مضامین کی فہرست


اپریل ۲۰۱۳

اکیسویں صدی میں تحریکاتِ اسلامی کو درپیش مسائل، خطرات اور امکانات کا جائزہ لیا جائے تو سرفہرست جو چیز نظر آتی ہے، وہ سیاسی تبدیلی کے ذریعے نفاذِ عدل ہے۔ اسلام اپنی    تمام تعلیمات میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی حاکمیت ِاعلیٰ اور معاشرے میں عدل کے قیام کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ وہ انسانوں کے اپنے اعمال کے ذریعے پھیلائے ہوئے فساد کو اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت و اصلاح کی تعلیمات اور ان کے اُس عملی نمونے کے ذریعے (جو انبیاے کرام علیہم السلام اور خصوصاً خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے رہتی دنیا تک کے لیے پیش فرمایا) دُور کر کے اس فساد کو معاشرتی توازن، عدل، امن اور رحمت سے بدلنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے تمام انبیاے کرام ؑکی دعوت اور جدوجہد کا بنیادی نکتہ ہر طرح کے طاغوتوں کی بندگی سے نکل کر صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا اقرار اور زمین پر اس کا قیام تھا۔

اسی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو چار مختلف مقامات پر قرآن کریم انبیاے کرام ؑکے مقصد اور مشن کو انتہائی جامع الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴)درحقیقت اہلِ ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اُٹھایا جو اُس کی آیات انھیں سناتا ہے، اُن کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور اُن کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔

اور پھر صاف الفاظ میں یہ بھی واضح کردیا کہ تلاوتِ کتاب، تزکیۂ نفس، تعلیم، کتاب اور تعلیم حکمت کی اس ہمہ گیر جدوجہد کے نتیجے میں جو تبدیلی انسانی معاشرے میں رُونما ہوئی وہ قیام عدل و انصاف ہے:

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (الحدید ۵۷:۲۵) ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایت کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔

اگر غور کیا جائے تو اس آیت مبارکہ میں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اور کارِنبوت کا مشن بیان کیا گیا ،ہے وہیں انسانوں اور معاشرے میں تبدیلی کے عمل کی بنیادیں بھی سامنے رکھ دی گئی ہیں۔ تبدیلی کے اس عمل کی بنیاد اللہ کی کتاب اور اس کی دی ہوئی ہدایت پر ہے اور اس کا عملی راستہ تزکیہ ہے، خواہ تزکیۂ فرد ہو یا تزکیۂ معاشرہ، تزکیۂ مال ہو یا تزکیۂ قیادت۔ فرد  اور معاشرے کی صحیح نشوونما اور ارتقا کے لیے اگر کوئی صحیح حکمت عملی ہوسکتی ہے تو وہ صرف اللہ کی کتاب ہے۔ صرف اسی کتاب کی تعلیم کے ذریعے زندگی میں فکری اور عملی انقلاب ممکن ہے۔

قوت کے استعمال سے یہ تو ممکن ہے کہ بظاہر ایک وقتی تبدیلی آجائے لیکن چہروں کے بدلنے سے کوئی بنیادی فرق واقع نہیں ہوسکتا۔ اصل تبدیلی کے لیے اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی آیات کی صحیح تلاوت، ان کا صحیح فہم اور ان کی صحیح تطبیق کے ذریعے تبدیلیِ کردار وعمل سے ہی لائی جاسکتی ہے۔ ظاہر ہے انسان کے اندرون کی تبدیلی اس کی فکر کے زاویے کا درست کرنا، اس کے طرزِحیات کو بدلنا، اس کے معاش کو حلال کا تابع بنانا، اس کی سیاسی فکر کو ذاتی مفاد، نفسا نفسی اور قوت کے نشے سے نکال کر قیامِ عدل، اجتماعی فلاح اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصولوں کے تابع کرنا ہے جو ایک حادثاتی کام نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے مناسب تیاری، مناسب آبیاری، مناسب محنت اور مناسب وقت درکار ہوگا۔

تبدیلیِ قیادت کا تعلق محض برسرِ اقتدار افراد کی معزولی اور ان کی جگہ بس متبادل افراد کے تقرر سے نہیں ہے۔ قیادت کی تبدیلی اور اچھے افراد کو ذمہ داری کے ساتھ مناصب پر لانا ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ نظام کی تبدیلی اور نظام کی بنیادوں کی تبدیلی بھی ضروری ہے۔ ایک دیمک لگے ہوئے درخت کی ٹہنیوںمیں تازہ پھل باندھ کر لٹکا دینے سے درخت کی بیماری ختم نہیں ہوسکتی اور نہ اس میں تازہ پھل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ایسے ہی ایک غیرعادلانہ نظام کو چلانے والے ظالموں کی جگہ دوسرے افراد کے آجانے سے اس وقت تک اصلاح نہیں ہوسکتی جب تک افراد خود صالح اور باصلاحیت نہ ہوں اور نظام میں مناسب تبدیلیاں بھی کی جائیں۔

تحریکاتِ اسلامی کو عموماً ایک پیچیدہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ کیا تبدیلیِ نظام کے لیے وقتی طور پر مروجہ نظام میں شمولیت اختیار کی جائے یا پہلے نظام کو تبدیل کیا جائے، اور پھر نظام کی تبدیلی کے بعد اس میں شمولیت اختیار کی جائے؟ اس سوال کو ذہن میں اُٹھاتے وقت عموماً یہ بات محو ہوجاتی ہے کہ کیا نظام خود بخود اپنے آپ کو درست کرلے گا اور پھر دست بستہ تحریک سے عرض کرے گا کہ تشریف لاکر کرسیِ قیادت سنبھال لے۔ دوسری ممکنہ صورت یہی ہوسکتی ہے کہ پہلے نظام کو تہس نہس کیا جائے۔ اس کے بعد نیا نظام قائم کیا جائے۔ تاریخ اُمم کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اگر کوئی صحت مندتبدیلی آئی ہے تو اس میں ایک سے زیادہ مصالح اور حکمتوں کا دخل رہا ہے، تنہا ایک بے لچک حکمت عملی نے آج تک کوئی دیرپا تبدیلی پیدا نہیں کی۔

انبیاے کرام ؑ کی دعوت کا نقطۂ آغاز تمام خدائوں کا رد اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا اعلان ہی رہا ہے:

یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ o مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَo (یوسف۱۲:۳۹-۴۰) اے زندان کے ساتھیو! تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے آباواجداد نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اُس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی [دین] ہے،  مگر اکثر لوگ جانتے نہیںہیں۔

اسی حقیقت کو کلمہ طیبہ میں ہرمسلمان ادا کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے اور آخری رسول ہیں۔ جہاں کہیں بھی نظامِ ظلم پایا جاتا ہے، وہ ان دو صداقتوں سے انحراف کی بنا پر وجود میں آتا ہے۔ اگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حاکمیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم کرلیا جائے تو طرزِ زندگی، طریق خشیت، نظامِ سیاست و قانون، غرض زندگی کے ذاتی معاملات ہوں یا معاشرے کے مختلف پہلو، سب اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے ماتحت ہوجاتے ہیں۔ اسی کا نام نفاذِ شریعت اور قیامِ نظامِ اسلامی ہے۔

نفاذِ شریعت اور اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں بعض مواقع پر ایسا نظر آتا ہے کہ اسلامی جماعت یا تحریک اسلامی سمجھوتے (compromise) کر رہی ہے اور بظاہر اپنے مقصد سے انحراف کر رہی ہے۔ ایمان کا تقاضا یہ معلوم ہوتا ہے کہ حق و باطل کی کش مکش میں پہلے مرحلے ہی میں باطل کو مکمل طور پر بے دخل کرکے حق کو قائم کردیا جائے، جب کہ انسانی معاشرے میں تبدیلی عموماً ایک لمبے عمل کے بعد ہی آتی ہے، اور بعض اوقات طویل عرصے کی جدوجہد اور ہمہ تن توجہ  کے باوجود مطلوبہ نتائج دُور دُور نظر نہیں آتے ، جس کا یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ تحریک ناکام ہوگئی۔ قرآن کریم اپنے ماننے والوں پر سعی اور کوشش کی ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ نتائج کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اختیار میں دے دیتا ہے، تاکہ مایوسی، اور نااُمیدی کو دلوں سے نکالتے ہوئے تحریکی کارکن نتائج سے بے پروا ہوکر اپنے کام میں پوری قوت کے ساتھ لگے رہیں۔

تحریکاتِ اسلامی کو عموماً ایسے مواقع کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب بظاہر ایک کارکن کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ تحریک اپنے اصل مقصد سے انحراف کر رہی ہے، حالاں کہ قیادت مکمل طور پر یقین رکھتی ہے کہ وہ صحیح سمت میں جارہی ہے۔ ایسے تمام حالات میں حکمت ِدین کا تقاضا ہے کہ قرآن و سنت کی طرف رجوع کرتے ہوئے دیکھا جائے کہ کیا واقعی اہداف میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے،     یا اصل اہداف کے حصول کے لیے حالات کی روشنی میں ایک تدریجی طریقہ اختیار کیا گیا ہے؟

تمام تحریکاتِ اسلامی کا مقصد وجود اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے یہ تحریکات قرآن و سنت رسولؐ سے اخذ کردہ اصول و کلیات کی روشنی میں اپنی حکمت ِعملی وضع کرتی ہیں اور ترجیحات کا تعین کرتی ہیں۔ مسلم دنیا کے تناظر میں خصوصاً مصر اور  ترکی میں جو تبدیلی کی لہر آئی ہے وہ تجزیہ و تحلیل کے لیے اہم مواد فراہم کرتی ہے۔ مصر میں    اخوان المسلمون کی دعوت کا بنیادی نکتہ شریعت پر مبنی نظام کا قیام ہے۔ لیکن مصر کے سیاسی، عسکری اور معاشی حالات کے پیش نظر خصوصاً ایک بااثر عیسائی قبطی اقلیت کی موجودگی میں جو تعلیم، تجارت اور سیاست ہر میدان میں اپنا ایک مقام رکھتی ہے اور بالخصوص مصر کی امریکا سے ۳۰سالہ گہری وابستگی، اسرائیل کے ساتھ مفاہمت اور فوج کے براہِ راست سیاسی امور میں دخیل رہنے کی روایت کے پیش نظر، کیا تحریکِ اسلامی کے لیے مناسب راستہ یہ تھا کہ وہ باطل، کفر اور ظلم کی روایت کو بیک قلم منسوخ کر کے شریعت پر مبنی نظام کا اعلان کردے یا ایک بتدریج عمل کے ذریعے حالات کے رُخ کو تبدیل کرے؟ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ موجودہ قیادت کے بار بار یہ کہنے کے باوجود کہ وہ امریکا سے ٹکرائو نہیں چاہتی، حتیٰ کہ اسرائیل کے ساتھ بھی سیاسی مذاکرات سے دیرپا حل چاہتی ہے، مصر کے لادینی عناصر اور بیرونی قوتیں (بشمول بعض مسلم ممالک) پوری قوت سے موجودہ حکومت کو کمزور اور ناکام بنانے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔ ایسے حالات میں تحریکی ترجیحات کیا ہوں گی؟ کیا تحریک کا بیک وقت دس محاذ کھول کر اپنی تمام قوت کا رُخ اُدھر کر دینا حکمت کی بات ہوگی یا حالات کا جائزہ لینے کے بعد اور اولیات کا تعین کرنے کے بعد آگے چلنا قرآن و سنت سے زیادہ قریب ہوگا؟

قرآن کریم نے جابجا مثالیں بیان کر کے ہمیں ان اُمور پر غور کرنے کی دعوت دی ہے تاکہ ان سے حاصل کردہ علم کے ذریعے، نئے پیش آنے والے حالات کا مقابلہ کرنے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے حصول کی جدوجہد کو آگے بڑھانے میں مدد مل سکے۔

مدینہ منورہ میں مثالی اسلامی ریاست کے قیام کے بعد عقل کا تقاضا تھا کہ فوری طور پر قبلے کو درست کیا جائے۔ لیکن تقریباً دو سال انتظار کرنے کے بعد اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف سے حکم آیا کہ قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِی السَّمَآئِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰھَا فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ (البقرہ ۲:۱۴۴)،  ’’اے نبیؐ! یہ تمھارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اُٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں۔ لو، ہم اُسی قبلے کی طرف تمھیں پھیرے دیتے ہیں، جسے تم پسند کرتے ہو۔ مسجدحرام کی طرف رُخ پھیر دو۔ اب جہاں کہیں تم ہو، اُسی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرو‘‘۔

وحی الٰہی کے آتے ہی اس پر عمل کیا گیا اور عین حالت نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام اصحابِ رسولؐ نے (جو اس وقت جماعت میں شریک تھے) بغیر کسی ہلڑاور افراتفری اور بغیر کسی حیل و حجت کے اپنا رُخ مکمل مخالف سمت میں پھیر دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مدینہ منورہ آتے ہی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی عطا کردہ حکمت دینی کی بناپر قائد تحریک اسلامی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ اقدام فوری طور پر کیوں نہیں اُٹھایا اور ۱۶،۱۷ماہ بعد ۲ہجری میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحویل قبلہ کے حکم کے آجانے کے بعد یہ اقدام کیوں کیا گیا؟

اس اہم واقعے پر عموماً جس زاویے سے غور کیا جاتا ہے اس کا محوریہی رہا ہے کہ اُمت مسلمہ کا قیادت و سیادت پر مقرر کیا جانا اور بنی اسرائیل کو اقوامِ عالم کی قیادت سے مطلق طور پر محروم کیا جانا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نقطۂ نظر سے یہ تاریخ کا ایک انقلاب انگیز واقعہ ہے کہ     اب قیامت تک کے لیے اس دینِ حنیف اور اُس کے لانے والے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو تمام انسانوں کے لیے زندگی گزارنے کا لائحہ عمل قرار دیا گیا۔ تاہم، غیرمعمولی اہمیت کے حامل اس واقعے میں دینی حکمت عملی کے حوالے سے ہمارے لیے غوروفکر کا بہت سامان موجود ہے۔

پہلی بات جس کا تعین اس واقعے سے ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا قانونِ مکافاتِ عمل ہے۔ جب بنی اسرائیل نے اپنے عمل سے اللہ تعالیٰ سے وفاداری کا ثبوت نہیں دیا تو ان کی جگہ اُمت مسلمہ کو اقوامِ عالم کی قیادت بطور ایک امانت اور ذمہ داری کے دے دی گئی۔ دوسری بات یہ کہ جس قوم کو قیادت سونپی جاتی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اس فریضے کی ادایگی کے لیے جواب دہ بھی ہوگی۔ مزید یہ کہ اُمت مسلمہ کو اپنے تمام ثقافتی، فکری اور روایتی رابطوں کو توڑ کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا رنگ اختیار کرنا ہوگا۔ اور آخری بات یہ کہ اس واقعے کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے جس طرح قبلۂ اوّل کی طرف واپسی سے قبل مکہ میں ایمان لانے والوں کا امتحان لیا تھا کہ وہ بیک وقت حرمِ کعبہ اور   حرم القدس الشریف کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھ رہے تھے، اسی طرح مدینہ آنے کے بعد اطاعت الٰہی اور اطاعت ِ رسولؐ کو جانچنے کے لیے جب یہ کہا گیا کہ اپنا رُخ موڑ دو تو حالت ِ نماز ہی میں سب نے اپنا رُخ موڑ دیا۔ دوسری طرف یہودِ مدینہ اور وہ نومسلم جو ماضی میں یہودیت سے وابستہ تھے، ان کے لیے بھی یہ امتحان تھا کہ اب وہ قبلۂ ابراہیمی ؑ کی طرف رُخ کر رہے تھے، اور حضرت موسٰی ؑکے مرکز دعوت کی جگہ بیت اللہ کو یہ مقام دوبارہ حاصل ہورہا تھا۔ اس امتحان نے یہ واضح کردیا کہ کون صدقِ دل سے اللہ تعالیٰ کے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرہرحکم کی بلاحیل وحجت اطاعت کرنے پر آمادہ ہے۔

تحریکی حکمت عملی کے نقطۂ نظر سے یہ واقعہ کئی اہم سوالات کی طرف اشارہ کرتا ہے:

پہلا سوال یہ اُبھرتا ہے کہ آخر تحویلِ قبلہ تقریباً دو سال کے بعد کیوں ہوا، جب کہ مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد ریاستی اختیار کے اظہار کے لیے اسے بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا؟

دوسرا سوال یہ کہ توحید خالص کی دعوت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کو قیامت تک کے لیے شریعت قرار دینے کے باوجود اس رواداری کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ قبلہ جیسی بنیادی چیز کو حکمت اور مصلحت دینی کی بنا پر مؤخر کیا جانا مقاصد شریعت سے مطابقت رکھتا ہے؟

ان سوالات کو اگر آگے بڑھایا جائے تو ایک اہم قابلِ غور پہلو یہ ہوگا کہ کیا کسی بھی   مسلم ملک میں تحریکِ اسلامی اپنے اصل ہدف، یعنی رضاے الٰہی اور اقامت ِ دین پر قائم رہتے ہوئے وقت کی ضرورتوں کے پیش نظر اور دین میں معتبر حکمت اور مصلحت کی بنا پر مؤخر کرسکتی ہے؟ اور راہ ہموار کرنے کے لیے ایسے عناصر کے ساتھ جو دل سے تحریکِ اسلامی کو پسند نہ کرتے ہوں تعاون و اشتراک کرسکتی ہے؟ اس تناظر میں میثاقِ مدینہ کی حیثیت کیا ہوگی، اور کیا اسے ایک عبوری حکمت عملی سے زیادہ اہمیت دینا درست ہوگا؟ ان سوالات کا براہِ راست تعلق مسلم ممالک میں تحریکاتِ اسلامی کے سیاسی عمل کے ساتھ ہے اور جب تک ان پر کھلے ذہن اور جذبات اور تعصبات سے بلند ہوکر غور نہ کرلیا جائے تحریکاتِ اسلامی بہت سے مغالطوں کا شکار ہوسکتی ہیں اور اس خطرے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ کم از کم تحریک کے کارکن بغیر گہری فکر کے محض سطحی مسائل پر غور کرکے تحریک کے لائحہ عمل کے بارے میں شک کا شکار ہوسکتے ہیں، اور اس طرح شیطان ان کو اپنی تحریک سے بدظن کرنے حتیٰ کہ فرار تک اُبھار سکتا ہے۔

یہاں پہلی قابلِ غور بات یہ ہے کہ جس طرح مکے میں اوّلین مخاطب مشرکینِ مکّہ تھے، مدینہ منورہ میں اوّلین مخاطب یہود اور ان کے زیراثر اور ان کی روایات سے آگاہ دیگر قبائل کے افراد تھے جو یہود کی طرف رہنمائی کے لیے متوجہ ہوتے تھے۔

قرآن کریم نے ان کو یاد دلایا کہ حضرت ابراہیم ؑ سے لے کر حضرت موسٰی ؑاور حضرت عیسٰی ؑ تک تمام انبیا ؑ کی دعوت کا مرکز توحید تھی۔ اس لیے اسلام کو تسلیم نہ کرنے کا کوئی جواز ان کے پاس نہیں ہے۔

دوسری بات یہ سمجھائی گئی کہ ان کی اپنی کتب میں جس نبیِ برحق صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کی گئی تھی، اس کے آنے کے بعد اور ان نشانیوں کے ظاہر ہونے کے بعد جو اس کی آمد کے بارے میں خود ان کی روایات میں پائی جاتی ہیں، ان کا اس دینِ حق کا انکار دراصل اپنی کتب سے انحراف و بغاوت ہے، اس لیے انھیں اسلام کے قبول کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ جس طرح مکہ میں ۱۳سال تک مشرکینِ مکہ کو اس نئی دعوت پر غور کرنے، سمجھنے اور قبول کرنے کا آزادی کے ساتھ موقع دیا گیا، بالکل اسی طرح اب انھیں مہلت دی گئی کہ وہ مکمل آزادیِ راے کے ساتھ اس عرصے میں دعوتِ حق کو آگے بڑھ کر قبول کرسکیں۔

دوسری جانب اہلِ ایمان کو سمجھانے کے لیے کہ اہلِ کتاب کا اسلام کی حقانیت اور اس کے من جانب اللہ ہونے کا علم رکھنے کے باوجود اپنی ہٹ دھرمی کی بنا پر اسلام کی دعوت کو قبول نہ کرنا، اہلِ ایمان کو پریشان نہ کرے ۔ جو لوگ دنیا کی وقتی منفعت کے بدلے آخرت کی ہمیشہ رہنے والی زندگی کا سودا کرلیتے ہیں، ان کے ذہن مائوف، آنکھیں روشنی سے محروم اور کان سماعت کے لیے بند ہوجاتے ہیں۔ ان کے دل پتھر ہوجاتے ہیں ، ان ہٹ دھرم اہلِ کتاب کی شقاوت قلبی،   قبولیت ِ دعوت میں مزاحم ہوتی ہے، اس لیے عموماً قصور دعوتِ حق کا نہیں ان ظالموں کا اپنے کانوں، آنکھوں اور دلوں کو غلافوں میں لپیٹ لینے کا ہوتا ہے۔

اس حقیقت ِنفس الامری کے باوجود تقریباً دو سال تک تحویلِ قبلہ کو مؤخر کیا گیا تاکہ   اتمامِ حجت ہوسکے۔قرآنِ کریم کی اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر دعوتِ اسلامی اپنی تمام حقانیت کے باوجود ۷۰ برسوں میں وہ مقصد حاصل نہ کرسکی، جو اس کی دعوت کی بنیاد ہے، یعنی اقامت دین اور حاکمیت ِ الٰہیہ کا قیام تو اس میں حیرت، افسوس اور مایوسی کا کیا سوال! ثانیاً: اگر حکمت ِدینی اور مصلحت ِ دینی یہ مطالبہ کرتی ہے کہ مدینہ کے اہلِ کتاب کے ساتھ میثاق پر دستخط ہوں تو کیا ایک اعلیٰ تر مقصد کے حصول کے لیے دیگر تنظیموں کے ساتھ وقتی اور متعین مدت کے لیے میثاق اور معاہدے کرنا دین کے اصولوں کے منافی ہوسکتا ہے؟

مزید یہ کہ اُمت مسلمہ کے فرضِ منصبی کی ادایگی، یعنی شہادت علی الناس کے لیے کیا یہ ضروری نہ ہوگا کہ اس دور کے مؤثر ترین ذرائع کو اس کام کے لیے استعمال کیا جائے جن میں   ایوانِ نمایندگان میں پہنچ کر حق کا کلمہ بلند کرنا اور حکومتی ذرائع کے توسط سے دین کی فکر کا پیش کیا جانا مرکزی مقام رکھتے ہیں۔ شہدا علی الناس بننے کے لیے ضروری ہے کہ ان تمام وسائل کا استعمال   اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے دین کی صداقت کے اظہار کے لیے کیا جائے۔ یہ وہ امانت ہے جسے پہاڑوں نے اُٹھانے سے انکار کر دیا تھا لیکن جسے اللہ تعالیٰ اپنے انعام کے طور پر اپنے بندوں کو دیتا ہے۔ یہ اس کی میراث ہے جو اس کے عابد بندوں کو یہاں اور آخرت میں ملتی ہے۔

تحریکاتِ اسلامی کے کارکنوں کو قرآن و سنت کے سایے میں اپنے دور کے مطالبات کے پیش نظر آگے بڑھ کر ایسے معاہدے بھی کرنے ہوں گے، جو وقت کی ضرورتوں کی روشنی میں متعین اور محدود اہداف کے حصول کے لیے ہوں اور بالآخر جن کا مقصد دین کا قیام ہو۔

تحریکاتِ اسلامی کے کارکنوں کو تنقیدی نگاہ سے اپنی حکمت عملی کا جائزہ لینا ہوگا اور کسی مداہنت اور اصولوںسے انحراف کیے بغیر، اعلیٰ تر مقاصد کے حصول کے لیے وقتی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ یہی دین کا مدعا ہے اور یہی دین کی راست حکمت عملی ہے۔

تحویلِ قبلہ کے حکم کے سیاق و سباق پر غور کیا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے منصب ِ امامت سے معزول کیے جانے کا بنیادی سبب ان کا کتمانِ حق تھا [البقرہ۲: ۱۴۰]، اور اُمت مسلمہ کو یہ منصب سونپنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ تمام انسانوں پر گواہ بنا دیے جائیں اور وہ حق کی اُس شہادت کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفسِ نفیس دی، اقوامِ عالم تک پہنچانے کے لیے ذمہ دار اور جواب دہ بنا دیے جائیں [البقرہ۲: ۱۴۳]۔ اس اہم منصب پر فائز ہونے اور اللہ تعالیٰ کی نصرت سے مدینے میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد یہ جانتے ہوئے کہ یہود کی تاریخ مسلسل وعدہ خلافی، چکمے دینے اور دوعملی کی ہے، دوبارہ اتمامِ حجت کے لیے تقریباً دوسال یہودِ مدینہ کو یہ بات سمجھنے کا عملی موقع دیا گیا کہ دین اسلام، دین ابراہیمی ہے اور ان کی  فلاح اسی میں ہے کہ وہ بھی اس دین کو قبول کرلیں۔ جب اتمامِ حجت ہوگئی تو پھر تبدیلیِ قبلہ کے ذریعے یہ پیغام پہنچا دیا گیا کہ اب مسلمان اور یہود ایک اُمت نہیں بن سکتے بلکہ یہ دو الگ الگ ملّتیں ہیں اور دونوں کے قبلے جدا ہیں۔

ان آیاتِ مبارکہ پر غور کرنے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ دعوتی مصالح کے   پیش نظر ایک محدود اور متعین عرصے کے لیے ان افراد اور گروہوں سے بھی سیاسی اتحاد کیا جاسکتا ہے جن کے مقاصد میں کُلی اشتراک نہ ہو۔ یہ حاکمیت ِ الٰہیہ کے قیام کے لیے سیاسی جدوجہد کے    جملہ پہلوئوں میں سے ایک ہے اور نظریاتی سیاست ہی کا ایک حصہ ہے۔

قرآنِ کریم شہادتِ حق کے تصور کو تفصیل سے ہمارے سامنے رکھتا ہے۔ ایک جانب  دین اسلام کی تعلیمات کو تمام انسانوں تک پہنچانا شہادتِ حق ہے تو دوسری جانب اسلامی معاشرے اور ریاست کے قیام کے لیے ایسے افراد کو منتخب کرنا بھی شہادتِ حق کی ایک شکل ہے، جو ذمہ داری اُٹھانے کے اہل ہوں:

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًام بَصِیْرًاo (النساء ۴:۵۸)،مسلمانو،اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے، اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔

ایک مسلم معاشرے اور مملکت میں قیادت کے انتخاب کے حوالے سے بھی قرآنی ہدایات دوٹوک اور واضح ہیں۔ اگر ایک شخص کسی کو یہ جاننے کے باوجود کہ وہ ایک منصب یا ذمہ داری کی اہلیت نہیں رکھتا، اسے ووٹ دیتا ہے تو یہ قرآنی حکم کی صریح خلاف ورزی ہے اور بقول مفتی محمد شفیعؒ گناہِ کبیرہ ہے۔ حق کی شہادت اسی وقت دی جاسکتی ہے جب مختلف مناصب پر وہی لوگ مقرر کیے جائیں جن میں امانت، صدق، شفافیت، عدل، توازن، اللہ کا خوف، اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس اور اُمت مسلمہ کے مفاد کے تحفظ کی فکر پائی جاتی ہو۔

جس طرح اللہ کے حقوق میں یہ بات شامل ہے کہ صرف اس کی عبادت کی جائے،     اسی طرح انسانوں کے حقوق میں یہ بات شامل ہے کہ انھیں امانت کے ساتھ ادا کیا جائے اور ہرمعاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ انصاف اور آخری سند اور معیار اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا ہو۔ اُمت مسلمہ اور خصوصاً پاکستان کا بنیادی مسئلہ نااہل افراد کا ناجائز ذرائع سے حکومت پر قابض ہوجانا ہے۔ تبدیلی کے ذرائع ، ایک سے زائد ہوسکتے ہیں، مگر جو ذریعہ یا ذرائع استعمال کیے جائیں، ان کے لیے شرط صرف ایک ہے کہ وہ اسلام کے دیے ہوئے راستے کے مطابق ہوں اور فساد فی الارض کا ذریعہ نہ بنیں۔

موجودہ حالات میں دعوتی حکمت اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ پاکستان کے عوام اپنے ووٹ کے حق کو امانت کے احساس کے ساتھ اہل افراد کو قیادت کے منصب پر لانے کے لیے استعمال کریں۔ پاکستان کا المیہ ہی یہ ہے کہ عوام قیادت کی ناکامیوں اور بے وفائیوں کا گلہ تو کرتے ہیں (اور بجا طور پر کرتے ہیں) لیکن اس امرپر غور نہیں کرتے کہ قیادت کے انتخاب کے وقت خود انھوں نے کہاں تک اپنی ذمہ داری ادا کی ہے۔ اگر وہ برادری، تعلّقِ خاطر، سیاسی مفاد پرستی، لالچ، دھونس یا ایسے ہی دوسرے عوامل کے زیراثر ووٹ دیتے ہیں تو پھر قیادت کی غلط کاریوں کی     ذمہ داری سے اپنے کو کیسے بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں۔ ووٹ کا صحیح استعمال ہی تبدیلی کا مؤثر ذریعہ ہے۔ بدعنوان، مفاد پرست اور نااہل قیادت سے نجات کا ذریعہ انتخابات میں اس فرد اور جماعت کو ووٹ دینا ہے جس کے نمایندے باصلاحیت ہوں اور صاحب ِ کردار ہوں۔ قیادت کی سب سے ضروری صفات صلاحیت اور صالحیت ہیں۔ یہ دین کا تقاضا ہے اور اچھی سیاست کے فروغ کے لیے سب سے ضروری امر ہے کہ اچھے اور باکردار افراد کو ذمہ داری کے مناصب پر لایا جائے، اور ان کا ایسی جماعت سے وابستہ ہونا بھی ضروری ہے جس کا ریکارڈ قابلِ بھروسا ہو، جس کا ماضی بے داغ ہو، اور جس میں احتساب کا نظام موجود ہو۔

تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کا فرض ہے کہ خود بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں اور اپنے حلقے میں دوسرے تمام ووٹروں کو اس بات کو سمجھانے میں سردھڑ کی بازی لگادیں کہ اصلاح اور تبدیلی کا عمل ووٹ کے صحیح استعمال کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہ دین اور اچھی سیاست دونوں کے لیے  کم سے کم تقاضا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت کی واضح ہدایت یہ ہے کہ امامت اور ولایت کی ذمہ داری صرف ان کے سپرد کی جائے جو ایمان، علم، دیانت، عدالت اور اعلیٰ صلاحیت کے حامل ہوں۔ قیادت کے لیے علم اور جسم یعنی صلاحیت اور قوتِ کار کو ضروری قرار دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود ؑکو قیادت پر فائز کیا تو اس کی یہی وجہ بتائی، فرمایا:

  •  اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰہُ عَلَیْکُمْ وَ زَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ ط (البقرہ ۲:۲۴۷) ، اللہ نے تمھارے مقابلے میں اس کو منتخب کیا ہے اور اس کو دماغی و جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا کی ہیں۔

راست بازی، اعلیٰ کردار، حق شناسی اور دامن کے بے داغ ہونے کو ضروری قرار دیا:

  •  اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْط (الحجرات ۴۹:۱۳)،درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔
  •  لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ (البقرہ ۲:۱۲۴) ،میرا وعدہ ظالموں کے لیے نہیں ہے۔

انصاف پر قائم رہنا اور سب کے درمیان انصاف سے معاملہ کرنا قیادت کے لیے    ازبس ضروری ہے۔

  •  کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ(النساء ۴:۱۳۵) ،انصاف پر قائم رہنے والے، اللہ کے لیے گواہی دینے والے رہو اگرچہ اپنی ذات کے خلاف یا والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
  •  وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ(البقرہ ۲:۱۸۸)، اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقہ سے کھائو۔

یہی وہ صفات ہیں جن کو خود پاکستان کے دستور میں سیاسی قیادت کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے اور جن کا ذکر دفعہ۶۲ میں ضروری صفات کی حیثیت سے اور دفعہ ۶۳ میں قیادت کو نااہل بنانے والی صفات کے طور پر کیا گیا ہے۔ ان کے چند اہم جملے ہم یہاں نقل کر رہے ہیں تاکہ    ان سے ہر ووٹر کو روشناس کرایا جائے اور انھیں سمجھایا جائے کہ اگر وہ اپنے ملک کے حالات کی اصلاح چاہتے ہیں تو ووٹ دیتے وقت اُمیدوار کو اس کسوٹی پر جانچیں اور اس احساس کے ساتھ اپنے ووٹ کو استعمال کریں کہ وہ ایک امانت ہے جسے صرف امانت دار کو دینا ان کا فرض ہے۔ نیز ووٹ ایک شہادت اور گواہی ہے کہ جسے آپ ووٹ دے رہے ہیں اس کے بارے میں آپ یہ گواہی دے رہے ہیں کہ وہ اس ووٹ کا مستحق ہے، اور ووٹ ایک قسم کا وکالت نامہ ہے کہ آپ اپنی طرف سے ایک شخص کو یہ اختیار دے رہے ہیں کہ وہ آپ کے اور قوم کے معاملات کو آپ کی طرف سے ٹھیک ٹھیک انجام دے___ اور آپ کی دنیا اور آخرت میں ان تینوں اعتبار سے ووٹ کے استعمال کے باب میں جواب دہی ہوگی۔

خبردار! یہ لوگ ووٹ کے اھل نھیں

  •  دفعہ ۶۲

(د) وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور ہو۔

(ہ) وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہ رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نہ ہو، نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو۔

(و) وہ سمجھ دار، پارسا نہ ہو اور فاسق ہو اور ایمان دار اور امین نہ ہو، عدالت نے اس کے برعکس قرار نہ دیا ہو۔

(ز) اس نے قیامِ پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام کیا ہو یا نظریۂ پاکستان کی مخالفت کی ہو۔

  •  دفعہ ۶۳

(ز) وہ کسی مجاز سماعت عدالت کی طرف سے کسی ایسی راے کی تشہیر کے لیے سزایاب   رہ چکا ہو، یا کسی ایسے طریقے پر عمل کر رہا ہو، جو نظریۂ پاکستان یا پاکستان کے اقتدارِ اعلیٰ، سالمیت یا سلامتی یا اخلاقیات، یا امن عامہ کے قیام یا پاکستان کی عدلیہ کی دیانت داری یا آزادی کے لیے مضر ہو، یا جو پاکستان کی مسلح افواج یا عدلیہ کو بدنام کرے یا اس کی تضحیک کا باعث ہو، تاوقتیکہ اس کو رہا ہوئے پانچ سال کی مدت نہ گزر گئی ہو، یا

(ح) وہ کسی بھی اخلاقی پستی کے جرم میں ملوث ہونے پر سزایافتہ ہو، جس کو کم از کم دوسال سزاے قید صادر کی گئی ہو، تاوقتیکہ اس کو رہا ہوئے پانچ سال کا عرصہ نہ گزر گیا ہو، یا

(ن) اس نے کسی بنک، مالیاتی ادارے، کوآپریٹو سوسائٹی یا کوآپریٹو ادارے سے اپنے نام سے اپنے خاوند یا بیوی یا اپنے زیرکفالت کسی شخص کے نام سے دوملین روپے یا اس سے زیادہ رقم کا قرضہ حاصل کیا ہو جو مقررہ تاریخ سے ایک سال سے زیادہ عرصے کے لیے غیرادا شدہ رہے یا اس نے مذکورہ قرضہ معاف کرالیا ہو، یا

(س) اس نے یا اس کے خاوند یا بیوی نے یا اس کے زیرکفالت کسی شخص نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرتے وقت چھے ماہ سے زیادہ کے لیے ۱۰ ہزار روپے سے زائد رقم کے سرکاری واجبات اور یوٹیلٹی اخراجات بشمول ٹیلی فون، بجلی،گیس اور پانی کے اخراجات ادا نہ کیے ہوں۔

تحریکی کارکنوں پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ عوام کو دستور کی شق کی روح اور معنی سے متعارف کرائیں اور نئے نظام کے قیام کے لیے آگے بڑھ کر صرف ایسے مخلص افراد کو منتخب کریں جو اپنے وعدوں پر قائم رہنے والے ہوں، جو اللہ کے حضور جواب دہی کے احساس کے ساتھ اس کی مخلوق کی خدمت کو اپنا فرض سمجھیں، اور اپنے نفس کے بہکانے میں آنے کو تیار نہ ہوں۔           

تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کو یہ امر بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ انتخابات ہمارے لیے جہاں نئی اور بہتر قیادت کو برسرِاقتدار لانے کی فیصلہ کن جدوجہد کا اہم ترین پہلو ہیں، وہیں خود عوام کی تعلیم، ان میں سیاسی، نظریاتی اور اخلاقی شعور کو بیدار کرنے، ان میں حق و باطل اور خیروشر میں   تمیز اور تبدیلی اور اصلاح کے عمل میں شرکت کے لیے باہر نکلنے، راے عامہ کو تیار کرنے اور اپنا  فرض ادا کرنے کا داعیہ پیدا کرنے کا مؤثر ذریعہ ہیں۔ یہ ہماری دعوت کا ایک اہم پہلو ہے اور   ان شاء اللہ اس سلسلے میں صحیح نیت کے ساتھ مسلسل جدوجہد کا شمار عبادت اور جہاد میں شرکت کے زمرے میں ہوگا۔ وما توفیقی الا باللّٰہ۔

 

۱۹۷۱ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے الم ناک سانحے کے نتیجے میں بنگلہ دیش تشکیل پایا۔   آج ۴۲برس بعد، یہی بنگلہ دیش ایک بار پھر ایک خطرناک خونیں ڈرامے کا اسٹیج بن گیا ہے۔بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کے علَم بردار ادارے اودھی کار (Odhikar) نے اپنے ۵مارچ ۲۰۱۳ء کے اعلامیے میں اس تلخ حقیقت کا اظہار اس طرح کیا ہے:

اودھی کار بنگلہ دیش کی تاریخ میں قتل و غارت کی انتہائی گھنائونی لہر اور تشددکے واقعات پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں پولیس اور دوسری قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے تشدد پر قابو پانے کے عذر کی بنا پر ۵فروری اور ۴مارچ ۲۰۱۳ء کے درمیان بلاامتیاز گولی چلائی اور کم سے کم ۹۸ افراد کو جن میں سیاسی کارکن، عورتیں اور بچے اور عام شہری شامل ہیں، مار دیا۔انسانی حقوق کو بڑے پیمانے پر پامال کیا جا رہا ہے۔ جس وقت یہ بیان جاری کیا جارہا ہے، مزید اموات کی خبریں آرہی ہیں۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۱۶۶، زخمی ہونے والوں کی ۳ہزار۸سو ۲۸ اور جیلوں میں محبوس کیے جانے والوں کی تعداد ۲۰ہزار سے متجاوز ہوچکی ہے اور جیساکہ بنگلہ دیش کے ایک ماہرقانون بیرسٹر نذیراحمد نے امریکا اور انگلستان میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ پولیس کی جانب سے اندھادھند  قتل و غارت، تشدد اور انسانی حقوق کی پامالی کی یہ بدترین مثال ہے جس کا کوئی جواز دستور اور قانون میں موجود نہیں۔ دوسری جانب حزبِ اختلاف کی قائد خالدہ ضیا نے اپنی ۲مارچ ۲۰۱۳ء کی پریس کانفرنس میں اس اجتماعی قتل (mass killing) کو نسل کُشی (genocide) اور انسانیت کے خلاف جرم (crime against humanity)  قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ: حکومت جھوٹے مقدمات کا ڈراما رچا کر، سیاسی مخالفین کے قتلِ عام جیسے گھنائونے جرم کا ارتکاب کررہی ہے۔

بنگلہ دیش حکومت کے اس اقدام نے ملک کو اس کی تاریخ کے خطرناک اور خونیں تصادم سے دوچار کردیا ہے اور ملک ہی میں نہیں، پوری دنیا میں بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ حالات کو جس رُخ پر دھکیلا جا رہا ہے، اس کے بڑے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے پر پوری دیانت کے ساتھ، اصل حقائق اور عالمی حالات کی روشنی میں گفتگو کی جائے، اور حق و انصاف اور عالمی قانون اور روایات کے مسلّمہ اصولوں کی روشنی میں حل کی راہیں تلاش کی جائیں۔ جب مسئلہ انسانی حقوق کا، انسانوں کے جان و مال اور عزت کی حفاظت کا، اور علاقے میں امن اور سلامتی کا ہو تو پھر وہ مسئلہ ایک عالمی مسئلہ بن جاتا ہے اور اسے کسی ملک کے اندرونی معاملات تک محدود نہیں سمجھا جاسکتا۔ بات اور بھی سنگین ہوجاتی ہے جب ۴۲سال کے بعد ایک  طے شدہ مسئلے (settled issue) کے مُردہ جسم میں جان ڈال کر سیاسی انتقام اور نظریاتی کش مکش کو ہوا دی جائے اور ملک کے سکون کو درہم برہم کردیا جائے۔۱؎

۱-            بھارت کے بائیں بازو کے مشہور لبرل مجلہ اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی میں ایک ہندو دانش ور نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ بنگلہ دیش میں ہونے والے ان مقدمات اور سزائوں پر ملک گیر اور خون آشام ردعمل کے جو سیاسی اور نظریاتی پہلو ہیں، وہ بنگلہ دیش کی معاشی ترقی اور سماجی ارتقا پر بُری طرح اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ بیگم خالدہ ضیا نے ان مقدمات کو غیرمنصفانہ اور حسینہ واجد کے سیاسی انتقام کے ایجنڈے کا حصہ قرار دیا ہے۔ مقالہ نگار کے مطابق عوامی لیگ اگلے انتخابات کے سلسلے میں بی این پی اور جماعت اسلامی کے اتحاد سے خائف ہے اور جماعت کو انتخابات سے پہلے نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔ لیکن اس تناظر میں جو ایک اہم نظریاتی پہلو رُونما ہو رہا ہے اس کی طرف بھی اس نے اپنے اضطراب کا اظہار اس طرح کیا ہے: یہ صورتِ حال ، بنگلہ دیش میں حریف نظریاتی قوتوں ___ سیکولر قوم پرستی اور اسلامی انقلابیت کے درمیان ایک نئے   پُرتشدد تصادم کے مرحلے کی طرف نشان دہی کرتی ہے۔ (ملاحظہ ہو: The Unfinished Revolution in Bangladesh، از Subir Bhaumik، ۲۳ فروری ۲۰۱۳ء، ص ۲۷-۲۸)

جنگی جرائم کے مقدمات کیوں؟

بنیادی سوال ہی یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام کے ۴۲سال بعد یہ خونیں ڈراما کیوں رچایا جارہا ہے؟ جماعت اسلامی بنگلہ دیش مارچ ۱۹۷۹ء سے منظم انداز میں اور اپنے دستور کے مطابق، اپنے جھنڈے اور اپنے انتخابی نشان تلے اور اپنی قیادت کی رہنمائی میں ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے سرگرمِ عمل ہے۔ اس اثنا میں پانچ بار (۱۹۸۶ء، ۱۹۹۱ء، ۱۹۹۶ء، ۲۰۰۱ء، ۲۰۰۸ء)   ملکی انتخابات میں حصہ لے چکی ہے اور پارلیمنٹ میں مؤثر خدمات انجام دیتے ہوئے اپنا کردار   ادا کرچکی ہے، نیز ایک بار حکومت کا حصہ بھی رہی ہے۔ ۱۹۹۰ء میں جنرل حسین محمد ارشاد کی حکومت کے خلاف عوامی جمہوری مزاحمتی جدوجہد میں بنگلہ دیش جماعت اسلامی خود عوامی لیگ کی ایک حلیف جماعت کی حیثیت سے پانچ جماعتوں کے اتحاد کا حصہ رہی ہے۔

 آخر اب ایسا کیا واقعہ ہوگیا کہ ۲۰۱۰ء میں عوامی لیگ کی موجودہ حکومت نے نام نہاد International Crimes Tribunal قائم کیا۔ جماعت کے نو قائدین بشمول سابق امیرجماعت، ۹۱سالہ پروفیسر غلام اعظم، امیرجماعت مولانا مطیع الرحمن نظامی اور نائب امیرجماعت علامہ دلاور حسین سعیدی اور بی این پی کے دوقائدین پر مقدمہ قائم کیا۔ ۲۰۱۳ء کے آغاز میں علامہ دلاور حسین سعیدی کو سزاے موت، اور عبدالقادر مُلّا (اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل بنگلہ دیش جماعت اسلامی) کو  عمرقید کی سزا سنائی گئی۔معروف اسلامی اسکالر (مولانا) ابوالکلام آزاد (جو ایک زمانے میں  جماعت اسلامی سے وابستہ رہے)اور آج کل ٹیلی ویژن پر قرآن پاک کا درس دینے کی وجہ سے بہت مقبول ہیں، انھیں بھی، ان کی غیرحاضری میں، سزاے موت سنائی گئی۔پھر حکومت کی سرپرستی میں شاہ باغ سکوائر (چوک) میں احتجاج کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر شاہ باغ اجتماع کو منظم کرنے والے گروہ نے اسلام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نازیبا، ہتک آمیز اور بے سروپا الزامات لگائے۔ ایک منصوبے کے تحت کچھ مقامات پر ہندوئوں پر حملے کیے گئے اور    ان کے مندر جلائے گئے۔ ساری شہادتیں اس طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ یہ سب عوامی لیگ کے جیالوں نے کیا۔ فطری طور پر ان ظالمانہ اور انتقامی کارروائیوں کے خلاف اسلامی اور جمہوری قوتوں نے بھرپور احتجاج کیا اور حالات نے وہ کروٹ لی جو موجودہ سنگین کیفیت تک پہنچ گئی ہے۔

 الحمدللہ جماعت اسلامی کا، اس کی قیادت کا اور اس کے کارکنوں کا دامن ہر ظلم، قتل و غارت گری، فساد فی الارض، لُوٹ مار اور اخلاقی جرائم سے پاک ہے۔ جماعت نے ہمیشہ مبنی برانصاف ٹرائل کا خیرمقدم کیا ہے اور ۱۹۷۱ء اور اس کے بعد الم ناک واقعات کے بارے میں اس نے یہی کہا ہے۔ دسمبر ۱۹۷۱ء تک متحدہ پاکستان کا دفاع اور اس کی حفاظت اور حمایت اور اس پر بھارتی جارحیت کا مقابلہ ایک الگ چیز ہے اور عام شہریوں پر خواہ ان کا تعلق کسی نسل یا کسی مذہب سے ہو، ظلم اور  زیادتی ایک الگ معاملہ ہے۔ دونوں کو گڈمڈ کرنا اصولِ انصاف، بین الاقوامی قانون اور خود ملک کے دستور کے خلاف ہے۔

جماعت اسلامی ہمیشہ مبنی بر انصاف ٹرائل کی حامی رہی ہے اور آج بھی ہے لیکن انصاف کا تقاضا ہے کہ ٹرائل ہراعتبار سے شفاف ہو، مسلّمہ ضابطہ قانون اور انصاف کے تسلیم شدہ عالمی معیارات اور طریق کار کے مطابق ہو۔ ہرشخص کو دفاع کا حق ہو اور بین الاقوامی معیار پر پورے اُترنے والے ججوں کے ذریعے اور عالمی مبصرین کی موجودگی میں ہو، جیساکہ اقوام متحدہ کے طے کردہ ضابطے کے تحت ہیگ کی International Criminal Court کر رہی ہے۔ لیکن کنگرو کورٹ (بے ضابطہ عدالت، جہاں قانون کی دانستہ غلط تعبیر کی جاتی ہے)کے ذریعے دستور، قانون اور انصاف کے ہر مسلّمہ اصول کو پامال کر کے جو ڈراما رچایا جا رہا ہے، وہ ایک صریح ظلم ہے جسے کسی طور برداشت نہیں کیا جاسکتا۔

جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک گھنائونا سیاسی کھیل ہے جس کا مقصد حقیقی جمہوری اور اسلامی قوتوں کو انتقام کا نشانہ بنانا ہے، جس کا ہدف عوامی لیگ کی مقابل قوتوں کو کمزور کرنا اور انھیں سیاسی میدان سے باہر کرنا ہے، اور جس کے ڈانڈے بنگلہ دیش میں بھارت کے سیاسی عزائم اور عالمی سطح پر اسلامی احیا کی تحریکات کے پَر کاٹنے کے ایجنڈے سے ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ   بنگلہ دیش میں جو کچھ ہورہا ہے، اسے عالمی پس منظر اور اس کے نتیجے میں رُونما ہونے والے    ان حالات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے جن سے بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کے اس اندازِحکمرانی کی بنا پر بنگلہ دیش کی آزادی، معاشرت، معیشت اور سیاست سب کو وجودی خطرہ (existential threat) لاحق ہوگیا ہے۔

بدلتا ھوا منظرنامہ اور بنگلہ دیش

اقوامِ عالم کی موجودہ صورت حال پر ایک اجمالی نگاہ دوڑانے سے یہ نکتہ واضح ہوجاتا ہے کہ ہم ایک ایسے عہد میں سانس لے رہے ہیں اور معمولاتِ زندگی کے فیصلے کر رہے ہیں جو سردجنگ کے خاتمے کے بعد کی دنیا سے بہت مختلف ہے۔ بظاہر جنگوں سے تھکا ہارا انسان اب  امن کی تلاش میں سرگرداں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نظریات کی جنگ کے مقابلے میں میزائل اور ڈرون ٹکنالوجی کی حیثیت ثانوی ہوکر رہ گئی ہے۔ اسلامی احیا ایک عالمی لہر کی صورت اختیار کر رہا ہے اور اسلام کے پھر سے قوت بن جانے کا زمانہ قریب محسوس ہو رہا ہے۔ اس انتہائی بنیادی اور اہم تبدیلی کو محسوس بھی کیا جا رہا ہے اور اُس کے متنوع ممکنہ اثرات و مضمرات کو سامنے رکھ کر مختلف عالمی قوتیں اپنا اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ مسلمان عوام کے جذبات اور عزائم ایک سمت میں ہیں اور عالمی استعمار اور لبرل سیکولر قوتیں اپنا کھیل کھیل رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں اس اہم تبدیلی کے دروازے پر کھڑے اہلِ اسلام کو جگانے والوں کی مساعی کے برگ و بار لانے کا وقت قریب آرہا ہے، وہیں اس کے ساتھ متوازی واقعات بھی رُونما ہورہے ہیں۔ ایک طرف آزادی اور حُریت کا عنوان اسلامی تحاریک کے جمہوری اظہار سے جھلک رہا ہے، تو دوسری طرف ایک بڑا سامراج اس تبدیلی کو روکنے اور فکری و نظری اُلجھائو پیدا کرنے میں بھی پوری توانائیاں صرف کر رہا ہے۔ عالمِ اسلام کی بیدار قیادت کو نئی مشکلات کے بھنور میں ڈالنے، ان کی شخصیت اور کردار کو اخلاقی اعتبار سے چیلنج کرنے اور ان کو اپنے نصب العین کی جانب تیزی سے پیش قدمی سے روکنے کے اقدامات خود مسلم دنیا کے اندر سے اُٹھائے جارہے ہیں۔ ایسا ہی منظرنامہ آج بنگلہ دیش میں ترتیب دیا جارہا ہے۔

ہم اس حقیقت سے بہت اچھی طرح آگاہ ہیں اور ہمیں بجا طور پر اس پر فخر بھی ہے کہ بنگلہ دیش نہ صرف ہمارا برادر اسلامی ملک ہے بلکہ دنیا میں تیسرا بڑا اسلامی ملک بھی ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کبھی ایک تھے۔ ایک جسم کے دو بازو! اس طرح وہ ربع صدی رہے۔ مسلم بنگال کو ہی دیکھ لیجیے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا آغاز ڈھاکہ میں ۱۹۰۶ء میں ہوا۔ پاکستان بننے میں، تحریکِ پاکستان کے اُبھرنے اور قوت پکڑنے میں، حتیٰ کہ قراردادِ پاکستان (لاہور ۱۹۴۰ء) اور قرارداد دہلی (۱۹۴۶ء) پیش کرنے والوں میں مسلم بنگال کے مسلم رہنما اے کے ایم فضل الحق اور حسین شہید سہروردی کا کردار ناقابلِ فراموش تاریخی حقائق ہیں۔ برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کو ایک نمایندہ سیاسی پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور مسلم لیگ کو منظم کرنے میں بھی باقی ہندستان کی طرح بنگال کے مسلم رہنمائوں اور عوام کی گراں قدر مساعی کا نمایاں اور فیصلہ کن کردار رہا ہے۔ اس کردار نے روزِاوّل ہی سے برعظیم پاک و ہند میں اسلام اور مسلمانوں کا مضبوط حوالہ بن کر آزادی کے حصول اور ہندو کی غلامی سے نجات کے لیے یہاں کے مسلمانوں کے راستے کشادہ کیے ہیں۔

یہ حقیقت تلخ سہی، تاریخ کی ایک حقیقت ہے کہ دونوں بازو دو الگ الگ ملکوں میں تبدیل کردیے گئے ہیں۔ اس مقام تک جاتے جاتے دونوں طرف کے باشندوں کو انتہائی تکلیف دہ اور ناپسندیدہ کش مکش سے گزرنا پڑا۔ یہ ایسی جغرافیائی علیحدگی تھی جس میں دونوں بھائیوں کی غلطیاں اور خطاکاریاں اپنی جگہ، لیکن بالآخر ان کو ایک دوسرے سے کاٹ دینے میں بیرونی قوتوں کا کردار  فیصلہ کن تھا۔ مغربی پاکستان کی فوجی قیادتوں کے کچھ عناصر کا کردار بلاشبہہ شرم ناک، ظالمانہ اور عاقبت نااندیشانہ تھا، لیکن بھارت کی سیاسی ریشہ دوانیوں اور جارحانہ فوج کشی سے کیسے صرفِ نظر   کیا جاسکتا ہے؟ بالآخر جو ہونا تھا وہ ہوا، لیکن اس سانحے کے باوجود زندگی نے نئی کروٹ لی۔ جغرافیائی علیحدگی ضرور واقع ہوئی لیکن دو ملکوں کے اس طرح وجود میں آنے کے باوجود، ان کے مابین اسلام کا گہرا رشتہ موجود رہا ہے۔ یہ علیحدگی مشترکہ اقدار اور ایک دوسرے کے لیے تعلق خاطر کو ختم نہ کرسکی اور دونوں نے نئے سفر کے آغاز اور تعلقات کی بحالی کا عزم کیا۔ حالات و واقعات نے اگرچہ بہت گرد اُڑائی اور اپنے پرائے بھی ایسے انداز میں سامنے آئے جو تکلیف دہ اور نامطلوب تھا، لیکن اس زخم کے باوجود پاکستان اور بنگلہ دیش کے باشندوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت موجود رہی اور اب بھی ہے۔

یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام میں  پیش پیش رہنے والی سیاسی جماعت، یعنی عوامی لیگ کو مسلسل ایسی پذیرائی نہ مل سکی جو عموماً آزادی کی تحریکوں کے ہراول دستوں کو ملا کرتی ہے۔ یہ جماعت ابتدا میں بھی صاف شفاف انداز میں  پولنگ بوتھ کے ذریعے اکثریت نہ پاسکی اور اب بھی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی کے اکٹھے ہوجانے سے اقتدار سے باہر ہوجاتی ہے۔ اس میں اس جماعت کی اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کا حصہ بہت بڑا ہے، نیز اس پر بھارت کا اثرورسوخ جس طرح سایہ فگن رہا اور ہے، وہ بھی بنگلہ دیش کے مسلمانوں کے لیے اضطراب کا باعث رہا ہے۔اس کے باوجود ہم بنگلہ دیش کی آزادی ، خودمختاری اور حاکمیت اعلیٰ کا احترام کرتے ہیں۔ وہاں کے سیاست دانوں، عوام اور دانش وروں کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے دستور اور قانون کے مطابق اپنے معاملات طے کریں اور اپنے تنازعات کا حل انھی کے فریم ورک میں تلاش کریں۔ یہ حقیقت بھی کسی طرح سے نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ وہاں کی حکومت کو بھی مسلمہ بین الاقوامی اقدار، کنونشنز اور معاہدوں کے مطابق اپنے آئین و قانون کی تشریح کا حق  اسی طرح سے حاصل ہے جس طرح کسی بھی ملک کی آزاد عدلیہ اس کی تعبیر و تشریح کا حق رکھتی ہے۔

بنگلہ دیش جماعت اسلامی : تین اھم پھلو

بنگلہ دیش جماعت اسلامی اپنے آزاد وجود اور خصوصی تشخص کے ساتھ، جنوبی ایشیا میں سرگرمِ عمل جماعت اسلامی کی ہمہ گیر نظریاتی تحریک کا ہی تسلسل ہے۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال، ہر ملک میں جماعت اسلامی کے نام کی مستقل بالذات تحریکیں کام کر رہی ہیں۔ ان تمام ممالک میں جماعت اسلامی کے نظریے اور کام میں اصولی مشترکات کے باوجود، ہر ایک کی مخصوص جغرافیائی، قومی اور دستوری انفرادیت ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔ بنگلہ دیش جماعت اسلامی کا نصب العین اور اس کا نظریاتی کردار بلاشبہہ پاکستان یا جنوبی ایشیا میں کہیں بھی جماعت اسلامی کے کام اور نظریاتی پہچان سے مختلف نہیں ہے۔

یہ تمام تحریکیں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے پیغام کی قاصد ہیں۔ ان کے لٹریچر میں بھی ایک گونہ اشتراک ہے اور ان کے درمیان بھائی چارہ بہت ہی قیمتی سرمایہ ہے، لیکن اس کے ساتھ ہرایک کا نظم، دستور اور قیادت مختلف اور مکمل طور پر آزاد ہے اور اپنے ملکی حالات، ضروریات اور اہداف کی روشنی میں ہر ایک اپنے پروگرام اور ترجیحات کے مطابق سرگرمِ عمل ہے۔ نظریاتی ہم آہنگی کے باوجود سیاسی آرا اور پالیسیوں میں ہر ایک آزاد اور اپنے معاملات میں مکمل طور پر خودمختار ہے۔ اس کی اہم ترین مثال مشرق وسطیٰ کی مشہورِ زمانہ خلیجی جنگ (گلف وار) ہے جس کے ہرمرحلے  میں بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کا موقف پاکستان کی جماعت اسلامی سے مختلف رہا۔ صدام حسین کے ایران پر حملے اور بش اوّل کے عراق پر حملے پر دونوں کا ردعمل مختلف تھا مگر اس سب کے باوجود صرف برعظیم کی اسلامی جماعتوں ہی میں نہیں، دنیا کی تمام ہی اسلامی تحریکات میں نظریاتی اور روحانی طور پر ایک گونہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے جو اسلام کے دامن رحمت سے وابستہ ہونے کا ثمرہ ہے۔

جب ہم پاکستان میں بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے بارے میں بات کرتے ہیں تو تین گہرے اور مضبوط حوالے ایسے ہیں جن کی بنیاد پر ہم یہ استحقاق رکھتے ہیں کہ وہاں رُونما ہونے والے ایسے واقعات پر محاکمہ کریں جو حق و انصاف کے خلاف ہوں، جو مہذب معاشرے کے مسلّمہ اصولوں کو پامال کرنے کا سبب ہوں، جس سے انسان اپنے جائز حقوق سے محروم ہورہے ہوں اور جو عالمی راے عامہ کو اضطراب اور بے چینی میں مبتلا کرنے کا باعث ہوں۔ بین الاقوامی اور عالمی سیاسی آداب کی رُو سے یہ صرف ایک استحقاق ہی نہیں، ایک فرض بھی ہے اور خود اپنے برادر ملک بنگلہ دیش سے خیرخواہی کا تقاضا بھی ہے۔ جہاں تک اہلِ پاکستان کا تعلق ہے، ہم تین وجوہ سے ضروری سمجھتے ہیں کہ اس پورے معاملے کے بارے میں اپنی بے لاگ راے کا دلیل اور حقائق کی روشنی میں اظہار کریں اور بنگلہ دیش اور تمام دنیا خصوصیت سے اسلامی دنیا کے ارباب حل و عقد کو اور عامۃ الناس کو حق اور انصاف کے مطابق اپنے اثرات کو استعمال کرنے کی دعوت دیں۔

  •  ان میں سے پہلا حوالہ انسانی حقوق کا ہے۔ انسانیت کی حیثیت پوری دنیا میں ایک ہی ہے۔ یہ مسلّمہ حقیقت ہے۔ اس حیثیت سے وابستہ حقوق ہوں یا فرائض ، ان کی پامالی یا ان سے پہلوتہی پر دوسرے انسان بات کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں۔ ان کمزور اور بے بس انسانوں کے حقوق کے لیے پوری دنیا آواز اُٹھاتی رہتی ہے جن کو دبایا جاتا ہے، استحصال کیا جاتا ہے، انصاف سے بزورِ قوت و اقتدار محروم رکھا جاتا ہے۔ انسانی برادری آواز اُٹھاتی ہے، ہم بھی اس حوالے سے، اسی تناظر میں بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے انسانی حقوق کی پامالی پر فکرمند ہیں، پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں، اور انسانی حقوق کے حوالے سے اس خراب منظرنامے میں تبدیلی چاہتے ہیں۔
  •  دوسرا حوالہ وہ نظریاتی کردار ہے، جس کا تذکرہ ہم نے بنگلہ دیش سمیت جنوبی ایشیا کے ممالک میں اسلامی تحریکات کے مشترکہ تصورِ دین اور تبدیلی کے نظریات کے حوالے سے کیا ہے۔ نظریے اور اقدار پر مشترکہ سوچ نے ہمیں ایک ایسی لڑی میں پرو دیا ہے کہ ہردانہ پہلے دانے سے اور ہرفرد دوسرے فرد سے تقویت اور حوصلہ پاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے خلاف روا رکھا جانے والا سلوک پاکستان میں بھی ہر اس فرد کو مضطرب اور بے چین کیے ہوئے ہے جو اس دین کا پیرو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اضطراب پاکستان ہی میں نہیں، پوری اُمت مسلمہ میں دیکھا جاسکتا ہے اور امامِ کعبہ ہوں یا شیخ الازہر، استاد یوسف القرضاوی ہوں یا ترکی کے صدر عبداللہ گل، ملایشیا کے سابق نائب وزیراعظم انور ابراہیم ہوں یا خود بھارت کی مسلم قیادت، سب مضطرب اور سراپا احتجاج ہیں اور کیوں نہ ہوں۔ کیا ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ ’’مسلمانوں کو باہمی ہمدردی، محبت اور باہمی شفقت میں تم اسی طرح دیکھو گے کہ وہ ایک جسم کی طرح ہیں کہ جس کے کسی ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو اس کا پورا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے‘‘۔ (بخاری، کتاب الادب، حدیث ۶۰۱۱)

ہماری تشویش اور پریشانی کا سبب بہت واضح اور کھلا ہے۔ بنگلہ دیش جماعت اسلامی سے وابستہ قیادت کو مخصوص سیاسی، علاقائی اور بین الاقوامی ایجنڈے پر قربان کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ مخصوص قانون سازی اور مرضی کی عدالتیں بنا کر قائدینِ جماعت کو سزائیں سنائی جارہی ہیں۔ یہ آزاد ملک کے اندر قانون کو غلام بنا کر دستور کی سنگین پامالی کا بھی معاملہ ہے جس پر دنیا کے ہرباشعور اور غیرجانب دار فرد کو تشویش ہونی چاہیے اور اسے اپنی آواز حق و انصاف کے لیے بلند بھی کرنی چاہیے۔ ہم بھی اس حوالے سے نہ صرف اس سارے عمل کی شدید مذمت کررہے ہیں بلکہ اقوامِ عالم اور ان کے نمایندوں سے درخواست کر رہے ہیں کہ اس ظلم کا راستہ روکنے کے لیے ناانصافی پر آمادہ عوامی لیگ کی حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ بین الاقوامی قانون کی پاس داری کرے اور جن معصوم انسانوں کو تعذیب و انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ان کے حقوق انھیں واپس کرے تاکہ وہ غیر جانب دار عدلیہ کے سامنے پیش ہوکر اپنی بے گناہی ثابت کرسکیں۔

  • تیسرا اور مضبوط حوالہ پاکستان کا ہے___ ان مقدمات اور سنائی جانے والی سزائوں کا   پس منظر یہ ہے کہ ان رہنمائوں نے ایسے حالات میں متحدہ پاکستان کو بچانے کے لیے آواز اُٹھائی، اور جملہ اخلاقی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے جدوجہد کی، جب خود شیخ مجیب الرحمن بھی اپنے خلاف مقدمے میں کہہ رہے تھے کہ میں پاکستان کے اندر خودمختاری کی بات کرتا ہوں اور متحدہ پاکستان چاہتا ہوں۔۲؎ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے اور اس کے بعد کے واقعات میں کسی بھی تاریخی، عدالتی، اخلاقی حوالے سے یا کسی بھی فورم پر کسی متاثرہ فرد نے نہیں کہا کہ اس کو جماعت اسلامی اور اس کے رہنمائوں کی وجہ سے جان یا مال کا کوئی نقصان اُٹھانا پڑا۔

ہم اس بات کو بھی ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی آزادی، ترقی اور خوش حالی ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ بنگلہ دیش نے گذشتہ برسوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔ اس کی صنعتی  پیش رفت سے ہمیں دو گونہ خوشی ہوتی ہے کیونکہ ہمارے نظریے اور ایمان کا رشتہ اب بھی تروتازہ ہے۔ بنگلہ دیش کے نوجوانوں کا کردار ہمارے لیے بھی حوصلے کا سبب ہے کیونکہ ان نوجوانوں نے ایک طرف اسلامی دنیا میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں، دوسری طرف ملایشیا اور انڈونیشیا میں ان کا تعمیری کردار سب تسلیم کر رہے ہیں، بلکہ یورپ میں اور بالخصوص برطانیہ کی ترقی میں بھی   پیش پیش رہے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ بنگلہ دیش کو اپنے قیام کے بعد سے مخصوص علاقائی اور جغرافیائی دبائو کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے پڑوس سے اسے کبھی سکون نہیں مل سکا۔ یہ جغرافیائی یا محض علاقائی حالات کا ہی نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کے ڈانڈے امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے بھی جاملتے ہیں۔ اس لیے بھی ہم خصوصی طور پر مضطرب ہیں کہ وہاں جماعت اسلامی کی قیادت کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے، اس پر آواز اُٹھانا چاہیے۔ بنگلہ دیش کی یہ صورتِ حال گذشتہ کچھ عرصے سے نہایت پریشان کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ گذشتہ چند برسوں سے مسلسل ایسی کارروائیاں ہورہی ہیں جن کا نشانہ بنگلہ دیش جماعت اسلامی اور بی این پی کے رہنمائوں کو بنایا جا رہا ہے۔ ایک نام نہاد اور

۲-            حال ہی میں جناب شیخ مجیب الرحمن کی نامکمل خودنوشت شائع ہوئی ہے جس میں انھوں نے اپنے دو قومی نظریے کے پُرجوش مبلغ ہونے کا فخر سے اعتراف کیا ہے۔ تحریکِ پاکستان میں شرکت کی داستان بیان کی ہے اور پاکستان کی وحدت اور یک جہتی کا دم بھرا ہے۔ ملاحظہ ہو: The Unfinished Memoirs of Sheikh Mujibur Rehman

                اگست ۱۹۷۱ء میں شیخ مجیب الرحمن کے وکیل صفائی جناب اے کے بروہی نے بھی اس بات کی گواہی دی تھی کہ اس مقدمے کے وقت تک شیخ مجیب نے پاکستان کے فریم ورک میں صوبائی خودمختاری کی بات کی تھی اور علیحدگی کا کوئی اعلان یا عندیہ نہیں دیا تھا۔

 خود ساختہ انٹرنیشنل ٹریبونل بنا کر جماعت اسلامی اور بی این پی کے رہنمائوں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات چلائے جارہے ہیں اور انصاف کے جملہ تقاضوں کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے ان رہنمائوں کے حق دفاع کو بھی پامال کیا جا رہا ہے۔ اس وقت تک جماعت کے رہنمائوں کو جو سزائیں سنائی گئی ہیں، انھوں نے پورے بنگلہ دیش میں ایک آگ سی لگا دی ہے  کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ پروفیسر غلام اعظم، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا دلاور حسین سعیدی اور مولانا عبدالقادر مُلّا۳؎ اصحابِ علم و تقویٰ کا دامن ان الزامات سے پاک ہے، جو ان پر لگائے جارہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انھیں صرف اور صرف ظلم اور سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ مسئلے کی اصل نوعیت کو متعین کرلیا جائے۔ جنگی جرائم کا تعلق ان جرائم سے ہے جو حالت ِ جنگ میں بھی جنگ کے مسلّمہ آداب اور حدود کو پامال کر کے انجام دیے جائیں، اس لیے انھیں انسانیت کے خلاف جرائم (crimes against humanity) قرار دیا جاتا ہے اور ان کو لڑائی کے دوران معروف حدود میںہونے والے قتل اور تباہی سے ممتاز کیا جاتا ہے۔ اسی طرح نسل کُشی (genocide) بھی ایک متعین جرم ہے جس میں ایک خاص نسل، مذہب، قومیت، قبیلے یا برادری کو محض اس خاص نسل، مذہب، قومیت، قبیلے یا برادری سے تعلق کی  بناپر ظلم و ستم کا ہدف بنایا جائے، بلاجواز قتل کیا جائے یا تشدد کا نشانہ بنایا جائے۔

ہم پوری ذمہ داری سے یہ بات کہتے ہیں اور کسی بھی آزاد اور غیر جانب دار عدالت میں اس الزام کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔ بنگلہ دیش جماعت اسلامی نے اس امر کا واضح اعلان کیا ہے

۳-            ستم ظریفی ہے کہ مولانا عبدالقادر مُلّا نے بنگلہ دیش کی آزادی کے فوراً بعد ڈھاکہ یونی ورسٹی سے تعلیم مکمل کرکے بنگلہ دیش رائفلز میں، جو ایک غیر سرکاری نیم فوجی تنظیم ہے، شرکت کی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ    ان کے جرائم میں مبتلا ہونے کی کوئی خبر ۱۹۷۱ء کے معاً بعد کے زمانے میں کسی کو نہ تھی اور اب ۴۲سال کے بعد یہ الہام ہوا ہے۔ علامہ دلاور حسین سعیدی بنگلہ دیش کے ایک معتبر عالم دین اور شہرئہ آفاق مقرر اور  مبلّغ ہیں۔ ۱۹۷۱ء میں ان کا جماعت اسلامی سے کوئی تعلق نہ تھا اور نہ وہ کبھی بھی کسی غیرقانونی یا غیراخلاقی کارروائی میں بلاواسطہ یا بالواسطہ ملوث رہے۔ جماعت اسلامی کی دعوت سے وہ نظریاتی طور پر ۱۹۷۵ء میں روشناس ہوئے اور جماعت کی بحالی کے بعد ۱۹۷۹ء سے اس کے سرگر م رکن رہے اور سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہوئے، بعدازاں جماعت کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔

کہ وہ بحیثیت جماعت یا اس کا کوئی ذمہ دار اس نوعیت کے کسی بھی جرم کا مرتکب نہیں ہوا۔ البتہ جس بات کا جماعت نے اعتراف کیا ہے، وہ یہ ہے کہ اس نے پاکستان پر بھارتی افواج کے حملے اور مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کی عسکری اور تخریبی کارروائیوں کے دوران پاکستان کا دفاع کیا اور اس زمانے میں بھی بار بار اس امر کا اعلان کیا کہ مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ شیخ مجیب الرحمن نے بھی  بنگلہ دیش کے قیام کے بعد جنگی جرائم کے مرتکبین کے حوالے سے جو قوانین بنائے، ان میں     جنگی جرائم اور پاکستان حکومت کا ساتھ دینے والوں میں فرق کیا اور دونوں کے لیے ۱۹۷۲ء میں    دو الگ الگ قانون نافذ کیے۔ ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء تک جو متحدہ پاکستان کے حامی تھے، ان کی سیاسی پوزیشن کے بارے میں پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور عوامی لیگ الگ الگ راے رکھتے ہیں اور دنیا کی تاریخ میں ایسے واقعات اور حادثات کے موقع پر یہ بالکل فطری بات ہے، لیکن سیاسی موقف کے اس اختلاف کو جنگی جرائم سے خلط ملط کرنا قانونی ، سیاسی اور اخلاقی ہراعتبار سے ناقابلِ قبول ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایک نئی سیاسی حقیقت کے رُونما ہونے سے پہلے اور اس کے بعد کے معاملات کو سیاسی تناظر میں لیا جاتا ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا رویہ صریح ناانصافی ہوگا۔

چند تاریخی حقائق

اس اصولی وضاحت کے بعد چند حقائق کا ریکارڈ پر لانا بھی ضروری ہے:

  •  قیام پاکستان کی جدوجھد: پاکستان کا قیام برعظیم پاک و ہند کے تمام مسلمانوں کی مشترک جدوجہد کے نتیجے میں عمل میں آیا اور اس میں مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کا حصہ اتنا ہی اہم اور فیصلہ کن تھا جتنا مغربی پاکستان یا باقی ہندستان کے مسلمانوں کا۔ اصل مسئلہ قیامِ پاکستان کے بعد اس مقصد سے رُوگردانی کے باعث پیدا ہوا جس کی پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت مرتکب ہوئی۔ اس کے نتیجے میں وہ ناانصافیاں رُونما ہوئیں جو بھائیوں کے درمیان دُوری کا سبب بنیں اور اس نے نفرتوں کو جنم دیا۔ سیاسی قیادت کی ناکامی، بیوروکریسی کا کردار اور بار بار کی فوجی مداخلت سب صورتِ حال کو بگاڑنے کا ذریعہ بنے۔ جماعت اسلامی نے اس پورے دور میں اسلام کے نظامِ عدل کے قیام، جمہوری حکمرانی کے فروغ، حقوقِ انسانی کے تحفظ اور تمام انسانوں اور علاقوں کے درمیان انصاف کے قیام کے لیے دوسری دینی اور سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کی۔  اس سلسلے میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی اور پروفیسر غلام اعظم، حسین شہیدسہروردی اور شیخ مجیب الرحمن سب ایک ساتھ ایک ہی پلیٹ فارم پر سرگرم رہے اور اپنے دوسرے اختلافات کے باوجود مشترکات کی خاطر مل کر جدوجہد کی۔
  • کے انتخابات اور ملکی بحران: دسمبر ۱۹۷۰ء کے انتخابی نتائج نے ایک غیرمعمولی صورت حال پیدا کردی تھی لیکن اس نازک لمحے میں جماعت اسلامی پاکستان کا موقف بہت واضح تھا کہ انتخابات میں جو بھی خامیاں اور کمزوریاں تھیں مگر ان کے نتائج کو قبول کیا جائے، اس نے انھیں ’جمہوریت کی بحالی کا پہلا مرحلہ‘ قرار دیا اور عوامی لیگ کو جسے مجموعی طور پر اکثریت حاصل ہوئی تھی، اقتدار منتقل کرنے کا مطالبہ کیا۔ نیز یہ بھی کہا کہ اکثریتی جماعت اور دوسری جماعتوں کو مل کر نیا دستور مرتب کرنا چاہیے۔ ۷دسمبر ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے نتائج سامنے آئے۔ اس کے بعد جماعت اسلامی کی مجلس عاملہ نے مولانا مودودی کی صدارت میں متفقہ طور پر جو قرارداد منظور کی، وہ جماعت کی پالیسی کا واضح ترین بیان ہے:

مجلس عاملہ یہ تسلیم کرتی ہے کہ [انتخابی] بدعنوانیاں خواہ کتنے ہی بڑے پیمانے پر ہوئی ہوں، ملک کے مختلف حصوں میں جو لوگ کامیاب ہوئے ہیں، ان کو بہرحال معروف جمہوری اصولوں کے مطابق عوام کی اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ جماعت چونکہ خود جمہوریت کی حامی ہے، اس لیے وہ قطعی طور پر یہ راے رکھتی ہے کہ جو پارٹیاں کامیاب ہوئی ہیں، انھیں لازماً کام کرنے اور عوام کو یہ دیکھنے کا موقع ملنا چاہیے کہ وہ کس حد تک ان کی توقعات پوری کرتی ہیں۔ جمہوریت میں کسی انتخاب کا فیصلہ بھی آخری اور ابدی فیصلہ نہیں ہوتا۔ اگر اس ملک میں جمہوری طریق کار اپنی صحیح صورت میں جاری رہے،  شہری آزادیاں محفوظ رہیں اور وقتاً فوقتاً انتخابات ہوتے رہیں تو ہر جماعت کے لیے یہ موقع باقی رہے گا کہ عوام کی راے کو اپنے حق میں ہموار کرسکے، اور عوام کو بھی یہ موقع حاصل رہے گا کہ ایک گروہ کی کارکردگی کا تجربہ کرکے اگر وہ مطمئن نہ ہوں تو دوسرے انتخاب کے وقت دوسرے کسی گروہ کا تجربہ کریں۔ (ہفت روزہ آئین، لاہور، ۸جنوری ۱۹۷۱ء)

اسی طرح جماعت اسلامی کی مجلس عاملہ نے ایک اور قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا کہ  قومی اسمبلی کا اجلاس جلد از جلد بلایا جائے اور دستور سازی کا کام جلد از جلد مکمل کیا جائے:

جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس ملک کی بگڑتی ہوئی سیاسی، اقتصادی اور امن و امان کی صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ موجودہ مسائل کے حل کا صحیح طریق کار یہی ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس جلد از جلد بلایاجائے اور منتخب نمایندوں کو دستور سازی کے سلسلے میں اپنے فرائض ادا کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ موجودہ غیریقینی صورت حال ختم ہو اور انتقالِ اقتدار کے بعد کوئی نمایندہ حکومت ان مسائل کے حل کی ذمہ داری سنبھال سکے۔ انتخابات کو مکمل ہوئے اب دو مہینے سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اگر اب دستور سازی کا کام شروع نہ کیا گیا تو اس کام میں روزبروز پیچیدگیاں بڑھنے کا امکان ہے..... بلکہ ذہنی انتشار بڑھ رہا ہے اور بحالیِ جمہوریت سے جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں، وہ مایوسی میں تبدیل ہورہی ہیں۔ یہ سیاسی خلا کسی طوفان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتا ہے، اس لیے مجلسِ عاملہ صدرِمملکت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ قومی اسمبلی کا اجلاس جلداز جلد بلائیں اور دستور سازی کا   کام مکمل کرانے کی جو ذمہ داری اُنھوں نے اپنے اُوپر لی تھی، اُسے پورا کریں۔  (ہفت روزہ آئین، لاہور، ۱۷ فروری ۱۹۷۱ء)

واضح رہے کہ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے ۲۴؍اکتوبر ۱۹۷۰ء کو، انتخابات سے دومہینے قبل، صاف الفاظ میں قوم کو متنبہ کردیا تھا کہ فوج ملک کو ایک نہیں رکھ سکتی۔ اس کے لیے اسلامی جذبے اور عوام کی تائید اور رضامندی ضروری ہے۔

جماعت اسلامی کی پوزیشن اور کردار کو سمجھنے کے لیے ان حقائق کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ جہاں جماعت نے پاکستان کو ایک رکھنے کے لیے آخری لمحے تک کوشش کی، وہیں اس کی کوشش   یہ بھی تھی کہ نظریاتی، اخلاقی اور سیاسی میدان میں وہ اقدام کیے جائیں جس سے یہ وحدت قائم    رہ سکے اور مستحکم ہوسکے۔ مولانا مودودی نے اس موقعے پر فرمایا:

میں آپ سے صاف کہتا ہوں کہ اس وقت فوج بھی ایسی پوزیشن میں نہیں کہ اس ملک کو ایک ملک رکھ سکے۔ اگر کسی کے اندر عقل ہے تو وہ خود غور کرے کہ اگر خدانخواستہ  مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک زور پکڑ جائے تو کیا آج فوجی طاقت کے بل پر اسے مغربی پاکستان کے ساتھ جوڑ کر رکھا جاسکتا ہے؟ پاکستان کے ان دونوں بازوئوں کو کسی فوج نے ملاکر ایک ملک نہیں بنایا تھا بلکہ اسلامی اخوت اور برادری کے جذبے نے انھیں ملایا تھا، اور آج بھی یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہ سکتے ہیں تو صرف اسی طرح کہ وہی اسلامی برادری کا جذبہ دونوں طرف موجود ہو اور مشرقی پاکستان کے لوگ خود یہ چاہیں یا کم از کم ان کی بہت بڑی مؤثر اکثریت یہ چاہے کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کا اتحاد برقرار رہے، ورنہ علیحدگی پسند اگر خدانخواستہ اس رشتۂ اخوت کو کاٹنے میں کامیاب ہوجائیں تو محض فوج کی طاقت کے بل بوتے پر آپ مشرقی پاکستان کو مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ مغربی پاکستان کے ساتھ ملا رہے۔(افغان پارک، لاہور میں جلسۂ عام سے ۲۴؍اکتوبر ۱۹۷۰ء کا خطاب،  ہفت روزہ آئین، لاہور، ۱۲ مارچ ۱۹۷۱ء)

  •  حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کا تبصرہ: جب دسمبر ۱۹۷۱ء کی بھارت پاکستان جنگ کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوگیا تو جماعت اسلامی نے اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرلیا اور دونوں ممالک میں الگ الگ اپنے مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی۔ ۱۹۷۱ء کے تکلیف دہ اور الم ناک واقعات اور پھر ۱۹۷۲ء سے ۱۹۷۵ء تک عوامی لیگ کے دورِاقتدار میں ہونے والے مظالم ہماری تاریخ کا تاریک ترین باب ہیں۔ اس زمانے میں قانون اور اخلاق دونوں کی حدود کو بُری طرح پامال کیا گیا۔ جنگ اور بغاوت کے خلاف اقدام کے بھی اپنے آداب اور قوانین ہیں اور جس طرف سے بھی ان کی خلاف ورزی کی جاتی ہے، وہ قابلِ مذمت اور لائقِ تعزیر ہے۔ حمودالرحمن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں تین باتوں کی نشان دہی کی ہے اور اس کی سفارش تھی کہ قانون اور انصاف کے مسلّمہ اصولوں کے مطابق ان تینوں کے بارے میں کارروائی ہونی چاہیے اور پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کی حکومتوں کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے:

ا - مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی، بھارت کے ایجنٹوں اور دوسرے عناصر کی طرف سے پاکستان کے حامیوں (جن میں بنگالی اور غیربنگالی دونوں شامل تھے اور خصوصیت سے بہاریوں اور غیربنگالیوں اور پاکستانی افواج اور دوسرے اہل کاروں) کا قتل، ان کے اموال کی لُوٹ مار اور خواتین کی عزت و آبرو کی خلاف ورزی۔

ب-  پاکستانی افواج اور ان کی معاون قوتوں کی طرف قتلِ ناحق، لُوٹ مار اور جنسی زیادتی کے واقعات۔

ج- بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ان تمام عناصر پر ظلم و زیادتی اور ان کا قتل اور غارت گری جو کسی جنگی جرم کے مرتکب نہیں ہوئے لیکن محض عوامی لیگ کا ساتھ نہ دینے کے جرم میں ان کو زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا۔

ان تینوں حوالوں سے جو بھی زیادتی کی گئی اور جس نے بھی کی وہ قابلِ گرفت تھی اور قانون اور عدل و انصاف کے معروف اصولوں اور ضوابط کے دائرے میں ان کا احتساب ہونا چاہیے تھا جو نہیں ہوا۔

جہاں تک جماعت اسلامی اور اس کے کارکنوں کا تعلق ہے، انھوں نے اس ریاست کا ساتھ ضرور دیا جس سے وفاداری کا انھوں نے حلف اُٹھایا تھا مگر وہ کسی غیرقانونی اور غیراخلاقی کارروائی میں شریک نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۰۰۷ء سے پہلے ان کے خلاف جنگی جرائم یا کسی دوسری زیادتی کا کوئی واضح الزام نہیں لگایا گیا اور بنگلہ دیش میں جناب مجیب الرحمن کے اقتدار کے زمانے میں احتساب اور جرم و سزا کا جو نظام بھی قائم ہوا، اس میں کوئی ایک کیس بھی جماعت کی قیادت یا اس کے کارکنوں کے خلاف ثابت نہیں ہوا۔ ہم اس سلسلے کے کچھ شواہد ریکارڈ کے لیے پیش کرتے ہیں۔

  •  قیامِ بنگلہ دیش اور احتساب: جناب مجیب الرحمن نے جنوری ۱۹۷۲ء میں دو قانون نافذ کیے: ایک War Crimes Act ،اور دوسرا  Collaboration Order 1972۔ وارکرائمز ایکٹ کے تحت پاکستانی فوج کے افسروں اور جوانوں پر مقدمہ چلایا گیا اور اس سلسلے میں ۱۹۵ فوجیوں کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا۔ بھارت کی قید سے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا۔ بنگلہ دیش حکومت نے پاکستانی حکومت اور افواج کے مددگاروں کی حیثیت سے جن لوگوں کو گرفتار  کیا گیا، ان میں سے ۳۷ہزار۴سو ۷۱ پر الزامات عائد کیے گئے مگر مقدمہ صرف ۲ہزار۸سو۴۸ پر چلایا گیا۔ باقی ۳۴ہزار۶سو۲۳ کے خلاف کوئی ثبوت نہ ملنے کی بنیاد پر مقدمہ دائر نہ کیا جاسکا اور ان کو رہائی مل گئی۔ ان ۲ہزار۸سو۴۸ میں سے بھی جن پر مقدمہ چلایا گیا عدالت نے صرف ۷۵۲ کو سزا دی۔ باقی پر کوئی جرم ثابت نہ ہوسکا اور وہ بھی رہا کردیے گئے۔ واضح رہے کہ ان ۲ہزار۸سو۴۸ میں کوئی بھی جماعت اسلامی سے متعلق نہیں تھا۔

واضح رہے کہ ان دو قوانین کے تحت کارروائی کے ساتھ ایک تیسرا اقدام بھی کیا گیا اور وہ  بنگلہ دیش کی دستور ساز اسمبلی کے ۱۲؍ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی تھی جسے جنگی جرائم کے مرتکب افراد کے بارے میں معلومات جمع کرنے کا کام سونپا گیا اور اسے MCA Committee کہا گیا اور عوامی لیگ کے آفس میں اس کا دفتر قائم کیا گیا۔ اس کے ساتھ پاکستانی فوج کے ستم زدہ لوگوں کو زرتلافی (compensation) ادا کرنے کے لیے بھی انتظام کیا گیا اور وزارتِ خزانہ کے سپرد   یہ کام ہوا کہ جس خاندان میں کوئی شخص مارا گیا ہے، ان کو زرِتلافی دیا جائے۔ سرکاری اعداد و شمار جو بعد میں اسمبلی میں پیش کیے گئے، ان کی رُو سے اس پوری کوشش کے نتیجے میں ۷۲ہزار افراد نے کلیم دائر کیے اور تحقیق کے بعد ۵۰ہزار کو زرِتلافی ادا کیا گیا۔ جماعت اسلامی سے ان تمام کا کوئی دُور دُور کا بھی تعلق نہ تھا۔

گو، سرکاری طور پر دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ ۳۰لاکھ افراد کو پاکستانی افواج نے قتل کیا ہے اور ۲لاکھ خواتین کی عصمت دری کی ہے لیکن دو سال پر پھیلی ہوئی ان تمام کارروائیوں میں جو حقائق متحقق (establish) ہوئے ،اُن کی اِن دعووں سے کوئی نسبت نہیں۔۴؎

۴-            بلاشبہہ ایک فردکا بھی خونِ ناحق اور ایک پاک دامن کی عصمت دری پوری انسانیت کے قتل اور بے حُرمتی کے مترادف ہے لیکن حقائق کے بیان میں مبالغے کی حدود کو پامال کرنا بھی ایک جرم ہے۔ اسی طرح صرف ایک گروہ کی زیادتیوں کو نشانہ بنانا اور دوسرے گروہوں نے جو مظالم ڈھائے ہیں، ان کو نظرانداز کرنا بھی انصاف اوراخلاق دونوں کے منافی ہے۔ جو زیادتیاں بھی ہوئیں وہ شرم ناک اور قابلِ گرفت ہیں لیکن کسی صورت حق و انصاف اور توازن و اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اس سلسلے میں اب جو حقائق سامنے آرہے ہیں ان سب کو اس الم ناک، تاریک اور خون آشام دور کے جملہ پہلوئوں کو سمجھنے کے لیے  دیکھنا ضروری ہے۔ حمودالرحمن کمیشن نے بھی ان تمام ہی پہلوئوں کا احاطہ کیا ہے۔ بھارت کی ایک    بنگالی ہندو محقق خاتون شرمیلا بوس (جو تحریکِ آزادی کے ہیروسبھاش چندربوس کی نواسی ہے) اپنی کتاب میں تصویر کے دونوں رُخ پیش کرتی ہے، ملاحظہ ہو:

اس پورے احتسابی عمل کا اختتام نسبتاً ایک خوش گوار شکل میں ہوا۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندستان کی مشترکہ کوششوں سے ایک معاہدہ ہوا جس پر تینوں ممالک کے وزراے خارجہ، یعنی ڈاکٹر کمال حسین، عزیز احمد اور سورن سنگھ نے اپریل ۱۹۷۴ء میں دستخط کیے۔ اس کے نتیجے میں   بنگلہ دیش نے ۱۹۵ پاکستانی فوجیوں کی واپسی کا مطالبہ واپس لے لیا اور یہ مطلوب جنگی قیدی باقی جنگی قیدیوں کے ساتھ پاکستان واپس کردیے گئے۔ دوسری قسم کے مطلوبہ افراد جنھیں collaborater کہا گیا تھا، کے بارے میں نومبر ۱۹۷۳ء میں شیخ مجیب الرحمن نے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔ اُن چند سزا یافتہ افراد کے سوا جن کو بہت ہی سنگین جرائم میں سزا دی گئی تھی۔ بعد میں ان کو بھی معافی دے دی گئی اور اس طرح یہ افراد بھی دو سال کے بعد رہا کردیے گئے۔

پاکستان کی طرف سے بھی تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں ہوئیں۔ اپریل ۱۹۷۴ء میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان سہ فریقی معاہدے سے زمین ہموار ہوئی۔     اسلامی کانفرنس تنظیم کے دوسرے سربراہی اجلاس (منعقدہ لاہور) میں شیخ مجیب الرحمن نے شرکت کی۔  پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرلیا اور بالآخر جنوری ۱۹۷۶ء میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات قائم ہوگئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا۔ ماضی کے واقعات پر

                پاکستانی فوج کے ایک مشرقی پاکستانی افسر لیفٹیننٹ کرنل شریف الحق جو ۱۹۷۱ء میں فرار ہوکر مکتی باہنی میں شریک ہوگئے تھے، اور جنھیں بنگلہ دیش کے اعلیٰ ترین اعزاز ’بیر اُتّم‘ (Bir Uttam)سے نوازا گیا تھا اور جنھوں نے سفارت کاری کی ذمہ داریاں بھی ادا کیں، اس کی خودنوشتBangladesh: Untold Facts ایک چشم کشا دستاویز ہے جس میں مکتی باہنی اور مشرقی پاکستان کی جدائی میں بھارت کے کردار کی first person (براہِ راست)تفصیلات دی گئی ہیں، اس کے علاوہ شیخ مجیب الرحمن ساڑھے تین سالہ دورِحکومت کے مظالم کا نقشہ بھی ذاتی علم کی بنیاد پر کھینچا گیا ہے۔

                بھارت کے لیفٹیننٹ جنرل جیکب کی کتاب Surrender at Dacca: Birth of a Nation بھی قابلِ مطالعہ ہے جس میں بھارت کے کردار کا مکمل اعتراف موجود ہے۔ واضح رہے کہ اس دور میں پاکستان سے وفادار رہنے والوں کے ساتھ کیا ہوا، اس کا احوال بڑا دردناک ہے ۔ ڈھاکہ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سید سجاد حسین کی کتاب The Waste of Time بھی قابلِ مطالعہ ہے جس کا ترجمہ شکستِ آرزو کراچی سے اسلامک ریسرچ اکیڈمی نے شائع کیا ہے۔

افسوس کا اظہار کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے بنگلہ دیش کے سیلاب کے موقعے پر وہاں کا دورہ کیا اور   جنرل ارشاد کے دور میں تعاون کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔ محترمہ خالدہ ضیا صاحبہ نے ۹۰ کے عشرے میں پاکستان کا دورہ کیا اور جنرل مشرف نے ۲۰۰۳ء میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا اور ایک بار پھر اس تاریک دور پر اپنے افسوس کا اظہار کیا۔

یہ تمام اقدام ۱۹۷۱ء کے واقعات کو دفن کرنے، عام معافی دینے، تعلقات کے ایک نئے باب کو شروع کرنے کے مختلف مراحل تھے۔ انسان سمجھنے سے قاصر ہے کہ یکایک اس پورے عمل کو اُلٹانے (reverse کرنے) کا کھیل بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت نے کیوں شروع کیا اور ہرحد کو پھلانگ کر سیاسی انتقام اور ملک میں شدید خلفشار کی کیفیت کیوں پیدا کی؟ اس سوال پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔ عام معافی کے بعد ۲۰۱۰ء میںنام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کا قیام اور چُن چُن کر جماعت اسلامی اور بی این پی کی قیادت کو نشانہ بنانا اور ان لوگوں کو نشانہ بنانا جن کا ۱۹۷۱ء کے خونیں اور شرم ناک واقعات میں کوئی ذاتی کردار نہیں تھا، صرف ظلم ہی نہیں، ایک بڑے سیاسی کھیل کا حصہ ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔

انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کی حقیقت

 جسے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کہا جا رہا ہے، اس کا انٹرنیشنل معیار سے دُور کا بھی کوئی تعلق نہیں اور اس میں کسی بین الاقوامی شرکت سے دُور رکھنے کے لیے ہر دروازہ بند کردیا گیا ہے۔ اس ٹریبونل کا چیئرمین وہ جج تھا جو عوامی لیگ کا جیالا تھا اور جس نے اپنے خودساختہ وار کرائمز ٹرائل کا ڈھونگ اپنی جوانی میں رچایا تھا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک تازیانہ ہے کہ خود اس جج کو جو اس وقت کے ٹربیونل کا صدر تھا، مقدمے کے دوران ہی بے وقعت ہوکر استعفا دینا پڑا کیونکہ اکانومسٹ نے اس کے برسلز کے ایک وکیل اور عوامی لیگ کے ایک سرگرم کارکن کے ساتھ ۲۳۰ ای میل اور ۱۷گھنٹے کی ریکارڈ شدہ ٹیلی فون کی گفتگو کا راز فاش کیا جس میں ایک طرف ٹربیونل پر حکومت کے دبائو کا اور ٹربیونل اور پراسکیوشن کے درمیان خفیہ سازباز کے ناقابلِ انکار ثبوت تھے تو دوسری طرف برسلز کے اس جیالے کی طرف سے نہ صرف مقدمے کو چلانے کے بارے میں واضح ہدایات دی گئیں بلکہ مقدمے کی کارروائی مکمل ہونے سے پہلے ہی مقدمے کے فیصلے کا ڈرافٹ بھی بھیج دیا گیا تھا۔ لندن اکانومسٹ نے اپنی ۸دسمبر ۲۰۱۲ء اور ۱۵دسمبر ۲۰۱۲ء کی اشاعتوں میں یہ سارا کچاچٹھا کھول کر بیان کردیا جس سے ایک تہلکہ مچ گیا اور پہلے انکار اور پھر اقرار کے بعد ٹربیونل کے چیئرمین محمدنظام الحق کو مستعفی ہونا پڑا۔ لیکن یہ بھی بنگلہ دیش کی عوامی لیگی حکومت اور اس کے طریق انصاف کا شاہکار ہے کہ ٹربیونل اسی طرح قائم رہا اور اسی ٹربیونل نے نئے ممبران کے ساتھ جن میں سے کسی ایک نے پورے مقدمے کی مکمل کارروائی سنی تک نہ تھی اور عالمی قانونی اداروں کے اس مطالبے کے باوجود، کہ ان حقائق کے سامنے آنے کے بعد حکومت کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ نیا ٹربیونل قائم کرے جو ازسرِنو مقدمے کی کارروائی کرے، جنوری، فروری اور مارچ ۲۰۱۳ء میں جماعت کے قائدین کو سزائیں سنائی گئیں۔  پھر عوامی لیگ کے جیالوں کے مطالبے پر قانون میں مؤثر بہ ماضی (retrospective)   کارروائی کی ترمیم کرکے اس ٹربیونل کو یہ اختیار دے دیا جو پہلے سے دی ہوئی سزا میں اضافہ بھی کرسکتا ہے۔

اس ٹربیونل کو یہ ’اعزاز‘ بھی حاصل ہے کہ دنیا میں شاید یہ واحد ٹربیونل ہے جس کے تمام ججوں نے مقدمہ سنے بغیر فیصلے دیے ہیں۔ ٹربیونل کی تشکیل اور موجودہ ہیئت کو ساری دنیا کے  قانون دانوں نے انصاف کے مسلّمہ اصولوں کے خلاف قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں چند حقائق کا ریکارڈ پر لانا حالات کی سنگینی کے اِدراک کے لیے مددگار ہوگا۔ اکانومسٹ (۱۵دسمبر۲۰۱۲ء) Trying War Crimes in Bangladesh کے عنوان سے لکھتا ہے:

اسے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کہا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ ان معنوں میں انٹرنیشنل نہیں ہے کہ یہ کسی انٹرنیشنل قانون کے تحت قائم کیا گیا ہو..... جرائم کرنے والے نمایاں افراد سب کٹہرے میں نہیں کھڑے ہیں۔ ان میں سے کچھ مرچکے ہیں یا پاکستان میں رہ رہے ہیں..... آخری مرحلے پر محمد نظام الحق نے جو اس کے سربراہ جج تھے، ٹربیونل کے جج کی حیثیت سے اس وقت استعفا دے دیا جب اکانومسٹ نے ان سے سوالات کیے اور ان کی بنگلہ دیش میں پرائیویٹ ای میل کی اشاعت کی، جس سے ان کے کردار اور عدالتی کارروائی کے بارے میں شبہات پیدا ہوگئے.....یہ تشویش اتنی سنگین ہے کہ صرف اسی بات کا اندیشہ نہیں ہے کہ انصاف کا سقوط ہو جس سے انفرادی طور پر مدعا علیہ ہی متاثر نہ ہوں بلکہ ٹربیونل کے غلط طریق کار کی وجہ سے بنگلہ دیش جو نقصان اُٹھا چکا ہے، اس میں بھی اضافہ ہو۔ یہ ملک کے زخموں پر مرہم نہیں رکھیں گے بلکہ ان کو گہرا کردیں گے۔ جو شہادتیں ہم نے دیکھی ہیں، وہ یہ ظاہر کرتی ہیں کہ عدالتی کارروائی کے ازسرِنو مکمل جائزے کی اب ضرورت ہے۔ہمیں یقین ہے کہ اگر ایک ساتھ دیکھا جائے تو جو لوازمہ ہمیں دکھایا گیا ہے وہ جاری کارروائی (due process) کے بارے میں جائز سوالات اُٹھاتا ہے جن کی بنگلہ دیش کی حکومت کو اب مکمل تفتیش کرنی چاہیے۔ یہ تفتیش نظام الحق کے استعفے کے بعد اب ناگزیر ہوگئی ہے۔

مقدمے کی کارروائی کے دوران کوئی بے قاعدگی ایسی نہیں جس کا ارتکاب پوری ڈھٹائی سے نہ کیا گیا ہو۔ استغاثے کو ہرممکن سہولت دی گئی حتیٰ کہ عملاً شہادتیں تک پیش کرنے سے مستثنیٰ کردیا گیا اور صرف تحریری بیان کو کافی سمجھ لیا گیا تاکہ گواہوں پر جرح نہ کی جاسکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جو بھی گواہ پیش کیا گیا، جرح میں وہ اپنے موقف پر قائم نہ رہ سکا اور سارا پول کھل گیا۔دفاع کے وکلا کو اپنے گواہ پیش کرنے سے روک دیا گیا اور ان مقدمات میں بھی جن میں درجن بھر الزام تھے،    قید لگادی گئی کہ چھے سے زیادہ گواہ پیش نہیں کیے جاسکتے ہیں۔ مولانا سعیدی کے مقدمے میں   جس شخص کے قتل کا ان پر الزام تھا، خود اس کے بھائی نے (دونوں بھائی ہندو تھے) گواہی دی کہ مولانا سعیدی کا اس قتل سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس کو کمرئہ عدالت کے باہر سے اغوا کرلیا گیا اور ملک کے اور عالمی میڈیا نے لکھا کہ سرکاری ایجنسی کے لوگ اسے اغوا کر کے لے گئے۔ اس کا بیان ٹی وی تک سے نشرہوچکا تھا۔

جیساکہ ہم نے اُوپر عرض کیا ہے، سب سے عجیب بات یہ ہے کہ ٹربیونل کے ججوں میں سے کسی ایک نے بھی پورے مقدمے کو سنا ہی نہیں لیکن فیصلہ دینے میں ان کے ضمیر نے کوئی خلش محسوس نہیں کی۔ عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے اسے اپنی ۱۳دسمبر کی رپورٹ میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے اور اس مطالبے کے ساتھ کیا ہے کہ سعیدی کے مقدمے کو ازسرِنو منعقد کیا جانا ضروری ہے۔ رپورٹ کا عنوان ہی یہ ہے:Bangladesh: Retrial Needed in Sayeed's Case

دلاور حسین سعیدی کے وار کرائمز ٹرائل میں تین رکنی پینل میں بار بار کی تبدیلیوںکا مطلب ہے کہ منصفانہ مقدمہ اب ممکن نہیں رہا ہے، اور ایک نیا مقدمہ ہونا چاہیے۔ ہیومن رائٹس واچ عرصے سے مطالبہ کر رہا ہے کہ ۱۹۷۱ء کی جدوجہد آزادی میں،  جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کی ریاست قائم ہوئی جو لوگ مظالم کے مرتکب ہوئے ہیں، ان پر عالمی اصولوں کے مطابق بے لاگ مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔

۱۱دسمبر کو کرائمز ٹربیونل( ICT) کے چیئرمین جسٹس نظام الحق نے جو ۱۹۷۱ء میں کیے گئے فوجی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور دوسرے سنگین جرائم بھی جو پاکستان سے آزادی کی جنگ کے دوران ڈھائے گئے تھے، مقدمہ سن رہے تھے، اس وقت استعفا دے دیا جب اکانومسٹ نے ان کی ای میل، خط کتابت اور آڈیو ٹیپ شائع کردیے جن سے ایک جج کی حیثیت سے سعیدی کیس اور دوسرے معاملات میں ان کا جانب دارانہ رویہ سامنے آگیا۔اکانومسٹ نے مزید ای میل اور باہمی روابط دسمبر ۲۰۱۲ء کو شائع کیے جن میں اس کا کہنا تھا کہ جج، سرکاری وکلا اور انتظامیہ کے درمیان ملی بھگت ظاہر ہوتی تھی۔

سعیدی کیس میں تین رکنی پینل میں محمد نظام الحق واحد جج تھے، جب کہ مقدمے کے دوران دوسرے ممبر تبدیل ہوگئے جس کا مطلب یہ ہوا کہ پینل کے کسی جج نے بھی مکمل گواہیاں نہیں سنی تھیں۔ سعیدی کے مقدمے میں ۶دسمبر کو بحث مکمل ہوئی جس کا مطلب یہ ہوا کہ جسٹس محمد الحق کا جو متبادل آیا، جسٹس فضل کبیر، وہ ۱۲دسمبر کو مقرر کیا گیا، جو ایک ایسے مقدمے کے فیصلے میں شرکت کر رہے تھے جس میں انھوں نے سرکاری شہادتوں کا صرف ایک حصہ سنا ہے۔ یہ چیز انتہائی غیر ذمہ دارانہ، غیرپیشہ ورانہ ہوگی، جب کہ کسی مقدمے کا اس طرح فیصلہ لیا جائے جب کہ کسی بھی جج نے اہم گواہوں کو نہ سنا ہو، خاص طور پر ایک ایسے مقدمے میں جس میں ۴۲سال پہلے کی گواہی پیش ہورہی تھی اور پیچیدہ قانونی مسائل موجود تھے۔ یہ بات ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے ڈائرکٹر بریڈ ایڈم نے کہی۔ جب کورٹ کے صدر نے نامناسب باتوں کی وجہ سے استعفا دیا تو صرف ایک جج نے شہادت سنی تھی اور اب وہ جج بھی نہیں رہا۔ عدالت کے لیے اپنی ساکھ ثابت کرنے کے لیے ایک نیا مقدمہ ہی واحد راستہ ہے۔

سعیدی کیس میں مارچ ۲۰۱۰ء میں بننے والے پہلے پینل میں جسٹس محمد نظام الحق، جسٹس فضل کبیر اور جسٹس ذاکراحمد شامل تھے۔ جسٹس کبیر کو ۱۸دسمبر کو جسٹس حق کے استعفے کے بعد سعیدی پینل پر دوبارہ مقرر کردیا گیا۔ انھوں نے مارچ ۲۰۱۲ء میں سعیدی کیس چھوڑ دیا تھا، جب انھیں آئی سی ٹی کے دوسرے مقدمے کی صدارت کے لیے تبدیل کیا گیا تھا۔ ان کے متبادل جسٹس انوارالحق نے دفاع کی طرف سے اپنا مقدمہ شروع کرنے سے پہلے صرف ایک سرکاری تفتیشی افسر کو سنا۔ اگست کے آخر میں جسٹس احمد نے خرابی صحت کی وجوہات بیان کرتے ہوئے غیرمتوقع طور پر استعفا دے دیا اور ان کے بجاے جسٹس جہانگیر آئے جنھوں نے صرف دفاع کے گواہوں کو سنا۔ ہیومن رائٹ واچ نے تشویش ظاہر کی ہے کہ وزیرقانون شفیق احمد اور سرکاری وکیل دونوں نے کہا کہ جسٹس نظام الحق کے استعفے سے سعیدی کے مقدمے کی کارروائی پر کوئی اثر نہ پڑے گا۔ ٹیپ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذاکر احمد نے آئی سی ٹی کے عدلیہ میں مداخلت کی۔

ایڈیمز نے کہا کہ پوری دنیا میں عدالتیں زبانی گواہیاں کیوں سنتی ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود یہ فیصلہ کرنے کے قابل ہوسکیں کہ ان کے سامنے جو گواہی پیش کی گئی ہے براہِ راست سوالات اور گواہوں کو چیلنج کرنے سے اسے کتنا وزن دیں۔ سعیدی کیس میں تین ججوں میں سے ایک بھی مکمل گواہی پیش کرنے کے دوران حاضر نہ رہا تھا۔ (لیکن اس کے علی الرغم وہ) ایک فیصلہ دے گا جو ملزم کو پھانسی کے تختے تک لے جاسکتا ہے۔ سعیدی ملزم ثابت ہویا نہ ہو، اس کا تعین صرف اس بات سے ہوسکتا ہے کہ ایک فیئر ٹرائل ان ججوں کے ذریعے ہو جو تمام شہادتوں کو سنیں۔

بنگلہ دیش کے موجودہ ٹربیونل اور اس کی جانب داری اور مایوس کن کارکردگی کا اعتراف دنیا کے گوشے گوشے میں ہورہا ہے اور ملک میں اور ملک سے باہر مقتدر ادارے اور ماہرین قانون اسے انصاف کا خون قرار دے رہے ہیں۔ انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن نے اس کے قیام کے وقت ہی سے flawed یعنی قانونی اعتبار سے ناقص قرار دے دیا تھا۔ پھر ’امریکن سوسائٹی آف انٹرنیشنل لا‘  نے ۲۱جون ۲۰۱۱ء کی رپورٹ میں ٹربیونل کے بارے میں شدید اعتراضات کا اظہارکیا۔ خود ڈھاکہ میں سونارگائوں کے ہوٹل میں ۱۳؍اکتوبر ۲۰۱۰ء کو منعقد ہونے والی بین الاقوامی وکلا کانفرنس نے اس مقدمے اور ٹربیونل کو انصاف کے اصولوں کے منافی قرار دیا اور اس کے قانون میں ۱۷ بڑی بڑی خامیوں کی نشان دہی کی۔ بنگلہ دیش کے ایک سابق چیف پبلک پراسکیوشن خندکر محبوب حسین نے جو اس وقت وہاں کی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ہیں، ان مقدمات کی نیک نیتی (bonafides) کو چیلنج کیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت اگر حق پر ہے تو اسے ان مقدمات میں اقوام متحدہ کو شریک کرنا چاہیے اور جس طرح اقوام متحدہ نے بوسنیا اور روانڈا کے جنگی جرائم کے مقدمات کو عالمی کریمنل کورٹ کے ذریعے منعقد کیا ہے، اسی طرح ان کو بھی کیا جانا چاہیے۔ ایک سابق سعودی سفارت کار نے، جو بنگلہ دیش میں خدمات انجام دے چکے ہیں، وہاں کے حالات سے واقف ہیں اور آج کل امریکا میں کیلی فورنیا اسٹیٹ یونی ورسٹی میں پروفیسر ہیں، انھوں نے تمام حالات کا تجزیہ کرکے لکھا ہے کہ:

سعیدی کے پھانسی کے فیصلے نے حتمی طور پر ثابت کردیا ہے کہ کسی شبہے کے بغیر آئی سی ٹی کینگرو کورٹ سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ انصاف کی مکمل نفی کرتی ہے۔ بنگلہ دیش کے   آئی سی ٹی کے بارے میں انصاف کے نقطۂ نظر سے ہمارا جائزہ سچائی اور معقول وجوہات کی بنا پر ہے نہ کہ جذبات اور سیاست کی بنا پر۔ (’خوف ناک انصاف‘      از پروفیسر محمد ایول، سعودی گزٹ، ۷مارچ ۲۰۱۳ء)

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی متعدد رپورٹوں میں بنگلہ دیش میں انصاف کے اس قتل پر اپنے احتجاج کا اظہار کیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی ایک درجن سے زیادہ رپورٹیں اس بارے میں آچکی ہیں۔ International Centre for Transitional Justice نے بھی اپنی رپورٹ (۱۵مارچ۲۰۱۱ء) میں اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔ اقوامِ متحدہ کے ایک ورکنگ گزٹ نے ۶فروری ۲۰۱۱ء کو اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ امریکی سفیر براے Transitional Justice جس کا اصل موضوع ہی جنگی جرائم ہیں، نے اپنی رپورٹ (۶فروری ۲۰۱۲ء)میں ٹربیونل کے بارے میں عدم اطمینان کا اظہار کیا۔برطانیہ کے مشہور ماہرقانون لارڈ ایوبری، یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا کے قانون کے پروفیسر لارل فلچر اور انگلستان بین الاقوامی کریمنل لا کے ماہر اسٹیون کِے، اور دسیوں یورپی ماہرین قانون نے اس پورے عدالتی عمل کو غیرتسلی بخش اور انصاف کے تقاضوں کے منافی قرار دیا ہے۔ تازہ ترین بیان میں خود اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رپورٹر جبریل اور اقوام متحدہ ہی کے ایک اسپیشل رپورٹر چسٹاف ہینز نے اپنے شدید خدشات کا اظہار کیا ہے۔ گیبربل کا کہنا ہے:

مجھے ان سوالوں پر تشویش ہے جو ’’ججوں کی غیر جانب داری اور ٹربیونل کی سروسز اور انتظامیہ کی آزادی کے بارے میں اُٹھائے گئے ہیں۔نیز ڈیفنس کے وکلا اور گواہوں کے ماحول کے سلسلے میں سامنے آئے ہیں‘‘۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ ’’ٹربیونل منصفانہ مقدمہ اور ڈیوپراسس کے بنیادی تقاضوں کا احترام کرے‘‘۔

اس سلسلے میں عالمی اضطراب کا تازہ ترین اظہار برطانوی پارلیمنٹ میں نجی پارلیمنٹ کی قرارداد میں اور اس سے بھی زیادہ یورپین پارلیمنٹ میں ۲۶ممبران پارلیمنٹ کی ایک قرارداد میں   صاف الفاظ میں کیا گیا ہے:

آئی سی ٹی کے عمل میں بیان کی گئی بے قاعدگیاں، مثلاً مبینہ حراساں کرنا، اور گواہوں کو زبردستی اُٹھانا، اس کے ساتھ ہی ججوں، سرکاری وکیلوں اور حکومت کے درمیان غیرقانونی تعاون کے ثبوت، بزور کہتی ہے کہ خاص طور پر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں گواہوں کے مؤثر تحفظ کے لیے اقدامات بڑھائیں۔ پارلیمنٹ حکومت ِ بنگلہ دیش سے مطالبہ کرتی ہے کہ آئی سی ٹی سختی کے ساتھ قومی اور بین الاقوامی عدالتی معیارات کی پابندی کرے ۔ اس حوالے سے وہ آزاد، منصفانہ اور شفاف مقدمے پر زور ڈالتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انصاف کا اہتمام ہو۔ یہ پارلیمنٹ مطالبہ کرتی ہے کہ قانون کے دفاع کے لیے اپنی کوششوں کو دگنا کردے۔ یاد دلاتی ہے کہ ’’انسانی حقوق کے بارے میں بین الاقوامی وعدوں کو پورا کرے گی‘‘۔

ہم نے عالمی ردعمل کی صرف چند جھلکیاں قارئین کی نذر کی ہیں۔ جو حقائق ہم نے پیش کیے ہیں، ان سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ بنگلہ دیش میں اس وقت جو ظلم ڈھایا جا رہا ہے،        وہ انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتا ہے اور اس کے خلاف مؤثر احتجاج نہ کرنا اس جرم میں ایک طرح کی شرکت کے مترادف ہے۔

ہم صاف الفاظ میں کہنا چاہتے ہیںکہ بنگلہ دیش جماعت اسلامی ہر الزام کا مردانہ وار مقابلہ کرنا چاہتی ہے۔ اس نے اس ٹربیونل کی ساری خامیوں، ناانصافیوں اور زیادتیوں کے باوجود قانونی لڑائی کا راستہ اختیار کیا اور وہ ہرسطح پر صاف شفاف مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے، اس لیے کہ اس کا دامن بے داغ ہے، لیکن اس وقت جو ظلم کیا جا رہا ہے اس کی وجہ سیاسی انتقام ہے۔ عوامی لیگ کی قیادت اسلامی اور جمہوری قوتوں کے اتحاد سے خائف ہے ، اور ان کو ان ناپاک ہتھکنڈوں سے میدان سے ہٹانا چاہتی ہے۔ وہ سیکولر لبرل قوتوں اور بھارت کے ایجنڈے پر عمل کررہی ہے۔ اس ٹرائل کے دوران میں بھارت کے وزیرخارجہ نے خاص طور پر بنگلہ دیش کا دورہ  کیا اور ان مقدمات میں دل چسپی کا اظہار کیا۔سزاے موت کے فیصلے کے اعلان کے بعد بھارت کے صدر صاحب بنفسِ نفیس بنگلہ دیش تشریف لائے اور حکومت کو اشیرباد دی۔ وہ مغربی حکومتیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے اِکا دکا واقعات پر آسمان سر پر اُٹھا لیتی ہیں، اس صریح ظلم پر خاموش ہیں یا صرف دبے لفظوں میں اور ’اگرمگر‘ کے ساتھ چند جملے کہہ رہی ہیں، اور سب سے زیادہ افسوس ناک رویہ پاکستان کی حکومت اور اس کے بااختیار حلقوں کا ہے جو سفارتی میدان میں بھی کوئی سرگرمی نہیں دکھا رہے۔ ہم کسی سے رحم کی اپیل نہیں کرتے۔ ہم صرف بنگلہ دیش کے مسلمانوں، خصوصیت سے جماعت اسلامی اور بی این پی کی قیادت کے اس حق کی بات کرتے ہیں کہ وہ انصاف اور صرف انصاف چاہتے ہیں اور انتخابی عمل کے ذریعے موجودہ حکمرانوں کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی جماعت اور وہاں کے عوام نے احتجاج کا راستہ اس لیے اختیار کیا ہے کہ حکومت اور عدالت نے انصاف کا دروازہ بند کردیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ فتح ان شاء اللہ  حق ہی کی ہوگی اور یہ آزمایش اسلامی قوتوں کو بالآخر مزید قوت سے اُبھرنے کا موقع دے گی جس طرح دوسرے ممالک میں نظر آرہا ہے۔ مصر میں اخوان المسلمون پر کون سے مظالم ہیں جو ۶۰برس تک نہیں ڈھائے گئے مگر ظلم کی قوتیں حق کی آواز کو دبانے میں ناکام رہیں اور آوازئہ حق بلند ہوکر رہا۔ ان شاء اللہ بنگلہ دیش جماعت اسلامی تو اس امتحان میں ضرور کامیاب ہوگی لیکن سوال یہ ہے کہ ہم   اہلِ پاکستان اور دوسرے وہ تمام عناصر جو انسانی حقوق اور انصاف کی بالادستی چاہتے ہیں وہ اس امتحان میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں؟  یا پھر ان کا شمار تاریخ میں مجرموں کے ساتھ ہوگا؟


کتابچہ دستیاب ہے، ۱۳ روپے، سیکڑے پر خاص رعایت، منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲

حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساحلِ سمندر کی جانب ایک لشکر بھیجا جس میں ۳۰۰ مسلمان شامل تھے۔ آپؐ نے حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓکو ان کا امیر بنایا۔ میں بھی ان ۳۰۰ میں شامل تھا۔ ہم نکل کھڑے ہوئے، ہم راستے میں تھے کہ زادِراہ ختم ہونے کے قریب ہوگیا۔ تب ابوعبیدہ بن جراحؓ نے فوج کو حکم دیا کہ ہرآدمی وہ سب کچھ ایک جگہ لے آئے جو اس کے پاس ہے۔ چنانچہ سب نے اس پر عمل کیا، جس کے نتیجے میں کھجوروں کے دو بورے بھر گئے۔ حضرت ابوعبیدہ ان بوروں میں سے ہر دن ہر فوجی کو ایک کھجور کھانے کے لیے دیتے تھے یہاں تک کہ وہ دونوں بورے بھی ختم ہوگئے۔ حضرت وھب بن کیسانؓ جو حضرت جابر ؓ سے اس روایت کو بیان کرتے ہیں، کہتے ہیں: میں نے کہا کہ ایک کھجور کیا کام دیتی ہوگی۔ اس پر حضرت جابرؓ نے کہا: ہمیں تو اس کی قدر اس وقت ہوئی جب وہ ایک ملنا بھی بند ہوگئی۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد بھی ہم چلتے رہے یہاں تک کہ سمندر کے ساحل (جو منزل تھی) پر پہنچ گئے تو دیکھا کہ ٹیلے کی طرح ایک مچھلی کنارے پر پڑی ہے۔ اس کو ہم نے ۱۸دن خوب سیر ہوکر کھایا۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ نے اس مچھلی کے دو کانٹوںکو کھڑا کیا (ان میں نیچے سے فاصلہ رکھا، اور اُوپر سے ملا دیا، پھر اُونٹنی پر کجاوے ڈال کر ان دونوں کانٹوں کے بیچ سے گزار ا گیا تو وہ گزر گئی اور کانٹوں کے سروں کے ساتھ نہ ٹکرائی۔ (بخاری، کتاب الشرکۃ)

صحابہ کرامؓ نے جس تنگ حالی میں جہاد کیا، اس کا ایک نمونہ یہ جہادی مہم ہے، کہ ایک کھجور کھا کر دن رات گزارا کرنا اور اس کے ساتھ ہی جہادی مہم کو سر کرنا، آگے بڑھتے چلے جانا اور پیچھے نہ ہٹنا، اور کوئی واویلا نہ کرنا اور کسی قسم کی بے صبری اور افراتفری کا شکار نہ ہونا۔ ایسی حالت میں آپس میں ہمدردی اور غمگساری کا یہ عالم ہے کہ سب کے پاس جو کچھ ہے وہ اکٹھا کرلیا جاتا ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی تو کھائے اور کوئی بھوکا رہے۔

آج اگر یہ ہمدردی اور غمگساری ہمارے معاشرے میں آجائے تو بھوک کا مسئلہ آناً فاناً حل ہوجائے۔ معاشرے کے کھاتے پیتے لوگ ہمدردی، غمگساری اور معاشرے کے غم میں ڈوب جانے اور آنسو بہانے کی باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن خزانوں پر سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگر سب لوگ اپنی دولت کو ایک جگہ جمع کرکے اسے ملک و ملّت کے حوالے کر دیں تو بیرونی قرضے بھی یک دم ختم ہوجائیں اور اندرونی معیشت بھی مضبوط و مستحکم ہوجائے اور کوئی بھوکا ننگا نہ رہے۔ بے شک اس کے لیے اپنی ساری دولت سے دست بردار نہ ہوں بلکہ قرضوں کی ادایگی اور عوام کے بھوک اور ننگ دُور کرنے کے لیے جس قدر دولت کی ضرورت ہے اتنی مقدار سے دست بردار ہوجائیں، تب بھی صورت حال تبدیل ہوسکتی ہے اور بدامنی کی جگہ امن، تنگی کی جگہ آسانی اور پریشانی کی جگہ اطمینان اور سکون کی زندگی میسر آسکتی ہے۔ ایسا کرلیں تو اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد نازل ہوسکتی ہے اور ہمیں غیب سے رزق مل سکتا ہے۔ آج کے دور میں قوت کا راز ہی مستحکم معیشت ہے۔ یہ ہمیں قوموں کی برادری میں معزز مقام دلواتی، اور ۲۱ویں صدی امریکا یا چین کے بجاے ہمارے نام ہوجاتی۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَ لَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِم(المائدہ۵:۶۶) ’’اگر یہ لوگ تورات، انجیل اور اسے قائم کرتے جو ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے (یعنی قرآن پاک ) تو ان پر اُوپر سے بھی رزق برستا اور نیچے سے بھی رزق برستا‘‘۔گویا اہلِ کتاب تورات کے دور میں تورات اور انجیل کے دور میں انجیل اور قرآن پاک کے دور میں قرآن پاک کو قائم کرلیتے تو ان پر  اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق کے تمام دروازے کھل جاتے۔ اس نسخے پر ۵۷ممالک عمل کریں تو    کون سی سوپرپاور ہمارے سامنے ٹھیرتی۔ہم محض اپنی نادانی میں ان پاورز کی ٹھوکروں میں پڑے ہیں، العیاذ باللہ۔ کاش کہ ہم تقویٰ کی روش اختیار کریں اور زمین و آسمان کی برکتوں اور نعمتوں کا مشاہدہ کریں۔ قرآن و سنت پر عمل کرنے سے آخرت تو بنتی ہے، دنیا بھی سنور جاتی ہے اور معاشی حالت بہتر ہوجاتی ہے۔ رزق میں فراخی، ذہنوں کو سکون اور دلوں کو اطمینان نصیب ہوجاتا ہے۔ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کی طرف رجوع کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف اپنی رحمت کے ساتھ رجوع کرتا ہے۔ ایسا پہلے بھی ہوا ہے، آج بھی ہوسکتا ہے اور آیندہ بھی حقیقی آسودہ حالی حاصل کرنے کا یہی راستہ ہے۔


حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! راستوں میں بیٹھنا ہماری مجبوری ہے، ہمارا رواج ہے۔ ہم راستوں میں (یعنی راستوں کے کناروں پر) مل بیٹھتے ہیں، مشورے ہوتے ہیں، لہٰذا آپؐ اس کی اجازت مرحمت فرما دیں تو اچھا ہوگا۔ آپؐ نے فرمایا: اگر تم نے راستوں کے کناروں پر بیٹھنا ہی ہے تو پھر راستے کا حق ادا کرو۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! راستے کا حق کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: راستے کاپہلا حق: نظریں نیچے رکھنا ہے، دوسرا حق: تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ہے، تیسرا حق: سلام کا جواب دینا، اور چوتھا حق بھلائی کی تلقین کرنا اور بُرائی سے روکنا ہے۔ (بخاری، ابواب المظالم والقصاص)

شارع عام کے کنارے پر بیٹھنے کی اجازت ہے بشرطیکہ آنے جانے والوں کو اس سے تکلیف نہ ہو۔ سڑک کے ذریعے آمدورفت بلاروک ٹوک ہونا چاہیے۔ اس لیے راستے کو کم کرنا، تجاوزات کرنا، سڑک کے کنارے ریڑھیاں لگانا، دکانیں اور مکان بنانا اسی صورت میں جائز ہے جب اس سے راستہ گزرنے والوں کے لیے تنگی اور تکلیف پیدا نہ ہوتی ہو۔ اسی طرح معاشرے میں آمدورفت، نشست، بسوں، ٹرینوں اور جہازوں میں سفر کے دوران اور جلسوں، جلوسوں اور اجتماعات کے دوران نظریں نیچی رکھنا اسلامی تہذیب کا امتیاز ہے۔ اسمبلیوں تجارتی مراکز اور ہالوں میں بے پردگی نہیں ہونی چاہیے۔ مردوں کی نشستیں الگ اور خواتین کی الگ ہونی چاہییں۔ کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں بھی اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ دفاتر، ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں کے لیے بھی اس کے مطابق نظام بنانا چاہیے۔ مغربی تہذیب نے ہمارے معاشروں کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ آج ہمارا معاشرہ بھی مغرب کی طرح مخلوط ہوگیا اور اختلاط مردوزن کی وجہ سے مسلمانوں کی بے راہ روی کے نتیجے میں زندگی سے سکون ختم ہوگیا ہے، اور بندے اللہ تعالیٰ کی بندگی سے غافل ہوگئے ہیں۔ سلام پھیلانے کی جگہ ہم نے ہاتھ سے سلیوٹ کرلینے کو سلام کا بدل بنا دیا ۔ نیکی کا حکم کرنا اور برائی کو روکنا ایک فریضہ ہے جو حکومت، عوام اور علما اور زعما سب کی ذمہ داری ہے، لیکن آج صرف اسے منبر کے ساتھ خاص   کردیا گیا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ہم اپنا لیں جیسے کہ اس کو اپنا لینے کا حق ہے، تو دنیا جنت نظیر بن سکتی ہے۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ادھار کی ادایگی کا مطالبہ کیا اور سخت رویہ اختیار کیا۔ صحابہؓ نے ارادہ کیا کہ اسے اس کے نازیبا رویے کی سزا  دیں۔ آپؐ ان کے اس ارادے کو بھانپ گئے تو آپؐ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو۔ حق دار کو مطالبہ کرنے اور بات کرنے کا حق ہے۔ جس مالیت کا اس نے اُونٹ دیا تھا اتنی ہی مالیت کا اُونٹ تلاش کرکے اسے دے دو۔ صحابہؓ نے اس طرح کا اُونٹ تلاش کیا لیکن نہ ملا۔ چنانچہ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اس مالیت کا اُونٹ تو نہیں مل رہا، اس سے زائد مالیت کا اُونٹ مل رہا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: وہی خرید لو اور اسے ادایگی کرو۔ تم میں سے بہتر وہ ہے جو ادایگی میں بہتر ہو (بخاری کتاب االاستقراض )

یہ شخص یہودی تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سخت روش اور نازیبا انداز کو برداشت کیا۔ اسے اس کا حق نہ صرف ادا کیا بلکہ اس سے زائد دیا۔ آپؐ نبی، رسول اور حکمران تھے۔ آپؐ ایک عام آدمی کی زندگی بسر کرتے تھے، خریدوفروخت کرتے، اُدھار لین دین کرتے۔ کوئی بھی شخص ایسا نہ تھا کہ وہ آپؐ سے مل نہ سکتا تھا، کوئی سیکورٹی اور کوئی دربان آپؐ کے دروازے پر نہ تھا۔ مسجد میں، راستے میں چلتے ہوئے آپؐ سے ملاقات ہوسکتی تھی۔ کیا آج کی مہذب حکومتیں اس کی مثال پیش کرسکتی ہیں؟ کیا رواداری، خوش اخلاقی کا اس سے بہتر نمونہ کہیں تلاش کیا جاسکتا ہے، اور آج کے معاشرے میں اس نمونے کی کوئی حکمران شخصیت سامنے لائی جاسکتی ہے۔ کوئی مذہبی پیشوا بھی ایسا ہے کہ دوسرے مذہب یا مسلک کا شخص اس کے ساتھ سختی سے پیش آئے تو پیروکار اسے برداشت کریں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار تو صحابہؓ تھے۔ کیا انھوں نے آپ ؐ کی صحبت میں کسی کے ساتھ زیادتی کی؟ تب یہ کیسے  ممکن ہے کہ صحابہؓ سے محبت کرنے والا، اہلِ بیتؓ کا پیروکار، ان کی محبت میں لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے بجاے انھیں پامال کرے۔ مسلمانوں میں یہ بات کہاں سے آگئی ہے؟ یہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ لادین معاشروں سے ان میں در آئی ہے، لہٰذا مسلمانوں کو اپنے دین کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی سیرت کو اپنانا چاہیے اور دنیا کے لیے، اس نمونے کو تازہ کرنا چاہیے جو نمونہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے پیش کیا ہے۔ آج دنیا کو نبیؐ اور اصحابِ نبیؐ کی سیرت کی ضرورت ہے۔ یہی امن و امان اور شرافت کے دوردورہ کی ضامن ہیں۔

 

تمباکو نوشی اسلام کے نزدیک حرام ہے، مکروہ ہے، یا مباح ہے؟ اس کے انسانی زندگی ، انسانی صحت اور مستقبل پر کیا اثرات ہیں؟ مختلف ملکوں میں زمینی حقائق کیا ہیں؟ اس سے بچنے کے لیے کیا طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں؟ اس کے لوگ عادی کیوں ہوتے ہیں؟ حکومتیں کیوں    بے بس ہیں؟ عالمی اداروں کی طرف سے اس کو روکنے کے لیے جن جرأت مندانہ اقدامات کی ضرورت ہے وہ کیوں نہیں ہو رہے؟ سگریٹ کے کارخانے داروں کے ہاتھ میں انسان یرغمال کیوں ہے؟ انسان کا اپنا عمل ہلاکت خیز کیوں نہ ہو، عادت بن جانے کے بعد سوبہانے تراشتا ہے کہ جو کچھ کر رہا ہوں بالکل ٹھیک ہے۔ علما کو تو چھوڑیں جن ڈاکٹروں نے تجربات، مشاہدے اور سالہا سال کے واضح ریکارڈ کے بعد سر کی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ یہ کتنی ہلاکت خیز عادت ہے، وہ بھی اس کو خیرباد کہنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

۱۹۹۶ء میں ملایشیا میں ڈاکٹروں کی کانفرنس سے پروفیسر ڈاکٹر محمد علی بار، رائل کالج آف فزیشنز برطانیہ اس موضوع پر خطاب کر رہے تھے اور سعودی عرب میں اس کے اثرات بیان کرتے ہوئے ایک بچی کا ذکر کیا جس کے والد نے اس کو بچپن سے شیشے (چلم) کا عادی بنایا تھا۔ عین جوانی میں ۱۹سال کی عمر میں سینے کے کینسر سے اس کا انتقال ہوا۔ الم ناک موت کا منظر تصاویر کی شکل میں  دکھا بھی رہے تھے۔ اس وقت انھوں نے بتایا کہ ۱۶لاکھ افراد اسی طرح تمباکو نوشی سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔رسالہ الٰی اطبا ء مصر (ص ۲۵) میں لکھتے ہیں کہ: ’’تمباکو نوشی کے نقصان دہ ہونے میں کوئی اختلاف نہیں رہا، بلکہ صحت پر تمباکو نوشی کے بُرے اثرات اب طاعون، ہیضے، چیچک، تپ دق اور جذام، سب کے اکٹھے خطرات سے بھی زیادہ خطرناک سمجھے جاتے ہیں۔ صحت پر تمباکو نوشی کے مضر اثرات بڑے خوف ناک اور مہلک ہوتے ہیں، کیونکہ لاکھوں انسان ہر سال تمباکونوشی کی وجہ سے مر رہے ہیں، جب کہ کروڑوں انسان اس کی وجہ سے کئی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہوکر کرب اور اذیت کی مسلسل زندگی گزارنے پر مجبور ہورہے ہیں۔

تمباکو نوشی سے لاحق ہونے والے مختلف امراض میں (نظامِ تنفس میں) پھیپھڑے کا کینسر، گلے کا کینسر، نمونیا ، ضیق دم۔ (دل و گردشِ خون کے نظام میں) دل کا انجماد، اچانک موت، اعضا میں دورانِ خون کا انجماد۔ (نظامِ ہضم میں) ہونٹ، منہ، گلے، نرخرے، معدے اور آنتوں کا کینسر۔ (نظامِ بول) مثانے کے زخم اور کینسر، گردن کا سرطان۔(حاملہ عورت اور بچے  میں) حمل کا کثرت سے ساقط ہونا، بچے کا وزن کم ہونا، موت ہوجانا، نمونیا۔(دیگر امراض میں) آنکھوں کے عضلات میں سوزش، اندھاپن ، دمہ، جِلد کی سوزش، ناک، کان اور گلے کی بیماریاں، بلڈپریشر کے خطرات، شوگر، کولسٹرول کا اضافہ، موٹاپا وغیرہ شامل ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد علی لکھتے ہیں کہ پنڈلیوں کی شریانوں کے بیماروں میں ۹۵ فی صد تمباکونوش ہوتے ہیں۔ امراض میں تمباکو نوشوں کا مبتلا ہونا ۱۰ گنا زیادہ ہے اور اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ ہرتین تمباکو نوشوں میں سے ایک کی موت تمباکو نوشی سے واقع ہوتی ہے۔ (ماخوذ: صحت پر تمباکو نوشی کے اثرات، مؤلفہ ڈاکٹر محمد علی بار)

پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز سامی پروفیسر امراضِ سینہ اور میڈیکل کالج قاہرہ یونی ورسٹی کے پرنسپل لکھتے ہیں کہ تمباکو نوشوں کے ساتھ رہنے والا ایک گھنٹے میں جتنا تمباکو سونگھتا ہے، وہ ایک سگریٹ پینے کے برابر ہے۔ انھوں نے درج بالا عام امراض کی ہلاکت خیزی کی توثیق کی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر شریف عمر جراحت ِ سرطان کے شعبے سے وابستہ ہیں، کا کہنا ہے کہ قاہرہ یونی ورسٹی میں تمباکو نوش عورتوں میں بچوں کی قبل از وقت ولادت یا ولادت کے دوران اموات دوسری خواتین کی نسبت ۲۸ فی صد زیادہ ہوتی ہیں۔ ناڑ کے ذریعے مضر اثرات بچوں میں منتقل ہوتے ہیں، اور یہ اثرات ولادت کے بعد ۱۱ سال تک رہتے ہیں۔ دنیابھر کے طب کے ماہرین ان تمام اثرات کی تائید کرتے ہیں۔

پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل نے سگریٹ نوشی کو ممنوع قرار دینے کے لیے فتویٰ ۲۶مئی ۲۰۰۰ء کو جاری کیا۔ اس کے علاوہ تین آرڈی ننس جاری کیے گئے جو تشہیر اور عوامی جگہوں پر سگریٹ نوشی کی ممانعت سے متعلق ہیں۔ نسوار، پان، حقہ اور سگریٹ وہ مشہور جانے پہچانے طریقے ہیں جن میں تمباکو استعمال کیا جاتا ہے اور اس طرح انسانی صحت کو تباہ کیا جاتا ہے۔

تمباکو نوشی کا شرعی حکم

تمباکو نوشی کی شرعی احکام کی پانچ نوعیتیں ہیں: وجوب، حُرمت، کراہت، استحباب اور اباحت۔ ان میں سے کسی حکم کے تحت لانے سے متعلق کوئی صریح نص نہ ہونے کی وجہ سے فقہا میں اختلاف تھا۔ کچھ نے تمباکو نوشی کو حرام، کچھ نے مکروہ اور کچھ نے اس کو مباح کہا ہے۔ ایک موقف یہ بھی ہے کہ حکم کچھ بھی ہو، انسداد ضروری ہے۔

  • تمباکو نوشی حرام ھونے کے دلائل: حرام سے مراد ایک ایسا معاملہ ہے جس کے نہ کرنے کا بندے کو حکم ہے اور اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اس کام کو چھوڑ دے۔ اس کی ممانعت کی گئی ہو اور اس کے کرنے والے کو سخت سزا دی جاتی ہو۔ شرط یہ ہے کہ کتاب اللہ کی ایسی دلیل سے ثابت ہو جو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت ہو، یعنی اس سے کسی چیز کے حرام ہونے کے سوا کوئی دوسرا مفہوم لینے کا امکان نہ ہو۔ اس کے کرنے سے کئی خرابیاں اور نقصانات ہوتے ہوں، جیسے زنا، چوری، سود، شراب، خون کے پینے اور لوگوں کے مال کو ناجائز طریقے سے کھانے کی حُرمت ہے۔ ان کے بارے میں صریح احکامات قرآن میں موجود ہیں۔ حرام لغیرہ، اس سے مراد ایسا حرام ہے جس کی صریح اور قطعی نص موجود نہ ہو لیکن ومحرم لعینہ کا ذریعہ بنتا ہو، یعنی وہ اثرات کے اعتبارسے ایسے ہوں جیسے حرام چیزوں کے اثرات ہوتے ہیں۔ اسلام کا مقصد (مقاصد الشریعہ علامہ شاطبی نے الموافقات میںبیان کیے ہیں) جان، مال  عقیدہ نسل ا ور عقل کا تحفظ ہے۔    ان کو بگاڑنے یا ضائع کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

حضرت ابوسعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ خود کو ضرر دو اور نہ دوسرے کو ضرر دو (ابن ماجہ، دارقطنی، مرفوعاً، جب کہ مالک سے مرسل)۔ لاضررا کا عام مفہوم یہ ہے کہ نقصان نہ پہنچائو۔ مریض کے لیے پانی مضر ہو تو وضو معاف، مسافر کے لیے روزہ معاف،احرام کی پابندیاں معاف، حلق (سرمنڈوانا)کے بجاے فدیہ دے دے۔ حضرت عباسؓ سے مرفوع روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کون سا دین اللہ کو پسند ہے تو آپؐ نے فرمایا: آسان حنفیت۔ ضرر کا شریعت میں وجود نہیں اور ممنوع ہے۔ اس لیے تمباکو نوشی سے جان کو نقصان دینا حرام ہوگا کیونکہ خود کو اور دوسروں کو ضرر دینا ممنوع ہے۔

۲- مال کے ضیاع کا سبب: تمباکو نوشی مال کی تباہی اور ضیاع کا ذریعہ ہے۔    حافظ ابن حجرؒ نے فرمایا کہ اکثر نے مال کے ضیاع سے اسراف مراد لی ہے اور کچھ نے اس اسراف کو حرام چیز پر صرف کرنے تک کا مطلب لیا ہے۔ زیادہ قوی بات یہی ہے کہ جس دینی یا دنیاوی  غرض کے لیے مال صرف کرنے کی شرعاً اجازت نہیں دی گئی وہ ممنوع ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے    مال بندوں کے مصالح کی تکمیل کا ذریعہ بنایا ہے اور فضول خرچی سے یہ مصالح ضائع ہوتے ہیں۔ (فتح الباری فی شرح صحیح بخاری، ج ۱۰، ص ۲۳۰)

مال کا اس سے زیادہ ضیاع اور کیا ہوگا کہ تمباکو خریدا جائے جو دھواں، راکھ اور بیماری کی شکل اختیار کرلے اور انسان کی زندگی کا چراغ گُل کردے۔ سورئہ حدید کی آیت ۱۷ ، جس میں فرمایا گیا کہ تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو اور جو مال تمھیں دیا گیا ہے اس کو خرچ کرو۔ علامہ قرطبی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: معلوم ہوا اصل ملکیت اللہ تعالیٰ کی ہے۔ انسان کو اللہ کی پسند کے مطابق خرچ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے تاکہ جنت بھی صلے میں ملے۔ (تفسیر قرطبی، ج۱۰،ص ۲۴۷)

تمباکو خریدنا مال کا ضیاع ہے، جب کہ اس فرد کو اور اس کے رشتہ داروں کو رقم کی ضرورت ہو۔ حضرت عمرو بن العاص سے ابوداؤد میں روایت کی گئی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان کا یہ جرم کافی ہے کہ وہ اپنے زیرکفالت لوگوں کو ضائع کرے۔ سورئہ اعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ان کے لیے پاکیزہ چیزیں وہ حلال کرتا ہے اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے‘‘ (۷:۱۵۷)۔ کسی چیز کے ناپاک اور ناگوار ہونے کی وجہ سے اس کی حُرمت ہوتی ہے۔ گندی بو    تو تمباکو کی سب سے ہلکی خرابی ہے ورنہ اس سے پیدا ہونے والی بیماریاں، خرابیاں تو حددرجہ خطرناک اور مہلک ہیں۔یوں تمباکو اپنے کڑوے مزے، شدید بدبو، سنگین نقصان، مہلک نتائج کی بناپر حددرجہ خطرناک اور مہلک ہے، اس لیے یہ حرام ہوگا۔

تمباکو نوشی پر مال کو خرچ کرنا بے موقع بھی ہے اور بلاضرورت بھی۔ اس لیے کہ اسراف حرام ہے۔ اس بنیاد پر تمباکو نوشی حرام ہے اور حددرجہ خطرناک۔

۳-  مضر صحت ھونا:صحت کو نقصان پہنچانے کے سبب سے اس کی حُرمت ثابت ہے۔ قرآن کریم، حدیث نبویؐ، شرعی قواعد اور قابلِ اعتماد و شرعی نصوص سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ صحت کے لیے جو چیز نقصان دہ ہے اس کا استعمال مکروہ تحریمی یا حرام ہے۔

جامعہ ازہر کی فتویٰ کمیٹی نے فتویٰ دیا ہے کہ تمباکو نوشی ناپسندیدہ عادت اور حرام ہے۔ یہ فتویٰ الجمہوریہ اخبار میں ۲۲مارچ ۱۹۷۹ء کو شائع ہوا۔ ڈاکٹر زکریا اور ڈاکٹر محمد طیب نجار نے صحت کے لیے اس کے مضر ہونے پر ڈاکٹروں کے اتفاق کی وجہ سے اس کی حُرمت کا فتویٰ دیا ہے (یہ اسلامک ریسرچ اکیڈمی مصر کے رکن ہیں)۔ جدید طبی تحقیقات نے اس کے سخت نقصانات کو ثابت کر دیا ہے اور ان تحقیقات کو بہت سی حکومتوں نے تسلیم کرتے ہوئے عوامی مقامات اور اجتماعات میں اس کے پینے کو ممنوع قرار دیا ہے۔

تمباکو نوشی پر عالمی ادارہ صحت کی کانفرنس جنیوا میں دسمبر ۱۹۷۴ء میں منعقد ہوئی۔ طب کے پروفیسر، سائنسی تحقیق اور حفظانِ صحت کے فروغ کے اداروں کے ماہرین کی بڑی تعداد نے عالمی بنیادوں پر شرکت کی۔ کانفرنس میں متفقہ طور پر طے کیا کہ پھیپھڑوں کے سرطان، نمونیا، ضیقِ دم، دل کے دوران خون کی بندش اور کناروں میں خون کی بندش ،جسم کے بہت سے مقامات کا سرطان، اسقاطِ حمل، مُردہ بچوں کی پیدایش، بچوں کی قبل از وقت اموات، موت کے اہم ترین سبب ہیں،جن کی بڑی وجہ تمباکونوشی ہے۔ سگریٹ سے اُٹھنے والے دھوئیں میں کینسر کا مواد اور اشتعال انگیز مادہ پایا جاتا ہے۔ پتھالوجیکل تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ قیر، نکوٹین اور کاربن مونوآکسائیڈ خلیوں میں کینسر بنانے والی غیرطبعی تبدیلیاں پیدا کرتی ہیں۔ (تمباکو نوشی کا شرعی حکم، عالمی ادارہ صحت،ص ۹۱)

 ۴- عقل کے لیے نقصان دہ ھونے کی وجہ سے حُرمت(عقل کا تحفظ مقاصد الشریعہ میں سے ہے): ایسے دلائل موجود ہیں کہ دماغ کی خونی نالیوں کے امراض کا سبب تمباکو نوشی ہے۔ امریکا میں وسیع پیمانے پر تحقیقات ثابت کرتی ہیں کہ تمباکو نوشوں کی اموات کا تناسب اس سبب سے بہت زیادہ ہے۔ (تمباکو نوشی کا شرعی حکم، عالمی ادارہ صحت تمباکو،ص ۹۳)

__ جان، مال، صحت اور عقل پر ثابت شدہ حقائق کے روشنی میں علما نے حُرمت کا فتویٰ ، مصر میں فقہا احناف نے تمباکو نوشی کے حرام ہونے کی تصریح یا اشارہ کیا یا اسے مکروہ تحریمی کے دائرے میں رکھا۔ ان میں فقہا احناف ۱۳، شافعیہ ۷، مالکیہ ۶ اور حنابلہ ۵ ہیں۔

__ اکتوبر ۱۹۸۴ء کے مجلہ التصوف نے جامعہ ازہر کی فتویٰ کمیٹی کا فتویٰ شائع کیا کہ  ان وجوہ کی بنا پر ہماری راے ہے کہ تمباکو کا پینا، اس کی درآمد و برآمد اور تجارت سب حرام ہے۔

__ منشیات کی انسداد کی عالمی اسلامی کانفرنس جو مدینہ منورہ میں ۲۷ تا ۳۰ جمادی الاول ۱۴۰۲ھ مطابق ۲۲ تا ۲۵ مارچ ۱۹۸۲ء منعقد ہوئی، اس کانفرنس میں شریک علما نے بالاجماع تمباکو کے استعمال، اس کی کاشت اور تجارت کے حرام ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔ ( تمباکو کی کاشت  میںجو کیڑے مار دوا استعمال ہوتی ہے اور اس سے کسانوں کی ہلاکت کے ا عداد شمار بھیانک ہیں جو ۱۹۹۶ء میںڈاکٹر محمد علی البار نے ملایشیا میں پیش کیے)۔

__سعودی عرب کے سابق مفتی اکبر شیخ محمد ابراہیم آلِ شیخ کے فتوے میں کہا گیا ہے کہ تمباکو کے ناپاک ہونے، بدبودار ہونے اور بعض اوقات نشہ آور اور خواب آور ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ اس لیے صحیح روایات اور صریح عقل اور ثقہ ڈاکٹروں کی آرا کے مطابق اس کی حُرمت ثابت ہوتی ہے۔ یہ فتویٰ سات قسم کے اسباب کی وجہ سے دیا گیا:

  • ڈاکٹروں کی راے ہے کہ صحت کے لیے مضر ہے  
  • خواب آور اور نشہ آور ہے (مسکر ہونے کی بنیاد پر) 
  • بدبودار ہے، لہسن اور پیاز والی احادیث سے مماثلت ہے، دوسروں کو تکلیف دیتی ہے 
  • فضول خرچی ہے، نصوصِ صریحہ سے ثابت ہے
  • ناپاک ہے (خبائث والی آیات کے سبب سے ) 
  • اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اپنی جانوں کو قتل نہ کرو (البقرہ ۲:۱۹۵) ،لہٰذا جان کا قتل ہے 
  • ضرر ہے، نہ خود کو    ضرر دو، نہ دوسرے کو ضرر دو (حدیث کے سبب)۔

ان علما نے تمباکو نوشی کو حرام قرار دیا ہے۔

۵- مباح قرار دینے والے علما کا موقف:یہ زیادہ تر ان افراد کا موقف رہا جن کے سامنے طبی تحقیقات اور صحت کے جائزے نہیں آئے اور یہ گروہ قدیم علما کا ہے۔ انھوں نے فقہ کے ان اصولوں کو سامنے رکھا کہ اشیا کااصل حکم جواز ہے، اور  فائدہ مندچیزوں کا اصل حکم ان کے استعمال کا جواز، اور نقصان دہ چیزوں کا اصل حکم ممانعت اور حرمت ہے۔ ان اصولوں کا تجزیہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ پہلے اصول میں ایک گروہ کا خیال ہے کہ فائدہ مند اور نقصان دہ چیزوں کے اضافے کے الفاظ سے تو پھر نقصان دہ چیزوں کا حکم حُرمت ہونا چاہیے۔ جیسے دوسرے اصول میں ذکر کیا گیا ہے۔ اس وقت ایسا کوئی گروہ ممکن نہیں جو موجودہ حقائق کا مطالعہ کرے تو  اس کی اباحت پر قائم رہے۔

۶- تمباکو نوشی مکروہ ھے: اس پر جن علما کا فتویٰ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ   اُس وقت تک طب کی تحقیقات اتنی مکمل نہیں تھیں کہ ان پر ایسا کوئی موقف اختیار کیا جاسکتا، مثلاً مولانا کفایت اللہؒ (کفایت المفتی، جلدنہم ، ص۱۲۰، آٹھواں باب، کتاب الخطروالاباحۃ) ۱۹۳۷ء کئی سوالات کے جواب میں علیحدہ علیحدہ فرماتے ہیں: ’’حقہ پینا فی حد ذاتہ  (اپنے حدود میں)مباح ہے، مگر بدبو کی وجہ سے کراہت آتی ہے۔ کل دخانٌ حرامؑ حدیث نہیں ہے۔ اگر منہ میں بدبو باقی ہو تو بے شک مسجد میں آنا اور امامت کرانا مکروہ ہے، ورنہ نہیں۔ سوال کرنے والے چونکہ دلائل ایسے دیتے کہ تمباکو نشہ آور نہیں، اور نہ زہریات میں سے ہے۔ صرف بدبو ہوتی ہے۔ اسراف میں بھی اس لیے نہیں آتا کہ پانی اور خوراک پر خرچ تو زندگی کے لیے ضروری ہے مگر گرمیوں میں شربت کا پینا استحفاظ اور استراحت طبع (راحت جا ن )کے لیے ہے۔ اگر حقہ پینا داخلِ اسراف ہو تو پھر تمباکو نوشی کے اور ذرائع بھی اسراف کے زمرے میں آئیں گے اور ایک وجہ علما کا اختلاف بھی ہے۔  اس لیے انھوں نے صرف بدبو کی بنیاد پر مکروہ قرار دیا۔

مولانا گوہر رحمنؒ ایک سوال : کیا نسوار اور سگریٹ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ کے جواب میں رقم طراز ہیں: نسوار اور سگریٹ صحت کے لیے مضر ہیں اور مکروہ ہیں۔ ان کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے۔ لیکن ان کے استعمال سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ الا یہ کہ بے ہوشی طاری ہوجائے۔(تفہیم المسائل، جلدچہارم ، ص ۳۱۲، ستمبر ۱۹۹۷ء )

جامع المسائل میں شیعہ عالم فاضل لنکرانی ، ص ۳۴۷ سوال نمبر۱۴، منشیات کے   باب میں فرماتے ہیں: سگریٹ (دخانیات بھی) اگر منشیات کا زینہ فراہم کرے تو جائز نہیں۔  سوال نمبر۲۰ میں فرماتے ہیں:اگر کسی ایسے ضرر کا باعث ہوا جو تشویش ناک ہو تو جائز نہیں۔    حرام کرنے والے علما کے بالمقابل جو دلائل دیے گئے ہیں وہ تین ہیں:

۱- چار اصل ماخذوں میں سے کوئی دلیل صریح جو نام لے کر اس کی حرمت کا ذکر کرے، قرآن، حدیث، اجماع، اور قیاس سے ثابت نہیں، اس لیے مباح ہے۔

۲- اشیا کا اصل حکم جواز ہے، اس لیے تمباکو نوشی اس میں شامل ہے۔

۴- تمباکو نوشی مفید ہے نہ کہ مضر (ان کی راے ہے)، اور منافع کا اصل حکم ان کے استعمال کا جائز ہونا ہے اور نقصانات کا اصل حکم حُرمت ہے۔

بہرحال ان دلائل کا رد اور جواب جو دیا گیا ہے، یہ گروہ زیادہ سے زیادہ اس کو مکروہ قرار دیتا ہے۔ بعض اوقات ہر فرد کی مالی حالت ، اس کی صحت اور مزاحمت کی طاقت پر راے کا اظہار کیا جاتا ہے۔ شیخ یوسف وجوی اپنی کتاب مقالات و فتاویٰ میں کہتے ہیں: متاخرین کے درمیان  اس کے استعمال کے حکم کے بارے میں اختلاف ہوا ہے، کچھ نے اسے حلال اور کچھ نے حرام  قرار دیا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اسے مطلقاً حلال یا حرام قرار دینا مناسب نہیں ہے کہ ایسا کرنا  افراط و تفریط سے خالی نہ ہوگا۔ اس صورت میں پینے والے کی حالت اور اس پر اسے پینے کے نتائج کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ اب جس کے لیے تمباکو نوشی مضر ہوگی اور اس کی صحت کے لیے بھی یہی حُرمت کا حکم ہوگا ۔ مالی اور بدنی ضرر کسی میں نہ پایا جائے تو اس کے لیے بدن کا جائزہ ڈاکٹر لے کر بتائے گا کہ اس پر حرام ہے یا نہیں، اور مالی ضرر تو ہر انسان خود سمجھتا ہے۔

انسداد کے لیے اقدامات

ایک چوتھا گروہ اس بحث سے صرفِ نظر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اتفاق راے سے جو موقف سمجھ میں آتا ہے وہ اس کا انسداد ہے کہ آیندہ کے لیے پورا زور اس کے انسداد پر صرف کیا جائے۔

انسداد دو طریقوں سے ممکن ہے: بچائو (Preventon) اور علاج (Treatment)۔ دانش مندی تو مصیبت آنے سے پہلے اس سے بچنے کا نام ہے، مثل مشہور ہے: ’پرہیز علاج سے بہتر ہے‘۔

اس وقت دنیا بھر میں تمباکو نوشی کے خلاف جو مہم جاری ہے اس میں مکمل تائید کرنا اور تعاون کرنا انسداد کو یقینی بنانے کے مترادف ہے۔ اب تمباکونوشی منع ہے کی بجاے یہ صحت پر حملہ ہے کے نعرے کو اپنایا گیا

  • کم عمر بچوں کو سگریٹ فروخت کی ممانعت
  • ڈبی پر مضرصحت لکھنا
  • سگریٹ میں مضرمواد کو کم کرنا
  • تقرریوں میں غیرتمباکو نوشوں کو ترجیح 
  • عوامی جگہوں پر ممانعت
  • بھاری ٹیکس لگانا
  • تشہیر کی پابندی 
  • اسکرین پر تمباکو نوشی پر پابندی
  • خلاف ورزی پر تادیبی سزائوں کا  اجرا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لہسن اور پیاز کھاکر مسجد میں آنے والوں کو جنت البقیع بھیج دیا کرتے تھے۔ یہ مدینہ کا مشہور قبرستان ہے۔ یہ بھی ایک انسدادی اقدام تھا۔

ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کرنی ہے۔ اس لیے ہمیں ہمارا احساس اس فرض کی طرف بلا رہا ہے کہ انسانی زندگی کے تحفظ کے لیے ذات، گھر، محلہ، شہر، صوبہ، مملکت اور بین الاقوامی دائرے تک جہاں تک ہوسکے ہم انسانی جان کو بچانے کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ آج اس زمین پر جو ظلم، زیادتی، قتل و غارت گری ہورہی ہے، جو لوگ زندہ ہیں وہ اس میں شریک ہیں، یا پھر    بری الذمہ ہونے کے لیے ان کو کچھ کرنا ضروری ہے۔ حرام، مکروہ اور مباح کی ان ساری بحثوں میں جو اتفاق راے کا نقطۂ نظر ہے وہ یہ ہے کہ انسدادِ تمباکو نوشی جہاد ہے۔ جو لوگ مبتلا ہیں اور جو مبتلا   نہیں ہیں، سب کا اس پر ان شاء اللہ اتفاق ہے۔ مَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا (المائدہ۵:۳۲) ’’جس نے ایک فرد کی جان بچائی گویا ساری انسانیت کی جان بچائی‘‘۔چونکہ  علما اور معاشرے کے لوگوں میں سے بہت سے اس عادت کا شکار ہوچکے ہیں اس لیے شرعی حکم کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن بچنے کے حوالے سے ہر فرد اس کو بُرا سمجھتاہے۔ نسوار، پانی، حقہ، یہ تمام بھی اسی طرح خطرناک ہیں۔ اس لیے معاشرے کو اس لعنت کے ہر رنگ سے پاک کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ وَ اللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ (یوسف ۱۲:۲۱) ’’اللہ تعالیٰ اپنے احکامات کو غالب کرنے والا ہے۔ اکثر انسان نہیں جانتے‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔


تلخیص کے لیے کچھ حصے حذف کیے گئے ہیں۔ مکمل مضمون: تمباکونوشی، مباح ہے یا حرام؟ منشورات سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ قیمت:۸ روپے۔ زیادہ تعداد میں حاصل کریں اور پھیلا کر جانیں بچانے کے اس فریضے کی ادایگی میں شریک ہوجائیں۔

مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بارے میں مولانا امین احسن اصلاحیؒ سے برادرم سلیم منصور خالد کا یہ انٹرویو دیکھ کر مجھے افسوس ہوا کہ اتنی اہم چیز اب تک کیوں نہیں شائع ہوسکی۔

مولانا امین احسن اصلاحیؒ سے خود میرا تعلق ۴۰ سال پر پھیلا ہوا ہے۔ اس انٹرویو کے بارے میں تو میں یہ بات بلاخوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ اس کا لفظ لفظ ان کی شخصیت کا ترجمان ہے۔ میں خود بھی اس موضوع پر ان کے ساتھ براہِ راست ملاقات کرچکا ہوں۔ مولانا محترم اور جماعت اسلامی کے بارے میں اس انٹرویو میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے، وہ بعینہٖ اس طرح کا تاثر دیتے ہیں جن کا اظہار مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے میرے ساتھ اپنی ملاقات میں کیا تھا۔ پھر ایسے ہی جذبات کا اظہار ایک ایسی ملاقات میں بھی مولانا اصلاحیؒ نے کیا تھا جس میں محترم چودھری غلام محمد مرحوم اور مَیں شریک تھے۔

مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی دونوں بزرگ ہمارے محسنین ہیں، اور ان دونوں ہی سے ہم نے اکتسابِ فیض کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ دونوں کی دینی خدمات کو قبول فرمائے۔ ویسے بھی اہلِ حق میں اختلاف کوئی نئی بات نہیں، ایسا اختلاف شخصی تعلق کو مجروح نہیں کرتا۔ یہ تو صرف راے کا اختلاف اور ترجیحات کا معاملہ ہے۔ مولانا اصلاحی صاحب کے جو احساسات اور جذبات اس انٹرویو میں سامنے آئے ہیں، وہ ان کی شخصیت کے اسی دل نواز پہلو کا آئینہ ہیں ___ پروفیسر خورشید احمد


یہ ہفتہ ۱۱دسمبر ۱۹۷۶ء کی شام تھی، جب میں اپنے عزیز دوست سمیع اللہ بٹ کے ہمراہ مفسرِقرآن مولانا امین احسن اصلاحی صاحب سے ملنے ان کے گائوں رحمان آباد (خانقاہ ڈوگراں) پہنچا۔ اس ملاقات کا ایک سبب ، مولانا مودودی اور مولانا امین احسن صاحب کے ایک مشترکہ  کرم فرما کی کچھ ’ہم نصابی سرگرمیاں‘ تھیں۔ سخت سردی کا موسم تھا۔ گھر سے کچھ فاصلے پر مولانا اصلاحی صاحب اپنے کمرئہ تحقیق میں ہمیں رات بسر کرنے کے لیے لائے۔ مولانا کی میز پر: قرآن، تفسیر، حدیث اور لُغت کی چند جلدیں تھیں، اور مٹی کے تیل سے جلنے والی لالٹین کی مدھم روشنی۔

مولانا اصلاحی صاحب نے ہمیں بڑی چاہت سے بتایا: ’جب آپ آتے ہیں تو میری اہلیہ بہت خوش ہوتی ہیں، اور اپنی طاقت سے بڑھ کر آپ کی مہمان نوازی کرتی ہیں۔ اُن کی خوشی سے مجھے بھی خوشی ہوتی ہے‘ (یاد رہے کہ جماعت اسلامی سے علیحدگی کے بعد بھی مولانا اصلاحی صاحب کی اہلیہ تادمِ آخر جماعت اسلامی کی رکن رہیں)۔ اگرچہ مولانا عشا کے بعد جلد سو جاتے تھے،   اور پھر نصف شب بیدار ہوکر قرآن کے مفاہیم پر تفکر و تدبر کی وادیوں میں اُتر جاتے تھے لیکن   اُس رات وہ ہمارے پاس کچھ دیر تک بیٹھے رہے ۔

سبب ِ ملاقات کا اُوپر ذکر ہوا، اسی لیے ہماری گفتگو مولانا مودودی [م:۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء] اور مولانا اصلاحی [م: ۱۵ دسمبر ۱۹۹۷ء] کے تعلقات کے اُتار چڑھائو کے گرد رہی۔ سمیع اللہ صاحب، مولانا اصلاحی کے دروس اور علمی نشستوں کے ۱۹۶۸ء ہی سے لاہور میں خوشہ چین اور اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ تھے، یوں اُن کا تعلق پُرانا تھا۔ البتہ میری مولانا سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ البتہ تقریباً چار ماہ قبل مَیں نے پنجاب یونی ورسٹی کے مجلے محور تعلیم نمبر کی مناسبت اور تحریک سے ان کے تعلق کی نوعیت اور اپنی حسرت کے بارے میں انھیں ایک خط لکھا تھا۔ اس ملاقات میں اس خط کی تحسین فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ہم دنیا میں لوگوں کے خط اکٹھے کرنے نہیں آئے، ویسے بھی مجھے یہ بات مبتذل سی لگتی ہے کہ دوسروں کے خط سنبھالتے پھرو، لیکن واقعہ یہ ہے کہ آپ کا خط اتنے عمدہ جذبات پر مشتمل تھا کہ میں نے اسے سنبھال کر رکھا ہے‘‘___ اس رات اور پھر اگلے روز [۱۲دسمبر] ناشتے کے دوران مولانا اصلاحی صاحب نے جو گفتگو فرمائی، میں نے اس کے تفصیلی  نوٹس محفوظ کرلیے تھے جن میں سے اپنے چند سوالات اور مولانا امین احسن اصلاحی کے جوابات کو  ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے ___ سلیم منصور خالد

مولانا، اگر آپ میری گزارش کو گستاخی پر محمول نہ فرمائیں، تو عرض یہ ہے کہ بعض اوقات افراد پر آپ بڑے سخت الفاظ میں تبصرہ فرماتے ہیں، یوں گاہے چوٹ پر لطف آتا ہے اوربسا اوقات جھٹکا سا لگتا ہے؟

  •   دیکھیے، میں بنیادی طورادب کا طالب علم ہوں اور ادب کے ذریعے سے قرآن تک پہنچا ہوں۔ ادب میں تجربے اور مشاہدے کو ٹھیک ٹھیک بیان کرنے کے لیے بعض اوقات الفاظ کے روایتی سانچے ساتھ نہیں دیتے، اس لیے غیر معمولی انداز یا روایت سے ہٹ کر کوئی اسلوب اختیار کرنا پڑتا ہے تاکہ بڑے سے بڑا مضمون مختصر الفاظ میں جملے کاروپ اختیار کر لے۔ اس کے لیے کبھی تو مسجع و مقفّٰی انداز اختیار کرنا پڑتا ہے اور کبھی ایک یا دو سخت الفاظ بھی مضمون کا احاطہ کر لیتے ہیں۔

آپ کے بعض جملے بڑے گہرے مطالعے کا نچوڑ ہیں، جیسے ’پڑھے کم، لکھے زیادہ‘ یا ’دیکھنا، پکنے سے پہلے سٹر نہ جانا‘ وغیرہ، اس حکمت و دانش کا ماخذ کیا ہے؟ مطالعہ یامشاہدہ؟

  •   (آہ بھر کر) بھلا ہمارے نصیب میں کہاں یہ حکمت سے لبریز جملے! یہ اور اس طرح کے متعدد جملے مولانا محمدعلی جوہر کی دانش کا مظہر ہیں۔ میں تو بس انھیں دہراتا ہوں۔

جب آپ جماعت اسلامی میں تھے، تو آپ نے مولانا مودودی کے دفاع میں جس مضبوطی، گہرائی اور شدت کے ساتھ مولانا محمد منظور نعمانی صاحب کے جواب میں مضمون ’نئی فرد قرار داد جرم‘ لکھا، عبدالرشید محمود گنگوہی صاحب کے جواب میں ’جماعت اسلامی پر الزامات اور ان کا جواب‘ لکھا، ویسا پُرزور اور جارحانہ نثر پارہ پھر دیکھنے میں نہیں آیا۔ اب آپ کا شمارمولانا کے مخالفین میں ہوتا ہے۔ آج جب اتنے برس گزر چکے ہیں، کیا آپ اپنی ان تحریروں، بالخصوص مضمون ’نئی فرد قرار داد جرم‘ کے بارے میں کچھ وضاحت فرمائیں گے؟ اور یہ کہ کیا آج بھی آپ اس تحریر کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں؟

  •   آپ کے سوال میں دو تین باتیں وضاحت طلب ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ نے بے باکی سے یہ سوال پوچھ لیا ہے۔

اس میں آپ نے ایک بات تو یہ کہی ہے کہ میں مولانا مودودی کامخالف ہوں۔ اس غلط فہمی کو دُور کرنے کے لیے نوٹ کر لیجیے کہ میں مولانا مودودی کا مخالف نہیں ہوں، بلکہ ان کے بعض اقدامات اور بعض خیالات سے میں اتفاق نہیں رکھتا۔ چونکہ علمی دنیا میں یہ کوئی اَن ہونی بات نہیں ہے، اس لیے آپ اس اختلافِ فکر و نظر کو مخالفت کا نام نہ دیجیے۔

واقعہ یہ ہے کہ میں نے سماجی زندگی میں شخصی طور پر مودودی صاحب جیسا وسیع القلب اور نفیس انسان بہت کم دیکھاہے۔ بہرحال وہ ایک انسان ہیں اور اس بشری تقاضے کے تحت ایک دوبار ان کا پیمانۂ صبر چھلک بھی پڑا۔

آپ کوشاید معلوم نہیں ہے کہ جب میں ہمہ وقتی کارکن کی حیثیت سے جماعت اسلامی کے مرکز سے وابستہ ہوا، توسولہ سترہ برس پر پھیلے اُس پورے عرصے میں مودودی صاحب نے میری عزتِ نفس کا حد درجہ خیال رکھا اور اس امر کا بالخصوص اہتمام کیا۔ مثال کے طور پر ایک اسی بات کو لیجیے ،کہ انھوں نے میرے ماہانہ اعزازیے یا ضرورت کے وظیفے کو کسی رجسٹر میں درج نہیں کیا، اور نہ اُس کی وصولی کے لیے مجھ سے کبھی دستخط لیے، حالانکہ باقی سب ہمہ وقتی کارکنوں کا اعزازیہ لکھا جاتا تھا، براہ راست ناظم مالیات کے ذریعے دیا جاتا تھا اور رسید وصولی پر دستخط بھی لیے جاتے تھے۔ مگر، اس پورے عرصے میں مولانا مودودی نے مجھے براہ راست کبھی رقم نہیں دی، اور یہ خیال رکھا کہ کہیں اس طرح مجھے ان کے زیر احسان ہونے کا احساس نہ ہو، بلکہ وہ ضرورت کے وقت یا متعین اوقات میں یہ رقم اپنی اہلیہ کے ذریعے میری اہلیہ کو پہنچا دیا کرتے تھے۔ آپ کو یہ بات سن کر شایدآج تعجب ہو کہ میں نے بھی پورا عرصہ اپنی اہلیہ سے یہ سوال نہیں کیا کہ کتنا اعزازیہ یا کتنی رقم بھجوائی گئی ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ ایسی نازبرداری انھوں نے فقط میری ہی کی۔ حالات و واقعات کے تمام اتار چڑھائو کے باوجود، آج تک اس چیز کی میرے دل میں بڑی قدر ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ کسی کی ایسی ناز برداری تو اس کی بیوی اور اس کے بچے بھی نہیں کر سکتے۔

پھر یہ بھی ہے کہ میری سخت سے سخت تنقید اور کڑے سے کڑے تبصرے کا، انھوں نے مجلس شوریٰ، اجتماع یا انفرادی ملاقات تک میں مجھے کبھی دوبدو جواب نہیں دیا، بلکہ کم سے کم الفاظ اور نرم سے نرم لہجے میں جواب دینے کی کوشش کی۔ گائوں کی اس خاموش فضا میں جب میں سوچتا ہوں کہ اگرمیں کسی کے ساتھ ایسا حسنِ سلوک کرتا، اور وہ جواب میں میرے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرتا تو میرے لیے اس کے ساتھ سلسلۂ کلام تک برقرار رکھنا مشکل اور سماجی تعلق کو نبھانا ناممکن ہو جاتا، لیکن مودودی صاحب نے طویل عرصے تک بڑی ثابت قدمی سے رفاقت اور دوستی کے اس تعلق کو نبھایا۔ لیکن جب میرے سامنے یہ دوراہا آیا کہ: ایسے ناز بردار اور شفیق دوست کا ساتھ دوں یا جس چیز کو درست سمجھتا ہوں اسے منتخب کروں؟ تو لامحالہ میں نے پہلی چیز کی قربانی دی، اور دوسری چیز کا انتخاب کیا۔

اور جہاں تک آپ کے سوال کے اس حصے کا تعلق ہے کہ میں نے مولانا مودودی کے دفاع میں جو تحریر لکھی، اس پر آج میرا کیا موقف ہے؟ تو اس سلسلے میں دو چیزیں ذہن میں رکھیے:

پہلی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے خلاف جب پے در پے مضامین شائع ہوئے، تو ان خلافِ واقعہ باتوں کا جواب دینے کے لیے کسی کے کہنے یا توجہ دلانے پر نہیں، بلکہ سراسر اپنے ذاتی ارادے سے میں نے وہ دو تین مضامین لکھے، جن کی جانب آپ نے اشارہ کیاہے۔ ایک مضمون تو میں نے اپنے دوست مولانا محمد منظور نعمانی صاحب کے مضمون پر لکھ کر ترجمان القرآن میں اشاعت کے لیے دیا، تو مودودی صاحب اسے بعینہٖ شائع کرنے میں متردّد تھے۔ انھوںنے کہا: ’اِس کی شدتِ بیان کو نرم کرنا پڑے گا‘۔ میں نے کہا: ـ’آپ مدیر ہیں، مناسب حد تک اپنا اختیار استعمال کر لیں‘۔ مودودی صاحب نے میری اس تحریر کو اتنا نرم بنا دیا کہ اس پر میں نے اُنھیں کہا: ’’اب آپ اسے اپنے ہی نام سے شائع کیجیے‘‘۔ لیکن بنیادی مضمون تو بہرحال میرا تھا، اس لیے ادارتی تدوین کے بعد وہ میرے ہی نام سے شائع ہوا۔

اس موقعے پر، یہ حقیقت مجھ پر واضح ہوئی کہ مودودی صاحب اپنے دفاع کے بارے میں نہ تو متفکر ہیں اور نہ اس کے حریص ہیں بلکہ بے نیاز ہیں۔ کوئی اور ہوتا تو اس تحریر پر کئی بار ممنونیت کا اعتراف کرتا، لیکن مولانا مودودی نے مضمون شائع کرنے کے بعد ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ:’آپ نے بہت خوب لکھا‘۔ بس ایک مضمون انھیں ملا اوروہ انھوں نے  شائع کردیا۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ دفاع میں نے مولانا مودودی کا نہیں کیا تھا بلکہ اپنا دفاع کیا تھا۔ وہ تنقید میرے امیر جماعت پر ہوئی تھی۔ دوسروں کے بارے میں تو میں کہہ نہیں سکتا، لیکن جب تک میں جماعت میں رہا ہوں، جماعت کی امارت کے لیے میں نے ہر بار اپنی راے اُنھی کے حق میں دی تھی۔ اس لیے میری غیرت یہ گوارا نہیںکر سکتی تھی کہ میرے امیر پر کوئی بے بنیاد الزام تراشی کرے اور میرا قلم گواہی دینے کے بجاے خاموشی اختیار کیے رہے،اس لیے دراصل یہ میں نے ان کا نہیں بلکہ اپنا دفاع کیا تھا اور آج بھی اپنے اس جواب پر قائم ہوں۔

علاوہ ازیں جب یہ گفتگو اپنے نقطۂ عروج پر پہنچی تو مولانا امین احسن صاحب نے بڑی وارفتگی سے یہ بلیغ جملہ ارشاد فرمایا: ’’اب ہر کَہ و مہ مودودی صاحب کے علم کو چیلنج کر رہا ہوتا ہے اور انھیں ہدفِ تنقید بنا رہا ہوتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس ملک میں میرے سوا کسی کو ان پر تنقید کا حق نہیں پہنچتا‘‘۔

 

قیادت عوام کے کسی گروہ کو ایک طے شدہ سمت میں بلا جبر کام پر آمادہ کرنے کا نام ہے۔ قیادت ایک کردار بھی ہے اور لوگوں کو متاثر کرنے کا ایک طریقۂ عمل بھی۔ قائد کسی گروہ کا ایک ایسا رکن ہوتا ہے جسے کوئی عہدہ یا ذمہ داری دی جاتی ہے اور اس سے اس منصب کے شایان شان کام کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔

قیادت کا منصب

  •               قائد کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اس کا وقت کہاں خرچ ہورہا ہے اور وقت کو کس طرح  منظم طریقے سے استعمال کرناہے۔ اسے عرف عام  میں کنٹرول کہتے ہیں۔
  •               ٹھوس نتایج پر توجہ مرکوز رکھیے۔ محض کام کے بجاے نتائج پر توجہ دیجیے۔
  •               کام کے ذریعے حالات کی اصلاح اور منزل کی تلاش کیجیے۔
  •               تعمیر کمزوریوں پر نہیں، خوبیوں پر کیجیے۔
  •               اپنے مضبوط اور کمزور پہلوؤں کا جائزہ لیجیے، دوسروں کی خوبیوں کو بھی تسلیم کیجیے۔
  •              چند ایسے اہم میدانوں میں کام پر توجہ دیجیے جن میں مسلسل محنت شان دار نتائج پیدا کرسکتی ہے۔
  •              ترجیحات مقرر کرکے اور ان پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہ کرایسے میدانوں کا انتخاب کیجیے۔
  •              اللہ پر بھر پور اعتماد کیجیے، محفوظ اور سہل منزل کا انتخاب کرنے کے بجاے اپنا مقصد بلند رکھیے۔
  •              جب تک اللہ کے لیے کام کر رہے ہیں اس وقت تک کسی چیز کا خوف نہ کیجیے۔

قیادت کی خوبیاں

قیادت کی خوبیوں میں درج ذیل عناصر کو بنیادی اہمیت حاصل ہے:

  •               سائنسی تحقیق کے ذریعے ثابت ہونے والے عناصر۔
  •               انتظامی تجربات سے حاصل ہونے والے عناصر۔
  •               پیر و کاروں کے بیانات سے سامنے آنے والے عناصر۔

سائنسی تحقیق سے ثابت ھونے والے عناصر

  •               ذہنی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں۔
  •              وسیع دل چسپی اورصلاحیتیں رکھتے ہیں۔
  •               با ت چیت اور گفتگو کی مہارت رکھتے ہیں۔
  •              رویے اور کردار میں پختگی اور بلوغت ہوتی ہے۔
  •              قوتِ محرکہ کے ذریعے وہ خو د بھی متحرک رہتے اور اپنے ساتھیوں کو بھی متحرک رکھتے ہیں۔
  •               معاشرتی ہنرمندی ہوتی ہے، یعنی وہ معاشرے میں رہ کر معاشرے کے افراد کو بھرپور فائدہ بھی پہنچاتے ہیں اور ان افراد کو اپنے مقاصد کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔
  •              دورِ حاضر کی ضروریات کے مطابق انتظامی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں۔ ان صلاحیتوں کو  وہ دنیا اور آخرت کی بہتری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

انتظامی تجربات سے حاصل ہونے والے عناصر

عمومی عناصر

  •              اخلاقی پختگی ہو اور بات بات پر رنجیدہ نہ ہوجاتا ہو، صورت حال کو سمجھنے کی صلاحیت ہو۔
  •             فکری صلاحیت ہو اور نصب العین کے تقاضوں کے پیش نظر سوچ کر آگے بڑھنے والا ہو۔
  •               انتظامی صلاحیت کا مالک ہو اور اس کو صلاحیت کے ساتھ ساتھ فن کے طور پر بھی استعمال کرتا ہو۔
  •               تمام متعلقہ افراد کے ساتھ انصاف سے پیش آتا ہواور اپنی ذات کے ساتھ بھی انصاف کرتا ہو۔
  •              مختلف امور میں دل چسپی لیتا ہو اور الگ تھلگ رہنے والا محسوس نہ ہو۔
  •              ہدایات جاری کرنے کا مزاج رکھتا ہو۔ یہ حکم کے زمرے میں تو ہو لیکن اس انداز سے پیش کرے کہ لوگ اسے اپنی ذمہ داری کے طور پر لیں۔
  •               منصوبہ بندی کا ذہن رکھتا ہو۔ہر کام کرنے سے پہلے منصوبہ بندی کرے اور اس میں اپنی ٹیم کو بھرپور انداز میں شامل کرے۔ یہ منصوبہ بندی صرف ذہن تک محدود نہ ہو بلکہ اسے تحریری صورت میں لاکر ایک لائحہ عمل کے طور پر رکھے تاکہ خود بھی پابند ہواور دوسرے افراد بھی بغیر حکم کے اپنے آپ کو پابند سمجھیں۔
  •              خود اپنے اور دوسروں کے لیے احترام کے جذبات رکھتا ہو۔ اپنے ساتھیوں اور معاشرتی رابطے میں آنے والے افراد کی عزت نفس کا خیال رکھتا ہو۔
  •              مطالعے کا شو قین ہو۔ دین اور دنیا کا مطالعہ کرے اوردور حاضر کے تقاضوں کے مطابق دین کے احکامات دنیا کے لوگوں کے لیے آسان طریقے سے پیش کرے تاکہ عمل ممکن ہو۔
  •              قوت فیصلہ کا مالک معاملہ فہم اور فیصلے کرنے کے طریقۂ کار سے واقف ہو۔ جلد باز، رد عمل کرنے والا اور سست نہ ہو۔
  •              تربیتی ذہن رکھتا ہو اور اپنی ٹیم کو تیار رکھتا ہو۔ اس انداز سے کام کرے اور افراد کو تربیت دے اور تیار کرے کہ کل کسی وجہ سے وہ حاضر نہ ہو سکے تو اس کا کام سنبھالنے کے لیے ایک سے زائد افراد موجود ہوں۔
  •              اپنے کام اور معاملات منظم طریقے سے کرتا ہو۔
  • قابل اعتماد ہو۔لوگ اس پر بھروسا کرتے ہوں۔
  • پُر جوش اور سر گرم ہو، سست اور کاہل نہ ہو۔
  • طاقت وراور باہمت ہو۔ قوی مومن ہو اور اپنی صحت کا خیال رکھتا ہو۔
  • تحریری اور تقریری صلاحیتوں کے ساتھ اظہار کرتاہو۔
  • منطقی ذہن رکھتا ہو۔
  • زود فہم اور مستعد ہو۔
  • ذمہ دار ہو۔rبا وسائل ہو۔
  • بہتری پیدا کرنے کا مزاج رکھتا ہو اور احسان کے اصول پر عمل پیرا ہو۔
  • آگے بڑھ کر اقدام کر سکتا ہو اور محنتی ہو۔rتمام متعلقہ افراد کے ساتھ وفادار ہو۔
  • انسان دوست ہو۔

تنظیم کے متعلق عناصر

  •              تنظیم کے اغراض و مقاصد اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہوں۔
  •               تنظیم کے ڈھانچے اور رُخ سے بھی واقف ہو۔
  •               فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس ہو۔
  •               تنظیم کی پالیسی، عمل اور طریق کار سے بھی واقف ہو۔
  •               کاروباری تنظیم کی مصنوعات، ان کی تیاری کا عمل اور فروخت کی صورتوں سے واقف ہو۔
  •               غیرکاروباری تنظیم کی صورت میں تنظیم کی خدمات کو مصنوعات کے طور پر لے کر اسے دورِ جدید کی techniques کے ذریعے پیش کرے۔
  •              منصوبہ بندی ، کام کے خاکے کی تیاریاں جانتا ہو اور نگرانی کے عمل سے بھی واقف ہو۔
  •               رپورٹنگ کا سلسلہ، محاسبہ اور احتساب کے طریقہ کارسے واقف اور محاسبے اور احتساب کو اپنی ذات پر حملہ یا بد اعتمادی نہ سمجھتا ہو۔
  •               دنیاوی انداز میں نفع اور خسارے کے مفہوم سے واقف ہو۔
  •              ملازمت، تجارت، فنی اور پیشہ ورانہ علم رکھتا ہو۔
  •            خدمات کا معیار برقرار رکھنے کے تقاضے جانتاہو اور ان کی نگرانی کا فن بھی جانتا ہو۔
  •               بنیادی علوم، یعنی ریا ضی، زبان اور سائنس سے واقف ہو۔
  •              موزوں قانون سازی کر سکتا ہو اور قانون کے مفاہیم اور تقاضوں سے واقف ہو۔

علوم اور مھارت سے شناسائی

ایک قائد کو ان چیزوں کے متعلق علم اور مہارت ہونا چاہیے:

  •               اپنے میدان میں پیشہ ورانہ معیارات کو برقرار رکھنے والا ہو۔
  •              ذاتی قوت اور ترقی کے تقاضوں کا خیال رکھنے والا ہو اور اس میں پیش رفت کرتا ہو۔
  •               تخلیقی فکر کا حامل اور جدید علوم و فنون سے واقف ہو۔
  •              انسانی تعلقات کے اصولوں سے واقف ہو، دورِ جدید کے سوشل نیٹ ورک کے طریق کار سے واقف اور اس سے بھرپور فائدہ  اٹھانے والا ہو۔
  •               افراد کے انتخاب، ان کے تقرر کے اصولوں سے واقف ہو، ٹیم ورک اور تفویض اُمور کے ساتھ محاسبے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
  •               اپنے منصب کے مطابق کام کرنے کی مہارت پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہے۔
  •              تخلیقی سوچ و بچار کے ذریعے  اپنی ٹیم کو آگے لے جانے والا ہو۔
  •              منظم انداز میں منصوبہ بندی کرنا، عمل درآمد کرنا اور تعاقب کرنے کے فن سے واقف ہو۔
  •               دوسروں کے ساتھ تعاون کرنا آتا ہو۔
  •               ضرورت کے مطابق ریکارڈ رکھنا اور حسب موقع اسے استعمال کرنا آتا ہو۔
  •               امانتوں کا خیال رکھنا اور ان کا باقاعدہ حساب رکھنا آتا ہو۔
  •               قواعد اور ضوابط نافذ کرنے کی صلاحیت ہو۔
  •               مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت ہو۔
  •               حالات کار کی اصلاح کرنے کی صلاحیت ہو۔
  •               ہنگامی حالات سے نمٹنا آتا ہو۔
  •              عمدہ طریقے سے دفتر اورخانہ داری کا فن آتا ہو۔
  •               مسلسل بہتری کے لیے مطالعے اور مشاہدے کا عمل جاری رکھنے والا ہو۔
  •               عمدہ ذاتی مثال قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

قائد: کارکنوں کی نظر میں

پیر وکاروں اور کارکنان کے بیانات سے سامنے آنے والے ایک قائد کے عناصر    درج ذیل ہیں:

  •              مروت اور خاطر داری کی صلاحیت رکھتاہو، روکھا فرد نہ ہو۔
  •               غیر جانب داری کی صلاحیت کا مالک ہو، غیر جانب دار ہو بھی اور غیر جانب دار نظر بھی آئے۔
  •              ایمان داری اس کی خاصیت ہو اور ظاہر اور باطن میں ایمان دار رہنے کی کوشش کرتارہے۔
  •              اعلیٰ صلاحیتوں کا مالک ہو اور اپنے ساتھیوں میں ان صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی کوشش کرنے والا ہو۔
  •               عوام کے بارے میں علم رکھتا ہو اور باخبر ہو۔
  •               ان صلاحیتوں سے واقف ہو، جن کے ذریعے وہ تنظیم کو اپنے اختیار میں رکھ سکے اور دوسرے افراد غیر ضروری طور پر حائل نہ ہوجائیں۔
  •               جرات اور ہمت کا حامل ہو۔
  •               راست روی اس کا طرۂ امتیاز ہو، یعنی نرم دم گفتگو ،گرم دم جستجو،رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز۔
  •               فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور قوت رکھتا ہو۔
  •               پُر وقار اور بُردبار ہو۔
  •               اپنے ساتھیو ں، ٹیم کے افراد اورعوام کا مفاد پیش نظر رکھتاہو۔
  •               مدد گار اور قربانی کا جذبہ رکھتا ہو۔

کرنے کے کام

درج ذیل سوالوں کے جوابات دے کر اپنی منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کیجیے:

  •               آپ کے سامنے بعض واضح اور معین اہداف ہوں ، منزلیں ہوں اور ان کے حصول کے لیے درست لائحۂ عمل اختیا ر کریں۔ دراصل یہ چیز انسانی زندگی کے لیے اس قدر غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے کہ اسے بڑی تفصیل کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس پر انفرادی اور اجتماعی تربیت کی ضرورت ہے۔
  •               کیا آپ  نے اپنی زندگی کا نصب العین متعین کرلیا ہے ؟
  •               کیاآپ نے اپنے نصب العین کے مقاصد اور مطالب متعین کرلیے ہیں؟
  •               کیا آپ نے ان کے مطابق منازل کا تعین کرلیا ہے؟
  •               کیا آپ نے شیڈولنگ کرلی ہے اور وقت مقرر کرلیا ہے؟
  •               کیا آپ نے اس کے محاسبے کا طریقہ متعین کرلیا ہے؟

آپ کی قوت ارادی اس قدر مضبوط ھو کہ آپ اپنے نفس کی لگام کو اپنی مرضی کے مطابق حرکت دے سکیں، اپنے معاملات کو منظّم کر سکیں:

  •               کیا آپ نے اس بات کا جائزہ لے لیا ہے کہ آپ کتنے مضبوط ارادے کے فرد ہیں؟
  •               کیا آپ کے ارادے بلبلے کی طرح بنتے اور اسی طرح ٹوٹ جاتے ہیں؟
  •               آپ نے مضبوط قوت ارادی کے لیے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟

اپنی عادات کا جائزہ لیں، انسان عادات کے ذریعے بھت کچھ حاصل کرتا یا گنواتا ھے۔ وقت، مال اور صلاحیتوں کو ضائع کرنے والی خراب عادات کو ترک کر کے ان کی جگہ عمدہ عادات کو اپنی شخصیت کا حصہ بنالیں:

  •               کیا کبھی آپ نے تنہائی میں اپنی ذات سے ملاقات کرکے اپنی عادات کا جائزہ لیا ہے؟
  •               کیا اچھی اور بری عادات کو الگ الگ نوٹ کرلیا ہے؟
  •               کیا بری عادات کو ختم کرنے اور اچھی عادات کو مزید بہتر بنانے کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کی کوشش کرلی ہے؟

آپ کے اندر بھترین حافظہ موجود ھو۔ دوسرے لفظوں میں، اپنے حافظے کو پروان چڑہانے کے لیے شعوری کوششیں کریں:

  •               کیا آپ نے اپنے حافظے کا جائزہ لیا ہے کہ وہ کس طرح کام کررہا ہے؟
  •               کیا آپ نے حافظے کے بہتر استعمال کے لیے کچھ مطالعہ کیا ہے؟
  •               کیا آپ نے حافظے کی بہتری  کے لیے کو ئی تربیت حاصل کی ہے؟

دوسروں سے تعلقات و روابط رکہنے کی مھارت حاصل کریں۔ ان کے تجربات سے سیکہنے کا عمل جاری رکہیں:

  •               کیاآپ دوسروں سے اچھی طرح مل لیتے ہیں؟
  •               کیا لوگ آپ سے مل کر خوش ہوتے ہیں؟
  •               جب آپ لوگوں سے ملنے کے لیے جاتے ہیں تو کیا معاشرے کے تقاضوں کے مطابق لباس پہنتے ہیں؟
  •               کیا آپ پہلی ملاقات کے بعد ان سے رابطہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں؟
  •               کیا آپ فون نمبر اور ای میل ایڈریس نوٹ کرتے ہیں؟
  •               کیا آپ ان کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں؟
  •               کیا آپ ان کے مشکل وقت میں ساتھ دینے کی کوشش کرتے ہیں؟

اعتماد ذات کی دولت اور اپنی ذات کا احترام آپ کے اندر موجود ھو۔ اس کے علاوہ دوسرے انسانوں کے حوالے سے اور آئے دن پیش آنے والے مختلف حوادث و واقعات کے حوالے سے آپ کی سوچ مثبت ھو:

  •               کیا آپ اپنی عزت نفس کا خیال رکھتے ہیں؟
  •               کیا لوگوں سے ملاقاتوں میں آپ ان کی عزت نفس اور مرتبے کا احترام کرتے ہیں۔
  •               کیا آپ گفتگو کے دوران متنازع معاملات میں سوچ کو مثبت رکھتے ہیں؟
  •               کبھی سخت گفتگو کے بعد آپ کو احساس ندامت ہو، تو کیا آپ معذرت اور معافی کے طریقے کو اپناتے ہیں؟

معاشرتی تعلقات کے بارے میں اتنی حساسیت ضرور ھو کہ بعض اھم معاشرتی آداب آپ کے معمولات کا حصہ بن جائیں:

  •               کیا آپ نے معاشرتی اخلاقیات کی تربیت حاصل کی ہے؟
  •               کیا آپ کی تنظیم اور ادارے نے آپ کے لیے اس قسم کی تربیت کا اہتمام کیا ہے؟
  •               کیا آپ مختلف مواقع کے معاشرتی اخلاقیات سے واقف ہیں؟
  •               کیا آپ اس سلسلے میں اپنا جائزہ لیتے رہتے ہیں؟
  •               اپنی ذات کے خول سے باہر، دوسروں کے جذبات کو سمجھنے کی اہلیت رکھیں، ان کے ساتھ محبت سے پیش آئیں، اپنے معاشرے اور اپنی اُمت کے مسائل میں شریک ہوں۔
  •               کیاآپ تنہائی پسند ہیں تو کیا آپ نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ اس گھٹن سے کیسے باہر نکلا جائے؟
  •               کیا آپ نے اپنے قابل اعتماد دوستوں سے اس سلسلے میں کبھی مشورہ کیا ہے؟
  •               کیا آپ نے اپنے دوستوں کا کوئی گروپ بنایا ہے جس میں بیٹھ کر آپ اپنے آپ کومتحر ک کرسکیں؟

اپنے نفس کو بعض ایسے زریں آداب سے آراستہ کر لیں جو آپ کو زندگی کے چیلنجوں سے نبردآزما ھونے اور مستقبل کی اُمیدوں کو بَر لانے میں معاونت دے سکیں:

  •               کیا آپ اپنی زندگی کے چیلنجوں سے واقف ہیں؟
  •               کیا آپ دور حاضر کے تقاضوں سے واقف ہیں؟
  •               کیا آپ جانتے ہیں کہ ملت کن مسائل سے دوچار ہے؟
  •               کیا آپ جانتے ہیں کہ ملت کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے کیا حکمت عملی استعمال ہورہی ہے؟
  •               اس سلسلے میں کیا آپ اپنی صلاحیتوں اور ذمہ داریوں سے واقف ہیں؟

معاش اور روزگار کے لیے ایسے مواقع کی تلاش کے لیے کوشاں رھیں جو آپ کو زیادہ ترقی اور زیادہ آمدنی فراھم کر سکیں:

  •               کیا آپ روزگار کے معاملے میں خود کفیل ہیں؟
  •               رزق حلال کی ضرورت کے مطابق فراہمی کے لیے آپ نے کچھ کوشش کی ہے؟
  •               کیا آپ نے حالات اور ضرورت کے مطابق پس اندازی کی ہوئی ہے؟
  •               کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ دنیا کمانے کے لیے سب کچھ چھوڑ بیٹھے ہیں اور آخرت کے معاملات کو بھول گئے ہیں؟
  •               کیا آپ نے قناعت کے معانی اور مفہوم کو سمجھ لیا ہے؟

اپنے اندر بعض ایسے بلند تر اخلاقی اوصاف اور مھارتیں پیدا کرنے کی کوشش کریں جن کی بدولت آپ مشکلات میں سے اپنے لیے راہ نکالنا سیکہیں۔ نئی نئی منصوبہ بندیوں کا نفاذ کرسکیں اور ناکامی کی صورت میں ناکامی کو اپنے اُوپر طاری کرنے کے بجاے عزم اور حوصلے سے اس کا مقابلہ کرسکیں:

  •               کیا آپ ان اوصاف اور مہارتوں سے واقف ہیں؟
  •               کیا آپ راہ کی مشکلات کا اندازہ کرسکتے ہیں؟
  •               کیا آپ نے کبھی ان ممکنہ مشکلات کو تحریر کیا ہے؟
  •               کیا آپ نے مشکلات اور مسائل کو حل کرنے کے لیے کو ئی منصوبہ بندی کی ہے؟

روحانی، عقلی اور جسمانی صحت کا خاص خیال رکہیں، ان کی حفاظت کے اصولوں پر عمل پیرا رھیں تاکہ زندگی کی نعمتوں سے صحیح انداز میں لطف اندوز ھو سکیں:

  •               کیا آپ اللہ تعالیٰ کی دو اہم نعمتوں، یعنی صحت اور فرصت اوقات کی قدر کرتے ہیں؟
  •               اپنی جسمانی صحت کے لیے کیا تیاری کی ہے؟
  •               کیا آپ نے ان عادتوں کو ترک کردیا ہے، جو آپ کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں؟

اس بات کا خیال رکھیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ من الستوٰی یوماہ فھومغبون ’’وہ شخص تباہ ہوگیا جس کے دو دن کارکردگی کے لحاظ سے ایک جیسے رہے‘‘۔ اس حدیث پر عمل کا تقاضا یہ ہے کہ ہمار ا آج گذشتہ کل سے بہتر ہو، اور ہمارا آنے والا کل آج سے بہتر ہو۔ اس پر عمل کے لیے رات کو سونے سے پہلے احتساب کی، اور صبح کام شروع کرنے سے پہلے منصوبہ بندی، ترجیحات اور ترتیب کی ضرورت ہے۔

اے اللہ! توہمارے آج کے دن کے پہلے حصے کو ہمارے کاموں کی درستی ، درمیانی حصے کو بہبودی، اور آخری حصے کو کامرانی بنادے۔ آمین!

تیز ترک گام زن منزل ما دور نیست

(اس مضمون کی تیاری میں ذاتی مطالعے کے نوٹس اور مغربی مصنفین کی کتابوں کے علاوہ درج ذیل کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے: کامیابی کا سفر ، مصنف،ڈاکٹر ابراہیم بن حمدالعقید ترجمہ ،خدیجہ ترابی، ناشر مکتبہ خواتین میگزین، لاہور۔ رہنمائے تربیت، ہشام الطالب، ترجمہ شاہ محی الحق فاروقی، ناشر ادارہ فکر اسلامی، اسلام آباد)

 

فقر کے ظاہری اورلغوی معنی توافلاس،محتاجی ،تنگ دستی اورغربت کے ہیں مگرعلامہ اقبال  اس کے ظاہری معنوں سے قطع نظرکرتے ہوئے اس کے اصطلاحی معنی مراد لیتے ہیں،یعنی: اِستغنا یا اسبابِ ظاہری سے بے نیازی۔ جہاں تک امتِ مسلمہ کاتعلق ہے،اِستغنا کا رویہ ہی امت اور افرادِامت کوکامیابی اورسربلندی کی معراج تک پہنچاسکتاہے۔حضرت علامہ اقبال فرماتے ہیں   کہ  ع

کہ پایا میں نے اِستغنا میں معراج مسلمانی

(بال جبریل،ص۱۲۰؍۴۱۲)

فقرکایہ مفہوم علامہ اقبال نے نبی کریمؐ کی حیات طیبہ سے اخذکیاہے۔

نبی کریمؐ کی پوری زندگی فقیرانہ اسلوب کانمونہ اورفقرکی عملی تفسیرہے۔متعددروایات میں بتایاگیاہے کہ اِدھراُدھرسے جو تحائف،ہدایا، مال ومنال اورزروجواہرآتا،آپؐاسے فی الفور  تقسیم کردیتے۔اپنے لیے یاگھروالوں کے لیے کچھ بھی نہ رکھتے تھے۔ قریشِ مکہ نے پیش کش کی کہ ہم زروجواہرلاکرآپ کے قدموں میںڈھیرکردیتے ہیں ہمارے بتوں سے تعرض نہ کیجیے۔آپؐنے اس پیش کش کو پرکاہ کے برابربھی اہمیت نہ دی۔ دراصل اقبال کے تصورِ فقر کا مفہوم اسوۂ رسولؐ سے ہٹ کرسمجھناممکن ہی نہیں ہے۔ علامہ کے نزدیک فقرایسی ’متاعِ مصطفی ؐ ‘ ہے جو اُمت مسلمہ کو  وراثت میں عطا ہوئی ہے اورآپ نے اُمت کو اس کاامانت دار اور نگران (care-taker) بنایا ہے۔ فرمایا    ؎

فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضا ست
ما امینیم ، ایں متاعِ مصطفیؐ ست

(پس چہ بایدکرد،ص۲۰؍۸۱۶)

چوں کہ رسول اللہؐ کوحجازسے نسبت تھی،اس لیے علامہ متاع فقرکو’’حجازی فقر‘‘کہتے ہیں :     ؎

ہمت ہو اگر تو ڈھونڈ وہ فقر
جس فقر کی اصل ہے حجازی

(ضربِ کلیم،ص۸۸؍۵۵۰)

یہاںبھی اشارہ رسولؐ اللہکی طرف ہے جن کا طریق فقرآج بھی ہر مسلمان کے لیے ایک مثال اور نمونہ ہے۔علامہ اقبال اس فقر کی خصوصیات کاذکراس طرح کرتے ہیں:     ؎

اس فقر سے آدمی میں پیدا
اللہ کی شانِ بے نیازی

یہ فقرِ غیور جس نے پایا
بے تیغ و سناں ہے مرد غازی

مومن کی اسی میں ہے امیری
اللہ سے مانگ یہ فقیری

(ضربِ کلیم،ص۸۹؍۵۵۱)

علامہ اقبال نے ’؎فقرغیور‘کی ترکیب’غیراسلامی فقر‘کے متضادکے طورپراستعمال کی ہے۔  فقرغیور اور غیراسلامی فقردوایسے مختلف اور متضادرویے ہیںجومتوازی خطوط کی طرح کبھی آپس میںنہیںملتے۔ بال جبریل کی نظم ’فقر‘میں دونوں اصنافِ فقرکاباہمی موازنہ کیاگیاہے۔ایک فقر،  کم ہمتی،بزدلی اورپسپائی سکھاتاہے۔ دوسری نوعیت کافقر امامت وامارت کاراستہ دکھا کر فقیر کا رشتہ حضرت شبیرؓسے جوڑتاہے:     ؎

اِک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری
اِک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری

اِک فقر سے قوموں میں مسکینی و دل گیری
اِک فقر سے مٹی میں خاصیتِ اکسیری

اِک فقر ہے شبیری ، اس فقر میں ہے میری
میراثِ مسلمانی ، سرمایۂ شبیری

(بال جبریل،ص۱۶۰؍۴۵۲)

سیدنذیرنیازی کے نام۲۱؍اکتوبر۱۹۲۵ء کو لکھتے ہیں:’’اسلام کی حقیقت فقرِغیور ہے اور بس‘‘ (مکتوباتِ اقبال،ص۳۰۳)ایک جگہ علامہ نے فقر غیور کوعین اسلام قراردیاہے۔ان کے نزدیک اسلام اورفقرِغیورپورے دین پرمحیط ہے:      ؎

لفظ اسلام سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر
دوسرا نام اسی دین کا ہے فقرِ غیور

(ضربِ کلیم،ص۳۱؍۴۹۳)

علامہ اقبال نے فارسی اوراردوشاعری میں قلندر،مردقلندر،درویش ،بندۂ درویش اورمردِکامل جیسے الفاظ وتراکیب کوفقرغیورکے معنوں میں اورفقیرکے متبادل اورمترادف کے طورپراستعمال کیاہے۔ایک جگہ کہتے ہیں:      ؎

قلندر جز دو حرفِ لَا اِلٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہِ شہر قاروں ہے لغت ہاے حجازی کا

(بال جبریل ،ص۴۴؍۳۶۸)

گویاتوحید، مردِقلندرکاسرمایۂ حیات ہے اور یہی فقرکی کلید ہے۔جب وہ لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کہتے ہوئے غیراللہ کی نفی کرتاہے تو اس میں’اللہ کی شانِ بے نیازی‘پیداہوجاتی ہے۔حضرت علی ہجویری نے اس کی تائیداس طرح فرمائی ہے کہ :ذات خداوندی کے ماسواتمام چیزوں سے دل کو فارغ رکھنے کانام فقرہے(کشف المحجوب،ص ۸۵)۔ حضرت نے ایک بزرگ ابوسعیدؒکاقول نقل کیا ہے کہ اصل فقیروہ ہے جو اللہ کے ساتھ غنی ہو۔(ایضاً،ص۸۷)یعنی اللہ اسے کافی ہواور   وہ خودکو اللہ کے سواکسی کا’’بندہ‘‘نہ سمجھے،نہ وہ کسی سے ڈرے،نہ کسی سے دبے اور’پیش فرعونے سرش افگندہ نیست‘کے مصداق ،نہ وہ کسی کے سامنے سرجھکائے ۔

ڈاکٹرسیدعبداللہ لکھتے ہیں:[فقر]ایک روحانی کیفیت،ایک رویہ ہے جس کی رُو سے برترمقاصدزندگی کومادی لذائذ اورقریبی ترغیبات پرترجیح حاصل ہوتی ہے۔فقرفردکے اندرایک خاص قسم کاوقار،ایک خاص قسم کامیلانِ بے نیازی پیداکرتاہے‘‘۔(مسائل اقبال، ص۲۵۰) چنانچہ وہ مال ودولت،مادی طرزِ فکر، حُبّ ِدنیا،ہوسِ جاہ ومنصب اورآل اولاد کی محبت سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ اسے دنیا کی ساری نعمتیں ہیچ اورساراکرّوفربے حقیقت معلوم ہوتاہے۔ وہ صرف ذاتِ واحد پر ایمان رکھتااوراسی پربھروسا کرتاہے ،اس لیے علامہ اقبال کے نزدیک اس کا مقام ومرتبہ سکندرودارا جیسے معروف حکمرانوں اورشاہوںسے بھی بلندوبرتراوراُونچاہوتاہے،بشرطیکہ اس کی فقیری میں  اسوۂ رسولؐ اللہ اور اسوۂ صحابہؓ کے آثار پائے جاتے ہوں۔فرماتے ہیں:    ؎

دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللّٰہی

(بال جبریل،ص۵۷؍۳۴۹)

؎ نہ تخت و تاج ، نے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے

                (ایضاً،ص۶۸؍۳۶۰)

؎ فقر کے ہیں معجزات ، تاج و سریر و سپاہ
فقر ہے میروں کا میر ، فقر ہے شاہوں کا شاہ

                (ایضاً،ص۷۷؍۳۶۹)

ع مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی

(ایضاً،ص۳۵؍۳۲۷)

حضرت علی ہجویریؒ کے نزدیک فقرکی اصل متاع دنیا کا ترک اور اس سے علیحدگی نہیں ،بلکہ دل کو دنیاکی محبت سے خالی اور اس سے بے نیاز کرنا ہے۔ (کشف  المحجوب،ص ۸۴)

علامہ اقبال کے تصورِفقر کوترک دنیا،سکوںپرستی،خانقاہیت یاگوشہ گیری سے کوئی علاقہ نہیں کیوں کہ یہ رویہ’’کش مکشِ زندگی میں گریز‘‘ کی طرف لے جاتاہے اورزندگی کا ارتقا،کش مکش اورحرکت وجدوجہدہی سے ممکن ہے۔راہب جس سکوں پرستی کاقائل ہے،وہ تحرک اورفعالیت کی ضد ہے۔ ضربِ کلیمکی نظر’فقر و راہبی‘ میں علامہ نے کہاہے:    ؎

کچھ اور چیز ہے شاید تیری مسلمانی
تری نگاہ میں ہے ایک فقر و رہبانی

سکوں پرستیِ راہب سے فقر ہے بیزار
فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طوفانی

(ضربِ کلیم،ص۵۰؍۵۱۲)

اقبال گوشہ گیری کے اسی حدتک قائل ہیں،جس حد تک اسوہ ٔرسولؐ اجازت دیتاہے، مثلاً رمضان المبارک میں چندروز کے لیے اعتکاف کی صورت میں خلوت نشینی کی اجازت ہے اوریہ خلوت نشینی بھی ذکرالٰہی، فکرِآخرت، ضبطِ نفس،خوداحتسابی اور ان سب کے نتیجے میں استحکام   خودی کے لیے ہے۔ اتباع سنت ِنبویؐمیں اعتکاف کرنا،نہ صرف کارِثواب ہے بلکہ یہ معتکف کو اصلاحِ باطن اورصفاے قلب کے لیے ایک سازگارماحول بھی فراہم کرتاہے۔

علامہ اقبال جن اخلاق واوصاف کو فقر کا لازمہ سمجھتے ہیں،ان میںصبروشکر،تسلیم ورضااور  حلم وانکسار بھی شامل ہیںمگر اس تسلیم ورضا کے معانی،بے کسی ،ناتوانی یاضعف کے نہیںہیں۔   فقر تحرک و جرأت کانمونہ ہوتاہے بلکہ قوت کا اظہار بھی چاہتاہے۔ ہمارے ہاں روایتی طور پر فقر ودرویشی کے ساتھ بے چارگی اوربے بسی کے تصورات وابستہ ہیں۔اقبال کے تصورِفقر میں اس کی گنجایش نہیں۔ اقبال کا فقیر جرأتِ رندانہ کا مالک ہے۔چوںکہ وہ غیر اللہ سے مستغنی ہے،اس لیے اس بے باک انسان کو کسی کاخوف ہے نہ کسی کی پروا۔علامہ کہتے ہیں:    ؎

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

(بال جبریل،ص۳۴؍۳۲۶)

وہ قرآن حکیم کے اس فرمان پرکاربندہوتاہے: اَلاَ اِنَّ اَوْلِیَائَ اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَہُمْ یَحْزَنُوْنَ فقراورجرأت وبے خوفی کے باہمی تعلق کو علامہ بعض مخصوص تراکیب سے واضح کرتے ہیں، مثلاً: فقرحیدری،بوے اسداللّٰہی،سرمایۂ شبیری، متاعِ تیموری وغیرہ۔تاریخ وروایات میں حیدر،شبیراورتیمورغیرمعمولی جرأت اورعزم وہمت کی علامتیںہیں۔اس حوالے سے اقبال سمجھتے تھے کہ مرد فقیر مزاحم قوتوں کا مقابلہ نہایت ثبات واستقلال کے ساتھ کرتاہے۔ وہ کش مکش، پیکار اور ٹکراؤ میں ایک لطف محسوس کرتا ہے۔ ضربِ کلیمکی نظم’فقروملوکیت‘ فقر کی قوت وشوکت اور اس کے جلالی مزاج کااظہار ہے۔

فرماتے ہیں:    ؎

فقر جنگاہ میں بے ساز و یراق آتا ہے
ضرب کاری ہے اگر سینے میں ہے قلب سلیم

اس کی بڑھتی ہوئی بے باکی و بے تابی سے
تازہ ہر عہد میں ہے قصّۂ فرعون و کلیم

                (ضربِ کلیم،ص۳۰؍۴۹۲)

بے باکی وبے تابی اوراظہارجرأت وقوت فقرکی پہچان ہے۔یہی اس کی زندگی کی علامت ہے اور اسی حوالے سے وہ حق کاپاسبان اورمحافظ ہے:  ع 

زندہ حق از قوتِ شبیری است

(اسرارورموز،ص۱۱۰)

کسی معرکے میںاگراسے وقتی طورپرپسپابھی ہونا پڑے ،تب بھی وہ ذہنی طورپرشکست قبول نہیں کرتا۔ اس طرح فقر کااقبال کے فلسفۂ جہدو عمل سے ایک قریبی تعلق قائم ہوتاہے۔

مردِ فقیرفلاح انسانیت کاعلمبردار ہے۔وہ فطرت پر بھی غالب آسکتاہے اورتسخیرجہات بھی اس کے لیے ناممکن نہیں:     ؎

فقر بر کرّوبیاں شبخوں زند
بر نوامیسِ جہاں شبخوں زند

(پس چہ بایدکرد،ص۲۰؍۸۱۶)

؎ فقرِ مومن چیست ؟ تسخیر جہات
بندہ از تاثیر او مولا صفات

(ایضاً،ص۲۲؍۸۱۸)

اقبال کے تصورفقرکا،قوموں کے عروج وزوال سے بھی گہرا تعلق ہے۔کسی معاشرے کی اجتماعی سربلندی میں صاحب فقراپنی متحرک شخصیت کی وجہ سے مؤثرکرداراداکرسکتاہے۔دنیا کی قیادت اور امامت فقیرکی وراثت ہے اور اس کا استحقاق بھی ہے۔ دنیا میں سربلندی صرف اسی قوم کا مقدر ہے جس کے افرادفقرکی صفت کو اپنائیں۔امت مسلمہ نے جب سے فقر کی غلط تعبیر اپنائی،اور  حقیقی اسلامی فقرکو ترک کردیا تو زوال واِدباراورپستی ونکبت کا شکارہوگئی۔ علامہ فرماتے ہیں:    ؎

یہ فقر مردِ مسلماں نے کھو دیا جب سے
رہی نہ دولتِ سلمانی و سلیمانی

(ضربِ کلیم،ص۵۱؍۵۱۳)

؎  نہ ایراں میں رہے باقی، نہ توراں میں رہے باقی
وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاکِ قیصر و کسریٰ

(بال جبریل،ص۲۳؍۳۱۵)

؎ اب حجرۂ صوفی میں وہ فقر نہیں باقی
خونِ دلِ شیراں ہو جس فقر کی دستاویز

(ایضاً،ص۲۶؍۳۱۸)

علامہ اقبال نے اُردو شاعری کی تاریخ میںپہلی مرتبہ شاہین کا ایک خاص تصور پیش کیاہے۔ اقبال کا شاہین کارزارِحیات میں چندمخصوص امتیازات رکھتاہے۔فقر بھی انھی امتیازات سے متصف ہے۔ علامہ اقبال نے ایک خط میں وضاحت کی ہے کہ:’’اس جانور میںاسلامی فقر کے تمام خصوصیات پائے جاتے ہیں: (۱)خودداراورغیرت مندہے کہ اورکے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔ (۲)بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا۔ (۳)بلندپروازہے۔(۴)خلوت پسند ہے۔ (۵)تیزنگاہ ہے‘‘۔(اقبال نامہ،ص۱۹۴)

گویاشاہین میں بیش تر وہ امتیازات موجودہیںجوفقیرکی زندگی کالازمی جزوہیں۔ بعض مقامات پر اقبال کے ہاںیوں محسوس ہوتاہے جیسے انھوںنے فقر کی تجسیم آںحضوؐرکی ذات مبارک میں کی ہے۔اسی طرح حضرت علیؓ اور حضرت شبیرؓ اورحضرت خالدؓبن ولیدکوبھی ایسے مردان ِقلندرمیں شمار کرتے ہیں جن کاوجود کسی معاشرے کے لیے باعث خیروبرکت ہوتاہے:     ؎

آتشِ ما سوز ناک از خاکِ او
شعلہ ترسد از خس و خاشاکِ او

بر نیفتد ملتے اندر نبرد
تا درو باقیست یک درویشِ مرد

(پس چہ باید کرد،ص۲۱؍۸۱۷)

اقبال کے تصور فقر کے سلسلے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اقبال کئی جگہ خود کو ایک ’قلندر‘اور’مردفقیر‘قراردیتے ہیں۔فقر کو وہ اپنے لیے باعث ِعزت وفخر سمجھتے ہیں۔وہ فقرکوشاعری سے بھی برترقراردیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دولت ِفقر کے مقابلے میں دنیا کی ظاہری شان و شوکت ہیچ ہے۔ فرماتے ہیں:     ؎

خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگر نہ شعر مرا کیا ہے ، شاعری کیا ہے؟

(بال جبریل،ص۴۸؍۳۴۰)

؎ مرا طریق امیری نہیں ، فقیری ہے
خودی نہ بیچ ، غریبی میں نام پیدا کر

(ایضاً،ص۱۴۷؍۴۳۹)

؎ مرا فقر بہتر ہے اسکندری سے
یہ آدم گری ہے ، وہ آئینہ سازی

(ایضاً،ص۱۴۶؍۴۳۸)

علامہ کا دعواے فقر وقلندری نری لفّاظی نہیں،انھوںنے اپنے نجی زندگی میں بھی فقروقلندری کو برتاہے۔مزاجاًوہ درویش تھے۔مولانا غلام رسول مہرطویل عرصے تک حضرت علامہ کی خدمت میںحاضررہے۔سفروحضرمیں بھی ساتھ رہا۔وہ لکھتے ہیں:’’ان کی فطرت وطبیعت درویشانہ تھی۔   یہ ان کے کلام میں بار بار نظرآتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو’فقیر ‘اور’دریش ‘ اور’قلندر‘کہہ کرپکارتے تھے تو یہ کوئی شاعر انہ تخیل آرائی نہ تھی بلکہ ان کی فطرت کے صحیح احساس کااظہارتھا‘‘۔(حیات اقبال کے چند مخفی گوشے، ص ۵۵۵) مہرصاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں:’’فقیری ، قلندری، توکل اور خداکے سواہرشے سے بے نیازی اقبال کے وہ اوصاف ہیں جو آخری دور کی طرح پہلے دورمیں بھی ممتاز تھے‘‘۔(اقبالیات مہر،ص۲۲۲)

حیات اقبال کے بعض واقعات،ان کے درویشانہ اِستغنا کی طرف اشارہ کرتے ہیں،مثلاً: بھوپال کے نواب حمید اللہ خاں نے مئی ۱۹۳۵ء میں علامہ کاپانچ سوروپے ماہوار وظیفہ مقرر کردیا تھا۔ اس کے محرک سرراس مسعود تھے۔ سرراس نے یہ کوشش بھی کہ بہاول پور اور حیدرآباد کی ریاستوںاورسرآغاخاں کی طر ف سے بھی اسی طرح کے وظائف مقرر ہوجائیں۔ان کی درخواست پر آغاخان نے پانچ سو روپے ماہوار کی اعانت منظور کرلی مگر خوداقبال نے ان تجاویز کو پسند نہیںکیا۔ ۱۱؍دسمبر۱۹۳۵ء کو راس مسعودکے نام ایک خط میںلکھا:’’آپ کو معلوم ہے کہ اعلیٰ حضر ت نواب صاحب بھوپال نے جو رقم میرے لیے مقررفرمائی ہے ،وہ کافی ہے اور کافی نہ بھی ہو تو میں کوئی امیرانہ زندگی کا عادی نہیں۔بہترین مسلمانوں نے سادہ اوردرویشانہ زندگی بسر کی ہے۔ضرورت سے زیادہ کی ہوس کرناروپے کا لالچ ہے جو کسی طرح بھی مسلمان کے شایان شان نہیں ہے‘‘۔(اقبال نامے،ص۱۹۵)

اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطامحمد،علامہ کوسیالکوٹ والے مکان کا ایک حصہ دینا چاہتے تھے۔یہ علامہ کا اِستغنا تھا کہ وہ مکان لینے کے لیے تیار نہ ہوئے بلکہ ستمبر۱۹۳۰ء میں انھوں نے جایدادمیں اپنے حقوق سے دست برداری کی قانونی دستاویزبھی لکھ دی۔(مظلوم اقبال، ص۷۵، ۷۹، ۸۰)

اسی طرح آخری زمانے میں انھوں نے حیدرآباددکن سے سراکبرحیدری کا بھیجاہواایک ہزارروپے کا چیک قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ (ارمغانِ حجازاردو،ص۴۸؍۶۹۰)علامہ کا  یہ مصرع خودانھی پر صادق آتاہے:  ع

فقیرِ راہ نشین و دل غنی دارد

(پیام مشرق،ص۶۳؍۳۳۳)

اقبال کا تصورِفقراُردوشاعری میں ایک نیااور منفرد تصورہے۔ کش مکشِ حیات سے فرار، رہبانیت یاترک ِدنیا سے اس کا علاقہ نہیںبلکہ انسانی ارتقا کے لیے فقرکامتحرک اور برسرِعمل رہنا ضروری ہے۔ وہ حق وباطل کی آمیزش میں حصہ لیتاہے اورمثبت اوراخلاقی قدروں کے ذریعے معاشرے کو صحت منداورپاکیزہ بنانے میں معاونت کرتاہے۔ وہ مادیت میں ملوث نہیں ہوتا کیوں کہ ِاستغنااس کی بنیادی سرشت ہے جو انسان کے اندرنیک طینتی کو فروغ دیتی ہے۔

علامہ اقبال نے فقر کے مفہوم کو وسعت دی ہے اور واضح کیاہے کہ نہ صرف فردکے روحانی ارتقا بلکہ معاشرے کی صحت منداور قومی وملّی سربلندی کے لیے بھی فقرکا رویہ اورقلندرانہ طرزِ عمل اپناناضروری ہے۔

کتابیات

۱-            اعجازاحمد:مظلوم اقبال۔اعجازاحمد۔کراچی،۱۹۸۵ء

۲-            اقبال،علامہ محمد:اقبال نامہ(مرتبہ:شیخ عطاء اللہ)۔اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۵ء

۳-            اقبال،علامہ محمد:اقبال نامے(مرتبہ:ڈاکٹراخلاق اثرؔ)۔مدھیہ پردیش اردواکادیمی، بھوپال،۶ ۲۰۰ء

۴-            اقبال،علامہ محمد:کلیات اقبال اردو۔شیخ غلام علی اینڈ سنزلاہور،۱۹۷۳ء

۵-            اقبال،علامہ محمد:کلیات اقبال فارسی۔شیخ غلام علی اینڈ سنزلاہور،۱۹۷۳ء

۶-            اقبال،علامہ محمد:مکتوبات اقبال(مرتبہ:سیدنذیرنیازی)۔اقبال اکادمی پاکستان لاہور،۱۹۷۷ء

۷-            حمزہ فاروقی،محمد:حیات اقبال کے چندمخفی گوشے۔ادارہ تحقیقات پاکستان،دانش گاہ پنجاب لاہور،۱۹۸۸ء

۸-            سیدعبداللہ،ڈاکٹر:مسائل اقبال۔مغربی پاکستان اردواکیڈمی لاہور،۱۹۷۴ء

۹-            علی ہجویری،شیخ:کشف المحجوب(مترجم:میاں طفیل محمد)۔اسلامک پبلی کیشنزلاہور، ۱۹۸۰ء

۱۰-         مہر،غلام رسول:اقبالیات مہر(مرتبہ:امجدسلیم علوی)۔مہرسنز لاہور،۱۹۸۸ء

 

علامہ اقبال:مسائل ومباحث(ڈاکٹر سید عبداللہ کے مقالات)، مرتب: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔ ناشر: اقبال اکادمی، پاکستان، لاہور۔ صفحات: ۳۷۶۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

ڈاکٹرسیدعبداللہ کا شماراردو زبان وادب کے ممتازنقادوں اور محققین میں ہوتا ہے۔ اقبال کی شاعری اور فکرکی تفہیم وتبلیغ کے لیے اپنی آٹھ کتابوںکی صورت میں اقبالیات پر جو تنقیدی اور توضیحی سرمایہ انھوں نے یادگار چھوڑا ہے ،وہ اس پائے کا ہے کہ بعض معروف اقبال شناس بھی اس کی گرد کو نہیں پہنچ سکتے۔ڈاکٹرسیدعبداللہ کی مثال علم کے ایسے سمندر جیسی ہے جو حدود وقیود سے ماورا ہوتاہے اورجس کی موجیں دریابہ دریا،یم بہ یم،جوبہ جو پھیلتی جاتی ہیں۔

سیدمرحوم اورینٹل کالج لاہور میں ایک طویل عرصے تک طلبہ وطالبات کو اقبالیات کا درس دیتے رہے بلکہ اقبال کے فکروفن پر موقع بہ موقع مقالات لکھتے رہے۔ان کی (چندکتابوں کے نام یہ ہیں:مقاصدِ اقبال،مسائل اقبال، شیخ اکبر اور اقبال،مطالعۂ اقبال کے چند نئے رخ) یہ کتب اس لحاظ سے بھی ممتازہیں کہ سید عبداللہ نے اقبال کا سہارا لے کر اپنے شخصی خیالات کااظہار نہیں کیا بلکہ فکر اقبال کی حدود میں رہتے ہوئے ان کے فکروفن کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔

ان مستقل کتب کے علاوہ اقبالیات پرسیدصاحب کا بہت ساکام متفرق اخبارات ورسائل میں دفن تھا۔اس خزانے میں سب سے اہم مختصرمضامین کا وہ سلسلہ ہے جو۹؍نومبر۱۹۷۴ء تا۸نومبر۱۹۷۵ء ہفت روزہ چٹان لاہور میں شائع ہوتا رہا۔ ہجری تقویم کی رو سے اقبال کی پیدایش کو ایک سو برس مکمل ہونے پر ڈاکٹر سیدعبداللہ نے’’ ارادہ کیا کہ اس پورے سال کو متبرک سمجھ کر ہرہفتے فکر اقبال اور شخصیت اقبال کے کسی نہ کسی پہلوپرایک مختصر ساشذرہ لکھ کرہدیۂ عقیدت‘‘ پیش کرتے رہیں۔(ص۱۹)

لہٰذااوپردرج کردہ مدّت میں سیدصاحب نے۴۶ مضامین تحریر کیے جو ہفتہ وارچٹان میں شائع ہوتے رہے۔ان مضامین کی تحریرکے دوران سیدصاحب کانقطۂ نظر کیاتھا،انھی کے الفاظ میں:’’ہم لوگوں کااوّلین فریضہ ہے کہ فکر اقبال کو اپنے خیالات کے روپ میں پیش نہ کریں بلکہ اس کوحقیقی شکل میں مرتب کرکے حقیقی اور مکمل اقبال کو سمجھنے کی کوشش کریں…اقبال کو جوکچھ کہ وہ تھے،سمجھیں اور ان سے رہنمائی حاصل کریں…‘‘(ص۲۰)

سیدصاحب کے ان مضامین کے چندنمایاں موضوعات یوںہیں: کلام اقبال میں افرنگ کی حیثیت(اوراس ضمن میں دیگرمباحث، مثلاًفرنگی سیاست، معاشرت، فکروحکمت،اس کے تاریک پہلو،مغرب کے سیاسی فکر پر اقبال کی تنقید وغیرہ)  نظریۂ خودی کی سہل ترین تشریح    (اس موضوع پر سلسلہ وار۱۱ مضامین تحریر کیے گئے ہیں)۔ عجم وعجمیت اقبال کی نظر میں اقبال کے معاشی نظریات۔

ان موضوعات سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ سید عبداللہ نے کس گہرائی اورتفصیل کے ساتھ اقبال کو پڑھا اور سمجھاتھا۔ان مضامین میں سیدصاحب کا اندازِتحریراگرچہ علمی ہے، اس کے باوجود   بوجھل نہیں ہے اور عام قاری بھی ان مضامین کو بخوبی سمجھ سکتا ہے کیوںکہ سیدصاحب کے نزدیک ان مضامین کی تحریر کا مقصدبھی یہی تھا۔خودفرمایاہے:’’ایک عام قاری کے لیے(جو فلسفی یا عالم یا دانش ورنہیں)،افکاراقبال کاعوام فہم مقصد ومطلب مرتب کررہاہوں۔ میں یہ ذہن نشین کروانا چاہتا ہوں کہ اقبال کی فکری جدوجہد کا سہل خلاصہ،لب ِلباب اور عوام فہم درس کیا ہے؟… (ص۴۹)

ممتازاقبال شناس ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی نے سیدصاحب کے یہ مضامین جمع کرکے،کچھ مزید لوازمے کے ساتھ(سید عبداللہ کے دیگرغیرمدوّن مضامین، مکاتیب، مصاحبے، مقدماتِ کتب وغیرہ) انھیں علامہ اقبال:مسائل ومباحث کے عنوان سے اقبال اکادمی پاکستان، لاہور سے شائع کرا دیا ہے۔ ہفت روزہ چٹان کے سلسلہ وارمضامین کے علاوہ بھی سیدعبداللہ کے’’غیر مدوّن مضامین بھی کتاب کا حصہ ہیں۔یہ بھی تفہیم اقبال کی ذیل میں عمدہ مضامین ہیں،جن میں متفرق موضوعات پر اظہارخیال کیاگیاہے، مثلاًاقبال فہمی کے بنیادی اصول،اقبال کی اُردو شاعری، اقبال اور رومی،نواے شاعرِفردا، نوجوان اور مطالعۂ اقبال وغیرہ۔اقبال کی اردو شاعری میں سیدصاحب نے اقبال کے فنِ شعرپرخاصی عمدہ بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ اقبال محض فکرہی نہیں ،فن کے اعتبار سے بھی بڑے شاعرہیں۔اس ـمضمون میں انھوں نے ’شعراقبال میں بلاغت کے زاویے‘پر بہت عالمانہ نکتہ افروزی کی ہے۔

علامہ اقبال کے عقیدت منداور سیدصاحب کے شیدائی اور طالب علم اس ضمن میں ڈاکٹرہاشمی کے شکرگزار ہیں کہ انھوں نے یہ مضامین جمع اور مرتب کرکے ڈاکٹر سیدعبداللہ اوراقبال سے وابستگی کاایک نیا افق روشن کیا ہے۔اصول ترتیب وتدوین کے مطابق مضامین کاوش و محنت سے مرتب کیے گئے ہیں۔کتاب بہت اچھے معیارپر طبع کی گئی ہے۔قیمت مناسب ہے۔(ساجد نظامی)


عہدِرسالتؐ میں اسلام اور نصرانیت کے تعلقات، مؤلف: ڈاکٹر فاروق حمادہ، مترجم: ابزلفہ محمد آصف نسیم۔ ناشر: بیت الحکمت، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات: ۲۵۱۔ قیمت: درج نہیں۔

مؤلف رباط (مراکش) کی جامعہ محمدالخامس کے شعبۂ علوم الالسنۃ الاداب وعلوم الالسانیہ کے استاد ہیں۔ اس گراں قدر علمی تالیف کو پروفیسر ڈاکٹر فاروق حماد نے قرآن و حدیث اور دیگر تاریخی ذرائع سے اخذ و اکتساب کر کے تیار کیا ہے اور اس میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے باہمی تعلقات کا ایک عکس موجودہ حالات کے تناظر میں ارباب فکرودانش کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس کتاب کے چار ابواب میں مکاتیب اور سفرا، وفود، غزوات  و سرایا اور معاہدات اور صلح نامے دیے گئے ہیں۔   وہ مذاہب جن کی ابتدا اور مسکن عالمِ عرب رہا ہے، یعنی اسلام اور نصرانیت (نصرانیت اب زیادہ تر مسیحیت پکاری جاتی ہے) ان کے عہدنبویؐ میں آپس کے تعلقات و روابط کے اثرات و نتائج پر بحث کی گئی ہے۔

تہذیبی تصادم اور کشاکش کے اس دور میں اس کتاب میں بیان کیے گئے واقعات و حالات کی روشنی میں ہمیں اپنا طرزِعمل متعین کرنے کے لیے اصول و ضوابط اخذ کرنا ہوں گے تاکہ اسلام اور مسیحیت کے آپس میں تعلقات کا اِدراک ہوسکے۔ قرآن کریم میں بھی سورئہ مائدہ ، آیات ۸۳-۸۴ میں مومنوں کے ساتھ دوستی میں قریب ترین نصاریٰ کو بتایا گیا ہے اور نصاریٰ کی بعض خصوصیات بیان کی گئی ہیں مگر کیا رسولؐ اللہ کے زمانے کے نصاریٰ میں پائی جانے والی خصوصیات آج کے دور کے نصاریٰ میں بھی پائی جاتی ہیں؟ اور کیا رسولؐ اللہ کے دور کے مسلمانوں اور آج کے دور کے مسلمانوں میں بھی کوئی نسبت ہے؟ ان سوالات کے صحیح تجزیے اور ان کے معقول جواب کے بعد ہی مسلمانوں اور عیسائیوں کے باہمی تعلقات کی کوئی صورت پیداہوسکتی ہے۔ آج کے نصاریٰ جو یورپ، برطانیہ، امریکا اور چند دوسرے ممالک میں کثیرتعداد میں ہیں، اور ان کی حکومتیں ہیں، وہ تو صلیبی جنگوں کے پس منظر میں مسلمانوں اور اسلام سے سخت عناد رکھتے ہیں اور کوئی موقع مسلمانوں اور اسلام کو زک پہنچانے کا ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان حالات میں توقع رکھنا کہ اسلام اور نصرانیت کے اچھے تعلقات قائم ہوسکتے ہیں، عبث ہے۔ یہ تعلقات اسی وقت بہتر طور پر قائم ہونے کا امکان ہے جب اسلام پھر سے ایک عالمی قوت بن جائے اور سارے مسلمان اسلام کے زیرسایہ متحد ہوجائیں۔(پروفیسر شہزادالحسن چشتی)


اخوان المسلمون: تزکیۂ ادب، شہادت، ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی۔ناشر:القلم پبلی کیشنز، ٹرک یارڈ،بارمولہ، کشمیر۔ صفحات: ۳۱۲ مجلد۔ قیمت: ۲۵۰ بھارتی روپے۔

یہ کتا ب اخوان المسلمون کی تاریخ، جدوجہد کے مراحل اور پہلے مرشدعام امام حسن البنا سے موجودہ مرشدعام ڈاکٹر عبدالبدیع تک کے اَدوار کے مطالعے پر مشتمل ہے۔ اخوان جس آزمایش، پریشانی اور مشکل کیفیات سے گزرے، ان سات ابواب میں اس کا احاطہ کیا گیا ہے۔     یہ سات ابواب: حسن البنا شہید سے ڈاکٹر محمد البدیع تک، تصوف اور سیاست کا اجتماع، تشدد سے گریز، مزاحمت کی تلقین، ادب کی حلاوت بھی ایمان کی حرارت بھی، دانش وروں اور ادیبوں کی کہکشاں، شہادت گہہ اُلفت میں، اس کی ادا دل فریب، اس کی نگہ پاک باز، جیسے عنوانات کے تحت اہم موضوعات پر مشتمل ہیں۔ اخوان کا دعوت و تحریک کا سفر کیسے طے ہوا، اس کے وابستگان نے کیسی جرأت و پامردی کا مظاہرہ کیا۔ اخوان کے قائدین و کارکنان جس آزمایش سے گزرے اور جس ثابت قدمی، استقلال کے ساتھ مصائب و مشکلات برداشت کیے وہ بہت اندوہناک اور دل دہلا دینے والا ہے۔ اخوان المسلمون: تزکیۂ ادب، شہادت، اخوان کی جدوجہد، دعوت، عزیمت کے ایمان افروز واقعات سے روشناس کراتی ہے۔ کتاب کا مطالعہ جذب و کیف اور ایمان کی حلاوت کو جلا بخشتا ہے۔ ہرباب کے آخر میں مستند حوالہ جات اور حواشی کا اہتمام ہے، جب کہ اشاریے نے اس کی افادیت بڑھا دی ہے۔ کتاب کا مطالعہ اسلامی تحریک کے کارکنان کے لیے زادِراہ فراہم کرنا ہے، جب کہ اخوان سے دل چسپی رکھنے اور تحقیق سے وابستہ طلبہ و اساتذہ کے لیے نہایت اہم اور قیمتی لوازمہ فراہم کرتا ہے۔(عمران ظہور غازی)


زنا کی سنگینی اور اس کے بُرے اثرات، پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی۔ ناشر: مکتبہ قدوسیہ، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۵۱۱۲۴۔ صفحات: ۳۳۸۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں کہ انھیں زبان پر لانے یا لکھنے سے حیا آڑے آتی ہے۔   اسی لیے گالیاں اُردو کے بجاے انگریزی میں دینا ہمارے لیے ’مہذبانہ‘ فعل ہے۔ زنا عملاً اُردو زبان کا لفظ بن گیا، مگر ہے تو عربی۔ اس کے مکمل مفہوم کا اُردو ترجمہ کیوں تلاش کیا جائے۔ عربی (کی تقدیس) کا پردہ پڑا رہے تو اچھا ہے۔ یہ موضوع کبھی غلافوں اور پردوں میں ملفوف رہا ہوگا لیکن اب تو اس کی جزئیات تک کھلے بازار، سرعام بلکہ سرِپرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نظرآرہی ہیں، بلکہ دعوتِ عام دے رہی ہیں۔

ان حالات میں اس کتاب میں ایسے موضوع پر جو وقت کی ایک اہم ضرورت ہے، انتہائی احسن طریقے سے (مطالعے کے دوران انسان خوداحتسابی کے عمل سے گزرسکتا ہے) تعلیم دی گئی ہے۔ مصنف کی اُردو کی ۳۰کتب کے ساتھ ساتھ عربی کی ۳۰کتب کی فہرست بھی دی گئی ہے۔

کتاب میں پہلے چار ابواب میں زنا کے بارے میں یہودیت، عیسائیت، اسلام اور   سلیم الفطرت افراد کا موقف پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں زنا کے بُرے اثرات کے تحت  جنسی امراض، اولاد حرام کی کثرت، عائلی زندگی میں ٹوٹ پھوٹ اور شرح پیدایش میں کمی پر گفتگو کی گئی ہے۔قرآن اور حدیث اور دورِ صحابہؓ کے بعض اہم واقعات میں زنا کے حوالے سے جو کچھ موجود ہے یا مطالعے میں آتا ہے، وہ اس کتاب میں اپنے صحیح مقام پر مناسب ترتیب سے مل جاتا ہے۔ مصنف کا اندازِ تحریر اتنے نازک موضوع پر بحث کرتے ہوئے نہایت باوقار ہے۔ ہربات کے لیے قرآن و حدیث سے سند اور صحت کے ساتھ ان کی طباعت، کتاب کی ایسی صفت ہے جو متوجہ کرتی ہے۔

زنا کے اثرات کے تحت مغربی تہذیب اور مغربی معاشرے کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ ضرورت اس کی تھی کہ مصنف کچھ مسلم معاشروں کے احوال بھی تحقیق کر کے سند کے ساتھ پیش کرتے اور کچھ احوال واقعی اپنے ملک کے بھی سامنے لاتے کہ یہاں کیا خوف ناک منظرنامہ تشکیل پارہا ہے۔فہرست کتب میں ایک زیرطبع کتاب ’زنا سے بچائو کی تدبیریں‘ کی اطلاع بھی ہے۔ یقین ہے کہ یہ اس کتاب کا تکملہ اور اچھی رہنما کتاب ہوگی۔ مراجع و مصادر کے تحت عربی کی ۱۰۸،اُردو کی سات اور انگریزی کی چھے کتب کا حوالہ ہے۔ انگریزی کے جائزوں اور مقالات کی تعداد ۲۴ ہے۔(مسلم سجاد)


یادوں کے آئینے میں، مرتبہ: میاں طیب فاروق۔ناشر: نعمان پبلشنگ کمپنی، غزنی سٹریٹ،  اُردو بازار، لاہور۔فون: ۷۷۹۴۳۰۵-۰۳۰۱۔ صفحات:۲۹۶۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

پاک فوج کے ایک انجینیرمیجر مسعود طارق بھٹی ڈیوٹی پر جاتے ہوئے ٹریفک حادثے میں شہید ہوگئے۔ ان کے دوست طیب فاروق نے ان کی یاد میں یہ کتاب ان کے والد پروفیسر نذیر احمد بھٹی کی مشاورت اور رہنمائی میں مرتب کی ہے۔ صفحہ ۱۱۰-۱۱۱ پر ’شہدا کی قسمیں‘ کے عنوان سے ۳۷قسموں کی فہرست دی گئی ہے۔ گویا شہادت کا مرتبہ حاصل کرنے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ انسان میدانِ جہاد میں مقابلہ کرتے ہوئے جان دے۔ شہید کے اپنی والدہ اور دیگر اہلِ خانہ کے نام خطوط، ان کی ڈائری سے ان کی پسند کے اشعار اور اقتباسات اور ان کے بارے میں ان کے افسران نے دوستوں نے جو کچھ لکھا کہا سب شامل کردیا گیا ہے۔

کتاب میں ایک اچھے باشعور مسلمان نوجوان کی زندگی کا چلتا پھرتا نقشہ سامنے آتا ہے جس میں یقینا دوسروں کے لیے رہنمائی ہے لیکن ہمارے لیے سبق کا پہلو یہ ہے ایک نوجوان انجینیر کے دوستوں نے اس کی یادوں کو محفوظ کر دیا لیکن ہمارے کتنے ہی تحریکی رہنما اپنے علاقوں میں اور ملک میں دین کی خدمت کر کے رخصت ہوئے لیکن ہم وقتی طور پر چند مضامین کے علاوہ ان کا کوئی قرض نہیں سمجھتے۔ تحریک کے پاس تو شہدا کے علاوہ بھی سیکڑوں مثالی کارکن ہیں جو یاد رکھے جانے چاہییں۔ ابھی عربی کی ایک پانچ جلدوں کی کتاب: شھداء الحرکۃ الاسلامیۃ نظر سے گزری جس میں حسن البنا اور سیدقطب کے ساتھ سیکڑوں اخوان شہدا کا تذکرہ ہے۔صحابہ کرام اور سلف کے دیگر بڑے لوگوں کے واقعات اپنی جگہ، لیکن ہمارے اپنے دور کے افراد کی قربانیاں اور عزم اور ایمان کی داستانیں بھی اپنا ہی ایک سبق اور تاثیر رکھتی ہیں۔(مسلم سجاد)


پروفیسر عبدالغفور احمد، مرتب: سید عامر۔ ناشر:جسارت پبلی کیشنز، تیسری منزل، سیّدہائوس،   آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔ فون: ۴-۳۲۶۳۰۳۹۱-۰۲۱صفحات:۳۸۴۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

’’ایک دفعہ مخالفین نے ہمارے گھر کے باہر ہوائی فائرنگ اور نعرے بازی کی۔ وہ نعرہ لگارہے تھے: غفورا ٹھاہ۔ ہم نے اباجی سے کہا: حکومت کے کسی ذمہ دار شخص کو بتائیں یہاں پر لوگ   کیا کر رہے ہیں۔ اباجی نے جواب دیا:بتائو غفور کس کا نام ہے؟ ہم نے کہا: اللہ کا۔ اباجی نے کہا: میں ان لوگوں کی کیا شکایت کروں، یہ اپنا بُرا خود ہی کر رہے ہیں، مَیں تو عبدالغفور ہوں‘‘ (ص ۳۵۲)۔  ان عبدالغفور صاحب پر سیدعامر نے ۴۰۰صفحے کی خوب صورت کتاب اتنی کم مدت میں تیار کر کے پیش کردی کہ یقین نہیں آتا، یعنی صرف اڑھائی ماہ میں۔ اس میں وہ سارے مضامین ، کالم سب جمع کردیے گئے ہیں جو وفات کے بعد شائع ہوئے ۔ اس کے ساتھ ہی جس طرح خبریں آئیں، تعزیتی پروگرام ہوئے وہ سب بھی ایک جگہ مل جاتے ہیں۔ اخبارات کے اداریے، بی بی سی،    وائس آف امریکا اور ڈان اور نیوز کی انگریزی خبریں۔ امیرجماعت اسلامی ہند اور اخوان رہنما کے خطوط اور آخر میں آٹھ صفحات پر تصاویر ۔ جسارت پبلی کیشنز کو تصاویر کی طباعت میں اتنی سادگی نہ دکھانی چاہیے تھی۔ تبصرے کا مقصد پروفیسر عبدالغفور صاحب کی خدمات کا بیان نہیں، صرف اس کتاب کا راستہ دکھانا ہے۔ اگر آپ کے اندر صرف ۴۰۰ روپے میں اس دل کش کتاب کو حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوگیاہے ، تو تبصرہ کامیاب ہے! ورنہ کتاب تو کامیاب ہے ہی!!(مسلم سجاد)


Policy Perspectives، مدیر: خالد رحمان۔ ملنے کا پتا: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، گلی نمبر۸، سیکٹر۳/۶-ایف، اسلام آباد۔ فون: ۳-۸۴۳۸۳۹۱-۰۵۱۔ صفحات: ۱۷۰۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز جو خدمات انجام دے رہا ہے اس میں کتابوں کے    نقد و جائزے پر مشتمل شش ماہی نقطۂ نظر کے علاوہ زیرتبصرہ مجلہ بھی ہے جو گذشتہ ۱۰سال سے ہرچھے ماہ بعد شائع ہوتا ہے اور بہت اہم مسائل پر قابلِ قدر نگارشات پیش کرتا ہے۔ اس سال کے پہلے شمارے میں قوم کے سامنے ۲۰۱۳ء اور بعد کے ایجنڈے پر پانچ عنوانات: دستورِسیاست اور حکومت کاری، خارجہ پالیسی، قومی سلامتی، معیشت، اور توانائی پر پروفیسر خورشیداحمد، شمشاد اے خاں اور دوسروں کے مقالے ہیں۔ اس کے علاوہ چھے مقالات مزید شامل ہیں: ریسرچ کے مغربی فلسفے اور اسلام( پروفیسر خورشید احمد)، عالمی دنیا کے لیے عالمی اخلاقیات (انیس احمد)، انسانی حقوق اور اسلام ( سید محمد انور) ، خواتین پر قانون سازی رجحانات اور نقطۂ نظر ( آئی پی ایس ٹاسک فورس)، شاہراہِ ریشم اور پاک چین تعلقات (خالد رحمن)، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار (طغرل امین) کے عنوانات اور لکھنے والوں کے نام دیکھنے پر مجلے کے انتہائی قیمتی ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ کاش! ترجمے کی ایسی مشین آجائے کہ ہم ایک طرف انگریزی ڈالیںدوسری طرف ترجمہ بامحاورہ اُردو میں نکل آئے۔ جو انگریزی پڑھ سکتے ہیں وہ اسے حاصل کرکے پڑھنا ’مس‘ نہ کریں۔ صرف ۴۰۰روپے سالانہ میں اور کیا چاہتے ہیں؟ (مسلم سجاد)

تعارف کتب

  • قرآن و سنت کا دینی تصور اور بنیادی اسلامی عقائد، تالیف: چودھری مشتاق احمد۔ ملنے کا پتا:    البدر کتاب گھر، جلال پور جٹاں روڈ، کچہری چوک، گجرات۔ فون: ۴۶۳۹۸۸۶-۰۳۳۴۔ صفحات: ۳۶۸۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔ [مؤلف کے نزدیک اُمت مسلمہ کے زوال و پستی کا بنیادی سبب قرآن و سنت سے رُوگردانی اور اسلام کے اصولی احکام سے کم علمی ہے۔ چنانچہ اُمت کے عروج و زوال کا جائزہ لیتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں اسلام کے بنیادی تصور اور متفقہ لائحہ عمل پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسلام سے گہری وابستگی، تقویٰ کو زندگی کا شعار بناتے ہوئے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا وقت کا تقاضا قرار دیا ہے۔]
  •  مسئلہ تعلیم ، مولانا محمد ادریس کاندھلوی۔ ملنے کا پتا: مکتبہ سیّداحمد شہیدؒ، اُردو بازار، لاہور۔             فون: ۴۱۴۶۵۶۲-۰۳۳۳۔ صفحات: ۴۴۔ قیمت: درج نہیں۔ [نظامِ تعلیم کے مختلف پہلوئوں کے جائزے پر مبنی تحریر جس میں تعلیم کی اہمیت، نصابِ تعلیم، مدتِ تعلیم، ذریعۂ تعلیم، عربی اور انگریزی کی یک جا تعلیم کے مفاسد،  دینی مدارس کی اقسام، نظام اور نصاب، نیز عصری تعلیمی ادارے اور ان کے تہذیب و تمدن پر اثرات پر بحث کی گئی ہے۔ انگریزی زبان کے بار ے میں مولانا اشرف علی تھانویؒ کی ایک تحریر بھی بطور ضمیمہ شامل ہے۔]
  • السلام علیکم، ڈاکٹر اقبال احمد محمد اسحق۔ ناشر: مکتبہ قاسم العلوم، سلمان مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۲۳۲۔ قیمت:۱۸۰ روپے۔[السلام علیکم کو موضوع بنا کر چھے فصلوں پر مشتمل ۲۳۲ صفحات کی جامع کتاب، جس میں اس موضوع سے متعلق ہر پہلو اور ہرمسئلہ آگیا ہے۔ مصافحے، معانقے اور بوسے تک کی بھی وضاحت ہے۔ اندازِ بیان سادہ ہے۔]

 

حامد عبدالرحمٰن الکاف ، صنعا،یمن

ادھر کئی دن سے میں مصر کی صورتِ حال سے بہت بے چین بلکہ غمگین تھا۔ ایسے میں کل رات جب میں ٹیلی ویژن دیکھ رہا تھا تو اچانک میں نے ہمارے دوست اور بھائی جناب راشدالغنوشی صاحب کو دیکھا جو کسی ہوائی جہاز میں بیٹھے کسی صاحبہ کو، جن کا چہرہ دکھائی نہیں دے رہا تھا، انٹرویو دیتے ہوئے نظر آئے۔ خوداعتمادی سے بھرپور ان کا چمکتا ہوا چہرہ تروتازہ محسوس ہو رہا تھا اور وہ بالکل مطمئن نظرآرہے تھے۔

۷فروری ۲۰۱۳ء کو انھوں نے تیونسی ٹریڈ یونین کے لیڈر شکری بلعید صاحب کو رحمۃ اللہ کہہ کر یاد کیا اور کہا کہ ان کا قتل ایک سازش کی کڑی ہے جس میں، ان سے پہلے، ایک مسلم لیڈر کو قتل کیا جاچکا ہے اور کچھ دوسرے بھی قتل ہوئے ہیں تاکہ تیونس کے لوگوں کو آپس میں لڑایا جائے۔ انھوں نے کہا کہ تیونس کے حالات قابو میں ہیں اور امن و امان برقرار ہے۔ خیال رہے کہ جب الغنوشی صاحب کوئی چار سال پہلے صدرآباد تشریف  لائے تھے تو مجھے ایک ہی دن میں دو مقامات پر ان کے خطابات کے ترجمے کا موقع ملا تھا۔ اس وجہ سے بھی کہ تیونس میں ایک شہر الکاف ہے، میں ان کے زیادہ قریب ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے انھیں اور ان کی پارٹی النہضۃ کو تیونس میں کامیابی عطا فرمائے، آمین!

اس منظر کو دیکھنے سے کچھ ہی دیر پہلے میں تیونس کی النہضۃ پارٹی کے زبردست مظاہرے کو دیکھ چکا تھا جو شکری بلعید کے جنازے میں جمِ غفیر کی شرکت کے جواب میں یہ ثابت کرنے کے لیے کیا گیا تھا کہ تیونس میں طاقت ور ترین پارٹی النہضۃ ہی ہے۔ اس مظاہرے میں جو بینرز اور پلے کارڈ اُٹھائے گئے تھے اور نعرے لگائے جارہے تھے وہ یہ تھے کہ اسلام پسندوں کی پارٹی النہضۃ ہر حال میں حکومت کرتی رہے گی کیونکہ وہ ایک منتخب پارٹی ہے خواہ کوئی پسند کرے یا ناپسند کرے۔اس کے علاوہ اس میں فرانس کے وزیرداخلہ سے تیونس کے معاملات میں عدمِ مداخلت کا مطالبہ کیا گیا تھا کیونکہ انھوں نے النہضۃ کی حکومت کو غیر جمہوری حکومت کہا تھا!!

فرانس، اس کی حکومت اور خصوصاً اس کا وزیرخارجہ پہلے لمحے سے النہضۃ کی کامیابی سے خوش نہیں ہیں۔ اب وزیرداخلہ صاحب بول پڑے ہیں۔ ان کو دبنگ جواب کی ضرورت تھی۔ کل کے لاکھوں کے مظاہرے میں شریک لوگوں نے صاف صاف دبنے سے انکار کردیا۔ یہی مطلوب بھی تھا۔

آج کل فرانس میں سوشلسٹ حکومت ہے جو ٹریڈ یونینوں کے ذریعے اقتدار میں آئی ہے۔ سوشلسٹ کا مطلب دہریے ہونا ہے۔ شاید بلعید صاحب کمیونسٹ یا سوشلسٹ یا دہریے رجحانات کے حامل تھے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ ان کا جنازہ مسجد میں نمازِ جنازہ کے بعد نکلا نہیں بلکہ دارالثقافۃ سے نکلا۔ جنازے میں شریک ہونے والے حضرات نے خود قبرستان میں توڑپھوڑ کی جو مسلمان ہرگز نہیں کرسکتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ  یہ دہریوں، کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کا جلوسِ جنازہ تھا جس نے دفن کے بعد پورے شہر میں توڑ پھوڑ اور    آگ لگانے کا طوفان کھڑا کیا۔

یہی کچھ صورتِ حال مصر میں ہے اور شاید کچھ زیادہ ہے کیونکہ یہاں ٹرینوں کو روکا جا رہا ہے،    میٹرو (سب وے،Subway) کو کئی بار جلایا گیا، راستے روکے جارہے ہیں، مجرموں کو جیلوں سے رہا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، حتیٰ کہ قصرِصدارت میں گھسنے اور اسے آگ لگانے اور صدرمرسی کے گھر میں، جو  مشرقی صوبے میں واقع ہے، داخل ہونے کی بار بار کوششیں کی گئی ہیں۔(صنعا، ۱۰ فروری ۲۰۱۳ء)

حارث انس ، کراچی

مسیحی، یعنی مغربی تہذیب کے علَم بردار انسانی اقدار کے بڑے علَم بردار بنتے ہیں۔ امریکا بہادر دنیا بھر کے ملکوں میں حقوقِ انسانی کی صورت حال پر رپورٹیں جاری کرتا ہے مگر خود اپنی رپورٹ جاری نہیں کرتا۔ افغانستان، عراق، ابوغریب، گوانتانامو اور اب دنیا کے ۷۰/۸۰ ممالک میں ان کے تعذیب خانے ہیں۔     ہم اپنے برطانوی آقائوں کو بہت مہذب سمجھتے ہیں۔ ان کے جیسے کپڑے پہن کر مہذب نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سینوں پر ایسے ایسے جملے لگائے پھرتے ہیں کہ معنوں کی طرف ذہن جائے تو پیشانیاں عرق آلود ہوجائیں۔ ہم نے تاریخ بھلا دی ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی جسے غدر بھی کہا جاتا ہے، کے بعد ان حکمرانوں نے ہم مسلمانوں کو کچلنے کے لیے کس کس طرح کے مظالم کیے۔ قطاروں میں پھانسیاں دی گئیں اور مخبری کرنے والوں کو اور کتے نہلانے والوں کو دادو دہش سے ایسا نوازا کہ آزادی کے بعد ہمارے سینوں پر سوار ہیں۔   محمود احمد غازی صاحب نے ’مسیحیت کے عالمی عزائم‘ (مارچ ۲۰۱۳ء)کی کیا خوب تصویر کھینچی ہے!

منیرہ خان ، اسلام آباد

میری نانی ڈھاکہ میں رہتی ہیں۔ کل انھوں نے فون پر بتایا کہ کل یہاں پاکستان کے مشہور کالم نگار حامدمیر، عاصمہ جہانگیر (جن کا نام نگران وزیراعظم کے لیے بھی لیا گیا )اور کچھ اور افراد ملا کر گیارہ دانش وروں نے سقوطِ ڈھاکہ کے وقت پاکستان کا ساتھ دینے والوں کو خوب سنا، ماشاء اللہ۔ واپس آکر یہاں انھوں نے یہ کہا کہ حسینہ واجد نے بتایا کہ جماعت اسلامی پر پابندی لگانا چاہتی ہیں تو حامدمیر اور عاصمہ جہانگیر دونوں نے اس کی مخالفت کی۔ ہم سادہ لوگ یہ سمجھیں کہ انھوں نے شاید جماعت کے حق میں بات کی ہے، حالانکہ بات دراصل یہ ہے کہ انھوں نے حسینہ واجد کو خیرخواہانہ مشورہ دیا کہ پابندی سے جماعت اسلامی کرش نہیں کی جاسکے گی۔ دوسری تدبیریں کرو! ہماری آستینوں میں کیسے کیسے سانپ اور سپنیاں پل رہی ہیں!

آج کی دنیا میں اسمبلیوں، کونسلوں، میونسپل وارڈوں اور دوسری مجالس اور جماعتوں کے انتخابات میں جمہوریت کے نام پر جو کھیل کھیلا جا رہا ہے کہ زور و زر اور غنڈا گردی کے سارے طاغوتی وسائل کا استعمال کرکے یہ چند روزہ موہوم اعزازا حاصل کیا جاتا ہے اور اس کے عالم سوز نتائج ہروقت آنکھوں کے سامنے ہیں اور ملک و ملّت کے ہمدرد و سمجھ دار انسان اپنے مقدور بھر  اس کی اصلاح کی فکر میں بھی ہیں،لیکن عام طور پر اس کو ایک ہارجیت کا کھیل اور خالص دنیاوی دھندا سمجھ کر ووٹ لیے اور دیے جاتے ہیں۔ لکھے پڑھے دین دار مسلمانوں کو بھی اس طرف توجہ نہیں ہوتی کہ یہ کھیل صرف ہماری دنیا کے نفع نقصان اور آبادی یا بربادی تک نہیں رہتا بلکہ اس کے پیچھے کچھ طاعت و معصیت اور گناہ و ثواب بھی ہے جس کے اثرات اس دنیا کے بعد بھی یا ہمارے گلے کا ہار عذابِ جہنم بنیں گے، یا پھر درجاتِ جنت اور نجاتِ آخرت کا سبب بنیں گے۔

اگرچہ آج کل اس اکھاڑے کے پہلوان اور اس میدان کے مرد، عام طور پر وہی لوگ ہیں جو فکرِآخرت اور خدا و رسولؐ کی طاعت و معصیت سے مطلقاً آزاد ہیں اور اس حالت میں اُن کے سامنے قرآن و حدیث کے احکام پیش کرنا ایک بے معنی و عبث فعل معلوم ہوتا ہے، لیکن اسلام کا ایک یہ بھی معجزہ ہے کہ مسلمانوں کی پوری جماعت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوتی۔ ہر زمانے اور ہرجگہ کچھ لوگ حق پر قائم رہتے ہیں جن کو اپنے ہرکام میں حلال و حرام کی فکر اور خدا اور رسولؐ کی رضاجوئی پیش نظر رہتی ہے۔ نیز قرآن کریم کا یہ بھی ارشاد ہے: وَذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَo (الذّٰریٰت ۵۱:۵۵)، یعنی آپ نصیحت کی بات کہتے رہیں کیونکہ نصیحت مسلمانوں کو نفع دیتی ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ انتخابات میں اُمیدواری اور ووٹ کی شرعی حیثیت اور اُن کی اہمیت کو قرآن و سنت کی رُو سے واضح کردیا جائے۔ شاید کچھ بندگانِ خدا کو تنبیہ ہو اور کسی وقت یہ غلط کھیل صحیح بن جائے۔

اُمیدواری

کسی مجلس کی ممبری کے انتخابات کے لیے جو اُمیدوار کی حیثیت سے کھڑا ہو وہ گویا پوری ملّت کے سامنے دوچیزوں کا مدعی ہے۔ ایک یہ کہ وہ اس کام کی قابلیت رکھتا ہے جس کا اُمیدوار ہے، دوسرے یہ کہ وہ دیانت و امانت داری سے اس کام کو انجام دے گا۔ اب اگر واقعی میں وہ اپنے اس دعوے میں سچا ہے، یعنی قابلیت بھی رکھتا ہے اور امانت و دیانت کے ساتھ قوم کی خدمت کے جذبے سے اس میدان میں آیا تو اس کا یہ عمل کسی حد تک درست ہے، اور بہتر طریق اس کا یہ ہے کہ کوئی شخص خود مدعی بن کر کھڑا نہ ہو بلکہ مسلمانوں کی کوئی جماعت اس کو اس کام کا اہل سمجھ کر نام زد کردے اور جس شخص میں اس کام کی صلاحیت ہی نہیں، وہ اگر اُمیدوار ہوکر کھڑا ہو تو قوم کا غدار اور خائن ہے۔ اس کا ممبری میں کامیاب ہونا ملک و ملّت کے لیے خرابی کا سبب تو بعد میں بنے گا، پہلے تو وہ خود غدار و خیانت کا مجرم ہوکر عذابِ جہنم کا مستحق بن جائے گا۔ اب ہر وہ شخص جو کسی مجلس کی ممبری کے لیے کھڑا ہوتا ہے، اگر اس کو کچھ آخرت کی بھی فکر ہے تو اس میدان میں آنے سے پہلے خود اپنا جائزہ لے لے اور یہ سمجھ لے کہ اس ممبری سے پہلے تو اس کی ذمہ داری صرف اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال ہی تک محدود تھی کیونکہ بہ نصِ حدیث ہرشخص اپنے اہل و عیال کا ذمہ دار ہے اور اب کسی مجلس کی ممبری کے بعد جتنی خلقِ خدا کا تعلق اس مجلس سے وابستہ ہے، اُن سب کی ذمہ داری کا بوجھ اُس کی گردن پر آتا ہے اور وہ دنیا و آخرت میں اس ذمہ داری کا مسئول اور جواب دہ ہے۔

ووٹ اور ووٹر

کسی اُمیدوار ممبری کو ووٹ دینے کی ازروے قرآن و حدیث چند حیثیتیں ہیں۔ ایک حیثیت شہادت کی ہے کہ ووٹر جس شخص کو اپنا ووٹ دے رہا ہے، اس کے متعلق اس کی شہادت دے رہا ہے کہ یہ شخص اس کام کی قابلیت بھی رکھتا ہے اور دیانت اور امانت بھی۔ اور اگر واقعی میں اس شخص کے اندر یہ صفات نہیں ہیں اور ووٹر یہ جانتے ہوئے اس کو ووٹ دیتا ہے تو وہ ایک جھوٹی شہادت ہے جو سخت کبیرہ گناہ اور وبالِ دنیا و آخرت ہے۔ بخاری کی حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادتِ کاذبہ کو شرک کے ساتھ کبائر میں شمار فرمایا ہے (مشکٰوۃ)۔ اور ایک دوسری حدیث میں جھوٹی شہادت کو اکبر کبائر فرمایا ہے (بخاری و مسلم) ۔ جس حلقے میں چند اُمیدوارکھڑے ہوں اور ووٹر کو یہ معلوم ہے کہ قابلیت اور دیانت کے اعتبار سے فلاں آدمی قابلِ ترجیح ہے تو اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو ووٹ دینا اس اکبر کبائر میں اپنے آپ کو مبتلا کرنا ہے۔ اب ووٹ دینے والا اپنی آخرت اور انجام کو دیکھ کر ووٹ دے محض رسمی مروت یا کسی طمع و خوف کی وجہ سے اپنے آپ کو اس وبال میں مبتلا نہ کرے۔

 دوسری حیثیت ووٹ کی شفاعت، یعنی سفارش کی ہے کہ ووٹر اس کی نمایندگی کی سفارش کرتا ہے۔ اس سفارش کے بارے میں قرآن کریم کا یہ ارشاد ہرووٹر کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے: مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَّکُنْ لَّہٗ نَصِیْبٌ مِّنْھَا وَ مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَّکُنْ لَّہٗ کِفْلٌ مِّنْھَا(النساء ۴:۸۵)، یعنی (جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے اُس میں اس کو بھی حصہ ملتا ہے اور بُری سفارش کرتا ہے تو اُس کی بُرائی میں اُس کا بھی حصہ لگتا ہے)۔ اچھی سفارش یہی ہے کہ قابل اور دیانت دار آدمی کی سفارش کرے جو خلقِ خدا کے حقوق صحیح طور پر ادا کرے، اور بُری سفارش یہ ہے کہ نااہل، نالائق، فاسق و ظالم کی سفارش کر کے اُس کو خلقِ خدا پر مسلط کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے ووٹوں سے کامیاب ہونے والا اُمیدوار اپنے پنج سالہ دور میں جو نیک یا بدعمل کرے گا ہم بھی اس کے شریک سمجھے جائیں گے۔

ووٹ کی ایک تیسری حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا اس اُمیدوار کو اپنا نمایندہ اور وکیل بناتا ہے لیکن اگر یہ وکالت اس کے کسی شخصی حق کے متعلق ہوتی اور اس کا نفع نقصان صرف اس کی ذات کو پہنچتا تو اُس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا مگر یہاں ایسا نہیں کیونکہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے جن میں اُس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے۔ اس لیے اگر کسی نااہل کو اپنی نمایندگی کے لیے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اس کی گردن پر رہا۔

خلاصہ یہ ہے کہ ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ہے: ایک شہادت، دوسرے سفارش، تیسرے حقوق مشترکہ میں وکالت۔ تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک، صالح، قابل آدمی کو ووٹ دینا موجب ِ ثوابِ عظیم ہے اور اُس کے ثمرات اُس کو ملنے والے ہیں، اسی طرح نااہل یا غیرمتدین شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے اور بُری سفارش بھی اور ناجائز وکالت بھی اور اس کے   تباہ کن اثرات بھی اُس کے نامۂ اعمال میں لکھے جائیں گے۔

ضروری تنبیہ

مذکور الصدر بیان میں جس طرح قرآن و سنت کی رُو سے یہ واضح ہوا کہ نااہل، ظالم، فاسق اور غلط آدمی کو ووٹ دینا گناہِ عظیم ہے، اسی طرح ایک اچھے، نیک اور قابل آدمی کو ووٹ دینا ثوابِ عظیم ہے بلکہ ایک فریضہ شرعی ہے۔ قرآن کریم نے جیسے جھوٹی شہادت کو حرام قرار دیا ہے، اسی طرح سچی شہادت کو واجب و لازم بھی فرما دیا ہے۔ ارشاد باری ہے:قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ (المائدہ ۵:۸) اور دوسری جگہ ارشاد ہے:کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ (النساء  ۴:۱۳۵) ۔ ان دونوں آیتوں میں مسلمانوں پر فرض کیا ہے کہ سچی شہادت سے جان نہ چرائیں، اللہ کے لیے ادایگیِ شہادت کے واسطے کھڑے ہوجائیں۔ تیسری جگہ سورئہ طلاق (۶۵:۱) میں ارشاد ہے: وَاَقِیْمُوا الشَّھَادَۃَ لِلّٰہِ، یعنی اللہ کے لیے سچی شہادت کو قائم کرو۔ ایک آیت میں یہ ارشاد فرمایا کہ سچی شہادت کا چھپانا حرام اور گناہ ہے۔ ارشاد ہے: وَ لَا تَکْتُمُوا الشَّھَادَۃَ ط وَمَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ ط (البقرہ ۲:۲۸۳)، (یعنی شہادت کو نہ چھپائو اور جو چھپائے گا اُس کا دل گناہ گار ہے)۔

ان تمام آیات نے مسلمانوں پر یہ فریضہ عائد کردیا ہے کہ سچی گواہی سے جان نہ چرائیں، ضرور ادا کریں۔ آج جو خرابیاں انتخابات میں پیش آرہی ہیں اُن کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ نیک اور صالح حضرات عموماً ووٹ دینے ہی سے گریز کرنے لگے جس کا لازمی نتیجہ وہ ہوا جو مشاہدے میں آرہا ہے کہ ووٹ عموماً اُن لوگوں کے آتے ہیں جو چند ٹکوں میں خرید لیے جاتے ہیں اور اُن لوگوں کے ووٹوں سے جو نمایندے پوری قوم پر مسلط ہوتے ہیں، وہ ظاہر ہے کہ کس قماش اور کس کردار کے لوگ ہوں گے۔ اس لیے جس حلقے میں کوئی بھی اُمیدوار قابل اور نیک معلوم ہو، اُسے ووٹ دینے سے گریز کرنا بھی شرعی جرم اور پوری قوم و ملّت پر ظلم کے مترادف ہے، اور اگر کسی حلقے میں کوئی بھی اُمیدوار صحیح معنی میں قابل اور دیانت دار نہ معلوم ہو مگر ان میں سے کوئی ایک صلاحیت ِکار اور خداترسی کے اصول پر دوسروں کی نسبت سے غنیمت ہو تو تقلیلِ شر اور تقلیلِ ظلم کی نیت سے اس کو بھی ووٹ دے دینا جائز بلکہ مستحسن ہے، جیساکہ نجاست کے پورے ازالے پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں تقلیلِ نجاست کو اور پورے ظلم کو دفع کرنے کا اختیار نہ ہونے کی صورت میں تقلیلِ ظلم کو فقہا رحمہم اللہ نے تجویز فرمایا ہے۔ واللّٰہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔

خلاصہ یہ ہے کہ انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے جس کا چھپانا بھی حرام ہے اور اس میں جھوٹ بولنا بھی حرام، اس پر کوئی معاوضہ لینا بھی حرام، اس میں  محض ایک سیاسی ہار جیت اور دنیا کا کھیل سمجھنا بڑی بھاری غلطی ہے۔ آپ جس اُمیدوار کو ووٹ دیتے ہیں، شرعاً آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریے اور علم و عمل اور دیانت داری کی رُو سے اس کام کا اہل اور دوسرے اُمیدواروں سے بہتر ہے جس کام کے لیے یہ انتخابات ہورہے ہیں۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیں تو اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں:

                ۱-            آپ کے ووٹ اور شہادت کے ذریعے جو نمایندہ کسی اسمبلی میں پہنچے گا، وہ اس سلسلے میں جتنے اچھے یا بُرے اقدامات کرے گا اُن کی ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوگی۔ آپ بھی اس کے ثواب یا عذاب میں شریک ہوں گے۔

                ۲-            اس معاملے میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ شخصی معاملات میں کوئی غلطی بھی ہوجائے تو اس کا اثر بھی شخصی اور محدود ہوتا ہے، ثواب و عذاب بھی محدود۔قومی اور ملکی معاملات سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے، اس کا ادنیٰ نقصان بھی بعض اوقات پوری قوم کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے، اس لیے اس کا ثواب و عذاب بھی بہت بڑا ہے۔

                ۳-            سچی شہادت کا چھپانا ازروے قرآن حرام ہے۔ آپ کے حلقۂ انتخاب میں اگر کوئی صحیح نظریے کا حامل و دیانت دار نمایندہ کھڑا ہے تو اس کو ووٹ دینے میں کوتاہی کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔

                ۴-            جو اُمیدوار نظامِ اسلامی کے خلاف کوئی نظریہ رکھتا ہے، اس کو ووٹ دینا ایک جھوٹی شہادت ہے جو گناہِ کبیرہ ہے۔

                ۵-            ووٹ کو پیسوں کے معاوضے میں دینا بدترین قسم کی رشوت ہے اور چند ٹکوں کی خاطر اسلام اور ملک سے بغاوت ہے۔ دوسروں کی دنیا سنوارنے کے لیے اپنا دین قربان کردینا کتنے ہی مال و دولت کے بدلے میں ہو، کوئی دانش مندی نہیں ہوسکتی۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا ہے کہ ’’وہ شخص سب سے زیادہ خسارے میں ہے جو دوسرے کی دنیا کے لیے اپنا دین کھو بیٹھے‘‘۔

 

[مکمل شعور اور گہری للہیت] نے تزکیے کو ایک مستمر [مستقل جاری]جدوجہد اور ایک مسلسل تگ و دو کی چیز بنا دیا ہے۔ اس میں کوئی وقفہ یا ٹھیرائو نہیں ہے۔ اس سفر میں کوئی موڑ یا مقام ایسا نہیں آتا ہے جہاں پہنچ کر آدمی یہ سمجھ سکے کہ بس اب یہ آخری منزل آگئی، یہاں پہنچ کے ذرا سستا لینا چاہیے یا یہیں کمر کھول دینی چاہیے۔ یہ ایک خوب سے خوب تر کی جستجو ہے۔ اس خوب سے خوب تر کی جستجو میں نگاہ کو کہیں ٹھیرنے کی جگہ نہیں ملتی۔ جس رفتار سے اعمال و اخلاق اور ظاہروباطن میں جِلا پیدا ہوتا جاتا ہے، اُسی رفتار سے مذاق کی لطافت، حس کی ذکاوت اور آنکھوں کی بصارت بھی بڑھتی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دامن کے پچھلے دھبے دھو کے ابھی فارغ نہیں ہوئے کہ نگہِ باریک بیں کچھ اور دھبے ڈھونڈ کے سامنے رکھ دیتی ہے کہ اب انھیں دھوئے    ؎

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

اب دیکھیے ٹھیرتی ہے جاکر نظر کہاں

عملِ تزکیہ کی اِس فطرت نے اس کو نہایت مشکل اور دشوار کام بنا دیا ہے۔ اگر ایک شخص اس کی وسعتوں کو دیکھ کر بالفرض نہ بھی گھبرائے تو بھی یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ یہ تسلسل اُس کی کمرہمت توڑ کے رکھ دے گا۔ لیکن اگر یہ عمل فطری طریقے پر اس تدریج و تربیب کے ساتھ کیا جائے جو اس کے لیے انبیاے علیہم السلام کی تعلیم میں بتایا گیا ہے، تو اس وسعت اور اِس لامتناہیت کے باوجود ایک طالب ِ حق کے لیے اس سے زیادہ لذیذ اور پُرکشش کام کوئی دوسرا نہیں ہے۔ اس کی وسعتوں کو دیکھ کر دل پر ہراس ضرور طاری ہوتا ہے لیکن اس راہ میں ہرقدم پر غیب سے جو رہنمائی حاصل ہوتی ہے، وہ رہنمائی اس قدر تسلی بخش ہوتی ہے کہ ہمت برابر بندھی رہتی ہے اور دل بے حوصلہ نہیں ہونے پاتا: وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت ۲۹:۶۹) ’’جو ہماری طلب میں جدوجہد کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں ضرور کھولتے ہیں‘‘۔

اس طرح اس راہ کے تسلسلِ سفر سے جو تکان لاحق ہوتی ہے اس کا ازالہ ان نئے نئے حقائق و لطائف کے انکشاف سے ہوتا رہتا ہے جو برابر تازہ زندگی بخشتے رہتے ہیں  ع

ہر زماں از غیب جانے دیگر است

(’تزکیہ نفس‘، مولانا امین احسن اصلاحی، ترجمان القرآن، جلد۴۰، عدد۱، رجب، ۱۳۷۲ھ، اپریل ۱۹۵۳ء،ص۱۴-۱۵)