور دعاے مغفرت کے بعد پشاور کے لیے رخت ِ سفر باندھا۔ برادرم خالد رحمان اور ڈاکٹر متین رفیق سفر ہوئے۔ پہلے راحت آباد ان کے گھر پہنچے اور پھر موٹروے کے پاس اجتماع گاہ میں محترم قاضی صاحب کے جسدخاکی کے پاس کرسی نشین ہوگیا کہ کھڑے رہنے کی سکت نہ تھی۔ جس چہرے کو ۴۰ برس مسکراتے اور ہم کلام ہوتے دیکھا تھا آج اسے ہمیشہ کی نیند سوتے ہوئے مگر پُرنور حالت میں آخری بار دیکھا اور معاً لوحِ قلب پر ربِ کائنات کے یہ الفاظ اس طرح رُونما ہوئے جیسے آج ہی نازل ہورہے ہوں:
یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً o فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ o وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (الفجر ۸۹:۲۷-۳۰)، اے نفسِ مطمئنہ! چل اپنے رب کی طرف، اس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش ہو اور (اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ شامل ہوجا میرے نیک بندوں میں اور داخل ہوجا میری جنت میں۔
قاضی حسین احمد صاحب ایک سچے انسان، اللہ کے ایک تابع دار بندے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق، اُمت مسلمہ کے بہی خواہ، تحریکِ اسلامی کے مخلص خادم، کلمۂ حق کو بلند کرنے والے ایک اَن تھک مجاہد اور پاکستان کے حقیقی پاسبان تھے۔ اللہ کے دین کے جس پیغام اور مشن کو طالب علمی کی زندگی میں دل کی گہرائیوں میں بسا لیا تھا اسے پورے شعور کے ساتھ قبول کیا، اپنی جوانی اور بڑھاپے کی تمام توانائیاں اس کی خدمت میں صرف کردیں۔ اس دعوت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا، اس کی خاطر ہرمشکل کو بخوشی انگیز کیا، ہر وادی کی آبلہ پائی کی، ہر خطرے کو خوش آمدید کہا، ہرقربانی کو بہ رضا و رغبت پیش کیا اور پورے خلوص، مکمل دیانت، اور ناقابلِ تزلزل استقامت کے ساتھ زندگی کے آخری لمحے تک اس کی خدمت میں لگے رہے۔ بلاشبہہ وہ ان نفوس میں سے ہیں جن کے بارے میں ہم سب ہی نہیں در و دیوار بھی گواہی دے رہے ہیں کہ:
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o (الاحزاب ۳۳:۲۳)، ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
قاضی حسین احمد ۱۲جنوری ۱۹۳۸ء کو صوابی کی تحصیل نوشہرہ کے ایک مردم خیز گائوں زیارت کاکاخیل میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم قاضی عبدالرب نے، جو ایک معروف عالمِ دین اور جمعیت علماے ہند کے اعلیٰ عہدے دار تھے اور دیوبند مکتبۂ فکر کے گل سرسبد تھے، ایک روایت کے مطابق مولانا حسین احمد مدنی سے اپنی عقیدت کے اظہار کے طور پر اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کا نام انھی کے نام پر رکھا اور یہ ہونہار بچہ قدیم اور جدید تعلیم سے آراستہ ہوکر ۴۹سال کی عمر میں امام عصر ، مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی قائم کردہ جماعت اسلامی کا امیر منتخب ہوا اور پاکستان ہی نہیں، پورے عالمِ اسلام میں دینِ حق کی دعوت کو بلند کرنے اور تاریخ کے دھارے کو موڑنے کی عالم گیر جدوجہد میں گراں قدر خدمات انجام دینے کی سعادت سے شادکام ہوا۔ جماعت اسلامی کے تیسرے امیر کی حیثیت سے ۲۲برس تحریک کی قیادت کی اور ملک کے طول و عرض ہی میں نہیں دنیا کے گوشے گوشے میں اسلام کی دعوت کو پہنچانے کے لیے سرگرم رہا۔ ۲۰۰۹ء میں جماعت کی امارت سے فارغ ہونے کے باجود جوانوں کی طرح سرگرمِ عمل رہا۔ نومبر ۲۰۱۲ء میں ایک عالمی کانفرنس وحدتِ اُمت کے موضوع پر منعقد کی اور جدوجہد کے منجدھار میں جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔
ان کی زندگی کوششِ پیہم، جہدِ مسلسل ، عزم و استقامت اور جہاد فی سبیل اللہ کی زندگی تھی___ ایک ایسا دریا جس کی پہچان اس کی روانی، تلاطم اور بنجر زمینوں کی فراخ دلی کے ساتھ سیرابی سے تھی، جس نے اپنی ذات کو اپنے مقصدحیات کی خدمت کی جدوجہد میں گم کردیا تھا، جس کی لُغت میں آرام اور مایوسی کے الفاظ نہ تھے اور جس نے زمانے کو تبدیل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیا تھا۔ اقبال نے جس زندگی کا خواب دیکھا تھا، قاضی صاحب اس کا نمونہ تھے ؎
زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ
ُجوے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی
قاضی حسین احمد کی دینی تعلیم اور تربیت مشفق باپ کے ہاتھوں ہوئی۔ قرآن سے شغف اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ان کی گھٹی میں پڑا تھا۔ طالب علمی کے دور ہی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے نسبت قائم ہوگی اور مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے لٹریچر کا پورے شوق سے مطالعہ کیا اور ان کے پیغام کو حرزِجاں بنالیا۔ جمعیت سے تعلق رفاقت کا رہا جو جماعت اسلامی تک رسائی کے لیے زینہ بنا۔ ان کے اصل جوہر جماعت ہی میں کھلے۔ پشاور یونی ورسٹی سے جغرافیے میں ایم ایس سی کرنے کے بعد ریاست سوات میں جہان زیب کالج سیدوشریف میں بطور لیکچرار تدریسی کیریئر کا آغاز کیا لیکن تین ہی سال میں اس وقت کی ریاست کے ماحول میں وہ ’ناپسندیدہ شخص‘ قرار دے دیے گئے اور ریاست بدری پر نوبت آئی۔ اس کے بعد اپنی خاندانی روایات کا احترام کرتے ہوئے کاروبار (فارمیسی) کو آزاد ذریعۂ معاش بنایا اور ۱۹۷۰ء میں جماعت اسلامی کی رکنیت اختیار کرلی۔ جلد ہی پشاور اور پھر اس وقت کے صوبہ سرحد کے امیر منتخب ہوئے۔ سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں بھی بھرپور شرکت کی اور اس کے صدر کے عہدے پر بھی خدمات انجام دیں۔ ۱۹۷۸ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے قیم مقرر ہوئے اور اس حیثیت سے ۱۹۸۷ء تک خدمات انجام دیں۔
یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہے کہ جب اگست ۱۹۷۸ء میں پی این اے نے مارشل لا کے نظام کو جمہوریت کی طرف لانے اور انتخابات کا راستہ ہموار کرنے کے لیے حکومت میں شرکت کا فیصلہ کیا، تو جماعت کی طرف سے دیے گئے اولین ناموں میں پروفیسر عبدالغفور احمد، چودھری رحمت الٰہی اور قاضی حسین احمد کا نام تھا،لیکن قاضی صاحب کے غالباً افغانستان میں اس وقت کی تحریکِ مزاحمت سے قریبی تعلقات کی وجہ سے جنرل ضیاء الحق اور ان کے رفقا نے ان کے نام پر اتفاق نہ کیا اور پھر یہ نگہِ انتخاب محمود اعظم فاروقی پر پڑی۔میری شرکت پی این اے کے کوٹے پر نہیں تھی، حتیٰ کہ سیاسی ٹیم کے حصے کے طور پر بھی نہیں تھی۔ مجھے کابینہ کے بن جانے کے ۱۰ دن بعد بحیثیت ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن شریکِ کار کیا گیا اور یہی وہ حیثیت تھی جس کی بنا پر مجھے پلاننگ اور معیشت کا وزیر مقرر کیا گیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب امیرجماعت محترم میاں طفیل محمد صاحب نے چودھری رحمت الٰہی صاحب کی جگہ جو اس وقت قیم جماعت تھے محترم قاضی صاحب کو قیم کے لیے تجویز کیا اور مرکزی شوریٰ نے انھیں قیم مقرر کیا اور اس طرح ملکی سطح پر ان کے تاریخی کردار کا آغاز ہوا۔
مولانا مودودیؒ نے ۱۹۴۱ء سے ۱۹۷۲ء تک قید کے زمانوں کو چھوڑ کر جماعت کی امارت کی ذمہ داریاں ادا کیں۔ میاں طفیل محمدصاحب نے ۱۹۷۳ء سے ۱۹۸۷ء تک ۱۵سال تحریک کی قیادت کا عظیم اور نازک کام انجام دیا، اور ۱۹۸۷ء سے ۲۰۰۹ء تک اس خدمت کا سہرا محترم قاضی حسین احمد کے سر رہا، اور ۲۰۰۹ء سے عزیزمحترم سیّد منور حسن صاحب اس عظیم منصب پر مامور ہیں۔ جماعت اسلامی میں امیرکا انتخاب ارکان نے ہمیشہ اپنی آزاد راے کے ذریعے کیا ہے۔ کسی بھی سطح پر اُمیدواری کا کوئی شائبہ کبھی بھی نہیں پایا گیا۔ ۱۹۷۲ء سے مرکزی شوریٰ ارکان کی رہنمائی کے لیے تین نام ضرور تجویز کرتی ہے مگر ارکان ان ناموں کے پابند نہیں اور جسے بہتر سمجھیں اسے اپنے ووٹ کے ذریعے امیر بنانے کے مجاز ہیں۔ الحمدللہ یہاں نہ وراثت ہے اور نہ وصیت، نہ اُمیدواری ہے اور نہ کنوسنگ۔ اسلام کے حقیقی جمہوری اصولوں کے مطابق قیادت کا انتخاب ہوتا ہے اور بڑے خوش گوار ماحول میں تبدیلیِ قیادت انجام پاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اس روشن راستے پر قائم رکھے۔
میں آج اس امر کا اظہار کر رہا ہوں کہ ۱۹۸۷ء کے امیر جماعت کے انتخاب کے موقع پر شوریٰ نے جو تین نام تجویز کیے تھے ان میں محترم قاضی صاحب کے علاوہ محترم مولانا جان محمد عباسی اور میرا نام تھا۔ میں ایک طے شدہ پروگرام کے تحت جنوبی افریقہ میں قادیانیت کے سلسلے میں ایک مقدمے کی پیروی کے لیے کیپ ٹائون میں تھا، اور قاضی صاحب کے امیرجماعت منتخب ہونے کے لیے برابر دعائیں کر رہا تھا۔ مجھے ان کے انتخاب کی خبر کیپ ٹائون ہی میں ملی اور مَیں سجدۂ شکر بجالایا۔ الحمدللہ قاضی صاحب نے اپنی صلاحیت کے مطابق اللہ کی توفیق سے جماعت کی بڑی خدمت کی اور جس تحریک کا آغاز سید مودودی نے کیا تھا اور جس پودے کو میاں طفیل محمد صاحب نے اپنے خون سے سینچا تھا، اسے ایک تناور درخت بنانے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور ان کے لیے بلندیِ درجات کا ذریعہ بنائے، آمین!
قاضی حسین احمدصاحب سے میری پہلی ملاقات ۱۹۷۳ء میں مرکزی شوریٰ کے موقعے پر ہوئی۔ میں اس زمانے میں انگلستان (لسٹر) میں مقیم تھا اور اسلامک فائونڈیشن کے قیام میں لگا ہوا تھا۔ شوریٰ کے اجتماع کے بعد رات کو دیر تک باہم مشورے ہماری روایت ہیں۔ جس کمرے میں قاضی صاحب ٹھیرے ہوئے تھے، اس میں ڈاکٹر مراد علی شاہ کی دعوت پر ہم تینوں مل کر بیٹھے اور آدھی رات تک افغانستان کے حالات پر بات چیت کرتے رہے۔ قاضی صاحب افغانستان کا دورہ کرکے آئے تھے۔ جو نوجوان وہاں دعوتِ اسلامی کا کام کر رہے تھے، وہ ظاہرشاہ کے زمانے ہی میں ظلم و ستم کا نشانہ بننے لگے تھے اور اشتراکی تحریک اور قوم پرست دونوں اپنا اپنا کھیل کھیل رہے تھے لیکن دائود کے برسرِاقتدار آنے کے بعد حالات اور بھی خراب ہوگئے۔ مجھے اس علاقے کے بارے میں پہلی مفصل بریفنگ قاضی حسین احمد صاحب نے دی جو کئی گھنٹوں پر پھیلی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر مراد علی شاہ بھی اپنے مخصوص انداز میں لقمے دیتے رہے لیکن صورتِ حال کی اصل وضاحت (presentation ) قاضی صاحب کی تھی، اور اس طرح افغانستان اور پورے خطے کے حالات سے ان کی واقفیت اور خصوصیت سے افغانستان کے مسئلے میں گہری وابستگی (involvement) کا مجھے شدید احساس ہوا۔ انھوں نے خالص فارسی لہجے میں اقبال کا یہ قطعہ بھی پڑھا جس کی صداقت پر ان کو یقین تھا:
آسیا یک پیکرِ آب و گل است
ملّتِ افغاں در آں پیکر دل است
از فسادِ او فسادِ آسیا
در کشاد او کشادِ آسیا
(ایشیا آب و گل کا ایک پیکر ہے اور اس پیکر کے اندر ملت ِ افغان دل کی مانند ہے۔ اُس کے فساد سے سارے ایشیا کی خرابی ہے اور اس کی اصلاح میں سارے ایشیا کی اصلاح ہے۔)
افغانستان کے حالات پر جس گہری نظر اور وہاں کے لوگوں سے تعلق کی جو کیفیت میں نے قاضی صاحب میں دیکھی، اس کی مثال نہیں ملتی۔ مجھے جہادِ افغانستان کے پورے دور میں ان کے ساتھ ان معاملات میں شرکت کی سعادت حاصل رہی ہے۔ ۱۹۹۳ء میں، افغان مجاہدین کی تنظیموں میں اختلافات دُور کرنے کے لیے مصالحتی کمیشن میں ان کے ساتھ ایک ماہ مَیں نے بھی افغانستان میں گزارا اور اس وقت جس مجوزہ دستوری نقشے پر اتفاق ہوا تھا اور جسے میثاقِ مکہ کی بنیاد بنایاگیا تھا ،اس کی ترتیب میں کچھ خدمت انجام دینے کی سعادت مجھے بھی حاصل رہی ہے، لیکن تحریکِ اسلامی نے افغانستان کے سلسلے میں جو کردار بھی ان ۴۰برسوں میں ادا کیا ہے اور اس کے جو بھی علاقائی اور عالمی اثرات رُونما ہوئے ہیں، ان کی صورت گری میں کلیدی کردار محترم قاضی حسین احمد ہی کا تھا۔ اپنے انتقال سے پہلے بھی وہ اس سلسلے میں بہت متفکر تھے اور اس مسئلے کے حل کے لیے بڑے سرگرم تھے، اور فاٹا میں ان پر خودکش حملے کے علی الرغم وہ افغانستان کے لیے خود افغانوں کے مجوزہ، (یعنی افغان based) حل کے لیے کوشاں تھے، اور پاکستان اور افغانستان کو یک جان اور دو قالب دیکھنا چاہتے تھے۔ ۲۰۱۲ء میں جماعت اسلامی کے جس وفد نے صدرحامدکرزئی اور ان کی ٹیم سے مذاکرات کیے تھے، وہ بظاہر میری سربراہی میں گیا تھا لیکن اصل میرکارواں قاضی صاحب ہی تھے اور ہم سب ان کے وژن کی روشنی میں اصلاحِ احوال کی کوشش کر رہے تھے۔
قاضی صاحب کی اصل وفاداری اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی اور اس وفاداری کے تقاضے کے طور پر اُمت مسلمہ اور اس کے احیا کو اپنی زندگی کا مشن سمجھتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے سوچ سمجھ کر وہ راستہ اختیار کیا تھا جس کی طرف ہمارے دور میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے رہنمائی دی تھی اور وہ ان خطوطِ کار پر یقین رکھتے تھے جن پر جماعت اسلامی قائم ہوئی ہے۔ اس کے مقصد، طریق کار اور دستور کی وفاداری کا جو حلف انھوں نے اُٹھایا تھا، اسے عمربھر نبھانے کی انھوں نے مخلصانہ اور سرگرم کوششیں کیں۔ وہ لکیرکے فقیر نہ تھے مگر اس فریم ورک کے وفادار تھے جسے انھوں نے سوچ سمجھ کر قبول اور اختیار کیا تھا۔
مجھے الحمدللہ ان تینوں امراے جماعت کے ساتھ کام کرنے کی سعادت حاصل رہی ہے جن پر ماضی میں امارت کی ذمہ داری تھی اور موجودہ امیر کے ساتھ بھی میرا دیرینہ تعلق ہے۔ مولانا مودودیؒ کی فکر اور دعوت سے تو رشتہ ۱۹۵۰ء میں قائم ہوگیا تھا، گو خاندانی تعلقات کی وجہ سے ان کی ذات سے نسبت اس سے بھی بہت پرانی ہے۔ رکنیت کا حلف میں نے ستمبر ۱۹۵۶ء میں لیا اور ۱۹۵۷ء سے مرکزی شوریٰ میں شریک ہوں۔ مولانا محترم کے لٹریچر کے ترجمے، ادارہ معارف اسلامی کراچی اور چراغِ راہ سے وابستگی کی وجہ سے مولانا محترم کے ساتھ ۲۲برس کام کرنے کی سعادت حاصل ہے۔ میاں طفیل محمدصاحب کے ساتھ بھی ان ۲۲برس کے ساتھ ان کی اپنی امارت کے ۱۵سال اور امارت کے بعد ۲۰ سال قریبی تعلق رہا۔ اسی طرح قاضی صاحب کے ساتھ ۱۹۷۳ء کی پہلی ملاقات، ۱۹۷۸ء میں ان کے قیم مقرر ہونے اور پھر ۱۹۸۷ء میں امیرمنتخب ہونے سے لے کر ان کے انتقال تک رفاقت کی سعادت رہی۔ بلاشبہہ ان تینوں امرا کا اپنا اپنا انداز ااور مزاج تھا اور ہر ایک کا اپنا اپنا منفرد کردار بھی تھا لیکن اصل چیز وہ وژن (vision) ہے جس پر جماعت اسلامی قائم ہوئی، وہ مقاصد ہیں جو اس کی جدوجہد کے لیے متعین ہوئے، وہ طریق کار اور حکمت عملی ہے جو اتفاق راے سے طے ہوئی اور جس کا ایک حصہ دستور میں اور باقی جماعت کی قراردادوں میں موجود ہے اور جس کی تشریح ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے لٹریچر میں ہے۔ اس فریم ورک کے اندر ہر امیر نے تحریک کی قیادت اور رہنمائی کی ہے اور شوریٰ کے مشورے سے نظامِ کار کو چلایا اور ترقی کے مراحل طے کیے ہیں۔ اس طرح جہاں ایک طرف تاریخی تسلسل ہے وہیں اس کے ساتھ فطری تنوع بھی ہے کہ ع
ہر گلے را رنگ و بوے دیگر است
مولانا مودودیؒ اس تحریک کے موسّس اور وژن ہی نہیں، اس کے پورے نظامِ فکروعمل کے صورت گر تھے ۔ انھوں نے تحریک کا ایک تصور دیا جس کا جوہر اُمت کو قرآنِ پاک کے اصل مشن اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے منہج انقلاب سے ازسرِنو رشتہ جوڑنے کی دعوت ہے۔ روایت کا احترام اس کا حصہ ہے مگر روایت کی اسیری سے آزادی اور اصل منبع سے تعلق استوار کرکے اس کی روشنی میں آج کے حالات کے مطابق نبوت کے مقصد اور مشن کے حصول کے لیے نقشۂ کار وضع کرنے اور عملی جدوجہد کرنے کی دعوت اس کا مرکزی تصور ہے۔ اس انقلابی عمل کے لازماً چار پہلو ہیں:
اوّلًا: اصل مقاصد سے جڑنا، قرآن و سنت کے دیے ہوئے تصورِ دین کو سمجھنا اور پھر اس ہمہ گیر تصور کی روشنی میں اقامت ِ دین اور شہادتِ حق کی ذمہ داری کو سمجھنا، اس کو ادا کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا اور اس کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کے نقشے کو تبدیل کرنے کی سعی و جہد کو منظم اور مربوط انداز میں انجام دینے کی کوشش کرنا، اس کے لیے ضروری نظامِ کار بنانا اور افرادِ کار کو اس انقلابی جدوجہد میں لگا دینا۔ ایک جملے میں ساری توجہ کو مقصد نبوت کی صحیح تفہیم اور اسے زندگی کا مقصد بنانا ہے۔
ثانیاً: اس کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ خود اپنی تاریخ کا تنقیدی جائزہ لیا جائے، زوال کے اسباب کو متعین کیا جائے، موجود الوقت کمزوریوں کی نشان دہی کی جائے، طاقت کے سرچشموں کو فعال اور متحرک کیا جائے اور نیا راستہ اختیار کیا جائے۔
ثالثاً: اس کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ وقت کے نظام، غالب تہذیب اور اس کی بنیادوں، مقاصد، اہداف اور مظاہر کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ اپنے دور کی کارفرما قوتوں کے مثبت اور منفی دونوں پہلوئوں کا مطالعہ اور تجزیہ کیا جائے اور متعین کیا جائے کہ کون سی چیزیں ایسی ہیں جو مثبت ہیں اور ان سے استفادہ ممکن ہے، اور کون کون سی چیزیں منفی بلکہ سمِّ قاتل ہیں اور ان سے کس طرح بچاجائے۔ نیز کس طرح تاریخ کے دھارے کو موڑا جائے تاکہ شر کی قوتوں کے غلبے سے نجات پائی جاسکے اور دین حق اور منہج نبویؐ کا غلبہ اور خیر کی قوتوں کے لیے کامیابی حاصل کی جاسکے۔
رابعاً: ان تینوں کی روشنی میں آج کے دور میں تحریک اسلامی کے لیے صحیح راہِ عمل کو مرتب کیا جائے، تاکہ زندگی کے ہرمیدان میں اسلامی تصورِ حیات کے مطابق اور زندگی کے اسلامی اہداف کے حصول کے لیے ہمہ گیر جدوجہد ہوسکے اور اس کے لیے مناسب نظامِ عمل تشکیل دیا جاسکے۔
مولانا مودودیؒ نے جو تاریخ ساز کام کیا، وہ یہی ہے کہ انھوں نے ان چاروں اُمور کے بارے میں دیانت اور علمی مہارت کے ساتھ دو اور دو چار کی طرح واضح ہدایات مرتب کیں، دلیل سے اپنی بات کو پیش کیا۔ جن نفوس نے اس دعوت کو قبول کیا ان کو جماعت کی شکل میں منظم کیا اور انفرادی اور اجتماعی قوت کو اُس تبدیلی کے لیے مسخر کیا جو مطلوب تھی۔ جماعت کے نصب العین کا تعین کیا ، اس کے طریق کار کو واضح کیا اور اس کے حصول کے لیے چار نکاتی لائحہ عمل مرتب کیا جسے پوری جماعت نے دل و دماغ کی یکسوئی کے ساتھ قبول کیا، یعنی:
۱- عقیدے کا احیا ، فکری اصلاح، دورِحاضر کی فکر کا محاسبہ اور اسلامی افکار کی تشکیل نو۔
۲- تمام انسانوں کے سامنے اس دعوت کو پیش کرنا اور ان میں سے جو اسے قبول کریں ان کو منظم کرنا، ان کی تربیت کرنا اور اخلاقی اور مادی ہر اعتبار سے انھیں اس تاریخی اور انقلابی جدوجہد کے لیے تیار کرنا۔
۳- معاشرے کی اصلاح اور زندگی کے ہر شعبے کی اسلامی اقدار اور احکام کی روشنی میں تعمیروتشکیلِ نو، خاندان کا استحکام، مسجد اور مدرسے کی تنظیم نو، اور تعلیم، خدمت ، امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا اہتمام اور افراد اور اداروں کی نئی صف بندی۔
۴-ان تینوں کی بنیاد پر نظام کی تبدیلی اور انقلابِ قیادت کی جدوجہد، تاکہ فرد اور معاشرہ ہی نہ بدلے بلکہ پورا نظام تبدیل ہو اور معاشرت، معیشت، سیاست، قانون، عدالت، سب کی اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں تعمیرنو ہوسکے، اور اس طرح دین کی اقامت واقع ہوسکے۔
مولانا مودودیؒ کی امارت میں یہ سارے کام ہوئے، اور اس طرح ان کے دور کو فکروعمل ، فرد اور جماعت، سب کے لیے تشکیل و تعمیرنو کا دور کہا جاسکتا ہے۔ اس دور میں اُمت مسلمہ کی تاریخی روایت کی حفاظت اور احیا کے ساتھ روایت کے ان پہلوئوں سے نجات کی بھی کوشش کی گئی جو اس تصور سے مطابقت نہیں رکھتے تھے، اور اس طرح ایک نئی روایت کے قیام کی سعی کی گئی، جو اس پیغام اور نظامِ تہذیب کی شناخت بن سکے۔ یہ دور تعمیر کے ساتھ ایجاد، اختراع اور اجتہاد کا دور بھی تھا اور اس میں تسلسل کے ساتھ تبدیلی کا بھی ایک بڑا اہم کردار تھا۔ اہداف کا تعین، نظامِ کار کا دروبست، حکمت عملی، پالیسیاں، غرض ہرجگہ روایت اور جدت کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ ارتقا کا ایک عمل ہے جو اصل ماخذ سے مکمل وفاداری کے ساتھ نئی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ایک رواں دواں دریا کی مانند موج زن نظر آتا ہے جو ایک فکری دعوت، اخلاقی احیا کی ایک منظم جدوجہد اور ایک انقلابی تحریک کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں نئے اہداف، نئی راہیں اور نئے تجربات بھی کیے جاتے ہیں لیکن اس طرح کہ اصل بنیاد سے رشتہ مضبوط تر ہوتا جائے۔ اصل شناخت پر کوئی بیرونی سایہ نہیں پڑنے دیا جاتا لیکن پیغام اور اہداف میں صبحِ نو کی سی تازگی موجود رہتی ہے، گویا ؎
فصل بہار آئی ہے لے کر رُت بھی نئی، شاخیں بھی نئی
سبزہ و گل کے رُخ پر لیکن رنگِ قدامت آج بھی ہے
لوگ بہت سی چیزوں کو آج نیا کہتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کی آزادی کے فوراً بعد اسلامی جمعیت طلبہ کی شکل میں طلبہ کی جو آزادتنظیم دسمبر ۱۹۴۷ء میں قائم ہوئی، اور جس کی برکتوں سے آج تک ہم سب فیض یاب ہورہے ہیں۔ وہ مولانا ہی کے ایما پر قائم ہوئی تھی۔ اسی طرح حفاظتی نظربندی (Preventive Detention) اور سیفٹی ایکٹ کے خلاف اور انسانی حقوق کی بحالی کے لیے شہری آزادیوں کی انجمن (Civil Liberties Union) لبرل اور لیفٹ کے عناصر کی ہم رکابی میں مولانا مودودیؒ کی قیادت میں قائم ہوئی تھی اور محمود علی قصوری صاحب بھی اس میں برابر کے شریک تھے۔ ادب اور لیبر کے محاذ پر تنظیم سازی ۱۹۵۰ء کی دہائی میں ہوئی تھی۔ اسلامی دستور کی تحریک کا آغاز جماعت اسلامی نے کیا مگر دستور کے لیے مشترک محاذ ۱۹۵۰ء میں لیاقت علی خاں صاحب کی دستوری سفارشات کے اعلان کے بعد ہی قائم ہوگیا تھا اور ۱۹۵۱ء اور ۱۹۵۳ء کی علما کی سفارشات ان کی مساعی کا حاصل تھیں۔ اتحاد کی سیاست کاآغازمولانا محترم کے دور میں ہوا ہے اور COP (Combined Opposition Parties ، متحدہ حزبِ اختلاف) کا قیام عمل میں آیا جس میں اسلام پسند قوتوں کے ساتھ سیکولر قوتیں بھی شریک تھیں اور سہروردی صاحب ، مجیب الرحمن صاحب بھی اس کا حصہ تھے۔ جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف مشترک جدوجہد اسی زمانے میں ہوئی۔ انتخابات میں شرکت کا سلسلہ بھی اس زمانے میں ہوا۔ ۱۹۵۱ء کے پنجاب میں صوبائی انتخابات میں شرکت اور ۱۹۵۸ء کے کراچی کارپوریشن کے انتخابات میں کامیابی کا تعلق اسی دور سے ہے۔ آج بڑے اجتماعات کا چرچا ہے۔ ختم نبوت کی تحریک کے دوران اجتماعات کو کون بھول سکتا ہے اور اگر ان کو ایک خاص معنی میں سیاسی تبدیلی کے لیے کیے جانے والا مظاہرہ نہ بھی کہا جائے، لیکن ۱۹۷۰ء کا ’شوکت ِ اسلام مارچ‘ پاکستان کی تاریخ کا پہلا عظیم عوامی مظاہرہ تھا جو اپنی مثال آپ تھا۔ پھر ۱۹۷۷ء کے قومی اتحاد کے جلسوں اور جلوسوں کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے، جن میں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تبدیلی کا طبل بجا رہا تھا۔
مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ مولانا مودودی کی امارت کے دور میں تعمیروتشکیل کے ساتھ جدت و اختراع اور ضرورت کے مطابق نئے تجربات اور نئی راہوں کی تلاش ہماری روایت کا حصہ ہے۔ مولانا مودودی صاحب کی بصیرت کا یہ بھی شاہکار ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں جماعت کا نظام اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی ریت ڈالی اور اپنے اصرار پر ۱۹۷۲ء میں امارت سے فارغ ہو کر قیادت کے تسلسل اور نظام کو خودکار بنانے کا راستہ تحریک کو دکھایا ،اور اس طرح جماعت بانیِ جماعت کی زندگی ہی میں امارت اور مشاورت کے ایک ایسے نظام پر قائم ہوگئی جس کا انحصار فرد پر نہیں اجتماعی نظام پر ہے۔ یہ ایک انقلابی اقدام تھا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ تبدیلی (transition ) ایک بڑا مشکل اور نازک عمل تھا اور اس کا سہرا (credit) محترم میاں طفیل محمد صاحب کے سر جاتا ہے کہ انھوں نے جماعت کی زندگی میں خلا نہیں پیدا ہونے دیا۔ بلاشبہہ ان کے دور میں تسلسل (continuity)، استحکام (consolidation) کو مرکزی اہمیت حاصل رہی، اور ندرت اور جدت کی جگہ روایت اور جو کچھ حاصل کیا گیا ہے اس کی حفاظت کا پہلو غالب رہا لیکن اس وقت کی یہی ضرورت تھی۔ان کے دور میں بھی بڑے سخت مقامات آئے۔ فوجی حکومت سے معاملات کرنا اور ملک کو فوجی حکمرانی کے دور سے تصادم کے بغیر نکالنا، سیکولر قوتوں کا نیا کردار اور اس کا مناسب انداز میں مقابلہ، افغانستان میں روس کی مداخلت اور جہاد افغانستان میں پاکستان اور عالمِ اسلام کا کردار، ان سب چیلنجوں کے مقابلے کے لیے مؤثر اقدامات کیے گئے لیکن اس دور کا اصل کارنامہ جماعت کو بانیِ جماعت کی عدم موجودگی میں اپنے اصل مقصد، مشن اور مزاج پر قائم رکھنا تھا۔ الحمدللہ بحیثیت مجموعی اللہ تعالیٰ کی رہنمائی اور جماعت اور اس کی شوریٰ کے تعاون سے محترم میاں طفیل محمدصاحب کی قیادت میں تحریک نے اس مرحلے کو کامیابی سے سر کیا۔
۱۹۸۷ء میں امارت کی ذمہ داری قاضی صاحب پر پڑی۔ قاضی صاحب نے اس نظام کے تسلسل کو جاری رکھا جس کی حفاظت میاں صاحب محترم نے کی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ تبدیلی، اجتہاد اور جدت کی اس نہج کو پھر مؤثر اور متحرک کیا جو مولانا مودودیؒ کے دور کا حصہ تھی۔ ۳۱۳ساتھیوں کی معیت میں کاروانِ دعوت و محبت کے ذریعے ملک کے طول و عرض میں ایک ہلچل پیدا کردی۔ فوجی حکمرانی اور سرمایہ داری، جاگیرداری اور ظلم کے نظام کے خلاف آواز بلند کی اور تحریک کو ایک نیا ولولہ دیا۔ اس زمانے میں سیاسی بساط بدل گئی۔ ملک کے حالات اور عالمی صورت حال کی بھی تیزی سے قلب ِ ماہیت ہوئی۔ اس میں نئے اقدامات کی ضرورت تھی۔ جماعت کی اندرونی تنظیم اور ملک اور دنیا میں اس کا کردار، یہ سب نئے اطراف میں پیش رفت (initiative) کا تقاضاکر رہے تھے۔ قاضی صاحب نے ان تقاضوں کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ۱۹۹۰ء میں مینارِ پاکستان پر کُل پاکستان اجتماع کیا اور اس کے بعد تسلسل کے ساتھ کُل پاکستان اجتماعات کی روایت کو تازہ کردیا۔ جماعت کی دعوت اور تنظیم کی وسعت ان کی اولین ترجیح رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کی نئی صف بندی ان کی توجہ کا مرکز رہے۔ متفق کے لیے عملاً ’ممبر‘ کی اصطلاح بھی ان کی اولیات میں سے ہے۔ جمعیت طلبہ عربیہ کی سرگرمیوں کی بھی وہ حوصلہ افزائی کرتے رہے۔
نوجوانوں کو منظم اور متحرک کرنے اور ظلم کی قوتوں کے خلاف صف آرا کرنے کے لیے ’پاسبان‘ کا تجربہ انھوں نے کیا۔ اس تجربے میں قاضی صاحب کا کردار مرکزی تھا اور خرم مراد مرحوم اور میری پوری تائید ان کو حاصل تھی اورمحمد علی درانی نے بھی اس کی تنظیم میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر یہ بات ریکارڈ پر آجائے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ ’پاسبان‘ کا نام مَیں نے تجویز کیا تھا۔ افسوس کہ یہ تجربہ اس نہج پر نہ ہوسکا جس طرح ہم چاہتے تھے اور جو ہمارا وژن تھا، مگر یہ بھی جماعت کی برکت ہے کہ جب شوریٰ میں اس کے بارے میں بے اطمینانی اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوئی تو خوش اسلوبی سے ’پاسبان‘ کو ختم کردیا گیا اور ’شبابِ ملّی‘ کا ادارہ قائم کیا گیا جو اب بھی متحرک ہے۔ ’شباب ملّی‘ کا نام ہمارے مرحوم بھائی خلیل حامدی نے تجویز کیا تھا۔ اسی طرح پاکستان اسلامی فرنٹ کا تجربہ بھی ہماری تاریخ کا ایک اہم باب ہے اور خرم مراد مرحوم اور مَیں بھی اس میں قاضی صاحب کے دست و بازو تھے۔ مجھے اس امر کے اعتراف میں کوئی باک نہیں کہ یہ تجربہ بھی ہمارے تصور کے مطابق کامیاب نہ ہوسکا، اور ہمیں اعتراف ہے کہ اس کے لیے جتنا ہوم ورک ہونا چاہیے تھا اور جتنا جماعت کو اس کے لیے تیار کرنا ضروری تھا وہ ہم بوجوہ نہ کرسکے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جدت و اجتہاد کے جو اقدامات (initiatives) ہم نے ۹۰ کے عشرے میں لیے تھے، گذشتہ ۳۰سال میں دنیا کے مختلف ممالک میں انھی خطوط پر کیے گئے تجربات کامیاب ہوئے ہیں اور آج وہی تبدیلی کے لیے ماڈل بن رہے ہیں۔ قاضی صاحب محترم کی وفات پر یہ سارے خیالات دل و دماغ میں ہجوم کیے ہوئے ہیں اور میں تحریکی زندگی میں ان کے ۲۲سالہ دور کو ترقی کے اس سفر کے اہم مراحل کے طور پر دیکھتا ہوں، اور سمجھتا ہوں کہ تسلسل کے ساتھ تبدیلی اور جدت و اجتہاد جو وقت کی ضرورت تھے، اس سمت میں تحریک نے باب کشا کوششیں کیں۔
انسانوں اور جماعتوں کی تاریخ میں ضروری نہیں کہ ہرتجربہ ہراعتبار سے کامیاب ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہرتجربے کے بعد اس کا جائزہ لیا جائے، کامیابی اور ناکامی دونوں کے وجود کو متعین کیا جائے، اور ہرتعصب سے بالا ہوکر اپنے تجربات کی روشنی میں نئے تجربات کیے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اجتہاد کے دواجر ہیں، اگر صحیح ہو، لیکن اگر معاملہ خطا کا ہو، تب بھی سبحان اللہ ایک اجر تو ہے ہی ۔ محترم قاضی صاحب نے جماعت کے سیاسی کردار کو ایک نئی جہت دی۔ متحدہ مجلس عمل( ایم ایم اے) کے تجربے میں ان کا بڑا کردار تھا۔ دینی قوتوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور فرقہ وارانہ اور گروہی عصبیتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے انھوں نے بڑی مستعدی کے ساتھ کوششیں کیں جو بڑی حد تک کامیاب رہیں۔ملّی یک جہتی کونسل ان کے دور کا ایک نہایت کامیاب تجربہ اور قومی خدمت ہے، جسے جاری رکھنے اور آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
کشمیر کے مسئلے کو بھی انھوں نے بڑی جرأت اور بالغ نظری سے اُجاگر کیا، ملک میں بھی اور عالمی سطح پر بھی۔ مجھے ان کے ساتھ آٹھ مسلم ممالک میں کشمیر کے قومی وفد جس کی قیادت محترم قاضی صاحب کر رہے تھے، میں شرکت کا موقع ملا۔ اس کی تشکیل اور پروگرام کی تمام تنظیم جماعت اسلامی نے کی تھی، مگر اس میں دوسری جماعتوں کے نمایندوں کو بھی شریک کیا گیا تھا۔اس میں پیپلزپارٹی کی طرف سے بیرسٹر مسعود کوثر (جو آج گورنر خیبرپختونخوا ہیں) اور آغا ریاض، مسلم لیگ (ن) کے ایک ایم این اے اور جمعیت علماے اسلام کے محترم قاضی عبداللطیف شریک تھے۔ اس میں میڈیا کے نمایندے بھی شامل تھے۔ ۵فروری کو تحریکِ آزادیِ کشمیر کے ساتھ ’یومِ یک جہتی‘ کے طور پر شروع کرنے، ہر سال منانے اور اسے سیاسی زندگی کا ایک حصہ بنادینے میں بھی قاضی صاحب اور جماعت ہی کا بنیادی کردار ہے۔
عالم اسلام کے تمام ہی مسائل میں قاضی صاحب کی گہری دل چسپی تھی اور وہ حضور اکرمؐ کے اس ارشاد کی عملی مثال تھے کہ یہ اُمت ایک جسمِ واحدکی مانند ہے اور جس کے ایک عضو کو اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم اس کا درد محسوس کرتا ہے۔ مجھے ان کے ساتھ دسیوں ممالک کا دورہ کرنے کا موقع ملا اور میں نے دیکھا کہ جس طرح ہم پاکستان کے مسائل کے حل کے لیے بے چین ہوتے ہیں، اسی طرح وہ عالمِ اسلام کے ہر مسئلے کے لیے بے چین ہوتے تھے اور جو بن پڑتا، کرنے کے لیے مستعد رہتے تھے۔ خلیج کی جنگ کے موقعے پر میں بھی محترم قاضی صاحب کے ساتھ عالمی اسلامی تحریک کے ایک وفد کا حصہ تھا۔ ہرملک میں جس درد کے ساتھ اور جس جرأت کے ساتھ انھوں نے کویت پر عراق کے حملے کے مسئلے کو پیش کیا اور اس جنگ سے اُمت کو بچانے کے لیے کوشش کی، وہ ان کا بڑا قیمتی کارنامہ تھا۔ صدام حسین سے ملاقات میں جس جرأت سے انھوں نے اسے اس جنگ کو ختم کرنے کی دعوت دی، اس نے سب کو متاثر کیا، اور خود صدام کے اعلیٰ حکام میں سے کچھ نے بعد میں ہم سے کہا کہ یہی بات ہمارے دل میں بھی ہے مگر ہمیں رئیس کے سامنے کہنے کی جرأت نہیں، آپ نے حق ادا کردیا۔
قاضی صاحب بھی ایک انسان تھے اور ہر انسان میں کچھ نہ کچھ کمزوریاں بھی ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی وہ بہت جلد راے قائم کرلیتے تھے اور اپنے ردعمل کا اظہار بھی کردیتے تھے۔ اظہار اور کمیونی کیشن کے باب میں بھی بہت سے مواقع پر انھیں اپنے ساتھیوں کے شکوہ و شکایات سے پالا پڑا، لیکن بحیثیت مجموعی انھوں نے تحریکِ اسلامی کی قیادت کی ذمہ داری بڑی بصیرت اور خوش اسلوبی سے انجام دی۔ ان ۴۰برسوں میں میرے اور ان کے درمیان بڑا ہی قریبی تعلق رہا جس کی بنیاد اخلاص، باہمی اعتماد، مشاورت اور ایک دوسرے کے احترام پر تھی۔ میں شروع ہی سے ایک نظری اور ایک گونہ کتابی انسان ہوں اور قاضی صاحب اپنی فطرت کے اعتبار سے ایک حرکی وجود رکھتے تھے۔ جرأت اور استقامت کے ساتھ جہدِمسلسل کا شوق، جلدی نتائج حاصل کرنے کی تمنا اور سپاہیانہ جلال ان کی شخصیت کا حصہ تھا۔ علمی اور ادبی ذوق ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ قرآن ان کا اُوڑھنا بچھونا تھا تو اقبال کا کلام ان کی روح کا نغمہ۔ صداقت اور شجاعت کے ساتھ جہاد، شہادت اور کچھ کرڈالنے کا عزم ان کی شخصیت کے نمایاں پہلو تھے۔
اگر میں یہ کہوں کہ وہ جلال اور جمال کا مرقع تھے تو شاید غلط نہ ہو۔ ان کی طبیعت میں جلال کے پہلو بھی تھے، مگر صرف جلال نہیں جمال کا پہلو بھی وافر مقدار میں تھا اور بالعموم غالب رہتا تھا جس کی وجہ سے جلال کے لمحات بھی ایک لُطف دے جاتے تھے۔میرا اور ان کا رشتہ بڑا دل چسپ تھا۔ عمر میں مَیں ان سے بڑا تھا اور اس بڑائی کا وہ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی احترام کرتے تھے لیکن میں ان سے ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ عمر میں خواہ مَیں بڑا ہوں لیکن تحریک میں آپ ہی بڑے ہیں اور ہم دونوں نے دلی طور پر ایک دوسرے کو اپنے سے بڑا سمجھ کر رفاقت کے یہ ۴۰سال بڑے خوش گوار ماحول میں گزارے۔ بلاشبہہ اس عرصے میں دوچار مشکل لمحات بھی آئے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے تعلقات میں کبھی کھچائو یا تلخی پیدا نہیں ہوئی۔ کبھی انھوں نے میری راے کو قبول کرلیا اور کبھی میں نے اپنی راے کو ترک (surrender) کردیا۔ اس طرح محبت اور رفاقت کا یہ سفر بڑی خوش اسلوبی سے طے ہوتا رہا ؎
محبت کیا ہے؟ تاثیرِ محبت کس کو کہتے ہیں؟
ترا مجبور کر دینا، مرا مجبور ہو جانا
مولانا محترم نے جو شفقت اور پیار دیا، وہ ایک لمحے کے لیے بھی بھولا نہیں جاسکتا۔ دوسروں کے سامنے وہ مجھے پروفیسر خورشید کہتے تھے لیکن جب مجھ سے بات کرتے تھے تو ’خورشیدمیاں‘ کہہ کر مخاطب ہوتے تھے جس کی لذت اور حلاوت آج تک محسوس کرتا ہوں۔ میرے والدین اور اساتذہ کے بعد مولانا ہی نے مجھے ’خورشید میاں‘ کہہ کر خطاب کیا (منور بھائی کو بھی یہ سعادت حاصل ہے کہ مولانا نے ان کو ’منورمیاں‘ اور میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر انیس کو ’انیس میاں‘ کہا ہے)۔ محترم میاں صاحب ہمیشہ پروفیسر خورشید ہی کہتے رہے لیکن قاضی صاحب نے ہمیشہ ’خورشید بھائی‘ کہا جس کا دل پر گہرا نقش ہے۔یہ ان کی محبت اور شفقت تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
آج قاضی صاحب ہم میں نہیں، کل ہم بھی نہیں ہوں گے، ان کی باتیں یاد رہیں گی۔ ان کی خدمات صدقۂ جاریہ ہیں جن سے ہمارے ساتھی اور ہمارے بعد آنے والے سب ہی مستفید ہوتے رہیں گے اور ان شاء اللہ وہ بھی اس کے اجر سے شادکام ہوتے رہیں گے۔ ان کی پاک صاف زندگی، ان کے علمی اور ادبی ذوق، ان کی تحریکی خدمات، اُمت کے لیے ان کی دوڑ دھوپ اور قربانیاں، پاکستان کی تعمیر اور تشکیلِ نو کے لیے ان کی مساعی، اپنوں اور غیروں سب سے محبت، دعوت اور خدمت کی بنیادوں پر رشتہ اور تعلق کی استواری، امارت کی ذمہ داریوں کو خلوص، دیانت، محنت، قربانی و ایثار، مشاورت اور انصاف کے ساتھ ادا کرنے کی کوششیں___ یہ سب روشنی کے ایسے مینار ہیں جو ایک زمانے تک ضوفشاں رہیں گے۔ اس طرح وہ ہم سے رخصت ہونے کے باوجود ہمارے درمیان ہیں اور رہیں گے۔
ان کے انتقال پر ان کے چاہنے والوں اور ان سے اختلاف رکھنے والوں، بلکہ ذہنی بُعد تک رکھنے والوں نے جو کچھ لکھا ہے، اس سے ان کی زندگی کا ایک ایسا پہلو سامنے آتا ہے جو زندگی میں شاید اتنا نمایاں نہ تھا، یعنی ہر ایک سے خلوص اور شفقت سے معاملہ کرنا، اختلاف میں بھی حدود کا لحاظ، سختی کے ساتھ نرمی، خفگی کے ساتھ پیار، مخالفین کے ساتھ بھی ہمدردی اور پاس داری۔ ہم تو شب و روز ان کی شخصیت کے اس پہلو کو دیکھتے اور اس کا تجربہ کرتے تھے مگر جس پیمانے پر اور جس یک زبانی کے ساتھ سب ہی شرکاے غم نے ان پہلوئوں پر اظہارِ خیال کیا ہے، اس سے مولانا محمد علی جوہر کی اس پیش گوئی کی دل نے تائید کی ؎
جیتے جی تو کچھ بھی نہ دکھلایا مگر
مر کے جوہرؔ آپ کے جوہر کھلے
میں اپنے رخصت ہونے والے بھائی کے بارے میں اپنی تاثراتی گزارشات کو اقبال کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں جو محترم قاضی حسین احمد کی شخصیت کا آئینہ اور ان کے بعد ذمہ داری کے مقام پر فائز تمام افراد کے لیے ایک پیغام ہے ؎
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِکارواں کے لیے
سلطنت ِ روما کی داستانِ زوال میں ہرقوم کے لیے عبرت کا وافر سامان موجود ہے۔ ایک طرف عوام ناقابلِ برداشت مصائب و آلام میں گرفتار تھے اور دوسری طرف حکمران غفلت، بے وفائی، مفاد پرستی، ذاتی عیش و عشرت اور نام و نمود میں ایسے منہمک تھے، جیسے ملک و قوم کے اصل مسائل، مصائب اور مشکلات سے ان کو کوئی دل چسپی ہی نہ ہو۔ اس المیے کو ایک ضرب المثل میں اس طرح سمو دیا گیا ہے کہ ’’روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا‘‘۔
قائداعظمؒ کی ولولہ انگیز اور بے داغ قیادت میں اور ملت اسلامیہ پاک و ہند کی بیش بہا قربانیوں کے نتیجے میں قائم ہونے والے پاکستان کو صرف ۶۵سال کے عرصے میں خودغرض اور ناکام قیادتوں کے طفیل آج ایسی ہی کرب ناک صورت حال سے سابقہ ہے۔ ۲۰۰۸ء میں جمہوریت کے نام پر وجود میں آنے والی حکومت تو پاکستان پیپلزپارٹی کی ہے۔ لیکن اس کو سہارا دینے اور بیساکھیاں فراہم کرنے والوں میں عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی محاذ اور مسلم لیگ (ق) کا کردار بھی کچھ کم مجرمانہ نہیں۔ ستم ظریفی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) بڑی حزبِ اختلاف ہونے کے باوجود محض ’جمہوریت کے تسلسل‘ کے نام پر حقیقی اور جان دار حزبِ اختلاف کا کردار ادا نہ کرسکی اور عوام کے حقوق کے دفاع، دستور اور قانون کی حکمرانی کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر رہی۔ پھر ایسی دینی قوتیں بھی ذمہ داری سے بری قرار نہیں دی جاسکتیں جو کبھی اندر اور کبھی باہر، اور جب مرکز سے باہر ہوں تب بھی صوبے میں شریکِ کار اور جہاں ممکن ہوسکے وہاں اقتدار کی کرسیوں پر براجمان۔
یہ منظر نامہ بڑا دل خراش اور عوام کو سیاسی قیادت سے مایوس کرنے والا ہے لیکن قوموں کی زندگی میں یہی وہ فیصلہ کن لمحہ ہوتا ہے جب مایوسی اور بے عملی، جو دراصل تباہی اور موت کا راستہ ہے، کے بادلوں کو چھانٹ کر تبدیلی، نئی زندگی اور مقصد کے حصول کے لیے نئی پُرعزم جدوجہد وقت کی ضرورت بن جاتے ہیں۔ مایوسی اور بے عملی تباہی کے گڑھے میں لے جاتے ہیں اور بیداری اور جدوجہد نئی صبح کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ پاکستانی قوم اس وقت ایک ایسے ہی فیصلہ کن دوراہے پر کھڑی ہے۔
موجودہ حکومت کو بڑا تاریخی موقع ملا تھا۔ فوج کی قیادت نے ماضی کے تلخ تجربات اور فوجی مداخلت کے بار بار کے تجربات کی ناکامی کی روشنی میں بڑی حد تک اپنی دل چسپیوں کو اپنے ہی دستور میں طے کردہ اور منصبی دائروں تک محدود رکھا۔ اعلیٰ عدلیہ جو جسٹس محمد منیر کے چیف جسٹس بن جانے کے دور سے ہرآمر اور ظالم حکمران کی پشت پناہی کرتی رہی تھی، پہلی بار بڑی حد تک آزاد ہوئی اور اس نے دستور اور قانون کی بالادستی کے قیام کے بارے میں اپنی ذمہ داری کو ایک حد تک ادا کرنے کی کوشش مستعدی اور تسلسل کے ساتھ انجام دی جس پر اسے عدالتی فعالیت (Judicial activism)، حتیٰ کہ دوسرے اداروں کے معاملات میں مداخلت تک کا نام دیا گیا اور ان حلقوں کی طرف سے دیا گیا جنھیں اپنے لبرل اور جمہوری ہونے کا اِدعا ہے۔ ان میں سے کچھ بائیں بازوسے وابستہ اورترقی پسند ہونے کے بھی مدعی ہیں، حالانکہ اہلِ علم جانتے ہیں کہ بنیادی حقوق اور دستور پر عمل درآمد، دونوں کی آخری ذمہ داری عدلیہ پر ہے۔ دستور میں دفعہ ۱۸۴ شامل ہی اس لیے کی گئی ہے کہ جب دستوری حقوق کو پامال کیا جائے تو عدالت مداخلت کرے، خواہ یہ مداخلت اسے کسی ستم زدہ کی فریاد پر کرنی پڑے یا ازخود توجہ کی بنیاد پر اسے انجام دیا جائے۔یہ وہ نازک مقام ہے جہاں ایک سیاسی مسئلہ دستور کے طے کردہ اصول کے نتیجے میں بنیادی حقوق کا مسئلہ بن جاتا ہے اور عدالت کے دائرۂ کار میں آجاتا ہے۔ اسی طرح پریس کی جزوی آزادی بھی ایک نعمت تھی جس کے نتیجے میں عوام کے مسائل اور مشکلات کے اخفا میں رہنے کے امکانات کم ہوگئے اور وہ سیاسی منظرنامے میں ایک مرکزی حیثیت اختیار کرگئے۔
ان سارے مثبت پہلوئوں کو اس حکومت نے خیر اور اصلاح احوال کے لیے مددگار عناصر سمجھنے کے بجاے اپنا مخالف اور ان دونوں ہی اداروں کو عملاً گردن زدنی سمجھا، اور ایک منفی رویہ اختیار کیا جسے مزید تباہ کاری کا ذریعہ بنانے میں بڑا دخل خود ان کی اپنی ٹیم کی نااہلی (جس کی بڑی وجہ دوست نوازی، اقربا پروری اور جیالا پرستی تھی)، وسیع تر پیمانے پر بدعنوانی (corruption) اور مفاد پرستی کی بلاروک ٹوک پرستش کا رہا جس کے نتیجے میں ملک تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے ۵۰ سے زیادہ احکام کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے اور توہین عدالت کی باربار کی وارننگ اور چند مواقع پر سزائوں کے باوجود اسی روش کو جاری رکھا گیا ہے۔ انتظامی مشینری کو سیاسی اور ذاتی مقاصد کے لیے بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ معیشت کو اگر ایک طرف لوٹ کھسوٹ کے ذریعے تباہ کردیا گیا ہے تو دوسری طرف غلط پالیسیاں، توانائی کا فقدان، پیداوار میں کمی، تجارتی اور ادایگیوں کے خسارے میں بیش بہا اضافہ، مہنگائی کا طوفان، بے روزگاری کا سیلاب اور اس پر مستزاد حکمرانوں کی شاہ خرچیاں اور دل پسند عناصر کو لُوٹ مار کی کھلی چھوٹ نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ خود نیب کے سربراہ کے بقول روزانہ کرپشن ۱۰ سے ۱۲؍ارب روپے کی ہورہی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ملک کے سالانہ بجٹ سے بھی کچھ زیادہ قومی دولت کرپشن کی نذر ہورہی ہے۔ ملک کے عوام اپنی ہی دولت سے محروم کیے جارہے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کے کنارے پر کھڑا ہے۔ سارا کاروبارِ حکومت قرضوں پر چل رہا ہے جن کا حال یہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے ۲۰۰۸ء تک ملکی اور بیرونی قرضوں کا جو مجموعی بوجھ ملک و قوم پر تھا وہ ۶ ٹریلین روپے کے لگ بھگ تھا جو ان پونے پانچ سالوں میں بڑھ کر اب ۱۴ٹریلین کی حدیں چھو رہا ہے۔
ملک میں امن و امان کی زبوں حالی ہے اور جان، مال اور آبرو کا تحفظ کسی بھی علاقے میں حاصل نہیں لیکن سب سے زیادہ بُرا حال صوبہ خیبرپختونخوا، فاٹا، بلوچستان اور عروس البلاد کراچی کا ہے، جو پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کراچی کا عالم یہ ہے کہ کوئی دن نہیں جاتا کہ دسیوں افراد لقمۂ اجل نہ بن جاتے ہوں۔ کروڑوں روپے کا روزانہ بھتہ وصول کیا جاتا ہے اور اربوں کا روزانہ نقصان معیشت کو پہنچ رہا ہے۔ Conflict Monitoring Centre کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق صرف ۲۰۱۲ء میں ملک میں تشدد اور دہشت گردی کے ۱۳۴۶ واقعات میں ۲۴۹۳؍افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ نیز صرف اس سال میں امریکی ڈرون حملوں سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ۳۸۸ ہے (دی نیوز، ۲۸دسمبر ۲۰۱۲ء)۔ ایک اور آزاد ادارہ (FAFEEN) حالات کو باقاعدگی سے مانٹیر کر رہا ہے۔ اس کی تازہ ترین رپورٹ بتاتی ہے کہ صرف دسمبر ۲۰۱۲ء کے تیسرے ہفتے میں ملک میں لاقانونیت کے رپورٹ ہونے والے واقعات ۲۴۱ ہیں جن میں ۷۵؍افراد ہلاک ہوئے اور ۱۶۶ زخمی (ایکسپریس ٹربیون، ۲۶دسمبر ۲۰۱۲ء)۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔
ان تمام ناگفتہ بہ حالات کے ساتھ ملک کی سیاسی آزادی کی مخدوش صورت حال، ملک کے اندرونی معاملات میں امریکا کی بڑھتی ہوئی مداخلت اور پالیسی سازی پر فیصلہ کن اثراندازی نے محکومی اور غلامی کی ایک نئی مصیبت میں ملک کو جھونک دیا ہے۔ جمہوری حکومت کے کرنے کا پہلا کام مشرف دور میں اختیار کی جانے والی امریکی دہشت گردی کی جنگ سے نکلنا تھا، اور پارلیمنٹ نے اکتوبر ۲۰۰۸ء میں حکومت کے قیام کے چھے مہینے کے اندر واضح قرار داد کے ذریعے جنگ سے نکلنے، آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے اور سیاسی مسائل کے سیاسی حل کے راستے کو اختیار کرنا کا حکم دیا تھا، لیکن حکومت نے پارلیمنٹ کے فیصلے اور عوام کے مطالبے کو درخور اعتنا نہ سمجھا اور امریکی غلامی کے جال میں اور بھی پھنستی چلی گئی۔ آج یہ کیفیت ہے کہ ۴۵ہزار سے زیادہ جانوں کی قربانی دینے ، ایک لاکھ سے زیادہ کے زخمی ہونے اور ۳۰ لاکھ کے اپنے ملک میں بے گھر ہوجانے اور ۱۰۰؍ارب ڈالر سے زیادہ کے نقصانات اُٹھانے کے باوجود پاکستان امریکا کا ناقابلِ اعتماد دوست اورعلاقے کے دگرگوں حالات کے باب میں اس کا شمار بطور ’مسئلہ‘ (problem) کیا جارہا ہے، ’حل‘ (solution) میں معاون کے طور پر نہیں ۔ جس طرح خارجہ پالیسی ناکام ہے اسی طرح دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے عسکری حکمت عملی بھی بُری طرح ناکام رہی ہے اور عالم یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی!
یہ وہ حالات ہیں جن کا تقاضا ہے کہ کسی تاخیر کے بغیر عوام کو نئی قیادت منتخب کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ دلدل سے نکلنے کی کوئی راہ ہو اور جمہوری عمل آگے بڑھ سکے۔ ان حالات میں پانچ سال کی مدت پوری کرنے کی رَٹ ناقابلِ فہم ہے۔ دستور میں پانچ سال کی مدت محض مدت پوری کرنے کے لیے نہیں ہوتی، اچھی حکمرانی کے لیے ہوتی ہے۔ دنیا کے جمہوری ممالک کی تاریخ گواہ ہے کہ اصل مسئلہ اچھی حکمرانی ہے، مدت پوری کرنا نہیں۔ یہ کوئی ’عدت‘ کا مسئلہ نہیں ہے کہ شرعی اور قانونی اعتبار سے دن پورے کیے جائیں۔ دستور ہی میں لکھا ہے کہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ جب چاہیں نیا انتخاب کراسکتے ہیں۔ اسی طرح اگر ایوان اس پوزیشن میں نہ ہو کہ اکثریت سے قائد منتخب کرسکے تو اسمبلی تحلیل ہوجاتی ہے۔ برطانیہ میں گذشتہ ۶۵برس میں نو مواقع ایسے ہیں جب پارلیمنٹ کا انتخاب دستوری مدت پوری کرنے سے پہلے کیا گیا ہے۔ اٹلی اور یونان میں اس وقت بھی یہ مسئلہ درپیش ہے۔ خود بھارت میں آزادی کے بعد سے اب تک ۱۱ بار میعاد سے پہلے انتخابات ہوئے ہیں اور ہمارے ملک میں تو اب پونے پانچ سال ہوچکے ہیں۔ ۱۶مارچ ۲۰۱۳ء کو یہ مدت بھی ختم ہونے والی ہے جس کے بعد ۶۰دن میں انتخاب لازمی ہیں۔ مئی کا مہینہ موسم کے اعتبار سے انتخاب کے لیے ناموزوں ہے۔ سیاسی اور معاشی اعتبار سے بھی یہ وقت اس لیے نامناسب ہے کہ ملک کا بجٹ ۳۰ جون سے پہلے منظور ہوجانا چاہیے اور اگر مئی میں انتخابات ہوتے ہیں تو جون کے وسط تک حکومت بنے گی۔ اتنے کم وقت میں بجٹ سازی ممکن نہیں۔ اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ جنوری میں اسمبلیاں تحلیل کرکے ۶۰دن کے اندر انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔ اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
ہم اس بات کا بھی واضح اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ بنگلہ دیش یا اٹلی کے ماڈل کے طرز کی کوئی عبوری حکومت یا احتساب یا اصلاحات کے نام پر کوئی نام نہاد ٹیکنوکریٹ سیٹ اَپ مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ یہ عوام کے لیے ہرگز قابلِ قبول نہیں۔ یہ صرف مزید تباہی کا راستہ ہے۔ ماضی میں بھی انتخاب سے پہلے احتساب کا نعرہ آمروں نے لگایا ہے اور آج بھی یہی کھیل کھیلنے کی کوشش ہورہی ہے جو بہت خطرناک ہے۔ اس لیے صحیح سیاسی لائحہ عمل وہی ہوسکتا ہے جو مندرجہ ذیل خطوط پر مرتب کیا جائے:
۱- اسمبلی کی مدت میں توسیع یا سال دو سال کے لیے عبوری انتظام کے فتنے کو سر اُٹھانے سے پہلے ہی کچل دینا چاہیے۔اس پر غور بھی اپنے اندر بڑے خطرات رکھتا ہے۔ اس لیے یہ باب بالکل بند ہونا چاہیے۔
۲- جنوری میں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر کے، دستور کے مطابق، صرف انتخابات کے انعقاد کے لیے غیر جانب دار اور سب کے مشورے سے عبوری حکومتیں قائم کی جائیں جو ملک کو نئی سمت دینے کے لیے نہیں ،صرف جلد از جلد آزادانہ طور پر شفاف انتخابات منعقد کرانے کے لیے ہوں۔ جو انتخابی اصلاحات ازبس ضروری ہیں، وہ باہم مشورے سے کسی تاخیر کے بغیر کردی جائیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں الیکشن کمیشن جو الحمدللہ قابلِ بھروسا ہے، اپنی دستوری ذمہ داری ادا کرے اور عدلیہ اور فوج کی ضروری مدد سے انتخابی عمل کو مکمل کرے۔ اس سلسلے میں سیاسی جماعتیں بھی ذمہ داری کا ثبوت دیں اور دستور کی دفعہ ۶۲ اور ۶۳ کا خود بھی احترام کریں اور وہ راستہ اختیار کریں کہ ان کی کھلی کھلی خلاف ورزی کرنے والے افراد کی اُمیدواری کے مرحلے ہی پر تطہیر ہوسکے۔ انتخابی قواعد پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے، انتظامیہ مکمل طور پر غیر جانب دار ہو اور عدلیہ اس بارے میں پوری طرح چوکس رہے۔ الیکشن کمیشن کا کردار اس سلسلے میں سب سے اہم ہے۔
۳- فوج کی یا خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کسی صورت میں بھی قابلِ قبول نہیں۔ یہ نہ تو ملک کے مفاد میں ہے اور نہ خود فوج کے۔ البتہ دستور کے تحت انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لیے الیکشن کمیشن جس حد تک فوج یا دوسری سیکورٹی ایجنسیوں سے مدد لینا چاہے، اس کا دیانت داری سے اہتمام کیا جائے، اور پولنگ کے دن امن و امان کے قیام اور پولنگ اسٹیشنوں کو بدعنوانی سے محفوظ رکھنے کے لیے واضح اور کھلاکردار ادا کرے۔
۴- سیاسی جماعتیں قوم کے سامنے اپنا منشور، پروگرام واضح کریں، وہ ٹیم لائیں جو اس پروگرام پر عمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، تاکہ محض برادری اور جنبہ داری کی بنیاد پر سیاسی نقشہ نہ بنے بلکہ اصول، پروگرام، کردار اور صلاحیت اصل معیار بنیں۔ میڈیا کو بھی اس سلسلے میں دیانت اور غیرجانب داری کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ میڈیا کے لیے جو ضابطہ اخلاق اختیار کیا جائے اس میں اس پہلو کو بھی مرکزی اہمیت دی جائے۔ الیکشن مہم کے سلسلے میں الیکشن کمیشن نے جو ضابطہ کار مرتب کیا ہے، اس پر اگر ٹھیک ٹھیک عمل ہو تو میڈیا کی اور اُمیدواروں کی گھرگھر جاکر ووٹروں سے رابطے کی مہم کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہوگی جس میں بڑا خیر ہے۔ اس طرح دولت کی اس نمایش کو ختم کیا جاسکتا ہے جو سیاسی بدعنوانی کا عنوان بن چکی ہے۔
۵- ترقی پذیر ممالک میں اور خاص طور پر پاکستان میں بیرونی ممالک اور ان کی پروردہ این جی اوز کا کردار روزافزوں ہے۔ ان کے عمل دخل کے بارے میں صحیح پالیسی بنانے اور پھر مناسب اقدام کرنا ضروری ہیں۔ بیرونی سرمایہ اور بیرونی کارپرداز اپنے مقامی کارندوں کے ذریعے اپنا اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ پاکستان کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے ان پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس میدان میں بھی ہرقسم کی مداخلت اور اثراندازی کو آہنی ہاتھوں کے ساتھ روکنے کا انتظام ضروری ہے۔
۶- ہم قوم اور تمام دینی اور سیاسی قوتوں سے آخری بات یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے ملک اور اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر، ذاتیات اور مفادات سے بالا ہوکر اپنا فرض اداکریں۔ ووٹ ایک امانت ہے اور ایک ذمہ داری۔ اگر ہم ووٹ دینے کے لیے گھروں سے باہر نہیں نکلتے اور اپنی ذمہ داری کو خود ادا نہیں کرتے تو پھر غلط لوگوں کے مسلط ہوجانے کا گلہ کس کام کا۔ یہ سب خود ہمارا کیا دھرا ہے کہ اچھے لوگ گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں اور طالع آزما اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ اس لیے عوام کو سمجھنا چاہیے کہ ان کو اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے اور اپنے دین و ایمان، نظریاتی شناخت، آزادی اور خودمختاری کے تحفظ اور سماجی اور معاشی انصاف کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی اور انتخابات میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر تبدیلی ممکن نہیں۔ تبدیلی کے لیے پہلا قدم خود اپنے کو تبدیل کرنا اور اپنی ذمہ داریوں کو دیانت داری سے ادا کرنا ہے۔
اس وقت ملک جن نازک حالات سے دوچار ہے، ان میں ضرورت ہے کہ اہلِ خیر زیادہ سے زیادہ متحد ہوں۔ اچھے، دیانت دار لوگوں، گروہوں اور جماعتوں کے درمیان تعاون ہو اور اچھے لوگ اپنی قوتوں کو بٹ جانے سے روکیں۔ اس کے لیے اتحاد ہی واحد راستہ نہیں۔ تعاون اور اشتراک کے ہزار طریقے ہیں۔ تعاونِ باہمی کا کوئی بھی راستہ اختیار کریں تاکہ قوم کے بہترین عناصر ایک دوسرے کا سہارا بن کر مفاد پرستوں کے منصوبوں کو خاک میں ملا سکیں۔ آنے والے چند مہینے بڑے فیصلہ کن ہیں اور فیصلے کا انحصار ہماری اپنی سعی و کاوش اور جدوجہد پر ہوگا۔ منزل اور اہداف کا ٹھیک ٹھیک تعین کیجیے اور پھر ان کے حصول کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر سرگرم ہوجایئے۔ تبدیلی اور اصلاح کا بس یہی راستہ ہے کہ ’’جو بڑھ کر خود اُٹھا لے ہاتھ میں، مینااسی کا ہے‘‘۔ آپ یہ راستہ اختیار کریں، پھر اللہ کی مدد بھی آپ کے ساتھ ہوگی کہ اس کا وعدہ ہے:
وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ط (العنکبوت ۲۹:۶۹)،جو لوگ ہمارے راستے میں جدوجہد کرتے ہیں ہم انھیں اپنے راستوں کی طرف ضرور ہدایت دیں گے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخِ انسانی کا ہر باب ظلم، ناانصافی اور خوں آشامی کی دل خراش داستانوں سے بھرا پڑا ہے، وہیں یہ بھی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ ظلم کی بالادستی کو کبھی دوام حاصل نہیں ہوسکا۔ جب بھی مظلوم اور ستم زدہ انسانوں نے ظلم اور محکومی کی زنجیریں توڑ کر غاصب آقائوں کے نظام کو چیلنج کیا ہے، اور مزاحمت اور مقابلے کا راستہ اختیار کیا ہے تو بالآخر وہ ظلم کے نظام کو پاش پاش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، چاہے اس جدوجہد میں کتنا بھی وقت کیوں نہ لگا ہو۔ اس کے برعکس اگر ظلم کے نظام کو چیلنج نہ کیا جائے یا اس سے سمجھوتا کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جائے، تو پھر ظلم کی رات طویل اور تاریک سے تاریک تر ہوتی جاتی ہے، اِلاَّ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو اور تاریخ ایک نئی کروٹ لے لے۔
زندگی حق و باطل کے درمیان کش مکش ہی سے عبارت ہے۔ ظلم، ناانصافی اور حق تلفی کرنے والی قوتیں بظاہر کتنی ہی قوی کیوں نہ ہوں، بالآخر حق اور انصاف کو غلبہ حاصل ہوتا ہے بشرطیکہ صبر، استقامت اور حکمت کے ساتھ اس کے مقابلے کے لیے جدوجہد کی جائے اور غالب نظام کی کمر توڑنے کے لیے مؤثر تدابیر اختیار کی جائیں۔ پھر چشم تاریخ بار بار یہ منظر دیکھتی ہے کہ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا ،’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، اور باطل تو بلاشبہہ مٹنے والا ہے‘‘(بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)۔ تاریخ نے یہ منظر بھی بار باردیکھا ہے کہ حق کے غلبے کے لیے مظلوموں کی جدوجہد مادی اور عسکری قوت کی قاہری اور طرح طرح کے منفی ہتھکنڈوں کے باوجود بھی رُونما ہوجاتی ہے جس کی طرف خود اللہ تعالیٰ نے متوجہ کیا ہے کہ کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِط وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَo (البقرہ ۲:۲۴۹)، ’’بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے ۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے‘‘۔ شرط اللہ پر بھروسا، مقصد کی حقانیت اور صداقت اور جدوجہد میں صبر اور استقامت ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر ظلم کی تاریک رات کبھی ختم نہ ہو، اور جو ظالم اور غاصب ایک بار غالب آجائے پھر اس سے نجات کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ اس حکمت ِربانی کا یہ جلوہ تاریخ کے ہر دور میں دیکھا جاسکتا ہے کہ:
وَ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِج وَ لِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُھَدَآئَ ط وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ o(اٰل عمرٰن۳:۱۴۰) یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں، اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہوں، کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں۔
الحمدللہ، تاریخ کے اس تاب ناک عمل کا نظارہ ہم اپنی مختصر زندگیوں میں باربار کر رہے ہیں۔ عالمی اُفق ہو یا مسلم دنیا کے دروبست، غالب اور غاصب قوتوں کے ایوانوں میں ہلچل ہے اور ایک کے بعد دوسرا بت گر رہا ہے۔ عرب دنیا نئی کش مکش اور مثبت تبدیلیوں کی رزم گاہ بنی ہوئی ہے۔ جنھیں اپنی قوت کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا دعویٰ تھا، ان پر قوت کے محدود ہونے کی حقیقت کا انکشاف ہو رہا ہے۔ جو مدمقابل کو تہس نہس کردینے، صفحۂ ہستی سے مٹادینے اور مدمقابل کو پتھر کے دور میں پھینک دینے کے دعوے کرتے تھے، وہ جنگ بندی اور ایک دوسرے کی سرحدوں کو پامال نہ کرنے کی زبان استعمال کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
امریکا کی مکمل تائید اور شہ پر اسرائیل نے جس زعم اور رعونت کے ساتھ غزہ پر تازہ یورش کی تھی اور آگ اور خون کی بارش کا آغاز کیا تھا، آٹھ دن تباہی مچانے کے بعد خود اس کی اور اس کے سرپرستوں کی کوششوں کے نتیجے میں ایک ایسا معاہدہ وجود میں آیا ہے، جس کے بڑے دُور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر معاملات کو حکمت اور جرأت سے آگے بڑھایا جائے تو ایک نیا نظام وجود میں آسکتا ہے جس کے نتیجے میں شرقِ اوسط کو ایک نئی جہت دی جاسکتی ہے۔
۱۴نومبر ۲۰۱۲ء کو اسرائیل نے غزہ پر ایک بڑا حملہ کیا۔ چشم زدن میں ۸۰ سے زائد میزائل اور تباہ کن بم داغے گئے اور حماس کے ایک اہم ترین کمانڈر اور سیاسی اعتبار سے دوسری بڑی شخصیت احمدجعبری کو شہید کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ F-16 کے ذریعے غزہ پر تابڑتوڑ حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جو آٹھ دن تک جاری رہا۔ اس اثنا میں اسرائیل نے ۱۵۰۰ اہداف کو نشانہ بنایا۔ اسرائیل نے پہلے جو جنگ مسلط کی تھی اور جو ۲۲دن جاری رہی تھی، اس کے مقابلے میں، خود اسرائیلی وزیراعظم کے بقول، جس بارودی قوت کو استعمال کیا گیا وہ اس سے دس گنا زیادہ تھی۔ ایک بین الاقوامی تحقیق کی روشنی میں حماس نے جو جوابی کارروائی راکٹ اور میزائل کے ذریعے کی ہے، اسرائیلی قوت کا استعمال اس سے ایک ہزار گنا زیادہ تھا۔
ان آٹھ دنوں میں غزہ میں ۱۶۳؍افراد شہید ہوئے، جن میں سے دوتہائی بچے اور خواتین تھیں۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے متجاوز ہے اور ان میں بھی بچوں اور خواتین کا تناسب یہی ہے۔ اسرائیل نے فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تین چوتھائی سے زیادہ اہداف سول اور غیرسرکاری مقامات تھے، جن میں عام مکانات، باغات، بازار، پُل، سرکاری، نجی اور اقوام متحدہ کے فیصلوں کے تحت چلنے والے اسکول، ہسپتال، سڑکیں، راہداری کی سرنگیں اور خوراک کے ذخیرے سرفہرست ہیں۔ سرکاری عمارتوں میں بھی نشانہ بننے والی عمارتوں میں وزیراعظم کے دفاتر، تعلیم اور ثقافت کی وزارت کی عمارتیں اور پولیس اسٹیشن نمایاں ہیں۔ مغربی میڈیا نے انسانی اور مادی نقصانات کا تذکرہ اگر کیا بھی ہے تو سرسری طور پر، ان کی ساری توجہ اسرائیل کے لوگوں کے حفاظتی بنکرز میں پناہ لینے اور خوف پر مرکوز رہی ہے، جب کہ فلسطین کے گوشت پوست کے انسانوں، معصوم بچوں اور عفت مآب خواتین کا خون، ان کے زخم اور مادی نقصانات اس لائق بھی نہ سمجھے گئے کہ ان کا کھل کر تذکرہ کیا جاتا، حالانکہ اسرائیل اور غزہ کے لوگوں کے جانی نقصان کا تناسب ۱:۳۱ اور مالی نقصان کا تناسب ۱:۱۰۰ تھا۔
اسرائیل اور اس کے پشتی بان امریکا اور مغربی ممالک کی طرف سے ایک بار پھر وہی گھسی پٹی بات دہرائی گئی ہے کہ: ’’اسرائیل نے یہ سب کچھ اپنے دفاع میں کیا‘‘۔ ساتھ ہی یہ کہا گیا ہے کہ حالیہ تنازع کی شروعات بھی فلسطینیوں ہی کی طرف سے ہوئی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کی یہ کارروائی بڑے سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے اور اس کے ناقابلِ تردید ثبوت سامنے آگئے ہیں۔ کمانڈر احمد جعبری کو نشانہ بنانے کی تیاریاں کئی ماہ سے ہورہی تھیں۔ اسی طرح یہ اسرائیل کی مستقل حکمت عملی ہے کہ وقفے وقفے کے بعد غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیاں کرے اور اس طرح وہ فلسطینی عوام کی مزاحمتی تحریک میں پیدا ہونے والی قوت کو وقفے وقفے سے کچل دے۔ فلسطینیوں کو اتنا زخم خوردہ کردیا جائے کہ وہ آزادی کی جدوجہد تو کیا، اس کا خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیں اور مکمل اطاعت اور محکومی کی زندگی پر قانع ہوجائیں۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنے اس تجزیے کی تائید میں ہم چند عالمی مبصرین کی راے بھی پیش کردیں، تاکہ یہ بات سامنے آسکے کہ اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا کا پروپیگنڈا خواہ کتنا ہی زورآور کیوں نہ ہو، وہ سب کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتا:
لندن کے اخبار دی گارڈین کا بیت المقدس کا نمایندہ ہیریٹ شیروڈ اخبار کی ۱۴نومبر ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں غزہ سے جانے والے اِکا دکا راکٹوں کا حوالہ دے کر صاف الفاظ میں لکھتا ہے کہ: ’’کئی مہینوں سے آپریشن پِلر آف ڈیفنس (Pillar of Defence) کی توقع کی جارہی تھی‘‘۔
واضح رہے کہ یہ رپورٹ اس دن کئی گھنٹے پہلے نشر کی گئی جس دن بڑے حملے کا آغاز ہوا اور کمانڈر احمد جعبری کو شہید کیا گیا۔ اسرائیلی دانش ور اور سابق رکن پارلیمنٹ یوری ایونری اخبار کاؤنٹر پنچ (۱۶-۱۸ نومبر ۲۰۱۲ء ) میں لکھتا ہے:
غزہ کی پٹی پر تنازعات کا ’آغاز‘ نہیں ہوتا۔ یہ دراصل واقعات کی ایک مسلسل زنجیر ہے۔ ہر ایک کے بارے میں یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ یہ کسی سابق اقدام کا ردعمل ہے یا اس کے ردعمل میں کیا جا رہا ہے۔ عمل کے بعد ردعمل آتا ہے۔ اس کے بعد جوابی حملہ، اور اس کے بعد ایک اور غیرضروری جنگ،Another superfluous war ۔
مغرب کے سیاست دانوں اور میڈیا نے غزہ پر اسرائیل کے حملے پر جس طرح زعم و ادعا پر مبنی انداز اختیار کیا ہے، اس سے آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ اسرائیل کو ایک بیرونی طاقت کے بغیر اُکسائے حملے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مغرب کے بیش تر میڈیا نے اسرائیل کے اس دعوے کو تسلیم کیا اور آگے بڑھایا ہے کہ اس کا حملہ حماس کے راکٹ حملوں کی محض جوابی کارروائی ہے۔ بی بی سی اس طرح بات کرتا ہے جیسے کہ پرانی نفرتوں کی بنیاد پر آپس کا جھگڑا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ ایک مہینے کے واقعات کے تسلسل کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل نے جنگ کو بڑھانے کے لیے خرطوم میں ایک اسلحہ ساز فیکٹری پر حملے سے لے کر جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ حماس کو اسلحہ فراہم کرتی ہے، گذشتہ اکتوبر میں ۱۵ فلسطینی مجاہدین کو قتل کرنے، نومبر کے شروع میں ایک ذہنی طور پر معذور فلسطینی کو قتل کرنے، اسرائیل کے ایک حملے میں ایک ۱۳سالہ بچے کوقتل کرنے، اور حماس کے لیڈر احمد جعبری کو پچھلے بدھ کو عارضی صلح کے لیے مذاکرات کے عین موقع پر قتل کرنے تک ایک کے بعد ایک اقدام کرکے جنگ کو آگے بڑھایا ہے۔
اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو کافی تحرک ملا کہ وہ خون ریزی کا ایک نیا دور شروع کردیں۔ اسرائیلی انتخابات کے سامنے ہونے کا تقاضا تھا (فلسطین پر اسرائیلی حملے اسرائیلی انتخابات سے پہلے کی ایک کارروائی ہیں) کہ مصر کے نئے اخوان المسلمون کے صدر محمد مرسی کو جانچا جائے، اور حماس پر دبائو ڈالا جائے کہ وہ دوسرے فلسطینی گوریلا گروپوں کو جھکا دے، اور ایران سے کسی مقابلے سے قبل میزائل کو تباہ کردیا جائے، اور ساتھ ہی یہ بھی پیش نظر تھا کہ Iron Dome کے میزائل شکن نظام کو آزمایا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کو اس طرح پیش کرنا کہ وہ مظلوم ہے اور اسے سرحدوں سے باہر کے حملے کی صورت میں اپنے دفاع کا ہرحق حاصل ہے، حقائق کو بُری طرح مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ اسرائیل مغربی کنارے اور غزہ پر ناجائز قبضہ کیے ہوئے ہے، جہاں کی آبادی کا بیش تر حصہ ان مہاجروں کے خاندانوں پر مشتمل ہے جو ۱۹۴۸ء میں فلسطین سے نکالے گئے تھے۔ اس لیے اہلِ غزہ مقبوضہ لوگ ہیں اور مزاحمت کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں بشمول فوجی مزاحمت کے(لیکن شہریوں کو ہدف نہ بنائیں)، جب کہ اسرائیل ایک قابض قوت ہے جو واپس ہونے کی پابند ہے، نہ کہ جن سرحدات پر اس کا کنٹرول ہے ان کا دفاع کرے اور محض فوجی طاقت کے بل پر سامراجی اقتدار کو مستحکم کرے۔
سیوماس ملن نے جن اسباب کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کی مطابقت اس امر کی یاددہانی سے بڑھ جاتی ہے، کہ یہ حملے اسرائیل کی مستقل حکمت عملی کا حصہ ہیں اور امریکی صدارتی انتخابات اور اسرائیل کے اپنے انتخابات کے ہرموقعے پر ایسا ہی خونیں ڈراما رچایا جاتا ہے۔ دسمبر۲۰۰۸ئ- جنوری ۲۰۰۹ء کا اسرائیلی آپریشن امریکی صدارتی انتخابات اور صدارت سنبھالنے کے دوران ہوا، اور حالیہ آپریشن، امریکی صدارتی انتخاب کے چند دن بعد۔ خود اسرائیل کے انتخابات ۲۲ جنوری ۲۰۱۳ء کو طے ہیں اور نیتن یاہو اور اس کے دائیں بازو کے اتحادی اور فلسطینیوں کے سب سے بڑے دشمن لیبرمین کا مشترکہ منصوبہ تھا کہ انتخاب سے پہلے غزہ کی تحریکِ مزاحمت کی کمر توڑ دیں اور انتخابات کے بعد ایران پر حملے کے لیے اپنی پشت کو محفوظ کرنے کا سامان بھی کرلیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی مقصود تھا اور سچ ہے کہ اللہ کی تدبیر ہی ہمیشہ غالب رہتی ہے: وَمَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ o اٰل عمرٰن ۳:۵۴)، ’’اور وہ خفیہ تدبیریں کرنے لگے، جواب میں اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی۔ اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے‘‘۔
اس جنگ سے ان تمام مقاصد کے ساتھ جن کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے، اسرائیل کا اصل مقصد فلسطین کی تحریکِ آزادی کی اصل قوت حماس کو عسکری، مادی، سیاسی اور اخلاقی اعتبار سے تباہ کرنا تھا۔ فلسطینی حریت پسند تحریک ’الفتح‘ کو گذشتہ ۴۰برس میں اسرائیل نے قوت اور ڈپلومیسی، عسکریت اور سیاسی رشوت،خوف اور لالچ کا ہرحربہ استعمال کرکے غیرمؤثر کردیا۔ پہلا وار اپنے حلیفوں کے ذریعے اُردن میں ۱۹۷۰ء میں کیا گیا۔ پھر تحریکِ مزاحمت کے دوسرے بڑے مرکز لبنان میں ۱۹۸۲ء میں تصادم کا خونیں ڈراما رچا کر وہاں سے بے دخل کیا گیا۔ تیونس میں بھی کھلی کھلی جارحیت کے ذریعے ضرب پر ضرب لگائی گئی اور بالآخر ہرطرف سے دائرہ تنگ کرکے اوسلو معاہدے اور کیمپ ڈیوڈ کے ڈرامے (۱۹۷۸ئ) کے ذریعے فلسطینی لیڈر یاسرعرفات اور ’تحریک آزادی فلسطین‘ (PLO) کو امن اور دو ریاستی نظام کے چکر میں ڈال دیا اور تحریکِ آزادیِ فلسطین کو کچھ دیے بغیر اپنے دونوں بنیادی مطالبے منوائے، یعنی اسرائیل کو تسلیم کرانا اور جہاد اور مزاحمت کے راستے کو خیرباد کہہ کر نام نہاد سفارت کاری اور مذاکرات پر مکمل انحصار۔
اسرائیل کی عیارانہ حکمت عملی کا نتیجہ سب نے دیکھ لیا کہ اوسلو معاہدے میں پانچ سال کے اندر مستقل انتظامات کا لالچ دیا گیا تھا، لیکن ۲۰سال کے بعد صورت یہ ہے کہ ارضِ فلسطین کے صرف ۲۲فی صد کاجو وعدہ فلسطینیوں سے کیا گیا تھا، اس پر اسرائیلی تسلط اسی طرح موجود ہے جس طرح ۱۹۶۷ء کے بعد قائم ہوا تھا۔ اس ۲۲ فی صد کے نصف سے زیادہ علاقے پر اسرائیلی آبادکار قابض ہیں اور یہ ۶لاکھ مسلح آبادکار جنوبی افریقہ کے ماڈل کی طرح نسلی امتیاز کی بنیاد پر (apartheid) ریاست قائم کیے ہوئے ہیں۔ تمام سڑکیں ان کے پاس ہیں، سیکورٹی کا نظام ان کے ہاتھ میں ہے، فوج اور کرنسی ان کی ہے۔ محصول وہ وصول کرتے ہیں اور نام نہاد فلسطینی اتھارٹی کو کچھ خیرات دے دیتے ہیں اور ان کی ہرنقل و حرکت پر اسرائیل کا مکمل کنٹرول ہے۔ غزہ کے چند سو مربع کلومیٹر کا جو علاقہ حماس کی جرأت اور حکمت کی وجہ سے فلسطینیوں کے پاس ہے، اس کی حیثیت بھی کرئہ ارض پر سب سے بڑے کھلے قیدخانے کی سی ہے اور یہ بھی ایک کرشمہ ہے کہ اسرائیل کی ساری ناکہ بندیوں کے باوجود ۱۷لاکھ اہلِ ایمان اس محاذ کو سنبھالے ہوئے ہیں، گویا ع
اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جارہے ہیں
نومبر ۲۰۱۲ء کی فوج کشی اور فضائی جارحیت کا اصل مقصد حماس کی کمر توڑنا اور غزہ کو تہس نہس کرنا تھا، تاکہ بالآخر مغربی کنارے کو مدغم کرلیا جائے اور اس طرح فلسطین کے مسئلے کا ان کی نگاہ میں آخری حل (final solution) ہوجائے۔ اسرائیلی قیادت نے اپنے ان عزائم کا اظہار کھلے الفاظ میں کردیا تھا، اس کے لیے پوری تیاری تھی۔ امریکا کی پوری پوری اعانت اور شراکت داری تھی اور یہ سب کچھ اسی مجبور اور کمزور بستی کے لیے تھا، جسے پہلے ہی نہ صرف ایک جیل خانہ بنادیا گیا تھا، بلکہ ہرسہولت سے محروم کردیا گیا تھا اور آہستہ آہستہ موت کے شکنجے میں کَس دیا تھا۔ نوم چومسکی نے اسرائیلی حملے سے صرف ایک ماہ پہلے اسی غزہ میں چند دن گزار کر اس بستی کی حالت کی جو منظرکشی کی ہے، وہ نگاہ میں رکھنا ضروری ہے:
غزہ میں یہ معلوم کرنے میں ایک دن بھی نہیں لگتا کہ یہ احساس کیا جاسکے کہ زندہ بچ جانا کیسا ہوگا؟ جہاں۱۵ لاکھ انسان مسلسل وقت بے وقت کی اور اکثر ہولناک دہشت گردی کا شکار ہوں اور من مانی سزائیں زندگی کا ایسا معمول بن جائیں جن کا اس کے سوا کوئی مقصد نہ ہو کہ محکوم انسانوں کی تذلیل اور تحقیر کی جائے۔
غزہ کو نوم چومسکی نے the World's largest open air prison (دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل) قرار دیا۔ (دی نیشن، ۱۵ نومبر ۲۰۱۲ئ)
غزہ پر حملے اور اس کو نیست و نابود کرنے کے اسرائیلی عزائم، امریکا اور دوسری مغربی قیادتوں کے اعلانات، ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں۔امریکا میں اسرائیل کا سفیر مائیکل ڈورن، حماس کی یہ تصویر امریکا اور دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے:’’کھلی یہودیت دشمنی اور نسل کشی کے مذہب کی پابندی کی وجہ سے حماس کو کسی امن معاہدے پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا، ہاں اسے جنگ سے روکا جاسکتا ہے‘‘ (ہیرالڈ ٹربیون، ۲۲نومبر۲۰۱۲ئ)۔موصوف نے یہ بھی کہا کہ: ’’ہمیں انھیں ختم کردینا چاہیے تاکہ ہم اعتدال پسندوں کے ساتھ بیٹھ سکیں اور امن کی گفتگو کرسکیں‘‘۔
اسرائیلی قیادت نے حماس کو ایک نہ بھولنے والا سبق سکھانے کے دعوے سے اس سال یلغار کا آغاز کیا اور اسرائیل کے وزیرداخلہ ایلی یشائی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ:غزہ کو ہمیں قرونِ وسطیٰ تک واپس پہنچادینا چاہیے۔ایک دوسرے وزیر نے کہا: کہ ہم غزہ کو پتھرکے زمانے (stone age) میں پھینک دیں گے۔ سابق وزیراعظم ایرل شیرون کے صاحب زادے نے بھی حماس کو صفحۂ ہستی سے مٹادینے کے عزم کا اظہار کیا۔
یہ تھے وہ اعلانات، جن کے ساتھ اسرائیل نے اس تازہ جنگ کا آغاز اکتوبر ۲۰۱۲ء میں سوڈان میں کارروائی کرکے کیا اور اسے نومبر کے دوسرے اور تیسرے ہفتے میں اپنے انجام تک پہنچانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ امریکی صدر نے یہ کہہ کر اس کے لیے ہری جھنڈی دکھا دی تھی کہ:
ہم اسرائیل کے ا س حق کی مکمل تائید کرتے ہیں کہ اسے لوگوں کے گھروں، اور کام کرنے کی جگہوں پر، اور شہریوں کے امکانی قتل کے لیے گرنے والے میزائلوں سے دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہم اسرائیل کے دفاع کے اس حق کی حمایت جاری رکھیں گے۔
امریکی صدر اوباما کے اس ارشاد میں قتل کی ایک نئی قسم کا اضافہ کردیا گیا ہے، یعنی potentially killing ۔ گویا قتل کیا جانا ضروری نہیں، جس اقدام میں صرف ہلاکت کا امکان بھی ہو تو وہ بھی جارحیت، یعنی فوج کشی اور دوسروں کی سرزمین پر بم باری کے لیے جواز فراہم کرتا ہے۔ اور یہ فرمانا اس صدر کا ہے، جس کی طے کردہ kill-list کے تعاقب میں ڈرون حملوں کے ذریعے ہزاروں معصوم افراد پاکستان، یمن اور صومالیہ میں شب و روز ہلاک کیے جارہے ہیں اور جن کو اپنے دفاع میں کوئی کارروائی کرنے کا یا جارح قوت پر ضرب لگانے کا دُوردُور تک بھی کوئی حق حاصل نہیں۔ یہی وہ فسطائی ذہن ہے جس کے ردعمل میں تشدد اور دہشت گردی جنم لیتی اور پروان چڑھتی ہے۔
صدراوباما جس اسرائیل کو ’خود دفاعی‘ کے نام پر قتل و غارت اور بڑے پیمانے پر نسل کشی اور تباہ کاری کی کھلی چھوٹ دے رہے ہیں، اس کی اصل حقیقت کیا ہے، یہ بھی بین الاقوامی قانون کے غیرجانب دار ماہرین کے الفاظ میں سُن لیں، تو امریکی اور یورپی قیادتوں کی حق پرستی، انسان دوستی اور اصولوں کی پاس داری کی قلعی کھل جاتی ہے:
بلاشبہہ جیسے جیسے غزہ کا حالیہ تصادم لامحالہ کم ہونا شروع ہوجائے گا، یہ بات کھل کر سامنے آتی جائے گی کہ اسرائیل کا غزہ میں اور اسی طرح مغربی کنارے پر بھی بڑے پیمانے پر افواج کو لانا، اور وہاں کے عوام کے خلاف بلاامتیاز اسلحے کا استعمال کرنا، یہ محض جنگی جرائم نہیں ہیں بلکہ یہ انسانیت کے خلاف جرائم ہیں، اور امن کے خلاف بھی۔ آخرکار اسرائیل کتنا ہی چاہے کہ مقبوضہ علاقوں میں اسے سیاسی، قانونی اور اخلاقی جواز حاصل ہو، اس کے اقدامات امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ ، شام کی حکومت کی اپنے لوگوں کے خلاف جنگ، یا دوسری ریاستوں کا اپنے شہریوں کے خلاف تشدد کا ایک سوچے سمجھے نظام کے تحت استعمال، جیسے ہیں۔ اس کا تعین اس سے ہوگا کہ اس نے عالمی قانون کو عالمی تعبیرات کے مطابق تسلیم کیا ہے یا ان کی خلاف ورزی کی ہے۔ اسرائیل جتنے طویل عرصے تک فلسطینیوں کو بلاامتیاز اور بے خوف ہوکر قتل کرتا ہے، اور مغربی کنارے اور غزہ کے ناجائز اور پُرتشدد قبضے کو جتنا عرصہ برقرار رکھتا ہے، اور ان پالیسیوں کو برقرار رکھتا ہے، اسی قدر اس کو ان پالیسیوں کے غیرقانونی ہونے کی بناپر ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا ہوگا۔
اسرائیلی قیادت کو اپنے نئے حفاظتی حصار پر بھی بہت ناز تھا، جسے امریکی سرمایہ اور مہارت کی مدد سے آہنی گنبد (Iron Dome) کے نام سے گذشتہ چار سال میں تیار کیا گیا تھا اور جس میں ایسا خودکار نظام نصب کیا گیا تھا کہ جو خود بخود، باہر سے اندر آنے والے میزائل کی شناخت کرتا ہے اور پھرانھیں ناکارہ بنادیتا ہے۔
اس تمام سازوسامان اور تیاری کے ساتھ اسرائیل کو توقع تھی کہ وہ چند ہی دن میں حماس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے گا اور پھر اپنی شرائط پر جنگ بندی کا معاہدہ کر کے جس طرح پی ایل او اور الفتح کو اپنے قابو میں کیا تھا، اسی طرح حماس کو بھی زیرنگیں کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ پھر جنوری کے انتخابات جیت کر نیتن یاہو اور اس کے دست ِراست لیبرمین کے اس عظیم تر اسرائیل کے قیام کے منصوبے پر گامزن ہوجائیں گے جو صہیونیت کا اصل خواب ہے۔
حماس نے اللہ پر بھروسا کیا اور اپنی صفوں میں مکمل اتحاد اور دستیاب وسائل کے بہترین استعمال کے ذریعے اسرائیل کے ان تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔ بلاشبہہ مجاہداکبر احمد جعبری نے جامِ شہادت نوش کیا اور ان آٹھ دنوں میں ۱۶۳ مجاہد اور معصوم جوان، بچے اور خواتین شہید ہوئے، ایک ہزار زخمی ہوئے اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، لیکن حماس اور پوری غزہ کی آبادی کے عزم میں ذرا کمی اور ان کے پاے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی۔ بچے بچے کی زبان پر کلمۂ شہادت اور دلوں میں جہاد جاری رکھنے کا عزم اور ولولہ تھا۔۱۰ہزارسے زیادہ افراد بے گھر ہوئے، مگر دوسروں نے ان کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے۔
میزائل کی جنگ معرکے میں ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتی تھی۔ حماس کے مجاہدین نے وسائل اور ٹکنالوجی میں ہزار درجے سے بھی زیادہ کم تر ہونے کے باوجود، اینٹ کا جواب پتھر سے دیا اور لڑائی کو اسرائیل کے طول و عرض میں پھیلا دیا، حتیٰ کہ تل ابیب جو غزہ سے ۷۰کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، اس کو بھی اپنی زد میں لے لیا۔ بلاشبہہ اسرائیلی ہلاکتیں کم ہیں لیکن یہ واضح نہیں کہ اس کی وجہ حماس کے میزائلوں کا نشانے پر نہ لگنا ہے، یا پھر ارادی طور پر حماس کی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ عام آبادی کو خوف و ہراس میں تو مبتلا کیا جائے، مگر سول ہلاکتوں سے اجتناب کیا جائے۔ ایک امریکی تجزیہ نگار جولیٹ کیین نے اپنے مضمون میں بڑے اہم سوال اُٹھائے ہیں، جنھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا:
غزہ کی پٹی کی منتخب فلسطینی حکومت حماس کے لیے Iron Domeکی کامیابی اس سے کم مایوس کن تھی جیساکہ بظاہر نظر آیا۔ حماس نے یہ میزائل اس لیے نہیں چلائے تھے کہ اسرائیلیوں کو ماریں۔ اگر ان کا یہ مقصد ہوتا تو یہ ناکام ہوتے۔ دراصل اس کا مقصد اپنے دشمن اسرائیل کے مقابلے میں حماس کی مضبوطی دکھانا تھا۔ Iron Dome کی وجہ سے شہری ہلاکتوں میں کمی ہوئی ہوگی لیکن اس سے ان راکٹوں کی تعداد میں کمی نہیں آئی جو حماس نے چھوڑے۔ حماس کے راکٹ لانچر اسرائیلیوں کو محض مارنے کے لیے نہیں تھے، بلکہ یہ ایک منقسم فلسطینی قیادت میں حماس کے مقام کو بڑھانے کے لیے تھے۔
اسرائیل کے لیے Iron Dome کی کامیابی اور جس اندیشے کے پیش نظر اسے استعمال کیا گیاتھا، یہ تھی کہ یہ یقینی بنایا جائے کہ اسرائیل کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں نے حکومت کو مجبور نہیں کیا کہ وہ غزہ میں ایک بڑی زمینی جنگ شروع کرے۔
امریکا کے لیے Iron Dome کا پیغام یہ نکلا کہ وہ مسائل جو براے تصفیہ ہیں اور جو اسرائیل اور فلسطین کو تقسیم کرتے ہیں، ان کا حل بات چیت کے ذریعے ہو۔
اس پس منظر میں حماس کی حکمت عملی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، اور ساتھ ہی یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اسرائیل اور امریکا کے ہراندازے کے برعکس حماس نے ساری بے سروسامانی کے باوجود اسرائیلی جارحیت کے ہرنہلے پر دہلے کی مار دی ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ اسرائیل اور امریکا کے لیے کوئی اور چارہ نہیں رہا کہ جو تہس نہس کرنے کے دعوے سے میدان میں آئے تھے، اور جنھوں نے اپنی پونے دولاکھ مستقل فوج کی مدد کے لیے ۷۵ہزارریزرو بھی بلا لیے تھے، جنھوں نے زمینی حملے کی پوری لام بندی کرنے اور اس کے واضح اعلان کے علی الرغم جو وزیردفاع ایہود بارک نے حملے کے دوسرے ہی دن کیا تھا کہ:’’ہم اس وقت تک نہیں رُکیںگے جب تک حماس اپنے گھٹنوں کے بل نہ گر جائے اور جنگ بندی کی بھیک نہ مانگے‘‘، خود جنگ بندی کی بات کرے۔
اسی اسرائیل نے خود اپنے ہی حملے کے پانچویں دن جنگ بندی کی بات شروع کردی اور وہی صدر اوباما جو اقوامِ متحدہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر مصر کے صدر ڈاکٹر مرسی سے ملاقات کو تیار نہ تھے، انھیں دو دن میں چار بار ٹیلی فون کرتے ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کو مصر اور فلسطین بھیجتے ہیں اور آٹھویں دن ایک معاہدہ طے پاجاتا ہے، جس میں اسرائیل کا کوئی بڑا مطالبہ جگہ نہیں پاسکا۔ حماس کے دونوں مرکزی مطالبات کہ دونوں طرف سے بیک وقت ایک دوسرے کی سرحدات کی خلاف ورزی اور دراندازی بند ہو، محض یک طرفہ جنگ بندی جس کا مطالبہ اسرائیل کررہا تھا، اس کا کوئی سوال نہیں۔ دوسری بڑی اہم شرط یہ تھی کہ غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے اور انسانی اور مال برداری کی نقل و حرکت معمول پر لائی جائے اور اس طرح ۲۰۰۷ء کے اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی (blockade) کو ختم کیا جائے۔ یہ دونوں مطالبات اس معاہدے کا حصہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس معاہدے کو بجاطور پر حماس کی فتح اور اسرائیل کے لیے باعث ِ ہزیمت قرار دیا جارہا ہے، جس کے بارے میں اس راے کا اظہار اب عالمی میڈیا میں کھلے بندوں اور اسرائیل کی حزبِ اختلاف کی طرف سے برملا کیا جارہا ہے۔ لیکن اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے چند بنیادی باتوں کا اِدراک ضروری ہے:
بلاشبہہ فلسطینیوں کا جانی اور مالی نقصان زیادہ ہوا، لیکن اگر نقصان کے تناسب کا ۲۰۰۸-۲۰۰۹ء کی ۲۲روزہ جنگ سے کیا جائے تو بڑا فرق نظر آتا ہے۔ چارسال پہلے کے اسرائیلی آپریشن میں ۱۰۰ فلسطینیوں کی شہادت کے مقابلے میں صرف ایک اسرائیلی ہلاک ہوا تھا۔ اب یہ تناسب اس کا ایک تہائی ہے یعنی ۳۱ فلسطینیوں پر ایک اسرائیلی کی ہلاکت۔
اصل مقابلہ میزائلوں اور راکٹوں کی جنگ میں ہوا ہے۔ اسرائیل کا منصوبہ یہ تھا کہ جس طرح جون ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اس نے پہلے ہی ہلے میں مصر کی پوری فضائیہ اور ہوائی حملے کی صلاحیت کا خاتمہ مصر کے ہوائی اڈوں پر ہی کردیا تھا، اسی طرح موجودہ فوج کشی کے پہلے دنوں میں حماس کی راکٹ اور میزائل چلانے کی صلاحیت کو ختم کردیا جائے گا ۔ اس نے حملے کے لیے دوسرا دن فیصلہ کن اقدام کے لیے رکھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ پہلے دن کے حملے کے ردعمل میں حماس جو کارروائی کرے گی، اس سے اس کے راکٹ اور میزائل کے ٹھکانوں کی نشان دہی ہوجائے گی۔ دوسری خفیہ معلومات کی روشنی میں دوسرے دن حماس کی اقدامی صلاحیت کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ نیز اربوں ڈالر خرچ کرکے اسرائیل نے جو آہنی حصار (Iron Dome) بنالیا ہے، اس کے ذریعے حماس کی جوابی کارروائی کو بے اثر کردیا جائے گا۔ ان کا اندازہ تھا کہ غزہ سے آنے والے میزائلوں اور راکٹوں کے ۸۵ سے ۹۰ فی صد میزائل یہ نظام تباہ کردے گا اور اس طرح دوسرے دن ہی سے فضا پر اسرائیل کی مکمل حکمرانی ہوگی اور غزہ اسرائیل کے سامنے سرنگوں ہوجائے گا۔ لیکن ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
لندن اکانومسٹ نے ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے علاوہ تین تحقیقی اداروں کی جمع کردہ معلومات کی روشنی میں جو تفصیلی نقشے شائع کیے ہیں، ان کے تجزیے سے یہ دل چسپ صورت حال سامنے آتی ہے کہ حماس نے ہر روز مقابلے کی قوت کا مظاہرہ کیا، حتیٰ کہ آخری دن بھی کسی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس جنگ میں کامیابی اور ناکامی کا اصل معیار انسانی جانوں کی ہلاکت نہیں بلکہ اس جنگی ٹکنالوجی کے میدان میں مقابلہ ہے، جس نے اسرائیل کے تمام اندازوں کو غلط ثابت کردیااور وہ مجبور ہوا کہ نہ تو زمینی یلغار کرے جس میں اس کے لیے ہلاکتوں کا زیادہ خطرہ تھا بلکہ فضائی جنگ کو بھی روکے کہ یہ غیرمؤثر ہورہی تھی۔
اسرائیل اور حماس کے ایک دوسرے کے اہداف پر حملے (یومیہ صورتِ حال)
۱۴ نومبر ۲۰۱۲ء
۱۵ نومبر ۲۰۱۲ء
۱۶ نومبر ۲۰۱۲ء
۱۷ نومبر ۲۰۱۲ء
۱۸ نومبر ۲۰۱۲ء
۱۹نومبر ۲۰۱۲ء
۲۰ نومبر ۲۰۱۲ء
۲۱ نومبر ۲۰۱۲ء
۲۲ نومبر ۲۰۱۲ء
اسرائیل کے حماس پر حملے
۱۰۰
۲۷۰
۳۲۰
۳۰۰
۱۳۰
۸۰
۱۰۰
۲۰۰
x
حماس کے اسرائیل پر حملے
۸۰
۳۱۰
۲۳۰
۲۳۵
۱۶۰
۱۴۰
۲۱۵
۱۲۰
x
حماس کے وہ حملے جنھیں اسرائیل نے ناکارہ بنادیا
۴۰
۱۴۰
۱۲۰
۹۰
۶۰
۶۵
۶۵
۲۰
x
حماس کے وہ حملے جنھیں اسرائیل کے دفاعی حصار نے متاثر نہیں کیا
۴۰
۱۷۰
۱۱۰
۱۴۵
۱۰۰
۷۵
۱۵۰
۱۰۰
x
۱- اسرائیل کو توقع تھی کہ وہ پہلے ہی دو دن میں حماس کو مفلوج کردے گا، لیکن حماس نے کسی اعلیٰ صلاحیت کے جدید ترین حفاظتی حصار کے بغیر اپنی اقدامی اور دفاعی صلاحیت کو محفوظ رکھا ، اور پہلے دن اسرائیل کے ۱۰۰ حملوں کے جواب میں۸۰، دوسرے دن ۲۷۰ کے جواب میں۳۱۰، اور آخری دن ۲۰۰ کے جواب میں ۱۲۰ حملے کرکے اپنی صلاحیت کا لوہا منوا لیا اور اسرائیل اور امریکا کو ششدر کردیا۔
۲- اسرائیل کے نہایت ترقی یافتہ (sophisticated) اور مہنگے حفاظتی حصار کے باوجود حماس کے تقریباً ۵۰ فی صد میزائل اور راکٹ اس نظام کی گرفت سے بچتے ہوئے اپنا کام دکھانے اور ٹھکانے پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
۳- یہ بات درست ہے کہ تباہی مچانے والے بارود کی مقدار اور صلاحیت کے میدان میں اسرائیل اور حماس کے میزائلوں میں بڑا فرق ہے۔ یہ دعویٰ اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت نے کیا ہے کہ اسرائیل کی تباہ کرنے کی صلاحیت ایک ہزار گنا زیادہ تھی۔ اس اعتبار سے جو اصل تباہی ہوئی ہے وہ اسرائیل کے منصوبے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ لیکن یہ حقیقت کہ وسائل اور صلاحیت کے اس عظیم فرق کے باوجود حماس نے آخری دم تک مقابلہ کیا اور جنگ بندی کے آخری لمحات تک اپنے میزائل برساتا رہا، جو اس کے مقابلے کی صلاحیت کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے، اور اس سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ آیندہ کے لیے اس میں اپنی صلاحیت کو ترقی دینے اور اسرائیل کا بھرپور مقابلہ کرنے کی استعداد موجود ہے۔
۴- اسرائیل کا خیال تھا کہ حماس کے میزائل اور راکٹ ۱۵ سے ۳۰کلومیٹر سے آگے نہیں جاسکتے، لیکن الحمدللہ، حماس نے اسرائیل کی آخری حدود تک اپنی پہنچ کا ثبوت دے کر اسرائیل اور امریکا کو انگشت بدنداں کردیا۔ تل ابیب، بیت المقدس اور تیسرے بڑے شہر بیرشیوا (Beersheva) کے قرب و جوار میں ہی نہیں، بلکہ اسرائیل کے نو ایٹمی تنصیبات کے مرکز ڈایمونا (Dimona) تک حماس کے میزائل پہنچے ہیں، اور یہ وہ حقیقت ہے جس نے اسرائیل کو اپنے پورے نقشۂ جنگ پر نظرثانی پر مجبور کردیا ہے۔
۵- بلاشبہہ میزائل اور راکٹ ٹکنالوجی کے حصول میں حماس نے دوسرے مسلمان ممالک خصوصیت سے ایران سے فائدہ اُٹھایا ہے اور اس کا برملا اعتراف بھی کیا ہے ۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حماس نے میزائل اور راکٹ دونوں کو بنانے اور انھیں ہدف پرداغنے کی صلاحیت مقامی طور پر حاصل کرلی ہے۔ اسرائیل اور امریکا کی تمام پابندیوں کے باوجود نہ صرف باہر سے اجزا حاصل کیے ہیں، بلکہ ان اجزا کو اندرونِ غزہ جمع کرنے (assemble) اور مؤثر طور پر کام میں لانے کا (operationalize ) نظام قائم کیا ہے، اور اسے اسرائیل کی خفیہ نگرانی اور تباہ کن جارحانہ صلاحیت سے محفوظ رکھا ہے۔ اگر مغربی نامہ نگاروں کی یہ روایت صحیح ہے کہ اسرائیل کی فوجی قیادت نے اعتراف کیا ہے کہ جو میزائل اورراکٹ اسرائیل پر داغے گئے ہیں، ان میں سے کم از کم ایک بڑی تعداد غزہ ہی میں بنائی گئی ہے، تو اس پر اللہ کے شکر کے ساتھ حماس کی سیاسی اور عسکری قیادت کو ہدیۂ تبریک پیش کرنا اعترافِ نعمت کا ہی ایک رُخ ہے۔
اگر اسرائیل اور حماس کی اس فضائی جنگ کی حکمت عملی کا ملٹری سائنس اور انٹرنیشنل ہیومینٹیرین لا کی زبان میں موازنہ کیا جائے تو اسرائیل کے میزائل اور F-16 سے آگ اور خون کی بارش ہمہ گیر تباہی کی، جسے Weapons of Mass Destruction کہا جاتا ہے، قبیح ترین شکل ہے۔ اسرائیل نے ان تباہ کن ہتھیاروں کا بے دریغ اور بے محابا استعمال کیا ہے۔ اس کے برعکس حماس نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے اس میں اہتمام کیا گیا ہے کہ دشمن کی صفوں میں بھی جاں کا ضیاع نہ ہونے کے برابر ہو، البتہ اسی کے ذریعے مقابلے کی قوت کو جنگ بندی اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی طرف لایا جاسکے۔ یہی وہ چیز ہے جسے اصل سدِّجارحیت (deterrance) کہا جاتا ہے۔
یہ ہے وہ اصل جنگی منظرنامہ جو اسرائیل اور امریکا کو جنگ بندی اور اس معاہدے تک لایا جو ۲۱ نومبر کو طے پایا اور ۲۲ نومبر سے اس پر عمل شروع ہوا۔ اس معاہدے کے تجزیے اور اس کے ان اثرات پر بھی تفصیل سے گفتگو کرنے کی ضرورت ہے، جو اس سے متوقع ہیں۔ فی الحال اس حقیقت کے اعتراف پر بات کو مکمل کرتے ہیں کہ بلاشبہہ حماس اور اہلِ غزہ نے جانوں اور قربانیوں کا نذرانہ کہیں زیادہ ادا کیا، لیکن اسرائیل اور اس کی پشت پر امریکا کی قوت کو چیلنج کرکے اور بے سروسامانی کے باوجود انھیں جنگ بندی کی طرف آنے اور ناکہ بندی کو ختم اور راہداری کھولنے پر مجبور کر دیا ہے جوبڑی کامیابی ہے۔ اس نے نقشۂ جنگ ہی نہیں، سیاسی بساط کو بھی بدل دیا ہے۔ اب اس کا اعتراف دوست اور دشمن سب کر رہے ہیں۔ لندن دی اکانومسٹ نے اسرائیلی وزیردفاع ایہودبارک کے ایک مشیر کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ:’’حماس نے جنگی میدان میں شکست اور سیاسی میدان میں فتح حاصل کی‘‘۔
اسرائیل کی انتخابی مہم کو نہ دیکھا جائے تو غزہ پر فضائی بم باری کے آخری آٹھ دنوں کو کسی حکمت عملی کی کامیابی قرار دینا مشکل ہے۔ اسرائیل کے دفاعی انتظامی نقطۂ نظر سے یہ ایک خوشی کے لمحے سے شروع ہوا ___ فلسطینی کمانڈر احمد جعبری کی کار پر حملے سے___ اور حماس اور دو دوسرے فوجی گروپوں کو ناکام بنانے پر جنھوں نے تل ابیب پر باربار راکٹ پھینکے، جو کہ حزب اللہ نے بھی دوسری لبنانی جنگ کے عروج پر نہیں کیا تھا،اور بسوں پر بم باری کی حکمت عملی کی طرف واپسی سے روکنا۔ اگر بدھ کی رات ہونے والا معاہدہ قائم رہتا ہے تو حماس مکمل واپسی کے بعد بھی جنگ بندی نہیں کررہی۔
نیتن یاہو کا دعویٰ ہے کہ اس نے حماس کو ناکارہ کردیا ہے، اور زمینی حملے کے بارے میں تنبیہات کو وزن دینے سے اس نے اپنے لیے مغربی حمایت کو مضبوط بنالیا ہے۔ لیکن اس کی یہ قیمت ادا کی کہ عرب دنیا میں حماس کا مقام بلند ہوگیا۔ اس نے تنظیم کے ساتھ وہ کیا ہے جو اس نے خالدمشعل کے ساتھ کیا تھا۔ جب اس نے زہر سے اس کے قتل کا حکم جاری کیا تھا اور پھر اُردن کو تریاق فراہم کرنے پر مجبور ہوا تھا۔ اس کے نتیجے میں مشعل کے قدکاٹھ میں اضافہ ہوا۔ اسی طرح حماس بھی پی ایل او کی قیادت کے مقابلے میں آگے بڑھنے کی بہتر پوزیشن میں آگئی ہے۔ کیا اسرائیلی وزیراعظم یہی چاہتا تھا یا اسے طاقت کی قوت کے استعمال کا اب احساس ہوا ہے؟ نیتن یاہو کو طاقت سے حماس کو ختم کرنے کے بجاے شاید ان سے گفتگو کرنا چاہیے۔
ایک مغربی سفارت کار نے اسرائیل کی عسکری بالادستی کو tactical کامیابی ضرور قرار دیا ہے لیکن ساتھ ہی آٹھ روزہ جنگ کے حاصل کو حماس کے لیے اسٹرے ٹیجک جیت قرار دیا ہے، اور خود اسرائیل کے اخبارات نے فوج کے عام سپاہیوں کا یہ احساس ریکارڈ کیا ہے کہ: Bibi (Benjamin Natan Yahu) is a loser. (ایکسپریس ٹربیون، ۲۴نومبر ۲۰۱۲ئ)
اسرائیلی راے عامہ کے جائزوں سے بھی یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ اسرائیل کی ۷۰ فی صد آبادی اس جنگ بندی کے معاہدے پر ناخوش ہے، جب کہ صرف ۲۴فی صد نے اس کی تائید کی ہے۔
بحیثیت مجموعی عالمی سیاست پر نظررکھنے والوں کا احساس ہے کہ فلسطین کے مسئلے کا فوجی حل، جو اسرائیل اور خود امریکا کی حکمت عملی تھا، اس کی کامیابی کے امکانات کم سے کم تر ہورہے ہیں اور اس کی جگہ افہام و تفہیم کے ذریعے کسی سیاسی حل کی ضرور ت کا احساس روزافزوں ہے۔
پہلو اور بھی بہت سے ہیں جن پر غوروفکر اور مباحثے کی ضرورت ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ اس طرف اشارہ کررہی ہے کہ ایک بڑے شر میں سے بھی کسی نہ کسی صورت میں خیر کے رُونما ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ بلاشبہہ ابھی کش مکش اور جدوجہد کے بے شمار مراحل درپیش ہیں۔ راستہ کٹھن اور دشوار گزار ہے۔ ہرلمحہ آنکھیں کھلی رکھنے اور معاملات کا ہرپہلو سے جائزہ لے کر مقصد سے وفاداری اور حقیقت پسندی کے ساتھ حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت جتنی پہلے تھی، اب اس سے کچھ زیادہ ہی ہے۔
صاف نظر آرہاہے کہ ان شاء اللہ اب امریکا کی محکومی اور امریکی سامراجیت کے زیراثر مفادات کی سیاست کا باب ختم ہونے جارہا ہے۔ شہدا کے خون اور مظلوموں کی تمنائوں اور قربانیوں کا یہی تقاضا ہے، تو دوسری طرف یہی ایمان، آزادی اور عزت کا راستہ ہے۔ اب جن نئے امکانات کی راہیں کھل رہی ہیں ان سے پورا پورا فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ اُمت مسلمہ کے سلگتے ہوئے مسائل کو حل کیا جائے اور اتحاد اور خودانحصاری کی بنیاد پر تعمیرنو کی سعی و جہد ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت کی رہنمائی فرمائے، اور ہم سب کو درست اور بروقت فیصلے کرنے اور صحیح راستے پر چلنے کی توفیق سے نوازے۔ آمین!
۱۱نومبر ۲۰۱۲ء کو اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں ایک تاریخ ساز اجتماع ہوا۔ ملّی یک جہتی کونسل کے سربراہ قاضی حسین احمد کی دعوت پر ملک و بیرونِ ملک کی اسلامی تحریکوں کے نمایندگان، علماے کرام، مشائخ عظام جمع ہوئے تاکہ اُمت کو جو مسائل درپیش ہیں، ان سے نبردآزما ہونے کے لیے مل جل کر کوئی راہ نکالی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ ہر مکتب ِ فکر کے علما بڑی تعداد میں جمع ہوئے اور انھوں نے ایک آٹھ نکاتی لائحہ عمل پر اتفاق کیا۔ یہ آٹھ نکاتی اعلامیہ پیش کیا جارہا ہے:
یہ کانفرنس اس امر کا اعلان کرتی ہے کہ اُمت مسلمہ کی اصلی شناخت اسلام اور صرف اسلام ہے اور یہی ہماری وحدت کی بنیاد اور دنیا اور آخرت میں ہماری کامیابی کی ضامن ہے: اِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ اَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ o (الانبیاء ۲۱:۹۲) ’’یہ تمھاری امت حقیقت میں ایک ہی امت ہے اور میں تمھارا رب ہوں پس تم میری ہی عبادت کرو‘‘۔اور یہ امت ایک پیغام اور مشن کی علَم بردار امت ہے جو خود بھی انصاف اورا عتدال پر قائم ہے اور دنیا میں بھی انصاف اور اعتدال قائم کرنے پر مامور ہے: وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ط (البقرہ۲:۱۴۳)’’اور اس طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک اُمت ِو سط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو‘‘۔
اس عظیم مشن کو انجام دینے کا جو منہج اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے مقرر فرمایا ہے وہ ملت کا اتحاد اور ایمان اور دنیا کے تمام انسانوں کو خیر کی طرف دعوت، نیکی کے حکم اور بدی کے خلاف جدوجہد سے عبارت ہے :وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا (اٰل عمرٰن۳:۱۰۳) ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو ار تفرقہ میں نہ پڑو ‘‘۔اور وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo (اٰل عمرٰن۳:۱۰۴) ’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرورہونے چاہیے جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جولوگ یہ کام کریں گے وہیں فلاح پائیں گے‘‘۔
اس کانفرنس کے تمام شرکا قرآن کی دی ہوئی اس راہِ عمل سے مکمل وفاداری کے ساتھ امت کے تمام مسالک، مذاہب اور نقطہ ہاے نظر سے وابستہ افراد کو دعوت دیتے ہیں کہ مشترکات کی بنیاد پر بنیان مرصوص بن کر اسلام کی سربلندی اور اُمت مسلمہ کو موجودہ درپیش مسائل اور چیلنجوں سے نکالنے کے لیے تعاون، اعتمادِ باہمی اور مخلصانہ رواداری کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے اور میدان میں اور دنیا کے ہر حصے میں مل جل کر جدوجہد کریں۔
آج مسلمان عالمی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ ہونے،۵۷آزاد ممالک میں اختیارات کے حامل ہونے، اور اپنی سرزمین پر اللہ کی رحمت سے بیش بہا مادی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود دنیا کی بڑی طاقتوں کے لیے نرم نوالابنے ہوئے ہیںاور عملاً غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ آج اسلام اور مسلمانوں کو علمی اور عملی ہر سطح پر سب وشتم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرنے اور نبی برحق محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رکیک حملوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے، مسلمانوں کے وسائل پر بیرونی قوتوں کا قبضہ ہے اوریاوہ ان کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہی ہیں، اور مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ معیشت، معاشرت، تجارت ، تعلیم سائنس وٹکنالوجی ہر میدان میں دوسروں کے دست نگر ہیں۔
اس پر مستزاد مسلمانوں میںباہمی کش مکش اور ان کو بانٹنے اور آپس میں لڑانے اور دست و گریبان کرنے کی سازشیں عروج پر ہیں،اور بد قسمتی سے ان سازشوں میں غیروں کے ساتھ خود اپنوں کا کردار بھی ان مصائب کا ذمہ دار ہے جو حالات کے بگاڑ اور فساد کے فروغ کا ذریعہ بنا ہوا ہے ۔
ان حالات میں یہ کانفرنس دنیا بھر کے مسلمانوں اور اُن کی ہر سطح کی قیادت کو دعوت دیتی ہے کہ ہم فروعی اور ذیلی اختلافات سے بالا ہو کر اپنے مشترک مشن کے حصول اور دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد اور منظم ہو جائیں۔یہ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اس کے لیے یہ کانفرنس مندرجہ ذیل اصولوں اور اہداف پر مکمل اتفاق اور ان کے مطابق کام کرنے کے عزائم کا اظہار کرتی ہے :
۱-اللہ کی طرف رجوع اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو مضبوطی سے تھامنے اور دین حق کے پیغامِ عدل و رحمت کے علمبردار بنیں، اسلام کی تعلیمات اُن کی اصلی شکل میں دعوت اور تبلیغ اور اشاعت عام کا اہتمام کریں اور اس کے ساتھ ہر سطح پر سارے وسائل اس مقصد کے لیے استعمال کریں اور معاشرے کی دینی تربیت ہو ، اسلام کے عدل اجتماعی کا نظام ہماری سرزمین پر جاری و ساری ہو اور دنیا کے سامنے اسلام کا صحیح نمونہ پیش کیا جاسکے، اپنے گھر کی منہج نبویؐ کے مطابق اصلاح ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ دشمنانِ اسلام کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرنا اور اس مقصد کے لیے اُمت مسلمہ میں اجتماعی قوت کو بروے کار لانا وقت کی ضرورت اور مخالفین کے مقابلے کا صحیح راستہ ہے۔ اسلامی اقدار اور تعلیمات کا معاشرے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہردائرے میں عملی نفاذ اور بالادستی کی جدوجہد ہمارا اصل فرض ہے ۔
۲-اختلافات اور بگاڑ کو دور کرنے کے لیے ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ تمام مکاتب فکر نظم مملکت اور نفاذ شریعت کے لیے ایک بنیاد پر متفق ہوں ۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے ہم ۳۱سر کردہ علما کے ۲۲نکات کو بنیاد بنانے پر متفق ہیں،اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی بنیاد پر زندگی کے ہر شعبے کی اصلاح کے داعی ہیں۔
۳-نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و حرمت ہمارے ایمان کی بنیاد ہے اور آ پؐ کی کسی طرح کی توہین کے مرتکب فرد کے شرعاً قانوناً موت کی سزا کا مستحق ہونے پر ہم متفق ہیں۔ اس لیے توہین رسالتؐ کے ملکی قانون میں ہم ہر ترمیم کو مسترد کریں گے اور متفق اور متحد ہوکر اس کی مخالفت کریں گے۔ عظمت اہل بیت اطہار و امام مہدی ؓ، عظمت ازواج مطہراتؓ اور عظمت صحابہ کرامؓ و خلفاے راشدین رضوان اللہ علیم اجمعین ایمان کا جز ہے۔ ان کی تکفیر کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے اور ان کی توہین و تنقیص حرام اور قابل مذمت و تعزیر جرم ہے۔ ایسی ہر تقریر و تحریر سے گریز و اجتناب کیا جائے گا جو کسی بھی مکتب فکر کی دل آزاری اور اشتعال کا باعث بن سکتی ہے۔ شرانگیز اور دل آزار کتابوں، پمفلٹوں اور تحریروں کی اشاعت، تقسیم و ترسیل نہیں کی جائے گی۔ تمام مسالک کے اکابرین کا احترام کیا جائے گا۔
۴-ہم ملک میں مذہب کے نام پر دہشت گردی اور قتل و غارت گری کو اسلام کے خلاف سمجھنے، اس کی پر زور مذمت کرنے اور اس سے اظہار برأت کرنے پر متفق ہیں۔
۵- باہمی تنازعات کو افہام و تفہیم اور تحمل ورواداری کی بنیاد پر طے کیا جائے گا۔عالم اسلام میں جہاں باہمی انتشار جنگ و جدال اور کش مکش ہے اُسے مذاکرات اور ثالثی کے ذریعے حل کیا جائے اور قوت کے استعمال کو یکسر ختم کرنے کے لیے مؤثر کارروائی کی جائے۔ تمام مسلمان ممالک اور ان کی سیاسی اور دینی قیادتیں اس سلسلے میں ایک مؤثر کردار ادا کریں۔نیز مسلمانوں کی اجتماعی تنظیم او آئی سی (Organization of Islamic Cooperation- OIC) اس سلسلے میں متحرک اور مؤثر ہو۔
۶- اقوامِ عالم میں اُمت مسلمہ کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی مؤثر انداز میں کی جائے۔ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اُٹھانا اور جارحیت کے مقابلے میں اُمت مسلمہ کا دفاع کرناہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ امن عالم کے قیام اور ضروری ترجیحی بنیادوں پر فلسطین، افغانستان، کشمیر اور برما کے مسلمانوں کی مبنی برحق جدوجہدکی تائید اور مدد کی جائے۔ عالمی راے عامہ کی تائید اور مسلمانوں کے تمام وسائل کے استعمال کے لیے جدوجہد کو اولین اہمیت دی جائے۔
۷-افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کا جلد از جلد انخلا عالمی امن کے لیے ضروری ہے۔ ہمارا ہدف افغانستان کے مسئلے کا وہ حل ہے جو وہاں کے عوام کی خواہش کے مطابق ہو اور ان کے اپنے مشورے اور قومی مفاہمت کی بنیاد پر کیا جائے۔ نیز عالم اسلام میں جہاں بھی بیرونی افواج کا عمل دخل ہے اُسے ختم کیا جائے۔
ہم عہد کرتے ہیں ان اصولوں اور اہداف کو اپنی ساری جدوجہد کا محور بنائیں گے اور مسلم ممالک کی قیادت،مسلم عوام اوردینی و سیاسی جماعتوں کواس جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرنے کی دعوت دیں گے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآن پاک نے افراد اور اقوام کی زندگی میں بار بار واقع ہونے والی اس صورت حال کو بڑے مختصر مگر جامع انداز میں بیان فرما دیا ہے کہ انسان اپنے طور پر طرح طرح کی منصوبہ سازیاں اور تدبیریں کرتا ہے مگر بالآخر اللہ ہے جس کی تدبیر غالب ہوکر رہتی ہے۔ وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۵۴)۔
پاکستان کی تاریخ میں اللہ تعالیٰ کی تدبیر کی کارفرمائی کا نظارہ ہم نے بار بار دیکھا ہے اور اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ امریکا کے صدارتی انتخاب کے فیصلہ کن مرحلے میں پاکستان کو شمالی وزیرستان پر فوج کشی کی آگ میں دھکیلنے اور اس سے امریکی ووٹروں کے دل جیتنے کا جو شاطرانہ منصوبہ بنایا گیا تھا وہ کانچ کے گھر کی طرح پاش پاش ہو گیا ہے۔
۱۴؍اگست پاکستانی قوم کے لیے خوشی اور شکر کا ایک اہم موقع ہوتا ہے۔ اس سال عین اس دن، امریکا کے ڈیفنس سیکرٹری لیون پانیٹا نے امریکی عوام کو یہ مژدہ سنایا کہ پاکستان اور امریکا کی اعلیٰ فوجی اور سیاسی قیادت نے اس امر پر اتفاق کرلیا ہے کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں جلد فوجی آپریشن شروع کردے گا اور اس طرح امریکی حکام کے الفاظ میں: ’’تاریخ کے سب سے زیادہ عرصے تک مؤخر کیے جانے والے اقدام‘‘ (most delayed operation) کا آغاز ہوجائے گا۔ اس کے لیے پاکستان پر دبائو اور لالچ دونوں حربوں کے استعمال کے ساتھ امریکی کانگریس کی طرف سے امریکی سیکرٹری خارجہ کو ’حقانی نیٹ ورک‘ کو افغانستان پر فوج کشی کے ۱۱سال کے بعد ’دہشت گرد گروہ‘ قرار دینے کا مطالبہ بھی داغ دیا گیا، اور وزارتِ خارجہ نے ۳۰ دن کے اندر اس راز کو، اس گروہ کے بارے میں جس سے سیاسی مذاکرات کے لیے سرتوڑ کوشش کی جارہی تھی فاش کردیا ہے جسے ۱۱سال سے اپنے سینے میں چھپایا ہوا تھا۔
یہ بھی ایک طرفہ تماشا ہے کہ ۱۴؍اگست ۲۰۱۲ء ہی کو کاکول اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل پرویز کیانی نے پاکستان کی آزادی، سلامتی اور اسلامی شناخت کے بارے میں کچھ بڑی دل کش باتوں کے ساتھ بڑے چپکے سے یہ بھی ارشاد فرمادیا کہ انتہاپسندی ایک قسم کا شرک ہے، دہشت گردی اسی ذہنیت کی پیداوار ہے، اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ دراصل امریکا کی نہیں ہماری اپنی جنگ ہے، اور ہے تو بڑا ہی مشکل اور تکلیف دہ کام، لیکن فوج کو خود اپنی قوم کے خلاف بھی لام بندی کرنا پڑجاتی ہے۔ البتہ اتنی گنجایش رکھی کہ اس کام کے لیے قوم کی تائید اور سیاسی قیادت کی سرپرستی ضروری ہے۔ ملک کی لبرل اور امریکا نواز لابی نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر شمالی وزیرستان پر لشکرکشی کے لیے مہم چلا دی اور پی پی پی اور اے این پی کی قیادت نے کبھی ہلکے سُروں میں اور کبھی اُونچی آواز سے اسی لَے میں لَے ملانا شروع کر دی۔ اب یہ بھی ایک معما ہے کہ عین اس ماحول میں سوات کی ایک معصوم بچی پر اور اس کی دو سہیلیوں پر حملہ ہوتا ہے اور حسب ِ سابق پاکستانی طالبان نے اس کی نہ صرف ذمہ داری بھی قبول کرلی بلکہ اس کا جواز بھی بڑھ چڑھ کر پیش کردیا۔
پاکستان کی دینی اور سیاسی قیادت نے بجاطور پر اس ظالمانہ حملے کی بھرپور مذمت کی اور پوری قوم نے یک زبان ہوکر اس خلافِ اسلام اور خلافِ انسانیت کارروائی کا ارتکاب کرنے والوں کو قانون کے مطابق قرارِ واقعی سزا کے دیے جانے کا مطالبہ کیا۔ لیکن اس معصوم بچی کا نام استعمال کرکے شمالی وزیرستان میں فوج کشی کے لیے ایک دوسرا ہی نقشۂ جنگ تیار کر لیا گیا۔ امریکی قیادت، ناٹو کے جرنیل اور سیاست دان، عالمی میڈیا، خود پاکستان کی پی پی اور اس کے اتحادیوں کی قیادت اور لبرل امریکی لابی سب نے یک زبان ہوکر اس مطالبے کی تائید کی اور وزیرداخلہ نے صاف لفظوں میں فوجی آپریشن کا بھاشن دے ڈالا۔ اس بحث میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ یہ محض اتفاق تھا یا کسی سازش کا حصہ، یہ حقیقت ناقابلِ انکار ہے کہ ایک معصوم لڑکی کے ساتھ اس ظلم کو، اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے ایک کاری وار کیاگیا لیکن اللہ کی مشیت کااپنا نظام ہے۔ قوم کے باشعور افراد، خصوصیت سے دینی قیادت، بالغ نظر صحافی اور کئی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے اس کھیل کا بروقت توڑ کیا۔ غلط کو غلط کہا اور پوری قوت سے کہا، مگر اس ظالمانہ اقدام کی آڑ میں، ملک کو ایک نئی جنگ کے جہنم میں دھکیلنے کے جس خطرناک کھیل کا آغاز ہونے والا تھا، اسے ناکام بنا دیا اور وہی وزیرداخلہ جو تلوار نکال کر حملے کے لیے پَر تول رہے تھے یوٹرن لیتے نظر آئے اور زرداری صاحب بھی قومی اتفاق راے کے مفقود ہونے کا نوحہ کرنے لگے۔
پاکستانی اور مغربی میڈیا اور خصوصیت سے سوشل میڈیا پر اب جو کچھ آگیا ہے، اس نے پورے کھیل کے سارے ہی پہلو کھول کر سامنے رکھ دیے ہیں اور اس خونیں ڈرامے کے تمام ہی کرداروں کے چہروں سے پردہ اُٹھا دیا ہے۔ ہم صرف ریکارڈ کی خاطر تین افراد کی شہادت اور تجزیہ پاکستانی قوم اور اس کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کے غوروفکر کے لیے بیان کرنا چاہتے ہیں۔
سب سے پہلے ہم اس صحافی، یعنی سید عرفان اشرف کی شہادت اور اس کے احساسِ ندامت کو پیش کرنا چاہتے ہیں جس نے وہ پہلی دستاویزی فلم (documentary) بنائی جس میں ۱۱سال کی معصوم بچی کے جذبات محض تعلیم سے اس کی محبت کے تذکرے کی خاطر ریکارڈ کیے گئے تھے اور پھر اس سے کیا کیا گل کھلائے گئے اس پر خود اس کا کیا احساس ہے۔ سید عرفان اشرف اس وقت امریکا کی سائوتھ اِیلی نوئس (Illinois) یونی ورسٹی (بمقام کاربون ڈیل) سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور ان کا مضمونPredatory Politics and Malala ڈان، کراچی میں شائع ہوا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک معصوم سے تعلیمی منصوبے کے ذریعے سیاست کاری کے کیاکیا گل کھلائے گئے اور میڈیا اور میڈیا کی ڈورہلانے والے سیاسی شاطر کیا کیا کھیل کھیلتے ہیں:
پھر دوبارہ مشق ہم سب کے لیے تہلکہ آمیز تھی۔ پس اس نے مجھے صحافیانہ اخلاقیات سے بھی اندھا کر دیا اور اپنے دوست ضیاء الدین کی حفاظت سے بھی۔ مجھے یہ احساس ایک بار بھی نہ ہوا کہ اس صورت حال میں نوعمر ملالہ کے لیے خطرہ ہے۔ یہ جزوی بات تھی اس لیے کہ دستاویزی فلم تعلیم سے متعلق تھی اور فلم کے مختلف حصوں کی وڈیو بنانا روز کا معمول تھا۔ مجھے مسئلے کی نوعیت کی شدت کا احساس اس وقت ہوا جب نیویارک ٹائمز نے Class Dismissed کے نام سے ایک مختصر دستاویزی فلم جاری کی۔ آدم بی الیک اور میری مشترکہ پیش کش پر مبنی اس فلم نے جو ضیاء الدین کے گھر اور اسکول میں بنائی گئی اور جس میں ملالہ مرکزی کردار تھی، غیرملکی ناظرین کو بہت متاثر کیا۔ اسی وقت سے اس خوف نے مجھے گھیر لیا کہ اس طرح ملالہ ایک دہشت ناک دشمن کے سامنے expose ہوگئی ہے۔ جب میں اسے ٹیلی ویژن پر دیکھتا تھا تو یہ خوف احساسِ جرم میں بدل جاتا تھا۔
اس کے بعد میں نے اپنے آپ کو اس قسم کے منصوبوں سے الگ کرلیا۔ پھر میڈیا نے اگلے تین برس میں ملالہ کی تعلیم کی حمایت کو تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے خلاف ایک بھرپور مہم میں بدلنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ سیاست دان ملالہ کی جواں توانائیوں کواستعمال کرنے میں میڈیا کی مدد کے لیے اس جھگڑے میں کود پڑے۔ TTP مخالف ایک مضبوط ڈھانچا اس کے نازک کاندھوں پر کھڑا کردیا گیا۔
یہ تصویر کا ایک رُخ ہے۔ یہ میڈیا کے کردار کے بارے میں تشویش کا باعث ہے کہ یہ نوجوانوں کو کس طرح ایک گندی جنگ میں گھسیٹ لاتا ہے جو معصوم لوگوں کے لیے ہولناک نتائج کا باعث ہے۔ لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ گذشتہ عشرے میں اگر عوام کی بڑھتی ہوئی وابستگی نے ایک طرف سیاست دانوں کو اپنی بڑی بڑی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے سموک سکرین مہیا کی ہے، تو دوسری طرف ان قربانیوں نے سیکورٹی فورسز کو ایک مشکل دشمن کے ساتھ آنکھ مچولی جاری رکھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
ایک مسئلے سے دوسرے مسئلے تک میڈیا کے ذریعے مبالغے کے ساتھ مسائل کو بڑھایا جاتا ہے، جب کہ لوگ مذمت کے منتظر ہوتے ہیں۔ اس ظالمانہ سیاست سے حقیقت مجروح ہوجاتی ہے اور خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقہ جات میں عسکریت کو فروغ ملتا ہے۔ سیکورٹی آپریشن واضح طور پر مؤثر ہوتے ہیں اور ورکنگ فارمولا مسلح دستوں کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ اُس علاقے کے ۹۰ فی صد حصے پر کنٹرول حاصل کرلیں اور بقیہ عسکریت پسندوں کے لیے چھوڑ دیں۔ معاملات کی یہ گنجلک کیفیت، برسرِاقتدار اشرافیہ کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ تنازعے کو طول دے سکیں، لیکن وہ عسکریت کو شکست نہیں دے سکتے۔ مرکزی رَو کی سیاسی جماعتیں یہ برداشت نہیں کرسکتیں کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے منظر پر اُبھر کر سامنے آئیں اور دہشت گردی کے مقابلے کے لیے واضح پالیسی کا اعلان کریں۔ پس اب دیکھنا یہ ہے کہ اس جنگ میں کون جیتے گا؟ کیا اس تنازعے کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے مزید شہریوں کے خون کی ضرورت ہے؟ (ڈان، کراچی، ۲۱؍اکتوبر ۲۰۱۲ئ)
اس دل خراش داستان کا ایک پہلو یہ ہے۔ ایک دوسرا پہلو بھی غورطلب ہے جسے خاصی تفصیل کے ساتھ ڈیو لنڈوف (Dave Lindorff) نے کاؤنٹر پنچ کی ۱۸؍اکتوبر ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں پیش کیا اور جو عالمی طاقتوں اور اربابِ سیاست کے دوغلے پن (duplicity) اور بے ضمیری (hypocracy) کا آئینہ دار ہے:
افغانستان اور پاکستان میں پچھلے ہفتے چھے بچوں پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ تین نوبالغ (teenage) لڑکیاں پاکستان میں جن میں سے ایک ملالہ یوسف زئی شدید زخمی ہوئی۔ دوسرا حملہ افغانستان کے ہلمند صوبہ کی تحصیل ناوا میں جس میں امریکی ہوائی جہاز کے حملے میں تین بچے ہلاک ہوئے: ۱۳سالہ بارجان، ۱۰سالہ سردار ولی اور ۸سالہ خان بی بی۔ تینوں ایک ہی خاندان کے چراغ تھے جو اپنے گھر کے لیے ایندھن کے لیے گوبر جمع کر رہے تھے۔ تین پاکستانی بچوں پر حملہ طالبان نے کیا (گو، وہ بچ گئیں) اور افغانستان میں تین معصوم بچوں پر حملہ امریکا کی فوج نے کیا جسے اپنے ٹھیک ٹھیک نشانے (precision attack) پر ناز ہے اور تینوں جان کی بازی ہار گئے۔
اس دوسری تفصیل سے کئی سوالات فوری طور پر اُبھرتے ہیں: سب سے پہلے، یہ اگر تین بچے اس قدر قریب تھے کہ وہ اس ’تیر بہ ہدف‘ حملے سے مارے جاتے تو پھر یقینی طور پر وہ اتنے قریب بھی تھے کہ طالبان مجاہدین کی کارروائی کی نگرانی کرنے والے جہاز کو بھی نظر آجاتے اور اُس فضائی حملے کی ضرورت ہی نہ پڑتی جس کا بندوبست کیا گیا تھا۔ دوسری بات یہ کہ امریکا الزامی طور پر کوشش کر رہا ہے کہ شہریوں کی جان کے اِتلاف کو کم کرے۔ اب فرض کرلیجیے کہ فضائی حملے متقابل فوجوں کی جھڑپ (rules of engagement) کے قانون کے مطابق کیے جارہے ہیں، تب بھی حملوں کی اجازت اُس وقت ہوتی ہے جب ’امریکا یا اتحادی افواج کے لیے خطرہ منڈلا رہا ہو۔
LED کی تنصیب کس طرح منڈلاتا ہوا خطرہ بن گئی؟ اگر حقیقی مقام معلوم ہو، اُس علاقے کے فوجی دستوں کو خبردار کیا جاسکتاہے۔ LED ہٹایا بھی جاسکتاہے اور اُڑایا بھی جاسکتا ہے۔ شناخت کردہ LED منڈلاتا ہوا خطرہ نہیں ہوسکتا۔ امریکی ذرائع ابلاغ، تین پاکستانی لڑکیوں اور حوصلہ مند لڑکیوں کی تعلیم کے باب میں وکیل ملالہ پر حملے کی کوریج کرتے ہوئے لبریز دکھائی دیتے ہیں۔ تین افغان بچوں کی موت پر یہ سب کچھ نہیں ہوا، تاہم نیویارک ٹائمز نے ایک نام نہاد حملے میں مقبوضہ افغان اتحادیوں کے ہاتھوں ہلاکت پر امریکی فوجیوں کی ’سبز پر نیلی اموات‘٭ نامی مضمون کے اختتام کے نزدیک چند پیراگراف لگادیے۔
پاکستان اور امریکا، دو ایسے ممالک ہیں کہ جہاں بچوں پر ہونے والے دو حملوں کا ردعمل انتہائی واضح طور پر مختلف ہے۔ ملالہ اور اُس کی دو ہم جماعت ساتھیوں پر حملے کے بعد پاکستان میں ہزاروں پاکستانی سڑکوں پر نکل آئے تاکہ طالبان جنونیوں کے اقدام پر احتجاج ریکارڈ کراسکیں اور اُن کی گرفتاری اور اُن کو سزا دینے کا مطالبہ کرسکیں (جرم میں معاونت کرنے والے دو ملزموں کو گرفتار کیا جاچکا ہے)۔ حکومت ِ پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ قرار پانے والے قاتلوں کو سزا دی جائے گی۔ نیز ملالہ کی برطانیہ میں ایک بہتر اور محفوظ ہسپتال میں منتقلی کے اخراجات بھی برداشت کیے ہیں۔ دوسری دو لڑکیوں کے تحفظ کے لیے بھی مسلح گارڈ فراہم کردیے گئے ہیں۔
اسی اثنا میں، امریکا میں بہت سے لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ اُن کی اپنی ملٹری نے تین افغان بچوں کو بھون کر رکھ دیا ہے۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ اگر اُنھیں اس کا علم ہوبھی جاتا، تب بھی وہ اس کی کوئی پروا نہیں کرتے۔سڑکوں پر ایسے بھرپور مظاہرے نہ ہوتے جن میں مطالبہ کیا جاتا کہ فضائی حملے بند کیے جائیں اور ڈرون حملے کے ذریعے قتل کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ صرف ۲۸ فی صد امریکی کہتے ہیں کہ اُنھیں ڈرون کے ذریعے حملے جاری رکھنے پر اعتراض ہے۔اگرچہ یہ واضح ہے کہ ڈرون حملے سیکڑوں___ شاید ہزاروں معصوم شہریوں کی ہلاکت کا باعث بن رہے ہیں۔
پاکستان میں اسکول کی لڑکیوں پر حملہ کرنے والوں کو پہلے ہی گرفتار کیا جاچکا ہے۔ یقینی طور پر اُن کو مکروہ جرم کی پاداش میں قید کی سزا ملے گی، یہ سلوک اُس پائلٹ اور حملہ کرنے والے افراد کے ساتھ نہ کیا جائے گا جنھوں نے اس ہلاکت خیز حملے میں حصہ لیا جس کے باعث تین افغان بچے زندگی سے محروم ہوگئے۔
واپسی پر اُن کا خیرمقدم ، اُن سے ملنے والے جنگ سے واپس آنے والے ’ہیرو‘ کے طور پر کریںگے۔ لوگ اُن کے قریب سے گزریںگے اور کہیں گے: ’’آپ کی خدمات پر آپ کا شکریہ‘‘۔ چاہے اُس خدمت میں معصوم بچوں کو ہلاک کرنے کی ’خدمت‘ بھی شامل ہو۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ جن تین بچوں کو نشانہ بنا کر امریکی فوجیوں نے ہلاک کرنے کا جو اقدام کیا ہے وہ افغان حکومت کے ساتھ، قوت کے استعمال کے جن اصولوں پر اُنھوں نے اتفاق کر رکھا ہے، اُس کی بھی خلاف ورزی نہیں ہے؟ اگرچہ ٹائمز نے جو شہ سرخی لگائی ہے اُس کا عنوان ہے: ’’اتحادیوں کے حملے میں افغان بچوں کی ہلاکت پرسوالات اُٹھائے گئے‘‘ لیکن اس سوال کا ذکر کہیں نہیں ملتا؟ نہ ٹائمز نے ہی ایمان داری سے یہ رپورٹ کیا کہ یہ امریکی حملہ تھا، جوابی حملہ نہیں تھا۔(کاؤنٹر پنچ،۱۸ ؍اکتوبر۲۰۱۲ئ)
لیکن بات صرف ان چھے بچوں تک محدود نہیں۔ صرف پاکستان میں ڈرون حملوں سے امریکی یونی ورسٹی کی تحقیق کے مطابق ۳ہزار۳سو سے زیادہ افراد ہلاک کیے جاچکے ہیں جن میں سے صرف ۴۱ کے بارے میں معلومات ہیں کہ ان کا کوئی تعلق القاعدہ یا طالبان سے تھا۔ ۹۸ فی صد عام شہری تھے جن میں سیکڑوں بچے شہید ہوئے۔ یہی خونیں داستان افغانستان کی ہے، عراق کی ہے، کشمیر کی ہے، فلسطین کی ہے، برما کی ہے___ اور نہ معلوم کہاں کہاں روے زمین پر معصوم انسانوں کا خون اسی طرح بہایا جارہا ہے اور ظالم کا ہاتھ روکنے والا اور قاتل کو قرارواقعی سزا دینے والا کوئی نہیں۔ کیا یہی ہے تہذیب و تمدن کا عروج اور جمہوریت کا فروغ؟
اس سارے گھنائونے کھیل کو کیا نام دیا جائے؟ پاکستان کے ایک سابق نام ور سفیر اور تجزیہ نگار جناب آصف ایزدی نیوز انٹرنیشنل میں اپنے مضمون Malala and the Terrorist Mindset میں یہ کڑوا سچ بڑے صاف الفاظ میں رقم کرتے ہیں:
سینٹ میں ایک تقریر کے دوران وزیراعظم نے اس امر پر زور دیا کہ ملالہ پر حملے کے پیچھے ’کارفرما ذہن‘ کے ساتھ جنگ کی جائے۔ اُنھیں یہ ضرور جان لینا چاہیے کہ دہشت گردی کے تخلیقی سبب کی تلاش ایک کے بعد دوسری پاکستانی حکومت کی اُن پالیسیوں میں ملے گی جن کی وجہ سے تنخواہوں میں بہت بڑا فرق ہے، بدعنوانی کا چلن ہے اور عام آدمی کو تعلیم اور سماجی و اقتصادی ترقی کے عمل میں شرکت کا موقع فراہم نہیں کیا جاتا۔ جب تک ان مسائل کا حل تلاش نہیں کیا جاتا، اس ذہنی رویے کے، جس کی اُنھوں نے نشان دہی کی ہے، پھلنے پھولنے کا سلسلہ جاری رہے گا اور کسی بھی قسم کا فوجی آپریشن نہ صرف بے نتیجہ بلکہ ضرر رساں ہو گا۔
ملالہ ایک بچہ سپاہی ہے جسے ’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ کے پروپیگنڈا محاذ پر غیرمسلح اورتنہا روانہ کردیا گیا۔ اُس کے لیے وہی کردار طے کیا گیا جو طالبان کے ۱۵/ ۱۸ برس کے خودکش بم باروں کا ہوتا ہے، تاہم اُس کے بچ جانے کے امکانات نسبتاً بہتر تھے۔ یہ معجزے سے کم نہیں کہ وہ ابھی تک ہمارے پاس ہے۔
ملالہ اس قدر کم عمر ہے کہ اُس کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ وہ کس کے خلاف کام کر رہی ہے اور اُس کی اپنی ذات کے لیے اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ ملالہ پر جو کچھ گزری ہے اُس کی ذمہ داری مکمل طور پر اُن کے سر ہے جنھوں نے اُ س نظریہ پرستی کا تنفرانہ استحصال کیا، صرف اس لیے کہ اس طریقے سے وہ اسٹرے ٹیجک اہداف اور سیاسی مقاصد حاصل کرسکیں۔
ایک طرف، جب کہ ہم دعاگو ہیں کہ وہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ آئے، ہمیں اُن کو یہ اجازت نہ دینی چاہیے کہ وہ اپنے گناہ کو مذمت کے خنک دار بیانات سے چھپائیں یا گولی مارنے کے افسوس ناک واقعے کو، ہمارے ملک میں قتل عام اور تنازعات میں گہرا دھکیلنے کے لیے استعمال کریں۔ (نیوز انٹرنیشنل، ۲۲؍اکتوبر ۲۰۱۲ئ)
ملالہ بلاشبہہ ایک مظلوم بچی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ بھی دکھا دیا ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہم سب اس کی صحت یابی اور روشن مستقبل کے لیے دعاگو ہیں لیکن وہ صرف اس لیے مظلوم نہیں کہ اس معصوم بچی پر قاتلانہ حملہ ہوا، بلکہ وہ اس لیے بھی مظلوم ہے کہ اس بچی کو کون کون اور کس کس طرح اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گولی کے نشانے پر لگنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس بچی کو دنیا بھر کے لیے معجزانہ طور پر بچالیا اور یہ بھی اس کا کرم ہے کہ پاکستان کو جس آگ میں دھکیلنے اور پاکستان اور افغان قوم کے ایک بڑے حصے کو تصادم، منافرت، بدلے اور نہ ختم ہونے والی جنگ کی آگ میں دھکیلنے اور امریکی انتخابات میں اس خونیں کھیل کو ایک شعبدے کے طور پر استعمال کرنے کا جو شیطانی منصوبہ بنایا گیا تھا وہ خاک میں مل گیا۔وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۵۴)
الحمدللہ! وہ سیاہ بادل جو مطلع پر چھا گئے تھے چھٹ گئے ہیں مگر کیا خطرہ فی الحقیقت ٹل گیا؟ جہاں ہمیں اللہ کی رحمت اور اعانت پر پورا بھروسا ہے، وہیں اس امر کا اِدراک بھی ضروری ہے کہ پاکستان شدید اندرونی و بیرونی خطرات میں گھرا ہوا ہے جن کا اِدراک اور مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی اور مؤثر کارفرمائی ازبس ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ہم بہت ہی اختصار کے ساتھ چند گزارشات پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
سب سے پہلی بات جس کا سمجھنا ضروری ہے وہ یہ ہے بلاشبہہ دہشت گردی ایک جرم ہے، خواہ اس کا ارتکاب افراد کریں، یا گروہ یا حکومتیں۔ دہشت گردی انسانی تاریخ کے ہر دور میں موجود رہی ہے اور اس کا مقابلہ بھی کیا گیا ہے اور کامیابی سے افراد اور معاشرے کو اس سے محفوظ کیا گیا ہے۔ ۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کا نیویارک کے ٹریڈٹاور اور واشنگٹن کے پینٹاگان پر حملہ دہشت گردی کے اندوہناک واقعات تھے مگر دہشت گردی کا آغاز نہ اس واقعہ سے ہوا اور نہ اس کے نتیجے میں دہشت گردی کی نوعیت میں کوئی جوہری فرق ہی واقع ہوا۔ البتہ امریکا نے اس واقعے کو جنگ کا نام دے کر اور اس کے مقابلے کے لیے قانون، افہام و تفہیم، تعلیم اور اصلاحِ احوال کے لیے سیاسی اور معاشی تدابیر کا مجرب راستہ اختیار کرنے کے بجاے، جنگ اور قوت کے بے محابا استعمال کا حربہ استعمال کیا اور پوری دنیا کو ان ۱۱برسوں میں تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اس لیے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشت گردی کو دہشت گردی اور جنگ کو جنگ رکھا جائے اور سیاسی مسائل کے عسکری حل کی جو خون آشام حماقت کی گئی ہے، اس سے جلد از جلد نجات پانے کا راستہ نکالا جائے۔
دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ جس طرح دہشت گردی اور جنگ کو خلط ملط کیا گیا ہے اسی طرح دہشت گردی اور تشدد، اور تشدد اور انتہاپسندی اور انتہاپسندی اور جدت کو گڈمڈ کرنا ژولیدہ فکری اور کوتاہ اندیشی کا تباہ کن شاہکار ہے۔ ان میں سے ہراصطلاح کا اپنا مفہوم ہے اور ہرایک کا اپنا کردار ہے اور ان میں سے ہر ایک کے بارے میں ردعمل دینے (respond) کا اپنا انداز ہے۔ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش بہت سی خرابیوں کی جڑ ہے۔ اس خطرناک مغالطے کا نتیجہ ہے کہ بات ذہنی رویے اور سوچ (mindset) کی کرتے ہیں اور اس کے مقابلے کے لیے اقدام فوج کشی تجویز کرتے ہیں، حالانکہ خیالات کا مقابلہ خیالات سے، نظریات کا نظریات سے، دعوے کا دلیل سے کیا جاتا ہے، ڈنڈے اور گولی سے نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں دہشت گردی کا مقابلہ اس سے بڑی دہشت گردی سے کرنے کی جب بھی کوشش کی گئی ہے، وہ ناکام رہی ہے۔ دل اور دماغ کی جنگ دلیل اور نظریات کے ذریعے جیتی جاتی ہے۔ سیاسی، معاشی اور سماجی بنیادوں پر رُونما ہونے والے تشدد کا مداوا بھی ان اسباب کو دُور کر کے ہی کیا جاسکتا ہے، جو لوگوں کے اختلافات اور شکایات کو تصادم اور تشددکی طرف لے جانے کا باعث ہوتے ہیں۔ امریکا کے محکمۂ دفاع کا ایک ہمدرد تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن ہے جس نے اس موضوع پر اپنی تحقیق کے نتائج میں نمایاں طور پر یہ بات کہی ہے کہ دہشت گردی کا حل قوت کا استعمال نہیں، بلکہ افہام و تفہیم اور سیاسی معاملہ بندی کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔ مائیکل شینک لندن کے اخبار دی گارڈین (۲۵جولائی۲۰۱۲ئ) میں اپنے مضمون بعنوان The Costly Errors of American Wars میں لکھتا ہے:
ہماری جنگیں اس قدر مہنگی کیوں ہوچکی ہیں؟ امریکی وزارتِ دفاع سے قربت رکھنے والی رینڈ کارپوریشن کی راے ہے کہ ۸۴ فی صد دہشت گردتنظیموں کو ختم کرنے یا بے دست و پا کرنے میں پولیس ، سراغ رسانی اور مذاکرات انتہائی اہم اسٹرے ٹیجک اقدامات کررہے ہیں، جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم خطیر وسائل، بھاری فوجی اور فضائی لائولشکر کی قدر کر رہے ہیں، بشمول ۴۰،۴۰؍ارب ڈالر والی مشترکہ حملہ کرنے والی مہنگی آنٹرمز۔ یہ اسٹرے ٹیجک ہتھیار تیزی سے حرکت کرنے والے اور جگہ جگہ پائے جانے والے گروہوں کے مقابلے میں غیرمؤثر ہیں۔ اس قدر انحصار کیوں؟ چونکہ دفاعی صنعت نے ہرریاست میں اور کم و بیش کانگریس کے ہر ڈسٹرکٹ میں ایسے آپریشن شروع کیے ہیں اور چونکہ اُس کی لابی واشنگٹن میں انتہائی طاقت ور ہے۔ رینڈ نے جو تجویز کیا ہے ہمیں اس پر عمل کرنا چاہیے اور بہت کم اخراجات میں کئی اور ممالک میں صلاحیت پروان چڑھانا چاہیے۔
امریکی افواج کے ادارے رائل یونائیٹڈ اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات اور مستقبل کے بارے میں کوئی افہام و تفہیم (understanding) ایسی مشکل بات نہیں ہے۔ طالبان میں گفت و شنید کے راستے کو اختیار کرنے والے لوگ موجود ہیں۔ اسی طرح شریعت کی تعبیر، تعلیم اور خصوصیت سے لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں وہ اتنے کٹّر اور انتہاپسند نہیں جتنا کہ ہمیں خطرہ ہے۔ اور پھر اس رپورٹ میں صاف الفاظ میں عسکری راستے کی جگہ سیاسی راستے کے امکانات کا ذکر کیاگیا ہے:
مذاکرات کے ذریعے اُن غلط فہمیوں کو ختم کیا جاسکتا ہے جن کی وجہ سے تنازعے نے آگ پکڑ لی ہے۔ جیساکہ شورشوں (insurgencies) سے نجات کے کئی اور واقعات میں ہوا۔ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے تشدد کی شدت اور ہونے والے واقعات کی تعداد میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ بصورتِ دیگر تشدد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ چونکہ طالبان اور طاقت رکھنے والے دیگر گروہ ارادہ رکھتے ہیں کہ ناٹو کی ہنگامی روانگی کے بعد خلا کو بھریں، افغان نیشنل سیکورٹی فورسز کی جو خامیاں ہیں اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں توقع رکھنا چاہیے کہ طالبان کا دیہی شہری جنوب، جنوب مشرق اور مغرب میں کنٹرول بڑھ جائے گا۔ اس تمام سے واضح ہوجاتا ہے کہ راے عامہ کے سروے اور تحقیق کیوں ظاہر کرتے ہیں کہ افغانوں کی غالب اکثریت چاہے مرد ہوں یا عورتیں، مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ اہمیت اس چیز کو دی جائے کہ کسی بھی شرط کے بغیر کثیرجماعتی ٹھوس بنیاد رکھنے والے کھلے مذاکرات کا اہتمام کیا جائے۔ جس رفتار سے فوجی دستوں اور امداد میں کمی آرہی ہے۔ اسی رفتار سے عالمی برادری کی مختلف جماعتوں پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت، امن کے عمل کے قیام اور ۲۰۰۱ء کے بعد حاصل ہونے والے فوائد سمیٹنے میں واقع ہورہی ہے۔ متفقہ مصالحت کاروں اور ثالثوں کی موجودگی، مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ اگرچہ ایسے لوگ اب موجود نہیں ہیں۔ پاکستان کے تعاون کے بغیر کوئی بھی ذریعہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کو مذاکرات میں ایک نشست ملے یا نہ ملے، اس کے افسران کو لازمی طور پر مذاکرات میں شریک رہنا چاہیے۔ جوں جوں مذاکرات قوت حاصل کریں گے اُسی قدر شمالی اور وسطی افغان سیاسی گروہ اِن میں شمولیت اختیار کرتے رہیں گے۔ (ملاحظہ ہو Matt Waldman کا مضمون بعنوان Why It's Time for Talks with the Taliban ، دی گارڈین، ۱۰ستمبر ۲۰۱۲ئ)
امریکی قیادت طاقت کا کتنا ہی استعمال کیوں نہ کرڈالے سیاسی حل کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ حالات کی اصلاح کے لیے پاکستان ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے لیکن وہ کردار شمالی وزیرستان میں جنگ کے دائرے کو وسیع کرنے سے ادا نہیں ہوسکتا۔ وہ جنگ کی آگ کو ٹھنڈاکرنے سے ہی ہوسکتا ہے، لیکن دانا اور طاقت کے نشے میں مست نادان میں فرق یہ ہی ہے کہ نادان پہلے حالات کو بگاڑتا ہے اور پھر وہی کچھ کرنے پر مجبور ہوتا ہے جو دانائی کا تقاضا ہے کہ ؎
ہرچہ دانا کند، کند ناداں
لیک بعد از خرابیِ بسیار
(ترجمہ: جو کچھ دانا کرتا ہے، نادان بھی بالآخر وہی کچھ کرتا ہے، لیکن خرابی بسیار کے بعد )۔
یہی وہ حکمت عملی ہے جو پاکستان کی پارلیمنٹ نے اپنی تین متفقہ قراردادوں میں طے کی ہے اور جس کی تفصیل پارلیمان کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے ایک واضح نقشۂ کار کی شکل میں مرتب کی ہے لیکن اکتوبر ۲۰۰۸ئ، اپریل ۲۰۰۹ء ، مئی ۲۰۱۱ء اور اپریل ۲۰۱۲ء کی ان تمام ہدایات کوعملاً ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا اور امریکا کے اشارئہ چشم و آبرو اور ترغیب وترہیب (carrot & stick) دونوں کے بے محابا استعمال کے نتیجے میں ملک کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیاگیا اور اسے مزید تباہی کی طرف دھکیلنے کی مہم امریکا، امریکی لابی، اور امریکا کی باج گزار قیادت پوری قوت سے چلارہی ہے۔
امریکا عراق اور افغانستان میں ناکام رہا ہے۔ عراق کو جلتا ہوا اور تباہ حال چھوڑ کر رخصت ہوگیا ہے اور افغانستان کو تباہ و برباد کر کے اور خود اپنے فوجیوں کی ۲ہزار اور ناٹو کی ۸۰۰ سے زیادہ ہلاکتوں، نیز ان سے ۱۰گنا زیادہ کے شدید مجروح ہونے اور دماغی اور جسمانی امراض اور محرومیوں کا نشانہ بنانے، خود ان دونوں مظلوم ممالک کے ۲لاکھ سے زیادہ افراد کو لقمۂ اجل بنانے، لاکھوں کو بے گھر کرنے اور خود اپنے ۴ہزار ارب ڈالر سے زیادہ پھونک دینے کے باوجود ناکام و نامراد واپس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں دیکھتا ہے۔ لیکن اس پر بضد ہے کہ مسئلے کا عسکری حل ہی تھوپنے کی کوشش جاری رکھے گا اور پاکستان کو اپنے برادر ہمسایہ ملک اور اس کے باسیوں سے ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں اُلجھا کر جائے گا۔ ویسے تو ۲۰۱۴ء میں فوجوں کی واپسی کا اعلان کیا گیا ہے لیکن امریکا کے سیاسی تجزیہ نگار اور تھنک ٹینک یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ انخلا اس سے پہلے کیا جائے۔
نیویارک ٹائمز نے ۱۳؍اکتوبر ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں اپنی تاریخ کا طویل ترین اداریہ لکھا ہے جو ۱۸۵۶ الفاظ پر مشتمل ہے اور اس کا ماحصل یہ ہے کہ افغانستان کی جنگ جیتی نہیں جاسکتی، اس لیے جلد واپسی کا راستہ اختیار کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ ۲۰۱۳ء کے آخیر تک امریکی اور ناٹو کی افواج واپس آجائیں۔ ناٹو کے سیکرٹری جنرل فاگ راسموسن(Fog Rasmussen) نے بھی اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ افغانستان سے بیرونی افواج کا انخلا ۲۰۱۴ء سے پہلے ہوجانا چاہیے۔ اسی راے کا اظہار کابل میں برطانیہ کے سفیر نے کیا ہے۔ فرانس نے ۲۰۱۲ء ہی کے اختتام تک اپنی فوجوں کی واپسی کااعلان کردیا ہے۔ ان حالات میں اصل ایشو جنگ کو بڑھانا نہیں، اسے سمیٹنا اور ختم کرنا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے اداریے کے یہ الفاظ امریکا اور ناٹو کے اس وقت کے ذہن کی پوری عکاسی کرتے ہیں:
ریاست ہاے متحدہ امریکا کی افواج کے لیے یہ مناسب وقت ہے کہ وہ افغانستان چھوڑ دیں (کیونکہ) امریکا صدر اوباما کے محدود مقاصد کو حاصل نہ کرسکے گا اور جنگ کو طول دینے کا مقصد صرف یہ ہوگا کہ نقصان بڑھ جائے۔
اس سوچ کو فروغ دینے میں عسکری اہداف میں ناکامی، اور بڑھتی ہوئی معاشی قیمت اور امریکا اور یورپی ممالک کے روزافزوں مالیاتی خساروں کے علاوہ راے عامہ کی تبدیلی اور خود افغان عوام ہی نہیں، ان افغان افواج تک کے ہلاکت خیز حملے ہیں جن کی تربیت امریکی افواج نے کی ہے اور جن کو آیندہ افغانستان کی سیکورٹی کی ذمہ داری کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔
ان حالات میں شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کرنا صرف اپنی تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے، اور اس جنگ کو اپنی جنگ کہنا حقائق کا منہ چڑانا اور عوام کے، جن کی ۹۷ فی صد عظیم اکثریت امریکی فوجی کارروائیوں کی مخالف ہے، کے منہ پر طمانچا مارنا ہے۔
اصول اور سیاسی حکمت عملی، دونوں ہی اعتبار سے اس سے بڑا خسارے کا کوئی اور سودا نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے چیف جسٹس جناب افتخارمحمد چودھری نے اس ہفتے ’قیامِ امن بذریعہ قانون‘ کے موضوع پر ایک نہایت پُرمغز خطبہ دیا ہے جس میں ’دہشت گردی کے نام پر جنگ‘ کی حکمت عملی کے مقابلے میں انصاف، آئین اور قانون کی بالادستی پر مبنی حکمت عملی کا نقشہ پیش کیا ہے۔ پارلیمنٹ نے جو خطوطِ کار طے کیے تھے اور چیف جسٹس نے جن کو اپنے انداز میں بڑی خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے وہ اس آگ سے نکلنے اور ملک و قوم کو امن اور خوش حالی کے راستے پر گامزن کرنے کا واحد ذریعہ ہیں۔
اگر پاکستان آج ایسے حالات کا سامنا کر رہا ہے جن میں امن ایک سہانا خواب لگتاہے تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم ماضی میں کیے گئے گناہوں کی قیمت چکا رہے ہیں۔ یہ ایک ناگوار حقیقت ہے کہ عرصۂ دراز سے ہم نے اپنے آئین کے ساتھ وہ برتائو نہیں کیا جس کا وہ حق دار تھا۔ قانون کی ناتواں حکمرانی نے عسکری نظریات کو جنم دیا۔ جو قومیں آئین کااحترام کرتی اور اسے حقیقی طور پر نافذ کرتی ہیں، وہ چیلنجوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے اور تنازعات کا تصفیہ کرنے میں کامیاب رہتی ہیں۔ آئین شکنی اور قانون کی حکمرانی سے انحراف نے ہمیں بھٹکا دیا اور قانون کی حکمرانی کو پاکستان میں نابود کیا۔ یہی وہ اسباب ہیں جنھوں نے تشدد اور لاقانونیت کی فضا قائم کی۔
ان حقائق کی روشنی میں جناب چیف جسٹس نے پارلیمنٹ سے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے حتمی طور پر عسکری تنظیموں کے بارے میں قانون سازی کرے اور حکومت ضروری اقدام کرے۔ ساتھ ہی انھوں نے صاف الفاظ میں متنبہ کیا ہے کہ عالمی سطح پر پائی جانے والی بدامنی کا اصل سبب بھی ظلم اوربے انصافی ہے۔ ان کا ارشاد ہے کہ:
پیچیدہ اور جڑوں تک پہنچے ہوئے جھگڑوں نے دہشت گردی، ماوراے عدالت قتل، انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی اور دیگر برائیوں کو جنم دیا ہے، جو انتہاپسندی اور بنیادپرستی کی افزایش کرتے ہوئے عالمی امن کو مسخ کرنے کی وجہ بن رہی ہیں۔ ان تمام مسائل سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ قانون، امن اور تہذیب کی اصولی تعلیمات کو بنیاد بناتے ہوئے افراد اور ریاستوں کے درمیان حائل فاصلوں کو کم کیا جائے اور ان مواقع کو تلاش کیا جائے جو عالمی امن کے قیام میں مددگار ہوں۔ قانون کی حکمرانی کے ذریعے امن کا قیام چاہے مقامی سطح پر ہو یا بین الاقوامی سطح پر،تنازعات اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہمیشہ انتہائی مفید ثابت ہوا ہے۔ میری راے میں تنازعات میں اُلجھے ہوئے لوگوں کے مابین حقیقی امن منصفانہ تصفیے کی بدولت ہی قائم ہوسکتا ہے۔ اور یہ تصفیہ متحارب جماعتوں کے لیے تب ہی قابلِ قبول ہوگا جب انھیں یقین ہو کہ اسے جائز اور قانونی طریقے سے بروے کار لایا جارہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتاہے کہ کوئی بھی تصفیہ جس کی پشت پر قانون کی ضمانت نہ ہو، وہ دیرپا نہیں ہوگا اور ایسے منصفانہ تصفیے کے بغیر قیامِ امن ناممکن ہے۔
زمینی حقائق، عالمی حالات اور تاریخی تجربات سب کا حتمی تقاضا ہے کہ پاکستان کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ جلد از جلد امریکا کی اس جنگ سے نکلے اور خود امریکا کو دوٹوک انداز میں مشورہ دے کہ جتنی جلد افغانستان سے اپنی اور ناٹوافواج کی واپسی کا اہتمام کرے، یہ جتنا پاکستان اور امریکا کے مفاد میں ہے اتنا ہی افغانستان اور اس پورے علاقے کے لیے بہتر ہے۔ اس کے لیے تمام متعلقہ قوتوں سے مذاکرات کا جلد از جلد آغاز ہونا چاہیے۔ افغانستان میں بیرونی مداخلت کے تمام راستوں کو بند کیا جائے اور افغانستان کی تمام دینی اور سیاسی قوتوں کی باہم مشاورت سے ایک ایسا سیاسی انتظام کہا جائے جسے افغان تسلیم کریں، اور جس کی باگ ڈور بھی انھی کے ہاتھ میں ہو۔ پھر اس کو عملاً نافذ کرنے کا اہتمام بھی کیا جائے۔ پاکستان اس میں ایک شفاف انداز میں شریک ہو اور افغان عوام کی نگاہ میں، امریکا کے مفادات کے نگہبان کی حیثیت سے نہیں، بلکہ پاکستان اور افغانستان دو برادر مسلم ممالک کے مشترک مفادات کا نقیب بنے۔ امن کا راستہ انصاف اور حقوق کے احترام ہی سے مسخر کیا جاسکتا ہے۔
آخری بات ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے جس طرح جنرل پرویزمشرف کی پالیسیوں کو جاری رکھا اور امریکی مفادات کو مشرف سے بھی زیادہ بڑھ کر آگے بڑھایا، اس سے اسے نہ ملک میں ساکھ (credibility) حاصل ہے اور نہ افغان عوام اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں جلداز جلد نئے انتخابات نہایت شفاف انداز میں منعقد کیے جائیں تاکہ عوام ایک نئی قابلِ اعتماد اور بالغ نظر قیادت کو برسرِاقتدار لاسکیں جو امریکا سے بھی باعزت دوستی کا راستہ اختیار کرے، ملک کی معیشت کو عوام دوستی اور خدمت خلق کی بنیادوں پر استوار کرے، اور افغانستان کے مسئلے کا بھی افہام و تفہیم کے ذریعے مناسب سیاسی حل نکالنے کی کوشش کرے۔ ایک حقیقی آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرے جسے پوری قوم کی تائید حاصل ہو۔ اس سے زیادہ شرم کی بات اور کیا ہوگی کہ سینیٹ کی کمیٹی براے دفاع کے ایک اجلاس میں ڈیفنس سیکرٹری جناب لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف یٰسین ملک نے پہلی بار کھل کر اعتراف کیا ہے کہ پرویز مشرف کی اجازت سے ۲۰؍اگست ۲۰۰۱ء سے شمسی ایئربیس امریکا کے زیراستعمال تھا اور وہ وہاں سے پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملے کرتا رہا۔ اس ایئربیس سے یہ سلسلہ ۱۱دسمبر ۲۰۱۱ء کو ختم ہوا۔ واضح رہے کہ اس شرمناک دور میں موجودہ حکومت کے پورے چار سال بھی شامل ہیں۔ جنرل صاحب نے صاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ:the attacks were carried out with the governments approval. (ڈان، ۲۲اکتوبر ۲۰۱۲ئ)
فوجی اور سیاسی قیادت دونوں اس پورے عرصے میںامریکی ڈرون حملوں میں پاکستانی حکومت کی شراکت اور اجازت کا انکار کرتے رہے اور قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے متعدد اجلاسوں میں، جن میں راقم الحروف شریک تھا، ہرسطح کے ذمہ داروں نے پاکستان کی شراکت داری سے برملا انکار کیا اور دعویٰ کیا کہ حکومت کی اجازت اور تائید ان حملوں میں شامل نہیں۔ لیکن اب اس کا اعتراف کیا جا رہا ہے، جو قوم اور پارلیمنٹ سے دھوکا اور ایک قومی جرم ہے جس کا پارلیمنٹ اور عدالت کو قرارواقعی نوٹس لینا چاہیے۔ لیکن ان سب حالات کا واحد حل یہی ہے کہ ملک میں جلد از جلد نئے منصفانہ انتخابات کا اہتمام کیا جائے تاکہ عوام ان لوگوں سے نجات پاسکیں جنھوں نے قوم کو امریکا کی غلامی میں دے دیا اور امریکا کی جنگ میں نہ صرف شرکت کی بلکہ خود اپنی قوم کے خلاف فوج کشی کی اور امریکا کو خود ہماری اپنی سرزمین سے ہم پر ہی گولہ باری کا موقع دیا اور اس کی سرپرستی کی۔
قوم اور دستور سے غداری اور کس چیز کا نام ہے!
کتابچہ دستیاب ہے، تقسیم عام کے لیے ۸۰۰ روپے سیکڑہ، منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲
کسی بھی معاشرے میں جب قومی سطح کے انتخابات ہوتے ہیںتو اس کے نتیجے میں ایک نیاسیاسی اور انتخابی کلچر وجود میں آتا ہے۔معاشرے کے مختلف ادارے باہمی تعاون کی نئی سبیلیں تلاش کرتے ہیںاور مل جل کر معاشرے کی خدمت کے نئے منصوبے بناتے ہیں۔منتخب لوگ بھی جن وعدوں اور دعوؤں کے ساتھ برسراقتدار آتے ہیںاور جس منشور کی پاسبانی کو اپنی ذمہ داری قرار دیتے ہیں، ان وعدوں کو پورا کرنے اور دعوؤں میں رنگ بھرنے کی کوششیں شروع کردیتے ہیں۔
پاکستان میں ایک طویل آمریت کے بعد فروری ۲۰۰۸ء میں انتخابات ہوئے تو لوگوں نے بجا طور پر یہ توقعات قائم کیں کہ حالات سدھریں گے، مواقع بڑھیں گے اور معاشرے میں سلگتے ہوئے مسائل کے جنگل سے نجات ملے گی۔ لیکن ’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘۔پانچ سال ہونے کو آئے ہیں،کوئی وعدہ ایسا نہیں جو وفاہوتا نظر آئے ، کوئی دعویٰ ایسا نہیں جس کی قلعی کھل نہ گئی ہو، اور کوئی امید ایسی نہیں جو یاس میں تبدیل نہ ہو گئی ہو۔ انتخابات جیتنے اور حکومت بنانے والوں نے اقتدار سنبھالتے ہی دو نکاتی یقین دہانی کرائی اور ببانگ دہل اس کا اعلان کیا کہ عوام نے پرویزمشرف اور اس کی پالیسیوں کو مسترد کردیا ہے اور یہ کہ ہم تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر مفاہمت کی پالیسی پر عمل کریں گے، ایک دوسرے کے خلاف کردار کشی کی مہم اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے گریز کریں گے اور عوام کے دکھوں کا مداوا سب کا ایجنڈا قرار پائے گا۔ عوام نے ان دونوں باتوں کا خیرمقدم کیا، انھیں اپنے دل کی آواز سمجھا اور’ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘ کے مصداق یہ گمان کیا کہ ان کی تمنائوں اور آرزوئوں کی تکمیل کا خواب اپنی تعبیر کو پہنچا چاہتا ہے۔ مگر پچھلے پانچ سالوں میں جو کچھ ہوا، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ وہی چال بے ڈھنگی، وہی ایڈہاک ازم، لوٹ مار کے نت نئے طریقے اور عوام کی خدمت سے عاری رویے اور منصوبے۔جن اعلانات اور کانوں میں رس گھولنے والی باتوں کے ساتھ آج کی حکومت برسر اقتدار آئی تھی، وہ اعلانات محض اعلانات ہی ثابت ہوئے۔ پرویز مشرف اور اس کی پالیسیاں زور و شور سے جاری ہیں اور مفاہمت کی پالیسی کے نام پر حکمران اتحاد اوراپوزیشن جماعتیں جس طرح ایک دوسرے کے بخیے ادھیڑ رہی ہیں، وہ سب پر عیاں ہے۔
زندگی کے تمام دائروں میں جس درجے لاقانونیت نظر آتی اوردکھائی دیتی ہے، خود کش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے روز افزوں واقعات جس طرح خوف اور دہشت کی فضا پیداکرتے ہیں، آفرین ہے کہ عوام نے تو اس صورت حال کا جرأت و بہادری اور مصمم ارادے سے مقابلہ کیا ہے، ملک کی تعمیر نو میں بھی دل چسپی کا اظہار کیا ہے، قومی یک جہتی کو بھی پارہ پارہ ہونے سے بچایا ہے اور حکمرانوں کو بھی مسلسل آئینہ دکھایا ہے، لیکن خود حکمران جس طرح امریکی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں، اسی سے ڈکٹیشن لیتے ہیں، اس کے کہے پرعمل کرتے ہیں، اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور اسی سے اپنی پالیسی اور ترجیحات کا تعین کراتے ہیں، اس نے پاکستان کو غلامی کی بدترین صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔
پیپلزپارٹی نے اپنے دور حکومت میں جمہوری تقاضوں کے بالکل برعکس اداروں سے متصادم ہونے کی راہ اختیار کی،اور یہ پیپلزپارٹی کی ریت اور روایت رہی ہے ۔ اس کا پورا ٹریک ریکارڈ تصادم اور محاذ آرائی کی پالیسی سے عبارت ہے۔ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹونے ’ادھر تم ادھر ہم‘ کا نعرہ لگایا تھا اور’جو اسمبلی کے اجلاس میں ڈھاکہ جائے وہ ایک طرف کا ٹکٹ لے کر جائے‘اس دھمکی آمیز رویے کو اپنایا تھا،اور ’جو ڈھاکہ جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی‘ اس لب و لہجے میں بات کی تھی۔ منجملہ دیگر امور کے یہی وہ رویہ ہے جس کے نتیجے میں ہمارا مشرقی بازو ہم سے جدا ہو گیا۔وہ دن ہے اور آج کا دن، پیپلزپارٹی محاذ آرائی اور تصادم کی سیاست پر یقین رکھتی اور عمل کرتی آرہی ہے۔ جو لوگ اس پارٹی کی حکمرانی اور اس کی تاریخ سے واقف ہیںان کے لیے یہ بات حیرانی کا موجب نہیں ہے۔ آج بھی سپریم کورٹ کو للکارا جا رہا ہے، اسے بائی پاس کیا جا رہا ہے، اس کے فیصلوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، اور اس کے فیصلوں کی خلاف ورزی کر کے لاقانونیت اور دستور سے بغاوت کے کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے۔پیپلزپارٹی کا اگر یہ خیال ہے کہ وہ کیکر کا درخت اُگائیں گے اور اس پرسے آم اتاریں گے تو یوسف رضا گیلانی کے معاملے میں وہ دیکھ چکے ہیںکہ جو کچھ انھوں نے بویا تھا وہی کاٹا،اور اب راجا پرویز اشرف کے معاملے میں بھی اس سے مختلف رویے کی انھیں توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ عدالت کے فیصلے کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں اور مظلوم اور ہمدرد بن کر عوام کے سامنے ٹسوے بھی بہاتے ہیں۔ عدالت کو اس معاملے میں مضبوطی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپنے فیصلوں پر کماحقہ عملدر آمد ہوتا نہ دیکھے تو آئین کے مطابق اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد ہی میں ملک و قوم کی بقا ہے،اور محمود و ایاز کو ایک صف میں کھڑاکرنے سے ہی آئین و قانون کی بالادستی ممکن ہے۔ سپریم کورٹ نے اب تک اولوالعزمی اور آئین کو بالادست رکھنے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ توقع یہی ہے کہ وہ اسی ریت کو جاری رکھے گی، اور یہ بھی احتمال ہے کہ پیپلزپارٹی بھی محاذآرائی کی روش سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔
پیپلزپارٹی اور اتحادیوں کی حکومت کا اصل سلوگن جمہوری حکومت رہا ہے مگر جو حکومت سپریم کورٹ کے فیصلوں کو نہ مانتی ہو اور پارلیمنٹ کے فیصلوں اور قراردادوں کو رتی برابر اہمیت نہ دیتی ہو، وہ کس منہ سے اپنے آپ کو جمہوری حکومت کہہ سکتی ہے؟غیر جمہوری رویوں اور طورطریقوں کو اپنا کر جمہوریت کا لیبل لگانا ؎
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حُسن کرشمہ ساز کرے
کے مترادف ہے۔ حکومتی سطح پر اداروں کو باہم متصادم کرنے کی روش معاشرے کی چولیں ڈھیلی کر دیتی ہے، معاشرے کی پہچان گم ہو جاتی ہے، اس کا تشخص گہنا جاتا ہے اور معاشرہ اپنی اقدار سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت زندگی کے تمام دائروں میں دیکھا جاسکتا اور اس کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔پرویز مشرف کی طرح عوامی نمایندہ ہونے کی دعوے دار یہ اتحادی حکومت بھی عوام کے دکھوں میں اضافے کا سبب بنی ہے اور زخموں کو پھاہا بھی میسر نہیں ہے۔ اتحادی جماعتوں نے مرکز اور صوبوںمیں عوام کو مایوس کیا ہے۔ان سب کی عدم کارکردگی اور برے طرزِ حکمرانی کی وجہ سے لوگوں کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ ان سب کا ویژن اور اپروچ الگ الگ ہے مگر اپنے اپنے مفادات اور وقتی اور عارضی طور پر اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے جمع ہو گئے ہیں۔
بلوچستان اور کراچی کے حالات میں ایک درجہ مماثلت بھی پائی جاتی ہے اور عمومی طور پر اپنے اپنے حالات اور اپنے اپنے دکھوں کی دنیا بھی آباد ہے۔بلوچستان کو جس احساس محرومی نے آگھیرا ہے، اس کا مداوا احساس شرکت سے ہی کیا جا سکتاہے، محض زبانی جمع خرچ سے نہیں۔ یہ سوال اہم ہے کہ یہ احساس بلوچوں میں کیسے پیدا کیا جائے؟ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ بلوچوں کے ساتھ مذاق بند کیا جائے، ان کا تمسخر نہ اڑایا جائے، اور وزیراعلیٰ تک کا مہینے میں ۲۵ دن اسلام آباد میں مقیم رہ کر محض کوئٹہ میں کابینہ کا اجلاس کر کے یہ دعویٰ نہ کیا جائے کہ بلوچستان کے حالات تبدیل کرنے کا کام کیا گیا ہے۔ بلوچوں کو لالی پاپ کی ضرورت نہیں ہے، لوری دے کر انھیں خوش نہیں کیا جا سکتا۔ محض پیکیج کے نام پر انھیں دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا اور وسائل سے مالامال صوبہ ہے۔ اپنے وسائل میں سے اگر وہ اپنا حق طلب کرتے ہیں تو امانت و دیانت اور حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ اس مطالبے کو تسلیم کیا جائے اور وہاں کے وسائل کو وہاں کے مفلوک الحال عوام پر خرچ کیا جائے۔ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے صوبائی حکومت نے بھی کوئی کام نہ کیا اور کسی کو علم نہیں کہ ایک سو سے زیادہ ارب روپے جو بلوچستان کے عوام کے لیے دیے گئے ہیں وہ کہاں گئے؟ عوام کی حالت بدتر اور جان، مال اور عزت کی پامالی ماضی کی طرح جاری ہے۔ مرکزی حکومت کی طرح صوبائی حکومت بھی ایک ناقابل معافی جرم کی مرتکب ہوئی ہے۔
صوبائی کابینہ میں تمام پارٹیاں شریک ہیں، تمام ایم پی اے وزیر بنے ہوئے ہیںاور اپنے لیے دونوں ہاتھوں سے وسائل اور مراعات اکٹھی کر رہے ہیں لیکن بلوچوں کو انھوں نے محرومیوں کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ اب اگر وفاقی وزیر داخلہ اورآئی جی ایف سی بلوچستان یہ بیان دیتے ہیں کہ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش کر رہا ہے، تو دشمن سے تودشمنی کی ہی توقع کی جا سکتی ہے۔اور دشمن کے ساتھ اگر مذاکرات کی میز پر بیٹھا جائے تو اس کا گلہ بھی کیا جانا چاہیے اور کبھی بلوچستان کے ایشو پر مذاکرات کا بائیکاٹ بھی کیا جانا چاہیے تاکہ اس کی مداخلت بند ہو۔ لیکن حالات کو درست کرنے اوراپنے گھر کو پُرامن بنانے کی ذمہ داری تو مرکزی اور صوبائی حکومت کی ہے،اور بظاہر یہ دونوں حکومتیں اس جانب بڑھتی ہوئی نظر نہیں آتیں۔ابھی موقع ہے کہ بلوچستان کے حالات کو درست کیا جا سکے، وہاں ہونے والے ظلم کی چادرکو ہٹایا جا سکے، ناانصافی کی طویل رات کو سحر کیا جا سکے لیکن جمہوریت کے نام پر قائم ہونے والی حکومت جمہوری رویوں سے بالکل ناآشنا نظر آتی ہے۔عوام کے دلوں میں اس کے لیے نفرت،مذمت، احتجاج، دوریوں اور گالیوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
کراچی کی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا براے تاوان کے حوالے سے حکومت سندھ میں شریک تینوں پارٹیاں ایک دوسرے پر الزام لگاتی ہیںاورایک دوسرے کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھیراتی ہیں،اور جب وہ ایسا کہہ رہی ہوتی ہیں تو سچ بول رہی ہوتی ہیں۔سندھ کی صوبائی حکومت چوری اور بھتہ خوری کے مشترکہ نکتے پر قائم ہے اور یہ بات زبان زد عام ہے کہ صوبے کی حکومت پس پردہ ہاتھوں میں ہے۔ وزیر اعلی کی حیثیت محض نمایشی ہے۔ پیپلزپارٹی کو سندھ میں اکثریت حاصل ہے، وہ اکیلے اور تنہا حکومت بنا سکتی ہے لیکن دہشت گردوں کواپنی گود میں بٹھا کر اس نے عوام کی پیٹھ پر بھی ظلم کا کوڑا برسایا ہے اور دہشت گردی کے فروغ کا ذریعہ بھی بنی ہے۔ ایم کیو ایم یا اے این پی کے مینڈیٹ میں سرے سے یہ بات تلاش نہیں کی جا سکتی کہ انھیں حکومت میں ہونا چاہیے لیکن جرائم کی فہرست جب طویل ہو جاتی ہے اور بوری بند لاشیں، بھتہ خوری اور لوگوں کا جینا حرام کرنے کے ذرائع استعمال کر لیے جاتے ہیں، تو حکومت کی پناہ میں گزربسر کرنا ایسی پارٹیوں کا منشور بن جاتا ہے۔ صوبہ سندھ میں یہ ٹرائیکا جس کی حکومت وہاں پر قائم ہے، ان تمام مسائل، مصائب اور حالات کی خرابی کا ذمہ دار ہے۔جب تک دہشت گرد حکومت میں شامل رہیں گے کراچی اور سندھ کے شہریوں کے حالات کو درست کرنا ممکن نہیں ہوگا ، جان و مال کا عدم تحفظ روزمرہ کا معمول رہے گا اور نجات کی کوئی صورت بن نہ پائے گی۔
خیبر پختونخوا کی صورت حال بھی ابتری سے دوچار ہے۔صوبائی حکومت نے عوامی خزانے کی لوٹ مار کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جسے تین تین مرتبہ ہجرت پر مجبور کیا گیاہے، گھر سے بے گھر اور لاوارث بنا کر چھوڑ دیا گیا ہے۔ لاتعداد سکول اور ہسپتال ہیںجو دہشت گردی کی نذر ہوگئے ہیں،اور بین السطور یہ بات کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ سوات جیسے ضلع میں تمام سکولوں کو اگر بھک سے اڑا دیا گیا تو یہ سارے واقعات کرفیو کے دوران پیش آئے۔ لوگوں نے اپنے سر کی آنکھوں سے اس منظر کو دیکھا اور ان گواہوں کی ایک بڑی تعداد ان تمام علاقوں میں موجود ہے جہاں لوگوں کو ان کی ضروریات سے محروم کرکے عنوان یہ دیا گیا کہ دہشت گردی پر قابوپانے کے لیے فوجی آپریشن ہو رہا ہے۔ خیبر پختونخوااس بات کا مستحق ہے کہ وہاں جن بچوں سے مستقبل چھین لیا گیا ہے اور جن عوام کو صحت کی بنیادی ضروریات سے محروم کر دیا گیا ہے، مرکزی و صوبائی حکومت ان کے لیے تعلیم اور صحت کے مراکز تعمیر کرنے پر توجہ دے۔
اس پورے عرصے میں پنجاب حکومت کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ اس نے جمہوری رویوں کو برقرار رکھا ہے، عوام کے دکھوں کا لحاظ اور پاس کیا ہے، اور مرکز کی طرف سے مداخلت اور حالات کو بگاڑنے کی کوششوں کے باوجود تحمل اور بُردباری کا مظاہرہ کیا ہے ۔ حالانکہ اس کے پاس اتنے وسائل تھے اور اتنی دانش و بینش اسے میسر تھی کہ اگر وہ لوڈ شیڈنگ کے بارے میں مرکزی حکومت سے کامل بے اعتنائی برتتے ہوئے اسے کم کرنے یا کنٹرول کرنے کے اقدمات کرتی اور اس کی گنجایش موجود تھی، تویقینی طور پر یہ ایک بڑا کارنامہ ہوتا لیکن اس نے بھی سواے مرکز کو چارج شیٹ کرنے کے کچھ نہ کیا اوراپنے فرائض کی ادایگی سے پہلوتہی کرتے ہوئے عوام کے دکھوں میں کوئی کمی نہیں کی۔ اسی لیے پنجاب بالخصوص لاہور لوڈشیڈنگ کے سب سے بڑے مراکز کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ یہ بھی محسوس ہوا کہ مصنوعی اور نمایشی اقدامات، دکھاوے کے اور عوام کو بے وقوف بنانے کے عنوانات تو بہت سجائے گئے، چاہے وہ سستی روٹی سکیم ہو یا لیپ ٹاپ کی تقسیم کا معاملہ ہو لیکن حقیقی طور پر مہنگائی کو ختم کرنے اور بے روزگاری کوکم کرنے کے جو منصوبے اور اقدامات ہوسکتے تھے، وہ سامنے نہیں آسکے۔ اور یہی معاملہ کم و بیش لا اینڈ آرڈر کی صورت حال کا نظر آیا۔ دہشت گردی کے واقعات بھی اس کی گواہی دیتے ہیں،اور عمومی طور پر جو لاقانونیت ہے اور جو ظلم کی نئی نئی داستانیں رقم ہوتی اور آشکار بھی ہوتی ہیں، ان سے بھی اس کا اندازہ ہوتاہے۔ پنجاب میں جس طرح پرائمری ہی سے انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جا رہا ہے، تعلیم مخلوط کی جارہی ہے، اور جس طرح لیپ ٹاپ تقسیم کرکے حکومتوں کے اصل فرائض اور ذمہ داریوں سے پہلوتہی کی جا رہی ہے، نیز طلبہ کو جن دائروں میں ہمت افزائی کی ضرورت ہے اور سہولتیں فراہم کرنے اور ضرورتیں پوری کرنے کی طرف توجہ دی جانی چاہیے، ان سے جس طرح پہلو تہی کی جارہی ہے، اس سے ایک ایسے سماج کا نقشہ سامنے آ رہا ہے جو بے پیندے کے لوٹے سے بھی گیا گزرا ہو۔
بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کاجو امیج استعماری طاقتوں کی پاکستان و اسلام دشمنی،اور حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی اورغلط پالیسیوں کی وجہ سے بن رہا ہے، وہ پاکستان کے وقار کی بھی نفی کرتا ہے اور جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات کا رونا بھی روتا ہے۔ اگر امریکا اپنی پالیسی کے تحت پاکستان کو ایٹمی پروگرام سے محروم کرنا چاہتا ہے اور اسے بین الاقوامی کنٹرول میں دینے اور اس کو محفوظ ہاتھوں میں دینے کا راگ الاپنا چاہتا ہے، تو اس کی پالیسی کے تمام عناصر ترکیبی اس طرف نشان دہی کر رہے ہیں کہ وہ ملک میں انارکی کو فروغ دینا چاہتا ہے، بدنظمی اور لاقانونیت کی فضا کو بڑھوتری دینا چاہتا ہے اور اس کے لیے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی اور شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لیے مسلسل دبائو بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ ملک کے اندر فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والے قتل ومقاتلہ میں اس پہلو سے اور امریکی سازش کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کوشش اور سازش تو یہی ہے کہ سنی اور شیعہ باہم دست و گریبان ہو جائیںجیسا کہ عراق میں کیا گیا لیکن ابھی تک یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔اگر معاشرے میں شیعہ سنی کو فرقہ وارانہ کشیدگی کے نتیجے میں باہم متصادم کردیا جائے تو کوئی خوشی غمی کی تقریب، کوئی ادارہ، کوئی محلہ اور بستی اس سے نہیں بچ سکیں گے۔دونوں طرف کے عوام اور سربرآوردہ لوگوں نے اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی چاہتے ہیں اور دشمن کی سازش کو ناکام بنانے میں پیش پیش ہیں۔ ان کی طرف سے اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ کوئی بھی ذی ہوش انسان معصوم لوگوں کے قتل کی تائید اور کوئی صاحب ِ ایمان اس پر خوشی کا اظہار نہیں کرسکتا،تاہم حکومتی اداروں کوامن عامہ برقرار رکھنے اورفرقہ وارانہ بنیادوں پر تشدد پھیلانے والوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ ادانہیں کرسکے۔ حکمران خوابِ غفلت میں مدہوش ہیں اور مستقبل کی فکر مندی کے بجاے اس سے لاپروا دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان جس خطے میں واقع ہے اس میں اس کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ جسے سینٹرل ایشیا کے وسائل تک پہنچنا ہے، وہ پاکستان کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔جو چاہتا ہے کہ چین کی دہلیز تک اس کی رسائی ہو جائے، وہ پاکستان کے بغیر ایسا کرنے سے قاصر نظر آئے گا۔ جو ایران کو سبق سکھانا چاہتا ہے اسے پاکستان کی ضرورت کا احساس ستائے گا۔ جو افغانستان کے پہاڑوں اور چٹانوں سے شریعت کو ابھرتا دیکھے گا اور اس پر قدغن لگانے اور اس کا راستہ روکنے کا خواہاں ہوگا، وہ پاکستان کے بغیر یہ کام نہیں کرسکتا۔ جو یہ چاہتا ہے کہ مصنوعی طورپربھارت کو اس خطے کا تھانیدار بنا دے ،اس کے قدکاٹھ میں اضافہ کرکے اسے بلاشرکت غیرے اس خطے کا والی اور وارث بنادے، اسے پاکستان کا تعاو ن درکار ہوگا۔ امریکا اپنے نئے عالمی نظام کی تنفیذکے لیے ان تمام نکات کو اپنا ایجنڈا سمجھتا ہے، اور اس کی جزئیات تک کو نافذ کرنے کے لیے بے تاب اور بے قرار نظر آتا ہے لیکن اس کباب کے اندر ہڈی پاکستان کو سمجھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جغرافیائی اعتبار سے پاکستان کو جو مقام دیا ہے ، اس کو دیکھتے ہوئے بلاخوف تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگراسے کوئی محب وطن قیادت میسر آجائے اور اخلاص و للہیت کے ساتھ خدمت کے جذبے سے سرشار اپنے آپ کو پائے تو پاکستان اس پورے خطے کو نیا آہنگ دے سکتا ہے۔اگر ہم اپنی خارجہ پالیسی اپنی اس اہمیت کو پیش نظر رکھ کر بنا رہے ہوتے تو یہاں دودھ اور شہد کی نہریں نہ بھی بہہ رہی ہوتیں لیکن اتنا ضرور ہوتا کہ دہشت گردی کو دندنانے کا موقع نہ ملتا، جان و مال کا تحفظ یقینی دکھائی دیتا اور حکومتیں جن مقاصد کے لیے قائم کی جاتی ہیںان کی تکمیل کرتی ہوئی نظر آتیں۔ افسوس کہ حکمران، سول و ملٹری بیوروکریسی اور پالیسی ساز ادارے خود ہی اپنی اہمیت سے ناواقف ہوتے ہوئے’ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے‘ کا مصداق بنے ہوئے ہیں اور غیروں کے دست نگر بن کر اپنے تشخص کو پامال کرنے اور بحیثیت قوم کے خود اپنے پیر پر کلہاڑی مارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
’ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کبھی بھی ہماری جنگ نہ تھی۔ یہ اس خطے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے، اس کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے امریکی جنگ تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ پلوں کے نیچے سے جس قدر پانی بہا ہے اور سروں کے اوپر سے جس قدرپانی گزرا ہے، اس نے دو اور دو چار کی طرح یہ بات واضح کر دی ہے۔ اس جنگ سے دہشت گردی کو فروغ ملا ہے۔ اس نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی ہے، اور مسجدوں اور امام بارگاہوں اور پبلک مقامات اور محفوظ دائروں سے گزر کر ایبٹ آباد ، کامرہ اور نیول بیس کراچی میں اپنے آپ کو منوایا ہے۔ دہشت گردی کا مقابلہ صرف طاقت سے کرنے کی حکمت عملی تجربے سے غلط ثابت ہو چکی ہے۔ طاقت کے استعمال سے دہشت گردی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کے پھیلائو اور وسعت کو کسی پیمانے سے ناپا نہیں جا سکتا ۔ امریکی فرمایش اور ’ڈومور‘ کی گردان پر ہم نے جس طرح اپنے لوگوں کے خلاف ملٹری آپریشنز کیے ہیں ، اور اس کے نتیجے میں پورے ملک میں جو تباہی ہوئی ہے، وہ اس کی گواہی دے رہی ہے۔دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے تین نتائج بالکل واضح ہیں۔ جگہ جگہ اور جا بجا فوجی آپریشن اور ڈرون حملے اس جنگ کا منطقی نتیجہ ہیں۔ گم شدہ افراد کا المیہ اور ان کی تعداد میں روزافزوں اضافہ اسی کا شاخسانہ ہے۔حکومت نے ڈرون حملوں پر جس طرح خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، اس نے اس حقیقت کو اظہرمن الشمس کردیا ہے کہ حکومت اور فوج کے ایما پر ہی یہ سلسلہ جاری ہے۔ جو کام پرویز مشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہو کر شروع کیا تھا وہ کام منتخب حکومت پوری آب و تاب کے ساتھ اور امریکا وناٹو سے وفاداری نبھاتے ہوئے جاری رکھے ہوئے ہے اور قوم اور پارلیمنٹ دونوں کی واضح ہدایات کا مذاق اُڑا رہی ہے۔
خارجہ امور کے حوالے سے یہ بات کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ ایک ڈکٹیٹر نے افغانستان میں ایک بابرکت شرعی حکومت کو تہس نہس کرنے میں امریکا کا ساتھ دیااور افغانوں کی اپنی حکومت کو ڈھلان پر چھوڑ دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکا اور اس کے حواری افغانستان میں بدترین شکست سے دوچار ہو چکے ہیں۔ ایک ہزیمت ہے جو سایے کی طرح ان کا پیچھا کر رہی ہے۔ اور لاکھوں ٹن بارود کی برسات بھی افغانوں کے عزم صمیم اور ان کے جذبۂ جہاد کے سامنے ٹھیر نہیں سکی۔ امریکا اور اس کے ۴۰ شریک ممالک کی کیل کانٹے سے لیس افواج پچھلے ۱۱سال سے افغانستان میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ افغانوں اور پاکستان کو اس کے نتیجے میں جو مالی و جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے، اس کے اعداد و شمار بھی دور تک پھیلے ہوئے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اب سے کم و بیش ربع صدی پہلے اگر سوشلزم کا قبرستان افغانستان ثابت ہوا تھا تو آج امریکا، اس کے تھنک ٹینکس اور اس کے حلیفوں کی بصیرت و بصارت اور دُور اندیشی و دُوربینی کا قبرستان بھی افغان کوہساروں اور ریگزاروںمیں پھیلا ہوا ہے۔ جس ویژن کے ساتھ جارج بش نے اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کی تھیں وہ ویژن ضعف کے حوالے ہو چکا ہے، ناکامی و نامرادی اس کا مقدر بن چکی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت پاکستان اس منظرنامے کو دیکھتے ہوئے ماضی قریب کی تمام پالیسیوں پر نظرثانی کرتی اور ایک نئی آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دیتی۔ پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر تین قراردادیں منظور کیں جو خارجہ پالیسی کا جائزہ لینے اور اس کے اہداف اور پاکستان کی ضروریات کا ازسر نو تعین کرنے کی دعوت دیتی رہیں لیکن پارلیمنٹ کو سپریم اور بالادست کہنے اور اس کی مالا جپنے والے ایک قدم بھی اس سمت میں آگے نہ بڑھ سکے اور پارلیمنٹ کی یہ متفقہ قراردادیں صدا بصحرا ثابت ہوئیں۔سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی صدارت میں کل جماعتی کانفرنس منعقد کی اور ساری جماعتوں نے بڑے جوش و خروش اور احساس ذمہ داری کے ساتھ اس میں شرکت کی۔ اس کی قرارداد بھی انھی نکات پر مشتمل تھی کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نجات پائی جائے، آزاد خارجہ پالیسی کی طرف قدم بڑھائے جائیں اور خطے میں پاکستان کے مفادات کی نگہبانی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ یہ کُل جماعتی کانفرنس اور اس کی قرارداد بھی نشستند و گفتند و برخاستند کی نذرہوگئی۔
سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے نتیجے میں جو جانی نقصان ہوا وہ اپنی جگہ لیکن وقار کا، تمکنت کا اور توقیر کا جو جنازہ سلالہ سے اٹھااس نے پوری قوم کو مضطرب اور بے چین کر دیاتھا، اور اس کے نتیجے میں اگر ناٹو سپلائیز بند کردی گئی تھیں تو قوم نے اس کا خیر مقدم بھی کیا تھا اور بڑے پیمانے پر مظاہرے کر کے یہ بات بھی باور کرائی تھی کہ ہم ایک آزاد قوم کی حیثیت سے جینا چاہتے ہیں اور جو لوگ ہماری خودمختاری کو چیلنج کر رہے ہیں اور ہمارے جوانوں کو شہید کر رہے ہیں، ان کے ساتھ دوستی ہو سکتی ہے نہ ان کی جنگ میں شریک رہا جا سکتا ہے۔ یہ ایک نادر موقع فراہم ہو اتھا کہ پارلیمنٹ کی ہدایات کی روشنی میں خارجہ پالیسی تبدیل کی جائے اور امریکی جنگ کو خیرباد کہا جائے لیکن سیاسی اور فوجی قیادت امریکی دبائو کے سامنے ڈھیر ہوگئی۔ اوراس کے ضعف ، کمزوری اور حب الوطنی میں کمی کے نتیجے میں عوامی مخالفت کے علی الرغم ناٹو سپلائی کا بحال ہونا پوری قوم کے لیے شرمندگی اور ندامت کا باعث بنا۔ جماعت اسلامی نے نہ صرف ناٹو سپلائی بلکہ امریکا کے پورے ایجنڈے (ڈرون حملے ، ملٹری آپریشنزاور ریمنڈ ڈیوس جیسے ہزاروں امریکیوں اور ان کے ایجنٹوں کی موجودگی) کے خلاف آواز اٹھائی ہے ، تسلسل کے ساتھ ’گو امریکا گو‘ تحریک چلائی ہے، اور اس کے ذریعے قیام پاکستان کے مقاصد کو بھی آشکار اورذہنوں میں تازہ کیا ہے، اور امریکا کی سازشوں اور امت مسلمہ اور اسلام کے بارے میں اس کی سوچ و فکر اور پالیسیوں سے بھی لوگوں کو آگاہ کیا ہے جس کے نتیجے میں امریکا کے خلاف ایک عمومی بیداری کی لہر موجود ہے۔ بجاے اس کے کہ عوامی راے کا احترام کیا جاتااور حب الوطنی کے تقاضے پورے کیے جاتے،دشمن کو کمک پہنچانے، اس کے ضعف کو قوت میں بدلنے اور ناٹو سپلائیز کے بند ہونے سے جو کمزوری اس میں واقع ہو گئی تھی، اس کو دورکرنے کی شعوری کوشش کی گئی ۔ تاریخ میں ایسے عقل و دانش سے محروم اور عاقبت نااندیش لوگوں کی شاید مثال نہ ملتی ہو، جو اس طرح کے اقدام سے اپنے ہی پیر پر کلھاڑی مارتے ہوںاور دشمن کی صفوں کو مضبوط کرنے کا ذریعہ اور سبب بنتے ہوں۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان استعماری قوتوں کا دست نگر ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن ملکوں نے بیرونی امداد پر اپنی معیشت استوار کرنے کی کوشش کی ہے، وہ کبھی اقتصادی طور پر اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوسکے۔ بیرونی امداد اور قرضوں کی معیشت نوآبادیاتی نظام کے بظاہر ختم ہوجانے کے بعد معاشی طور پر قوموں کو بیڑیاں پہنانے ، ہتھکڑیاں لگانے اور زبان پر پہرے بٹھانے کے وہ طور طریقے ہیں جو اب خاصے پرانے ہو گئے ہیں۔ساری دنیا استعمار اور سامراج کے ہتھکنڈوں سے کچھ نہیں تو اپنے تجربوں سے گزر کر واقف ہوگئی ہے۔ پاکستان کی بجٹ اور معاشی پالیسی سازی میں جس طرح آئی ایم ایف ، ورلڈ بنک اور امداد دینے والے اداروں کا عمل دخل بڑھ گیا ہے، اس سے کون واقف نہیں ہے۔ان اداروں کے عمل دخل سے حالات مسلسل خراب ہوئے ہیں، مہنگائی کے عفریت نے لوگوں کا جینا دوبھر کیا ہے، غریب کی غربت میں بھی اضافہ ہوا ہے اور غریبوں کی تعداد میں بھی۔چاروں طرف احساس محرومی کے بادل منڈلاتے نظر آتے ہیں اور مجبور و بے کس عوام اپنی ناداری اور بے کسی و بے بسی پر سراپا احتجاج دکھائی دیتے ہیں۔ چادر سر کی طرف لے جائیں تو پیر کھل جاتے ہیںاور پیروں کی طرف لے جائیں تو سر کھل جاتا ہے لیکن کوئی ان کا پُرسان حال نہیں ہے۔ بے روزگاری’ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے‘ کا مقام پا چکی ہے۔ معاشی دائرے کے اندرمحرومیوں کی یہ داستان معاشرے کو جونقصان پہنچاتی ہے اور جس کش مکش میں مبتلا کرتی ہے وہ سب کچھ یہاں دکھائی دے رہا ہے۔
اخلاقی گراوٹ کا اگر ذکر کیا جائے تو اس میںیہ تمام عوامل کارفرما ہیں۔ پورے معاشرے کو جس طرح فحاشی و عریانی، بے حیائی اور جنسی ہیجان کے اندر مبتلا کردیا گیا ہے، اور میڈیا کے ذریعے نظریہ پاکستان کی جس طرح نفی کی جا رہی ہے، اس کی بنیادوں کو جس طرح کھوکھلا کیا جا رہا ہے اور نئی نسل کے مستقبل کو جس طرح تاراج کیا جا رہا ہے، بے مقصدیت اور بے ہدف زندگی کو جس طرح عام کیا جا رہا ہے، یہ سب ایک سوچی سمجھی اسکیم کا حصہ ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ پاکستان سے اس کے نظریاتی تشخص کو چھین لیا جائے اور جس تحریک پاکستان کے نتیجے میں اور جس جدوجہد اور قربانیوں کے بعد اس ملک کو حاصل کیا گیا ، اُس کو ذہنوں سے اوجھل کر دیا جائے۔نصاب تعلیم اور نظام تعلیم میں جس طرح تحریفات کی جا رہی ہیںاور جن کے لیے اربوں روپے مغربی استعمار سرکاری اور غیر سرکاری راستوں سے خرچ کر رہا ہے، اس کا حاصل یہ ہوگا کہ نئی نسلیں ملک و ملت کی تاریخ سے بے خبر، اپنی اقدار سے بے نیاز اور ملک کے مقصد وجود سے لاتعلق ہوں گی اور حرص و ہوس ہی ان کا مقصد حیات بنا دیا جائے گا۔
اس پورے پس منظر میں جو پہلے پرویز مشرف اور اس کی حکمرانی کے دور میں اور پھر آصف زرداری اور اتحادی حکومت کی خراب کارکردگی کی وجہ سے اس انتہا کو پہنچا ہے،ملک میں انتخابات کا غلغلہ بلند ہو رہا ہے۔ حکمران جماعت اپنی مدت پوری کرنے کے قریب تر ہو رہی ہے اور انتخابات اُمید کی کرن کی حیثیت سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرتے جا رہے ہیں۔ اگرچہ یہ خدشات موجود ہیں کہ حکمران انتخابات کے عمل کو ایک سال آگے دھکیلنا چاہتے ہیںاورعین ممکن ہے کہ یہ منظرنامہ بیرونی طاقتوں کے ایما پر ہی ترتیب دیا جا رہا ہوکہ آصف زرداری اور ان کے حکمران ٹولے سے بہتر امریکا کا خدمت گزار کوئی نہیں ہو سکتا۔قومی انتخابات سے قبل بلدیاتی انتخابات کا شوشہ اسی لیے چھوڑا گیا ہے۔ جماعت اسلامی ہمیشہ بلدیاتی انتخابات کے حق میں رہی ہے لیکن پیپلزپارٹی اب بلدیاتی الیکشن کے لیے بے قراری کا مظاہرہ کر رہی ہے تو بجا طور پر یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ ساڑھے چار سال میں یہ کام کیوں نہیں کیاگیا اور کیوں اس کے فوائد سے بے زاری اور بے اعتنائی کا ارتکاب کیا گیا۔ اور اب عجلت کا یہ عالم ہے کہ ساڑھے پانچ سو صفحات پر مشتمل قانون صوبائی اسمبلی کو اپنے قانون سازی کے حق اور عوام اور میڈیا کو احتساب اور نظرثانی کے استحقاق سے محروم کرنے کے لیے گورنر ہائوس میں کلیا میں گڑ پھوڑنے کی مشق کے بعد آرڈی ننس کے ذریعے مسلط کرنے کا شرم ناک کھیل کھیلا گیا ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ جمہوری اور سیاسی حکومتیں قائم ہوتی ہیں تو وہ بلدیاتی انتخاب سے گریز کی راہ اختیار کرتی ہیں اور فوجی حکومتیں برسراقتدار آتی ہیں تو وہ اپنی سیاسی اور قانونی حیثیت کو تسلیم کرانے کے لیے بلدیاتی انتخابات کا رخ کرتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی حکومت چارمرتبہ عوام نے دیکھی ہے لیکن ان کے دور حکومت میں بلدیاتی انتخابات ہوتے ہوئے نہیں دیکھے گئے۔پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی حکمت عملی یہ نظر آتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں حکومتی اختیارات استعمال کرکے کامیابی حاصل کی جائے اور پھر بلدیاتی کامیابی کے نتیجے میں قومی الیکشن کو متاثر کرنے اور اپنے من پسند نتائج حاصل کرنے کی آسان اور کامیاب کوشش کی جائے۔
اس صورت حال سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ حقیقی اپوزیشن گرینڈ الائنس کی صورت میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائے اور اس یک نکاتی ایجنڈے پر آگے بڑھے کہ حکومت قومی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے، ایک قابل قبول مکمل طور پر غیر جانب دار عبوری حکومت سامنے لائی جائے، اور شفاف انتخابی فہرستوں کے ذریعے انتخاب کا اہتمام کیا جائے۔ اپوزیشن کی جماعتیں بظاہر اس تجویز سے متفق تو نظر آتی ہیں لیکن پیش رفت اور پیش قدمی کے لیے آمادگی کم کم دکھائی دیتی ہے۔یہ بات کہ گرینڈ الائنس نہ ہونے کی صورت میں جماعت اسلامی ایم ایم اے کی بحالی کی طرف جائے گی یا تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے ساتھ کسی الائنس یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی صورت میں قربتیں پیدا کرے گی، اس حوالے سے کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ تمام جماعتوں، سیاسی گروہوں اور رہنمائوں سے ہمارے رابطے ہیں اور ایک دوسرے کو سمجھنے اور تعاون کی راہیں تلاش کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اپنے طور پر بھی مسائل کو سمجھنے اور ترجیحات کے تعین کی کوشش کی جارہی ہے۔ جماعت اسلامی نے اپنا منشور بھی شائع کر دیا ہے لیکن صحیح معنوں میں انتخابی حکمت عملی اسی وقت بنے گی جب انتخابی تاریخوں کا اعلان ہوگا۔جو ہوم ورک اس دوران کیا جا رہا ہے، اس کے نتیجہ خیز ہونے یاصحیح طور پر اختیار کرنے کا وقت بھی وہی ہو گا۔
رابطہ عوام مہم کے دوران ہم یہ بات تسلسل سے کہہ رہے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ اس بات کو فروغ ملے اور بڑے پیمانے پر اس کو دہرایا جائے کہ پچھلے چھے سات الیکشن میں عوام نے جن پارٹیوں کو ووٹ دیے اور انھیں ایوان اقتدار تک پہنچایا، انھوں نے سواے مہنگائی وبے روزگاری، لاقانونیت و ٹارگٹ کلنگ اور امریکی غلامی کے ، عوام کی جھولی میں کچھ نہیں ڈالا۔ حکمران خود عیش و عشرت میں ہیں لیکن عوام کے حصے کڑوے کسیلے پھل آئے ہیں۔اگر لوگ انھی پارٹیوں کو جھولیاں بھرکے ووٹ دیں گے تو پھر بعد میں جھولیاں بھر کے بد دعائیں دینے سے تقدیر نہیں بدلے گی۔ ملک وملت کی قسمت بدلنی ہے تو ووٹ دینے کا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ اس لیے ناگزیر ہے کہ عوام اس پوری صورت حال سے واقفیت کے نتیجے میںاس جدوجہد میں شامل ہوں جو جماعت اسلامی بڑے پیمانے پر لے کر چلی ہے۔ یہ جدوجہد ’گوامریکا گو‘ کے قومی مطالبے کے واضح اظہار سے شروع ہوتی ہے۔ اس لیے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکی غلامی سے نجات ایک فلسفہ بھی ہے، نظریہ بھی ہے ،مقبول نعرہ بھی ہے، غلامی سے نجات کا راستہ اور آزادی کا پروانہ بھی ہے۔ امریکی غلامی سے نجات کے بغیر قومی وملّی اتحاد و اتفاق، عزت و وقار اور ترقی و کمال کی منزل پر نہیں پہنچا جا سکتا۔
رابطہ عوام کے نتیجے میں ہمیں لوگوں تک پہنچنا چاہیے، ان کے دروں اور دلوں پر دستک دینی چاہیے اور انھیں صورت حال سے آگاہ کرکے اس پر آمادہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے ووٹ دینے کے رویے پر نظرثانی کرتے ہوئے ان جماعتوں کو مسترد کریں جو ان کے لیے مشکلات اور مصائب کا سبب بنی ہیں اور ملک کی آزادی کو امریکا کی نئی غلامی میں دے دینے کا ذریعہ بنی ہیں۔ یہ بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ کرپٹ حکومت کے ذریعے کرپٹ معاشرہ ہی قائم ہوتا ہے اور کرپٹ حکمران عوام کی فلاح و بہبود کے لیے نہ کوئی کام کرسکتے ہیں اور نہ ان کے ذریعے پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست بنانے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔ یہ صرف پورے ملک کے اندر سرگرمی اور جدوجہد کے نتیجے میں ممکن ہے کہ عام آدمی جماعت اسلامی کی طرف رُخ کرے اور اپنا اور اپنے اہل خانہ کا ووٹ جماعت ا سلامی کے حق میں استعمال کرکے حالات کا رُخ بدلے اور ملک و قوم کو اس تاریک رات سے نجات دلائے جس کی جاں گسل گرفت سے نکلنے کے لیے وہ تڑپ رہی ہے۔
لوگ اس بحث میں بھی جا بجا کنفیوژن سے دوچار نظر آتے ہیں کہ انتخابات کے ذریعے کسی تبدیلی یاانقلاب کی گھن گرج نہیں سنی جا سکتی۔ یہ بات تسلیم ہے کہ انتخاب مکمل انقلاب کا راستہ نہیں ہے لیکن جزوی انقلاب اور جزوی تبدیلیاں بہتری کی طرف مائل کرنے اور منزل کو قریب کرنے کا ایک ذریعہ ضرور ہیں۔ اگر انقلابی ووٹرز کی تعداد بڑھتی چلی جائے اوروہ جماعت اسلامی کی پشتی بانی کریں تو یقینی طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انتخاب کا راستہ بھی انقلاب کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اگر عوام اور ووٹرز حکمرانوں کو، ظالموں اور جاگیرداروں کو، سیکولر لابی اور امریکی ایجنٹوں کو ووٹ نہ دیںاور انھیں بڑے پیمانے پر غیر مقبول بنا دیں تو اس کے نتیجے میں بھی اس تبدیلی کے دروازے کھل جائیں گے جو مطلوب ہے اور جس کے نتیجے میں ان شاء اللہ ’سٹیٹس کو‘ کے بت گرجائیں گے۔ اس لیے جماعت اسلامی نہ صرف اپنے بہی خواہوں اور خیرخواہوںسے، اپنے سے ہمدردی رکھنے والوں اور حمایت کرنے والوں سے یہ اپیل کرتی ہے کہ بلکہ ملک کے اہل دانش و بینش سے، سوچ اور فکر رکھنے والوں سے، ظالمانہ معاشی نظام کے دو پاٹوں میں پسنے والے انسانوں سے، دکھی لوگوں سے، غریبوں سے، محروموں، بے کس و مجبوروں سے بھی یہ اپیل کرتی ہے کہ وہ جماعت اسلامی کے جلو میں آجائیں۔ عدل و انصاف کا نظام قرآن و سنت کی فرماں روائی کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا کش مکش مول لے کر اسلامی نظام کی طرف بڑی تعداد میں لوگوں کو راغب کریںاور اسلام کے بابرکت نظام کو قائم کرنے کی نیت اور ارادے کے ساتھ انتخاب کے ذریعے تبدیلی کو یقینی بنائیں۔
کتابچہ دستیاب ہے۔منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ قیمت: ۱۳ روپے۔
زرداری حکومت نے امریکی اور ناٹو افواج کے لیے افغانستان میں اپنی جارحانہ جنگی کارروائیاں جاری رکھنے کے لیے سپلائی لائن بحال کردی ہے۔ یہ ایک نہایت عاقبت نااندیشانہ، بزدلانہ اور محکومی پر مبنی فیصلہ تھا جس کے نتائج اور تباہ کن اثرات رُونما ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ڈرون حملے حسب سابق جاری ہیں اور اب مشترک فوجی آپریشن اور شمالی وزیرستان میں زمینی اور فضائی حملوں کی منصوبہ بندی آخری مراحل میں ہے۔
واشنگٹن میں پاکستان اور امریکا کے خفیہ اداروں کے سربراہان نے خاموشی سے نیا جنگی منصوبہ تیار کرلیا ہے اور کور کمانڈروں کے اجلاس نے بھی اخباری اطلاعات کے مطابق، امریکی مطالبات پر کچھ پاکستانی شکرچڑھا کر ایک بظاہر تدریجی عمل کے ذریعے فوجی اقدامات کا نقشہ بنا لیا ہے۔ ایک طرف حکومت کے طے شدہ منصوبے کے مطابق قوم کی توجہ کو پارلیمنٹ اور عدالت میں محاذ آرائی کی دھند (smoke-screen) میں اُلجھا دیا ہے تو دوسری طرف الزام تراشیوں کی گرم گفتاری توجہ کا دوسرا مرکز بنی ہوئی ہے، نیز توانائی کا بحران اور معاشی مصائب قوم کی کمر توڑ رہے ہیں اور اسے فکرِمعاش کی دلدل سے نکلنے کی مہلت نہیں دے رہے۔ مبادلہ خارجہ کے بیرونی ذخائر کی کمی اور حکومت کی فوری مالیاتی سیّال اثاثے (liquidity )حاصل کرنے کی ضرورت اور امریکا سے اپنی ہی جیب سے خرچ کیے ہوئے ۳؍ارب ڈالروں میں سے ۱ئ۱؍ارب روپے کی وصولی کا ڈراما بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس سیاسی اور معاشی دُھندکا فائدہ اُٹھاتے ہوئے، پارلیمنٹ کے واضح فیصلوں اور عوام کے جذبات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے امریکا کے فوجی اور سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا پورا انتظام کیا جا رہا ہے۔ جس تباہی اور بربادی سے ملک کو بچانے کے لیے سیاسی اور دینی قوتیں احتجاج کر رہی تھیں اور جس کے لیے پارلیمنٹ اور اس کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے اپنے طور پر ایک بظاہر متفقہ لائحہ عمل دیا تھا ،اسے دربا بُرد کر کے پاکستان اور افغانستان دونوں کو ایک نئی جنگ اور تصادم کی آگ میں جھونکا جا رہا ہے۔
امریکا نے ۴جولائی ۲۰۱۲ء کو اپنی آزادی کے دن پاکستان کے نامۂ شکست پر جشن فتح منانے کے لیے ۲۴گھنٹے کے اندر اندر پاکستانی سرزمین پر تین ڈرون حملے کر کے نومبر ۲۰۱۱ء میں شہید ہونے والے ۲۴جوانوں کی فہرست میں ۳۴ نئے شہیدوں کا اضافہ کردیا تھا، لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ قیادت ڈرون حملوں کو تو کیا رکواتی، وہ خود اس جنگ کے سب سے خطرناک مرحلے میں امریکا کی شریکِ کار بننے کے لیے پر تول رہی ہے۔ اس طرح جو اصل امریکی مطالبہ تھا، یعنی پاکستانی فوج کے ذریعے شمالی وزیرستان میں مشترکہ آپریشن، اس کا سلسلہ شروع ہوتا نظر آرہا ہے اور امریکا کا جنگی جنون آخری فیصلہ کن دور میں داخل ہونے والا ہے۔ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اور ہونے والا ہے اس کی پوری ذمہ داری امریکا کی قیادت اور اس کی سامراجی سیاست کے ساتھ خود پاکستان کی حکومت اور اس کی موجودہ سیاسی اور فوجی قیادت پر آتی ہے۔ قوم کو جان لینا چاہیے کہ اگرماضی میں کچھ پردہ تھا بھی تو وہ اب اُٹھ گیا ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ جو جوہری تبدیلی اب سر پر منڈلا رہی ہے، اسے اچھی طرح سمجھا جائے اور قوم کو اس سے پوری طرح باخبر کیا جائے تاکہ اسے احساس ہوسکے کہ اس کی آزادی، عزت و وقار، قومی مفادات اور علاقے میں امن و آشتی کی خواہش، سب کچھ دائو پر لگا ہوا ہے۔ ضرورت ہے کہ قوم اس خطرناک کھیل کو سمجھے اور اس کے اہم کرداروں کو پہچان لے ، اور اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے نئی حکمت عملی بنائے اور اس پر عمل کے لیے مؤثر جدوجہد کا نقشہ بنا کر ضروری اقدام کرے۔ اس کام کو سلیقے اور حقیقت پسندی سے انجام دینے کے لیے ضروی ہے کہ اس سلسلے کے بنیادی حقائق کو ذہن میں ایک بار پھر تازہ کرلیا جائے تاکہ ان زمینی حقائق کی روشنی میں نیا نقشۂ کار تیار کیا جاسکے۔
پاکستانی عوام امریکا کی اس جنگ کو پاکستان، افغانستان اور پورے علاقے کے مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں اور اس میں پاکستان کی حکومت اور اس کی افواج کی شرکت کو ایک قومی جرم تصور کرتے ہیں۔ راے عامہ کے تمام سروے اس امر پر متفق ہیں کہ پاکستانی قوم کی عظیم اکثریت اس جنگ کو ننگی جارحیت سمجھتی ہے، اور خصوصیت سے ڈرون حملوں کو جو اَب امریکی جارحیت کی مضبوط ترین علامت ہیں، ملک کی آزادی، سالمیت اور حاکمیت پر بلاواسطہ حملہ قرار دیتی ہے۔ انگلستان کے ہفت روزہ نیو اسٹیٹس مین کی ۱۳جون ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں شائع ہونے والے مضمون میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ:
ایک حالیہ پیو (Pew) جائزے سے معلوم ہوا کہ ۹۷ فی صد لوگ ان حملوں کو منفی نظر سے دیکھتے ہیں، اور یہ طے ہے کہ یہ انتخابات میں ایک کلیدی مسئلہ ہوگا۔ پاکستان کی خودمختاری پر ایک اور حملہ سمجھتے ہوئے اس نے ملک میں امریکا دشمن شدید جذبات کو مزید طاقت ور بنا دیا ہے۔(http://www. newstatesmen.com )
بات صرف پاکستانی قوم اور پارلیمنٹ کے اس دوٹوک اعلان تک محدود نہیں کہ امریکا کے ڈرون حملے ہوں، یا امریکی افواج یا نیم فوجی عناصر کی ہماری سرزمین پر موجودگی اور خفیہ کارروائیاں، انھیں ختم ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ ان کی حقیقی نوعیت دراصل یہ ہے:
ا : یہ پاکستان (یا جس ملک میں بھی یہ کارروائیاں ہوں، اس ملک) کی حاکمیت اور آزادی کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ب: انھیں عملاً اس ملک اور قوم کے خلاف ’اقدامِ جنگ‘ شمار کیا جائے گا جو عالمی قانون، اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی تعلقات کی روایات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ج: ان کے نتیجے میں غیرمتحارب عام شہریوں کی بڑے پیمانے پر اموات واقع ہوتی ہیں جو نشانہ لے کر قتل کرنے (targettted assasination) کی تعریف میں آتی ہیں اور انسانیت کے خلاف جرم ہیں۔ نیز عام انسانوں کی بڑی تعداد زخمی اور بے گھر ہوتی ہے جو خود عالمی قانون اور روایات کی رُو سے جرم ہے اور اس کی قرارواقعی تلافی (compensation) کو قانون کا کم سے کم تقاضا شمار کیا جاتا ہے۔
د: تمام شواہد گواہ ہیں کہ یہ پالیسی اپنے اعلان کردہ مقصد، یعنی دہشت گردی کو ختم کرنے اور خون خرابے کو قابو کرنے یا کم کرنے میں ناکام رہی ہے اور اس کے نتیجے میں دوسرے تمام نقصانات کے ساتھ خود دہشت گردی کو فروغ حاصل ہوتا ہے، اور متعلقہ اقوام اور ممالک کے خلاف نفرت اور شدید ردعمل کے جذبات میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔
یہ وہ حقائق ہیں جن کو اب عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر تسلیم کیا جا رہا ہے جس کے صرف چند شواہد ہم پیش کرتے ہیں: (بلامبالغہ گذشتہ چند برسوں میں میرے علم میں ایک درجن سے زیادہ کتب اور ۱۰۰ سے زیادہ مضامین آئے ہیں جن میں کسی نہ کسی شکل میں اس ردعمل کا اعتراف کیا جارہاہے)۔
جارج بش کے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو شروع کرنے کے ۱۰سال بعد یہ سمجھا جارہا ہے کہ یہ کم ہورہی ہے۔ امریکا کا عراق پر فوجی قبضہ ختم ہوچکا ہے اور ناٹو افغانستان سے باہر نکلنے کا راستہ دیکھ رہی ہے، گو کہ قتل و غارت جاری ہے۔ لیکن دوسری جانب غیرعلانیہ ڈرون جنگ، جو ہزاروں انسانوں کو ہلاک کرچکی ہے، اب نہایت تیزی سے بغیر کسی روک کے بڑھائی جارہی ہے۔ پاکستان سے صومالیہ تک سی آئی اے کے بغیر پائلٹ کے جہاز مشتبہ دہشت گردوں کی ہمیشہ بڑھتی رہنے والی ہٹ لسٹ پر ہیل فائر میزائلوں کی بارش برساد یتے ہیں۔ ابھی بھی وہ سیکڑوں شاید ہزاروں شہریوں کو اس عمل میں ہلاک کرچکے ہیں۔ اس ماہ یمن میں کم از کم ۱۵ ڈرون حملے ہوئے ہیں اور اتنے ہی گذشتہ پورے عشرے میں ہوئے ہیں اور درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ گذشتہ ہفتے پاکستان میں بھی ڈرون حملوں کا ایک سلسلہ مفروضہ شدت پسند اہداف کو نشانہ بناکر شروع کیا گیا ہے۔ ۳۵؍افراد جل گئے اور ایک مسجد اور بیکری بھی زد میں آئی۔
درحقیقت یہ ہلاکتیں فوری قتل (summary executions) ہیں جنھیں عام طور پر بین الاقوامی قانون دان بشمول اقوام متحدہ کے ماوراے عدالت ہلاکتوں کے اسپیشل رپورٹر فلپ آلسٹون، امکانی جنگی جرائم قرار دیتے ہیں۔ سی آئی اے کے ریٹائرڈ کونسل نے جو ڈرون حملے کی منظوری دیتے تھے خود اپنے بارے میں کہا کہ وہ قتل میںملوث رہے ہیں۔
تمام ناٹو ریاستوں میں افغانستان کی جنگ کی حمایت نچلی ترین سطح پر آچکی ہے۔ امریکا میں ڈرون جنگ مقبول ہے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں، اس لیے کہ اس سے امریکی افواج کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ کوئی برابری کا مقابلہ تو ہے نہیں، جب کہ دہشت گرد مارے جارہے ہیں۔لیکن یہ ہائی ٹیک موت کے دستے ایک خطرناک عالمی مثال قائم کرر ہے ہیں جس سے امریکا کی سلامتی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
ایک عشرہ پہلے ناقدوں نے متنبہ کیاتھا کہ یہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ دہشت گردی کو ختم کرنے کے بجاے اس میں اضافہ کرے گی۔ بالکل یہی ہوا۔ اوباما نے ان مہموں کا نام بیرون ملک حسب ضرورت آپریشن رکھ دیا ہے، اور اب اس کا زور زمین پر بوٹوں کے بجاے روبوٹس پر ہے۔
لیکن جیساکہ پاکستان کے غیرمستحکم ہونے اور یمن میں القاعدہ کی طاقت میں اضافہ ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا اثر ایک جیسا ہی ہے۔ ڈرون جنگ مسلم دنیا پر مسلط ایک سفاک جنگ ہے جس سے امریکاسے نفرت کو غذا مل رہی ہے اور دہشت گردی کو ایندھن فراہم ہو رہا ہے، اس سے لڑا نہیں جا رہا۔(دی گارڈین، ۲۹مئی ۲۰۱۲ئ)
ایک احساس یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون ناکام ہوچکا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ۵۱ کا صرف اُن حملوں پر اطلاق ہوتا ہے جو دوسری ریاستیں کریں نہ کہ دہشت گرد گروپ۔ کسی نے بھی ابھی تک جنگ اور قانون کے اس معاملے پر دہشت گردی کا اطلاق کرنے کا نوٹس نہیں لیا۔ جنیوا کنونشن اور معمول کے حقوق کا دہشت گرد اور قانون نافذ کرنے والے پر یکساں اطلاق ہونا چاہیے۔ اگر اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری اور حماس کے کمانڈروں کو ہلاک کرنا قانوناً جائز ہے، تو ان کے لیے بارک اوباما، بن یامین نیتن یاہو، ان کے جرنیلوں اور حلیفوں کو قتل کرنا بھی جائزہے، حتیٰ کہ ملکہ بھی سربراہِ ریاست ہونے کے ناتے اس فہرست میں آسکتی ہے۔
جو لوگ دہشت گردی پھیلانے کے لیے معصوم شہریوں کی جانیں لیتے ہیں، ان کے ساتھ خطرناک ملزموں کا برتائو کیا جانا چاہیے اور جب ضرورت ہو، انھیں قتل کیا جانا چاہیے، نہ کہ ان کو وہ مقام دیا جائے جو ان جنگ جوئوں کا ہوتا ہے جو ریاستوں سے برسرِجنگ ہوں۔
انسانی حقوق کے قانون کے تحت کیا صورت حال ہوگی؟ اگر دہشت گردوں کے ہمدردوں کو دوسروں کی حوصلہ شکنی کے لیے نشانہ بنایا جائے، جب کہ گرفتاری ممکن ہو، تو یہ انسان کے حقِ زندگی کی کھلی کھلی خلاف ورزی ہوگی۔ جو دہشت گرد شہریوں کو مارنے کے مشن پر مامور ہوں یا ان سازشوں میں شریک ہوں جو انھیں مارنے کے لیے کی جائیں، انھیں ہلاک کرنا معقول بات ہوگی۔لیکن ڈرون حملوں کا ریکارڈ یہ بتاتاہے کہ افراد کو اس وقت نشانہ بنایا جاتا ہے جب ان کی طرف سے کوئی واضح یا فوری خطرہ نہ ہو۔
یمن اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں میں ان افراد کو ہدف بنایا گیا جو مسلح تھے یا سازشی اجتماعات میں تھے لیکن دوسروں کا صرف یہ قصور تھا کہ وہ کسی شادی یا جنازے میں شریک ہیں، یا کسی مسجد یا ہسپتال سے باہر آرہے تھے۔ پاکستان میں یہ واقعات بھی ہوئے کہ پاکستان کے حامی لیڈروں ، ان کے اہل و عیال، حتیٰ کہ فوجی جوانوں کو بھی غلطی سے قتل کیا گیا ہے۔ ان حملوں نے امریکا کے ایک ایسی قوم سے تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا ہے جو سیاسی طور پر دبائو کا شکار ہے، ایٹمی اسلحے سے مسلح ہے اور اس کے ساتھ برسرِجنگ نہیں ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے سی آئی اے کو اہداف کے انتخاب کے لیے کھلی چھٹی دے دی ہے اور اسے قانون کے پروفیسر Koh کی منظوری سے مشروط کیا گیا ہے، جو اَب ایک جلاد ہے۔ جو لوگ نیو ادا میں بیٹھ کر ہیل فائر کے بٹن دباتے ہیں، یہ سوچنے کے لیے لمحہ بھر نہیں رُکتے کہ ان کا ہدف واقعی برسرِجنگ ہے۔ فہرست میں شامل کرنے یا قتل کرنے کے معیارات کے بارے میں اندازہ لگانے کا کوئی مقصد نہیں، اس لیے کہ عدالت کے دائرۂ کار اور فریڈیم آف انفارمیشن ایکٹ کی دفعات سے ماورا یہ سی آئی اے کا خفیہ استحقاق ہے۔
ایک خیال یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون ناکام ہوچکا ہے۔ یو این چارٹر، کنونشنز اور عدالتوں کی معمول کی کارروائیوں میں بے جوڑ لڑائیاں لڑنے کے لیے کوئی اطمینان بخش رہنمائی نہیں دی گئی ہے۔ اسی لیے ریاستوں کی خاموشی ہے اور حال ہی میں یو این کے ہیومن رائٹس کمشنر کی ایک درخواست سامنے آئی ہے کہ قانون کی فوری وضاحت کی جائے۔ آگے جانے کا راستہ تلاش کرنے کے لیے ہوسکتا ہے کہ قابلِ لحاظ فوج اور متناسب طاقت کے لیے پیچھے جانے کا راستہ ڈھونڈنا ہو۔ فی الحال بہت سی ڈرون ہلاکتوں کو فوری قتل کہا جاسکتا ہے۔ جیساکہ سرخ ملکہ کی سزا ظاہر کرتی ہے کہ فیصلہ پہلے، مقدمہ بعد میں، جو حقِ زندگی، معصوم فرض کرنے کے حق اور مقدمے کی منصفانہ سماعت کے حق سے انکار کرتا ہے۔ (’’ڈرون حملے کتاب میں درج انسانی حقوق کے ہراصول کے خلاف ہیں‘‘، جیفرے رابرٹسن، نیو اسٹیٹس مین، ۱۳ جون ۲۰۱۲ئ)
ظلم یہ ہے کہ ان حملوں میں جو افراد بھی مارے جاتے ہیں، انھیں دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے حالانکہ اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ایک پاکستانی میجر جنرل محمود غیور صاحب تک نے مارچ ۲۰۱۲ء میں ۲۰۰۷ء سے ۲۰۱۰ تک شمالی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملوں کی توجیہ کرتے ہوئے بلاکسی ثبوت کے یہ تک فرما دیا کہ a majority of those eliminated are terrorists, including foreign terrorist elements. (مارے جانے والوں کی اکثریت دہشت گرد ہوتی ہے اور ان میں غیرملکی دہشت گرد بھی شامل ہوتے ہیں) حالانکہ تمام وہ ادارے جو کسی درجے میں بھی ان اُمور پر تحقیق کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہہ رہے ہیں شہریوں کی اموات غیرمعمولی طور پر زیادہ ہیں۔ امریکا کے مشہور تحقیقی ادارے بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے بارے میں کہا گیا ہے:
درست اعدادو شمار جمع کرنا مشکل ہے مگر مقامی افراد کہتے ہیں کہ وزیرستان میں ۳ہزار ہلاکتوں میں صرف ۱۸۵ القاعدہ کے نشان زد سرگرم افراد تھے۔ بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کا تخمینہ ہے کہ ہرجنگ جُو کے ساتھ ۱۰ شہری بھی ہلاک ہوتے ہیں۔ (نیو اسٹیٹس مین، ۱۳جون ۲۰۱۲ئ)
پاکستان میں ڈرون حملوں کی وجہ سے عام شہریوں کی ہلاکت کے سلسلے میں تازہ ترین معلومات سٹیٹ آف پاکستان کی کمیٹی براے دفاع و دفاعی پیداوار کی جولائی ۲۰۱۲ء میں شائع ہونے والی رپورٹ میں ایک چارٹ کی شکل میں دی گئی ہے جو گھر کی گواہی (شَھِدَ شَاہِدٌ مِّنْ اَھْلِھَا) کے مصداق ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں:عسکریت پسند :۶۴۶، عام شہری: ۱۵۷۶، خواتین و بچے: ۵۶۵ کُل: ۲۷۸۷۔
یہ اعدادو شمار ۲۰۱۲-۲۰۰۴ء تک کے ڈرون حملوں کے سلسلے میں دیے گئے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ ڈیفنس کمیٹی کے سامنے پیش کردہ معلومات کی بنیاد پر ۲ہزار ۷سو ۸۷ میں سے صرف ۶۴۶؍افراد پر عسکریت پسندی کا شبہہ تھا، باقی ۲ہزار ایک سو۴۱ عام شہری تھے جن میں خواتین اور بچوں کی تعداد ۵۶۵ تھی۔
خود امریکا کا ایک اور ادارے American Civil Liberties Union اپنی ایک رپورٹ میں اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ پاکستان، یمن اور صومالیہ میں امریکی ڈرون حملوںکے نتیجے میں ۴ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں اور ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد شہریوں کی تھی۔
اس رپورٹ میں اس حقیقت کو بھی نمایاں کیا گیا ہے کہ پہلے افراد کو نشانہ بنایا جاتا تھا اور اب ہدف علاقوں اور اجتماعات کو بنایا جارہا ہے جن کے بارے میں محض فضائی نگرنی کی بنیاد پر میزائل داغ دیے جاتے ہیں۔ اس طرح اجتماعی اموات واقع ہورہی ہیں۔ اس کے لیے امریکی سیکورٹی کے اداروں نے ایک نئی اصطلاح وضع کی ہے، یعنی "signature strikes" اور خود اوباما صاحب نے اس کی اجازت بلکہ ہدایت دی ہے۔
انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کے ڈائرکٹر ایان سیڈرمن نے اس لاقانونیت کے بارے میں کہا ہے کہ: بین الاقوامی قانون کے ڈھانچے کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا تھا۔ (Drone strikes threaten 50 years of International Law by Owen Bowcott، دی گارڈین، ۲۱ جون ۲۰۱۲ئ)
محض شبہے کی بنیاد پر یا لباس اور ڈاڑھی کے ’جرم‘ میں امریکا کی نگاہ میں مشتبہ علاقوں میں کسی بھی ایسے مرد یا مردوں کے اجتماع کو ہدف بنایا جاسکتا ہے جو ۱۵ سے ۶۰ سال کی عمر کا ہو اور ان علاقوں میں پایا جائے۔ دہشت گرد کی یہ وہ نئی تعریف ہے جو امریکا نے وضع کی ہے اور جس کے مطابق وہ اب پاکستانی فوج سے ،اقدام کرانے پر تُلا ہوا ہے۔
اس سے زیادہ ظلم اور انسانی جانوں کے ساتھ خطرناک اور خونیں کھیل کی کیا مثال پیش کی جاسکتی ہے؟ ایک حالیہ بین الاقوامی کانفرنس میں جنوبی افریقہ کے ایک پروفیسر اور ماوراے عدالت ہلاکتوں کے اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندے کرسٹاف ہینز نے ان تمام اقدامات کو ’جنگی جرائم‘ (war crimes) قرار دیا۔ اس نے اس امر پر شدید اضطراب کا اظہار کیا کہ نہ صرف ایک خاص شخص یا جگہ کو ہدف بنایا جا رہا ہے بلکہ ان افراد اور اجتماعات کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے جہاں لوگ ہلاک ہونے والوں کی تجہیزو تکفین میں مصروف ہوتے ہیں۔ اس سار خونیں کھیل پر اس نے تبصرہ کرتے ہوئے یہ تاریخی جملہ بھی کہا ہے کہ:
اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ۲۰۱۲ء میں ہونے والی کتنی ہلاکتوں کا جواز ۲۰۰۱ء میں ہونے والے واقعے کے ردعمل سے فراہم ہوتا ہے۔
اس میں یہ اضافہ بھی ضروری ہے کہ ۲۰۰۱ء میں نیویارک میں ہونے والے واقعے کے بدلے میں پاکستان اور افغانستان میں یہ کھیل کھیلا جارہا ہے، جب کہ نیویارک میں مبینہ دہشت گردوں میں کسی کا بھی تعلق پاکستان یا افغانستان سے نہیں تھا۔
تقریباً تمام ہی سنجیدہ تحقیق کرنے والے افراد اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ اور خاص طور پر ڈرون حملوں سے دہشت گردی میں نہ صرف یہ کہ کمی نہیں ہوئی ہے بلکہ اس میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اور ان اسباب کو بھی فروغ حاصل ہوا ہے جو دہشت گردی کو جنم دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کتاب رابرٹ پیپ اور جیمز فولڈمین کی ہے جو ۲۰۱۰ء تک سے دہشت گردی کے تمام واقعات کے بے لاگ علمی جائزے پر مبنی ہے اور جس میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی کی مکمل ناکامی کو علمی دلائل اور اعداد و شمار کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔(دیکھیے: Cutting the Fuse، عالمی خودکش دہشت گردی کا دھماکا اور کیسے اس کو روکا جائے، رابرٹ اے پیپ، جیمز کے فلڈمین، یونی ورسٹی آف شکاگو پریس، شکاگو ، ۲۰۱۰ئ)
خاص طور پر ڈرون حملوں کے بارے میں امریکا اور جرمنی کے دو پروفیسروں کی تحقیق بھی اس نتیجے کی طرف اشارہ کرتی ہے جسے ہم بھی بہ چشم سر دیکھ رہے ہیں۔ البتہ اگر کسی کو یہ نظر نہیں آتی تو وہ امریکی اور پاکستانی قیادت ہے!
ہماری تحقیق بتاتی ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں طالبان اور القاعدہ کی دہشت گردی پر ڈرون حملوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا، بلکہ ان کا بدترین پہلو یہ ہے کہ یہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کو مختصر وقت میں بڑھا دیتے ہیں۔ جنوری ۲۰۰۷ء سے ستمبر ۲۰۱۱ء تک کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا تو ہم نے پایا کہ القاعدہ اور طالبان کے افغانستان میں دہشت گردانہ حملوں پر ڈرون حملے غیر مؤثر ہیں۔ دوسری طرف ڈرون حملوں کے بعد ہفتوں تک پاکستان میں طالبان اور القاعدہ کے حملوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے جب ڈرون حملے اپنے ٹارگٹ کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
اگرچہ بعض ڈرون حملے مختلف نوعیت کے مقاصد پورے کرتے ہیں لیکن ہماری تحقیق بتاتی ہے کہ وہ القاعدہ اور طالبان کی افغانستان میں دہشت گردی کو روکنے میں ناکام ہیں۔ پاکستان میں ایک مختصر مدت کے لیے دہشت گردی بڑھا دیتے ہیں۔ اگر اوباما کی حکمت عملی کے مقاصد میں ایک محفوظ پاکستان ہے تو ان کو اندازہ ہوگا کہ ڈرون حملے اپنے مقاصد کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ (فارن پالیسی، مئی جون ۲۰۱۲ئ، ص ۱۱۰)
جیساکہ ہم نے عرض کیا کہ ہمارے پاس حوالوں کی بھرمار ہے لیکن جگہ کی قلت کے باعث صرف ان چند حوالوں پر اکتفا کر رہے ہیں۔ ہمارا مقصد توجہ کو اصل ایشوز پر مرکوز کرنا ہے۔
یہ تصویر کا ایک پہلو ہے جس میں امریکا کا کردار، وہ عالم گیر تباہی جو اس جنگ کے نتیجے میں رُونما ہوئی ہے اور پاکستان کی وہ درگت جو اس جنگ میں امریکا کے آلۂ کار بننے کی وجہ سے ہمارا مقدر بن گئی ہے(اس سلسلے میں ترجمان کے جولائی اور اگست ۲۰۱۲ء کے شماروں میں شائع ہونے والے ’اشارات ‘ کو ذہن میں تازہ کرنا مفید ہوگا)،لیکن اس تصویر کا دوسرا رُخ اور بھی ہولناک، شرم ناک اور خون کھولا دینے والا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس پر بھی کھل کر بات ہو اور قوم کو تمام حقائق سے بے کم و کاست روشناس کرایا جائے۔ ہماری تاریخ میں جو کردار عبداللہ ابن ابی اور عبداللہ ابن سبا سے لے کر میرجعفر اور میرصادق تک انجام دیتے رہے ہیں، آج بھی ایسے ہی کرداروں سے ہمارا سابقہ ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ آج انھیں دانش وروں، صحافیوں اور میڈیا کے گوئبلز ٭کی اعانت بھی حاصل ہوگئی ہے۔یہ کردار امریکا سے پاکستان تک ان اداکاروں کی ایک فوج ظفرموج کا ہے جو پوری دیدہ دلیری کے ساتھ انجام دے رہی ہے۔ ضمناً لبرل لابی کے ایک اہم اخبار ایکسپریس ٹربیون ( ۱۲؍اگست ۲۰۱۲ئ) میں لبرل صحافیوں کے سرخیل خالد احمد کے ایک تازہ ترین مضمون میں ایک اعتراف سے ناظرین کو روشناس کرانادل چسپی کا باعث ہوگا کہ ’جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے‘۔ ان کا اشارہ ملک کی سپریم کورٹ کے موقف اور لبرل حلقوں کی سوچ کے درمیان پائے جانے والے بُعد کی طرف ہے لیکن یہ بات صرف سپریم کورٹ کے آزاد اور عوام دوست رویے تک محدود نہیں۔ امریکا کے کردار، ڈرون حملوں کی توجیہ اور اب شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لیے زمین ہموار کرنے سے متعلق تمام ہی امور پر صادق آتی ہے:
ایک حالیہ ٹی وی مباحثے میں میرے پسندیدہ وکیل سلمان اکرم راجا نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ ان آرا کا ۸۰ فی صد جو پاکستان میں انگلش میڈیم پریس میں چھپتا ہے، ہماری فعال عدلیہ کے حق میں نہیں ہے۔ دوسری طرف اُردو میڈیا میں عدالت عظمیٰ کے فیصلوں میں عمومی اتفاق راے پایا جاتا ہے۔
پاکستانی قوم پرستی کی زبان اُردو ہے۔ اُردو میڈیم تعلیم کی مارکیٹ پر ریاست کو غلبہ حاصل ہے۔ ذریعۂ اظہار کے طور پر اُردو کی شاعری اور جذباتی اظہار میں مضبوط بنیادیں ہیں۔ جدید زبان میں معاشیات اور اس کا بتدریج اثرانداز ہونے والا نظریے کے بجاے موقع پرستی کا پیغام ابھی تک اُردو میں داخل نہیں ہوا۔ انگلش میڈیم تعلیم کی مارکیٹ میں کرسچین مشنری اسکولوں نے جگہ بنائی جن کا امتحان بیرونی ادارے سے ہوتا ہے۔ یہاں کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ بنیاد پرستانہ نظریے کو اختیار کرلیا گیا ہے۔ اُردو کالم نگار نے کچھ حقائق کو یکساں طور پر تسلیم کرلیا ہے۔ جب وہ قومی معیشت کی بات کرتا ہے تو آئی ایم ایف اور مغرب مخالف ہوتا ہے۔ وہ اسلام کے خلاف خصوصاً پاکستان کے خلاف ایک عالمی سازش پہ یقین رکھتا ہے۔ وہ یقین رکھتا ہے کہ پوری دنیا میں امریکا بھارت کے ہندووں کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر حملے کی قیادت کر رہا ہے۔
جب بھارت سے تعلقات پر بات ہو رہی ہو، تو وہ ایک لڑاکا ہے اور اسے یقین ہے کہ پاکستان کی لبرل سوسائٹی غدار ہے، اور یہ کہ پورے ملک میں کام کرنے والی این جی اوز ایجنٹ ہیں اور غداری کی مرتکب ہورہی ہیں۔
پاکستان میں قوم پرستی کا اظہار انگریزی کے مقابلے میں اُردو میں زیادہ ہوتا ہے۔ حالانکہ قوم پرستی قومی معیشت کو تباہ کردیتی ہے۔(دی ایکسپریس ٹربیون، ۱۲؍اگست ۲۰۱۲ئ)
بات زبان کی نہیں ذہن کی ہے۔ تعلیمی پس منظر کی نہیں، فکری اور سیاسی وفاداری کی ہے۔ قومی مفاد اور مفاد پرستی کی ہے۔ البتہ اس تحریر کے آئینے میں پاکستان کی قسمت سے کھیلنے اور پاکستان کو ان مشکل حالات میں دلدل سے نکالنے والے کرداروں کی تصویر بھی دیکھی جاسکتی ہے، جو غالباً صاحب ِ مضمون کا تو اصل مقصد نہ تھا مگر اس تحریر سے وہ ذہن پوری طرح سامنے آجاتا ہے جس کی نگاہ میں نہ قومی حاکمیت، آزادی اور عزت کی کوئی اہمیت ہے اور نہ حقیقی قوم پرستی کوئی مقدس شے ہے ۔ اس اخبار نے چند دن پہلے ادارتی کالم میں یہ تک لکھ دیا ہے کہ اب زمانہ بدل گیا ہے اور جو لوگ حاکمیت (sovereignity) اور قومی مفاد کی بات کرکے امریکا سے تعلقات کے اس نام نہاد نئے باب اور ناٹو سپلائی کی بحالی پر گرفت کر رہے ہیں، وہ زمانے کے تقاضوں سے ناواقف ہیں۔ ہمارے یہ دانش ور بھول جاتے ہیں کہ برطانوی اقتدار کے دور میں بھی ہمیں یہی سبق سکھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ ع
چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی
لیکن بالآخر تاریخ کا دھارا ان لوگوں نے موڑا جو محض طاقت اور غلبے کی چمک دمک سے مرعوب نہیں ہوتے اور اپنے عقائد، نظریات اور حقیقی قومی مفادات کے لیے زمانے کو بدلنے کی جدوجہد کرتے ہیں، یعنی زمانہ با تو نہ سازد تو بازمانہ ستیز۔
جملۂ معترضہ ذرا طویل ہوگیا لیکن جن حقائق کو ہم اب قوم کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں ان کو سمجھنے میں اس ذہن کو سامنے رکھنے اور معاشرے کے اس نظریاتی اور اخلاقی تقسیم کو سمجھنا ضروری ہے جو ہمارے بہت سے مسائل اور مشکلات کی جڑ ہے۔
ناٹو سپلائی کی بحالی اور امریکا سے تعلقات کو امریکی احکام اور مفادات کے مطابق ڈھالنے کا جو کام موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت انجام دے رہی ہے، وہ ڈھکے چھپے انداز میں تو ایک مدت سے جاری ہے مگر ۲۰۰۱ء کے بعد اس کا رنگ اور بھی زیادہ چوکھا ہوگیا تھا۔ پارلیمنٹ کی ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ئ، ۱۴؍مئی ۲۰۱۱ء اور اپریل ۲۰۱۲ء کی قراردادیں ایک بنیادی تبدیلی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ یہ قراردادیں عوامی جذبات اور عزائم سے ہم آہنگ تھیں اور ۲۷؍نومبر ۲۰۱۱ء کی کھلی امریکی جارحیت اور اس کے بعد اس کی رعونت نے اس کے لیے پالیسی میں تبدیلی کا ایک تاریخی موقع بھی فراہم کیا تھا لیکن جس نوعیت کی قیادت بدقسمتی سے ملک پر مسلط ہے اس نے اس موقعے کو ضائع کرتے ہوئے اب زیادہ کھلے انداز میں امریکی غلامی اور کاسہ لیسی کے راستے کو اختیار کرلیا ہے۔ یہی وہ تاریخی لمحہ ہے جب قوم کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اب اسے پاکستان کی تقدیر کن لوگوں کے ہاتھوں میں دینی ہے ___ وہی قیادت جو قومی مفادات اور قومی آزادی اور وقار کا سودا کرتی رہی ہے یا ایسی نئی قیادت جو ایمان، آزادی، عزت اور قومی مفادات کی حفاظت کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ پرویز مشرف کے دَور سے اب تک کی قیادت کی جو اصل تصویر امریکا اور مغرب کے پالیسی ساز اور راے عامہ کو بنانے والے ادارے اور افراد کی پسندیدہ تصویر ہے، وہ اب قوم کے سامنے بھی بے حجاب آجائے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکے۔
ڈیوڈ سانگر کی کتاب Confront and Conceal اس وقت امریکا اور پاکستان میں توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ ہم نے اگست کے ’اشارات‘ میں اس سے کچھ اہم اقتباسات پیش کیے تھے۔ New York Review of Books نے اپنی تازہ ترین اشاعت (۱۶؍اگست ۲۰۱۲ئ) میں اس پر مفصل تبصرہ کیا ہے اور اسے امریکا کی پالیسی کے لیے ایک آئینے کی حیثیت دی ہے۔ اس میں ہماری قیادت کی کیا تصویر ہمارے سامنے آتی ہے، اس پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے، کہ امریکا کو ایسی ہی قیادت مطلوب ہے۔
پاکستانیوں سے اوباما کے دورِ صدارت کے کارناموں کے بارے میں پوچھیے تو ڈرون حملوں سے شہریوں کی ہلاکت کے موضوع پر شروع ہوجائیں گے۔ (ص xviii)
وہ پاکستانی عوام کے اصل اضطراب کا بھی شعور رکھتے ہیں!
پاکستانیوں نے جو سوال مجھ سے کیا وہ یہ تھا کہ پاکستان میں اور کتنے ریمنڈ ڈیوس گھوم رہے ہیں اور ہم ان کے بارے میں نہیں جانتے۔
لوگر اعتراف کرتا ہے کہ ’’ڈرون حملے اہلِ پاکستان کی نگاہ میں بجا طور پر پاکستان کی حاکمیت کی خلاف ورزی ہیں‘‘ (ص ۱۳۵)۔ نیز یہ حملے ’ایک جنگی عمل‘ (an act of war) شمار کیے جائیں گے (ص ۱۳۷)۔ یہ بھی اعتراف کرتا ہے کہ یہ اقدام ناجائز ہیں جو قتل عمد کے مترادف ہیں (ص ۲۵۳)۔ لیکن ساتھ ہی وہ یہ چشم کشا اوردل خراش انکشاف محض سیاسی قیادت کے بارے میں ہی نہیں، فوجی قیادت کے بارے میں بھی کرتا ہے، یعنی خود آئی ایس آئی نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ پرویز مشرف نے ان کی اجازت دی تھی:
آئی ایس آئی نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ملک میں جو کوئی بھی امریکی خفیہ اہل کار ہے، اس کے بارے میں بتایا جائے اور ڈرون حملے بند کیے جائیں۔ انھوں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ جب مشرف مُلک چلا رہا تھا تو واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان حملوں کی اجازت کا ایک خفیہ معاہدہ تھا لیکن یہ اس سے پہلے کی بات ہے جب ڈرونز کی تعداد بڑھائی گئی اور ڈرون حشرات الارض کی طرح نکل آئے اور اس کے ساتھ ہی پاکستانی عوام کا غم و غصہ بھی۔ اب دُور سے، بہت دُور سے ایک ڈرون حملہ پاکستان پر لانچ کیا جاسکتا ہے۔ امریکی یہ ظاہر کرتے تھے کہ انھوں نے اس مطالبے کے بارے میں کبھی نہیں سنا۔ اوباما کے لیے ڈرونز ہی وہ واحد چیزتھے جو پاکستان میں نتائج دے رہے تھے۔(Confront and Conceal: Obama's Secret Wars and Surprising Use of American Power, by David E. Sanger, Crown Publisher, New York, 2012, p. 87-88)
یہ بات ۲۵ نومبر کے واقعے کے بعد ہوئی ہے۔ ۴جولائی نے پھر ہمیں وہیں پہنچا دیا ہے جہاں یہ بدقسمت ملک مشرف کے دور میں تھا ع
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
اپریل ۲۰۱۲ء میں پاکستانیوں نے اوباما ڈاکٹرائن کے لیے بہت بڑا چیلنج پیش کیا۔ اس وقت تک امریکا نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ۲۵۰ امریکی ڈرون حملوں کا یہ کہہ کردفاع کیا تھا کہ ان حملوں کو کرنے کے لیے انھیں حکومت کی منظوری حاصل تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس منظوری کو کبھی عوام کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ منظوری جنرل کیانی اور اس کے فوجی ساتھیوں سے حاصل کی گئی تھی نہ کہ منتخب قیادت سے۔ یہ بڑی حد تک لفظی منظوری تھی۔ پھر جب پاکستانی پارلیمنٹ نے امریکا کے ساتھ تعلقات کا ایک مکمل جائزہ لیا تو اس نے بہت بڑی اکثریت کے ساتھ پاکستانی علاقے پر ڈرون حملوں سے منع کیا۔ یہ مطالبہ اوباما کے اس موقف کے لیے ایک چیلنج تھا کہ وہ امریکا کے سلامتی کے مفادات کی حفاظت افواج کے باقاعدہ استعمال کے بغیر کرسکیں گے، جب کہ اس طرح ہم جمہوری حکومت کی خودمختاری کا احترام بھی کریں گے۔(ص ۱۳۶)
داد دیجیے کہ ایک جمہوری ملک کی حاکمیت کا ڈرون حملوں کی بارش کے ساتھ کس عیاری سے ’احترام‘ کیا جا رہا ہے اور ملک کی فوجی قیادت کس طرح وہی کردار ادا کرتی نظر آرہی ہے جو سیاسی قیادت نے انجام دیا تھا۔ لیکن دل تھام کر بیٹھیے۔ اس کتاب کے صفحہ ۲۵۸ پر یہ چشم کشا انکشاف بھی موجود ہے کہ ہماری قیادت نے ان حملوں کی افادیت کا اعتراف بھی کیا ہے اور جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ میجر جنرل محمود غیور٭ کے بیان سے بھی اس کی توثیق ہوتی ہے:
ایک سینیرخفیہ اہل کار کا (جو پروگرام کی نگرانی کا ذمہ دار ہے) اصرار ہے کہ امریکا ان قواعد کی پابندی کرتا ہے۔ اگر ایک ملک میں کوئی باقاعدہ حکومت ہو تو ہم اسے میزبان حکومت کی اجازت سے استعمال کرتے ہیں۔ جب میں نے اس سے چاہا کہ وہ تفصیل بتائے کہ روزمرہ ’حملہ کریں یا نہ کریں‘ کے فیصلے کس طرح کیے جاتے ہیں؟ تو اس نے کہا: اگر وہ نہ چاہیں تو ہم عام طور پر حملے نہیں کرتے، الا یہ کہ ہماری افواج کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہو۔
بلاشبہہ عملاً واشنگٹن اور دنیا کے لیڈروں کے درمیان ڈرون کے استعمال کے بارے میں نازک توازن کبھی اس طرح واضح ہوتا اور نہ اجازتیں اس طرح واضح ہوتی ہیں جیسے اگر کوئی امریکی اہل کاروں کی باتوں کو سنے تو سوچ سکتا ہے۔ وکی لیکس کے ذریعے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے جو پیغامات شائع ہوئے ہیں، ان سے ڈرون کے استعمال کی عجیب و غریب صورت حال زیادہ واضح طور پر سامنے آتی ہے۔ جنوری ۲۰۰۸ء میں پاکستان آرمی کے چیف آف اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے دورے پر آئے ہوئے امریکی ایڈمرل ولیم جے فالن کو القاعدہ کے گڑھ وزیرستان پر مسلسل اور مستقل ڈرون کوریج کے لیے کہا۔
چھے ماہ بعد یہ پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی تھا جو قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں پر ڈرون حملوں کے بارے میں خود اپنے وزیرداخلہ کے اعتراضات کو مسترد کر رہا تھا اور امریکی سفیر اینی پیٹرسن کو یہ کہہ رہا تھا: ’’مجھے اس کی پروا نہیں، یہ اسے اس وقت تک کرتے رہیں جب تک مطلوب آدمی نہیں ملتے‘‘۔ جیسے ہی یہ باتیں عوام میں آئیں، اوریقینا بن لادن آپریشن کے بعدانھی پاکستانی افسروں نے ملک کے اندر ڈرون حملوں کو ملک کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے روکنے کا مطالبہ کیا۔ (ص ۲۵۸-۲۵۹)
۴جولائی کے بعد ڈرون حملوں کا جاری رہنا اور شمالی وزیرستان میں مشترک یا امریکی معلومات کی فراہمی پر پاکستانی فوجیوں کی کارروائی کے عندیے نے نہ صرف مشرف، زرداری، گیلانی، کیانی کی سابقہ حکمت عملی کی بحالی کا منظرنامہ پیش کرنا شروع کر دیا ہے، بلکہ اب عملاً کھلی اجازت کا سماں ہے اور کوئی پردہ باقی نہیں نظر آرہا۔ صرف ریکارڈ کے لیے یہ بات بھی اس سلسلے میں بیان کرنا ضروری ہے کہ زرداری صاحب نے بنفس نفیس نومبر ۲۰۰۸ء میں امریکی ڈرون حملوں کے بارے میں مشرف کی پالیسی کو جاری رکھنے کی اشیرباددی تھی جس کا واضح بیان باب ووڈورڈ کی کتاب Obama's Warsمیں ان الفاظ میں پوری تفصیل کے ساتھ موجود ہے:
۱۲ نومبر (بدھ) کو امریکا کے سی آئی اے کے ڈائرکٹر مائیک ہیڈن نیویارک گئے تاکہ ڈرون حملوں پر پاکستان کے صدر سے بات چیت کرسکیں۔ ۶۳سالہ ہیڈن ایئرفورس کا چار ستاروں والا جنرل ہے جو ۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۵ء تک این ایس اے کا ڈائرکٹر رہا۔ پاکستانی صدر اور ہیڈن کی ایک گھنٹے کی ون ٹو ون ملاقات ہوئی۔ زرداری چاہتا تھا کہ ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت سے ہونے والی کشیدہ فضا کو دُور کیا جائے۔
وہ ستمبر میں صدر بنا تھا اور اپنی پسندیدگی کی شرح میں کمی برداشت کرسکتا تھا۔ معصوم لوگوں کی ہلاکت القاعدہ سے معاملات کرنے کی قیمت تھی۔ زرداری نے کہا: سینیرز کو ہلاک کردیں۔ امریکیو! تمھیں ضمنی نقصان پریشان کرتا ہے، یہ مجھے پریشان نہیں کرتا۔ زرداری نے سی آئی اے کو سبز جھنڈی دکھا دی۔ ہیڈن نے حمایت کی تحسین کی لیکن اسے معلوم تھا کہ القاعدہ کو تباہ کرنے کا مقصد اس سے حاصل نہیں ہوسکے گا۔ (ص ۲۵۸-۲۵۹)۔ (Obama's Wars The Inside Story by Bob Woodwork, Simon and Schuster, 2010, pp. 25-26)
رہا معاملہ ہمارے سابق وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی کا، تو کچھ ذکر تو ان کا اُوپر آگیا ہے لیکن پوری بات ذرا زیادہ صاف الفاظ میں اناطول لیون نے اپنی کتاب میں جو حیرت انگیز طور پر پاکستان کے خلاف آنے والی کتابوں کی یلغار میں نسبتاً متوازن اور ہمدردانہ علمی پیش کش ہے اور پاکستان میں طویل قیام کے بعد لکھی گئی ہے، بیان کی ہے اور سنجیدہ غوروفکر کی متقاضی ہے۔ یہ بات لیون نے اپنے گہرے غوروخوض اور تجزیے کے نتیجے میں امریکی اور برطانوی پالیسی سازوں کو مخاطب کرکے کہی ہے۔ کاش! پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت بھی اس کو قابلِ توجہ سمجھے:
اس بات پر باوجود حکومتی تردید کے عام طور پر یقین کیا جا رہا تھا کہ پاکستانی ہائی کمانڈ اور حکومت نے امریکا کو معلومات فراہم کی ہیں تاکہ پاکستانی طالبان لیڈروں پر حملہ کیا جاسکے۔ اس کی تصدیق وکی لیکس نے بھی کی ہے۔ جیساکہ ۲۰۰۸ء میں امریکی حکام کو بتایا کہ مجھے پروا نہیں کتنی مدت تک یہ کام کریں گے۔ ہم قومی اسمبلی میں احتجاج کریں گے اور پھر نظرانداز کردیں گے۔
ڈرون حملے کے مقابلوں میں پاکستان کے جھک جانے سے معاشرے میں فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچا اورعام سپاہی کے اس احساس میں اضافہ ہوا کہ فوج کرایے کے لیے حاضر ہے۔ اس لیے یہ کوئی سوال طلب بات نہیں ہے کہ ان حملوں کو بلوچستان اور خیبرپختونخوا تک وسعت دینا مقامی لوگوں کو مزید غضب ناک کردے گا۔ پاکستانی طالبان کو نئے علاقوں میں پہنچائے گا، اور پاکستان کا امریکا سے تعاون کو کم کردے گا۔
اس کتاب نے استدلال کیا ہے کہ فاٹا میں امریکی زمینی افواج کی کھلی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ اس سے پاکستانی فوج میں کھلی بغاوت کا خدشہ ہے۔ اس سلسلے میں احتیاط کو لازماً ملحوظ رکھا جائے۔ امریکا پر نیا دہشت گردی کا حملہ ہو تو اس مداخلت کو روکنے کے لیے برطانیہ کو واشنگٹن میں جو بھی اثرورسوخ حاصل ہے اسے استعمال کرنا چاہیے۔اس سے دہشت گردی اور برطانیہ میں ثقافتی اور نسلی تعلقات پر ہولناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ افغان طالبان سے پاکستان کے روابط مغرب میں عام طور پر ایک مسئلے کے طور پردیکھے جاتے ہیں لیکن انھیں افغانستان سے نکلنے کے لیے ایک اہم اثاثہ بھی سمجھنا چاہیے۔ (Anatal Lievein Pakistan: A Hard Country, by Anatal Lievein, Allen Lane, London 2011, p. 479)
۲۰۱۲ء میں اہم عالمی تجزیہ کار اس امر پر متفق ہیں کہ ماضی میں ڈرون حملے جن مقامات سے کیے جارہے ہیں ان میں پاکستان میں امریکی ہوائی بیس شامل تھے اور غالباً یہ صرف شمسی ایئربیس ہی نہیں تھا۔ دوسرے مقامات بھی استعمال کیے جارہے ہیں جن کے بارے میں شبہہ ہے کہ وہ اب بھی امریکی افواج کے تصرف میں ہیں۔ یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر امریکا کے جاسوسی کے وسیع جال کے بغیر یہ نہ پہلے ممکن تھا اور نہ اب ممکن ہے۔ اس امر کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ پاکستان اور امریکا کی خفیہ ایجنسیوں کا اس کارروائی میں بڑی حد تک ایک مشترک کردار بھی رہا ہے جس پر پردہ ڈالے رکھا گیا مگر اب یہ سب راز طشت از بام ہوگیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ قوم کو اور پارلیمنٹ کو سیاسی اور عسکری قیادت نے غلط بیانی اور کتمانِ شہادت کا پوری بے دردی سے نشانہ بنایا ہے۔ کیا اب بھی منہ زور گھوڑوں کو لگام دینے کا وقت نہیں آیا؟
اوباما نے پوچھا: تم پاکستان میں کتنا کچھ کر رہے ہو؟ ہیڈن نے بتایا کہ امریکا کے دنیا بھر میں کیے جانے والے حملوں کا ۸۰ فی صد وہاں ہوتے ہیں۔ ہم آسمان کے مالک ہیں۔ ڈرون پاکستان میں خفیہ ٹھکانوں سے اُڑتے ہیں۔ القاعدہ قبائلی علاقوں میں لوگوں کو تربیت دے ر ہی ہے جن کو اگر تم ڈلس میں ویزہ لینے والوں کی قطار میں دیکھو تو خطرہ نہیں سمجھو گے۔ (Obama's Wars، ص ۵۲)
شمال مغربی سرحدی اضلاع میں ڈرون حملوں کا سب سے زیادہ چونکا دینے والا لیکن کم بتایا جانے والا پہلو یہ ہے کہ یہ پاکستانی فوج اور اس کی طاقت ور خفیہ شاخ آئی ایس آئی کے تعاون کے بغیر نہیں ہوسکتے۔ یمن میں بھی کچھ سرکاری حمایت ضروری ہوتی ہے لیکن یمنی ریاست کی کمزوری کی وجہ سے پاکستان سے کم۔
مسئلہ یہ ہے کہ ٹھیک نشانے پر حملہ کرنے والے اسلحے کو بھی ہدف کی شناخت کے لیے زمین پر کی جانے والی خفیہ کارروائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں، آئی ایس آئی نجی طور پر یہ بتاتی ہے کہ اس کے ایجنٹ تفصیلات مہیا کرتے ہیں کہ ڈرون کس کا تعاقب کریں۔ دُور بیٹھ کر کمانڈ پوسٹ سے ڈرون کی رہنمائی کرنا، دوسری جنگ ِ عظیم میں نشانہ پر لگنے والی بم باری یا عراق میں ۱۹۹۳ء اور ۲۰۰۳ء میں ٹھیک نشانے پر لگنے والے میزائل حملے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اس بارے میں لمحے لمحے کی خفیہ اطلاع کہ کون کس گھر میں ہے اور جب وہ وہاں ہو، اس کی اطلاع کے لیے مقامی ایجنٹوں کے نیٹ ورک کی ضرورت ہوتی ہے جو ان معلومات کو فوراً پہنچا سکے۔
یہ بہت ناپسندیدہ ہوگا کہ آئی ایس آئی، سی آئی اے کو اس طرح کا نیٹ ورک بنانے کی اجازت دے۔ وہ فیصلہ کن اطلاع جس کی وجہ سے امریکا نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو تلاش کیا، خود آئی ایس آئی نے دی تھی۔ بلاشبہہ جو قتل کا ہدف ہو شاید ہی اتنا بے وقوف ہو کہ وہ اپنی پوزیشن موبائل یا سیٹلائٹ فون یا برقی اطلاع کا ذریعہ استعمال کرکے دے۔ لیکن بعض باغی گروپ آج بھی ایسے ہیں جو اپنی پوزیشن آسانی سے بتادیتے ہیں۔ آئی ایس آئی پر اعتبار کی وجہ یہ ہے کہ یہ پاکستانی فوج کے افسران ہیں نہ کہ صدراوباما یا ان کا سلامتی اور عسکری سٹاف جو درحقیقت فیصلہ کرتے ہیں کہ ڈرون کس قسم کے مشکوک شخص کو ہلاک کرے گا۔ یہ پاکستان کی نائن الیون سے امریکا سے معاملہ کرنے کی کامیاب حکمت عملی ہے۔ یہ ایک ہی وقت میں بہترین ساتھی بھی ہے اور بدترین دشمن بھی۔ (دی انڈی پنڈنٹ، ۱۰ جون ۲۰۱۲ئ)
مضمون نگار نے صدر اوباما کو ڈرون حملوں کے شدید ردعمل سے بچانے کے لیے جن حقائق کا انکشاف کیا ہے وہ بجا، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے اور نیویارک ٹائمز کی مفصل رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد تو اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ ڈرون حملوں کاآخری فیصلہ صدراوباما خود کرتے ہیں اور وہ بلاواسطہ اس قتل و غارت گری کے ذمہ دار ہیں۔ اس سلسلے میں Counter Punch پر بھی Bill Quigby کا بڑا چشم کشا مضمون Five Reasons Drone Assassination is Illegal (ڈرون قتل غیرقانونی ہونے کی پانچ وجوہات) (دی انڈی پنڈنٹ،۱۶ مئی ۲۰۱۲ئ) بڑا مدلل اور ناقابلِ انکار شواہد کا حامل ہے۔
نیو اسٹیٹس مین کی ۱۳جون کی اشاعت میں کرس ووڈز کا مضمون Drones: Barack Obama's Secret War (ڈرونز: باراک اوباما کی خفیہ جنگ)شائع ہوا ہے جس میں عام شہریوں کی ہلاکت پر بڑے لائق اعتماد اور ہولناک شواہد دیے گئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ڈرون حملوں کی ٹھیک ٹھیک نشانہ بازی اور صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے دعوے مضمون نگار کے الفاظ میں جھوٹے (bogus) ہیں، نیز اس کے ساتھ اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ جس سے تمام پاکستانیوں کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں کہ:
القاعدہ کو اس مہم میں یقینا کافی نقصان پہنچاہے۔ ۴جون کو اس کے ڈپٹی لیڈر یحییٰ اللّیبی کی ہلاکت کے بعد یہ دہشت گرد گروپ نہ ہونے کے برابر ہوگیا ہے، امریکی فضائی حملوں نے اس کو قیادت سے محروم کیا اور اس سے قبل دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ مشترکہ آپریشن کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے برسوں تک اپنی سرزمین پر امریکی حملوں کو خاموشی سے برداشت کیا ہے۔ گذشتہ ۱۸مہینوں میں یہ تعاون آہستہ آہستہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ اب پاکستان ہرحملے کی مذمت کرتا ہے کہ یہ بین الاقوامی قانون کی مکمل خلاف ورزی ہے۔ اس دوران امریکا اپنے حلیف کو سادگی سے نظرانداز کردیتا ہے۔(Chriswoods Drones: Barack Obama's Secret War.، نیو اسٹیٹس مین، ۱۳ جون ۲۰۱۲ئ)
بات اب نظرانداز کرنے سے آگے بڑھ چکی ہے۔ اب تو کھیل شراکت داری کا ہے جو نئی آگ بھڑکانے کا نسخہ ہے جس خطرے کی طرف اناطول لیون نے بھی اُوپر واضح اشارہ کیا ہے۔
اس خطرناک کھیل کا ایک اور پہلو بھی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جس کی طرف ۸جون ۲۰۱۲ء کی ایک on line (۲۸ جون ۲۰۱۲ئ) رپورٹ میں کہا گیا ہے (شائع شدہ دی نیشن، ۱۰جون ۲۰۱۲ئ) ۔ یہ خبر جولائی کے ایم او یو سے تین ہفتے پہلے کی ہے اور یہ وہ زمانہ ہے جب امریکا سے پاکستان کے تعلق کو ’کُٹّی‘ کا دور کہا جاسکتا ہے لیکن اس دور کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ شمسی ایئربیس سے امریکیوں کے انخلا کے بعد بھی پاکستان کی سرزمین کے دوسرے مقامات سے ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری تھا، اور یہ اس پر مستزاد ہے جس کا دعویٰ اس وقت کے وزیردفاع نے کیا تھا کہ ’’راستہ صرف زمین کا بند ہے، فضائی حدود کی پامالی تو ہماری اجازت سے جاری ہے‘‘۔ اس اطلاع سے مزیدتصدیق ہوئی ہے کہ امریکی بوٹوں کی موجودگی کا معاملہ صرف شمسی ایئربیس تک محدود نہیں تھااور (جون ۲۰۱۲ء کی رپورٹ کی روشنی میں) ۴جولائی کے رسد کی بحالی کے انتظامات سے پہلے کے دور میں بھی سی آئی اے کے دوسرے اڈے موجود تھے اور ان کو یہ خطرہ بھی تھا کہ ان کے دوسرے غیرعلانیہ یا خفیہ (undeclared) اڈوں سے بھی انخلا کی بات ہوسکتی ہے:
نام نہ بتانے کی شرط پر امریکی اہل کاروں نے خفیہ معلومات کے بارے میں بتایا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ پاکستان سی آئی اے کو باقی رہنے والا ہوائی اڈا بھی خالی کرنے کا کہے گا جس سے افغانستان کی سرحد پر پاکستان میں پناہ لیے ہوئے عسکریت پسندوں کو وہ اپنا ہدف بناتے ہیں۔ امریکا ۲۰۰۴ء سے اسلام آباد کی انتظامیہ کی خفیہ منظوری سے ڈرون حملے کر رہا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ اور اس کے لیڈر ان حملوں کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور انھیں ملکی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔ (دی نیشن، ۱۰ جون ۲۰۱۲ئ)
امریکا کے مؤقر جریدے فارن پالیسی میں پیٹربرگن اور کیتھرین ٹائیڈمین کا مقالہ The Effects of the Drone Programme in Pakistan (پاکستان میں ڈرون پروگرام کے اثرات) شائع ہوا ہے جس میں امریکا کے اس دعوے پر سوالیہ نشان لگایا گیا ہے کہ کیا فی الحقیقت ان ڈرون حملوں سے القاعدہ کی قیادت کا صفایا ہوگیا ہے؟ ان کی تحقیق کی روشنی میں اوسطاً سات میں سے صرف ایک میزائل کسی عسکریت پسند لیڈر کو ہلاک کر پاتا ہے اور یہاں بھی حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ مارے جاتے ہیں وہ بالعموم بہت معمولی درجے کے عسکریت پسندہوتے ہیں۔
قابلِ ذکر قیادت کے صرف دو فی صد لوگ حملوں کی زد میں آنے کی مصدقہ اطلاعات ہیں، البتہ عام شہریوں کی ہلاکت بھی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے ۔ گو، تفصیلی معلومات ہر دو کے بارے میں عنقا ہیں، یعنی عسکریت پسند اور عام شہری۔ زیادہ تر اعتماد اندازوں اور سنی سنائی پر ہے۔ البتہ نصف سے زیادہ مقامی آبادی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد عام شہریوں کی ہے جس کے خلاف عوام میں شدید ردعمل ہے۔ ان حقائق کا اعادہ اور اعتراف کرنے کے بعد جو اہم بات اس مقالے سے بھی کھل کر سامنے آئی ہے وہ پاکستانی قیادت کا دوغلا کردار ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
جس آپریشن میں بن لادن کو قتل کیا گیا، پاکستانی اہل کاروں نے شور مچایا کہ ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ پس پردہ آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے کبھی کبھار دیے جانے والے احتجاجی بیانات کے ساتھ ڈرون حملوں کی حمایت کی۔ اسلام آباد کے تعاون کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ یہ پروگرام اب بھی جاری ہے۔ اس لیے کہ اس پروگرام میں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کا تعاون چاہیے، جیساکہ ایک امریکی اہل کار نے تبصرہ کیا کہ تمھیں زمین پر لوگ چاہییں جو تم کو بتائیں کہ ہدف کہاں ہے اور یہ اطلاع فاٹا کے آس پاس بھاگ دوڑ کرنے والا کوئی سفیدفام نہیں دے سکتا۔(پاکستان ٹریبون، ۱۴ جولائی ۲۰۱۲ئ)
۱- امریکا کی عسکری حکمت عملی میں ڈرون حملوں کو اب ایک مرکزی اہمیت حاصل ہے اور وہ اسے اپنے اقتدار اوراثرورسوخ کو مستحکم کرنے کا مؤثر ترین حربہ سمجھتا ہے۔ اسے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کو پارہ پارہ کرنے کے مترادف ہے، اور آزاد اور خودمختار مملکتوں کے درمیانی تعلقات کے اصول و ضوابط سے متصادم ہے، نیز جنگ اور دوسرے ممالک میں مداخلت کے متفق علیہ آداب کی بھی ضد ہیں، بلکہ اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ خود امریکا کے دستور اور قوانین میں جو اختیارات اور تحدیدات موجود ہیں، ان سے بھی ہولناک حد تک متصادم ہیں۔ اس لیے اب عالمی امن کے علَم بردار اور بین الاقوامی قانون کے ماہرین کی ایک تعداد امریکی صدر کو ’قاتل صدر‘ (Killer President) اور جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے رہی ہے۔
۲- اس نئی جنگ کے نتیجے میں دہشت گردی میں کمی کی کوئی صورت رُونما نہیں ہوئی ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں اب وہ دنیا کے طول و عرض میں پھیل رہی ہے۔ نیز ان حملوں کے نتیجے میں بڑی تعداد میں معصوم شہری بشمول خواتین اور بچے لقمۂ اجل بن رہے ہیں، اس سے امریکا کے خلاف نفرت کے طوفان میں بھی اضافہ ہوا ہے مگر امریکی قیادت اس سب سے بے نیاز ہوکر بدستور اپنے ایجنڈے پر عمل پیراہے۔
۳- اس مکروہ عمل میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت برابر کی شریک رہی ہے جو خود اپنے عوام اور اپنی پارلیمنٹ کو دھوکا دیتی رہی ہے، غلط بیانیوں کا کاروبار کرتی رہی ہے، اور اب اگر ڈھکے چھپے تعاون اور شراکت داری کا اعتراف کرنا پڑ رہا ہے تب بھی کہہ مکرنیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ البتہ عالمی میڈیا اور خود امریکا کے سرکاری اور نیم سرکاری بیانات نے ان کو مکمل طور پر بے نقاب کردیا ہے۔پاکستانی قوم کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ان کا بے لاگ احتساب ہو اور اس گندے کھیل کو جتنی جلد ختم کیا جاسکتا ہو اس کا اہتمام کیا جائے۔ واضح رہے کہ پاکستان کا دستور اور قانون سیاسی اورعسکری قیادت کو ملک کے مفادات کی حفاظت، اس کی آزادی اور سلامتی کو اوّلین ترجیح دینے اور دستور اور قانون کی مکمل اطاعت کا حکم دیتا ہے۔ ان سب نے اپنے اپنے مناصب کی مناسبت سے دستور سے وفاداری اور اس کی مکمل پاس داری کا حلف لیا ہوا ہے۔ دستور کی دفعہ۴ ہر شہری کو مکمل قانونی تحفظ کی ضمانت دیتی ہے تو دفعہ۵ کی رُو سے ’دستور اور قانون کی اطاعت ہر شہری کی واجب التعمیل ذمہ داری ہے۔اور دفعہ ۲۴۵ کی رُو سے افواجِ پاکستان کی اولیں ذمہ داری پاکستان کا دفاع ہے۔ سیاسی اور عسکری قیادت یہ حلف لیتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک ’’خلوصِ نیت سے پاکستان کا حامی اور وفادار ہوگا‘‘ اور ’’پاکستان کے دستور کے اور قانون کے مطابق اور ہمیشہ پاکستان کی خودمختاری، سالمیت، استحکام، یک جہتی اور خوش حالی‘‘ کے لیے خدمات انجام دے گا۔
اس عہد اور دستور کے ان واضح مطالبات کے بعد سیاسی اور عسکری قیادت کا جو کردار امریکا کی اس ناجائز اور ظالمانہ جنگ میں رہا ہے وہ دستور کو مسخ (subvert) کرنے کے ذیل میں آتا ہے اور دفعہ۶ کے تحت احتساب اور کارروائی کا تقاضا کرتا ہے۔ کیا قوم، پارلیمنٹ اور عدلیہ میں دستور کے ان تقاضوں کوپورا کرانے کی ہمت ہے؟ بلاشبہہ اس ظلم و ستم کی اولیں ذمہ داری امریکا اور اس کی خارجہ سیاست پر ہے لیکن تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ ان ممالک کے حکمران اور ذمہ دار جہاں امریکا کا یہ خونیں کھیل کھیل رہے ہیں وہاں اس ظلم میں برابر کے شریک ہیں ،بلکہ شاید ان کی ذمہ داری کچھ زیادہ ہی ہے کہ ان حالات میں ان کا فرض تھا کہ سامراجی قوتوں کے آگے سینہ سپر ہوجاتے، نہ کہ ان کے معاون اور مددگار کا کردار ادا کریں۔
موجودہ قیادت اور پوری انتظامیہ (establishment) قوم کی مجرم ہے اور احتساب کا عمل جتنا جلد شروع ہو وہ وقت کی ضرورت ہے، ورنہ اس نئے ایم او یو (Mou )کے بعد تو نظر آرہا ہے کہ ڈرون حملے بھی جاری رہیں گے اور ان میں اضافے کے دبائو اور معاشی اور فوجی امداد کی ترغیب و ترہیب (carrot and stick) کے ماہرانہ استعمال سے فوج کو شمالی وزیرستان کے جہنم میں بھی دھکیل دیا جائے گا اور امن اور علاقے کی سلامتی کے اصل اہداف کو پسِ پشت ڈال کر اس آگ کو مزید پھیلایا جائے گا۔ کیا کوئی یہ تضاد نہیں دیکھ سکتا کہ ایک طرف طالبان سے مذاکرات اور فوجی انخلا کی بات ہوتی ہے اور دوسری طرف جنگ کو وسعت دینے اور جو حکومت اور جس ملک کی فوجی قیادت مذاکرات کے راستے کسی مثبت تبدیلی کے امکانات روشن کرنے میں کوئی کردار ادا کرسکتی ہے، اسے دشمن بنا کر اس کردار ہی سے محروم نہیں کیا جارہا بلکہ اس کے افغان قوم کے درمیان نہ ختم ہونے والی دشمنی اور تصادم کا نقشہ استوار کیا جارہا ہے۔
۱- امریکا کی اس جنگ میںکسی نوعیت کی بھی شرکت پاکستان اور علاقے کے مفاد کے خلاف ہے اور ہمارے لیے واحد راستہ اس سے نکلنے اور خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو کرنے کا ہے___ اس دلدل میں مزید دھنسنا صرف اور صرف تباہی کا راستہ ہے۔
۲- امریکا اور ناٹو کے لیے بھی صحیح راہِ عمل مسئلے کے سیاسی حل کی تلاش ہے۔ جنگی حل ناکام رہا ہے اور اس کی کامیابی کے دُور دُور بھی امکانات نظر نہیں آرہے۔ اپنے وسائل اور افواج کو دوسرے ممالک اور ان کے فوجی یا سیاسی عناصر کو اس جنگ کو تیز تر کرنے کی پالیسی سب کے لیے خطرناک ہے اور ضرورت اسے بدلنے کی ہے۔ دھونس اور دھاندلی کے ذریعے دوسروں کو آگ میں دھکیلنے سے بڑی حماقت نہیں ہوسکتی۔
۳- بیرونی دبائو کی جو شکل بھی ہو، پاکستان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے مفادات، علاقے کے مفادات اور سب سے بڑھ کر اپنی حاکمیت، آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے اس جنگ سے نکلے اور اپنا الگ راستہ بنائے، افغان عوام سے اپنے تاریخی رشتے کو خلوص کے ساتھ بحال کرے، تعلقات میں جو بگاڑ اس جنگ میں شرکت کی وجہ سے آچکا ہے، اس کی اصلاح کرے اور ملک کی اپنی معیشت جس طرح تباہ ہوئی ہے، اسے ازسرِنو بحال کرنے پر توجہ صرف کرے۔ نیز علاقے کی دوسری تمام قوتوں خصوصیت سے چین، ایران، وسط ایشیائی ممالک اور عرب دنیا سے مل کر علاقے میں امن کی بحالی اور اسے بیرونی مداخلت سے پاک کرنے میں ایک مثبت اور فعال کردار ادا کرے۔
یہ سب ایک بنیادی تبدیلی (paradigm shift) کا مطالبہ کرتا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب عوام کو تمام حقائق سے پوری طرح باخبر کیا جائے۔ تمام محب وطن قوتیں مل کر حالات کامقابلے کا نقشۂ کار تیار کریں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ عوام کو متحرک کیا جائے اور ان کی تائید سے ایک نئے مینڈیٹ کی بنیاد پر نئی قیادت ملک کی باگ ڈور سنبھالے اور موجودہ خلفشار اور تباہ کن صورت حال سے ملک کو نکالے۔ ملک کی محب وطن سیاسی اور دینی قوتوں نے دفاعِ پاکستان کونسل کے پرچم تلے جو اہم خدمات انجام دی ہیں، اب ان کو مربوط کرنے اور ملک کو نئی سمت دینے کے لیے مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں اس حکمت عملی پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی دور کے ابتدائی پُرآشوب زمانے میں اختیار فرمائی اور جس کے نمایاں پہلوئوں کو سورئہ انفال میں اُمت کی ابدی ہدایت کے لیے محفوظ کردیا گیا ہے۔ ہم قوم اور ملک کی قیادت کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ غلامانہ ذہن سے نکل کر قرآن اور سیرت نبویؐ کی روشنی میں اپنے حالات کے بے لاگ جائزے اور ان حالات کے لیے قرآن کریم کے راہ نما اصولوں کے مطابق اپنی منزل اور اہداف کا تعین کرے اور ان کو حاصل کرنے کے لیے صحیح اور مؤثر حکمت عملی تیار کرے۔ اس لیے کہ یہ اُمت اپنے بعد کے اَدوار میں بھی اسی راستے کو اختیار کر کے ترقی کرسکتی ہے جو اس نے اولیں دور میں اختیار کیے تھے۔ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ آج سورئہ انفال میں بیان کردہ ان رہنما اصولوں کے سوا ہمارے لیے نجات کا کوئی دوسرا راستہ نہیں:
اَلَّذِیْنَ عٰھَدْتَّ مِنْھُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَھُمْ فِیْ کُلِّ مَرَّۃٍ وَّ ھُمْ لَا یَتَّقُوْنَo فَاِمَّا تَثْقَفَنَّھُمْ فِی الْحَرْبِ فَشَرِّدْبِھِمْ مَّنْ خَلْفَھُمْ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَo وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَۃً فَانْبِذْ م اِلَیْھِمْ عَلٰی سَوَآئٍ ط اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ o وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَبَقُوْا ط اِنَّھُمْ لَا یُعْجِزُوْنَo وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ اَللّٰہُ یَعْلَمُھُمْ ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ o وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا وَ تَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُo وَ اِنْ یُّرِیْدُوْٓا اَنْ یَّخْدَعُوْکَ فَاِنَّ حَسْبَکَ اللّٰہُ ط ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَo (الانفال ۸:۵۶-۶۲) پس اگر یہ لوگ تمھیں لڑائی میں مل جائیں تو ان کی ایسی خبر لوکہ ان کے بعد دوسرے جو لوگ ایسی روش اختیار کرنے والے ہوں اُن کے حواس باختہ ہوجائیں۔ توقع ہے کہ بدعہدوں کے اس انجام سے وہ سبق لیں گے۔ اور اگر کبھی تمھیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو اس کے آگے پھینک دو، یقینا اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا۔ منکرین حق اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے ، یقینا وہ ہم کو ہرا نہیں سکتے۔
اور تم لوگ، جہاں تک تمھارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور اُن دوسرے اعدا کو خوف زدہ کردو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمھاری طرف پلٹا دیا جائے گا اور تمھارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا۔
اور اے نبیؐ! اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہوجائو اور اللہ پر بھروسا کرو، یقینا وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہوں تو تمھارے لیے اللہ کافی ہے۔ وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید کی اور مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔
آیئے! اپنے حالات پر ان آیات کی روشنی میں غور کریں، اللہ سے مدد و استعانت اور رہنمائی طلب کریں اور اس ملک کی شکل میں جو امانت ہمارے سپرد کی گئی ہے اس کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ زندگی اور عزت کا یہی راستہ ہے اور جس قوم نے بھی یہ راستہ خلوص، دیانت اور بھرپور تیاری سے اختیار کیا ہے وہ کبھی ناکام نہیں ہوئی:
وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت ۲۹:۶۹)، جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بالآخر وہی ہوا جس کا خطرہ تھا ___ امریکا نے ایک بار پھر پاکستان کے حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ جنرل پرویز مشرف نے جو کچھ ستمبر ۲۰۰۱ء میں کیا تھا، وہی کردار جولائی ۲۰۱۲ء میں آج کی سیاسی اور فوجی قیادت نے ہزار کہہ مکرنیوں کے ساتھ ادا کر کے پاکستان کی آزادی، حاکمیت، عزت و وقار اور اسٹرے ٹیجک مفادات پر کاری ضرب لگائی ہے۔پرویز مشرف نے بھی ’قومی مفادات‘ کا راگ الاپا تھا اور آج کی حکومت اور اس کے میڈیا کے ہم نوا بھی یہی کچھ دہرا رہے ہیں۔ شرم کا مقام یہ ہے کہ اس عبرت ناک پسپائی کو ’ایک سوپر پاور کو معذرت کے اظہار پر مجبور کرنے‘ اور ’۵۰ممالک سے تعلقات نہ بگاڑنے‘ کا نام دے رہے ہیں۔ حالانکہ اس قیادت کے ہاتھوں پاکستان کی آزادی، عزت اور حیثیت کا جوط حشر ہوا ہے وہ بین الاقوامی محاذ پر ’جوتے اور پیاز‘ دونوں کھانے کی بدترین مثال ہے___ فاعتبروا یااُولی الابصار!
امریکا نے جس طرح بلیک میل کرتے ہوئے پاکستان کو ’دہشت گردی‘ کے خلاف نام نہاد جنگ میں گھسیٹا وہ کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔ پھر اس کے نتیجے میں پاکستان نے جو جو نقصانات اُٹھائے اورتمام تر نقصانات اُٹھانے کے باوجود امریکا نے جس جس طرح پاکستان کو ذلیل وخوار کیا، اس کے نتیجے میں ۲۰۱۱ء وہ فیصلہ کن سال بن گیا جس نے دونوں ملکوں کے جدا راستوں کو بالکل دوٹوک انداز میں واضح کردیا تھا۔
۲۶ نومبر ۲۰۱۱ء کو سلالہ کی فوجی چوکی پر امریکا کا جارحانہ حملہ اور اس میں پاکستانی مسلح افواج کے جوانوں اور افسروں کی شہادت نے پاکستان اور امریکا کے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں تعاون کے رشتے کو تارتار کر دیا۔ قوم نے سوگ و الم اور غصے اور انتقام کے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے ایک باوقار، اور متوازن ردعمل کا اظہار کیا۔ کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی نے ناٹوسپلائی کے فوری طور پر معطل کرنے، شمسی ایئربیس سے امریکیوں کے انخلا اور دوسرے فوجی اور نیم فوجی آپریشن میں دی گئی سہولتوں کی واپسی کی شکل میں اس کی تائید کی۔ نیز سب سے اہم چیز یہ طے کی کہ: پاکستان اور امریکا کے تعلقات اور دہشت گردی کے خلاف اس کی نام نہاد جنگ میں پاکستان کے کردار کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے اور پارلیمنٹ سے اس سلسلے میں واضح رہنمائی لی جائے۔ اس طرح پاکستانی قوم اور قیادت کو ایک ایسا تاریخی موقع حاصل ہوا جس کی روشنی میں وہ ماضی کی غلطیوں کی تلافی کرسکے اور مستقبل کے لیے خارجہ پالیسی اور پاک امریکا تعلقات کو ایک نئی سمت دے سکے۔ لیکن ہماری تاریخ کا یہ ایک الم ناک سانحہ ہے کہ اس وقت ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے اس تاریخی موقع کو نہ صرف یہ کہ ضائع کر دیا، بلکہ پارلیمنٹ کی رہنمائی سے مکمل انحراف کا راستہ اختیار کرتے ہوئے، نہ صرف امریکا کی غلامی کے طوق کو دوبارہ پہن لیا، بلکہ عزت و وقار کو اس طرح خاک میں ملا دیا کہ جو کچھ تھوڑی بہت حیثیت باقی تھی، وہ تباہ کی اور امریکا سے تعلقات کو برابری، مفادات کی پاس داری اور توازن کی سطح پر لانے کا جو سنہری موقع ملا تھا وہ بھی اپنی حماقت سے ضائع کر دیا۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات ۱۹۵۰ء ہی سے غیرمتوازن رہے ہیں اور بار بار تنائو، تصادم اور بحران کا شکار ہوئے ہیں۔ چار بار امریکی امداد بند ہوچکی ہے اور تین بار عملاً پابندیاں بھی لگ چکی ہیں، لیکن ہربار کسی نہ کسی بیرونی عالمی دبائو کی وجہ سے تعلقات پھر استوار ہوگئے ہیں۔ گو کبھی بھی ا ن میں حقیقی اعتماد باہمی اور اسٹرے ٹیجک مفادات کی ہم آہنگی کی کیفیت پیدا نہیں ہوئی۔ ہمیشہ وہ وقتی مصلحتوں کے تابع، یا پھر زیادہ سے زیادہ متعین طور پر چند معاملات میں لین دین اور تعاون سے عبارت رہے۔
۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۱ء تک سخت کھچائو کا عالم تھا اور پاکستان پر ایٹمی دھماکے کی پاداش میں سخت پابندیاں لگی ہوئی تھیں۔ مشرف حکومت کو فوجی آمریت قرار دے کر ایک ناپسندید حکومت کا مقام دیا ہوا تھا، حتیٰ کہ جب امریکی صدر کلنٹن پاک و ہند کے دورے پر آئے اور پانچ گھنٹے پاکستان کی سرزمین پر بھی گزارے، تب بھی پاکستان کی فوجی حکومت سے نفرت کے اظہار کے لیے اس امر کا اہتمام کیا گیا کہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ان کی تصویر تک نہ بننے پائے۔ ستمبر ۲۰۰۱ء میں نائن الیون کے خونیں اور اور اَلم ناک حادثے نے اور مشرف کے اپنے اقتدار کے لیے سندِجواز حاصل کرنے کے کھیل نے امریکی صدر بش اور مشرف کو دوستی اور تعاون کے ایک نئے جال میں پھنسا دیا، اور اس کے بعد کے ۱۱ سال ہماری قومی زندگی کے تاریک سال بن گئے۔
جہاں تک پاکستانی قوم کا تعلق ہے، اس نے پہلے دن سے اس جنگ کو صرف امریکا کی جنگ قرار دیا، اور ایک ایسی جنگ سمجھا جو امریکا نے افغانستان کے ساتھ پاکستان اور پھر عراق پر اپنے مخصوص مفادات کے حصول اور علاقائی عزائم کو پروان چڑھانے کے لیے مسلط کی تھی۔ جنرل مشرف کو نہ صرف دھونس، دھمکی، دبائو اور لالچ کے ذریعے اس میں اپنا شریکِ کار بنایا، بلکہ پاکستان کی سرزمین اور اس کی فضائی حدود کو پاکستان کے ایک برادر ہمسایہ مسلمان ملک کے خلاف جارحیت کے لیے بے دریغ استعمال کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ: جو دوست تھے وہ دشمن بن گئے، ملک کا امن و امان تہ و بالا ہوگیا اور خود پاکستان کی سرزمین دہشت گردی کی آماج گاہ بن گئی۔ پاکستان کے ۴۰ہزار سے زیادہ عام شہری اور ۶ہزار سے زیادہ فوجی اور دوسرے سرکاری اہل کار ہلاک ہوچکے ہیں اور یہ خونیں ڈراما جاری و ساری ہے۔ ہزاروں افراد زخمی ہوئے ہیں اور لاکھوں بے گھر ہوگئے ہیں جن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ ملک میں امن و امان تباہ اور نظم و نسق کا حال پراگندہ ہے۔ معاشی اعتبار سے جو ملک عالمی برادری میں اپنا مقام بنا رہا تھا زوال و انحطاط اور بحران کا شکار ہوگیا ہے۔ غربت اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے، توانائی اور پانی کی شدید قلت ہے، سرمایہ کاری رُوبہ زوال ہے اور ملک سے سرمایے کی منتقلی روزافزوں ہے۔
سرکاری اندازوں کے مطابق جنگ میں شرکت کے پہلے آٹھ برسوں میں ملک کو ۶۸؍ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے، جس میں اگر مزید تین برسوں کے خسارے کو شامل کیا جائے تو یہ رقم ۱۰۰؍ارب ڈالر سے متجاوز ہوجاتی ہے۔ اس میں وہ معاشی نقصان شامل نہیں جو ہزاروں افراد کے ہلاک، زخمی اور بے گھر ہونے کی وجہ سے واقع ہوا ہے۔ نیز ملک کا انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہوگیا ہے اور اس کی تباہی میں ناٹو کو سپلائی فراہم کرنے والے ہرماہ ۶ہزار سے زیادہ ٹرکوں کی آمدورفت ایک اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔ یہ سپلائی افغانستان پر امریکا اور ناٹو کے قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے فراہم کی جاتی رہی ہے اور جسے خود ملک میں اسلحے اور دوسری اشیا کی اسمگلنگ کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔
یہ تمام نقصانات اور مصائب و آلام اپنی جگہ، لیکن اس زمانے میں سب سے بڑا ظلم یہ ہوا ہے کہ عملاً امریکا کا عمل دخل ہماری اجتماعی زندگی میں اتنا بڑھ گیا کہ ملک کی آزادی خطرے میں پڑگئی۔ پاکستان کی سرزمین کو عملاً امریکا نے اپنا بیس کیمپ (base camp) بناڈالا۔ ہوائی اڈے قائم کیے گئے، ٹریننگ کے نام پر فوجوں کی ایک فوج ظفر موج یہاں براجمان ہوگئی اور جب انھوں نے محسوس کیا کہ فوجیوں کی برسرِعام موجودگی منفی ردعمل کا ذریعہ بن رہی ہے، تو پھر ایک محدود تعداد میں فوجیوں کو باقی رکھتے ہوئے جاسوسی، تخریب کاری اور دوسری سرگرمیوں کے لیے نیم عسکری اہل کاروں کو بڑی تعداد میں لے آئے اور خود پاکستان سے کرایے کے مددگارحاصل کیے ۔ امریکا کی اس نوعیت کی موجودگی کا اعتراف بڑے کھلے الفاظ میں سی آئی اے کے اس وقت کے ڈائرکٹر لیون پینٹا نے وائٹ ہائوس میں منعقدہ ایک اجلاس میں ان الفاظ میں کیا ہے:
اصل متبادل راستہ یہ تھا کہ خفیہ جنگ کو بہت بڑے پیمانے پر پھیلا دیا جائے۔دہشت گردی کا تعاقب کرنے والی ٹیموں ( CTPT) کے ۳ہزار افراد اب پاکستان کی سرحد کے پار کارروائیاں کر رہے تھے۔ (ملاحظہ کیجیے:Obama's Wars: The Inside Story ، باب وڈورڈ، ص ۳۶۷)
یہی وہ امریکی اہل کار اور ان کے پاکستانی معاونین تھے جو ڈرون حملوں کے لیے خفیہ معلومات فراہم کر رہے تھے اور کر رہے ہیں۔ ۲۰۱۱ء میں امریکی جاسوس اور قاتل ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ، ۲مئی کو ایبٹ آباد پر حملہ، اور پھر ۲۶ نومبر کا سلالہ پر حملہ___ یہ سب ایسے تکلیف دہ واقعات تھے جنھوں نے پاکستان کی قیادت کو مجبور کیا کہ ناٹو کی سپلائی کا راستہ بند کریں، شمسی ایئربیس خالی کرائیں اور امریکا سے اس جنگ کے سلسلے میں تمام تعلقات اور امور پر نظرثانی کریں۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں پارلیمنٹ اور اس کی قومی سلامتی کی کمیٹی کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ تمام اُمور کا جائزہ لے کر اور خارجہ، داخلہ، اور دفاعی شعبوں کے ذمہ داروں سے ضروری معلومات اور تفصیل (بریفنگ) لے کر نئی پالیسی کے خطوطِ کار تجویز کرے۔ امریکا کی جارحانہ کارروائیوں نے سفارتی تعلقات پر یکسر نظرثانی کرنے کا ایک تاریخی موقع فراہم کردیا تھا اور پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر کی سیاسی اور دینی قوتوں نے متفقہ طور پر ایک نیا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا تھا___ سارے وعدے وعید کے علی الرغم صدر زارداری، وزیراعظم پرویز اشرف، جنرل پرویز کیانی، اور پورے حکمران ٹولے نے ایک بار پھر وہی پسپائی اور امریکا کی غلامی کا راستہ اختیار کرلیا ہے جو مشرف نے ۱۱سال پہلے اختیار کیا تھا اور اپنی آزادی، حاکمیت، قومی عزت و وقار اور اسٹرے ٹیجک مفادات کے بھرپور تحفظ کا جو موقع تاریخ نے دیا تھا، اسے ضائع کردیا ہے۔ بلاشبہہ اس شرم ناک اور اَلم ناک پسپائی پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ لیکن بات محض ماتم کی نہیں احتساب، جواب دہی، غلامی سے نجات کی جدوجہد اور قیادت کی تبدیلی کی ہے تاکہ ملک و قوم ذلت کی اس زندگی سے چھٹکارا پاسکیں اور پاکستان کو جس مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھا، قوم ایک بار پھر اس کے حصول کی طرف گامزن ہوسکے۔
نیویارک ٹائمز کے چیف نمایندے ڈیوڈ ای سانگر کی ایک بڑی اہم کتاب Confront And Conceal: Obama's Secret Wars and Surprising Use of American Power چند ہفتے پہلے شائع ہوئی ہے جس کا موضوع صدر اوباما کی خارجہ پالیسی کا جائزہ ہے۔ اس میں نائن الیون کے بعد کے پاکستان اور امریکا کے تعلقات اور امریکا کی افغان جنگ اور خصوصیت سے بن لادن کے سلسلے میں ایبٹ آباد کے حملے کے اصل حاصل کو متعلقہ باب کے عنوان میں پانچ لفظوں میں یوں سمیٹ دیا ہے: Getting Bin Ladin, Losing Pakistan۔
موصوف نے اس امر کا بھی برملا اعتراف کیا ہے کہ اس پوری جنگ میں جس کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے وہ نہ امریکا ہے اور نہ افغانستان، نہ القاعدہ اور نہ طالبان___ وہ بدقسمت ملک پاکستان ہے جو علاقے کی اس جنگ میں بڑا خسارے کا سودا کرنے والا ملک ہے۔
امریکا نے پاکستان سے کس طرح معاملات طے کرائے ہیں، اس کا کھلا اعتراف ڈیوڈ سانگر نے بھی دوسرے سیاسی مبصرین اور سفارت کاروں کی طرح صاف الفاظ میں کیا ہے۔ اس کی چند جھلکیاں بھی پاک امریکا تعلقات کو سمجھنے کے لیے سامنے رکھنا ضروری ہیں:
جب امریکا نے افغانستان پر حملے کی تیاری کی تو اس نے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ یا تو طالبان اور القاعدہ کا ساتھ دے یا واشنگٹن کا۔ اپنے سر پر بندوق لگی دیکھ کر پاکستان کے فوجی آمر پرویز مشرف نے وہی کیا جو کرسکتا تھا اور اس کا ملک افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم بن گیا۔
۲۰۱۲ء میں ایک مختلف دنیا کا سامنا کرتے ہوئے امریکا اس حکمت عملی کو اُلٹ رہا ہے۔ افغانستان میں مستقل موجودگی کا مقصد یہ ہے کہ امریکا کی اسپیشل آپریشن فورسز کو اور ڈرونز کو پلیٹ فارم مل جائے، جہاں سے وہ علاقے میں کہیں بھی جاسکیں۔ اگر القاعدہ دوبارہ جان پکڑتی ہے، یا کوئی ایٹمی اسلحہ کسی کے ہاتھ لگتا ہے تو وہ پاکستان کے اندر حملہ کریں، یا اگر افغان حکومت کو زوال آتا نظر آئے، یا اگر ایران سے معاملہ کرنا پڑے تو کابل میں موجودگی بہت کام آئے گی۔ ابوظبی میں جنرل کیانی کو ڈونی لون کے پیغام کا اصل مرکزی نکتہ یہ تھا۔کم از کم امریکا کے لیے یہ درست اسٹرے ٹیجک تصور ہے۔ (ص۱۲۹-۱۳۰)
پاکستان کی حاکمیت، سرحدوں کے احترام اور پاکستان کی سرزمین پر یک طرفہ فوجی کارروائیوں کے سلسلے میں امریکا نے پاکستان کو ٹکا سا جواب دے دیا ہے اور وہ اس پر قائم ہے۔ سانگربجاطور پر تسلیم کرتا ہے کہ ۲مئی ۲۰۱۱ء کے ایبٹ آباد حملے کے پانچ ماہ بعد، جس کی وجہ سے پاکستان، پاکستانی فوج اور خود جنرل کیانی سب سے بڑی ذلت (humiliation) سے دوچار ہوئے ہیں، اور سلالہ حملے سے صرف ایک ماہ پہلے، یعنی اکتوبر ۲۰۱۱ء میں ابوظہبی میں امریکی صدر کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ٹام ڈونی لون (Tom Donilon) نے منہ در منہ کہہ دیا تھا کہ امریکا اپنے مفاد میں اگر پاکستان کی حدود میں کارروائی ضروری سمجھے گا تو ضرور کرے گا۔ سانگر لکھتا ہے:
پھر آخری بات آئی: ’’میں جانتا ہوں کہ تم ہم سے ضمانت چاہتے ہو کہ (بن لادن والے واقعے کی طرح) ہم تمھارے ملک میں آیندہ یک طرفہ آپریشن نہیں کریں گے‘‘۔’’یہ ضمانت میں تم کو نہیں دے سکتا‘‘۔
اور دلیل یہ تھی کہ : امریکیوں کا تحفظ امریکا کے صدر کی آخری ذمہ داری ہے۔ (ص ۸)
یہ ہمت کس میں تھی کہ کہے کہ پاکستان کے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت اور پاکستان کی سرحدوں کے تقدس کی پامالی سے روکنے کی ذمہ داری بھی کسی سیاسی اور عسکری قیادت پر ہے یا نہیں؟
سانگر اعتراف کرتا ہے: پاکستان کے خلاف یک طرفہ ڈرون حملے کیے گئے جو بالکل لغوی مفہوم میں ایک جنگ کا عمل ہیں (ص۱۳۷)۔ یہ بھی اعتراف ہے کہ: عملی مفہوم میں کسی متعین شخص کو ہدف بنا کر قتل کرنے اور ڈرون کے ذریعے قتل کرنے میں امتیاز کرنا مشکل ہے۔(ص ۲۵۵)
بین الاقوامی قانون میں کسی غیرمتحارب کا نشانہ زدقتل ایک جنگی جرم ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکی قیادت کا اصرار ہے کہ دنیا میں جہاں وہ اپنے زعم میں اپنے کسی شہری کے لیے خطرہ محسوس کریں گے تو محض اس اندیشے پر ان کو ڈرون حملے کرنے کا حق ہے۔ پاکستان میں تمام عوامی احتجاج اور اب حکومت اور پارلیمنٹ کی مخالفت کے باوجود وہ ڈرون حملوں کو جاری رکھنے پر مصر ہیں۔
وائس آف امریکا کی ۶جون ۲۰۱۲ء کی رپورٹ کے مطابق:امریکا کے وزیردفاع لیون پینٹا نے کہا کہ امریکا کا پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملے کم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ دہشت گرد لیڈروں کو ہدف بنانے کا تعلق ہماری خودمختاری سے ہے۔
یہ ۶ جون ۲۰۱۲ء کا ارشاد ہے۔ ۴جولائی کو پاکستان سے سودے بازی کرنے کے بعد ہیلری کلنٹن اور پاکستان میں امریکی سفیر کیمرون منٹر نے( جن کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ ڈرون حملوں پر خوش نہیں ہیں، اور یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ انھیں معلوم نہ تھا کہ ان کی سفارت کاری میں انسانوں کے قتل میں شرکت بھی شامل ہوگی) ۴جولائی کے اعلان کے تین دن بعد ہی فاٹا میں ڈرون حملوں کا دفاع کیا اور ان کے جاری رہنے کی ’نوید‘ سنائی ہے۔
یہ ہے امریکاکا ذہن اور عالمی منظرنامہ جس میں پاکستان کی وزیرخارجہ نے امریکی سیکرٹری خارجہ سے گفتگوکرتے ہوئے ان کے ایک موہوم اور مجہول اظہارِ افسوس اور ہمدردی کے بعد، پاکستانی قوم اور پارلیمنٹ کے تمام مطالبات کو بالاے طاق رکھ دیا۔ کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی جس کے بارے میں دعویٰ ہے کہ اس نے اس سلسلے میں فیصلہ کیا ہے، اس کے اجلاس سے ۱۲گھنٹے پہلے، ناٹو کے لیے پاکستان کے راستوں کو کھولنے کا مژدہ امریکا کو سنایا، اور اس کے یومِ آزادی پر پاکستان کے مفادات، پارلیمنٹ کی قرارداد اور پاکستانی قوم کے جذبات کو بھینٹ چڑھا دیا، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
پاکستان کی موجودہ قیادت نے یہ قلابازی کب کھائی؟ کھچڑی تو نہ معلوم کب سے پک رہی تھی، مگر اعلان کی ہمت اور حوصلہ نہیں ہورہا تھا۔ اس لیے زمین ہموار کرنے کے لیے مئی اور جون میں کارستانیاں شروع ہوگئیں مگر دھیمے سُروں میں، بظاہر مشاورت کا بڑا شور ہے مگر اس کا کوئی ثبوت ۴جولائی ۲۰۱۲ء سے پہلے نہیں تھا۔ البتہ یہ یقین ہے کہ ’کسی‘ نے فیصلہ کرلیا تھا اور پھر سرکاری ذرائع اور میڈیا کو فضا سازگار بنانے کے لیے ’جہاد‘ میں جھونک دیا گیا۔
اپریل ۲۰۱۲ء تک برابر یہی اعلانات آتے رہے کہ: ’’ملک کی آزادی، خودمختاری، سرحدات کی پاس داری اور حفاظت، قومی عزت و وقار اور پاکستان کے ملکی اور علاقائی مفادات پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا اور پارلیمنٹ کی قرارداد پر اس کے الفاظ اور روح کے مطابق عمل ہوگا، خواہ اس کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے‘‘۔ اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپریل میں بڑے طمطراق سے اعلان کیا تھا: ’’میں اس ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ جو قرارداد آج یہاں منظور کی گئی ہے اس کو الفاظ اور روح کے مطابق نافذ کیا جائے گا‘‘۔ (واشنگٹن پوسٹ، ۱۳؍اپریل ۲۰۱۲ئ)
اسلام آباد میں دو روزہ اعلیٰ سطح کے مذاکرات کے بعد پاکستان نے امریکی مذاکرات کاروں کو گذشتہ ہفتے بتایا کہ جب تک امریکا نومبر کے اس حملے کی غیرمشروط معافی نہیں مانگتا، جس میں ۲۴پاکستانی فوجی افغان سرحد کے قریب ہلاک کیے گئے تھے، وہ ناٹو کے قافلوں کو اپنی سرحد سے نہیںگزرنے دے گا۔ اگرچہ اوباما انتظامیہ نے ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے جو اس کے مطابق اتفاقیہ تھیں، تاہم پینٹاگان کا کہنا ہے کہ دونوں فریقوں پر برابر کا الزام آتا ہے۔ (واشنگٹن پوسٹ، ۲۹؍اپریل ۲۰۱۲ء ، رپورٹ: Richard Leiby and Karen Deyoung)
اس رپورٹ میں (جس کا وقت بھی بہت اہم ہے) اس بات کا بھی اعتراف اور اعادہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے امریکا سے معاملات طے کرنے کے لیے واضح خطوط کار دے دیے ہیں، جن میں ’غیرمشروط معافی‘ کے لیے جو بنیاد بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے: ’’نومبر میں امریکا کے ہیلی کاپٹروں اور جیٹ فائٹروںکا سرحدوں پر بلااشتعال قابلِ مذمت حملہ‘‘۔ اور پھر اس رپورٹ میں پاکستان کے سرکاری ترجمان کا یہ عزم بھی درج ہے کہ:
جب ایک باقاعدہ منتخب جمہوری حکومت تین دفعہ یہ کہتی ہے کہ یہ نہ کرو اور امریکا وہی کرتا رہتا ہے ، تو اس سے جمہوریت کمزور ہوتی ہے۔ ان ڈرون حملوں سے دہشت گرد ہلاک ہوسکتے ہیں، لیکن اصل نقصان آزادی اور جمہوریت کا ہوتا ہے۔
پاکستان نے واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ اس کی سرحدوں کے اندر شدت پسندوں پر امریکا کے ڈرون حملے روک دیے جائیں لیکن واشنگٹن نہیں سمجھ رہا۔ حناربانی کھر نے کہا: ’’ڈرون حملوں پر بات واضح ہے، یعنی ڈرون حملوں کا مکمل طور پر ختم ہونا۔ میں اس موقف پر قائم ہوں۔ ہم نے پہلے بھی ان کو بہت واضح طور پر بتا دیا تھا لیکن وہ نہیں سنتے۔ مجھے امید ہے کہ ان کی سماعت بہتر ہوگی‘‘۔ (عرب نیوز، ۲۷؍اپریل ۲۰۱۲ئ)
ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے امریکی دوست ہماری خودمختاری اور سرحدات کا احترام کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈرون حملے نہ ہوں اور پاکستان کی سرحدات میں کوئی مداخلت نہ ہو۔ (دی نیوز، اسلام آباد، ۲۰جولائی ۲۰۱۲ء ، بحوالہ واشنگٹن پوسٹ)
پاکستان سلالہ کے واقعے پر امریکا سے معافی (apology) سے کم کوئی لفظ قبول نہ کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اپنے موقف سے نہ ہٹے گا اور معافی مانگنے سے کم کے لیے کسی دلیل کو قبول نہ کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ ایک جامع حکمت عملی بنائی جائے تاکہ مستقبل میں سلالہ جیسا واقعہ پیش نہ آئے۔ (پاکستان ٹوڈے، ۲۰جون ۲۰۱۲ئ)
اب غور طلب امر یہ ہے کہ اواخر مئی اور جون میں وہ کیا انقلاب واقع ہوا کہ صدر، وزیراعظم، آرمی چیف، وزیرخارجہ، وزیردفاع اور پورے برسرِاقتدار گروہ نے سجدۂ سہو کرڈالا اور ’’تھا جو نا خوب‘‘ چشم زدن میں وہ ’خوب‘ بن گیا؟
ا س سلسلے میں سب سے پہلا شوشا اس وقت کے وزیردفاع جناب احمدمختار نے چھوڑا اور یہ انکشاف فرمایا کہ: ’’رسد صرف زمین کے راستے سے بند ہے، فضائی حدود امریکا اور ناٹو کے لیے کھلی ہوئی ہیں اور ان پر کبھی پابندی نہیں لگی‘‘۔ حالانکہ پارلیمنٹ کی قرارداد میں زمینی اور ہوائی ہرراستے کا واضح طور پر ذکر ہے۔ پھر ایک دم کئی وزیروں پر یہ عقدہ کھلا کہ ناٹو اور ایساف میں تو ۴۸ممالک ہیں اور ہم ان سب کی مخالفت کیسے مول لے سکتے ہیں۔ غضب بالاے غضب کہ ان ممالک میں ہمارا دوست ملک ترکی بھی شامل ہے۔ پھر ایک بھرپور مشاعرہ شروع ہوگیااور وزرااور سرکار کا ہم نوا میڈیا یہ راگ الاپنے لگا۔ اس زمانے میں ایک اور موضوع پر سخن طرازی شروع ہوگئی کہ: ’’اصل چیز معافی (apology) ہے۔ ڈرون کا مسئلہ اس سے الگ ہے جس پر جداگانہ بات چیت جاری رکھی جارہی ہے‘‘۔ حالانکہ دونوں میں اصل مسئلہ ملک کی حاکمیت اور سرحدات کی خلاف ورزی کا تھا ، جب کہ خود پاکستانی سفیرصاحبہ نے ۴جولائی کے اعلان سے صرف ۱۴ دن پہلے تک دوسرا موقف اپنائے رکھا۔
پھر اس لَے میں ایک اور لَے یہ شریک ہوگئی کہ خارجہ پالیسی کے فیصلے جذبات پر نہیں حقائق پر استوار ہوتے ہیں۔ گویا نومبر ۲۰۱۱ء میں ناٹوسپلائی کی بندش، امریکی افواج کے انخلا اور شمسی ایئربیس سے امریکا کی خلاصی وغیرہ تو بس جذباتی فیصلے تھے اور اصل حقائق اب اس قیادت پر کھلے ہیں۔ اور پھر ٹیپ کا یہ بند لگایا گیا کہ خارجہ پالیسی کے فیصلے پارلیمنٹ میں نہیں ہوتے ، اس کے پاس یہ پیشہ ورانہ مہارت نہیں کہ ایسے معاملات طے کرسکے۔یہ تو صرف انتظامیہ طے کرسکتی ہے۔ یہ بڑی حماقت ہوئی کہ اس مسئلے کو پارلیمنٹ اور اس کی قومی سلامتی کی کمیٹی کے سپرد کردیا گیا اور اس طرح قیادت ایک مصیبت میں گرفتار ہوگئی۔ وہ جو پارلیمنٹ کی بالادستی کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے اور جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اس اظہارِخیال پر بھی برہم ہیں کہ ’اصل بالادستی دستوراور قانون کی ہوتی ہے اور دستور کے دیے ہوئے اختیارات کے اندر ہر ایک اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا پابند ہے، وہ اب ببانگِ دہل فرما رہے ہیںکہ اس کھڑاگ میں پارلیمنٹ کو اپنی ٹانگ نہیں پھنسانا چاہیے۔
ریکارڈ کی درستی کی خاطر ایک انگریزی اخبار کے اداریے کا یہ حصہ قارئین کی نذر کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ یہ اداریہ اس پورے ذہن کا عکاس ہے جو ایک طرف لبرل ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور دن رات جمہوریت کی دہائی اور آزادیِ صحافت کا واویلا کرتا ہے، لیکن دراصل مخصوص مفادات کے تحفظ اور ترجمانی کے علاوہ اس کا کوئی کردار نہیں۔ روزنامہ Express Tribune کا ۶جولائی ۲۰۱۲ء کا اداریہ پوری لبرل لابی کے تصورات اور احساسات کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس اداریے نے قوم کے لیے جو سبق نکالے وہ بھی پڑھ لیں اور اس دانش وری پر سر دُھنیں:
پاکستان کا پھندوں میں خود جاکر پھنسنے کا ایک طریقہ ہے لیکن اس کو وہ طویل مدت تک نہیں چلا سکتا۔ مئی ۲۰۱۱ء میں، اس بات کا احساس کیے بغیر کہ باہر کی دنیا کو کیسا لگے گا، ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر فوج کا صبر جواب دے گیا۔ اور جب نومبر میں سلالہ کاواقعہ پیش آیا تو صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور غم و غصے کا اظہار کیاگیاجس کو قومی مفادات کے تحت قابو میں رکھنا چاہیے تھا۔ پھر میڈیا کو اجازت دی گئی کہ وہ غیض و غضب کی کیفیت میں آکر ملک میں انتقام کے جذبات کو پھیلائے۔
دوسری غلط بات یہ کی گئی کہ مسئلے کو پارلیمنٹ کے حوالے کر دیا گیا جہاں قومی غیرت کا ذکر کچھ زیادہ ہی ہونا تھا۔ ریاست کمزور ہو یا مضبوط، اس کی خارجہ پالیسی کو قومی تفاخر کے معاملات سے الگ ہونا چاہیے، تاکہ مدبرانہ سوچ پر عمل کیا جاسکے اور تنازعے سے بچاجاسکے۔
ایک بڑی خرابی یہ ہوئی کہ مختلف مبصرین نے جلد ہی یہ محسوس کیا کہ پارلیمنٹ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تیاری میں دیر لگا رہی ہے۔ یہ انتقام کے اسفل جذبات کے آگے سپرانداز ہوگئی اور اس میں وہ لمحہ گزر گیا جب امریکا پاکستان کے موقف کوتسلیم کرنے پر آمادہ تھا۔
باہمی تنائو کے اس عرصے میں پاکستانی اپنے زیادہ اہم بحران کو بھول گئے اور امریکا کی معافی پر یکسو ہوگئے۔ان کا خیال تھا کہ اس سے خود ہی انتہائی تذلیل ہوگی۔ کیا اس میں پاکستان کے لیے کوئی سبق ہے؟ ہاں، تین سبق ہیں: غیرت کے جذبات میں نہیں بہنا چاہیے، کیونکہ ریاستیں ایسا نہیں کرتیں۔ سفارت کاری کو پارلیمنٹ کے حوالے مت کرو، کیونکہ اس سے لازماً حالات مزید خراب ہوجائیں گے۔ اور چاہے کچھ بھی ہو، خود کو دنیا میں تنہا نہ کرو کیونکہ آج کے بین الاقوامی قانون میں تنہائی شکست کا دوسرا نام ہے۔
حکومت کے نمایندوں اور اس کے ہم نوا پریس اور الیکٹرانک میڈیا کے تمام ارشادات کا تجزیہ کیا جائے تو چھے نکات سامنے آتے ہیں، جن میں سے ہر ایک نہایت بودا اور تارِعنکبوت کے مانند ہے لیکن انھیں بڑی تعلّی،بلکہ ڈھٹائی کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔
پہلا دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے اور اس کا درس دیا جا رہا ہے کہ خارجہ اور سلامتی کے امور کے فیصلے جذبات کے تحت نہیں کیے جاتے، ان کے لیے ٹھوس دلائل اور زمینی حقائق کا اِدراک ضروری ہے۔ ہمیں اس اصولی بات سے اتفاق ہے کہ قومی فیصلے محض جذبات کی بنیاد پر نہیں ہونے چاہییں، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جو فیصلے بھی قوم کے جذبات، قومی خواہشات، عوام کے عزائم، توقعات اور ترجیحات کو نظرانداز کر کے ہوں گے ان کی اہمیت پرکاہ کے برابر بھی نہیں ہوگی۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکا نہ صرف عراق بلکہ افغانستان میں بھی عملاً یہ جنگ ہارچکا ہے اور اس کے اتحادی ایک ایک کرکے اس کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ ۱۱سال پر محیط اس جنگ میں دنیا کی واحد سوپرپاور نے ۵لاکھ سے زیادہ اعلیٰ ترین ٹکنالوجی اور کیل کانٹے سے لیس فوجی سورما جھونکے اور ۳ہزار ارب ڈالر سے زیادہ پھونک دیے ہیں۔ اس میں نائن الیون کے ۳ہزار ہلاک ہونے والے انسانوں کے انتقام میں عراق، افغانستان اور پاکستان میں ملاکر ۵لاکھ سے زیادہ افراد موت کے گھاٹ اُتارے جاچکے ہیں، مگر چند سو القاعدہ کا قلع قمع نہیں ہوسکا۔ اور جنھیں دہشت گرد کہا جارہا تھا وہ آج درجنوں ممالک تک پہنچ گئے ہیں۔ افغانستان کے ۷۰ فی صد زمینی رقبے پر طالبان کا عمل دخل ہے اور وہ جب چاہتے ہیں کابل کے محفوظ ترین علاقوں پر پانچ حفاظتی حصار توڑ کر یا عبور کر کے اقدام کرڈالتے ہیں۔ پاکستان جو نقصانات اُٹھا چکا ہے اور اُٹھا رہا ہے، وہ محض جذباتی گلہ شکوہ نہیں، زمینی حقائق ہیں۔
راے عامہ کے امریکی ادارے Pew ریسرچ سنٹر کے تازہ ترین سروے کی روشنی میں، جو ۲۷جون ۲۰۱۲ء کو شائع ہوا ہے: ’’پاکستان کی آبادی کا ۷۴ فی صد ۲۰۱۲ء میں امریکا کو ایک دشمن ملک سمجھتا ہے۔ ۲۰۰۹ء میں یہ تعداد ۶۴ فی صد تھی۔ اور جن کی نگاہ میں امریکا ایک ناپسندیدہ ملک ہے، وہ ۸۰ فی صد ہیں۔ اسی طرح ۴۰ فی صد کی نگاہ میں امریکی امداد کے اثرات منفی ہیں۔ ڈرون حملے کی مخالفت کرنے والے ۹۴ فی صد ہیں، جو اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ان ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے عام شہری ہیں۔
پاکستانی عوام اور خواص کا یہ پختہ یقین ہے کہ امریکا اور پاکستان کے عزائم، اہداف اور مفادات متضاد ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک امریکا کی قیادت بھی کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کی حکومت اور فوج کے رویے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اعتماد میں لینے سے گریز کرتے ہیں اور موقع پاتے ہی چوٹ لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اس حکومت کو اس کا اِدراک ہو یا نہ ہو، عوام اس کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور امریکا کے اہلِ نظر اس کا کھلے بندوں اعتراف کرتے ہیں، جس کی ایک تازہ مثال وہ مضمون ہے جو مشہور امریکی تجزیہ نگار اسکالر اسٹیفن پی کوہن اور معیدیوسف نے مشترکہ طور پر ۲۱جون ۲۰۱۲ء کی انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کی اشاعت میں لکھا ہے:
یہ بات درست نہیں ہے کہ پاکستان کے شہری اور واشنگٹن پاکستان کی قومی سلامتی کے معاملات کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان کے شہری پاکستان کے لیے امریکی پالیسی پر فوج ہی کی طرح پریشان ہیں۔
اگر پاکستانی قوم امریکا سے دوستی کو آنکھ بند کر کے قبول کرنے کو تیار نہیں ہے، اور اسے شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے تو وہ حق بجانب ہے، اس لیے کہ اس کے بارے میں امریکا کے جو عزائم اور پالیسیاں ہیں، انھیں پاکستانی قوم اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔
امریکا کے بارے میں یہ منفی تصور صرف پاکستان کا نہیں بلکہ یہ پوری دنیا اور خصوصیت سے اسلامی دنیا میں بھی ہے۔Pew ہی کے ۱۰جولائی ۲۰۱۲ء کے سروے میں چند مسلمان ممالک میں امریکا پر اعتماد کی جس کیفیت کی تصویرکشی کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ جہاں پاکستان میں امریکا کو ناپسند کرنے والوں کی تعداد ۸۰ فی صد ہے، وہاں ترکی میں ۷۲ فی صد، مصر میں ۷۹ فی صد اور اُردن میں ۸۶ فی صد ہے۔ یہ سب وہ ممالک ہیں جنھیں امریکا کا دوست ترین ملک کہا جاتا ہے اور جہاں کے حکمرانوں کی امریکی حکمرانوں سے گاڑھی چھنتی ہے۔
ڈیوڈ سانگر جن کا حوالہ ہم اُوپر دے چکے ہیں، مصر کے حالیہ انقلاب کے بعد وہاں کی جو فضا ہے اور جس کا تازہ ترین مظہر ہیلری کلنٹن کے دورے کے موقع پر اسکندریہ کا مظاہرہ تھا، وہاں کی تمام ہی انقلابی ، اسلامی اور سیکولر قوتوں کے بارے میں موصوف کو جو اِدراک ہوا وہ یہ ہے:
ایک مسئلے پر سب کا اتفاق تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ امریکا حسنی مبارک کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی مصر کے مسئلے کا حصہ ہے۔راینا نے کہا: ’میں سمجھتی ہوں کہ میں امریکا سے لڑ رہی ہوں‘۔ ’فوج امریکا کی بنائی ہوئی ہے۔ مبارک امریکا کا بنایا ہوا تھا۔ امریکا کی مالی امداد عوام تک نہیںجاتی‘۔
مسئلہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ افغانستان میں امریکی جنگ جلداز جلد ختم ہو اور وہاں سے غیرملکی افواج کا مکمل انخلا واقع ہو، تاکہ افغانستان اور علاقے میں امن کا حصول ممکن ہوسکے۔ جنگ ختم کرنا اور مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنا وقت کی اصل ضرورت ہے۔ اس کے سوا جو راستہ اختیار کیا جائے گا وہ تباہی کا راستہ ہے۔ نومبر ۲۰۱۱ء میں جو فیصلہ قوم نے کیا تھا اور جس پر قوم کے ہرطبقے کو اطمینان تھا اور جس کی بھرپور تائید برسرِاقتدار جماعتوں اور حزبِ اختلاف نے کی، وہ حقائق پر مبنی تھا محض جذبات پر استوار نہیں تھا۔ اس اقدام کی پارلیمنٹ نے قوم کے جذبات اور پاکستان کے مفادات اور عزائم کو سامنے رکھ کر توثیق کی اور ان کو آگے بڑھاتے ہوئے حالات میں تبدیلی کے راستے کی نشان دہی کی۔ اسے جذباتیت قرار دے کر اسی گھسی پٹی امریکی لائن کو آگے بڑھانے کو عقلیت اور حقیقت پسند قرار دینا حقائق سے انکار اور قوم کے عزائم اور ترجیحات کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے۔
اس بحث کا ایک اور دل چسپ شوشا بڑے طمطراق سے چھوڑا جا رہا ہے کہ: ’’عقل اور فراست کے تمام متوالوں کے ارشاداتِ عالیہ کو نظرانداز کر کے ان لوگوں کی باتوں کو اہمیت دی جارہی ہے جو محض غیرت کے نام پر ملک کو کسی تصادم کی طرف لے جانا چاہتے ہیں‘‘۔ کون تصادم کی طرف لے جارہا ہے اور کس نے اس ملک کو ایک تصادم نہیں بلکہ تصادموں کے ایک سلسلے میں جھونک دیا ہے؟ ایک قابلِ تحقیق امر ہے، لیکن ان تمام افراد اور اداروں بشمول پارلیمنٹ کو مطعون کرنا جو قوم و ملک کی آزادی، عزت و ناموس اور خودمختاری، شناخت کی حفاظت اور اس کے لیے ہرقربانی کے لیے آمادگی کا عزم رکھتے ہیں، صرف بے غیرتی ہی نہیں ایک قومی جرم ہے۔
ایمان اور عزت و ناموس وہ قیمتی متاع ہیں، جن کے لیے جان کی بازی لگانا زندگی کی سب سے بڑی معراج ہے۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ جس قوم میں اخلاقی حُسن اور عزتِ نفس باقی نہ رہے، وہ پھر غلاموں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔ جس کو اپنی آزادی، عزت اور شناخت عزیز ہو وہ بڑی سے بڑی استعماری طاقت سے بھی ٹکر لیتی ہے اور بالآخر اسے پاش پاش کردیتی ہے۔ خود ہمارے اس عہدِحیات میں ڈیڑھ سو سے زیادہ ممالک کابڑی بڑی مضبوط اور دیوہیکل استعماری قوتوں کے چنگل سے آزادی حاصل کرلینا ایک زندہ حقیقت ہے۔ تیونس اور مصر میں جو تبدیلیاں آئی ہیں اور شام میں جو معرکہ برپا ہے وہ آزادی اور عزت ہی کے حصول کی خاطر ہے۔ لیکن افسوس ہمارے نام نہاد آزاد خیال اور لبرل طبقے کا حال یہی ہے کہ ع
حمیّت نام تھا جس کا، گئی تیمور کے گھر سے
قائداعظمؒ نے مارچ ۱۹۴۸ء میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن لاہور کے اجتماع میں اپنے صدارتی خطاب کو جن الفاظ پر ختم کیا تھا وہ ایمان، اخلاق، عزتِ نفس، نظریاتی اور ثقافتی شناخت یا بہ الفاظ دیگر اس شے لطیف کے بارے میں تھا، جسے ایک لفظ میں ’غیرت‘ کہتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا:
جس اہم مقابلے میں ہم مصروف ہیں وہ نہ صرف مادی فوائد کے لیے ہے بلکہ وہ مسلم قوم کی روح کی بقا کے لیے بھی ہے۔ اسی لیے میں نے بسااوقات یہ کہا ہے کہ یہ مسلمانوں کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہے، سودے بازی کی بات نہیں۔ مسلمانوں کو اس بات کا پورا احساس ہوچکا ہے۔ اگر ہم اس جدوجہد میں ہار گئے تو سب کچھ کھو جائے گا۔ ولندیزی ضرب المثل کے مصداق ہمارا موٹو یہ ہونا چاہیے: ’’دولت کھوئی تو کچھ نہیں کھویا، حوصلہ کھویا تو کافی کچھ کھویا، عزت کھوئی تو بہت کچھ کھویا، روح کھوئی تو سب کچھ کھو دیا!!‘‘ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلد دوم، ص ۴۵۵)
دوسری بات یہ کہی جارہی ہے کہ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں پارلیمنٹ کو کیوں گھسیٹ لیا گیا وہ تو اس کی اہل ہی نہیں۔ بلاشبہہ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں مختلف اداروں اور مختلف علوم پر مہارت رکھنے والوں کا کردار ناقابلِ تردید ہے۔ لیکن جمہوریت جہاں قانون کی حکمرانی کا نام ہے، وہیں پالیسی سازی میں عوام کی مرضی،ان کے عزائم، ترجیحات اور خواہشات کو بھی ایک فیصلہ کن حیثیت دیتی ہے۔ پاکستان کے دستور میں خارجہ پالیسی کے اصولی نکات درج ہیں اور اس سلسلے میں دفعہ ۴۰ بڑی محکم ہے۔ اور یہ بھی دستور نے لازم کیا ہے کہ ہرسال حکومت پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو مطلع کرے کہ پالیسی کے اصولوں پر کہاں تک عمل ہوا ہے۔
دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں پارلیمنٹ میں خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے تمام اہم پہلوئوں پر گفتگو ، تبصرے اور پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیاں خارجہ پالیسی اور سلامتی کے متعلقہ امور پر نہ صرف نگرانی (oversight) کی ذمہ داری ادا کرتی ہیں بلکہ احتساب اور censor بھی ان کے فرائض میں شامل ہے۔ امریکا میں تو دستور صدرِمملکت کو پابند کرتا ہے کہ جنگ کا کوئی فیصلہ پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر نہیں کرسکتا۔ معاملات جنگ کے ہوں یا صلح و امن کے، دوستی کے ہوں یا کش مکش اور تصادم کے، پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیاں تمام امور کے بارے میں اپناکردار ادا کرتی ہیں۔ صرف اصول اور کلیدی معاملات میں نہیں بلکہ بظاہر چھوٹے چھوٹے معاملات تک پر نہ صرف بحث کرتی ہیں بلکہ فیصلہ تک کرنے کا اختیار رکھتی ہیں۔ یہ جو ایک ایک ملک کو معاشی امداد اور فوجی امداد کے سلسلے میں پارلیمنٹ سے رجوع کیا جاتا ہے اور اس کی کمیٹیوں کی کارروائی کے بعد ہائوس میں ووٹ کے ذریعے ایک ایک ڈالر کا معاملہ طے کیا جاتا ہے، یہ پارلیمنٹ کا خارجہ پالیسی اور سلامتی کے امور میں کردار نہیں تو کیا ہے؟
تیسرا ارشادِ گرامی یہ ہے کہ پاکستان امریکا سے نہیں لڑسکتا، اس کے لیے امریکا سے دوستی کے سواکوئی چارہ نہیں۔ امریکا کو آنکھیں دکھانا ایک غلطی تھی اور اب اس کی سزا ہم کو بھگتنا پڑے گی۔ اچھا ہوا کہ سات مہینے ہی میں ہماری آنکھیں کھل گئیں، ورنہ اور بھی تباہی ہمارا مقدر ہوتی۔
اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کہ تباہی سے ہم بچ گئے ہیںیا ایک نئی تباہی کے منہ میں داخل ہوگئے ہیں، اور ۴جولائی کے بعد سے ان چند دنوں ہی میں کتنے نئے حملے ہمارے مظلوم شہریوں پر ہوئے ہیں، اور ہمارے خلاف کتنے نئے محاذ (بشمول افغانستان کی طرف سے محاذ آرائی) کھولنے کا بار بار اعادہ ہورہا ہے؟ ان تمام مسائل کے اصولی پہلوئوں پر گفتگو کرنا ہرعاقل پاکستانی کا فرضِ منصبی ہے۔ مگر حکمران طبقہ یہ کہتا ہے کہ عوام اور عوام کے منتخب نمایندوں کا ان بحثوں سے بھلا کیا تعلق؟
بہرحال یہ شوشے اور ارشادات جن مفروضوں پر مبنی ہیں، وہ خام اور ناقابلِ التفات ہیں اور صرف شکست خوردہ اور غلامانہ ذہنیت کے غماز ہیں۔
دوستی اور غلامی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ دوستی کا کون منکر ہے، بات دوطرفہ تعلقات اور برابری کی بنیاد پر تعلقات کی ہے۔ حقیقی دوستی اعتماد پر مبنی ہوتی ہے اور مقاصد، اقدار اور مفادات کے اشتراک سے اسے مضبوطی حاصل ہوتی ہے۔ امریکا سے اچھے تعلقات کا کوئی مخالف نہیں ہے، لیکن کوئی وجہ تو ہے کہ دنیا میں صرف دو ملکوں کو چھوڑ کر، یعنی اسرائیل اور بھارت، کسی ملک کے عوام بھی امریکا پر بھروسا نہیں کرتے۔ اس کی دوستی کے دعوئوں کو اس کے الفاظ کی بنیاد پر نہیں پرکھتے بلکہ دوستی کے پردے میں جو کھیل وہ عالمی میدان میں ایک صدی سے زیادہ عرصے سے کھیل رہا ہے، اس کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں کہ ع
ہوئے تم دوست جس کے ، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟
دنیا بھر میں امریکا سے بے زاری کیوں ہے؟ ٹکنالوجی پر اس کی دست رس، معاشی وسائل میں فوقیت اور بہ نظر ظاہر اس کی جمہوری اقدار اور اداروں کی وجہ سے نہیں، اس کی ان پالیسیوں کی وجہ سے ہے جن کے نتیجے میں دنیا کے ہر گوشے کے لوگ اس کے ظلم و ستم کا نشانہ ہیں اور اس کے اس کردار پر برافروختہ ہیں۔ وہ امریکی استعمار کے خلاف برسرِپیکار ہیں اور برملا کہہ رہے ہیں کہ ع
جہاں سے اُٹھا ہے جو بھی فتنہ، اُٹھاتیری رہ گزر سے پہلے
امریکا کی خارجہ سروس کے ایک اعلیٰ عہدے دار پیٹر فان بورین نے ۲۳سال تک تائیوان، جاپان، کوریا، عراق، انگلستان اور ہانگ کانگ میں سفارتی خدمات انجام دی ہیں، اس نے عراق میں امریکا کے مجرمانہ کردار کی تفصیلی داستان اپنی تازہ ترین کتاب We Meant Wellمیں بیان کی ہے۔ یہ کہانی صرف عراق کی نہیں، افغانستان، پاکستان، مصر، شام، اُردن سب کا یہی حال ہے۔
پیٹر بورین الجزیرہ کے ویب پیج پر اپنے ایک حالیہ مضمون میں امریکی صدر کی جو تصویرکشی کرتا ہے، ڈرون حملوں سے زخم خوردہ ہر پاکستانی کا تصور بھی اس سے مختلف نہیں۔
ہمارے وقت کی سادہ حقیقت یہ ہے کہ صدر نے اپنے آپ کو (اور اپنے مشیروں کو اور جو ان کے احکامات کی تعمیل کریں ان کو) قانونی اور اخلاقی ہرلحاظ سے قانون سے بالاتر قرار دے دیا ہے۔ اب ان کو اور صرف ان کو تنہا یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ڈرون حملوں سے کون ہلاک ہوگا اور کون زندہ رہے گا۔ وہی میڈیاتقسیم کاروں کو خفیہ اطلاعات سے نوازیں گے یا ان صحافیوں کی پٹائی لگائیں گے جو ان کو اور ان کے ساتھیوں کو مقدمات سے پریشان کرتے ہیں اور بدترین بات یہ ہے کہ وہ خود ہی یہ طے کریں گے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط ہے۔
نوام چومسکی امریکا کی ایک مشہور یونی ورسٹی کا پروفیسر ہے، وہ امریکی لغت کے مطابق نہ کوئی اسلامی فنڈامنٹلسٹ ہے اور نہ القاعدہ کا ہمدرد، وہ برطانوی ہفت روزہ New Statesman میں ایک انٹرویو میں امریکی صدر اوباما کے بارے میں اپنے کو یہ کہنے پر مجبور پاتا ہے کہ:
اوباما نے خود اپنا جو تشخص بنایا ہے، (آج کل اس کے لوگ جارحانہ انداز میں اُسے اور بڑھا رہے ہیں) وہ ایک قاتل کا ہے جو’دہشت گردوں‘ اور ان کے ساتھیوں کو ختم کرنے کے لیے اپنے ہاتھوں کو خون سے رنگتا ہے۔
وہ اس وقت بھی جنگی جرائم میں مبتلا ہے۔ مثال کے طور پر ہدف زدہ ہلاکتیں جنگی جرائم ہیں۔ ان میں اوباما کے دور میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ شہریوں پر حملوں کی بھی متعدد مثالیں ہیں۔ (نیواسٹیٹس مین، ۱۳ ستمبر ۲۰۱۰ئ)
امریکا سے دو طرفہ دوستی اور اور سیاسی اور معاشی تعلقات کا کوئی مخالف نہیں۔ ہماری گزارش صرف اتنی ہے کہ ان تعلقات کو ان حدود کے اندر ہونا چاہیے، جو آزاد اور خودمختار ممالک کے درمیان ہوتے ہیں اور مشترک مقاصد اور ایک دوسرے کی حاکمیت، خودمختاری اور مفادات کے احترام کے فریم ورک کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جو پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے بالکل صاف الفاظ میں کہی ہے، جس کی تائید پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اتفاق راے سے کی گئی ہے لیکن افسوس ہے کہ وہ نہ امریکا کو قبول ہے اور نہ پاکستان میں امریکی لابی اسے ہضم کرپارہی ہے۔
رہا تصادم کا راستہ، تو وہ اگر کسی نے اختیار کیا ہے تو امریکا ہے۔ وہ قوت اور جبر کے تمام حربوں، دھونس اور بلیک میل کے تمام ہتھکنڈوں اور میڈیا اور پروپیگنڈے کی پوری یلغارکے ساتھ اپنی پالیسیاں دوسروں پر مسلط کرنا چاہتا ہے اور کر رہا ہے۔ وہ مظلوم اقوام کو ظلم اور قوت کے آگے ہتھیار نہ ڈالنے کے حق کو تصادم کا نام دیتا ہے۔ ہماری مخالفت امریکا کی غلامی اور اپنے قومی مفادات کو قربان کر کے اس کے ایجنڈے پر عمل کرنے کے حوالے سے ہے۔ مناسب حدود میں عزت و احترام کے ساتھ تعلقات کے ہم بھی خواہاں ہیں، لیکن کیا امریکا اس کے لیے تیار ہے؟ اور اگر وہ تیار نہیں، جیساکہ ظاہر ہے تو پھر ہمارے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنی آزادی، خودمختاری، سلامتی اور عوام کے جذبات کی پاس داری کے لیے اس کے آگے سپر نہ ڈالیں۔
ہم اس میدان میں تنہا نہیں ہیں۔ دنیا کے کم قوت رکھنے والے ممالک نے بھی عزت اور آزادی کا راستہ اختیار کیا ہے اور امریکا اپنی تمام اکڑفوں کے باوجود ان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکا۔ جنوبی امریکا کے ممالک میں کیوبا، ارجنٹینا، نیکوروگوائے اور چلّی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ایران اور شمالی کوریا نے امریکا کی ہردھمکی اور دست درازی کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے اور وسائل اور قوت کے فرق کے باوجود اپنی عزت، اپنی آزادی اور اپنے مفادات کی حفاظت کر رہے ہیں۔ امریکا کی ناراضی ہمارے لیے بھی کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ ۱۹۶۵ء ، ۱۹۷۱ئ، ۱۹۸۹ء اور ۱۹۹۸ء میں ہم اس کا بھرپور تجربہ کرچکے ہیں اور اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت اور امریکا کے ناروا مطالبات کے آگے جھکنے سے انکار کرچکے ہیں۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ ۱۹۹۹ء میں پاکستان، لیبیا کے بعد سب سے زیادہ پابندیوں میں جکڑا ملک تھا مگر ہم نے اس دور کو بھی بحسن و خوبی گزار دیا۔ آج بھی قیامت نہیں ٹوٹے گی اور عراق اور افغانستان کے بے سروسامان عوام نے مزاحمت اور امریکا کے دانت کھٹے کرنے کی جو نظیر قائم کی ہے، وہ دوسروں کے لیے نشانِ راہ ہے۔ چین نے اپنی ہوائی حدود کی خلاف ورزی پر امریکی جہاز کو اُتار لیا تھا اور امریکا کے واضح معافی کے بغیر جہاز کا ملبہ بھی واپس نہ کیا۔ ایران نے حال ہی میں امریکی ڈرون اُتار لیا اور واپس کرنے سے بھی صاف انکار کر دیا۔ کیا غلامی اور چاکری صرف ہمارے ہی مقدر میں لکھی ہے اور کیا اپنے مفادات کا تحفظ، تصادم اور اعلانِ جنگ کا درجہ رکھتے ہیں؟
ہمارا اصل مسئلہ باصلاحیت اور دیانت دار قیادت کا فقدان ہے، ورنہ قوم میں بڑی جان ہے اور وسائل کی بھی کمی نہیں۔ جس ملک میں قومی ادارئہ احتساب (NAB) کے سربراہ کے الفاظ میں ہر روز ۶ سے ۸ ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہو، اس کے بارے میں وسائل کی کمی کی بات تو نہیں کی جاسکتی۔ اور ملک اچھی حکمرانی کے فقدان، امن و امان کی تباہ شدہ حالت، امریکا کی ساری ریشہ دوانیوں اور کرپشن کے اس طوفان کے باوجود زندہ رہ سکتا ہو اور تین سے چار اشاریہ کی رفتار سے جی ڈی پی میں اضافہ بھی کرسکتا ہو، اور جس کے بیرونِ ملک سے پاکستانی محنت کش ہر سال ۱۲سے ۱۵؍ ارب ڈالر بھیج رہے ہوں، وہ ایسی خارجہ پالیسی پر کیوں کاربند نہیں ہوسکتا جو آزادی اور عزت کی حفاظت کرسکے، اور سب سے دوستی اور برابری کی بنیاد پر سیاسی اور معاشی تعلقات استوار کرنے میں ممدومعاون ہوسکے ؎
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے
چوتھی بات اس سلسلے میں یہ کہی جارہی ہے کہ: ’’پاکستان ساری دنیا سے کٹ کر ترقی نہیں کرسکتا ،اور اگر ہم امریکا کے مطالبات کو تسلیم نہیں کرتے تو ایک نہیں ۴۹ممالک کی مخالفت مول لینا ہوگی‘‘۔ پہلا سوال تو یہی پیدا ہوتا ہے کہ اس قیادت اور ان دانش وروں کو یہ اطلاع کب ملی کہ افغانستان میں صرف امریکا نہیں مزید ۴۸ ممالک برسرِعمل ہیں۔ کیا یہ ممالک ۲۶ نومبر ۲۰۱۱ء سے پہلے وہاں نہیں تھے یا ۲۷ نومبر کے فیصلے کے وقت آپ کے علم میں یہ نہ تھا۔ ۲۷نومبر کے فیصلے کے بارے میں تو ایک آواز بھی اختلاف کی نہ اُٹھی اور حکومت اور اس کے اتحادی بڑے فخر سے اس کا کریڈٹ لے رہے تھے۔ پھر یہ سارے انکشافات کب ہوئے؟ کیا یہ پوچھنے کی جسارت کی جاسکتی ہے؟
دوسرا بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم ان ممالک سے کب برسرِپیکار ہیں اور ان سے اُلجھنے کی کون دعوت دے رہا ہے۔ یہ ممالک تو خود افغانستان کی دلدل سے نکلنے کے لیے بے چین ہیں۔ اسپین اور اٹلی نکل چکے ہیں، فرانس سارے دبائو کے باوجود دسمبر ۲۰۱۲ء تک نکلنے کے عزم پر قائم ہے۔ بہت سے ممالک صرف براے وزنِ بیت وہاں ہیں اور الحمدللہ بحیثیت مجموعی سب ہی سے ہمارے اچھے سیاسی، سفارتی اور معاشی تعلقات ہیں۔ یہ بھی صرف ایک مجرمانہ مغالطہ انگیزی ہے، اس میں کوئی حقیقت نہیں۔
پانچویں بات کا تعلق پاکستان کے اپنے معاشی حالات سے ہے اور کہا جا رہا ہے کہ: ’’ہم ان حالات میں امریکا سے کسی قسم کے کھچائو کا مقابلہ نہیں کرسکتے‘‘۔ یہاں بھی یہ سوال اہم ہے کہ معاشی اثرات اور نتائج کا انکشاف کب ہوا؟ کیا ۲۰۱۱ء میں حالات بہت مختلف تھے؟ اگر نہیں تو صرف ان حالات کا حوالہ دے کر ایک ایسی پالیسی کے لیے جواز کیسے پیدا کیا جاسکتا ہے، جو ہردوسرے اعتبار سے خسارے کا سودا ہے۔ لیکن دوسرا زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ معیشت کی اس خراب صورت حال میں حکومت کی غلط پالیسیوں، بہتر انتظامی صلاحیت کے فقدان، نااہلی اور بددیانتی کا کتنا حصہ ہے اور اس معاشی فساد میں بیرونی اسباب کا کیا کردار ہے؟ پاکستان کے عوام کا یہ تجزیہ سامنے آگیا ہے کہ ۴۰ فی صد کی نگاہ میں امریکی امداد کے نہ صرف یہ کہ کوئی مثبت اثرات نہیں نکلے ہیں، بلکہ منفی اثرات زیادہ مرتب ہوئے ہیں۔ اس میں اگر دہشت گردی میںجنگ کی شرکت کی وجہ سے جو ہرسال ۱۰ سے ۱۱؍ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے اس سے بچا جائے تو معیشت کے بحران سے نکلنا آسان اور تیزتر ہوسکے گا۔ اگر ہم اپنی معاشی حماقتوں اور تباہ کن فیصلوں کا سدِّباب کرلیں تو معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا مشکل نہیں ہے۔ صرف کرپشن پر قابو پاکر اس خسارے کو ایک بڑی حد تک پورا کیا جاسکتا ہے۔ نیز ہم یہ بات بھی کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ قومیں اپنی آزادی، خودمختاری، سلامتی اور عزت کے تحفظ کے لیے معاشی قربانیاں بھی دینے کو غلامی اور محکومی کی زندگی پر ترجیح دیتی ہیں، بلکہ اقبال نے تو یہاں تک کہا تھا کہ ؎
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
یہ محض شاعرانہ تعلّی نہیں، آزاد اور خوددار قوموں کا شعار ہے، اور دنیا میں کوئی بڑا کام اگر کسی نے کیا ہے تو وہ وہی لوگ ہیں جو اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت اور اپنے نظریات کے مطابق زندگی کی تشکیل کا عزم اور حوصلہ رکھتے ہیں، اور ان کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ ؎
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث میں
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
اس سلسلے کی چھٹی بات یہ کہی جارہی ہے کہ: ’’دیکھو ہم نے امریکا سے معذرت تو حاصل کرلی، کیا ہوا اگر کوئی اور بات نہ منوا سکے۔ بات چیت تو جاری ہے۔ ہیلری کلنٹن نے جو اظہارِافسوس کردیا ہے ،وہ نئی شروعات کے لیے کافی ہے‘‘۔
حکومت اور اس کے ہم نوا جو دلیلیں دے رہے ہیں ان میں سب سے کمزور اور شرم ناک دلیل یہی ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ اس کا جائزہ پارلیمنٹ کی قرارداد کی روشنی میں لیا جائے، تاکہ قوم کے سامنے یہ حقیقت پوری طرح آجائے کہ اس قیادت نے پارلیمنٹ کی خلاف ورزی کرکے کس بے تدبیری اور کج فکری اور اخلاقی دیوالیے پن کے ساتھ امریکا کے آگے گھٹنے ٹیکے ہیں اور ملک و قوم کو غلامی کے ایک بدتر جال میں پھنسایا جا رہا ہے، جس سے نکلنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹی پر دو الزامات پوری دریدہ دہنی سے لگائے جارہے ہیں، جن کا مقصد پارلیمنٹ کی اہلیت اور اس کی دی ہوئی رہنمائی کو بے وقعت کرنا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ: ’’پارلیمنٹ نے وقت ضائع کیا اور امریکا سے معاملات کو درست کرلینے کا جو کام جھٹ پٹ ہوجانا چاہیے تھا وہ غیرمعمولی تعویق کا شکار ہوگیا‘‘۔اصل حقائق کیا ہیں ذرا ان کو بھی دیکھ لیں۔
۲۶ نومبر ۲۰۱۱ء کے واقعے کے بعد اسی شام کو کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی نے ان اقدامات کا اعلان کیا، جن کے نتیجے میں ناٹو کی سپلائی بند کردی گئی، شمسی ایئربیس کو خالی کرا لیا گیا، امریکی فوجیوں اور آپریشن کی ایک تعداد کو واپس بھیج دیا گیا اور امریکا سے تعلقات پر نظرثانی کا عمل شروع ہوا۔ اس اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ پارلیمنٹ کی کمیٹی براے قومی سلامتی کو نئی پالیسی کے خطوطِ کار تجویز کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے۔
چنانچہ ۲۸نومبر کے کابینہ کے اجلاس نے اس تجویز کی توثیق کی اور وزیراعظم نے ۳۰نومبر کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے سیکرٹریٹ کو اس پر عمل کی دعوت دی۔ کمیٹی نے ۳دسمبر کو پہلا اجلاس منعقد کیا اور خود وزیراعظم، متعلقہ وزرا اور سروسز کے نمایندوں نے بریفنگ لی اور اپنے کام کا منصوبہ تشکیل دیا۔ ۱۵ دسمبر سے ۵جنوری تک کمیٹی نے آٹھ اجلاس منعقد کیے، جن میں تمام متعلقہ اداروں اور اپنے اپنے شعبے کے ماہرین سے تفصیلی بریفنگ لی، اور ۵جنوری کو اپنی ابتدائی سفارشات کا مسودہ تیار کر کے وزارتِ دفاع، وزارتِ خارجہ اور وزارتِ خزانہ کو ان کے تبصرے کے لیے بھیج دیا، تاکہ وہ اپنے اپنے دائرے میں فنی اعتبار سے تجاویز کو جانچ پرکھ لیں۔ ان کے تبصروں کی روشنی میں کمیٹی نے ۱۱جنوری کو، یعنی ۴۰ دن کے اندر اندر اپنی سفارشات کو حتمی شکل دے کر ۱۲جنوری کو اسپیکر قومی اسمبلی کو بھیج دیا۔ باقی جو بھی تاخیر ہوئی ہے اس کی ذمہ داری حکومت پر ہے جس نے اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس کو بلانے میں غیرضروری تاخیر کی اور پھر اجلاس کے دوران کمیٹی کی تجاویز کو تبدیل کرانے کی کوشش کی، جو پوری طرح کامیاب نہ ہوسکی۔ بالآخر پارلیمنٹ نے وسط اپریل میں سفارشات منظور کرلیں۔ لیکن نہ صرف یہ کہ حکومت نے ان پر عمل نہیں کیا بلکہ جو کچھ ۳اور۴جولائی کو ہوا، وہ ان سفارشات کی بلااستثنا خلاف ورزی ہے۔ ان سفارشات کا کیا حشر ہوا اور پارلیمنٹ کی بھی اس حکومت نے اسی طرح خلاف ورزی کی جس طرح عدالت ِ عالیہ کے احکامات اور فیصلوں کی کررہی ہے، یعنی ۴۱فیصلے عدالت عظمیٰ اور عدالت ہاے عالیہ کے ہیں جن پر عمل نہیں ہوا، اور ۴۰سفارشات پارلیمنٹ کی ہیںجنھیں عملاً دریابُرد کردیا گیا۔
ہم حکومت کے اس شرم ناک کارنامے پر مزید گفتگو کرنے سے پہلے چاہتے ہیں کہ کمیٹی اور پارلیمنٹ کے کام پر جو دوسری تنقید کی جارہی ہے اس کے بارے میں بھی صحیح صورت حال قوم کے سامنے رکھیں۔ کمیٹی نے صرف اپنے ارکان کی مہارت اور بصیرت پر انحصار نہیں کیا بلکہ حکومت کے متعلقہ اداروں کے سربراہوں اور ماہرین سے بھرپور استفادہ کیا۔ حالات کو سمجھتے ہوئے بھی اور ایسی تجاویز مرتب کرنے کے مقصد کے حصول کے لیے بھی جو پروفیشنل اعتبار سے کسی طور بھی کمزور نہ ہوں ہرطرح سے کوشش کی۔ اس سلسلے میں وزارتِ خارجہ کے اعلیٰ افسران ، سفیروں کی کانفرنس کی تجاویز، وزارتِ دفاع کے ماہرین کی آرا، وزارتِ خزانہ کے متعلقہ افراد بشمول وزیرخزانہ اور سیکرٹری خزانہ سب کو مشاورت میں شریک رکھاگیا۔ مجوزہ تجاویز کو بھی ایک بار پھر متعلقہ وزارتوں کے تبصرے کے لیے بھیجا گیا۔ اسی طرح ملک میں امورِخارجہ، امورِ معیشت اور امورِ دفاع کے جو بھی ماہرین موجود ہیں، ان سے کسی نہ کسی حد تک بڑے محدود وقت میں استفادہ کیا گیا۔
پارلیمنٹ نے سفارشات کو جس آخری شکل پر منظور کیا وہ ۱۶نکات پر مشتمل ہیں اور ان میں ۳۸ متعین سفارشات ہیں جن میں سے کچھ کا تعلق اصولی ہدایات سے ہے، کچھ میں متعین اقدامات تجویز کیے گئے ہیں، اور کچھ میں اس طریق کار کی نشان دہی کی گئی ہے جس پر عمل کرنے سے خارجہ پالیسی اور سلامتی کے امور زیادہ مؤثر انداز میں ادا کیے جاسکتے ہیں۔
ہم پہلے طریق کار کے اُمور کو لیتے ہیں جن پر سفارشات کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ کمیٹی کو تفصیلی جائزے کے دوران محسوس ہوا کہ حکومت کا نظام بڑی بے تدبیری سے چل رہا ہے اور فیصلے کرنے کے طریقے میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں تین بڑی اہم کمزوریاں کمیٹی نے محسوس کیں:
۱- بہت سے اہم فیصلے زبانی کیے گئے ہیں،ان پر عمل بھی ہوگیا ہے، مگر نہ ان فیصلوں کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ ہے، نہ وہ دلائل اور معاہدے صفحۂ قرطاس پر موجود ہیں جن کی بنیاد پر کوئی فیصلہ ہوا ہو اور نہ اس کی کوئی خبر ہے کہ اس فیصلے میں کون کون شریک تھا۔کمیٹی نے سفارش کی کہ آیندہ ہر فیصلہ اور معاہدہ تحریری طور پر کیا جائے۔ اس کے سارے حقائق اور دلائل ضبطِ تحریر میں لائے جائیں۔ فیصلے میں شرکا کا بہ صراحت ذکر ہو اور یہ تمام سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہوں۔
۲- دوسری بات جو کمیٹی کے لیے اچنبھے کا باعث تھی وہ یہ کہ کسی بھی اہم فیصلے، معاہدے یا کسی پالیسی کے بناتے وقت اس مسئلے کے سلسلے میں جو بھی متعلقہ وزارتیں ہیں ان میں مشورہ اور ربط و تعاونِ باہمی (coordination) مجرمانہ حد تک کم ہے۔ خارجہ امور کے کتنے ہی معاملات ہیں جو دفترخارجہ کے علم میں لائے بغیر طے کردیے گئے ہیں۔ کتنے ہی معاہدے ہیں جن کا بغور جائزہ (vetting) وزارتِ قانون اور وزارتِ خارجہ نے نہیں لیا، اور کتنے ہی ایسے ہیں جن کے مالیاتی واجبات یا نتائج کے بارے میں وزارتِ خزانہ کو پہلے سے کوئی اطلاع نہیں اور نہ ان کو طے کرنے میں اس وزارت کا کوئی دخل ہی ہے۔کمیٹی نے تجویز کیا کہ ایسے تمام اُمور نہ صرف تحریری طور پر طے کیے جائیں بلکہ ان کے طے کرنے سے پہلے اور اس عمل کے دوران تمام متعلقہ وزارتوں کو شریک کیا جائے، اور خارجہ اُمور سے متعلق جو بھی فیصلے یا معاہدے ہوں وہ وزارتِ خارجہ ہی کے ذریعے ہوں۔
۳- تیسری بڑی کمی پارلیمنٹ اور ان کے اداروں کا عدم باہمی تعامل تھا جو معروف جمہوری اقدار و روایات کے بالکل منافی ہے ۔ پارلیمانی نگرانی اور پارلیمانہ مرحلہ بہ مرحلہ جائزہ دستور کا تقاضا ہے اور جمہوری عمل کا ناقابلِ انقطاع حصہ ہے۔ اس کے لیے تجویز کیاگیا کہ متعلقہ عناصر (تمام اسٹیک ہولڈرز) سے مشاورت کے بعد جو بھی معاہدے طے ہوں اور فیصلے لیے جائیں ان کو پارلیمنٹ کی کمیٹی براے قومی سلامتی کے علم میں تحریری طور پر لایا جائے، اور ان معاہدات اور فیصلوں کے بارے میں جو مرکزی اصول اور مقاصد ہیں ان سے متعلقہ وزیر پارلیمنٹ کے فلور پر پارلیمنٹ اور قوم کو اعتماد میں لے۔ نیز معاہدے کوئی فرد نہ کرے بلکہ مرکزی کابینہ ان کو باقاعدہ منظور کرے۔
یہ تینوں سفارشات بڑی اہم اور دُور رس نتائج کی حامل ہیں لیکن ان سب کو ۳؍۴جولائی کے ڈرامائی اقدام میں نظرانداز کردیا گیا ہے۔
اخبارات کی اطلاع کے مطابق وزیرخارجہ حنا ربانی کھر نے ۳جولائی کی رات اور ۴جولائی کی صبح کو امریکی سیکرٹری خارجہ ہیلری کلنٹن سے ٹیلی فون پر گفتگو کی جس میں انھوں نے ۲۶نومبر کے امریکی جارحانہ حملے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں پر اپنے ’گہرے تاسف ‘ (deepest regrets) کا اظہار کیا اور ان کے ورثا کے لیے تعزیت کے کلمات ارشاد فرمائے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کی وزیرخارجہ نے ان کو یہ مژدہ سنادیا کہ ہم نے آپ کی اور ناٹو کی سپلائی لائن کھولنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور ان پر فوری عمل ہورہا ہے۔ بظاہر فیصلہ۴جولائی کی رات کو کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی میں ہوا جس کی توثیق دو دن کے بعد کابینہ نے کی مگر اس فیصلے کی اطلاع امریکی سیکرٹری خارجہ کو فیصلے کے کیے جانے سے ۱۴گھنٹے پہلے ہی دے دی گئی تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصل فیصلہ کس نے کیا اور امریکی آقائوں کو اس کی اطلاع محض دفاعی کمیٹی نہیں بلکہ کابینہ کے فیصلے سے پہلے کیسے دے دی گئی؟ اور فیصلہ بھی ایسا جسے صرف یوٹرن ہی کہا جاسکتا ہے۔
انھی اطلاعات میں یہ بات بھی بڑے وثوق سے کہی گئی ہے کہ درپردہ مذاکرات چل رہے تھے اور ان میں اصل کارپرداز ہیلری کلنٹن کے ایک معاون تھامس آرنائیڈز اور پاکستان کی طرف سے اس کے وزیرخزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ تھے۔ معاملات درپردہ انھوں نے طے کیے۔ نام نہاد معذرت کے الفاظ کی صورت گری بھی انھی کے ہاتھوں ہوئی اور باقی تمام قول وقرار، مذکورہ اور غیرمذکورہ بھی انھی کے ذریعے طے ہوئے۔ یہاں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس معاملے کے اصل کرتا دھرتا وزیردفاع اور وزیرخارجہ تھے مگر اس ٹیم میں ان کا کوئی ذکر نہیں۔ وزیرخارجہ صاحبہ غالباً آخری پیغام بر تو ضرور ہیں مگر معاملہ بندی میں ان کا حصہ نظر نہیں آتا۔ پھر یہ پہلو بھی نظرانداز کرنے کے لائق نہیں کہ امریکا کی طرف سے تو خارجہ سیکرٹری کا ایک معاون معاملات طے کر رہا ہے اور پاکستان کی طرف سے ایک وزیرباتدبیر اس ٹیم میں شریک ہیں۔ کیا سفارتی پروٹوکول کا امریکا سے معاملات طے کرنے میں کوئی عمل دخل نہیں؟ معاملہ ناٹو کی سپلائی کھولنے کا تھا، اس کا کیا تعلق وزارتِ خزانہ سے ہے ، جب کہ بظاہر بڑے بڑے مطالبات کے بعد یہ بات طے ہوگئی تھی کہ راہداری کے سلسلے میں امریکا کوئی فیس دینے کو تیار نہیں اور پاکستان کو اسی تنخواہ پر کام کرنا ہوگا۔ پھر وزیرخزانہ وہاں کیا خدمات انجام دے رہے تھے؟
تیسرا پہلو یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے واضح مطالبے کے باوجود کوئی تحریری معاہدہ آج تک وجود میں نہیں آیا ہے۔ دو دن پہلے ہی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ہمارے پاس ایسا کوئی تحریری معاہدہ نہیں، سب حسب سابق زبانی جمع خرچ ہے۔ اس نام نہاد معذرت کی بھی بس اتنی حقیقت ہے کہ ٹیلی فون پر دو خواتین کے درمیان بات ہوئی ہے اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک اخباری بیان میں اس کا خلاصہ شائع ہوا ہے۔ پاکستان کی طرف سے اخباری اطلاعات کے مطابق اب تک کوئی سرکاری نوٹیفیکیشن امریکا سے معاملات طے کرنے کے بارے میں جاری نہیں ہوا۔
ہم ابھی پارلیمنٹ کی سفارشات کے قابلِ عمل(substantive) پہلو کے بارے میں کوئی بات نہیں کر رہے، صرف طریق کار کے نکات پر توجہ مبذول کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات حسب سابق ہیں۔ پرنالہ وہیں گر رہا ہے۔ اہم ترین معاملات کو طے کرنے اور معاہدات میں حکومتوں اور قوموں کو جکڑنے کا عمل اسی پرانے اور غیرذمہ دارانہ انداز میں انجام دیا جا رہا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ فیصلہ کس نے کیا؟ کب کیا؟ کس طرح اس کا اظہار کیا گیا؟ پورے عمل میں کون کون شریک تھا؟ ان سب کا ریکارڈ کہاں ہے اور اصل ذمہ داری کہاں اور کس کی ہے؟
پارلیمنٹ کی بالادستی اور آخری فیصلہ کرنے والے ادارے کے بارے میں دعوے اور چرچے تو بہت ہوتے ہیں لیکن اصل حقیقت بہت تلخ ہے، یعنی ع
وہی ہے چال بے ڈھنگی ، جو پہلے تھی، سو اب بھی ہے!
۱- اصل مسئلہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ازسرِنو جائزہ لے کر اس میں ایسی بنیادی تبدیلیاں لانے کا ہے جو اسے صحیح معنی میں آزاد اور صرف پاکستان کے مقاصد اور مفادات کا پاسبان بنا دیں۔ اس سلسلے میں امریکا سے تعلقات اور ’دہشت گردی‘ کی جنگ میں شرکت میں پاکستان کے کردار کو ازسرِنو مرتب کرنا ضروری ہے اور یہ کام اس طرح ہونے چاہییں کہ جملہ امور ایک تحریری پیکج کی صورت میں طے ہوسکیں۔
حکومت نے اس سلسلے میں کوئی ایک قدم بھی نہیں اُٹھایا۔ اس ہدایت کے برعکس صرف ایک مسئلے کو (یعنی راہداری کے مسئلے کو) باقی تمام معاملات سے کاٹ کر امریکا کی خواہش کے مطابق طے کرڈالا اور اس طرح پارلیمنٹ کی سفارشات کے اصل مقصد کو کلُی طور پر ناکام کردیا۔
۲- پارلیمنٹ کی سفارش تھی کہ وقت کی اصل ضرورت مسئلے کے سیاسی حل کی تلاش اور امن کے قیام کے لیے مذاکرات کا آغاز ہے۔ فوجی کارروائیوں کا خاتمہ نہیں تو تعطل ضروری ہے اور تمام متعلقہ افراد اور اداروں (اسٹیک ہولڈرز) کو اس عمل میں شریک کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت نے اسے یکسر نظرانداز کیا اور اس تباہ کن جنگ کو مزید تقویت دینے والے اقدام میں دست تعاون بڑھا دیا۔ جو دروازہ بڑی مشکل سے اور بڑی بھاری قیمت دینے کے بعدبند ہوا تھا، اسے کسی تحفظ کے بغیر دوبارہ کھول دیا گیا تاکہ خون کی ندیاں برابر بہتی رہیں اور ’دہشت گردی‘ کی جنگ جس طرح گرم تھی، اسی طرح نہ صرف گرم رہے اور اس کی زہرناکی اور بھی بڑھ جائے۔
۳- پارلیمنٹ نے ایک نہیں تین بار یہ کہا تھا کہ ہمارے لیے سب سے اہم مسئلہ ہماری اپنی حاکمیت اور سرحدوں کی حفاظت کا ہے۔ ہماری سرزمین پر امریکی نقوش پا (footprints) کسی قیمت پر منظور نہیں۔ ڈرون حملے ہماری حاکمیت، آزادی اور سلامتی پر حملہ ہیں، بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہیں، ہمارے عام شہریوں کے قتل کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں اور امریکا مخالف جذبات کو بھڑکا رہے ہیں۔ اس لیے انھیں فی الفور بند ہونا چاہیے۔ اگر بند نہیں ہوتے تو حکومت ان کو رکوانے اور ان کے خلاف عالمی راے عامہ منظم کرنے کے لیے مؤثر اقدام کرے۔ جو ذرائع بھی اسے حاصل ہیں ان کو ان حملوں کے خلاف جوابی کارروائی کے لیے استعمال کرے اور کم از کم سپلائی کی سہولت کو بالکل بند کردے، تاآنکہ ڈرون حملوں اور پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزیاں ختم کرائی جاسکیں۔
پارلیمنٹ کی قرارداد میں ناٹو کی سپلائی کی بحالی اور ڈرون حملوں کا خاتمہ اور امریکا سے تعاون کے دوسرے اہم اقدامات ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ان کو ایک دوسرے سے بے تعلق (de-link) نہیں کیا جاسکتا۔
حکومت نے پارلیمنٹ کے اس واضح اور اہم ترین مطالبے کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی ہے اور اس طرح پارلیمنٹ کی توہین کی ہے اور قومی مفادات کے تحفظ میںیکسر ناکام رہی ہے۔
واضح رہے کہ آج خود یورپ اور امریکا میں ڈرون حملوں کے خلاف مؤثر آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ حال ہی میں جنیوا میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں روس اور چین سمیت ۲۰ممالک نے باقاعدہ ایک قرارداد کے ذریعے ان کی مذمت کی ہے۔ بین الاقوامی قانون کے ایک درجن سے زیادہ ماہرین نے اپنے مضامین اور تقاریر میں بھی ان کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی چارٹر براے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور یہ بات بھی اب پوری صراحت سے کہی جارہی ہے کہ ڈرون حملوں کے ذریعے متعلقہ ممالک کی قومی حاکمیت کو پامال کیا جا رہا ہے، نیز تمام غیرمتحارب شہریوں کی ہلاکت جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہے۔ اقوام متحدہ کے چوٹی کے دو مشیروں (consultants) نے جو انسانی حقوق کے معاملات کے ذمہ دار ہیں نہ صرف ان حملوں کی مذمت کی ہے بلکہ اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کے ذمہ داروں کا احتساب کرے اور بین الاقومی قانون کے احترام کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ عوامی دبائو اور عالمی اداروں کی تحریک پر جرمنی، برطانیہ اور خود امریکا میں ڈرون حملوںکا نشانہ بننے والے غیرمتحارب افراد کے خاندانوں کی طرف سے امریکی، جرمنی اور برطانوی حکومتوں کے خلاف ان کے اس مذموم عمل میں شریک ہونے کے ناتے مقدمات قائم کر دیے گئے ہیں جو اس وقت ان ممالک کی عدالتوں میں زیرسماعت ہیں۔ پاکستان میں بھی پشاور اور اسلام آباد کی عدالت ہاے عالیہ میں ایسے مقدمات شروع ہوگئے ہیں لیکن حکومت نے ڈرون حملوں کے سوال کو باقی امور سے کاٹ کر پاکستانی قوم کے سینے میں خنجر گھونپا ہے اور امریکا کو قتل و غارت گری اور پاکستان کی حاکمیت اور سرحدی حدود کی پامالی کے لیے کھلی چھٹی دے دی ہے۔ اس جرم میں پہلے اگر حکومت خفیہ طور پر شریک تھی تو اب کھل کر شریک ہوگئی ہے اور مزید حکمرانی کے باب میں اپنی سندِجواز (legitimacy) سے، جو پہلے ہی مشکوک تھی، مکمل طور پر محروم ہوگئی ہے اور پاکستان کی ریاست اور اس کے عوام کے خلاف امریکی اعلانِ جنگ کی حصہ دار بن گئی ہے۔ موجودہ حکومت کے جرائم میں یہ جرم سب سے زیادہ قبیح جرم ہے اور اس حکومت سے جلد از جلد نجات کی جدوجہد کے لیے یہی سب سے مضبوط دلیل ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ قوم کے سامنے پارلیمنٹ کی سفارشات میں سے چند اہم حصے رکھیں تاکہ اس حکومت کی دریدہ دہنی ، پارلیمنٹ کی توہین اور ملک و قوم سے بے وفائی کی حقیقی تصویر سب کے سامنے آجائے۔
پارلیمنٹ کی سفارشات کی پہلی شق یہ تھی کہ: ’’پاکستان کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا‘‘۔ اور یہ کہ ’’امریکا سے تعلقات دونوں ریاستوں کی خودمختاری، آزادی اور سرحدات کے باہمی احترام پر مبنی ہوں گے‘‘۔
۱- پاکستان کی سرحدوں کے اندر ڈرون حملوں کا خاتمہ۔
۲- پاکستانی سرحد کے اندر نہ گرم تعاقب (hot pursuit) ہوگا اور نہ فوجی آئیں گے۔
۳- غیرملکی نجی سیکورٹی کنٹریکٹرز کی سرگرمیاں شفاف ہوں گی اور پاکستانی قانون کے تابع ہوں گی۔
یہ بات محسوس کرنے کی ضرورت ہے کہ ڈرون حملے اپنے دعویٰ کردہ مقصد کی نفی کرتے ہیں۔ قیمتی جانوں اور جایداد کو ضائع کرتے ہیں۔ مقامی آبادی کو جذباتی اور انقلابی بناتے ہیں۔ دہشت گردوں کے لیے حمایت پیدا کرتے ہیں اور امریکا دشمن جذبات کے لیے ایندھن فراہم کرتے ہیں۔
اسی طرح پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور ہونے والی ۱۴مئی ۲۰۱۲ء کی قرارداد میں بھی پارلیمنٹ نے واضح الفاظ میں یہ اصول طے کردیا تھا کہ سپلائی روٹ اور ڈرون حملوں کے روکے جانے اور پاکستان کی حاکمیت اور سرحدوں کے تقدس کی پامالی میں ایک لاینفک تعلق ہے:
(یہ ایوان) پُرزور طور پر کہتا ہے کہ یک طرفہ اقدامات جیساکہ امریکی افواج نے ایبٹ آباد میں کیے اور پاکستان کی حدود میں مسلسل جاری ڈرون حملے نہ صرف ناقابلِ قبول ہیں بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں، بین الاقوامی قانون اور انسانی روایات کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اور ایسے ڈرون حملے فوراً روک دیے جانے چاہییں۔ حملے بند نہ کیے جانے کی صورت میں حکومت مجبور ہوگی کہ ضروری اقدامات کرے بشمول ناٹوسپلائی کی جو سہولت دی گئی ہے اسے واپس لینے کے۔
یہ کہ یک طرفہ اقدامات دہشت گردی کو ختم کرنے کے عالمی مقصد کو آگے نہیں بڑھاتے اور پاکستان کے لوگ ایسے اقدامات کو زیادہ برداشت نہیں کریںگے اور یک طرفہ اقدامات کو دہرائے جانے سے خطے اور دنیا کے امن اور سلامتی کے لیے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔
یہ کہ حکومت اور عوام کا یہ عزم ہے کہ وہ پاکستان کی خودمختاری اور قومی سلامتی کو ہرقیمت پر برقرار رکھیں گے جو ایک مقدس فریضہ ہے۔
پارلیمنٹ کی ان واضح ہدایات کے بعد جو کچھ اس حکومت نے ۴جولائی کو کیا ہے، اس کے بعد ایک دن کے لیے بھی اس کے اقتدار کو جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ واضح رہے کہ امریکا نے ۴جولائی کو رسد کی بحالی کے ۲۴گھنٹے کے اندر دو بار ڈرون حملے کر کے (جن میں ایک درجن سے زیادہ پاکستانی شہید ہوئے) پاکستان کی قیادت کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ رسید کیا ہے اور اس کے بعد سے جارحیت کا یہ سلسلہ اب تک بلاروک ٹوک جاری ہے، جب کہ پاک فضائیہ کے سابق سربراہ پارلیمنٹ کی کمیٹی کے سامنے اور پبلک پلیٹ فارم سے بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم ڈرون گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انتظار صرف سیاسی قیادت کے فیصلے کا ہے۔ ایران نے ایک امریکی ڈرون اُتار کر یہ ثابت کردیا ہے کہ ڈرون حملے آسانی سے روکے جاسکتے ہیں اور تو اور خود امریکا کے ٹیکساس کالج کی نوجوان ریسرچ ٹیم نے اپنے استاد پروفیسر ٹوڈ ہمفریز کی قیادت میں امریکا کی نیشنل سیکورٹی اتھارٹی کے ذمہ دار افراد کے سامنے ڈرون کو کامیابی سے اس کے پروگرام کیے ہوئے راستے سے ہٹا کر اپنی مرضی کے مطابق زمین پر اُتارنے کا کارنامہ کر دکھایا ہے۔ پروفیسر صاحب کا دعویٰ ہے کہ:
چند سو ڈالروں کے لیے ان کی ٹیم نے spoofing کی تکنیک استعمال کرکے ایسا sophisticated سسٹم بنایا جیسا اب تک نہیں بنایا گیا۔ اس نے ڈرون کو چکمادے کر نئے احکامات کے مطابق اُڑنے اور زمین پر اُترنے کا پابند کر دیا۔ سپوفنگ دراصل کسی جہاز کو اغوا کرنے کا طریقہ ہے۔
ایک امریکی کالج کا استاد اور اس کے ریسرچ کرنے والے طلبہ نے حکومت کے ذمہ داروں کے سامنے یہ کام کردکھایا۔ کیا پاکستان کی ایئرفورس اور ہمارے سائنس دان اپنے ملک کی حفاظت، شہریوں کی ہلاکت اور اپنی سرحدوں کی جارحانہ خلاف ورزی کو روکنے کے لیے یہ بھی نہیں کرسکتے؟
ناٹو/ ایساف کا قابلِ مذمت بلااشتعال حملہ (جس کے نتیجے میں پاکستان کے ۲۴فوجی شہیدہوگئے) بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے،اور ملکی خودمختاری اور سرحدات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حکومت پاکستان کو امریکا سے مہمند ایجنسی میں ۲۵، ۲۶نومبر ۲۰۱۱ء کو ہونے والے اس بلااشتعال واقعے پر غیرمشروط معافی طلب کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ اقدامات کیے جائیں:
__ مہمندایجنسی حملے میں جو ذمہ دار قرار پائیں انھیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
__ پاکستان کو یقین دہانی کرائی جائے کہ ایسے حملے اور ایسے اقدامات جن سے پاکستان کی خودمختاری اثراندازہوتی ہو، آیندہ نہیں ہوں گے۔
__ ناٹو،ایساف اور امریکا آیندہ خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کریں گے۔
__ پاکستان کے اڈوں یا فضائی حدود کو بیرونی قوتوں کے کسی بھی استعمال کے لیے پارلیمنٹ کی اجازت ضروری ہوگی۔
__ سرحدی ملحقہ علاقوں کے لیے وزارتِ دفاع پاکستانی فوج/ ایساف/ امریکا/ ناٹو کے لیے نئی فضائی ضوابط مقرر کیے جانے چاہییں۔
پارلیمنٹ کے اس واضح موقف سے چند باتیں سامنے آتی ہیں:
۱- سلالہ چوکی پر حملہ نہ صرف قابلِ مذمت ہے بلکہ بلاجواز تھا، یعنی (unprovoked) جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور پاکستان کی حاکمیت اور اس کی سرحدوں کی تقدیس پر کاری ضرب کی حیثیت رکھتاہے، اور یہی سبب ہے کہ امریکی حکومت اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور غیرمشروط معافی مانگے (unconditional apology)۔
۲- جو افراد اس کے ذمہ دار ہیں ان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
۳- ایسے حملوں کے مستقبل میں نہ ہونے کے بارے میں واضح ضمانت دی جائے۔
۴- پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود کا استعمال پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر نہ ہو۔ یہ بڑا اہم نکتہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کے اقدام سے پہلے منظوری (prior approval) کے اصول کو منوایا گیا۔
۵- وزارتِ دفاع اور متعلقہ ادارے سرحدوں کے پاس، فضائی حدود کے استعمال کے سلسلے میں نئے قواعد و ضوابط مرتب کریں۔
۱- امریکا نے سلالہ چوکی کے حملے کو ایک غلطی ماننے سے انکار کردیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے معافی مانگنے سے انکار کر دیا ہے۔ معافی ( apology) اپنے قانونی اور اخلاقی مفہوم میں غلطی کے اعتراف اور اس پر افسوس کا اظہار ہے، جب کہ sorry یا regret کے الفاظ میں یہ مفہوم شامل نہیں۔ صدر صاحب، وزیراعظم صاحب اور نہ معلوم کون کون بغلیں بجارہے ہیں کہ ہم نے امریکا سے معذرت لے لی لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکا نے ہرگز اپنی غلطی کا اعتراف کر کے معافی یا تاسف کا اظہار نہیں کیا، بلکہ اگر ہیلری کلنٹن کے الفاظ کا تجزیہ کیا جائے تو وہ سلالہ کے واقعے کو بالکل گول کرگئی ہیں اور ہماری وزیرخارجہ کو غچّہ دے کر صرف یہ کہہ رہی ہیں کہ ’’اسے فوجیوں کے ہلاک ہونے کا دکھ ہے‘‘ جو معاملے کی پوری نوعیت ہی کو بدل دیتا ہے۔
۲- بات صرف یہی نہیں کہ غلطی کا اعتراف اور اس پر معذرت نہیں کی گئی، بلکہ اُلٹا ہیلری کلنٹن نے حناربانی کھر سے یہ اعتراف کرا لیا ہے کہ سلالہ کا واقعہ دونوں طرف سے غلطیوں کا نتیجہ تھا۔ گویا معافی توہم کیا حاصل کرتے، ہم خود مجرم بن گئے اور پاکستانی فوج نے سلالہ واقعے پر امریکا کی جس نام نہاد رپورٹ کو کھلے بندوں رد کیا تھا اور جس میں دونوں طرف سے غلطی اور غلط فہمی کی بات کی گئی ہے، ہماری وزیرخارجہ نے اسے قبول کرلیا ہے۔ تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو!
۳- پارلیمنٹ نے سلالہ واقعے کا ارتکاب کرنے والوں پر مقدمے اور سزا کی بات کی تھی، وہ سب پادر ہوا ہوگئی۔
۴- معافی کے بغیر اور پاکستان کی سرحدوں کے احترام اور سلالہ اور ۲مئی جیسے واقعات کے دوبارہ رُونما نہ ہونے کی واضح یقین دہانی، نیز ڈرون حملوں کے روکنے کے وعدے کے بغیر ناٹو سپلائی کا کھلنا، ایک قومی جرم اور ملک کے دستور اور پارلیمنٹ سے بے وفائی ہے۔
پارلیمنٹ کی قرارداد میں اور بھی کئی اہم سفارشات تھیں جن پر اس وقت کلام کی ضرورت نہیں۔صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ ان کا حشر بھی ان پانچوں باتوں جیسا ہوا ہے جن کا اُوپر ذکر کیاگیا۔
’قلابازی‘ کی وجہ
اس مسئلے پر گفتگو ختم کرنے سے پہلے ایک بات کی طرف اشارہ ضروری سمجھتے ہیں کہ آخر حکومت نے امریکا کے سامنے اس بوکھلاہٹ اور بے غیرتی کے ساتھ ہتھیار کیوں ڈالے؟ امریکا اور یورپ کے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں آنے والے تبصروں کی روشنی میں دو نظریات ہیں جو قوی مفروضوں (hypothesis) کی حیثیت سے سامنے آرہے ہیں۔ ہم اپنے قارئین کے غوروفکر کے لیے ان کی طرف اشارہ کردیتے ہیں۔
پہلا نظریہ یہ ہے کہ حکومت مختلف وجوہ سے ڈانواںڈول ہے۔ گیلانی صاحب کی بیک بینی و دوگوش رخصتی کے بعد غیریقینی کی کیفیت میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ ان حالات میں ایک غیرعلانیہ این آر او امریکا کی قیادت اور موجودہ حکومت کے درمیان ہوا ہے جس میں امریکا نے اس حکومت کو مزید زندگی (lease of life) کی ضمانت دی ہے، اور اس نے کسی باقاعدہ معاہدے اور پاک امریکا تعلقات کے پورے فریم ورک کو ازسرِنو مرتب کرنے کے بجاے ایک غیرتحریری معاہدے کے ذریعے امریکا کو وہ کچھ دے دیا ہے جو امریکا چاہتا تھا۔زرداری صاحب کے بیرونِ ملک اثاثوں کی حفاظت اور ان کو چند ماہ کے لیے مزید اقتدار کی یقین دہانی پر چشم زدن میں سارے معاملات طے کردیے گئے ہیں۔ اس میں ملک کی دوسری قوتیں بھی کہاں تک شریک ہیں، کہنا مشکل ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اصل معاملات ابھی صیغۂ راز میں ہیں۔ کیا کیا لین دین ہوئے ہیں یا ہونے ہیں، ابھی مخفی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو چیز سامنے آئی ہے وہ بڑی معمولی اور عجیب ہے۔ اگر اس نوعیت کے مبہم اور افسوس کے گول مول الفاظ پر تمام اختلافات کو ختم ہونا تھا اور work as usual کو بحال کرنا تھا، تو اس سے تو کہیں بہتر موقع وہ تھا جب سلالہ کے حادثے کے ایک ہفتے بعد اوباما اور زرداری میں ٹیلی فون پر رابطہ ہوا تھا اور The News کی ۴دسمبر کی اشاعت میں اس کا یہ احوال شائع ہوا۔ اسے ذرا غور سے دیکھیں اور پھر اس کا موازنہ اس اعلامیے سے کریں جو ہیلری کلنٹن اور حناربانی کھر میں ۴جولائی کی گفتگو کے بارے میں جاری ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس بات کو ۴جولائی کو تسلیم کیا گیا ہے وہ اس سے مختلف نہیں جسے پارلیمنٹ اور حکومت دونوں نے ۴دسمبر کو ردکردیا تھا۔ ملاحظہ فرمائیں:
ناٹو کے فوجی حملے میں ۲۴ پاکستانی فوجیوں کی اموات پر ذاتی طور پر تعزیت کے لیے صدراوباما نے اتوار کے دن فون کیا۔ وائٹ ہائوس کے ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ صدراوباما نے واضح کردیا کہ یہ قابلِ افسوس واقعہ پاکستان پر سوچا سمجھا حملہ نہیں تھا اور مکمل تحقیقات کے وعدے کو دہرایا۔ (دی نیوز، ۴دسمبر ۲۰۱۲ئ)
یہ سوال بہرحال پاکستانی عوام کو غلطاںو پیچاں رکھے گا کہ ۳دسمبر کو اظہارِ افسوس (regret) کیوں قابلِ قبول نہیں تھا اور ۳جولائی کو دونوںطرف سے غلطیوں کے اعتراف کے اضافے کے ساتھ وہی ناقابلِ التفات لفظ کیو ں قابلِ قبول ہوگیا___ ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے؟
دوسرا نظریہ اور بھی ہولناک ہے۔ اس میں بڑے تیقن کے ساتھ کہا جا رہا ہے کہ اصل چیز امریکا کی کچھ ایسی دھمکیاں تھیں جنھیں موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت نظرانداز نہیں کرسکی اور امریکا نے وہی ڈراما رچایا جو ستمبر ۲۰۰۱ء میں کامیابی سے رچایا جاچکا تھا۔
سب سے پہلے ایک ہمہ گیر میڈیا جنگ شروع ہوئی اور اپریل سے جون کے آخیر تک تابڑتوڑ حملے کیے گئے جن میں پاکستان کو غیرذمہ دار، جھوٹا، دھوکے باز، دوغلا، دہشت گرد اور نہ معلوم کیا کہا اور لکھا گیا۔ مقصد پاکستان کو ہی اصل مسئلہ بناکر پیش کرنا تھا۔ پاکستان کے سفارت کار اور لابی اس کا کوئی مؤثر توڑ نہ کرسکے۔ بی بی سی کے ایک پروگرام میں پاکستان کو دنیا کے لیے ایک دردِسر ثابت کیا گیا۔
پھر امریکا کی قیادت نے پاکستان کے بارے میں اپنے صبر کے پیمانے کے لبریز ہونے کا اعلان کرنا شروع کیا۔ بھارت سے خصوصی تعلقات استوار کرلیے اور بھارت کی سرزمین پر امریکی قیادت نے پاکستان کے خلاف سخت جارحانہ رویہ اختیار کیا اور پاکستان کو ڈھکے چھپے اور کھلے دھمکیاں دینے کے عمل کو بھی تیز تر کردیا۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک حالیہ اشاعت میں پاکستان کو ڈالروں سے خریدنے اوربیچنے کے ساتھ ساتھ اوقات میں رہنے کی دھمکی بھی دی؟
اس پس منظر میں سلالہ واقعے کے بعد چند ہفتوں کے تعطل کے بعد خود امریکا نے ڈرون حملے پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں شروع کردیے۔ اس کے ساتھ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر حملوں کا بھی ایک سلسلہ شروع ہوگیا اور ہندستان سے بھی پاکستان کی سرحدوں پر بوفورتوپیں نصب کردیں۔
۱- امریکی کانگرنس میں پاکستان کے خلاف کئی قوانین کے مسودات کا داخل کیا جانا جن میں معاشی اور عسکری امداد تخفیف یا اس کی مکمل معطلی، ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکی ہیرو بنا کر اس کی واپسی کا مطالبہ، اور پھر سب سے بڑھ کر حقانی نیٹ ورک اور لشکرطیبہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا بل جس کے پاکستان کے لیے بڑے خطرناک نتائج ہوسکتے تھے، یعنی اسے بلاواسطہ ایک دہشت گرد ملک قرار دیے جانے کا امکان یا خطرہ۔ ان چیزوں کو پاکستان میں امریکی لابی نے سیاسی اور عسکری حلقوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔
۲- سیاسی اور معاشی میدان میں ان آپریشنز کو ایک عسکری جہت دینے کے لیے امریکا نے ایک بڑا ہی خطرناک اقدام کیا۔ اپنے بحری بیڑے Carrier Strike Group Twelve کے ایک نہایت تباہ کن ایٹمی صلاحیت سے آراستہ جنگی جہاز یو ایس ایس انٹرپرائز کو گوادر کے قریب پاکستانی سمندری حدود میں لاکھڑا کیا۔ اس نیوکلیر پاور سے آراستہ جہاز پر ۴۶۰۰؍افراد کا عملہ ہے۔ اس پر جنگی ہوائی جہازوں کے ۱۸ اسکوارڈن ایستادہ ہیں۔ یہ ایک طرح کی وارننگ تھی جو اس سے پہلے امریکانے نہیں دی تھی۔ راستے کھلنے کے دو دن بعد یہ جہاز گوادر کے ساحل سے چلاگیا اور امریکی بیڑے میں شامل ہوگیاجس سے یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا ۲۰۱۲ء میں یہ وہ پستول تھا جو زرداری کیانی کی کنپٹی پر رکھا گیا؟
۳- چین اور پاکستان کے تعلقات کو خراب کرنے کے لیے شرانگیز اقدامات کیے گئے۔ چین کی مسلم اکثریت کی ریاست شین چانگ (سابق سنکیانگ) میں کارروائیوں اور خیبرایجنسی میں دہشت گردی کی تربیت کی خبروں کو بڑی سُرعت سے اُچھالا گیا۔ بھارت، پاکستان پر دونوں طرف سے دبائو ڈال رہا ہے، یعنی ممبئی کے حادثے کا سہارا لے کر پاکستان کے مشرقی محاذ پر اور افغانستان میں اپنے کردار کو بڑھا کر اور شمالی الائنس کے ساتھ مل کر مغربی محاذ پر۔
۴- پھر اسی زمانے میں سعودی عرب سے ممبئی حملوں کے سلسلے کے ایک مطلوب فرد کو (جسے ابوجندل کہا جا رہا ہے) بڑے رازدارانہ انداز میں بھارت روانہ کیاگیا جہاں اسے ایئرپورٹ پر گرفتار کر کے پاکستان پر دبائو کو نئی بلندیوں پر پہنچانے کی مہم شروع ہوگئی اور پاکستان پر دبائو کی اس یلغار میں ایک دیرینہ دوست ملک کو بھی گویا شامل کرلیا گیا۔
دبائو اور بلیک میل کا یہ سارا کھیل بالآخر رنگ لایا اور پاکستان کی قیادت نے گھٹنے ٹیک دیے۔ شاید غالب نے کسی ایسے ہی موقع کے لیے کہا تھا کہ ؎
دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا
عشق نبرد پیشہ طلبگارِ مرد تھا
امریکا کو یہ اندازہ ہے کہ پاکستان کی قیادت ایک حد سے زیادہ دبائو کو برداشت نہیں کرسکتی اور ٹمپریچر کو اس حد سے آگے بڑھا کر اسے دبایا جاسکتا ہے۔ امریکا اپنے اس زعم کا برملا اظہار کرتا ہے۔ باب وڈورڈ اپنی کتاب Obama's Wars میں امریکا کے چوٹی کے پالیسی سازوں کی خود وائٹ ہائوس میں گفتگو نقل کرتا ہے، جسے دل پر پتھر رکھ کر، محض اپنی قیادت کی آنکھیں کھولنے اور پاکستانی عوام کو یہ بتانے کے لیے کہ امریکہ کیا کیا حربے استعمال کرتا ہے ہم نقل کر رہے ہیں:
پاکستانی قیادت کا دعویٰ تھا کہ ان کی حکومت اتنی کمزور اور خستہ ہے کہ اگر امریکا نے چھڑیاں استعمال کیں تو یہ گر جائے گی۔ دراصل وہ یہ کہہ رہے تھے: ’’آپ یہ نہیں چاہتے کہ ہم ختم ہوجائیں۔ کیا آپ یہ چاہتے ہیں؟ اس لیے کہ پھر سب کچھ تباہ ہوجائے گا۔
بلیر کا خیال تھا کہ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں صرف ۱۰منٹ کی دیانت دارانہ بحث سے معلوم ہو جائے گا کہ پاکستان پر حقیقی دبائو (leverage) کیا ہے۔ فرض کریں کہ صدر خلوص سے پوچھتے کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ تم کیا کرسکتے ہو؟ بلیر کا کہنا تھا کہ اگر پوچھا جاتا تو اس نے یہ کہا ہوتا: ’’ہم سرحدپار کچھ حملے کریں گے اور پاکستان کے اندر انتہاپسند گروپوں پر بم باری کریں گے‘‘۔ صدر اور دوسروں نے ضرور پھر یہ پوچھا ہوگا کہ’’ڈینی! اس کے نتائج کیا ہوتے؟‘‘ ’’میرے خیال میں پاکستان مکمل طور پر زیر ہوجاتا۔٭ شاید وہ ہمارے خلاف کچھ اقدام کرتے لیکن پھر وہ فوراً ہی ایڈجسٹ کرلیتے۔ اور کون سے حملے، کون سی باتیں، میرا خیال ہے ہم اس میں سے نکل آتے‘‘۔
یہ ہے امریکی قیادت کا ذہن پاکستان کی قیادت اور اس کے محافظوں کے عزم و فراست اور قوتِ مدافعت اور جوابی کارروائی کے بارے میں۔ ۲۰۰۱ء میں بھی وہ اپنی اس حکمت عملی میں کامیاب رہے اور ۲۰۱۲ء میں بھی ایک بار پھر وہ کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
کیا ان حالات کو انقلابی تبدیلیوں کے بغیر بدلا جاسکتا ہے؟ کیا پاکستان کا مقدر ایسی ہی قیادت ہے؟ یا اس قوم میں ایسی نئی قیادت برسرِاقتدار لانے کی صلاحیت اور عزم ہے جو غلامی کی زنجیروں کو اسی طرح کاٹ پھینکے جس طرح قائداعظم کی قیادت میں ۱۹۴۷ء میں کاٹ کر اسی قوم نے تاریخ کا ایک نیا باب رقم کیا تھا۔ موجودہ قیادت کا اخلاقی، نظریاتی اور قوتِ کار کے اعتبار سے دیوالیہ پن تو واضح ہوگیا ہے۔ اب امید کے چراغ روشن ہوسکتے ہیں تو وہ کسی نئی اہل اور دیانت دارانہ قیادت اور نئے نظام ہی سے ممکن ہیں۔ تاریخ ایک بار پھر اس قوم کو عزمِ نو اور نئی جدوجہد کی طرف پکار رہی ہے ___ ہمارے لیے زندگی اور عزت کا راستہ اس پکار پر لبیک کہنے اور پھر منزلِ مراد کو حاصل کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگادینے میں ہے ؎
یہ مصرع کاش! نقش ہر در و دیوار ہوجائے
جسے جینا ہو، مرنے کے لیے تیار ہوجائے