اشارات


تحریک طالبان کے ساتھ مذکرات ہونے چاہییں یا اس کے خلاف آپریشن؟ بیک وقت مذاکرات اورآپریشن کافیصلہ سود مندہوگا یا نہیں؟ مذاکرات آئین پاکستان کے تحت ہونے چاہییں یا کسی شرط کے بغیر؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج کل ہر جگہ موضوع بحث ہیںاور پاکستان کی سلامتی و بقا کو درپیش خطرات کو ان کی کامیابی و ناکامی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

 بلاشبہ دہشت گردی اس وقت پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہے اور اس عفریت نے ریاست اور معاشرے کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر امریکا نے جس جنگ کا آغاز کیا تھا وہ افغانستان سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گئی ہے۔ اس جنگ میںجو اصلاً اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تھی،پاکستان فرنٹ لائن سٹیٹ کے طور پر شامل ہوا تھا۔ ہم نے اس جنگ میں شمولیت کے وقت ہی آگاہ کر دیا تھا کہ افغانستان بہانہ اور پاکستان نشانہ ہے۔وقت اور حالات نے ہمارے موقف کو ثابت کر دیا ہے۔ اس مذموم جنگ کو اب ۱۲ سال ہونے کو ہیں، اور جس دن سے  ہم اس میں شامل ہوئے ، اسی دن سے تباہی و بربادی ہمارا مقدر بن کر رہ گئی ہے۔ ملک کے ہر کونے میں دہشت گردی پھیل گئی ہے، اوراس کی جتنی قسمیں ہو سکتی ہیں، وہ سب ہمارے ملک میں موجود ہیں اور دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں۔فرقہ وارانہ اور مسلکی دہشت گردی بھی موجود ہے، لسانی و علاقائی دہشت گردی بھی روز افزوں ہے،بھتہ و لینڈمافیا بھی لوگوں کی جانیں لے رہا ہے، بھارتی دہشت گردی کا جادو بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے، اور امریکی دہشت گردی بھی پھن پھیلائے کھڑی ہے۔

میاں محمد نوازشریف کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ اپنے  انتخابی وعدے کے مطابق وہ اس جنگ سے نکلنے کے لیے ایک ٹھوس اور مربوط لائحہ عمل قوم کے سامنے پیش کریں گے۔ اگرچہ ایک عرصے تک حکومت کی طرف سے اس پر خاموشی رہی مگر دبائو بڑھا تو وزیراعظم نے پہلے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جس نے دہشت گردی سے نجات کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، اور بعد ازاں قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے امن کو آخری موقع دینے اور مذاکرات کا اعلان کیا۔ چنانچہ حکومت اور طالبان کی طرف سے مذاکراتی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور اس حوالے سے ابتدائی ملاقاتیں بھی ہوئیں لیکن بعض ناخوش گوار واقعات کی وجہ سے مذاکرات کا یہ سلسلہ رک گیا۔ اب حکومت نے قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کیا ہے جس میں بیک وقت مذاکرات اور آپریشن کی بات کی گئی ہے۔ ہمارے خیال میں پالیسی جو بھی ہو،    دہشت گردی کا سدباب اس وقت تک ممکن نہیں ہے، جب تک ڈور کا سرا ہاتھ نہ آئے اور ڈور کا سرا ’دہشت گردی کے نام پرامریکی جنگ‘ ہے۔ امریکا خطے میں موجود رہا اور نام نہاد جنگ جاری رہی  تو صحیح معنوں میں کوئی پالیسی کارگر نہیں ہو سکے گی۔ کیونکہ امریکا اور بھارت مل کر افغانستان کے راستے سے بھی اور براہ راست پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بھی اس جنگ کو ہوا دے رہے ہیں، اور اس کو بھڑکائے رکھنے کے لیے مذہب، فرقے، لسانیت اور علاقائیت، ہر طرح کے کارڈز اور ذرائع اور وسائل استعمال کر رہے ہیں۔

پاکستان کا اصل المیہ

 پاکستان کااصل المیہ یہ ہے کہ اس نے امریکی خوشنودی کی خاطر اس جنگ میں ۱۰۰؍ ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھایا۔ انفرا سٹرکچر تباہ ہو گیا،معیشت اور معاش دونوں بربادی کی نذر ہو گئے اور قوم کا مستقبل دائو پر لگ گیا۔ حساس ہوائی اڈے امریکا کے حوالے کر دیے گئے،انٹیلی جنس نیٹ ورک فراہم کیا گیا ،لاجسٹک سپورٹ دی گئی اور ہر قسم کی مراعات مہیا کی گئیں، لیکن اس کا صلہ یہ دیا گیا کہ نہ صرف پاکستان پر ڈبل گیم اور دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام لگایا گیا بلکہ امریکا نے بڑے آرام سے ایبٹ آباد آپریشن کیا۔سلالہ پر حملہ کرکے فوجی جوان شہید کیے، ڈرون سے میزائل برساکر ہزاروں لوگوں کوقتل کیا، افغانستان میں بھارت کو تخریبی سرگرمیاں منظم کرنے کی اجازت دی اور پاکستانی سرزمین پرخود اس کے ریمنڈڈیوس نیٹ ورک جیسے درجنوںـ نیٹ ورک کام کرتے ہیں۔ اگر امریکا اس خطے میں موجود رہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر یہ سارا کھیل    بھی جاری رہتا ہے اور ہم اس کا حصہ بنے رہتے ہیں، تو کوئی اچھی سے اچھی پالیسی بھی کارگر نہیں ہوسکے گی۔

سنجیدہ حلقے حکومت اور ریاستی اداروں کو بارہا متوجہ کر چکے ہیں کہ پاکستان میں امن و امان کے قیام اور ترقی و خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ خارجہ پالیسی کو ازسر نو ترتیب دیا جائے، اور امریکی مفاد کو قومی مفاد قرار دینے کے دھوکے سے نکل کر صحیح معنوں میںاپنے مفاد کو ملحوظخاطر رکھ کر پالیسی بنائی جائے۔ اس پالیسی کا بنیادی نکتہ یہ ہو کہ امریکی جنگ سے فوری طور پر باہر نکلنے کا اعلان کیا جائے۔ اس ایک اعلان سے ہی دہشت گردی اور افراتفری میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ پھر فاٹا سے بلوچستان تک مذاکرات کے ذریعے معاملات اور مسائل حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے بعد بھی اگر بعض گروہ امریکی و بھارتی شہ پر اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں سے باز نہ آئیں تو قانون کے مطابق آہنی ہاتھ سے ان کا قلع قمع کرنا چاہیے۔

آپریشن نھیں مذاکرات

پہلے پیپلزپارٹی اوراب ن لیگ کے دور حکومت میں پارلیمنٹ کے جتنے مشترکہ اجلاس ہوئے ہیں، وزراے اعظم نے آل پارٹیز کانفرنسز بلائی ہیں یا مختلف سیاسی جماعتوں نے اس کا اہتمام کیا ہے، ان سب کی متفقہ قراردادوں میں مسئلے کے فوجی حل کی مخالفت کی گئی ہے اور مذاکرات کو مسئلے کا حل قرار دیا گیا ہے۔ لیکن جن لوگوں کے ہاتھ میں زمام کار ہے، انھوں نے پارلیمنٹ اور عوام کے جذبات کو یکسر نظرانداز کر تے ہوئے امریکا کے اشارہ چشم و ابرو پر عملاً انھیں ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ بطور ایک سیاسی جماعت کے ،جماعت اسلامی نے مسلسل مذاکرات کے حق اور فوجی آپریشن کی مخالفت میں بات کی ہے۔ملک میں امن و امان کے قیام کے لیے جماعت اسلامی آج نہیں ہمیشہ سے فوجی آپریشن کی مخالفت کرتی آرہی ہے اور سیاسی مسائل کے سیاسی حل کی بات کرتی رہی ہے، کیونکہ اس سے معاملات پوائنٹ آف نوریٹرن کی طرف جاتے ہیں۔ فوج اور عوام میں خلیج بڑھتی ہے، اور ملک دولخت ہو جاتاہے۔ مشرقی پاکستان، بلوچستان، کراچی، فاٹا، کہیں بھی اس سے قبل فوجی آپریشن سے مثبت نتائج حاصل نہیں کیے جا سکے۔ ایک اورآپریشن سے کیسے مثبت نتائج حاصل کیے جاسکیں گے۔ ماضی سے سبق حاصل کرنے کے بجاے ایک اور آپریشن کو نسخۂ کیمیا سمجھنا دانش مندی نہیں ہے۔ عاقبت نااندیش قیادت اورملک دشمن قوتیں    فوجی آپریشن کے ذریعے حالات کو ایک ناقابلِ واپسی مقام پر لے جانے کے لیے کوشاں ہیں، تاکہ جس طرح اس حکمت عملی کے نتیجے میں ۱۹۷۱ء میں پاکستان دولخت ہوا، اسی طرح ایک بار پھر وہ اپنے انھی مکروہ عزائم کو پورا کرسکیں۔

امریکا اور بہارت کی سازشیں، حکومت کی خاموشی

سیاسی و فوجی قیادت اِن کیمرہ اجلاسوں اور نجی محافل میں امریکا اور بھارت کی ان سازشوں کا ذکر کرتی ہے لیکن ان کا سدباب کرنے کے لیے عملاً کچھ کرتی ہوئی نظر نہیں آتی ہے۔      امریکا و بھارت کی اب بھی یہی خواہش ہے کہ افواجِ پاکستان کو ایسی دلدل میں دھکیل دیا جائے، جہاں سے وہ نکل نہ پائے، ملک انتشار اور انارکی کا شکار ہو،اور اس کی آڑ میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو عالمی کنٹرول میں لینے اور اس کے حصے بخرے کرنے کا کھیل کھیلا جائے، نیز جموں و کشمیر میں جاری جدوجہد کو نقصان پہنچے اور بھارت خطے کے تھانیدار اور بالادست قوت کے طور پر سامنے آئے۔ وقت آگیا ہے کہ غیر ملکی ہاتھ کو نہ صرف پوری قوت کے ساتھ بے نقاب کیا جائے بلکہ اسے توڑنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔

سیاسی و فوجی قیادت جن میں وفاقی وزرا اور جرنیل شامل ہیں، ایک عرصے سے یہ بات کہہ رہی ہے کہ : ’’بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے اور عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے سازشیں کر رہا ہے‘‘۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ نہ تو بھارت سے باضابطہ طور پر کبھی احتجاج کیا گیا ہے اور نہ عالمی فورمز پر اس مسئلے کو اٹھایا گیا ہے۔ حال ہی میں ایک دفعہ پھر مسلح افواج کے ترجمان نے ’را‘ اور سی آئی اے کا نام لے کر یہ کہا ہے کہ ان کے کارندے پاکستان میں دہشت گردی کو بڑھاوا دینے اور انارکی پھیلانے میں ملوث ہیں۔ وزارت داخلہ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں بھارت کی تخریب کاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ امریکی سرپرستی میں ہونے والی بھارتی مداخلت کاری پر پارلیمنٹ کے ذریعے قوم کو اعتماد میں لے اور قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو ثبوت مہیا کرے ۔ امرواقعہ یہ ہے کہ اگر امریکی وبھارتی گٹھ جوڑ اور اس کی اس شرانگیزی کو طشت از بام کر دیا جائے تو میڈیا سے لے کر دہشت گردوںتک، اور این جی اوز سے لے کر آلہ کار سیاست دانوں تک، ان کے طرف دار چہرے قوم کے سامنے آجائیں گے۔

میاں محمد نوازشریف کی دانش مندی

 ہمارے خیال میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے صورت حال کی نزاکت اور سنگینی کا احساس کرتے ہوئے مذاکرات کو موقع دینے کا دانش مندانہ فیصلہ کیا اوراشتعال انگیزی اور مخالفانہ پروپیگنڈے کے باوجود اب تک انھوں نے اس حوالے سے صبر و تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا ہے۔ بعض ناخوش گوار واقعات کی وجہ سے مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہوا تو ہماری طرف سے انھیں یہی مشورہ دیا گیا کہ تعطل کے خاتمے کے لیے وہ خود آگے بڑھیں اور طالبان اور حکومتی کمیٹیوں سے خود ملاقات کرکے ملک میں امن کی راہ ہموار کریں۔ اس ملاقات میں وہ چاہیں تو فوج کے نمایندے بھی شامل کرسکتے ہیں۔ انھیں اس بات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ امریکا اپنے حلیف ناٹو کے ۴۶ممالک کی افواج اور جدید ترین اسلحے اور سازوسامان کے استعمال کے باوجود    پچھلے ۱۲برسوں سے افغانستان کو فتح کرنے میں ناکام رہا ہے۔آج امریکا اور افغان قیادت دونوں بعد از خرابی بسیار یہ راگ الاپنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ امن مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اگر فوجی قوت اور بندوق کی طاقت سے امن آنا ہوتا تو امریکا اور ناٹو افواج کب کا افغانستان کو  فتح کر چکی ہوتیں۔

نئی قومی سلامتی پالیسی کے تناظر میں حکومت پاکستان کا یہ فیصلہ کہ: جو گروہ دہشت گردی کے مرتکب ہوں گے، ان کے خلاف کارروائی ہوگی اور جومذاکرات کرنا چاہیں گے ان کے ساتھ مذاکرات ہوںگے، بظاہر متوازن پالیسی کا عکاس ہے ۔لیکن اس میں فیصلہ کن چیز یہ طے ہونا ہے کہ دہشت گرد کون ہیں اور مذاکرات کی میز پر کس کو بلایا جائے؟ ظاہر ہے کہ حکومت  کے پاس تمام ایجنسیاں موجود ہیں جو اس سلسلے میں رہنمائی بھی کرسکتی ہیں اور تعاون بھی دے سکتی ہیں۔

 میاں محمد نواز شریف چاہیں تواپنا ایک با اختیار وفد افغانستان کے طالبان اور ملا عمر سے رابطے کے لیے بھیج کر، ملک میں امن کی بحالی کے لیے ان سے مددلے سکتے ہیں۔ افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے اب تو امریکا بھی نہیں شرما رہا اور یہ وہی طالبان ہیں جن کے ساتھ    میاں نوازشریف کی سابقہ حکومت کے ریاستی اور سفارتی تعلقات تھے۔ ان سے رابطہ کاری میں میاں صاحب کو ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ رابطہ معاملات کو افہام و تفہیم کی پٹڑی پر لانے اور اصلی اور نقلی طالبان کی پہچان میں مددگار بن سکے گا۔

امن دشمن خفیہ ہا تھ

ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی خفیہ ہاتھ ایسا ہے، جو حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کو کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہی سبوتاژ کر دیتاہے۔ حکومت کو ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے مہمند ایجنسی کے واقعے اور طالبان کے اس الزام کہ’’ ان کے ساتھیوں کی لاشیں پھینکی جارہی ہیں ‘‘کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کرانی چاہیے۔ مہمند ایجنسی میں ایف سی کے ۲۳؍ اہل کاروں کی شہادت اور ان کی لاشوں کی مبینہ بے حرمتی پر ہمیں شدید رنج ہے، اس کی ہم نے پرزور مذمت کی ہے اور ہمیں شہید اہل کاروں کے پس ماندگان سے دلی ہمدردی ہے۔ حکومت اور درد دل رکھنے والے تمام طبقات کو کھلی آنکھوں اور کھلے کانوں سے ایسی قوتوں کو قوم کے سامنے لانا چاہیے، جو مذاکراتی عمل کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھناچاہتیں اور جن کی پوری کوشش ہے کہ فوج اور طالبان کو آپس میں لڑا یا جائے اور اس کے نتیجے میں ملک بھر میں خوںریزی کا بازار گرم ہو۔ وزیراعظم اور وزیرداخلہ دونوں نے یہ کہاہے کہ جب بھی مذاکرات کسی اہم موڑ پر پہنچتے ہیں، کسی نادیدہ قوت کی طرف سے ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیںجس سے مذاکرات تعطل کا شکار ہو جاتے ہیں، تو پھر وزیراعظم ہی کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان شرانگیز قوتوں کی نشان دہی اور ان کے سدباب کے لیے مئوثر اقدامات کریں۔بلا لحاظ اس سے کہ ان کا تعلق کس فریق یا گروہ سے ہے۔

مذاکرات مخالف قوتیں یہ امید لگائے بیٹھی ہیں کہ مذاکرات ناکام ہوںگے اور اس کے بعد ان کے ایجنڈے کے مطابق ملٹری آپریشن شروع ہوجائے گا۔مذاکراتی عمل کو کسی تعطل کے  بغیر آگے بڑھتا دیکھ کر ان کی نیندیں اڑ گئی تھیں اور وہ اس عمل میں رکاوٹیں پیداکرنے کے لیے  ملک میں افواہ سازی کے ذریعے افراتفرای پھیلانے میں مصروف دیکھی گئی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان حا لات میں پوری قوم کو مذاکراتی کمیٹیوں کی پشت پر کھڑا نظر آنا چاہیے تاکہ حکومت کسی دبائو کے بغیر مذاکراتی عمل کو آگے بڑھاتی رہے۔اس حقیقت کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ اصل مذاکرات حکومت اور طالبان کے درمیان ہی ہوں گے۔طالبان کمیٹی کے نام سے کام کرنے والی موجودہ کمیٹی صرف رابطہ کار اور مددگار کا کردار ادا کررہی ہے ،تاکہ حکومت اور طالبان کے درمیان پائے جانے والے خدشات دُورکرکے مذاکرات کے ماحول کو ساز گار بنایا جائے۔ امریکا اور بھارت کی تمام تر سازشوں اور رکاوٹوں کے باوجودمذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں، لیکن سیکولر اور اسلام مخالف لابی قوم کے اندر نااُمیدی اور مایوسی پھیلا رہی ہے،اور حکومت کو فوجی آپریشن کی طرف دھکیلنے کی ’خدمت‘ انجام دے رہی ہے۔

جوابی کارروائی

ایف سی اہل کاروں کی شہادت کے روح فرسا واقعے کے بعد جو ’جوابی کارروائیاں‘ کی گئی ہیں، دہشت گردوں کوبھی اس سے نقصان پہنچا ہوگا لیکن شنید یہی ہے کہ عام آباد ی اس سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ مہذب معاشرے میں عام شہریوں کو دوران جنگ بھی اندھا دھند بمباری کی لپیٹ میں لینے کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔کوئی ایسی مثال بھی ہمارے سامنے نہیں ہے کہ جس میں ایک ریاست نے اپنے ہی شہریوں کے خلاف فضائی قوت اور بھاری بمباری کا استعمال کیا ہو، یہاں تک کہ کشمیر پر قابض بھارتی افواج نے بھی ایسا نہیں کیاہے۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے مجرموں اور عوام الناس کی جانوں سے کھیلنے والے قاتلوں کی گرفت ضروری ہے اور ان کے خلاف ضرور کارروائی ہونی چاہیے مگر یہ کارروائی قانون اور ضابطے کے مطابق ہی ہو، ایف ۱۶ اور کوبرا گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے نہیں۔بڑے آرام سے یہ کہہ دینا کہ اس بمباری کے نتیجے میں صرف مجرمین اور دہشت گرد نشانہ بن رہے ہیں، ایک جسارت اور زمینی حقائق کا منہ چڑانے کے مترادف ہے۔ہمارے نزدیک حکومت کا یہ دعوی درست نہیں ہے۔ معمولی سی دانش رکھنے والا انسان بھی یہ بات سمجھتا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کبھی جیٹ طیاروں کے ذریعے نہیں ہوا کرتی۔ اس سے خوف اور تباہی پھیلتی ہے، دہشت کی فضا بنتی اور افراتفری  جنم لیتی ہے۔افسوس کا مقام ہے کہ آزاد میڈیا کے لیے حالات کی صحیح صحیح رپورٹنگ کا دروازہ    بند کردیا گیا ہے، اور ستم ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی نوحہ کر رہے ہیں کہ میران شاہ میں سویلین آبادی اور عورتیں اور بچے نشانہ بن رہے ہیں۔

جماعت اسلامی مذاکرا ت کی حامی کیوں؟

جماعت اسلامی کی جانب سے مذاکرات کے ذریعے امن کی خواہش کو بعض عناصرمنفی رنگ دے کر جماعت اسلامی پر طالبان کی نمایندگی کرنے کے بے سروپا الزام لگا رہے ہیں تاکہ وہ اپنے گھنائونے ایجنڈے کو پورا کرسکیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کو اسلام کا قلعہ اور امت کی امیدوں کا مرکز و محور سمجھتی ہے ۔ملکی سلامتی اور خود مختاری کے تحفظ کے لیے جماعت اسلامی کی قربانیوں کی پوری قوم معترف ہے اورہم ملک میں قیام امن کے دل و جان سے خواہاں ہیں، نیز  اس سلسلے میں ہماری مسلح افواج نے جو بھی مثبت خدمات انجام دی ہیں، ان پر ہمیں اور پوری قوم کو فخرہے۔ البتہ دستور کا احترام اور انصاف کے اصولوں کی مکمل پاس داری سب کے لیے ضروری اور ملک کے استحکام اور بقا کے لیے مرکزی اہمیت کی حامل ہے۔

جماعت اسلامی آئینی، دستوری اور جمہوری طریقے سے حکومتوں کی تبدیلی اور قانون سازی کی علَم بردار اور ملک میں خفیہ انجمن سازی اور تشدد کے ذریعے کسی ہدف کو حاصل کرنے کی مخالف ہے۔ اس ضمن میں اس کا دستور، تاریخ اور عمل گواہ ہے۔جماعت اسلامی کی اپنے ملک میں     فوجی آپریشن کی مخالفت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں مختلف انسانی المیے جنم لیتے ہیں۔  اس سے ہونے والا نقصان نفسیاتی، فکری اور اخلاقی بھی ہوتاہے اور مادی و جسمانی بھی۔ اس کا علاج اس وقت تک ممکن ہی نہیں ہوتا، جب تک آپریشن ختم نہ ہو۔

نقل مکانی، ایک بڑا انسانی المیہ

 فوجی آپریشن سے ایک بڑا مسئلہ نقل مکانی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ قبل ازیں بھی سوات اور فاٹا سے لوگوں نے ہجرت کی تھی اور پوری دنیا میں اپنے ملک کے اندر ہونے والی یہ سب سے بڑی ہجرت تھی۔اس وقت بھی جتنے بڑے پیمانے پر شمالی اور جنوبی وزیرستان سے نقل مکانی ہورہی ہے وہ ایک انسانی المیے سے کم نہیں ہے۔ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں اگر لوگ ہجرت پر مجبور کر دیے جائیں ، ان کے گھروں کو مسمار اور مستقبل کو تاراج کر دیا جائے اوران کے بچوں کا جینا دوبھر کر دیا جائے، تو ایسی جگہ سے قانون کا احترام کرنے والوں کی نہیں بلکہ دہشت گردی اور انتقام لینے والوں کی کھیپ ہی کے رونما ہونے کا امکان زیادہ ہے ۔ حکومتی کارپردازوں کویہ اچھی طرح معلوم ہے کہ ہجرت کرنے والے لوگ تاجک اور ازبک نہیںبلکہ پاکستانی ہیں اور بے بسی و بے چارگی اور درماندگی میں اپنی جان بچانے کے لیے ہجرت پر مجبور ہیں۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کو بالخصوص اور مرکزی حکومت کو بالعموم اس معاملے میں آگے بڑھنا چاہیے اور بے گھر ہونے والوں کوہر ممکن سہولتیں فراہم کرنی چاہییں۔ جماعت اسلامی بھی اس سلسلے میں مقدوربھر کوششیں کررہی ہے اور الخدمت فائونڈیشن نے اس سلسلے میں پیش رفت کی ہے لیکن ظاہر ہے کہ جو نیٹ ورک حکومت کا ہوسکتا ہے اس کو فوری طور پر بروے کار آنا چاہیے، تاکہ سردی کی شدت اور گھر بارچھوڑنے کے نتیجے میں جو مسائل پیدا ہورہے ہیں ان کا مقابلہ کیا جاسکے اور سب مل کر ایک دوسرے کی مدد کرسکیں۔ مہاجرین کے لیے جتنے بڑے پیمانے پر وسائل اور انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے وہ حکومت ہی فراہم کر سکتی ہے، بالخصوص وفاقی حکومت۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پہلے ان علاقوں سے نکلنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کراچی کی طرف ہجرت کر جاتی تھی۔اور وہاں عزیز و اقارب اور کسی جاننے والے کے ہاں ان کو پناہ مل جاتی تھی لیکن اب خود کراچی آپریشن کی زد میں ہے۔ طالبانائزیشن کے نعرے کے سایے میںاگرفاٹا کے لوگ وہاں آئیں گے اور دکھائی دیں گے تو بڑی آسانی سے گرفتار کرلیے جائیں گے یا انھیں دیگر مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔ سندھ حکومت اور ایم کیو ایم نے بھی ان کی کراچی آنے کی مخالفت کی ہے ۔

آئین شکنی نھیں، جمھوریت حل ھے

ایم کیو ایم فوجی آپریشن کی بڑی حامی ہے، اور طالبان سے مذاکرات کو آئین کی خلاف ورزی قرار دے رہی ہے۔ بجاے اس کے کہ وہ مہاجرین کو کھلے دل سے خوش آمدید کہتی، اس کے    قائد نے مہاجرین کا استقبال کرنے کے بجاے فوج کا استقبال کرنے کا عندیہ دیا، آئین توڑنے کی بات کی اور جرنیلوں کو دعوت دی کہ وہ ایک دفعہ پھر اقتدار پر قبضہ کرلیں۔ ایک جانب طالبان کو آئین شکن کہہ کر پوری قوت انھیں اور ان کے آس پاس رہنے والے بے گناہ شہریوں کو کچل دینے کے لیے بیانات کی آگ اگلی جارہی ہے، تو دوسری طرف ایسی نفرت انگیز آگ بھڑکانے والے   اسی گروہ کے لندن میں بیٹھے لیڈر نے علی الاعلان آئین کو تسلیم نہ کرنے کی بات کی، حالانکہ وہ اسمبلیوں کے اندر موجود ہیں۔ اس دفعہ وہ بظاہر حکومت میں شریک نہیں ہیں، مگر کارِ حکومت میں   ان کی رسائی اور نازبرداری کا سب کواندازہ ہے۔ان کا نمایندہ سندھ کے گورنر ہائوس میں اسی طرح کارفرما ہے جس طرح وہ جنرل مشرف اور جناب آصف زرداری کے زمانے میں جلوہ افروز تھے۔ واضح رہے کہ موصوف اس سے پہلے ۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۳ء تک کم از کم چار بار پہلے بھی فوج کو    دعوت اقدام دے چکے ہیں اور اپنی مکمل تائید کا یقین دلا چکے ہیں۔ اس قابلِ مذمت بیان میں پورے جمہوری اور انتخابی دائرے اور نظام کو لپیٹ دینے کا عنوان موجود ہے۔اور یہ اس پس منظر میں ہے کہ جب باربار کے تلخ تجربات کے بعد عوام ، اعلیٰ عدالتیں اور معاشرے کے دیگر طبقات یکسو ہیں کہ سیاسی نظام میں فوج کی مداخلت میں کوئی خیر نہیں ہے اور ملک کا مستقبل جمہوریت اور صرف جمہوریت سے وابستہ ہے۔ آج جو جمہوری رویے پورے معاشرے کے اندر فروغ پارہے ہیں، کچھ خامیوں کے باوجود ان جمہوری رویوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملنا چاہیے۔

علماے کرام کا کردار

ان سنگین حالات میں اہل علم بالخصوص علماے کرام کو آگے آنا چاہیے اورآئین و جمہوریت کے حوالے سے ہونے والی بحث اور گتھیوں کو سلجھانے میں اپنا کردارادا کرنا چاہیے۔ جو کام وہ کرسکتے ہیں، کوئی اور نہیں کر سکتا۔علماے کرام کواس سوال کا جواب دینا چاہیے کہ پاکستان کے  آئین کی کیا حیثیت ہے؟اس کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹیں کیا ہیں؟ شریعت کس طرح نافذ ہوتی ہے؟ شریعت سے تعلق رکھنا، حُب ِالٰہی اور حب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار رہناہم سب کا ایمان ہے، لیکن یہ بات اہل علم ہی بتا سکتے ہیں کہ اسلامی شریعت کو نافذ کرنے کا طریقہ وہ نہیں ہے، جو اختیار کیا گیا ہے اور جس کا یہاں اور وہاں اعلان کیا جا رہا ہے۔علماے کرام کو اسلام اور شریعت کے وکیلِ صفائی کا کردار ادا کرنا چاہیے اور غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہیے۔ یہاں پر یہ بات بھی    ذہن نشین رہے کہ جو لوگ فوجی آپریشن کے حامی ہیں، ان کا خیال ہے کہ آپریشن تو شریعت کے خلاف ہو رہا ہے، اس لیے اچھا کام ہے۔ اور ان کے لیے سکون کا باعث ہے۔

۱۹۷۳ء کا آئین بنانے والوں میں وہ جید علما شامل تھے، جنھیں آج کے علما اپنا استاد مانتے ہیں۔ مولانا ظفراحمد انصاری، مولانا مفتی محمود ،مولانا عبدالحق ،مولانا شاہ احمد نورانی اور پروفیسر غفور احمد جیسی قدآور قومی شخصیات آئین ساز کمیٹی میں شامل تھیں۔ وہ کیسے قرآن و سنت کے منافی آئین کو تسلیم کر سکتی تھیں۔ آئین کو غیر اسلامی کہنے کے بجاے آئین پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔   جس آئین کی بنیاد ہی یہ ہے کہ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہوگا اور اس کا آئین قرآن و سنت کے تابع ہوگا، اس کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا قومی یک جہتی کے لیے مضر ہے۔ قوم ۷۳ء کے آئین پر متحد ہے۔ اس اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ خود حکمران غیر آئینی ہتھکنڈوں کو  چھوڑ کر آئین کی بالا دستی کو دل کی گہرائیوں سے تسلیم کرلیں اور اس پر خلوص سے عمل پیرا ہوں۔ یادرہے کہ اس آئین کو توڑنے والوں میں سب سے پیش پیش سیکولر اور ریاست کے اسلامی تشخص کے مخالف افراد اور گروہ ہیں، اور یہی وہ طبقات ہیں بشمول امریکی اور بھارتی لابی کے سرخیل اور قادیانی عناصر، جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کو پس پشت ڈالنے اور اسے غیر متعلق بنانے کے خواہشمند ہیں۔ اس لیے اس دستور کو مشتبہ بنانے والوں اوراس کے مطابق کام نہ کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کس کا راستہ صاف کر رہے ہیں؟

۱۹۷۳ء کا آئین قرآن و سنت کے مطابق ہے۔اگر حکومت آئین کو اس کی روح کے مطابق نافذ کردے تو طالبان سمیت کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا۔اس قوم کی بدقسمتی ہے کہ آئین پر  عمل درآمد کی راہ میں خود جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں نے رکاوٹیں ڈالیں ۔برسرِاقتدار جاگیرداروں، سرمایہ داروں، سیکولرسٹوں اور وڈیروں نے آئین شکنی کا رویہ اختیار کیا۔ قرآن و سنت کے تابع پاکستان کے آئین کی مسلسل پامالی اور بے حرمتی سے ملک کے بارے میں بے آئین سرزمین کا تاثر پیدا کیا۔حکمران طبقوں نے اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے ملک و قوم کو مقروض کیا اور پھر قرض دینے والے عالمی مالیاتی اداروں کے احکامات مانتے ہوئے عوام کش پالیسیاں بنائی گئیں۔ ایسا کرتے وقت آئین، اسلام، عوام اور انسانی قدروں میں سے کسی بھی چیز کی پروا نہیں کی گئی۔جب آئین و قانون کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی اور تمام فیصلے بیرونی دبائو کے تحت کیے جائیں گے، تو آئینی ادارے کمزور اور تابع مہمل ہوں گے، اور عوام کا ان اداروں پر اعتماد ختم ہوجائے گا۔آج پاکستان میں بہترین آئین کی موجودگی کے باوجود عوام کے حقوق غصب کیے جارہے ہیں، جب کہ ہماری داخلہ و خارجہ پالیسیاں قومی مفادات کے بجاے امریکی و بھارتی مفادات کو سامنے رکھ کر بنائی جارہی ہیں۔ ایسی صورت میں نہ امن آسکتا ہے اور نہ عوام کا اعتماد بحال ہوسکتا ہے۔

 پاکستان کی اسلامی شناخت کونہ کوئی پہلے بدل سکا ہے اور ان شاء اللہ نہ آیندہ بدل سکے گا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور اسی نام سے قائم اور وابستہ رہے گا۔اسلامی شریعت، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کا نام ہے ،جوکسی کی خواہشات پر بدلے نہیں جاسکتے۔ ملّی وحدت اور قومی یک جہتی کے لیے اسلام سے متصادم رویوں کو ترک کرناضروری اورمذاکرات مخالف قوتوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے اپنا کردار اداکرنا ہر ذمہ دار شہر ی کا فرض ہے۔جماعت اسلامی کی ساری جدوجہد کا مقصد ملک میں امن اور اسلامی شریعت کا نفاذ ہے۔ امن قائم ہوگا تو شریعت آئے گی اور آئین پر بھی عمل ہوگا۔

حالات کو بڑی تیزی سے ایک ہولناک تباہی کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ قوم اور اس کی سیاسی اور عسکری قیادت کو متنبہ کیا جائے کہ وہ کوئی انتہائی فیصلے کرتے وقت ہوش کے ناخن لے اور ملک و ملّت کو تباہی سے بچانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

ستم ظریفی دیکھیے کہ آج دانا دشمن اور نادان دوست دونوں ہی اپنے اپنے انداز میں ملک کو ایک نئے تصادم کی طرف لے جانے میں سرگرم ہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ محب وطن دینی اور سیاسی قوتیں خاموش تماشائی نہ بنیں اور مل کر اور پوری دانش مندی کے ساتھ حکومت اور برسرِاقتدار قوتوں کو ملک کو آگ اور خون کے اس گڑھے میں گرنے سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ حکومت کے ذمہ داران سے، خصوصیت سے وزیراعظم، وزیرداخلہ، ارکانِ پارلیمنٹ، عسکری قیادت اور میڈیا کے ذمہ دار عناصر سے ہماری درخواست ہے کہ حالات کا ٹھنڈے دل سے دلیل،     زمینی حقائق اور تاریخ کے تجربات کی روشنی میں جائزہ لے کر قومی سلامتی اور دہشت گردی کے مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی اور پروگرام مرتب کریں۔ اس سلسلے میں ملک کی سیاسی اور دینی قیادت کو اعتماد میں لیں، اور پوری قوم کو ساتھ لے کر ان حالات کا مقابلہ کریں۔

زمینی حقائق کے اِدراک کی ضرورت

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہر وہ پالیسی اور اقدام جو بیرونی یا اندرونی دبائو کا نتیجہ ہو یا جسے بڑی حد تک جذبات، غصے اور انتقام کے جذبے کے تحت اختیار کیا جائے، وہ تباہ کن ہوتا ہے۔ دورِحاضر میں اس کی بدترین مثال وہ ردعمل ہے، جو امریکا نے ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے دہشت گردی کے افسوس ناک اور قابلِ مذمت واقعے کے ردعمل کے طور پر اختیار کیا، اور جس کے نتیجے میں نہ صرف  یہ کہ دہشت گردی کا سدِّباب نہ ہوسکا، بلکہ اس کو عالمی سطح پر ہزار گنا زیادہ فروغ حاصل ہوگیا۔  آج دنیا، بشمول امریکا، ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی غیرمحفوظ ہے۔ بلاشبہہ ان ۲۹۰۰؍ افراد کی ہلاکت ایک دل دوز سانحہ اور کھلا ظلم تھا، جو نائن الیون کے اقدام کا نشانہ بنے۔ لیکن کیا اس حقیقت سے آنکھیں بند کی جاسکتی ہیں کہ ’دہشت گردی کے خلاف امریکا کیجنگ‘ کے نتیجے میں ان تقریباً ۳ہزار جانوں کے مقابلے میں افغانستان میں تقریباً ایک لاکھ ۲۰ ہزار افراد اور عراق میں ۶لاکھ افراد موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے ہیں۔ صرف افغانستان میں اب تک خود امریکا کے ۲۸۰۶فوجی ہلاک ہوئے اور ۱۸ہزار زخمی ہوچکے ہیں۔ امریکا کے جتنے فوجی افغانستان گئے ہیں  ان میں ۱۰فی صد ہمیشہ کے لیے اپاہج ہوچکے ہیں۔ سیکڑوں نے خودکشی کی ہے اور دسیوں ایسے ہیں، جنھوں نے دیوانگی کے عالم میں اپنے ہاتھوں امریکی اور ناٹو افواج ہی کو نشانہ بناڈالا ہے۔ برطانیہ کے ۴۴۷فوجی ہلاک اور کئی ہزار زخمی ہوئے ہیں۔ امریکا صرف افغانستان کی جنگ پر ایک ہزار ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے اور برطانیہ ۴۰ ارب پونڈ اس آگ میں جھونک چکا ہے۔ اس سب کے باوجود امریکا اور ناٹو افواج کو ذہنی اور سیاسی و عسکری دونوں قسم کی شکست سے سابقہ ہے۔ افغانستان  خود امن و چین سے محروم ہے۔ افغانستان کی فوج اور معیشت دونوں امریکا کی مدد کی محتاج ہیں۔ افغان بجٹ کا ۸۰ فی صد امریکی امداد پر منحصر ہے، اور باقی بجٹ کا بڑا انحصار افیون کی تجارت پر ہے۔

رہی افغان عوام کی حالت ِ زار تو افغانستان کے پے درپے دوروں کے بعد ایک امریکی مصنف اور صحافی پیٹرک کک برن (Patrick Cockburn) کاؤنٹرپنچ کے ۱۳جنوری ۲۰۱۴ء کے شمارے میں لکھتا ہے:

بلاشبہہ جو رقم افغانستان پر خرچ کی جارہی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ افغانستان میں خرچ کی جارہی ہے۔ لیکن اس بات کو پیش نظر رکھ کر بھی بہت بڑی بڑی رقمیں خرچ کرنے کے باوجود سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۶۰ فی صد بچے غذا کی کمی کا شکار ہیں اور صرف ۲۷ فی صد افغانوں کو پینے کا صاف پانی مہیا ہے۔ بہت سے باہر سے رشتہ داروں کی بھیجی ہوئی رقم سے زندہ ہیں یا منشیات کے کاروبار سے جو افغانستان کی قومی آمدن کا ۱۵ فی صد تک ہے۔

یہ اعداد و شمار افغانستان اینلسٹ نیٹ ورک کابل سے وابستہ تھامس رٹنگ کے جائزے:  ’’افغانستان میں بین الاقوامی مداخلت کے ۱۲سال‘‘ سے سامنے آئے ہیں۔ اس مستند جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ آج افغانستان کہاں کھڑا ہے؟

یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ امریکا اور برطانیہ کی فوجی مداخلت مکمل ناکامی پر منتج ہوئی ہے۔ طالبان کچلے نہیں جاسکے ہیں جو ملک کے تمام حصوں میں فعال ہیں، اور ہلمند جیسے صوبوں میں امریکا اور برطانیہ کی افواج کے جاتے ہی اقتدار سنبھال لیںگے۔ غیرملکی فوجوں کی پشت پناہی کے باوجود حکومت ِ افغانستان کا کنٹرول دارالحکومت کے ضلع سے باہر چندکلومیٹر کے فاصلے پر ختم ہوجاتا ہے۔ پورے افغانستان پر عموماً فوجی طورطریقوں کے بارے میں بات چیت کی جاتی ہے، جب کہ امریکا برطانیہ کی ناکامی کی سب سے اہم وجوہ سیاسی ہیں۔ بہت سے افغان بدتر انجام سے خوف زدہ ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ ۲۰۱۴ء میں ۱۹۹۰ء کے عشرے کا ظلم اور انارکی کا دور جب جہادی دستے افغانستان پر حکومت کرتے تھے، آجائے گا۔

امریکا کو اس جنگ کے نتیجے میں بدنامی، شکست اور پسپائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ افغانستان تباہ و برباد ہوگیا۔ جس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دنیا کو اور خصوصیت سے افغانستان، پاکستان اور شرق اوسط کو جنگ کی آگ میں جھونکا گیا، وہ سب ماقبل سے بُرے حال میںہیں۔ یہ نتیجہ ہے ایک بدمست سوپرپاور کے اس ردعمل کا، جس کی بنیاد دلیل، حق و انصاف کے اصول اور زمینی حقائق کے صحیح اِدراک اور حکمت و توازن کی بنیاد پر پالیسی سازی کے فقدان پر مبنی ہے۔ طاقت کے زعم میں، سیاسی اور عسکری غرور وتکبر اور سب سے بڑھ کر غصے اور انتقام کے جذبات سے آلودہ تھی۔ اس ساری تباہی کی بڑی وجہ امریکی صدربش کا وہ ردعمل تھا، جس کی کوئی عقلی بنیاد نہ تھی بلکہ غرور، غصے اور انتقام کے جذبات تھے جن سے مغلوب ہوکر واحد سوپرپاور کے صدر نے امریکا کی سیاسی اور معاشی قوت پر ضرب لگانے والوں کو تہس نہس کرنے کے جذبات میں بہنا پسند کیا۔ موصوف نے مناسب تحقیق کے بغیر اور عالمی قانون کو حقارت سے نظرانداز کرتے ہوئے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر افغانستان پر فوج کشی کرڈالی اور پھر اس کا دائرہ بلاجواز عراق تک بڑھا دیا۔ پاکستان کو کان پکڑ کر اس جنگ میں جھونکا۔ نتیجہ یہ ہے کہ پوری دنیا ۱۲برس سے اس عذاب میں مبتلا ہے۔ عراق سے تو امریکی افواج واپس چلی گئیں مگر عراق خانہ جنگی کی آگ میں آج تک جل رہا ہے۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کا ٹائم ٹیبل دیا جارہا ہے مگر خانہ جنگی اور علاقائی بدامنی کے بھوت فضا میں منڈلا رہے ہیں اور امن اورسلامتی کا دُور دُور پتا نہیں۔

ماضی کی حکمت عملی کے نتائج

اگر امریکا نے جذبات سے مغلوب ہوکر غرور، غصے اور انتقام کی بنیاد پر دنیا کو جنگ میں جھونکا، تو پاکستان کے سیاہ و سفید پر قابض جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے امریکی دبائو میں شکست خوردہ ذہنیت کے ساتھ، اور قومی مفادات اور عوامی جذبات کو یکسرنظرانداز کرکے امریکا کی اس جنگ میں اپنے کو شریک کرکے اپنے مسلمان ہمسایہ برادر ملک پر فوج کشی کے لیے امریکا کو   نہ صرف ہرسہولت دے ڈالی، بلکہ اپنی زمینی اور فضائی حدود پر امریکا کو تسلط اور غلبہ عطا کیا۔ امریکا کے احکام پر اپنے شہریوں اور برادر ملک کے ان مہمانوں کو جو ہماری امان میں تھے، ڈالروں کے عوض امریکا کے حوالے کیا اور اس سلسلے میں سفارتی اور اسلامی آداب کو بھی بُری طرح پامال کیا۔ اس کی شرم ناک داستان پاکستان میں افغانستان کے سفیر مُلّا عبدالسلام ضعیف کی کتاب My Life with the Taliban میں دیکھی جاسکتی ہے۔

پاکستان کو ان ۱۲ برس میں دینی، سیاسی، عسکری، معاشی، غرض یہ کہ ہر میدان میں بے پناہ نقصانات ہوئے اور پاکستان عملاً اپنی آزادی اور خودمختاری سے محروم ہوکر رہ گیا۔ ۵۰ہزار سے زیادہ افراد جان کی بازی ہارگئے، جن میں ۶ سے ۸ہزار افراد کا تعلق فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہے۔ زخمیوں کی تعداد اس سے دو تین گنا زیادہ ہے، اور جو نقل مکانی پر مجبور ہوئے ان کی تعداد ۳۰لاکھ سے متجاوز ہے۔ مالی اور معاشی اعتبار سے نقصان کا کم سے کم اندازہ ایک سو ارب ڈالر کا ہے اور سب سے بڑھ کر پورے ملک کا امن اور چین درہم برہم ہوگیا۔

جو دوست تھے وہ دشمن بن گئے اور جو دشمن تھے انھوں نے ملک کے طول و عرض میں اپنے اثرات بڑھا لیے۔ ملک کے حالات اور پالیسیوں میں امریکا کا عمل دخل اتنا بڑھ گیا اور اس کی  خفیہ ایجنسیوں اور کارندوں کو ایسے ایسے مقامات تک رسائی حاصل ہوگئی، جس سے ہماری سالمیت معرضِ خطر میں ہے۔ عوام اور حکمرانوں، عوام، فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں دُوری بڑھ گئی۔ جن کے درمیان رشتے کی امتیازی خصوصیت اعتماد، افتخار اور محبت تھی، وہ بُری طرح متاثر ہوئی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب بے اعتمادی اس حد کو پہنچ گئی کہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے باقاعدہ فوجی اہلکاروں کو ہدایت دی کہ عام سواریوں میں فوجی وردی میں سفر نہ کریں۔ جس فوج کو عوام اپنی زندگی، آزادی اور عزت کا نگہبان سمجھتے تھے اور جس سے نسبت پر فخر محسوس کرتے تھے، اس سے تعلقات او راعتماد میں یہ کمزوری صرف اور صرف اس وجہ سے رُونما ہوئی کہ اس وقت کی قیادت نے عوام کے جذبات اور قومی مفادات سے صرفِ نظر کرکے، امریکا کی اس جنگ میں ملک اور اس کی قانون نافذ کرنے والی قوتوں کو جھونک دیا تھا۔

۲۰۰۱ء میں امریکا کے لیے پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود کو کھول دیا گیا تھا۔ پھر ۲۰۰۴ء سے عملاً پاکستانی افواج کو بھی آہستہ آہستہ اس جنگ میں شریک کردیا گیا، جس میں ۲۰۰۷ء کے بعد شدت آگئی۔ یہی وہ سال ہے جب پاکستان کے قبائلی علاقے میں باقاعدہ تحریکِ طالبان پاکستان کی تشکیل ہوئی۔ نتیجہ یہ کہ روز بروز تصادم بڑھتا گیا ، اور معصوم عوام دونوں طرف سے نشانہ بننے لگے۔ آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ نہ سرکاری املاک، فوجی چھائونیاں اور پولیس کی چوکیاں دہشت گردی سے محفوظ ہیں اور نہ مساجد، امام بارگاہیں، دینی مدارس، تعلیمی ادارے اور عام آبادیاں امن کا گہوارا ہیں۔

دہشت گردی آج ملک عزیز کی سلامتی کے لیے ایک اہم ترین خطرہ بن گئی ہے۔ دہشت گردی کی ہرشکل سے نجات وقت کی ضرورت ہے، خواہ اس کا ارتکاب افراد، گروہ یا مسلح تنظیمیں کررہی ہوں یا خود ریاستی ادارے اپنی حدود سے بڑھ کر ان کے مرتکب ہورہے ہوں۔   اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت تمام دینی اور سیاسی قوتیں اور قوم کے تمام محب وطن عناصر مل کر قومی سلامتی کی پالیسی مرتب کریں اور سب مل جل کر اس پر عمل کو یقینی بنائیں۔ جو پالیسی بیرونی دبائو کے تحت بنے گی یا جو اصول قومی عزائم اور مفادات کے مقابلے میں، گروہی جذبات، غصے، انتقام یا مفاد پرست لابیوں کے اثرونفوذ کے نتیجے میں وجود میں آئیں گے، وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ گذشتہ ۱۲برسوں میں برپا ہونے والی تباہی کا بڑا سبب وہ پالیسیاں ہیں جو بیرونی دبائو یا اندرونی کمزوری کے تحت بنائی گئی تھیں۔ اب اس روش سے مکمل اجتناب کے ساتھ خالص قومی مقاصد، ملکی مفادات، عوام کے جذبات اور احساسات کی بنیاد پر نئی پالیسیوں کی تشکیل اور تنفیذ کی ضرورت ہے۔

جذباتی انداز میں یہ کہہ دینا کہ ’’پہلے یہ جنگ ہماری نہیں تھی، لیکن اب بن گئی ہے‘‘ ایک نامعقول اور فریب خوردگی پر مبنی دعویٰ ہے۔ ضرور ت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی اور اس کی مختلف اقسام اور ان کے اسباب سب پر نگاہ ڈالی جائے، اور حالات کے معروضی تجزیے کے بعد ایسی ہمہ گیر پالیسی بنائی جائے، جو مسئلے کے ہرہرپہلو کا احاطہ کرے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب حقائق کو بنیاد بنایا جائے اور جذبات اور تعصبات کو فیصلوں پر اثرانداز نہ ہونے دیا جائے۔

اس وقت کچھ طاقت ور لابیاں ایک خاص زاویہ بنانے میں مصروف ہیں اور ایک ایسی جذباتی فضا بنانے کے درپے ہیں، جس میں حق و صداقت اور انصاف اور توازن کی بات نامطلوب بن جائے۔ انجامِ کار ملک اور فوج کو ایک ایسے آپریشن میں جھونک دیا جائے، جو امریکا کے مقاصد، مفادات اور ایجنڈے کا تو حصہ ہو اور اوباما اور جان کیری کی ’do more‘ [اور مارو]کی تعمیل پر پاکستان کو جنگ کی ایک ایسی آگ میں جھونک دے، جو افغانستان سے امریکا کے انخلا کے بعد بھی پاکستان اور افغانستان کو بھسم کرتی رہے۔

یہ وقت ٹھنڈے دل سے پورے معاملے کے صحیح تجزیے کے بعد ایسی پالیسیاں وضع کرنے کا ہے جو پاکستان، افغانستان اور اس علاقے کے مفاد میں ہوں اور فوری اور دُور رس امن و سلامتی کی ضمانت دے سکیں۔ امریکا کو تو یہاں سے جانا ہے، لیکن پاکستان اور افغانستان دائمی ہمسایہ ممالک ہیں اور ہمیں ایک ساتھ رہنا اور ایک دوسرے کے لیے سہارا بننا ہے۔ اس کے لیے حالات کو امریکا کی نگاہ سے دیکھنے اور امریکی مفادات کے چنگل سے نکل کر اپنے اور اپنے برادر ملک کے مفادات کی روشنی میں حالات کی صورت گری کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

ہمیں اس امر کو سمجھ لینا چاہیے کہ امریکا کا کھیل ناکام ہوچکا ہے۔ اب پاکستان اور افغانستان کو مل کر آگ بجھانے اور نئی زندگی کی بساط بچھانے کی فکر کرنا ہے۔ بلاشبہہ آج کا افغانستان بدامنی اور تصادم کی آماج گاہ بنا ہوا ہے اور پاکستان بھی، خصوصاً اس کے شمالی اور مغربی علاقے کے طول و عرض میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے۔ کراچی شہر اور صوبہ بلوچستان بھی اپنے اپنے طور پر دہشت گردی کی گرفت میں ہیں ۔ نو سال سے جاری فوجی اور نیم فوجی آپریشنوں کے باوجود حالات قابو میں نہیں آرہے۔ جس پالیسی کے نتیجے میں گذشتہ نو سال میں امن قائم نہیں ہوا، بھلا اس کو کچھ اور بھی دوآتشہ کرکے کس طرح کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جب خود امریکا اپنی ساری عسکری اور معاشی طاقت اور ٹکنالوجی کی فوقیت کے باوجود ۱۲برس تک آگ اور خون کی بارش کر کے  افغانستان سے ناکام و نامراد واپسی اور پسپائی پر مجبور ہوچکا ہے، تو اس تناظر میں یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ ہم اس ناکام حکمت عملی کے وارث اور ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کے اسیر بن جائیں۔

بلاشبہہ گذشتہ چند دنوں میں ایسے ہولناک واقعات ہوئے ہیں جنھوں نے سب کو ہلاکر رکھ دیا ہے لیکن غصے اور انتقام کے جذبات کے زیراثر ردعمل کبھی مفید نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وقت ٹھنڈے دل سے غوروفکر کرنے اور تمام ضروری پہلوئوں کو سامنے رکھ کر نئی حکمت عملی بنانے کا ہے۔ورنہ اس عاجلانہ قوت آزمائی کے نتائج ان تباہ کن نتائج سے مختلف نہیں ہوسکتے، جو جارج بش اور ان کے حواریوں کے نائن الیون کے موقعے پر جذباتی اور انتقامی ردعمل سے رُونما ہوئے، اور جن کی آگ میں آج تک سب جل رہے ہیں۔

عالمی راے عامہ اور ردعمل

گیلپ انٹرنیشنل نے نائن الیون کے واقعے کے بارے میں امریکی قیادت کے ردعمل کے بارے میں، عالمی راے عامہ کی جو تصویر پیش کی ہے، اسے آج نگاہوں کے سامنے رکھنا ضروری ہے۔ ۱۹ستمبر ۲۰۰۱ء کو اصل واقعے سے صرف آٹھ دن بعد دنیا کے ۲۹ممالک میں سے ۲۷ کی آبادی کی اکثریت نے افغانستان پر فوجی حملے کی مخالفت کی تھی۔ گیلپ رپورٹ کے الفاظ ہیں:

یہ بات دل چسپ ہے کہ ۲۹ ممالک میں سے جن ۲۷ میں یہ عالمی جائزہ گیلپ انٹرنیشنل نے لیا، اکثریت نے فوجی کارروائیوں کی مخالفت کی۔ دو استثنا میں ایک امریکا تھا جہاں ۵۴فی صد لوگوں نے فوجی کارروائیوں کی حمایت کی، اور دوسرا اسرائیل، جہاں ۷۷ فی صد لوگوں نے فوجی کارروائیوں کی حمایت کی۔

واضح رہے کہ امریکامیں بھی ۴۶ فی صد عوام نے اس فوج کشی کی مخالفت کی یا کم از کم تائید نہیں کی۔ پاکستان کی راے عامہ کی جو تصویر اس جائزے میں آتی ہے، وہ پاکستانی عوام کی سیاسی بصیرت کا مظہر ہے۔ صرف ۷ فی صد کی راے تھی کہ پاکستانی حکومت کو امریکی کارروائی کا ساتھ دینا چاہیے، جب کہ ۶۳ فی صد کا فیصلہ یہ تھا کہ اس وقت کی افغانستان حکومت کا ساتھ دیا جائے اور ۲۷فی صد نے غیرجانب دار رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ گویا عملاً ۹۰ فی صد نے امریکا کی اس جنگ سے الگ رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن اس وقت پاکستان کے فوجی حکمرانوں نے ۹۰ فی صد عوام کی راے کو ٹھکرا کر امریکی دبائو کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اور پورے ملک کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا۔  یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت نے اسے کبھی اپنی جنگ نہیں تصور کیا اور آج بھی دہشت گردی کا نشانہ بننے اور ۵۰ہزار سے زیادہ افراد کی قربانی دینے کے باوجود، وہ اسے اپنی جنگ نہیں سمجھتے اور اس سے نکلنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔

پاکستانی عوام کی نگاہ میں امریکا کو نائن الیون کے اصل مجرموں کو قانون اور انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے، بین الاقوامی قانون کے مطابق کارروائی کرنا چاہیے تھی اور اُس وقت کی افغان حکومت ہرممکن تعاون کے لیے تیار بھی تھی۔ لیکن امریکا طاقت کے نشے میں بدمست تھا اور انتقام کی آگ میں دہک رہا تھا۔ اس نے بین الاقوامی قانون اور عالمی راے عامہ، اخلاق اور انصاف، انسانیت اور بُردباری سبھی کچھ کو نظرانداز کرکے فوج کشی کا راستہ اختیار کیا۔ وہ اس زعم میں تھا کہ چند ماہ میں کامیاب و کامران ہوجائے گا۔ امریکی جنگ باز قیادت کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ افغان عوام ایسی مزاحمت کریں گے کہ امریکی اور ناٹو افواج کو ۱۲برس بعد ناکام و نامراد واپس لوٹنا پڑے گا۔ امریکی اور عالمی تجزیہ نگار بہ یک زبان یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ: ’’یہ جنگ غلط تھی‘‘ اور اب امریکا اور اس کے اتحادی جان بچاکر نکل جانے کے لیے سرگرداں ہیں۔

نیویارک ریویو آف بکس کے ۲۴؍اکتوبر ۲۰۱۳ء کے شمارے میں War on Terror  پر ایک اہم کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے میلسی روتھوین لکھتی ہیں کہ: ’’اس کے علاوہ کوئی نتیجہ     نکالنا مشکل ہے کہ امریکا نے ایک غلط جنگ، غلط حکمت عملی سے اور غلط دشمن کے خلاف لڑی۔ صاف ظاہر ہے کہ اس کے نتائج بھی غلط کے علاوہ کچھ اور نہ ہوسکتے تھے‘‘۔

امریکا اور یورپ کے چوٹی کے تجزیہ نگار صاف الفاظ میں لکھ رہے ہیں کہ: ’’امریکا یہ جنگ ہارچکا ہے‘‘ ۔ دسیوں کتابوں اور بیسیوں مضامین میں اس کا اعتراف کیا جارہا ہے کہ: ’’امریکا کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ یا کھلی شکست کا اعتراف کرے یا پھر مذاکرات کے ذریعے کوئی فرار کی راہ نکالے‘‘۔ مثال کے طور پر امریکا کے موقر جریدے فارن افیئرز کے ایک تازہ شمارے (ستمبر،اکتوبر ۲۰۱۳ء) میں جارج واشنگٹن یونی ورسٹی میں علمِ سیاسیات کے پروفیسر اسٹیفن بڈل نے اپنے مضمون ’افغانستان میں جنگ کا خاتمہ‘ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ: ’’شکست یا مذاکرات کے سوا کوئی راستہ نہیں‘‘۔ ساری بحث کا خلاصہ بس یہ ہے کہ:

اس جنگ کے صرف دو حقیقی متبادل ہیں، جن میں سے کوئی بھی خوش گوار نہیں۔ ایک یہ کہ طالبان سے مذاکرات کے بارے میں سنجیدہ ہوجائیں، گو یہ بھی کوئی امرت نہیں لیکن یہ مکمل شکست کا واحد متبادل ہے۔

لندن کے معروف اخبار دی گارڈین نے ۲۳جنوری ۲۰۱۴ء کے اداریے میں کھل کر اعتراف کیا ہے کہ: ’’آج تمام دنیا کے عوام جنگ سے تنگ آگئے ہیں اور جرنیلوں کی مہم جوئی سے نالاں ہیں۔ وقت کی اصل ضرورت یہ ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے جو حکمت عملی اب تک بنائی گئی تھی، اس پر نظرثانی کی جائے اور زمینی حقائق کی روشنی میں سیاسی مسائل کے سیاسی حل کا راستہ اختیار کیا جائے، کیونکہ فوجی حل کہیں بھی کامیاب نہیں ہوسکا۔ عوام جس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں وہ یہ ہے کہ عراق کی جنگ مکمل طور پر ناکام تھی اور افغانستان میں بھی جنگ کا نتیجہ اس سے مختلف  نظر نہیں آتا‘‘۔

برطانیہ کی پالیسیوں پر گرفت کرتے ہوئے اداریے میں صاف لفظوں میں کہا گیا ہے کہ: ’’دونوں محاذ پر برطانیہ نے سخت ٹھوکر کھائی۔ فوجی محاذ پر اس جنگ میں شرکت اور ملکی سلامتی کے محاذ پر ایسے قوانین بنائے جو حقوقِ انسانی پر ضرب کی حیثیت رکھتے تھے‘‘۔(دی گارڈین، ۲۳جنوری ۲۰۱۴ء)

طالبان اور پاکستانی راے عامہ

دراصل ہم اہلِ پاکستان کا مسئلہ بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ عبرت کا مقام یہ ہے کہ امریکا اور برطانیہ میں، جہاں دہشت گردی کے مقابلے کے لیے فوجی آپریشن اور ملک میں سخت قوانین جو انصاف کے مسلّمہ اصولوں اور حقوقِ انسانی کے معروف ضابطوں سے انحراف پر مبنی اقدام کی ناکامی کا کھلم کھلا اعتراف ہیں، وہاں بھی سیاسی حل کے لیے نئے راستے تلاش کیے جارہے ہیں مگر ہم ہیں کہ آنکھیں بند کرکے انھی ناکام پالیسیوں کے اتباع میں مکھی پر مکھی مارنے کو اپنی معراج  سمجھ رہے ہیں۔ حالانکہ خود پاکستان میں عوام کی سوچ بالکل مختلف ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ گیلپ اور PEW کے جو جائزے پاکستان کے عوام کی سوچ کے عکاس ہیں، ان کو بھی مختصراً بیان کردیں، تاکہ ہمارے حکمرانوں کو، اگر وہ بیرونی تجربات اور رجحانات اور خود اپنے ملک کے عوام کے جذبات اور احساسات کا کچھ بھی لحاظ کرنا چاہتے ہیں، تو ان کی روشنی میں، نئی حکمت عملی مرتب کرسکیں۔

۱- گیلپ کے ۱۶ستمبر ۲۰۱۳ء کے سروے کے مطابق پاکستانی عوام کے ۷۱فی صد کی راے میں پاکستان کو امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہرگز تعاون نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ ۲۷فی صد کی راے میں تعاون کرناچاہیے۔ تعاون نہ کرنے والوں کی صوبہ وار پوزیشن یہ ہے:

خیبرپختونخوا:..........۸۹ فی صد

بلوچستان:...............۷۷ فی صد

پنجاب:...................۶۸  فی صد

سندھ :...................۶۶  فی صد

واضح رہے کہ خیبرپختونخوااور بلوچستان زیادہ متاثرہ علاقے ہیں اور وہاں کے ۸۹ فی صد اور ۷۷ فی صد لوگ جنگ سے عدمِ تعاون اور اپنا دامن بچانے کے خواہش مند ہیں۔

۲- چند سال پہلے منعقد ہونے والے عالمی جائزے میں، جسے گیلپ نے Voice of the Peoples Survey 2006 کہا تھا اور جو ۶۳ممالک کے۵۹ہزار افراد کے سروے پر مشتمل تھا، اس میں دنیا کی آبادی کے ۳۶ فی صد لوگوں نے امریکا کی اس جنگ کو ناکام قرار دیا تھا۔

۳- اسی طرح  PEW Survey کے Global Attitude Project میں، جو ۲۷جون ۲۰۱۲ء کو منعقد ہوا تھا، ۷۴ فی صد پاکستانیوں نے امریکا کو ’ایک دشمن‘ ملک قرار دیا تھا۔

۴- PEW  تحقیقاتی مرکز کے Global Attitude Project کی ۳۰جون ۲۰۱۱ء کی رپورٹ Support for Compaign Against Extremist Wanes (انتہاپسندی کے خلاف عسکری کارروائیوں کی تائید میں کمی ) میں راے عامہ کا  یہ چشم کشا فیصلہ پیش کیا گیا ہے، کہ فاٹا میں فوجی آپریشن جو ۲۰۰۷ء میں شروع ہوا تھا، اسے حاصل شدہ عوامی تائید میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ ۲۰۰۹ء میں ’دہشت گردی‘ اور ’انتہاپسندی‘ کے خلاف فوج کے استعمال کی تائید کرنے والوں کی تعداد ۵۳ فی صد تھی، جو ۲۰۱۱ء میں کم ہوکر ۳۷ فی صد رہ گئی ہے۔ رپورٹ کا یہ حصہ ہمارے اہل حل و عقد سے سنجیدہ غوروفکر کا تقاضا کرتا ہے:

شدت پسند گروپوں کے خلاف حکومت پاکستان کی فوجی مہم کی حمایت حالیہ برسوں میں کم ہوگئی ہے۔ صرف ۳۷ فی صد اس کی حمایت کرتے ہیں کہ فاٹا اور خیبرپختونخوا میں شدت پسندوں سے لڑنے کے لیے پاکستانی فوج استعمال کی جائے۔ یہ سطح دو سال قبل  کی سطح سے کافی نیچے ہے، جب دو سال قبل کے ایک ایسے جائزے میں جو کہ سوات میں حکومت اور طالبان کے حامی گروپوں میں تنازعے کے بعد کیا گیا تھا جس میں ۵۳ فی صد نے اس کی حمایت کی تھی کہ ان گروپوں سے فوج لڑے۔

۵- واضح رہے کہ پاکستانی عوام دہشت گردی کو ایک اہم مسئلہ سمجھتے ہیں، لیکن تمام ہی راے عامہ کے سروے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے Threat Perception (اندیشوں پر مبنی خیال) میں امریکا سب سے اُوپر ہے، اور آبادی کا ۷۳ فی صد اسے خطرہ سمجھتا ہے۔ بھارت کو خطرہ سمجھنے والوں کی تعداد ۵۹فی صد ہے، جب کہ طالبان کو خطرہ سمجھنے والوں کی تعداد ۲۳ فی صد ہے۔

۶- گیلپ نے ۱۹۸۰ء سے ۲۰۱۰ء تک کا ۳۰ برس کا ایک جائزہ پاکستان میں جرائم اور خصوصیت سے دہشت گردی کے بارے میں پیش کیا ہے۔ اس میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ عوام کی نگاہ میں دہشت گردی کے اصل ذمہ دار کون ہیں۔عوام کے اندیشے کو سمجھنے کے لیے اس کی حیثیت ایک آئینے کی سی ہے اور کوئی پالیسی ساز ادارہ اس عوامی احساس کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔۱؎

واضح رہے کہ عوام کی نگاہ میں دہشت گردی کی سب سے بڑی ذمہ داری بھارتی اور امریکی خفیہ ایجنسیوں پر ہے، یعنی ۳۲ فی صد اور ۳۱ فی صد۔ گویا ۶۳فی صد کی نگاہ میں اس بدامنی، تشدد اور دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ سب سے اہم عامل ہے، خواہ اس کا ذریعہ کوئی بھی ہو۔ 

1- 30 years of Polling on Crimes, Violence, Terrorism, and Social Evils  (1980-2010): Perceptions and Fears of Pakistan's Public, Gallup, January 6, 2011, p 46.

دہشت گردوںکو براہِ راست ذمہ دار ٹھیرانے والے ۲۶ فی صد ہیں۔ ۲۰۰۹ء میں طالبان کا نام لینے والے صرف ایک فی صد تھے۔ بعد کے متعدد جائزوں میں اس اندازمیں سوال نہیں پوچھا گیا، تاہم ’گیلپ‘ اور ’پیو‘ (PEW) دونوں ہی کے جائزوں میں طالبان کی تائید میں نمایاں کمی آئی ہے اور طالبان کی کارروائیوں کی مذمت کرنے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ’پیو‘ کے ۲۰۱۱ء کے   سروے میں ۲۳ فی صد نے طالبان سے خطرہ محسوس کیا اور اور گیلپ کے ایک سروے کے مطابق دسمبر ۲۰۰۹ء میں طالبان کے حوالے سے منفی تصور ۷۲ فی صد تک بڑھ گیا۔ عام انسانوں کی ہلاکت اور مساجد، امام بارگاہوں، بازاروں، اسکولوں اور مدرسوں پر حملوں کے ردعمل میں طالبان کے بارے میں منفی رجحان میںاضافہ ہوا ہے۔ البتہ گیلپ کے سروے کی روشنی میں دہشت گردی کے متعین واقعات کے بارے میں، طالبان یا ان کے نام پر ذمہ داری قبول کیے جانے کے اعلانات کے باوجو د عوام کا تصور بڑا چشم کشا ہے۔ مثلاً پشاور/بنوں کے ۲۰۰۹ء کے دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری کے سلسلے میں عوام کا ردعمل یہ تھا:

۱- یہ واقعات انتہاپسندوں کے خلاف کارروائی کا ردعمل ہیں......۴۴ فی صد

۲- ان واقعات میں غیرملکی ایجنسیاں ملوث ہیں.....................۴۲ فی صد

۳- معلوم نہیں..................................................۱۴ فی صد

واضح رہے یہ دونوں واقعات خودکش حملوں کا نتیجہ تھے۔

اسی طرح ۲۰۰۹ء میں راولپنڈی جی ایچ کیو (پاکستانی مسلح افواج کے مرکز) پر کیے جانے والے حملے کے بارے میں کہ ذمہ دار کون ہے؟ عوامی راے یہ تھی:

بھارت:...............۱۹ فی صد

طالبان:...............۲۵ فی صد

امریکا:...............۱۶ فی صد

فارن ایجنسی:........۲۷ فی صد

لوکل ایجنسی:........۲ فی صد

سیاسی جماعتیں:.....ایک فی صد

ہم نے یہ چند مثالیں عوامی جذبات، احساسات اور ان کی سوچ کے رُخ کو سمجھنے کے لیے دی ہیں۔ مزید تفصیل ان جائزوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔

۷- عوام کے ذہن کو سمجھنے کے لیے ایک سروے کی طرف مزید اشارہ کرنا ضروری ہے۔   یہ گیلپ کا سروے ہے جو دسمبر ۲۰۱۳ء میں امیرجماعت سیّدمنور حسن صاحب اور مولانا فضل الرحمن صاحب کی جانب سے بیت اللہ محسود کے امریکی ڈرون کا نشانہ بنائے جانے کے واقعے پر ردعمل سے متعلق تھا۔

سوال: ’’حال ہی میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سیّدمنورحسن اور مولانا فضل الرحمن نے کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دیا ہے۔ آپ اس بیان کی کس حد تک حمایت یا مخالفت کرتے ہیں؟‘‘

بہت زیادہ حمایت:........۱۴ فی صد

بہت زیادہ مخالفت:.......۲۹ فی صد

کسی حد تک حمایت:.....۲۵   فی صد

کسی حد تک مخالفت:....۲۹   فی صد

مجموعی حمایت:.........۳۹   فی صد

مجموعی مخالفت:........۵۸   فی صد

معلوم نہیں:............۱۰    فی صد

قابلِ غور بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور جمعیت علماے اسلام (ف) کو مجموعی طور پر ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں ۵ فی صد ووٹ ملے اور دونوں قائدین کے بیانات کے بعد میڈیا پر ان کے مخالفین نے ایک طوفان برپا کردیا تھا، لیکن آبادی کے تقریباً ۴۰ فی صد نے ان کی راے سے اتفاق کا اظہار کیا، جو عوام کی سوچ کا غماز ہے۔(گیلپ انٹرنیشنل، ۹دسمبر ۲۰۱۳ء)

یہاں مقصد کسی قانونی، فقہی یا سیاسی پہلو کو زیربحث لانا نہیں ہے، صرف توجہ کو اس طرف مبذول کرانا ہے کہ ملک کے عوام طالبان اور طالبان کے نام پر جو کچھ کیا یا کہا جارہا ہے اسے    اس کے ظاہری خدوخال پر نہیں لیتے، بلکہ پورے مسئلے، یعنی دہشت گردی اور اس میں امریکا کے کردار کے پس منظر میں دیکھتے ہیں۔ ان دو عالمی جائزوں سے مختلف پہلوئوں کو سامنے لانے سے ہمارا مقصد اصل مسئلے اور اس کے جملہ پہلوئوں کی طرف توجہ کو مبذول کرانا ہے۔

نئی حکمت عملی کے رہنما خطوط

ان معروضات کی روشنی میں، پالیسی سازی کے لیے چند نہایت اہم پہلو سامنے آتے ہیں، جن کی ہم نشان دہی کرنا چاہتے ہیں:

۱- پالیسی سازی میں اصل اہمیت ملک اور قوم کے مقاصد، اس کے مفادات اور اس کے عوام کی سوچ، خواہش اور عزائم کی ہونی چاہیے۔ جو پالیسی بیرونی دبائو یا گروہی اور کسی خاص اداراتی سوچ، عصبیت یا جذبات کی روشنی میں بنائی جائے گی، وہ مفید اور مناسب نہیں ہوگی۔

۲- اصل مسئلہ امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ‘ ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کے مسئلے کا اس سے گہرا تعلق ہے۔ بلاشبہہ دوسری انواع کی دہشت گردیاں بھی ہیں اور ان کے لیے بھی مؤثر حکمت عملی اور پروگرام درکار ہیں، لیکن مرکزی اہمیت بہرحال امریکا کی اس جنگ اور اس میں ہمارے کردار سے منسوب ہے۔ طالبان کیا مطالبہ کر رہے ہیں اس سے قطع نظر، پاکستانی قوم کا اس جنگ کے بارے میں ایک واضح تصور ہے اور ہمارے پالیسی ساز اداروں کو اصل اہمیت عوام کی اس راے کو دینا چاہیے۔

پاکستانی عوام اس جنگ کو ہرگز جاری نہیں رکھنا چاہتے۔ وہ پاکستان کو امریکا کی اس جنگ سے نکالنے اور ایک آزاد خارجہ پالیسی بنانے کے حق میں ہیں۔ مئی ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں انھوں نے اُن جماعتوں کو رد کردیا، جو اس جنگ میں پاکستان کی شرکت کی ذمہ دار تھیں اور ان جماعتوں کو اعتماد کا ووٹ دیا جو آزاد خارجہ پالیسی کی داعی اور اس جنگ سے نکلنے اور مسائل کے سیاسی حل کی خواہش مند تھیں۔ عوام کا یہ موقف ۲۰۰۱ء سے واضح تسلسل رکھتا ہے۔

۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتیجے میں جو پارلیمنٹ بنی تھی، اس نے بھی عوام کے ان جذبات کو تسلیم کیا تھا اور ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کی متفقہ قرارداد میں آزاد خارجہ پالیسی، دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے بارے میں نظرثانی، مسائل کے سیاسی حل اور مذاکرات، ترقی اور ردِ جارحیت (deterrance) کے سہ نکاتی فارمولے کا واشگاف اظہار کیا تھا۔ پھر اپریل ۲۰۰۹ء میں پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی نے بھی، جس میں تمام جماعتوں کو نمایندگی حاصل تھی، مکمل اتفاق راے کے ۵۵نکات پر مشتمل ایک واضح پروگرام قوم اور پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا تھا۔ اسی طرح پارلیمنٹ نے ایک بار پھر ۱۴مئی ۲۰۱۱ء کی قرارداد میں اس پالیسی کا اظہار کیا تھا اور ۹ستمبر ۲۰۱۳ء کی کُل جماعتی کانفرنس میں مذاکرات کو اولین ترجیح دے کر موجودہ پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں نے اس پالیسی کی توثیق کی تھی۔

اصل مسئلہ پالیسی کے اہداف اور مقاصد کے بارے میں ابہام کا نہیں ہے، حکومت اور  اس کے اداروں کی طرف سے قومی پالیسی پر عمل نہ کرنے کا ہے۔

۳- پاکستان میں پائی جانے والی دہشت گردی کی کم از کم پانچ بڑی شکلیں ہیں جن میں  ہر ایک کی نوعیت، اسباب اور اہداف کو سمجھنا اور ان کی روشنی میں اس کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی بنانا ضروری ہے:

  • پہلی اور سب سے اہم شکل وہ ہے جس کا تعلق امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘، افغانستان پر فوج کشی، افغانستان میں امریکی استعمار کی مزاحمت، اور پاکستان کے اس جنگ میں امریکا کے حلیف اور مددگار بننے سے رُونما ہوئی ہے۔ جس وقت تک پاکستان نے امریکا کے دبائو میں عملاً اپنی فوج کو اس جنگ میں نہیں جھونکا تھا، پاکستان کی سرزمین پر اس راستے سے دہشت گردی نہ ہونے کے برابر تھی۔ لیکن جب ہماری فوج کو اس میں جھونک دیا گیا، تو افسوس ناک ردعمل بھی رُونما ہوا، جو بڑھتے بڑھتے خود ایک فتنہ بن گیا۔ خودکش بمبار بھی اس کا ایک آلۂ کار بن گئے۔ باجوڑ اور اسلام آباد میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ بھی اس خونیں سلسلے کے سنگ میل بن گئے۔ پھر مسجد اور مدرسہ، سرکاری دفاتر اور افواج کے مورچے، حتیٰ کہ بازار اور گھربار سب نشانہ بننے لگے اور معصوم انسانوں کا لہو ارزاں ہوکر بہنے لگا۔ بچے، عورتیں، مسافر، مریض، کوئی بھی اس خون آشامی کی زد سے نہ بچ سکا۔ شریعت، قانون، اخلاق، روایات کون سی حد ہے جو اس میں پامال نہیں کی گئی اور بدقسمتی سے ہرفریق کی طرف سے یہ ظلم روا رکھا گیا۔ معصوم انسانوں کی ہلاکت اور قومی وسائل کی تباہی، جس کے ہاتھوں بھی ہوئی، قابلِ مذمت ہے۔ لیکن انتقام در انتقام مسئلے کا حل نہیں، بلکہ بگاڑ کا راستہ ہے۔ اس لیے لفظی نزاکتوں اور عملی کوتاہیوں  کو نظرانداز کرتے ہوئے ،ملک کے وسیع تر مفاد میں مسئلے کے سیاسی حل کی تلاش ہی اس عذاب سے نکلنے کا راستہ ہے۔ دنیا میں ایسے معاملات کا فوجی حل نہ کبھی پہلے ہوا ہے اور نہ آج ہوسکتا ہے۔ امریکا خود افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کی راہیں تلاش کررہا ہے اور اب تو ان کے اپنے مقرر کردہ افغان صدر حامد کرزئی تک نے بھی  کہہ دیا ہے کہ: ’’امریکا طالبان سے مذاکرات کرے اور پاکستان اس کی معاونت کرے، اس کے بغیر افغانستان میں امن نہیں آسکتا‘‘۔ برسرِ جنگ عناصر ہی کے درمیان مذاکرات سے امن کی راہیں نکلتی ہیں۔ اس سلسلے میں سطحی جذباتیت حالات کو بگاڑ تو سکتی ہے، اصلاح کی طرف نہیں لاسکتی۔
  • دہشت گردی کی دوسری بڑی شکل فرقہ واریت کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ یہ نائن الیون سے بہت پہلے سے موجود ہے اور بدقسمتی سے اس میں مقامی عناصر کے ساتھ بیرونی ہاتھ بلکہ حکومتیں بھی ملوث رہی ہیں۔ الحمدللہ، عوامی سطح پر کوئی نفرت اور تصادم نہیں ہے، لیکن مخصوص عناصر بڑے ہولناک انداز میں یہ آگ بھڑکانے اور معصوم انسانوں کو نشانہ بنانے کا گھنائونا خونیں کھیل کھیل رہے ہیں۔ یہاں بھی مذاکرات، افہام و تفہیم، تعلیم و تلقین کا ایک اہم کردار ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایک مجرمانہ سرگرمی ہے، جس پر آہنی ہاتھوں سے قابو پانا ضروری ہے۔ تمام مذہبی فرقوں کے معتبر اور مقتدر افراد کو مل کر اس فتنے کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور معلومات فراہم کرنے والی مددگار ایجنسیوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ نیز جو بھی بیرونی قوتیں ملوث ہیں ان پر مؤثر گرفت اور تادیبی کارروائی ہونی چاہیے۔
  • دہشت گردی کی تیسری شکل کا تعلق ان قوتوں سے ہے، جو علیحدگی پسندی کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ ان کے بارے میں بھی ہماری سوچی سمجھی راے یہ ہے کہ محض قوت کے استعمال سے ان رجحانات کا مقابلہ ممکن نہیں ہے۔ جہاں بھی مذاکرات اور سیاسی حل کی ضرورت ہے، وہاں حقیقی مشکلات اور محرومیوں کو دُور کیا جانا چاہیے۔ یہ محرومیاں محض معاشی ہی نہیں، سیاسی بھی ہیں اور خصوصیت سے سیاسی عمل میں صحیح مقام نہ ملنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کا سیاسی حل ضروری ہے۔ البتہ جو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لے یا معصوم انسانوں پر ظلم کرے اور ان کے جان و مال پر حملہ کرے، اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ لیکن یہ کارروائی ردِ جارحیت (deterrance) کی نوعیت کی ہونی چاہیے اور جرم پر قانون کے مطابق گرفت کی شکل میں بھی۔
  • سیاسی میدان میں دہشت گردی کی ایک اور قبیح شکل وہ ہے، جو چند سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ کی شکل میں پائی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے اس بدترین منظرنامے کا اصل گہوارا کراچی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلے میں نام لے کر بتادیا ہے کہ کون کس کس شکل میں یہ گھنائونا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ دستورِ پاکستان کی واضح خلاف ورزی ہے اور محض سیاسی مفاہمت کے لالچ میں  نہ صرف یہ کہ اسے برداشت کیا گیا ہے، بلکہ فروغ دیا گیا ہے اور فروغ دیا جارہا ہے۔ آج بھی روزانہ اعلان ہوتا ہے کہ اتنے ٹارگٹ کلر پکڑے گئے ہیں، جن کا ایک سیاسی جماعت سے تعلق ہے، لیکن نہ اس جماعت کا نام لیا جاتا ہے اور نہ اس کے خلاف دستور اور قانون کے مطابق معاملہ کیا جاتا ہے۔ یہ وہ میدان ہے جہاں مذاکرات نہیں قانون کے مطابق کارروائی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، اور یہی وہ مقام ہے جہاں سب سے زیادہ منافقت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
  • دہشت گردی کا پانچواں میدان وہ ہے، جس کی کوئی سیاسی بنیاد نہیں ہے، بلکہ وہ    کھلے کھلے جرم کی قبیل میں آتی ہے۔ لینڈمافیا، بھتہ مافیا، ڈرگ مافیا، اغوا براے تاوان، گلی محلے کے جرائم وغیرہ، یہ سب اسی زمرے میں آتے ہیں اور ان کا مقابلہ بھی قانون کی آہنی گرفت سے کیا جانا چاہیے۔ اس نوعیت کی دہشت گردی کے لیے فوجی آپریشن کی ضرورت نہیں۔ یہ پولیس کی ذمہ داری ہے، اور پولیس مؤثرانداز میں اس کا سدباب کرسکتی ہے، بشرطیکہ پولیس کو سیاست بازی سے پاک رکھا جائے، اسے ضروری وسائل فراہم کیے جائیں۔ مناسب تربیت ہو اور وہ دستور اور قانون کے مطابق آزادانہ طور پر اپنے فرائض انجام دے سکے۔ پولیس کو سیاسی دبائو کی آلایشوں سے پاک کرکے اس میں پیشہ ورانہ کمال  پیدا کرنے کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ضرورت ہو تو وقتی طور پر دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی دستور کے تحت مدد لی جاسکتی ہے، لیکن مستقل حل پولیس کی اصلاح، تربیت، وسائل کی فراہمی اور نگرانی کا مؤثر انتظام ہے۔

یہاں اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ ان جرائم کی قوتِ محرکہ اور مددگار عامل دراصل اس غیرقانونی اسلحے کی فراوانی ہے، جس نے پورے ملک کو لاقانونیت اور دھونس کی آگ میں دھکیل رکھا ہے۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ گذشتہ ۱۲برسوں کے دوران اس خودکار اور آتشیں اسلحے کو ضبط کرنے کے بیانات تو ضرور نظرنواز ہوتے رہے ہیں، مگر اس سمت میں ایک قدم بھی بامعنی طور پر نہیں اُٹھایا جاسکا۔ اور یہ سب شاخسانہ ہے، سیاسی پشت پناہی اور فیصلوں پر عمل کرنے سے راہِ فرار اختیار کرنے کا۔ اس لیے حکومت اور انتظامیہ کو اس عفریت پر قابو پانا چاہیے ورنہ یہ تمام دعوے اور اقدامات خواب و خیال ہی رہیں گے۔

۴-  فوجی آپریشن کے بارے میں ہم بہت صاف الفاظ میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ    فوج ملک کی سرحدوں کے دفاع کے لیے ہے۔ ملک میں امن و امان کا قیام بنیادی طور پر پولیس کی ذمہ داری ہے، اور اس فرق کو سختی سے ملحوظ رکھنا لازم ہے۔ فوج کی تربیت ایک خاص انداز میں ہوتی ہے اور اسے امن و امان کے قیام کے کاموں میں اُلجھانا اس کی پیشہ ورانہ صلاحیت کو متاثر کرتا ہے اور سول نظام کے ارتقا کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ غیرمعمولی حالات میں وقتی طور پر دستور میں فوج کے استعمال کی گنجایش موجود ہے، لیکن وہ مخصوص حالات تک محدود ہے اور اسے معمول بنادینا پورے نظام کو تباہ کرنے کا باعث ہوسکتا ہے۔

پھر پاکستان کی تاریخ میں فوجی حکمرانی کے جو تلخ تجربات رہے ہیں، اس کی روشنی میں تو یہ ہرگز قرین حکمت نہیں کہ فوج کو ان معاملات میں اُلجھایا جائے۔ فاٹا اور سوات میں جو کام فوج کو سونپا گیا، وہ اس غلط حکمت عملی کا حصہ تھا، جس پر مشرف دور سے عمل ہورہا ہے۔ سوات میں فوج پانچ سال سے موجود ہے اور اب تک سول نظام وہاں ذمہ داری اُٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے، حالانکہ یہ کام زیادہ سے زیادہ ایک دو سال ہی میں ہوجانا چاہیے تھا۔ شمالی علاقہ جات کا معاملہ   اس سے بھی نازک ہے۔ وہاں کی اپنی تاریخ اور روایات ہیں۔ ان کو نظرانداز کرکے جو انتظام قائم کیا گیا ہے، وہ چلنے والا نہیں ہے۔ بندوق اور ایف-۱۶ کی بم باری سے امن قائم نہیں ہوسکتا اور نہ کلاشنکوف یا خودکش بمباری سے شریعت کا نفاذ ہوسکتا ہے۔

 ہم صاف الفاظ میں متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ان علاقوں میں فوج کا اقتدار قائم ہوتا ہے تو اسے کوئی چیز دوام سے نہ روک سکے گی۔ الجزائر اور مصر کا تجربہ ہمارے سامنے ہے۔ جب فوج کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا یا اسے یہ کردار ادا کرنے دیا جائے گا تو پھر اقتدار پر  اسے بُراجمان ہونے سے روکنا ممکن نہیں رہتا۔ ہمیں اس خطرناک کھیل سے مکمل طور پر اجتناب کرنا چاہیے۔

ان علاقوں میں امن اس وقت قائم ہوسکتا ہے اور قائم رہ سکتا ہے، جب ہم اس پالیسی کو بحال کریں جو قائداعظم نے ۱۹۴۸ء میں اختیار کی تھی اور جس کی بدولت ۵۰برس تک کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا تھا۔ ہاں، جو غلطی ہم نے کی، وہ یہ تھی کہ اس کے تقاضوں کو پورا نہ کیا اور سیاسی ارتقا کا جو عمل ۱۹۴۸ء کے بعد شروع ہوجانا چاہیے تھا، وہ دستورسازی کے باوجود شروع نہ ہوا کہ ہماری قیادتوں نے دستور کے عمل دخل سے پورے شمالی علاقہ جات کو باہر قرار دے دیا۔ انگریز کے سامراجی دور کے فرنٹیر کرائمز ریگولیشن کے ذریعے وہاں حکمرانی ہوتی رہی اور وہاں کے روایتی نظام کو جو مَلک، جرگہ اور پولیٹیکل ایجنٹ پر مشتمل تھا، باقی ملک کے نظام سے مربوط نہ کیا گیا۔ اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ بلاتاخیر شمالی علاقہ جات کو اس کے تاریخی نظام اور روایات کی روشنی میں باقی ملک کے نظام سے پیوست کیا جائے۔ پاکستان کے دستور اور عدالتی نظام کا وہاں پورا پورا اطلاق ہو۔

اس علاقے کو وہاں کے لوگوں کے مشورے سے یا صوبہ خیبرپختونخوا میں شامل کیا جائے، جیساکہ FATA کے سلسلے میں کیا جاچکا ہے، یا پھر ان کو ایک صوبے کی حیثیت دی جائے اور وہ پاکستان کی تعمیروترقی میں اپنا پورا کردار ادا کرسکیں۔ جو مضحکہ خیز صورت اس وقت پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں تو وہ نمایندگی رکھتے ہیں، مگر اسمبلی اور سینیٹ کو ان کے علاقے کے بارے میں کوئی اختیار نہیں، یہ دو رنگی ختم ہونا چاہیے۔ اس بنیادی تبدیلی کے نتیجے میں بہت سی وہ خباثتیں آپ ختم ہوجائیں گی، جو خرابی کا باعث ہیں اور سیاسی، معاشی ، سماجی اور تعلیمی ترقی کا وہ عمل بھی مؤثر ہوسکے گا، جو اس وقت ٹھٹھرا ہوا ہے۔

شمالی علاقہ جات کے مستقبل کا انحصار اس بنیادی تبدیلی پر ہے۔ آگاہ رہنا چاہیے کہ  فوجی آپریشن حالات کو بگاڑ تو سکتا ہے مگر اصلاح کی راہیں استوار نہیں کرسکتا۔ اس لیے ہم حکومت  پاکستان کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ ملک اور فوج دونوں کو کسی نئی تباہی سے دوچار کرنے سے مکمل طور پر احتراز کرے اور اصلاحِ احوال کے لیے وہ راستہ اختیار کرے، جو عوام کی خواہشات کے مطابق ہو اور جو قائداعظم کے وژن اور ان کے دکھائے ہوئے راستے کا تسلسل ہو۔

ہم اپنی معروضات کو ختم کرنے سے پہلے ملک کی تمام سیاسی اور دینی جماعتوں سے درخواست کرنا چاہتے ہیں کہ وہ حالات کی سنگینی کو محسوس کریں اور ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے مثبت کردار ادا کریں۔ ہم خصوصیت سے تمام مکاتب ِ فکر کسے علماے کرام سے درخواست کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بھی اپنا دینی، اخلاقی اور سماجی اثرورسوخ استعمال کریں اور افہام و تفہیم کے ذریعے معاملات کو حل کرنے میں سرگرم حصہ لیں۔ نیز ہم طالبان کے تمام ہی گروپوں سے اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ایسی تمام سرگرمیوں کو سختی سے روکیں، جن کے نتیجے میں معصوم انسانوں کا خون    بہہ رہا ہے، ظلم اور فساد رُونما ہورہا ہے، ملک و ملت کے وسائل تباہ ہورہے ہیں اور اسلام کے   روشن چہرے پر بدنما داغ لگ رہے ہیں۔

اسلام رحمت اور عدل و انصاف کا دین ہے۔ تمام انسانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاطت کا ضامن ہے۔ اسلام کے مفاد اور شریعت کی بالادستی کا وہی طریقہ معتبر اور محترم ہے، جو    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا ہے، اور جس کے اتباع کا انھوں نے ہمیں حکم دیا ہے۔ ہرمسلمان ہی نہیں، ہر انسان محترم ہے، جیساکہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ (بنی اسرائیل ۱۷:۷۰)۔ اسلام انسانوں کو جوڑنے کے لیے آیا ہے، ان کو بانٹنے اور کاٹنے کے لیے نہیں    ؎

تو براے وصل کردن آمدی

نے برائے فصل کردن آمدی

آیئے! سب مل کر اس ملک کی تعمیر، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منشا کے مطابق کریں۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے یہ ملک قائم ہوا تھا اور یہی منزل دستور میں اس    کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ جو بھی کوتاہی ہمارے عمل میں رہی ہے، اسے مل جل کر مشاورت سے  دُور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور دوسری طرف    ایک دوسرے کا سہارا بن کر اسلامی شریعت کے نفاذ اور دستور پر مکمل عمل کے لیے سردھڑ کی بازی لگادیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صبروحکمت کے ساتھ انصاف، ترقی اور خدمت کی راہوں پر چلنے کی توفیق  عطا فرمائے اور تصادم کی راہ سے محفوظ و مامون رکھے، آمین!

قرآنِ پاک نے ایک جانب انسانی جان کی حُرمت کا حکم دیا ہے، تو دوسری جانب جائز طور پر جان لینے کے بارے میں عدل اور قصاص کی شرط کو ایک ابدی اصول کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہی وہ اصل الاصول ہے جس کی بنیاد پر انسانی معاشرے میں جان کا تحفظ اور امن و آشتی کا قیام ممکن ہے:

مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط وَ مَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ط (المائدہ ۵:۳۲)   جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا، کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی، اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخشی۔

اس آیت مبارکہ سے انسانی زندگی کے کم از کم تین بنیادی اصول سامنے آتے ہیں

اوّل:انسانی جان سب سے محترم شے ہے۔ زندگی اللہ کی دی ہوئی ہے۔ اللہ کی دی ہوئی مہلت میں زندہ رہنے کا حق تمام انسانوں کو حاصل ہے، اِ ّلا یہ کہ وہ خونِ ناحق کے مرتکب ہوں یا زمین پر فساد پھیلانے کا ذریعہ بن کر دوسروں کے لیے جینا محال کردیں۔ اگر ایسی صورت پیدا ہوجائے تو وہ اپنے زندہ رہنے کے حق سے اپنے کو محروم کرلیں گے۔ لیکن سزا کا یہ نظام قانون اور عدل کے مسلّمہ طریقے کے مطابق ہوگا ورنہ فساد فی الارض کا موجب ہوگا۔

دوم:بات خواہ ایک ہی فرد کی زندگی کی حفاظت یا قانون کے مطابق کی ہو، لیکن ہرفرد کی زندگی اتنی اہم ہے، جتنی پوری انسانیت کی زندگی۔ اگر ایک جان بھی ناحق جاتی ہے اور اس کا صحیح احتساب نہیں ہوتا تو پھر کسی کی زندگی بھی محفوظ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے اور اپنے نتائج اور عواقب کے اعتبار سے یہ ایک چشم کشا حقیقت ہے۔

سوم:اس میں ایک لطیف اشارہ یہ بھی موجود ہے کہ بات صرف قتلِ ناحق پر ختم نہیں کردی گئی، بلکہ ایک جان کو بچانے اور زندگی دینے کا بھی اس آیت میں ذکر کردیا گیا ہے، تاکہ یہ پیغام بھی مل جائے کہ قتلِ ناحق پر خاموش نہ رہو۔ مراد یہ ہے کہ ایک معصوم کی جان بچانا بھی پوری انسانیت کو زندگی دینے کے مترادف ہے اورجان کی حفاظت اور شریعت کے احکام اور ضابطوں کے مطابق قصاص بھی ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان کو جہاں ناحق خون بہانے سے روکا گیا ہے، وہیں خونِ ناحق سے انسانوں کو بچانے کی ترغیب بھی دی گئی ہے، تاکہ زندگی کا سفر رواں دواں رہ سکے۔

اس آیت ِ مبارکہ کی روشنی میں ہرمسلمان کو اپنا احتساب کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ آج دنیا میں، اور خصوصیت سے خود مسلم دنیا میں جس طرح معصوم انسانوں کا خون ارزاں ہوگیا ہے،  اس سے کیسے نجات پائی جائے۔

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنما جناب عبدالقادر مُلّا کو محض سیاسی انتقام کے  جنون میں جس طرح شہید کیا گیا ہے، وہ عدالتی قتل کی بدترین مثال ہے جس نے ہردردمند آنکھ کو اَشک بار کردیا ہے۔ اسلامی دنیا کے طول و عرض میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور بنگلہ دیش کو سیاسی خلفشار اور تصادم کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔ ان سطور کی تحریر تک سال ۲۰۱۳ء کے دوران میں ۴۰۰سے زیادہ افراد صرف ان جعلی مقدمات کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے جان کی بازی ہارچکے ہیں اور صرف پچھلے دو مہینوں میں حسینہ واجد کی گولیوں کا نشانہ بننے والوں کی تعداد ۱۱۵ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے، جس کے تھمنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔

ان حالات میں اُمت مسلمہ اور انسانیت کے تمام بہی خواہوں کا فرض ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکنے کے لیے ہرممکن تدابیر کریں اور اپنے ایک برادر ملک کو تباہی کی طرف بگ ٹٹ دوڑنے سے روکیں کہ دوستی اور بہی خواہی کا یہی تقاضا ہے۔ اس سلسلے میں مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے کے اہم پہلوئوں کو اچھی طرح سمجھ لیاجائے اور حالات کے معروضی تجزیے کی روشنی میں پالیسی اور حکمت عملی کے خطوطِ کار مرتب کیے جائیں۔

بنگلہ دیش جنگی جرائم کا ٹربیونل

۱۹۷۱ء میں پاکستان کیوں دولخت ہوا؟ اور بنگلہ دیش کن حالات میں اور کن وجوہ سے وجود میں آیا؟ یہ ہماری تاریخ کا ایک الم ناک باب ہے اور اس پر سنجیدگی اور دیانت سے غور کرنے اور اس سے سبق سیکھنے کی اپنی جگہ بے حد اہمیت ہے۔ البتہ اب یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ سب نے کھلے دل کے ساتھ اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ بنگلہ دیش ہمارا ایک آزاد اور خودمختار برادر ملک ہے اور اہلِ پاکستان دل کی گہرائیوں سے اس کی ترقی اور سلامتی کے طالب ہیں۔

فروری ۱۹۷۴ء میں ماضی کے تلخ باب کو بند کر کے پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں نے   بہتر مستقبل کی تعمیر اور باہمی تعاون کا عزم کیا تھا اور اس راہ پر گامزن بھی ہوئے تھے، لیکن اچانک بنگلہ دیش کی عوامی لیگ کی قیادت نے ۲۰۱۰ء میں ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے نام پر ایک نام نہاد  بین الاقوامی ٹربیونل بنا کر، اپوزیشن کی جماعتوں ، خصوصیت سے جماعت اسلامی اور ایک حد تک  بی این پی (بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی)کو نشانہ بنایا ہے اور سیاسی انتقام اور ریاستی دہشت گردی کا ایک خطرناک کھیل شروع کردیا ہے۔ خود بنگلہ دیش میں قوم کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے اور بھائی بھائی کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کردیا گیا ہے۔ ریاست کی قوت کو سیاسی مخالفین کے خلاف بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ سرکاری میڈیاسے ایک خاص نقطۂ نظر کو ذہنوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور جھوٹے مقدمات کے ذریعے جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی قیادت کو ہدف بنایا جارہا ہے۔

یہ سلسلہ ۲۰۰۹ء میں دستور اور قانون میں ترامیم کے ذریعے شروع ہوا۔ پھر ۲۰۱۰ء میں ایک نام نہاد انٹرنیشنل کرائم ٹربیونل قائم کیا گیا اور ۲۰۱۱ء میں گرفتاریاں اور مقدمات شروع ہوگئے جن کے ذریعے اب تک سات افراد، یعنی: علامہ دلاور حسین سعیدی، ابوالکلام آزاد،محمدقمرالزمان،   علی احسن مجاہد، صلاح الدین قادر، معین الدین، اشرف الزماں کو سزاے موت، پروفیسر غلام اعظم کو عمرقید اور عبدالقادر مُلّا کو پہلے عمرقید اور پھر کھلے کھلے سیاسی دبائو کے ڈرامے کے بعد سزاے موت کا اعلان کیا گیا۔ اسی طرح بی این پی کے عبدالعلیم کو عمرقید سنائی اور مزید دو درجن افراد پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔

اس سلسلے نے۱۳دسمبر ۲۰۱۳ء کو ایک خطرناک شکل اختیار کرلی جب آخرالذکر، یعنی جناب عبدالقادر مُلّا کو عملاً سولی پر چڑھا کر حسینہ واجد کی بھارت نواز حکومت نے عدالتی قتل سے اپنے ہاتھ خون آلود کرلیے۔ اس لیے اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بنیادی مسئلہ پاکستان پر الزام تراشی اور حقوقِ انسانی کی پامالی، بنگلہ دیش کی موجودہ قیادت کا غیرآئینی، غیرقانونی اور غیراخلاقی اقدام ہے، جن کی وجہ سے برادر مسلم ملک بنگلہ دیش بحران کا شکار ہے۔ سیاسی عمل درہم برہم ہے، معیشت پر بُرے اثرات پڑ رہے ہیں اور ملک کا آئینی نظام نئے خطرات سے دوچار ہوگیا ہے۔   یہ حکومت ملک کی اسلامی قوتوں کو نشانہ بناکر اپنی سیاسی ناکامیوں پر پردہ ڈالتے ہوئے ایک ہیجانی فضا ہموار کرنا چاہ رہی ہے۔

ملک اور ملک سے باہر اس صورت حال پر شدید احتجاج ہو رہا ہے۔ انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز،  ماضی میں عوامی لیگ کی حکومت کی جائز اور ناجائز تائید ہی کرتا رہا ہے، مگر اب اس نے اپنے دو ادارتی کالموں میں بنگلہ دیش کے سیاسی بحران کو حکومت کی پے درپے غلطیوں کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ ان مذکورہ مقدمات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی مذمت کی ہے۔ جنگی جرائم کے مقدمات کی اصولی تائید کرنے کے باوجود، ان میں عدل و انصاف کے تقاضوں کو جس طرح پامال کیا گیا ہے اور ثبوت اور معروف عدالتی طریق کار کے بغیر جس طرح لوگوں کو  پھانسی اور عمرقید کی سزائیں دی جارہی ہیں، ان پر مذکورہ اخبار نے شدید گرفت کی ہے۔ اپنے ۲۰نومبر ۲۰۱۳ء کے اداریے میں اس نے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ:’’لگتا ہے کہ بیگم حسینہ یہ عزم کیے ہوئے ہیں کہ جنوری [۲۰۱۴ء] میں ہونے والے انتخابات سے پہلے اقتدار سے چمٹی رہیں، اور  جن ذرائع سے بھی ضرورت ہو اپنے مخالفین کو بے اثر کریں‘‘۔

ان نام نہاد بین الاقوامی جرائم کے ٹربیونل کے بارے میں اخبار لکھتا ہے:’’مقدمے نے حزبِ اختلاف کے لیڈروں کو ہدف بنایا اور یہ دوسرا حربہ ہے جس کے ذریعے سیاسی مخالفوں کی آواز کا گلا گھونٹا جا رہا ہے‘‘۔

نیویارک ٹائمز نے نشان دہی کی ہے کہ بنگلہ دیش کے سیاسی بحران سے نکلنے کا راستہ حسب ذیل تین نکات پر مشتمل ہے:

  1. عدلیہ کی آزادی کی بحالی اور اس کے سیاسی استعمال سے گریز۔
  2. انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا خاتمہ اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی گرفتاریوں اور تعذیب کا خاتمہ۔
  3. تمام سیاسی قوتوں بشمول حزبِ اختلاف کے مشورے سے ایک حقیقی، غیر جانب دار عبوری حکومت کا قیام جس پر سب کا اعتماد ہو اور جو جنوری ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات کا اہتمام کرائے۔

اصل ایشو یہ نہیں ہے کہ بنگلہ دیش کیوں بنا اور کس نے تائید کی اور کس نے مخالفت___ اس وقت اصل ایشو یہ ہے کہ ۴۳سال کے بعد مقدمات کا ڈراما کیوں رچایا جا رہا ہے، اور عدل و انصاف اور ملکی اور عالمی قانون کو پامال کرتے ہوئے محترم اور مقتدر سیاسی شخصیات کو میدان سے ہٹانے   اور جماعت اسلامی کو سیاسی دوڑ سے نکالنے کا گھنائونا کھیل کھیلا جا رہا ہے، جسے سمجھنا ضروری ہے۔  یہ سب ۲۰۱۴ء میں بنگلہ دیش کے انتخابات کو ہائی جیک کرنے کے لیے ہے، جو جمہوریت کے قتل پر منتج ہوسکتا ہے۔

۲۵دسمبر ۲۰۱۳ء کے الجزیرہ (انگریزی) کی ویب سائٹ پر ایک بنگالی نژاد سیاسی تجزیہ نگار ضیاحسن کا مضمون شائع ہوا ہے۔ مقالہ نگار ’جنگی جرائم‘ کے مقدمے کے حق میں اور جماعت اسلامی کے بارے میں مخالفانہ راے رکھنے کے باوجود لکھتے ہیں:

بنگلہ دیش کو جنگی جرائم کے ٹربیونل کی واقعی ضرورت تھی، لیکن اس عمل کے دوسال بعد زیادہ تر لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ مقدمے کو حکمران پارٹی کے لیے سیاسی ہتھیار میں تبدیل کرنے کی کوشش نے اسے بیرونی مداخلتوں کے لیے آسان ہدف بنا دیا ہے۔ ایسی صورت میں سیاست، عدلیہ، انتخابات اور انصاف کے درمیان حدود زیادہ مبہم ہوتی جارہی ہیں۔ [بنگلہ دیش کی] ساری آبادی اب نظریاتی طور پر دو واضح کیمپوں، یعنی ٹربیونل کے حامی اور ٹربیونل کے مخالف میں تقسیم ہوگئی ہے۔ ججوں میں سے ایک جج کے اسکائپ اکائونٹ کے ہیک ہونے سے سامنے آنے والی گفتگو کے انکشاف، اور سزائیں سنانے کے لیے عوامی لیگ کی بے تابی نے انتخابات کو مکتی باہنی کے مخالف یا حامی ہونے کی بنیاد پر تقسیم کردیا ہے۔

اس مضمون کا عنوان ہے: How not to do a war crimes tribunal: the case of Bangladesh  (کس طرح ایک جنگی جرائم کا ٹربیونل نہ چلایا جائے___ بنگلہ دیش کی مثال)۔ انھوں نے آگے چل کر اس کھیل کو ایک سانحہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:

ٹربیونل کے قابلِ اعتماد آغاز کے بارے میں پہلے یہ خیال تھا کہ عوام کو قریب لائے گا لیکن اب وہ سیاسی طاقتوں کی کش مکش اور اقتدار کی سیاست کا حصہ بن گیا ہے.... بہت سے لوگ یقین رکھتے تھے کہ جنگی جرائم کا ٹربیونل ملک کو ماضی کی بھول بھلیوں سے نجات دلانے کا باعث ہوگا، لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ٹربیونل کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی بے تابی نے آبادی میں ایک تفریق پیدا کردی ہے۔

جماعت اسلامی کے ایک مخالف کا یہ تجزیہ مسئلے کی نوعیت کو سمجھنے میں مددگار ہے:

  1. مقدمات ایک سیاسی کھیل ہیں، انصاف اور قانون سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
  2. ملک ایک نئے بحران کا شکار ہوگیا ہے۔ یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ بنگلہ دیش کی عوامی لیگی حکومت کے ظلم اور انصاف کشی کے خلاف ہماری تنقید کا کوئی تعلق بنگلہ دیش کی آزادی یا خودمختاری سے نہیں، بلکہ انسانی حقوق کی پامالی، معصوم انسانوں کے عدالتی قتل اور ظالمانہ قیدوبند، اور عوام کے حقوق اور سیاسی تبدیلی کے جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کے اقدامات سے ہے۔ یہ انسانی اور عالمی معاملات ہیں، محض کسی ملک کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔

جماعت اسلامی محض سیاسی انتقام

جماعت اسلامی کا بجاطور پر دعویٰ ہے کہ اس کا اور اس کے کارکنوں کا دامن الحمدللہ ایسے تمام مبینہ جرائم سے پاک ہے، جو اس کی قیادت کی طرف منسوب کیے جارہے ہیں۔ وہ احتساب سے بھاگنے والی جماعت نہیں ہے۔ وہ عدل و انصاف کی میزان کی علَم بردار ہے اور آئین اور قانون کے مطابق ہرجواب دہی کے لیے تیار ہے۔ جماعت اسلامی نے ۱۹۷۰ء کے انتخابی نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کیا تھا اور ان کے مطابق انتقالِ اقتدار کا مطالبہ کیا تھا۔ پاکستان جو ’لا الٰہ الااللہ‘ کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اس کے دستور ، اس کی آزادی، سالمیت اور استحکام کی علَم بردار تھی اور سیاسی اختلافات کے علی الرغم سقوطِ ڈھاکہ تک، پاکستان کے دفاع میں کمربستہ رہی۔ لیکن جب بنگلہ دیش ایک آزاد ملک کی حیثیت سے قائم ہوگیااور ۱۹۷۴ء میں پاکستان، اسلامی دنیا اور اقوامِ متحدہ نے اسے تسلیم کرلیا تو جماعت اسلامی سے وابستہ تمام افراد جو بنگلہ دیش میں تھے، اس کی آزادی، سالمیت اور استحکام کے لیے سرگرم ہوگئے۔

یہی وہ پس منظر تھا جس میں ۱۹۷۸ء میں جماعت اسلامی کو ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے کام کرنے کی اجازت ملی اور پھر ایک مقدمے کی طویل سماعت کے بعد پروفیسر غلام اعظم صاحب کی شہریت وہاں کی سپریم کورٹ نے بحال کردی۔ اس وقت سے جماعت اسلامی بنگلہ دیش ایک نظریاتی تحریک کی حیثیت سے بنگلہ دیش میں زندگی کے ہرشعبے میں خدمات انجام دے رہی ہے اور ملک کی سیاسی تعمیرِنو کے لیے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔بحالی جمہوریت کی تحریک میں اس نے تمام سیاسی جماعتوں بشمول عوامی لیگ کے ساتھ مل کر جدوجہد کی اور بحالی جمہوریت کے بعد پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے اور بی این پی کے ساتھ حکومت میں بھی شریک رہی ہے۔

۱۹۸۴ء سے ۱۹۹۱ء تک سات سال جماعت اسلامی اور عوامی لیگ ایک جمہوری تحریک میں شانہ بشانہ شریکِ کار تھے اور جماعت کی تمام قیادت بشمول پروفیسر غلام اعظم صاحب،    مولانا اے کے ایم یوسف، مطیع الرحمن نظامی، عبدالقادرمُلّا، علی احسن محمد مجاہد اور عوامی لیگ کی قیادت بشمول شیخ حسینہ واجد، عبدالصمد آزاد مرحوم، عبدالجلیل، صلاح الدین قادر چودھری، طفیل احمد، سرجیت سین گپتا اور مسز ساجدہ چودھری ایک ہی محاذ پر سرگرم تھے، حتیٰ کہ ۱۹۹۱ء میں عوامی لیگ نے انتخابات کے بعد جماعت کو کابینہ میں شمولیت کی دعوت بھی دی تھی، جسے جماعت نے شکریے کے ساتھ قبول نہیں کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر جماعت اسلامی اور اس کی قیادت جنگی جرائم کی مرتکب تھی تو عوامی لیگ کو کیا اس وقت اس بات کا علم نہیں تھا؟ اور کیا یہ انکشاف ۲۰۰۹ء کے بعد ہوا؟

اگر ۱۹۸۴ء سے ۱۹۹۶ء تک جماعت میں کوئی خرابی نہ تھی تو پھر اس سے کیسے انکار کیاجاسکتا ہے کہ ۲۰۰۹ء میں نئی سیاسی مصلحتوں کی خاطر یہ افسانہ تراشا گیا اور انھی افراد کو جن کے ساتھ مل کر جمہوریت کی بحالی کے لیے سیاسی جدوجہد کی جارہی تھی، اب سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

رہا معاملہ ۱۹۷۱ء کے واقعات کا، تو یہ ایک حقیقت ہے کہ تشدد کی سیاست کا آغاز    عوامی لیگ نے کیا اور ۱۹۶۹ء میں اسلامی چھاترو شنگھو (اسلامی جمعیت طلبہ)کے رہنما عبدالمالک کو شہید کیا گیا۔ ۱۹۷۰ء میں پلٹن میدان میں جماعت اسلامی کو جلسہ نہ کرنے دیا گیا جس میں تقریر کرنے کے لیے مولانا مودودی ڈھاکہ پہنچ گئے تھے اور اس کے متعدد کارکنوں کو شہید اور بیسیوں کو زخمی کیا گیا۔ عوامی لیگ کے عسکری ونگ کے طور پر مکتی باہنی کا قیام مئی۱۹۷۰ء میں کرنل عثمانی کے ہاتھوں ہوا۔ مارچ ۱۹۷۱ء سے ۱۰ ماہ پہلے مکتی باہنی نے پاکستان کی فوج اور پولیس سے بغاوت کرنے والے عناصر کے ساتھ مل کر قتل و غارت اور لُوٹ مار کا بازار گرم کیا، جس کے نتیجے میں ۵۰ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ اسی طرح یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کی افواج نے جب ۲۶مارچ ۱۹۷۱ء کو آپریشن شروع کیا تو اس دوران بھی زیادتیاں ہوئیں اور شرپسندوں کے ساتھ ساتھ بعض جگہوں پر بے گناہ افراد بھی ہلاک ہوئے۔ یوں بدقسمتی سے زیادتیاں دونوں طرف سے ہوئیں اور ان کا کچھ نہ کچھ ریکارڈ بھی ایک حد تک موجود ہے۔

بیسیوں کتابیں ہیں جن میں پاکستانی، بنگلہ دیشی اور دوسرے مصنفین نے ذاتی مشاہدے کی بنا پر اس الم ناک دورکا نقشہ کھینچا ہے۔ خود حمودالرحمن کمیشن نے بھی تینوں فریقوں، یعنی پاکستانی فوج اور اس کے معاونین، مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے کارکن، اور خود بھارتی افواج کے خونیں اور  شرم ناک کردار کو اپنے ریکارڈ کا حصہ بنایا ہے اور مناسب احتساب کی ضرورت کو بھی واضح کیا ہے۔ اس تکلیف دہ اور خون آشام دور کے بارے میں دو ہی طریقے ہوسکتے تھے: ایک بین الاقوامی سطح پر مکمل طور پر آزاد اور غیر جانب دار عدالت کے ذریعے احتساب، اور دوسرا غلطیوں کے مجموعی اعتراف کے ساتھ عفو و درگزر اور آیندہ کے حالات کی اصلاح کا راستہ۔

بنگلہ دیش کی مجیب الرحمن حکومت نے ۱۹۷۲ء میں Collobarators Act کے تحت  سول سوسائٹی کے افراد اور ۱۹۷۳ء کے انٹرنیشنل کرائمز ایکٹ کے تحت فوجی اور نیم فوجی ادارے سے متعلق افراد پر مقدمہ چلانے کا راستہ اختیار کیا۔ پھر فوجی دائرے میں ۱۹۵؍ افراد کو جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا گیا۔ دوسری جانب سول سوسائٹی میں ۳۷ہزار۴سو۷۱ لوگوں پر الزام عائد کیا گیا، لیکن ان میں سے ۳۴ہزار۶سو۲۳ کو ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے رہا کردیا گیا۔عملاً مقدمہ ۲ہزار۸سو۴۸ ؍افراد پر چلا، جن میں سے ۷۲۰ کو سزا ہوئی، اور ۲ہزار سے زیادہ افراد کو بری کردیا گیا۔ واضح رہے کہ    ان ۳۷ہزار افراد میں جماعت اسلامی کا کوئی فرد شامل نہیں تھا اور جن افراد کو آج الزام دیا جا رہا ہے، ان میں سے پروفیسر غلام اعظم کے سوا تمام افراد اس وقت بنگلہ دیش میں موجود تھے اور کہیں چھپے ہوئے نہیں تھے۔

البدر پس منظر اور جدوجہد

غلطی کا ارتکاب کسی بھی فرد سے ممکن ہے، تاہم یہ بات پوری ذمہ داری سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جماعت کے کارکنوں اور البدر کے رضاکاروں کا دامن ہرقسم کے فوج داری یا اخلاقی جرائم سے پاک ہے۔ انھوں نے دفاعی خدمات ضرور انجام دیں، لیکن کسی قتلِ ناحق یا بداخلاقی اور لُوٹ مار میں وہ ہرگز ملوث نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ کل بھی اور آج بھی وہ شفاف عدالتی نظام میں   اپنے آپ کو پیش کرنے کو تیار ہیں۔ جماعت اسلامی نے کسی سے بھی رحم کی درخواست نہیں کی۔ جب تک وہ حصہ پاکستان تھا، اس وقت تک جماعت اسلامی کے کارکنوں نے دینی، اخلاقی، قومی اور قانونی فریضہ سمجھ کر مشرقی پاکستان میں امن و امان کی بحالی کے لیے جدوجہد کی اور بھارتی مداخلت کاروں سے وطن کو بچانے کے لیے دفاعی پوزیشن اختیار کی۔ جب بنگلہ دیش کو قبول کرلیا تو اس کے ساتھ وفاداری کا معاملہ کیا۔ لیکن یہ صریح ظلم ہے کہ ۴۳سال کے بعد ان کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کرکے انصاف کا کھلے بندوں خون کیا جارہا ہے اور سیاسی طور پر محکوم ٹربیونل کے ذریعے ان کو سزائیں دلوائی جارہی ہیں۔ ہمارا احتجاج انصاف اور انسانیت کے اس قتل کے خلاف ہے۔

البدر‘ کے نوجوانوں کا کیا کردار تھا؟اس بارے میں کتاب البدر (۱۹۸۵ء)کو پڑھا جاسکتا ہے۔ اسی ضمن میں روزنامہ نئی بات میں شائع ہونے والے آصف محمود صاحب کے مضمون: ’یہاں بھی غدار، وہاں بھی غدار‘ کا ایک اقتباس پیش ہے۔ واضح رہے کہ صاحب ِ مضمون کا کوئی تعلق جماعت اسلامی سے نہیں اور نہ میجر ریاض حسین ملک کا کوئی تعلق جماعت اسلامی سے تھا:

کیا ہم جانتے ہیں کہ البدر کیا تھی؟ یہ تنظیم [بلوچ رجمنٹ کے]میجر ریاض حسین ملک نے بنائی۔ میجر سے میرا تعلق دوعشروں پر محیط ہے۔ میجر ریاض بتاتے ہیں کہ [میمن سنگھ] میں فوج کی نفری کم تھی اور ہمارے لیے ممکن نہیں رہا تھا کہ ہم پُلوں اور راستوں کی نگرانی کرسکیں۔ ایک روز کچھ بنگالی نوجوان ان کے پاس آئے اور کہا کہ دفاعِ وطن کے لیے آپ کے کچھ کام آسکیں تو حاضر ہیں۔ ان نوجوانوں کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا۔ میجر ریاض نے انھیں کہا: ’’ٹھیک ہے آپ فلاں فلاں پُلوں پر پہرا دیجیے‘‘۔ ایک نوجوان نے کہا: ’’میجرصاحب ہمیں اپنی حفاظت کے لیے بھی کچھ دیں‘‘۔ یہ وہ دن تھے جب ہائی کمان کی طرف سے حکم آچکا تھا کہ تمام بنگالیوں کو غیرمسلح کردو۔ میجر ریاض کی آج بھی آہیں نکل جاتی ہیں جب وہ بتاتے ہیں کہ یہ سن کر وہ اندر گئے اور سورئہ یٰسین کا ایک نسخہ اس نوجوان کو پکڑا دیا کہ اپنی حفاظت کے لیے میں تمھیں اس کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتا۔ وہ نوجوان چلے گئے، گھر نہیں بلکہ میجر کے دیے مشن پر۔ بانس کے ڈنڈے انھوں نے بنالیے اور ندی نالوں اور پُلوں پر جہاں سے مکتی باہنی اسلحہ لاتی تھی، پہرے شروع کر دیے۔ میجرریاض بتاتے ہیں کہ اس کے بعد انھوں نے اسلحہ نہیں مانگا، لیکن میجرکے مَن کی دنیا اُجڑچکی تھی۔ فوجی ضابطے انھیں عذاب لگ رہے تھے۔ ایک روز ۳۰کے قریب نوجوان ان کے پاس آئے کہ انھیں بھی اس رضاکار دستے میں شامل کرلیں۔ ان میں ایک بچہ بھی تھا۔ میجر نے اسے کہا: بیٹا! آپ بہت چھوٹے ہو واپس چلے جائو۔ وہ بچہ اپنے پنجوں پر کھڑا ہوگیااور کہنے لگا: میجرشاب ہن تو بڑا ہوئے گاشے‘ (میجرصاحب! اب تو بڑا ہوگیا ہوں)۔ میجر تڑپ اُٹھے، انھیں معوذؓ اور معاذؓ یاد آگئے، جن میں ایک نے نبی کریمؐ کی خدمت اقدس میں ایسے ہی ایڑیاں اُٹھا کر ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اتنے چھوٹے بھی نہیں کہ جہاد میں حصہ نہ لے سکیں۔ میجرنے اس بچے کو سینے سے لگالیا۔  ہائی کمان کا حکم پامال کرتے ہوئے ان جوانوں کو مسلح کردیا اور جنگ ِ بدر کی نسبت سے اس رضاکاردستے کو ’البدر‘ کا نام دے دیا۔ کئی ہفتے بعد ہائی کمان نے ان سے پوچھا کہ ان کے علاقے میں اتنا امن کیسے ممکن ہوا، تو میجر نے یہ راز فاش کیا کہ میں نے آپ کی حکم عدولی کی اور میں نے تمام بنگالیوں پر عدم اعتماد نہیں کیا۔ میں نے بنگالیوں کو مسلح کر کے بھارت اور مکتی باہنی کے مقابلے میں کھڑا کردیا ہے۔ تب یہ رضاکار تنظیم پورے بنگال میں قائم کردی گئی۔

ایک روز مَیں نے میجرسے پوچھا کہ ہم میں عمروں کے فرق کے باوجود تکلف باقی نہیں ہے۔ ’البدر‘ نے ظلم تو بہت کیے ہوںگے اپنے سیاسی مخالفین پر۔ یہ سوال سن کر میجر کو ایک چپ سی لگ گئی۔ کہنے لگے: آصف تم میری بات کا یقین کرو گے؟ میں نے کہا: میجرصاحب آپ سے ۲۵سال کا تعلق ہے، میرا نہیں خیال کہ آپ جھوٹ بولتے ہیں۔ میجر نے کہا: میں اپنے اللہ کو حاضرو ناظر جان کر کہتا ہوں میں نے ’البدر‘ کے لوگوں سے زیادہ قیمتی اور نیک لڑکے نہیں دیکھے، یہ لڑکے اللہ کا معجزہ تھے۔ میرے علم میں کوئی ایک واقعہ بھی نہیں کہ انھوں نے کسی سے ذاتی انتقام لیا ہو۔ مجھے تو جب یہ پتا چلا کہ ان کی فکری تربیت مودودی نام کے ایک آدمی نے کی ہے تو اشتیاق پیدا ہوا کہ دیکھوں یہ مودودی کون ہے؟ برسوں بعد جب میں بھارت کی قید سے رہا ہوا تو میں اپنے گھر نہیں گیا، میں سیدھا اچھرہ گیا، مودودی صاحب کے گھر، مَیں دیکھنا چاہتا تھا  وہ شخص کیسا ہے جس نے ایسے باکرداراور عظیم نوجوان تیار کیے۔

آج یہی ’البدر‘ پھانسی پر لٹک رہی ہے۔

ہم تحدیث نعمت کے طور پر یہ کہتے ہیں کہ ’البدر‘ کوئی کرایے کی فوج (mercenary) نہیں تھی، بلکہ اللہ کے دین کی خدمت کرنے والے مجاہدین کا گروہ تھے، جو صرف اللہ سے اپنے اجر کے طالب تھے اور جو ایک مقدس عہد کر کے اپنے کو اس خدمت کے لیے وقف کرتے تھے۔ ہرکارکن جو حلف لیتا تھا، وہ اس کے جذبات و احساسات، اس کے عزائم اور اس کے ضابطۂ اخلاق کا آئینہ ہے۔

البدر کا ہر مجاہد مختصر تربیت کی تکمیل کے بعد اپنے ساتھیوں کے رُوبرو یہ حلف نامہ پڑھتا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمداً عبدہٗ ورسولہٗ

مَیں خداے بزرگ و برتر کو حاضرناظر جان کر اعلان کرتا ہوں کہ:

  •   پاکستان کی سالمیت پر آنچ نہ آنے دوں گا۔
  •   پُرامن شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کروں گا۔
  •   اسلام اور پاکستان کے لیے ہرسطح پر جیتے جی جنگ جاری رکھوں گا اور اپنے جان و مال کو اس مقصد کے لیے وقف کردوں گا۔

اللہ میرا حامی و ناصر ہو۔ آمین!

اسی طرح البدرمجاہدوں کا اجتماعی حلف نامہ یہ ہوتا تھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

خدا کو حاضرناظر جان کر اقرار کرتے ہیں کہ ہم البدر کے رضاکار:

  •  سیاسی مخالفت یا خاندانی رنجش کی بنا پر کسی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
  • کسی فرد کے خلاف محض عوامی لیگ کا حامی یا ہندو ہونے کی بناپر تادیبی کارروائی نہیں کریں گے، تاآنکہ پوری تحقیق کے بعد غداروں کی اعانت کرنے یا براہِ راست ملکی مفاد کو نقصان پہنچانا ثابت نہ ہوجائے۔
  • متحدہ پاکستان کے لیے پُرامن جمہوری ماحول کی تیاری اور عام زندگی کے معمولات کی بحالی کے لیے تمام مثبت اقدامات کریں گے۔
  • ذرائع مواصلات کو درہم برہم کرنے اور پُلوں کو تباہ کرنے والوں، لُوٹ مار،    قتل و غارت اور عزت و ناموس پر حملے کے مرتکب افراد کے خلاف جدوجہد کریں گے۔

خدا ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین!

ہم بڑی عاجزی کے ساتھ اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ الحمدللہ! ہمارے کارکنوں کا دامن ظالمانہ اور انتقامی کارروائیوں سے پاک ہے۔ بیسیوں کتابیں اس پر شاہد ہیں جو ضروری تحقیق کے بعد لکھی گئی یا جن میں دیانت داری سے اس زمانے کے حالات کو شخصی مشاہدے کی بنیاد پر بیان کیا گیا ہے۔ ان میں ’البدر‘ پر متعین الزامات کا کوئی وجود نہیں۔ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ سے لے کر بنگلہ دیش کے مصنّفین، بشمول سابق فوجی اور سفارت کار لیفٹیننٹ کرنل(ر) شریف الحق دالیم کی کتاب Bangladesh Untold Facts اور حمیدالحق چودھری کی خودنوشت Memoires، بھارتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) جے ایف آر جیکب کی Surrender at Dacca: Birth of a Nation  اور پروفیسر شرمیلا بوس کی کتاب Dead Reckoning ، اسی طرح غیرجانب دار بلکہ پاکستان کی حکومت کے ناقد پاکستانی مصنّفین، مثلاً لیفٹیننٹ جنرل (ر) کمال متین الدین کی Tragedy of Errors: East Pakistan Crises 1968-1971 اور میجر جنرل (ر) خادم حسین راجا کی A Stranger in My Own Country ۔ ان میں پاکستانی فوج اور خصوصیت سے اس کی قیادت پر سخت تنقید ہے مگر البدر کی کسی غلط کاری کا کوئی ذکر نہیں۔

پھر وہ دل دہلا دینے والی کتابیں جو ذاتی مشاہدات پر مبنی ہیں، جیسے سابق سفارت کار قطب الدین عزیز کی کتاب Blood and Tears ہے جو ۷۰ کے چشم دید واقعات پر مشتمل ہے، یا مسعود مفتی کی دل دہلا دینے والی تصانیف لمحے اور چہرے اور مہرے اور نسرین پرویز کی داستان سلمٰی کا مقدمہ: ڈھاکہ سے کراچی تک، یا پھر ڈاکٹر صفدرمحمود کی کتاب Pakistan Divided۔ ان اور دوسری تمام مستند کتابوں میں دونوں طرف کی زیادتیوں کا ذکر ہے، مگر البدر پر متعین طور پر الزام کہیں بھی نہیں ملے گا بلکہ کرنل صدیق سالک نے اپنی کتاب Witness to Surrender (میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا)میں اعتراف کیا ہے کہ البدر کے نوجوان بڑے جانثار اور مقصد سے وفادار تھے، جو اسلام اور پاکستان سے محبت کی بناپر خطرات انگیز کرنے کے لیے کمربستہ تھے اور : ’’ان میں سے بعض نے قربانی کے ایسے جذبے کا مظاہرہ کیا، جس کا دنیا کی بہترین افواج سے مقابلہ کیا جاسکتا تھا‘‘ (ص ۱۰۵)۔ صدیق سالک نے پاکستانی فوج کے چند اہل کاروں کی غلط کاریوں کا اعتراف کیا ہے، لیکن ’البدر‘ کے جان نثاروں کا دامن ایسے خبائث سے پاک تھا۔

انسانیت کا قتل اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی

ہم ایک بار پھر بہت ہی انکسار اور اللہ سے عفوودرگزر کی طلب کے ساتھ اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ آزاد اور غیر جانب دار عدلیہ کے سامنے ہمارے کارکن انصاف کے حصول کے لیے اور اپنی پاک دامنی ثابت کرنے کے لیے ہرلمحہ تیار ہیں۔ لیکن جو خونیں اور شرم ناک ڈراما    بین الاقوامی جرائم کے ٹربیونل کے نام سے کھیلا گیا ہے، وہ ظلم اور انتقام کا بدترین کھیل ہے۔ اس کا عدل اور انصاف سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ انسانی حقوق کی پامالی اور معصوم انسانوں کی کردارکشی اور ان کے لیے قیدوبند اوردارورَسن کا بازار سجانے کی کوشش ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ اس ڈھونگ کا پردہ چاک کریں اور عالمی راے عامہ کو اس کے خلاف متحرک کریں، تاکہ عدل اور انسانیت کے قتل کا یہ سلسلہ روکا جاسکے۔

جیساکہ ہم نے عرض کیا کہ پہلا راستہ عدل و انصاف کا ہے اور ہم اس کے لیے تیار ہیں اور دوسرا راستہ مفاہمت اور عفوودرگزرکا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں پاکستانی فوجی و سیاسی قیادت کی حماقتوں اور بھارت کی سیاسی اور عسکری مداخلت کے نتیجے میں رُونما ہونے والی زیادتیوں کے اس تلخ باب کو بند کر کے ایک نئے باب کو کھولنا حکمت اور دانش مندی کا راستہ تھا۔ اس کا آغاز بھی شملہ معاہدے اور پھر ۹؍اپریل ۱۹۷۴ء کے سہ فریقی معاہدے کی شکل میں ہوا، جس پر پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے وزراے خارجہ نے دستخط کیے اور جس کی حیثیت ان ممالک کے درمیان ایک عہدوپیمان (treaty) کی ہے۔

اس معاہدے ہی کے نتیجے میں بھارت میں قید ۱۹۵ پاکستانی فوجیوں کو معافی (clemency) ملی، جن کو بنگلہ دیش کے بین الاقوامی جرائم کے ٹربیونل نے جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا تھا۔ اس کے نتیجے ہی میں پھر پاکستان اور بنگلہ دیش نے سفارتی تعلقات قائم کیے، تجارت اور دوسرے میدانوں میںتعاون اور اشتراک کا دروازہ کھلا۔ اس میں ماضی کی غلطیوں پر افسوس کا اظہار بھی ہے اور ایک دوسرے کو معاف کرنے اور درگزر کا اعلان بھی ہے، جسے حسینہ واجد صاحبہ نے  بھلا دیا ہے، اور بین الاقوامی معاہدہ شکنی کی مرتکب ہوئی ہیں۔ طے شدہ اُمور کو دوبارہ کھولنے کی کوشش کی ہے اور پرانے زخم تازہ کیے ہیں۔ ان کا یہ رویہ نہ حق و انصاف اور سفارتی عہدوپیمان کے محکم اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ مصلحت اور حکمت سے اس کا کوئی تعلق ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس معاہدے کے الفاظ پر غور کرلیا جائے، تاکہ معلوم ہوسکے کہ گاڑی کے پہیے کو پیچھے کی طرف چلانے کی جو مذموم کوشش کی جارہی ہے، اس کی اصلیت کیا ہے۔ معاہدے کی شق۱۴ اور ۱۵ میں معاملات کو یوں طے کیا گیا ہے:

اس بارے میں تینوں وزرا نے نوٹ کیا کہ اس معاملے کو تینوں ملکوں کے اس عزم کے تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ وہ صلح صفائی کے لیے پُرعزم اقدامات کریں گے۔ وزرا نے مزید یہ بھی نوٹ کیا کہ ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کے بعد وزیراعظم پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے وزیراعظم کی دعوت پر بنگلہ دیش آئیں گے۔ انھوں نے بنگلہ دیش کے عوام سے یہ اپیل کی کہ وہ صلح صفائی کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ماضی کی غلطیوں کو معاف کردیں اور بھول جائیں۔ اسی طرح بنگلہ دیش کے وزیراعظم نے بنگلہ دیش میں ۱۹۷۱ء کی تباہی اور مظالم کے حوالے سے یہ اعلان کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ عوام ماضی کو بھول جائیں اور ایک نیا آغاز کریں۔

مذکورہ اُمور کی روشنی میں اور خاص طور پر وزیراعظم پاکستان کی بنگلہ دیش کے عوام سے ماضی کی غلطیوں کے بارے میں عفوودرگزر کرنے اور بھول جانے کے پس منظر میں  بنگلہ دیش کے وزیرخارجہ نے کہا کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ      عام معافی کے اقدام کے طور پر مقدمات میں مزید پیش رفت نہیں کرے گی۔ یہ بات بھی طے پائی کہ ۱۹۵جنگی قیدی بھی پاکستان اُن دوسرے قیدیوں کے ساتھ جو معاہدہ دہلی کے تحت واپس بھیجے جارہے ہیں، بھیج دیے جائیں گے۔

اس کے بعد ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ قبل ازیں بنگلہ دیش کو دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس، لاہور کے موقعے پر تسلیم کیا گیا اور شیخ مجیب الرحمن نے لاہور میں کانفرنس کے اجلاس میں شرکت کی۔ اس کے بعد پاکستان کے تین سربراہانِ حکومت نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا، یعنی ذوالفقار علی بھٹو، جنرل محمدضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف۔ اسی طرح بنگلہ دیش کی دونوں وزراے اعظم، یعنی   خالدہ ضیا اور خود حسینہ واجد نے پاکستان کا دورہ کیا۔ تجارتی تعلقات میں برابر مضبوطی آئی، پاکستان کے سرمایہ کاروں نے بڑھ چڑھ کر بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کی اور عالمی فورم پر دونوں کے درمیان بھرپور تعاون ہو رہا تھا، حتیٰ کہ اس دور میں چشم تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جب بنگلہ دیش کو بھارت اور مغربی ممالک نے اسلحے کی فراہمی روک دی تو جنرل ضیاء الرحمن کی خواہش پر جنرل ضیاء الحق نے بنگلہ دیش کو اسلحہ فراہم کیا اور اس کی قیمت وصول کرنے سے بھی انکار کردیا جس کا اعتراف    کرنل (ر) شریف الحقدالیم نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کیا ہے (اُردو ڈائجسٹ، دسمبر۲۰۱۳ء)۔ نیز ڈھاکہ میں جب پاکستان اور بھارت کا کرکٹ میچ ہوا تو بنگلہ دیش کے عوام نے پاکستان کی ٹیم کی کامیابی کے لیے اس طرح کردار ادا کیا جس طرح متحدہ پاکستان کے دوران کرتے تھے لیکن  افسوس صدافسوس کہ ۲۰۰۹ء میں عوامی لیگ کی حسینہ واجد نے گاڑی کو پٹڑی سے اُتارنے کے عمل کا آغاز کردیا ہے۔ واضح رہے کہ Collaborators Act جس کے تحت غیرفوجی عناصر پر مقدمات قائم کیے گئے تھے، اس کے تحت سزا پانے والوں میں سے بھی سنگین ترین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو چھوڑ کر ۱۹۷۵ء میں سب کو معافی دے دی گئی اور بالآخر ۳۱دسمبر ۱۹۷۵ء کو خود اس قانون کو بھی کالعدم قرار دے دیاگیا۔

 ۱۹۷۴ء ہی میں شیخ مجیب الرحمن نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کو مخاطب کرکے پورے عالمی میڈیا کے سامنے کہا تھا کہ Let The World know how Bengalies can forgive (دنیا جان لے گی کہ بنگالی کس طرح معاف کرتے ہیں)۔ لیکن مجیب صاحب کی صاحب زادی نے ایک نئی مثال قائم کی ہے کہ والد جو سربراہِ مملکت تھے، کی جانب سے معاف کر نے کے بعد  ان کی بیٹی نے کس بھونڈے انداز میں انتقام کی آگ بھڑکائی ہے۔

اس وقت جو کچھ بنگلہ دیش کی حکومت نے کیا ہے وہ بین الاقوامی قانون، بین الاقوامی انسانی قانون، بنگلہ دیش کے دستور اور پاکستان بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان سہ فریقی معاہدے، سب کے خلاف ہے، اور پاکستان کو صرف انسانی حقوق ہی کے باب میں نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی کے سلسلے میں بھی احتجاج اور سفارتی ردعمل کا نہ صرف حق حاصل ہے بلکہ اس پر فرض بھی ہے۔

 عبدالقادر مُلّا کا اصل جرم اور مقدمہ

اس اصولی بحث اور وسیع تر قانونی، سیاسی اور اخلاقی پہلوئوں پر گفتگو کے بعد ہم چاہتے ہیں کہ مختصراً عبدالقادر مُلّا کے مقدمے اور شہادت کے بارے میں بھی چند گزارشات پیش کریں۔

عبدالقادر مُلّا کا اصل جرم یہ نہیں ہے کہ وہ کسی فوج داری یا اخلاقی جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ مقدمے کی پوری کارروائی پڑھ لیجیے، کوئی الزام ان پر ثابت نہیں ہوتا اور محض سنی سنائی اور  بے سروپا تضاد بیانیوں کی بنیاد پر ان کو ’مجرم‘ قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے،جو بُری طرح ناکام ہوئی ہے۔ ہم نے ٹربیونل کا فیصلہ بغور پڑھا ہے۔ یہ پورا فیصلہ سیاسی دستاویز ہے جس میں زبان کے تنازعے سے لے کر تفریق تک کو اصل پس منظر مقرر فرما کر کارروائی کی ہے۔ اس طرح بلاثبوت   سنی سنائی باتوں اور نام نہاد circumstantial evidence پر سزاے موت دینے کی جسارت کی ہے جو بین الاقوامی اور خود ملکی قانون سے متصادم ہے۔ اور اس پورے پس منظر اور سازش کے نام پر جو اصل جرم سامنے آتا ہے، وہ بنگلہ دیش کی تحریک میں عدم شرکت ہے حالانکہ یہ ایک سیاسی پوزیشن توضرور ہے مگر قانون کی نگاہ میں کوئی جرم نہیں۔ دنیا کے جتنے ممالک نے بھی آزادی حاصل کی ہے ان کی آزادی کے حصول سے قبل کسی کی جو بھی سیاسی پوزیشن ہو وہ نئے دور میں غیرمتعلق ہوجاتی ہے جس کا واضح ثبوت قیامِ پاکستان کے بعد انڈین نیشنل کانگرس کے ان ہندو ارکان کو جو مشرقی پاکستان میں تھے، ریاست اور پارلیمنٹ میں برابر کا مقام دیے جانے میں دیکھا جاسکتا ہے۔

اس فیصلے میں انصاف کا کس طرح خون کیا گیا ہے اس کا اندازہ درج ذیل حقائق سے کیا جاسکتا ہے

عبدالقادر مُلّا ۱۴؍اگست ۱۹۴۸ء میں موضع امیرآباد، ضلع فریدپور میں پیدا ہوئے اور ۱۹۶۸ء میں بی ایس سی تک فریدپور شہر میں تعلیم پائی۔ ۱۹۷۱ء میں ڈھاکہ یونی ورسٹی میں ایم اے کے طالب علم تھے، مگر ۲۵مارچ کو فوجی آپریشن کے شروع ہونے سے دو ہفتے قبل یونی ورسٹی بند کردی گئی۔ اس پر عوامی لیگ کے اسٹوڈنٹ ونگ ’چھاترو لیگ‘ کا قبضہ تھا۔ ہوسٹل بند کردیے گئے اور عبدالقادر مُلّا اپنے گائوں فریدپور چلے گئے جہاں وہ ۱۹۷۲ء کے آخر تک رہے۔

۱۹۷۱ء میں ڈھاکہ میں خوں ریز ہنگاموں کے اس پورے زمانے میں عبدالقادر مُلّا کی عدم موجودگی کی حقیقت کو تو ٹربیونل نے یکسر نظرانداز کردیا حالانکہ فریدپور جہاں وہ وسط مارچ ۱۹۷۱ء سے دسمبر ۱۹۷۲ء تک رہے، پورا شہر اس حقیقت کی گواہی دے رہا تھا۔ لیکن جس دوسری حقیقت کو بھی اس نام نہاد عدالت نے قابلِ اعتنا نہ سمجھا وہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے۔ دسمبر ۱۹۷۲ء میں عبدالقادر مُلّاڈھاکہ یونی ورسٹی میں آگئے جو عوامی لیگ کا گڑھ تھا، وہ مزید تعلیم کے لیے وہیں ہوسٹل میں رہے۔ دو سال میں ’تعلیمی انتظامیات‘ میں ایم اے کیا۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ کسی کو اس وقت ان کے ’میرپور کے قصاب‘ ہونے کی ہوا نہ لگی۔ پھر دو سال انھوں نے بنگلہ رائفلز (Bangla Rifles)  میں ٹریننگ لی اور یہاں بھی ان کے بارے میں کسی کو شبہہ نہ ہوا۔ پھر تین سال انھوں نے ایک سرکاری اسکول میں استاد کی حیثیت سے اور پھر پرنسپل کی حیثیت سے کام کیا۔ پھر حکومت کے تحقیقی ادارے اسلامک فائونڈیشن میں، جہاں ملک کے تمام ہی دانش وروں سے ربط رکھنا ہوتا ہے،    اس میں خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد صحافت اور سیاست میں نمایاںکردار ادا کرتے رہے۔

سات سال تک عوامی لیگ کے ساتھ جماعت اسلامی کی ٹیم کے حصے کے طور پر کام کرتے رہے اور سب کے ساتھ ان کے فوٹو اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ وہ ’میرپور کے قصاب‘ سے شب و روز مل رہے ہیں۔ سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا رہا اور کسی نے عبدالقادر مُلّا پر انگشت نمائی نہ کی۔ پھر اچانک ۲۰۱۰ء میں عوامی لیگ پر یہ راز فاش ہوا کہ عبدالقادر مُلّا’میرپور کا قصاب‘ ہے اور اس کو ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کی پاداش میں نام نہاد انٹرنیشنل ٹربیونل میں گھسیٹ لیا گیا۔

عبدالقادر شہید پر چھے میں سے پانچ الزامات کا تعلق ۲۶مارچ ۱۹۷۱ء سے وسط اپریل ۱۹۷۱ء کے واقعات سے ہے، جب کہ وہ ڈھاکہ یا اس کے گردونواح میں موجود ہی نہیں تھے۔  عبدالقادر شہید کے وکلاے صفائی نے عبدالقادر مُلّا کے ڈھاکہ میں نہ ہونے اور تمام الزامات کے زمینی حقائق سے متصادم ہونے کو ثابت کرنے کے لیے ۹۶۵ گواہ پیش کرنے کی اجازت چاہی اور تمام گواہوں کے کوائف سے ٹربیونل کو مطلع کیا۔ لیکن اسی ٹربیونل نے عدالتی عمل کی تاریخ میں یہ نادر اور مضحکہ خیز پوزیشن اختیار کی کہ: ’’یہ استغاثہ کا کام ہے کہ وہ جرم ثابت کرے اور دفاع کرنے والوں کو متبادل شہادت لانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ حالانکہ ان تمام گواہوں کا موقف یہ تھا کہ ۱۹۷۱ء کے جس زمانے کے بارے میں عبدالقادر مُلّا پر الزام لگایا جارہا تھا وہ اس زمانے میں فریدپور میں تھے جنھیں شب و روز ان تمام افراد نے دیکھا۔ بڑی رد و کد کے بعد عدالت نے ۹۶۵ میں سے صرف چھے گواہوں کو پیش کرنے کی اجازت دی اور ۹۵۹ گواہوں کو سننے تک سے انکار کردیا۔ پھر ان چھے گواہوں کی شہادت کو بھی کسی دلیل کے بغیر رد کردیا۔

اپنے فیصلے تک میں اتنی مضحکہ خیز بات لکھی ہے کہ: ’’ایک گواہ کی گواہی میں تضاد تھا کہ عبدالقادر مُلّا کا دعویٰ ہے کہ: وہ وسط مارچ ۱۹۷۱ء سے نومبر ۱۹۷۲ء تک فریدپور میں تھے اور وہاں ایک دکان بھی چلا رہے تھے، جب کہ گواہ نے یہ کہا کہ اس نے ان کو فریدپور میں مارچ ۱۹۷۱ء سے مارچ ۱۹۷۲ء تک دیکھا، یعنی ڈیڑھ سال نہیں ایک سال‘‘۔ سوال یہ ہے کہ عبدالقادر مُلّا پر جو چھے الزامات ہیں، ان میں سے پانچ کا تعلق ۲۶مارچ ۱۹۷۱ء سے وسط اپریل ۱۹۷۱ء تک ہے اور صرف ایک کا تعلق نومبر ۱۹۷۱ء سے ہے۔ لیکن یہ تمام اس ایک سال ہی سے متعلق ہیں، جس کے بارے میں گواہ گواہی دے رہا ہے کہ اس نے شب وروز ان کو فریدپور میں دیکھا ہے، یعنی مارچ ۱۹۷۱ء سے مارچ ۱۹۷۲ء تک۔ عدالت کی جانب داری، حقائق سے آنکھیں بند کرنے، بودے اور مضحکہ خیز تضادات کا سہارا لے کر پہلے سے طے شدہ فیصلوں پر مہرتصدیق ثبت کرنے کی اس سے زیادہ بدتر مثال کیا ہوسکتی ہے؟

ضمنی طور پر یہ بھی عرض کردوں کہ جن پانچ الزامات کا تعلق ۲۶مارچ ۱۹۷۱ء سے وسط اپریل ۱۹۷۱ء سے ہے، ان کا انتساب ’البدر‘ سے کیا گیا ہے حالانکہ ’البدر‘ قائم ہی ۲۱مئی ۱۹۷۱ء کو ہوئی تھی، اور وہ بھی ڈھاکہ یا فریدپور میں نہیں، بلکہ بہت دُور شیرپور، ضلع میمن سنگھ میں۔استغاثہ اور خصوصی عدالت دونوں ہی کے علم اور دیانت پر ماتم کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے۔

استغاثہ نے ۴۹ گواہ پیش کرنے کا دعویٰ کیا تھا، مگر وہ صرف ۱۲ گواہ لاسکے جن میں سے کسی کی شہادت بھی عینی گواہی کی نہیں تھی۔ سب نے یہی کہا کہ انھوں نے ایسا سنا ہے اور اس طرح یہ اور اس سلسلے کے تمام مقدمے سنی سنائی باتوں، غیرتصدیق شدہ افواہوں اور اخبار کے تراشوں اور  سیاسی گپ شپ کی بنیاد پر طے کیے جارہے ہیں۔ ٹربیونل کا دعویٰ ہے کہ ایسے سنگین جرائم کے باب میں سنی سنائی (heresay ) باتوں کو بھی معتبر قرار دے کر شریف اور معتبر انسانوں کو موت یا عمرقید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ غضب ہے کہ خود ۱۹۷۲ء کے ریاستی قانون میں عدل و انصاف کے تمام  مسلّمہ اصولوں اور قواعد کو معطل کردیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش کے قانونِ فوج داری اور قانونِ شہادت دونوں کو ان مقدمات کے لیے غیرمؤثر (excluded) کردیا گیا ہے اور اس طرح شہادت کو مذاق بنادیا گیا ہے۔

عبدالقادر مُلّا کو موت کی سزا جس ایک نام نہاد شہادت کی بنیاد پر دی گئی ہے، وہ ۱۹۷۱ء میں ۱۳سال کی ایک لڑکی کی شہادت ہے، جو خود یہ کہہ رہی ہے کہ وہ پلنگ کے نیچے چھپی ہوئی تھی اور اس نے یہ سنا کہ ’عبدالقادر‘ نے اس کے باپ کو قتل کیا ہے حالانکہ یہی لڑکی اس سے پہلے بنگلہ دیش قومی عجائب گھر کو یہ بیان ریکارڈ کرا چکی ہے کہ وہ اس دن گھر پر موجود نہیں تھی اور اسی لیے اس کی جان بچ گئی۔ اس کا یہ بیان بنگلہ دیش کے سرکاری عجائب گھر میں آج موجود ہے جو جنگی جرائم کے محفوظات کو ریکارڈ کرنے کے لیے قائم کیا گیا۔ اس بیان کی فوٹوکاپی وکلا کی دفاعی ٹیم نے مذکورہ خصوصی عدالت میں پیش کی، لیکن اس عدالت نے جو ’سنی سنائی‘ باتوں کو معتبر قرار دیتی ہے، اس دستاویز کو قابلِ اعتنا نہ سمجھا۔ اسی طرح اسی خاتون نے ایک اخباری بیان جو واقعے کے چند سال بعد کا ہے اور جس میں اس کے موقع واردات پر موجود نہ ہونے کا اعتراف ہے، نظرانداز کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس ٹربیونل کی کارروائی پر ملک اور ملک سے باہر ماہرین قانون کی بڑی تعداد نے صاف لکھا ہے کہ ٹربیونل کی پوری کارروائی ہر دواعتبار سے، یعنی بنیادی عدل (substantive justice) اور عدالتی طریق کار (procedural justice) کی شدید بے قاعدگیوں سے بھری پڑی ہے۔ اور اسے کسی صورت میں بھی تقدیرِ عدل (dispensation of justice)  نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ قانون اور انصاف کا خون ہے اور عبدالقادر کو عدالتی قتل کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

عبدالقادر مُلّا نے اعتماد، اطمینان، ہمت اور شجاعت کے ساتھ اس مقدمے میں اپنا دفاع کیا، ہرموقعے پر اپنی پاک دامنی کو ثابت کیا اور پھر عمرقید اور سزاے موت کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ انھوں نے، ان کی صابروشاکر اہلیہ اور اہلِ خانہ نے اس ظلم کا پول کھولا اور کسی قسم کی کمزوری نہ دکھائی، حتیٰ کہ رحم کی اپیل سے بھی انکار کر دیا۔ پھر جو وصیت عبدالقادر نے لکھی اور جس شان سے تختہ دار پر گئے، وہ ان کی معصویت اور صداقت کی دلیل ہے۔ دنیا کے بڑے سے بڑے ماہر نفسیات کو یہ ساری داستان سنادیجیے، کبھی کوئی مجرم اس طرح معاملہ نہیں کرسکتا ۔ عبدالقادر کے بے گناہ ہونے کے لیے اگر کوئی اور شہادت اور لوازمہ موجود نہ بھی ہوتا، تب بھی صرف ان کا یہ عزیمت سے سرشار کردار ہی ان کے دامن کے پاک ہونے کی گواہی دینے کے لیے کافی ہے    ؎

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں

نام نہاد ٹربیونل ایک کھلا تضاد

ایک اور قابلِ ذکر پہلو وہ تضادبھی ہے کہ ایک طرف تو جن کا دامن پاک ہے ان کو سولی پر لٹکایا جا رہا ہے اور دوسری طرف جو دن دھاڑے انسانوں کے قتل، لُوٹ مار اور ظلم وستم  میں سرگرم رہے ہیں، یعنی عوامی لیگ کے جیالے اور جو ۱۹۷۰ء سے آج تک کشت و خون اور سیاسی انتقام اور کرپشن کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں اور جن کے انسانیت سوز کارناموں کی داستانیں چپے چپے پر پھیلی ہوئی ہیں، وہ نہ صرف یہ کہ محفوظ ہیں بلکہ بڑی ڈھٹائی سے جج اور منصف بنے بیٹھے ہیں۔ ٹربیونل کے تمام ہی ارکان عوامی لیگ کے کارکن یا سرگرم کمیونسٹ کامریڈ رہے ہیں۔ استغاثہ کے ارکان میں سے چار افراد، جنوری ۲۰۱۴ء کے انتخابات کے لیے عوامی لیگ کے نمایندے ہیں۔ عدلیہ عوامی لیگ کے کارکنوں سے بھر دی گئی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وہ افراد بھی جو ۱۹۷۱ء کے فوجی آپریشن کے دوران پاکستانی جرنیل اے اے کے نیازی کے شریکِ کار (collaborators) تھے، وہ بھی عوامی لیگ کی بنائی ہوئی عدالتوں میں جج بن گئے۔ اس کی ایک چشم کشا مثال     انتھونی مسکارن ہیس نے، جو ۱۹۷۱ء کے کشت و خون کے حقائق اور افسانوں کا پہلارپورٹر تھا اور  جس کے مضامین لندن ٹائمز میں شائع ہوئے تھے اور جس نے ۳۰لاکھ افراد کے قتل کا ’راز‘  طشت ازبام کیا تھا، اسی رپورٹر نے شیخ مجیب کے حکمران بننے کے بعد ۷۴-۱۹۷۳ء میں عوامی لیگ کے ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کو اپنی کتاب Bangladesh: Legacy of Blood میں بیان کیا ہے۔ اس نے اس میں یہ واقعہ بھی لکھا ہے، جو بنگلہ دیش میں انصاف کے قتل اور منصف کی کرسی پر بیٹھنے والوں کے چہروں پر سے پردہ اُٹھانے کا ذریعہ بناہے:

حامیوں کے اولین مقدمات جیسور میں منعقد ہوئے۔ ایم آر اختر اپنی کتاب میں ایک دل چسپ واقعہ بیان کرتے ہیں۔ کٹہرے میں جو شخص کھڑا تھا جس پر رضاکار ہونے کا الزام تھا، خاموشی سے کھڑا رہا۔ جب مجسٹریٹ نے اس سے باربار پوچھا کہ تم مجرم ہو یا نہیں؟ کچھ وکلا اس پر چیخ پڑے کہ تم کیوں نہیں اپنا مقدمہ شروع کرتے؟ بالآخر    اس شخص نے جواب دیا کہ مَیں سوچ رہا ہوں کہ کیا کہوں؟ مجسٹریٹ نے پوچھا کہ تم کیا سوچ رہے ہو؟ ملزم نے مجسٹریٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مَیں یہ سوچ رہا ہوں کہ جو آدمی کرسی پر بیٹھا ہے، وہی تو ہے جس نے مجھے رضاکار بھرتی کیا تھا۔ اب وہ مجسٹریٹ بن گیا ہے۔ یہ تقدیر کا کھیل ہے کہ میں کٹہرے میں ہوں اور وہ میرا مقدمہ چلا رہا ہے۔

ایک اور دل چسپ تبصرہ برطانوی رکن پارلیمنٹ رابرٹ میکلین کا ہے، جو مقدمے میں آبزرور تھے۔ انھوں نے کہا کہ کٹہرے میں دفاع کرنے والے اس سے زیادہ قابلِ رحم ہیں جتنا کہ استغاثہ کے اُلجھے ہوئے گواہوں کا سلسلہ.... انھوں نے بھی پاکستان حکومت کی ملازمت کی، مگر اب یہ حلف اُٹھانے کو تیار ہیں کہ ان کی حقیقی وفاداری بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت کے ساتھ تھی۔ پورا معاملہ انصاف کے ساتھ مذاق تھا۔ حکومت نے بالآخر اس کو ختم کردیا لیکن بدنظمی بڑھ جانے کے بعد۔

اس آئینے میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب کے زمانے میں کیا ہوا ،اور اب حسینہ واجد کے زمانے میں کیا کیا جارہا ہے۔

بنگلہ دیش کے ایک محترم جج نے جو جنگی جرائم کے ایک حقیقی بین الاقوامی ٹربیونل کے ممبر رہے ہیں، صاف الفاظ میں کہا ہے کہ: ’’بنگلہ دیش کے ٹربیونل اور حقیقی بین الاقوامی ٹربیونل میں زمین آسمان کا فرق ہے اور اس کی کارروائیوں کو کسی اعتبار سے بھی عالمی انصاف کی میزان پر صحیح ثابت نہیں کیا جاسکتا‘‘۔

پھر عبدالقادر شہید کے سلسلے میں تو دستور، قانون اور اصولِ انصاف کا اس طرح خون کیا گیا ہے کہ اس نام نہاد ٹربیونل نے بھی کمزور گواہی کی بناپر ان کو عمرقید کی سزا دی تھی۔ لیکن پھر عوامی لیگ کے کارکنوں کے شاہ باغ میں احتجاج کی بنیاد پر ٹربیونل کے قانون مجریہ ۱۹۷۲ء میں فروری ۲۰۱۳ء میں ترمیم کی گئی اور حکومت کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ سزا میں اضافے کے لیے سپریم کورٹ میں جاسکتی ہے اور عدالت کو بھی سزا میں اضافے کا اختیار دے دیا گیا اور اس قانون کو قانون کے بننے سے پہلے کے جرائم پر بھی لاگو کردیا گیا ہے۔ قانون کی تاریخ میں بدنیتی پر مبنی قانون سازی کی یہ منفرد مثال ہے،جسے تمام ہی عالمی ، قانونی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ظالمانہ اور انصاف کے اصولوں کے منافی قرار دیا ہے۔

فیصلے کے خلاف عالمی ردعمل

یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش میں بھی سوچنے سمجھنے والے اہلِ دانش: قانون اور دستور کی ان خلاف ورزیوں پر یریشان ہیں اور اسے آمریت اور ظالمانہ کارروائیوں کے دروازے کھولنے کے مترادف سمجھ رہے ہیں، اور عالمی سطح پر ان تمام اقدامات کی شدید مذمت ہورہی ہے۔ دی گارڈین، لندن کے کالم نگار اور مصنف جان پلجر (John Pilger)  نے اپنے ۱۵دسمبر ۲۰۱۳ء کے مضمون: The Prison that is Bangladesh میں اس کی سخت مذمت کی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ: ’’مُلّا کی موت ہرگز واقع نہیں ہونا چاہیے تھی‘‘۔

اقوام متحدہ کی کمشنر براے انسانی حقوق نیوی پلّاے (Navi Pillay) نے پورے عدالتی طریق کار اور کارروائی پر سخت تنقید کی ہے۔ انھوں نے انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہوئے عبدالقادر مُلّاکی پھانسی کو روکنے کی اپیل کی تھی۔ یورپی پارلیمنٹ کے ۲۵؍ارکان، امریکی کانگریس کے چھے کانگریس مین، برطانیہ کے متعدد ایم پیز، حماس کے ترجمان، ترکی کے وزیراعظم سمیت ساری دنیا میں اس عدالتی قتل کی مذمت کی گئی ہے۔

بنگلہ دیش کے ایک سابق آرمی چیف، لیفٹیننٹ جنرل(ر) محبوب الرحمن نے جنگی جرائم کے ٹربیونل کے حق میں اصولی بات کہنے کے بعد موجودہ ٹربیونل اور اس کے فیصلوں کے بارے میں کہا ہے کہ:’’عوامی لیگ کی حکومت محض سیاسی محرکات کے تحت جنگی مجرموں پر مقدمے چلانے کے لیے پیش رفت کررہی ہے‘‘۔

اسی بات کا اظہار بنگلہ دیش کے ایک مشہور وکیل اور سابق وزیر مودود احمد نے کیا ہے اور اس پوری کوشش کو seeking a vendetta against political opponents (سیاسی مخالفوں سے جذبۂ انتقام کی کوشش)قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے مضبوط اور جان دار تنقید برطانیہ کے مشہور قانون دان اور جنگی جرائم کے مقدمات کے باب میں عالمی شہرت کے حامل بیرسٹر ٹوبی کیڈمین نے کی ہے:’’جنابِ مُلّا کو ایک منصفانہ ٹرائل نہیں ملا۔ ان کو اچانک پھانسی پر چڑھا دیا گیا، جسے ایک عدالتی قتل ہی کہا جاسکتا ہے‘‘۔

بنگلہ دیش کے سابق وزیرخارجہ اور شیخ مجیب کے دست راست ڈاکٹر کمال حسین کے داماد ڈیورڈ برگ مین، جو ایک معروف صحافی اور مصنف ہیں اور بنگلہ دیش کے اہم اخبارات میں خدمات انجام دے چکے ہیں،اس مقدمے کو ابتدا سے دیکھ رہے ہیں اور مسلسل لکھ رہے ہیں۔ ان کے مضامین اور بلاگ اس پورے عدالتی ڈرامے اور گندے سیاسی کھیل کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ ہم ان کے صرف چند جملے پیش کرتے ہیں:

بین الاقوامی قانون اور جرائم کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جس قانون کے تحت عبدالقادر مُلّا کا مقدمہ چلایا گیا، وہ ناقص اور قانونی سقم سے پُر تھا.... دو کلیدی وجوہ جن کی بنا پر مَیں نے یہ سوچا کہ مُلّا کی سزاے موت غیرمعمولی طور پر قابلِ اعتراض تھی: پہلی یہ کہ جن جرائم کی وجہ سے انھیں سزاے موت دی گئی، ان کے لیے قابلِ اعتماد گواہی کا مکمل فقدان تھا۔ دوسری وجہ مُلّا کو مناسب دفاع سے روکنا ہے۔ مُلّا کو صرف پانچ گواہ پیش کرنے کی اجازت دی گئی، جب کہ استغاثہ جتنے چاہے گواہ لاسکتا تھا۔

ٹوبی کیڈمین نے بنگلہ دیش کی حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ:’’ جو کچھ اس نے کیا ہے اس پر وہ خود جنگی جرائم کی مرتکب ہوئی ہے اور ایک دن آسکتا ہے جس میں خود اسے اس کی جواب دہی کرنا پڑے‘‘۔پھر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا ہے:’’بین الاقوامی برادری کو اس پر    ذمہ دارانہ ردعمل دینا چاہیے‘‘۔

پاکستان کا مطلوبہ کردار

یہ ہے عالمی ردعمل، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ خود پاکستان میں ایسے لوگ موجود ہیں اور حکومت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ایسی باتیں کر رہے ہیں کہ جو کچھ بنگلہ دیش میں ہوا اور ہورہا ہے وہ بنگلہ دیش کا داخلی معاملہ ہے۔ اس سے زیادہ بے حکمتی اور بے حمیتی کی بات کا تصور بھی مشکل ہے۔ انسانی حقوق کا مسئلہ کسی بھی ملک کا محض داخلی معاملہ نہیں ہے۔ بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کہیں بھی ہو، تمام دنیا کے لوگوں اور حکومتوں کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ انسانوں اور انصاف کے قتل کو رُکوانے کے لیے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ پھر ستم ظریفی ہے کہ اس معاملے میں تو بنگلہ دیش کی حکومت نے خود اسے ’انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل‘ کا نام دیا ہے، لیکن اب اسے خالص داخلی معاملہ قرار دے رہی ہے۔ نیز اسی طرح بحیثیت مسلمان ہمارا حق ہی نہیں فرض بھی ہے کہ اگر کوئی مسلمان ظلم کا ارتکاب کر رہا ہے تو اسے ظلم سے روکنے کی کوشش کریں۔ یہ حق ہم صرف اپنے لیے نہیں طلب کررہے کہ یہ حق اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کے تمام افراد کو دیا ہے اور اس حق میں بنگلہ دیش کے مسلمان بھی برابر کے شریک ہیں۔

پھر پاکستان کا تو ان مقدمات سے براہِ راست تعلق ہے کہ یہ اس زمانے سے متعلق ہیں جب بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ تھا اور جن لوگوں کو آج ظلم اور ناانصافی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ   اس وقت پاکستان کے شہری تھے۔ جیساکہ ہم نے عرض کیا ۱۹۷۴ء کے سہ فریقی معاہدے کی رُو سے اس سیاہ باب کو بند کردیا گیا تھا۔ معاہداتی ذمہ داری (treaty obligation) کے اصول کے مطابق اگر آج بنگلہ دیش اس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو بحیثیت ریاست ہمارا فرض ہے کہ اس پہلو سے معاہدہ شکن حکومت کے فعل پر اس کی گرفت کریں اور بین الاقوامی سیاسی، سفارتی اور قانونی ہرمحاذ پر اپنا کردار ادا کریں۔

پاکستان کی پارلیمنٹ نے کثرت راے سے مذمتی قرارداد منظور کر کے ایک ادنیٰ مگر    صحیح اقدام کیا ہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے پارلیمنٹ کی حاکمیت اور بالادستی کا دعویٰ کرنے والی  وزارتِ خارجہ اور اس کے ترجمان: قانون، معاہدہ اور پارلیمنٹ کی قرارداد کسی کو بھی پِرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتے۔ اور وہ جماعتیں جنھوں نے اس قرارداد کی تائید نہیں کی، انھوں نے بھی قوم کو اپنا اصل چہرہ دکھا دیا ہے کہ وہ کہاں تک پاکستان، اس کے دستور، اس کے دفاع اور اس کی عزت کی محافظ ہیں۔ اگر عوام اب بھی ہماری قومی قیادت کے ان دو مختلف چہروں کو نہیں پہچانتے تو یہ مستقبل کے لیے کوئی نیک فال نہیں۔   

ع ۔  ٹھوکریں کھا کر تو کہتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ

شہید عبدالقادر مُلّا کے اہلِ خانہ جب آخری دفعہ جیل میں ان سے ملے تو انھوں نے ان کو وصیت کی:’’میری شہادت کے بعد تحریکِ اسلامی کے سارے لوگوں کو چاہیے کہ وہ حتی الامکان صبرواستقامت کے ساتھ میرے خون کو اقامت ِ دین کے کام پر لگائیں۔ کسی طرح کے بگاڑ یا فساد میں ہمارے وسائل ضائع نہیں ہونے چاہییں۔ جن لوگوں نے میرے لیے احتجاج کرتے ہوئے جان دی ہے ان لوگوں کی قبولیت ِ شہادت کے لیے اللہ سے دعا کرتا اور ان کے خاندانوں کے ساتھ یک جہتی و ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔ اللہ سب کو آخرت میں کامیاب کرے۔

مَیں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ مکمل غیرقانونی انداز میں یہ حکومت مجھے قتل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں مظلوم ہوں، میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں نے تحریکِ اسلامی کی قیادت کی۔ صرف اس وجہ سے مجھے حکومت قتل کر رہی ہے۔ میں اللہ، اس کے رسولؐ اور قرآن وسنت پر ایمان رکھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری یہ موت شہادت کی موت ہے اور شہیدوں کی جگہ جنت کے سوا اور کہیں نہیں ہے۔ اللہ اگر مجھے شہادت کی موت دے دے تو یہ میری زندگی کا سب سے بڑا تحفہ ہوگا۔ اس کو مَیں اپنے لیے افتخار سمجھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ زندگی اور موت کا مالک اللہ ہے۔ حکومت ۱۴دسمبر کو مجھے قتل کرنا چاہ رہی تھی لیکن اللہ نے میری موت کا فیصلہ اُس وقت نہیں کیا تھا۔ جب اللہ کا فیصلہ ہوگا تب ہی موت آئے گی۔ شہادت کی موت سے بڑھ کر بڑا اعزاز اور کیا ہوسکتا ہے! ہمیشہ مَیں اللہ سے یہی دعا کرتا ہوں اور آج بھی کر رہا ہوں کہ سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت عطا فرمائے۔

میری درخواست ہے کہ میری شہادت کے بعد تحریکِ اسلامی کے کارکن استقامت کا ثبوت دیں۔ ان کو کوئی غیرقانونی طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ تحریک کے کارکنوں کے لیے میرا پیغام ہے کہ شہادت کے خونیں راستے کے ذریعے سے فتح ضرور آنے والی ہے۔ اللہ جس کی مدد کرتا ہے کوئی اس کو روک نہیں سکتا۔ عبدالقادر مُلّا کو قتل کرکے ظالم حکمران اسلام کا راستہ روکنا چاہتے ہیں مگر مَیں یقین رکھتا ہوں کہ میری شہادت کے ہرقطرۂ خون سے تحریکِ اسلامی اور بھی آگے بڑھے گی اور یہ ظالم حکومت کی تباہی کا باعث ہوگی‘‘۔

عالمی اور علاقائی حالات کے پس منظر میں ۲۰۱۴ء غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس امر میں ذرا بھی شبہہ نہیں کہ سیاسی ، معاشی اور تہذیبی ہی نہیں مواصلاتی، ٹکنیکیاتی اور ماحولیاتی اعتبار سے بھی یہ سال اہم ہوگا اور اس میں رونما ہونے والے واقعات کے بڑے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان اور علاقے کے باب میں بھی یہ سال ایک تاریخی دوراہے (historical crossroads) کی حیثیت رکھتا ہے ۔

امریکا اور ناٹو کی افواج ۱۲ سال کی ناکام جنگ کے بعد افغانستان چھوڑ نے کا اقدام کرنے والی ہیں اور اس کے سوا ان کے پاس کوئی چارۂ کار نہیں ہے ۔ پھر افغانستان میں اپریل ۲۰۱۴ء میں نئے صدارتی انتخابات منعقد ہونا ہیں ۔ اس انتخابی معرکے کی وجہ سے بھی ایک غیر یقینی کیفیت پیدا ہوگئی ہے جو امریکی اور ناٹو افواج کی واپسی اور امریکا کے آیندہ کردارکے بارے میں اہم سوالیہ نشان اٹھا رہی ہے ۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے یہاں ۱۱ مئی کے انتخابات کے نتیجے میں ایک  نئی حکومت قائم ہوچکی ہے جو قوم کے مطالبے کے باوجود، ملک کو امریکی جنگ کی اس دلدل سے نکالنے کے لیے ابھی تک کم سے کم پیش رفت میں بھی ناکام ہے۔ اس لیے مستقبل کے لیے کوئی نقشۂ کار واضح نہیں ہے ۔ اس پس منظر میں ’کیسا ہوگا ۲۰۱۴ء‘کا سوال کچھ اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے ۔

آنے والے سال کے بارے میں میرے اندازے ، توقعات اور خدشات میرے اس تجزیے اور نتائج فکر پر مبنی ہیں جس پر میں ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے افسوس ناک اور قابلِ مذمت واقعے، اور اس پر امریکا کے غیر متوازن اور وحشیانہ رد عمل اور، گذشتہ ۱۲ سال میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے کردار، اور امریکا کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ اور پاکستان کی دونوں سابقہ حکومتوں کے کردار کے با ب میں ایک سوشل سائنٹسٹ کی حیثیت سے پہنچا ہوں۔ اس لیے پہلے میں مختصراً اپنا تجزیہ پیش کرتا ہوں اور پھر ان سوالات کے بارے میں کچھ عرض کروں گا جو ذہنوں کو پریشان کر رہے ہیں اور واضح جواب کے لیے پکار رہے ہیں ۔

۱۔ دہشت گردی کا مسئلہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس کے ایک نہیں دسیوں روپ ہیں اور ہر ایک کا اپنا اپنا رنگ و آہنگ ہے ۔ نہ اس مسئلے کا جنم دن ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء ہے اور نہ ۲۰۱۴ء میں اگر امریکا اور ناٹو افواج کا افغانستان سے مکمل انخلا واقع ہو جاتا ہے ، جو بہت مشتبہ ہے ، کیا تب بھی یہ دہشت گردی ختم ہوجائے گی ؟ عراق سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد سب نے دیکھ لیاہے کہ وہاں اب بھی دہشت گردی کا بازار گرم ہے اور صرف ۲۰۱۳ء کے پہلے ۱۰مہینے میں ۸ہزار سے زیادہ افراد  لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ دہشت گردی محض ایک عسکری مسئلہ نہیں ہے، گو عسکری پہلو بھی ایک جہت کی حیثیت سے ضرور موجود ہے ۔ بنیادی طور پر اس کی جڑیں سیاسی مسائل اورناانصافیوں ہی میں پائی جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان مسائل کے قرار واقعی حل کے بغیر اس کا حل ممکن نہیں۔

۲۔ اس وقت اہم ترین مسئلہ افغانستان پر امریکی اور ناٹو افواج کا قبضہ ہے اور اگر افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کا مکمل انخلا نہیں ہوتا تو افغانستان میں امن کے قیام کا کوئی امکان نہیں۔ اس صورت میں یہ بھی نظر نہیں آتا کہ پاکستان آگ کے اس سمندر سے نکل سکے ۔

۳۔ سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر کوئی کچھ بھی کہے لیکن دو حقیقتوں کا اعتراف ضروری ہے، اور عالمی سطح پر بھی آزاد حلقوں میں اب اس بارے میں کھل کر اعتراف کیا جا رہا ہے کہ:

الف۔ افغانستان اور عراق دونوں میں فوج کشی کا کوئی حقیقی جواز نہیں تھا۔ امریکا نے محض ایک عالمی طاقت ہونے کے زعم میں اور امریکی بالادستی اور استثنائیت ((American hegemony and exceptionalism کومحض قوت کے زور سے دنیا پر مسلط کرنے کے لیے یہ جنگ لڑی اور منہ کی کھائی ۔ The New York Review of Booksکے ۲۴؍ اکتوبر ۲۰۱۳ء کے شمارے میں وار آن ٹیرر پر ایک اہم کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے میلسی روتھوین(Malisi Ruthven) ایک جملے میں پوری خونچکاں داستان کو یوں بیان کرتا ہے :It is difficult to escape the conclusion that the United States has been fighting the wrong war, with the wrong tactics, against the wrong enemy and therefore the results can be nothing but wrong. ’’اس کے علاوہ کوئی نتیجہ نکالنا مشکل ہے کہ امریکا نے ایک غلط جنگ ، غلط حکمت عملی سے غلط دشمن کے خلاف لڑی اور اس لیے نتائج بھی غلط کے علاوہ کچھ اور نہ ہو سکتے تھے ‘‘۔

روزنامہ دی گارڈین لندن کا کالم نگار سیومس ملن (Seumus Milne)۱۳ دسمبر ۲۰۱۳ء کی اشاعت میں مغربی دانش وروں کی سوچ کا خلاصہ یوں بیان کرتا ہے کہ: The wars unleashed or fuelled by the US, Britain and their allies over the past 12 years have been shameful. Far from accomplishing their missions, they have brought untold misery, spread terrorism across the world and brought strategic defeat to those who leashed them. ’’امریکا، برطانیہ اور ان کے حلیفوں نے جو جنگیں گذشتہ ۱۲برسوں میں شروع کیں اور ان کو ایندھن فراہم کیا ، شرم ناک تھیں۔ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بجاے یہ غیرمعمولی تحریک لائیں، دہشت گردی کو ساری دنیا میں پھیلا دیا اور جنھوں نے اس کا آغاز کیا ان کی اسٹرے ٹیجک شکست کا باعث بنیں‘‘۔

یہ ہے افغانستان اور عراق پر مسلط کی جانے والی ۱۲ سالہ جنگوں کا حاصل اور وہ بھی چھے لاکھ کے قریب انسانوں کی ہلاکت، ۴۰ سے ۵۰ لاکھ کی خانہ بربادی اور نقل مکانی اور ۳سے ۴ہزار ارب ڈالروں کو اس جنگ میں پھونکنے کی قیمت پر!

ب- افغانستان میں امریکا اپنی تمام فوجی قوت اور ٹکنالوجیکل برتری اور اتحادیوں کی رفاقت کے باوجود جنگ ہار چکا ہے ۔ اس کا احساس اوباما کو جولائی ۲۰۰۹ میں ہی ہو گیا تھا جب اس نے اعتراف کیا تھا کہ:We are not trying to win this war militarily. Victory is not possible. ’’ہم اس جنگ کو فوجی بنا پر جیتنے کی کوشش نہیں کر رہے ۔ فوجی فتح ممکن نہیں ہے ‘‘۔

لیکن اس کے باوجود فوج کے اصرار پر اس نے ۳۰ ہزار افوج مزید بھیج کر جنگ کا پلڑا بدلنے کی ناکام کوشش کی اور اب سب اعتراف کر رہے ہیں کہ جنگ ہاری جا چکی ہے ۔ امریکی مؤقر جریدے فارن افیرز کے تازہ شمارے (ستمبر، اکتوبر ۲۰۱۳ء) میں جارج واشنگٹن یونی ورسٹی کے علمِ سیاسیات کے پروفیسر اسٹیفن بڈل نے اپنے مضمون Ending the War in Afghanistan  میں صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ: ’’شکست یا مذاکرات ان کے سوا کوئی اور راستہ نہیں‘‘۔اس جنگ کے صرف دو حقیقی متبادل ہیں جن میں سے کوئی بھی خوش گوار نہیں۔ ایک یہ کہ طالبان سے مذاکرات کے بارے میں سنجیدہ ہو جائیں، گو یہ بھی کوئی امرت نہیں ہے لیکن یہ مکمل شکست کا واحد متبادل ہے۔

 امریکا اپنا کوئی بھی اعلان شدہ مقصد حاصل نہیں کر سکا اور دنیا اور امریکا دونوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچانے کے باوجود آج امریکا معاشی طور پر کمزور اور عدم تحفظ کے عوامی احساس کے بارے میں اُس سے ابتر حالت میں ہے جس میں۱ ۱ ستمبر ۲۰۰۱ء سے پہلے تھا۔ تازہ ترین راے عامہ کے سروے یہ بتا رہے ہیں کہ خود امریکا میں ۷۰ فی صد سے زیادہ افراد اپنے آپ کو آج غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں، یعنی وہی کیفیت جو ۲۰۰۲ء میں تھی۔

۳۔ اس جنگ میں پاکستان کی شرکت جن وجو ہ اور مجبوریوں کے تحت بھی ہوئی ہو، اپنے نتائج کے اعتبار سے یہ شرکت پاکستان کے لیے نقصان، تباہی اور بے حد و حساب بگاڑ اور فساد کا ذریعہ بنی ہے ۔ امریکا ہم سے ناخوش ہے اور ہمیں برملا ’ناقابلِ اعتبار‘قرار دے رہا ہے ۔ افغان عوام ہم سے بے زار ہیں کہ ہم نے ایک عالمی طاقت کا آلۂ کار بن کر ان پر فوج کشی کی راہ ہموار کی اور امریکی قبضے کے قیام میں معاونت کی ۔ افغان حکومت ہم سے شکوہ سنج ہے کہ پاکستان طالبان کی در پردہ پشت پناہی کر رہا ہے ۔ بھارت نے افغانستان میں اپنے لیے ایک کردار وضع کر لیا ہے حالانکہ روس کے فوجی قبضے کی تائید کر کے اس نے افغانستان میں اپنے کو ایک مبغوض ملک بنا لیا تھا، اور خود پاکستان میں دہشت گردی کے نت نئے روپ رونما ہو رہے ہیں۔ ملک کا امن و امان تہہ و بالا ہے اور معاشی حیثیت سے ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے ۔ سرکاری تخمینوں کے مطابق ان ۱۲سال میں ہمیں اس نام نہاد امداد کو ایڈجسٹ کرنے کے با وجود جوسامراجی قوتوں کی خدمات کے معاوضے میں ہمیں دی گئی ہے، یعنی Net terms  میں پاکستان کے عوام کو ۱۰۰ بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے ، اور اس پر مستزاد وہ ۵۰ ہزار افراد ہیں جو ہلاک ہوئے ہیں۔ اس سے زیادہ زخمی ہیں ا ور خود ملک میں ۳۰ لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ اس لیے اس عذاب سے نکلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

۴- امریکا ہو، ناٹو ہو یا خود پاکستان ہو، اس مسئلے کے سیاسی حل کے سوا کوئی نجات کا راستہ نہیں ہے ۔ اس سے انکار نہیں کہ امن و امان کے قیام اور ملکی سلامتی کے تحفظ کے لیے ریاستی قوت کے استعمال کا ایک معروف کردار ہے جو دستور اور قانون کے مطابق ادا کیا جانا چاہیے لیکن سیاسی مسائل کا حل کبھی محض عسکری قوت سے ہوا ہے اورنہ ہو سکتا ہے ۔ افغانستان کے باب میں اس کا ادراک اب بہت دیر سے ہورہا ہے حالاں کہ اصحابِ بصیرت بہت پہلے سے یہ بات کہہ رہے تھے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے افغانستان کے لیے خصوصی نمایندے Tom Koenigs نے جرمن روزنامہ Berliner Zeitingکو ۱۳؍ اپریل ۲۰۰۷ء کو انٹرویو دیتے ہوئے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ :If there is to be a chance for peace , we must talk to everyone, including alleged war criminals . The aim is to stabilize Afghanistan.  ’’اگر امن کے لیے کوئی امکان ہو تو ہمیں ہر ایک سے بشمول جنگی مجرموں کے بات چیت کرنا ہو گی۔ مقصد افغانستان کو مستحکم کرنا ہے ‘‘۔

اب جون ۲۰۱۳ میں برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے افغانستان کے دورے کے دوران اعتراف کیاہے کہ: 2002 was the correct time to carry negotiations with the Taliban. ’’طالبان سے مذاکرات کے لیے ۲۰۰۲ء صحیح وقت تھا‘‘۔ اور افغانستان میں خود ناٹو کے نائب کمانڈر جنرل زگ کارٹر نے ارشاد فرمایا ہے کہ: Negotiations with Taliban should have been conducted in 2002. ’’طالبان سے مذاکرات ۲۰۰۲ میں کر نے چاہیے تھے ‘‘۔

اس پر اس کے سوا اورکیا کہا جاسکتا ہے کہ ع    ’ہاے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا‘۔

حالات کے اس تجزیے کی روشنی میں ۲۰۱۴ء کے لیے پاکستان کے لیے صحیح حکمت عملی یہ ہے کہ وہ :

الف- دہشت گردی کے خلاف اس جنگ سے بے تعلقی کا اعلان کرے اور پوری خارجہ پالیسی کو اپنے ملکی مفاد اور عوامی جذبات اور خوااہشات کی روشنی میں از سر نو ترتیب دے جیسا کہ خود پارلیمنٹ نے اپنی ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ ء اور ۱۴ مئی ۲۰۱۱ء کی دو قراردادوں میں مطالبہ کیا ہے ۔

ب- افغانستان میں افغانیوں کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ترغیب دیں کہ وہ قومی مفاہمت کا راستہ اختیار کر کے افغان مسئلے کا افغان حل نکالیں اور سب سیاسی اور مذہبی قوتوں کو اس میں شریک کریں۔

ج- افغانستان کے معاملات میں امریکا، پاکستان، بھارت، ایران کوئی بھی مداخلت نہ کرے، البتہ علاقائی امن کی خاطر افہام و تفہیم سے حالات کو بہتر بنانے میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔

د- پاکستان امریکی جنگ سے بے تعلقی اختیار کرنے کے ساتھ خود اپنے ملک میں ، طالبان اور جو بھی دوسرے عناصر امن و امان کا مسئلہ پیدا کیے ہوئے ہیں، ان کو سیاسی عمل کے ذریعے سے دہشت گردی سے باز رکھنے کے عمل کا سنجیدگی سے آغاز کرے ۔ اس سلسلے میں ایک ہمہ جہتی حکمت عملی تیار کی جانی چاہیے جو پارلیمنٹ کے دیے ہوئے خطوط کی روشنی میں مذاکرات ، ترقی اور تعمیر نو اور ریاستی رٹ کی بحالی بذریعہ سدجارحیت (deterrence) پر مشتمل ہو۔ نیز فاٹا کے مخصوص حالات کی روشنی میں اس علاقے کو جلد از جلد ایک واضح پروگرام کے تحت ملک کے دستور ی نظام کا حصہ بنایا جائے اور جو کام ۶۶ سال سے معلق ہے اسے بلاتاخیر انجام دیا جائے، تا کہ وہاں حقیقی معنی میں حکومت کی رٹ قائم ہو سکے اور دستور اور قانون کی حکمرانی کا آغاز ہو سکے ۔

ہ۔ امریکا اورناٹو کے بارے میں یہ موقف مضبوطی سے اختیار کیا جائے کہ ان کے افغانستان سے مکمل انخلا کے بغیر افغانستان اور علاقے میں امن قٗائم نہیں ہو سکتا۔

میری نگاہ میں افغانستان اور خود پاکستان میں امن و امان کے قیام اور دہشت گردی کے ایک بڑے حصے سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کا مکمل انخلا ہو جس کا امکان بظاہر کم ہی ہے ۔ امریکا کی پوری کوشش ہے کہ وہاں ایک خاص تعداد میں اس کی فوج موجود رہے ۔تین سے نو فوجی اڈے اس کے قبضے میں ہوں اور اس طرح وہ افغانستان، چین، پاکستان اور وسط ایشیا کے بارے میں جو بھی ایجنڈا رکھتا ہے اس کے حصول کے لیے ایشیا کے قلب میں بیٹھ کر اپنا کھیل کھیل سکے ۔ یہ بڑا خطرناک اور مسلسل تصادم کو جاری رکھنے والا راستہ ہے ۔ پھر امریکی افواج کے لیے جس استثنا (immunity) کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور جو کرزئی حکومت تک امریکی افواج کو دینے کو تیار نہیں، اس کی موجودگی میں افغانستان میں امن کا خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اگر امریکی افواج وہاں رہتی ہیں تو جنگ کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے گی اور حالات مخدوش رہیں گے ۔ اور پاکستان بھی جنگ اور دہشت گردی کی اس دلدل سے نہ نکل سکے گا جس میں ۱۲ سال سے پھنسا ہوا ہے ۔

اس کے ساتھ دوسرا مسئلہ افغانستان کے مستقبل کے سیاسی انتظام کا ہے۔قرائن یہ ہیں کہ اپریل کا الیکشن کسی بڑی تبدیلی کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ مستقبل کا سیاسی نقشہ امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد ہی صورت پذیر ہوگا، البتہ اس امر کا خدشہ ہے کہ اگر اس مسئلے کو آج طے نہ کیا گیا تو خدانخواستہ افغانستان میں خانہ جنگی جاری رہے گی اور ۱۹۸۹ء سے ۱۹۹۶ء تک کا دور واپس آ سکتا ہے جو بڑا تباہ کن ہوگا۔ جنیوا معاہدے کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اس میں اصل بر سرِ جنگ قوتوں کو شامل کیے بغیر اوپر ہی اوپر معاملات طے کیے گئے تھے اور سب سے اہم مسئلے، یعنی روس کی فوجوں کے افغانستان سے انخلا کے بعد ملک کا انتظام و انصرام کیا ہوگا کو نظرانداز کر دیا اور اس طرح خانہ جنگی اور مسلسل تصادم کو ملک کا مقدر بنا دیا گیا۔ اگر آج بھی اس پہلو کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو خیر کی توقع نہیں ۔

مُلّا عمر کا عید الفطر کے موقعے پر بیان بہت اہم ہے جس میں اس نے مستقبل کے بارے میں چند اہم اشارے دیے ہیں یعنی :

۱-  امریکی اور غیر ملکی فوجوں کا مکمل انخلا۔

۲-  ملک کے تمام عناصر کی مشاورت سے ایک ایسے نئے انتظام کا اہتمام، جس میں سب کی شمولیت ہو(inclusive)-

۳- تعلیم اور ملکی ترقی کے باب میں ایک مؤثر کوشش۔

۴- عام مسلمانوں اور معصوم انسانوں کا خون بہانے سے اجتناب۔

پاکستان میں امن کا بڑا انحصار پاکستان کے اندر دہشت گردی کے باب میں صحیح اور ہمہ جہتی حکمت عملی اپنانے اور اس پر خلوص سے عمل کے ساتھ افغانستان میں افغان قومی مفاہمت پر مبنی سیاسی انتظام کے جڑ پکڑنے پر ہے ورنہ خدا نخواستہ افغانستان خانہ جنگی کی آماج گاہ بنا رہے گا تو پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہوگا اور اس پر مستزاد افغانستان سے نقل مکانی کی نئی لہر کا بھی شدید خطرہ ہے ۔ اگر آج افغان مسئلے کا صحیح خطوط پر حل نہیں ہوگا تو پھر افغانستان اور پاکستان دونوں کو تباہی کے ایک نئے طوفان کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔ اس کی پیش بندی کا وقت آج ہے ، کل نہیں ہوگا۔

دہشت گردی اور فکری ٹکراؤ اور انتہاپسندی کی سوچ کا بھی ایک تعلق ضرور ہے لیکن ان دونوں اُمور کو مکمل طور پر گڈمڈ کر دینا بڑا خطرناک اور زمینی اور تاریخی حقائق کے ساتھ مذاق ہوگا۔ اختلاف راے ، فکری مباحث، اسٹیٹس کو (status quo)کو چیلنج اور نئی راہوں کی تلاش انسانی زندگی کی ایک حقیقت اور ترقی کے لیے زینے کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ عمل ،فکری اختلاف ،ذہنی ٹکرائو اور خیالات و افکار کی جنگ کی صورت اختیار کرتا رہا ہے اور پھر اسی کش مکش اور تصادم سے نئے افکار اور نئے فکری سمجھوتے وجود میں آتے رہے ہیں۔ ہیگل اور مارکس کا تو فلسفۂ تاریخ ہی اس تصادم کے سہ رکنی سفر (tringular journey) پر ہے، یعنی تھیسس جس کا مقابلہ دوسری انتہا پر اینٹی تھیسس کرتی ہے اور پھر اِمتزاج (synthesis) پیدا ہوتا ہے جو مرور زمانہ سے ایک بار پھر تھیسس بن جاتا ہے اورپھر یہی عمل جاری رہتا ہے ۔ محض انتہاپسندی کا رونا رو کر فکری سفر کے اس پورے تناظر کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔

اسی طرح جب کسی معاشرے میں جبر اور تشددکا دور دورہ ہو ، جب عدل اور انصاف کا فقدان ہو، جب عوام کو ان کی بنیادی ضرورتوں سے محروم کر دیا گیا ہو ،خواہ بیرونی قبضے کی شکل میں یا اندرونی آمریت اور استحصالی نظام کی وجہ سے تو پھر ان حالات کا بالآخر جو رد عمل رُونما ہوتا ہے، اس میں تشد د کا کردار نا گزیر ہو جاتا ہے ۔ اس پر تشدد رد عمل کو جواز فراہم کرنے کے لیے فکری میدان میں بھی نظریات جنم لیتے ہیں اور فکر اور عمل دونوں میدانوں میں اس سے سابقہ پیش آتا ہے ۔   واضح رہے کہ یہ معاملہ کسی خاص مذہب ، تہذیب، علاقے یا قوم سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ ایک ہمہ گیر تاریخی عمل ہے اور اپنے تمام نشیب و فراز کے ساتھ تاریخ کے مختلف ادوار میں اور دنیا کے سب ہی علاقوں میں رونما ہوتا رہاہے ۔یہ عمل اپنے تمام تعمیری اور تشکیلی پہلوئوں اور تمام تخریبی اور تباہ کن شکلوں کے ساتھ ہی تاریخ میں ایک اہم منظرنامہ پیش کرتا ہے ۔ بلاشبہہ فکری محاذ پر تصادم کو کم کرنے اور افہام و تفہیم کی نئی راہیں تلاش کرنے کا عمل از بس ضروری ہے ۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کو ان اُمور پر کھل کر بحث کرنی چاہیے لیکن دہشت گردی کا رشتہ دینی فکر اور تصورِ جہاد سے جوڑ کر دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی روش غلط ہے اور اس سے اجتناب اولیٰ ہے ۔

یہ وہ پس منظر ہے جس میں خود پاکستان اور عالم اسلام میں آج انتہا پسندی اور تشدد کے رجحانات کے مطالعے اور تجزیے کی ضرورت ہے ۔ ولیم بلوم (William Blum) جو ایک مشہور سفارت کار، دانش ور اور مصنف ہے جو امریکا کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا رہاہے اور جس نے جنگ، دہشت گردی، تشدد اور انتہا پسندی کے موضوع پر اور ان جرائم میں امریکا کے کردار پر نصف درجن سے زائد کتابیں لکھی ہیں ۔ اس کی تازہ ترین کتابAmerica's Deadliest Export: Democracy (اشاعت:  وسط ۰۱۳ ۲ء) اس مسئلے پر بھی بحث کرتی ہے ۔ اس میں اس نے امریکا کی پالیسیوں کو پوری دنیا میں امریکا کے خلاف نفرت ، شدت پسندی، اور دہشت گردی کے فروغ کا اصل سبب قرار دیا ہے اور یہ تک کہا ہے کہ طالبان اگر ایک ذہن اور سوچ کے انداز (mindset)کا نام ہے تو وہ صرف افغانستان یا پاکستان میں نہیں، واشنگٹن اور مغربی ممالک میں بھی موجود ہے ۔ الفاظ اور اصطلاحات مختلف ہیں لیکن حقیقت اور جوہر میں کوئی فرق نہیں۔ وہ صاف الفاظ میں اعتراف کرتا ہے کہ: ’’جنگ امریکا کے لیے ایک مذہب کی شکل اختیار کر گئی ہے‘‘ اور جو بھی امریکا کے اس مذہب کو تسلیم نہیں کرتا، خواہ وہ افغانستان اور پاکستان میں ہو یا کہیں اور،  وہ امریکا کی نگاہ میں توہین مذہب (blasphemy) کا مجرم ہے اور اس طرح وہ قتل کا سزاوار ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں پرموت کی بارش کی جاتی ہے ۔ امریکی دہشت گردی اور افغان اور مسلم دہشت گردی کا مقابلہ و موازنہ کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے کہ: "What is the difference between them and Mumtaz Qadri? Qadri was smiling in satisfaction after carrying out his holy mission. The CIA man sits comfortably in room in Neveda and plays his holy video game, then goes out to a satisfying dinner while his victims lay dying. Mumtaz Qadri believes passionately in something called Paradise. The CIA men believe passionately in something called American Exceptionalism!. (page. 328)". ’’ممتاز قادری اور ان لوگوں کے درمیان کیا فرق ہے ؟ قادری اپنا مقدس مشن پورا کر کے اطمینان سے مسکرا رہا تھا ۔ سی آئی اے کا اہل کار بھی نوادا میں اپنے کمرے میں آرام سے بیٹھ کر اپنی مقدس وڈیو گیم کھیلتا ہے اور پھر اپنے اہداف کو مرتے ہوئے اطمینان سے دیکھتا ہے ۔ ممتاز قادری نہایت جذبے سے جس چیز کو جنت کہتا ہے ، اس پر یقین رکھتا ہے۔ سی آئی اے کے اہل کار بھی ایسے ہی جذبے سے جس چیز پر یقین رکھتے ہیں وہ جسے امریکی بالا دستی اور استثنائیت کہا جا تا ہے ‘‘۔

کاش! ہم اس پیچیدہ اور عالم گیر مسئلے کو تعصبات کی عینک سے دیکھنے کے بجاے تاریخی اور زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھیں اور اسباب تک پہنچ کر حالات کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں ورنہ نتائج بگاڑ میں اضافے کے سوا اورکیا ہو سکتے ہیں؟

رہا معاملہ پاکستان میں دینی جماعتوں کے فکری رجحانات اور سیاسی موقف کا تو وہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہیں اور ان پر دہشت گردی یا انتہاپسندانہ تصورات کے اثرات پڑنے کا خدشہ ایک واہمے سے زیادہ نہیں۔ پاکستان کی دینی جماعتیں بہت ہی متوازن سوچ کی علَم بردار ہیں ، انھوں نے تبدیلی کے لیے جمہوری راستے کو منتخب کیا ہے اور اس پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہیں ۔ علماے کرام نے بالعموم اعتقادی اور سیاسی اُمور کے سلسلے میں قوت کے استعمال کو ناقابل بردا شت قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ اس سلسلے میں قرآن کا حکم بہت واضح ہے کہ دین کے معاملات میں کوئی جبر نہیں۔ (لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ)۔اسلام کی نگاہ میں خون ناحق ایک صریح ظلم اور انسانیت کے خلاف جرم ہے خواہ   اس کا ارتکاب کوئی بھی کرے ، فرد، گروہ یا حکومت اور خواہ اس کے لیے کوئی بھی عنوان استعمال کیا جائے، مذہبی یا سیکولر۔

۲۰۱۴ء کیسا ہوگا؟ اس کا بڑا انحصار اس پر ہوگا کہ ہم ۲۰۱۴ء کے چیلنجوں کا کس طرح جواب دیتے ہیں۔ حالات کا تجزیہ کتنی حقیقت پسندی اور دیانت داری کے ساتھ کرتے ہیں اور اپنی  حکمت عملی کتنی صحیح بنیادوں پر مرتب کرتے ہیں اور سب سے اہم یہ ہے کہ جو بھی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں اس کے بارے میں عملاً کتنے مخلص ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس پر عمل کے لیے دیانت اور اعلیٰ صلاحیت دونوں کا کس حد تک مظاہر ہ کرتے ہیں۔ پاکستان کے ناگفتہ بہ حالات میں بڑا دخل حالات کے صحیح تجزیے کے فقدان کے ساتھ قیادت کا عدم خلوص اور اچھی حکمرانی کی صلاحیت سے محرومی ہے ۔ اگر ہم اپنی پالیسیاں صحیح بنیادوں پر تشکیل دیں اور اپنی صلاحیتوں کو صحیح انداز میں  بروے کار لائیں اور اچھی حکمرانی پر عمل پیرا ہوں، تو ۲۰۱۴ء ساری مشکلات اور چیلنجوں کے باوجود بہتری کے سفر میں ایک سنگ میل بھی بن سکتا ہے اور یہی ہماری کوشش ہونی چاہیے ۔ ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ۲۰۱۴ء ویسا ہوگا جیسا ہم اسے بنانے کی کوشش کریں گے اور اللہ پر بھروسے کے ساتھ خود وہ کچھ کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائیں جو مطلوب ہے۔ صحیح پالیسی، قیادت کی یکسوئی اور اچھی حکمرانی کے ذریعے تشکیلِ نو کی سعی و جہد میں ہی نجات ہے اور غیروں کی ذہنی ، معاشی اور سیاسی غلامی سے نکلے بغیر اور خود اپنی قوم اور اپنے وسائل پر انحصار کا راستہ اختیار کیے بغیر حالات تبدیل نہیں ہوسکتے۔ یہ لمحہ ایک بنیادی فیصلہ کرنے کا ہے اور اگر ہم نے اسے ضائع کردیا تو یہ بڑا قومی سانحہ ہوگا۔

ڈرون حملے پہلے دن سے غلط اور پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور سالمیت کے لیے ایک چیلنج تھے، جنھیں کسی بھی شکل میں اور کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کیا جانا چاہیے تھا اور نہیں کیا جاسکتا۔ بدقسمتی سے سابقہ حکومتوں نے اس بارے میں مجرمانہ غفلت اور شاطرانہ مفاہمت کا راستہ اختیار کیا اور ملک و ملت کی آزادی اور عزت دونوں کو بُری طرح پامال کیا۔ توقع تھی کہ ۱۱مئی۲۰۱۳ء کے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت ماضی کی روش کو یکسر تبدیل کرے گی اور عوام سے جس بنیاد پر اس نے مینڈیٹ حاصل کیا ہے، اس کی روشنی میں ایک خودمختار اور آزاد ریاست کے مفادات کے مطابق خارجہ پالیسی اور دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے نکلنے کا راستہ اختیار کرے گی۔ لیکن ان چھے مہینوں میں مرکزی حکومت نے ویسے تو ہرمیدان میں قوم کو مایوس کیا ہے، تاہم جس سلسلے میں وہ سب سے زیادہ ناکام رہی ہے، وہ امریکا سے تعلقات کو ازسرِنو مرتب کرنا اور دہشت گردی کی امریکی جنگ سے نکلنے کے لیے قومی جذبات اور سیاسی اتفاق راے کے مطابق مؤثر اقدام ہے۔

امریکا نے اپنی جارحانہ پالیسیوں کو نہ صرف جاری رکھا ہے، بلکہ ان کو ایک نئی جہت دینے کی کوشش کی ہے۔ جس کے نتیجے میں مذاکرات کے سیاسی عمل کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں کو وہ مسدود کر رہا ہے اور پاکستان کو جنگ کی آگ میں دھکیلنے کا کھیل کھیل رہا ہے۔

یکم نومبر۲۰۱۳ء کو فاٹا میں میران شاہ کے مقام پر ڈرون حملہ مذاکراتی عمل کو اس کے آغاز سے پہلے ہی تباہ کرنے کی کھلی کھلی کوشش ہے، اور پھر ۲۰نومبر کو خیبرپختون خوا کے آباد علاقے ہنگو میں ایک دینی تعلیمی ادارے پر حملہ اس جنگ کو وسعت دینے کی ایک ناپاک اور شرانگیز جسارت ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو حالات میں جوہری تبدیلی کا ذریعہ بن گئی ہے۔ قوم کے لیے اپنی آزادی، خودمختاری اور عزت کی حفاظت کے لیے اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں کہ اپنی آزادی، مفادات اور عزت کے تحفظ کے لیے اُٹھ کھڑی ہو اور پالیسی تبدیل کرنے کے لیے حکومت پر مؤثر سیاسی دبائو ڈالے۔

امریکی اور ناٹو افواج کے لیے پاکستان کی سرزمین کے راستے رسد جانے کو روکنا خود مطلوب نہیں بلکہ اصل ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ایک مؤثر، پُرامن اور قابلِ عمل ذریعہ ہے، تاکہ نہ صرف یہ کہ ہماری ملکی سرحدات کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے ملکی اور عالمی سطح پر مؤثراقدامات کیے جاسکیں، بلکہ امریکا کی اس جنگ سے ہم نکل سکیں اور توجہ کا مرکز ، مسائل کا سیاسی حل بن سکے۔ اس کے نتیجے میں راہ کی تمام رکاوٹوں کو دُور کیا جاسکے گا اور ملک میں امن و امان کی وہ کیفیت پیدا کی جاسکے گی، جس میں عوام سُکھ کا سانس لے سکیں، معیشت رُوبہ ترقی ہوسکے اور ۱۲سال سے جس آگ میں ملک جل رہا ہے اس سے نجات پائی جاسکے۔

اصل ہدف امریکی جنگ سے نکلنا، اس جنگ کو پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پورے علاقے میں ختم کرنے کی راہ ہموار کرنا، ڈرون حملوں کو فوری طور پر بند کروانا اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ یہ تمام اُمور اس طرح ایک دوسرے سے مربوط ہیں کہ ان سے الگ الگ پنجہ آزما نہیں ہوا جاسکتا۔ اس لیے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے اور قوم میں بھی اس مصلحت کے بارے میں مناسب اور مؤثرانداز میں تفہیم کا اہتمام کرنا چاہیے کہ سپلائی لائن کو روکنے کی کوشش ایک ذریعہ ہے، تاکہ ایک طرف عوام کو متحرک کیا جاسکے، تو دوسری طرف مرکزی حکومت اور عالمی راے عامہ کو ڈرون حملوں کو رُکوانے، دہشت گردی کے خلاف اس ۱۲سالہ جنگ کی ناکامی کو الم نشرح کرنے، اور مسئلے کے حل کے لیے متبادل حکمت عملی پر فی الفور اور سرگرمی سے کوشش کو ممکن بنایا جائے۔

ڈرون حملے خود اپنی جگہ ایک ظلم، ایک جرم اور تباہی کا سبب ہیں اور اس کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بنیادی حکمت عملی کی راہ کی بڑی رکاوٹ ہیں۔ بظاہر امریکا کو یہ ایک آسان راستہ نظر آیا ہے کہ اپنی فوجوں کو جانی نقصان سے بچانے کے لیے جدید ٹکنالوجی کے ذریعے انسانوں کا قتل عام کرے اور سمجھے کہ اس طرح دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس ظلم کے نتیجے میں دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے اور بلانام کے ایک دہشت گرد کی ہلاکت کے نتیجے میں دسیوں نئے دہشت گرد پیدا ہورہے ہیں، اور پوری پوری آبادیاں اپنے پیاروں سے محروم ہوکر غم و غصے اور ہیجان میں مبتلا ہی نہیں ہورہیں بلکہ نفرت اور انتقام کی آگ میں بھی جل رہی ہیں۔ اس طرح یہ حملے بگاڑ اور خطرات میں اضافے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔

ایک امریکی دانش ور ڈیوڈ سوان سن نے کاؤنٹرپنچ کے ۲۶نومبر۲۰۱۳ء کے شمارے میں افغانستان میں امریکی فوجوں کو مزید روکے رکھنے کی پالیسی پر سخت تنقید کی ہے اور اس جنگ سے جو کچھ حاصل ہوا ہے، اسے ایک جملے میں بڑی خوب صورتی سے بیان کردیا ہے، یعنی:

ہم افغانستان کی جنگ پر ہر گھنٹے ۱۰ملین [یعنی ایک کروڑ] ڈالر خرچ کر رہے ہیں مگر ہمیں جو کچھ حاصل ہوا وہ یہ ہے کہ ملک میں ہم زیادہ غیرمحفوظ ہیں اور دنیا بھر میں ہم سے نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔

’دہشت گردی کے خاتمے‘ کے نام پر اس جنگ سے امریکا کے اعلان شدہ مقاصد یہ تھے کہ: امریکا کو ہم محفوظ بنارہے ہیں اور دنیا کے دل و دماغ جیتنے کی سعی کر رہے ہیں، مگر امریکی مقتدرہ کو ان دونوں مقاصد میں ناکامی ہوئی ہے۔ یہ تو اعلان شدہ مقاصد تھے۔ اصل مقاصد تو دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنا تھا (global hegemony) اور اس کے دن بھی اب گنے جارہے ہیں۔

امریکا کو ویت نام اور عراق کی طرح افغانستان میں بھی ناکامی کا سامنا ہے اور اپنی آبرو بچانے کے راستے تلاش کر رہا ہے۔ امریکی عوام کی اکثریت اس جنگ کو ایک ناکام مہم جوئی قرار دے رہی ہے اور اس سے نجات کا مطالبہ کررہی ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں ماسوا، اسرائیل اور بھارت، امریکا کی مقبولیت کا گراف اتنا گرچکا ہے کہ ۵۰ سے ۹۰ فی صد لوگ اس سے متنفرہیں۔ پاکستان میں ۹۳فی صد اسے دوست نہیں سمجھتے اور اب تو خود افغانستان کے وہ عناصر جن پرامریکا کو تکیہ تھا، اس جنگ کی ناکامی اور امریکا سے نجات کی بات کر رہے ہیں۔

۲۳نومبر ۲۰۱۳ء کابل میں امریکا کے ساتھ دوطرفہ معاہدے کے بارے میں جولویہ جرگہ

منعقد ہوا ہے، اس میں حامد کرزئی کی تقریر کے دوران ایک خاتون شریکِ جرگہ نے بلندآواز سے کہا: ’’امریکی افواج نے بہت زیادہ افغان خون بہایا ہے، یہ اب رُکنا چاہیے‘‘، جس نے تمام شرکا کو ششدر کردیا اور عالمی میڈیا کو اس فطری ردعمل کا نوٹس لینا پڑا (الجزیرہ، انگلش، ۲۵ نومبر ۲۰۱۳ء)۔ حامدکرزئی اور امریکا میں اعتماد کا فقدان ہے جس کا اظہار کرزئی نے جرگہ سے اپنے خطاب میں ان الفاظ میں کیا:  ’’مجھے امریکا پر زیادہ اعتماد نہیں ہے۔ میں ان پر اعتبار نہیں کرتا، وہ مجھ پر اعتبار نہیں کرتے‘‘۔

اس موقع پر، جب کہ امریکی سفیر جیمز کوٹنگم بھی سامنے موجود تھا، حامدکرزئی نے جو کچھ کہا ہے وہ اہم ہے اور اس میں پاکستان کے ان دانش وروں اور خصوصیت سے لبرل لیفٹ لابیز کے بلندآہنگ سورمائوں کے لیے بڑا سبق ہے جو امریکا کی اس جنگ کو اپنی جنگ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ افغان صدر نے کہا: ’’اگر ہم نے جنگ کا آغاز کیا ہوتا تو ہم ہی اسے ختم کرسکتے تھے۔ اگر ہم نے آغاز نہیں کیا تو ہم اسے ختم نہیں کرسکتے۔ اس جنگ کا آغاز ہمارے علاوہ کسی اور نے کیا‘‘۔

اسی طرح حامدکرزئی نے چند دن پہلے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے جنگ کی ناکامی کا کھلے الفاظ میں اعتراف کیا ہے جسے امریکا نے بڑی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے۔ افغان صدر کا ارشاد ہے:’’سلامتی کے محاذ پر ناٹو کی تمام مشقیں بہت زیادہ تکالیف اور جانیں جانے کی وجہ بنی ہیں‘‘۔اور پھر نہایت مایوسی سے اعتراف کیا کہ: ’’اور کچھ حاصل نہیں ہوا، اس لیے کہ ملک محفوظ نہیں ہے‘‘۔

اس تباہ کن جنگ کا آغاز بھی امریکا نے کیا ہے اور اسے ختم بھی اسے ہی کرنا ہوگا۔ افغانستان اس کی اصل آماج گاہ ہے لیکن پاکستان کو بھی اس جنگ میں زبردستی شریک کرلیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اپنی اس جنگ کے اخراجات کے ایک حصے کا بل بھی امریکا ہی ادا کر رہا ہے جسے پاکستان کے باب میں کولیشن سپورٹ فنڈ کا نام دیا گیا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ان تاریخی حقائق اور اُجرت کی جزوی وصولی، جو کبھی کبھی حقارت آمیز تک ہوجاتی ہے، کے باوجود ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کا ایک حصہ اسے اپنی جنگ کے طور پر پیش کرنے لگا ہے اور اب تو انتہا یہ ہے کہ یہ لابی ڈرون حملوں پر ظاہری تشویش کا اظہار کرنے کے بعد ان کی افادیت، ضرورت اور ناگزیریت تک کی باتیں کررہی ہے، اور امریکا اور ناٹو افواج کے لیے رسد کو بھی اس لیے ضروری قرار دے رہی ہے کہ اس کا تعلق بین الاقوامی معاہدے سے ہے اور اس سے امریکی فوجوں کی افغانستان سے واپسی میں مدد ملے گی۔

ضرورت ہے کہ ان تمام اُمور پر کھل کر بات کی جائے اور پاکستان کی آزادی اور سلامتی کی حفاظت اور اس کے اسٹرے ٹیجک مفادات کے تحفظ کے لیے واضح پالیسی بنائی جائے، اور دنیا کی تمام سیاسی قوتوں سے صرف قومی مفاد اور وقار کے مطابق معاملہ کیا جائے۔ اس وقت ڈرون حملوں کو رُکوانا اور اس کے لیے بشمول سپلائی لائن کو بند کرنے کے مختلف leverages استعمال کرنا قوم و ملت کی اہم ترین ضرورت بن گیا ہے۔ لیکن ہمیں اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ ڈرون حملے امریکی جارحیت اور مداخلت کا صرف عنوان ہیں اصل ایشو ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکلنا اور امریکا سے تعلقات کی خیالی نہیں بلکہ حقیقی بنیادوں پر تشکیل نو کرنا ہے۔ اس کے لیے ڈرون حملوں کا رُکنا اولین ضروری قدم ہے اور سپلائی لائن روکنے کی کوشش کا مقصد حکومت کی پالیسی اور کارروائی میں وہ تبدیلیاں لانا ہے جو اس مقصد کے حصول کو ممکن بناسکے۔ طالبان سے مذاکرات کا مقصد بھی دہشت گردی اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ دونوں ختم کرانے اور ملک میں امن اور سلامتی کی فضا پیدا کرنے کی کوششوں کے باب میں حکمت عملی کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری پاکستانی قوم مذاکرات چاہتی ہے اور تمام سیاسی جماعتوں نے اسی قومی طلب کو۹ستمبر کی ’کل جماعتی کانفرنس ‘ کی قرارداد کی شکل میں پیش کیا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو امریکا نہیں چاہتا اور امن اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے وہ ہراس کوشش کو ناکام بنانے کے لیے سرگرم ہے جو اس کے ایجنڈے کے مطابق نہیں۔

بنیادی حقائق

آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ ایک بار اُن بنیادوں کو واضح طور پر بیان کردیا جائے جن کا اِدراک صحیح حکمت عملی کے بنانے کے لیے ضروری ہے:

۱- پاکستان اور افغانستان دینی، سیاسی، تہذیبی، قبائلی، خاندانی اور معاشی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ وہ صرف جغرافیائی طور پر ہی ہمسایہ نہیں۔ یہ رشتہ ہمہ جہتی اور تاریخی اعتبار سے صدیوں کے تعلق کی بنیاد پر استوار ہے اوراپنے بہت سے اختلافات کے باوجود ہر بُرے وقت میں یہ دونوں ملک ایک دوسرے کے پشتی بان اور مددگار رہے ہیں۔ گذشتہ ۱۲برسوں میں اس رشتے میں جو دراڑیں پڑی ہیں وہ امریکا کی افغان جنگ کی وجہ سے ہیں۔ دونوں ممالک کی قیادت اور عوام کا فرض ہے کہ اپنی اپنی غلطیوں کا احساس اور اعتراف کرتے ہوئے دوستی، بھائی چارہ اور باہمی تعاون کے اصل رشتوں کو استوار کریں۔ ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت سے مکمل گریز کریں اور سیاسی اُمور کو سیاسی مذاکرات کے ذریعے طے کریں۔ ان ۱۲برسوں میں امریکا کا کردار بڑا منفی رہا ہے جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کو بڑا عظیم نقصان ہوا ہے جس کی تلافی اب ہمارا ہدف ہونا چاہیے۔ اس کے لیے افغانستان سے امریکی افواج کا مکمل انخلا ضروری ہے۔ اگر امریکی افواج ۱۰ یا ۱۲ہزار کی تعداد میں مع نو فوجی اور ہوائی اڈوں کے وہاں رہتی ہیں تو نہ افغانستان میں یہ جنگ ختم ہوگی اور نہ پاکستان اس آگ کی لپٹوں سے بچ سکے گا۔

۲-افغانستان میں ضروری ہے کہ قومی مفاہمت کی بنیاد پر افغانستان کی تمام سیاسی اور دینی قوتیں مل کر کسی بیرونی مداخلت کے بغیر، اپنے معاملات کو طے کریں، اور ملک کو نہ صرف خانہ جنگی کے خطرات سے بچائیں بلکہ قومی تعمیرنو اور ترقی کے ایک نئے دور کے لیے سب مل کر سرگرمِ عمل ہوجائیں۔ اس سلسلے میں مُلّاعمر نے عیدالاضحی کے موقعے پر جو پیغام دیا ہے وہ بڑا اہم ہے کہ اس میں امریکی اور ناٹو افواج کے مکمل انخلا کے ساتھ تین اہم باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یعنی:

ا- افغانستان میں ایک ایسا سیاسی انتظام جس میں وہاں موجود تمام افغان قوتیں اور عناصر شریک ہوں، یعنی سب کو ساتھ لے کر چلنے کا نقطۂ نظر۔

ب- تعلیم اور دوسرے اُمور کے بارے میں وسعت نظر کا عندیہ۔

ج- معصوم انسانوں کو ہلاکت کا ہدف بنانے سے مکمل احتراز۔

کچھ دوسرے بیان بھی اپنے اندر نئی اور کھلی سوچ کا پیغام رکھتے ہیں۔ یہ مثبت اشارے ہیں۔ پاکستان اور دوسرے حقیقی ہمسایہ ممالک خصوصیت سے ایران کی کوشش ہونی چاہیے کہ افغان مسئلے کا افغان حل نکالا جائے اور سب مل کر ملک کے استحکام کے لیے کوشش کریں۔ پاکستان کا مفاد اس میں ہے کہ افغانستان میں امن ہو اور وہ بیرونی عناصر خصوصیت سے امریکا اور بھارت کے کھیل کا حصہ نہ بنے۔ ہمیں افغانستان کے معاملات کو افغان بھائیوں پر مکمل طور پر چھوڑ دینا چاہیے تاکہ ایک طرف ہمارے مشترک مفادات کا حصول ہوسکے تو دوسری طرف دونوں کے اپنے اپنے مفادات کا احترام ہو۔ یہ تعلق سچائی اور شفافیت پر مبنی ہونا چاہیے، اسی میں خیر ہے۔

۳- پاکستان کے لیے اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں کہ امریکا کی اس جنگ سے ایک متعین نظام الاوقات کے مطابق اپنے تعلق کو ختم کرے، اور اس جنگ میں شراکت اور امریکا سے معمول کے سیاسی، سفارتی اور معاشی تعلقات جو دو الگ الگ ایشوز ہیں، ان پر الگ الگ معاملہ کرے۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکلنے اور اس میں امریکا کے شریکِ کار نہ رہنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم امریکا سے ٹکرائو یا جنگ چاہتے ہیں، البتہ یہ ایک حقیقت ہے اور امریکا کے ۶۶سالہ تعلقات کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ امریکا سے ہماری اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ نہ کبھی تھی اور نہ ہوسکتی ہے۔ یہ اس لیے کہ زمینی حقائق اس کے لیے سازگار نہیں۔ جہاں تک عمومی دوستی کا تعلق ہے، جسے سفارت کاری کی اصطلاح میں transactional relationsکہا جاتا ہے وہ دونوں کے مفاد میں ہیں اور ماضی میں ہمارے حقیقی تعلقات اس سطح سے کبھی بھی بلند نہیں ہوسکے۔ اس لیے زمینی حقائق کی روشنی میں تعلقات کو معروف دوستی اور مشترک مفادات کے باب میں تعاون کی بنیاد پر ازسرِنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک شفاف انداز میں اس جنگ سے ہم نکلیں اور اگر ہمیں نکلنے نہ دیا جائے تو پھر اپنے مفادات کی روشنی میں مناسب اقدام کریں۔

اس کے لیے حکومت کو کیا کرنا چاہیے وہ ہم ضروری وضاحت کے ساتھ قوم اور حکومت اور اس کے تمام اداروں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔ ان اُمور پر کھل کر دلیل کے ساتھ بات ہونی چاہیے۔ ایک دوسرے کو بلیک میل کرنے کی مذموم کوشش سے مکمل احتراز کیا جائے، جو بدقسمتی سے اس وقت کی جارہی ہے اور اس کا خصوصی نشانہ جماعت اسلامی پاکستان اور تحریک انصاف ہیں۔ یہ روش نہایت نقصان دہ ہے۔ ہم دلیل سے بات کرنے کے لیے ہروقت تیار ہیں اور دلیل سے قائل کرنے اور قائل ہونے کو صحیح راستہ سمجھتے ہیں لیکن غیرمتعلقہ بحثوں کو اُٹھا کر ایک اصولی تحریک کو نشانہ بنانے کی کوشش نہ ماضی میں کامیاب ہوئی ہے اور نہ آج ہوسکتی ہے۔ جماعت اسلامی اور اس کی قیادت نے مختلف اَدوار میں ایسے حملوں کا استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے اور یہی توقع ہم تحریکِ انصاف اور دوسری تعمیری قوتوں سے بھی رکھتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے بڑی سچی بات کہی تھی کہ برسرِاقتدار عناصر یہ نہ سمجھیں کہ اصولی جماعتوں کو دھونس، دھمکیوں اور غلط بیانیوں سے مغلوب کیا جاسکتا ہے، بلکہ ان کی حیثیت لوہے کے چنوں کی سی ہے جن کو چبانے کی کوشش کرنے والے کے دانت ٹوٹ تو سکتے ہیں مگر ان لوہے کے چنوں کو چبایا نہیں جاسکتا___ ان شاء اللہ۔

واضح رہے کہ عوام احتجاج اور دھرنوں پر اس لیے مجبور ہوتے ہیں کہ حکومت اور ذمہ دار افراد اور ادارے معروف سیاسی راستوں کو عملاً غیرمؤثر بنادیتے ہیں اور سیاسی معاملات کے سیاسی حل سے اجتناب کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں کو ایسے معاملات میں بھی مداخلت کرنا پڑتی ہے جو بالعموم ان کے دائرے میں داخل نہیں، لیکن دستور میں دیے ہوئے بنیادی حقوق کے محافظ کی حیثیت سے جب متعلقہ ادارے دادرسی میں ناکام رہتے ہیں تو پھر عدالتوں کو اقدام کرنا پڑتا ہے۔

ڈرون حملوں کی مخالفت کے اسباب

ڈرون حملوں کا مسئلہ کسی ایک علاقے یا کسی ایک جماعت اور گروہ کا مسئلہ نہیں۔ یہ پاکستان کی پوری قوم اور ملک کی آزادی، خودمختاری، سلامتی اور عزت و وقار کا مسئلہ ہے۔ اس کا تعلق اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون اور پاکستان کے دستور سے ہے جن کی ان کے ذریعے دھجیاںبکھیری جارہی ہیں۔   یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور عالمی انسانی قانون (International Humanitarian Law)سے اس کا قریبی تعلق ہے۔ یہ ملک میں دہشت گردی کے مسئلے سے جڑا ہوا ہے اور پورے پورے علاقے کے امن و امان اور لاکھوں انسانوں کی زندگی کے سُکھ اور چین سے اس کا تعلق ہے۔ لیکن حکومت اس سلسلے میں  اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ ڈرون حملے امریکی استعمار کا ایک شرم ناک ہتھیار ہیں جسے انتقام اور شبہے کی بنیاد پر انسانوں کے قتل کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اب عالمی سطح پر اقوام متحدہ کے ایوانوں میں، یورپین پارلیمنٹ میں اور خود امریکا میں صرف دانش وروں اور قانون سے متعلق حلقوں ہی میں نہیں خود امریکی کانگرس کی کمیٹیوں کی سطح پر بھی اس پر تنقید ہورہی ہے لیکن ہماری حکومت کا رویہ ناقابلِ فہم ہی نہیں قابلِ مذمت ہے۔

ڈرون حملے کم از کم مندرجہ ذیل بنیادوں پر ناقابلِ برداشت ہیں:

۱- یہ پاکستان کی علاقائی حاکمیت اور خودمختاری پر حملہ ہیں۔ پاکستان کسی بین الاقوامی وارزون کا حصہ نہیں اور اس کی فضائی اور زمینی سرحدات کو جو بھی پامال کرے اور بے دردی سے پامال کرتا رہے      وہ ہمارے خلاف جنگی اقدام کا مرتکب ہورہا ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ دستور پاکستان کی سرزمین، اس کی سرحدات اور پاکستان کے شہریوں کے جان و مال اور عزت کی محافظت کی ضمانت دیتا ہے۔ امریکا اس کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور پاکستان اور اس کے ذمہ دار ادارے پاکستان کے دستور، اس کی سرحدات، اس کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

۲- امریکا کے یہ اقدام اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون، بین الاقوامی انسانی قانون، اور خود امریکا کے دستور کی خلاف ورزی ہے۔ سلامتی کونسل نے امریکا کو پاکستان کی سرزمین پر کارروائی کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیا، حتیٰ کہ امریکی کانگرس میں بھی یہ سوال اُٹھا دیا گیا ہے کہ کانگرس تک سے خفیہ رکھ کر امریکی سی آئی اے اور انتظامیہ جو اقدام کر رہی ہے وہ امریکی دستور کے خلاف ہے۔

۳- عالمی طور پر مسلّمہ تصورِ انصاف اور قانونی پراسس کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی جارہی ہے جس نے پورے criminal justice کے نظام کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ ماوراے عدالت قتل اور ہدفی (targetted) قتل خواہ افراد کریں یا حکومتیں، جرم ہیں اور اگر ان کا ارتکاب بین الاقوامی سطح پر کیا جائے تو یہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، جیساکہ خود اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے Repporteur نے بار بار کہا ہے اور اکتوبر ۲۰۱۳ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی جانے والی اپنی رپورٹ میں صاف اور سخت الفاظ میں اس کا اعادہ کیا ہے۔

۴-غیرمتحارب شہریوں بشمول خواتین، بچے اور بوڑھے انسانوں کا قتل، کسی عدالتی عمل کے بغیر، اگر بڑے پیمانے پر ہو تو نسل کشی شمار کیا جاتا ہے جو انسانیت کے خلاف ایک عظیم جرم ہے۔ امریکا کی اس جنگ میں ڈرون کے بے محابا استعمال سے ایک امریکی تحقیقی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ہلاک کیے جانے والوں میں متعین طور پر دہشت گردوں اور ان کے رہنمائوں کی تعداد بمشکل ۳فی صد ہے، جب کہ ۹۷ فی صد کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں کہ ان کا کوئی تعلق کسی بھی درجے میں کسی دہشت گرد گروپ سے تھا۔ امریکی حکومت نے اپنے ناجائزاقدام پر پردہ ڈالنے کے لیے متحارب کی ایک نئی تعریف وضع کی ہے، یعنی متحارب وہ نہیں جو عملاً کسی جنگ یا دہشت گردی میں ملوث ہو بلکہ اس علاقے میں جسے امریکا جنگ کا علاقہ سمجھتا ہے، ہر وہ مرد جو ۱۶ سے ۶۰سال کی عمر میں ہو دہشت گرد تصور کیا جائے گا۔ اس تعریف کو دنیا میں کسی نے قبول نہیں کیا اور نہ اسے قبول ہی کیا جاسکتا ہے کہ اگر اس کا دائرہ اس طرح وسیع کیا جائے تو پھر دنیا کا کوئی بھی مرد کسی نہ کسی کے ڈرون کا نشانہ بننے کا مستحق ٹھیرتا ہے۔

امریکا کے اپنے تحقیقی اداروں کی اب چھے سے زیادہ رپورٹیں شائع ہوچکی ہیں اور جو مبنی ہیں ان ٹوٹی پھوٹی معلومات پر جو میسر ہیں، اور ان کا حاصل یہ ہے کہ ڈرون حملوں سے ہلاک ہونے والے تین سے چار ہزار افراد میں سے ۴۰۰ سے ۹۰۰ تک کو معلوم طور پر سویلین قرار دیا جارہا ہے اور ان میں عورتوں اور بچوں کی تعداد ۳۰۰ سے زیادہ بتائی جارہی ہے۔

۵-پھر ایک اور انسانی پہلو یہ ہے کہ ڈرون صرف لوگوں کو متعین طور پر ہی نشانہ نہیں بناتے بلکہ پوری پوری آبادیوں پر گھنٹوں پرواز کرنے اور فضا کو اپنی مکروہ آواز سے پراگندا کرتے ہیں اور اس طرح ان علاقوں میں بسنے والے تمام لوگوں پر مسلسل خوف کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں، اور تمام آبادی میں خصوصیت سے بچوں اور عورتوں میں ذہنی امراض کا سبب بن رہے ہیں۔ اس طرح یہ ایک اور انداز میں نسل کشی کا ذریعہ بن گئے ہیں۔

گویا عالمی قانون، ملک کا دستور، عالمی انسانی قانون، اور انسانی معاشرے کے بنیادی آداب، ہر پہلو سے ڈرون حملے ناجائزاور اس ملک اور اس کے باسیوں کے خلاف اقدامِ جنگ اور کھلے کھلے ظلم کا ارتکاب ہیں۔ ان کے لیے جواز فراہم کرنا ذہنی اور اخلاقی دیوالیہ پن کی دلیل ہے۔

۶-یکم نومبر کو جو ڈرون حملہ ہوا ہے اس نے ایک نئے پہلو کا اضافہ کردیا ہے، یعنی امن کے مذاکرات اور سیاسی عمل کو سبوتاژ کرنے کی مذموم سعی۔

فوری اقدامات

ان چھے وجوہ سے پاکستانی قوم اور حکومت کے لیے اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں کہ ڈرون حملوں کے فی الفور بند کیے جانے کا مطالبہ کرے اور اس سلسلے میں کم از کم مندرجہ ذیل اقدام کرے:

۱-حکومت کی طرف سے ان حملوں کے ناجائز اور ناقابلِ قبول ہونے کا اسٹیٹ پالیسی کے طور پر برملا اعلان اور امریکا سے مطالبہ کہ انھیں فی الفور بند کیا جائے ورنہ حکومت اور قوم ان کا توڑ کرنے کے لیے ہرضروری اقدام کرے گی۔ امریکی حکومت کو واضح الٹی میٹم تاکہ اس باب میں کوئی عذر باقی نہ رہے۔ ماضی میں اگر کسی نے کوئی اشارہ دیا بھی ہے تو اس کی تنسیخ اور واضح قومی پالیسی کا اعلان، حالانکہ بین الاقوامی قانون کا یہ اصول بھی مسلّمہ ہے کہ انفرادی حیثیت سے کسی بھی سرکاری یا غیرسرکاری فرد کا کوئی قول ایسے معاملات میں جہاں معاملہ ملک کے دستور اور قانون، حکومت کے ضابطۂ کار اور بین الاقوامی قانون بشمول بین الاقوامی قانون بسلسلہ انسانی حقوق کا ہو،کبھی معتبر نہیں ہوسکتا۔ اس سلسلے میں وزیراعظم صاحب کے واشنگٹن کے دورے کے موقعے پر امریکا کے اداروں نے پاکستان کے سیاسی اور عسکری ذمہ داروں کے ملوث ہونے کے بارے میں جو دستاویزات شائع کی ہیں ان کے قانونی طور پر ناقابلِ قبول ہونے کا اظہار اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی Ristof Heyne Report سے بھی کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈان میں ۱۹؍اکتوبر ۲۰۱۳ء کو شائع ہونے والی اس رپورٹ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا:

پاکستان کا واضح حوالہ دیتے ہوئے ہینز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے مطابق: فوجی یا خفیہ افسران کی اجازت امریکا کے کسی بیرونی ملک پر ڈرون حملے کرنے کا قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے کافی نہیں۔

ہینز کی رپورٹ جس میں دنیا میں مسلح تنازعات میں ڈرون کے استعمال کی قانونی شرائط بیان کی گئی ہیں، کے مطابق: کسی ریاست کی اعلیٰ ترین سرکاری مقتدرہ ہی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ طاقت کے استعمال کی اجازت دے۔ یہ کافی نہیں ہے کہ علاقائی اتھارٹی یا کچھ خاص ایجنسیوں سے یا حکومت کے شعبوں سے کوئی تائید حاصل کرلی جائے۔

ماضی میں جو ہوا سو ہوا لیکن اب حکومت کو صاف الفاظ میں ڈرون حملوں کے بند کیے جانے کا مطالبہ کرنا چاہیے اور پھر امریکا کو عالمی عدالت اور اقوام متحدہ کے کٹہرے میں لانے کے لیے مؤثر اقدام کرنے چاہییں۔ رپورٹ میں اس سلسلے میں بھی واضح رہنمائی موجود ہے:

’’طاقت استعمال کرنے کی اجازت جس لمحے واپس لی جائے تو جو ریاست ڈرون حملے کر رہی ہے بین الاقوامی قانون اس کو پابند کرتا ہے کہ وہ اس لمحے کے بعد مزید کسی حملے سے احتراز کرے‘‘۔ رپورٹ مزید کہتی ہے: ’’ریاستیں اپنی مملکت میں بین الاقوامی حقوق، انسانی قانون اور انسان دوست قانون کی کسی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دے سکتی‘‘۔

۲-دوسرا اہم اقدام یہ ہے کہ اگر امریکا ڈرون حملے نہیں روکتا تو سرکاری طور پر سپلائی لائن فی الفور بند کردینی چاہیے اور اس سلسلے میں جو بھی معاہدہ ہوا ہے، جو خود ظلم اور جبر پر مبنی ہے اسے ختم کیا جائے۔ واضح رہے کہ وسط ایشیا سے لے جانے والی سپلائز پرامریکا ۱۷ہزار۵سوڈالر فی ٹرک خرچ کر رہا ہے، جب کہ پاکستان کو صرف ۲۵۰ڈالر فی ٹرک دیا جاتا ہے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اس سے کم از کم پانچ گنا زیادہ ’بھتہ‘ ہر ٹرک پر خود طالبان کو دیا جاتا ہے۔ ٹرکوں کی اس آمدورفت سے پاکستان کی سڑکوں اور انفراسٹرکچر کو جو نقصان گذشتہ ۱۲سال سے ہوا ہے اس کے بارے میں محتاط ترین سرکاری اندازہ یہ ہے کہ ہمیں ۱۰۰ بلین روپے سے زیادہ کا نقصان ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس راہ داری کی وجہ سے اگر ایک طرف کرپشن کا طوفان آیا ہے تو دوسری طرف اسمگلنگ اور خود اسلحے کی اسمگلنگ کا بازار گرم ہوا ہے اور ۱۹ہزار ٹرکوں کے غائب ہوجانے کا معمہ تو آج تک سپریم کورٹ کے سامنے ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اگر ہم یہ پابندی لگائیں تو اس سے دوسرے ممالک سے ہمارے تعلقات خراب ہوں گے، حالانکہ یہ ایک بے معنی واہمہ ہے۔ ایک آزاد ملک کی حیثیت سے معاہدہ کرنے اور ختم کرنے کا ہمیں اختیار ہے اور دنیا میں ایسا ہوتا ہے۔ پابندیاں بھی لگائی جاتی ہیں، tariff کے ہتھیار کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اب معروف طریقے ہیں اور ان سے کوئی قیامت برپا نہیں ہوتی۔

اسی طرح اس بات میں بھی کوئی صداقت نہیں کہ اس وقت پابندی سے امریکی افواج کے انخلا پر اس کا اثر پڑے گا۔ ابھی تو سپلائز افغانستان جارہی ہیں، اصل واپسی تو ابھی شروع بھی نہیں ہوئی، نیز واپسی کا انتظام ہماری نہیں امریکا کی ذمہ داری اور ضرورت ہے۔ اگر وہ ہماری شرائط پر ہماری سہولتیں استعمال نہیں کرنا چاہتا تو شوق سے جو راستہ چاہے اختیار کرے۔ ہمیں اس کے لیے پریشان ہونے کیا ضرورت ہے۔ ڈرون کا معاملہ ہو یا راہ داری کا معاملہ، ہمارے لیے ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے اصل پیمانہ ہماری اپنی آزادی اور حاکمیت اور قومی مفادات کا ہے، اور اگر ہم اپنے قومی مفادات کو دوسروں کے تابع کردیتے ہیں تو یہ آزادی کا نہیں غلامی کا راستہ ہے۔ ہم ہی نہیں دوسرے بھی اس کا احساس رکھتے ہیں۔ مثلاً خود بارک اوباما کے ایک سابق مشیر مائیکل بوے لی (Michael Boyle) اپنے ایک حالیہ مضمون میں اعتراف کرتا ہے کہ :

پاکستانی علاقے میں ڈرون حملے حکومت امریکا کے سامنے جرنیلوں کی بے بسی اور تابع داری کی نہایت طاقت ور علامت ہیں۔(بحوالہ الجزیرہ، انگلش، ۱۱نومبر ۲۰۱۳ء)

اب یہ فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے کہ ہم آزادی کا راستہ اختیار کرتے ہیں یا غلامی اور بے چارگی کا!

۳- تیسری بنیادی چیز یہ ہے کہ ملک میں امریکا کے جاسوسی نظام پر کاری ضرب لگائی جائے۔ امریکی سفارت خانوں اور سفارت کاروں کو ان کی سفارتی حدود میں پابند کیا جائے اور ملکی اور غیرملکی مخبروں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ ڈرون حملے اس کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ امریکا کا مؤثر جاسوسی نظام ملک کے اندر موجود ہو اور اسے معلومات اندر سے فراہم کی جارہی ہوں۔ اس سلسلے میں فوری اقدام ضروری ہے۔ واضح رہے کہ اسنوڈن نے جو سرکاری دستاویزات شائع ہونے کے لیے فراہم کی ہیں اور ان میں سے جو دی گارڈین اور نیویارک ٹائمز میں شائع ہوگئی ہیں، ان کی رُو سے سی آئی اے نگرانی پر جو ۶۰۰ملین ڈالر سالانہ خرچ کر رہا ہے اس میں پاکستان کا حصہ تقریباً ۵۰ فی صد ہے۔ یہ ایک ہولناک صورت حال ہے اور اس سلسلے میں حکومت اور ہماری اپنی خفیہ ایجنسیوں کی خاموشی اور مداہنت تشویش ناک ہے۔ یہ پالیسی فوراً تبدیل ہونی چاہیے۔

۴-عالمی سطح پر اس مسئلے کو پوری تیاری کے ساتھ اُٹھایا جائے۔ آج عالمی فضا بدل رہی ہے۔ جگہ کی قلت کے باعث ہم اس کی تفصیل نہیں دے سکتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ۱۲برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ اقوام متحدہ سے لے کر دنیا کے انسانی حقوق کے معروف ادارے اس مسئلے کو اُٹھا رہے ہیں اور اس کی بازگشت امریکا، برطانیہ اور جرمنی کی پارلیمنٹ تک میں سنی جاسکتی ہے۔ ہماری سفارت کاری بڑی کمزور ہے۔ اس کے لیے عالمی سطح پر ایک مؤثر اور جارحانہ مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ معذرت خواہانہ انداز میں گزارشیں پیش کرنے کا طریقہ ترک کرنا ہوگا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے حقوق کے لیے لڑنا ہوگا۔ دنیا ہماری بات سننے پر مجبور ہوگی اور ہمیں اعوان و انصار ہرجگہ سے مل جائیں گے۔ حال ہی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جو رپورٹ Will I be Next? US Drone Strikes in Pakistan کے نام سے شائع ہوئی ہے، اس نے ایک تہلکہ مچا دیا ہے۔ اسی طرح ڈرون کی تباہ کاریوں اور انسان کشی کے بارے میں جو ڈاکومنٹری ’جمائما فائونڈیشن‘ نے جاری کی ہے اس نے عالمی میڈیا کے یک رُخے پروپیگنڈے کا توڑ کیا ہے۔

ضرورت ہے کہ سفارتی محاذ، سیاسی پلیٹ فارم، میڈیا اور سوشل میڈیا، ہرجگہ اس سلسلے میں مؤثر کارروائی کی جائے۔ اس کے اثرات مرتب ہوں گے اور راے عامہ تبدیل ہوگی۔ ضرورت یکسوئی کے ساتھ منظم انداز میں بڑے پیمانے پر جدوجہد ہے___ کیا ہماری حکومت اس کے لیے تیار ہے؟

واضح رہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے اپنے ایک واضح فیصلے میں ڈرون حملوں کو پاکستان کی آزادی اور علاقائی سالمیت پر حملہ اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور حکومت کو حکم دیا ہے کہ ان کو روکنے کے لیے سیاسی، سفارتی کارروائی کرے اور ان کے غیرمؤثر ہونے کی صورت میں سپلائی لائن کو بند کرنے اور ڈرون حملوں کو عسکری قوت سے روکنے کا اقدام کرے۔ حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل نہیں کی جس کے معنی یہ ہیں کہ اب اس کی دستوری ذمہ داری ہے کہ ڈرون کو رُکوانے کے لیے مؤثر اقدام کرے۔

نئی سلامتی پالیسی کے خطوط

صوبہ خیبرپختونخوا اور ملک کے دوسرے مقامات پر جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف ناٹو کی سپلائی لائن روکنے کے لیے جو جمہوری اور قانونی جدوجہد کر رہی ہیں وہ اس لیے ہے کہ قوم بیدار ہو اور مرکزی حکومت پر دبائو ڈالے کہ وہ ڈرون حملے بند کرانے کے لیے اپنا مؤثر کردار ادا کرے اور ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کی پالیسی ترک کرے۔ نیز یہ بھی دراصل امریکا سے اپنے تعلقات کی تشکیل نو کے لیے ایک قدم ہے۔ ساتھ ساتھ امریکا سے جن خطوط کے اندر تعلقات استوار ہونے چاہییں ان کو قومی مشاورت کے ساتھ مرتب کیا جائے، اوردو آزاد ممالک کے درمیان باوقار دوستی اور تعاونِ باہمی کا جو رشتہ ہونا چاہیے اس کے قیام کے لیے نئی پالیسی مرتب کی جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ محکومی کی پالیسی کو ختم ہونا چاہیے۔ دسیوں چھوٹے ممالک ایسے ہیں جنھوں نے سوپرپاورز کے ساتھ عزت اور وقار کے ساتھ باہمی اور مشترک مفادات کے حصول کے لیے پالیسیاں ترتیب دی ہیں اور دھونس اور دبائو کے ہر حربے کو غیرمؤثر بنادیا ہے۔ کیوبا اور ایران اس کی اہم مثالیں ہیں۔ جنوبی امریکا کے متعدد ممالک نے اپنی آزادی، عزت اور مفادات کی روشنی میں کامیاب خارجہ پالیسیاں بنائی ہیں اور امریکا کو بھی ان کا پاس کرنا پڑا ہے۔

نیوکلیرپاورکے سلسلے میں امریکا اور ایران کا حالیہ معاہدہ اس کی ایک تازہ مثال ہے۔ شام پر فوج کشی کے امریکی اقدام کو لگام دینے کے سلسلے میں برطانیہ اور امریکا کی پارلیمنٹ نے جو کردار ادا کیا اور امریکا اور یورپی ممالک کو کس طرح اپنی پالیسی کی تشکیل نو کرنا پڑی، وہ سب حالیہ واقعات ہیں۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ عراق اور افغانستان کی جنگ نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ اب سوپرپاور کی پاور غیرمحدود نہیں اور وہ ملک جسے کل تک ناگزیر ریاست کہا جارہا تھا، اب اس کے اپنے دانش ور برملا کہہ رہے ہیںکہ وہ اب   غیرضروری  (dispensible)ریاست ہے۔ ولی نصر کی تازہ کتاب اس کی مثال ہے۔

اس لیے ہمیں بھی کھلے ذہن کے ساتھ تمام معاملات کا جائزہ لے کر پوری حکمت اور حقیقت پسندی کے ساتھ، لیکن کسی بھی قسم کی مرعوبیت اور مجبوری کی سطح سے بلند ہوکر، اپنی پالیسی بنانی چاہیے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے باربار آزاد خارجہ پالیسی، ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکلنے اور مسئلے کے سیاسی حل اور مذاکرات، ترقی اور سدِّجارحیت کے فریم ورک میں نئی پالیسی کی ضرورت کا مکمل اتفاق راے سے اظہارکیا ہے، مگر حکومتوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ اب وقت آگیا ہے پالیسیاں قوم اور ملک کے مفاد میں اور عوام کی مرضی اور اُمنگوں کے مطابق بنائی جائیں اور عوام کے ساتھ دھوکے اور دوغلے پن کی روش کو یکسر ترک کردیا جائے۔ حکومت کو جس پالیسی پر پورے اعتماد اور تیاری کے ساتھ اور پوری قوم اور اس کی قیادت کو ساتھ لے کر عمل پیرا ہونا چاہیے اس کے چند اہم پہلو یہ ہیں:

۱- خارجہ پالیسی اور دہشت گردی کے مقابلے کے لیے ہمہ جہتی پالیسی کو تمام سیاسی اور دینی قوتوں کی مشاورت سے مرتب کیا جائے، اور ملک اور علاقے کی روایات کی روشنی میں نہ صرف اسے مرتب کیا جائے بلکہ ان کی تنفیذ کے لیے بھی صحیح اور جامع حکمت عملی بنائی جائے۔

۲-حکومت قوم اور سیاسی اور دینی قیادت سے حقائق چھپانے کی پالیسی ترک کرے اور شفافیت کے ساتھ مشاورت کے ذریعے اعتماد کی فضا قائم کرے۔

۳- حکومت اور اس کے تمام اداروں اور ایجنسیوں کے درمیان مناسب ہم آہنگی ہونی چاہیے۔پالیسی سازی میں ہر ایک اپنا کردار ادا کرے لیکن پالیسی بننے کے بعد ہر ادارہ پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے حصے کی ذمہ داری کو ادا کرے اور ریاست میں ریاست کی کیفیت نہ پیدا ہو۔ اسی طرح پالیسی کو دوغلے پن کے بدنما سایے سے مکمل طور پر پاک ہونا چاہیے۔

۴- پارلیمنٹ کی ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء ، پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی کی اپریل ۲۰۰۹ء کی سفارشات، پارلیمنٹ کی ۱۴مئی ۲۰۱۱ء کی قرارداد اور کُل جماعتی کانفرنس کی ۹ستمبر ۲۰۱۳ء کی قرارداد کو پالیسی کی بنیاد بنایا جائے اور اس سلسلے میں باہمی مشاورت سے ایک ہمہ گیر پالیسی تشکیل دی جائے جس پر سب سختی سے عمل پیرا ہوں۔ پالیسی کے نفاذ کی نگرانی کا مؤثر نظام ہو اور پارلیمنٹ میں اس بارے میں کارکردگی کو بار بار پیش کیا جائے تاکہ قوم کو اعتماد رہے۔

۵- اس وقت اصل ہدف ’دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ‘ سے نکلنے، ملک میں ڈرون حملے رُکوانے اور بیرونی حکومتوں کی دراندازیوں اور خفیہ سرگرمیوں کو روکنے کو قرار دیا جائے۔ خودمعیشت کی بحالی کے لیے امن کا قیام ضروری ہے۔امریکا کو اپنی پالیسی کے بارے میں تفصیلی طور پر باخبر رکھا جائے۔ جہاں جہاں تعاون ممکن نہیں وہ لال خطوط سے بھی واضح کردیے جائیں۔ پھر ان کا پورا احترام کیا جائے۔ جہاں تک اندرونِ ملک مسئلے کے حل کا تعلق ہے اس سلسلے میں مذاکرات، ترقی اور سدِّجارحیت کے سہ گانہ تقاضوں کو سامنے رکھ کرایک مربوط پالیسی اور پروگرام وضع کیا جائے۔

۶-حکومت کی پالیسیوں اور عوام کے جذبات، عزائم اور توقعات میں جو خلیج واقع ہوگئی ہے اسے دُور کیا جائے۔ مرکز اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جائے۔

۷- جس طرح امریکا اور افغانستان کی حکومت اور وہاں کی دوسری قوتوں سے مذاکرات کیے جائیں، اسی طرح ملک میں بھی طالبان سے مذاکرات کے بارے میں پوری حقیقت پسندی کے ساتھ پالیسی بنائی جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ امریکا کے بارے میں اور دہشت گردی کی جنگ سے نکلنے کے سلسلے میں ہماری پالیسی کے واضح ہوجانے اور اس پر عمل شروع ہونے سے پورا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوجائے گا اور طالبان کو بھی ہرقسم کی دہشت گردی سے اجتناب کرنے کے راستے پر لانا ممکن ہوگا۔ ریاست کی رٹ کا قیام ضروری ہے مگر وہ محض قوت سے قائم نہیں ہوسکتی۔ گو قوت کا استعمال بھی اس کا ایک حصہ ہے۔ رٹ قائم ہوتی ہے قانونی استحقاق (legal legitimacy) اور اخلاقی قوت اور باہمی اعتماد سے، صرف ڈنڈے سے نہیں قائم ہوتی۔ ڈنڈے سے قبضہ (occupation) تو ہوسکتا ہے، حکمرانی نہیں۔ اور یہی ہمارا مسئلہ ہے۔ فاٹا کو ہم نے ۶۶برس تک ’علاقہ غیر‘ بنا رکھا ہے اور اس پر دستور تک نافذ نہیں جس کی دفعہ ۲۵۶ نے اسے دستور کی دسترس سے باہر رکھ دیا ہے اور باتیں کرتے ہیں حکومت کی رٹ کی۔ ایک تدریج سے، مقامی حالات اور روایات کی پاس داری کے ساتھ پہلے اس علاقے کو دستور کی دسترس میں لایئے، وہاں قانون کی حکمرانی اور حقوق کے احترام کا اہتمام کیجیے، تو پھر ان شاء اللہ رٹ بھی قائم ہوگی اور ناپسندیدہ افراد سے بھی نجات پائی جاسکے گی۔

۸- بلاشبہہ ان اقدامات کے ساتھ ساتھ معیشت کی اصلاح اور استحکام اور ایک ایسی معاشی پالیسی کا اجرا ضروری ہے جو ملک کو خودانحصاری کے راستے پر گامزن کرسکے۔ سیاسی آزادی، حاکمیت اور قومی وقار کا حقیقی تحفظ اور اظہار اسی وقت ممکن ہے جب معاشی طور پر ملک میں خودانحصاری کی کیفیت ہو۔ بیرونی امداد اور قرضوں پر انحصار کو بتدریج ختم کرنا ضروری ہے اور اس کے لیے نئی اور مؤثر حکمت عملی وقت کی ضرورت ہے۔ بیرونی تعلقات میں بنیادی بات جو امداد یا قرض یا سرمایہ کاری سے بھی کہیں زیادہ ہے، وہ شرائط ہیں جن پر یہ معاملات طے ہوتے ہیں۔ مشروط امداد جو بیرونی قوتوں کے ایجنڈے کا حصہ ہوں غلامی کی زنجیریں ہیں جن کو کسی قیمت پر بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ رہا تجارت اور باہم رضامندی کی بنیاد پر معاشی اور مالی تعلقات تو وہ خودانحصاری سے متصادم نہیں۔ ان کو گڈمڈ کرنا صحت ِ فکر کے منافی ہے۔ پھر تاریخ بتاتی ہے کہ بیرونی امداد کی بنیاد پر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکی لیکن محنتی اور خوددار اقوام پابندیوں کے باوجود ترقی کرتی ہیں بلکہ ان حالات میں زیادہ اچھے انداز میں ترقی اور خودانحصاری کے اہداف کو حاصل کرسکی ہیں۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ قومی سلامتی کی نئی پالیسی کے ایک اہم حصے کے طور پر معاشی پالیسی کی تشکیل نو بھی ضروری ہے۔ اس قوم میں بڑی صلاحیت ہے بشرطیکہ اسے صحیح مقاصد کے لیے صحیح طریقے سے منظم اور متحرک کیا جائے ۔

 ع   ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ملک کی اسلامی اور جمہوری قوتیں دستور کے مطابق پاکستان کے سارے مسائل کو حل کرنا چاہتی ہیں۔ کسی کو بھی اپنے نظریات قوت کے ذریعے دوسروں پر مسلط کرنے کا اختیار نہیں۔ لیکن موجودہ کیفیت سے نکلنے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے ان سب کا اہتمام کرنا ہوگا۔ کوئی وجہ نہیں کہ سب کے لیے قانون کی بالادستی اور افہام و تفہیم اور جمہوری اور معروف ذرائع سے ملک کے معاملات طے کرنے کے مواقع کی فراہمی کے نظام کے قائم ہونے کے بعد کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے یا ماوراے قانون اقدام کرنے کا کوئی جواز باقی رہے گا۔ ایسی صورت میں جو بھی دستور اور قانون کی خلاف ورزی کرے، اس کے ساتھ قانون اور عدل کے نظام کے مطابق معاملہ کرنا ہی حق و ثواب کا راستہ ہوگا۔ لیکن اس کیفیت تک پہنچنے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے، وہ کرنا ضروری ہیں اور یہی وقت کی اصل ضرورت ہے۔

 

جماعت اسلامی از اول تا آخر ایک دینی و فکری تحریک ہے جس کی عمارت اس کی تنظیم اور تربیتی نظام پر کھڑی ہے۔ اقامت دین کی تحریک ہونے کی وجہ سے بدرجۂ اولیٰ یہ اس کی ذمہ داری قرارپاتی ہے کہ جو لوگ اس کے ساتھ چل رہے ہیں، ان کے تزکیۂ نفس کے لیے اور زندگی کے تمام گوشوں کو روشن اور منور رکھنے اور انھیں اندھیروں سے بچانے کے لیے ان کی تربیت کاخصوصی اہتمام و انتظام کرے۔ انبیاے کرام ؑکا مشن بھی اصلاً تزکیۂ نفس ہی تھا اور اسلامی تحریکیں معاشرے کے اندر جو انقلاب لانا چاہتی ہیں اس کا مقصود بھی یہی ہے۔اگرچہ اجتماعی دائرے کا انقلاب زندگی کے تمام دائروں پر محیط ہوتاہے لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک فرد کی اصلاح ، اور اس کے اندر انقلابیت، یعنی ایثارو قربانی اور اپنے آپ کی نفی کرتے ہوئے معاشرے کا اثبات کرنے کی صلاحیت موجود نہ ہو۔ اسلامی تحریکیں معاشرے کے اندر نئے انسان اور رویے پیدا کرتی ہیں، پرانے انسانوں کے ہیولے سے نئے انسان جنم لیتے ہیں،اور ان نئے انسانوں سے ایک نیا معاشرہ ترتیب و تشکیل پاتا ہے۔

پرانے انسان سے نئے انسان کیسے وجود میں آتے ہیں؟ اس کی سب سے بہترین مثال تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے کردار سے سامنے آتی ہے۔ حضرت عمرفاروق ؓ کے قبول اسلام کا واقعہ تو مشہور و معروف ہے کہ کس طرح گھر سے نعوذباللہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے نکلتے ہیں مگر آیات قرآنی کی تلاوت سنتے ہی دل کی دنیا تبدیل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح حضرت عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ میری زندگی کے دو ادوار ہیں۔ ایک وہ دورکہ جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کانام تک سننا بھی گوارا نہ تھا، اور حضوؐرکا نام سننا بھی طبیعت پر بوجھ تھا،کبھی کبھی جس کو اتارنے کو دل چاہتا تھا، جب کہ دوسرا دور وہ ہے کہ جس میں میری محبوب ترین ہستی اگر کوئی تھی تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی تھی۔ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر نشست میں شریک ہوتا تھا اور قدرے فاصلے پر بیٹھتا تھا ۔ کبھی آپؐ کو آنکھ بھر کے دیکھا نہ جی بھر کے، اس لیے کہ نگاہیں آپؐ  کے چہرے پر ٹھیرتی ہی نہ تھیں ۔ اگر کوئی مجھ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کے بارے میںپوچھے تو میںنہیں بتاسکتا۔ ایک اور صحابیِ رسولؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں حالت ِجاہلیت میںقریش کو کوستا تھا کہ انھوں نے آپؐ کے لیے سب آزمایشیں تو کھڑی کیں لیکن جوکام کرناتھا وہ توکیا ہی نہیں، چنانچہ اپنے گھر سے ا س ارادے سے نکلا کہ آپؐ پر حملہ آور ہوجاؤں۔ گھر سے نکلا تودیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طواف میں مصروف ہیں۔ بس موقعے کو غنیمت جانا اورخود بھی طواف میں شریک ہوگیا اور اس انتظار میں رہا کہ مناسب موقع اور وقت ہاتھ آئے توآپؐ پر وار کروں ۔اسی اثنا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو آواز دے کر اپنے پاس بلایا۔ قریب پہنچا تو دریافت کیا کہ تمھارا کیا ارادہ ہے؟ یہ سنتے ہی میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی کہ شاید آپؐ کومعلوم ہوگیا ہے کہ میں کس ارادے سے آیا ہوں؟ لیکن اس کے باوجود میں نے عرض کیا کہ طواف کر رہاہوں، اور کوئی دوسراارادہ نہیں ہے۔ یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور اپنا دایاں ہاتھ میرے سینے پر رکھا اور ابھی ہاتھ آپؐ نے اٹھایا نہ تھا کہ دل و دماغ کے تمام بندھن کھل گئے اور اسلام کی سیدھی اور شفاف شاہراہ مجھے نظر آنے لگی۔ لمحوں میں تزکیے کی وہ کیفیت حاصل ہو گئی جو ناقابل یقین ہے۔

اس طرح کے کئی دوسرے واقعات اس بات کا پتا دیتے ہیںکہ معاشرے میں ہمیشہ ایسے انسان موجود رہیں گے جو لمحوں کے اندر اپنا پورا تزکیہ کرنے کی صلاحیت سے آراستہ و پیراستہ ہوں گے۔ معاشرے کے اندر جولوگ دعوت دین کا فریضہ انجام دیتے ہیں، یہ بات ان کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ میدانِ دعوت میںایسے لوگ بھی ملیں گے جن پر آپ برسہا برس کام کریں گے مگر وہ آپ کا ساتھ نہ دیں گے، اور ایسے لوگ بھی ملیں گے جو لمحوں کے اندراس راہ کے راہی بن جائیں گے۔

تزکیۂ نفس اور تعمیرِسیرت

 انسان اضدادکے مجموعے کا نام ہے۔ نیکی کے جذبات کا ایک سمندر ہے جو اس کے اندر پنہاں ہے اوربدی کا ایک طوفان ہے جو اس کے اندر پناہ لیے ہوئے ہے۔ وہی انسان ہے جو نہایت خونخوار ہے اور انتقام لینے پر آئے تو سیکڑوں لوگوں کو لقمۂ اجل بنادیتا ہے، اور وہی انسان ہے جو انسانوں کی ہمدردی میں بڑے بڑے دریا اور سمندر عبور کرلیتا ہے۔ ایک ہی انسان کے اندر  کئی کئی انسان موجود ہیں۔ ایک ہی انسان کئی کئی کشتیوں میں سوار، کئی کئی منزلوں کی طرف گامزن اور رواں دواں ہے ۔ان تضادات کو رفع کرنا، اسے یکسوئی اور طمانیت کی دولت سے مالا مال کرنا، اور اپنے رب سے رجوع کرنے کی دعوت دینا، فی الحقیقت تربیت ہے، تزکیۂ نفس ہے، تعمیر سیرت ہے، کردار سازی ہے ۔ اسلامی تحریکیں اپنی معیت میں چلنے والے انسانوں کی زندگی تبدیل کرنے کے لیے اس طرح کوشاں ہوتی ہیں کہ واقعی ان کی سیرت و کردار ، رویے، طور طریقے ،ذہن و فکر کے سانچے ،نکتہ ہاے نظراور زاویہ ہاے نگاہ بدل جاتے ہیں اور ایک نیا انسان وجود میں آجاتا ہے ۔

 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طریقے سے لوگوں کومخاطب کیا، ساتھ ملایا ، ہم نوا بنایا، وہ ہمارے لیے تو لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ کے مصداق بہترین نمونہ ہے مگرقرآن پاک کا بھی بڑا اہم رول ہے۔ اسی لیے یزکیہم سے پہلے تلاوتِ آیات کی بات آئی ہے۔ تلاوتِ آیات کا بلاشبہہ یہ مفہوم بھی ہے کہ قرآن پاک کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھا اور حفظ کیا جائے، لیکن تلاوتِ آیات وہ مطلوب ہے جو دل کے اندر اُتر جائے اور جس کے نتیجے میں عقائد کی اصلاح ہو، رویے تبدیل ہوں، اعمال کے اندر تبدیلی واقع ہو، اور زندگی اور اس کی ترجیحات بدل جائیں۔ جس قرآن کو پڑھنے کے نتیجے میں آدمی نہ بدلے اور’ خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں‘ کا عنوان بن جائے، ظاہر ہے کہ وہ تزکیہ اور تربیت کی تعریف میں نہیں آتا۔ قرآن پاک کے ساتھ ایک خاص قسم کے شغف کی ضرورت ہے جس کی مثال حضورنبی اکرمؐ کے اسوے میں موجود ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓروایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد میں تشریف لائے، منبر پر تشریف فرماہوئے ، اور فرمایاعبداللہ مجھے قرآن سناؤ۔ میں قدرے حیران ہوا اورسوال کیا کہ حضوؐر قرآن پاک تو آپؐ پر نازل ہوا ہے، آپؐ کے ذریعے سے ہم تک پہنچا ہے ، آپؐ سے ہم نے سنا اور سمجھا ہے، میںبھلاآپؐ کوکیا قرآن سناؤں گا؟آپؐ نے فرمایا کہ نہیں عبداللہ! آج تو یہ جی چاہتا ہے کہ کوئی سنائے، اور میں سنوں۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓنے سورۃالنساء کی تلاو ت شرو ع کی، جب اس آیت پر پہنچے کہ فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَھِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآئِ شَھِیْدًاo (النساء۴:۴۱) ’’پھر سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمھیں گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے‘‘، تواسی دوران میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کواندازہ ہوا کہ جیسے آپؐ ہاتھ کے اشارے سے روک رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ عبداللہ ٹھیر جائو۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓنے سراُٹھا کردیکھا تو نبی اکرمؐ زارو قطار رو رہے ہیں ، اور جواب دہی کے احساس سے ریش مبارک اور آنکھیں آنسوؤں سے تر ہیں ۔

ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ نبی اکرمؐ تہجد کے وقت حالتِ قیام میں تھے، جب    سورۂ ابراہیم کی اس آیت پر پہنچے: رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ ج فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَمَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o(ابراھیم ۱۴:۳۶) ’’پروردگار ان بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے (ممکن ہے کہ میری اولاد کو بھی یہ گمراہ کر دیں، لہٰذا ان میں سے جو) میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقینا تُو درگزر کرنے والا مہربان ہے‘‘، تواس آیت پر رک گئے اور پڑھتے جاتے تھے، روتے جاتے تھے تاآںکہ اللہ تعالیٰ نے جبریل ؑامین کو بھیجا ۔ انھوں نے آکر سوال کیا کہ کیا ماجرا ہے ؟ آپؐ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ نے تو اپنی اُمت کے لیے سب کچھ مانگ لیا،جو گناہ گار ہیں، ان کو مغفرت کے حوالے کر دیا جو اطاعت شعار ہیں ان کے لیے وعدے کا ذکر کیا ہے۔ان کی دعا کو پڑھتا ہوں تو اپنی امت کا خیال اور احساس مجھے ستاتا اور ڈراتا ہے۔ حضرت جبریل ؑواپس جاتے ہیں اور پھریہ خوش خبری لے کر واپس آتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کو بھی اپنی امت کے حوالے سے حضرت ابراہیم ؑ کی طرح مطمئن اور خوش کر دے گا۔ نبی اکرمؐ کے اسوے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن پاک سے شغف کا معنی اورمفہوم کیا ہے؟ اس سے تعلق کیسے جوڑا جائے، کیسے بڑھایااور برقرار رکھا جائے؟ آیات کے مفہوم سے کس طرح آشنا ہوا جائے، اور ان کے اندر جو حکم پنہاں ہے، اپنے آپ کو اس کا مصداق کیسیبنایاجائے۔

اسی طرح قرآن مجید نے ہدایت کی ہے کہ انقلاب ِامامت جیسے عظیم کام کی انجام دہی کے لیے ضروری ہے کہ صبر اور نماز سے مدد حاصل کی جائے، وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرہ۲:۴۵)۔ اسلامی تحریک کا ہر کارکن نماز کے ساتھ ایسا رشتہ استوار کرے کہ جس کے نتیجے میں نماز باجماعت پڑھنے کی ویسی حرص پیدا ہو جائے جیسے دولت و شہرت اور دنیاکی حرص ہوتی ہے اور انسان اس کے لیے پاگل ہو کر ہر جائز و ناجائزاورصحیح و غلط کام کر گزرتاہے ۔ نماز باجماعت پڑھنے کی حرص پیدا ہوگی تو طبیعتوں کے اندرسے اضمحلال دُور ہوگا، سکینت اور سکون کی کیفیت پیدا ہوگی اور ایک نیا انسان وجود میں آئے گا۔اسی طرح صبرکا معاملہ ہے۔اپنی پوری زندگی میںحق کواپنانا اور جسم و جان کو اس پر لگا دینا صبر ہے۔ حق کے معاملے میں اگرآدمی خود کسی الجھاؤ میں مبتلاہوجائے اور’ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے‘ کی گردان کرنے لگے تو وہ خود بھی کمزور پڑجاتا ہے اوراپنے اردگرد فضا کوبھی مسموم کرتا ہے۔

مطالعہ لٹریچر کی اھمیت و ضرورت

جماعت اسلامی بنیادی طور پر ایک فکری اور علمی تحریک ہے ۔ جو لوگ اس تحریک کے افکار و نظریات سے واقف نہیں ہیں، اس کے لٹریچر، بنیادی اصولوں اور قواعد و ضوابط سے آگاہ  نہیں ہیں، وہ اس میں کچھ عرصے کے لیے فعال اور متحرک تورہ سکتے ہیں لیکن دیر تک اور دُور تک اس کے ساتھ چلنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا نہیں کرسکتے۔مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کے مطابق جب لوگ مطالعے کے بغیر معاشرے میں متحرک دکھائی دیتے ہیںتو ان کے پاس بالآخر کہنے کے لیے کوئی مواد یا لوازمہ باقی نہیں رہ جاتا۔ اگر وہ مطالعے سے اپنا رشتہ توڑ لیتے ہیں تو جس طرح کنویں سے رفتہ رفتہ پانی کے بجاے کیچڑ نکلنے لگتا ہے، بلا مطالعہ انسان بھی اس کیفیت سے دوچار ہونے لگتے ہیں۔ ایک علمی تحریک سے وابستہ لوگ اگر مطالعے سے دُور ہوجائیں گے اور اپنے رویوں کے اندر اس کی کوئی اہمیت و مقام نہیں پائیں گے، تو ڈر ہے کہ وہ پھرایک ایسے مقام پر کھڑے ہوں گے کہ جہاں اپنی تحریک کی صحیح اور مؤثر ترجمانی نہ کرسکیں گے، اورنہ اس کو بیان کرسکیں گے کہ ہماری تحریک کیا ہے؟

جماعت اسلامی کے ہر ذمہ دار اور کارکن کے بارے میں حسن ظن کی بنیاد پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ مطالعے کا خوگر ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا تیزی سے تبدیل ہورہی ہے، معاشرے سے پرانی اقدار رخصت ہوتی جارہی ہیں اورنئی اقدار جنم لے رہی ہیں ۔ایسے عالم میں لوگوں کو مطالعے کی طرف متوجہ کرنا فی الحقیقت ایک مشکل کام ہے۔ اگر انسان مطالعے کا خوگر ہو جائے تو اس کے نتیجے میں ہر رطب و یابس پڑھ جاتا ہے، جو رسالہ ہاتھ آیا اس کو چٹ کر لیا، جو مضمون دیکھا اس پر اول تا آخر نظر ڈال لی۔ پڑھتے پڑھتے بالآخرانسان کے اندر ایک ذوق بھی پیدا ہونے لگتا ہے کہ وہ کوئی کتاب اٹھاتاہے، کوئی رسالہ اس کے ہاتھ آتا ہے تو چند لمحوں کے اندرورق گردانی اور اس کی سرخیاں دیکھ کر اندازہ کر لیتا ہے کہ یہ میرے کام کی چیزہے یا نہیں۔میں جن مقاصد، زندگی کے جس نصب العین، اور معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے جو زادِراہ جمع کررہاہوں اس میں یہ مفید اور معاون ہے یانہیں ۔ اگر مفید ہوتا ہے تو وہ اس سے پورا فائدہ اٹھاتا ہے، اور جب دیکھتا ہے کہ اس کے لیے نفع بخش نہیں ہے تو اس کو چھوڑدیتاہے۔ اس کے نتیجے میں صرف انھی چیزوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے جواس کی کارکردگی میں بہتری اور جوش و خروش اور وابستگی میں بڑھوتری کا ذریعہ بنے۔

جماعتی مجالس میں اب غیر فعال کارکن کا ذکر ہونے لگا ہے، اورکہیں کہیں ارکان کے بارے میں بھی یہی کہا جانے لگا ہے۔ غیر فعال بھی اور کارکن بھی، حالانکہ کارکن تو نام ہی میدان کے اندر موجود متحرک، فعال اور بیدار شخصیت کا ہے۔ یہ متضاد اصطلاح اس لیے سنائی دیتی ہے کہ بہت سے لوگ ہنگامی طور پر بہت کام کرتے ہیں جس کی قدر کرنی چاہیے،اور بعض اوقات وہ معمول کے کارکن سے زیادہ حصہ بٹاتے ہیں اور بڑے پیمانے پر پرجوش اور متحرک دکھائی دیتے ہیںاور کچھ کرگزرنے کی صلاحیت سے آراستہ و پیراستہ ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ایسے غیر فعال کا رکنوں کی ایک فہرست بنائی جائے جنھوں نے ہنگامی طور پر بہت کام کیا مگر جماعت اسلامی ان کے جسم و جان اور ان کی سوچ و فکر کے اندراُتار ی نہ جا سکی، تو اس کی بڑی وجہ یہی نظر آئے گی کہ وہ بنیادی لٹریچر جو فی الحقیقت جماعت اسلامی جیسی انقلابی تحریک کی اساس ہے، اس کے مطالعے کی طرف ان کی طبیعت کو مائل نہ کیا جا سکا اور وہ اس فکر کو حرزِ جاں نہ بنا سکے جو جماعت اسلامی کی بنیاد ہے۔

مؤثر تنظیم اور سیاسی حکمت عملی

 جماعت اسلامی کی تنظیم میںضلع سب سے اہم اکائی ہے۔ اس کی فعالیت ،سرگرم اور پُرجوش ہونا پورے ملک کے اندر جماعت کی تنظیم کا متحرک ہونا شمار ہوتا ہے ۔اس کی اچھائیاں اور خوبیاں پورے ملک کے اندر جماعت کی اچھائیاں اور خوبیاں تصور کی جاتی ہیں، اوراس کی کمزوری اور کوتاہی پوری جماعت کی کمزوری اور کوتاہی کے مترادف ہے۔ اضلاع کی اس اہمیت کے پیش نظر وہاں سب سے اہم کام مناسب اور سرگرم ٹیم بنانا ہے۔ جب کوئی فرد ذمہ داری کا بار اٹھاتا ہے، تو اسے اپنا ہاتھ بٹانے ، اپنی صلاحیت کی کمی کو دُور کرنے، اور اپنے بعض معاملات کو زیادہ بہتر طریقے سے انجام دینے کے لیے ایک ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کس فرد میںکیا صلاحیت اور کیا استعداد ہے، اورکس طریقے سے وہ تنظیم اور جماعت کے کام آسکتاہے اور معاملات میں دل چسپی لے کر ہاتھ بٹاسکتا ہے۔ لیکن ٹیم کے نام پرگروہ بنا لینا، اپنے ہم نواو ہم خیال اکٹھے کر لینا، ایسے لوگوں کو جمع کرلینا جوہاں میں ہاں ملاتے ہوں،درست نہیں ہے جس سے بچنا اولیٰ ہے۔ انسانوں کی تنظیم اور اکائی میں ہمیشہ اس بات کی گنجایش رہی ہے کہ اس حوالے سے کوئی کمزوری اپنا راستہ بنالے لیکن اگر ذمہ داران جماعت اپنے رویوں پر از سر نو غورکریں اور تنظیم کواس حوالے سے صاف اور روشن بنادیں، تو پھر لوگوں کے لیے کام کرنا آسان اور سہل بھی ہوجائے گا اوران کے ذوق و شوق میں بھی اضافہ ہوگا، نیز بہترین صلاحیت کے حامل ساتھی قیادت کی ذمہ داریاں ادا کرسکیں گے۔

بطور تنظیم، جماعت اسلامی کی ایک کمزوری حالیہ انتخابات میں ایک دفعہ پھر ظاہر ہوئی ہے۔ جماعت کے پاس کارکنان اوراس کے جلو میں چلنے والے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ فہم قرآن کے اجتماعات میں ۵۰،۶۰ ہزار لوگ آتے ہیں اور بڑے شوق سے جماعت کی دعوت اور ذمہ داران کی گفتگو سنتے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں جہاں خواتین کے ووٹ دینے نہ دینے کی بحث ہوتی ہے اور جہاں لوگ عورتوں کو گھروں سے باہر نہیںجانے دیتے، وہاں فہم قرآن کے اجتماعات میں ہزارہا ہزار خواتین شامل ہوتی ہیں،اوررات کے وقت بھی شریک ہوتی ہیں اور دن کو بھی، کیونکہ لوگ اس کو ثواب اور دین کاکام سمجھتے ہیں۔ جماعت نے ہزارہا ہزار بلکہ لاکھوں لوگوں کو پورے ملک کے اندرفہم قرآن کے حوالے سے جمع کیاہے۔ یہی معاملہ الخدمت فائونڈیشن کا ہے کہ ہم لاکھوں لوگوں تک الخدمت کے ذریعے پہنچے ہیں اور بلا تفریق مسلک و مذہب اور زبان، ان کی خدمت کی ہے۔ان دونوں صورتوں میں رجوع کرنے والوں کو ووٹ کی صورت میں تبدیل نہیں کیا جا سکا۔یہ اگر ووٹر نہیں بن سکے تو اس میں ان کے بجاے تنظیم اور اس کے کارکنوں کی کمزوری کا دخل ہے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ اجتماعات میں لاکھوں لوگ شریک ہوتے ہیں ، جماعت اور اس کی قیادت سے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں مگر ووٹر نہیں بن پاتے ۔ انتخابات سے پہلے کے تین مہینوں میں جماعت نے جگہ جگہ بڑے بڑے جلسے کیے، ان میںحاضری کی کوئی کمی نہیں ہوتی تھی۔لیکن وقت اور حالات نے بتایاکہ ان جلسوں میں آنے والے لوگ جنھوں نے اپناوقت اور پیسہ صرف کرکے ہمارا موقف سنا، مقررین اور انتخابی نمایندوں کودیکھا ، اس پر قائل نہ ہو سکے کہ ووٹ بھی ہمیں دیں۔اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ رابطۂ عوام میں تسلسل نہیںہے ۔ ایک رابطے کے ذریعے لوگ اجتماعات میں آجاتے ہیں،سیلاب و زلزلہ زدہ علاقوں میں ہماری خدمات سے فائدہ اٹھاتے ہیں، تعلیم و صحت اور معاشرتی فلاح و بہبود کے کاموں میں ہم سے مستفید ہوتے ہیں،مگر جماعت کا کارکن انھیں اس درجہ ہم نوا نہیں بنا پاتا کہ بالآخر وہ ہمارا ووٹر بھی بن جائے۔ نچلی سطح تک اس موضوع کو زیر بحث لانا چاہیے کہ ہماری تعریف کرنے والے اورمعاشرے میں ہمارے  ہم نوا لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ہمارے موقف سے اتفاق کرنے والے بھی بہت بڑی تعداد میں ہیں اور ہمیں پسند کرنے اور ہمارے حق میں دعائیں کرنے والے بھی کم نہیں ہیں، اگر یہ سب لوگ ووٹر بن جائیں تو وہ انقلاب جو بہت دُور نظر آتا ہے بہت پہلے برپاہوسکتا ہے۔

بلدیاتی انتخابات میں حکمت عملی

آنے والے بلدیاتی انتخابات پھر اس کا موقع فراہم کرنے والے ہیں کہ جماعت اسلامی کی تنظیم اور کارکن بہتر حکمت عملی کے ساتھ میدان میں آئے اور اس حمایت کو سیاسی قوت میں بدلنے کی بھرپور کوشش کرے۔ سیاسی و بلدیاتی دائرے کے اندر فعال ہونا کئی حوالوں سے جماعت کی بھی ضرورت ہے اور عوام کی بھی۔اس میں کم سے کم کامیابی پیش نظر رہنی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ جہاں پانچ سیٹوں میں سے ہمیں ایک سیٹ مل سکتی ہے وہاں دو کی کوشش نہ کریں، ورنہ وہ ایک بھی ہاتھ سے جاسکتی ہے اور ماضی میں اس طرح کے تجربات سے ہم گزر چکے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں سب سے اہم رول اضلاع کا ہے۔ صوبوں کا رول اس میں ثانوی ہے کیونکہ ان کو معلوم نہیں کہ کس جگہ پر کیا حالات ہیں ۔ اضلاع کو یہ بات بہتر طور پرمعلوم ہے کہ کون کون سے مقامات ایسے ہیں جہاں انھیں زیادہ توجہ دینی چاہیے۔

بلدیاتی انتخاب ایک بہترین موقع ہے کہ نوجوان قیادت کو سامنے لایا جائے۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ نوجوان زیادہ متحرک اور پرجوش ہوتے ہیںاور کم و قت میں زیادہ کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے ہی نوجوان تحریکوں کے لیے سرمایہ ہوتے ہیں۔ نظم جماعت کو بلدیاتی انتخابات میںایسے نوجوانوں کو سامنے لانا چاہیے ، ان کے مشوروں اور تجاویز سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور انھیں ضروری آزادیِ عمل دینی چاہیے تاکہ وہ تحریک کے لیے بہترین نتائج دے سکیں۔ اس تناظر میں یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ نوجوانوں کا سب سے بڑا اورمنظم گروہ جماعت اسلامی کے ساتھ ہے۔ ان کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے ہو، جمعیت طلبہ عربیہ سے ہو، شباب ملی سے ہو یا کسی بھی دوسری برادرتنظیم سے۔ یہ نوجوان اس ملک کے اندر انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں۔  قرآن و سنت کی بالادستی اور شریعت کا نفاذ، حکومت الٰہیہ کا قیام اور زندگی کے تمام دائروں میں اسلام کے احکامات اور اس کی ہدایات پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ان کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بحیثیت ذمہ دار اور کارکن یہ کوشش کی جانی چاہیے کہ نوجوانوں کو بامقصد بنائیں، زندگی کے   نصب العین کے لیے جدوجہد کرنے کا عنوان ان کے دل و دماغ میں سجائیں اور زندگی اس ملک میں جن راہوں سے گزر رہی ہے، جتنے بڑے پیمانے پر دہشت گردی ہے ، حکمرانوں کے اللے تللے، لوٹ مار اور کرپشن کے کلچر کا سامنا ہے، اس کا مقابلہ نوجوانوں کی طاقت اور صلاحیت سے ہی ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نوجوانوں کو متحرک، فعال اور بیدار کر کے جدوجہد کاخوگر بنایا جائے۔

موجودہ حکومت کی کارکردگی

ویسے تو بالعموم لیکن بلدیاتی انتخابات کے پیش نظر بالخصوص ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے جماعت سے وابستہ ہر فرد کو کم از کم ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حد تک حکمران جماعت کا منشور اپنی جیب میں رکھنا چاہیے تاکہ لوگوں کوبتایا جا سکے کہ انھوں نے اپنے منشور میں لکھا یہ تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے ،کہا یہ تھا کہ کشکول توڑ دیا ہے ،اور اپنی شرائط پر قرضہ لیں گے لیکن کام اپنے منشور سے بالکل مختلف کر رہے ہیں۔جس پارٹی کو یقین ہوکہ وہ الیکشن جیت رہی ہے تووہ اچھے ہوم ورک کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ مسلم لیگ ن کویہ معلوم تھا کہ الیکشن جیتتے ہی اسے بجٹ لانا پڑے گا اور اگر تیاری نہ ہوئی تو ٹیکسوں کی بھرمار کرنی پڑے گی۔حکومت کی پانچ ماہ کی کارکردگی سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ یا تو وہ منشور ہاتھی کے دانت کی مانند تھا جن کا معاملہ اس پہ ہوتا ہے کہ دکھانے کے اور کھانے کے اور ، یا دعوے کے مطابق ان کے پاس کوئی ٹیم نہیں تھی جو اس پر عمل درآمد کے لیے سوچ بچار کرتی اور کام کر کے لوگوں کو مشکلات سے بچاتی۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر قرض لینے کا مطلب ہی یہ ہے کہ بجلی و گیس کی قیمتیں بڑھتی چلی جائیں، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہواور قومی ادارے نجکاری کا شکار ہوتے چلے جائیں۔ اس تناظر میں مسلم لیگ ن کے منشور کے حوالے سے جماعت اسلامی کے ہر ذمہ دار اور کارکن کا اچھا ہوم ورک ہونا چاہیے۔ مناظرے یا جھگڑے کی کیفیت نہ ہو لیکن یہ بات فیلڈ میںبہ تکرار، بصداصرار اور ایک بار نہیں سوبار کہنی چاہیے کہ انھوں نے عوام سے جو وعدے کیے تھے، انھیں پورا نہیں کیا ہے۔

وقت نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ الیکشن سے احتساب نہیں ہوتا۔ بعض لوگ یہ کہہ کر اپنا دامن چھڑا لیتے ہیں کہ انتخاب ہی سب سے بڑا احتساب اور فیصلہ کن امر ہے، مگرمشاہدہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں جو آتا ہے وہ چوروں کے بادشاہ، علی بابا کا رُوپ دھار لیتا ہے اور چالیس چوروں پر سوار ہوکر حکمرانی کرتا ہے۔ عوام الناس کو یہ بتانا چاہیے کہ چوروں کو ووٹ دے کر قسمت نہیں سنور سکتی، مستقبل تابناک اور روشن نہیں ہوسکتا، حالات میں کوئی بہتری پیدا نہیں ہوسکتی۔چوروں کو ووٹ دے کر اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ چوروں کے ہاتھ کاٹے جائیں گے اورکرپٹ لوگوں کو ووٹ دے کر اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کرپشن کا خاتمہ ہوجائے گا، تو اسے بسم اللہ کے اس گنبد سے باہر نکلنا چاہیے۔  ان بنیادی حقائق کی روشنی میں ہرصوبے میں وہاں کے حالات کے مطابق انتخابی حکمت عملی اور ووٹر کو مخاطب کرنے کے لیے صحیح بیان تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ ملکی، صوبائی اور مقامی تمام حالات اور ضرورتوں کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنی انتخابی مہم کو مرتب اور منظم کرنا ہوگا۔

نفاذِ شریعت اور جمھوری جدوجھد

 جماعت اسلامی نے زمام کار کی تبدیلی کے لیے جمہوریت اور انتخاب کا راستہ اختیار کیا ہے۔ جمہوریت کے حوالے سے عمومی طور پر دنیا بھر میں ایک قاعدہ کلیہ اور اصول بیان کیا جاتا ہے کہ جمہوریت کو چلانے کے لیے سیکولرازم اتنا ہی ضروری ہے جتنا خود جمہوریت۔ اگر سیکولرازم نہ ہو تو جمہوریت ناکام ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ جمہوریت کا اپناکوئی مذہب نہیں ہے کہ اکثریت تو مذہب نہیں ہواکرتی۔ اسی حوالے سے ہمارے ہاں بھی یہ بات کہی جارہی ہے کہ فیصلہ سازی شریعت کے بجاے اکثریت کے حوالے کر دی گئی ہے۔پاکستان کے تناظر میں یہ ایک بڑامغالطہ ہے۔ اسی لیے مثال دینی پڑتی ہے کہ شراب کی حرمت اوراس پر پابندی کے خلاف اگر اکثریت فیصلہ کرتی ہے توہم اسلامی جمہوریت کے قائل ہیں، اس کو تسلیم نہیں کریںگے۔ لیکن اس کو دوسرے طریقے سے بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ جماعت اسلامی کی حیثیت پہلے دن سے اسٹریٹ پاور کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ جن چیلنجوں کا مقابلہ کیا گیا اور اہداف کا حصول ممکن ہو پایا ، اور مختلف حوالوں سے پارلیمنٹ نے جو فیصلے کیے، مثلاً قرار داد مقاصداورختم نبوت، تو اس کے پیچھے ایک تحریک اور سٹریٹ پاور تھی،اوراس میں جماعت اسلامی پیش پیش تھی۔ اگر نظام مصطفیؐ کی تحریک کو لوگ سب سے مضبوط اور بڑی تحریک قرار دیتے ہیں تو اصلاً وہ اسٹریٹ پاور تھی جس نے اس کو یہاں تک پہنچایا۔ پاکستان قومی اتحاد کاقیام نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نہیں تھا۔ اس کے ابتدایئے، تمہید اور اہداف میں کہیں نظام مصطفیؐ کا ذکر نہیں ملے گالیکن کیونکہ عوامی سطح پر ایک بڑی تحریک تھی اور جماعت اسلامی ، اس کا کارکن اور اس کی تنظیم اس میں پیش پیش تھی تو وہ نظامِ مصطفی ؐؐ کی تحریک  بن گئی۔اور کسی کے اندراتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ سوال کر سکے کہ یہ نظامِ مصطفیؐ کہاں سے آگیا۔

ہم جمہوریت اس لیے چاہتے ہیں کہ حق کو حق اور باطل کو باطل کہہ سکیں۔ آنے والے دنوں میں یہ مسائل پھردرپیش ہوں گے۔ جولوگ کہتے ہیں کہ سیکولرازم کے بغیر جمہوریت اور حکومت نہیں چلتی، وہ نت نئے مسائل سامنے لاتے رہتے ہیں۔ جیسے آج کل یہ بات بہت زیر بحث ہے اور کچھ عرصے تک اسمبلیوں کے اندر آجائے گی کہ سزاے موت کوختم کردیا جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات خلافِ شریعت ہے۔ جماعت اسلامی کا کارکن اس کو شریعت کے نقطۂ نظر سے میدان عمل میں لے کر آئے کہ ہمیں کسی کو مارنے سے دل چسپی نہیں ہے لیکن شریعت کی سزائوں کا تحفظ مطلوب ہے، تو بالکل ایک دینی تحریک اُٹھ کھڑی ہوگی اور پھر اس میں سزاے موت کا معاملہ ہی نہیں بلکہ پورا دینی ایجنڈا شامل ہوجائے گا۔

شریعت اور جمہوریت کے تعلق کی نسبت سے ایک بنیادی بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ پاکستان کی آبادی کا ۹۵ فی صدی مسلمان ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان رکھتا ہے اور اسے اپنی زندگی کے قانون اور ضابطے کی حیثیت سے تسلیم کرتا ہے، اور پاکستان کا دستور اس بنیاد پر قائم ہے کہ ریاست اور معاشرہ دونوں کے لیے اسلام رہنما اصول کی حیثیت رکھتا ہے اور قانون سازی کا منبع قرآن و سنت ہیں۔ شریعت کوئی باہرسے لائی جانے والی چیز نہیں بلکہ جمہور کا اصل منشا اور مقصود اور ان کے دل کی آواز ہے۔ اور یہی چیز اسلامی جمہوریت کو سیکولر جمہوریت سے ممتاز کرتی ہے کہ جمہور نے ریاستی نظامِ کار کے لیے اپنی آزاد راے سے اپنے ایمان اور جذبات کے مطابق جو دستوری فریم ورک بنا دیا ہے، اب قانون سازی اسی فریم ورک کے مطابق ہوگی اور یہی حقیقی جمہوریت کی اصل روح ہے۔ ان میں کوئی تضاد یا تناقض نہیں۔ سیکولر لابی جمہوریت کے نام پر جمہور کے اصل عقائد، احساسات، خواہشات اور تمنائوں کے برعکس ایک درآمد شدہ نظام اقدار ان پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔ اور اگر اس کے لیے پارلیمنٹ کے ادارے کو بھی دستور کی واضح دفعات اور دستور کی اسپرٹ کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی جائے تو پھر جمہور کے لیے اپنے مقاصد اور احساسات کو مؤثر بنانے کے لیے اسٹریٹ پاور کا ہتھیار ہے، جو دنیابھر میں جمہوریت کا ایک اہم ستون تسلیم کیا جاتا ہے۔

یہ بھی جمہوریت ہی کا ایک خوش گوار پہلو ہے اور ہمارے نزدیک اس کی قبولیت کی ایک اہم وجہ بھی یہ ہے کہ اس سے ایک آزادی میسر آتی ہے اور حق کو حق کہنے اور باطل کو باطل کہنے کے عنوانات کہکشاں کی طرح دُورتک سجے نظرآتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس اعتبار سے اس کی قدر کی جانی چاہیے۔ الحمدللہ جماعت اسلامی کے پاس وہ اسٹریٹ پاور موجود ہے جو معاملات میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے اور اس حقیقت کو ہمارے مخالف بھی تسلیم کرتے ہیں۔ یہ سٹریٹ پاور اسے برادرتنظیموں سے بھی میسرآتی ہے اور جب عوام کے مسائل سامنے آتے ہیںتوجماعت اسلامی کے نہایت بزرگ اور ضعیف کارکن بھی جو ان ہوجاتے ہیںاور جوانوں سے زیادہ تحرک اور جوش و سرگرمی کامظاہرہ کرتے ہیں۔ نیز وہ عوام بھی اس میں متحرک ہوجاتے ہیں جو الیکشن کے وقت چاہے برادریوں اور روایتی سیاسی وفاداریوں کی گرفت میں ہوں لیکن اہم قومی ایشوز پر دل کی بات کہنے اوراس کے لیے کٹ مرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔

اسلامی تحریکیں اور حکمت عملی

 گذشتہ دنوں لاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی تحریکوں کی دو روزہ عالمی کانفرنس کے حوالے سے یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ تحریکات کی قیادت میں اس اعتبار سے مکمل طور پر یکسوئی پائی گئی کہ اپنے اہداف تک پہنچنے کے لیے اسلامی تحریکوں کو پُرامن جدوجہد کرنی چاہیے اور اس کے لیے جمہوری راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے شریعت کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے۔ کسی پر کوئی چیز تھوپ دی جائے تو وہ الگ بات ہے لیکن پر امن جدوجہد اور اپنی دعوت کی بنیاد پردل و دماغ مسخر کرکے لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانا،انھیں اپنے جلو میں لے کر چلنا اور پھر اس کے مطابق ضروریات کو پورا کرنا چاہیے۔ کانفرنس میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جنھوں نے اپنے سیکڑوں اور ہزاروں ساتھیوں کی لاشیں اٹھائی ہیں اور اپنی آنکھوںسے جوانوں کا خون بہتے اور بوڑھوں،عورتوں اور بچوں پر ظلم ہوتے دیکھا ہے لیکن انھوں نے بھی یہ بات کہی کہ اسلامی تحریکوں کا راستہ پُر امن ہے۔

نہ شریعت بندوق کی نالی کے ذریعے قائم ہوتی ہے اور نہ امن۔ ریاست کے لیے قوت کے استعمال کا ایک مقام اور حق ہے لیکن یہ اختیار بھی حق اور ضابطے کا پابند ہے۔ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قرآن کا واضح حکم ہے اور یہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اور تاریخ کا سبق ہی یہ ہے کہ جو تبدیلی بندوق کے ذریعے آتی ہے، اسے باقی رکھنے کے لیے بھی بندوق ہی کی کارفرمائی ضروری ہوتی ہے اور اس طرح انسانی معاشرہ اور ریاست بندوق کے اسیر ہوکر رہ جاتے ہیں۔ یہ انسانی معاشرے کے لیے ہدایت اور اصلاح کے اس راستے کی ضد ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبیؐ کے ذریعے انسانیت کی ابدی ہدایت کے لیے ہمیں دیا ہے اور بات بھی بہت واضح ہے۔ ہماری دعوت اور تحریک پُرامن اس لیے ہے کہ جن کے پاس پیغام ہو، وہ پُرامن ذرائع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اسلام کی دعوت مقبول ہے اورقرآن و سنت پر مبنی پروگرام لوگوں کے دل کی آواز ہے۔ اگر اسلامی تحریکیں اپنے اندر، لوگوں کے دلوں پر دستک دینے کی صلاحیت پیدا کریں، اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرکے لوگوں کو اپنا ہم نوابنانے کی کوشش کریں، اور اپنے کردار سے یہ ثابت کریں کہ وہ قرآن و سنت کی فرماںروائی اور عدل و انصاف کے نظام کا نفاذ چاہتی ہیں،تو عوام الناس ان کا ساتھ دیں گے۔

مغرب کی حکمت عملی اور اسلامی تحریکیں

 نائن الیون کے بعد اہل مغرب ، مغربی تہذیب اور اس کے سرمایہ دارانہ نظام نے اسلام کو فنا کے گھاٹ اتارنے، اس کی قیادت کو چارج شیٹ کرنے اور پوری دنیاکی نگاہ میں اخلاقی طور پر اس کو گرانے اور سیاسی طور پر اس کا پوسٹ مارٹم کرنے کی جو کوشش کی ہے، اس سے اسلامی تحریکوں کو نقصان پہنچا ہے (اگر اسے نقصان کہا جائے جو اخوان کو مصر میں ہوا ہے یا افغانستان میںہوا)۔لیکن اگر بیلنس شیٹ بنائی جائے تواس نقصان کے مقابلے میں فائدہ زیادہ ہوا ہے۔ اخوان المسلمون سے لوگوں نے براء ت کاعلان نہیں کیا کہ آیندہ اس پلیٹ فارم پر نہیں آئیں گے ، بلکہ وہ جوق در جوق آ رہے ہیں، آگے بڑھ رہے ہیں اور اخوان نے پوری قیادت کے پابند سلاسل ہونے اور تنظیم پر پابندی لگنے کے باوجود تحرک اور مسلسل احتجاج کی ایک نظیر قائم کی ہے۔

یہی معاملہ بنگلہ دیش کا ہے جہاں پھانسیوں کی سزائیں سن کر لوگوں کے اندربے چینی اور اضطراب پیدا ہوا ہے،مگر جہاں جہاں اسلامی چھاترو شبر ہڑتال کی اپیل کرتی ہے وہاں مکمل ہڑتال ہوتی ہے۔ ہزاروں افراد کے پابند سلاسل کیے جانے کے باوجود گرفتاریوں کے لیے ہر جگہ درجنوں لوگ اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔ یہ قوت کہاں سے آئی ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ مسلسل جدوجہد ، مقصد کے ساتھ وابستگی اور اس کے لیے پیروں کو غبار آلود کرنے کا نتیجہ ہے۔ چار دانگ عالم میں بنگلہ دیش جماعت کوئی اتنی جانی پہچانی اور لوگوں کے درمیان اتنی مقبول نہیں تھی جتنی اب ہوئی ہے۔ پھانسیوں کی سزا ئیں ہوں یاجیلوں میں جانے کا معاملہ ہو، یا زخموں سے چور لوگ ہسپتالوں کے اندر موجود ہوں، ان تمام نقصانات کے باوجود یہ تحریکیں آگے بڑھی ہیں۔ ان کا راستہ روکنے کے لیے مغرب اور اس کے گماشتوں نے جتنے ہتھکنڈے استعمال کیے وہ سارے ناکارہ ہوگئے ہیں۔ وہ سارے اوزار اور ہتھیار فرسودہ قرارپائے ہیں جو اسلامی تحریکوں کو ذبح کرنے کے لیے استعمال کیے گئے۔

مغرب کی تازہ حکمت عملی یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کو تشدد کی طرف دھکیلا جائے اور اس بات کو ممکن بنایاجائے کہ وہ ردعمل کاشکار ہو کر انتقامی کارروائیوں کی طرف چل پڑیں۔اشتعال، غصے اور جھنجھلاہٹ کے عالم میں ان کے کارکنان سڑکوں پر آ کرمعاشرے کا نقصان کریں تاکہ اس کے نتیجے میں ان پرگرفت کرنا اورہاتھ ڈالنا آسان ہوجائے اور عوام اور ان کے درمیان بھی بے اعتمادی پیدا ہو جس کے نتیجے میں وہ عوامی تائید سے محروم ہوجائیں۔چاروں طرف سے مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے، ان کا جینا دوبھر کیاجارہا ہے،ان سے سارے حقوق چھینے جا رہے ہیں، دیوار کے ساتھ لگاکربند گلی کا اسیر بنایا جارہا ہے، تاکہ وہ اپنا نام ہی بھول جائیںاور اپنی شناخت ہی گم کربیٹھیں ۔ کل وہ بنیاد پرست تھے، پھرمتشدد قرار پائے، اور پھر دہشت گرد ، اب کوئی اور بھی مرحلہ آجائے گا۔ بین الاقوامی سطح پر یہ بات توطے کر لی گئی ہے کہ دہشت گردی عالمی مسئلہ ہے لیکن دہشت گرد ہونے کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے ۔ اگر مسلمان نہیں ہے تووہ دہشت گرد نہیں ہے۔ سارے رویے اور ساری کوششیں اس کی غمازی کرتی ہیں۔ امریکا میں کئی واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ ایک آدمی نے درجنوںلوگوں کوقتل کردیا، لیکن کبھی ایسے آدمی کودہشت گرد نہیں کہاگیا۔ اگر   وہ امریکی ہے، ان کا ہم مذہب اورہم پیالہ و ہم نوالہ ہے، توکہا جاتا ہے کہ وہ نفسیاتی مریض تھا اور ردعمل میں اس نے یہ کیا،اور پھر ایک دو دن کے بعد ہی وہ خبر غائب بھی ہوجاتی ہے۔ اور اگر    ایسا کرنے والا مسلمان ہے تو پہلے ہی لمحے سے بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ دہشت گرد نے یہ کام کیا ہے، اور پھر تبصروں اور تجزیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

اسلامی تحریکوں میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے اور یہ خود ان تحریکات کی کامیابی کی علامت ہے ۔اسی طرح خواتین کی بھی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو دعوت کے ابلاغ کے لیے ہر وقت بے چین اور مضطرب رہتی ہے۔ جوانوں کی جوانی اورخواتین کے قوت و طاقت سے سرشار جذبوں اور رویوں کی قدر کرتے ہوئے انھیں یہ بتانا ضروری ہے کہ اسلامی تحریکوں کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ پُرامن راستہ اپنائیں۔ دعوت و تبلیغ اور دل و دماغ کو اپیل اور مسخرکر کے اپنی قوت میں اضافہ کریں اور اپنے حالات بہتر بنانے کی کوشش کریں ۔وہ تحریکیں جوپرامن راستوں کو اپناتی ہیں، قاعدے ضابطے کا اپنے آپ کوپابند بناتی ہیں وہ دیر تک اور دُور تک چلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بقاکے لیے تحریکوں کا پُرامن رہنا ضروری ہے۔ تشدد کا راستہ اپنانے سے مقاصد دم توڑ دیتے ہیں اور فنا کے گھاٹ اُترجاتے ہیں، اور تحریکوں کے اندر غیر مطلوب چیزیں در آتی ہیں ۔

امریکا اور مغرب کے موجودہ ہتھکنڈے ایک ہاری ہوئی جنگ جیتنے کے حیلے بہانے ہیں ، وہ جنگ جو میدان جنگ کے اندرافغانستان میں ہاری گئی ہے،وہ جنگ جو تہذیب وتمدن ، معاشرت اور خاندانی نظام اور اخلاقیات کے دائرے میں الحمدللہ مسلمانوں نے بڑی حد تک جیتی ہے، اس  فتح کو چھین لینے اور اس کو فراموش کردینے کی تمام تدبیریں کی جا رہی ہیں۔ یہ ہمارے شوق کی بات نہیں کہ امریکا کو للکارا جائے اور اسے دیس نکالا دینے کی بات کی جائے۔ ہمیں امریکا سے کسی خاص سطح پرکوئی دشمنی بھی نہیں ہے اور امریکا میں بسنے والے کروڑوںلوگوں سے بھی کوئی اختلاف نہیں ہے ۔مگر ہمارے تہذیب و تمدن سے انکار ،اور اپنے رویوں اوراقدامات پر غیر ضروری اصرار کے ذریعے مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک وہ کرتے آئے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں، ہمیں دراصل اس سے اختلاف ہے۔ حالات سے اسی واقفیت کے نتیجے میں جماعت اسلامی اپنی پالیسیاں بناتی اور ’گوامریکا گو‘ تحریک چلاتی ہے جو دراصل ایک نظریاتی اور تہذیبی کش مکش کی علامت ہے۔

اس تناظر میں جماعت کے ذمہ داران اور کارکنان کو غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ اگلے سال کے اوائل میں امریکی فوجوں کو افغانستان سے جانا ہے(اگرچہ امریکا یہ اعلان کر رہا ہے کہ اس کی چند ہزار فوج افغان قیادت کے تحفظ کے لیے تربیت کے نام پر افغانستان میں رہے گی)۔ امریکا کے جانے کے بعدجو بھی امریکا کی پسند کے حکمرانوں کا تحفظ کرے گا، اس کا حشر اس سے بھی زیادہ برا ہوگا جتنا امریکا کے ہوتے ہوئے ہوا ہے۔اس بات کی اہمیت کو سمجھنا اور عوام الناس تک پہنچانا چاہیے کہ خطے پر امریکی اور ناٹو فورسز کا قبضہ صرف اس لیے نہیں ہے کہ اس خطے کے وسائل پر نظر رکھی جائے،اور ان کو بالآخرامریکی خواہش کے مطابق قابو میں لایا جائے، بلکہ یہ خطہ پوری دنیا میں سب سے اہم خطہ ہے کیونکہ یہاں امریکا کے نئے عالمی نظام کی سب سے زیادہ مزاحمت ہے۔یہاں پاکستان، ایران اور افغانستان موجود ہیں، اور متحرک اسلامی تحریکیں موجود ہیں۔ یہاں چین ہے، مزاحمت کرتی ہوئی وسطی ایشیا کی ریاستیں ہیں۔

ایران کے حوالے سے یہاں ایک بات محض افہام و تفہیم کے لیے کہنی ضروری ہے اور اسی بنیاد پر ہم اپنے ارباب حل و عقد سے یہ بات کہتے ہیں کہ امریکا کی اہمیت کے پیش نظرہم اس سے لڑائی نہیں لڑنا چاہتے،اس کی دشمنی نہیں مول لینا چاہتے،لیکن اس پوری پالیسی پر نظرثانی کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ ایران کی صورت میں ایک مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ پچھلے ۱۲ سال میں عراق اور افغانستان کے بارے میں امریکا اور ایران کی پالیسیاں ایک جیسی ہیں،اگرچہ ابھی یہ طے کرنا مشکل ہے کہ اس میں زیادہ فائدہ کس کو ہوا ہے؟عراق میں سنی حکومت کے بدلے میں شیعہ حکومت قائم ہوگئی ہے۔ افغانستان میں ایک دیوبندی یا مذہبی حکومت تھی، اس حکومت کو ہٹا یا گیا تو ایران کے مقاصد پورے ہوئے۔ گویا ایران اور امریکا نے یہ بتائے بغیر کہ دونوں ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں، اپنی خارجہ پالیسی کو اس طریقے سے ترتیب و تشکیل دیا کہ ایک نے دوسرے کو فائدہ پہنچایا اوردونوں نے اپنے دشمن کو نقصان پہنچایا ۔ پاکستان کو بھی امریکا کے ساتھ اپنے فوائد سمیٹنے،اہداف حاصل کرنے اور اپنی ترجیحات کے مطابق معاملات طے کرنے کے لیے ایک نئی خارجہ پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے ۔ آزاد خارجہ پالیسی وہی ہوتی ہے جو قومی مقاصد کی آبیاری کرے اورملک و ملت کے لیے سودمند ثابت ہو۔ پاکستان ابھی تک اس خطے میں اس خارجہ پالیسی پر عمل کر رہا ہے جو دراصل امریکی مفادات کی نگران ہے اور امریکی ترجیحات کے مطابق کام کرتی ہے۔

یہ بات درست ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی ہے۔ اس کا مشترکہ اعلامیہ سامنے آیا ہے اور  اتفاق راے سے فیصلے ہوئے ہیں لیکن اس میں بنیادی بات یہی ہے کہ دہشت گردی کا آغاز تو    ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے ہوا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جس جنگ کا حصے دار بنا ہواہے اور ضرورت سے زیادہ جس میں دل چسپی لے رہاہے، اگرماضی کی طرح ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کا یہ کردار جاری رہتا ہے، امریکا کے ساتھ انٹیلی جنس شیئر کرتے ہیں، ڈرون حملوں کو برداشت کرتے ہیں جو وار آن ٹیرر کاہی ایک عکس ہیں۔ اس کے لیے امریکا کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی جاتی ہے ، حساس ائیرپورٹ اس کے حوالے کیے جاتے ہیں، انٹیلی جنس شیئر کی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے ڈرون حملے پاکستان کی سرزمین سے ہوتے تھے، اب باہر سے ہو رہے ہیں، مگر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی معاونت کے بغیر یہ حملے باہر سے ہوسکیں۔ باہر بیٹھ کر یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ کہاں حملہ کرناہے جب تک کہ مقامی طور پر انٹیلی جنس فراہم نہ کی جائے۔دہشت گردی کے اس مسئلے کو آل پارٹیز کانفرنس جس حدتک ایڈریس کرسکتی تھی اس نے کیا ہے اور یہ بات کہنے کی کوشش کی ہے کہ ڈرون حملے ختم کیے جائیں اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘  سے جان چھڑائی جائے۔ اگر یہ دونوں کام نہیں ہوپاتے بلکہ ایک کام نہیں ہوپاتا تو دوسرا بھی نہیں ہوگا اور دوسرا نہیں ہوگا تو دہشت گردی کی ایک فضا موجودرہے گی۔

بہارت سے دوستی اور حکومتی روش

اس مسئلے کو اس تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے کہ مغربی قوتوں اور بھارت کا اس پر اتفاق ہے کہ پاکستان میں انارکی و اشتعال کی فضاپیدا کر کے ایک ناکام ریاست کی صورت پیدا کی جائے، اورانتشار کویہاں تک پہنچادیاجائے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرا م کے غلط اور غیر ذمہ دار ہاتھوں میں جانے کا واویلا کر کے اسے بین الاقوامی کنڑول میں لینے کی کوشش کی جائے ۔ملک بھر میں جگہ جگہ جوحملے ہو رہے ہیں، ممکن نہیں ہے کہ سارے مقامی لوگ ہی کررہے ہوں ۔خودآئی ایس آئی اور ایف سی کے عہدیدار اور موجودہ و سابق حکمران یہ بیانات دے چکے ہیں کہ افغانستان میں بیٹھ کر بھارت،بلوچستان میں پیسہ اورہتھیار کی تقسیم کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کر رہا ہے ۔

بھارت کے حوالے سے خارجہ پالیسی میں ایک نئی اپروچ اختیار کرنے کی ضرورت تھی لیکن حکومت اس حوالے سے بھی قومی توقعات پر پورا نہیں اتری ہے۔ میاں نوازشریف بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کے لیے بے چین اور مضطرب ہیں ۔ بھارت کے ساتھ دوستی کے بیانات دے کر اپنے دل و دماغ کی تشفی کرتے اور کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں ۔ بھارت سے دوستی کا راگ الاپنا کشمیریوں کے ساتھ دشمنی کا اعلان کرنے کے مترداف ہے۔ حکمرانوں کی بھارت کے ساتھ وارفتگی کا یہ عالم اس کے باوجود ہے کہ پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے اور تجارت کے نتیجے میں پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ بھارت کی سرحد افغانستان سے نہیں ملتی اور جو کارروائی وہ سرحد کے ہونے سے کرسکتا ہے اس سے محروم ہے، یہ درجہ ملنے کے بعد پاکستان کے اندراس کی دخل اندازی میں اضافہ ہوجائے گا۔ وہ افغانستان میں بیٹھ کر افغانستان کو بھی کنٹرول کرنا چاہے گا اور چین کوبھی اس کی حدود میں رکھنے کے منصوبے پر عمل کرے گا۔

بھارتی صدر، وزیراعظم اورفوجی جرنیل مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ بھارت کے اندر دہشت گردی آسمان سے نہیں ٹپکتی بلکہ پاکستان سے آتی ہے۔ حکومت ِ پاکستان نے اس طرح کے الزامات پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ کوئی یاد نہیں دلاتا کہ بھارت دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو دہشت گردی کے اندر خود کفیل ہے اور اسے باہر سے کسی دہشت گرد یا دہشت گردی کی ضرورت نہیں ہے۔ بھارت میںدرجنوں علیحدگی کی مسلح تحریکیں چل رہی ہیںجوپوری کی پوری ٹرین اغوا کر لیتی ہیں۔ ایسے واقعات جن میں انگلی پاکستان کی طرف اٹھائی جاتی ہے، ان کے بارے میں بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ساراان کا اپنا کیا دھرا ہے، چاہے وہ سمجھوتا ایکسپریس کا معاملہ ہو یا بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا۔ خود ان کے اپنے لوگ گواہی دیتے ہیں کہ پاکستان کو مورد الزام ٹھیرانے اور اس پردہشت گردی کا ملبہ گرانے کے لیے یہ کام ہم نے کیا ہے۔ پاکستان کو مذاکرات کی میز پر یہ بات کرنی چاہیے کہ دہشت گردی بھارت کے اندربھی بھارت ہی سے ہوتی ہے اورپاکستان بھی اس کی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہے۔ جہاں ایک وزیراعلیٰ اور مستقبل میں وزارت عظمیٰ کا دعوے دارمسلمانوں کا قتل عام کرتا ہے، وہاں دہشت گردوں کی کمی نہیں ہے۔ دنیا بھر میں اقلیتیں اتنی غیر محفوظ نہیں ہیں جتنی بھارت میں ہیں، چاہے وہ پارسی اور عیسائی ہوں یا سکھ اور مسلمان۔ وہ تہہ تیغ کیے جاتے ہیں، مستقبل سے نااُمید اور مایوس کیے جاتے ہیں اور زندگی کے تمام دائروں کے اندر دیوار سے لگائے جاتے ہیں۔

بھارت کے ساتھ اس کی زبان میں بات کرنے کے بجاے میاں نوازشریف اور حکومت پاکستان نے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے ملاقات کے لیے منت سماجت کا رویہ اختیار کیا، جس کی وجہ سے من موہن سنگھ کوبرتری و بالادستی حاصل رہی ہے ۔ اس نے نہ صرف تمام ایشوز پر بھارتی مؤقف کو مضبوطی سے پیش کیابلکہ کھل کر کہا کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے۔ میاں نواز شریف بالعموم یہ بات کہتے ہیں کہ اٹل بہاری واجپائی کی پاکستان آمد پرجو معاہدہ ہوا تھا، وہیں سے بات دوبارہ شروع کی جائے گی۔ اس کو انھوں نے ملاقات سے پہلے بھی دہرایا مگرمنموہن سنگھ نے اسے بالکل درخور اعتنا نہ سمجھا۔ میاں صاحب کی جنرل اسمبلی کی تقریر بھی تضادسے بھرپور تھی۔ انھوں نے ایک طرف یہ کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل ہونا چاہیے، وہاں یہ بھی کہا کہ واجپائی کے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا، مذاکراتی عمل کا آغاز وہیں سے کیا جائے گا حالانکہ واجپائی کے ساتھ معاہدے میں اقوام متحدہ کے کردار اور اس کی قراردادوں کا سرے سے کوئی ذکرہی نہیں تھا، بلکہ مسئلہ کشمیر کوشملہ معاہدے کے مطابق دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے     حل کرنے کی بات کی گئی تھی۔ آیندہ دنوں میں یہ تضاد ایک بڑاعنوان بننے جا رہا ہے۔ اوریہ ایک ایسا سیاسی ایشوہے جس کے لیے لوگوں کو متحرک اور بڑے پیمانے پر یکجا اور جمع کیا جا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف جماعت کی سیاسی اور قومی پالیسی کوواضح کرنے کا موقع ملے گا بلکہ حکومت بھی دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہوگی۔

ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے جماعت سے وابستہ ہر فرد کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ گاہے کوئی ایک نکتہ ایک بڑی سیاسی تحریک میں بدل جاتا ہے۔ وہ نکتے جو تحریک بن کر اُبھرتے ہیں اور بڑے پیمانے پر لوگوں کو اپیل کرتے ہیں ، انھیں اپنے د ل ودماغ میں تازہ رکھنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام جماعت اسلامی کے کارکن ہی کو کرنا ہے۔ کوئی اور پارٹی ایسی نہیں ہے جس کے پاس ایسی اسٹریٹ پاور ہو جو یہ کام کرسکے، جس کے پاس سیاسی فہم ، دُور اندیشی اور فہم و فراست ہو،اوراتنی سیاسی بصیرت و بصارت ہو کہ دُور کی بات سوچ کر لوگوں کواس پر مجتمع کر سکے۔ جماعت کے ذمہ داران اور کارکنان کو ان ایشوز پر آپس میں بات کرتے رہنا چاہیے تاکہ جب کچھ کرنے اور میدان میں نکلنے کا عنوان سجے تو ہمارے لیے کوئی گتھی ایسی نہ ہو جو سلجھائی نہ جاسکے اور کوئی گرہ ایسی نہ ہو جس کو کھولا نہ جاسکے، بلکہ تمام چیزیں ہمارے سامنے دو اور دو دوچار کی طرح واضح ہونی چاہییں۔

مختلف قومی و بین الاقوامی ایشوز پر واضح، دو ٹوک اور جرأت مندانہ کردار ہی جماعت اسلامی کو عوام کی نظروں میں قابل اعتماد بنائے گا۔ جماعت اسلامی کے ہر سطح کے ذمہ داراور کارکن کو    یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ الیکشن کے ذریعے کامیاب ہونے کی حکمت عملی کا آغاز نئے انتخابات کے بگل بجنے اور برسرِاقتدار حکمران طبقے کی شکست و ریخت سے بہت پہلے دینی، سماجی، رفاہی اور سیاسی دائروں میں عوامی اُمنگوں اور آرزوئوں کا ترجمان بننے سے ہوگا۔ جماعت اسلامی ایک وسیع البنیاد ایجنڈے کے ساتھ زندگی کے لگ بھگ تمام دائروں میں نہ صرف موجود بلکہ متحرک ہے۔ انفرادی طور پر ہمارے پاس ہردائرے میں انسانی اور عوامی خدمت کی اچھی مثالیں موجود ہیں۔ ضرورت ایک شاہ ضرب (master stroke)کی ہے جو ان تمام کاموں کو آپس میں مربوط کرکے بالآخرایک مکمل سیاسی تبدیلی کی صورت میں جلوہ گر ہوگی۔ ان شاء اللہ!

 

جنگ دو دھاری تلوار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ جہاں انسانیت کے لیے فساد فی الارض سے نجات کا وسیلہ بن سکتی ہے، وہیں وہ اسے ایک عظیم تر فساد کی آگ میں جھونکنے کا ذریعہ بھی   بن سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی رہنمائی کے لیے جو قانون دیا ہے، اور جو اپنی آخری اور مکمل شکل میں قرآن اور سنت نبویؐ میں محفوظ ہے، اس میں اس بارے میں ایسی رہنمائی دی گئی ہے جو انسانیت کو فساد سے بچاسکے اور عدل وا نصاف کی راہیں ہموار کرسکے۔

اس قانون کی رُو سے جنگ کے باب میں دو اہم ترین شرطیں واضح کردی گئی ہیں ، یعنی: اول یہ کہ جنگ زر اور زمین کے حصول، محض سیاسی قوت، معاشی بالادستی اور دوسرے مفادات، تعصبات یا محض جہاں گیری اور اپنی قوت کے غلبے کے لیے نہیں ہونی چاہیے۔ مبنی برحق جنگ وہی ہوسکتی ہے جو دفاع یا ظلم کے مقابلے کے لیے ہو۔ اس اصولی اور ابدی ہدایت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے جنگ کے جواز کو حق اور عدل سے مشروط کردیا۔ اس کے ساتھ دوسری اہم تحدید یہ بھی کردی کہ خود جنگ کے دوران ہر قسم کے ظلم اور انسان سوز زیادتیوں سے مکمل اجتناب کیا جائے۔ دشمن کی عسکری قوت پر بھرپور ضرب ہو لیکن عام انسانوں، خصوصیت سے معاشرے کے ان تمام عناصر کے جان، مال اور آبرو کی مکمل حفاظت کی جائے جو شریکِ جنگ نہیں ۔ (non-combatants)  دشمن کی عبادت گاہوں، عورتوں، بچوں، حتیٰ کہ پھل اور سایہ دار درختوں اور کھڑی فصلوں تک کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ اس لیے کہ جنگ کا ہدف صرف حقیقی امن اور انصاف کا حصول ہے اور جنگ کے دوران میں عام انسانوں اور بستیوں کو تباہی سے بچانا اور امن کے پیامبر ہونے کا ثبوت پیش کرنا جنگ کے آداب کا حصہ ہے۔

اسلام کی ان تعلیمات کا دورِ جدید کے بین الاقوامی قانون کے ارتقا پر واضح اثر دیکھا جاسکتا ہے۔ سولھویں صدی کے بعد جو قانون وجود میں آیا ہے، اس میں سفارت کاری کے اصول و آداب کی حد تک ہی سہی، بین الاقوامی کنونشنز (conventions) پر مبنی برحق جنگ (just war) اور جنگ کے دوران عدل و انصاف کے اہتمام (justice in war) کے اصولوں کو تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جن اقوام کو ’مہذب‘ اقوام ہونے کا دعویٰ ہے، انھوں نے ان دونوں حیات بخش اور امن پرور اصولوں کو بُری طرح پامال کیا ہے۔ اس کی تازہ ترین اور اندوہناک مثال دہشت گردی سے دنیا کو پاک کرنے کے نام پر وہ جنگ ہے، جو امریکا نے ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے افسوس ناک اور قابلِ مذمت واقعات کا سہارا لے کر پوری دنیا پر مسلط کی ہے اور عالمی دہشت گردی کا ایک شرم ناک خونیں باب رقم کردیا ہے۔

بظاہر ۲۰۱۴ء میں افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کی واپسی کے اعلانات کیے جارہے ہیں، مگر ان کے باوجود جنگ و جدال اور ریاستی اور مزاحمتی دہشت گردی کی آگ کے ٹھنڈے ہونے کے امکانات نظر نہیں آرہے۔ اگر امریکی افواج ہزیمت و شرمندگی کے ہاتھوں مجبور ہوکر  افغانستان سے واپس چلی بھی جائیں، تب بھی یہ علاقہ اور دنیا کے دوسرے حساس علاقے جنگ کی آگ میں سلگتے رہیں گے اور کسی نہ کسی طرح ان ممالک پر مغرب زدہ نام نہاد لبرل سیکولر نظام کے حاشیہ بردار اور وہاں کی سیاسی اور عسکری قوت کے گٹھ جوڑ سے عوام کو، خصوصیت سے اُمت مسلمہ کو، اپنی گرفت میں رکھا جائے گا، تاکہ اس کے قومی و معدنی وسائل کی لُوٹ مار کا سلسلہ جاری رہے، اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو کھل کھیلنے کے مواقع حاصل رہیں۔

۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعے اور اس کے نام پر شروع کی جانے والی جنگ کو ۱۲برس ہوگئے ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ان ۱۲برسوں کا بے لاگ جائزہ لیا جائے۔ یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ اس جنگ کے ذریعے امریکا نے کیا حاصل کیا اور کیا کھویا اور اس سے بھی بڑھ کر اس کے نتیجے میں ان ممالک کو کیا ملا، جو امریکا کے حلیف بنے یا جن کو امریکا نے اپنا ہدف بنایا۔اس لیے کہ   اس جنگ کی سب سے بڑی حقیقت ہے ہی یہ کہ مغربی اقوام نے اسے اُمت مسلمہ کی سرزمین پر  لڑا ہے، اور وقتی اسباب جو بھی ہوں، اپنے عالمی ایجنڈے کے مطابق لڑا ہے۔ بظاہر مقصد القاعدہ کو ختم کرنا تھا، پھر طالبان ہدف بنے، پھرعراق کے ایٹمی ہتھیار جن کا کوئی وجود نہ تھا۔ پھر جمہوریت کے فروغ، عورتوں کے حقوق کی پاس داری، تعلیم کے فروغ اور معاشی ترقی کے خواب دکھائے گئے، لیکن اصل مقاصد صرف اپنے سیاسی اور معاشی ایجنڈے پر عمل تھا اور اس کے لیے ان ممالک میں، خصوصیت سے افغانستان، عراق، یمن اور خود پاکستان میں ایسے عناصر کو آلۂ کار بنایا گیا جو ملک و ملّت کے مفادات کو ذاتی اقتدار اور مفادات پر بے دریغ قربان کرنے کو تیار ہوں۔ وقت آگیا ہے کہ اس پورے دور کا بے لاگ تجزیہ کیا جائے اور دیکھا جائے کہ کس نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اور اس کی روشنی میں آگے کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی منصوبہ بندی کی جائے۔ اس موضوع کا حق ایک مقالے میں ادا نہیں کیا جاسکتا۔ یہ موضوع تو ایک یا ایک سے بھی زیادہ کتابوں کا تقاضا کرتا ہے۔ مغرب میں یہ عمل شروع ہوچکا ہے اور مسلمان اہلِ علم کو بھی اپنے مقاصد، اہداف اور مفادات کی میزان پر اس دور کی پالیسیوں اور رُونما ہونے والے نتائج اور حالات کا صحیح صحیح تجزیہ کرکے    نفع و نقصان کے پورے اِدراک کے ساتھ آگے کا نقشۂ کار تیار کرنا چاہیے۔ پاکستان میں اس وقت ۱۱مئی کے انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومتیں وجود میں آگئی ہیں جن میں عوام نے تبدیلی کا پیغام دیا ہے۔ اگر نئی حکومتیں اس تاریخی موقع کو ضائع کردیتی ہیں اور امریکا ہی کے احکام پر عمل پیرا رہتی ہیں تو اس سے بڑی غداری کا تصور بھی مشکل ہے۔

خانہ جنگی کا خدشہ

اس جنگ کے ۱۲برس پورے ہونے پر نئی حکومت اور پوری قوم کو دعوت غوروفکر دینے کے لیے ہم چند اہم گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کی اہمیت اس بحث کے پس منظر میں مزید  بڑھ گئی ہے کہ اس نازک وقت پر بھی پاکستان کی امریکی جنگ میں شرکت اور اس کی تمام تباہ کاریوں کا مزہ چکھنے کے باوجود شمالی علاقہ جات ہی نہیں، پورے پاکستان میں فوجی آپریشن اور قوت کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نئی اور وسیع تر معرکہ آرائی کے لیے فضا ہموار کی جارہی ہے۔ یوں ملک کو ایک نہ ختم ہونے والی خونیں جنگ کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ اس میں امریکی اور اس کی حلیف بھارتی لابی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیکولر اور لبرل قوتیں پیش پیش ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ  یہ بھی نظرآرہا ہے کہ اس میں خود اسلام اور پاکستان کے ناراض دوستوں کا بھی ایک کردار ہے ، یا انھیں بھی استعمال کیا جارہا ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ مسئلے کو اس کے عالمی اور ملکی پس منظر میں دیکھا جائے اور جو بھی پالیسی بنائی جائے، وہ بہت سوچ سمجھ کر، قوم اور اس کی قیادت کو اعتماد میں لے کر، تاریخی تجربات سے پورا پورا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بنائی جائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسے ملک کے حقیقی مفادات اور قومی مقاصد کے حصول کے لیے صحیح معنی میں ایک قومی پالیسی ہونا چاہیے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کے لیے لازمی ہے کہ عوام کے عقائد، وژن، احساسات اور توقعات کی روشنی میں پالیسی بنائے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جو پالیسیاں بیرونی مفادات کے حصول کے لیے بنی ہوں یا جن کی تشکیل جبر اور دبائو کے تحت ہوئی ہو، یا جن کے محرکات غرور، طاقت کا زعم، انتقام اور غصہ ہوں، وہ تباہی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ایک بار نہیں بار بار طاقت کا زعم رکھنے والوں نے ایسی پالیسیاں بنائی ہیں اور ان کے نتیجے میں انسانیت کو ظلم و طغیان کی آگ میں دھکیلا ہے، بڑے بڑے علاقے تاراج کیے ہیں، لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتارا ہے، اور اربوں اور کھربوں ڈالر کے وسائل اس آگ میں جھونک دیے ہیں۔

نائن الیون: پس منظر اور کارفرما ذھنیت

اکیسویں صدی کا آغاز بھی ایسے ہی تباہ کن اور اندوہناک حالات میں ہوا ہے۔ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی، جس کا آغاز بظاہر آسٹرین شاہی خاندان کے ڈیوک فرانسس فریڈرک کے قتل سے ہوا، جسے ۲۸جون ۱۹۱۴ء کوسرائیو کے مقام پر ہلاک کردیا گیا تھا،اور اس ایک چنگاری سے ایسی آگ بھڑکی کہ پورا یورپ استعماری جنگ کی آماج گاہ بن گیا۔ انجام کار ۵۰لاکھ فوجی اور عام شہری موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے۔ امریکا پہلی بار یورپی جنگوں میں شریکِ کار بن گیا، نئی ٹکنالوجی انسانیت کی خدمت کے بجاے اسے تباہ کرنے   کے لیے استعمال ہونے لگی۔ پھر بیسویں صدی ۱۰۰ سے زیادہ جنگوں کا میدان بن گئی، جن میں دوسری عالمی جنگ میں ہلاک ہونے والے ۵کروڑ انسانوں سمیت ۱۰کروڑ انسان لقمۂ اجل بنے۔

اکیسویں صدی نے دوسرے عشرے کا بھی انتظار نہ کیا کہ اس کے دوسرے ہی سال میں نیویارک اور واشنگٹن کے واقعات رُونما ہوگئے۔ یوں انسانیت کو ایک دوسرے ہی قماش کی جنگ کی آماج گاہ بنادیا گیا۔ استعماری قوتوں نے ویت نام اور افغانستان کے تجربات سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ جنگ، جو ماضی میں دو ممالک یا چند ممالک کے درمیان فوجی معرکے سے عبارت تھی اور جس کی نوعیت، جس کا ہدف، جس کا میدان اور علاقہ بڑی حد تک متعین ہوتا تھا، اس کے تصور ہی کو  بدل ڈالا گیا۔ حکومت اور غیرحکومتی عناصر (نان اسٹیٹ ایکٹرز ) میں تصادم، ریاست کی حدود کے  اندر تو مختلف شکلوں میں ہوتا تھا مگر اب جنگ ریاستوں اور غیرریاستی مہم جُو عناصر کے تصادم تک بڑھا دی گئی اور اسے بھی عالمی سطح تک پھیلا دیا گیا۔ اس طرح ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘   میں ایک طرف ریاست یا ریاستیں فریق بن گئیں تو دوسری طرف ایک مبہم، غیرمتعین عنصر، جو  مکانی اعتبار (space wise) سے بھی بے حدوحساب علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اس طرح پوری دنیا اس جنگ کا میدان بنادی گئی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کون کس کے خلاف لڑرہا ہے مگر ہرطرف خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے اور ملک کے ملک تاراج کیے جارہے ہیں۔

دہشت گردی کی تاریخ پیدایش۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء نہیں۔ یہ تو صدیوں سے انسانی معاشرے میں ایک دھونس، دھاندلی اور جبر کے ’نظام‘ کی حیثیت سے موجودرہی ہے۔ کچھ کے لیے پسندیدہ راستے کے طور پر اور کچھ کے لیے ناپسندیدہ اور ناقابلِ برداشت۔ خود امریکا میں دہشت گردی کے واقعات امریکی ری پبلک کے قیام سے ۲۰۰۱ء تک بارہا اور بڑی ہولناک شکلوں میں ہوتے رہے ہیں۔ بیسویں صدی کے آخری عشرے میں نیویارک کے ٹریڈ سنٹر ( ۱۹۹۳ء) کو ہدف بنایا گیا اور اس کے ذمہ دار افراد کو ملک کے فوجداری قانون کے تحت مقدمہ چلا کر سزائیں دی گئیں۔ یمن کے سمندر میں یوایس کول نامی بحری جہاز کا واقعہ رُونما ہوا اور اس کو بھی اسی طرح ملکی قانون کے تحت نمٹایا گیا۔ پھر اوکلاہوما کا خونیں واقعہ رُونما ہوا، جس میں ۱۶۸؍افراد کو ایک سفیدفام قدامت پرست امریکی دہشت گرد نے ہلاک کیا اور ۷۰۰؍ افراد زخمی ہوئے، لیکن اس واقعے پر بھی قانون کی مشینری ہی حرکت میں آئی، طبل جنگ نہیں بجایا گیا۔ لیکن ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء ایک ایسا واقعہ بن گیا جس کی بنیاد پر عالمی قانون اور ملکی فوج داری قانون دونوں کے پورے نظام فکروعمل ہی کو بدل کررکھ دیا گیا۔

امریکی صدر جارج بش اور پوری مغربی دنیا نے اس کے زیراثر، دہشت گردی کے اس قابلِ مذمت واقعے کو جس میں ۲ہزار۹سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں امریکا میں موجود ہرنسل، ملک اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد لقمۂ اجل بنے تھے، ’امریکا کے خلاف جنگ‘ قرار دیا۔ ناٹو نے دفعہ ۵ کا سہارا لے کر امریکا پر حملے کو ناٹو پر حملہ قرار دیا۔ اقوام متحدہ نے بھی ایک مبہم قرارداد میں قوت کے استعمال کے لیے ایک ایسا بودا سا جواز فراہم کرنے کی کوشش کی، جس کو علمی قانونی حلقوں میں چیلنج کیا گیا۔ امریکی کانگریس نے بھی ایک مجہول قرارداد کے ذریعے امریکی صدر کو دہشت گردی کے خلاف ہر ذریعہ اور قوت استعمال کرنے کا پروانہ دے دیا۔ لیکن اب اس کے بارے میں بھی سوالات اُٹھائے جارہے ہیں اور اس بحث کی روشنی میں امریکی صدر کے لیے شام پر فوج کشی کی اجازت حاصل کرنا مشکل ہوگئی ہے۔۱؎

یہ ۱۲سالہ جنگ جدید مغربی تاریخ کی طویل ترین جنگ ہے اور اس کی تباہ کاریاں بھی  بے حساب ہیں۔ اس کا کوئی جواز نہ بین الاقوامی قانون میں ہے اور نہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں، جو صرف دفاعی جنگ کی اجازت دیتا ہے۔ اگر واضح خطرے کے پیش نظر اور حقیقی دفاع کے لیے  چارٹر میں اقدام میں پہل کی گنجایش پیدا کی گئی ہے، تو وہ بھی اقوام متحدہ کے چارٹر کی حدود میں اور اقوام متحدہ کو اطلاع ہی نہیں اقوام متحدہ کے تحت کام کرنے والی فوج کی شرائط کے ساتھ مشروط ہے۔ لیکن امریکی صدر نے طاقت کے زعم میں، امریکا کے سامراجی اہداف کے حصول کے لیے، جن کی ایک مدت سے منصوبہ سازی کی جارہی تھی، اس عجیب و غریب جنگ کا آغاز کیا۔ صرف القاعدہ نہیں، افغانستان اور اس کے ساتھ عراق، ایران اور شمالی کوریا پر بھی اپنے جنگی اور جارحانہ عزائم کے اظہار کے ساتھ دبائو کا آغاز کیا۔ اس کے لیے یہ اصول وضع کیا کہ جو امریکا کے ساتھ نہیں،      وہ دہشت گرد ہے یا دہشت گردوں کے ساتھ ہے اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کے جنگی اقدام کے لیے ایک جائز ہدف ہے۔

صدربش کے یہ الفاظ اس جنگ کے اصل اہداف کو سمجھنے کے لیے ہمیشہ سامنے رہنے چاہییں:

  • وہ دہشت گرد جنھوں نے یہ اقدام کیے، اور وہ جو ان کو پناہ دیتے ہیں، ہم ان کے درمیان کوئی امتیاز نہیں برتیں گے (۱۲ستمبر ۲۰۰۱ء)
  • یہ صلیبی جنگ دہشت گردی کے خلاف کچھ عرصہ چلے گی (۱۲ستمبر۲۰۰۱ء)
  • عراق، ایران اور شمالی کوریا جیسی ریاستیں بُرائی کا محور تشکیل دیتی ہیں، جو اس دنیا کے امن کو خطرے میں ڈالنے کے لیے اسلحہ فراہم کر رہی ہیں۔(قوم سے خطاب، نیوزویک، ۱۱فروری ۲۰۱۲ء)

یہ ہے وہ ذہن (mind-set)، جسے سمجھے بغیر اس نام نہاد جنگ کی حقیقت، اس کے اصل عزائم اور اہداف اور امریکا کی عالمی سیاست میں اس کے کردار کو سمجھنا مشکل ہے۔ اس سلسلے میں گذشتہ ۱۲برسوں میں جو ناقابلِ انکار شہادتیں سامنے آگئی ہیں، ان کا احاطہ جگہ کی تنگی کے باعث یہاں ممکن نہیں۔ تاہم ان کے صحیح اِدراک پر ہی پاکستان کے لیے ایک قومی مفادات سے ہم آہنگ قومی سلامتی پالیسی بن سکتی ہے اور دہشت گردی کی امریکی جنگ سے نکلنے اور ملک میں حقیقی امن اور رواداری کا حصول ممکن ہوسکتا ہے۔

سیاسی حل، نہ کہ قوت کا استعمال

 دہشت گردی ایک تاریخی اور سیاسی مسئلہ ہے، جس کا مقابلہ دہشت گردی پر قابو پانے کی سیاسی اور غیرسیاسی حکمت عملی سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ دہشت گردی کی بلاشبہہ کوئی متفق علیہ تعریف موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے اقوام متحدہ میں اس مسئلے پر ۶۰برس سے بحث جاری ہے۔ اقوام متحدہ نے جہاں عام حالات میں سیاست میں قوت (violence) کے استعمال کو ناروا اور ناقابلِ قبول قرار دیا ہے، وہیں خاص سیاسی حالات میں حق خود ارادی کی مسلح جدوجہد کو ’دہشت گردی‘ تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔

قانون، سیاسیات اور سماجیات کے محققین اس پر متفق ہیں کہ ’دہشت گردی‘ کے اسباب کے تعین اور ان کے حل کے بغیراس سے نمٹنا ناممکن ہے۔ دہشت گردی کے مقابلے کے لیے  سیاسی حکمت عملی ہی مؤثر ہوسکتی ہے، گو کہ مخصوص حالات میں کچھ حدود کے اندر ریاستی قوت کے استعمال کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ محض قوت کے ذریعے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی بیش تر مساعی بُری طرح ناکام رہی ہیں اور ان کے نتیجے میں دہشت گردی میں بالعموم اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے دہشت گردی کو ملکی دستور اور قانون کے ڈھانچے میں اور سیاسی اور انسانی حالات کی روشنی میں حل کرنے ہی میں خیر ہے۔ ہر دوسرا راستہ ایسی قباحتوں اور خرابیوں کی طرف جاتا ہے جو انسانی معاشرہ، امن و امان، عدل و انصاف، جمہوریت اور آزادی کے لیے تباہ کن ہوسکتی ہیں۔

امریکا کے تھنک ٹینک رانڈ کارپوریشن نے افغانستان میں ۱۲برس تک لڑی جانے والی جنگ کے پس منظر میں دنیا میں دہشت گرد تنظیموں، کارروائیوں اور مسلح تحریکوں کو قابو کرنے کی عالمی کوششوں کا جائزہ لیا ہے، اور اس رپورٹ کے نتائجِ تحقیق صاف اشارہ کررہے ہیں کہ بالآخر مذاکرات کے علاوہ کوئی اور راستہ مؤثر نہیں ہوتا۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا کی ان تمام دہشت گرد تحریکوں کے مقابلے اور بڑے خون خرابے کے بعد بالآخر جو حل نکلا ہے اس کی تصویر کچھ ایسی ہے:

  •  ۴۳ فی صد تحریکوں پر قابو پانے کے لیے خالص سیاسی راستہ اختیار کرنا پڑا، جو کامیاب رہا۔
  •  ۴۰ فی صد میں سیاسی راستے کے ساتھ اور ایک تائیدی حربے کے طور پر سول پولیس کو استعمال کیا گیا اور بالآخر سول نظام کے دائرے میں مسائل حل ہوئے۔
  •  ۱۰ فی صد میں سرکاری قوتوں کو شکست ہوئی، دہشت گرد تحریک کامیاب ہوئی اور سیاسی تبدیلی واقع ہوئی۔
  •  ۷ فی صد میں فوجی قوت کے استعمال سے دہشت گردی کو ختم کیا جاسکا۔

جن مقامات پر قوت کے ذریعے سیاسی بنیادوں پر رُونما ہونے والی دہشت گردی کو ختم کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے، ان میں سب سے زیادہ ’کامیاب مثال‘ سری لنکا کی پیش کی جاتی ہے جہاں ۱۹۸۳ء میں تامل ٹائیگرز نے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ خودکش بمباری کے ہتھیار کو استعمال کرنے کا ’سہرا‘ بھی انھی کے سر ہے۔ سری لنکا کے ایک صدرمملکت اور ایک فوجی سربراہ کو بھی انھوں نے دہشت گردی کا نشانہ بناکر ہلاک کیا۔ ۲۶سال پر پھیلی ہوئی اس دہشت گردی اور اس کے خلاف فوجی قوت کے بے دریغ استعمال میں ۴۰ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے ۳۰ہزار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عام شہری تھے۔ ۲۰۰۹ء میں سری لنکن فوج کو غلبہ حاصل ہوا، لیکن ایسی بے دردی سے قتل عام کے بعد کہ پوری دنیا چیخ اُٹھی اور چارسال سے اس نسل کشی (genocide) کے خلاف دنیابھر میں آواز اُٹھائی جارہی ہے اور سری لنکا کی سیاسی اور فوجی قیادت پر جنگی جرائم کے مقدمات چلانے کا مطالبہ ہورہا ہے۔

اگر ہم سری لنکا کے مخصوص جغرافیائی، نسلی، لسانی اور تاریخی پہلوئوں سے صرفِ نظر بھی کرلیں اور اس حقیقت کو بھی نظرانداز کردیں کہ یہ مسئلہ ایک مخصوص اور محدود علاقے اور اس کی خودمختاری یا آزادی سے متعلق تھا، تب بھی جس قیمت پر یہ فتح حکومت کو حاصل ہوئی، وہ عسکری حل کو دوسروں کے لیے پُرکشش نہیں بناسکتا۔ لیکن تعجب ہے کہ ہمارے ملک کا لبرل سیکولر طبقہ اور امریکی اور بھارتی لابی کے ہم نوا بڑھ چڑھ کر اس خونیں حکمت عملی کے اختیار کرنے کی تلقین کررہے ہیں اور اخبارات اور ٹی وی کے ٹاک شو اس سے بھرے پڑے ہیں، لیکن تاریخ اپنا لوہا منوا کر رہتی ہے۔

ابھی ۱۸ستمبر ۲۰۱۳ء کو سری لنکا میں علاقائی انتخابات منعقد ہوئے۔ ان کے نتائج نے اس حکمت عملی کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ جافنا اور تامل علاقے میں TNA (The Tamil National Alliance) جو سابق تامل ٹائیگرز کا سیاسی محاذ تھا، اسے ان انتخابات میں حیران کن کامیابی ہوئی ہے۔ صدر راجا پاکسا کی پارٹی کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹی این اے نے ۳۸میں سے ۳۰ نشستیں حاصل کی ہیں، جب کہ صدر مہندرا راجا پاکسا اور ان کے اتحادیوں کی کولیشن کو صرف سات نشستیں ملی ہیں۔ ایک نشست مسلمانوں کی جماعت نے حاصل کی ہے۔

رائٹر کے نمایندے نے اسے صدر راج پاکسا کے لیے، جو ۲۰۰۵ء سے صدر ہیں، ’شرمناک شکست‘ قرار دیا ہے۔ اس نے عوام کے اس فیصلے کو اس انتخاب کا اصل پیغام قرار دیا ہے: ’’یہ بین الاقوامی برادری کے لیے ایک بھرپور پیغام ہے کہ تاملوں کی ضرورت ایک سیاسی حل ہے‘‘۔

اس انتخاب میں ۶۸ فی صد نے ووٹ ڈالے اور ٹی این اے نے جافنا جو تحریک کا مرکز ہے، اس میں ۸۴ فی صد ووٹ حاصل کیے۔ اس کے علاوہ دوسرے ملحقہ علاقوں میں بھی ان کو    ۸۱فی صد اور ۷۸ فی صد ووٹ ملے۔ یہ ہیں وہ تمام علاقے، جہاں فوج نے اندھی قوت کے ذریعے تحریک کو ختم کیا تھا، مگر پہلا موقع ملتے ہی عوام نے انھی مطالبات اور ایشوز کو اُٹھا دیا، جن کو ختم کرنے کے لیے عسکری آپریشن اختیار کیا گیا تھا اور ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ سُلاکر امن کا پیغام دیا تھا۔ ٹی این اے کے فتح یاب نمایندے ایم اے سماندھیران نے صاف الفاظ میں اعلان کیا ہے :

ہم نے جو سیاسی موقف اختیار کیا تھا، یہ اس کی ایک بڑی تائید ہے۔ ہمارے عوام تشدد اور دھمکیوں کے سامنے جھکے نہیں، کھڑے رہے ہیں۔ اب صدر کو اس فیصلے کے سامنے جھکنا پڑے گا۔ (ڈیلی سٹار، ۲۲نومبر ۲۰۱۳ء)

ٹی این اے نے مزید مطالبہ کیا ہے کہ: ’’تمام علاقے سے فوج واپس بلائی جائے، جس نے علاقے میں بے پناہ مظالم کیے ہیں‘‘۔ عالمی سطح پر بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ فوج کی زیادتیوں پر محاسبہ ہو، عالمی قوانین کے مطابق ان سب لوگوں پر مقدمہ چلایا جائے جو جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں اور سیاسی مفاہمت کے ذریعے مسئلے کا حل نکالا جائے۔ اس سارے خون خرابے کے بعد بات پھر سیاسی حل ہی پر آکر رُکی ہے اور امریکا کے دانش ور بھی اس کی تائید کر رہے ہیں۔

’دہشت گردی‘ کے مسئلے کا کوئی حل سیاسی گفت و شنید اور افہام و تفہیم کے سوا نہیں۔ یہ نہ کسی کی فتح ہے اور نہ کسی کی شکست۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس عمل کو بروقت اور صحیح انداز میں کیا جائے یا بعد از خرابیِ بسیار___ ہمیں کوئی شبہہ نہیں کہ اس عمل کو سبوتاژ کرانے میں امریکا، بھارت اور اسرائیل کا ہاتھ ہے اور ان کے گماشتے یہ کھیل کھیل رہے ہیں___ بلاواسطہ بھی اور بالواسطہ بھی۔ حالانکہ افغانستان میں خرابیِ بسیارکے بعد امریکا سیاسی حل کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے اور    ؎

آنکہ داناں کند ، کند نادان
لیک بعد از خرابیِ بسیار

کی تصویربنا ہوا ہے۔ برطانوی وزیراعظم چرچل نے امریکا کے طور طریقوں کے بارے میں ایک بار بڑی پتے کی بات بڑے لطیف انداز میں کہی تھی جو آج بھی حقیقت کا رُوپ دھارتی نظر آرہی ہے، یعنی:’’ہم، امریکیوں کو ہمیشہ ان لوگوں میں شمار کرسکتے ہیں، جو صحیح کام تب کرتے ہیں جب وہ دوسرے تمام ذرائع کو ہرطرح سے آزما چکے ہوتے ہیں‘‘۔

امریکا اور برطانیہ کے بڑے خصوصی تعلقات ہیں، اس لیے بالآخر امریکا ان سے صحیح معاملہ کرنے پر تیار ہوجاتا ہے، لیکن پاکستان اور دوسرے ممالک اتنے خوش نصیب کہاں___ وہ تو غلط اقدامات کی چکّی ہی میں پستے رہتے ہیں۔

۱۲سالہ جنگ، کس قیمت پر؟

افغانستان پر امریکی حملہ عالمی قانون، عالمی چارٹر براے انسانی حقوق، ریاستی حاکمیت،  حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے اپنے چارٹر اور خود امریکی دستور سے بھی متصادم تھا۔ لیکن طاقت کے زعم، سیاسی اور معاشی غرور و استکبار اور جذبۂ انتقام سے سرشار امریکی قیادت نے قانون کے راستے کو ترک کرکے، اندھی قوت کا استعمال کیا اور چھے ہفتے میں افغانستان کو خاک و خاکستر بنانے، القاعدہ کو بیخ و بُن سے اُکھاڑنے اور طالبان کو ان کی حکم عدولی کی سزا دینے کے لیے ایک ’گلوبل وار آن ٹیررزم‘ کا آغاز کیا۔ ۱۲برس پر پھیلے ہوئے خون خرابے کے باوجود امریکا اور اس کے اتحادیوں کو کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ اب افغانستان سے بے نیل و مرام نکلنے اور طالبان سے مفاہمت اور مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔

امریکا اور ناٹو کے ۴ہزار سے زیادہ فوجی افغانستان میں ہلاک ہوچکے ہیں، جو۱۱ستمبرکے واقعے میں جاں بحق ہونے والوں سے زیادہ ہیں۔ زخمی ہونے اور اپاہج ہوجانے والے فوجیوں کی تعداد ۳۰ہزار سے زائد ہے۔ جو امریکی فوجی واپس ہوئے ہیں، ان میں خاص طور پر اور خود ان فوجیوں میں جو افغانستان میں ہیں خودکشی عام ہے۔ پھر وہی افغان فوج اور پولیس جسے اربوں ڈالر خرچ کر کے اور بڑے چائو کے ساتھ تربیت دے کر طالبان کے مقابلے کے لیے تیار کیا گیا تھا، اس کے جوانوں نے امریکی اور ناٹو فوجیوں ہی پر حملے شروع کردیے ہیں اور اس کے لیے Green on Blue  (سبز بمقابلہ نیلا) کی نئی اصطلاح وضع کی گئی ہے۔ اب خود افغان فوج اور امریکی اور ناٹو کی افواج ایک ہی محاذ پر کھڑی نظر نہیں آتیں۔ نہ صرف اعتماد کا رشتہ ختم ہوچکا ہے بلکہ عملاً بھی ان کے درمیان رابطے کو کم کیا جارہا ہے، بلکہ امریکی افواج کو افغان افواج سے محفوظ رکھنے کی تدابیر بھی جنگی حکمت عملی کا حصہ بن گئی ہیں۔

جب یہ جنگ شروع ہوئی تو امریکی حکام نے اس پر بُرا منایا تھا کہ تھنک ٹینکس اور کچھ فوجی تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ اس جنگ کے ذریعے امریکا پر ۱۰۰؍ارب ڈالر کی چپت پڑسکتی ہے۔ لیکن تجربہ اور مشاہدہ یہ بتارہا ہے کہ امریکا کو فوج اور افغانستان پر ۱۰۰؍ ارب ڈالر سے زیادہ ہرسال خرچ کرنا پڑرہے ہیں اور صرف افغانستان میں ان ۱۲برسوں میں ۱۲۰۰؍ارب ڈالر کا بوجھ امریکی معیشت پر پڑچکا ہے۔ اگر عراق کی جھوٹ پر مبنی جنگ کے اخراجات اور یمن وغیرہ میں دہشت گردی کے خلاف کیے جانے والے اخراجات کو بھی شامل کرلیا جائے تو بلاواسطہ اخراجات ۳ہزار ارب ڈالر تک پہنچ جاتے ہیں، لیکن اگر بلواسطہ معاشی بوجھ کا اندازہ کیا جائے تو وہ ۵ہزار ارب ڈالر سے متجاوز ہیں، جو امریکا کے سالِ رواں کے کُل جی ڈی پی کا ۳۰ فی صد بن جاتا ہے۔

پھر اس جنگ کا جو کردار ۲۰۰۸ء سے رُونما ہونے والے معاشی بحران کے باب میں رہا ہے، اس کا بھی جائزہ لیا جائے تو پوری دنیا اس جنگ کے عذاب میں جھلستی نظر آرہی ہے۔ امریکا میں ۲ہزار۹سو افراد کی ہلاکت ایک سانحہ تھا، جس کی تمام دنیا نے مذمت کی۔ خود طالبان نے سرکاری طور پر اور مُلّاعمرنے اپنے بیان میں اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ سابق افغانی صدر اور طالبان کے مخالف پروفیسر برہان الدین ربانی نے نہ صرف مذمت کی، بلکہ دعوے سے کہا کہ افغانستان سے کسی کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ ایسی کوئی کارروائی کرسکے یا کرواسکے۔ لیکن جرم بے گناہی کی سزا میں ڈیڑھ لاکھ افغان موت کے گھاٹ اُتارے جاچکے ہیں، اور ۳۰لاکھ ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔

اسی طرح عراق میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۱۰لاکھ بتائی جاتی ہے، جس میں ۵لاکھ بچے بھی ہیں۔ خود پاکستان میں ۴۰ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں، جن میں فوجی جوانوں اور افسران کی تعداد ۵ہزار سے متجاوز بتائی جاتی ہے، جب کہ کتنے اصل دہشت گرد مارے گئے کسی کو علم نہیں۔ امریکا اور مغربی اقوام کی نگاہ میں اپنے چند ہزار فوجیوں یا عام شہریوں کی ہلاکت تو اہمیت رکھتی ہے، لیکن باقی دنیا میں صرف اس ۱۲سالہ جنگ میں کتنے معصوم انسانوں کو لقمۂ اجل بنادیا گیا ہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ حالانکہ جو کردار امریکا نے اس جنگ میں اختیار کیا ہے، اس کے بارے میں ہرآزاد اور باضمیر شخص یہ کہنے پر مجبور ہے کہ امریکی اور ناٹو قیادت نے انسانیت کے خلاف بڑے پیمانے پر جن جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے، اسے ایک نہ ایک دن ان کا حساب دینا ہوگا۔

امریکی راے عامہ کی نظر میں

 یہ بھی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ امریکا افغانستان اور پوری دنیا میں اپنی دہشت گردی کے خلاف جنگ ہارچکا ہے۔ عراق سے ذلیل و خوار ہوکر اسے نکلنا پڑا، البتہ عراق کو اس نے   تباہ کردیا اور وہاں آج بھی خاک و خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ امریکا نے اس جنگ کے آغاز میں ایک دعویٰ کیا تھا کہ اس جنگ کے نتیجے میں دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے گا، مگر عملاً دنیابھر میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ القاعدہ جو افغانستان میں ایک پناہ گزین گروہ تھا، اب دنیا کے طول و عرض میں ایک قوت بن گیا ہے۔ اگرچہ امریکیوں کے دعوے کے مطابق اس کی مرکزی تنظیم کمزور ہوگئی ہے، لیکن اس ایک القاعدہ کے بطن سے اب درجنوں القاعدہ گروہ رُونما ہوگئے ہیں۔ جو راستہ انھوں نے اپنے حالات کی مجبوری میں اختیار کیا تھا، وہ اب دنیا کے دوسرے حصوں میں بلاروک ٹوک اختیار کیا جا رہا ہے اور امریکا کے تمام دعوے خاک میں مل گئے ہیں۔

امریکی خود جنگ سے تنگ آگئے ہیں۔۱۲برس کے کارناموں کا حاصل یہ ہے کہ اب امریکا میں بھی راے عامہ کے تمام جائزے یہ بتارہے ہیں کہ عوام جنگ سے تنگ ہیں اور تازہ ترین سروے کے مطابق ۲۰۰۱ء کے واقعے کے بعد ۲۰۰۲ء میں امریکی آبادی کی جتنی عظیم اکثریت (۷۵ فی صد) اپنے کو غیرمحفوظ سمجھ رہی تھی، ۲۰۱۳ء میں بھی عدم تحفظ کی یہی صورت حال برقرار ہے۔ شام پر فوج کشی کے عندیہ کا اظہار کرکے خود امریکی وزیرخارجہ جان کیری کو کہنا پڑا: ’’امریکی عوام جنگ سے بے زار ہیں اور میں بھی بے زار ہوں‘‘ لیکن پھر ٹیپ کا بند وہی تھا کہ عالمی قانون اور ریڈلائنز کی حفاظت کے لیے فوجی قوت استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

فارن افیئرز امریکا کا مؤقر ترین مجلہ ہے۔ اس کے تازہ ترین شماروں میں اس جنگ اور اس میں استعمال ہونے والے ذرائع، خصوصیت سے ڈرون حملوں کی ناکامی کا واشگاف اعتراف کیا گیا ہے۔ اپنے مضمون Why Drones Fail? میں پروفیسر اوڈری کورتھ کرونن اعتراف کرتا ہے:

ڈرون حملوں کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ القاعدہ کا پروپیگنڈا بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہا ہے، بلکہ انھوں نے اس میں نمایاں طور پر اضافہ کردیا (فارن افیئرز، جولائی/اگست ۲۰۱۳ء،ص ۴۶)۔

وہ کہنے پر مجبور ہے کہ:

پُرتشدد جہادیت، جو نائن الیون سے بہت پہلے بھی موجود تھی جب ’دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ‘ آخرکار ختم ہوگی تو اس کے بعد بھی طویل عرصے تک جاری رہے گی۔

اور یہ کہ:

 واشنگٹن اب اپنے آپ کو جغرافیائی طور پر پھیلے ہوئے غیرمتعین دشمن کے ساتھ ایک مستقل جنگ میں پاتا ہے، جس کا نائن الیون کے اصل سازش کرنے والوں کے ساتھ بڑا ہی موہوم تعلق ہے۔ اس نہ ختم ہونے والے مقابلے میں امریکا کے لیے اپنے دشمنوں کے تعداد میں بہت بڑھ جانے اور ملک پر حملہ کرنے کے ان کے جذبے میں اضافے کے اندیشے ہیں (ص ۴۸)۔

ڈرون حملوں سے امریکا کو جو کچھ حاصل ہورہا ہے وہ منفی ہے:’’لیکن اس وقت واشنگٹن جو واحد یقینی کام کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ امریکا کے لیے عالمی حمایت کم ہوجائے اور مقامی آبادی اس سے برگشتہ ہوجائے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۰)

فارن افیئرز کے تازہ ترین شمارے (ستمبر /اکتوبر ۲۰۱۳ء) میں جارج واشنگٹن یونی ورسٹی میں علم سیاسیات کے پروفیسر اسٹیفن بڈل نے اپنے مضمون Ending the War in Afghanistan میں صاف اعتراف کیا ہے کہ اب امریکا کے سامنے مکمل شکست یا طالبان سے مذاکرات کے سوا کوئی اور راستہ نہیں:

اس جنگ کے صرف دو حقیقی متبادل ہیں، جن میں سے کوئی بھی خوش گوار نہیں ہے: ایک یہ کہ طالبان سے مذاکرات کے بارے میں سنجیدہ ہوجائیں۔ یہ کوئی امرت نہیں ہے لیکن یہ مکمل شکست کا واحد متبادل ہے۔ (ص ۵۰)

حالات کے مفصل جائزے کے بعد لکھتا ہے: ’’طالبان کے ساتھ صلح ایک کڑوی گولی کی طرح نگلنا ہوگی، مگر اس مرحلے پر یہ دوسرے متبادل کے مقابلے میں کم درجے کی قربانی ہوگی‘‘۔(ص۵۵)

اسے اعتراف ہے کہ مشکلات حائل ہیں، لیکن پھر بھی راستہ یہی ہے۔ انجامِ کار اس کا برملا مشورہ اس کڑوی گولی کو نگلنا ہی ہے:

مذاکرات کی بنیاد پر تصفیے میں رکاوٹیں بہت ڈرانے والی ہیں، تاہم اس طرح کا معاملہ ابھی بھی افغانستان میں امریکا کے لیے سب سے آخری بُرا متبادل ہے۔ اگر وائٹ ہائوس تصفیے کی ایک سنجیدہ کوشش کی قیمت قبول کرنے کے لیے رضامند نہیں ہے ، تو پھر یہ وقت ہے کہ امریکا اپنے نقصان کم کرے اور افغانستان سے ابھی باہر آجائے۔(ص ۵۷)

انگلستان کے مؤقر جریدے Prospect (پراسپیکٹ)نے ستمبر ۲۰۱۳ء کے شمارے میں ایک پورا حصہ جس موضوع کے لیے وقف کیا، وہ یہ ہے:

Admit it - We Lost: Why did the Afghan war go wrong?

تسلیم کرو! ہم ہار گئے ہیں: افغان جنگ کیوں غلط تھی ؟

مضمون نگار رسالے کا مدیر ہے اور اس نے صاف الفاظ میں اس ۱۲سالہ ناکام تجربے کے بارے میں کہا ہے کہ: ’’یہ جنگ غلط تھی۔ ہمارے سارے دعوے حقیقت پر مبنی نہیں تھے‘‘ اور یہ کہ انگلستان کے لیے یہ جنگ نہ صرف ناکام جنگ تھی، بلکہ ناکام ترین جنگ ثابت ہوئی، جو عراق میں جنگ کی شکست سے بھی کچھ زیادہ ہی ناکام رہی۔ وہ افواج جو افغانستان کو امن اور سلامتی فراہم کرنے اور طالبان کا قلع قمع کرنے کے لیے گئی تھیں، ان کا سپریم کمانڈر ،یعنی ملک کا وزیراعظم  اب یہ کہنے پر مجبور ہے کہ: ’’طالبان کے ان سارے ’دقیانوسی خیالات‘ اور ’غیرمہذب طور طریقوں‘ کو بھول کر، جو جنگ کا سبب قرار دیے گئے تھے، ہم افغانستان میں امن اور استحکام چاہتے ہیں۔    ہم طالبان کی ان کے ملک میں واپسی چاہتے ہیں‘‘۔

برون وین مڈوکس نہ صر ف جنگ کی تباہ کاریوں کو بیان کرتے ہوئے شکست کا اعتراف کرتا ہے اور جنگ کے خاتمے اور افواج کی فوری واپسی کا مطالبہ کرتا ہے، بلکہ ایک آزاد اور مؤثر تحقیقات کا بھی مطالبہ کرتا ہے، تاکہ جنگ میں جانے اور جنگ میں ادا کیے جانے والے کردار کا بھرپور محاسبہ ہوسکے اور آیندہ ایسے تباہ کن تجربات سے بچاجاسکے۔ شاید یہ اس جنگ کا سایہ ہی تھا جس نے برطانوی وزیراعظم کو شام پر فضائی حملہ کرنے کا شوق پورا کرنے سے محروم رکھا۔

سیاسی اور عسکری قیادت کے لیے سبق

افغانستان میں جنگی ناکامی اور دہشت گردی کے مسئلے کے فوجی حل کے دیوالیہ پن اور سیاسی حل کی ضرورت پر حال ہی میں ایک بڑی دل چسپ کتاب شائع ہوئی ہے جس میں ہمارے سیاست دانوں اور عسکری قیادت کے لیے چشم کشا حقیقتیں درج ہیں۔ یہ کتاب افغانستان میں برطانیہ کے سابق سفیر شیرارڈکوپل نے اپنے افغانستان میں قیام کے دوران کی یادداشتوں پر مشتمل Cables from Kabul کے نام سے لکھی ہے جو ہارپر پریس لندن نے شائع کی ہے۔ اس کے مفصل اقتباسات دی سنڈے ٹائمز نے اپنی ۲۳جولائی ۲۰۱۳ء کی اشاعت میں شائع کیے ہیں۔ ان میں سے چند ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں، جو توقع ہے کہ اُن تمام افراد کے لیے بڑے مفید ہوں گے جو کُل جماعتی کانفرنس کے تجویز کردہ سیاسی حل اور مذاکرات کے ذریعے امن کی حکمت عملی کو ہدفِ تنقید بنارہے ہیں، بلکہ اس جنگ کو نہ صرف جاری رکھنے بلکہ مزید فوجی آپریشن کے ذریعے حالات کو بگاڑنے کا مشورہ دے رہے ہیں:

آہستہ آہستہ یہ واضح ہوگیا کہ طالبان کمزور ضرور ہوئے ہیں، لیکن شکست سے بہت دُور ہیں۔ انھیں امن کے عمل میں مصروف کرنے کے بجاے امریکیوں نے یہ یقین کرنے کی تباہ کن غلطی کی کہ وہ طالبان کو محض طاقت سے شکست دے سکتے ہیں۔ عراق کی  غلط مثال کی پیروی کرتے ہوئے وہ فوجوں کی تعداد میں باربار اضافہ کرتے رہے۔

یہی نہیں افغانستان کے آزادی پسند لوگوں پر باہر سے دستور مسلط کیا گیا اور عوام اور مزاحمت کرنے والی قوتوں سے یورپ میں تیار ہونے والے اس دستور پر عمل کی توقع کی گئی: اس کے بعد ہم نے جو مہینے گزارے، ان میں ہم نے ایک امریکی کو یہ اجازت دے کر اپنی غلطی میں اضافہ کیا کہ وہ افغانوں پر ایسا دستور نافذ کرے، جو ایک فرانسیسی نے مرتب کیا تھا۔ یہ اٹھارھویں صدی کے یورپی دستوری نمونے کا مکمل چربہ تھا، جو افغانستان کے اصل سیاسی جغرافیے اور تاریخ کے بالکل خلاف تھا۔ اس میں اگلے ۲۰برسوں میں ۱۴قومی انتخابات تجویز کیے گئے تھے۔ دستوری کانفرنس میں موجود بیش تر افغان مندوبین کی خواہشات کے برعکس، بہت محبوب افغان بادشاہت کو بھی ختم کردیا گیا۔ یہ وہ دستور ہے جس کے لیے ہمارے سپاہی لڑ رہے ہیں اور مر رہے ہیں۔

طالبان اور دوسرے آزادی پسند عناصر نے اگر کچھ لچک کا مظاہرہ بھی کیا، تو اس کا بھی ان کو کوئی مثبت ردعمل نہ ملا۔ نتیجتاً افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج جنگ کی دلدل میں مزید دھنستے چلے گئے۔ ایک اعلیٰ امریکی سفارت کار نے کوشش بھی کی، مگر لاحاصل:

القاعدہ سے علیحدگی کے واضح اشارے کے طور پر طالبان نے کہا کہ وہ افغانستان کو ایک ایسے اڈے کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، جہاں سے دوسرے ملکوں پر حملے کیے جائیں۔ اس بات کی شہادت بھی موجود تھی کہ پٹھان کسانوں میں جو سوچنے سمجھنے والے تھے اور جو طالبان کی افواج کا بیش تر حصہ تھے، وہ اپنے گھروں اور کھیتوں کو واپس جانا چاہتے تھے۔ مگر ان زیادہ معتدل رجحانات کے ساتھ کام کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کے بجاے ناٹو کا جواب یہ تھا کہ: ’تشدد میں اضافہ کردیا جائے‘۔ ۲۰۱۰ء کے موسم گرما میں جب افغانستان میں کمانڈر کی حیثیت سے جنرل اسٹینلے کے بجاے جنرل ڈیوڈ پیٹرس آیا، تو اسپیشل فورسز کے فضائی حملوں اور رات کی کارروائیوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ناٹو کے نئے کمانڈر کے آنے کے بعد فضا سے بمباری تین گنا بڑھ گئی۔ افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکی صدر اوباما کے پہلے خصوصی نمایندے رچرڈ ہال بروک نے اپنے سفارتی کیریئر کا آغاز  جنوبی ویت نام میں خارجہ افسر کی حیثیت سے کیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ صرف طاقت کا استعمال بغاوتوں کو دبا تو سکتا ہے، مگر ان کو ختم نہیں کرسکتا۔

امریکی حکمت عملی کا ایک اور اہم حصہ افغانستان میں اپنی پسند کے سیاست دانوں کو مضبوط کرنا اور اپنی خواہشات اور مفادات کے مطابق فوج اور پولیس تیار کرنا تھا۔ اس پر بھی اربوں ڈالر ہرسال خرچ کیے گئے، معاشی ترقی کے منصوبوں سے بھی زیادہ۔ مگر اس کا حشر بھی قابلِ دید ہے:

افغانستان کو مغربی فوجوں کے بجاے افغان فوجوں کے ذریعے گیریژن (حفاظتی نقطۂ نظر سے تعیناتی ) کی حکمت عملی کی کامیابی کی سب باتوں کے باوجود، افغان فوج اور پولیس کی ہلاکتیں بہت زیادہ ہیں۔ مزید جیساکہ افغانستان کے ایک اعلیٰ برطانوی افسر نے بتایا ہے ساڑھے تین لاکھ کی فوج ہرسال ۵۰ہزار ملازمت سے بھاگنے والے برداشت نہیں کرسکتی۔

برطانوی سفیر کی نگاہ میں سیاسی حل ہی واحد حل ہے، جس کے بارے میں وہ بڑے وثوق سے اپنا نقطۂ نظر پیش کرتا ہے، سفیرصاحب کے اس تجزیے میں پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کے لیے بھی بڑا سبق ہے، بشرطیکہ وہ کھلے دل و دماغ کے ساتھ ان تاریخی حقائق پر غور کریں:

جیساکہ دنیا کے بیش تر تنازعات میں ہوتا ہے بشمول شمالی آئرلینڈ، وہی بات افغان جنگ کے لیے بھی درست ہے، یعنی وسیع حدود میں ایک ہی دانش مندانہ حل ہے۔

شمالی آئرلینڈ سے جو دوسرا سبق سیکھا جاسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ ہم نے آغاز سے ہی یہ یقینی بنایا کہ فوجی کوششیں ایک سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہوں، جو باغیوں کو نئے دستوری تصفیے میں کوئی مقام دیتی ہوں۔ بہت پہلے ۱۹۷۲ء میں، جو خونیں اتوار کا سال تھا، جب سیکرٹ انٹیلی جنس سروس کے بہادر افسروں کو اختیار دیا گیا کہ وہ آئرلینڈ کے  طول و عرض میں سفر کریں تاکہ پرویژنل آرمی کونسل کو یہ پیغام جائے کہ اگر IRA (آئرش ری پبلکن آرمی)تنازعے کو ختم کرنا چاہتی ہے تو مذاکرات کا راستہ کھلا ہے۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ افغان جنگ میں امریکا ایک بہت آسان اور یک رُخے نقطۂ نظر پر جما رہا، یعنی کائوبوائے والا رویہ! سوچ کے دائرے بڑے محدود رہے:   اچھے لوگ اور بُرے لوگ، افغان افواج اور دہشت گرد طالبان۔ بیش تر امریکی گہرے قدامت پسند اور شدت سے مذہبی بنیاد پرست طالبان اور القاعدہ کے عالمی عرب جہادیوں کو ایک جیسا سمجھتے تھے۔

حالیہ دنوں تک اعتدال پسند طالبان سے معاملہ کرنا، تاکہ ان کے اور ان کے جنگ جُو،   نہ ماننے والوں کے درمیان دراڑ ڈال کر انھیں ان کے سابق عرب مہمانوں سے علیحدہ کردیا جائے، اس کا مغربی حکمت عملی میں کوئی حصہ نہ تھا۔ دہشت گردوں سے بات چیت کرنا ان کو ممنون کرنا سمجھا جاتا تھا۔ جرنیلوں کو اجازت دی گئی کہ وہ فوجی فتح کا نہ صر ف وعدہ کریں بلکہ زیادہ حیرت انگیز طور پر اس کا اعلان بھی کردیں۔

افغانستان کے اندر اور اس کے ہمسایوں کے درمیان امن کے لیے واحد قابلِ عمل راستہ مذاکرات ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اب جب ناٹو سنجیدگی سے بات کرنا چاہ رہی ہے، شاید طالبان نہیں چاہ رہے۔ افغانستان کی تکالیف ابھی کچھ عرصہ جاری رہیں گی۔

افغانستان جانے سے پہلے ۲۰۰۷ء میں ناٹنگم شائر کے ایک کارکن نے مجھ سے کہا:   ’’تمھیں طالبان سے بات چیت کرنا پڑے گی‘‘۔ ہزاروں جانیں بچ جاتیں اور اربوں پائونڈ بچ جاتے اگر عقل عام کی اس معمولی بات پر تب عمل کرلیا جاتا، اب نہیں۔

کیا اب بھی یہ راستہ استوار ہوسکے گا؟ کہنا مشکل ہے، مگر راستہ اس کے سوا کوئی اور نہیں اور پاکستان میں تو افغانستان کے مقابلے میں ۱۰ہزار گنا زیادہ ضروری ہے۔ وہی قومی سلامتی پالیسی بارآور ہوسکتی ہے، جو حقائق پر مبنی ہو اور تاریخی حقائق، اور ہمارے حالات اور ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بنائی جائے۔ ملک اس وقت بڑے نازک مرحلے میں ہے اور طالبان کا نام لینے والے چند عناصر کی کارستانیاں بھی ایک منفی کردار ادا کررہی ہیں اور اس سمت میں ملک کو دھکیل رہی ہیں،  جو علاقے کے لیے امریکی اور بھارتی عزائم کے لیے مفید اور ملک کی سیکولر لبرل لابی کی تمنا ہے۔

سیاسی عمل اور مذاکرات کو آغاز سے پہلے ہی سبوتاژ کرنے کے لیے ایک شوشہ یہ بھی چھوڑا جارہا ہے کہ بات چیت سے پہلے یہ اصول تسلیم ہونا چاہیے کہ دوسرا فریق دستور کو تسلیم کرے اور اس کے فریم ورک میں مذاکرات ہوں۔ سیاست، اور جنگ اس کا ایک حصہ ہے، کام ہی دوستوں اور دشمنوں دونوں سے معاملات کرنے کا ہے۔عین جنگ کے عالم میں بھی مذاکرات ہوتے ہیں اور  فتح و شکست سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہائی جیکنگ اور اغواکاری کے واقعات بڑے تلخ اور صبرآزما ہوتے ہیں لیکن ہائی جیکر اور اغواکار سے بھی معاملات کیے جاتے ہیں۔ ایجاب و قبول کا راستہ اختیار نہیں کیا جاتا۔ دستور کو پہلے منوانے کی بات وہ سیاسی بقراط بھی کررہے ہیں جو خود دستور کی اساس___ یعنی اسلام اور قرآن و سنت کی بالادستی کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور ملک کو ایک سیکولر ریاست بنانے کے کھلے کھلے داعی ہیں۔ جن کی دستور سے وفاداری کا عالم یہ ہے کہ وہ  کسی بھی بنیادی معاملے میں دستور کے واضح احکام پر اپنی راے کو فوقیت دینے اور دستور کے نفاذ کو بے اثر ( subvert)کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے۔ دستور سود کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے، وہ سود کے محافظ ہیں۔ دستور فحاشی اور بداخلاقی کی مخالفت کرتا ہے، وہ اس کے فروغ میں مصروف ہیں۔ دستور قرآن و سنت کی تعلیم کو لازمی قرار دیتا ہے، وہ تعلیم کو دین کے ہراثر سے پاک کردینا چاہتے ہیں۔ دستور قانون کی حکمرانی کا داعی ہے اور مقررہ قانونی کارروائی (due process of law)  کے بغیر کسی شہری کو اس کی آزادیوں سے محروم نہ کیے جانے کی ضمانت دیتا ہے، اور ان کا عمل یہ ہے کہ ہزاروں افراد لاپتا ہیں اور ریاست کی عمل داری (writ) کی کسی کو فکر نہیں۔ پھر جہاں تک فاٹا کا تعلق ہے، اس علاقے کو تو دستور کے ان پاسبانوں نے دستور کی دسترس سے خود ہی باہر کردیا ہے اور دوسروں سے دستور کو پہلے ماننے کی بات کررہے ہیں۔ ہم بھی دل سے دستور کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کے لیے سرگرم ہیں لیکن جن حالات میں ملک کو ان حکمرانوں نے جھونک دیا ہے ان سے نکلنے کے لیے حکمت اور تدبیر کے ساتھ انسانی تاریخ کے کامیاب تجربات کی روشنی میں راستہ نکالنا ہوگا اور سیاسی عمل کو مؤثر بنانے کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں یا ڈالی جارہی ہیں ان کو دُور کرنا ہوگا۔ اس دلدل سے نکلنے کا اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔

 اُوپر کی بحث کی روشنی میں نئی سلامتی پالیسی کیا ہونی چاہیے اور اسے کن کن پہلوئوں پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے؟ اس کے لیے چند اشارات پیش کیے جارہے ہیں۔

سلامتی پالیسی کے لیے رھنما خطوط

۱- قومی سلامتی کی پالیسی کے لیے ضروری ہے کہ اسے عوام کی تائید حاصل ہو۔ حکومت کی  اور عوام کے جذبات،احساسات، توقعات اور عزائم میں اگر بُعد ہوگا تو وہ پالیسی کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ دہشت گردی کے سلسلے میں جنرل مشرف کے دور سے جو پالیسیاں ملک پر مسلط کی گئی ہیں، ان کو قوم کی تائید حاصل نہیں رہی اور صحیح نتائج نہ نکلنے میں بڑا دخل اس اندرونی تضاد کا ہے۔

۲- دہشت گردی کے مسئلے کی اصل حقیقت کو سمجھے بغیر کوئی پالیسی نہیں بن سکتی۔ اس مسئلے کے کم از کم چار پہلو ایسے ہیں، جن کا سمجھنا اور ان کی روشنی میں صحیح پالیسی بنانا ضروری ہے:

اوّل: مسئلے کا گہرا تعلق پاکستان کی خارجہ پالیسی، علاقے کے بارے میں امریکی پالیسی اور اس پر عمل درآمد بشمول ڈرون حملے، پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت، معیشت اور فوج کے معاملات پر ان کے اثرات، افغانستان میں ان کی کارروائیاں اور ان کے پاکستان پر اثرات سے ہے۔ اس لیے محض دہشت گردی کے خلاف پالیسی کے کوئی معنٰی نہیں۔ خارجہ پالیسی، افغانستان میں امریکا کا کردار اور پاکستان کی اس میں شرکت اور خود پاکستان میں اس کے اثرات ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ان کو الگ کر کے کوئی مؤثر پالیسی نہیں بنائی جاسکتی۔ یہ وہ بنیادی بات ہے، جس کو پارلیمنٹ کی ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء، اور ۱۴مئی ۲۰۱۱ء کی قراردادوں میں واضح کیا گیا ہے اور پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی نے اس پر تفصیلی ۶۰نکات سے زیادہ پر مبنی اپنی رپورٹ دی ہے جسے نظرانداز کیا گیا ہے۔

دوم: دہشت گردی کے خلاف پالیسی اور بغاوت کے خلاف پالیسی ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ان کو گڈمڈ کرنے کے نتائج بڑے خوفناک ہوسکتے ہیں۔ سری لنکا کی مثال سرکاری حلقے اور میڈیا باربار دے رہے ہیں، لیکن وہ اس مغالطے پر مبنی ہے کہ بغاوت کے خلاف پالیسی کو دہشت گردی کے خلاف پالیسی بنایا جاسکتا ہے۔ سری لنکا کا مسئلہ کئی اور پہلوئوں سے بھی مختلف ہے اور اس کی بھی جو قیمت قوم کو دینا پڑی ہے اور مسلسل دے رہی ہے، وہ ایک الگ پہلو ہے۔ انسانی حقوق کا مسئلہ اور ملک میں مستقلاً آمرانہ نظام کا قیام الگ پہلو ہے، لیکن اپنی اصل اور جوہر کے اعتبار سے وہ پالیسی دہشت گردی کے خلاف مؤثر نہیں ہوسکتی۔

سوم: پاکستان میں جس چیز کو دہشت گردی کہا جا رہا ہے وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ افغان طالبان الگ شے ہے۔ جسے پاکستانی طالبان کہا جاتا ہے، وہ بھی مختلف عناصراور گروہوں کا مرکب ہے، جس میں باہم کوئی ربط یا وحدتِ نظم نہیں ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد ایک الگ شے ہے۔ مرکز گریز اور علیحدگی پسندی کے لیے کام کرنے والے گروہ مختلف نوعیت کا چیلنج پیش کرتے ہیں، جب کہ عام مجرموں نے جس طرح اس صورت حال کا فائدہ اُٹھایا ہے یا کچھ مخصوص سیاسی اور  مذہبی گروہوں نے اپنے اپنے مقاصد کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کیا ہے، ان کے لیے الگ الگ حکمت عملی اور اقدام کی ضرورت ہوگی۔اسی طرح کراچی کا مسئلہ اپنا الگ رنگ رکھتا ہے اور اس میں  سیاسی اور دوسرے عناصر سے نبٹنے کے لیے الگ حکمت عملی کی ضرورت ہوگی۔

چہارم: ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی، شدت پسندی، تشدد، فرقہ واریت، عدم رواداری ___ ہر ایک کا اپنا مخصوص مسئلہ ہے اور اصلاح کا راستہ مختلف ہے۔ ان سب کو باہم دگر ملادینا سخت نقصان دہ اور غیرحقیقت پسندانہ پالیسی ہے۔

ان چاروں پہلوئوں کو سامنے رکھ کر پالیسی بنانا ہوگی اور ہر پہلو کے لیے الگ پالیسی اور اقدامات درکار ہوں گے۔ یہ سب مجموعی قومی سلامتی پالیسی کے اجزا ہوں گے، لیکن ہر ایک کو مجموعی پالیسی کے فریم ورک میں  دیکھنا ہوگا۔

۳- بنیادی مسئلے کا حل سیاسی ہے اور اس کے لیے مذاکرات کے سوا کوئی راستہ نہیں، لیکن دوسرے متعلقہ پہلوئوں کے لیے دستور اور قانون کے دائرے میں ریاستی قوت کا صحیح استعمال بھی درکار ہوگا۔ اس کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے، ان سب کا اہتمام ضروری ہے۔ پارلیمنٹ کی قراردادوں میں یہ بار بار کہا گیا کہ مسئلے کا اصل حل سیاسی ہے اور اس کے لیے مذاکرات کا راستہ ہی صحیح راستہ ہے۔ البتہ اس کے لیے اپنے اپنے دائرے میں اور اپنے اپنے آداب کے ساتھ پیش رفت اور رکاوٹ (deterrance) دونوں ضروری ہیں۔ موجودہ حالات میں اس فریم ورک میں نیا نقشۂ کاربنانا ہوگا۔

۴- حکومت کی پالیسی کی سطح پر ناکامی کے ساتھ پانچ مزید پہلو ہیں، جن کے لیے مناسب اقدام کرنے ہوں گے:

  •                خفیہ معلومات کی فراہمی میں ناکامی اور  متعلقہ اداروں میں باہمی رابطے کی کمی۔
  •                پولیس، انتظامیہ اور انٹیلی جنس میں سیاسی اثرونفوذ، تقرریاں اور سیاسی عناصر کا کردار۔
  •                سیاسی قیادت اور انتظامیہ کی نااہلی، جانب داری، سیاسی مفاد پرستی یا مفاہمت ۔
  •                مرکز اور صوبوں میں ہم آہنگی کی کمی۔
  •                سول اور فوجی قیادت میں ہم آہنگی کی کمی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جواب دہی میں ناکامی۔

کوئی پالیسی اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ان پانچ اُمور کو صحیح طور پر طے نہ کرلیا جائے۔

۵-پاکستانی سیاست، دہشت گردی کے خلاف اقدام، مذہبی منافرت، علیحدگی پسندی کی تحریکیں، ان سب میں بیرونی قوتوں کے کردار کو محض ’سازش‘ کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔  یہ مداخلت اور کردار بھی ایک حقیقت ہے اور اس کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں کئی ممالک اور ان کی خفیہ ایجنسیوں کا کردار خطرناک حد تک موجود ہے۔ امریکا اور بھارت بڑے کردارہیں لیکن مقامی قوتیں بھی اپنا اپنا مفاد حاصل کرنے کے لیے اپنا اپنا کھیل کھیل رہی ہیں۔ جامع پالیسی کے ذریعے ان تمام پہلوئوں کا بھی پورا پورا توڑ کرنا ضروری ہے۔

۶- قومی سلامتی پالیسی کے لیے ضروری ہے کہ ان تمام پہلوئوں کا اِدراک کیا جائے اور حقیقت پسندی، جرأت، بیرونی دبائو سے آزاد ہوکر، قومی مفاد میں اور قوم کو اعتماد میں لے کر اس کے عزائم اور احساسات کی روشنی میں اسے تشکیل دیا جائے۔ اس سلسلے میں اس وقت برطانیہ کی اس مثال کو پیش نظر رکھا جائے کہ برطانوی حکومت جو شام پر حملہ کرنا چاہتی تھی، اسے کس طرح پارلیمنٹ اور عوام کی راے کے دبائو میں پالیسی بدلنا پڑی ہے۔ امریکا میں بھی یہ مسئلہ درپیش ہے۔ پاکستان میں عوام کی راے کو جس بے دردی سے نظرانداز کیا گیا وہ مہلک تھا۔ اب اس روش کو یکسر تبدیل ہونا چاہیے اور نئی پالیسی تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر بنانے کی ضرورت ہے۔

۷-یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے، کہ اس نوعیت کے تنازعات اور دہشت گردی کے باب میں پیدا ہوجانے والے حالات میں مذاکرات کا کوئی ایک ٹریک نہیں ہوسکتا۔ نیز مذاکرات  ٹی وی شو کے ذریعے نہیں کیے جاتے۔ ہمارے مخصوص حالات میں اس امر کی ازبس ضرورت ہے کہ مذاکرات، مذاکرات سے پہلے کے اقدام اور ان کی ترجیحات، مذاکرات کے اصل اہداف اور سب سے بڑھ کر ملک کے حالات اور علاقے کی روایات کی روشنی میں بہت سوچ سمجھ کر، مشاورت کے ساتھ اور اپنے حالات کی مناسبت سے ترتیب دیا جائے۔

۸- یہ امر بھی سامنے رہے کہ مذاکرات اور پورے سیاسی عمل کو سبوتاژ کرنے والی قوتیں بہت سرگرم ہیں اور ہوشیار بھی ہیں۔ ان تمام خطرات، رکاوٹوں اور دراندازیوں کی بھی پیش بندی کرنا ہوگی جو اس نوعیت کے حالات کا لازمی حصہ ہیں۔ اس کام کے لیے اہداف کا صحیح صحیح تعین، روڈمیپ کا شعور اور اس کی تیاری، مفید قوتوں سے تعاون اور مخالف اور مذاکرات کو درہم برہم کرنے والی قوتوں کو قابو کرنے اور ان کے شر سے اس عمل کو محفوظ بنانے کے لیے کب اور کون سی تدابیر ضروری ہیں، ان کا اِدراک اور اہتمام بھی ضروری ہے۔ ایسے پیچیدہ حالات میں غیرحکیمانہ حل کی تلاش اور جلدبازی میں حکمت عملی میں تبدیلیاں تباہ کن ہوسکتی ہیں۔ ضروری ہے کہ ان مسائل کی اہمیت اور پیچیدگیوں کو سامنے رکھ کر حکمت اور استقامت کے ساتھ ایک جامع حکمت عملی بنائی جائے اور راستے کی مشکلات اور مواقع کو سامنے رکھ کر مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی قومی اہداف کے  حصول کے لیے کوشش کی جائے، اور کسی بھی معاملے کو اَنا کا مسئلہ نہ بنایا جائے اور جذبات اور اندرونی و بیرونی دبائو، دونوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے___ وما علینا الا البلاغ

 

۱۹۶۳ء میں ماہنامہ چراغِ راہ کے ’تحریک اسلامی نمبر‘ میں مَیں نے ایک طالب علمانہ کوشش یہ کی تھی کہ مولانا مودودیؒکی ان تحریروں کو جو ترجمان القرآن میں جماعت اسلامی کے قیام سے پہلے شائع ہوئی تھیں، اور جو باقاعدہ لٹریچر کا حصہ نہیں تھیں، مگر تحریک، اس کی تاریخ، اس کے مزاج اور سب سے بڑھ کر داعی کے افکار و احساسات، جذبات و محرکات اور عزائم کی آئینہ دار تھیں، ان کو جمع کروں۔یہ تحریر تحریک اسلامی: ایک تاریخ، ایک داستان کے عنوان سے شائع ہوئی اور پھر کتابی شکل میں بھی اسے شائع کیا گیا۔ یہ داستان ہماری تاریخ کے ایک ایسے باب سے متعلق ہے جس سے بعد کے اَدوار میں تحریک سے وابستگی اختیار کرنے والے بالعموم واقف نہیں تھے، حالانکہ یہ تحریریں تحریک کے مزاج اور اس کی روح کو سمجھنے کے لیے شاہ کلید کی حیثیت رکھتی ہیں۔

’منشورات‘ اس کتاب کا نظرثانی شدہ دوسرا اڈیشن شائع کر رہا ہے۔ اس موقع پر مَیں نے ضروری سمجھا کہ اس تحریر کی شکل میں تحریک کے فراہم کردہ تصورِ دین کو جو قرآن و سنت پر مبنی ہے، اور منہجِ نبویؐ کی صحیح ترجمانی ہے، مختصر الفاظ میں پیش کردوں۔ یہ کتاب میںبطور ’مقدمہ‘ شامل ہے۔ مدیر

زندگی کی سب سے بڑی حقیقت اللہ اور اس کی عنایت کی ہوئی وہ نعمتیں ہیں جن کا شمار ممکن نہیں۔ دل گواہی دیتا ہے کہ اگر ہم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہیں تو انھیں گن نہیں سکتے۔ بلاشبہہ وہ بڑا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے (وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَااِنَّ اللّٰہَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo النحل ۱۶:۱۸)۔ یہ محض ایک معروضی سچ کا اعتراف ہی نہیں، ہرباشعور انسان کا ہرلمحے واقع ہونے والا تجربہ بھی ہے___ اور اس پر اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے ، کم ہے۔

اپنی زندگی پر غور کرتا ہوں تو دل شکر کے جذبات سے معمور ہوجاتا ہے کہ خالق کائنات نے اپنے کرم سے انسان بنایا، ورنہ جمادات، نباتات، حیوانات، کسی بھی دائرے میں وجود بخش سکتا تھا۔ پھر انسان ہی نہیں بنایا، مسلمان گھرانے میں پیدا کیا جس کی بدولت ایمان کی دولت شیرِمادر کے ساتھ میسر آئی۔ دنیا میں زندگی کے سفر کا آغاز کلمہ اور اذان کی آواز سے ہوا، اورایک اچھے دینی گھرانے میں پرورش کی سعادت حاصل ہوئی۔ پھر جس دور میں زندگی بخشی وہ بڑا انقلابی اور تبدیلیوں کا دور تھا۔ پیدایش برطانوی سامراج کے دور میں ہوئی۔ طالب علمی ہی کے زمانے میں آزادی کی جدوجہد میں شرکت نصیب ہوئی، اور پھر ایک آزاد مسلمان ملک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور زندگی کے سفر کی اگلی منزلیں طے کرنے کا موقع ملا۔ پھر آزادی ہی کی نعمت سے نہیں نوازا بلکہ اُس دور میں شعور کی آنکھیں کھولنے کا موقع ملا جب برعظیم میں تحریکِ اسلامی بھی سرگرمِ عمل تھی ورنہ کتنی ہی نسلیں ہیں جو ایسے کسی دور کو نہ پاسکیں جب غلبۂ اسلام کی عملی جدوجہد ہورہی ہو۔ پھر طالب علمی ہی کے دور میں تحریکِ اسلامی سے واقفیت اور اس کی دعوت پر لبیک کہنے کی سعادت سے بھی نوازا، اور الحمدللہ زندگی کے لیے جو راستہ ۱۹۴۹ء کے آخر میں اختیار کیا تھا، اس پر اپنی ساری کمزوریوں اور حالات کے نشیب و فراز کے باوجود سرگرم رہنے کی توفیق بخشی۔ بلاشبہہ اللہ تعالیٰ  کے تمام ہی انعام و اکرام میں یہ نعمت سب سے قیمتی اور دنیا اور آخرت دونوں کی اعلیٰ ترین متاع ہے، فالحمدللّٰہ علٰی ذٰلِک۔

تحریکِ اسلامی اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا انعام ہے، اس پر جتنا بھی غور کرتا ہوں دل میں ایک تلاطم برپا ہوتا ہے، آنکھیں اَشک بار ہوجاتی ہیں اور سر سجدۂ شکر میں جھک جاتا ہے۔ ایمان اور اسلام کی دولت تو الحمدللہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے اور دینی ماحول والے گھر میں پرورش پانے سے حاصل ہوگئی تھی لیکن اس دولت کا اصل شعور صرف تحریک اسلامی کو سمجھنے اور اس کا حصہ بننے سے حاصل ہوا۔ یہی وہ چیز ہے جس نے زندگی کے اصل مقصد کا شعور بخشا اور جینے اور مرنے کے اُس اسلوب سے واقف کردیا جو ہمارے پیدا کرنے والے کو مطلوب اور اس کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے۔

تحریکِ اسلامی نے مجھے اور مجھ جیسے لاکھوں انسانوں کو غفلت، جہالت اور بغاوت کی تاریکیوں سے نکال کر اسلام کی روشن شاہراہ کی طرف رہنمائی کی، اور اپنی تمام کمزوریوں، کوتاہیوں، غلطیوں کے باوصف ہم اس قافلے کا حصہ ہیں اور اپنے رب کی رضا اور اس کی رحمتوں کے سائل اور طلب گار ہیں۔ تحریک نے ہمیں یہ سمجھنے کا موقع دیا کہ ہماری، تمام انسانوں کی، اور کم از کم ان تمام انسانوں کی جو اپنے رب کو پہچان لیں، اس زندگی میں اصل حیثیت اللہ کے خلیفہ اور نمایندہ کی ہے اور اس طرح، استخلاف ہی ہمارا اصل تشخص ہے جو ہمیں اپنے رب سے جوڑتا ہے۔ رب سے ہمارا رشتہ آقا، مالک اور معبود کا ہے، اور ہماری معراج اس کا عبد ہونے میں ہے۔  اللہ سے اس رشتے کے تقاضے کے طور پر انسان اس دنیا اور تمام انسانوں سے ایک نئے رشتے میں جڑ جاتا ہے۔ اللہ کو رب ماننے والوں کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اللہ کی رضا کو جانیں، اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کریں، اور اللہ کی مرضی کو اس کی زمین پر پھیلانے اور قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔ اس طرح تحریک نے ہمیں اپنے صحیح مقام کو سمجھنے اور اللہ، اللہ کے بندوں، دنیا کے تمام وسائل اور کائنات کے پورے نظام سے اپنے رشتے اور تعلق کو شعوری طور پر اس ہدایت کی روشنی میں استوار کرنے کا شعور، عزم اور موقع دیا جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنے انبیاے کرام ؑ کے ذریعے فراہم کی ہے۔ اور جو اپنی آخری اورمکمل شکل میں قرآن اور سنت ِ رسولؐ کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔

اسلام کا جو وژن تحریک نے دیا ہے، اس کے پانچ پہلو ہیں جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی دوسروں سے جدا نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ کا واضح حکم ہے کہ:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌo(البقرہ۲:۲۰۸) ’’اے ایمان لانے والو، تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے‘‘۔ اور___ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَـہٗ ج وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳) ’’کہو، میری نماز، میرے تمام   مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سراطاعت جھکانے والا مَیں ہوں‘‘۔

اسلام کی پہلی اور سب سے اہم بنیاد ایمان ہے: اللہ پر، اللہ کے رسولؐ پر، اللہ کی کتاب پر، اللہ کے فرشتوں پر اور یومِ جزا و سزا پر ۔یہ ایمان صرف زبان کے اقرار ہی سے عبارت نہیں، بلکہ دل کی گہرائیوں سے تصدیق اور اس کے عملی تقاضوں کو پورا کرنے کا عزم اور کوشش اس کا لازمی حصہ ہے۔ اللہ ہی اوّل اور آخر ہے اور صرف اس کی رضا ہی اصل مقصود و مطلوب ہے۔ اللہ سے گہرا قلبی تعلق، اس سے محبت اور اس کا خوف ہی زندگی کی سب سے بڑی کارفرما قوتیں ہیں، اور ایمان کا لطف اور مزہ انسان اسی وقت حاصل کرسکتا ہے جب وہ صرف اللہ کو اپنا رب، اللہ کے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا آقا اور رہبر، اور اللہ کی دی ہوئی ہدایت اسلام کو اپنا نظامِ زندگی بنالے اور اس پر صرف قانع ہی نہ ہو، اس پر راضی اور مطمئن ہوجائے۔ اس کے سوا رہنمائی کے لیے کسی اور سمت نہ دیکھے جیساکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذَاقَ طَعْمُ الْاِیْمَانِ مَنْ رَضِیَ بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَبِمُحَمَّد رَسُوْلًا (بخاری،  مسلم)’’ایمان کا مزہ چکھا اس شخص نے جو اللہ کو اپنا رب ماننے اور اسلام کو اپنا دین ماننے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول تسلیم کرنے پر راضی ہوگیا‘‘۔

جب انسان اللہ کے رنگ میں رنگ جاتا ہے تو پھر وہ اس مقام کو حاصل کرلیتا ہے جسے  اللہ سبحانہ وتعالیٰ خود اس کے بندے کا ولی اور دوست بن جانے کے اعلیٰ مقام سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بندے کی خواہشات اپنے مالک کی رضا سے اس طرح ہم آہنگ ہوجاتی ہیں کہ اس کی پوری زندگی اپنے آقا کی رضا کی مظہر بن جاتی ہے۔ پھر بندہ اللہ کی طرف ایک قدم بڑھتا ہے تو مالکِ حقیقی اس کی طرف دو قدم بڑھتا ہے ،جیساکہ حدیث قدسی میں آتا ہے:

 سُبْحَانَ اللّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ:عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَقُولُ اللّٰہُ اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ ، وَاَنَا مَعَہٗ اِذَا ذَکَرَنِیْ، فَاِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ نَفْسِہٖ، ذَکَرْتُہٗ فِی نَفْسِیْ ، وَ اِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ مَلَائٍ، ذَکَرْتُہٗ فِی مَلَاٍء خَیْرٍ مِنْہ، وَ اِنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ ذِرَاعاً  تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ بَاعاً ، وَ اِنْ أَتَانِیْ یَمْشِیْ، اَتَیْتُہٗ ھَرْوَلَۃً - (رواہ البخاری وکذٰلک مسلم و الترمذی و ابن ماجہ)

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں، اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’میرا بندہ مجھ سے جو توقع رکھتا ہے اور جیسا گمان اس نے میرے متعلق قائم کر رکھا ہے ویسا ہی مجھے پائے گا۔ جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگروہ مجھے تنہائی میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے تنہائی میں یاد کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھے کسی جماعت کے ساتھ بیٹھ کر یاد کرتا ہے تو میں اس سے بہتر جماعت میں اس کو یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف ایک بالشت بھر بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھ جاتا ہوں، اور اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف چار ہاتھ بڑھتا ہوں، اور اگر وہ میری طرف آہستہ آہستہ آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں۔

اللہ پر کامل ایمان اور اس کے سامنے مکمل سپردگی کا تقاضا ہے کہ بندہ اپنے آپ کو    اپنے رب اور محبوب کی مرضی کے مطابق ڈھالے اور وہ سیرت و کردار اختیار کرے جو مالک کے انسانِ مطلوب کا طرۂ امتیاز ہے۔ تزکیۂ نفس ایمان کا فطری مطالبہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسولؐ کی اولین ذمہ داری تلاوتِ کتاب اور تعلیمِ کتاب کے ساتھ تزکیۂ نفس ہے___ یعنی انسان سازی ۔ تزکیے کا یہ دائرہ محض ذاتی کردار تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہرپہلو پر حاوی ہے جس میں انفرادی زندگی کے ساتھ اجتماعی زندگی کا ہرپہلو شامل ہے۔ البتہ ایمان کی بنیاد پر اور اس کے مطابق انفرادی اور اجتماعی تبدیلی میں مرکزی حیثیت فرد کی ہے اور دنیا اور آخرت میں آخری جواب دہی ہرہرفرد کی ہے۔ رہا معاملہ دنیا کا، تو یہاں بھی ’ہرفرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا‘۔ یہی وجہ ہے کہ  جن اینٹوں سے یہ عمارت تعمیر ہوتی ہے، ان میں ہراینٹ کا مضبوط ہونا ضروری ہے، اور یہی وجہ ہے کہ تحریکِ اسلامی نے اسلام کا جو وژن دیا ہے اس کی پہلی بنیاد ایمان ہے تو دوسری بنیاد فرد کی اصلاح اور تزکیہ ہے۔

فرد کی اصلاح اور سیرت سازی کو یہ مرکزی مقام دینے کے ساتھ اسلام یہ بھی واضح کرتا ہے کہ عملِ صالح اور صراطِ مستقیم کا دائرہ صرف انفرادی زندگی تک محدود نہیں بلکہ انسان کے تمام تعلقات___ سب انسانوں سے اور معاشرے اور اس کے تمام اداروں سے___  اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فراہم کردہ رہنمائی کے مطابق ہونے چاہییں اور اس میں کسی بھی پہلو کو اللہ کی حاکمیت اور اس کی ہدایت کی فرماں روائی سے باہر رکھنا اللہ سے بغاوت اور طاغوت سے سمجھوتے کے مترادف ہے۔ اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے روایتی مفہوم میں مذہب نہیں کہا گیا بلکہ الدین کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف الفاظ میں فیصلہ فرما دیا ہے:

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ قف وَ مَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اِلَّا مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَ ھُمُ الْعِلْمُ بَغْیًام بَیْنَھُمْ م وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِo (اٰل عمرٰن ۳:۱۹) اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے ان لوگوں نے اختیار کیے جنھیں کتاب دی گئی تھی، ان کے اس طرزِعمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انھوں نے علم آجانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا، اور جو کوئی اللہ کے احکام اور ہدایات کی اطاعت سے انکار کردے، اللہ کو اس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔

پھر یہ بھی صاف لفظوں میں انسان کو بتا دیا کہ اللہ کی ہدایت مکمل ہے اور اس میں نہ کسی کمی کی گنجایش ہے نہ کسی اضافے کی ضرورت۔ یہ بجاے خود مکمل (self-contained) ہے اور ہردور کے لیے اس میں وہ تمام گنجایشیں موجود ہیں جن کے باعث اہلِ ایمان اس دین کی حدود (frame work) میں رہتے ہوئے زمانے کی تبدیلیوں کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ ۵:۳) ’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘۔ اور ساتھ ہی یہ انتباہ (warning) بھی فرما دیا کہ: وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ج وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo (اٰل عمرٰن۳:۸۵) ’’اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا‘‘۔

پس اہلِ ایمان کے لیے کامیابی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے مکمل اطاعت، سپردگی اور رب کی مرضی کے حصول کی پیہم جدوجہد کا راستہ ، فرمایا: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ o (الحجرات ۴۹:۱۵) ’’حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے، پھر اس میں کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں‘‘۔

ایمان کے استحکام اور اس کی افزایش، سیرت و کردار کی تعمیر اور پوری زندگی کو اللہ کی ہدایت اور اس کی مرضیات کے تابع کرنے کی جدوجہد کے ساتھ ایک چوتھا تقاضا اللہ کے دین کو  اللہ کے تمام بندوں تک پہنچانے کی سعی و جہد ہے۔ فرد اور اُمت دونوں کے لیے لازم کیا گیا ہے کہ شہادتِ حق کی ذمہ داری کو ادا کریں۔ اسلام ہماری زندگیوں ہی کو نورِ الٰہی سے منور کرنے پر قانع نہیں۔ وہ بلاشبہہ ہرصاحب ِ ایمان کو نور کا ایک مینار بنادینا چاہتا ہے تاکہ اس کے ذریعے یہ نور زمین و آسمان میں پھیلے اور پوری دنیا اس سے رہنمائی حاصل کرے اور پورا عالم اس سے منور ہوجائے۔

یہ ایک تاریخی جدوجہد ہے جس میں تمام ہی انبیاے کرام ؑ شامل رہے ہیں اور یہ آخری نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کبریٰ کی حیثیت رکھتی ہے۔ سورئہ فاتحہ میں جس صراطِ مستقیم کی دعا کی تعلیم بندے کو دی گئی ہے اس میں یہ حقیقت بھی اُسے سمجھا دی گئی ہے کہ یہ سیدھا راستہ کوئی محض نظری چیز نہیں بلکہ ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتیں نازل فرمائیں اور جن کا شمار انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین میں ہوتا ہے:وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ ج وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا o (النساء ۴:۶۹) ’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے، جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیا، صدیقین اور شہدا اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آجائیں‘‘۔

معلوم ہوا کہ استخلاف کا چوتھا تقاضا یہ ہے کہ اہلِ ایمان کی زندگی، دعوت اور تحریک کی زندگی ہو۔ اللہ کے انعام یافتہ افراد کی رفاقت کے طلب گاروں کو اللہ کے دین کے قیام اور حق کی شہادت کی ذمہ داری کو اپنی زندگی کا مقصد اور اپنی تمام سعی و جہد کا آخری ہدف بنانا ہوگا۔ ہرمسلمان کو بحیثیت مسلمان اور اُمت مسلمہ کو بحیثیت قوم اور ایک منظم گروہ، یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ انسانوں کو خیر کی طرف بلانے والے، بدی سے روکنے والے، حق کی شہادت دینے والے اور دین کو قائم کرنے والے بنیں: وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ط(البقرہ۲:۱۴۳)’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط‘ بنایا تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو‘‘۔

اور___ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط(اٰل عمرٰن۳:۱۱۰)’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو،بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔

پھر واضح الفاظ میں اقامت ِ دین کو اُمت کا اصل نصب العین قرار دیا:

شَرَعَ لَکُمَ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَا اِِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط(الشوریٰ۴۲:۱۳) ’’لوگو! اس نے تمھارے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو  دیا تھا، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ اورموسٰی ؑ اور عیسٰی ؑ کو دے چکے ہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجائو‘‘۔

ایمان، اصلاحِ نفس، پورے نظامِ زندگی کی اللہ کی ہدایت کی روشنی میں صورت گری اوردین کی اس دعوت کو تمام انسانوں تک پہنچانے کی جدوجہد اور بالآخر اقامت ِ دین اور مال اور جان کی قربانی کے ساتھ غلبے کی جدوجہد___ یہ ہے وہ تصورِ دین جو قرآن و سنت سے ہمارے سامنے آتا ہے، جو اسوئہ نبویؐ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے منہج انقلاب کا طرئہ امتیاز ہے۔  یہی وہ چار بنیادیں ہیں جن کے تقاضے کے طور پر پانچویں چیز رُونما ہوتی ہے اور وہ، وہ عملی اورمنظم جدوجہد ہے جو دین کے قیام اور غلبے کے لیے برپا کی جائے اور صرف اللہ کی رضا کے لیے برپا کی جائے___حالات خواہ کیسے بھی ہوں۔ البتہ یہ کام مقصد کے واضح شعور، اور ان اخلاقی حدود کی مکمل پاس داری کے ساتھ انجام دینا مطلوب ہے جن کا شریعت حکم دیتی ہے۔ اس کے لیے قلب و نظر اور جان و مال کے تمام وسائل کو اس اجتماعی اور منظم جدوجہد کے لیے بخوشی پیش کردینا شریعت کا تقاضا ہے۔ یہ کام ہر دور میں حکمت اور اپنے زمانے کی ضروریات اور تقاضوں کے اِدراک کے ساتھ انجام دینا مطلوب ہے۔

یہی وہ پانچ عناصر ہیں جن سے اسلام کا مفصل وژن عبارت ہے اور جن کا نام آج کے دور میں ’تحریکِ اسلامی‘ ہے۔جہاں یہ جدوجہد اپنے متعین مقاصد، اہداف، لائحۂ عمل، حکمت عملی اور پروگرام رکھتی ہے وہیں داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اللہ کی رضا کے لیے جدوجہد کرے اور اس راستے میں جو بھی مشکلات پیش آئیں، ان کا مقابلہ صبر اور استقامت کے ساتھ کرے۔

تحریکِ اسلامی کی پہچان یہ دعوت اور داعی کی وہ کیفیات ہیں جو اسے اللہ کے انعام پانے والوں کی صف میں شامل ہونے کی سعادت بخشتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ اسلامی کے دونوں پہلو ایک تصویر کے دو رُخ ہیں___داعی کی عملی جدوجہد اور اس کی قلبی کیفیات اور محرکات۔

حضرت آدم ؑکے بعد قرآن حضرت نوح ؑکی دعوت کا تفصیل سے ذکر کرتا ہے___ اللہ کی بندگی کی دعوت، تقویٰ اور اللہ کے رسول کی اطاعت اور انسان کی پوری زندگی کو رب کی مرضی کے تابع کرنے کی دعوت___  سورئہ نوح میں اس کا بڑا ایمان افروز اور تاریخی حقائق پر مبنی احوال اللہ کے نبی ؑ ہی کے الفاظ میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:

اس نے کہا: اے میری قوم کے لوگو، میں تمھارے لیے ایک صاف صاف خبردار کردینے والا (پیغمبر) ہوں۔ (تم کو آگاہ کرتا ہوں) کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو، اللہ تمھارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمھیں ایک وقت ِ مقرر تک باقی رکھے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت جب آجاتا ہے تو پھر ٹالا نہیں جاتا، کاش تمھیں اس کا علم ہو۔ اس نے عرض کیا: اے میرے رب، میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب و روز پکارا مگر میری پکار نے اُن کے فرار ہی میں اضافہ کیا۔ اور جب بھی مَیں نے اُن کو بلایا تاکہ تو انھیں معاف کردے، انھوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے منہ ڈھانک لیے اور اپنی رَوش پر اَڑ گئے اور بڑا تکبر کیا۔ پھر میں نے ان کو ہانکے پکارے دعوت دی۔ پھر میں نے علانیہ بھی ان کو تبلیغ کی اور چپکے چپکے بھی سمجھایا۔ میں نے کہا: اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، تمھیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمھارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کردے گا۔ تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کے لیے تم کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے؟ حالانکہ اُس نے طرح طرح سے تمھیں بنایا ہے۔ کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بر تہ بنائے اور اُن میں چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا؟ اور اللہ نے تم کو زمین سے عجیب طرح اُگایا، پھر وہ تمھیں اِسی زمین میں واپس لے جائے گا اور اِس سے یکایک تم کو نکال کھڑا کرے گا۔ اور اللہ نے زمین کو تمھارے لیے فرش کی طرح بچھا دیا تاکہ تم اس کے اندر کھلے راستوں میں چلو۔ نوحؑ نے کہا: میرے رب، اُنھوں نے میری بات ردّ کردی اور اُن (رئیسوں) کی پیروی کی جو مال اور اولاد پاکر اور زیادہ نامراد ہوگئے ہیں۔ اِن لوگوں نے بڑا بھاری مکر کا جال پھیلا رکھا ہے۔(نوح ۷۱:۲-۲۲)

اللہ کے تمام انبیاے کرام ؑ نے یہی دعوت دی اور اسی تحریک کو برپا کیا بلالحاظ اس کے کہ ردعمل کیا ہو۔ اسی دعوت کا ایک منظر فرعون کے دربار میں نظر آتا ہے جب حضرت موسٰی ؑ کی دعوت کی تائید میں ایک صاحب ِ ایمان وقت کے فرعون اور اپنی قوم کو مخاطب کرکے کہتا ہے:

وہ شخص جو ایمان لایا تھا، بولا: ’’اے میری قوم کے لوگو، میری بات مانو، میں تمھیں صحیح راستہ بتاتا ہوں۔ اے قوم، یہ دنیا کی زندگی تو چند روزہ ہے، ہمیشہ کے قیام کی جگہ آخرت ہی ہے۔ جوبُرائی کرے گا اُس کو اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنی اُس نے بُرائی کی ہوگی اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن،ایسے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے جہاں ان کو بے حساب رزق دیا جائے گا۔ اے قوم، آخر یہ کیا ماجرا ہے کہ مَیں تو تم لوگوں کو نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم لوگ مجھے آگ کی طرف دعوت دیتے ہو! تم مجھے اس بات کی دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ سے کفر کروں اور اس کے ساتھ اُن ہستیوں کو شریک ٹھیرائوں جنھیں میں نہیں جانتا، حالانکہ میں تمھیں اُس زبردست مغفرت کرنے والے خدا کی طرف بلا رہا ہوں۔ نہیں، حق یہ ہے اور اِس کے خلاف نہیں ہوسکتا کہ جن کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو اُن کے لیے نہ دنیا میں کوئی دعوت ہے ، نہ آخرت میں، اور ہم سب کو پلٹنا اللہ ہی کی طرف ہے اور حد سے گزرنے والے آگ میں جانے والے ہیں۔ آج جو کچھ مَیں کہہ رہا ہوں، عنقریب وہ وقت آئے گا جب تم اُسے یاد کرو گے۔ اور اپنا معاملہ مَیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں، وہ اپنے بندوں کا نگہبان ہے۔(المومن ۴۰:۳۸-۴۴)

اس انقلابی دعوت کو اللہ کے جن برگزیدہ بندوں نے پیش کیا وہ بے غرضی و بے لوثی کا مجسمہ تھے۔ وہ اپنی قوم سے کسی اجر کے طالب نہیں تھے ۔ وہ صرف اللہ کے بندوں کو جہنم کے عذاب سے بچانے اور زمین و آسمان کے خالق کے بتائے ہوئے راستے کو اختیار کر کے دنیا اور آخرت کی کامیابی کی شاہراہ دکھانے والے تھے۔ وہ خیرخواہی، دل سوزی اور درمندی کے ساتھ اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلاتے ہیں اور اس میں اپنی جان تک ہلکان کردیتے ہیں: وَیٰــقَوْمِ لَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مَالًا طاِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ وَ مَآ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا (ھود ۱۱:۲۹) ’’اے برادرانِ قوم، میں اس کام پر تم سے کوئی مال نہیں مانگتا، میرا اجر تو اللہ کے ذمے ہے اور میں ان لوگوں کو دھکے دینے سے بھی رہا جنھوں نے میری بات مانی ہے‘‘۔

داعی اپنے تمام مخاطبین کے لیے سراپا رحمت اور محبت ہوتا ہے اور تکلیف دینے والوں کے لیے بھی دوست اور بہی خواہ کا کردار ادا کرتا ہے۔

دیکھیے قرآن اس کا سراپا کس طرح بیان کرتا ہے:

لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ o فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰہُ ق لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ ط تَوَکَّلْتُ وَ ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِo (التوبہ ۹:۱۲۸-۱۲۹) ’’دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسولؐ آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمھارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمھاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے___ اب اگر یہ لوگ تم سے منہ پھیرتے ہیں تو اے نبیؐ، ان سے کہہ دو کہ ’’میرے لیے اللہ بس کرتا ہے، کوئی معبود نہیں مگروہ، اُسی پر میں نے بھروسا کیا اور وہ مالک ہے عرشِ عظیم کا‘‘۔

اور اس دعوت میں وہ جس طرح اپنی جان کھپاتا ہے اور دوسروں کے لیے جس طرح فکرمند رہتا ہے اس کا بیان زبانِ حق نے یوں کیا ہے: فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا (الکھف ۱۸:۶)’’اچھا، تو اے نبیؐ! شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو، اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے‘‘۔

تحریکِ اسلامی نے دین کا یہ وژن ہمیں دیا ہے اور اس کے مطابق عملی جدوجہد کے راستے پر بھی گامزن کردیا ہے۔ استخلاف کی زندگی حق و باطل کے درمیان کش مکش کی زندگی ہے اور زندگی کا اصل لطف حق کا ساتھ دینے اور غلبۂ حق کی جدوجہد میں مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے اور اس جدوجہد کے درمیان لگنے والی ہرچوٹ کو اعزاز اور افتخار کے جذبات کے ساتھ انگیز کرنے میں ہے:

وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآئَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ o لَوْ اَرَدْنَآ اَنْ نَّتَّخِذَ لَھْوًا لَّاتَّخَذْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّآ ق اِنْ کُنَّا فٰعِلِیْنَo بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ھُوَ زَاھِقٌ وَ لَکُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ o (الانبیاء۲۱:۱۶-۱۸) ’’ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے، کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے ہی پاس سے کرلیتے۔ مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سرتوڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مٹ جاتا ہے اورتمھارے لیے تباہی ہے اُن باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو‘‘۔

اس کش مکش میں اہلِ حق کی ذمہ داری ہے کہ وہ حق پر جمے رہیں: فَلِذٰلِکَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَلاَ تَتَّبِعْ اَہْوَآئَ ھُمْ وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنْ کِتٰبٍ وَّاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمُ اللّٰہُ رَبُّنَا وَرَبُّکُمْ لَنَـآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ لاَحُجَّۃَ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَللّٰہُ یَجْمَعُ بَیْنَنَا وَاِِلَیْہِ الْمَصِیْرُ o (الشورٰی۴۲:۱۵) ’’اے محمدؐ! تم اسی دین کی طرف دعوت دو اور جس طرح تمھیں حکم دیا گیا ہے اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجائو، اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو، اور ان سے کہہ دو کہ ’’اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے مَیں اس پر ایمان لایا۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان انصاف کروں۔ اللہ ہی ہمارا رب بھی ہے اور تمھارا رب بھی۔ ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمھارے اعمال تمھارے لیے۔ ہمارے اور تمھارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں۔ اللہ ایک روز ہم سب کو جمع کرے گا اور اس کی طرف سب کو جانا ہے‘‘۔

پھر اسی راہ پر استقامت دکھانے والوں کو اللہ کی مدد کی یقین دہانی ایمان افروز انداز میں کرائی جاتی ہے اور انھیں دعوت پر قائم رہنے اور بدی کو نیکی سے دفع کرنے کی تلقین کی جاتی ہے:

جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر اس پر ثابت قدم رہے ،یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو نہ غم کرو اور خوش ہوجائو۔ اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہرچیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمھاری ہوگی، یہ ہے وہ سامانِ ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفور و رحیم ہے‘‘ اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا، اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔(حٰمٓ السجدۃ ۴۱:۳۰-۳۵)

آخرت کی کامیابی کے ساتھ ان کو دنیا میں بھی عزت اور کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے بشرطیکہ وہ اپنے ایمان میں سچے ہوں اور دعوت اور جدوجہد کا حق ادا کریں۔ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(اٰل عمرٰن۳:۱۳۹)

دعوت اور جہاد کیسی نفع بخش تجارت ہے۔ اس کا صاف الفاظ میں اظہار کردیا گیا ہے:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتائوںتم کو وہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے بچادے؟ ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ اللہ تمھارے گناہ معاف کردے گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمھیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔ اور دوسری چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی تمھیں دے گا۔ اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبیؐ، اہلِ ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔(الصّف ۶۱:۱۰-۱۳)

اور پھر لسانِ نبوتؐ سے دلوں میں طمانیت پیدا کرنے والی یہ خوش خبری بھی سنوا دی گئی کہ: وَ قُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) ’’اور اعلان کردو کہ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘۔

تحریکِ اسلامی نے اسلام کا جو فہم دیا ہے، اس نے زندگی کی اس حقیقت کو روزِ روشن کی طرح واضح کردیا ہے کہ زندگی نام ہے کش مکش کا اور قرآن وہ کتابِ ہدایت ہے جو حق و باطل کے درمیان کش مکش میں قدم قدم پر رہنمائی فرماتی ہے اور کش مکش کے ہرمرحلے میں راہِ صواب کی نشان دہی کرتی ہے۔ سیدمودودی نے تفہیم القرآن کے مقدمے میں جس مؤثر انداز میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے اس کی نظیر دینی ادب میں مشکل سے ملے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ سوچ اور فکروعمل کی یہی وہ شاہراہ ہے جسے سامنے لانا تحریکِ اسلامی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ مولانا مذکورہ مقدمے میں لکھتے ہیں: ’’لیکن فہم قرآن کی اِن ساری تدبیروں کے باوجود آدمی قرآن کی روح سے پوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا جب تک کہ عملاً وہ کام نہ کرے جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دنیا کے عام تصورِ مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رموز حل کرلیے جائیں۔ یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشۂ عزلت سے نکال کر خدا سے پھِری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اُٹھوائی اوروقت کے علَم برداران کفروفسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھرگھر سے ایک ایک سعید روح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعیِ حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے ایک ایک فتنہ جُو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اُٹھایا اور حامیانِ حق سے ان کی جنگ کرائی۔

ایک فردِ واحد کی پکار سے اپنا کام شروع کرکے خلافت ِ الٰہیہ کے قیام تک پورے ۲۳سال یہی کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی، اور حق و باطل کی اس طویل و جاں گسل کش مکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اسی نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے۔ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاعِ کفرودین اور معرکۂ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہوجائیں۔ اسے تو پوری طرح آپ اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اُٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے، اُس طرح قدم اُٹھاتے چلے جائیں۔ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو نزولِ قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکہ اور حبش اور طائف کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بدرو اُحد سے لے کر حُنین اور تبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابوجہل اور ابولہب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا، منافقین اور یہود بھی آپ کو ملیں گے ، اور سابقینِ اوّلین سے لے کر مؤلفۃ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ بھی لیں گے اور برت بھی لیں گے۔

یہ ایک اور ہی قسم کا ’سُلوک‘ ہے جس کو مَیں ’سُلوکِ قرآنی‘ کہتا ہوں۔ اس سُلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیںگے، قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خود سامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اسی منزل میں اُتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔ اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لُغت اور نحو اور معانی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھپے رہ جائیں، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ قرآن اپنی روح کو اس کے سامنے بے نقاب کرنے سے بُخل برت جائے‘‘۔ (تفہیم القرآن، جلداوّل، ص ۳۳-۳۴)

قرآن، اس کے پیغام اور اس کی دعوت کی صحیح صحیح تفہیم، اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکی قرآن کی روشنی میں ۲۳سالہ جدوجہد، جس نے تاریخ کے رُخ کو موڑ دیا اور رہتی دنیا تک انسانیت کی رہنمائی کا سامان فراہم کردیا، وہ ہردور میں اُس دور کے حالات کی روشنی میں انھی خطوط پر تبدیلی اور تعمیرنو کے لیے نمونہ فراہم کرتی ہے۔

بیسویں صدی میں اللہ تعالیٰ نے اپنے جن نیک بندوں کو اس توفیق سے نوازا کہ وہ اپنے اپنے حالات کے مطابق اسلام کو ایک تصورِ حیات اور مکمل نظامِ زندگی اور ایک دعوت اور تحریک کے طور پر پیش کریں اور اس دعوت پر لبیک کہنے والوں کو اس تاریخی جدوجہد میں لگادیں جو اقامت ِ دین کے لیے مطلوب ہے، مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ ان میں نمایاں ہیں۔ انھوں نے برعظیم پاک و ہند میں اس دعوت کا آغاز ۱۹۳۳ء میں ترجمان القرآن کے ذریعے کیا تھا۔یہ دعوت ایک فکری تحریک کی شکل میں آغاز کرنے کے بعد اجتماعی اصلاح کی ایک انقلابی تحریک کی شکل میں ۱۹۴۱ء میں منظم ہوسکی اور الحمدللہ، آج پاکستان ہی نہیں برعظیم کے تمام ہی ممالک میں اپنے اپنے آزاد نظم کے ساتھ سرگرمِ عمل ہے اور اس کے اثرات برعظیم تک محدود نہیں، دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں۔

کئی صدیوں کے سامراجی دور، مغربی تہذیب کے غلبے، اور خود مسلمانوں کے ذہنی جمود کے نتیجے میں دین کے قرآنی تصور اور منہج نبویؐ پر جو پردے پڑگئے تھے یا ’تجدد‘ ، ’اصلاح‘ اورموڈرنٹی (modernity)کے نام پر جس قطع و بُرید کا ان کو نشانہ بنایا گیا تھا، الحمدللہ تحریکِ اسلامی نے   اس فکری انتشار اور خلفشار کا بھرپور مقابلہ کیا اور اسلام کی روشن شاہرا ہ کو ہرگردوغبار سے پاک کرکے اس کی اصل شکل میں پیش کیا اور قرآن و سنت کے محکم دلائل کے ساتھ پیش کیا اور پھر اس فکر کی روشنی میں انفرادی اور اجتماعی تبدیلی کی جدوجہد کو عملی طور پر برپا کیا جو آج پوری دنیا میں حق و باطل کی کش مکش کی بنیاد ہے۔

 

۱۱مئی ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں عوام کے فیصلے کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ وہ ملک کے نظام اور پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیوں کے خواہش مند ہیں۔ پرویز مشرف اور زرداری،گیلانی، پرویز اشرف اور ان کے اتحادیوں نے اپنے ۱۴سالہ دورِ حکومت میں ملک کے پورے نظام کو   جس طرح درہم برہم کیا تھا اور ملک کی آزادی، حاکمیت، سالمیت اور نظریاتی شناخت سے لے کر امن و امان، جان و مال اور آبرو کے تحفظ، اور معاشی اور معاشرتی، تعلیمی اور اخلاقی زندگی میں جو بگاڑ اور فساد اس زمانے میں رُونما ہوا، اس نے زندگی کی ہرسطح پر تباہی مچادی۔ کرپشن اور بدعنوانی کا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا اور ایک عام آدمی کے لیے زندگی اجیرن ہوگئی۔ قوم کے سامنے ایک طرف وہ سیاسی پارٹیاں تھیں جو اس ۱۴سالہ دور کی نمایندہ بنیں، یعنی پیپلزپارٹی، اے این پی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ(ق) اور ایک حد تک جے یو آئی۔ اور دوسری طرف وہ جماعتیںتھیں جو اس اسٹیٹس کو (status quo) کو چیلنج کررہی تھیں اور قوم کو تبدیلی کا پیغام دے رہی تھیں۔

قوم نے تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا اور پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کو سندھ میں اپنے اپنے حلقوں میں اگر بظاہر کامیابی ہوئی بھی تو وہ عوامی مینڈیٹ کا نتیجہ نہیں بلکہ اس مینڈیٹ کو جبر اور دھوکے سے اغوا کرنے کے نتیجے میں حاصل ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) کو مرکز اور پنجاب میں  واضح مینڈیٹ ملا اور صوبہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف اور ایک حد تک جماعت اسلامی کو۔      جناب میاں نواز شریف نے ۱۱مئی کی رات ہی کو اپنی فتح کا اعلان کردیا اور گو وزارتِ عظمیٰ کا چارج انھیں ۶جون کو ملا لیکن ان کے فی الواقع (virtual) اقتدار اور آزمایش کا آغاز ۱۱مئی ہی سے ہوگیا۔ چونکہ وہ اس سے پہلے دو بار وزیراعظم کی ذمہ داریاں اُٹھاچکے تھے، ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۳ء تک سب سے بڑے صوبے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو اقتدار حاصل تھا اور مرکز میں بھی اس زمانے میں مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی اور سینیٹ میں معقول تعداد میں موجود ہونے کے باعث حزبِ اختلاف کا کردار ادا کر رہی تھی، اس لیے توقع تھی کہ اقتدار سنبھالتے ہی وہ تبدیلی کے سفر کا آغاز کرے گی اور قوم کے سامنے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق ایک نئی راہ کھل جائے گی۔

پارلیمانی جمہوریت کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ حزبِ اختلاف دراصل منتظر حکومت (Government in waiting) کی حیثیت رکھتی ہے، اس کے پاس شیڈوکیبنیٹ کی شکل میں متبادل قیادت ہرلمحہ موجود ہوتی ہے اور وہ متبادل پالیسیوں کے باب میں بھی ہرلمحہ تیار ہوتی ہے۔ پھر مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس بہتر اور تجربہ کار ٹیم موجود ہے۔ اس نے دو سال کی تیاری اور بحث و مباحثے کے بعد ۲۰۱۳ء کے انتخابات کے لیے قوم کے سامنے ایک مفصل منشور  پیش کیا تھا اور اس امر کی توقع تھی کہ ذمہ داری سنبھالنے کے فوراً بعد معروف جمہوری روایات کی روشنی میں وہ پہلے ۱۰۰ دن کا پروگرام قوم کے سامنے پیش کرے گی۔ پھر چونکہ ذمہ داری سنبھالتے ہی ۱۰دن کے اندر اسے نیا بجٹ پیش کرنا تھا جس کے لیے عملاً اس نے ۱۱مئی کے بعد ہی کام شروع کردیا تھا۔ وہ ایک نادر موقع تھا کہ کم از کم نئی پالیسیوں کا ایک مربوط نقشہ قوم کے سامنے پیش کردیا جائے لیکن بجٹ بحیثیت مجموعی مایوس کن رہا اور ان سطور کے لکھتے وقت تک ۱۰۰ میں سے ۵۰دن گزر چکے ہیں لیکن نئے پروگرام کی کوئی جھلک قوم کے سامنے نہیں آسکی۔

ایک بظاہر تجربہ کار ٹیم کی طرف سے یہ کارکردگی بڑی مایوس کن اور ملک کے مستقبل کے لیے تشویش ناک ہے۔ میاں نواز شریف اور مسلم لیگ کی پوری قیادت کو حالات کی نزاکت کا احساس کرنا چاہیے۔ ہم اپنے تمام اختلافات کے باوجود ملک کے وسیع تر مفاد میں دعاگو ہیں کہ وہ سیاسی قوتیں جنھیں قوم نے حالات کو سنبھالنے اور بگاڑ کی اصلاح کے لیے مینڈیٹ دیا ہے، وہ سنجیدگی، دیانت اور اعلیٰ صلاحیت کے ساتھ ملک و قوم کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں اور عوام کو اس دلدل سے نکالیں جس میں ان کو دھنسایا گیا ہے، ورنہ قوم خاص افراد ہی نہیں، سیاسی جماعتوں اور جمہوری عمل سے مایوس ہوسکتی ہے جو سب کے لیے خسارے کا سودا ہے۔

قوم کی توقعات اور حکومتی روش

نئی حکومت سے یہ توقع تھی کہ اسے واضح مینڈیٹ ملا ہے۔ وہ معلّق پارلیمنٹ کی آزمایش سے بچ گئی ہے۔ چھوٹی جماعتوں کے بلیک میل کا بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وہ آگے بڑھ کر خارجہ اور داخلہ دونوں میدانوں میں ایک واضح لائحہ عمل قوم کے سامنے لائے گی اور کوشش کرے گی کہ زیادہ سے زیادہ اُمور پر قومی اتفاق راے پیدا کرے اور عوام کو ایک نئی اُمید اور اُمنگ دے کر سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھے۔ بلوچستان کے گمبھیر حالات کی بناپر جو ابتدائی روش مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے اختیار کی، اس سے اچھی اُمیدیں پیدا ہوئی تھیں لیکن ۵۰دن گزرنے کے باوجود اب تک صوبے میں کابینہ کا نہ بننا ایک پریشان کن صورت حال کی خبر دے رہا ہے۔ نیز دہشت گردی اور لاقانونیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ فاٹا اور کراچی کے حالات بھی دگرگوں ہیں اور سارے بلندبانگ دعوئوں کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جامع قومی سلامتی پالیسی بنائے جانے کا خواب ایک خوابِ پریشان بنتا جارہا ہے۔ قومی سلامتی کے مسئلے پر کُل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کی ایک تاریخ  (۱۲جولائی) دینے کے باوجود اس طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی اور معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی اُمور کے بارے میں کوئی واضح سوچ بھی موجود نہیں۔ سب سے پریشان کن چیز سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان ہم آہنگی اور یک سوئی کے باب میں متضاداشاروں کا ظہور ہے۔ ایبٹ آبادکمیشن کی رپورٹ کے نام سے جو دستاویز سامنے آئی ہے اور جس طرح سامنے آئی ہے اس نے سیاسی سطح پر بڑے سوالیہ نشان مرتسم کردیے ہیں۔

ڈرون حملے بند کرانے اور امریکا سے دہشت گردی کی جنگ کے باب میں تعلقات پر مکمل نظرثانی قوم کے لیے اوّلین ترجیح کا عالمی مسئلہ تھا اور ہے۔ توقع تھی کہ اس سلسلے میں مسلم لیگ(ن) نے مناسب ہوم ورک کررکھا ہوگا جس کا وہ عندیہ بھی دیتے تھے مگر معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے کوئی واضح خطوطِ کار موجود نہیں ہیں اور خود اپنے منشور میں جو باتیں انھوں نے کہی ہیں، ان کو بھی کسی واضح اور متعین پالیسی میں ڈھالنے اور قوم کو ساتھ لے کر ایک حقیقی طور پر آزادخارجہ پالیسی مرتب کرنے کے باب میں ان ۵۰دنوں میں وہ پہلا قدم بھی نہیں اُٹھا سکے۔ نہ معلوم کس مصلحت کے تحت وزیراعظم صاحب نے خارجہ اُمور اور دفاع دونوں شعبے اپنے پاس رکھے ہیں اور عملاً کوئی مستقل وزیر ان اہم ترین شعبوں میں نہیں مل سکا۔ وزیراعظم کے مشیر براے خارجہ اُمور اور سلامتی اور معاون خصوصی کے درمیان بھی ہم آہنگی کا فقدان نظر آتا ہے۔ عالمِ سیاست کے دو اہم ترین مراکز، یعنی واشنگٹن اور لندن دونوں کے لیے مسلم لیگ(ن) کی حکومت مناسب سفیروں کا انتخاب نہیں کرسکی ہے۔ واشنگٹن میں ڈیڑھ مہینے سے کوئی سفیر نہیں ہے اور لندن میں زرداری صاحب کے معتمدخاص  سفارتی تجربہ نہ رکھنے کے باوجود بطور ہائی کمشنر کام کر رہے ہیں۔ ان کے بارے میں جو کچھ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ میں آیا ہے، اس کا ذکر نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ افغانستان سے تعلقات پر کھچائو اور بے اعتمادی کے سایے صاف نظرآرہے ہیں۔ طالبان امریکا مذاکرات کی جو دگرگوں کیفیت ہے، وہ پاکستان کے لیے بھی بڑے مسائل پیدا کر رہی ہے اور آگ بجھانے کی کچھ کوششیں تو ہورہی ہیں لیکن اصل مسئلہ یعنی ’دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ‘ سے نکلنے اور اس آگ سے خود افغانستان کو بچانے کے لیے جس داعیے (initiative) کی ضرورت ہے، اس کے اِدراک کا دُور دُور پتا نہیں۔

بہارت دوستی اور درست ترجیحات کا فقدان

خارجہ پالیسی کا سب سے تشویش ناک پہلو بھارت کے بارے میں نہایت سطحی اور جذباتی انداز میں نہایت غیرحقیقت پسندانہ پالیسی اشارے ہیں جو ناقابلِ فہم ہیں۔ انتخابی نتائج کے آتے ہی بھارت سے پینگیں بڑھانے کا عندیہ دیا گیا۔ بھارت سے آئے ہوئے ایک سکھ وفد کے سامنے جن جذبات کا اظہار کیا گیا اور جن میں تحریکِ پاکستان کے مقصد ِ وجود تک کی نفی کردی گئی، اس نے پوری قوم کو چونکا دیا۔ اگر تحریکِ پاکستان کی بنیاد، یعنی دو قوموں اور دو تہذیبوں کا اپنا اپنا مستقل وجود ہی محض ایک واہمہ تھا تو پھر پاکستان کا جواز ہی کہاں باقی رہتا ہے۔ یہ بات اگر بھارت میں گونجنے والی آواز کی بازگشت نہیں تو کیا ہے؟ پھر بھارت کے وزیراعظم کو حلف برداری کی تقریب میں بلانے کی بات کسی ہوم ورک کے بغیر اور ان کے ٹکے سے جواب کے بعد بھی شیروشکر ہونے کی باتیں کن عزائم کی غماز ہیں؟ بھارت میں ان د و مہینوں میں پاکستان کے خلاف اور خصوصیت سے کشمیر میں جس طرح بے دردی سے نوجوانوں کا قتل اور قرآنِ پاک کی بے حُرمتی ہورہی ہے، اس پر قرارواقعی ردعمل کا فقدان، بلکہ اس سب کے باوجود تجارت ہی نہیں ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا آغاز قومی سلامتی کے باب میں کسی اعلیٰ اور جامع وژن اور ملک کے حقیقی مفادات کے باب میں صحیح ترجیحات کے فقدان کی بدترین مثال ہے۔

بھارت امریکا کے تعاون سے پاکستان میں، افغانستان میں اور اس پورے خطے میں جو کھیل کھیل رہا ہے، اس کو نظرانداز کرکے خوش فہمیوں پر مبنی جو اقدام کیے جارہے ہیں خواہ ان کا تعلق معیشت اور تجارت سے ہو یا سیاسی تعلقات اور بنیادی تنازعات کے بارے میں صحیح رویے سے،     وہ کم سے کم الفاظ میں نہایت غیرحقیقت پسندانہ اور ملکی سلامتی پر منفی اثرات رکھنے والے ہیں۔ بھارت سے دوستانہ تعلقات ہم بھی چاہتے ہیں لیکن پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کی قربانی یا ان کو  پسِ پشت ڈالنے کی قیمت پر نہیں۔ اس سلسلے میں ایک اسٹرے ٹیجک ناکامی کشمیر کے مسئلے کے بارے میں مؤثر اور مضبوط ردعمل پاکستان کی طرف سے مؤثر ردعمل ظاہر نہ کیا جانا ہے۔ نیز عالمی سطح پر ان اُمور کو جس طرح ہمیں اُجاگر کرنا چاہیے تھا، اس کی کوئی فکر دُور دُور نظر نہیں آتی ہے۔ کشمیر میں نوجوان روزانہ اپنے خون سے اپنا احتجاج رقم کر رہے ہیں اور قرآن کی بے حُرمتی کے واقعے پر سروں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں اور پاکستانی حکومت بے جان تحفظات کے اظہار کے تکلف سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔

بھارتی پارلیمنٹ پر دسمبر ۲۰۰۱ء کے حملے کا الزام بھارت نے پاکستان کو دیا تھا اور ایک سال تک بھارتی فوجیں پاکستان کی سرحدوں میں کیل کانٹے سے لیس کارروائی کے لیے پَر تولتی رہیں،اب اس واقعے کے بارے میں بھارت کے ایک سابق انڈر سیکرٹری نے بھارتی سپریم کورٹ میں ایک حلفیہ بیان دیا ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ حملہ کسی پاکستانی گروہ کے ایما پر نہیں خود بھارت کی اپنی ایجنسیوں کے ایما پر ہوا تھا اور سارا منصوبہ خود انھی کا تیار کردہ تھا۔ لیکن ہماری وزارتِ خارجہ کا یہ عالم ہے کہ اس نے صرف وضاحت حاصل کرنے کا تکلف کیا ہے اور عالمی سطح پر اس سے جو فائدہ اُٹھانا چاہیے تھا اس کا کوئی احساس دُور و نزدیک نظر نہیں آتا ہے۔ حالانکہ صرف یہ بیان ہی بھارت کی ایجنسیوں کے اس معاملے میں کردار کا غماز نہیں، اس سے پہلے خود بھارت کے آزاد مبصرین اور محقق اس راے کا اظہار کرچکے ہیں جس کی تفصیل خود بھارت کی پینگوئن پبلشرز کی شائع کردہ کتاب The Strange Case of The Parliament Attack میں موجود ہے جو ۲۰۰۶ء میں واقعے کے پانچ سال بعد شائع ہوئی ہے، اور جس میں بھاررت کی مشہور دانش ور ارون دھتی رائے نے اس پورے واقعے کے بارے میں ۱۳سوال اُٹھائے ہیں اور صاف الفاظ میں وہی بات کہی ہے جو اب بھارتی وزارتِ داخلہ کا انڈرسیکرٹری روی شنکرمانی ، بھارت کے خفیہ ایجنسی کے افسر ستیش چندرا ورما  کی روایت کی روشنی میں کہہ رہا ہے۔ گویا اس کے اور ممبئی کے ۲۰۰۸ء کے خونیں واقعے کے پیچھے خود بھارت کا ہاتھ تھا اور یہ دونوں خونی ڈرامے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے کیے گئے۔ ارون دھتی رائے جس نتیجے پر ۲۰۰۶ء میں پہنچی، وہ اسی کے الفاظ میں پڑھنے کے لائق ہے کہ سات سال پہلے اس نے وہی بات کہی جو آج سپریم کورٹ میں حلف نامے پر کہی جارہی ہے اور پاکستان کی قیادت منہ میں گھونگنیاں ڈالے بیٹھی ہے۔ اپنے ۱۳سوالات کی روشنی میں ارون دھتی رائے کہتی ہے:

ان سوالات کا مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو یہ نااہلیت سے بہت زیادہ سنگین صورت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جو الفاظ ذہن میں آتے نظر آتے ہیں وہ یہ ہیں: شرکت، سازش، خفیہ سازباز۔ کوئی وجہ نہیں کہ ہم صدمے کا جھوٹا اظہار کریں اور نہ ان خیالات کے سوچنے یا ان کو بلندآواز میں کہنے سے پیچھے ہٹیں۔ حکومتیں اور ان کی خفیہ ایجنسیاں ایک پرانی روایت رکھتی ہیں کہ اس طرح کے اسٹرے ٹیجک واقعات کو، جیساکہ یہ ہے، اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کریں (دیکھیے: جرمنی میں Reichstag کا جلنا اور ۱۹۳۳ء میں نازی طاقت کا عروج یا آپریشن گلے ڈیو جس میں یورپی    خفیہ ایجنسیوں نے دہشت گردی کی کارروائیاں خود کیں، خصوصاً اٹلی میں، جن کا مقصد جنگ جوُ گروہوں جیسے Red Brigades کو منتشر کرنا خیال کیا جاتا ہے۔  (دی گارڈین، لندن، India's Shame از ارون دھتی رائے، ۱۵ دسمبر ۲۰۰۶ء)

واضح رہے کہ ممبئی حملے کے بارے میں صرف مانی اور ورما کے بیانات سوالیہ نشان نہیں اُٹھا رہے، ممبئی حملے میں جس طرح سمجھوتا ایکسپریس کے بارے میں بھارتی فوج کے حاضر سروس افسر کے کردار کا راز فاش کرنے والے پولیس افسر کو نشانہ بنا کر قتل کیا گیا، اور پھر جس طرح حال ہی میں  حصولِ معلومات کے حق (Right to Information) کے ذریعے حاصل کی جانے والی معلومات کے ذریعے یہ حقائق سامنے آئے کہ ممبئی کے میونسپل آفس سے اس تاج محل ہوٹل کے بارے میں جو اس واقعے کا مرکزی مقام تھا، تمام میونسپل ریکارڈ غائب کردیے گئے ہیں جسے بھارتی اخبارات نے ایک بڑا سیکورٹی رسک قراردیا ہے۔ (ملاحظہ ہو، ایوننگ نیوز ڈائجسٹ، ۱۶جولائی ۱۳،۲۰ء رپورٹ کا عنوان: Taj Hotel Files went Missing before 26/11 attacks)

بات ذرا طویل ہوگئی لیکن مقصد اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ بھارت سے دوستی کے شوق میں ہماری قومی سلامتی اور خارجہ سیاست کے ذمہ دار کس طرح زمینی حقائق کو نظرانداز کررہے ہیں، اور وہ پاکستان کے خلاف بھارت کے پروپیگنڈے کا مؤثر توڑ کرنے اور اصل حقائق دنیا کے سامنے لانے کے مواقع کو ضائع کر رہے ہیں۔

ہم بڑی دل سوزی کے ساتھ وزیراعظم صاحب کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ خارجہ پالیسی کے اُمور پر لب کشائی سے پہلے ٹھنڈے غوروفکر سے کام لیں اور خارجہ سیاست کے نشیب و فراز سے واقف ماہرین سے مشورہ کرلیا کریں۔ وہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ ہم بھارت سے معاملات کو اس مقام سے شروع کرنا چاہتے ہیں جہاں ۱۹۹۹ء میں واجپائی صاحب کے ساتھ طے ہوئے تھے۔ ان کی خواہشات اپنی جگہ، اوّل تو جو کچھ اس موقع پر ہوا وہ نمایش زیادہ اور حقیقت (substantion)  کم تھا۔ پھر لاہور کی بس ڈپلومیسی کے بعد کارگل واقع ہوا۔ جس نے حالات کو بدل دیا۔ اس زمانے میں بھارت میں بی جے پی کی پوزیشن اور سیاسی کردار میں زمین آسمان کا فرق واقع ہوچکا ہے۔ دسمبر ۲۰۰۱ء اور جولائی ۲۰۰۸ء کے دہلی اور ممبئی کے ڈراموں نے حالات کو بدل دیا ہے۔ بھارت امریکا تعلقات میں اس زمانے میں جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں انھوں نے پوری علاقائی سیاسی بساط کو متاثر کیا ہے۔ افغانستان اور بلوچستان میں بھارت کے کردار نے بھی مستقبل کے سیاسی منظرکو متاثر کیا ہے۔ چین اور بھارت کے تعلقات کے نشیب و فراز بھی ہوا کے نئے رُخ کا پتا دے رہے ہیں۔ کشمیر میں اس زمانے میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں ڈیم تعمیر کرنے کی جو کوششیں کی جارہی ہیں وہ اپنے خاص تقاضے رکھتے ہیں۔ وزیراعظم صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان ۱۴برسوں میں برعظیم کے سیاسی پُلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ گیا ہے اور اب ۱۹۹۹ء کے پروسس کا اُس مقام سے بحالی کا کوئی امکان نہیں۔ اس خواہش کی بحالی کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ مشرف نے اس زمانے میں کشمیر کے مسئلے کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کے منفی اثرات بھی ناقابلِ انکار ہیں۔ نئی پالیسی کو اصولی پوزیشن ، زمینی حقائق اور ملک کے اسٹرے ٹیجک مفادات کی روشنی میں مرتب کیا جانا چاہیے۔ شاعرانہ خوش خیالیوں کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ انھیں بھارت کے بارے میں اپنی سوچ پر بنیادی نظرثانی کرنا ہوگی ورنہ وہ خدانخواستہ پاکستان کے مفادات کو مشرف سے بھی زیادہ نقصان پہنچانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ریاست کے اُمورپر اگر ’عمرا جاتی‘ کے جذباتی احساسات کا سایہ پڑنے دیا جائے تو اس کے بڑے خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں جن کے بارے میں ہم پوری دردمندی سے ان کو متنبہ کرنا اپنا دینی اور ملّی فرض سمجھتے ہیں۔

اس سلسلے کی سب سے تکلیف دہ اور شرمناک مثال دفترخارجہ کا وہ بیان ہے جو بنگلہ دیش کے بارے میں دیا گیا ہے۔ وہاں کی عوامی لیگی حکومت ۱۹۷۱ء کے واقعات کے سلسلے میں جنگی جرائم کے نام پر ایک ڈراما کر رہی ہے جو دو سال سے جاری ہے۔ اس نتیجے میں پروفیسر غلام اعظم صاحب اور جماعت اسلامی کے پانچ قائدین کو شرمناک سزائیں دی گئی ہیں۔ ان کا ہدف صرف جماعت اسلامی کی قیادت نہیں بلکہ پاکستان، اس کی حکومت اور فوج ہے جس پر دنیا بھر میں احتجاج ہورہا ہے۔ جس مقدمے کا سارا بھانڈا خود لندن کے اکانومسٹ نے ٹربیونل کی غیرقانونی کارروائیوں کے پورے ریکارڈ کی بنیاد پر پھوڑا ہے، جس پر کئی مسلم اور مغربی ممالک کی حکومتوں نے احتجاج کیا ہے اور  اس کے خلاف بنگلہ دیش کے عوام گذشتہ پانچ مہینے سے احتجاج کر رہے ہیں اور سیکڑوں افراد شہید ہوچکے ہیں اور ۵۰ہزار افراد اس وقت جیلوں میں ہیں، لیکن شرم کا مقام ہے کہ ہمارے دفترخارجہ کے ترجمان اسے بنگلہ دیش کا ’داخلی معاملہ‘ فرما رہے ہیں۔

امن و امان کی دگرگوں صورتِ حال

بدقسمتی سے داخلی میدان میں بھی ان دنوں میں کوئی مثبت پیش رفت نظر نہیں آرہی اور  ع

وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی، سو اب بھی ہے

سب سے اہم مسئلہ دہشت گردی، لاقانونیت، قتل و غارت گری، بھتہ خوری اور جرائم پر قابو پانے کا تھا لیکن چند خوب صورت بیانات کے سوا مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے دامن میں کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ سپریم کورٹ ہر روز اسی طرح شکوہ سنج ہے کہ حالات میں کوئی تبدیلی نہیں۔ اس کے احکامات سے اسی طرح رُوگردانی کی جارہی ہے جس طرح ماضی میں ہورہی تھی۔ لاپتا افراد بھی اسی طرح لاپتا ہیں بلکہ ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے( جولائی ۲۰۱۳ء میں سپریم کورٹ نے ۵۰۴ لاپتا افراد کی بازیابی کا حکم دیا ہے اور پشاور ہائی کورٹ نے مزید ۲۵۴ کا)، اور بوریوں میں لاشیں اسی طرح مل رہی ہیں۔ پولیس اور ایف سی کی روز سرزنش ہوتی ہے مگر ’زمیں جُنبد نہ جُنبد گُل محمد ‘کی کیفیت ہے اور نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ عدالت عالیہ کو پولیس کے آئی جی، ڈی آئی جی اور فوج کی خفیہ ایجنسیوں کے کرنل صاحبان تک کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنا پڑ رہے ہیں۔ کراچی اُسی طرح میدانِ جنگ بنا ہوا ہے۔ نئے وزیرداخلہ صاحب نے جوش میں ایک مہینے میں حالات درست کرنے کی وارننگ دے دی تھی مگر پھر خود ہی اپنے الفاظ واپس لینے پڑے۔ لیاری ہی نہیں پورے شہرقائد میں جس طرح انسانوں کا خون ارزاں ہے اور بھتہ خور جس طرح دندناتے پھررہے ہیں، وہ بڑے بنیادی بگاڑ کی خبر دے رہے ہیں۔ کسی بڑے اقدام کے بغیر ان حالات کی اصلاح ممکن نظر نہیں آرہی۔ اصل وجہ مجرموں سے ناواقفیت نہیں، مجرموں پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت اور سیاسی عزم اور اقدام کا فقدان ہے۔ سپریم کورٹ اپنے ۲۰۱۱ء کے فیصلے میں نام لے کر پولیس اور دوسری ایجنسیوں کی جوائنٹ رپورٹ کے حوالے سے ان عناصر کی نشان دہی کرچکی ہے اور ان کے خلاف باربار اقدام کا مطالبہ کر رہی ہے مگر صوبے کی حکومت حسب سابق غافل ہے اور مرکز ’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنا ہوا ہے۔

توانائی کا بحران

بجلی اور توانائی کا بحران ایک عفریت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ۴۸۰؍ارب روپے گردشی قرضے کے سلسلے میں ادا کیے جاچکے ہیں لیکن ابھی تک بجلی کی فراہمی اور لوڈشیڈنگ کی کمی کی شکل میں اس کا کوئی اثر نظر نہیں آرہا۔کن اداروں کی کتنی مدد کی گئی ہے اور کن شرائط پر؟ اس کی کوئی تفصیل قوم یا پارلیمنٹ کے سامنے نہیں آئی ہے۔ جس طرح قومی سلامتی کی پالیسی ایک خواب اور خواہش سے آگے نہیں بڑھ پارہی، اسی طرح قومی توانائی پالیسی بھی ابھی تک پردۂ اخفاء میں ہے، حالانکہ یہ دونوں چیزیں ایسی تھیں جنھیں حکومت کے بننے کے بعد فوری طور پر واضح شکل میں قوم کے سامنے آنا چاہیے تھا اور اس کے ساتھ ایک متعین ٹائم ٹیبل طے ہونا چاہیے تھا جس میں ہر ماہ کا ٹارگٹ ہوتا تاکہ کم از کم ان دونوں میدانوں میں فوری نتائج قوم کے سامنے آنا شروع ہوجاتے۔ کوئی بھی  یہ توقع نہیں رکھتا کہ فقط ایک دو ماہ میں یہ مسائل حل ہوجائیں گے لیکن یہ توقع تو ضرور کی جارہی تھی کہ فوری طور پر نئی پالیسی اور اس پر عمل درآمد کا نقشۂ کار قوم کے سامنے ہوگا اور قوم یہ محسوس کرسکے گی کہ ہرماہ ہم اپنی منزل کی طرف چند قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔ سب سے زیادہ تشویش واضح پالیسی کا فقدان اور عملی نتائج کی طرف پیش رفت کے نقشے کا نہ ہونا ہے۔اندازِ حکمرانی اور نتائج و ثمرات عوام تک پہنچانے کے نظام میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی اور یہ سب سے تشویش ناک پہلو ہے۔

اچہی حکمرانی کے دعوے کی حقیقت

ہم سیاسی انتقام کو ایک اخلاقی اورقانونی جرم سمجھتے ہیں لیکن اہم قومی اداروں اور دستوری ذمہ داری کے مقامات پر صحیح لوگوں کا شفاف انداز میں تقرر اچھی حکمرانی اور نظامِ کار میں تبدیلی کے لیے ازبس ضروری ہے۔ سب سے بڑا صوبہ دو مہینے سے گورنر سے محروم ہے۔ سندھ میں ۱۱سال سے ایک ہی شخص سیاسی گٹھ جوڑ کی علامت بنا ہوا ہے۔ اہم قومی ادارے بشمول نیب سربراہ سے محروم ہے اور درجنوں مرکزی اداروں اور پبلک سیکٹر (enterprises) پر وہ لوگ براجمان ہیں جو اہلیت اور صلاحیت کو نظرانداز کرکے ذاتی یا گروہی مفادات کی خاطر مقرر کیے گئے تھے جو ان اداروں کی تباہی اور قومی وسائل کے ضیاع کا سبب رہے ہیں، لیکن آج تک نہ نئے افراد کے تقرر کا شفاف نظام بنایا گیا ہے اور نہ صحیح افراد کے تقرر کا عمل شروع ہوا ہے۔ بدقسمتی سے جہاں نئی تقرریاں ہوئی ہیں وہاں وہی پرانی روش جاری ہے۔ اس سلسلے میں پی آئی اے کی مثال میڈیا میں آرہی ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود، نئی حکومت بھی مناسب اقدام کرنے سے گریزاں ہے۔ شخصی پسندوناپسند اور ذاتی وفاداریوں، دوستیوں اور احسانات کا بدلہ اُتارنے کے عمل کے تاریک سایے آج بھی منڈلاتے نظرآرہے ہیں۔ پنجاب میں لگژری مکانات پر ٹیکس ایک اچھا اقدام ہے مگر اس کے ساتھ وزرا اور بااثرافراد کے اپنے لگژری مکانات کو کیٹگری ۲ میں لانے کے بارے میں جو اطلاعات اخبارات میں آرہی ہیں، وہ اسی بیماری کا پتا دیتی ہے جس کے علاج کے لیے قوم نے قیادت کی تبدیلی کا اقدام کیا تھا۔ سرکاری وسائل کا شخصی استعمال اب بھی ہورہا ہے۔ اگر زرداری صاحب اپنے سرکاری دوروں پر بلاول اور آصفہ کو لے جاتے تھے تو اب چین کے دورے پر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ اپنے اپنے صاحب زادوں کو لے کر گئے ہیں حالانکہ ان کو ایسے اہم اور حساس سیاسی دوروں میں شامل کیے جانے کا کوئی جواز نہیں۔ قوم سابقہ دور کی کرپشن سے بے زار تھی اور روزانہ سپریم کورٹ میں اُس دور کی کرپشن کے کسی نہ کسی واقعے کی شرمناک داستان بے نقاب ہورہی ہے۔ سابقہ حکمرانوں نے ترقیاتی فنڈز کو جس طرح ذاتی اور جماعتی مفادات کے لیے استعمال کیا ہے وہ شرمناک ہی نہیں مجرمانہ فعل ہے جس پر قانون کے مطابق گرفت ہونی چاہیے۔

ہم توقع رکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت بدعنوانی اور کرپشن کے تمام دروازوں کو بند کرے گی اور سپریم کورٹ جس طرح بدعنوانی کے ایک ایک معاملے کو بے نقاب کر رہی ہے، حکومت نہ صرف  ان اتھاہ کنوئوں(bottomless sinks) کو بند کرے گی بلکہ قوم کی لُوٹی ہوئی رقم قومی خزانے میں واپس لائے گی اور کرپشن کے ان شہزادوں کو قانون کے مطابق قرارواقعی سزا دلوائے گی۔ لیکن وزیراعظم کے حالیہ چینی دورے کے ضمن میں جو اطلاعات اخبارات میں آرہی ہیں، وہ بڑی پریشان کن ہیں اور ان کا فوری نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ نندی پور پروجیکٹ کے باب میں سابق حکومت نے مجرمانہ غفلت برتی اور مشینری ایک سال سے بندرگاہ پر پڑی سڑ رہی تھی، اس پروجیکٹ کو بحال کرنا ایک مفید اقدام ہے لیکن یہ بات عقل سے بالاتر ہے کہ ۳۳؍ ارب روپے کے اس پروجیکٹ کو چشم زدن میں ۵۷؍ارب روپے کا کیسے بنا دیا گیا اور چشم زدن میں متعلقہ وزارت کی سمری اور پلاننگ کمیشن سے منظوری اور غالباً وزارتِ مالیات کی طرف سے رقم کی فراہمی، یہ سب کیسے ہوا؟ اخباری اطلاعات ہیں وزارتِ خزانہ نے انکوائری شروع کردی ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ سب ہوا کیوں؟ اس سلسلے میں ایک سابق ایم ڈی پیپکو کا ایک خط بھی اخبارات میں آیا ہے جس سے بڑی ہولناک صورت حال سامنے آرہی ہے (ملاحظہ ہو روزنامہ دنیا کا کالم ’میرے دوستوں کو اتنی جلدی کیوں؟‘)۔ اس کا فوری سدباب ضروری ہے۔

تبدیلی کی سمت؟

ہم سمجھتے ہیں کہ نئی حکومت کو مناسب موقع ملنا چاہیے لیکن نئی حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ واضح پالیسیوں کا اعلان کرے، پالیسیوں پر عمل درآمد کا نقشۂ کار قوم کے سامنے لائے۔ اس نقشے کے مطابق احتساب کا نظام مرتب کیا جائے جس پر پوری شفافیت کے ساتھ عمل ہو اور قوم اور پارلیمنٹ کو ہرقدم پر پوری طرح باخبر رکھا جائے۔ میڈیا کو بھی پوری دیانت اور ذمہ داری سے مگر کسی مداہنت کے بغیر نگران (watch-dog)  کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پارلیمنٹ اور خصوصیت سے حزبِ اختلاف کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور تمام اہم اُمور پر احتساب کا فریضہ پوری ذمہ داری اور مستعدی سے انجام دیں۔

اس سلسلے میں تحریکِ انصاف اور جماعت اسلامی کے ارکان پر خصوصی ذمہ داری آتی ہے کہ وہ قوم کے ضمیرکا کردار ادا کریں اور پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیوں کو عوام کے حقوق کے تحفظ اور  قوم کے وسائل کے صحیح استعمال کے لیے مؤثر انداز میں استعمال کریں۔ ایبٹ آباد کمیشن کی اصل رپورٹ کو فوری طور پر پارلیمنٹ کے سامنے آنا چاہیے تاکہ وہ کنفیوژن ختم ہو جو ایک ابتدائی مسودے کے ایک پُراسرار انداز میں شائع کیے جانے سے رُونما ہوا ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے فیصلوں کے سلسلے میں بھی حکومت اور پوری انتظامیہ کے رویے میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ ان فیصلوں پر ٹھیک ٹھیک عمل ہو۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اگر حکومتیں اور ریاست کے تمام ادارے اپنے اپنے کام ٹھیک ٹھیک انجام دیں تو عدالتوں کو انتظامی اُمور میں مداخلت کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ عدالتوں کو اس میدان میں احکام جاری کرنے کی ضرورت بھی صرف اس وجہ سے پڑرہی ہے کہ حکومت اور دوسرے ریاستی ادارے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہے اور لوگ مجبور ہوتے ہیں کہ انصاف کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں یا عدالت کو خود نوٹس لینا پڑتا ہے تاکہ ذمہ دار اداروں کی بے حسی پر ضرب لگا سکے۔ اندازِ حکمرانی کی فوری اصلاح ہی سے حالات صحیح رُخ پر آسکتے ہیں۔

ہم ہرگز معجزات کی توقع نہیں رکھتے لیکن قوم کا یہ حق ہے کہ کم از کم اس کے سامنے یہ چیز تو آئے کہ تبدیلی کی سمت کیا ہے اور منزلِ مقصود کی طرف کوئی قدم اُٹھ بھی رہا ہے یا نہیں۔ سفر بلاشبہہ طویل ہے اور قوم صبروہمت کے ساتھ راستہ کاٹنے کے لیے تیار ہوگی اگراسے یہ نظر آئے کہ منزل کا ٹھیک ٹھیک تعین ہوگیا ہے، پالیسیاں واضح ہیں، نقشۂ کار سب کے سامنے ہے، اور عملاً قدم اس سمت میں اُٹھائے جانے لگے ہیں۔ لیکن اگر ان میں سے کوئی چیز بھی نظر نہ آئے اور تبدیلی ایک سراب سے زیادہ نہ ہو تو پھر  ع

میں کیسے اعتبار انقلاب آسماں کرلوں!

 

انتخابی نظام کی تمام خامیوں اور کوتاہیوں اور انتخابی عمل میں رُونما ہونے والی تمام بدعنوانیوں کے باوجود، قوم نے بحیثیت مجموعی ۱۱مئی ۲۰۱۳ء کے قومی اور صوبائی انتخابات کے ذریعے کم از کم تین پیغام بڑے صاف انداز میں ملکی قیادت اور متعلقہ عالمی قوتوں کو دیے ہیں:

اوّل: گذشتہ پانچ برسوں میں جو افراد اور جماعتیں برسرِاقتدار رہیں انھوں نے ملک کی آزادی، سالمیت اور نظریاتی تشخص ہی کو مجروح نہیں کیا ملک کی معیشت کو بھی تباہ و برباد کردیا اور ذاتی مفاد کی قربان گاہ پر قومی مفاد کو بے دردی سے بھینٹ چڑھایا، بدعنوانی اور کرپشن کا طوفان برپا کیا، عوام کے جان و مال اور آبرو کو بڑے پیمانے پر پامال کیا اور اس طرح اس اعتماد کو پارہ پارہ کردیا جو عوام نے ان پر کیا تھا۔ حکمرانی کی اس ناکامی کی وجہ سے قوم نے اس قیادت کو رد کردیا اور متبادل سیاسی قوتوں کو حالات کو سنبھالنے کا موقع دیا۔ برسرِاقتدار آنے والے لوگوں کا اصل امتحان اس میں ہے کہ وہ ملک کو ان دگرگوں حالات سے کیسے نکالتے ہیں، محض ماضی کا نوحہ کرنے سے کوئی خیر رُونما نہیں ہوسکتا۔

دوم: عوام تبدیلی چاہتے ہیں اور یہ تبدیلی محض جزوی اور نمایشی نہیں بلکہ حقیقی اور ہمہ جہتی ہونی چاہیے۔ انھوں نے لبرل سیکولر قوتوں کو رد کردیا ہے اور ان قوتوں کو ذمہ داری سونپی ہے جو آزاد خارجہ پالیسی ، دہشت گردی سے نجات ، معاشی ترقی، تعلیم اور صحت کے باب میں بہتر سہولتوں کی فراہمی، توانائی کے بحران کی دلدل سے ملک کو نکالنے اور معاشی اور سماجی خوش حالی اور سیاسی استحکام اور قانون کی حکمرانی کی منزل کی طرف قوم کو رواں دواں کرسکیں۔

سوم: عوام نے ملک کو معلّق پارلیمنٹ کی آزمایش میں نہیں ڈالا۔ نہ تو کسی پارٹی کو ایسی اکثریت فراہم کی جس کے بل بوتے پر اسے من مانی کرنے کا موقع مل جائے اور نہ ایسی بے بسی کی حالت والا اقتدار ہی دیا کہ دوسری چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی تائید کی ایسی محتاج ہو کہ ان کے ہاتھوں بلیک میل ہو، اور ان کے مفادات کے تحفظ پر مجبور ہو۔

عوام کے اس پیغام کا تقاضا تھا کہ وفاقی حکومت اپنا بجٹ ایسا بنائے جو عوام کی توقعات اور ضروریات پر پورا اُترتا ہو اور ملک کی ترقی اور استحکام کے باب میں ایک واضح وژن، مناسب پالیسیاں اور ایسا نقشۂ کار (روڈمیپ) فراہم کرے جس سے تبدیلی کا سفر مؤثر ہو اور اس حالت میں شروع ہوکہ سب کو نظر آئے ۔ عوام کسی معجزے کے طالب نہیں لیکن وہ یہ توقع ضرور رکھتے ہیں کہ تبدیلی کا صاف شفاف راستہ اختیار کیا جائے اور خوش نما الفاظ اور سیاسی شعبدہ گری سے مکمل طور پر گریز کرتے ہوئے حقیقت پسندانہ انداز میں نئے سفر کا آغاز کیا جائے اور اس طرح کیا جائے کہ عوام اس کے عملی اثرات دیکھ سکیں۔ بلاشبہہ یہ قیادت کے لیے بڑی آزمایش ہے لیکن وقت کا یہی تقاضا ہے اور اسی میزان پر حکومت کے بجٹ، اس کی پالیسیوں اور اس کے عملی اقدامات کو تولا اور پرکھا جائے گا۔

قوم کی توقعات اور بجٹ

۱۲جون ۲۰۱۳ء کو پیش کیے جانے والے بجٹ کا اگر معروضی جائزہ لیا جائے تو اس اعتراف کے باوجود کہ نئی حکومت کو ورثے میں جو معیشت اور سوسائٹی ملی، وہ بڑے بُرے حال میں تھی اور عالمی سطح پر بھی ملک کی ساکھ بُری طرح متاثر تھی، وفاقی حکومت پاکستان کی تاریخ میں عوام کی خواہشات کے مطابق نیا باب کھولنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ بجٹ بحیثیت مجموعی مایوس کن اور اس تبدیلی کے آغاز کا سامان کرنے میں ناکام رہا ہے جس کے عوام خواہش مند ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ انتخابی نتائج کی روشنی میں انتقالِ اقتدار اور نئے سال کے لیے بجٹ پیش کرنے کے لیے جو وقت وزیرخزانہ کو ملا وہ بہت کم تھا اور انھیں عبوری دور کی ٹیم کے کیے ہوئے ہوم ورک ہی کی بنیاد پر رواں سال کا بجٹ پیش کرنا پڑا۔ مسلم لیگ (ن) کی معاشی ٹیم نے تو انتخاب سے قبل محنت اور تیاری کرلی تھی۔ اس کا مظہر وہ مفصل منشور ہے جو انھوں نے انتخاب سے کئی مہینے قبل قوم کے سامنے پیش کر دیا تھا۔ اب جو مینڈیٹ حکمران جماعت کو حاصل ہوا ہے وہ اسی منشور کی بنیاد پر حاصل ہوا ہے۔ نیز یہ بھی عام تاثر ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس زیادہ لائق اور تجربہ کار ٹیم موجود ہے اور اس سے بجاطور پر یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ وقت کی ضرورتوں کے مطابق اور اس کے اپنے منشور میں رکھے گئے پروگرام کی روشنی میں ایک ایسا بجٹ پیش کرے گی جو قوم کو نئی اُمید دلا سکے، جو عوام کو ان کی مشکلات کی دلدل سے نکالنے کا ذریعہ بن سکے اور جسے وہ نہ صرف خوش دلی کے ساتھ قبول کریں بلکہ اس پر عمل کے لیے بھی کمربستہ ہوجائیں۔ ہم کسی جماعتی تعصب کی بناپر یہ بات نہیں کہہ رہے ہیں،  ملک اور ملک کے باہر بیش تر نقاد اس احساس کا برملا اظہار کررہے ہیں کہ وفاقی حکومت عوام کی توقعات کے مطابق حالات کے چیلنج کا مؤثر جواب دینے والا بجٹ پیش نہیں کرسکی۔ اس کے برعکس صوبہ خیبر پختونخوا کی نئی حکومت اپنی تمام تر ناتجربہ کاری اور صوبے میں ہونے والی جنگ و دہشت گردی اور سابقہ حکومت کی نااہلی، بدعنوانی اور بُری حکمرانی کے نتیجے میں رُونما ہونے والی زیادہ گمبھیر صورت حال کے باوجود ایک نسبتاً بہتر اور عوام دوست بجٹ پیش کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ مرکزی وزیرخزانہ ایک اچھے انسان، ایک لائق ماہر حسابیات اور ایک تجربہ کار مالی منتظم ہیں اور اپنی جماعت میں بھی ان کا ایک اہم مقام ہے۔ وقت کی کمی کے باوجود ان سے ایک بہتر بجٹ کی توقع تھی جو بدقسمتی سے پوری نہیں ہوئی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی پانچ سالہ وفاقی حکومت پاکستان کی تاریخ کی ناکام ترین حکومت تھی۔ ۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۷ء تک پاکستان کی معیشت کی سالانہ اوسط رفتار ترقی (growth rate) ۵ فی صد سے کچھ زیادہ رہی ہے لیکن پیپلزپارٹی کے اس دور میں اوسط رفتار ترقی ۳ فی صد رہی ہے جو سب سے کم ہے۔ غربت کی شرح ان پانچ برسوں میں آبادی کے ۲۹ فی صد سے بڑھ کر ۴۹ فی صد تک پہنچ گئی اور جو افراد خوراک کے بارے میں عدم تحفظ کا شکار ہیں، ان کی تعداد ۵۸ فی صد تک پہنچ گئی۔ ملک کی درآمدات اور برآمدات اور ادایگیوں کا عدم توازن دونوں کا خسارہ آسمان سے باتیں کرنے لگا اور اس طرح بجٹ کا خسارہ ۱۳-۲۰۱۲ء میں ۲۰۰۰؍ ارب روپے تک پہنچ گیا جس کا پیٹ بھرنے کے لیے اندھادھند قرضے لیے گئے۔ ۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۷ء تک ۶۰برسوں میں ملک پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کا کُل بوجھ ۶۰۰۰؍ارب روپے تھا جو ان پانچ برسوں میں بڑھ کر ۱۴۰۰۰؍ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ ’دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ‘ میں پاکستان کی شرکت کے نتیجے میں ۵۰ہزار افراد کی ہلاکت ہوئی، اتنی ہی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے اور ۳۰لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے اور ساتھ ہی ملک کی معیشت کو بھی ۱۰۰؍ارب ڈالر ، یعنی ۱۰ہزار ارب روپے سے بھی زیادہ کا نقصان ہوا۔

ان حالات میں نیا بجٹ بنانا آسان نہیں تھا۔ ایسے ہی حالات میں قیادت کا اصل امتحان ہوتا ہے کہ وہ کس طرح گرداب سے نکلنے کا راستہ قوم کو دکھاتی ہے اور ایک قابلِ عمل پروگرام کی شکل میں نئے سفر کا آغاز کرتی ہے۔ وفاقی حکومت اور اس کی معاشی ٹیم اس بازی کو سر کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ بجٹ کا فریم ورک وہی پرانا فریم ورک ہے اور جس نئے فریم ورک اور مثالیے (paradigm) کی ضرورت تھی اس کی کوئی جھلک اس میں نظر نہیں آتی۔ بلاشبہہ چند اچھے اقدام بھی اس میں تجویز کیے گئے ہیں اور ان کا کریڈٹ وزیرخزانہ اور ان کی ٹیم کو دیا جانا چاہیے۔ ان کی مشکلات اوروقت کی قلّت کا اعتراف بھی ضروری ہے لیکن ان مثبت پہلوئوں کے اعتراف کے ساتھ اس امر کا اظہار اور اِدراک بھی ضروری ہے کہ بجٹ معیشت کو ایک نیا رُخ دینے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ معیشت کو دلدل سے نکالنے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت تھی، ان سے پہلوتہی کی گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں جو خطوطِ کار پیش کیے گئے تھے، بجٹ ان کا احاطہ نہیں   کرسکا ہے اور سب سے بڑھ کر معیشت کو  چھلانگ لگاکر آغاز (jump start)  کرنے کے لیے      جن چیزوں کی ضرورت تھی، کرپشن اور وسائل کے ضیاع کو روکنے کے لیے اور ٹیکس چوری کی وبا سے نجات کے لیے جس نوعیت کی حکمت عملی اور کارفرمائی درکار تھی، اس کا کوئی سراغ بجٹ میں نہیں ہے۔ مہنگائی کو قابو میں کرنے، پیداوار اور روزگار کو بڑھانے، غربت کو ختم نہیں تو بڑی حد تک کم کرنے کے لیے جو اقدام ضروری تھے اور جن میں سے کچھ کا ذکر مسلم لیگ کے منشور میں موجود تھا، ان کی طرف پیش قدمی کی کوئی سبیل اس میں نظر نہیں آئی بلکہ ہر وہ اقدام کیا گیا ہے جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو۔ خسارہ اور قرضوں کے کم ہونے کا کوئی امکان دُور دُورتک نظر نہیں آرہا۔

معاشی خودانحصاری کے دعوے کی حقیقت

ہم اس سلسلے میں بجٹ کے چند اہم پہلوئوں کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ بجٹ کا ایک اُمیدافزا پہلو یہ ہے کہ معیشت کے بارے میں حکومت کے وژن کو چھے نکات کی شکل میں پیش کیا گیا ہے جو ایک خوش آیند کوشش ہے۔ اس طرح سے یہ ایک کسوٹی بھی بن جاتی ہے جس پر پورے بجٹ کو پرکھا جاسکتا ہے۔ اس میں پہلا نکتہ پاکستان کی خودمختاری کا حصول اور تحفظ اور محکومی اور مانگے کی معیشت سے نجات ہے۔ لیکن پورے بجٹ میں حقیقی خودانحصاری کے حصول کے لیے کوئی مؤثر پالیسی اور نقشۂ کار موجود نہیں۔ یہ بجٹ ۱۵۰۰؍ارب روپے سے زیادہ خسارے کا بجٹ ہے ، اور یہ بھی اس وقت جب ایف بی آر ۲ہزار۵سو ۹۸ ارب روپے کے ٹیکس محصولات وصول کرے اور امریکا کولیشن سپورٹ فنڈ، نج کاری، جی-۳ کی فروخت اور کے ای ایس سی کی فروخت کے سلسلے کی پھنسی ہوئی رقوم مل جائیں۔ یہ سب محکومی کی زنجیریں ہیں، خودانحصاری کا راستہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین معاشیات کی ایک تعداد نے اس بجٹ کو دیکھتے ہی کہہ دیا تھا کہ اس میں آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے زمین ہموار کی گئی ہے اور ان میں سے بیش تر چیزیں اپنے کارنامے کے طور پر شامل کرلی گئی ہیںجو دراصل آئی ایم ایف کے مطالبات تھے۔ خصوصیت سے بجٹ کے خسارے میں قومی پیداوار کے ۵ء۲ فی صد کی کمی کا دعویٰ اور جنرل سیلزٹیکس اور دوسرے ٹیکسوں میں اضافہ جن کے نتیجے میں مہنگائی میں اور بھی اضافہ ہوگا اور بجٹ کے اعلان کے فوراً بعد یہ عمل شروع ہوگیا۔      اس نوعیت کی معاشی پالیسیوں کی موجودگی میں خودانحصاری ایک خواب بلکہ سراب سے زیادہ نہیں۔

دوسرا، تیسرا اور پانچواں نکتہ نجی سرمایہ کاری اور معیشت میں حکومت کے کردارکے بارے میں ہے اور اس کا پورا جھکائو سرمایہ دارانہ نظام اور لبرل معیشت کی طرف ہے۔ یہ تجربہ ہمارے اپنے ملک میں اور ترقی پذیر دنیا کے بیش تر ممالک میں ناکام رہا ہے۔ نجی ملکیت اور کاروباری معیشت کے جان دار مثبت پہلو ہیں لیکن متوازن معاشی ترقی اور عوام الناس کی خوش حالی کے دوگونہ مقاصد کو بیک وقت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جہاں نجی سرمایہ کاری کو ضروری مواقع فراہم کیے جائیں، وہیں ریاست کا بھی ایک مثبت اور مؤثر کردار ہو جو قومی مفادات اور عوام کے حقوق کے تحفظ اور انصاف اور معاشرتی عدل کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ حکومت کی شرکت کو سیاسی دراندازی سے محفوظ رکھنا ضروری ہے مگر ریاست کے مثبت کردار کے بغیر غربت کا خاتمہ، روزگار کی فراہمی، اجتماعی عدل کا حصول اور معاشی ناہمواریوں سے نجات اور علاقائی عدم مساوات کا تدارک ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نجی سرمایہ کاری تو مطلوب ہے مگر سرمایہ دارانہ فریم ورک میں نہیں بلکہ اسلامی فلاحی ریاست کے فریم ورک میں۔ بدقسمتی سے اس کی کوئی جھلک بجٹ میں دیے گئے وژن میں نظر نہیں آتی بلکہ چوتھے نکتے میں تو کھل کر بات کہہ دی گئی ہے کہ ریاست عوام کی جو خدمات انجام دیتی ہے، اسے حق ہے کہ ان کی لاگت وصول کرے۔ یہ خالص سرمایہ دارانہ ذہنیت ہے،  ورنہ ریاست کا تو تصور ہی یہ ہے کہ وہ عوام سے ٹیکس وصول کرتی ہے لیکن امن و امان کے قیام، دفاعِ وطن، عوام کو سہولت فراہم کرنے کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے۔ ’’ٹیکس کے ساتھ خدمات کا معاوضہ بھی وہ وصول کرے‘‘ یہ ریاست کے بنیادی تصور اور خاص طور پر اسلام کے تصورِ حکمرانی سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔

اسلام کے تصورِ معاشی عدل کی نفی

بلاشبہہ وژن کے آخری نکتے میں آبادی کے کمزور اور غریب طبقات کی دادرسی کی بات کی گئی ہے لیکن یہ اس وژن کا مرکزی تصور نہیں،ایک ضمیمہ ہے اور وہ بھی بڑا کمزور اور خام۔

ہم بڑے دکھ سے یہ بات کہنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ بجٹ کی اس تقریر میں اگر کسی چیز کا ذکر نہیں تو وہ اسلام اور اس کے دیے ہوئے معاشی عدل اور خدمت ِ خلق کے نظام کا ہے۔ مسلم لیگ کے منشور میں اسلام کے ذکر کے علاوہ، قرآن پاک کی دو آیات اور دو احادیث نبویؐ سے استشہاد کیا گیا ہے۔ جناب اسحاق ڈار نے سینیٹ میں حزبِ اختلاف کی طرف سے بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے ۴جون ۲۰۱۲ء کو اپنی تقریر میں کہا تھا: ملک کی اوّلین ترجیح غربت کا خاتمہ ہونا چاہیے اور غربت کی لکیر کو بھی ایک نہیں، دو سے ڈھائی ڈالر ہونا چاہیے، اس لیے کہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات اور مہنگائی کی صورت حال کی روشنی میں خطِ غربت کے بارے میں نئی سوچ رُونما ہورہی ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے اپنی اسلامی روایت کا مؤثرانداز میں یوں اظہار کیا:

اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اب وہاں دو سے اڑھائی ڈالر کی بات ہو رہی ہے۔ آج سے چار سال پہلے بات کی تو یہاں کالم بھی لکھے گئے۔ اس کو عالمی سطح پر  acknowledge [تسلیم]کیا گیا ہے۔ آپ کو یہ سن کر تکلیف ہوگی کہ اگر  two dollar a day والی آبادی [یومیہ دو ڈالر]پاکستان کو focus [مرتکز]کیا جائے تو آج تقریباً ۷۳یا ۷۴ فی صد آبادی کی یہ آمدن ہے۔ وہ  poverty line  [خط ِ غربت] سے نیچے رہ رہے ہیں، یعنی وہ تقریباً ماہانہ چھے ہزار روپے سے کم پر گزارا کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بحیثیت مسلمان بھی ہماری یہ ذمہ داری ہے ۔ ہمارے اُوپر ایک بہت بڑی مذہبی ذمہ داری ہے through Quran and Hadiths [قرآن و حدیث کی رُو سے]کہ اس issue [مسئلے] کو ہم tackle کریں [نبٹیں]۔ زکوٰۃ اور عشر کا concept [تصور] یہی ہے۔ ایک وقت آیا کہ کوئی لینے والا نہیں تھا۔ مدینہ منورہ کی poverty [غربت] غائب ہوچکی تھی اور انھوں نے اسلامی مملکت کو consistently  [مستقل طور پر] ایمان داری اور شفاف پالیسی کے ساتھ چلایا۔

اسی طرح سینیٹ نے ۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۲ء تک جو سفارشات دی ہیں اور ان میں راقم الحروف اور جناب اسحاق ڈار اور مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں کے نمایندے یک زبان تھے کہ ملک میں اسلامی نظامِ بنکاری اور مالیات کو فروغ دینا چاہیے اور ربٰو کو اس کی ہرشکل میں ختم کرنا چاہیے۔ ہرسال ہم نے متفقہ طور پر یہ سفارش دی کہ:

سینیٹ قومی اسمبلی سے سفارش کرتی ہے کہ اسٹیٹ بنک اسلامی بنکاری اور مالیات کی ترویج کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کرے تاکہ دستور کی دفعہ ۳۸-الف میں درج معاشی استحصال اور ربٰو کا خاتمہ کیا جاسکے۔

ٹیکسوں میں ظالمانہ اضافہ

ہماری مشترکہ تحریک کے ذریعے سینیٹ نے درج ذیل مطالبات بھی ہرسال کیے۔ کم از کم جنرل سیلزٹیکس کے بارے میں تو ایک سال حکومت کو مجوزہ اضافے کو واپس لینے پر مجبور کردیا۔  واضح رہے کہ ۲۰۰۹ء سے پہلے جنرل سیلز ٹیکس ۱۵ فی صد تھا جسے ۱۶ فی صد کیا گیا اور سینیٹ نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی(ڈارصاحب اس میں ہمارے ساتھ تھے)۔ پھر ۲۰۱۰ء میں آئی ایم ایف کے اصرار پر اسے بڑھا کر ۱۷ فی صد کیا گیا لیکن ہماری، قومی اسمبلی اور عوام کی مخالفت کے باعث اس اضافے کو واپس لیا گیا۔ ستم ظریفی ہے کہ آج خود جناب اسحاق ڈار کے ہاتھوں وہی ردشدہ اضافہ قوم پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ سینیٹ کی متفقہ قرارداد ملاحظہ ہو:

قومی اسمبلی میں زیرغور RGST بل کی منظوری کے بعد سیلزٹیکس کم کرکے ۱۵ فی صد کردیا جائے گا۔

سینیٹ نے ہماری مشترکہ کوششوں سے یہ بھی سفارش کی کہ بنکوں اور انشورنس کمپنیوں کے منافع پر کارپوریٹ ٹیکس بڑھایا جائے اور اسے ۳۵ فی صد سے بڑھا کر ۴۰ فی صد کیا جائے، مگر  اب وزیرخزانہ صاحب نے تمام کارپوریٹ سیکٹر کے ٹیکس کو ۳۵ فی صد سے کم کرکے ۳۴ فی صد کردیا ہے اور وعدہ کیا گیا ہے کہ پانچ سالوں میں اسے برابر کم کرکے ۳۰ فی صد کردیا جائے گا۔ گویا سیلزٹیکس کے ذریعے تمام باشندوں خاص طور پر غریبوں کے لیے، جن پر ٹیکس کا بوجھ امیروں سے زیادہ پڑتا ہے، زیادہ ٹیکس ادا کرنے اور نتیجے میں افلاس کے بڑھنے اور مہنگائی میں اضافے کا سامان کیا جائے اور امیروں کو ٹیکس پر چھوٹ دی جائے۔ سینیٹ کی متفقہ قرارداد ملاحظہ ہو:

سفارش : کمیٹی نے سینیٹ کو سفارش کی بنکاری سیکٹر پر انکم/کارپوریٹ ٹیکس بڑھا کر   ۴۰فی صد کردیا جائے۔

سینیٹ نے ہماری مشترکہ مساعی کے نتیجے میں صرف بنکنگ سیکٹر پر ہی ٹیکس بڑھانے کی بات نہیں کی، ہم نے یہ بھی تجویز دی کہ مالیاتی سیکٹر کو آمادہ کیا جائے کہ اپنے منافع کا کم از کم ۵فی صد تعلیم، صحت اور سپورٹس کے فروغ کے لیے وقف کرے۔

موجودہ بجٹ میں بلاشبہہ کچھ خوش گوار پہلو بھی ہیں۔ VVIP کلچر کو ختم کرنے کے جو اقدام کیے گئے ہیں، وزیراعظم سیکرٹریٹ اور وزیراعظم ہائوس کے اخراجات میں جو کمی کی گئی ہے، وزارتوں کی تعداد میں جس کمی کی بات کی جارہی ہے، صواب دیدی اختیارات کو جس حد تک ختم یا  کم کیا گیا ہے، تعلیم کے لیے جو بھی وسائل دیے گئے ہیں، نوجوانوں کی تربیت اور روزگار کی فراہمی  کے باب میں جو بھی پروگرام ہیں، ہم ان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ لیکن ہم اس سے کیسے صرفِ نظر کرسکتے ہیں کہ کئی درجن نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں اور ان میں سے بیش تر ایسے ہیں جن کی زد  عوام پر پڑتی ہے، جن کے نتیجے میں مہنگائی بڑھے گی، پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوگا اور عوام کے لیے مشکلات دوچند ہوجائیں گی، حالانکہ مسلم لیگ نے اپنے منشور میں جو وعدے کیے تھے وہ    اس سے بہت مختلف تھے۔ منشور میں عوام کو یقین دلایا گیا تھا کہ:

۱- تمام آمدنیوں پر منصفانہ ٹیکس لگاکر زیادہ آمدنی حاصل کی جائے گی اور بالواسطہ ٹیکس (indirect tax) پر انحصارکم سے کم کیا جائے گا (ص ۲۰)

۲- ٹیکس کی شرحوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ جب ٹیکس کا اصلاحاتی پروگرام پوری طرح سے نافذ ہوجائے گا تو کچھ عرصے کے بعد ٹیکس کی شرحیں کم کردی جائیں گی (ص ۲۱)

۳- پُرتعیش اور غیرضروری اشیا کی درآمد کی حوصلہ شکنی کے لیے ان پر بھاری ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔ (ص ۲۱)

۴- برآمدات پر ٹیکس معاف کردیا جائے گا۔

ایک طرف عوام کو جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے اور withholding tax کی شکل میں مختلف تجارتی اور صنعتی دائروں پر ٹیکس کا سامنا ہے جس سے مہنگائی کا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ ان کا نفاذ مسلم لیگ کے منشور اور سینیٹ میں ہمارے مشترکہ موقف کی کھلی خلاف ورزی ہے، تو دوسری طرف ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے، ٹیکس چوری کے تباہ کن کاروبار کو بند کرنے اور ان متمول طبقات کے بارے میں جن کے لیے منشور میں کہا گیا ہے کہ سب سے ٹیکس وصول کیا جائے گا، کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ ایف بی آر کی سرکاری رپورٹ کے مطابق Tax Gap، یعنی جو ٹیکس واجب ہے اور جو ملتا ہے ۵۰ فی صد ہے، یعنی جو ٹیکس جمع ہوا ہے وہ اگر ۲۰۰۰؍ارب روپے ہے تو وہ جو واجب ہے مگر نہیں ملا، یعنی ٹیکس چوری ۱۰۰۰؍ارب روپے کی ہے۔ اس کے برعکس ورلڈبنک کا تخمینہ یہ ہے کہ یہ گیپ ۵۰ فی صد نہیں، ۷۰ فی صد سے زیادہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں ۱۳-۲۰۱۲ء کے اعدادوشمار کی روشنی میں جو رقم کسی نئے ٹیکس کے لگائے بغیر صرف اس گیپ کو پُر کرنے سے حاصل ہوسکتی ہے وہ تقریباً ۱۵۰۰؍ارب روپے ہوگی۔ اسے وصول کرنے کی تو کوئی فکر نہیں لیکن ۶۲؍ارب کے لیے ایک فی صد سیلزٹیکس لگاکر ۱۸کروڑ انسانوں کی کمر توڑنے میں کوئی باک نہیں، اور صرف ۳؍ارب روپے کے لیے تعلیم پر ایک نہیں تین ٹیکس ایک ہی سانس میں لگادیے گئے ہیں۔

بلاشبہہ جو لوگ ٹیکس چوری کر رہے ہیں، ان کی گرفت ضروری ہے۔ لیکن اس کے لیے ایک ایسا طریقۂ کار اختیار کرنا جو انسانوں کو نجی زندگی کے تحفظ کے حق سے محروم کرے اور بدعنوانیوں کے لیے دروازہ چوپٹ کھول دے بہت ہی خطرناک ہے۔ یہ نجی زندگی کے تحفظ کے اسلامی آداب کے بھی خلاف ہے۔ اس بجٹ میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کو اختیار دیا جارہا ہے کہ ہروہ شخص جس کے بنک میں ۱۰لاکھ روپے سے زیادہ ہوں، یا جس نے اپنے کریڈٹ کارڈ پر ایک لاکھ روپے تک کی خریداری کی ہو، ان تک ایف بی آر کو بلاواسطہ رسائی حاصل ہوگی۔ یہ نہایت خطرناک تجویز ہے اور اس کے نتیجے میں ایف بی آر کو وہ اختیارات حاصل ہوں گے جو حقوق کی پامالی ہی نہیں ملکی معیشت کی بربادی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں documentation (تحریری شواہد) میں کمی ہوگی اور cash economy (نقد معیشت)  بڑھ جائے گی اور ملک سے سرمایے کی منتقلی کا خطرہ پیدا ہوگا۔ مزید یہ کہ اس سے کرپشن اور بلیک میل کے دروازے کھلیں گے اور ملک میں کرپشن میں اضافہ ہوگا۔ اس کے مقابلے میں ترقی یافتہ ممالک میں ان حالات میں جو راستہ اختیار کیا جاتا ہے وہ کہیں زیادہ معقول ہے۔ وہ یہ ہے کہ جن افراد کے بارے میں قرائنی شہادت موجود ہو، ان کے معاملات کی ایک خصوصی عدالت کے ذریعے تحقیقات کی جاتی ہیں اور معاملات کو دیکھا جاتا ہے۔ اس طریقۂ کار میں مرکزی بنک کے ذریعے کام انجام دیا جاتا ہے۔ براہِ راست بنک کے عملے اور ایف بی آر کے عملے کے درمیان ربط نہیں ہوتا۔ حقیقی مسائل کے حل کے لیے ایسے طریقے اختیار کرنے چاہییں جو معقول ہوں۔ انصاف کے اندر خود ایسے راستے موجود ہیں، انھیں چھوڑ کر ایسا راستہ اختیار کرنا جس سے ایف بی آر کا اختیار اس خطرناک حد تک بڑھ جائے، ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کس کے مشورے پر وزیرخزانہ نے یہ خطرناک تجویز پیش کی ہے۔

نادرا کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں کم از کم ۷۰ لاکھ افراد کو بلاواسطہ ٹیکس دینا چاہیے اس لیے کہ ان کی آمدنی کم سے کم آمدنی کی حد سے زیادہ ہے، اور ان میں سے ۳۵ لاکھ کے بارے میں نادرا کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس ان کے اثاثوں، عالمی دوروں، پُرتعیش ہوٹلوں میں رہایش، پاکستان میں ان کی شان دار جایدادوں، کاروں، ٹیلی فون، بجلی اور گیس کے بل، نہ معلوم کیا کیا معلومات موجود ہیں جن کی روشنی میں ان کو ٹیکس کی خطیر رقوم ادا کرنی چاہییں۔ لیکن وہ ٹیکس کے جال سے بالکل باہر ہیں، دندناتے پھرتے ہیں اور کوئی گرفت کرنے والا نہیں۔ اس وقت انکم ٹیکس دینے والوں کی تعداد ۹لاکھ کے قریب ہے اور باقی سب کا حال یہ ہے کہ  ع

بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لیے

بجٹ میں ان کو ٹیکس کے جال میں لانے کے لیے کوئی قابلِ ذکر اقدام نہیں کیا گیا۔ ہاں، عام آدمی پر ٹیکس لگادیا گیا ہے، اس وعدے کے باوجود کہ بالواسطہ نہیں لگایا جائے گا اور بلاواسطہ کے نظام کو فروغ دیا جائے گا۔

انتظامی اخراجات کو کم کرنے کے بارے میں بھی بڑے دعوے کیے گئے تھے اور مسلم لیگ کی قیادت کا عزم تھا کہ انتظامی اخراجات میں ۳۰ فی صد کمی کی جائے گی۔ لیکن اگر بجٹ کا    بغورمطالعہ کیا جائے تو آخری صورت حال  یہ سامنے آتی ہے کہ VVIP کلچر اور مراعات اور پروٹوکول کے خاتمے کے تمام اقدامات کے باوجود خالص انتظامی اخراجات میں ۹فی صد کا اضافہ ہوا ہے اور اس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں وہ ۱۰ فی صد اضافہ شامل نہیں ہے جو مجبور ہوکر بجٹ کے بعد کیا گیا ہے حالانکہ سینیٹ میں متفقہ تجاویز میں بنیادی تنخواہ میں اضافے کا بار بار مطالبہ کیا گیا۔ جون ۲۰۱۲ء کی سینیٹ کی رپورٹ میں یہ موجود ہے کہ جب خود  مسلم لیگ کی بنیادی تنخواہ کے طور پر ۹۰۰۰ کی حد مقرر کیے جانے کی تجویز کو کمیٹی کے اصرار پر واپس لیا گیا، تو اس سے اختلاف کرنے والے واحد معزز رکن جناب اسحاق ڈار تھے۔ ۱۲جون ۲۰۱۲ء کی سینیٹ کی رپورٹ کا  یہ حصہ ملاحظہ ہو:

سینیٹ قومی اسمبلی سے سفارش کرتی ہے کم سے کم تنخواہ ۹ہزار روپے تک بڑھا دی جائے، واپس لے لی گئی۔ سینیٹرمحمداسحاق ڈار نے اصل سفارش کے واپس لینے پر اپنا اختلافی نوٹ درج کیا تھا۔

۱۴-۲۰۱۳ء کے بجٹ کے لیے کم سے کم تنخواہ کا باب خاص تھا۔ یہ اور بات ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا نے نہ صرف ۱۰ہزار روپے کم سے کم تنخواہ مقرر کی بلکہ اس کی خلاف ورزی کو جرم قرار دیا۔ خود مسلم لیگ کے منشور میں کم سے کم تنخواہ کی مد ۱۵ہزار روپے تجویز کی گئی ہے، گو اس پر عمل کا یقین نہیں۔

۱۴-۲۰۱۳ء کے بجٹ میں قرضوں سے نجات کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ اسی طرح  بہت سے پالیسی اعلان ہیں مگر ان پر عمل درآمدکے لیے کوئی نقشۂ کار اور ٹائم ٹیبل نہیں دیا گیا۔  محترم وزیرخزانہ کو یاد ہوگا کہ خود انھوں نے سینیٹ میں اپنی ایک تقریر میں بڑی پتے کی بات کہی تھی کہ جب کسی  غیرملکی معزز مہمان سے پوچھا گیا کہ پاکستان کے تین بڑے مسائل کیا ہیں تو اس نے کہا:  نفاذ، نفاذ اور نفاذ!

بات تو سچ ہے، مگر بات ہے رُسوائی کی!

بجٹ میں ایک بڑا اہم خلا برآمدات میں اضافے اور تجارتی خسارے پر قابو پانے کے لیے پالیسی پہل کاری اقدامات (initiatives) کی عدم موجودگی ہے۔

توانائی کا بحران

بجٹ میں توانائی کے بحران کو بجاطور پر اہمیت دی گئی ہے مگر اس کے حل کے لیے جو اقدام تجویز کیے گئے ہیں، وہ بہت ناکافی ہیں۔ قرض لے کر گردشی قرض اُتارنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ گردشی قرضے کوئی نیا مسئلہ نہیں ہیں گو، اب ان کا حجم غفلت اور مناسب اقدام نہ کرنے کے سبب بہت بڑھ گیا ہے اور ۵۰۲؍ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ ۶۰ دن میں اُسے اُتارنے کی کوشش سرآنکھوں پر، لیکن مسئلے کی جڑ بلوں کی عدم ادایگی ہے جس کے ۴۰ سے ۵۰ فی صد کا تعلق مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور ان کے تحت کام کرنے والے اداروں سے ہے۔ جب تک ادایگی کے نظام کو ٹھیک نہیں کیا جائے گا یہ مسئلہ بار بار سر اُٹھاتا رہے گا۔ پھر مسئلہ توانائی کی رسد بڑھانے ہی تک محدود نہیں۔ توانائی کی مسلسل فراہمی اور اس کی لاگت کو کم کرنے کا ہے جس کا انحصار توانائی کے ذرائع کے درمیان نئی مساوات (equation)  پر ہے۔ پن بجلی کُل رسد کا ۷۰ فی صد فراہم کرتی تھی اور یہ بجلی سب سے سستی ہے۔ اب یہ حصہ صرف ۳۰ فی صد رہ گیا ہے اور تھرمل بجلی کی لاگت کئی گنا زیادہ ہے۔ اس لیے مسئلے کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرکے ہمہ جہتی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ کے منشور میں ایک اہم تجویز یہ تھی کہ توانائی سے متعلق تمام وزارتوں کو  مدغم کرکے ایک وزارت بنائی جائے گی۔ توانائی کے باب میں سب سے پہلی تجویز ہی یہ تھی کہ:  ’پانی و بجلی‘، اور ’پٹرولیم و قدرتی وسائل‘ کی وزارتوں کو مدغم کر کے ’وزارت براے توانائی و قدرتی وسائل‘ کے نام سے ایک وزارت بنائی جائے گی (ص ۲۸)۔ لیکن جب وزارتیں بنیں تو وہی ڈھاک کے تین پات! دونوں وزارتیں آج بھی الگ الگ ہیں اور بات ایک انرجی پالیسی کی ہورہی ہے۔

بجٹ: ن لیگ کے منشور کے آئینے میں

منشور میں اور بھی کئی بڑے اہم پہل کاری اقدامات کا وعدہ ہے مگر بجٹ تو ایک تاریخی موقع تھا کم از کم ان اقدامات کی طرف پہلا قدم اُٹھانے کا، لیکن بجٹ اس باب میں خاموش ہے۔ چند تجاویز ریکارڈ کی خاطر پیش خدمت ہیں:

  •                              سرکاری شعبے میں ’ٹکنالوجی اپ گریڈ فنڈ‘ قائم کیا جائے گا۔ (ص ۱۵)
  •                              سرکاری اور نجی شعبے کی تنظیموں کے تعاون سے ایک سرمایہ کاری فنڈ (equity fund) قائم کیا جائے گا۔ (ص ۱۵)
  •                               ایک ’ایکسپورٹ امپورٹ بنک‘ قائم کیا جائے گا۔ یہ بنک بین الاقوامی معیار کی سہولتیں فراہم کرے گا۔ (ص ۱۶)
  •                              نجی شعبے میں اعتماد کی بحالی، جب کہ وزیراعظم کی سربراہی میں ’پاکستان بزنس اینڈ اکانومک کونسل‘ قائم کی جائے گی۔ (ص ۲۴)
  •                                پاکستان مسلم لیگ (ن) تحفظ خوراک کے مقصد کی خاطر آئین میں ترمیم کے ذریعے ’خوراک پر حق (right to food) ہر شہری کا بنیادی حق بنائے گی اور اس کے حصول کے لیے ایک معیار مقرر کرے گی۔
  •                                قومی تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر کے ملک سے ناخواندگی کا خاتمہ کیا جائے گا۔ (ص ۶۱)

واضح رہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا نے تعلیم اور صحت کے سلسلے میں قومی ایمرجنسی کا اعلان اپنے پہلے بجٹ میں کیا ہے اور اس کے لیے خطیر رقم بھی مختص کی ہے۔

  •                              ابتدائی طور پر معاشرے کے انتہائی نادار افراد کو علاج کی سہولت فراہم کرنے کے لیے ملک بھر میں ’نیشنل ہیلتھ انشورنس اسکیم‘ شروع کی جائے گی جسے بعد میں ملک بھر میں وسعت دی جائے گی۔ (ص ۴۵)

منشور میں ان کے علاوہ بھی کئی پہل کاری اقدامات کا ذکر ہے لیکن وفاقی حکومت کا پہلا بجٹ    اس باب میں خاموش ہے حالانکہ یہ ایک اہم موقع تھا، تبدیلی کا پیغام دینے کا۔

بجٹ اور بجٹ تقریر کے معروضی تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ بجٹ میں جو وژن پیش کیا گیا ہے، اس کے چند حصے درست ہیں لیکن بحیثیت مجموعی اس میں نمایاں خامیاں اور خلا ہیں اور اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ پھر جو بھی وژن پیش کیا گیا ہے اس میں اور بجٹ میں خاصا تفاوت ہے۔ بجٹ میں پیش کردہ تجاویز اور قانونی ترامیم وژن سے ہم آہنگ نہیں بلکہ کچھ پہلو تو ایسے ہیں جو  کھلے کھلے متصادم ہیں۔ بجٹ بڑی حد تک macro-stabilization model ہی کے فریم ورک میں بنایا گیا ہے جو آئی ایم ایف کا مقبول ماڈل ہے۔ کہیں کہیں growth model سے کچھ مستعار لیا گیا ہے مگر وہ ناکافی بھی ہے اور پوری طرح مربوط بھی نہیں۔ پھر سب سے اہم پہلو   فلاح و بہبود اور اخلاقی زاویے کا ہے جو بجٹ کا کمزور ترین پہلو ہے۔ ملک کا اصل مسئلہ stagflation ہے، یعنی وہ کیفیت ہے جس میں افراطِ زر اور جمود (stagnation) بیک وقت موجود ہوتے ہیں۔ اس بڑی رکاوٹ  کو توڑنے کے لیے جس قسم کے اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے وہ بجٹ میں موجود نہیں۔ بجٹ میں وسائل کو متحرک کرنے کے تمام طریقے استعمال کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔سروسز سیکٹر یعنی خدمات کا شعبہ جس کا اس وقت مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں ۵۶ فی صد حصہ ہے اس کا حصہ کُل ٹیکس آمدنی میں ۳۰ فی صد کے لگ بھگ ہے۔ ہمارے ملک میں بمشکل ۱۵،۱۶ سروسز ہیں جو ٹیکس نیٹ ورک میں آتی ہیں۔ بھارت میں یہ تعداد ۱۷۰ ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ بجٹ میں ان تمام پہلوئوں کے اِدراک کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔

زراعت اور خاص طور پر لائیوسٹاک کو جو اہمیت دینی چاہیے تھی وہ نہیں دی گئی ہے۔ غیرضروری اشیا کی درآمد کو روکنے کے بارے میں بھی کوئی مؤثر پالیسی نہیں، حالانکہ تجارتی خسارہ اب ۱۵؍ارب ڈالر سے متجاوز ہے جو برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔  ایک تحقیقی رپورٹ کی روشنی میں اس وقت درآمدات کا صرف ۶۰ فی صد ضروری اشیا پر مشتمل ہے، ۴۰ فی صد غیرضروری اشیا کی نذر ہورہا ہے۔ اس بارے میں مؤثر پالیسی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

پریشان کن سوال!

معاشی ماہرین اور عوام الناس سب کو یہ سوال پریشان کر رہے ہیں کہ:

  •                              کیا یہ بجٹ اور جس معاشی اور مالیاتی پالیسی کا یہ آئینہ دار ہے، وہ ملک کی معیشت کو    صحیح سمت میں رہنمائی کرسکتے ہیں؟ کیا ان کے نتیجے میں مناسب رفتار سے معاشی ترقی، بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ، افراطِ زر، دولت کی تقسیم، معاشرتی انصاف اور خوش حالی حاصل ہوسکیں گے؟
  •                               کیااس بجٹ کے نتیجے میں عوام کے فوری مسائل کا کوئی حل ممکن ہے یا ان کے مصائب میں اضافہ ہی ہوگا؟ گیس اور پانی سے محرومی، روزگار کا فقدان، مہنگائی کا عفریت، بدامنی، کاروباری جمود، دولت اور مواقع کی عدم مساوات___ ان سب کے باب میں کسی خوش گوار تبدیلی کا کوئی امکان نظر آتا ہے؟
  •                                کیا بجٹ اور حکومت کی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں قلیل مدتی اور طویل مدتی دورانیے کے لیے ترقی اور تشکیل نو کا کوئی باب کھلے گا، یا قوم کولھو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں چکر لگاتی رہے گی؟
  •                               کیا معاشی جمود کے ٹوٹنے اور ترقی اور فراوانی کی طرف پیش قدمی کے امکانات روشن ہورہے ہیں؟
  •                               کیا قوم کی قیادت معاشی، مالیاتی، تجارتی، زرعی، صنعتی میدانوں میں درپیش مسائل کے بارے میں سوال اُٹھا رہی ہے اور ان سوالوں کے صحیح حل کی طرف کوئی پیش قدمی ہے یا خوب صورت الفاظ کی بارش کے باوجود تلخ حقیقت یہ ہے کہ نہ ہم ابھی تک حالات کا صحیح تجزیہ کر پارہے ہیں، نہ مربوط اور حقیقت پر مبنی مگر قوم کے نظریات، اقدار اور اُمنگوں سے ہم آہنگ پالیسیاں بنانے کی طرف پیش رفت شروع ہوگئی ہے؟ اور کیا پالیسیوں اور ان کی تنفیذ کے نظام میں ہم آہنگی ہے؟ وسائل کتنے ہیں اور ان کے استعمال کی کیا کیفیت ہے؟
  •                                معاشی ترقی، خودانحصاری، عدل اجتماعی، معاشرتی فلاح و بہبود اور عالمی اور علاقائی میدان میں ہماری مقابلے کی استطاعت___ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کدھر جارہے ہیں؟

یہ ہے وہ کسوٹی جس پر بجٹ اور معاشی پالیسیوں کو جانچا اور پرکھا جانا چاہیے۔

 

انتخابات کا مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچا اور ان سطور کی اشاعت تک حکومت سازی کا مرحلہ بھی صورت پذیر ہو چکا ہوگا۔ مستقبل کے لیے نیک تمنائیں اپنی جگہ لیکن پاکستان میں انتخابات کے نتائج ہمیشہ لوگوں کے ذہنوں میں اَن گنت سوالات پیدا کر دیتے ہیں اور بعض اصولی مباحث بھی ازسر نو شروع ہوجاتے ہیں۔

 سرفہرست بحث یہ ہوتی ہے کہ انتخابات تبدیلی کا ذریعہ ہیں یا نہیں؟ انتخابات جس طرح منعقد ہوتے ہیں، جس طریقے سے نتائج کا اعلان ہوتا ہے اور جس طرح ان میں تبدیلیاں کی جاتی ہیں، کہیں ۲ لاکھ ووٹ بھی لمحوں کے اندر گن کر بتا دیے جاتے ہیں اور کہیں چند ہزار ووٹ بھی   حتمی نتائج سے اپنے آپ کو ہم کنار نہیں کر پاتے، توبجا طور پر یہ سوال سامنے آتا ہے کہ اس انتخابی عمل کی کتنی اصلاح ممکن ہے ؟ اور سیاسی قیادت کو بروے کار لانے کا یہ طریقہ کہاں تک تبدیلی یا انقلاب کے لیے نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے ؟ اس مرتبہ بالخصوص الیکشن کمیشن کے غیر جانب دار ہونے اور انتخابات کو منصفانہ کرانے کی اپنے تئیں تمام تر کوششوں کے باوجود جس نوعیت کے انتخابات ہوئے ہیں، اور عوام کی توقعات کا جس طرح خون ہوا ہے انھوں نے ان تمام سوالات کو مزید تقویت فراہم کردی ہے۔

حالیہ انتخابات : چند غور طلب پھلو

انتخابات پرتقریباً ہر جماعت نے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ شکایات کا ایک پلندا بار بار الیکشن کمیشن کا نام لے کر دکھایا اور سنایا جارہا ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نہ صرف اس دل خراش داستان سے بھرے ہوئے ہیں بلکہ دستاویزی ثبوتوں کا بھی ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اسکرین اور صفحۂ قرطاس کی زینت بن گیا ہے اور شکوک و شبہات کے نقوش گہرے کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔  پنجاب ہو یا سندھ، بلوچستان ہو یا خیبر پختونخوا، لاہور ہو یا کراچی یا دوسرے چھوٹے بڑے شہر، ہرجگہ دھرنے دیے جارہے ہیں اور جماعت اسلامی تو ناقد اورستم زدہ تھی ہی، دیکھتے ہی دیکھتے  مسلم لیگ (ن )، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سمیت سب نے اس احتجاج میں جزوی یا کلی طور پر شرکت کی ہے۔

 انتخابات میں الیکشن کمیشن اندھے بہرے کی حیثیت سے کام کرتا ہوا نظر آیا ہے۔ جن معاملات میں اسے فیصلہ صادر کرنا چاہیے تھا بشمول آرٹیکل ۶۲، ۶۳ پر عمل درآمد، امیدواروں کی سکروٹنی، کراچی میں فوج کی معاونت سے ووٹر لسٹ کی تصدیق،نئی حد بندیوں، پولنگ اسٹیشنوں میں فوج کی تعیناتی ، ری پولنگ اور ری الیکشن کے حوالے سے جن مطالبات ودلائل پر توجہ دینی چاہیے تھی، وہ اس کی طرف سے دیکھنے میں نہیں آئی۔ فخر الدین جی ابراہیم اور ان کی ٹیم سے توقع تھی کہ وہ نئی روایت قائم کرے گی اور منصفانہ ، غیرجانب دارانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنائے گی، لیکن اس ضمن میں قوم کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

الیکشن کا عمل شروع ہوا تو آرٹیکل ۶۲، ۶۳ کے نفاذ اور اُمیدواروں کی سکروٹنی کے عمل کو مذاق بنا دیا گیا۔ قومی دولت لوٹنے ، قرضے ہڑپ کرنے ، ٹیکس ادا نہ کرنے ، کرپشن میں ملوث اور جعلی ڈگری والے انتخابی عمل سے باہر نہ کیے جا سکے۔ حد یہ ہے کہ ریٹرننگ افسروں نے جن    جعلی ڈگری والوں کو جیل بھجوایا انھیں بھی آزاد کرکے الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی۔ پھر سرمایے کے غیر معمولی استعمال کے ذریعے میڈیا میں اشتہاری مہمات سے الیکشن کمیشن نے آنکھیں بند کرلیں اور امیدواروں کی انتخابی مہم میں پیسے کے بے د ریغ استعمال سے بھی نظریں پھیر لی گئیں، اور یوں قرضہ خور، ٹیکس چور، کرپشن میں لتھڑے ہوئے جعلی ڈگریوں والے اپنی دولت و ثروت کے  بل بوتے پر عوام کی امنگوں کا خون کرتے اور الیکشن کمیشن اور اس کے ضابطۂ اخلاق کا مذاق اڑاتے نظر آئے ۔

پھرالیکشن کے دن جس طرح ووٹ کا تقدس پامال کیا گیا، اس نے الیکشن کمیشن کی اہلیت اور انتظامات پربے شمار سوالیہ نشانات لگا دیے۔ اسی لیے فخرالدین جی ابراہیم پر اعتماد کا اظہار کرنے والے بھی چیخ اٹھے کہ کیا ان کی موجودگی میں یہی الیکشن ہونے تھے؟ اور کیا ایسے ہی الیکشن کا ہمیں انتظار تھا؟ یہ الیکشن کہ جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ صاف ستھرے اور شفاف ہوں گے، انتخابی عمل میں یہ تمام اصطلاحیں بے معنی ہو کر رہ گئیں ۔ الیکشن نتائج کے حوالے سے جو واقعات سامنے آئے ہیں،ان کو دہرانے کا فائدہ تو نہیں ہے لیکن یہ الیکشن فی الحقیقت اس قابل نہیں ہیں کہ انھیں پوری طرح اور ہراعتبار سے قابلِ قبول قرار دیا جاسکے، نتائج کے حوالے سے تحفظات میں لازماً مزید اضافہ ہوگا۔ انتخابات کو جھرلو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، انجینئرڈ الیکشن کہا جاتا ہے، ان سب اصطلاحوں کا اطلاق اس الیکشن پر ہوتا ہے۔ ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ جیت گئی، عوام ہار گئے، اور اس قدر سلیقے سے سارا کام ہوا کہ کم کم اس کا احساس ہے کہ عوام سے ـ’فتح‘ چھن گئی ہے۔

الیکشن سے قبل ایم کیو ایم کے علاوہ تمام جماعتوں نے متفقہ طور پرمطالبہ کیا تھا کہ کراچی میں ووٹرلسٹوں کی فوج کی موجودگی میں ا ز سرنو تصدیق ہونی چاہیے ۔سپریم کورٹ نے اس پر فیصلہ دیا لیکن الیکشن کمیشن نے اس فیصلے پر سرے سے عمل درآمد ہی نہیں کیا ۔ محض ہاتھی کے دانت دکھانے کے لیے کمیشن نے کچھ کاسمیٹک اور نمایشی قسم کی چیزیں ضرور کیں لیکن فیصلے پر عمل ہوتا نظر     نہیں آیا۔نہ فوج کی موجودگی میں ووٹرز کی تصدیق ہوسکی اور نہ حدبندیوں کا معرکہ از سر نو انجام دیا جاسکا۔ محض ڈیکوریشن کے لیے دو چارحد بندیا ںکی گئیں جو نہ قابلِ ذکر تھیں اور نہ قابل فہم ۔ اہل کراچی و  حیدر آبادیہ مطالبہ بھی زور شور سے اٹھاتے رہے کہ پولنگ اسٹیشنوں کے اندر اور باہر فوج ہونی چاہیے اور اس کے پاس اختیارات ہونے چاہییں تاکہ حسب ضرورت وہ کوئی کارروائی کرسکے۔ اس مطالبے کی حمایت میں جو دلائل دیے جاسکتے تھے اورجو تبادلۂ خیال اور گفتگو الیکشن کمیشن سے کی جاسکتی تھی وہ سب کرنے کی کوشش کی گئی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلا اور الیکشن کمیشن نے کوئی ایک مطالبہ بھی نہ مانا۔ اس لیے اہل کراچی کو تمام کوششوں اور کاوشوں اوریہ دیکھنے کے باوجود کہ ایم کیو ایم جیسی تنظیم وہاں دفاعی پوزیشن اختیار کر رہی ہے، یہ خدشہ رہا کہ الیکشن شفاف نہیں ہوسکیں گے اور یہی ہوا۔

بالکل اسی طریقے سے ملک کے دوسرے حصوں بالخصوص فاٹا میں جس طرح پولنگ ختم ہوتے ہی سارے ڈبے ایجنسیوںکے لوگ اٹھا کر لے گئے اور اپنے طور پر گنتی کرکے جگہ جگہ نتائج کا اعلان کیا،اسی طرح بلوچستان میں بھی انتخابی نتائج کی اپنی اپنی مرضی کے مطابق صورت گری کی گئی ، اس نے بھی صاف ستھرے اور شفاف الیکشن کا بھانڈا پھوڑ دیا اور اس کے اندر سے شفافیت کی روح ہی نکال لی ۔ ایک لاکھ ۸۰ ہزار اور ۲لاکھ ووٹ جس طرح لمحوں کے اندر گن کر نتیجہ بیان کر دیا گیا، اور چند ہزار کا رزلٹ کئی دن بعد سامنے آیا، اس نے بھی سوالات کو جنم دیا اور طبیعتوں کے اندر ایک تکدر اور ردعمل کی کیفیت پیدا کی جس کی وجہ سے اب پہلے تو پورے ملک میں اور اب بھی کئی جگہ دھرنے ہو رہے ہیں۔

انتخابی عمل کو پراگندا کرنے اور پراگندا کرنے کے مواقع فراہم کرنے کا بازار یوں تو پورے ملک میں گرم تھا مگر کراچی کا مسئلہ سب سے الگ اور ایک مستقل چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس شہر میں (اور حیدر آباد میں بھی ) اندھیر نگری چوپٹ راج والا معاملہ تھا۔ پولنگ اسٹیشنوںپر قبضہ کر لیا گیا، پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال دیا گیااور ایم کیو ایم کے لوگ اپنی مرضی سے کارروائی کرتے رہے، ٹھپے لگاتے رہے۔یہ وہ حالات تھے جن میں ایک فوری رد عمل رونما ہوا جس کا کم از کم یہ اثر ضرو ر ہوا ہے کہ ملک کے گوشے گوشے میں اور دنیا بھرمیں اور کراچی میں بھی ان انتخابی دھاندلیوں اور الیکشن کو ہائی جیک کرنے کے گھناؤنے کھیل کا چرچا ہوا اور کراچی کے مسئلے کو الگ کرکے حل کرنے کی ضرورت کا احساس ہر سطح پر رونما ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں انتخابات منعقد ہی نہیں ہوئے اور اس پر ایک خاص گروہ کو حسب سابق مسلط کر دیا گیا۔ تاہم یہ بات اب طے شدہ حقیقت کے طور پر تسلیم کرلی گئی ہے کہ ایم کیو ایم اسٹیبلشمنٹ کی جماعت اور اس کی ضرورت ہے۔ اس کے خیال میںکچھ سیٹیں اس کی جیب میں ایسی پڑی رہنی چاہییں جس کے نتیجے میں کسی بھی حکومت کو گرانے اور بنانے میں اس کا رول موجود رہے اوروہ اپنی مرضی کی پالیسیوں کو پاپولر ، خوش نما اور ہردل عزیز ہونے کے طور پر بیان کرسکے۔

خیبر پختونخوا کی مخلوط حکومت اور چیلنج

خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی نے تحریک انصاف کے ساتھ مخلوط حکومت میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ویسے تو مخلوط حکومتیں بہت کم نتائج دکھانے کی صلاحیت کامظاہرہ کر پاتی ہیں اور بہت سے خطوط جن کا اظہار کرکے ان پر چلنے کی بات کرتی ہیں کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ وہ ان پر چل سکیں۔ مخلوط حکومت کے صبح شام اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ گذشتہ حکومت میں اتحادیوں کا بلیک میلنگ اور دبائو کی سیاست پر مبنی کردار ہمارے سامنے ہے، البتہ خیبر پختونخوا میں جو جماعتیں مل کر حکومت بنانے جا رہی ہیں، ان کے حوالے سے ایک اچھی بات یہ ہے کہ ان کا تاثر بدعنوان اور کرپٹ پارٹی کا نہیں ہے۔ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے لیکن کرپشن بہت زیادہ ہے۔بے پناہ اوربے تحاشا کرپشن اور دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار کرکے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت بنانے اور اسے بیرون ملک میں جمع کروانے کا سلسلہ عرصے سے جاری ہے۔

اس اعتبار سے صوبے میں کرپشن فری حکومت عوام کے بہت سے دکھوں کا ازالہ کرسکتی ہے۔ ہماری تمنا اور دعا یہی ہے کہ یہ حکومت تسلسل کے ساتھ اپنے حصے کا کام کرے اور ایک اچھے ٹیم ورک کے ساتھ صوبے کے عوام کی خدمت کرے ۔

یہ بات سب کو معلوم ہے کہ خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کے خاتمے اور امن و امان کی بحا لی کا ہے۔ ڈرون حملوں ،ملٹری آپریشن اور خودکش حملوں، نیز گم شدہ افراد کی  بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے صورت حال خاصی ابتر ہے اور یہ مسئلہ مرکزی ہے، صوبائی نہیں ۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے بارے میں وفاقی حکومت کیا پالیسی اختیار کرتی ہے؟ خارجہ پالیسی کو کس طرح سے دوبارہ ترتیب دیتی ہے؟ اس کی ترجیحات کا کس طرح از سر نو تعین کیا جاتا ہے؟ اس کا صوبے کی صورت حال پر اثر پڑے گا۔ مرکزی اور صوبائی حکومت کے باہمی تعاون سے ہی بہتری کی جانب پیش رفت ہو سکتی ہے اور کوئی حل نکالا جاسکتا ہے۔خیبرپختونخوا سمیت پورے ملک میں ترقی وخوش حالی اسی وقت ممکن ہے جب سرمایہ کاری کے لیے مناسب ماحول فراہم کیا جائے اور سرمایہ کاری کے عمل کو تیز رفتاری سے بڑھایا جائے تاکہ ملکی پیداوار اور بڑھے اور لوگوں کو روزگار ملے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب دہشت گردی کا سد باب ہواور معاشرہ پُر امن راستے پر چل سکے۔

حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کی لہر نے خیبر پختونخوا میںاپنا زیادہ اثر دکھایا اور ہم وہاں اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔پنجاب میں ایک نہیں دو لہروں سے مقا بلہ تھا اور نتائج کے اعتبار سے وہاں مسلم لیگ (ن ) کا پلہ بھاری رہا۔ لیکن یہاں بھی ہمیں یہ نقصان ہوا کہ لوگوں کی جوبڑی تعداد آزمائے ہوئے لوگوں کی طرف نہیں جانا چاہتی تھی ، اس نے تحریک انصاف کا انتخاب کیا۔ پیپلز پارٹی کے الیکشن ہارنے کابجا طور پر شور ہے اور اس کی مرکزی اسمبلی اور سندھ کے سوا صوبائی اسمبلیوں میں تعداد نمایاں طور پر کم ہوئی ہے، البتہ یہ کہنا درست نہیں کہ وہ میدان سے بالکل باہر کر دی گئی ہے ۔ قومی سطح پر بھی اس کی پوزیشن دوسری ہے اور صوبہ سندھ میں اس کو اکثریت حاصل ہے خواہ وہ کسی طرح بھی حاصل کی گئی ہو۔اس صوبے کی حد تک وہ کسی کو شامل کیے      بغیر حکومت بنا سکتی ہے۔گو، نظر یہی آرہا ہے کہ ایم کیو ایم اپنی تمام بدنامیوں کے باوجود اس کی شریکِ اقتدار ہوگی۔ پیپلز پارٹی نے بدترین پانچ سالہ دور حکومت کے باوجود اتنا نہیں کھویا جتنا لوگ تصور کر رہے تھے اورتجزیہ نگار بتا رہے تھے ۔ گو، ان کی مرکزی مہم کمزور تھی، لیکن اشتہارات کے ذریعے اس نے ماضی قریب و بعید کی مہمات اور پوزیشن کو کیش کروایا۔ بالکل یہی معاملہ اس سے پہلے مسلم لیگ ق کے ساتھ ہوچکا ہے۔

۲۰۰۸ء میں یہ شور بہت مچا کہ مسلم لیگ ق الیکشن جیت ہی نہیں سکتی لیکن اس نے جو سیٹیں لی تھیں،وہ بعد میں حکومت بچانے کے کام آئیں۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جبراورظلم کی حکومت ہو یا آئین و قانون کی دھجیاں اڑانے والی حکومت، لوگ ان چیزوں کو نظر انداز کر دیتے ہیںاور مسائل میں اضافہ کرنے اور امریکا کی غلامی کرنے والی پارٹی کی جھولی میں بھی کچھ نہ کچھ سیٹیں ضرور ڈال دیتے ہیں۔ یہ پہلے ق لیگ کے ساتھ ہوا اور اب پیپلز پارٹی کے ساتھ۔ جتنا غم و غصہ پریس اور میڈیا یا عوام کی سطح پر نظر آتا دکھائی دیتا تھا،اس کا صحیح معنوں میں کوئی ردعمل یا عکس انتخابی نتائج میں سے دکھائی نہیں دیا۔

صوبہ خیبر پختونخوا سے مرکزی اسمبلی میں تین اور صوبائی اسمبلی میں سات، پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں ایک نشست حاصل کرنے (خواتین کی دو نشستیں بھی متوقع ہیں)کے با وجود    یہ احساس بجا طور پر پایا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی اس کامیابی سے دُور نظر آتی ہے جو ہمارے  پیش نظر تھی اورجو نظم جماعت، امیدواران اور کارکنان کی آرا اور تجزیے کے نتیجے میں محسوس ہوتی تھی۔ بہت چھوٹے دائرے میں کامیابی ہوئی۔ کارکن اگرچہ اس لحاظ سے مطمئن ہوتا ہے کہ ہماری جدوجہد دین کے غلبے کی جدوجہد ہے اور ہمارے ذمے اپنے حصے کا کام کرنا ہے لیکن یہ بات پھر بھی درست ہے کہ ہم الیکشن کو تبدیلی کا ایک ذریعہ سمجھتے رہے اور سمجھتے ہیں، اس لیے یہ کارکردگی اور نتائج کئی سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ جن پر سنجیدہ غور و فکر اور ملک کے بدلتے ہوئے سیاسی ، معاشی، تہذیبی اور آبادی کے لحاظ سے منظرنامے کو سامنے رکھ کر مؤثر حکمت عملی اور نقشۂ کار تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

مندرجہ بالا ضرورت کے سلسلے میں کچھ اُمور کی طرف اشارہ کرنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ چند حقائق کو ذہن میں تازہ کر لیں تا کہ ہمارا اصل مقصد اور ہدف سامنے رہے۔

جماعت اسلامی: ایک نظریاتی تحریک

بنیادی بات جس کی تذکیر ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان محض ایک ’سیاسی‘،’مذہبی‘ یا ’اصلاحی‘ جماعت نہیں ہے بلکہ وسیع معنوں میں ایک نظریاتی تحریک ہے جو پوری انسانی زندگی کی اسلام کے جامع اور ہمہ جہتی نظریۂ حیات کی روشنی میں تعمیر نو کرنا چاہتی ہے تاکہ انسانی زندگی، اللہ کی بندگی میں گزاری جا سکے اور انسانوں کے درمیان عدل و احسان کی بنیاد پر    یہ تمام معاملات مرتب اور منظم ہو سکیں۔ اس کے لیے جماعت اسلامی تمام ممکن تدابیر سے کام لے رہی ہے، جیسے اسلام کے علم کو پھیلانا، قدیم اور جدید جاہلیتوں کی پیدا کردہ گمراہیوں کو دور کرنا، سوچنے سمجھنے والے طبقوں کو علمی حیثیت سے یہ بتانا کہ اسلام ہمارے تمام مسائل کو کس طرح حل کرتا ہے۔ جماعت کا کام صرف یہ دعوتی خدمت ہی نہیں بلکہ اس نے ان تمام امور کی اصلاح اور مسائل کے حل کے لیے زندگی کے ہر گوشے میں سر گرم جد و جہد برپا کی ہے۔ اقامت دین ہمارا اصل ہدف اور منزل ہے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کی اصلاح کے لیے ہمہ گیر کوشش اس کا ذریعہ ہے۔ سیاست کی اصلاح، اچھی ’قیادت‘ کے بروے کار لانے کی سعی اور نظام حکمرانی کو اسلام کے اخلاقی، سماجی،فلاحی اور اصلاحی مقاصد کے لیے مؤثر طور پر استعمال کرنے کے لیے حالات سازگار کرنا اس کا ہدف ہے۔ پھر جس حد تک اختیارات حاصل ہوں انھیں استعمال کر کے تبدیلی لانا اس جد و جہد کااہم حصہ ہے۔ واضح رہے کہ اسلام کی نگاہ میں یہ جد و جہد بھی عبادت کا ایک حصہ ہے اور اس سے حاصل ہونے والی قوت کو استعمال کرنے کی سعی بھی جوانتخابی عمل میں ہماری شرکت کا سبب ہے، اس ہمہ گیر جد و جہد کا ایک ضروری حصہ ہے۔

جماعت اسلامی کی جد جہد کے اس اہم ترین پہلو کو جماعت کے بانی امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے چند الفاظ میں یوں ادا کیا تھا کہ:

جماعت جس غرض کے لیے قائم ہوئی ہے وہ ایک اور صرف ایک ہے، اور وہ ہے    اللہ کے دین کو عملاً پوری طرح سے پوری زندگی میں نافذ کیا جائے، اس کے سوا     اس جماعت کا کوئی مقصد نہیںہے۔ سیاسی کام بھی اگر ہم کرتے ہیں تو سیاسی اغراض کے لیے نہیں کرتے ، محض اقتدار حاصل کرنے کے لیے نہیں کرتے، بلکہ اس غرض کے لیے کرتے ہیں کہ ان رکاوٹوں کو دور کیا جائے جو دین حق کے قیام میں مانع ہورہی ہیں۔

تبدیلی کے لیے حکمت عملی

دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے تبدیلی کے جس راستے کو سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے وہ ہمہ جہتی ہے اور اس کی ہر جہت دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرے کی مضبوطی کا باعث ہے۔ یہ راستہ ایمان کے احیا، فکر و ذہن کی تبدیلی، اخلاق و کردار کی تعمیر، اصلاحِ معاشرہ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر، انسانوں کی خدمت ، اور ان کو منظم جدو جہد کے لیے اجتماعی تبدیلی کے لیے سر گرم کرنے کا راستہ ہے۔ راے عامہ کی تعمیر اور سیاسی اور دیر پا تبدیلی کے لیے جماعت اسلامی کا مستقل طریقہ کار اس کے دستور میں واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے:

۱-وہ کسی امر کا فیصلہ کرنے یا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ دیکھے گی کہ اللہ اور رسول کی ہدایت کیا ہے۔ دوسری ساری باتوں کو ثانوی حیثیت سے صرف اس حد تک پیش نظر رکھے گی جہاں تک اسلام میں اس کی گنجایش ہو گی۔

۲-  اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے جماعت کبھی ایسے ذرائع اور طریقوں کو استعمال نہیں کرے گی جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔

۳- جماعت اپنے پیش نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی۔ یعنی یہ کہ تبلیغ و تلقین اور اشاعت افکار کے ذریعے سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے اور راے عامہ کو ان تغیرات کے لیے ہموار کیا جائے جو جماعت کے پیش نظر ہیں۔

۴- جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جد وجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی۔

اس طریق کار کی روشنی میں اور پاکستان کے حالات کو سامنے رکھ کر جماعت اسلامی نے جمہوری عمل میں ہر سطح پر مؤثر شرکت اور انتخابات کے ذریعے قیادت کی تبدیلی اور سیاسی نظام کی   نئی صورت گری کا راستہ اختیار کیا ہے۔ مولانا مودودی نے اس جد و جہد کی نوعیت اور حکمت کو یوں واضح کیا ہے:

یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ ہم اس وقت، جس مقام پرکھڑے ہیں، اسی مقام سے ہمیں آگے چلنا ہوگا اور جس منزل تک ہم جانا چاہتے ہیں ، اس کو واضح طور پر سامنے رکھنا ہو گا، تا کہ ہمارا ہر قدم اسی منزل کی طرف اُٹھے، خواہ ہم پسند کریں یا نہ کریں،  نقطۂ آغاز تو لا محالہ یہی انتخابات ہوں گے، چوں کہ ہمارے ہاں اسی طریقے سے نظام حکومت تبدیل ہو سکتاہے اور حکمرانوں کو بھی بدلا جاسکتا ہے۔ کوئی دوسرا ذریعہ اس وقت ایسا موجود نہیں ہے ، جس سے ہم پُر امن طریقے سے نظام حکومت بدل سکیں اورحکومت چلانے والوں کا انتخاب کرسکیں۔ اب ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہمارے ہاں انتخابات میں دھونس ، دھوکے، دھاندلی، علاقائی یا مذہبی یا برادری کے تعصبات، جھوٹے پروپیگنڈے، گندگی اچھالنے، ضمیر خریدنے، جعلی ووٹ بھگتانے اور بے ایمانی سے انتخابی نتائج بدلنے کے غلط طریقے استعمال نہ ہو سکیں، انتخابات دیانت دارانہ ہوں۔

لوگوں کو اپنی آزاد مرضی سے اپنے نمایندے منتخب کر نے کا موقع دیا جائے ۔ پارٹیاں اور اشخاص جو بھی انتخابات میں کھڑے ہوں، وہ معقول طریقے سے لوگوں کے سامنے اپنے اصول ، مقاصد اور پروگرام پیش کریں اور یہ بات ان کی اپنی راے پر چھوڑ دیں کہ وہ کسے پسند کرتے ہیں اور کسے پسند نہیں کرتے۔ ہو سکتاہے کہ پہلے انتخابات میں ہم عوام کے طرزِ فکر اور معیار انتخابات کو بدلنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہو سکیں، لیکن اگر انتخابی نظام درست رکھا جائے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب نظام حکومت پورے کا پورا ایمان دار لوگوں کے ہاتھ میں آجائے گا۔ اس کے بعد پھر ہم نظام انتخاب پر نظر ثانی کر سکتے ہیں اور اس مثالی نظامِ انتخاب کو از سر نو قائم کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں، جو اسلامی طریقے کے عین مطابق ہو۔ بہر حال آپ یک لخت جست لگاکر اپنے انتہائی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔          

اس سلسلے میں مولانا محترم نے اپنے تمام کارکنوں کو صاف الفاظ میں یہ ہدایت بھی دی کہ ان کو نہ صرف صبر اور محنت سے جد وجہد جاری رکھنی ہے بلکہ اس کے جو آداب اسلام نے مقرر کیے ہیں ان کے پورے اہتمام کے ساتھ یہ جد و جہد کرنی ہے، اور وقتی نتائج سے بے پروا ہو کر اپنے اصل مقصد کے حصول کے لیے ایمان اور احتساب کے ساتھ سر گرم عمل رہنا ہے:

اگر واقعی آپ چاہتے ہیں کہ یہاں اسلامی نظام زندگی برپا ہو تو پہلے اس خیال کو ذہن سے نکال دینا چاہیے کہ اصل کام بہر حال انتخاب جیتنا ہے خواہ اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے، بلکہ خوب سوچ سمجھ کر یہ طے کر لینا چاہیے کہ انتخاب صحیح طریقے سے جیتنا ہے خواہ اس کی کوشش کرتے ہوئے آپ ایک دو چار نہیں دس انتخاب ہارتے چلے جائیں۔ صحیح مقصد کے لیے صحیح طریقے سے انتخاب جیتنے کے لیے ہمیں عوام میں مسلسل کام کرکے اپنی قوم کی ذہنی سطح کو بلند کرنا پڑے گا۔ اس کے اخلاق کو بلند کرنا پڑے گا، تاکہ وہ اسلامی نظام کو سمجھنے کے قابل ہو سکے۔ اس کی راے کو تیار کرنا ہوگا کہ وہ بھلے اور برے میں تمیز کر کے غلط قسم کی اپیلوں کو رد کر دے۔ اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے وہ پروگرام قبول کر ے جو اسلامی اصول کے مطابق بھی ہو اور معقول و معتدل اور  قابلِ عمل بھی۔ نیز ان لوگوں کو اپنے معاملات کی سر براہی کے لیے منتخب کرے جو   اپنی اہلیت اور سیرت و کردار کے لحاظ سے قابل اعتماد ہوں۔

تبدیلی کے صحیح اور غلط طریقوں کی نشان دہی کرتے ہوئے مولانا محترم نے اس تحریک اور اس قوم کو یہاں تک متنبہ کر دیا تھا کہ:

خدا کی قسم، اور میں قسم بہت کم کھایا کرتا ہوں، کہ جماعت نے جو مسلک اختیار کیا ہے ، وہ کسی قسم کے تشدد کے ذریعے سے، یا کسی قسم کی دہشت پسنددانہ تحریک کے ذریعے سے یا کسی قسم کی خفیہ تحریک کے ذریعے سے ، یا کسی قسم کی سازشوں کے ذریعے سے انقلاب پربا نہیں کرنا چاہتی، بلکہ جمہور ی ذرائع سے ہی انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے۔ [ہماری یہ راے] ۔۔۔۔قطعاً کسی سے خوف کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ قطعا ً اس لیے نہیں ہے کہ ہم اپنی صفائی پیش کرسکیں کہ ہم دہشت پسند نہیں ہیں اور ہمارے اوپر یہ الزام نہ لگنے پائے ۔

اصل بات یہ ہے کہ اسلامی انقلاب اس وقت تک مضبوط جڑوںسے قائم نہیں ہوسکتا ، جب تک کہ لوگوں کے خیالات نہ تبدیل کر دیے جائیں۔ اگر کسی قسم کے تشدد کے ساتھ ، یا کسی قسم کی سازش کے یا کسی قسم کی دھوکے بازیوں کے ذریعے اور جھوٹ اور اس طرح کی کسی اور مہم کے ساتھ انتخابات جیت بھی لیے جائیں ، یا کسی طریقے سے انقلاب برپا کر بھی دیا جائے تو چاہے یہ انقلاب کتنی دیر تک رہے یہ اس طرح اکھڑتا ہے جیسے اس کی کوئی جڑ ہی نہ ہو۔

حالیہ انتخابات اور جماعت اسلامی کی حکمت عملی

جماعت اسلامی کے مقصد ، اس کی پالیسی اور اس کے طریق کار کے ان بنیادی نکات کی روشنی میں ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور تحریک اسلامی کے بے لوث کارکنوں کو ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اپنی تمام بشری کمزوریوں کے با وجود جماعت اسلامی اور  اس کے کار کنوں نے حالیہ انتخابا ت میں اپنے بنیادی اصولوں اور اہداف کی روشنی میں پورے اطمینانِ قلب، ذہنی یکسوئی اور عملی انہماک کے ساتھ شرکت کی۔ اس نے قوم کے سامنے اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ایک واضح پروگرام پیش کیا۔ اس کا منشور ایک ایسی تاریخی دستاویز ہے جس میں پاکستان کے موجودہ حالات کی روشنی میں زندگی کے ہر شعبے کے لیے اصلاح کار کے واضح خطوط کار پیش کیے گئے ہیں اور تحدیثِ نعمت کے طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مدینہ کے ماڈل کا جو نقشہ جماعت اسلامی کے منشور میں پیش کیا گیا ہے اس کی آواز ِبازگشت دوسری جماعتوں کی انتخابی مہم میں بھی سنی جا سکتی تھی۔

مندرجہ بالا گزارشات کی روشنی میں تین امور بالکل واضح ہیں:

اولاً: جماعت اسلامی محض ایک انتخابی جماعت نہیں وہ اقامت ِدین کے مقصد کے لیے ایک ہمہ جہتی نظریاتی تحریک ہے جس نے دین کا ایک واضح تصور ، امت اور انسانیت کے سامنے پیش کیا ہے اور الحمد للہ اس فکر اور اس نقطۂ نظر کے اثرات ملک اور خطے میں ہی نہیں دنیا کے طول و عرض میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔ ہمار ا اصل ہدف اقامت دین ہے اور سیاسی جد و جہد اس کا ایک حصہ ہے نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔

دوم: جماعت اسلامی نے انسانی زندگی میں تبدیلی کے لیے جو طریق کار اختیار کیا ہے وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی ، قلب کی کیفیات، ذہن کے ادراک، فکر کی تشکیل، کردار کی تعمیر، اداروں کی اصلاح اور معیشت ، معاشرت، ثقافت، قانون اور حکمرانی کے نظام اور آداب کار سب ہی کی نئی صورت گر ی پر محیط ہے۔ یہ طریق کار منہج نبوی ؐ پر مبنی ہے اور ہر دور میں مطلوبہ تبدیلی کے لیے یہی طریق کار مؤ ثر اور کامیاب ہو سکتا ہے۔

سوم: مقصد اور طریق کار کی روشنی میں جو بھی نظام کار ترتیب دیا جائے اور وقتی مصالح، حالات اور چیلنجوں کی روشنی میں جو بھی پالیسیاں ترتیب دی جائیں،نیز مقصد کے حصول کے لیے جو بھی انتظامات اور اقدام کیے جائیں وہ اجتہادی نوعیت کے امور ہیں اور ان پر حالات اور تجربات کی روشنی میں سوچ بچار اور ترک و اختیار کا سلسلہ اصولوں سے وفاداری اور بدلتے ہوئے حالات کے اِدراک کے ساتھ دلیل اور مشاورت سے ہوتے رہنا چاہیے۔ یہ ایک مستقل عمل ہے اور قرآن کے الفاظ میں اس حکمت کا حصہ ہے جس کی تعلیم نبوت کا ایک اہم وظیفہ تھی۔

جماعت اسلامی نے ملک اور دنیا کے حالات کی روشنی میں جو طریق کار اور جمہوری عمل کے ذریعے تبدیلی کا جو راستہ اختیار کیا ہے وہ اس کے نصب العین کا فطری تقاضا ہے، البتہ ملک میں رائج انتخابی نظام میں کن اصلاحات اور تبدیلیوں کی ضرورت ہے اورپھر انتخابات میں شرکت کی صورت میں سیاسی ایجنڈے کی تشکیل، انتخابی مہم کے طور طریقے، اسلوب اور آداب وغیر ہ میں کیا روش اختیار کی جانی چاہیے اور اس میں کب کس نوعیت کی اور کس حد تک تبدیلیوں کی ضرورت ہے___ یہ وہ اُمور ہیں جن میں تجربات کی روشنی میں مشاورت کے ساتھ غور و فکر ہوتا رہنا چاہیے۔ عملی میدان میں کامیابی کے لیے اس عمل کو سنجیدگی سے جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔

انتخابی نتائج: چند اھم سوال

۲۰۱۳ء کے انتخابات کے باب میں ایک بڑا اہم سوال انتخابی نظام ، الیکشن کمیشن کے کردار اور اس پورے عمل میں مختلف عناصر اور قوتوں کے کردار کا ہے۔ اس سلسلے میں جن مشکلات اور چیلنجوں کا سابقہ رہا ہے، ان میں سے کچھ کی طرف ہم اشارہ کر چکے ہیں۔ اس نظام میں مطلوبہ تبدیلی کی کوششیں پوری دیانت داری اور معاملہ فہمی کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انتخابات تبدیلی کا ذریعہ بنیں اور عوام اس نظام سے مایوس نہ ہو جائیں۔جماعت اسلامی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے گی اور تمام سیاسی جماعتوں اورملک کے سوچنے سمجھنے والے افراد اور اداروں کو اس عمل میں بھر پور شرکت کی دعوت دیتی ہے، اس لیے کہ اگر انتخابی نظام کی اصلاح نہ کی گئی اوراسے ان غلطیوں اور خامیوں سے پاک نہ کیا گیا جو کھل کر سامنے آ گئی ہیں تو انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد ختم ہو جائے گا جو ہر اعتبار سے بڑے خسارے کا سودا ہے۔

دوسرا پہلو جماعت کی اپنی انتخابی مہم ، اس کی پالیسیوں، اہداف اور مقاصد کی کماحقہٗ وضاحت، اس کے کارکنوں اور ہمدردوں کی خدمات، اور اس سلسلے میں رونما ہونے والے مثبت اور منفی پہلووں کا ہے۔ نیز یہ سوال بھی بہت سے ذہنوں میںموجود ہے کہ کیا تنظیمی یا سیاسی حکمت عملی کے میدانوں میں کسی بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے یا یہ کہ کیا رائج الوقت اداراتی اور انتظامی ڈھانچے ہی کے بہتر اور مؤثر استعمال سے ان خامیوں اور کمزوریوں کو دور کیا جا سکتا ہے جن کا تجربہ ہوا ہے؟ یہ سب وہ سوال ہیں جن پر ہمیں پوری دیانت داری سے غور کرنا چاہیے۔ اوپر سے نیچے تک ہر سطح پر مشاورت اور اندرونی حلقوں اور بیرونی مخلصین کے ساتھ تبادلۂ خیال کے ذریعے آیندہ کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ حالیہ انتخابات میں جماعت اسلامی نے اسلام کی روشنی میں قوم کے سامنے ایک واضح راہ عمل پیش کی ، اس نے انتخابات میں جو نمایندے قوم کے سامنے پیش کیے    وہ اپنی سیرت و کردار، اپنی صلاحیت کار، اور عوامی خدمت کے اعتبار سے بہت نمایاں تھے اور ان پر کسی حلقے سے بھی کسی قسم کی بد عنوانی یا بے قاعدگی کے باب میں انگشت نمائی نہیں کی جا سکی۔ نیز ہمارے کارکنوں نے جس جذبے، اَ ن تھک محنت اور قربانی اور ایثار سے یہ جد وجہد کی وہ بھی اپنی مثال آپ تھی۔ ان سب پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں لیکن ان تمام اُمور پر قلبی اطمینان کے  علی الرغم یہ سوال اہم ہے کہ نتائج ہماری توقعات کے مطابق کیوں نہ ہوئے؟

اس امر کے اعتراف میں ہرگز کوئی مضائقہ نہیں کہ معاشرے کے بڑے حصے تک ہم اپنی دعوت پہنچا ہی نہیں سکے ہیں۔ اپنے پیغام سے ان کو آگہی دے ہی نہیں سکے ہیں۔ جماعت اسلامی کا پیغام قرآن و سنت کی تعلیم کے علاوہ کسی اور شے کا نام نہیں ہے۔ مختلف علاقوں میں بسنے اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ مختلف سماجی تجربوں سے گزر کر قرآن و سنت سے کچھ نہ کچھ ہم آہنگی ضرور پیدا کر لیتے ہیں مگر دعوت کو مقامی سانچوں کے اندر ڈھال کر پیش کرنے اور اسے پوری بلند آہنگی اور اپنی وسعتوں اور ہمہ جہت مقام کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں اتارنے کے لیے شب و روز محنت کی ضرورت ہے۔ جہاں تک ’دیوانگی‘ اور ’جنون‘ کی کیفیتوںکا تعلق ہے، ہم کہاں تک وہ کیفیات اپنے تمام کارکنوں، معاونین اور ہمدردوں میں کم سے کم مطلوبہ حد تک بھی پیدا کر سکے ہیں؟ بلاشبہہ ہر دور کے اندر کچھ نام، کچھ مثالیں اور کچھ نمونے ضرور دیکھنے میں اور سننے کو ملتے ہیں اور کچھ لوگوں کے رویے واقعی متاثر کن ہوتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی پوری جماعت نے رابطہ عوام کے نتیجے میں عوام کو اپنی دعوت اور پیغام کے ساتھ کہاں تک مکمل طور پرآگاہ اور ہم آہنگ کر لیا ہے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

 الیکشن گھر گھر جا کر دستک دینے ، لوگوں کے دکھوں کو بانٹنے اور ان کے مسائل سے آگہی حاصل کرنے کا نام ہے۔ اس میں ہم کتنے کامیاب ہوئے ہیں یہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ انتخابات کے موقعے پر جو جوش و خروش پیدا ہوتا ہے ،اس کو منظم طریقے سے استعمال کرنے کے نتیجے میں   اس کے کئی رخ سامنے آسکتے ہیں۔بے چین، بے کل اور بپھرے ہوئے لاکھوں لوگ سڑکوں پر اژدہام کرکے انقلاب کی منزل کو قریب کرسکتے ہیں ، لوگوں کو یقین سے سرشار کر کے انھیں بڑی قربانی کے لیے آمادہ کرسکتے ہیں۔ دعوت کے ابلاغ اور لوگوں کو ہم نوا بنانے کے حوالے سے آیندہ کا لائحہ عمل کیا ہو؟ دعوت کو کیسے فروغ دیا جائے؟ اور جو رویے ہم اپناتے رہے ہیں ان کو کیسے بہتر بنایا جائے؟ اب تک دعوت کو تحریری اور تقریری طریقوں سے پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے اس میں جدت کیسے پیدا ہو؟ اس پر بھی سوچنا چاہیے۔

ہمارے معاشرے میں انتخابات جیتنے کے لیے جو طریقے اپنائے جاتے ہیں ، جس طرح لائق انتخاب افراد (electables)کو مرکزی کردار دیا جاتا ہے، مقامی سطح پر انتخابی مہم کس طرح چلائی جاتی ہے اور ملکی سطح پر کس طرح لہریں اٹھائی جاتی ہیں، یہ سب امور بھی غور طلب ہیں۔ ان میں سے کون سا طریقہ کس حد تک جائز اور قابل قبول ہے اور کن حدود کا اہتمام ضروری ہے کہ ان کی پامالی سے ساری جدوجہد کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے لیکن ان کے بغیر اگر یہ بازی سر نہیں کی جاسکتی تو پھر ہم کہاں کھڑے ہیں؟ یہ بھی بڑا قابلِ غور مسئلہ ہے۔

اسی طرح انتخابات کے حوالے سے بہت سی رکاوٹیں موجود ہیں۔ لوگ پیسا خرچ کرتے ہیں اور ایک حد تک اس بات کو درست مانا جاسکتا ہے کہ ہمارے پاس اتنا پیسا نہیں ہے جتنا دیگر لوگوں کے پاس ہے لیکن ہمارے پاس اس کا متبادل موجود ہے۔ ہمارا کارکن مفت کام کرتا ہے،پوسٹر اور جھنڈے لگاتا ہے، بلکہ مہمات میںاپنی جیب سے خرچ کرتا ہے۔ دوسری پارٹیوں میں ایسا نہیں ہے۔ان کا تو ٹکٹ بھی لاکھوں روپے دینے کے بعد ملتا ہے۔ اگر شخصیتوں کو بنایا اور کھڑا کیا جائے اور ان کے حوالے سے پیغام کو لوگوں تک پہنچایا جائے تو ہماری معاشرتی روایت کے مطابق لوگ اس شخصیت کی طرف دیکھتے اوراس کی بات سنتے ہیں، اس طرح بعض رکاوٹوں کو بآسانی عبور کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں کہاں احتیاط ضروری ہے اور کہاں نئے تجربات کی ضرورت ہے؟    یہ بھی غور طلب ہے۔

اس پس منظر میں کچھ اور بھی بنیادی سوالات ذہنوں میں کروٹیں لے رہے ہیں۔ خصوصیت سے ترکی، عرب دنیا، ملائیشیا اور دوسرے مسلم ممالک میں اسلامی قوتوں نے جو تجربات کیے ہیں، ان کو بھی غور سے دیکھنے اور ان کے تجربات کی روشنی میں سیکھنے کی ضرورت ہے لیکن اپنے حالات کے مطابق نئی راہوں کی تلاش نہ صرف یہ کہ شجر ممنوعہ نہیںبلکہ وقت کی ضرورت بنتی جا رہی ہے۔ بلاشبہہ یہ راہ مسائل اور مشکلات سے عاری نہیں اور اپنی پیچیدگیاں بھی رکھتی ہے اور امکانات بھی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انمل بے جوڑ پیوندکاری سے اجتناب کیا جائے اور اپنے حالات کے مطابق ایک سوچے سمجھے عمل کے ذریعے تسلسل کو مجرح کیے بغیر تبدیلی اور نئے تجربات کے امکانات کا جائزہ لیا جائے اور مفید اور قابلِ عمل اقدامات سے گریز نہ کیا جائے۔

عزمِ نو اور جھدِ مسلسل کی ضرورت

 انتخابات کا مرحلہ گزر جانے کے بعد کارکنان کو از سر نو کمربستہ ہونا چاہیے۔ معاشرے کی قدروں اور ترجیحات، دکھوں اور مسائل اور حالات کو بتدریج ذہن میں رکھتے ہوئے یہ سمجھنا چاہیے کہ بندوں کا کام بندگی کرنا ہے اور بندوں کے رب کا کام ربوبیت اور خدائی کرنا ہے ۔ بندے اگر بندگی کا کام پورا کر لیں تو ان کا رب بھی اپنی مشیت کے تحت نئے فیصلے نازل کرتا ہے اور تبدیلیوں کا ایک نیا عنوان دُور تک پھیلاتا ہے ۔ اس پس منظر میں کارکنوں کو تازہ دم اور متحرک رہنا چاہیے اور اپنے اطراف کے معاملات میں دل چسپی لے کر منزل کے حصول کی جانب پیش قدمی کرنی چاہیے۔

تحریک اسلامی ایک جد و جہد اور کش مکش کا نام ہے۔ یہ جد وجہد اور کش مکش ہرزمانے میں جاری رہی ہے، آج بھی جاری ہے اور آیندہ بھی جاری رہے گی۔ فی الحقیقت یہ انبیا وصلحا کا راستہ ہے۔ اس راستے میں اپنے پائوں غبار آلود کرنے والے در اصل انبیا ؑکے راستے کے راہ رو ہیں۔    یہ راستہ بہر حال پھولوں کی سیج نہیں لیکن جو اخلاص کے ساتھ اس راستے پر چلنے کا عزم کرتا ہے،  اللہ کی مدد و نصرت اور تائید اس کے ہم رکاب ہو جاتی ہے، اس کا دست و بازو ہو جاتی ہے۔     آج ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک اسلامی کا کارکن اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو دُور کرے۔ جذبۂ صادق اور عزمِ صمیم کے ساتھ منزل کے حصول کے لیے جد و جہد کرے اور آگے بڑھے ۔ جتنے جذبے خالص ہوتے جائیں گے، منزل قریب آتی جائے گی۔ نشان منزل یہ ہے کہ دنیا کی بھلائیاں تحریک اور اس کے جلو میں چلنے والوں کا مقد ر بنتی چلی جائیںگی۔چراغ سے چراغ جلے، تاریکیاں چھٹ جائیں اور روشنی اس امت اور انسانیت کا مقدر بن جائے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارا حامی و ناصر بن جائے، آمین!