مضامین کی فہرست


نومبر ۲۰۱۲

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قرآن پاک نے افراد اور اقوام کی زندگی میں بار بار واقع ہونے والی اس صورت حال کو بڑے مختصر مگر جامع انداز میں بیان فرما دیا ہے کہ انسان اپنے طور پر طرح طرح کی منصوبہ سازیاں اور تدبیریں کرتا ہے مگر بالآخر اللہ ہے جس کی تدبیر غالب ہوکر رہتی ہے۔ وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۵۴)۔

پاکستان کی تاریخ میں اللہ تعالیٰ کی تدبیر کی کارفرمائی کا نظارہ ہم نے بار بار دیکھا ہے اور اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ امریکا کے صدارتی انتخاب کے فیصلہ کن مرحلے میں پاکستان کو شمالی وزیرستان پر فوج کشی کی آگ میں دھکیلنے اور اس سے امریکی ووٹروں کے دل جیتنے کا جو شاطرانہ منصوبہ بنایا گیا تھا وہ کانچ کے گھر کی طرح پاش پاش ہو گیا ہے۔

۱۴؍اگست پاکستانی قوم کے لیے خوشی اور شکر کا ایک اہم موقع ہوتا ہے۔ اس سال عین اس دن، امریکا کے ڈیفنس سیکرٹری لیون پانیٹا نے امریکی عوام کو یہ مژدہ سنایا کہ پاکستان اور امریکا کی اعلیٰ فوجی اور سیاسی قیادت نے اس امر پر اتفاق کرلیا ہے کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں جلد فوجی آپریشن شروع کردے گا اور اس طرح امریکی حکام کے الفاظ میں: ’’تاریخ کے سب سے زیادہ عرصے تک مؤخر کیے جانے والے اقدام‘‘ (most delayed operation) کا آغاز ہوجائے گا۔ اس کے لیے پاکستان پر دبائو اور لالچ دونوں حربوں کے استعمال کے ساتھ امریکی کانگریس کی طرف سے امریکی سیکرٹری خارجہ کو ’حقانی نیٹ ورک‘ کو افغانستان پر فوج کشی کے ۱۱سال کے بعد ’دہشت گرد گروہ‘ قرار دینے کا مطالبہ بھی داغ دیا گیا، اور وزارتِ خارجہ نے ۳۰ دن کے اندر اس راز کو، اس گروہ کے بارے میں جس سے سیاسی مذاکرات کے لیے سرتوڑ کوشش کی جارہی تھی فاش کردیا ہے جسے ۱۱سال سے اپنے سینے میں چھپایا ہوا تھا۔

یہ بھی ایک طرفہ تماشا ہے کہ ۱۴؍اگست ۲۰۱۲ء ہی کو کاکول اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے چیف آف اسٹاف  جنرل پرویز کیانی نے پاکستان کی آزادی، سلامتی اور اسلامی شناخت کے بارے میں کچھ بڑی دل کش باتوں کے ساتھ بڑے چپکے سے یہ بھی ارشاد فرمادیا کہ انتہاپسندی ایک قسم کا شرک ہے، دہشت گردی اسی ذہنیت کی پیداوار ہے، اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ دراصل امریکا کی نہیں ہماری اپنی جنگ ہے، اور ہے تو بڑا ہی مشکل اور تکلیف دہ کام، لیکن فوج کو خود اپنی قوم کے خلاف بھی لام بندی کرنا پڑجاتی ہے۔ البتہ اتنی گنجایش رکھی کہ اس کام کے لیے قوم کی تائید اور سیاسی قیادت کی سرپرستی ضروری ہے۔ ملک کی لبرل اور امریکا نواز لابی نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر شمالی وزیرستان پر لشکرکشی کے لیے مہم چلا دی اور پی پی پی اور اے این پی کی قیادت نے کبھی ہلکے سُروں میں اور کبھی اُونچی آواز سے اسی لَے میں لَے ملانا شروع کر دی۔ اب یہ بھی ایک معما ہے کہ عین اس ماحول میں سوات کی ایک معصوم بچی پر اور اس کی دو سہیلیوں پر حملہ ہوتا ہے اور حسب ِ سابق پاکستانی طالبان نے اس کی نہ صرف ذمہ داری بھی قبول کرلی بلکہ اس کا جواز بھی بڑھ چڑھ کر پیش کردیا۔

پاکستان کی دینی اور سیاسی قیادت نے بجاطور پر اس ظالمانہ حملے کی بھرپور مذمت کی اور پوری قوم نے یک زبان ہوکر اس خلافِ اسلام اور خلافِ انسانیت کارروائی کا ارتکاب کرنے والوں کو قانون کے مطابق قرارِ واقعی سزا کے دیے جانے کا مطالبہ کیا۔ لیکن اس معصوم بچی کا نام استعمال کرکے شمالی وزیرستان میں فوج کشی کے لیے ایک دوسرا ہی نقشۂ جنگ تیار کر لیا گیا۔ امریکی قیادت، ناٹو کے جرنیل اور سیاست دان، عالمی میڈیا، خود پاکستان کی پی پی اور اس کے اتحادیوں کی قیادت اور لبرل امریکی لابی سب نے یک زبان ہوکر اس مطالبے کی تائید کی اور وزیرداخلہ نے صاف لفظوں میں فوجی آپریشن کا بھاشن دے ڈالا۔ اس بحث میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ یہ محض اتفاق تھا یا کسی سازش کا حصہ، یہ حقیقت ناقابلِ انکار ہے کہ ایک معصوم لڑکی کے ساتھ اس ظلم کو، اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے ایک کاری وار کیاگیا لیکن اللہ کی مشیت کااپنا نظام ہے۔ قوم کے باشعور افراد، خصوصیت سے دینی قیادت، بالغ نظر صحافی اور کئی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے اس کھیل کا بروقت توڑ کیا۔ غلط کو غلط کہا اور پوری قوت سے کہا، مگر اس ظالمانہ اقدام کی آڑ میں، ملک کو ایک نئی جنگ کے جہنم میں دھکیلنے کے جس خطرناک کھیل کا آغاز ہونے والا تھا، اسے ناکام بنا دیا اور وہی وزیرداخلہ جو تلوار نکال کر حملے کے لیے پَر تول رہے تھے یوٹرن لیتے نظر آئے اور زرداری صاحب بھی قومی اتفاق راے کے مفقود ہونے کا نوحہ کرنے لگے۔

نئی جنگ میں دہکیلنے کی سازش اور میڈیا کا کردار

پاکستانی اور مغربی میڈیا اور خصوصیت سے سوشل میڈیا پر اب جو کچھ آگیا ہے، اس نے پورے کھیل کے سارے ہی پہلو کھول کر سامنے رکھ دیے ہیں اور اس خونیں ڈرامے کے تمام ہی کرداروں کے چہروں سے پردہ اُٹھا دیا ہے۔ ہم صرف ریکارڈ کی خاطر تین افراد کی شہادت اور تجزیہ پاکستانی قوم اور اس کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کے غوروفکر کے لیے بیان کرنا چاہتے ہیں۔

سب سے پہلے ہم اس صحافی، یعنی سید عرفان اشرف کی شہادت اور اس کے احساسِ ندامت کو پیش کرنا چاہتے ہیں جس نے وہ پہلی دستاویزی فلم (documentary) بنائی جس میں ۱۱سال کی معصوم بچی کے جذبات محض تعلیم سے اس کی محبت کے تذکرے کی خاطر ریکارڈ کیے گئے تھے اور پھر اس سے کیا کیا گل کھلائے گئے اس پر خود اس کا کیا احساس ہے۔ سید عرفان اشرف اس وقت امریکا کی سائوتھ اِیلی نوئس (Illinois) یونی ورسٹی (بمقام کاربون ڈیل) سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور ان کا مضمونPredatory Politics and Malala  ڈان، کراچی میں شائع ہوا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک معصوم سے تعلیمی منصوبے کے ذریعے سیاست کاری کے کیاکیا گل کھلائے گئے اور میڈیا اور میڈیا کی ڈورہلانے والے سیاسی شاطر کیا کیا کھیل کھیلتے ہیں:

پھر دوبارہ مشق ہم سب کے لیے تہلکہ آمیز تھی۔ پس اس نے مجھے صحافیانہ اخلاقیات سے بھی اندھا کر دیا اور اپنے دوست ضیاء الدین کی حفاظت سے بھی۔ مجھے یہ احساس ایک بار بھی نہ ہوا کہ اس صورت حال میں نوعمر ملالہ کے لیے خطرہ ہے۔ یہ جزوی بات تھی اس لیے کہ دستاویزی فلم تعلیم سے متعلق تھی اور فلم کے مختلف حصوں کی وڈیو بنانا روز کا معمول تھا۔ مجھے مسئلے کی نوعیت کی شدت کا احساس اس وقت ہوا جب نیویارک ٹائمز نے  Class Dismissed کے نام سے ایک مختصر دستاویزی فلم جاری کی۔  آدم بی الیک اور میری مشترکہ پیش کش پر مبنی اس فلم نے جو ضیاء الدین کے گھر اور اسکول میں بنائی گئی اور جس میں ملالہ مرکزی کردار تھی، غیرملکی ناظرین کو بہت متاثر کیا۔    اسی وقت سے اس خوف نے مجھے گھیر لیا کہ اس طرح ملالہ ایک دہشت ناک دشمن   کے سامنے expose ہوگئی ہے۔ جب میں اسے ٹیلی ویژن پر دیکھتا تھا تو یہ خوف احساسِ جرم میں بدل جاتا تھا۔

اس کے بعد میں نے اپنے آپ کو اس قسم کے منصوبوں سے الگ کرلیا۔ پھر میڈیا نے اگلے تین برس میں ملالہ کی تعلیم کی حمایت کو تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے خلاف ایک بھرپور مہم میں بدلنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ سیاست دان ملالہ کی جواں توانائیوں کواستعمال کرنے میں میڈیا کی مدد کے لیے اس جھگڑے میں کود پڑے۔ TTP مخالف ایک مضبوط ڈھانچا اس کے نازک کاندھوں پر کھڑا کردیا گیا۔

یہ تصویر کا ایک رُخ ہے۔ یہ میڈیا کے کردار کے بارے میں تشویش کا باعث ہے کہ یہ نوجوانوں کو کس طرح ایک گندی جنگ میں گھسیٹ لاتا ہے جو معصوم لوگوں کے لیے ہولناک نتائج کا باعث ہے۔ لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ گذشتہ عشرے میں اگر عوام کی بڑھتی ہوئی وابستگی نے ایک طرف سیاست دانوں کو اپنی بڑی بڑی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے سموک سکرین مہیا کی ہے، تو دوسری طرف ان قربانیوں نے سیکورٹی فورسز کو ایک مشکل دشمن کے ساتھ آنکھ مچولی جاری رکھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

ایک مسئلے سے دوسرے مسئلے تک میڈیا کے ذریعے مبالغے کے ساتھ مسائل کو بڑھایا جاتا ہے، جب کہ لوگ مذمت کے منتظر ہوتے ہیں۔ اس ظالمانہ سیاست سے حقیقت مجروح ہوجاتی ہے اور خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقہ جات میں عسکریت کو فروغ ملتا ہے۔ سیکورٹی آپریشن واضح طور پر مؤثر ہوتے ہیں اور ورکنگ فارمولا مسلح دستوں کو یہ موقع فراہم  کرتا ہے کہ اُس علاقے کے ۹۰ فی صد حصے پر کنٹرول حاصل کرلیں اور بقیہ عسکریت پسندوں کے لیے چھوڑ دیں۔ معاملات کی یہ گنجلک کیفیت، برسرِاقتدار اشرافیہ کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ تنازعے کو طول دے سکیں، لیکن وہ عسکریت کو شکست نہیں دے سکتے۔ مرکزی رَو کی سیاسی جماعتیں یہ برداشت نہیں کرسکتیں کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے منظر پر اُبھر کر سامنے آئیں اور دہشت گردی کے مقابلے کے لیے واضح پالیسی کا اعلان کریں۔ پس اب دیکھنا یہ ہے کہ اس جنگ میں کون جیتے گا؟ کیا اس تنازعے کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے مزید شہریوں کے خون کی ضرورت ہے؟ (ڈان، کراچی، ۲۱؍اکتوبر ۲۰۱۲ئ)

اس دل خراش داستان کا ایک پہلو یہ ہے۔ ایک دوسرا پہلو بھی غورطلب ہے جسے خاصی تفصیل کے ساتھ ڈیو لنڈوف (Dave Lindorff) نے کاؤنٹر پنچ کی ۱۸؍اکتوبر ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں پیش کیا اور جو عالمی طاقتوں اور اربابِ سیاست کے دوغلے پن (duplicity) اور  بے ضمیری (hypocracy) کا آئینہ دار ہے:

افغانستان اور پاکستان میں پچھلے ہفتے چھے بچوں پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ تین نوبالغ (teenage) لڑکیاں پاکستان میں جن میں سے ایک ملالہ یوسف زئی شدید زخمی ہوئی۔ دوسرا حملہ افغانستان کے ہلمند صوبہ کی تحصیل ناوا میں جس میں امریکی ہوائی جہاز کے حملے میں تین بچے ہلاک ہوئے: ۱۳سالہ بارجان، ۱۰سالہ سردار ولی اور ۸سالہ خان بی بی۔ تینوں ایک ہی خاندان کے چراغ تھے جو اپنے گھر کے لیے ایندھن کے لیے گوبر جمع کر رہے تھے۔ تین پاکستانی بچوں پر حملہ طالبان نے کیا (گو، وہ بچ گئیں) اور افغانستان میں تین معصوم بچوں پر حملہ امریکا کی فوج نے کیا جسے اپنے ٹھیک ٹھیک نشانے (precision attack) پر ناز ہے اور تینوں جان کی بازی ہار گئے۔

اس دوسری تفصیل سے کئی سوالات فوری طور پر اُبھرتے ہیں: سب سے پہلے، یہ اگر تین بچے اس قدر قریب تھے کہ وہ اس ’تیر بہ ہدف‘ حملے سے مارے جاتے تو پھر یقینی طور پر وہ اتنے قریب بھی تھے کہ طالبان مجاہدین کی کارروائی کی نگرانی کرنے والے جہاز کو بھی نظر آجاتے اور اُس فضائی حملے کی ضرورت ہی نہ پڑتی جس کا بندوبست کیا گیا تھا۔ دوسری بات یہ کہ امریکا الزامی طور پر کوشش کر رہا ہے کہ شہریوں کی جان کے اِتلاف کو     کم کرے۔ اب فرض کرلیجیے کہ فضائی حملے متقابل فوجوں کی جھڑپ (rules of engagement) کے قانون کے مطابق کیے جارہے ہیں، تب بھی حملوں کی اجازت اُس وقت ہوتی ہے جب ’امریکا یا اتحادی افواج کے لیے خطرہ منڈلا رہا ہو۔

LED کی تنصیب کس طرح منڈلاتا ہوا خطرہ بن گئی؟ اگر حقیقی مقام معلوم ہو، اُس علاقے کے فوجی دستوں کو خبردار کیا جاسکتاہے۔ LED ہٹایا بھی جاسکتاہے اور اُڑایا بھی جاسکتا ہے۔ شناخت کردہ LED منڈلاتا ہوا خطرہ نہیں ہوسکتا۔ امریکی ذرائع ابلاغ، تین پاکستانی لڑکیوں اور حوصلہ مند لڑکیوں کی تعلیم کے باب میں وکیل ملالہ پر حملے کی کوریج کرتے ہوئے لبریز دکھائی دیتے ہیں۔ تین افغان بچوں کی موت پر یہ سب کچھ نہیں ہوا، تاہم نیویارک ٹائمز نے ایک نام نہاد حملے میں مقبوضہ افغان اتحادیوں کے ہاتھوں ہلاکت پر امریکی فوجیوں کی ’سبز پر نیلی اموات‘٭ نامی مضمون کے اختتام کے نزدیک چند پیراگراف لگادیے۔

پاکستان اور امریکا، دو ایسے ممالک ہیں کہ جہاں بچوں پر ہونے والے دو حملوں کا ردعمل انتہائی واضح طور پر مختلف ہے۔ ملالہ اور اُس کی دو ہم جماعت ساتھیوں پر حملے کے بعد پاکستان میں ہزاروں پاکستانی سڑکوں پر نکل آئے تاکہ طالبان جنونیوں کے اقدام پر احتجاج ریکارڈ کراسکیں اور اُن کی گرفتاری اور اُن کو سزا دینے کا مطالبہ کرسکیں (جرم میں معاونت کرنے والے دو ملزموں کو گرفتار کیا جاچکا ہے)۔ حکومت ِ پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ قرار پانے والے قاتلوں کو سزا دی جائے گی۔ نیز ملالہ کی برطانیہ میں ایک بہتر اور محفوظ ہسپتال میں منتقلی کے اخراجات بھی برداشت کیے ہیں۔ دوسری دو لڑکیوں کے تحفظ کے لیے بھی مسلح گارڈ فراہم کردیے گئے ہیں۔

اسی اثنا میں، امریکا میں بہت سے لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ اُن کی اپنی ملٹری نے تین افغان بچوں کو بھون کر رکھ دیا ہے۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ اگر اُنھیں اس کا علم ہوبھی جاتا، تب بھی وہ اس کی کوئی پروا نہیں کرتے۔سڑکوں پر ایسے بھرپور مظاہرے نہ ہوتے جن میں مطالبہ کیا جاتا کہ فضائی حملے بند کیے جائیں اور ڈرون حملے کے ذریعے قتل کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ صرف ۲۸ فی صد امریکی کہتے ہیں کہ اُنھیں ڈرون کے ذریعے حملے جاری رکھنے پر اعتراض ہے۔اگرچہ یہ واضح ہے کہ ڈرون حملے سیکڑوں___ شاید ہزاروں معصوم شہریوں کی ہلاکت کا باعث بن رہے ہیں۔

پاکستان میں اسکول کی لڑکیوں پر حملہ کرنے والوں کو پہلے ہی گرفتار کیا جاچکا ہے۔   یقینی طور پر اُن کو مکروہ جرم کی پاداش میں قید کی سزا ملے گی، یہ سلوک اُس پائلٹ اور  حملہ کرنے والے افراد کے ساتھ نہ کیا جائے گا جنھوں نے اس ہلاکت خیز حملے میں حصہ لیا جس کے باعث تین افغان بچے زندگی سے محروم ہوگئے۔

واپسی پر اُن کا خیرمقدم ، اُن سے ملنے والے جنگ سے واپس آنے والے ’ہیرو‘ کے  طور پر کریںگے۔ لوگ اُن کے قریب سے گزریںگے اور کہیں گے: ’’آپ کی خدمات پر آپ کا شکریہ‘‘۔ چاہے اُس خدمت میں معصوم بچوں کو ہلاک کرنے کی ’خدمت‘ بھی شامل ہو۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ جن تین بچوں کو نشانہ بنا کر امریکی فوجیوں نے ہلاک کرنے کا جو اقدام کیا ہے وہ افغان حکومت کے ساتھ، قوت کے استعمال کے جن اصولوں پر اُنھوں نے اتفاق کر رکھا ہے، اُس کی بھی خلاف ورزی نہیں ہے؟ اگرچہ ٹائمز نے جو شہ سرخی لگائی ہے اُس کا عنوان ہے: ’’اتحادیوں کے حملے میں افغان بچوں کی ہلاکت پرسوالات اُٹھائے گئے‘‘ لیکن اس سوال کا ذکر کہیں نہیں ملتا؟ نہ ٹائمز نے ہی ایمان داری سے  یہ رپورٹ کیا کہ یہ امریکی حملہ تھا، جوابی حملہ نہیں تھا۔(کاؤنٹر پنچ،۱۸ ؍اکتوبر۲۰۱۲ئ)

لیکن بات صرف ان چھے بچوں تک محدود نہیں۔ صرف پاکستان میں ڈرون حملوں سے امریکی یونی ورسٹی کی تحقیق کے مطابق ۳ہزار۳سو سے زیادہ افراد ہلاک کیے جاچکے ہیں جن میں سے صرف ۴۱ کے بارے میں معلومات ہیں کہ ان کا کوئی تعلق القاعدہ یا طالبان سے تھا۔ ۹۸ فی صد عام شہری تھے جن میں سیکڑوں بچے شہید ہوئے۔ یہی خونیں داستان افغانستان کی ہے، عراق کی ہے، کشمیر کی ہے، فلسطین کی ہے، برما کی ہے___ اور نہ معلوم کہاں کہاں روے زمین پر معصوم انسانوں کا خون اسی طرح بہایا جارہا ہے اور ظالم کا ہاتھ روکنے والا اور قاتل کو قرارواقعی سزا دینے والا کوئی نہیں۔ کیا یہی ہے تہذیب و تمدن کا عروج اور جمہوریت کا فروغ؟

اس سارے گھنائونے کھیل کو کیا نام دیا جائے؟ پاکستان کے ایک سابق نام ور سفیر اور تجزیہ نگار جناب آصف ایزدی نیوز انٹرنیشنل میں اپنے مضمون Malala and the Terrorist Mindset میں یہ کڑوا سچ بڑے صاف الفاظ میں رقم کرتے ہیں:

سینٹ میں ایک تقریر کے دوران وزیراعظم نے اس امر پر زور دیا کہ ملالہ پر حملے   کے پیچھے ’کارفرما ذہن‘ کے ساتھ جنگ کی جائے۔ اُنھیں یہ ضرور جان لینا چاہیے کہ دہشت گردی کے تخلیقی سبب کی تلاش ایک کے بعد دوسری پاکستانی حکومت کی اُن پالیسیوں میں ملے گی جن کی وجہ سے تنخواہوں میں بہت بڑا فرق ہے، بدعنوانی کا چلن ہے اور عام آدمی کو تعلیم اور سماجی و اقتصادی ترقی کے عمل میں شرکت کا موقع فراہم نہیں کیا جاتا۔ جب تک ان مسائل کا حل تلاش نہیں کیا جاتا، اس ذہنی رویے کے، جس کی اُنھوں نے نشان دہی کی ہے، پھلنے پھولنے کا سلسلہ جاری رہے گا اور کسی بھی قسم کا  فوجی آپریشن نہ صرف بے نتیجہ بلکہ ضرر رساں ہو گا۔

ملالہ ایک بچہ سپاہی ہے جسے ’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ کے پروپیگنڈا محاذ پر غیرمسلح اورتنہا روانہ کردیا گیا۔ اُس کے لیے وہی کردار طے کیا گیا جو طالبان کے    ۱۵/ ۱۸ برس کے خودکش بم باروں کا ہوتا ہے، تاہم اُس کے بچ جانے کے امکانات نسبتاً بہتر تھے۔ یہ معجزے سے کم نہیں کہ وہ ابھی تک ہمارے پاس ہے۔

ملالہ اس قدر کم عمر ہے کہ اُس کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ وہ کس کے خلاف کام کر رہی ہے اور اُس کی اپنی ذات کے لیے اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ ملالہ پر جو کچھ گزری ہے اُس کی ذمہ داری مکمل طور پر اُن کے سر ہے جنھوں نے اُ س نظریہ پرستی کا تنفرانہ استحصال کیا، صرف اس لیے کہ اس طریقے سے وہ اسٹرے ٹیجک اہداف اور سیاسی مقاصد حاصل کرسکیں۔

ایک طرف، جب کہ ہم دعاگو ہیں کہ وہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ آئے، ہمیں اُن کو یہ اجازت نہ دینی چاہیے کہ وہ اپنے گناہ کو مذمت کے خنک دار بیانات سے چھپائیں یا گولی مارنے کے افسوس ناک واقعے کو، ہمارے ملک میں قتل عام اور تنازعات میں گہرا دھکیلنے کے لیے استعمال کریں۔ (نیوز انٹرنیشنل، ۲۲؍اکتوبر ۲۰۱۲ئ)

ملالہ بلاشبہہ ایک مظلوم بچی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ بھی دکھا دیا ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہم سب اس کی صحت یابی اور روشن مستقبل کے لیے دعاگو ہیں لیکن وہ صرف اس لیے مظلوم نہیں کہ اس معصوم بچی پر قاتلانہ حملہ ہوا، بلکہ وہ اس لیے بھی مظلوم ہے کہ اس بچی کو کون کون اور کس کس طرح اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گولی کے نشانے پر لگنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس بچی کو دنیا بھر کے لیے معجزانہ طور پر بچالیا اور یہ بھی اس کا کرم ہے کہ پاکستان کو جس آگ میں دھکیلنے اور پاکستان اور افغان قوم کے ایک بڑے حصے کو تصادم، منافرت، بدلے اور نہ ختم ہونے والی جنگ کی آگ میں دھکیلنے اور امریکی انتخابات میں  اس خونیں کھیل کو ایک شعبدے کے طور پر استعمال کرنے کا جو شیطانی منصوبہ بنایا گیا تھا وہ خاک میں مل گیا۔وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۵۴)

امریکی جنگ سے نکلنے کی حکمت عملی

الحمدللہ! وہ سیاہ بادل جو مطلع پر چھا گئے تھے چھٹ گئے ہیں مگر کیا خطرہ فی الحقیقت ٹل گیا؟ جہاں ہمیں اللہ کی رحمت اور اعانت پر پورا بھروسا ہے، وہیں اس امر کا اِدراک بھی ضروری ہے کہ پاکستان شدید اندرونی و بیرونی خطرات میں گھرا ہوا ہے جن کا اِدراک اور مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی اور مؤثر کارفرمائی ازبس ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ہم بہت ہی اختصار کے ساتھ چند گزارشات پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

سب سے پہلی بات جس کا سمجھنا ضروری ہے وہ یہ ہے بلاشبہہ دہشت گردی ایک جرم ہے، خواہ اس کا ارتکاب افراد کریں، یا گروہ یا حکومتیں۔ دہشت گردی انسانی تاریخ کے ہر دور میں موجود رہی ہے اور اس کا مقابلہ بھی کیا گیا ہے اور کامیابی سے افراد اور معاشرے کو اس سے محفوظ کیا گیا ہے۔ ۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کا نیویارک کے ٹریڈٹاور اور واشنگٹن کے پینٹاگان پر حملہ دہشت گردی کے اندوہناک واقعات تھے مگر دہشت گردی کا آغاز نہ اس واقعہ سے ہوا اور نہ اس کے نتیجے میں  دہشت گردی کی نوعیت میں کوئی جوہری فرق ہی واقع ہوا۔ البتہ امریکا نے اس واقعے کو جنگ کا نام دے کر اور اس کے مقابلے کے لیے قانون، افہام و تفہیم، تعلیم اور اصلاحِ احوال کے لیے سیاسی اور معاشی تدابیر کا مجرب راستہ اختیار کرنے کے بجاے، جنگ اور قوت کے بے محابا استعمال کا حربہ استعمال کیا اور پوری دنیا کو ان ۱۱برسوں میں تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اس لیے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشت گردی کو دہشت گردی اور جنگ کو جنگ رکھا جائے اور سیاسی مسائل کے عسکری حل کی جو خون آشام حماقت کی گئی ہے، اس سے جلد از جلد نجات پانے کا راستہ نکالا جائے۔

دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ جس طرح دہشت گردی اور جنگ کو خلط ملط کیا گیا ہے   اسی طرح دہشت گردی اور تشدد، اور تشدد اور انتہاپسندی اور انتہاپسندی اور جدت کو گڈمڈ کرنا   ژولیدہ فکری اور کوتاہ اندیشی کا تباہ کن شاہکار ہے۔ ان میں سے ہراصطلاح کا اپنا مفہوم ہے اور ہرایک کا اپنا کردار ہے اور ان میں سے ہر ایک کے بارے میں ردعمل دینے (respond) کا    اپنا انداز ہے۔ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش بہت سی خرابیوں کی جڑ ہے۔ اس خطرناک مغالطے کا نتیجہ ہے کہ بات ذہنی رویے اور سوچ (mindset) کی کرتے ہیں اور اس کے مقابلے کے لیے اقدام فوج کشی تجویز کرتے ہیں، حالانکہ خیالات کا مقابلہ خیالات سے، نظریات کا نظریات سے، دعوے کا دلیل سے کیا جاتا ہے، ڈنڈے اور گولی سے نہیں۔

 یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں دہشت گردی کا مقابلہ اس سے بڑی دہشت گردی سے کرنے کی جب بھی کوشش کی گئی ہے، وہ ناکام رہی ہے۔ دل اور دماغ کی جنگ دلیل اور نظریات کے ذریعے جیتی جاتی ہے۔ سیاسی، معاشی اور سماجی بنیادوں پر رُونما ہونے والے تشدد کا مداوا بھی ان اسباب کو دُور کر کے ہی کیا جاسکتا ہے، جو لوگوں کے اختلافات اور شکایات کو تصادم اور تشددکی طرف لے جانے کا باعث ہوتے ہیں۔ امریکا کے محکمۂ دفاع کا ایک ہمدرد تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن ہے جس نے اس موضوع پر اپنی تحقیق کے نتائج میں نمایاں طور پر یہ بات کہی ہے کہ دہشت گردی کا حل قوت کا استعمال نہیں، بلکہ افہام و تفہیم اور سیاسی معاملہ بندی کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔ مائیکل شینک لندن کے اخبار دی گارڈین (۲۵جولائی۲۰۱۲ئ) میں اپنے مضمون بعنوان The Costly Errors of American Wars میں لکھتا ہے:

 ہماری جنگیں اس قدر مہنگی کیوں ہوچکی ہیں؟ امریکی وزارتِ دفاع سے قربت رکھنے والی رینڈ کارپوریشن کی راے ہے کہ ۸۴ فی صد دہشت گردتنظیموں کو ختم کرنے یا    بے دست و پا کرنے میں پولیس ، سراغ رسانی اور مذاکرات انتہائی اہم اسٹرے ٹیجک اقدامات کررہے ہیں، جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم خطیر وسائل، بھاری فوجی اور فضائی لائولشکر کی قدر کر رہے ہیں، بشمول ۴۰،۴۰؍ارب ڈالر والی مشترکہ حملہ کرنے والی مہنگی آنٹرمز۔ یہ اسٹرے ٹیجک ہتھیار تیزی سے حرکت کرنے والے اور جگہ جگہ    پائے جانے والے گروہوں کے مقابلے میں غیرمؤثر ہیں۔ اس قدر انحصار کیوں؟ چونکہ دفاعی صنعت نے ہرریاست میں اور کم و بیش کانگریس کے ہر ڈسٹرکٹ میں ایسے آپریشن شروع کیے ہیں اور چونکہ اُس کی لابی واشنگٹن میں انتہائی طاقت ور ہے۔   رینڈ نے جو تجویز کیا ہے ہمیں اس پر عمل کرنا چاہیے اور بہت کم اخراجات میں کئی اور ممالک میں صلاحیت پروان چڑھانا چاہیے۔

امریکی افواج کے ادارے رائل یونائیٹڈ اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات اور مستقبل کے بارے میں کوئی افہام و تفہیم (understanding) ایسی مشکل بات نہیں ہے۔ طالبان میں گفت و شنید کے راستے کو اختیار کرنے والے لوگ موجود ہیں۔ اسی طرح شریعت کی تعبیر، تعلیم اور خصوصیت سے لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں وہ اتنے کٹّر اور انتہاپسند نہیں جتنا کہ ہمیں خطرہ ہے۔ اور پھر اس رپورٹ میں صاف الفاظ میں عسکری راستے کی جگہ سیاسی راستے کے امکانات کا ذکر کیاگیا ہے:

مذاکرات کے ذریعے اُن غلط فہمیوں کو ختم کیا جاسکتا ہے جن کی وجہ سے تنازعے نے آگ پکڑ لی ہے۔ جیساکہ شورشوں (insurgencies) سے نجات کے کئی اور واقعات میں ہوا۔ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے تشدد کی شدت اور ہونے والے واقعات کی تعداد میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ بصورتِ دیگر تشدد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ چونکہ طالبان اور طاقت رکھنے والے دیگر گروہ ارادہ رکھتے ہیں کہ ناٹو کی ہنگامی روانگی کے بعد خلا کو بھریں، افغان نیشنل سیکورٹی فورسز کی جو خامیاں ہیں اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں توقع رکھنا چاہیے کہ طالبان کا دیہی شہری جنوب، جنوب مشرق اور مغرب میں کنٹرول بڑھ جائے گا۔ اس تمام سے واضح ہوجاتا ہے کہ راے عامہ کے سروے اور تحقیق کیوں ظاہر کرتے ہیں کہ افغانوں کی غالب اکثریت چاہے مرد ہوں یا عورتیں، مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ اہمیت اس چیز کو دی جائے کہ کسی بھی شرط کے بغیر کثیرجماعتی ٹھوس بنیاد رکھنے والے کھلے مذاکرات کا اہتمام کیا جائے۔ جس رفتار سے فوجی دستوں اور امداد میں کمی آرہی ہے۔ اسی رفتار سے عالمی برادری کی مختلف جماعتوں پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت، امن کے عمل کے قیام اور ۲۰۰۱ء کے بعد حاصل ہونے والے فوائد سمیٹنے میں واقع ہورہی ہے۔ متفقہ مصالحت کاروں اور ثالثوں کی موجودگی، مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ اگرچہ ایسے لوگ اب موجود نہیں ہیں۔ پاکستان کے تعاون کے بغیر کوئی بھی ذریعہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کو مذاکرات میں ایک نشست ملے یا نہ ملے، اس کے افسران کو لازمی طور پر مذاکرات میں شریک رہنا چاہیے۔ جوں جوں مذاکرات قوت حاصل کریں گے اُسی قدر شمالی اور وسطی افغان سیاسی گروہ اِن میں شمولیت اختیار کرتے رہیں گے۔ (ملاحظہ ہو Matt Waldman کا مضمون بعنوان Why It's Time for Talks with the Taliban ،  دی گارڈین، ۱۰ستمبر ۲۰۱۲ئ)

 امریکی قیادت طاقت کا کتنا ہی استعمال کیوں نہ کرڈالے سیاسی حل کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ حالات کی اصلاح کے لیے پاکستان ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے لیکن وہ کردار شمالی وزیرستان میں جنگ کے دائرے کو وسیع کرنے سے ادا نہیں ہوسکتا۔ وہ جنگ کی آگ کو ٹھنڈاکرنے سے ہی ہوسکتا ہے، لیکن دانا اور طاقت کے نشے میں مست نادان میں فرق یہ ہی ہے کہ نادان پہلے حالات کو بگاڑتا ہے اور پھر وہی کچھ کرنے پر مجبور ہوتا ہے جو دانائی کا تقاضا ہے کہ   ؎

ہرچہ دانا کند، کند ناداں

لیک بعد از خرابیِ بسیار

(ترجمہ: جو کچھ دانا کرتا ہے، نادان بھی بالآخر وہی کچھ کرتا ہے، لیکن خرابی بسیار کے بعد )۔

یہی وہ حکمت عملی ہے جو پاکستان کی پارلیمنٹ  نے اپنی تین متفقہ قراردادوں میں طے کی ہے اور جس کی تفصیل پارلیمان کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے ایک واضح نقشۂ کار کی شکل میں مرتب کی ہے لیکن اکتوبر ۲۰۰۸ئ، اپریل ۲۰۰۹ء ، مئی ۲۰۱۱ء اور اپریل ۲۰۱۲ء کی ان تمام ہدایات کوعملاً ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا اور امریکا کے اشارئہ چشم و آبرو اور ترغیب وترہیب (carrot & stick) دونوں کے بے محابا استعمال کے نتیجے میں ملک کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیاگیا اور اسے مزید تباہی کی طرف دھکیلنے کی مہم امریکا، امریکی لابی، اور امریکا کی باج گزار قیادت پوری قوت سے چلارہی ہے۔

امریکا عراق اور افغانستان میں ناکام رہا ہے۔ عراق کو جلتا ہوا اور تباہ حال چھوڑ کر رخصت ہوگیا ہے اور افغانستان کو تباہ و برباد کر کے اور خود اپنے فوجیوں کی ۲ہزار اور ناٹو کی ۸۰۰ سے زیادہ ہلاکتوں، نیز ان سے ۱۰گنا زیادہ کے شدید مجروح ہونے اور دماغی اور جسمانی امراض اور محرومیوں کا نشانہ بنانے، خود ان دونوں مظلوم ممالک کے ۲لاکھ سے زیادہ افراد کو لقمۂ اجل بنانے، لاکھوں کو   بے گھر کرنے اور خود اپنے ۴ہزار ارب ڈالر سے زیادہ پھونک دینے کے باوجود ناکام و نامراد  واپس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں دیکھتا ہے۔ لیکن اس پر بضد ہے کہ مسئلے کا عسکری حل ہی تھوپنے کی کوشش جاری رکھے گا اور پاکستان کو اپنے برادر ہمسایہ ملک اور اس کے باسیوں سے ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں اُلجھا کر جائے گا۔ ویسے تو ۲۰۱۴ء میں فوجوں کی واپسی کا اعلان کیا گیا ہے لیکن امریکا کے سیاسی تجزیہ نگار اور تھنک ٹینک یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ انخلا اس سے پہلے کیا جائے۔

نیویارک ٹائمز نے ۱۳؍اکتوبر ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں اپنی تاریخ کا طویل ترین اداریہ لکھا ہے جو ۱۸۵۶ الفاظ پر مشتمل ہے اور اس کا ماحصل یہ ہے کہ افغانستان کی جنگ جیتی نہیں جاسکتی، اس لیے جلد واپسی کا راستہ اختیار کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ ۲۰۱۳ء کے آخیر تک امریکی اور ناٹو کی افواج واپس آجائیں۔ ناٹو کے سیکرٹری جنرل فاگ راسموسن(Fog Rasmussen) نے بھی اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ افغانستان سے بیرونی افواج کا انخلا ۲۰۱۴ء سے پہلے ہوجانا چاہیے۔ اسی راے کا اظہار کابل میں برطانیہ کے سفیر نے کیا ہے۔ فرانس نے ۲۰۱۲ء ہی کے اختتام تک اپنی فوجوں کی واپسی کااعلان کردیا ہے۔ ان حالات میں اصل ایشو جنگ کو بڑھانا نہیں، اسے سمیٹنا اور ختم کرنا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے اداریے کے یہ الفاظ امریکا اور ناٹو کے اس وقت کے ذہن کی پوری عکاسی کرتے ہیں:

ریاست ہاے متحدہ امریکا کی افواج کے لیے یہ مناسب وقت ہے کہ وہ افغانستان چھوڑ دیں (کیونکہ) امریکا صدر اوباما کے محدود مقاصد کو حاصل نہ کرسکے گا اور جنگ کو طول دینے کا مقصد صرف یہ ہوگا کہ نقصان بڑھ جائے۔

اس سوچ کو فروغ دینے میں عسکری اہداف میں ناکامی، اور بڑھتی ہوئی معاشی قیمت اور امریکا اور یورپی ممالک کے روزافزوں مالیاتی خساروں کے علاوہ راے عامہ کی تبدیلی اور خود افغان عوام ہی نہیں، ان افغان افواج تک کے ہلاکت خیز حملے ہیں جن کی تربیت امریکی افواج نے کی ہے اور جن کو آیندہ افغانستان کی سیکورٹی کی ذمہ داری کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔

دھشت گردی کا مقابلہ امن اور دستور سے

ان حالات میں شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کرنا صرف اپنی تباہی کو دعوت دینے  کے مترادف ہے، اور اس جنگ کو اپنی جنگ کہنا حقائق کا منہ چڑانا اور عوام کے، جن کی ۹۷ فی صد عظیم اکثریت امریکی فوجی کارروائیوں کی مخالف ہے، کے منہ پر طمانچا مارنا ہے۔

اصول اور سیاسی حکمت عملی، دونوں ہی اعتبار سے اس سے بڑا خسارے کا کوئی اور سودا نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے چیف جسٹس جناب افتخارمحمد چودھری نے اس ہفتے ’قیامِ امن بذریعہ قانون‘ کے موضوع پر ایک نہایت پُرمغز خطبہ دیا ہے جس میں ’دہشت گردی کے نام پر جنگ‘ کی حکمت عملی کے مقابلے میں انصاف، آئین اور قانون کی بالادستی پر مبنی حکمت عملی کا نقشہ پیش کیا ہے۔ پارلیمنٹ نے جو خطوطِ کار طے کیے تھے اور چیف جسٹس نے جن کو اپنے انداز میں بڑی خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے وہ اس آگ سے نکلنے اور ملک و قوم کو امن اور خوش حالی کے راستے پر گامزن کرنے کا واحد ذریعہ ہیں۔

ہم جناب چیف جسٹس کے خطاب سے چند اقتباس دینا ضروری سمجھتے ہیں:

اگر پاکستان آج ایسے حالات کا سامنا کر رہا ہے جن میں امن ایک سہانا خواب لگتاہے تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم ماضی میں کیے گئے گناہوں کی قیمت چکا رہے ہیں۔ یہ ایک ناگوار حقیقت ہے کہ عرصۂ دراز سے ہم نے اپنے آئین کے ساتھ وہ برتائو نہیں کیا جس کا وہ حق دار تھا۔ قانون کی ناتواں حکمرانی نے عسکری نظریات کو جنم دیا۔ جو قومیں آئین کااحترام کرتی اور اسے حقیقی طور پر نافذ کرتی ہیں، وہ چیلنجوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے اور تنازعات کا تصفیہ کرنے میں کامیاب رہتی ہیں۔ آئین شکنی اور قانون کی حکمرانی سے انحراف نے ہمیں بھٹکا دیا اور قانون کی حکمرانی کو پاکستان میں نابود کیا۔ یہی وہ اسباب ہیں جنھوں نے تشدد اور لاقانونیت کی فضا قائم کی۔

ان حقائق کی روشنی میں جناب چیف جسٹس نے پارلیمنٹ سے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے حتمی طور پر عسکری تنظیموں کے بارے میں قانون سازی کرے اور حکومت ضروری اقدام کرے۔ ساتھ ہی انھوں نے صاف الفاظ میں متنبہ کیا ہے کہ عالمی سطح پر پائی جانے والی بدامنی کا اصل سبب بھی ظلم اوربے انصافی ہے۔ ان کا ارشاد ہے کہ:

پیچیدہ اور جڑوں تک پہنچے ہوئے جھگڑوں نے دہشت گردی، ماوراے عدالت قتل، انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی اور دیگر برائیوں کو جنم دیا ہے، جو انتہاپسندی اور بنیادپرستی کی افزایش کرتے ہوئے عالمی امن کو مسخ کرنے کی وجہ بن رہی ہیں۔ ان تمام مسائل سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ قانون، امن اور تہذیب کی اصولی تعلیمات کو بنیاد بناتے ہوئے افراد اور ریاستوں کے درمیان حائل فاصلوں کو کم کیا جائے اور ان مواقع کو تلاش کیا جائے جو عالمی امن کے قیام میں مددگار ہوں۔ قانون کی   حکمرانی کے ذریعے امن کا قیام چاہے مقامی سطح پر ہو یا بین الاقوامی سطح پر،تنازعات اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہمیشہ انتہائی مفید ثابت ہوا ہے۔ میری راے میں تنازعات میں اُلجھے ہوئے لوگوں کے مابین حقیقی امن منصفانہ تصفیے کی بدولت ہی قائم ہوسکتا ہے۔ اور یہ تصفیہ متحارب جماعتوں کے لیے تب ہی قابلِ قبول ہوگا جب انھیں یقین ہو کہ اسے جائز اور قانونی طریقے سے بروے کار لایا جارہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتاہے کہ کوئی بھی تصفیہ جس کی پشت پر قانون کی ضمانت نہ ہو، وہ دیرپا نہیں ہوگا اور ایسے منصفانہ تصفیے کے بغیر قیامِ امن ناممکن ہے۔

زمینی حقائق، عالمی حالات اور تاریخی تجربات سب کا حتمی تقاضا ہے کہ پاکستان کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ جلد از جلد امریکا کی اس جنگ سے نکلے اور خود امریکا کو دوٹوک انداز میں مشورہ دے کہ جتنی جلد افغانستان سے اپنی اور ناٹوافواج کی واپسی کا اہتمام کرے، یہ جتنا پاکستان اور امریکا کے مفاد میں ہے اتنا ہی افغانستان اور اس پورے علاقے کے لیے بہتر ہے۔ اس کے لیے تمام متعلقہ قوتوں سے مذاکرات کا جلد از جلد آغاز ہونا چاہیے۔ افغانستان میں بیرونی مداخلت کے تمام راستوں کو بند کیا جائے اور افغانستان کی تمام دینی اور سیاسی قوتوں کی باہم مشاورت سے ایک ایسا  سیاسی انتظام کہا جائے جسے افغان تسلیم کریں، اور جس کی باگ ڈور بھی انھی کے ہاتھ میں ہو۔ پھر اس کو عملاً نافذ کرنے کا اہتمام بھی کیا جائے۔ پاکستان اس میں ایک شفاف انداز میں شریک ہو اور افغان عوام کی نگاہ میں، امریکا کے مفادات کے نگہبان کی حیثیت سے نہیں، بلکہ پاکستان اور افغانستان دو برادر مسلم ممالک کے مشترک مفادات کا نقیب بنے۔ امن کا راستہ انصاف اور حقوق کے احترام ہی سے مسخر کیا جاسکتا ہے۔

نئے انتخابات : وقت کا تقاضا

آخری بات ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے جس طرح جنرل پرویزمشرف کی پالیسیوں کو جاری رکھا اور امریکی مفادات کو مشرف سے بھی زیادہ بڑھ کر آگے بڑھایا، اس سے اسے نہ ملک میں ساکھ (credibility) حاصل ہے اور نہ افغان عوام اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں جلداز جلد نئے انتخابات نہایت شفاف انداز میں منعقد کیے جائیں تاکہ عوام ایک نئی قابلِ اعتماد اور بالغ نظر قیادت کو برسرِاقتدار لاسکیں جو امریکا سے بھی باعزت دوستی کا راستہ اختیار کرے، ملک کی معیشت کو عوام دوستی اور خدمت خلق کی بنیادوں پر استوار کرے، اور افغانستان کے مسئلے کا بھی افہام و تفہیم کے ذریعے مناسب سیاسی حل نکالنے کی کوشش کرے۔ ایک حقیقی آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرے جسے پوری قوم کی تائید حاصل ہو۔ اس سے زیادہ شرم کی بات اور کیا ہوگی کہ سینیٹ کی کمیٹی براے دفاع کے ایک اجلاس میں ڈیفنس سیکرٹری جناب لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف یٰسین ملک نے پہلی بار کھل کر اعتراف کیا ہے کہ پرویز مشرف کی اجازت سے ۲۰؍اگست ۲۰۰۱ء سے شمسی ایئربیس امریکا کے زیراستعمال تھا اور وہ وہاں سے پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملے کرتا رہا۔ اس ایئربیس سے یہ سلسلہ ۱۱دسمبر ۲۰۱۱ء کو ختم ہوا۔ واضح رہے کہ اس شرمناک دور میں موجودہ حکومت کے پورے چار سال بھی شامل ہیں۔ جنرل صاحب نے صاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ:the attacks were carried out with the governments approval.  (ڈان، ۲۲اکتوبر ۲۰۱۲ئ)

فوجی اور سیاسی قیادت دونوں اس پورے عرصے میںامریکی ڈرون حملوں میں پاکستانی حکومت کی شراکت اور اجازت کا انکار کرتے رہے اور قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے متعدد اجلاسوں میں، جن میں راقم الحروف شریک تھا، ہرسطح کے ذمہ داروں نے پاکستان کی شراکت داری سے برملا انکار کیا اور دعویٰ کیا کہ حکومت کی اجازت اور تائید ان حملوں میں شامل نہیں۔ لیکن اب اس کا اعتراف کیا جا رہا ہے، جو قوم اور پارلیمنٹ سے دھوکا اور ایک قومی جرم ہے جس کا پارلیمنٹ اور عدالت کو قرارواقعی نوٹس لینا چاہیے۔ لیکن ان سب حالات کا واحد حل یہی ہے کہ ملک میں جلد از جلد نئے منصفانہ انتخابات کا اہتمام کیا جائے تاکہ عوام ان لوگوں سے نجات پاسکیں جنھوں نے قوم کو امریکا کی غلامی میں دے دیا اور امریکا کی جنگ میں نہ صرف شرکت کی بلکہ خود اپنی قوم کے خلاف فوج کشی کی اور امریکا کو خود ہماری اپنی سرزمین سے ہم پر ہی گولہ باری کا موقع دیا اور اس کی سرپرستی کی۔

 قوم اور دستور سے غداری اور کس چیز کا نام ہے!

 

کتابچہ دستیاب ہے، تقسیم عام کے لیے ۸۰۰ روپے سیکڑہ، منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲

دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔ اس وقت اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمھارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔ یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں، اوراُن لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہوں___ کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں___ اور وہ اس آزمایش کے ذریعے سے مومنوں کو الگ چھانٹ کر کافروں کی سرکوبی کردینا چاہتا تھا۔ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں چلے جائو گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں کون وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں۔ تم تو موت کی تمنائیں کر رہے تھے! مگر یہ اُس وقت کی بات تھی جب موت سامنے نہ آئی تھی، لو اب وہ تمھارے سامنے آگئی اور تم نے اُسے آنکھوں سے دیکھ لیا۔ محمدؐ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں، اُن سے پہلے اور رسول بھی گزرچکے ہیں، پھر کیا اگر وہ مرجائیں یاقتل کردیے جائیں تو تم لوگ اُلٹے پائوں پھر جائو گے؟ یاد رکھو! جو اُلٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، البتہ جو اللہ کے شکرگزار بندے بن کر رہیں گے انھیں وہ اس کی جزا دے گا۔ کوئی ذی رُوح اللہ کے اذن کے بغیر نہیں مرسکتا۔ موت کا وقت تو لکھا ہوا ہے۔ جو شخص ثوابِ دنیا کے ارادے سے کام کرے گا اس کو ہم دنیا ہی میں سے دیں گے، اور جو ثوابِ آخرت کے ارادے سے کام کرے گا وہ آخرت کا ثواب پائے گا اور شکر کرنے والوں کو ہم اُن کی جزا ضرور عطا کریں گے۔ اس سے پہلے کتنے ہی نبی ایسے گزر چکے ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے خدا پرستوں نے جنگ کی۔ اللہ کی راہ میں جو مصیبتیں اُن پر پڑیں اُن سے وہ دل شکستہ نہیں ہوئے، انھوں نے کمزوری نہیں دکھائی، وہ (باطل کے آگے) سرنگوں نہیں ہوئے۔ ایسے ہی صابروں کو اللہ پسند کرتا ہے۔(اٰل عمرٰن ۳: ۱۳۹-۱۴۶)

سورۂ آل عمران کی سات آیات میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ہر دور میں تحریکِ اسلامی کو  پیش آنے والے مطالبات، مشکلات، مغالطے اور ان سے نجات حاصل کرنے کی حکمت عملی کو ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔ حق کے متلاشی جب ایک مرتبہ شعوری طور پر اسلام کی دعوت کو قبول کرلیتے ہیںتو فطری طور پر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ جس حق کو انھوں نے پہچان کر حاصل کیا ہے، اب اس کا نفاذ اور اس کی سربلندی کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ ایک ماہر انجینیر جب سورج کی شعاعوں سے چلنے والی ایک موٹرکار ایجاد کرتا ہے تو چاہتا ہے کہ اپنی سالہا سال کی محنت کو   سڑک پر دندناتا ہوا بھی دیکھے۔ وہ اسے محض کاغذ پر یا اپنے کمپیوٹر پر دیکھ کر خوش نہیں ہوتا۔ یہی مشکل تحریکی قیادت اور کارکنوں کو درپیش آتی ہے۔

ایک تحریک اگر ۷۰برس سے حق کی دعوت دے رہی ہو اور اس کے بعد بھی کروڑوں کی آبادی میں اس کا انسانی اثاثہ بمشکل ۵۰ہزار یا حد سے حد ایک لاکھ افراد ہوں تو اس کا یہ سوچنا معقول نظر آتا ہے۔ جو لوگ باطل، طاغوت اور کفر کی دعوت دیتے ہیں، عصبیتوں کی طرف بلاتے ہیں، ذاتی مالی فائدے کا لالچ دے کر لاکھوں کروڑوں افراد کی حمایت حاصل کرلیتے ہیں وہ دنیا میں کامیاب ہیں۔ ان کے پاس اقتدار ہے، پارلیمنٹ میں اکثریت ہے، عوامی عہدے ہیں۔ ان کا حکم مقامی انتظامیہ پر چل رہا ہے۔ اور جو حق کے متوالے، دن رات اللہ کے دین کی دعوت دینے میں مصروف ہوں ان کے پاس نہ قیمتی گاڑیاں ہوں، نہ ان کے مکانات کئی کئی ایکڑ پر تعمیر ہوئے ہوں، نہ ان کو پارلیمنٹ میں بھاری وزن سمجھا جائے۔

یہ وہ پیش آنے والے مغالطے، مایوس کرنے والے مشاہدات اور غیرمحسوس طور پر قوتِ عمل کو مفلوج کردینے والے وسوسے ہیں جنھیں طبی زبان میں ’وائرس‘ کہا جاتاہے۔ یہ وسوسے غیرمحسوس طور پر تحریکی قیادت ہو یا کارکن، ان کے دل و دماغ میں داخل ہوجاتے ہیں اور پھر انسان کو یہ غم کھانا شروع کردیتا ہے کہ وہ کس طرح کسی شارٹ کٹ، کسی سیاسی کرتب، جوڑتوڑ، سیاسی نعرے یا اتحاد کے ذریعے ثوابِ دنیا کو حاصل کرلے۔

ایک لمحے کے لیے رُک کر جائزہ لیا جائے تو جو بات آغاز میں فرمائی گئی ہے وہ تحریکی قیادت اور کارکنوں کے لیے چونکا دینے والی بات ہے یعنی تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ ۔ کسی کی وقتی مقبولیت، وسائل پر قابض ہونا، پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرلینا ایسا ہی ہے جیسے بدر کی فتح کے بعد اُحد اور حنین کی آزمایش و امتحان۔ اور اس کا مقصد بھی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے بیان فرما دیا کہ وہ چاہتاہے کہ اپنے ان مخلص بندوں کو چھانٹ لے جو دعوتِ اسلامی سے بغیر کسی مفاد اور ذاتی شہرت کے وابستہ ہوئے ہیں ۔ جن کے لیے کارکن ہونا سب سے بڑا اعزاز ہے۔ جو نہ عہدوں کی خواہش رکھتے ہیں اور نہ ان کے حصول کے لیے جوڑتوڑ اور منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا گیا: ’’تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا تھا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں‘‘۔ یہ فرمانے کے بعد ایک انتہائی اہم اور کانٹے کی بات یہ فرمائی جارہی ہے کہ اس آزمایش کی گھڑی میں کفروباطل کے ساتھ مقابلے میں جو اہلِ ایمان شہید ہوئے، دراصل اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کی جماعت میں سے کچھ کو یہ اعزاز بخشناچاہتا تھا___ آج بھی پاکستان ہو یا کوئی اور ملک، تحریک اسلامی کے بعض مخلص کارکن دہشت گردوں کے ہاتھوں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے شہید ہوتے رہے ہیں___ کہ وہ جس دعوت کو لے کر اُٹھے تھے اس کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔

لیکن دوسرا اہم پہلو جس کی طرف صاحب ِتفہیم القرآن متوجہ کرتے ہیں، یہ ہے کہ ’’اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان اور منافقین کے اُس مخلوط گروہ میں سے جس پر تم ا س وقت مشتمل ہو، ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو حقیقت میں شہدا علی الناس ہیں، یعنی اس منصب جلیل کے اہل ہیں جس پر ہم نے اُمت مسلمہ کو سرفراز کیا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن،ج۱، ص ۲۹۰)

اگر تحریکی کارکنوں کا تعلق قرآن کریم سے قریبی ہوگا تو ہرچوٹ کھانے کے بعد، ہر ظاہری ناکامی کے بعد ان کے عزمِ شہدا علی الناس میں اضافہ ہوگا اور اگر ان کا زاویۂ نظر بھی یہ ہوجائے  کہ وہ کسی طرح عددی قوت کے سہارے اپنے ’ثوابِ دنیا‘ کو حاصل کرلیں تو پھر ان پر مایوسی اور پژمردگی کے اثرات ہونے لازمی ہیں۔ مقصد کے حصول میں شبہہ، منزل کے دُور ہونے کا احساس، کوششوں کے باوجود مطلوبہ مقام تک نہ پہنچنے کی حسرت اس نفسیاتی بلکہ وسوساتی کیفیت کے فطری نتائج ہیں۔

پھر یہ بات بیان کی جارہی ہے کہ جس جنت، یعنی اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اس دنیا میں جدوجہد کی جارہی ہے وہ محض ۷۰سال کی کوشش سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے تو ۹۰۰سال کی جدوجہد بھی شاید قلیل ہو۔ لیکن جن اعلیٰ مقام افراد نے ۹۰۰ سال اپنی دعوت کی کامیابی کے لیے جدوجہد کی، ان کا نام آج ان کی استقامت ، پُراُمیدی، رب پر اعتماد و بھروسے اور اللہ کی نصرت پر یقین کی بنا پر زندہ ہے۔ اگر مقصود ’ثوابِ آخرت ہے‘ تو پھر ثوابِ دنیا میںتاخیر بلکہ بعض اوقات اس کا حاصل نہ کرپانا بھی نہ تو ناکامی ہے اور نہ مایوسی کی علت۔

ان آیاتِ مبارکہ کے تناظر میں آج تحریکِ اسلامی کے ہرکارکن، متفق اور ہمدرد کے لیے جو اصل بات سوچنے کی ہے وہ اس کا خود اپنا احتسابی جائزہ لینا ہے کہ کیا وہ شہدا علی الناس کی تعریف میں آتا ہے؟ کیا اس کی پسند، ناپسند، جڑنا اور کٹنا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے یا اس میں ’ثوابِ دینا‘ کہیں نہ کہیں داخل ہوگیا ہے، اور غیرمحسوس طور پر وہ بھی معاشرتی مقام (status)، منصب اور سیاسی دوڑ میں آگے نکل جانے کے پُرکشش سراب میں تو گرفتار نہیں ہو رہا؟ اپنی ذات کو خود جانچنے کا پیمانہ اُس حدیث صحیح میں بیان کردیاگیا ہے جس کو حضرت ابوامامہؓ نے روایت کیا ہے: ’’جس نے اللہ کے لیے دوستی کی اور اللہ کے لیے دشمنی کی اور اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے  روک رکھا، اس نے اپنے ایمان کو مکمل کیا ‘‘۔(بخاری)

 وہ بہت سے سوالات جو آئے دن ہمارے ذہنوں میں اُٹھتے رہتے ہیں اور نتیجتاً مایوسی، وسوسے اور مغالطے پیدا کرتے ہیں۔ اگر قرآن کریم میں ان کا جواب تلاش کیا جائے تو اس کتاب و حکمت کی محض دو تین آیات نہ صرف ان کا جواب بلکہ پیش آنے والے مسائل کے حل کی حکمت عملی بھی سمجھا دیتی ہیں۔

قوموں کا عروج و زوال، کسی دعوت کا قبولیت ِ عام حاصل ہونا اور لوگوں کا جوق در جوق اس میں شامل ہونا اس کی کامیابی کاتنہا معیار نہیں ہے۔ ایک دعوتِ حق برس ہا برس کے مسلسل عمل کے باوجود محدود تعداد میں افراد کو متاثر کرسکتی ہے اور وہی دعوت بعض اوقات کم وقت میں تیزی سے اثرانداز ہوسکتی ہے۔ نہ ان دو کیفیات میں کوئی تضاد ہے، نہ ایک یا دوسری کیفیت کامیابی یا ناکامی کا حتمی فیصلہ کرسکتی ہے۔

جس پہلو پر ہرلمحے توجہ کی ضرورت ہے وہ دعوت کا مرکزی نکتہ ہے۔ یعنی کیا دعوت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے قیام کی دعوت ہے یا اس میں وہ بہت سے خدا بھی شامل ہوگئے ہیں جنھیں ہم اقتدار، دولت، منفعت، شہرت، تسلیم کیے جانے کی خواہش، نفس کی تسکین وغیرہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ کام ایک فرد خود ہی کرسکتا ہے لیکن یہی کام تحریکات کو اجتماعی احتساب کی شکل میں کرنا لازمی ہے۔ تحریک کا ہرفیصلہ، اس کی ہرپالیسی ابدی طور پر نہ تو درست ہوسکتی ہے اور نہ غلط۔ ایک حکمت عملی جو آج درست ہو، تبدیلیِ حالات کی بنا پر آیندہ کسی مرحلے میں غلط ہوسکتی ہے۔   وقتی طور پر، مخصوص اہداف کے لیے دیگر قوتوں کے ساتھ اتحاد کو نہیں کہا جاسکتا اور نہ کسی وقتی اتحاد کی بناپر تحریک کو قیامت تک کسی غلط فیصلے کے لیے موردِالزام ٹھیرایا جاسکتا ہے، اس لیے تحریکی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان معاملات پر بغیر کسی حجاب کے کھل کر اجتماعی طور پر پالیسی یا حکمت عملی کا احتساب کرے، اور جہاں پالیسی میں کوئی جھول پایا جائے اس کی بروقت اصلاح کی جائے۔ اصلاح کرنا، اللہ کی طرف لوٹنا اور غلطی کا اعتراف کرنا، تحریک کی عظمت کی نشانی ہے۔ فیصلے میں عجلت یا تاخیر انسانی عقل کے محدود ہونے کی بنا پر ایک فطری عمل ہے۔ اس میں کسی فیصلے کے بروقت یا درست ہونے کا اعتراف کرنا اصلاح کی طرف پہلا قدم ہے۔ جس چیز پر کوئی گفتگو نہیں ہوسکتی، وہ قرآن و سنت کا بتایا ہوا مقصد حیات ہے۔

تخلیق انسان کے وقت ہی انسان اور فرشتوں کو یہ بات سمجھا دی گئی تھی کہ اسے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو زمین پر نافذ کرنا ہے۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ کے تمام انبیا ؑ نے اپنی دعوت کا بنیادی نکتہ  قرار دیا، اور خاص طور پر انبیاے کرام کے طریق دعوت اور تبدیلیِ اقتدار کی حکمت کے حوالے سے قرآن کریم جہاں جہاں ہمیں متوجہ کرتا ہے وہ واضح طور پر اس پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ حضرت یوسف ؑنے اپنے جیل کے ساتھیوں سے جو ایک طاغوتی ملوکیت پر مبنی نظام کے تحت جیل میں آپ کے ہمراہ اپنی مدت گزار رہے تھے یہی سوال تو کیا تھا کہ کیا بہت سے خدا بہتر ہیں یا صرف اللہ وحدہٗ لاشریک۔ آج کے تناظر میں یہی سوال اگر کیا جاتا تو یوں کیا جاتا کہ کیا سیاست کا خدا مغربی لادینی جمہوریت کو ہونا چاہیے؟ اور معیشت کا خدا استحصالی سودی نظام، اور ہرلمحے غربت میں اضافہ کرنے والی تجارتی سرگرمی کو ہونا چاہیے؟ کیا ثقافت کا خدا ہندووانہ اور مغربی تہذیب میں پائی جانے والی فحاشی، عریانی اور تشدد کو ہونا چاہیے؟ اور کیا معاشرت میں برادری خدا ہے، نسب، ذات اور دولت کی کثرت بنیاد ہے کہ اس کی پرستش کی جائے؟ کیا تعلیم کا خدا مادی منفعت ہے کہ تعلیم کا مقصد ہی یہ ہو کہ ایک فرد کس طرح معاشی میدان میں دوسروں سے آگے نکل سکتا ہے، یا مذہب کے شعبے میں خدا رہبانیت کی تعلیم ہے کہ ایک شخص اپنا گھربار، کاروبار، تعلقات چھوڑ کر جنگل بیابان میں جاکر بیٹھ جائے یا کسی لمبے تبلیغی سفر پر نکل جائے اور اپنے گھر، معاشرے اور ملک کو شیطان کے رحم و کرم پر چھوڑ دے؟ یا اس کی معیشت ہو یا سیاست، معاشرت ہو یا تعلیم، ہرہرشعبۂ حیات میں وہ صرف اُس بات کو مانے جو خالق انسان نے انسانوں پر اپنے خصوصی رحم و کرم، رحمت و محبت کی بنا پر ہدایت، بُرہان، تذکرہ اور الفرقان کی شکل میں نازل کردی ہے؟___ اور اس طرح ہرہرشعبۂ حیات میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت، قدرت و اقتدار کو عملاً نافذ کردیا جائے۔ حضرت یوسف ؑ کے قصے میں اسی پہلو کی طرف ہمیں متوجہ کیا گیا اور فرمایا گیا کہ ایمان کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ حاکمیت اور اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو:

اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ  (یوسف ۱۲:۴۰) ، فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سواتم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

حقیقت واقعہ یہ ہے کہ جس بات کا مطالبہ انسان سے کیا جا رہا ہے، کائنات کی ہرشے   اللہ تعالیٰ کی اُس حاکمیت کا اقرار جب سے اس کا وجود ہے رضامندی کے ساتھ یا ناپسندیدگی اور مجبوری کے ساتھ اس حاکمیت اور اقتدار کوتسلیم کرتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی وحدانیت اور حاکمیت کی گواہی دے رہی ہے۔چنانچہ ارحم الراحمین فرماتا ہے:

اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰہِ یَبْغُوْنَ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ کَرْھًا وَّ اِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ o قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ o وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۸۳-۸۵)، اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دینُ اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چار و ناچار اللہ ہی کی تابع فرمان (مسلم) ہیں اور اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے؟   اے نبیؐ، کہو کہ’’ہم اللہ کو مانتے ہیں، اُس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے، اُن تعلیمات کو بھی مانتے ہیں، جو ابراہیم ؑ،اسماعیل ؑ، اسحاقؑ، یعقوب ؑ اور اولادِیعقوب ؑ پر نازل ہوئی تھیں،اور اُن ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسٰی ؑ اور عیسٰی ؑ اور دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئیں۔ ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے تابع فرمان اور مُسلم ہیں۔ اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اُس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔

توحید کو عملاً اختیار کرنے کے ساتھ جب تک عملی طور پر اپنے تمام معاملات میں اللہ کے بھیجے ہوئے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرہرعمل کو اختیار کرنے کی نیت اور کوشش نہ کی جائے ایمان کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ قرآن کریم نے دوٹوک انداز میں یہ وضاحت کردی کہ اللہ کی بندگی اور حاکمیت کے ساتھ اللہ کے رسول کی اطاعت اور پیروی اور سنت کو حتمی اور تشریعی سمجھے اور نافذ کیے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا:

یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ  ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا o (النساء ۴:۵۹)

 اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو۔ اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔

اس اطاعت ِ رسولؐ کو نہ صرف مطلوب اور مثبت رویہ قرار دیا گیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھا دی گئی کہ اگر رسولؐ کے فیصلے، ارشاد اور عمل کے بارے میں کسی تردد یا تحفظ کا اظہارکیا گیا تو یہ ایمان کو ضائع کردینے کے مترادف ہوگا اور ایسا عمل یا تو منافق کا ہوگا یا کافروفاسق کا۔ فرمایا گیا:

وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًاo (النساء ۴:۶۱)، اور جب ان سے کہا جاتا ہے آئو اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آئو رسولؐ کی طرف تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ تمھاری طرف آنے سے کتراتے ہیں۔

ایمان کی اس اوّلین بنیاد کا قریبی تعلق اُس کیفیت سے ہے جس کی طرف آیت مبارکہ کے آغاز میں اشارہ کیا گیا، یعنی انسان کا اپنی کوششوں کو متوقع طور پر کامیاب نہ دیکھنے کے نتیجے میں دل شکستہ اور غمگین ہوجانا۔ کسی بھی تحریک میں اگر جدوجہد کرتے ہوئے ۷۰سال نہیں صرف ۱۰ سال ہی گزرے ہوں تو اعلیٰ تربیت یافتہ افراد بھی پکار اُٹھتے ہیں: وہ مدد کب آئے گی جس کا وعدہ کیا گیا تھا؟متی نصراللّٰہ؟ اس سوال کے پس منظر میں وہ شیطانی وسوسہ مخفی ہوتا ہے جو دل کو شکستہ اور غمگین کرتا ہے۔ اللہ اور رسولؐ پر پورے ایمان کے دعوے کے ساتھ اعلیٰ ترین تربیت یافتہ ہوں یا عام کارکن، اس سوال کا اُٹھنا حیرت انگیز نہیں کہا جاسکتا۔ اس لیے اس سوال کے اُٹھنے پر نہ قیادت کو اور نہ مجموعی طور پر جماعت کو حیرت ہونی چاہیے۔ ہاں، جو بات ضروری ہے وہ اس زمینی حقیقت کا اقرار کرتے ہوئے اس کا قرآن و سنت میں حل تلاش کرنا ہے۔ قیادت کا فرض ہے کہ وہ اپنے عزم، ولولے اور اعتماد کو کارکنوں کے ساتھ مسلسل تبادلۂ خیال کے ذریعے ان تک منتقل کرے اور کسی لمحے تھکن، سُستی اور مایوسی کو قریب نہ پھٹکنے دے۔ چنانچہ مثبت اور تعمیری طرزِ فکر کے ساتھ مروجہ طریقوں کا جائزہ اور نئے طریقوں کا استعمال کرنا ہی مسئلے کا حل ہے۔ اندرونی تنقید کا نہ صرف برداشت کرنا بلکہ دعوت دے کر تنقید پر آمادہ کرنا اور پھر بغیر مدافعانہ طرزِعمل کے مشاورت کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کرنا تحریک سے جمود، تھکن اور سُستی کو دُور کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔

تحریک میں قیادت اور کارکن کے درمیان اصل رشتہ ایمان اور زندگی کے مقصد کے اشتراک کا ہے۔ یہ محض کوئی انتظامی معاملہ نہیں ہے، نہ یہ حاکم اور محکوم کا سا رشتہ ہے، اس لیے جب تک تحریک کے کارکن اور قیادت ایمان کی یکساں سطح پر نہ ہوں، جمود ، سُستی اور رفتار ِ کارمیں کمی کا حل نہیں ہوسکتا۔ ایمان کے اس مقام تک لانے کے لیے نہ صرف قرآن و سنت سے تعلق بلکہ  نظامِ عبادت کا قیام اور نظامِ عبادت کی روشنی میں معاملات میں شفافیت، امانت، سچائی اور پاسِ عہد پر عمل کیا جانا بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔ اگر فکری اور شعوری طور پر ایمان کا تصور تو ذہن میں ہو لیکن اس کا اثر عبادات میں نہ ہو، اور اگر عبادات کا اہتمام ہو، نماز باجماعت ادا کی جارہی ہو، نوافل کا اہتمام بھی ہو رہا ہو، لیکن مالی معاملات، خاندانی ذمہ داریوں، کاروباری تعلقات میں،حتیٰ کہ غیرتحریکی افراد کے حقوق و فرائض کی ادایگی میں غفلت ہو، اور ان معاملات میں اللہ کی رضا کے ساتھ دیگر مقاصد شامل ہوجائیں تو قیادت اور کارکن میں فاصلہ پیدا ہونا ایک فطری عمل ہوگا،اور حزن اور نااُمیدی کسی نہ کسی حوالے سے تحریک میں داخل ہوجائے گی، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور نصرت کا وعدہ ذہن سے محو ہوجانے کے بعد یاس ومحرومی اور مستقبل کے دھندلانے کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔

ایمان، دل شکستگی اور مایوسی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایسے موقع پر بھی جب داعیِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے دشمن غار کے دہانے پہنچ جاتے ہیں، غار سے بھاگ نکلنے کا کوئی راستہ بھی نہیں ہے، اس وقت بھی حوصلہ ہارنے کا کوئی جواز قرآن میں نہیں پایا جاتا ۔ ایسی آزمایش کی صورت میں بھی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ پر ایمان، بھروسا اور اس کی نصرت پر اعتماد میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ گویا ایسے حالات میں جب بظاہر کوئی متبادل سیاسی حل (option) نظر نہ آتا ہو، اللہ پر ایمان کا مطلب استقامت کا اختیار کرنا ہے اور بغیر نااُمیدی اور دل شکستگی کے اُمید، عزم اور یقین کے ساتھ راہِ حق پر آگے بڑھتے رہنا ہی اسوئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

نااُمیدی، فضا کا گرد آلود ہونا اور منزل کا دھندلا جانا ایمان کے منافی ہے۔ اس لیے جس لمحے بھی تحریک کے کارکنوں کو یہ احساس ہو کہ منزل قریب کیوں نہیں آرہی، اور کتنا انتظار کرنا ہوگا، ظالم و جابر کب تک فرماں روائی کرتے رہیں گے؟ فوری طور پر ایمان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوگی، اور عزمِ نو کے ساتھ قیادت اور کارکنوں کو رجوع الی اللہ اور اتباعِ رسولؐ سے سہارا لینا ہوگا۔ اسلام نام ہی اُمید اور کامیابی پر یقین کا ہے۔ یہ اپنے آپ کو تمام تصورات کی بندگی سے نکال کر صرف اور صرف رب کریم کی بندگی میں لے آنے کا نام ہے۔

سفر کی طوالت ، دوسروں کو بظاہر منزل سے قریب دیکھنا ہر حساس انسان میں یہ سوچ پیدا کرسکتا ہے کہ جو شریکِ سفر نہیں وہ تو منزل پر پہنچتے نظر آرہے ہیں، اور جو آبلہ پا ہونے کے باوجود سنگلاخ وادیوں کے تپتے ہوئے فرش پر چل رہے ہوں، وہ ابھی تک منزل کی طرف رواں دواں ہی ہوں؟ آخر ایسا کیوں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کا نہ اُبھرنا غیرفطری ہوگا۔ اس لیے اس قسم کے سوالات سے پریشان ہونے کے بجاے یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہوگی کہ کیا اس کام کے لیے جو مادی اور انسانی وسائل اور تربیت یافتہ افراد کی جماعت مطلوب ہے، اسے ہم پیدا کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں؟ کیا سمت کا تعین درست ہے؟ کیا جن قریبی اہداف کو منزل سمجھ لیا ہے وہی منزل ہیں، یا منزل اور مقصد رب کریم کی رضا ہے اور اقتدار و حکومت محض اس کا ایک ذریعہ ہے۔

ایک اور اہم پیغام جو اس آیت مبارکہ میں تحریکی کارکنوں اور قیادت کے لیے قابلِ غور ہے اس کا تعلق آزمایش سے ہے۔ یوں تو مسلمان کی تمام زندگی ہی ایک آزمایش و امتحان ہے، دن اور رات کا کون سا لمحہ ہوگا جب مومن کی آزمایش نہ کی جارہی ہو، لیکن تحریکی زندگی میں یہ آزمایش مختلف شکلوں میں سامنے آتی ہے۔ کبھی یہ کثرت کی شکل میں ہوتی ہے اور کبھی قلت کی شکل میں۔ بعض اوقات ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے تعداد کے لحاظ سے اپنا مطلوبہ ہدف بڑی حد تک حاصل کرلیا ہے اور حلقۂ اثر کو وسیع کرلیا ہے، جب کہ اگر وسیع تر منظرنامے میں دیکھاجائے تو شاید آبادی کے صرف چند فی صد تک ہی ہماری بات پہنچی ہوتی ہے۔ کبھی ہم یہ دیکھ کرکہ ۱۸کروڑ افراد میں سے صرف ایک یا دو فی صد تک بات پہنچی ہے، تو ہم اپنی قوت کو غیرمؤثر سمجھ بیٹھتے ہیں۔ قرآن کریم جو اصول ہماری ہدایت کے لیے بیان کرتا ہے وہ اس منفی فکر کی تردید کرتا ہے:

یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ وَ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ o اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْکُمْ وَ عَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفًا  فَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ صَابِرَۃٌ یَّغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ وَ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ اَلْفٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفَیْنِ بِاِذْنِ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ o (انفال ۸: ۶۵-۶۶)

اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے ۲۰ افراد صابر ہوں تو وہ ۲۰۰ پر غالب رہیں گے اور اگر ۱۰۰ آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری ہوں گے۔ کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے، اچھا اب اللہ نے تمھارا بوجھ ہلکا کردیا۔ اور اسے معلوم ہوا کہ ابھی تم میں کمزوری ہے۔ پس اگر تم میں سے ۱۰۰آدمی صابر ہوں تو ۲۰۰ پر اور ہزار دو ہزار پر غالب آئیں گے اور اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو صبر کرنے والے ہیں۔

 تعداد کی قلت و کثرت سے زیادہ اہم اور بنیادی چیز صبرواستقامت ہے۔ قلت تعداد سے بے پروا ہوکر جب ایک جماعت شہادتِ حق کے لیے نکل کھڑی ہوتی ہے تو پھر حزن و پریشانی اس کے آس پاس بھی نہیں پھٹک سکتے۔ وہ وسائل کی کمی کے باوجود اپنے سے بہت بڑے طاغوت پر  اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نصرت سے غالب آکر رہتی ہے۔ قرآن یہ چاہتا ہے کہ تحریکی کارکن چاہے ہلکے ہوں یا بھاری ، وہ نتائج سے بے پروا ہوکر وسائل کا انتظار کیے بغیر جو کچھ ان کے پاس ہو اسی کے ساتھ میدان میں نکل کھڑے ہوں:

اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاھِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ  (التوبہ ۹:۴۱) نکلو ،خواہ ہلکے ہو یا بوجھل، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ، یہ تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔

جب جماعت اہلِ ایمان یہ طرزِعمل اختیار کرے گی تو پھر فرشتوں کے پّرے کے پّرے ان کی استعانت کے لیے آشامل ہوں گے:

کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً (البقرہ ۲:۲۴۹) بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔

اپنی قوت کو کم تر سمجھنا یا اس پر ناز کرنا، دونوں رویے ایمان کے منافی ہیں۔ یہ طرزِفکر بھی آزمایش کی ایک شکل ہے۔

وہ آزمایشیں جن سے تحریکاتِ اسلامی ہر دور میں گزری ہیں یکساں طور پر اہمیت رکھتی ہیں جن میں قیدوبند اور شہادت شامل ہیں لیکن ان کے علی الرغم آزمایش کی اور بہت سی شکلیں ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر بڑی اور چھوٹی آزمایش میں  تحریکی قیادت اور کارکن کا وظیفہ حسبی اللّٰہ، علیہ توکلت، ونعم الوکیل ہو کیونکہ نعم المولیٰ اور نعم الوکیل سے بڑھ کر اور کوئی سہارا اور وسیلہ نہیں ہوسکتا۔ تحریکات کی عمر میں ۴۰سال تو صحیح طور پر بلوغت تک پہنچنے ہی میں لگ جاتے ہیں۔ اگر کوئی تحریک اس سے قبل بالغ ہوجائے تو یہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم ہی سے ممکن ہے۔

ایمان کے تقاضوں میں استقامت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم ظلم، طغیان، شرک، کفر اور ضلالت کو دُور کرنے کے لیے اللہ کے بندوں کو دعوتِ حق دیتے ہوئے اُن عملی مسائل کے حل کے لیے کہاں تک کوشاں رہے ہیں جن کے بوجھ نے ان کی کمر دہری کردی ہے۔ کیا غربت کے خاتمے کے لیے جو انسان کو شرک پر مجبور کردیتی ہے، کیا پانی کی فراہمی، بجلی کے بحران سے نجات، کیا روزگار کی فراہمی اور عوام کی صحت سے متعلق مسائل میں ہم نے اتنی ہی   پیش رفت کی ہے جتنی تنظیمی اجتماعات کی شکل میں کی گئی ہے؟ایمان کا ایک تقاضا اللہ کے بندوں کی خدمت صرف اللہ کو خوش کرنے کے لیے ہے۔

انسانی مسائل میں فکری اور اعتقادی مسائل کے ساتھ ساتھ معاشی مسائل، وسائل کی غیرعادلانہ تقسیم، صحت، غربت اور تعلیم کے حوالے سے اللہ کے بندوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جہاد کیے بغیر ہم مکمل دین پر عمل نہیں کرسکتے۔اللہ کے حقو ق کے ساتھ اللہ کے بندوں کے حقوق کو یکساں اہمیت دینا تحریکِ اسلامی کی ایک ایمانی ضرورت ہے۔

دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے مسلمان ہرسال لاکھوں کی تعداد میں دُوردراز سے سفر کرنے کے بعد ملّت کے قلب مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا رُخ کرتے ہیں اور حج اور عمرہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کا کوئی عالمی میلہ نہیں ہے کہ اولمپک کی طرح سے لوگ تفریح اور سیاحت کی غرض سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ اور میدانِ عرفات میں جاکر قیام کریں، بلکہ یہ ایک جسمانی، روحانی اور نفسیاتی عبادت ہے جس کے صحیح طور پر ادا کرلینے کے بعد ایک نیا مسلمان اور  نیا انسان وجود میں آتا ہے۔ اس شعوری عمل کے نتیجے میں انسان کے قلب و دماغ کے ہرہرگوشے میں پائی جانے والی کمزوریوں کا تزکیہ ہوجاتا ہے اور جس طرح ایک معصوم بچہ شکمِ مادر سے دنیا میں آتا ہے، ایسے ہی ایک زائر، حج کرنے کے بعد برف کے گالے کی طرح پاک و صاف ہوکر نئی زندگی کا آغاز کرتا ہے۔ سید مودودیؒ نے اس عمل کو جسم میں خون کی گردش اور قلب سے گزرنے کے بعد خون کی اصلاح و پاکیزگی سے تعبیر کیا ہے کہ جس طرح تمام جسم سے خون کھینچ کر قلب کی طرف جاتا ہے اور قلب سے گزرنے کے بعد تزکیے کے بعدجسم کو توانائی دینے کے لیے پھر گردش میں آجاتا ہے، اسی طرح تمام اہلِ ایمان اپنی کمزوریوں، بھول و نسیان اور خطائوں کے ساتھ حرم شریف کی طرف جاتے ہیں اور میدانِ عرفات میں اپنی غلطیوں کے اعتراف ، عزمِ اصلاح اور عہدِنو کے ساتھ  گھروں کو واپس ہوتے ہیں، تاکہ اُمت مسلمہ ہرسال ایک عملی تطہیر و تزکیے کے ذریعے تازہ قوت، بلند حوصلوں اور قابلِ عمل اصلاحی حکمت عملی سے لیس ہوسکے۔

اگر غور کیا جائے تو حج اور عمرہ اور اسلام کے تصورِ ہجرت میں ایک انتہائی قریبی معنوی ربط پایا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے مکہ مکرمہ کی آزمایشوں کی بھٹی سے گزرنے کے بعد حبشہ اور مدینہ منورہ ہجرت کی، ان کے مقام کی بلندی اور ان کے خلوص کا اعتراف قرآن و سنت نے تحسینی کلمات کے ساتھ کیا اور انھیں کامیاب اور بامراد قرار دیا۔ حضرت عمرؓ کی مشہور روایت میں نیت کو اعمال کی بنیاد قرار دیتے ہوئے جو مثال سمجھانے کے لیے استعمال فرمائی گئی، وہ ہجرت ہی کی مثال ہے کہ جس نے اللہ کے لیے ہجرت کی وہ کامیاب ہوگیا۔ حج اور عمرہ کا وجوب بھی قرآن کریم کی آیت مبارکہ  وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ (البقرہ ۲:۱۹۶) ’’اللہ کی خوش نودی کے لیے جب حج اور عُمرے کی نیت کرو، تو اُسے پورا کرو، اور اگر کہیں گِھرجائو تو جو قربانی میسر آئے، اللہ کی جناب میں پیش کرو‘‘، اور وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ (الحج  ۲۲:۲۷) ’’اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمھارے پاس ہر دُور دراز مقام سے پیدل اور اُونٹوں پر سوار آئیں‘‘، سے بطور ایک عبادت و فریضہ ثابت ہے۔ مشہور حدیث میں اسلام کے ارکان میں حج ایک رکن کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے لیکن سوال یہ اُبھرتا ہے کہ آخر اس کی اتنی اہمیت کیوں ہے کہ ہرسال لاکھوں افراد اپنا مال، وقت، اور محنت صرف کر کے اس فریضے کو انجام دیں۔

  •  ھجرت اور تزکیہ: ہماری نگاہ میں قرنِ اوّل میں اہلِ ایمان نے ہجرت کی۔ فتح مکہ کے بعد جب ہجرت عملاً ختم ہوگئی تو تزکیے کے اس اہم عمل کو باقی رکھنے کے لیے حج کی شکل میں اس کا بندوبست کردیا گیا کہ قیامت تک ایک مسلمان مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بزرگ، وہ حج اور عمرے کے ذریعے سے ہجرت کے عمل سے گزر سکے۔

پہلی ہجرت ایک مومن اس وقت کرتا ہے جب وہ یہ نیت کرے کہ اسے حج کرنا ہے۔ اس کا نیت کرنا اپنے رُخ اور قبلے کو درست کرنے کے بعد یہ ارادہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ایک عبداً شکوراً بنانے کے لیے تیار رہے۔ ہجرت کی جانب اس کا دوسرا قدم اس وقت اُٹھتا ہے جب وہ اُس مال کی طرف دیکھتا ہے جو اُس نے بڑی محنت اور مشقت کے بعد کمایاتھا اور طے کرتا ہے کہ اس مال کو اللہ کی راہ میں صرف اُس کی خوش نودی کے لیے، اس کے گھر کی زیارت کے لیے استعمال کرے۔ یہ خواہش اسے یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ جس مال کو     وہ اِس غرض کے لیے استعمال کرنے جا رہا ہے، کیا اسے جائز اور حلال طریقے سے حاصل کیا تھا یا غیراخلاقی ذرائع سے۔ما ل کا یہ تزکیہ اس کے ایمان اور صرف حلال کمائی کے ذریعے ایک اچھے کام کو کرنے کی تربیت کرتا ہے۔

اس عمل کے دوران تیسری ہجرت کا آغاز اس وقت شروع ہوجاتا ہے جب وہ اپنے   اہلِ خانہ، دوستوں، کاروباری شراکت داروں، غرض ہرفرد کی وابستگی سے نکل کر صرف اللہ کے لیے ان سب کو پسِ پشت ڈال کر صرف اللہ کی طرف لپکتا ہے اور زبان اور دل سے کہنا شروع کرتا ہے کہ میں حاضر ہوں، مالک میں حاضر ہوں۔ صرف آپ کی ایک آواز کے جواب میں، سب کچھ پیچھے چھوڑ کر، آپ کے گھر کی طرف رُخ کر رہا ہوں اور یہ اس لیے کر رہا ہوں، کہ آپ اور صرف آپ، سب سے اعلیٰ، بلند، عزیز، حمد کے مستحق اور نعمتوں کے دینے والے ہیں۔

حج و عمرہ کے لیے نکلتے وقت وہ چوتھی ہجرت اس وقت کرتا ہے جب اپنے قومی لباس، اور زبان کو ترک کر کے صرف دو سفید چادروں میں اپنے آپ کو لپیٹ کر سفر پر روانہ ہوتا ہے، اور عملاً اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ انسانی ضروریات کو خود اپنے ہاتھ اور ارادے سے کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔ وہ اس بات کی تصدیق بھی کرتا ہے کہ اس کی اصل پہچان نہ اس کا قومی لباس ہے نہ قومی زبان، بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا بندہ بن جانا اسے دنیا کے تمام انسانوں سے ممتاز کرتا ہے۔

پانچویں ہجرت وہ اس وقت کرتا ہے جب اس کی پہلی نظر خانہ کعبہ پر پڑتی ہے اور وہ جذبات سے بے تاب ہوکر طلب ِعفو و درگزر اور شعوری اور غیرشعوری گناہوں کے احساس کے ساتھ ایک سوالی بن کر اس عظمت والے گھر میں قدم رکھتا ہے۔ انسانوں کے اس سمندر میں جو طوفانی ریلے کی طرح اللہ کے گھر میں موجزن نظر آتا ہے، وہ عاجزی اور خاکساری اختیار کرتے ہوئے دوسروں کو تکلیف نہ دینے کی خاصیت پیدا کرتا ہے۔

چھٹی ہجرت وہ اس وقت کرتا ہے جب وہ مراسمِ حج سے فارغ ہونے کے بعد اس عزمِ نو کے ساتھ اپنے گھر کی طرف لوٹتا ہے کہ اب وہ اپنے آپ کو تمام غلامیوں سے نکال کر صرف     اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بندگی میں دے چکا ہے۔ اس لیے بات وہ کرے گا جو حق ہو۔ کام وہ کرے گا جو حلال ہو، نگاہ وہ ڈالے گا جو پاکیزہ ہو، اور اپنے گھر، معاشرے اور ملک میں صرف اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق کام کرے گا، اور ان تمام رسومات سے اپنے آپ کوکاٹ لے گا جو اس کی برادری اور دوستوں نے ایجاد کررکھی ہیں۔

حج اور عمرہ کے ذریعے ہونے والی ہجرت اسے اُس مقام سے قریب تر لے آتی ہے جو اسلام کے دورِ اوّل میں اللہ کے نیک بندوں نے اپنا سب کچھ اپنے رب کے لیے قربان کرنے کے بعد حاصل کیا تھا۔ یہ ہجرت فتح مکہ کے بعد اور قیامت تک اسے موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹ کر اُن افراد میں شامل ہوجائے جن کا جینا اور مرنا، جن کی قربانی اور عبادت،  جن کی فکروعمل صرف اور صرف احکم الحاکمین کی مرضی کے تابع ہوتی ہے، اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو ہر بندگی پر فوقیت دیتے ہیں۔ یہ ہجرت زندگی میں ایک مرتبہ حج کرلینے اور حسب ِاستطاعت ایک سے زائد عمرے کے ذریعے زندگی میں کئی بار بھی کی جاسکتی ہے، لیکن صرف ایک شرط کے ساتھ کہ اس کا مقصد صرف اور صرف اپنے تمام وجود کو اللہ تعالیٰ کی بندگی و اطاعت میں دینا مقصود ہو۔

مصر میں ۳۰ برسوں تک استبداد وآمریت کے بَل پر حکومت کرنے والے صدر محمد حسنی مبارک کو آخر کار ۱۸ دنوں کے عوامی مظاہروں کے بعد ۱۱ فروری ۲۰۱۱ء کو استعفا دینا پڑا۔ مغربی میڈیا او ر مغرب کے پروردہ عرب اخبارات و رسائل کے اسلام اور اسلامی تحریک کے خلاف زبردست   منفی پروپیگنڈے کے باوجود ملک میں ہونے والے تین مراحل میں عوامی انتخابات کا نتیجہ ۲۰۱۲ء  میں سامنے آیا، تو معلوم ہوا کہ ’اخوان المسلمون‘ نے ۴۷ فی صد (۲۳۵) اسمبلی نشستیں اور دوسری  بڑی اسلامی جماعت ’النور‘ نے۲۵ فی صد (۱۲۵) نشستیں حاصل کیں اور مغرب کے گماشتوں سیکولر رہنماؤں اور پارٹیوں کا صفایا ہوگیا۔ عوامی انتخابات میں اسلام پسندوں کی یہ عظیم الشان فتح ان کی ۸۲ سالہ تعمیری جدوجہد ، فلاحی خدمات اور صبر آزما کو ششوں کا نتیجہ ہے۔ شاہ فاروق سے لے کر  حسنی مبارک تک سب نے اخوان المسلمون پر پابندی عائد کی اور اس کے کارکنوں کو مسلسل قیدو بند اورتشد دکا نشانہ بنائے رکھا۔ ان کا جرم کیا ہے؟ ملک میں اسلامی نظام کے قیام کا مطالبہ۔ اور اس سے بڑاگناہ ہے ان کی خدمت خلق کی مسلسل جد وجہد کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت اور اللہ پر ایمان و توکّل ۔

اخوان المسلمون کا قیام اس وقت عمل میں آیا جب مصر میں وطن پرستی، قوم پرستی اور  مغرب پرستی شروع ہو گئی تھی اور روایتی اسلام اور تجدد کے درمیان ٹکراؤ شروع ہو گیا تھا، جس میں  شیخ علی عبدالرازق کی۱؎  الاسلام واصول الحکم، ڈاکٹر طہٰ حسین کی ۲؎ الشعر الجاھلی،   قاسم امین ۳؎ کی تحریر المرأۃ اور المرأ ۃ الجدیدۃ نے خاص رول ادا کیا۔ جس میں سید جمال الدین افغانی،۴؎ مفتی محمد عبدہٗ ،۵؎ سید رشید رضا،۶؎مصطفی صادق الرافعی۷؎ محمد فرید وجدی۸؎ اور      محب الدین الخطیب ۹؎ جیسے اسلام پسندوں کی کوششیں بظاہر دب کر رہ گئیں۔

۱- امام حسن البنّا شھید (۱۹۰۶ئ-۱۹۴۹ئ)

ا مام حسن البنّا کی قیادت میں ۱۹۳۳ء سے ۱۹۳۹ء تک اخوان ایک نظریے اور تحریک کی شکل میں ظاہر ہوئے ۱۰؎اور پہلا دعوتی مرحلہ انتہائی خاموشی سے عمل میں آیا۔ دوسرا مرحلہ ۱۹۳۹ء سے ۱۹۴۵ء تک ہے۔ اس میں اخوان نے سیاسی میدان میں قدم رکھا ، سماجی اور اقتصادی پروگراموں میں توسیع کی ، ثقافتی اور جسمانی تربیت کا اہتمام کیا اور پورے ملک میں آزادی اور اسلام کا نعرہ بلند کیا۔ نتیجے کے طور پر حکومت کی نظروں میں کھٹکنے لگے اور انگریزوں نے ان کے بڑھتے قدموں کو روکنے کی کوشش کی۔ حکومت پر دباؤ ڈالا اور ہفتہ وار التعارف، الشعاع اور ماہنامہ المنار پر پابندی عائد کردی۔۱۱؎ آپ کی قیادت میں تیسرا مرحلہ ۱۹۴۵ء سے ۱۹۴۸ء پر مشتمل ہے جس میں اخوان نے مصر کی سرحدوں سے نکل کر عالم عرب میںا پنی شاخیں قائم کیں۔ ۵ مئی ۱۹۴۶ء کو الاخوان المسلمون کے نام سے تحریک نے پہلا روز نامہ شائع کیا، جس سے استعماری حلقوں میں ہلچل مچ گئی۔ انگریزوں کے مکمل انخلا کا مطالبہ ہوا اور ان سے براہِ راست تصادم ہوا۔ ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو عرب لیگ کے زیر اہتمام فلسطین میں عرب فوجیں اُتریں اور یہودیوں کے خلاف جہاد شروع ہو گیا۔ اخوان نے اس جنگ میں شجاعت و بہادری کے خوب جو ہر دکھائے۔ و زیر اعظم نقراشی پاشا نے ۸دسمبر ۱۹۴۸ء کو مارشل لا آرڈی ننس نمبر ۶۳ کے ذریعے اخوان کو خلافِ قانون  قرار دے کر پورے ملک میں تشدد کا ماحول پیدا کردیا اور خود ایک نوجوان کی گولی کا نشانہ بن گیا۔  نئے وزیر اعظم عبدالہادی پاشا کے دور میں اخوان کے ہزاروں کا رکن گرفتار کر لیے گئے اور امام  حسن البنّا کو ۱۲فروری ۱۹۴۹ء کو خفیہ پولیس نے شبان المسلمین کے دفتر کے سامنے سر بازار شہید کردیا۔۱۲؎

۲- حسن بن اسماعیل الھضیبیؒ(۱۸۹۱ئ-۱۹۷۲ئ)

 ۱۷؍اکتوبر ۱۹۵۱ء کو اخوان نے ممتاز قانون دان حسن بن اسماعیل الہضیبی کو اپنا دوسرا مرشد عام منتخب کیا۔۳؎۱شیخ ہضیبی نے بحیثیت قائد، حکومتی جبروتشدد کے ردعمل میں تحریک اسلامی کو جوابی تشدد سے محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کی۔ قرآن و سنت کے دلائل پیش کیے اور اخوانی نوجوانوںکے ایک انتہا پسندگروہ کی تفہیم کے لیے آپ نے ایک کتاب دعاۃ لاقضاۃ ( ہم داعی ہیں، داروغہ نہیں) تصنیف کی، اور تمام آزمایشوں سے گزرنے کے باوجود ملک میں اسلامی اور جمہوری اقدار کی بحالی پرڈٹے رہے۔ ۲۶؍اکتوبر ۱۹۵۴ء کو جمال عبدالناصر پر قاتلانہ حملے کا ڈراما اسٹیج کیا گیا، اور اس کا ’الزام‘ اخوان پر لگاتے ہوئے اس کے کار کن گرفتار کر لیے گئے جن کی تعداد ۵۰ ہزار تک پہنچی۔ ۷نومبر ۱۹۵۴ء کو فوجی عدالت نے چھے ا خوانی رہنماؤں کو سزاے موت دے د ی۔ وہ چھے رہنما    یہ تھے: ۱- عبدالقادر عودہ ، نائب مرشد عام ، ۲-شیخ محمد فرغلی، مکتب الارشاد کے رکن رکین،      ۱۹۵۱ء میں معرکۂ سویز میں اخوانی دستوں کے کمانڈر ، جن کے سر کی قیمت انگریزی فوج کی ہائی کمان نے ۵ ہزار پونڈ مقرر کی تھی، ۳-یوسف طلعت، شام کی تنظیم کے نگران اعلیٰ، ۴- ابراہیم الطیب ، قاہرہ زون کی خفیہ تنظیم کے سر براہ، ۵-ہنداوی دویر ایڈوکیٹ، ۶-عبداللطیف۔

جولائی ۱۹۶۵ء میں حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں تقریباً ۲۰ ہزار سے ۵۰ہزار تک اخوان جیلوں میںڈال دیے گئے جن میں ۷۰۰ سے ۸۸۰ تک خواتین بھی شامل تھیں۔ مرشد عام حسن الہضیبی کو تین سال کی قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ طویل مدت تک قیدوبند کی آزمایش سے رہا ہوئے تو ان کی صحت تیزی سے بگڑتی گئی اور ۱۹۷۲ء میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ شیخ الہضیبی کی زندگی میں اخوان المسلمون بڑے نازک مراحل سے دوچار ہوئی مگر مرشد عام کی فراست اور ایمانی استقامت نے تنظیم میں لغزش نہ آنے دی۔۱۴؎

۳- سید عمر تلمسانیؒ (۱۹۰۴ئ-۱۹۸۶ئ)

حسن الہضیبی کے انتقال پُرملال کے بعد اخوان کے باہم غور وخوض کے بعد سید عمر تلمسانی تیسرے مرشد عام مقرر ہوئے۔۱۵؎جمال عبدالناصر کے بعد محمد انور سادات کا دور مصر میں قدرے  نرمی کا دور قرار دیا جاتا ہے۔ انھوںنے ناصری دور کی دہشت گردی اور ظلم وجور کا خاتمہ کیا اور  اخوانی رہنماؤں اور دوسرے قیدیوں کو بتدریج جیل خانوں سے رہا کیا ۔ سید عمر تلمسانی نے پورے دور میں تعلیمی اور تربیتی امور پر توجہ مرکوز رکھی۔ اسی دورمیں الاخوان کی پالیسی سے اختلاف رکھنے والوں نے ’الجماعات الاسلامیہ‘ کے نام سے تنظیم بنائی۔ ۱۶؎اس کے رہنما ایک نابینا خطیب اور مبلغ  شیخ عمرعبدالرحمن تھے۔ حکومت نے اس کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے اس پر پابندی لگادی اور     شیخ عمرعبدالرحمن گرفتار کر لیے گئے اور ہزاروں کا رکنوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا، بالآخر انھیں ملک چھوڑ نا پڑا۔ ۱۹۷۹ء میں اسماعیلیہ میں الفکر الاسلامی کے موضوع پر سیمی نار ہوا، اس میں صدر مملکت نے اخوان پر اعتراضات والزامات کی بوچھاڑ کردی، جس کا سید تلمسانی نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔۱۷؎۱۹۸۱ء میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تو دوسری سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اخوان بلاجواز نشانہ بنے۔ اخوان سے اختلاف رکھنے والے افراد کے ہاتھوں صدر سادات کے قتل کے بعد ملک کی باگ ڈور حسنی مبارک کے ہاتھوں میں آئی۔

۱۹۸۶ء میں مرشد عام کبرسنی اور نقاہت کے باعث جوارِ رحمت الٰہی میں چلے گئے۔

۴-استاذ محمد حامد ابو النصرؒ (۱۹۱۳-۱۹۹۶ئ)

۱۹۸۶ء میں استاذ محمد حامد ابو النصرؒ کو چوتھے مرشد عام کی ذمہ داری سونپی گئی۔۱۸؎استاد محمد حامد کے ۱۰ سالہ دورِ قیادت میں اخوان نے سیاسی سطح پر غیر معمولی کا میابی حاصل کی۔ اپریل ۱۹۸۷ء کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے کر مصری پارلیمنٹ میں۳۶ اخوان امیدوار کامیاب ہوکر شامل ہوئے۔ ۱۹۸۹ء کی مجلس شوریٰ کے وسط مدتی اور مقامی انتخابات میں بھی اخوان نے حصہ لیا۔

۱۹۹۱ء میں اخبار الاھرام کے ایک ذیلی ادارہ سنٹر فارپولٹیکل اینڈ اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز نے مصر کے سیاسی وسماجی حالات پر ایک معروضی تجزیہ پیش کیا۔ اس رپورٹ میں اسلامی قیادت کی مقبولیت اور اخوانی کا رکنوں کے عوامی اثرات پرا ضطراب کا اظہار کیا گیا تھا۔ ۱۹۹۵ء میں  پارلیمانی انتخابات سے قبل ہی صدر حسنی مبارک نے اخوان کے ساتھ پھر داروگیر کا معاملہ کیا، اور  بیش تر اخوانی رہنماؤں کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا۔ یہ واقعہ بھی تاریخ کا ایک اہم باب ہے کہ پہلی بار اس کیس میں ملک کے مختلف طبقوں اور تمام احزاب اختلاف سے تعلق رکھنے والے ۳۵۰ وکیلوں نے اخوان کے دفاع کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا۔ ۱۹؎

استاذ محمد حامد ابوالنصرؒ کے دور میں اخوان نے خلیجی ممالک اور عالم اسلام کے مسائل پر بڑا جرأت مندانہ اور معتدل موقف اختیار کیا اور تمام حالات کا سنجیدہ تجزیہ کر کے اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کیا۔ استاذ ابوالنصرؒ کاپہلا بیان کویت پر عراق کے حملے کے دن ۲؍اگست ۱۹۹۰ء کو ہی شائع ہوا، جس میں عراقی جارحیت کی مذمت اور جان ومال کی تباہی پر اظہار افسوس کیا گیا تھا۔ ۲۰ جنوری ۱۹۹۱ء کو مرشدعام نے امریکی حملے کے تیسرے دن ایک اور بیان جاری کیا جس میں امریکی حملے اور   متحدہ فوجی قوتوں کی مذمت کے ساتھ اس بحران کا ذمہ دار عرب حکام کو قرار دیا۔ تیسرے مرحلے میں  عرب حکومتوں سے عوام کو آزادیِ راے اور صحت مند شورائی نظام کے قیام کی درخواست کی۔

چوتھے مرشد عام استاذ محمد حامد ابو النصرؒ نے ۱۰ سال اخوان المسلمون کی بھر پور قیادت کرکے ۲۹ شعبان ۱۴۱۶ ھ مطابق ۲۰ جنوری ۱۹۹۶ء کو عالم آخرت کی راہ لی۔ ۲۰؎

۵-استاذ مصطفی مشھورؒ (۱۹۲۱ئ-۲۰۰۲ئ)

استاذ ابو النصرؒ کی تجہیز وتکفین سے فراغت کے بعد، تمام اخوانی رہنماؤں نے پانچویں مرشد عام کی حیثیت سے استاد مصطفی مشہور کے نام پر اتفاق کرلیا۔۲۱؎استاد مصطفی مشہور ایک ادیب ، مصنف، صحافی اور خطیب بھی ہیں۔ ان کی دسیوں کتابیں اور سیکڑوں مقالات شائع ہوچکے ہیں ۔ استاد مصطفی کاسب سے اہم فکری کارنامہ قضیۂ تکفیر کا تجزیہ ہے، یعنی اسلام کے انقلابی تصور کو نہ ماننے والوں اور اس کے تقاضوں کی تکمیل سے غفلت کرنے والوں کو کافر یا مشرک قرار دینا۔ اس مسئلے پر اخوان کے دوسرے مرشد حسن اسماعیل ہضیبی نے فقہی اور قانونی پس منظر میں کلام کیا ہے، مگر آپ نے دعوتی اور سماجی تناظر میں دلائل کے ساتھ بات کی ہے جس کے مختصر نکات یہ ہیں:

۱- دوسروں کے ایمان واسلام کے بارے میں فیصلہ دینا کسی مسلمان پرواجب نہیں ہے۔

۲- ہرمسلمان کی جان ومال اور عزت وآبرو محترم ہے۔ اس پر حملہ کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔

۳- راہِ حق کی آزمایشیں انسانی غلطیوں کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ سنت الٰہی کاحصہ ہیں۔

۴-کفر کے فتووں سے عام مسلمانوں میں نفرت اور وحشت پیدا ہوتی ہے اور وہ دعوت کے دشمن بن جاتے ہیں۔

فاضل مصنف نے اس فکری انحراف کے اسباب پر مفصل گفتگو کی ہے، جن کا اختصار اس طرح ہے: (الف) سطحی اور سرسری علم (ب) اصول اور فروع میں عدم امتیاز(ج) افراط و تفریط (د)عجلت اور بے صبری (ہ) تربیت کے بجاے سیاسی طریقے پر زور (و) اشخاص اور قائدین پر انحصار۔

آپ کا انتقال ۸ رمضان المبارک۱۴۲۲ھ مطابق۱۴؍نومبر۲۰۰۲ء کو ہوا۔۲۲؎

۶-المستثار محمد مامون الھضیبیؒ(۱۹۲۱ئ-۲۰۰۴ئ)

استاد مصطفی مشہور کی وفات کے بعد ان کے نائب مرشد عام محمد مامون الہضیبی چھٹے مرشد عام منتخب ہوئے۔ ۲۳؎اخوان المسلمون کا ابتدائی دور دعوت و تبلیغ کے ساتھ، کش مکش اور جہاد کا دور ہے۔ حسن الہضیبیؒ کا دور ابتلا و آزمایش کا دور ہے۔ شیخ عمر تلمسانی.ؒ کے دور سے سیاسی نظام میں تبدیلی ہوئی، حتیٰ کہ مصطفی مشہورؒ کے دور میں وہ تبدیلی کا ماڈل بن گیا۔ اس منہج کو فکری اور عملی اور دوسرے محاذوں پر تقویت دینے میں محمدمامون کا بڑا نمایاں حصہ ہے۔ تقریباً ۱۴ مہینے تک مرشد عام کی   ذمہ داری نبھانے کے بعد محمد مامون الہضیبی جمعۃ المبارک ۹ جنوری ۲۰۰۴ء میں انتقال فرماگئے۔

۷- استاذ محمد مھدی عاکف (۱۹۲۸ئ)

ساتویں مرشد عام کی شکل میں اخوان نے استاد محمد مہدی عاکف کو منتخب کیا۔۲۴؎۶ رمضان المبارک ۱۴۲۵ھ مطابق ۲۰؍اکتوبر ۲۰۰۴ء کو مہدی عاکف نے مصر میں سیاسی اصلاحات کی دعوت دی اور افغانوں، عراقیوں اور فلسطینی عوام کی جدو جہد اور آزادی کی بھرپور حمایت کی۔ ملک کے اندرونی بحران پر مرشد عام نے گہری تشویش ظاہر کی۔ ۸ دسمبر ۲۰۰۵ء کے پارلیمانی انتخابات میںمحمدمہدی عاکف کی سربراہی میں اخوان المسلمون کے سیاسی کا رکنوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا اور اپنی حیران کن فتح سے مغربی میڈیا اور عرب دنیا کو ششدر کردیا۔ اسلام پسندوں کی اس انتخابی پیش رفت نے صدر حسنی مبارک، امریکا اور دوسرے ملکوں کی حکومتوں کو شش و پنج میں مبتلا کردیا۔۲۵؎

مرشد عام محمد مہدی عاکف کی سربراہی میں اخوان المسلمون مصر اور عالمِ عرب میں  احیاے اسلام کی جدو جہد میں مصروف رہی۔ بدلتے حالات میں دعوت وا قامتِ دین کی نئی راہیں انھوں نے تلاش کیں۔ آج وہ پورے اخلاص وللہیت کے ساتھ اسلامی معاشرے کی تعمیر میں مصروف ہیں۔ آخر کار ۱۶؍ جنوری ۲۰۱۰ء کو مرشد عام محمد مہدی عاکف نے اپنی خرابی صحت کی بنا پر انتخاب عام کروایا اور نئے مرشد کے ہا تھوں میں تنظیم کی باگ ڈور سونپ دی۔

۸-ڈاکٹر محمد البدیع

اخوان المسلمون کے نو منتخب آٹھویں مرشدعام ڈاکٹر محمدا لبدیع نے گذشتہ ایام میں ہزاروں گرفتار ہونے والے افراد پر اظہار افسوس کیا۔ ۲۶؎ ان قیدوبند کی صعوبتوں کے باوجود ڈاکٹر محمد البدیع نے۱۶ جنوری ۲۰۱۰ ء کو اپنے انتخاب کے بعد پہلے خطاب میں کہا: ’’اخوان کبھی حکومت کے حریف اور دشمن نہیں رہے۔ ہم کبھی مخالفت براے مخالفت پریقین نہیں رکھتے۔ خیرمیں تعاون اور شر کی مخالفت کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے اور ہم اسی بنیاد پر حکومت کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھا تے ہیں‘‘ ۔

اپنی پوری زندگی میں اللہ کی عبادت کرنا اور زندگی کے تمام شعبوں کواس کی روشنی سے منور کرنا صرف اور صرف اخوان کی دعوت تھی۔ ۱۹۲۸ء میں قاہرہ میںپانچویں کانفرنس میں اخوان کے مشن اور دعوت کا تعارف کراتے ہوئے حسن البنّا نے فرمایا: ’’الاخوان المسلمون ایک سلفی دعوت ہے۔ اس لیے کہ اخوان اسلام کی ابتدائی صورت کی طرف پلٹنے کی دعوت دیتے ہیں اور کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کے اصل سرچشموں کی طرف بلاتے ہیں۔ یہ ایک سنی مسلک بھی ہے، کیوں کہ ان تمام چیزوں میں بالخصوص عقائد وعبادات میں لوگ سنت رسولؐ پر گامزن ہیں۔

  •  یہ اہلِ تصوف کا ایک گروہ بھی ہے، کیوں کہ یہ خیرکی اساس، دل کی طہارت ، نفس کی پاکیزگی، عمل پرمداومت، مخلوق سے در گزر ، اللہ کے لیے محبت اور نیکی کے لیے یگانگت کو ضروری سمجھتی ہے۔
  •  یہ ایک سیاسی تنظیم بھی ہے، کیوں کہ اس کا مطالبہ ہے کہ حکومت کی اصلاح کی جائے، اس کی خارجہ پالیسی میں ترمیم کی جائے، رعایا کے اندر عزت واحترام کی روح پھونکی جائے اور آخری حد تک ان کی قومیت کی حفاظت کی جائے۔
  •   یہ ایک علمی وثقافتی انجمن بھی ہے، اس لیے کہ اخوان کے کلب فی الواقع تعلیم ومذہب کی درس گاہیں اور عقل و روح کو جِلا دینے کے ادارے ہیں۔
  •  یہ ایک معاشرتی اسکیم بھی ہے، کیوں کہ یہ معاشرے کی بیماریوں پر دھیان دیتی، ان کا علاج دریافت کرتی اور امت کو صحت مندر کھنے کی کوشش کرتی ہے۔

اس طرح تصور اسلام کی جامعیت نے ہماری فکر کو اصلاحی پہلوؤں کا جامع بنادیا ہے۔ چنانچہ اخوان نے ملک کے ہر طبقے کے لیے ہمہ جہتی خدمات انجام دیں۔ اخوان نے ایک طرف تعلیم یافتہ طبقے پر توجہ دی، تو دوسری طرف کسانوں اور مزدوروں کے طبقوں میں سرگرمیاں تیز کردیں۔ قرآن وحدیث سے اسلام کا صحیح اور جامع تصور پیش کیا۔ طلبہ اور اساتذہ کے اندر دین کی روح پھونکی جس سے ہوا کا رخ ہی بدل گیا اور اہل علم وادب اسلامی نظام کی قصیدہ خوانی میں لگ گئے کہ: ’’اسلام عقیدہ بھی ہے اور عبادت بھی، وطن بھی ہے اور نسل بھی ، دین بھی ہے اور ریاست بھی، روحانیت بھی ہے اور عمل بھی ، قرآن بھی ہے اور تلوار بھی‘‘۔

میدان صحافت بھی اخوان کی توجہ کا مرکز رہا۔روز نامہ اخوان المسلمون،ماہنامہ المنار، ہفتہ روزہ التعارف، الشعاع، النذیر، الشھاب، الدعوۃ، المباحث جاری کیے۔  تعلیم کے میدان میں اخوان کی خدمات وسیع پیمانے پر ہیں۔ مثلاً لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے علیحدہ فنی درسگاہیں قائم کرنا، مزدوروں او ر کسانوں کے لیے شبینہ مدارس جاری کرنا، کمسن مزدور بچوں کے لیے تعلیم و تر بیت کے شعبے قائم کرنا، صنعتی تعلیم کے مراکز قائم کرنا۔ اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لیے معاشی کمپنیاں قائم کیں۔ طبی خدمات کے پیش نظر صرف قاہرہ میں ۱۷ شفا خانے تھے۔ زراعت کے میدان میں بھی قابل قد رخدمات انجام دیں، نیز معاشرتی خدمات کے لیے ایک مستقل بورڈ قائم تھا۔۲۷؎

اخوان المسلمون کی جماعت میں ایسے مصنف پیدا ہوئے جنھوں نے جملہ مسائل پرا سلام کی مدلل اور بے لاگ ترجمانی کی۔ ان ادیبوں نے مصر کے علاوہ شام، لبنان ، سعودی عرب، کویت، قطر، عراق ، فلسطین، اردن عالم عرب اورعالم اسلام کے دوسر ے ملکوں میں اپنی تحریروں کے تراجم کے ذریعے ہند وپاک کی اسلامی فکر کے ارتقا پر اپنے اثرات مرتب کیے ۔

سید قطبؒ (۱۹۰۶ئ-۱۹۶۶ئ)

پورا نام سید قطب ابراہیم شاذلی تھا۔ ۶؍اکتوبر ۱۹۰۶ کو بالاے مصر کے اسیوط شہر کے گاؤں موشا میںپیدا ہوئے۔ والد ابراہیم قطب، مصطفی کامل کی پارٹی الحزب الوطنی کے رکن تھے۔ دارالعلوم قاہرہ سے بی اے ایجو کیشن کی ڈگری حاصل کی۔ ایجو کیشن میں ایم اے کی ڈگری امریکا کے ولسنزٹیچرز کالج سے لی۔ امریکا کے قیام میں آپ نے مغربی تہذیب کی بربادی کابچشم خود مشاہدہ کیا اور اسلام پرا ن کے ایمان و ایقان میں اضافہ ہوا۔

ابتدا میںطہٰ حسین ، عباس محمود العقاد اور احمد حسن الزیات سے بڑے متاثر تھے، مگر بعد میں ان کے اسلوب اور افکار کے مخالف اور ناقد بن گئے۔ ۱۹۵۳ء میں الاخوان المسلمون کے مدیرر ہے، مکتب الارشاد کے رکن منتخب ہوئے ۔ بیت المقدس میں منعقد ہونے والی اسلامی کا نفرنس میں شرکت کی۔ معاشرتی بہبود کے سرکل کی طرف سے مختلف موضوعات پر لیکچر دیے۔ انھیں ۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء کو پھانسی دی گئی۔ آپ کی تصانیف کی تعداد ۲۲ ہے: oفی ظلال القرآن oالعدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام oمشاھد القیامۃ فی الاسلام oالتصویر الفنی فی القرآن oالاسلام العالمی والاسلام oالمدینۃ المسحورۃ oالقصص الدینیۃoحلم الفجر oالشاطئی المجھول۲۸؎

عبدالقادر عودۃ (م:۱۹۵۴ئ)

ممتاز قانون دان شیخ عبدالقادر عودہ، اخوان المسلمون کے رہنما تھے۔ شاہ فاروق کے زمانے میں مصری عدالت کے جج مقرر ہوئے، مگر غیرالٰہی قانون کے مطابق فیصلوں کے نفاذ کے سبب اس منصب سے استعفا دے دیا۔ موصوف متعدد کتابوں کے مصنف تھے، لیکن آپ کی کتاب التشریح الجنائی الاسلامی(اسلام کا قانون فوجداری ) نے سب سے زیادہ شہرت پائی۔ آپ کی دیگر تصانیف اس طرح ہیں: 

oالاسلام وأضاعناالقانویۃ (اسلام اور ہمارا قانونی نظام) oالاسلام وأوضا عنا السیاسیۃ(اسلام اور ہماراسیاسی نظام ) oالمال والحکم فی الاسلام (اسلام میںمالیات اور حکمرانی کے اصول) oالاسلام حائر بین جھل أبنائہ وعجز علمائہ( اسلام اپنے فرزندوں کی جہالت اور اپنے علما کی کوتاہ دستی پر حیران ہے! ۲۹؎ دسمبر ۱۹۵۴ء میں جن چھے اخوانی رہنماؤں کو پھانسی کی سزادی گئی ان میں عبدالقادر عودہ شہید بھی تھے۔

مصطفٰی محمد الطحان

۱۹۳۸ء میںلبنان میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۴ء میں استنبول یونی ورسٹی ترکی سے کیمیکل انجینیرنگ میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۶۹ء میں عالم عرب میں موجودہ استنبول یونی ورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ کی تنظیم قائم کی اور انھیں احیاے اسلام کے لیے جد وجہد کرنے پر اُبھارا۔  الاتحاد اسلامی العالمی للمنظمات الطلابیہ (IIFSO)کو یت کی تاسیس میںپیش پیش رہے۔ ۱۹۸۰ء میں اس تنظیم کے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے۔

فکر اسلامی اور دعوتی وجہادی تحریکات پر بیسیوں کتابیں لکھیں، جن میں سے چند یہ ہیں: oالفکر الحرکی بین الا صالۃ والانحراف(تحریکی فکر۔ بنیاد پرستی اور انحراف کے درمیان)oالحرکۃ الاسلامیہ الحدیثۃ فی ترکب(ترکی میں جدید اسلامی تحریک) oالقومیۃ بین النظریہ والتطبیق(قومیت: نظریہ اور نفاذ ) oالنظام الاسلامی منھاج متفرد(اسلام: ایک منفرد نظام) oالمرأۃ فی موکب الدعوۃ (دعوت دین اور خواتین ) oنظرات فی واقع المسلمین السیاسی (مسلمانوں کی سیاسی صورت حال پر چند مباحث) ۳۰؎

ڈاکٹر طہٰ جابر العلوانی

آپ ۱۳۵۴ھ /۱۹۳۵ء میں عراق میںپیدا ہوئے۔۱۳۷۸ھ/ ۱۹۵۹ء میں جامعۃ الازہر قاہرہ سے کلیتہ الشرعیہ سے بی اے ، ایم اے اور اصول الفقہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اسلامی فقہ آپ کی دل چسپی کا خصوصی موضوع ہے۔ آپ کی تصانیف اس طرح ہیں: oالاجتہاد والتقلید فی الاسلام (اسلام میں اجتہاد اور تقلید) o حقوق المتھم فی الاسلام (اسلام میں ملزم اور متہم کے حقوق) oادب الاختلاف فی الاسلام(اسلام میں اختلاف کے اصول) oاصول الفقہ الاسلامی منھج بحث و معرفۃ (اسلامی فقہ کے اصول اور منہا جیات) oالأزمۃ الفکریۃ المعاصرۃ ( معاصر فکری بحران) ۳۱؎

ڈاکٹر عماد الدین خلیل

موصوف عراق کے شہر الموصل میں ۱۳۵۸ھ/ ۱۹۳۹ء میںپیدا ہوئے۔ جامعہ شمس قاہرہ سے ۱۳۸۸ھ/ ۱۹۶۸ء میں تاریخ اسلامی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ آج کل صلاح الدین یونی ورسٹی اردبیل عراق کے آرٹس کالج میں اسلامی تاریخ ، منہاجیات و فلسفۂ تاریخ کے پروفیسر ہیں۔ آپ ۵۰ سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں اور سیکڑوں مقالات ومضامین لکھ چکے ہیں۔ آپ کی چند کتابیں یہ ہیں: oآفاق قرآنیہ ( قرآن آفاق) o العلم فی مواجھۃ المادیۃ (سائنس مادیت کے مقابلے میں ) o حول اعادۃ تشکیل العقل المسلم (فکر اسلامی کی تشکیل جدید) oالتفسیر الاسلامی للتاریخ (تاریخ کی اسلامی تفسیر) o دراسۃ فی السیرۃ (سیرت طیبہ پر ایک مطالعہ ) ۳۲؎

ڈاکٹر عبدالحمید احمد ابو سلیمان

سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں شوال ۱۳۵۵ھ /دسمبر۱۹۳۶ء میں آپ پیداہوئے۔ قاہر ہ کالج آف کامرس سے پولیٹیکل سائنس میں بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ۱۹۷۳ء میں پنسلوانیا یونی ورسٹی سے اسلام اور بین الاقوامی تعلقات کے موضوع پر ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کی اہم تحریر یں یہ ہیں: oقضیۃ المنھجیۃ فی الفکر الاسلامی (فکر اسلامی میںمنہاجیات کا مسئلہ ) oأزمۃ العقل المسلم (فکر اسلامی کا بحران )۳۳؎

ڈاکٹر فتحی یکن

آپ کی پیدایش طرابلس میں ۱۹۳۳ء میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم المعہد الامریکی سے حاصل کی۔ ۱۹۷۳ء میں آپ نے کراچی یونی ورسٹی پاکستان سے اسلامک اسٹڈیز میں ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۹۲ء میں لبنان کی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ دعوت و تحریک الاسلام کے مختلف موضوعات پرا ٓپ کی دو درجن سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ چند کتابوں کے نام یہ ہیں:oالاسلام فکرۃ وحرکۃ وانقلاب(اسلام،نظریۂ تحریک اور انقلاب ) o التربیۃ الوقائیۃ فی الاسلام (اسلام میں احتیاطی تربیت کا تصور) oمشکلات الدعوۃ والداعیۃ(دعوت اور داعیان کرم کے مسائل) oالصحوۃ الاسلامیہ مقوماتھا ومعوقاتھا(اسلامی بیداری، فرائض اور رکاوٹیں)۳۴؎

ڈاکٹر سعید رمضانؒ (۱۹۲۶ئ-۱۹۹۵ئ)

ڈاکٹر سعید رمضان مصر کے شہر طنطا میں ۱۲؍اپریل۱۹۲۶ء کو پیدا ہوئے۔ اخوانی رہنمااور عالم ڈاکٹر البہی الخولی کے ہاتھوں آپ کی تعلیم و تربیت ہوئی۔ نوجوانی میں جلاوطنی کے چند برس کراچی، پاکستان میں گزارے، جہاں پر جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ سے قربت پیدا ہوئی۔ آپ نے ۱۹۵۹ء میں کولون یونی ورسٹی جرمنی سے قانون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر رمضان نے عالمِ عرب، عالمِ اسلام اور یورپ کے بیش تر ملکوں میں اخوان کی فکر ، طریق کار اور اصولوں کو عام کیا۔ مجلہ شہاب کے بعد قاہرہ سے ماہنامہ المسلمون نکالا۔آپ کی چند کتابوں کے نام یہ ہیں:mThree Major Problems Confronting the World of Islam  (عالم اسلام کو در پیش تین اہم مسائل) ۳۵؎  mIslamic Law:Its Scope and Equity  (اسلامی قانون: امکانات اوراطلاق)

پروفیسر محمد قطب

استاذ محمد قطب سید قطب شہید کے چھوٹے بھائی ہیں۔ پیدایش اسی خانوادہ میں ۲۶؍اپریل ۱۹۱۹ء کو ہوئی ۔ قاہرہ یونی ورسٹی سے انگریزی زبان اور جدید علوم کی تحصیل کی۔ اس کے بعد ایجوکیشن میںڈپلو ما اور ایجو کیشن سائیکالوجی کا کورس مکمل کیا۔

پروفیسر قطب کامیدان کار ادب اور تصنیف کا رہا۔ آپ نے اسلام،دعوت اسلامی اور مسلمانان عالم کے موضوعات پر دو درجن سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔ ان میں سے چند اہم کتابوں کے نام یہ ہیں: oالانسان بین المادیۃ والاسلام(انسان مادہ پرستی اور اسلام کے درمیان) oمنھج الفن الاسلامی(اسلامی فن کی منہاجیات) oفی النفس والمجتمع (نفسیات اور معاشرے کا مطالعہ) oالتطور والشبات فی الحیاۃ البشریۃ(انسانی زندگی  میں جمود اور ارتقا) oقبسات من الرسول (رسول اکرمؐ کی تعلیمات کی چند جھلکیاں)۳۶؎

زینب الغزالیؒ (۱۹۱۷-۲۰۰۵ئ)

اخوان المسلمون کی اہم ادیبہ ومصنفہ کی پیدایش ۲جنوری ۱۹۱۷ء کوہوئی۔ ابتدائی تعلیم گھر میں اور ثانوی تعلیم کے لیے سرکاری اسکول میں داخلہ لیا، جہاں سے علم حدیث، تفسیر اوردعوہ میں سرٹیفکیٹ حاصل کیے۔ ۱۸ سال کی عمر میں ۱۹۳۶ء میں آپ نے ’جماعۃ السیدات المسلمات‘ کی بنیاد رکھی۔ا ٓپ کی خود نوشت ایام من حیاتی (رودادِ قفس، ترجمہ: خلیل احمد حامدی) قید وبند   کے ایام سے متعلق ہے۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد اخوان کے ترجمان الدعوۃ، اور دوسرے   رسالہ لواء الاسلامکے ذریعے قلمی جہاد کا سلسلہ جاری رکھا ۔ عالم اسلامی کی یہ معروف معلمہ ، مبلغہ ۸؍اگست ۲۰۰۵ء کو خالق حقیقی سے جاملیں۔۳۷؎

شیخ محمد الغزالیؒ (۱۹۱۷ئ-۱۹۹۶ئ)

مصر کے ممتاز عالم ۱۳۳۶ھ/۱۹۱۷ء میں بحیرہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ محمد الغزالی نے ۱۹۴۱ء میں جامعۃ الازہر سے فراغت حاصل کی۔ مصر میں مساجد کو نسل کے ڈائریکٹر ، اسلامی دعوۃ کے ڈائریکٹر جنرل اور وزارت اوقاف میں انڈر سکریٹری کی حیثیت میں آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ شیخ محمدا لغزالی نے کم وبیش ۴۰ کتابیں تصنیف کیں۔ چند اہم کتابوں کے نام یہ ہیں:o تأملات فی الدین والحیاۃ(دین اور زندگی کے چند مسائل پر غور وفکر) oرکائز الایمان  بین العقل والقلب(عقل وقلب کے درمیان ایمانی ذخیرے) oعقیدہ المسلم (مسلم کا عقیدہ) oالاسلام والطاقات المعطلۃ (اسلام اور معطل قوانین)oمن ھنا نعلم (یہاں سے ہمیں علم حاصل ہوتا ہے)۳۸؎

ڈاکٹر مصطفٰی السباعیؒ (۱۹۱۵-۱۹۶۴ئ)

شیخ مصطفی السباعی علما کے خانوادہ میں شہر حمص میں پیدا ہوئے۔ جامعۃ الازہرمیں داخلہ لے کر آپ نے مصر کی اسلامی وسیاسی جدو جہد میں بھر پور حصہ لیا۔ آپ کی کتابیں اس طرح ہیں: oاشتراکیہ الاسلام (اسلام کا تصور اشتراکیت) oالسیرۃ النبویۃ ۔دروس و عبر (سیرت نبویؐ ، عبرت ونصیحت کا خزینہ) oمن روائع حضارتنا (ہماری تہذیب کے   تابناک پہلو) oالمرأۃ بین الفقہ والقانون(عورت اسلامی فقہ اور جدید قوانین کے تناظر میں)۔ آپ نے تین معروف علمی جرائد کی ادارت کے فرائض انجام دیےoالمنار oالمسلمون oحضارۃ الاسلام۔ ۳۹؎ 

عبدالبدیع صقر

عبدالبدیع صقر ابراہیم، اخوان المسلمون کے سابقوں الاولون میں سے تھے۔ ۱۹۳۶ء میں امام حسن البنّا سے ملاقات ہوئی تو ان کی فکر اور شخصیت کے اسیر ہو کر رہ گئے۔ شیخ صقر نے ۱۹۴۰ء میںاپنی معروف کتاب کیف ندعوا الناس؟  تصنیف کی او ر دعوت دین کے طریقۂ کا ر پر کھل کر گفتگو کی۔ آپ نے انفرادی تزکیہ و تربیت پر زیادہ زور دیا اور اسے کلیدِ انقلاب قرار دیا۔ چند تصانیف کے نام یہ ہیں:oلأخلاق للبنات( لڑکیوں کا اخلاق) oالتجوید و علوم القرآن  (تجوید اور علوم قرآن) oالتربیۃ الأساسیۃ للفرد المسلم(مسلمان کی بنیادی تربیت) oرسالۃ الایمان oالوصایا الخالدۃ (دائمی نصیحتیں)۔۴۰؎

عبد الفتاح ابوغدّہؒ (۱۹۱۷ئ-۱۹۹۷ئ)

شیخ عبدالفتاح بن محمد بشیر بن حسن ابوغدّہ شمالی شام کے شہر حلب الشہباء میں ایک دین دار تاجر گھرانے میںپیدا ہوئے۔ ابتدا ئی تعلیم اسی شہر میں المدرسۃ العربیۃ الاسلامیہ میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے کلیۃ الشریعۃ جامعۃ الازہر میں داخل ہوئے اور ۱۹۴۴-۱۹۴۸ء میں وہاں سے فارغ التحصیل ہوئے۔ دعوتی وتبلیغی میدان میںشیخ ابو غدّہ کی شخصیت بڑی ممتاز تھی۔ آپ کی چند مشہور کتابیں یہ ہیں: o العلماء العزاب الذین أ ثر والعلم علی الزواج(شادی پر علم کو  ترجیح دینے والے علما) oقیمۃ الزمن عند العلمائ(علما کے نزدیک و قت کی قدروقیمت) oالرسول المعلم واأسا لیبہ فی التعلیم (معلم انسانیت اوران کے تعلیمی طریقے) oامراء المومنین فی الحدیث(مسلمان حکمران حدیث کی روشنی میں)۔ ا۴؎

محمد محمود الصواف ؒ (۱۹۱۵ئ-۱۹۹۲ئ)

محمد محمود الصواف اوائل شوال ۱۳۳۳ھ مطابق ۱۹۱۵ء شمالی عراق کے شہر الموصل میںپیدا ہوئے۔ آغاز عمر ہی سے طلب علم کے بڑے دل دادہ تھے۔ علوم شریعت کی تحصیل کے لیے جامعۃ الازہر کا رُخ کیا اور چھے سالہ نصاب کی تکمیل تین سال ہی میں کرڈالی۔ ۱۲ ربیع الثانی ۱۴۱۳ھ مطابق ۹؍اکتوبر ۱۹۹۲ء کو آپ کا انتقال ہوا۔ موصوف نے مختلف علمی ودینی موضوعات پر متعدد کتابیں لکھیں چند کے نام یہ ہیں: oالمسلمون و علم الفلک ( علم فلکیات اور مسلمان) oالقیامۃ رای العین (قیامت کا چشم دید منظر) oزوجات النبی الطاھرات (اُمہات المومنینؓ) oرِحلاتی الی الدیار الاسلامیہ (سفرنامہ عالم اسلام)۔ ۴۲؎

ڈاکٹر نجیب الکیلانی (۱۹۳۱ئ-۱۹۹۵ئ)

ڈاکٹر نجیب الکیلانی ۱۳۵۰ھ/۱۹۳۱ء میںایک مصری گاؤں شرشابہ میں ایک کسان خاندان میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۹ء میں طنطا سے ثانویہ کا سرٹیفکٹ حاصل کیا۔ پھر میڈیکل کا لج قاہرہ یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ ۱۹۶۰ء میں طب کی ڈگری حاصل کی۔ طبابت کے پیشے کے ساتھ تعمیری ، بامقصد ناول، ڈرامے اور قصے بھی برابر لکھتے رہے۔ ڈاکٹر کیلانی نے ۷۰ سے زائد کتابیں لکھیں۔ ناول ، قصوں کے ساتھ شعر، تنقید، فکر اسلامی اور طب کے تمام پہلوؤں پر قلم اٹھایا ہے۔تصانیف: ارض الانبیائ، لیالی ترکستان، عمالقۃ الشمال وغیرہ اور تاریخی ناول میں مملکتہ الغیب، امرأۃ عبدالمتجلی، أقوال ابوالفتوح الشرقاوی بہت اہم ہیں۔ شاعری کے میدان میں عصر الشہدا ،أغانی الغرباء ،مدینۃ الکبائر وغیرہ اور تنقید میں الاسلامیہ والمذاہب الأدبیۃ ، مدخل الی الادب الاسلامی اور علی أسوار دمشق ، علی ابواب خیبر وغیرہ ڈرامے بڑے قابل قدر ہیں۔ ۴۳؎

اسلامی تحریک کی کامیابی کے لیے عمدہ نظم ونسق او ر جامع مکمل منصوبہ بندی ناگریز ہے۔  یہ دونوں اوصاف حالات کے تھپیڑوں ، شدائد و مظالم کے طوفان کا جم کر مقابلہ کرسکتے ہیں اور کامیابی سے ہم کنار کرتے ہیں۔ عصرِحاضر میں اسلامی تحریکوں نے اس پہلو پر خصوصی توجہ دی ہے:

۱- تمام اسلامی تحریکوں نے تربیت و تزکیہ کے تمام پہلوؤں پر کافی توجہ دی ہے۔     تربیتی کارگاہوں کا انعقاد، عربی، اردو، انگریزی او ر دوسری مقامی و بین الاقوامی زبانوں میں   تربیتی کتب کی تصانیف اور ایک زبان سے دوسری زبان میں تراجم اس کا اہم حصہ ہیں۔    الاخوان المسلمون کی تربیتی ادبیات میں تزکیہ و تربیت سے متعلق کتب کی ایک طویل فہرست ہے۔

۲- اسلامی تحریکات میں فرد کی تربیت کی بنیادی اہمیت ہے، کیوں کہ اسلامی شریعت کا خطاب سب سے پہلے فرد سے ہے، اور افراد کی اصلاح و تزکیے کے ذریعے صالح اجتماعیت وجود میں آسکتی ہے۔

۳- الاخوان المسلمون کے بانی شیخ حسن البنا شہیدؒ نے بیعت کے ۱۰ ناگزیر اجزا پر زور  دیا ہے جو دراصل اسلامی شخصیت کے عناصر ترکیبی ہیں: ۱-فہم ۲-اخلاص ۳-عمل ۴-جہاد ۵-قربانی ۶-اطاعت کیشی۷ -ثابت قدمی ۸-یکسوئی ۹- بھائی چارہ۱۰- باہمی اعتماد۔

۴- اخوان المسلمون نے فرد کے اخلاقی و روحانی تزکیے کے لیے جو نظام ترتیب دیا ہے اس میں متصوفانہ اصطلاحات سے اجتناب کرتے ہوئے عام فہم اور آسان الفاظ میں فرد کے اخلاقی اوصاف ومحاسن سے بحث کی ہے۔

۵- جماعت اسلامی ہندستان، پاکستان، بنگلہ دیش نے فر د کی تربیت و تزکیہ کا جو نظام ترتیب دیا، اس میں بنیادی اہمیت قرآن وحدیث کے براہ راست مطالعے کو حاصل رہی۔مولانا مودودی    کی تفسیر تفہیم القرآن ، مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر تدبرقرآن اور سید قطب کی تفسیر     فی ظلال القرآن کے اُردو ترجموں نے کا رکنوں کی تربیت پر زبردست اثرات مرتب کیے ۔

۶- الاخوان المسلمون کے تربیتی نظام میں اوراد و اذکار کا اہتمام ، وظائف ، نوافل، اور  تہجد گزاری شامل تھے۔ اور ’احتسابی چارٹ‘ کی خانہ پری تزکیۂ نفس کے لیے ضروری قرار دے دی گئی تھی۔

 

مقالہ نگار شعبہ علومِ اسلامیہ ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ، بھارت میں استاد ہیں

حواشی و تعلیقات

۱-            شیخ علی عبدالرازق(۱۸۸۸ئ-۱۹۶۶ئ) کی مشہور تصنیف: الاسلام وأصول الحکم بحث فی الخلافۃ والحکمۃ فی الاسلام قاہرہ سے ۱۹۲۵ء میں شائع ہوئی۔

۲-            ڈاکٹر طہٰ حسین (۱۸۸۹ئ-۱۹۷۱ئ) مصر کے مشہور ناول نگار ۔ الشعر الجاھلی کے علاوہ مستقبل الثقافۃ فی مصر  بھی ا ٓپ کی کتاب ہے جس میں مغرب کی تقلید پر بڑا زور دیا گیا ہے

۳-            قاسم امین (۱۸۶۳-۱۹۰۸ئ) مصر کے معروف ادیب جن کو’ محرر المرأ ۃ‘ کا خطاب دیا گیا۔

۴-            سید جمال الدین افغانی (۱۸۳۸ئ-۱۸۹۷ئ)افغانستان کے شہر اسد آباد میںپیدا ہوئے۔ آپ کی کتابیں تاریخ الافغان ، رسالۃ الردّ علی الدھر یین طبع ہو چکی ہیں۔

۵-            مفتی محمد عبدہٗ(۱۸۴۹ئ-۱۹۰۵ئ)۔ رسالۃ التوحید، رسالہ الواردات، الاسلام و النصرانیۃ مع العلم والمدینۃ آپ کی اہم تصنیفات ہیں۔ اسکندر یہ میں آپ کی وفات ہوئی۔

۶-            سید محمد رشید رضا(۱۸۶۵ئ-۱۹۳۵ئ) نداء للجنس اللطیف، یسرا لاسلام وأ صول التشریع العام ، الوھا بیون والحجاز آپ کی اہم کتابیں ہیں۔

۷-            مصطفی صادق الرافعی(۱۸۸۱ئ-۱۹۳۷ئ) اعجاز القرآن البلاغۃ والنبوتہ اور تحت رأیۃ القرآن، ان کی معروف تصانیف ہیں۔ آپ کی طنطا میں وفات ہوئی۔

۸-            محمدفرید وجدی(۱۸۷۸ئ-۱۹۵۴ئ)کی پیدایش اسکندریہ میں ہوئی۔ دائرۃ معارف القرآن، الرابع عشر العشرین  آپ کا علمی اور تحقیقی کا رنامہ ہے۔

۹-            محب الدین الخطیب (۱۸۸۶ئ-۱۹۶۹ئ)، کتب: تاریخ مدینۃ الزھراء بالأندلس،الرعیل الاول فی الاسلام ، اتجاہ الموجات، الشریۃ فی جزیرہ العرب ۔

۱۰-         شیخ حسن البنّا کے احوال کے لیے، پڑھیے: امام حسن البنا، ایک مطالعہ، مرتبہ: عبدالغفار عزیز، سلیم منصور خالد، ۲۰۱۱ئ، منشورات، منصورہ، لاہور، پاکستان

۱۱-         خلیل احمد حامدی، اخوان المسلمون، تاریخ دعوت، خدمات، ۱۹۸۱ء ص ۴۳-۴۴

۱۲-         انور الجندی ، حسن البنّا الداعیۃ ، الامام المجدد اردو ترجمہ محمد سمیع اختر حسن البنّا شہید، ۱۹۹۱ئ،ص ۳۱۸۔

۱۳-         حسن الہضیبی مصری کالج سے قانون کی ڈگری لی ۲۷ سالوں تک جج کے فرائض انجام دیے۔

۱۴-         خلیل احمد حامدی حوالہ بالا، ص ۱۲۷

۱۵-         سید عمر تلمسانی ۴؍نو مبر ۱۹۰۴ء کو قاہرہ کے علاقہ غوریہ میںپیدا ہوئے۔ بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد یونی ورسٹی لا کالج میں داخل ہوئے۔

۱۶-         The Oxford Encyclopaedia of the Modern Islamic World, 1995. vol2,p.354-356,article on Al Jamaat,at-Islamia

۱۷-         سید عمر تلمسانی ، یادوں کی امانت، (ترجمہ: حافظ محمد ادریس) مدینہ پبلشنگ سینٹر، دہلی، ۱۹۹۳، ص۳۵۷-۳۵۹

۱۸-         استاذ محمد حامد ابو النصرؒ فریدی،۱۹۱۳ میں مصر کے شہر منفلوط میںپیدا ہوئے۔

۱۹-         ہفت روزہ المجتمع کویت، شمار ۱۱۷۸، ۵؍دسمبر ۱۹۹۵ء ، ص ۳۰-۳۲

۲۰-         حاضر العالم الاسلامی عام ۱۹۲۲م، المرکز العالمی للکتاب الاسلامی ، کویت، ص ۹۷-۹۸

۲۱-         استاذ مصطفی مشہور، قاہرہ کلیۃ العلوم سے فلکیات اور رصد کا ری میں گریجویشن کیا ۔

۲۲-         عبید اللہ فہد فلاحی، اخوان المسلمون ، القلم پبلی کیشنز ، کشمیر، ۲۰۱۱ئ، ص ۳۹-۴۳

۲۳-         آپ کے والد حسن اسماعیل الہضیبی نامور قانون دان تھے۔ ۲۸مئی ۱۹۲۱ء کوآپ کی ولادت ہوئی۔  کلیۃ الحقوق سے گریجویشن کے بعد مصر کی عدالت میں بحیثیت جج تقرر ہوا۔

۲۴-         استاذ محمد مہدی عاکف ۲۱؍جولائی ۱۹۲۸ء کو مصری ڈیلٹا کے قہلیہ خطہ میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۵۰ء میں فیزیکل ہیلتھ ایجوکیشن کالج سے گریجویشن کی تکمیل کی۔

۲۵-         Egypt's New Dilemma  ،  The Guardian، لندن، ۹دسمبر ۲۰۰۵ء

۲۶-         ڈاکٹرمحمد البدیع۔ مصری سائنسی انسائیکلوپیڈیا کے مطابق عرب دنیا میں پتھالوجی میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔

۲۷-         خلیل احمد حامدی، اخوان المسلمون، تاریخ دعوت خدمات ، مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی

۲۸-         عبید اللہ فہد فلاحی ۔ سید قطب شہید کی حیات وخدمات کا تجزیہ، دہلی ،۱۹۹۳ء

۲۹-         خلیل احمد حامدی، اخوان المسلمون، ص۸۷

۳۰-         مصطفی محمد الطحان ، وسط ایشیا میں اسلام کا مستقبل، ترجمہ ڈاکٹر عبید اللہ فلاحی ، ۱۹۹۶ء

۳۱-         Taha Jabir al-Alwani, Ijtihad ,International Institute of Islamic Thought, Herndon, USA,1993.P32

۳۲-         عماد الدین خلیل ،مدخل الی اسلامیۃ المعرفۃ مع مخطط مقترح ا لا سلامیۃ علم التاریخ المعھد العالمی للکفر الاسلامی ، ہیرنڈن امریکا ۱۹۹۱ء ص ۲

۳۳-         Abdul Hamid A. Abu Sulayman, The Islamic Theory of International Relations, IIIT, Herndon,1987,P.2

۳۴-         ہفت روزہ المجتمع کویت، شمارہ ۱۱۵۲،۶؍جون۱۹۹۵ئ، ص۲۲

۳۵-         ہفت روزہ المجتمع  ۱۱۶۲،۱۵؍اگست ۱۹۹۵،ص۴۱

۳۶-         محمد اشرف علی، محمد قطب۔مساھمتہ فی النثر العربی الحدیث ، غیر مطبوعہ پی ایچ ڈی مقالہ، زیر نگرانی ڈاکٹر صلاح الدین عمری،شعبہ عربی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ،۱۹۹۵ء

۳۷-         زینب الغزالی،ایام من حیاتی، بیروت دارالقرآن الکریم، للعنایہ بطبعہ ونشر علومہ، ص۱۷۰-۱۷۱

۳۸-         قطب عبدالحمید قطب، خطب الشیخ محمد الغزالی فی شئون الدین والحیاۃ، دارالاعتصام ، قاہرہ، ۱۹۸۷ئ،الجزء الاول ص ۱۳-۱۷

۳۹-         The Oxford Encyclopedia of the Modern -Islamic World, vol. 1V,p.71-72

۴۰-         عبدالبدیع صقر، کیف ندعوالناس ،المکتب الاسلامی، بیروت، طبع ششم ، ۱۹۷۷، ص۱۰و۱۶۵۔

۴۱-         المجتمع کویت، شمارہ ۱۲۳۹، ۲۵؍ فروری۱۹۹۷ئ،ص۳۴-۳۷۔

۴۲-       "    ۱۲۷۰،۷؍اکتوبر ۱۹۹۷ء ص ۵۱۔

۴۳-      "     ۱۳۲۶،۱۷؍نومبر ۱۹۹۸ئ، ص۴۸-۵۰۔

۴۴-         عبید اللہ فہد فلاحی ، اخوان المسلمون،القلم پبلی کیشنز ۲۰۱۱،ص ۲۰۹-۲۴۳۔

 

لفظ’ سیکولر‘اپنے لغوی اور اصطلاحی مفہوم میں یورپ کے مذہبی ماحول کی پیداوار ہے۔ عیسائی مذہب کی جو تشریح اور تعبیر پولوس نے کی،اس میں چند اخلاقی اصول تو موجود تھے، لیکن شریعت کی اس میں کوئی گنجایش نہ تھی۔ اس زمانے کے مروجہ باطنی مذاہب اور اسرار میں یہ تصور موجود تھا کہ انسانی روح ایک پاکیزہ شے ہے، جو بدقسمتی سے اس مادی دنیا کی قید میں اسیر ہوگئی ہے۔ اس لیے انسان کا نصب العین یہ ہے کہ جہاں تک ہوسکے، اس دنیاوی زندگی کی آلایش سے اپنے آپ کو پاک رکھا جائے۔ انھی تصورات کے زیراثر پولوس نے حضرت عیسٰی ؑکی تعلیم کو اس طرح پیش کیا کہ گویا وہ بھی اسی مقصد کی خاطر اس دنیا میں آئے تھے۔ چنانچہ پہلی دو تین صدیوں تک عیسائیوں کی کثیرتعداد اپنی انفرادی نجات کی کوششوں میں منہمک رہی۔ معاشرتی اور تمدنی ذمہ داریاں ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھیں۔ عیسائیت ایک نظامِ رہبانیت تھا، جو اس ناپاک دنیا میں قائم کیا گیا اور جس کا مدنی اُمور میں کوئی دخل نہیں تھا۔ چنانچہ جہاں تک عملی زندگی کا تعلق ہے، وہ ہرمعاملے میں رومی حکومت کے زیرفرمان رہی۔ قسطنطین نے بادشاہ بننے کے بعد عیسائیت قبول کرلی۔ اس نے کوشش کی کہ اس نئے مذہب کی بنیاد پر رومی سلطنت میں اتحاد و یگانگت پیدا کرسکے لیکن حقیقت میں عیسائیت بطور نظامِ اجتماع نہ اُس وقت کارآمد تھی اور نہ اس وقت کارآمد ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قسطنطین کے جانشین جولین نے پھر سے دیوتا پرستی کی طرف رجوع کیا اور اس کی فلسفیانہ تاویلات سے لوگوں میں وحدتِ افکار و کردار پیدا کرنے کی کوشش کی۔

انھی قدیم باطنی اَسرار اور عیسائیت کے تصورات کی آمیزش سے مانی نے اپنا فلسفۂ حیات پیش کیا۔ اس کی نمایاں خصوصیت جسم و روح، مادیت و روحانیت، یزدان و اہرمن کی مطلق ثنویت ہے جن میں کسی قسم کا نقطۂ اتصال موجود نہیں۔ اس مانوی تحریک نے عیسائیت کے ارتقا پر بڑا اثر ڈالا۔ اگستائن جس نے کلیسا کی ابتدائی تاریخ میں ایک مؤثر کردار ادا کیا ہے، عیسائیت قبول کرنے سے پہلے مانوی مذہب ہی کا پیرو تھا۔ محققین کا خیال ہے کہ نوروظلمت کی مانوی ثنویت کے افکار اس کے باعث عیسائیت میں رائج ہوئے۔ جیساکہ اقبال نے خود ایک جگہ کہا ہے کہ ’’مغرب نے مادے اور روح کی ثنویت کا عقیدہ مانویت کے زیراثر قبول کرلیا ہے۔ اس کے برعکس اسلام کے نزدیک ذات انسانی بجاے خود ایک وحدت ہے۔ وہ مادے اور روح کی کسی ناقابلِ اتحاد ثنویت کا قائل نہیں۔ اسلام کی رُو سے خدا اور کائنات، روح اور مادہ ایک ہی کُل کے مختلف اجزا ہیں۔ انسان کسی ناپاک دنیا کا باشندہ نہیں جس کو اسے ایک روحانی دنیا کی خاطر ترک کردینا چاہیے۔ اسلام کے نزدیک مادہ، روح کی اس شکل کا نام ہے جس کا اظہار قیدمکانی و زمانی میں ہوتا ہے۔

خطبات میں فرماتے ہیں کہ ’’اسلام نے روحانی اور مادے کی تفریق کبھی روا نہیں رکھی۔ کسی عمل کی ماہیت کا فیصلہ اس لحاظ سے نہیں کیا جاتا کہ اس کا تعلق کسی حد تک حیاتِ دنیوی یا سیکولر سے ہے، بلکہ اس کا انحصار صاحب ِ عمل کے ذہنی رجحان پر ہے۔اگر زندگی کی مقصدیت کو سامنے نہیں رکھا جاتا تو ہمارا عمل دنیوی ہے، اور اگر یہ مقصدیت ہماری آنکھوں سے اوجھل نہیں تو ہمارا عمل روحانی ہے۔ قرآن پاک کے نزدیک حقیقت مطلقہ محض روح ہے اور اس کی زندگی عبارت ہے اُس فعالیت سے جس کو ہم زمانے میں جلوہ گر دیکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ طبیعی اور مادی اور دنیوی ہی تو ہے جس میں روح کو اپنے اظہار کا موقع ملتا ہے اور اس لیے ہر وہ شے جسے اصطلاحاً سیکولر کہا جاتا ہے اپنی اصل میں روحانی تسلیم کی جائے گی‘‘۔(تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ،ص ۲۳۷- ۲۳۹)

تن و جاں را دوتا گفتن کلام است

تن و جاں را دوتا دیدن حرام است

بہ جاں پوشیدہ رمزِ کائنات است

بدن حالے ز احوالِ حیات است

(تن و جاں کو الگ الگ کہا تو جاسکتا ہے، مگر انھیں الگ الگ سمجھنا حرام ہے۔ جان کے اندر کائنات کا راز پوشیدہ ہے، بدن احوالِ حیات میں سے ایک حال ہے)۔

زندگی کے اس غلط نقطۂ نظر کے باعث عیسائی مذہب میں شروع ہی سے کلیسا اور ریاست کے درمیان ایک قسم کا بُعد اور تفریق پیدا ہوگئی۔ یہ صحیح ہے کہ کلیسائی اقتدار اور حاکمیت نے کافی عرصے تک یورپ کے مختلف ملکوں میں خالص دینی بنیاد پر اتحاد و یگانگت قائم رکھی لیکن لوتھر کی بغاوت سے یہ حالات یکسر بدل گئے۔ ہزار برائیوں کے باوجود کلیسائی اقتدار نے مذہبی اور اخلاقی اقدار کو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا نصب العین بنایا ہوا تھا۔ لوگ زندگی کے ہر پہلو کو مذہبی اور اخلاقی نقطۂ نگاہ کے مطابق ڈھالتے تھے۔ ان کی معاشرتی طرزِ زندگی، ان کا اقتصادی اور معاشی نظام، سلطنتوں کے باہمی میل جول سبھی اخلاقی اصولوں کی روشنی میں طے پاتے تھے۔ لیکن لوتھر نے جب کلیسا کے خلاف آواز اُٹھائی تو اس سے بہت سے دیگر نتائج کے علاوہ دو باتیں خاص طور پر ظاہر ہوئیں۔ پروٹسٹنٹ راہنمائوں نے مروجہ مذہبی رسوم پر بڑی سخت تنقید کی۔ ان کا موقف یہ تھا کہ کلیسا کی حاکمیت کے زیراثر افراد کی آزادی اور اختیار ختم ہوچکا ہے۔ وہ مذہبی اور اخلاقی معاملات کا فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں۔ آخری فیصلہ ہرمعاملے میں کلیسا کا ہوتا ہے۔ اس کے خلاف ان راہنمائوں کا موقف یہ تھا کہ اخلاق کا آخری معیار ہر انسان کا اپنا دل اور ضمیر ہے۔ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذہب کی سماجی اہمیت ختم ہوگئی۔ ہرآدمی کو اجازت تھی کہ وہ اپنی داخلی زندگی میں مذہب سے وابستگی قائم رکھتے ہوئے زندگی کے دوسرے شعبوں میں جس طرح چاہے عمل کرے۔ مذہب محض ایک شخص کا ذاتی معاملہ ہے۔ اس کا کوئی تعلق اس کی باقی ماندہ زندگی سے کچھ نہیں اور نہ ہونا چاہیے۔ اس اصول کے تحت مذہب اور ریاست میں مکمل علیحدگی اور تفریق پیدا ہوگئی۔ یہ تفریق ایک معنی میں اسی فلسفیانہ ثنویت کا منطقی نتیجہ تھی جو مغربی حکما نے بقول اقبال مانی کے زیراثر اختیار کی تھی:

بدن را تا فرنگ از جاں جدا دید

نگاہش ملک و دیں راہم دوتا دید

کلیسا سبحۂ پطرس شمارد

کہ او با حاکمی کارے ندارد

بہ کارِ حاکمی مکر و فنے بیں

تنِ بے جان و جان بے تنے بیں

(جب فرنگ نے بدن کو روح سے الگ دیکھا تو پھر اس نے حکومت اور مذہب کو بھی جدا جدا کردیا۔ کلیسا صرف پطرس کی تسبیح شمار کرتا رہا، اسے حکومت سے کوئی سروکار نہ رہا۔ اس کا نتیجہ ہے کہ وہاں حکومت مکروفن پر مبنی ہے، تن بے جان ہوگیا، اور جان بے تن)۔

ملک و دین ___ ریاست اور مذہب، مملکت اور اخلاق کی اس جدائی کا علَم بردار میکیاولی تھا جس نے اپنی کتاب پرنس(شہزادہ) میں حکومت کے معاملات میں مذہب اور اخلاق کو برطرف کرکے خالص ابن الوقتی حکمت عملی کی تلقین کی۔ اس باطل پرست اطالوی مفکر کے نزدیک مملکت ہی ’معبود‘ یعنی نصب العین ہے ،جس کی ضروریات کسی قانونِ اخلاق کے تابع نہیں:

باطل از تعلیم او بالیدہ است

حیلہ اندازی فنے گردیدہ است

طرحِ تدبیرِ زبوں فرجام ریخت

ایں خسک در جادۂ ایام ریخت

شب بچشم  اہلِ عالم چیدہ است

مصلحت تزویر را نامیدہ است

(اس کی تعلیم سے باطل نے فروغ پایا اور حیلہ اندازی نے فن کی صورت اختیارکرلی۔اس نے ایسے مسلک کی بنیاد رکھی جس کا انجامِ بہت بُرا تھا اور اس طرح زمانے کی راہ میں کانٹے بکھیردیے۔ اس نے دنیا والوں کی آنکھوں کے سامنے رات کی تاریکی پھیلا دی اور مکروفن کا نام مصلحت رکھ دیا)۔

اس ’حیلہ اندوز‘ اور ’پُر از تزویر سیاست کو اقبال ’لادین سیاست‘ یعنی سیکولرزم کا نام دیتا ہے:

مری نگاہ میں ہے یہ سیاستِ لادین

کنیزِ اہرمن و دوں نہاد و مُردہ ضمیر

ہوئی ہے ترکِ کلیسا سے حاکمی آزاد

فرنگیوں کی سیاست ہے دیوبے زنجیر

دین و اخلاق سے بے نیازی کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ لوگ بھی جو اپنی انفرادی زندگی میں اخلاق کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں اور مذہب کے احکام کی پیروی کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے، لیکن جب وہی افراد ریاست و حکومت کے معاملات اور بین الاقوامی مسائل پر غوروخوض شروع کرتے ہیں تو ہرقسم کے اخلاقی تقاضوں سے بے نیاز ہوکر فیصلہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی سیاست فساد فی الارض کا ایک بدترین سرچشمہ ہے۔ اقتدار کسی ایک مطلق العنان بادشاہ کے ہاتھ میں ہو یا عوام کے ہاتھوں میں، جب بھی سیاست کو اخلاق سے علیحدہ رکھا جائے گا تو اس سے فتنہ و فساد ہی پیدا ہوگا   ؎

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

ا س چنگیزی کے باعث انسان کی تمدنی زندگی تباہی سے دوچار ہے۔ ہرقسم کی ترقی کے باوجود انسان اپنی زندگی کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہیں۔ معاشی زندگی میں استحصال و لُوٹ، سماجی زندگی میں بے چینی اور خودغرضی، بین الاقوامی سطح پر باہمی بداعتمادی، جنگ کی خوف ناک تیاریاں، یہ سب پریشان کن حالات اقبال کے خیال میں صرف سیکولر نقطۂ نگاہ اختیار کرنے کا نتیجہ ہیں:

یورپ از شمشیرِ خود بسمل فتاد

زیر گردوں رسمِ لادینی نہاد

گرگے اندر پوستینِ برۂ

ہر زماں اندر کمینِ برۂ

مشکلاتِ حضرتِ انساں ازو ست

آدمیت را غم پنہاں ازو ست

(یورپ اپنی تلوار سے خود ہی گھائل ہوچکا ہے۔ اس نے دنیا میں رسمِ لادینی کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اس کی حالت اس بھیڑیئے کی سی ہے جس نے بکری کے بچے کی کھال اُوڑھ رکھی ہے۔ وہ ہرلمحے ایک نئے برہ کی گھات میں ہے۔ نوعِ انسان کی ساری مشکلات اس کی وجہ سے ہیں۔ اسی کی وجہ سے انسانیت غمِ پنہاں میں مبتلا ہے)۔

یہاں تک کہ وہ علم و تحقیق جو اقبال کے نزدیک انسانی خودی کے استحکام کے لیے ضروری ہے، اس لادین نقطۂ نگاہ کے زیراثر قومی خودی کی موت کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ تسخیرکائنات کا مقصد انسان کو اس دنیا میں صحیح معنوں میں نائب حق کے منصب کا اہل بنانا تھا لیکن بدقسمتی سے اس سیکولر رجحان نے اس میں وہ زہر ملا دیا ہے جس کے باعث خود ’مارہا در پیچ و تاب‘:

علم اشیا خاکِ ما را کیمیا ست

آہ! در افرنگ تاثیرش جدا ست

آہ! از افرنگ و از آئینِ او

آہ از اندیشۂ لادینِ او

اے کہ جاں را باز می دانی ز تن

سحرِ ایں تہذیبِ لادینے شکن

(علم اشیا کائنات نے ہماری خاک کو کیمیا بنادیاہے مگر افسوس کہ اہلِ فرنگ پر اس کی تاثیر مختلف انداز میں ظاہر ہوئی۔ افسوس ہے افرنگ پر اوراس کے طریق کار پر ، اس کی لادین فکر پر بھی افسوس ہے۔اے مسلمان! تو جو رُوح کو بدن سے الگ سمجھتا ہے اُٹھ اور اس لادین تہذیب کے جادو کو توڑ دے)۔

یہی علم خیرِکثیر ہے۔ اگر اس کا تعلق حق تعالیٰ سے ہو۔ اگر دین و اخلاق کے سرچشمے سے رابطہ موجود ہو تو یہ علم پیغمبری کے ہم پایہ ہے۔ لیکن جب یہ علم سوزِ دل سے عاری ہوجائے اور حق سے بیگانگی کا مظہر ہو، تو یہ بجاے خیرِکثیر کے شرِّاعظم بن جاتا ہے، جس کے فساد کی لپیٹ میں اس وقت ساری دنیا پھنسی ہوئی ہے۔ اس کا واحد علاج اقبال کی نگاہ میں لادینیت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہے۔ انسانی زندگی میں سکون و اطمینان، راحت و سعادت تبھی ممکن ہے کہ دین و دنیا کی دوئی ہمیشہ کے لیے ختم کردی جائے۔ اخلاق اور سیاست کی بے تعلقی کے باعث جو غیرمتوازن حالات پیدا ہوئے ہیں، اس کو اقبال نے بڑے عمدہ انداز میں یوں پیش کیا ہے:

کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی

سماتی کہاں اس فقیری میں میری

خصومت تھی سلطانی و راہبی میں

کہ وہ سربلندی ہے، یہ سربنریری

سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا

چلی کچھ نہ پیرِ کلیسا کی پیری

ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی

ہوس کی امیری، ہوس کی وزیری

دوئی ملک و دیں کے لیے نامرادی

دوئی چشمِ تہذیب کی نابصیری

یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشیں کا

بشیری ہے آئینہ دارِ نذیری

اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی

کہ ہوں ایک جنّیدی و اردشیری

جب علم و قوت، لادینی سے متاثر ہوں تو زہر ہلاہل سے زیادہ خوف ناک ہیں لیکن جب یہی علم و قوت، دین و اخلاق سے مربوط ہوں تو زہر کا تریاق اسی سے حاصل ہوتا ہے۔ ایوبی اور   نگاہ بایزید ایک ذات میں موجودہونا ہی انسانیت کی بقا کا ضامن ہے۔ جب انسان اس نہ سُپہر کے طلسم کو توڑ دیتا ہے لیکن اس کے نشیب و فراز، رنج و راحت سے متاثر نہیں ہوتا تبھی دنیا فساد و فتنہ سے محفوظ رہ سکتی ہے    ؎

شکوہِ خسروی این است این است

ہمیں ملک است کوتوام بہ دین است

(بس یہی شکوہ خسروی ہے، یہی سلطنت ہے جو دین کے ساتھ جڑواں ہے)۔

لادینیت کا ایک دوسرا مظہر وطن کا غلط تصور ہے۔ بدقسمتی کہنا چاہیے کہ اس خطرناک نظریے کا آغاز بھی تحریک اصلاحِ کلیسا کے ہاتھوں ہوا۔ جیساکہ اُوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔ کلیسائی حاکمیت کے باعث تمام عیسائی ممالک ایک رشتۂ اخوت میںمنسلک تھے اور اس اتحاد و اخوت کی بنیاد مذہبی اور اخلاقی یگانگت پر تھی۔ جب لوتھر نے کلیسا کے اس عالم گیر نظام کو ختم کردیا تو ہرملک کو اپنی انفرادیت قائم رکھنے کے لیے کسی نفسیاتی بنیاد کی ضرورت تھی۔ یہ نفسیاتی بنیاد نظریۂ وطن و نسل نے فراہم کی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ لوتھر کی یہ بغاوت درحقیقت جرمن قومیت کی سرفرازی کے لیے تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسیح کے عالم گیر نظامِ اخلاق کے بجاے بے شمار اخلاقی نظام وجود میں آئے۔ چنانچہ اہلِ مغرب کی نگاہیں اس عالم گیر انسانی نصب العین سے ہٹ کر اقوام و ملل کی تنگ حدود میں اُلجھ کر رہ گئیں۔ اس کے لیے انھیں وطنیت کے تصور سے زیادہ اور کوئی بہتر اساس میسر نہ آئی۔

وطنیت کی یہ اساس اپنے بنیادی مفہوم میں انسانی جماعت کی ہیئت کا ایک سیاسی اصول ہے، جس کے مطابق ایک خاص جغرافیائی حدود میں رہنے والے لوگ جو ایک ہی زبان اور نسل سے تعلق رکھتے ہیں، اس وطن کو اپنا معبود اور نصب العین قرار دیتے ہیں۔ وطن ہی ان کی تمام وفاداریوں کا مرکز ہے اور وہی نیکی اور بدی، خیروشر کا آخری معیار۔ اس لیے اقبال نے مختلف جگہ ’وطن‘ کو دیوتا اور خدا کے نام سے پکارا ہے۔ ع  ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے۔

اقبال کا خیال ہے کہ وطنیت کا یہ سیاسی نظریہ انسانیت کے لیے سمِّ قاتل ہے کیونکہ اس کے باعث انسان آدمیت سے محروم ہوکر اسفل السافلین تک جا پہنچتا ہے:

آں چناں قطع اخوت کردہ اند

بر وطن  تعمیرِ ملّت کردہ اند

تا وطن را شمعِ محفل ساختند

نوعِ انسان را قبائل ساختند

ایں شجر جنت ز عالم بردہ است

تلخیِ پیکارِ بار آوردہ است

مردمی اندر جہاں افسانہ شد

آدمی از آدمی بیگانہ شد

(اہلِ مغرب نے ا س طرح اخوت کی جڑ کاٹی ہے کہ وطن کی بنا پر قوم کی تعمیر کی ہے۔ وطن کو شمع محفل بنانے سے نوعِ انساں مختلف قبائل میں تقسیم ہوگئی ہے۔ انھوں نے جہنم میں جنت تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کوشش میں اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر تک پہنچا دیا ہے۔ وطنیت کے شجر نے  دُنیا سے جنت (امن و سُکون) رخصت کردیا ہے۔ اس درخت کا پھل جنگ کی تلخی کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ دونوں عالمی جنگیں وطنیت کی بناپر لڑی گئیں۔ انسانیت دُنیا میں افسانہ بن کر رہ گئی۔ آدمی آدمی سے بیگانہ ہوگیا)۔

اسلام کا مقصد محض انسانوں کی اخلاقی اصلاح نہیں بلکہ ان کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب پیدا کرنا ہے جو قومی اور نسلی نقطۂ نگاہ کو بدل کر خالص انسانی شعور پیدا کرے۔ ’’اسلام نے بنی نوعِ انسان کو سب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ دین نہ قومی ہے نہ نسلی، نہ انفرادی اور نہ پرائیویٹ، بلکہ خالصتاً انسانی ہے اور اس کا مقصد تمام فطری امتیازات کے باوجود  عالمِ بشریت کو متحد اور منظم کرنا ہے۔ ایسا نظام صرف عقائد کی بناپر ہی قائم ہوسکتا ہے۔ صرف یہی وہ طریقہ ہے جس سے عالمِ انساں کی جذباتی زندگی اور اس کے افکار میں یک جہتی اور ہم آہنگی پیدا ہوسکتی ہے‘‘۔(حرف اقبال، ص ۲۵۱-۲۵۲)

یہ اساسی عقیدہ اقبال کے خیال میں صرف توحید ہے جس کی بنا پر انسانی سوسائٹی کو ایک بہتر طریقے سے منظم کیا جاسکتا ہے۔ توحید کا مفہوم یہ ہے کہ ہماری وفاداریاں ملوک و سلاطین    اور دیگر سارے مفادات سے ہٹ کر صرف ذاتِ الٰہی سے مخصوص ہوجائیں۔ چونکہ یہ ذات الٰہیہ  فی الحقیقت زندگی کی روحانی اساس ہے، اس لیے اللہ کی اطاعت دوسرے لفظوں میں انسان کی اپنی فطرتِ صحیحہ کی اطاعت ہوئی۔ جب اس اصل توحید کو سیاسی اصولِ عمل کی حیثیت دی جاتی ہے تو اس سے انسان کو بحیثیت انسان دیکھا جاتا ہے۔ اس وقت ملک، قوم، رنگ نسل وغیرہ کے امتیاز بالکل ختم ہوجاتے ہیں۔ قرآن کے نزدیک قابلِ امتیاز اگر کوئی شے ہے تو وہ انسانی اعمال کا اچھا اور بُرا ہونا ہے نہ کہ اس کا رنگ و نسل وغیرہ۔ ’’وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے، جو نسل و زبان و رنگ سے بالا ہو۔ جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ و نسل کے اعتبارات کو نہ مٹایا جائے گا اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کرسکے گا‘‘ (ایضاً،ص ۲۴۷)    ؎

برتر از گردوں مقامِ آدم است

اصلِ تہذیب احترامِ آدم است

(آدم کا مقام آسمان سے بھی بلند تر ہے، احترامِ آدم ہی تہذیب کی بنیاد ہے)۔

اقبال نے جب بین الاقوامی سطح پر جمعیت اقوام کی مخالفت کی تو اس کا باعث بھی اس نظریۂ وطنیت کی مخالفت تھی۔ اس کے خیال میں کوئی ایسا بین الاقوامی ادارہ جس کی بنیاد انسانوں کے اجتماع کے بجاے محض اقوام کا اجتماع ہو، کبھی خیروسعادت کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ اس کے نزدیک صحیح نصب العین جمعیت اقوام کے بجاے جمعیت آدم ہونا چاہیے    ؎

تفریق ملل حکمتِ افرنگ کا مقصود

اسلام کا مقصود فقط ملّتِ آدم

اقبال نے اپنے کلام میں لادینی جمہوریت کی سخت مخالفت کی ہے جس کی بنا پر لوگوں نے اس پر فسطائیت کا الزام لگایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی مخالفت کا باعث جمہور دشمنی نہیں بلکہ جمہوریت دشمنی ہے۔ وہ عام لوگوں کی صلاحیت کا نہ منکر ہے اور نہ ان کو آزادیِ راے اور صحیح اختیارات دینے کے خلاف ہے۔ اس کے خیال میں ہر بنی آدم تکریم و عظمت کا حامل ہے۔ نیٹشے کے خیال میں عوام صحیح معنوں میں ’انام‘ ہیں اور اس لیے اس نے تمام اختیارات و حقوق ان سے لے کر فوق البشر کے سپرد کردیے۔ ان کے لیے سواے تقلید اور پیروی کے اور کوئی چارئہ کار نہیں۔ لیکن اقبال کے ذہن میں عوام سے متعلق کوئی ایسا پست تخیل موجود نہیں۔ ’’اسلامی جمہوریت ایک روحانی اصول ہے جس کی بنیاد اس مفروضے پر ہے کہ ہرانسان چند بالقوہ صفات کا حامل ہے جو ایک خاص قسم کی سیرت کی تشکیل سے بروے کار آسکتی ہیں۔ اسلام کے ابتدائی دور میں جن لوگوں نے بہترین کارنامے پیش کیے وہ بھی عوام ہی تھے‘‘۔ (دیباچہ اسرار خودی، انگریزی ترجمہ، ص ۱۹، لاہور ۱۹۵۰ئ)

اقبال نے جب جمہوریت پر اعتراض کیا ہے تو اس سے اس کی مراد جمہوریت کی وہ شکل ہے، جو مغرب میں موجود ہے جس کی اساس وطن و قوم کے غلط تصور پر قائم ہے اور جس نے لوگوں کو اخلاق اور انسانیت کا پیغام دینے کے بجاے فتنہ و فساد، خون ریزی اور ہلاکت،استحصال اور لُوٹ مار کے بازار گرم کیے ہیں۔ یہ سرمایہ داروں کی جنگ زرگری ہے۔ قیصریت اور استبداد کا ایک پردہ ہے۔ اس ’شرابِ رنگ و بو‘ کو اختیار کرنے سے سواے نامرادی کے اور کچھ حاصل نہیں:

فرنگ آئینِ جمہوری نہاد است

رسن از گردنِ دیوے کشاد است

ز باغش کشتِ ویرانے نکوتر

ز شہر او بیابانے نکوتر

گروہے را گروہے در کمین است

خدایش یار اگر کارش چنیں است

(فرنگ نے جمہوری آئین کی بنیاد رکھ کر دیو کی گردن کو زنجیر سے آزاد کردیا ہے۔اس کے باغ سے ویران کھیتی اور اس کے شہروں سے بیاباں بہتر ہیں۔ ہر گروہ دوسرے گروہ کی گھات میں ہے، اگر معاملہ یہی رہا، تو پھر ان سے بھلائی کی کوئی اُمید نہ رکھ)۔

جمہوریت کی حقیقی غلطی اقبال کے نزدیک یہ ہے کہ لادینی نقطۂ نگاہ کے زیراثر مغرب نے لوگوں کو ہرمعاملے میں مطلق العنان بنا دیا ہے۔ ان کے نزدیک اگر کوئی مقصد و مطلب ہے تو صرف مادی منفعت نہ کہ انسانی بھلائی۔ صحیح روحانی جمہوریت وہ ہے جس میں اقتدار کا مآخذ عوام کے بجاے ذاتِ باری ہو   ؎

سروری زیبا فقط اُس ذات بے ہمتا کو ہے

حکمراں ہے اِک وہی، باقی بتانِ آذری

جاوید نامہ میں اس سلسلے میں کہتے ہیں:

غیرِ حق چوں ناہی و آمر شود

زور ور بر ناتواں قاہر شود

زیر گردوں آمری از قاہری است

آمری از ماسوا اللہ کافری است

(جب اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا حکم دیتا ہے تو اس سے طاقت ور کمزور پر مسلط ہوجاتا ہے۔ روے زمین پر حکومت جبر سے قائم ہوتی ہے۔ اس لیے ماسوا اللہ کی حکومت کافری ہے)۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسانوں کو اجتماعی طور پر کسی نظام کی ضرورت نہیں بلکہ صرف وہی نظام مملکت عدل و انصاف قائم کرسکتا ہے جس کی بنیاد اخلاقی اور روحانی اصولوں پر ہو۔ الحکم للّٰہ اور الملک للّٰہ۔ جب تک انسانی تمدن کی بنیاد عالم گیر روحانی اصولوں پر نہ رکھی جائے تب تک امن و عافیت ممکن نہیں۔ مغرب کی لادینی مادیت نے مختلف شکلیں اختیار کی ہیں۔ کبھی وہ جمہوری قبا میں ظاہر ہوتی ہے، کبھی وہ اشتراکیت کی شکل میں جلوہ فگن ہوتی ہے۔ لیکن درحقیقت یہ سب قدیم جاہلیت ہی کی تازہ شکلیں ہیں اور ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اسی روحانی ماخذ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے جس نے پہلے بھی اس جاہلیت کے طلسم کو توڑا تھا     ؎

تازہ پھر دانشِ حاضر نے کیا سحر قدیم

گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوبِ کلیم

(اقبال ریویو، لاہور، جولائی ۱۹۶۲ء تا جنوری ۱۹۶۳ئ)۔( انتخاب: اقبالیات کے سو سال، مرتبین: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، محمد سہیل عمر، ڈاکٹر وحید عشرت، ص ۴۷۱-۴۷۸)

۳؍اکتوبر ۲۰۱۲ء کی شام نماز عصرسے پہلے بڑی دل خراش اطلاع ملی کہ ڈاکٹر محمد عبد الحق انصاری انتقال فرماگئے،انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، حسنات کو شرف قبولیت بخشے،جنت الفردوس عطا فرمائے،اور پسماندگان کو صبر جمیل عنایت فرمائے۔آمین!

موصوف طویل قیام کے بعد ۱۸؍ستمبر کو امریکا سے علی گڑھ واپس آگئے تھے۔ طبیعت ٹھیک ہی تھی البتہ پیروں میں درد کی شکایت تھی۔ ۳؍اکتوبر کو نماز ظہر ادا کی، دوپہر کے کھانے سے فراغت کے بعد سینے میں درد کی شکایت کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے درد نے شدت اختیار کرلی اور موصوف پلنگ پر لیٹے لمبی سانسیں لینے لگے۔ دواخانے لے جارہے تھے کہ راستے ہی میں روح پرواز کرگئی۔ ۴؍اکتوبر کی صبح۳۰:۹بجے جامع مسجد، سرسید نگر ، میں محترم امیر جماعت مولانا سید جلال الدین عمری نے نمازِ جنازہ ادا فرمائی۔ اسی مسجد سے متصل شوکت منزل قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ جس میں ذمہ داران مرکز ، شہر کی بااثر شخصیا ت کے علاوہ اطراف کے مقامات سے رفقاے تحریک نے شرکت کی۔  ڈاکٹر عبد الحق انصاری ؒ کے انتقال سے تحریک اسلامی کی علمی و فکر ی ضروریات کو پورا کرنے والی  ایک نہایت ہی معتبر شخصیت اب ہمارے درمیان نہیں رہی۔اللہ تعالیٰ اس کی تلافی فرمائے اور تحریک اسلامی کو ان کا نعم البدل عنایت کرے۔آمین!

ڈاکٹر محمد عبد الحق انصاری ،۱۹۳۱ء کو تمکوہی ، مشرقی یوپی میں پیدا ہوئے۔موصوف علیم الدین انصاری مرحوم کے بڑے صاحب زادے تھے۔ان کے علاوہ پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ڈاکٹرصاحب ؒ کے دو بھائیوں اور ایک بہن کا انتقال ہوا ہے۔دو بھائی امریکا میں رہتے ہیں۔ ایک بھائی ان کے آبائی وطن میں ہیںاور ہمشیرہ کلکتہ میں مقیم ہیں۔ڈاکٹر صاحب ؒ کی اہلیہ محترمہ رابعہ ہیں۔اور چار بیٹیاں عذرا، زہرہ، سلمی، شیما، اور ایک بیٹاخالد ہے۔

ڈاکٹر صاحبؒ کی ابتدائی تعلیم گائوں کے مدرسہ میں ہوئی۔ ۱۹۴۹ء میں اسلامیہ کالج سے انٹر کیا۔اسی دوران تحریک اسلامی سے متعارف ہوئے۔پھر ندوۃ العلما سے عا لمیت کا کورس کیا۔ مرکز کی جانب سے رام پور میں قائم درس گاہ اسلامی میں تین سال(۵۳-۱۹۵۱)تعلیم کے حصول میں صرف کیے۔آپ کے اساتذہ میں مولانا صدرالدین اصلاحیؒ ، مولانا عبد السمیع قدوائی ؒ،    مولانا عبد الغفار ندویؒ ، مولانا اختر احسن اصلاحی ؒ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔۱۹۵۷ء میں علی گڑھ    سے بی اے کیا اور ۱۹۵۹ء میں فلسفے میں ایم اے۔ ابن مسکویہ کے فلسفہ اخلاق (Ethical Philosophy of Mishkawi) پر ڈاکٹریٹ کی ڈگر ی حاصل کی۔فراغت کے بعد شانتی نکیتن یونی ورسٹی، مغربی بنگال میں لیکچرر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اسی دوران مشہور مستشرق ولفریڈ کینٹ ول اسمتھ سے ملاقات ہوئی اور ان کی دعوت پر ۱۹۷۲ء میں آپ نے ہارورڈ یونی ورسٹی سے ’ماسٹرز ان تھیالوجی‘ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کی تدریسی خدمات ملک اور بیرون ملک میں رہی ہیں۔ سعودی عرب اور سوڈان قابل ذکر ہیں۔ اس دوران آپ نے کئی زبانوں کو ضرورت کے لحاظ سے سیکھا، جرمن ، فرنچ، سنسکرت،یونانی اور عبرانی۔ عربی، انگریزی اور ہندی زبانوںمیں تو آپ کو دست رس حاصل تھی۔

موصوفؒ اپنے طالب علمی ہی کے زمانے سے جماعت اسلامی سے وابستہ تھے، اور اپنے تعلیمی ارتقا کی طرح تحریکی سرگرمیو ں کو بھی اسی نہج پر جاری رکھا۔ مغربی بنگال کے اس وقت کے امیر حلقہ جناب عبد الفتاح ؒ سے بڑا خصوصی لگائو تھا۔ انھی کی ہدایت کے مطابق مختلف سرگرمیاں انجام دیتے۔ قریبی حلقوں ، بہا ر اور یوپی کے بھی مختلف اجتماعات میں شرکت ہوتی۔

  • علمی خدمات: ڈاکٹر صاحب ؒ نے فلسفہ، اخلاق، تصوف، تزکیہ نفس، احیاے دین جیسے موضوعات کے علاوہ مختلف تحریکی ضروریات کے تحت کئی کتابیں اردو، انگریزی اور عربی زبانوں میںتصنیف فرمائی ہیں۔مختلف یونی ورسٹیوں اور اداروں کے خصوصی مجلّوں کے لیے تحریریں تصنیف کی ہیں۔تحقیقی مقالہ جات بھی متنوع موضوعات پر تصنیف فرمائے ہیں، جن میں اسلامی فلسفہ اخلاق، تصوف، مذہبیات، مجددین اُمت اور صوفیاے کرام، ابن مسکویہ کے تصورات، تقابلی مطالعہ، ادیان اور دعوت قابل ذکر ہیں۔مختلف قومی اور بین الاقوامی سیمی ناروں اور مذاکروں میں شرکت کے ذریعے انھی موضوعات کے مختلف پہلوئوں کو اُجاگر فرمایا ہے۔

ڈاکٹر عبد الحق ؒ اصلاً ایک محقق تھے جنھوں نے صرف نری تحقیق پر انحصار نہیں کیا کہ کسی موضوع کی تہہ تک جاکر اس کی گتھیاں سلجھانے کی حد تک اپنے کام کو محدود رکھتے، بلکہ اپنی تحقیق کو مقصدیت سے ہم آہنگ کرنے کی سعی کی،اور یہی آپ کے علمی کارناموں کا طرہ ٔ امتیاز ہے۔اصل میں کسی فرد کے کارناموں کو ایک صحت مند نظریہ ہی تاریخی بناسکتا ہے۔ علامہ اقبالؒ اور مولانامودودیؒ کے کارناموں کی آفاقیت کی وجہ ان کا صاف و شفاف نظریہ ہی تو ہے۔ اس لیے بجاطور پر ڈاکٹر عبدالحق ؒ کو ایک نظریہ شناس محقق کہا جاسکتا ہے جن کے علمی وتحقیقی کارنامے ،ان شاء اللہ تحریک اسلامی کی علمی ضروریات کی تکمیل کرتے رہیں گے۔اس امر کی مزید صراحت مرحوم کی تصانیف کے جائزے سے ہوتی ہے۔

ایک ایسا ماحول جہاں زندگی کا مقصد واضح نہیں، اور اگر ہے بھی تو افراط وتفریط کا شکار،     اس تناظر میں ’مقصد زندگی کا اسلامی تصور‘ کو موصوفؒ نے بڑے ہی توازن کے ساتھ بیان کیا ہے، جس کو پڑھنے کے بعد کسی قسم کی الجھن باقی نہیں رہتی۔تصوف میں غلو اور روحانیت کے غیرمتوازن تصورات کے برعکس بڑے پُرزور انداز سے تصوف کے ان قابل تقلید پہلوئوں کو اُبھارا جو فی الواقع روحانی ضرورتوں کی تکمیل کرتے ہیں۔ تصوف اور شریعت اس لحاظ سے ان کی ایک معرکہ آرا تصنیف قرار دی جاسکتی ہے جس میں بڑے ہی مدلل انداز سے اسلام مخالف پہلوئوں کی وضاحت بھی ہے اور بڑی صراحت کے ساتھ اچھے پہلوئوں کو ابھارابھی گیا ہے۔ملت اسلامیہ اور بالخصوص جماعت اسلامی کے حلقوں میں جو روایتی انداز سے مصلحین امت کے سلسلے میں راے قائم ہے، اور ان سے عقیدت و محبت کا جو تعلق ہے، اس تناظر میں مجددین امت کا مختلف پہلوئوں سے    تعارف کرایا۔ امام ابن تیمیہ ؒ ،امام غزالی، ؒمجدد الف ثانیؒ، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ وغیرھم سے  متعلق انھوں نے بڑے ہی واضح انداز سے ان امور و مسائل کو بیان کیا ہے جس سے ملت میں   ان حضرات سے معنوی استفادے کا ایک فطری جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ مجدیدین اُمت اور تصوف

اس موضوع پر ایک اہم اضافہ مانا جاسکتا ہے۔ آگے چل کر آپ نے مجددین کی فہرست میں مولانا مودودیؒ کو بھی شامل کرلیا، اور افادات مودودیؒ اس ضمن میں ایک بامعنی تصنیف ہے۔ آپؒ کے نزدیک قریبی دور میں چار اہم مجددین قرار پائے۔امام ابن تیمیہؒ، امام غزالیؒ، شاہ ولی اللہ    محدث دہلویؒ اور مولانا مودودیؒ ۔نوجوانوں کی تربیت کے لیے ان چاروں مجددین کاتفصیلی مطالعہ کرایا ۔ اس تاکید کے ساتھ کہ ان کے افکار و خیالات کا مطالعہ، احیاے اسلام کے لیے کیا جانا چاہیے ۔ کسی شخص کے افکار کو قطعی نہ سمجھنا چاہیے، جہا ں کھٹک محسوس ہو،وہاں ٹھیر کر غور وفکر کرنااور صحت مند تبادلۂ خیال کا ایک ماحول بنانا چاہیے۔ ہندستا ن جیسے تکثیری سماج میں قومی یک جہتی کا  کیا مفہوم اور تقاضے ہیں، ان کی کتاب قومی یک جہتی اور اسلام، بخوبی واضح کرتی ہے۔  ڈاکٹر صاحب ؒ کا امام ابن تیمیہ ؒکا انتخاب بڑا بامعنی محسوس ہوتا ہے،جن کے معاشرت و سیاست سے متعلق افکار و خیالات سے استفادے کے لیے آپ نے قابل قدر کوشش کی ہے۔

  • دعوت: ڈاکٹر صاحب ؒ ایک لمبی مدت تک بیرون ممالک میں رہے ہیں ۔ہندستا ن آنے کے بعد دعوتی ترجیحات کا جس انداز سے ذکر فرمایا کرتے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہاں کے حالات سے اچھی واقفیت رکھتے ہیں۔اپنے وطن واپس آنے کے بعد موصوف نے یہ جاننے اور سمجھنے کے لیے کہ دعوتی کام کن حلقوں میں کس نہج پر انجام پارہا ہے، ملک کے مختلف مقامات کا دورہ کیا ۔ انھوں نے بحیثیت امیر جماعت ،دعوت دین کے سلسلے میں جو ترجیحات متعین فرمائیں وہ اسی کی غماز ہیں۔دعوت دین پہنچانے کے معنی کیا ہیں اور اس میں کون کون سے کام اور مراحل شامل ہیں،بخوبی واضح کیا۔موصوف چونکہ تقابل ادیان کے میدان سے بھی متعلق رہے ہیں اس لیے وہ بطور خاص ہندومت اور عیسائیت سے متعلق بتاتے جاتے کہ ان ان پہلوئوں سے اسلام کا مطالعہ اور کام ہونا چاہیے۔ہندومت کے متعلق بنیادی عقائد کی دعوت، غلط فہمیوں کا جواب،مذہب، زندگی بعد الموت وغیرہ کے سلسلے میں پائے جانے والے غلط تصورِات کا ازالہ ان کا خاص ہدف تھا۔ عیسائیت سے متعلق تصور تثلیت پر زیادہ زور دیا کرتے ۔ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ ؑ کاابن مریم ؑکی حیثیت سے ذکرکن حکمتوں سے کیا گیا اس کی وضاحت کرتے۔

تزکیۂ نفس سے متعلق بنیادوں کی وضاحت کے لیے ڈاکٹر صاحب ؒ نے انسان کے حقیقی تصور پر زور دیا ہے کہ وہ زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے۔ امام ابن تیمیہؒ کے حوالے سے فرماتے کہ علم اور خیروشر کی تمیزسے انسان خلیفہ بنتا ہے۔ اس ضمن میں دوسرا اہم پہلو قرآنی اصولوں کی وضاحت تھاجس کے تحت وہ سورئہ حدید کی آیت ۱۰ کا ذکر فرماتے۔اور تیسرا اہم پہلورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ تزکیہ سے متعلق تھا۔ آپ کے علمی کارناموں میںفارابیؒ، ابن تیمیہ ؒ ،ابن مسکویہؒ اور طحاویؒ پر کام قابلِ قدر ہے۔ آپ کی انگریزی تصانیف میں بڑی گہرائی و گیرائی محسوس ہوتی ہے بہ نسبت اردو زبان میں لکھی گئی کتابوں کے۔ آپ کے مختلف مقالہ جات ملک کی نام وَر یونی ورسٹیوں کے علاوہ امریکا اور لندن کے معروف اداروں سے بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔پنجاب یونی ورسٹی کے ربع صدی کے تقریب کے موقع پر جو خصوصی مجلہ شائع ہوا اس میں ڈاکٹر صاحب ؒ کا مضمون Mysticism and Islamکو بڑا نمایاں مقام حاصل ہوا جس کو بعد میںمزید اضافے کے ساتھ شائع کیا گیا۔

  •  اخلاق حسنہ: ڈاکٹرصاحبؒ کو دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ذہنوں میں تازہ ہوتا تھا،  اَلْمُؤْمِنَ غِرٌّ کَرِیْم،مومن شریف النفس اور بھولا بھالا ہوتا ہے۔نرم مزاج،  کم گو اور دھیمی انداز میں گفتگو کرنے والے۔ شخصیات سے متعلق بڑے محتاط انداز سے گفتگو فرماتے۔ تحریکی ضرورتوں کا واضح شعور اور ان کی تکمیل کی پر عز م کوشش،یہ اور اس طرح کی کئی خوبیوں سے آپ کی شخصیت منزہ تھی۔کبھی غصہ بھی کرتے تھے۔ کسی کام کی تکمیل کے لیے زیادہ انتظار یا تاخیر پسند نہیں تھی۔تحریک کے تقاضوں کو بیک وقت اڈریس کرنے کو پسند کرتے۔جب وہ دیکھتے کہ کسی ایک ہی تقاضے پر زیادہ زور دیا جارہا ہے تو وہ اپنے مخصوص انداز سے ناراضی کا اظہار فرماتے۔ ایسے وقت آپ کی باڈی لینگویج سے شخصیت کی جو نرم مزاجی ہے وہ نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی۔تحریکی ضروریات کے تحت ہمیشہ افراد کی علمی وفکری تیاری پر زیادہ زور دیا کرتے تھے۔ جب بھی ملاقات ہوتی، گفتگو کا ایک مشترک امر تحریکی ضروریات ہوتا۔

آپ کی شخصیت میں روحانی پہلوبڑا نمایاں محسوس ہوتا تھا۔ علم اور عمل کا ایک حسین امتزاج تھے، اور یہی تاثر مرحوم کے دیرینہ رفقا کا بھی ہے۔علم و عمل کے اس تال میل کا بعض معاملات میں ہم نے بھی مشاہدہ کیا ہے۔ جیسے اللہ سے گہرا تعلق ،جو مختلف اوقات میں ظاہر ہوتا تھا۔ راہِ خدا میں سرگرمی کا ذکر ہوتو خدا کی مدد کا دل نشین انداز سے ذکر فرماتے۔ علم و فہم کے لیے فضل ربانی کا بڑی اہمیت سے ذکر فرماتے۔فرائض کی ادایگی کے بعد بڑی دیر تک اپنی جگہ بیٹھے تسبیح و تہلیل میں مصروف رہتے۔

 کسی اجتماع میں ڈاکٹر صاحبؒ کی آنکھوںمیں کم ہی آنسو آتے تھے ،لیکن جہاں تعلق باللہ سے متعلق کوئی واقعہ ہو تو آنکھیں فوری نم ہوجاتیں۔دوران تعلیم حضرت ابراہیم ؑکے آگ میں ڈالے جانے کا واقعہ ذکر کرتے تو آپ پررقت طاری ہوجاتی ،خصوصاً اس وقت جب یہ ذکر ہوتا کہ حضرت ابراہیم ؑ آگ میں ہیں اور فرشتہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی تلقین کرتا ہے، تو آپؑ فرماتے ہیں کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔ اسی طرح غار ثور میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو کہنا لاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا،آپ کے اوپر اسی طرح کی کیفیت طاری کرتا۔آپ کے علمی سفر کو دیکھ کر بجا طور پر کہاجا سکتا ہے کہ اس کے مطابق عمل ہی نے آپ کو ایک بلند مرتبہ عنایت فرمایا ہے۔ علمی و فکری ارتقا کے لیے لازم علم و عمل کا حسین امتزاج کیا ہی خوب راز ہے،جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم واضح فرماتے ہیں: اَلْعِلْمُ اِمَامُ الْعَمَلِ وَاْلعَمَلُ تَاِبعُہٗ،علم ، عمل کا امام ہے اور عمل اس کا تابع۔

  •  افراد کی تیاری کا منصوبہ: تحریک اسلامی کی علمی و فکری برتری قائم رکھنے کے لیے نوجوانوں کی تیاری،آپ کے خاص کاموں میں سے ایک ہے۔ اس کے لیے عربی زبان ، اسلامیات اور مختلف ادیان کے مطالعے پر مشتمل ایک جامع منصوبہ تیار کیا تھا،جس سے عصری علوم سے فارغ نوجوانوں کو گزارنا چاہتے تھے۔ ۱۹۹۰ء کے اواخر میں سعودی عرب سے ہندستا ن آنے سے قبل ہی اس کے بعض اجز ا پر کام شروع کیا تھا۔ جب ہندستان آمد ہوئی توعلی گڑھ میں مرکز براے مذہبی تحقیقات ورہنمائی (Centre for Religious Studies and Guidance - CRSG)قائم کیاجس کاہمیں طالب علم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔سعودی عرب میں قیام کے دوران موصوف نے قرآن فہمی اور عربی زبان سے واقفیت کے لیے کوششیں شروع کردی تھیں۔ عربی زبان سکھانے کے لیے خصوصی اسباق مرتب کیے اور ان کے مطابق منتخب لوگوں کی تعلیم کا انتظام فرمایا۔ اس تجربے کی بنیاد پر آپ نے Learning the Langauage of Quran کتاب تصنیف کی۔ اسی کے اسباق CRSGمیں پڑھائے جاتے تھے۔ کبھی ڈاکٹر صاحبؒ خود پڑھاتے اور کبھی مسلم یونی ورسٹی کے پروفیسروں کی خدمات لی جاتیں۔عربی زبان کی تعلیم کے علاوہ نوجوانوں کی تیاری کے لیے آپ نے ہمہ جہت منصوبہ بنایا تھاجس کے تین حصے تھے۔پہلا حصہ عربی زبان اور ادب ، تفاسیر قرآن ،شروح احادیث وغیرہ پر مشتمل تھا۔دوسرے حصے میں اسلامیات، جس کے تحت بنیادی عقائد، جمع وتدوین قرآن، علم الحدیث ،خلفاے راشدین و تابعین کی زندگیاں، معاشرت، معیشت، فلسفہ، سیاسیاست، تاریخ، تصوف، فقہ، تحریکات اسلامی جیسے مضامین شامل تھے۔ تیسرا حصہ مذہبیات پر مشتمل تھا جس کے تحت دنیا کے چھے بڑے مذاہب اسلام،ہندومت، عیسائیت ،یہودیت،جین مت اور بدھ مت کے افکار، عقائد، کلچر، تہذیب وغیرہ کا تقابلی مطالعہ کرایا جاتا ۔
  •  استاد و مزکی: ڈاکٹر عبد الحق ؒ ہمارے استاد ومربی تھے۔ بڑی شفقت اور محبت سے انھوں نے تعلیم وتربیت دی اور تحریک اسلامی کے لیے زندگی وقف کرنے کا جذبہ پروان چڑھایا۔استاد محترمؒ ، قرآن و حدیث سے براہ راست استفادے کی صلاحیت پیدا کرنے پر بھرپور توجہ فرماتے تھے،اور کہتے تھے کہ اسلام کی نمایندگی کے لیے یہ لازمی ہے۔ انھوں نے کہیں سنا یا پڑھا تھاکہ مولانا مودودیؒ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص چھے ماہ سنجیدہ کوشش کرے تو اتنی عربی سیکھ سکتا ہے کہ قرآن مجید سے براہ راست استفادہ کرسکے۔مولانامودودیؒ کے اس قول کو پرکھنے کا انھوں نے مجھے ایک بہترین ذریعہ سمجھا۔ جس کا ذکرخود انھوں نے CRSG کورس کی تکمیل سے پہلے تحدیث ِنعمت کے طور پر کیا۔کیونکہ میرے علاوہ بقیہ سات طلبہ عربی تعلیم حاصل کیے ہوئے تھے۔

 فوکس، علم کے حصول کے لیے یہ آپ کا ہم سب سے بڑا خاص مطالبہ تھا۔ اس کے لیے موصوف کبھی کبھی سنجیدگی کے الفاظ بھی کہا کرتے۔ صرف پڑھا ئی پر دھیان دینے کی تاکید کرتے۔اگر کسی وجہ سے ٹیسٹ میں نمبر کم آتے تو فوری اپنے چیمبر میں طلب کرتے اور خوب ڈانٹتے۔ پھر وہی یکسوئی کی تلقین فرماتے۔ ادھر ادھر گھومنے کی اجازت بالکل نہیں تھی۔ اور کہتے کہ ہم تمھیں تحریک کے لیے ہی تیار کررہے ہیں ،کورس بڑا بھاری ہے، اس لیے ہر دن کو اہم سمجھو،پڑھائی پر دھیان دو۔ ہم تمام طلبہ کی خواہش تھی کہ پٹنہ میںمنعقد ہونے والی اسلامک اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (ISO) کی پہلی نارتھ انڈیاکانفرنس (نومبر۱۹۹۶ئ)میں شریک ہوں لیکن موصوف نے منع فرمایا اور کہا کہ یہ وقت اپنے آپ کو تحریک کے لیے تیار کرنے کا ہے۔فلاں فلاں مضامین باقی ہیں اور فلاں مقام سے فلاں صاحب پڑھانے آرہے ہیں۔پڑھائی پر توجہ دو۔

کُل ہند تربیتی اجتماع منعقدہ چینئی (۲تا ۴جنوری۲۰۱۲ئ)میں منتظمین نے ہمارے قیام کا انتظام استاد محترمؒ کے ساتھ فرمایاتھا۔ یہ قیام موصوف سے تفصیلی استفادے کا آخری موقع تھا۔  اس وقت ڈاکٹرصاحب ؒکی طبیعت ناساز تھی۔ کمرے میں زیادہ تر خاموش ہی رہا کرتے تھے۔ پیروں میں شدید درد رہتا،پائوں دبانے کی خواہش ظاہر کی تو منع کرتے۔ اس دوران ویلفیئر پارٹی کے قیام، وابستگان جماعت کی تربیت، علمی وفکری برتری کے لیے ترجیحات کا تعین، اسلام کو ایک متبادل کی حیثیت سے پیش کرنے کے طریقوں پر گفتگو کا موقع ملتا رہا۔ طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے ان ثقیل موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کا موقع نہ مل سکا، البتہ جو بھی آپ سے سنا اس سے بڑی حد تک اطمینان ہوا۔اس موقع پر موصوف ؒ نے قرآن اور احادیث رسولؐ پر ہمارا جو کام ہوا ہے اس سے متعلق استفسار کیا، مسودہ دیکھ کر انتہائی مسرت کا اظہار فرمایا اور دعا دی۔ ان کا ایک خاص وصف نوجوان کی تربیت اور ان کی پیش رفت دیکھ کر انتہائی خوشی کا اظہار کرناتھا۔ یہ موضوع انھیں اتنا عزیز تھا کہ اس کا ذکر جب ایس آئی او کے اجتماعات میں کرتے توآپ کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔استادمحترم ؒکی نصیحتوں میں تین باتیں بڑی تکرار سے بیان ہوتی تھیں۔ انھی باتوں کو آپ نے بحیثیت امیر جماعت ،تمام ہی وابستگان کے لیے مختلف اوقات میں بیان فرمایا : ۱- تعلق باللہ ۲-علمی وفکری برتری ۳- اخلاقی برتری۔

ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی ؒکے بعد ڈاکٹر محمد عبد الحق انصاری ؒکا انتقال ، تحریک اسلامی کی   علمی و فکری برتری کے لیے مطلوب افراد کی شدید قلت کا تقاضا کر رہا ہے۔ہمارے سابقین نے اپنے میدان میں مہارت حاصل کرتے ہوئے دین اسلام کی جس باوقار انداز سے ،ملک اور بیرونِ ملک نمایندگی فرمائی، وہی اب تحریک اسلامی کی تیسری نسل کا طرہ ٔ امتیاز ہونا چاہیے۔بلاشبہہ تحریک اسلامی اپنے افکار کی گہرائی، اپنی حکمت عملی کی بالیدگی کے ذریعے جس تیزی سے وسعت اختیارکرتی جارہی ہے، ’جیالوں‘ کی ضرورت کا احساس کراتی ہے۔ ایسے لوگ جن کے لیے تحریک ایک جنون بن جائے۔ جن کے لیے تحریک سے وابستگی رات اوردن ان تھک جدوجہد کے ہم معنی ہوجائے ۔  نصب العین کے واضح شعور سے سرشار اپنے مستقبل سے بڑھ کرتحریک کے مستقبل کی فکر کرنے والے ہوجائیں ۔ا ستاد محترم ؒ کی رحلت سے یہی سبق ملاکہ تحریک اسلامی سے والہانہ شغف ہو اور اپنی تمام تر صلاحیتوں سے اسے تقویت پہنچانے کی ہر دم فکر و کوشش۔آج تحریک اسلامی جن حالات میں اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف ہے اس کے لیے فضل الرحمن فریدی ؒ اور عبد الحق انصاری ؒ جیسے اپنے میدان کے ماہرین کی ضرورت ہے۔دونوں کی رحلت کے بعد تحریک میں اس بات پر سنجیدگی سے غوروفکر ہونا چاہیے کہ کس طرح مختلف سطحوں پر افراد کی تربیت کا نظم ہوسکتا ہے۔     اس کے بغیر تحریک کا اپنے مقصد کے حصول میں محسوس پیش رفت کرنا ممکن نہیں۔

  • نصرتِ دین ھی دنیا کا سب سے بڑا کام:ڈاکٹر محمد عبد الحق انصاری ؒ کے اساتذہ میں مولانا صدرالدین اصلاحی ؒکا نام نامی بڑا نمایا ں ہے۔موصوف ان کے طریقۂ تربیت پر روشنی ڈالا کرتے تھے۔ مولانا صدرالدین اصلاحیؒ نے بڑے پرزور انداز میں جو بات کہی ہم نے اس کا اثر ان کے شاگر د رشید کی زندگی میں نمایاں طور پرمحسوس کیا ہے،یعنی دنیا میں نصرتِ دین سے بڑھ کر کوئی اور کام نہیں۔انتقال کے بعدڈاکٹرصاحبؒ کا چہرہ بڑا مطمئن نظر آرہا تھا۔چہرے کے آثار اسی طرح نمایاں محسوس ہو رہے تھے، جس طرح کسی اہم کام کی تکمیل کے بعد آرام سے سوتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔ بلاشبہہ موصوف نے ایک لمبی عمر پائی، آخیر دم تک کارخیر میں مصروف رہتے ہوئے اپنے دانا ہونے کا ثبوت دیا۔ تدفین کے بعد محترم امیر جماعت سید جلال الدین عمری نے گھر والوں کو صبر کی تلقین فرمائی،ڈاکٹرصاحبؒ سے اپنی جدائی کے صدمے کا اظہار فرمایا،تحریک کے لیے ان کے بے مثال کارناموں کا ذکر فرمایا۔اس موقع پر رابعہ روتے روتے کہتی جارہی تھیں کہ ہاں، انھیں تو بس جماعت، جماعت، جماعت ہی کاکام عزیز تھا۔یہ کہنے میں دکھ نہیں بلکہ رشک جھلک رہا تھا۔افسوس نہیں بلکہ فخر اُجاگر ہورہا تھا۔ اللہ کی راہ میں سرگرم رہنے والوں کے لیے جو انعامات ملتے ہیں ان کے سلسلے میں ہمیں اکثر ڈاکٹرصاحبؒ اِنْ تَنْصُرُ وْا اللّٰہَ یَنْصُرْکُم وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ کہہ کر تلقین فرمایا کرتے۔آج، جب کہ موصوف ۸۱سالہ جدوجہد کے بعد رب کریم سے ملاقات کے لیے رخصت ہوئے ہیں تو ان کی اہلیہ کے تاثرات اور مرحوم کے بھائی ظفر الحق کا کہنا کہ تمام بھائیوں کی نگاہ میں ڈاکٹرصاحبؒ کی بڑی عزت تھی،اور سبھی انھیں ٹوٹ کر چاہتے تھے ،معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کے خدمت گزاروں کے لیے ماحول کو سازگار بناتا ہے،اور لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کرتا ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ ڈاکٹرمحمد عبد الحق انصاری ؒ کو غریقرحمت فرمائے۔ اللّٰھُمَّ  اغْفِرْ لَہٗ وَارْحَمْہٗ وَاعْفُ عَنْہٗ وَادْخِلْہٗ فِیْ الْجَنَّۃِ-  آمین یا رب العالمین!
  •  زوجۂ مومنہ: ڈاکٹر عبد الحق مرحوم کے اس علمی و تحقیقی کارناموں میں ان کی شریک حیات کا بڑا غیر معمولی کردار رہاہے۔آپؒ کی اہلیہ محترمہ رابعہ بڑی خوش مزاج اور گھر یلو کام کاج میں مکمل یکسو ایک صالحہ ہیں۔جیسے ہمیں ڈاکٹر صاحب ؒ تحریک میں یکسو نظر آتے تھے، بالکل اسی طرح موصوفہ گھر کا محاذ اور ڈاکٹر صاحب ؒ کی صحت کی نگہداشت میں یکسو نظرآتیں۔ گھر کے کاموں کے لیے ڈاکٹر صاحب ؒکو کم ہی زحمت اٹھانی پڑتی تھی۔اللہ تعالیٰ رابعہ کوصبر و استقامت عطا فرمائے اور بہترین اجر سے نوازے۔ رسول اکرمؐ کا فرمان کہ دنیا کی بہترین متاع نیک بیوی ہے، اور اگر بیوی کی یہ خوبی ہو کہ وہ اپنے شوہر کے نیک کاموں میں تعاون دے(زَوْجَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ تُعِیْنُہٗ عَلیٰ اِیْمَانِہٖ)، ایسی خاتون کے بلند درجات کے کیا کہنے۔ بلاشبہہ تحریک اسلامی کے لیے مثالی جدوجہد اسی وقت ممکن ہے، جب کہ شوہر کے ساتھ بیوی بھی نصب العین کے تعاون میں جٹ جائے۔

مرزا شوق نے کتنی سچی بات کہی ہے    ؎

موت سے کس کو رستگاری ہے

 آج وہ کل ہماری باری ہے

 موت ہر ذی روح کا مقدر ہے۔ جو دنیا میں آیا وہ جانے ہی کے لیے آیا،کسی کو ا س سے مفر نہیں۔ سابق امیر ضلع راولپنڈی، سابق ایم این اے، سابق رکن مرکزی مجلس شوریٰ راجا محمد ظہیر خان بھی اپنے رب سے کیے ہوئے وعدے کو وفا کرگئے۔ ۲؍اکتوبر۲۰۱۲ء کو وہ اپنے رب کے حضور   پہنچ گئے، انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔

جماعت اسلامی ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے کش مکش ان کا طرۂ امتیاز ۔ان کی ساری زندگی دعوت کے ابلاغ میں گزری۔ دعوتی خطوط کا خاص اہتمام کرتے ۔ دعوتی کام کو جماعتی زندگی کی جان قرار دیتے۔ دعوت اور تربیت پر خصوصی توجہ دیتے۔ ایک مردِدرویش، جس کا ظاہر و باطن ایک تھا، جو خوش گفتار ، خوش پوشاک اور خوش خوراک تھا۔ دعوتِ دین کے لیے ہمہ وقت مصروفِ کار اور سرگرم رہنے والا جفاکش آدمی تھا۔ اﷲ نے ان کو بے پناہ صلاحیتوں اور خوبیوں سے نواز اتھااور انھوںنے اپنی ان خوبیوں کو اﷲ کے دین کی اقامت کے لیے خوب استعمال کیا۔ وہ نرم دم گفتگو گرم دم جستجو ،پاک دل و پاک باز انسان تھے۔ حقیقت میں وہ بے چین روح تھے۔ ان کی شخصیت بے پناہ خوبیوں کا مرقع تھی، جن کو وہ اقامت دین کے لیے استعمال میں لاتے۔ ان کے مقاصد جلیل اور ادا دلفریب تھی۔ اقبا ل کے کتنے ہی اشعار ان پر راست آتے ہیں۔             جماعت میں آنے سے پہلے بلدیہ میں ملازم رہے۔ سینما دیکھنے کے شوقین تھے، مگر جب جماعت کا لٹریچر پڑھا اور جماعت میں آگئے تو سینما کا منہ نہیں دیکھا۔ کبھی کبھی کہتے تھے کہ ایک سینما دیکھنے والا، آج امیر ضلع ہے۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس طرح کایا پلٹ ہوگی اور زندگی کا    رنگ ڈھنگ بدل جائے گا۔ یہ خدا کی دین ہے جسے دے۔ 

انھوں نے اقامت دین کے اس راستے کی طرف قدم بڑھائے تو پیچھے مڑکر نہیں دیکھا ۔ مشکلات برداشت کیں ، لاٹھیاں کھائیں ، جیل گئے ، مگر جواس راستے پر چلنے کا عزم ایک مرتبہ کیا تو پھر پر تمام عمر ثابت قدمی ، اُولو العزمی اور استقامت کے ساتھ اس راستے پر چلتے رہے۔ ’’وفاداری بشرط استواری اصل ایمان ہے‘‘ ان کا خاص وصف قرار پایا۔ سید مودودیؒ کے الفاظ میں      ’مرجع خلائق‘ تھے، خلق خدا کی خدمت کرنے والے اور ان کے حقوق کے لیے لڑ جانے والے،  مجلسی انسان تھے۔ لوگوں سے ملنا جلنا پسند کرتے ،گپ شپ کرتے اور انھیں اپنا بنالیتے۔    تحریکی گپ شپ ان کا خصوصی وصف تھا جس سے دل سوزی و رعنائی کا اظہار ہوتا۔ سید مودودیؒ  کے ساتھ بھی ان کاقریبی تعلق اور خصوصی رابطہ رہا۔ گوجر خاں سے ملاقات اور عصری مجالس میں شرکت کے لیے خاص طور پر لاہور آتے، اور سید سے براہ راست کسب فیض کرتے۔

 راجا محمد ظہیر خان ۱۹۷۳ء میںجماعت کے رکن بنے۔ ۱۹۸۳ء میں پہلی مرتبہ امیر ضلع اور ۸۸میںپہلی مرتبہ ایم این اے منتخب ہوئے۔امیر ضلع بنے تو راولپنڈی کا قریہ قریہ اور گائوں گائوں  چھان مارا۔ گوجر خان کے گردو نواح میں پیدل، سائیکل اور گاڑی کے ذریعے ہر جگہ پہنچے۔ رات کو کہیں جگہ مل جاتی فبہا ورنہ مسجد میں قیام کرتے۔ ان کا طریقہ یہ تھا کہ دو تین ساتھی مل کر صبح سویرے گائوں سے نکل جاتے۔ کھیتوں، دکانوں، بازاروں اور گھروں میں ملاقاتیں کرتے ۔ لٹریچر ان کے ساتھ ہوتا جسے تقسیم کرتے جاتے۔ ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری رہتا۔ اس دوران اس قافلہ میں نئے ساتھی شامل ہوجاتے اور پرانے ساتھی واپس لوٹتے جاتے مگر راجا صاحب ہر قافلے اور وفد کے ساتھ ہوتے بلکہ اس کی جان ہوتے ۔ دعوتی ملاقاتوں کے دوران رابطے میں آنے والوں کو دعوتی خطوط لکھتے، ذاتی رابطہ رکھتے ۔ دعوتی ملاقاتوں کے دوران معاشرے کے چیدہ چیدہ اور مضبوط لوگ تلاش کرتے۔ نوجوان ان کا خاص ہدف ہوتے۔ محبت کا اظہار کرتے اور نوجوان ان کے ساتھ وابستہ ہوتے چلے جاتے۔ وہ ان کے ساتھ روابط رکھتے ان کو جماعت کی رکنیت کے مراحل طے کراتے۔ رکن بننے والوں سے خو د آخری ملاقات کرتے ۔ اسی طرح کارکنان کے ذاتی مسائل ہوں یا خاندان کے دل چسپی لیتے،جماعتی مسائل کے ساتھ گھریلو اور ذاتی مسائل تک سے واقفیت حاصل کرتے، رہنمائی کرتے اور اس دوران گھر کے جن افراد سے رابطہ ہوتا ان کو بھی مسلسل اپنے رابطے میں رکھتے۔ مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی ترغیب اورحوصلہ دلاتے۔ جو ان کو ایک مرتبہ مل لیتا انھی کا ہوجاتا۔ مکمل توجہ اور انہماک سے ان کی بات سنتے ۔ بچے اور بوڑھے اور جوان یکساں ان سے متاثرے ہوتے اور ان کے ساتھ اپنائیت کا تعلق محسوس کرتے ۔ دل کی بات کرتے۔

انھوں نے اپنے دور امارت تحصیل گوجر خان کے زمانے میں اسلامی بستیاں بسانے اور قرآن و سنت کے مطابق بستیوں کا ماحول بنانے پر کام کا آغاز کیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ بستیوں کے رہنے والے اپنے ماحول کو اﷲ کے دین کے رنگ میں رنگیں ۔ اپنے ذاتی اور اجتماعی فیصلے قرآن و سنت کی روشنی میں کریں۔ زمین کے تنازعات ہوں یا عزیز واقارب اور رشتہ داروں کے گھر ، گلی ، محلہ یا عدالت و تھانہ کے، ان کی کوشش تھی کہ یہ سارے مسائل ان اسلامی بستیوں میں جرگے کے ذریعے اسلامی شریعت کے مطابق حل ہوں اور اس کے مطابق فیصلے کیے جائیں۔

وہ ضلع راولپنڈی کے۱۰سال تک امیررہے۔ اس زمانے میں انھوں نے ضلع بھر میں دعوت کے کام کو خو ب پھیلایا۔ ان کے نزدیک سید مودودیؒکے لٹریچر کی تقسیم دعوت کا بہترین اور عمدہ ذریعہ تھا۔ اس کا خاص اہتمام کرتے۔ وہ ایم این اے منتخب ہونے کے بعد عوامی مسائل کے حل کے ساتھ دعوت کے ابلاغ کے لیے متحرک رہتے۔ لوگوں کے مادی مسائل کے ساتھ ساتھ وہ ان کے روحانی مسائل کے حل کے لیے بھی کوشاں رہتے۔ ایم این اے بنے تو اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنی زمین فروخت کرتے رہے۔ لیکن ان کے ضمیر نے کبھی یہ گوارا نہ کیا تھا کہ وہ کمیشن کھائیں یا لقمۂ حرام سے فائدہ اٹھائیں۔ انھوں نے تنگی ترشی تو برداشت کی مگر رزق حلال کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا۔

بطور امیر ضلع نہایت شفیق اور مہربان انسان تھے۔ دفتر کے ساتھیوں کے ساتھ بہت اچھے رہے۔ کبھی اُف تک نہیں کہا۔ نماز کے سخت پابند تھے۔ صبح سب سے پہلے مسجد میں پہنچتے۔ صحافیوں کے ساتھ ان کے تعلقات بہت اچھے رہے۔ معروف صحافی مختار حسن صاحب نے کسی موقع پر کہا کہ راجا صاحب امیر ضلع بنے تو ہم صحافیوںکو بھی جماعت کے دفتر آنے کا موقع ملا، ورنہ اس سے پہلے جماعت کے دفتر کم ہی آنا ہوتا۔

وہ گفتگو بہت اچھی کرتے ، قرآن و حدیث سے مزین، اشعار کا استعمال ، دلسوزی، ان کی گفتگو کے خاص جوہر تھے جو صرف الفاظ کے پیکر نہیں تراشتے بلکہ ان کے منہ سے نکلنے والا ہر لفظ ایسے ہوتا تھا جیسے دل سے نکل رہا ہے۔ ان کی گفتگو اور عمل جذبۂ اخلاص سے معمور ہوتے۔ ضلع راولپنڈی اور اس کے گردو نواح بالخصوص کشمیر تک میں درس قرآن اور خطاب کے لیے بلائے جاتے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو شخصیت بھی وجیہہ عطا فرمائی تھی۔ اپنی شخصیت کو بھی وہ اقامت دین کے لیے استعمال میں لاتے۔ وہ اصلاً فنا فی التحریک تھے۔ خطہ پوٹھوہار سے تعلق رکھنے والے راجا محمد  ظہیر خان اس خطے میں تحریک اسلامی کی مضبوط او ر توانا آواز تھے۔ وہ بہادر اور جری انسان تھے۔ جو دل میں ہوتا وہی زبان پر ہوتا اور اس کے اظہار سے نہ چوکتے۔ چاہے اس کے لیے انھیں کتنی ہی قربانی دینا پڑے۔جہاں ان کی شخصیت وجیہہ اور حسین و جمیل تھی وہیں وہ اچھے لباس کے بھی شائق تھے۔ ان کا لباس ان کے اعلیٰ ذوق کا آئینہ دار ہوتا ۔وہ خوش خوراک تھے اور کھانے کا بھی خوب ذوق رکھتے تھے لیکن اس ضمن میں خاص احتیاط کرتے۔ یہ اخراجات اپنی جیب سے کرتے اور اس کا خاص اہتمام کرتے، کہ ان اخراجات کا بار جماعت پر نہ پڑے۔ کھانے پینے کی اچھی اچھی دکانوں کا ان کو پتا ہوتا۔ ان کی اس نفاست کے چرچے قومی اسمبلی میں بھی رہے۔ اچھا کھاتے، خوب کھاتے اور کھانے کا حق ادا کرتے۔ شوریٰ کے اجلاسوں میں بھی ان کی راے بہت نپی تلی ہوتی۔ ان کا مطالعہ بھی  وسیع تھا۔ قرآن وحدیث کے مطالعے کے ساتھ اسلامی تحریک، اور دنیاے اسلام کے حوالے سے عمدہ معلومات ان کے پاس ہوتیں جن کو وہ اپنی گفتگو کا حصہ بناتے۔

راجا محمد ظہیر رخصت ہوگئے ہیں۔ سید مودودیؒ کے چمن کے پھول،پرانے بادہ کشانِ محبت رخصت ہوتے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے فریضہ اقامت دین کی جدوجہد کو اختیار کیا تو اخلاص ، مکمل آمادگی اور جذبہ صادق کے ساتھ۔ اور اپنی تمام صلاحیتیں اور قابلیتیں اس راستے میں لگادیں اور پیچھے رہ جانے والوں کو منزل کی جانب مسلسل بڑھتے رہنے اور چلتے چلے جانے کا سراغ دے گئے۔ وہ اپنے حصے کی شمع روشن کرگئے اور ہمیں یہ پیغام دے گئے ہیں کہ اب تمھیں روشنی کے اس سفر کو جاری رکھنا ہے۔

اسلامی تاریخ کے قدیم کتابی ورثے میں ’بلادِ شام‘ سے مراد موجودہ شام، لبنان، اُردن اور فلسطین کی سرزمین ہے۔ اس قطعۂ ارضی کو سرزمینِ انبیا ؑ بھی کہا جاتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرِمعراج میں اس خطے کا ذکر زمینی گزرگاہ کے طور پر ہوا ہے۔ سورئہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت معراج رسولؐ کے اسی زمینی مرحلۂ سفر سے متعلق ہے۔مسجداقصیٰ کے گرد وپیش کی ساری زمین کو مفسرین نے اس آیت کی روشنی میں ’ارضِ مبارکہ‘ قرار دیا ہے۔ متعدد احادیث میں بلادِشام کے فضائل و مناقب بیان ہوئے ہیں۔ امام احمد اور ترمذی کی روایت ہے کہ حضرت زید بن ثابتؓ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شام کے لیے خوش خبری ہے؟ ہم نے عرض کیا: کس بنا پر یارسولؐ اللہ؟ آپؐ نے فرمایا: اس لیے کہ رحمن کے فرشتوں نے اس کے اُوپر اپنے پَروں کا سایہ کررکھاہے۔ ایک دوسری حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس   قطعۂ ارض کے لیے برکت کی دعا بھی فرمائی۔

اس فضیلت کے علاوہ صلیبی جنگوں میں اسلامی فتوحات کے شان دار سلسلے میں بھی شام کا ممتاز کردار رہا۔ شامی مجاہدین نے عماد الدین زنگی اور اُن کے بعد نورالدین محمود زنگی کی سپہ سالاری میں یہ کارنامہ انجام دیا۔ پھر شامی اور مصری اتحاد نے صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں بیت المقدس اور مسجداقصیٰ کو صلیبی تسلط سے آزاد کرایا۔ اسی بناپر بلادِ شام مغربی استعمار کا ہدف ٹھیرا اور اس نے شام کی وحدت کو کئی ریاستوں میںتقسیم کر دیا۔ خلافت ِ عثمانیہ کے تحت اسے ایک صوبے کی حیثیت حاصل تھی۔ سائیکس پیکو معاہدے کی رُو سے چار مملکتوں میں بانٹ دیا گیا۔ انگریزوں اور فرانسیسیوں کی اس تقسیم کے مطابق شام، لبنان، اُردن اور فلسطین کی مملکتیں وجود میں آئیں۔

چھٹی صدی ہجری کے معروف تجدیدی عالمِ دین شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے تاتاری قوتوں کے خلاف اس علاقے کی جہادی سرگرمیوں کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ ان میں خود شریک ہوکر  فریضۂ جہاد ادا کیا۔ یہ لشکرِاسلام اس وقت تو اپنا وجود بچانے میں کامیاب ہوگیا مگر بیسویں صدی عیسوی میں وحدتِ مسلمہ کے انتشار نے صہیونی قوتوں کو یہاں پنپنے کا موقع فراہم کردیا۔ آج شام کی تحریک براے تبدیلیِ نظام کی ناکامی اسرائیل کی سب سے بڑی خواہش ہے۔ اس لیے کہ اسرائیل شام اور مصر کے درمیان واقع ہونے کی بناپر اپنے آپ کو خطرے میں سمجھتاہے۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ بلادِشام کی یہ ارضِ مبارکہ کئی عشروں سے خطے کے باسیوں کے لیے جہنم     بنی ہوئی ہے۔ قتل و غارت اور تباہی و بربادی کی جو تاریخ اِن علاقوں میں رقم ہوچکی ہے، تجزیہ نگاروں کے مطابق اس سے بدتر صورت حال کا مشاہدہ ممکن نہیں۔ مظالم کی داستانیں رقم کرنے والے انسان نُما ان وحشی حکمرانوں کو ’انسانیت کے ماتھے پر بدنُما داغ‘ کہا جا رہا ہے۔

آج سے ۴۲برس قبل انسانیت کے ماتھے پر یہ بدنُما داغ اس وقت لگا تھا جب حافظ الاسد خاندان نے سرزمینِ شام کے آمرمطلق کے روپ میں نظامِ حکومت سنبھالا تھا۔ اسدکے اقتدار سنبھالنے سے لے کر آج تک شامی قوم مسلسل اس قصاب خاندان کے ہاتھوں ذبح ہورہی ہے۔ اسد کی حکمرانی اُس کی شخصی آمریت اور اکثریت پر علوی فرقے کا اقلیتی تسلط تھا، جسے عالمی ضمیر نے بھی قریباً نصف صدی سے ظلم وستم کی کھلی اجازت دے رکھی ہے۔ حافظ الاسد کو ملنے والے اقتدار کا آغاز گولان کے علاقے سے شام کی محرومی کی قیمت پر ہوا۔ اسرائیل سے اپنی شکست اور افواج کی پسپائی کا خودساختہ اعلان کرنے والے اُس وقت کے شامی وزیردفاع حافظ الاسدکا یہ فیصلہ اُس کی ذات اور خاندان کے لیے شاہانہ زندگی کی ضمانت فراہم کرگیا۔ ۴۲برس سے شام باپ بیٹے کی آمریت میں سلگ رہا ہے۔ باپ نے ۳مارچ ۱۹۷۱ء کو اقتدار سنبھالنے کے بعد عوام کو طرح طرح کے تعذیب و تشدد اور قتل و غارت کے ذریعے اپنا محکوم بنائے رکھا۔ ۲۷جون ۱۹۸۰ء میں تدمر کے مقام پر قتلِ عام سے حافظ الاسد کے خونریز تاریخی سلسلے کا آغاز ہوا۔ پھر ۱۰مارچ ۱۹۸۰ء کو جسرالشغور کے مقام پر، ۵-۱۲؍اپریل ۱۹۸۰ء کو حماۃ شہر میں، ۱۱؍اگست ۱۹۸۰ء کی صبح عیدالفطر کے روز حلب شہر کے محلے المشارفہ میں قتل و غارت کا اعادہ کیا گیا۔ ۲فروری ۱۹۸۲ء کو تو حماۃ کے ایک بہت بڑے  قتلِ عام کا تحفہ قوم کو دیا گیا۔ یہ قتل عام مسلسل ۲۰دن رہا اور اس میں ۳۰ سے ۴۰ ہزار نفوس نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ۱۵ہزار افراد لاپتا ہوگئے جن کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ ایک لاکھ شہری اپنے گھروں سے ہجرت کرجانے پر مجبور کردیے گئے کیونکہ حماۃ کے ایک تہائی مکانوں کا مکمل طور پر صفایا کردیا گیا تھا۔

۱۰؍جون ۲۰۰۰ء کو بیسویں صدی کا یہ سفاک اور ظالم حکمران موت کے منہ میں چلا گیا۔ اس کا بیٹا بشارالاسد اس کی جانشینی میں صدرِ مملکت قرار پایا۔ گویا شام کا ملوکیت کے چنگل میں مستقل طور پر جھگڑتے رہنا اس کا مقدر ہے۔ شاید شامی قوم نے اکیسویں صدی کے ’عالمی انسانی حقوق‘ کے خوش نُما دور میں بھی اپنی تباہی و بربادی کا مزید رقص ابھی دیکھنا تھا، لہٰذا ۲۰۱۱ء میں عرب ممالک میں اُٹھنے والی بیداری کی لہر میں شامی قوم بھی شامل ہوگئی۔ باپ کی سفاکانہ تاریخ کو اگر بیٹا آگے نہ بڑھاتا تو جانشینی کا اہل ثابت کیسے ہوتا، لہٰذا وہ اسلحہ جو ۱۹۶۷ء میں گولان کے تنازعے پر اسرائیل کے خلاف استعمال ہونے کے بعد صرف اور صرف شامی قوم کی ’سرکشی‘ کو کچلنے کے علاوہ کبھی اور کہیں استعمال نہ ہوا تھا، دوبارہ اسی شامی قوم پر آزمایا گیا۔ بیٹے نے باپ کی تلخ یاد عوام کو دلا دی بلکہ اب تو قوم مظالم کے اُس سلسلے کی روح فرسائی کو ہلکا سمجھ رہی ہے جو باپ نے قائم کیا تھا۔ کیونکہ بیٹے نے اُس سے دس قدم آگے بڑھ کر قوم کو لاشوں، ہجرتوں اور در و دیوار کی مسماری و تباہی کا تحفہ دیاہے۔

اخوان المسلمون مصر کے مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع کا کہنا ہے کہ شامی قوم پر فضائی اور زمینی ہرقسم کے حملے کیے جارہے ہیں۔ ٹینکوں، توپوں اور راکٹوں سے انسانوں کو تباہ کیا جارہا ہے۔گھر مسمار کیے جارہے ہیں، عزتیں پامال کی جارہی ہیں اور جایدادیں لُوٹی جارہی ہیں۔ اس سے خوف ناک اور دل سوز منظر یہ ہے کہ بچوں کو ذبح کیا جاتا ہے۔ انسانوں کو زندہ دفن کردیا جاتاہے، جو گرفتار ہوجائیں اُن کو بشار کی تصویر کو سجدہ کرنے اور کلمۂ کفر کہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اگر وہ انکار کریں تو بکروں کی طرح انھیں ذبح کردیا جاتا ہے۔ شہادتوں کی تعداد کئی ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ (اخوان آن لائن)

واشنگٹن پوسٹ کے ایک کالم میں کہا گیا ہے کہ حلب جو دنیا کا قدیم ترین شہر ہے آگ کے شعلوں میں جل رہا ہے۔ بشار کی افواج دشمن کے شہریوں کو نہیں بلکہ شامی قوم کوقتل کر رہی ہیں جو حیرت انگیز ہے۔ تجزیے میں کہا گیا ہے کہ بشارالاسد جس وحشیانہ طریقے سے شام کے شہروں میں تباہی و بربادی عام کر رہاہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کو دوبارہ اس حالت میں لایا نہیں جاسکے گا۔

الشرق الاوسط کے مدیراعلیٰ طارق الحمید نے لکھاہے کہ ’’شام میں قتل و غارت اور تباہی و وخونریزی کا سلسلہ بد سے بدترین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ عالمی طاقتیں اپنے نقطۂ نظر میں متفق نہیں ہیں، بلکہ یہ کہاجانا چاہیے کہ سب کچھ واضح ہے کچھ بھی پوشیدہ نہیں۔بشارانتظامیہ قتل کے راستے پر چل رہی ہے، جب کہ قوم اُس کے خلاف تبدیلی کے لیے بپھری ہوئی ہے، اور ادھر بشارانتظامیہ روس، ایران اور حزب اللہ سے مدد لے رہی ہے مگر کس کے لیے؟ بے یارومددگار اور تنہا شامی قوم کو تباہ کرنے کے لیے۔ (۹؍اکتوبر۲۰۱۲ئ)

الجزیرہ نیٹ کے ایک تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ کسی کو توقع نہیں تھی کہ شام کی صورت حال اس  قدر خراب ہوجائے گی اور اسلحہ ہی فیصلہ کن قوت بن جائے گا۔ ہرآواز جنگ کی آواز میں دب جائے گی،حُریت و حقوق کے علَم بردارِ سیاست اسلحہ اُٹھانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ عوامی مزاحمت کے عسکریت پسندی کی طرف جانے کی وجوہات یہ ہیںکہ جب مظاہرین اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹتے دکھائی نہ دیے تو حکومت نے انھیں اسلحے کے زور سے کچلنے کی کوشش کی۔ اسلحے کا یہ استعمال یقینی بات ہے کہ فوج اور پولیس ہی کو کرنا تھا، لہٰذا فوج اور پولیس کی کثیرتعداد نے اپنی ہی قوم اور اپنے ہی خاندانوں پر اسلحہ چلانے سے انکار کر دیا اور اس جنگ میں فوج کی شرکت پر اعتراض کیا۔ جب یہ لوگ حکومت کی رخصتی کے واحد نکتے پر متفق ہوگئے تو عوام اور قوم کے ساتھ مل گئے۔ ادھر ’آزاد لشکر‘ یعنی عوامی لشکر اپنے بڑے بڑے گروپ تشکیل دے کر مظاہروں کااہتمام کر رہے تھے جن کے ساتھ وہ لوگ ملتے گئے جنھیں اپنے گھربار اور اہل و عیال کے دفاع کی فکر تھی۔ اس کے ساتھ تیسری قوت اُن افراد کی شامل ہوگئی جو تشدد پسند مذہبی انقلابی رجحان رکھتے ہیں۔ان لوگوں کی شمولیت کے باعث حکومت کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ چوتھی طاقت اس تحریک میں   اُن لوگوں کی شامل ہوگئی جو جیلوں سے رہا ہوئے تھے یا جو جرائم پیشہ عناصر تھے۔ ان قیدیوں کو حکومت نے تحریکِ بیداری کے آغاز میں رہا کیا تھا۔ اس عوامی قوت میں بعض کمزور دل اور    مُردہ ضمیر لوگ جب شریک ہوگئے تو لُوٹ مار اور چوری، ڈکیتی کی وارداتوں کا سلسلہ بھی بڑھ گیا۔

اس میں شک نہیں کہ بشارحکومت نے تحریکِ مزاحمت کا رُخ خود مسلح جدوجہد کی طرف موڑا ہے مگر اُسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ ’جیش حر‘ (آزاد لشکر) اُس کے گلے کی پھانس بن جائے گا اور انتظامیہ کی تمام تر قوتوں کو بھی اس معرکے میں جھونک کر کامیابی کی اُمید دکھائی نہیں دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بشاری قوتیں شہریوںکو اجتماعی تشدد و تعذیب کے ذریعے انھیں آزاد لشکر سے الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کرر ہی ہیں۔ (الجزیرہ نیٹ، ۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۲ئ)

الشرق الاوسط کی ایک رپورٹ سوریا: ’جمہوریۃ الخوف‘ (شام: خوف کی ریاست) میں حافظ الاسد خاندان کے حکومتی تسلط کے جاری رہنے کی ایک وجہ اُس کے جاسوسی نظام کو بتایا گیاہے۔ رپورٹ کے مطابق بشارانتظامیہ میں شامل افراد نے پورے ملک میں مخبری اور جاسوسی کا ایسا نظام قائم کر رکھا تھا کہ ہرشخص اپنے ساتھ رہنے اور کام کرنے والے آدمی پر اعتبار نہیں کرتاتھا۔ وہ یہی سمجھتا تھا کہ شاید یہ حکومتی ایجنسیوں کے لیے مخبری کرتا ہو۔ اس مقصد کے لیے بے روزگار نوجوانوں اور معاشی طور پر زبوں حال خاندانوں کے افراد استعما ل ہوتے رہے۔ رپورٹ میں کئی فرضی ناموں سے اُن افراد کی گواہیاں پیش کی گئی ہیں جو اس نیٹ ورک کے لیے کام کرتے رہے۔

صرف حکومتی ایجنسیاں ہی یہ کام نہیں کرتی رہیں بلکہ بعث پارٹی کا ہرکارکن یہ دھندہ کرتا رہا اور معصوم و مجبور لوگوں کو اس مقصد کے لیے استعمال کرتا رہا۔ مخبری کا یہ نظام اس قدر وسیع تھا کہ   یہ جملہ زبان زدعام عوام تھا کہ ’’احتیاط سے بات کرو، دیواروں کے بھی کان ہیں‘‘۔

بتایا گیا کہ بشارالاسد کا بھائی جنرل ماہر الاسد فوج کے اندر بہت زیادہ اثر رکھتا ہے۔ مخبرین کا ایک گروہ ا س کی حرکات و سکنات نوٹ کرنے کے لیے بھی کام کرتاہے کہ کہیں وہ    ’الدنیا چینل‘ تو نہیں دیکھتا جس میں حکومتی طرزِعمل پر تنقید کی جاتی ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ کہیں ماہر الاسد عوام کے ساتھ نہ جاملے۔ جب صورت حال اس قدر بے اعتمادی اور خودغرضی کی حدوں کو چھونے لگے تو وہاں عوام کے خون، عزت و آبرو اورحقوق کی کیا وقعت ہوسکتی ہے۔ عوام تو عوامی مقامات، ہوٹلوں، قہوہ خانوں، گلیوں، بازاروں میں بات کرتے ہوئے بھی سوبار سوچتے ہیں کہ جس آدمی سے بات کی جارہی ہے یہ بعثی جاسوس تو نہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تحریکِ مزاحمت کے مسلح رُخ اختیار کرجانے میں اس نظامِ جاسوسی کا خاصا دخل ہے۔ جاسوسی نظام نے ہراُس شہری کو مشکوک سمجھا جو واقعتا حکومت کے خلاف سرگرم نہیں تھا مگر انتظامیہ کے بے جا تشدد اور اذیت رسانی نے اسے ’جیشِ حُر‘ کے ساتھ جاملنے پر مجبور کیا۔ (الشرق الاوسط، ۲۸ستمبر۲۰۱۲ئ)

ہفت روزہ المجتمع نے شام کی اس داخلی جنگ کے متاثرین میں سے چند خواتین کے تاثرات اور اُن کی الَم ناک روداد شائع کی ہے۔ یہ خواتین شام کے ہمسایہ ممالک اُردن، ترکی، لبنان، الجزائر اور عراق کی سرحدوں پر موجود مہاجر کیمپوں میں ناقابلِ بیان حالات میں سانس لے رہی ہیں۔ مختلف اندازوں کے مطابق شام کی اس اندرونی جنگ کے باعث اپنے گھربار چھوڑ کر محض اپنی اور اپنے بچوں کی جان بچانے کی خاطر ۱۰ لاکھ سے زائد لوگ ہجرت کرچکے ہیں۔ یقینا ہمسایہ ممالک کا اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کو قبول کرنے اور انھیں سنبھالنے کا مسئلہ معمولی نہیں ہے۔  پھر ان کیمپوں کے اندر مہاجرین کو ضروریات فراہم کرنے کا کام بھی آسان نہیں۔

اُردن کے صحرا میں زعتری، ذنبیہ اور رمثا کیمپوں میں موجود مہاجر خواتین سے المجتمع کے نمایندے نے صورت حال کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ بنیادی انسانی ضروریات بھی یہاں فراہم نہیں ہورہی ہیں۔ ایک خاتون نے بتایا کہ میں اپنے شیرخوار بچے کے لیے تین دن سے دودھ کے ایک پیکٹ کے لیے گھوم رہی ہوں مگر مجھے وہ دستیاب نہیں ہوسکا۔خواتین سے خوف و ہراس کی اس صورت حال میں ان سرحدوں کی طرف فرار کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ کوئی معمول کا سفر نہیں تھا۔ ہم پیدل چل کر ۱۰ر وز کے بعد یہاں پہنچی ہیں۔ خواتین کے یہ چھوٹے چھوٹے گروپ اپنی بچیوں بچوں کے ساتھ شام کے بڑے شہروں حمص، حماۃ،درعا، حلب وغیرہ سے جان بچاکر بھاگے اور اب ہمسایہ مالک کی سرحدوں پر یا اپنے ہی ملک کے اندر موجود کیمپوں میں بے بسی کے لمحات گزار رہی ہیں۔ سفر کی صعوبتوں کے ساتھ اب کیمپوں کے اندر ناکافی ضروریات نے ان پناہ گزینوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ وہ خواتین جو ہمسایہ ممالک میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئیں اُن کے مسائل اور مصائب کو کسی حد تک کم کرنے کی سماجی کوششیں جارہی ہیں۔

ترکی اس اعتبار سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے کہ اُس کی سرحدی آبادی کے شام کے گرد قبائل کے ساتھ رشتہ داری کے مراسم ہیں، اور بہت بڑی تعداد اس سرحد پر موجود ہے۔ ترکی اپنی کوشش کر رہا ہے کہ مہاجرین کے مسائل بھی حل کیے جائیں اور جلد سے جلد شامی صورت حال معمول پر لائی جائے، مگر بدقسمتی سے ترکی کو اس اندرونی جنگ میں گھسیٹنے کی پوری کوشش ہورہی ہے، بلکہ اسے ترکی کے خلاف جنگ کا بہانہ بناکر بشارانتظامیہ اپنا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش میں ہے۔ شام کو اسلحہ و بارود سپلائی کرنے والے طیارے کو جب ترکی نے اپنی سرحدوں میں داخل ہونے پراُتار لیا تومعلوم ہوا کہ روس کی طرف سے یہ اسلحہ بشارانتظامیہ کی مدد اور شامی قوم کی تباہی کے لیے جارہا تھا۔

حکومت کی تبدیلی کے لیے شروع ہونے والی تحریک عوامی مظاہروں سے جنگی کارروائیوں کی طرف منتقل ہوگئی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق بشارانتظامیہ روس و ایران سے کمک لے رہے ہیں، اور عوامی مزاحمت عسکریت کے ذریعے اُس کا جواب دے رہی ہے۔ شام کے دُوردراز علاقوں میں بسنے والے کاشت کار بھی اس تحریک میں شامل ہوکر اپنا ’فرض‘ ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بشارانتظامیہ ملک کے بڑے شہروں کے بیش تر حصوں پر اپنی گرفت قائم رکھنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ حمص، حماۃ، حل، درعا، وہ شہر ہیں جہاں بشار کا زور ٹوٹ چکا ہے مگر حالات مکمل طور پر ’جیش حُر‘ کے قابو میں بھی نہیں آسکے۔

الشرق الاوسط کے تجزیہ نگار عبدالرحمن الراشد کے مطابق: ’’دارالحکومت دمشق کے بجاے حلب کا فتح ہونا عوامی مزاحمت کی کامیابی اور بشار کی ناکامی کا حتمی اعلان ہوگا۔ حلب انسانی تاریخ کا قدیم ترین شہر ہے۔ اس کی عمر ۱۰ہزار سال کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ دنیا کی ہرشہنشاہیت کا یہاں سے گزر ہوا اور اس شہر کی خاطر اُس نے جنگ لڑی۔ دنیا کی آخری سلطنت خلافت ِ عثمانیہ نے آستانہ و قاہرہ کے بعد اسے اپنا تیسرا دارالخلافہ بنایا۔یہی وجہ ہے کہ دونوں متحارب گروپوں کا زیادہ زور حلب کے اندر صَرف ہورہا ہے۔

دمشق کی صورت حال حلب کی نسبت مختلف ہے۔ یہ دارالحکومت ہونے کی بنا پر ہرطرح کے دفاعی حصار میں محفوظ ہے۔ تاہم کارروائیاں تو یہاں بھی جاری ہیں مگر یہ وقفے وقفے اور بڑی تکنیکی منصوبہ بندی کے بعد ممکن ہوتی ہیں۔ یہاں زیادہ تر کارروائیاں گوریلا ہوتی ہیں۔ ان کارروائیوں پر قابو پانا انتظامیہ کے لیے نسبتاً آسان ہے۔ دمشق کے مشکل ہدف ہونے کی بنا پر  جیش حُرکا زیادہ ارتکاز حلب پر ہے۔ اگست میں حلب عوامی مزاحمت کے کنٹرول میں آنے ہی والا تھا کہ روس اور ایران کی بہت بڑی مددد نے اسے ناممکن بنادیا۔ ۱۹۵۳ء کے عسکری انتفاضہ میں بھی جب سقوطِ حلب عمل میں آیا تو پھر جلد ہی دیگر شہر جبل الدروز اور حمص بھی انتظامیہ گرفت سے آزاد ہوگئے۔ حلب کا سقوط خونریز معرکے، مزاحمت کاروں کی مردانہ وار جرأت مندی اور زخمی اہلِ شہر کے صبر کے ساتھ ہی ممکن ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ انتظامیہ فوراً بے بس ہوجائے تو یہ حلب کے سقوط کے ذریعے ہی ممکن ہے، کیونکہ یہ شام کا سب سے بڑا شہر ہے اوراس کے سقوط کے بعد ہی روس اور ایران شام کے قصاب، بشارالاسد کی پشت پناہی سے ہاتھ روکنے پر مجبور ہوں گے‘‘۔ (الشرق الاوسط ،۲۹ستمبر ۲۰۱۲ئ)

ان حالات میں اخوان المسلمون مصر کے مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع نے شامی عوام کی مزاحمت کو عزیمت و استقامت اور قربانی کا معرکہ کہا ہے۔ عالمِ اسلام سے شامی قوم کی مادی و اخلاقی مدد کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے کہا: اگرچہ حالات بہت دگرگوں ہیں، سازشیں خوف ناک اور پے درپے ہیں، اور قربانی و شہادت کی مثالیں دلدوز اور اَلم ناک ہیں لیکن غلبہ قانونِ الٰہی کو ہی حاصل ہے۔ گھڑی کی سوئیوں کو اُلٹا نہیں چلایا جاسکتا۔ بے گناہ اور پاکیزہ خون رائیگاں نہیں جائے گا، بلکہ یہ  عن قریب نصیب ہونے والی فتح کی بہت بڑی قیمت ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ پوری شامی قوم خالص اور مخلص ہوکر اللہ کی طرف رجوع کرچکی ہے اور رنجیدہ دلوں کی گہرائیوں سے اُٹھنے والی یہ سچی آواز ہم سن رہے ہیں: یاَاللّٰہ مَا لَنَا غَیْرَکَ یَا اللّٰہ (اللہ تیرے سوا ہمارا کوئی نہیں، اے اللہ!)۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ سچی آہ و زاری اللہ کی رحمت، تائید اور نصرت کے حصول میں کامیاب ہوکر رہے گی۔

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا ہے:’’اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں، اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے: ’’ہمارارب اللہ ہے‘‘۔ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کرڈالی جائیں۔ اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اُس کی مدد کریں گے۔ اللہ بڑا طاقت ور اور زبردست ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیںگے، نیکی کا حکم دیںگے اور بُرائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔ (الحج ۲۲:۳۹-۴۱)

جنوبی فلپائن کے مورو مسلمان برس ہا برس کی قربانیوں کے بعد وسیع تر خودمختاری کی منزل کے حصول میں سرخرو ہوچکے ہیں۔ حکومت ِ فلپائن اور مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے درمیان گذشتہ ۱۶برس سے جاری مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوئے۔ وسط اکتوبر میں طے پانے والے معاہدے سے جزائر منڈانائو، سولو کے مسلمان نہ صرف خودمختاری حاصل کرلیں گے بلکہ ۲۰۱۵ء میں ایک آزاد مسلم ریاست بھی وجود میں آجائے گی جس پر رومن کیتھولک فلپائن کی حکومت کو کسی طرح کا اختیار حاصل نہ ہوگا۔ بنگسامورو مسلمانوں کی زندگی میں یہ معاہدہ ایک اہم تاریخی دستاویز اور سنگ ِ میل کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

اس معاہدے کو ’فریم ورک معاہدہ براے حتمی قیامِ امن‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس وسیع تر خودمختاری کے حصول کے بعد مسلح جنگ جو منیلا حکومت کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں بند کردیں گے۔ اندازہ یہ ہے کہ آزادی کی منزل اور مسلم ریاست کے قیام کی جدوجہد میں ڈیڑھ لاکھ مورو مسلمان جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ بنگسامورو وطن کا تنازعہ ایشیا کے قدیم اور پیچیدہ تنازعات میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔ نئے عالمی نظام کے علَم برداروں نے صرف اپنے موضوعات اس قدر اُچھالے ہیں کہ مسلمانوں کے مسائل پس منظر ہی میں رہتے ہیں۔ تاہم اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، حکومت امریکا و روس اور اسلامی ممالک نے اس معاہدے کا اس لیے خیرمقدم کیا ہے کہ اس سے نہ صرف ایشیا میں امن قائم ہوگا بلکہ فلپائن کی حکومت بھی اپنے عوام کے لیے دائمی امن و سکون کے قیام کو یقینی بناسکتی ہے۔ مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے ۱۲ہزار مسلح مجاہدین سروں پر کفن باندھ کر میدانِ عمل میں ڈٹے رہے اور گذشتہ ۵۰برس میں منڈانائو، سولو، سلاوان کے مسلمانوں نے جس قسم کے اقتصادی، معاشرتی، سیاسی اور مذہبی بائیکاٹ کا سامنا کیا ہے اور نسل در نسل جس قدر قربانیاں دی ہیں وہ ایک الگ تاریخ ہے جس کو مرتب کیا جانا چاہیے۔

۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۲ء کو اس معاہدے پر دستخط ہوچکے ہیں۔ مورو اسلامک لبریشن فرنٹ (جو عرصۂ دراز سے آزاد اسلامی حکومت کے قیام کے لیے سیاسی و مسلح جدوجہد کر رہی ہے) کے مصالحت کار مھاگر اقبال اور حکومت فلپائن کے مصالحت کار ماروک لیونن نے منیلا کے صدارتی محل میں اس تاریخی دستاویز پر دستخط کیے۔ فلپائن کے صدر بینگِینو اکینوسوم، ملایشیا کے وزیراعظم نجیب رزّاق اور مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے پُرعزم مجاہد قائد حاجی مراد دستخطوں کی تقریب میں موجود تھے۔ فرنٹ کے سربراہ اور حکومت ِ فلپائن نے ملایشیا کی حکومت کا خصوصی شکریہ ادا کیا ہے جنھوں نے اس دیرپا مسئلے کے حل کے لیے مصالحت کار نامزد کیے اور ۱۶برس کی محنت آخرکار رنگ لے آئی۔

یہ وسیع تر حقوق اور وسیع تر خودمختاری کا معاہدہ ہے۔ او آئی سی کو میانمار (برما) میں روہنگیا مسلمانوں کی حالت کا معائنہ کرنے کے لیے دفتر کھولنے کی اجازت نہ مل سکی، تاہم اُس کے سیکرٹری جنرل نے بھی جنوبی فلپائن میں بنگسامورو کی ریاست کے قیام کا خیرمقدم کیا۔اس معاہدے کو   رُوبہ عمل لانے کے لیے حکومت،فوج، پولیس، بنک، بلدیہ، ایکسچینج اور دیگر اہم اداروں کی تشکیل کے لیے درجنوں کمیشن تشکیل دے دیے گئے ہیں جس میں دونوں جانب سے نامزد نمایندے شامل کردیے گئے ہیں۔ جس وقت دستخط کی تقریب منعقد ہورہی تھی اُسی وقت ہزاروں مورو مسلمان اپنے قصبوں، شہروں اور دیہاتوں میں نعرئہ تکبیر بلند کر رہے تھے۔ خواتین نے بڑے بڑے جلوسوں کی صورت میں اپنی مسرت اور استعمار سے نجات کے آغاز کا خیرمقدم کیا اور میڈیا میں اسے شہ سرخیوں کے ساتھ جگہ دی گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کئی ایسے نکات ہیں  جن پر فریقین میں اختلاف ہوسکتا ہے، تاہم مجموعی طور پر قابض فلپائن اور زیرتسلط مورو مسلمان کی حتمی آزادی کے لیے ٹھوس اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔

وسیع تر خودمختاری کی حامل ریاست کا نام بنگسامورو [مورو مسلمانوں کا گھر] ہوگا۔ ۱۳صفحات پر مشتمل دستاویز میں واضح طور پر تحریر کیا گیا ہے کہ مسلح مورو مجاہدین بتدریج مسلم پولیس فورس میں مدغم ہو جائیں گے۔ ۱۵؍ افراد پر مشتمل عبوری کمیشن تشکیل دیا جائے گا جو دستور تشکیل دے گا۔

مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے سربراہ حاجی مُراد نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ زیرتسلط مورو مسلمانوں کی اَن گنت قربانیاں رنگ لائی ہیں۔ مورو مسلمان اپنے وطن، اپنی شناخت،اپنے دستور اور اپنی روایات کے مطابق زندگی بسر کرسکیں گے۔ تمام مسلح، نیم مسلح دستے، تعمیرِنوکی جدوجہد میں شریک ہوجائیں گے۔ اس نئی خودمختار ریاست میں پانچ صوبے شامل ہیں۔ باسلان، کوٹاباٹو، دواؤڈیل سور، سلطان قدرت، تاوی، سولو، واوی، دِیولوگ اور دیتیان کے علاقے ان پانچ صوبوں میں شامل ہیں۔ ۱۹۹۶ء میں حکومت ِ فلپائن نے مورو لبریشن فرنٹ سے معاہدے کے بعد اس علاقے کو خودمختار قرار دینے کا اعلان کیا تھا، بوجوہ اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا ۔ ۲۰۰۸ء میں ہونے والا ایک اور معاہدہ بھی مسلمانانِ بنگسامورو کے لیے نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکا تھا۔

مورو لبریشن فرنٹ کا ، جو گذشتہ برسوں میں حکومت سے معاہدے کرتا رہا ہے، کہنا ہے کہ حکومت ِ فلپائن پر شدید دبائو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے ورنہ فلپائن کی حکومت کسی وقت بھی پینترا بدل سکتی ہے۔ ابھی خودمختار ریاست کا اعلان ہوا ہے اور مغربی طاقتوں نے وہاں القاعدہ ایجنٹوں کی موجودگی کا تذکرہ شروع کردیا ہے۔ یاد رہے دونوں بڑی تنظیموں میں داخلی اختلافات کے باوجود خلافت ِ راشدہ کی طرز پر ریاست کے قیام پر کوئی اختلاف نہیں۔

مسلمان یہاں سیکڑوں برس سے آباد ہیں اور ۱۵۷۰ء میں اس علاقے پر پُرتگیزیوں نے قبضہ کیا تھا۔ یہ علاقے قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں اور ہمسایہ ملک ملایشیا کی طرح یہاں کے مسلمان بھی اسلامی روایات پر نسل در نسل عمل پیرا چلے آرہے ہیں۔ اُمید کی جاتی ہے کہ یہاں جلد ہی ایسی حکومت قائم ہوجائے گی جودین اسلام کے حقیقی نفاذ کا عزم رکھتی ہے۔ مورو اسلامک فرنٹ کے اوّلین چیئرمین اُستاذ سلامات ہاشم کے عالمی اسلامی تحریکات سے گہرے مراسم تھے۔ سابق امیرجماعت اسلامی میاں طفیل محمد مرحوم کی دعوت پر وہ کئی بار پاکستان تشریف لائے تھے۔ 

سونے، چاندی، تانبے، زرخیز زرعی زمین، چاول، کپاس، گنا، گوشت اور سیکڑوں میل پھیلی ہوئی سمندری پٹی کے ساتھ بے حدوحساب مچھلی و سمندری خوراک کی دستیابی اس سے ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے اور آزادی کے ساتھ تعمیروترقی کی راہ طے کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔

ماں کا بچوں سے امتیازی رویہ

سوال: والدین کو کسی ایک بچے کی طرف میلان رکھتے ہوئے باقی بچوں کے حقوق کی   حق تلفی نہیں کرنی چاہیے۔ ان کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیے کیونکہ سب بچوں کو والدین سے یکساں نسبت ہوتی ہے۔ لیکن اگر کوئی ماں ان باتوں سے قطع نظر کسی خاص بچے کی طرف میلان رکھے،ہرمعاملے میں اس کو فوقیت دے اور دیگر اولاد کی حق تلفی کرے تو یہ غیرعادلانہ رویہ ہوگا۔ماں کا اپنے بچوں سے امتیازی رویہ اور کسی ایک بچے سے کیا گیا ترجیحی سلوک بچوں میں حسد، انتقام اور رقابت کے جذبات بھی پیدا کرتے ہیں اور محبت کے بجاے نفرت جنم لیتی ہے۔ اس صورتِ حال میں اگر باقی اولاد فساد کے خدشے سے احتجاج بھی نہ کرسکے تو پھر تنائو کی کیفیت سے بچنے اور گھریلو نظام کو منتشر ہونے سے بچانے کے لیے کیا کیا جائے، جب کہ ماں کا احترام اپنی جگہ مقدم ہے؟

جواب: قرآن پاک میں والدین کے بارے میں ارشاد فرمایا: اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَآ اَوْ کِلٰھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّھُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْھَرْ ھُمَا وَ قُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًاo   (بنی اسرائیل ۱۷:۲۳) ’’اگر تیرے پاس ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پہنچے یا دونوں تو ان کو اُف تک نہ کہو اور ان کو جھڑکو بھی نہیں اور ان کے ساتھ عزت سے بات کرو‘‘۔ اس آیت میں    ماں باپ کے بڑھاپے کا اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ بڑھاپے میں مزاج میں سختی آجاتی ہے۔   بعض اوقات بلاوجہ بھی ماں باپ ناراض ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں فرمایا کہ پھر بھی انھیں اُف تک نہ کہو۔ ماں کا کسی ایک بیٹے کی طرف میلان ہو اور وہ اس پر اعتماد کرے اور دوسروں پر    اسے ترجیح دے ایسا کرنا درست نہیں ہے۔ ماں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اگر وہ پھر بھی ایسا کرتی ہے تو بچوں کو صبر کرنا چاہیے۔ ماں نے جوان کے لیے تکلیف برداشت کی ہے، جب وہ اس کے پیٹ میں تھے اور جب وہ اس کی گود میں تھے، اور کم از کم سات سال تک خدمت کی، جب کہ وہ خود اپنی کوئی خدمت کرنے کے قابل نہ تھے، لہٰذا ماں کے احسان کا بدلہ نہیں چکایا جاسکتا۔ بچے اگر عمربھر والدین کی خدمت کرتے رہیں تب بھی ماں باپ کی خدمت کا حق ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ ماں باپ کی نافرمانی کو گناہِ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ آدمی ذلیل و خوار ہو ، وہ رسوا ہو۔ عرض کیا گیا: یارسولؐ اللہ! کون؟ آپؐ نے فرمایا: وہ بدنصیب جو ماں باپ کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پائے، پھر ان کی خدمت اور ان کا دل خوش کرکے جنت حاصل نہ کرے۔

بعض اوقات اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے حق کو اپنے حق سے بھی مقدم رکھا ہے۔ نبیؐ نے جہاد کے مقابلے میں ماں باپ کی خدمت کو ترجیح دی ہے۔ ایک آدمی یمن سے ہجرت کر کے مدینہ آیا۔ آپؐ نے اس سے پوچھا: کہ یمن میں تمھارا کوئی ہے؟ اس نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میرے ماں باپ ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: کیا انھوں نے تمھیں اجازت دی ہے؟ اس نے عرض کیا: نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: واپس جائو اور ان سے اجازت مانگو۔ اگر تمھیں اجازت دے دیں تو آئو اور جہاد میں لگ جائو، اور اگر وہ اجازت نہ دیں تو ان کی خدمت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے رہو۔ (ابوداؤد)

اس لیے آپ ماں سے نرمی اور ادب کے ساتھ اپنا حق مانگتے رہیں۔ اگر وہ حق ادا کرے تو بہتر ورنہ صبر سے کام لیں۔ آپ کے بھائی کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے۔ اس کے ساتھ حسد نہ کریں۔ بلاوجہ بھائی کے ساتھ حسد کرنا برادران یوسف ؑکی سیرت ہے۔وہ حضرت یوسف ؑ سے حسد کرتے تھے کہ حضرت یعقوب ؑ یوسف علیہ السلام سے زیادہ محبت رکھتے تھے۔ قرآن پاک میں ان کے اس قول کو نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے کہا: لَیُوْسُفُ وَ اَخُوْہُ اَحَبُّ اِلٰٓی اَبِیْنَا مِنَّا وَ نَحْنُ عُصْبَۃٌ(یوسف ۱۲:۸) ’’یوسف اور اس کا بھائی ہمارے باپ کو ہمارے مقابلے میں زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم ایک مضبوط جماعت ہیں‘‘۔ اگرچہ برادرانِ یوسف ؑ کو اپنے باپ حضرت یعقوب ؑ سے یہ شکایت نہ تھی کہ وہ ان کے کسی حق کو تلف کر رہے ہیں۔ حضرت یعقوب ؑ کھلانے پلانے، لباس اور پوشاک اور عطیات میں مساوات کرتے تھے اور اسلام کا یہی حکم ہے کہ ماں باپ کو چاہیے کہ اولاد میں مساوات رکھیں، جانب داری نہ کریں۔ آپ کی والدہ میں بھائی کی طرف داری کی کمزوری پائی جاتی ہے۔ آپ ایک کام یہ کریں کہ اسے برداشت کریں۔ دوسرا یہ کہ والدہ کے لیے دعا کریں کہ وہ طرف داری نہ کریں۔ تیسرا کام یہ کہ اللہ رب العزت جو خزانوں کا مالک ہے اور ہمارا اور ہمارے ماں باپ کا رب ہے اور ماں باپ کے پاس تھوڑا بہت جو بھی ہے وہ اللہ کا دیا ہوا ہے، ماں باپ تو فقیر ہیں اور محتاج ہیں اور اللہ غنی ہے۔ آپ اللہ سے مانگیں۔ اللہ اپنے خزانوں سے آپ کو اتنا کچھ دے دے گا جس کا تصور آپ اور آپ کی والدہ نہیں کرسکتیں۔ اللہ سے تعلق بڑھائیں، اس کی عبادت میں لگ جائیں۔ اقامت دین کے لیے جدوجہد کریں ، اسلامی تحریک کا ساتھ دیں، ملک و ملّت کی خدمت کریں۔ والدہ کی بھی خدمت کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے دلوں کو بھی ٹھیک کردے گا اور تمام مسائل اور مشکلات کو بھی حل کردے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی بندگی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یاربنا کریم، واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (مولانا عبدالمالک)

 

سیکولرزم، مباحث اور مغالطے ، طارق جان۔ ناشر: ایمل پبلی کیشنز، اسلام آباد۔ تقسیم کنندہ: ۱۲-سیکنڈفلور، مجاہد پلازا، بلیوایریا،اسلام آباد۔صفحات: ۶۴۳۔ قیمت:۸۸۰ روپے۔ /۲۰؍امریکی ڈالر۔   ISBN نمبر: ۶-۰۳-۹۵۵۶-۹۶۹-۹۷۸

یورپ کی فکری تاریخ میں اٹھارھویں صدی ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس صدی میں نہ صرف یورپی تصورِ مذہب بلکہ تصورِ معاشرہ معیشت و سیاست اور ثقافت، غرض زندگی کے اہم شعبوں میں ایک نمایاں اور بنیادی تبدیلی واقع ہوئی۔ عیسائیت اور کلیسا کااقتدار چرچ کی چاردیواری تک محدود ہوگیا اور زندگی کے دیگر معاملات کی حدبندی الگ الگ فلسفوں کے زیراثر عمل میں لائی گئی۔ اس حوالے سے ہیگل،کارل مارکس، ڈارون، ڈیکارٹس، اوگسٹ کومتے اور ہیوم اور مِل کی فکر نے زندگی کے مختلف شعبوں میں گہرے اثرات ڈالے۔ نتیجتاً مادیت، لذتیت، انفرادیت، لادینی جمہوریت، لامحدود معاشی دوڑ نے یورپی معاشرے کی اقدار میں ایک عنصری تبدیلی پیدا کی۔ بعد میں آنے والی دو صدیوں میں ان تصورات کو مزید قبولیت حاصل ہوئی اور اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی یہ احساس اُبھرا کہ وہ جدیدیت جو اٹھارھویں صدی کی پہچان اور بعد کے اَدوار کے لیے رہنما اصول کی حیثیت رکھتی تھی اب ماضی کا قصہ ہے۔ چنانچہ Beyond post Modernism کا نعرہ بلند کیا گیا۔ مغرب کے اس فکری سفر میں اگر قدرِ مشترک تلاش کی جائے تو سیکولرزم یا لادینیت ان تمام تصورات میںکارفرما نظر آتی ہے۔ سیکولرزم دراصل زندگی، حقیقت اور سچائی کو دوخانوں میں بانٹنے کا نام ہے، یعنی ایک خانہ مذہب کا اور دوسرا خانہ دنیا یا مادیت کا۔ اس تقسیم میں حقیقی عامل اور عنصر مادہ اور حِّس کو تسلیم کیا گیا۔ چنانچہ ہر وہ شے جو مادی   طور پر یا حسّی تجربے کے نتیجے میں وجود رکھتی ہو حقیقی قرار پائی اور جو چیز اس معیار پر پوری نہ اُترتی ہو وہ واہمہ، وقتی اور غیرحقیقی سمجھ لی گئی۔ بعدکے آنے والے مفکرین خصوصاً سگمنڈ فرائڈ نے نفسیاتی زاویے سے جائزہ لیتے ہوئے empiricial reality کو بھی لاشعور اور تحت الشعور کا تابع کردینا چاہا۔ اس پورے تہذیبی عمل میں یہ ماننے کے باوجود کہ انفرادی طور پر جو چاہے اور جس طرح چاہے اپنے مذہب پر عمل کرے۔ کاروبارِ حیات کے دروازے مذہب یعنی عیسائیت کے لیے بند کردیے گئے، اور مذہب کو ایک ذاتی اور انفرادی عمل کا مصدقہ مقام دے دیاگیا۔

ہرشعبۂ علم اور ہرحکمت عملی کی تشکیل اسی فکری بنیاد پر رکھی گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق و مغرب میں جس شخص نے بھی معاشرتی علوم یا طبعی و تجرباتی علوم کا مطالعہ کیا ، غیرمحسوس طور پر یہ بنیادی مفروضہ اُس کے ذہن اور قلب میں جاگزیں ہوگیا۔

دورِ جدید کی دو قدآور علمی شخصیات علامہ اقبال اور سید مودودی نے اس رمز کو نہ صرف پہچانا بلکہ اس کا علمی اور عقلی جواب اسلام کے جامع تصور سے فراہم کیا۔ گذشتہ ۲۰سال پاکستان کی تاریخ ہی اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس دوران سیکولرزم کو جامعات، انگریزی صحافت اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے نظریۂ پاکستان کو کمزور کرنے اور بھارتی نظریاتی یلغار کی پاکستان میں حمایت اور سرپرستی کی غرض سے ہرممکنہ سطح پر عام کرنے کی کوشش سرکاری سرپرستی میں کی گئی۔

طارق جان نے انگریزی میں اس نظریاتی یلغار کا مقابلہ علمی اور ابلاغی سطح پر انتہائی کامیابی کے ساتھ کیا اور گذشتہ دو عشروں میں لادینیت اور اس کے مختلف پہلوئوں پر انگریزی میں اپنی تحریرات سے جہاد کیا۔ میری نگاہ میں ان کا تنہا کام ایک علمی ہراول دستے کے مجموعی کام سے کم نہیں کہاجاسکتا۔ میں ذاتی طور پر ان کی تنقیدی نگاہ، انگریزی زبان پر عبور و مہارت کا معترف آج نہیں، اس وقت سے ہوں جب طارق جوان تھا___ بلکہ وہ آج بھی جوان تر ہے۔ بہت کم افراد ایسے ہوں گے جنھیں طارق جان نے ۴۰ سال تک گوارا کیا ہو، اور تعلقات کی گہرائی میں کوئی فرق نہ آیا ہو۔ ا س لیے توصیفی و تعریفی کلمات کی جگہ___ جس کے وہ لازماً مستحق ہیں، میں پورے اعتماد سے یہ بات کہنا چاہوں گا کہ جدید نسل کے لیے یہ کتاب ایک لازمی مطالعہ کی حیثیت رکھتی ہے۔

برادر محب الحق صاحب زادہ نے بڑی محنت بلکہ جان جوکھوں میں ڈال کر انگریزی کے اصل مضامین کا ترجمہ اُردو میں کیا ہے۔ میرے خیال میں اسے مزید سلیس بنانے کی ضرورت تھی۔ ترجمے کی خوبی کے باوجود جو بات اصل انگریزی مضامین کی ہے وہ اپنی جگہ مسلّم ہے۔

کتاب کا سرورق مصنف کی نصف تصویر آجانے سے زیادہ حسین اور پُرکشش ہوگیا ہے۔ کتاب کے ناشر خصوصی طور پر مبارک باد اور ہمدردی کے مستحق ہیں جنھوں نے خود طارق جان کے بقول ’مجھے برداشت کیا مجھے یقین ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد وہ ایک اچھے صابر انسان کے  طور پر اُبھریں گے‘‘۔ میں عین الیقین کی حدتک طارق جان کے اس حُسنِ ظن کی تصدیق کرتا ہوں۔

کتاب ۲۸ طویل اور مختصر مقالات پر مشتمل ہے۔ ہرمقالہ پاکستان کی تاریخ میں اُبھرنے والے کسی حقیقی مسئلے سے تعلق رکھتا ہے اور پاکستانیت اور اسلامیت سے بھرے ہوئے دل کی آواز محسوس ہوتا ہے۔ ہرباب تحقیقی حوالوں سے مزین ہے اور کتاب کے آخر میں فہرست حوالہ جات کے ساتھ مضامین کا انڈکس بھی دے دیا گیا ہے۔

یہ کتاب لادینیت کا اصل چہرہ پیش کرتی ہے اور علمی استدلال کے زور سے علامہ اقبال اور سید مودودی کی فکر کو آگے بڑھاتی ہے۔(ڈاکٹر انیس احمد)


عورت، مغرب اور اسلام، ثروت جمال اصمعی۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد۔ صفحات: ۱۴۲۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

مغربی معاشروں میں خواتین کی موجودہ حالت، اُن کے ساتھ ناروا سلوک، اور پھر اسلام اور اسلام کے معاشرتی نظام کے خلاف بلند آہنگ اشتہاربازی کے باوصف وہاں اسلام کی مقبولیت پر یہ تحقیقی کتاب، دراصل مغرب اور اسلام کے عنوان سے شائع ہونے والے علمی و تحقیقی مجلّے کی ۳۸ویں اشاعت ہے (جلد:۱۵، شمارہ:۱)۔

مجلے کے مدیر پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد، ابتدایئے میں لکھتے ہیں کہ ’’اب بہت سے مسلم   اہلِ قلم مسلم معاشروں میں خواتین کی درست اسلامی حیثیت کو اُجاگر کرنے کے بجاے، نام نہاد جدید مغربی فکر کے زیراثر انھیں کچھ ’آزاد‘ کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں، جب کہ اسلامی شریعت کا دائرہ نہ [خواتین کے] قیدوبند پر مبنی ہے، نہ مادر پدر آزادی پر‘‘۔ مصنف ثروت جمال اصمعی کہتے ہیں کہ اس وقت معروضی صورتِ حال یہ ہے کہ مغربی تہذیب کے غلبے اور پھیلائو کے باوصف، مغربی عورت، اسلام کی طرف رغبت کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ افغان طالبان کی قید  میں اسلام سے متاثر ہوکر، آزادی کے بعد، اُسے قبول کرنے کا اعلان کرنے والی برطانوی صحافی یُوآن رِڈلے کوئی شاذ اور انفرادی مثال نہیں۔ اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈے کے باوجود، برطانیہ، امریکا اور دوسرے مغربی ممالک میں اسلام بڑی تیزی سے پھیلتا جارہا ہے۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد ہرسال اوسطاً ۲۰ہزار امریکی مسلمان ہورہے ہیں ، اور ان میں خواتین کا تناسب، مردوں سے چار گنا ہے۔ (ص ۱۸)

خواتین میں اسلام کی مقبولیت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مر د و زن میں مساوات کے تمام دعووں کے باوجود مغرب میں عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک عام ہے۔ برطانیہ میں ہرسال ۳۰ہزار عورتیں، حاملہ ہونے کی بنا پر ملازمتوں سے فارغ کی جاتی ہیں (ص۳۲)۔ پھر تنخواہوں اور دوسری مراعات میں بھی انھیں امتیازی سلوک کا سامنا ہے (ص ۳۴)۔ انھیں قُحبہ خانوں اور حماموں میں مزدوروں کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ ۴۵ فی صد عورتیں کسی نہ کسی طرح گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ جیلوں میں، فوجی ملازمتوں کے دوران، دفتروں اور تفریحی مقامات پر خواتین کے ساتھ زیادتی کے اعداد و شمار حیران کن ہیں، جو فاضل مصنف نے مغربی اخبارات اور دوسرے ذرائع ابلاغ سے   جمع کردیے ہیں۔

یُوآن رِڈلے کو جبراً مسلمان نہیں بنایا گیا، بلکہ طالبان کی قید سے رہائی کے بعد لندن پہنچ کر انھوں نے قرآن اور اسلام کا مطالعہ کیا، اور پھر اسلام قبول کیا اور اس نتیجے تک پہنچیں کہ ’’اسلام میں فضیلت کا پیمانہ اخلاقی حُسن ہے، نہ کہ جنسی حُسن، دولت، طاقت ، منصب اور جنسی کشش‘‘۔

سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی خواہرِنسبتی اور معروف برطانوی صحافی لارن بوتھ (Lauren Booth) نے Why I Love Islam میں اپنے قبولِ اسلام کی کہانی بیان کی ہے، اور بتایا ہے کہ جب انھوں نے اپنی بچیوں کو قبولِ اسلام کی خبر دی تو انھوں نے خوش ہوکر نعرہ لگایا: ’’ہم اسلام سے محبت کرتے ہیں‘‘۔ پھر بچیوں نے اپنی ماں سے کچھ سوال کیے۔ اُن کے آخری سوال نے مجھے حیرت زدہ کردیا۔ انھوں نے کہا: اب جب کہ آپ مسلمان ہوچکی ہیں تو کیا اب بھی آپ اپنا سینہ لوگوں کے سامنے نمایاں کریں گی؟‘‘ (ص ۶۶)

مصنف نے امریکا میں اسلام قبول کرنے والی خواتین کے اپنے بیان، خود وہاں کے محققین کے حوالے سے پیش کیے ہیں۔ ان نومسلموں میں سے ایک بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ اُن کے قبولِ اسلام میں اس یقین و اعتماد نے اہم کردار ادا کیا ہے کہ اسلام میں عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک کیا جاتا ہے‘‘۔ (ص ۷۸)

مغربی خواتین کے قبولِ اسلام کے اسباب میں اہم ترین ، سرمایہ دارانہ نظام میں اُن کا بطور ایک جنس، استحصال ہے۔ وہاں عورت کو بھی ایک جنسِ بازار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے (یہی حال منڈی کی معیشت اپنا لینے والے دنیا کے تمام ملکوں کا ہے)۔ پھر عیسائیت میں عورت پیدایشی طور پر گناہ گار بتائی گئی ہے کہ اُسی کی وجہ سے اولادِ آدم لعنتی قرار پائی۔ اس کے برعکس اسلام نے عورت اور مرد کے جسمانی اور نفسیاتی فرق کو قبول کر کے اور ملحوظ رکھ کر دونوں کے لیے یکساں شرف اور عزت کے ساتھ ان کے متعین حقوق و فرائض بتا دیے ہیں۔ مصنف نے بڑی تفصیل سے اسلامی قوانین کی رُو سے اُن کا استحصا [احاطہ]کیا ہے (اگرچہ بہت سے مسلم معاشروں میں ان کے مطابق عمل نہیں ہورہا)۔ لیکن مغرب کی پڑھی لکھی سمجھ دار خواتین جب اس حوالے سے اسلام کا مطالعہ کرتی ہیں، اور بعض خاندانوں میں ان اسلامی تعلیمات کو عملاً مروج بھی پاتی ہیں، تو انھیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ موجودہ مسلم معاشرو ں میں عورتوں کے ساتھ بے انصافیاں اور دوسری خرابیاں، اسلامی تعلیمات پر عمل کی وجہ سے نہیں، بلکہ اُن سے انحراف کی وجہ سے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ اور امریکا کی اسلام قبول کرنے والی خواتین میں اکثریت باشعور اور پڑھی لکھی خواتین کی ہے۔

کتاب میں مندرج معلومات اور اعداد و شمار کے لیے برقیاتی ذرائع ابلاغ (ویب سائٹس) کا بھرپور استعمال کیا گیا ہے، اور ان کے حوالے دیے گئے ہیں۔ ان کے لیے مصنف کی دیدہ ریزی اور محنت قابلِ داد ہے۔ (عبدالقدیر سلیم)


اقبالیاتی مکاتیب اوّل، بنام رفیع الدین ہاشمی، مرتبہ: ڈاکٹر خالد ندیم۔ ناشر: الفتح پبلی کیشنز، ۳۹۲-اے، گلی ۵-اے، لین نمبر۵، گل ریز ہائوسنگ اسکیم۲، راولپنڈی ۔ فون: ۵۸۱۴۷۹۶۔ صفحات: ۲۹۶ مع اشاریہ۔ قیمت: ۳۶۰ روپے۔

گذشتہ سو برس سے اقبالیات، اہلِ علم و دانش میں ایک زندہ موضوع کی حیثیت سے مرکز نگاہ ہے۔ شعرِاقبال، قولِ اقبال اور حرفِ اقبال کے کتنے پہلو ہیں جنھیں ہزاروں خردمندوں نے غوروفکر کا محور بنایا ۔ اقبالیاتی مکاتیب کا یہ حصہ اوّل اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے زمانۂ طالب علمی سے اقبالیات کو اپنی محبت کا حوالہ بنایا۔ اس ضمن میں انھوں نے ذاتی تحقیق و جستجو کے پہلو بہ پہلو مختلف اہلِ علم و ہنر سے نامہ و پیام کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ یہ کتاب ۴مئی ۱۹۷۱ء سے ۲ جون ۲۰۱۱ء کی درمیانی مدت کی خط کتابت پر مشتمل ہے۔ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی، ڈاکٹر سید عبداللہ، پروفیسر حمید احمد خاں، احمد ندیم قاسمی، جگن ناتھ آزاد، ڈاکٹر جاویداقبال، آل احمد سرور، عبداللہ قریشی، مشفق خواجہ، سید نذیر نیازی، ڈاکٹر عبداللہ چغتائی، عاشق حسین بٹالوی، گیان چند، رشید حسن خاں، سعید اختر درانی، ڈاکٹر خلیق انجم، ہیروجی کتائوکا، ملک حق نواز، شانتی رنجن بھٹاچاریہ اور صابر کلوروی سمیت ۴۲ مشاہیر اس بزم میں شریک ہیں۔

کتاب کے بعض خطوط تو مختصر ہیں لیکن بعض کی نوعیت مستقل مضامین کی ہے۔ یہ سب اقبالیات کے کسی نہ کسی اہم نکتے کی توضیح و تشریح کے در وَا کرتے ہیں۔ پروفیسر رفیع الدین ہاشمی کی سلیقہ شعاری اور جزرسی نے اس قیمتی ذخیرئہ مکتوبات کی امانت کو محفوظ رکھنے کا وسیلہ بنایا۔ ان نابغۂ روزگار انسانوں کی یہ مختصر، مشفقانہ، عالمانہ اور وضاحتی تحریریں علم اور مکالمے کی ایک ایسی محفل سجاتی ہیں کہ ختم کیے بغیر کتاب چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔ پھر ہاشمی صاحب کے عزیز شاگرد ڈاکٹر خالد ندیم (سرگودھا یونی ورسٹی) نے محنت اور جاں کاہی سے اسے مرتب کیا اور اس پر حواشی اور تعلیقات کا اضافہ کیا ہے۔ ان کی اس جستجو نے کتاب کے تحقیقی وژن کو دوچند کردیا ہے۔

ادبیات کی تاریخ اور اقبالیات کی رمزشناسی کے جویا اس مجموعۂ مکاتب کو گرم جوشی سے خوش آمدید کہیں گے۔ (سلیم منصور خالد)


Calling Humanity [انسانیت کو پکارنا]، شمیم احمد صدیقی۔ ناشر: فورم فار اسلامک ورک، ۲۶۵- فلیٹ، بُش ایونیو، بروکلین، نیویارک-۱۱۳۵۵۔ صفحات: ۲۵۰۔ قیمت: ۹۵ئ۱۱ ڈالر۔

شمیم احمد صدیقی کی یہ اہم کتاب پیغام دیتی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان عمومی طور پر، اور امریکا میں مختلف رنگ و نسل کے مسلمان خصوصی طور پر، اس حقیقت سے آگاہی حاصل کریں کہ اُن کی اور آنے والی نسلوں کی بقا اِسی میں ہے کہ مسلمان دین کو سمجھیں ، اُس پر عمل پیرا ہوں اور اِس کی دعوت کے علَم بردار بن کر دُنیا بھر میں قرآن کریم اور اُسوئہ رسولؐ کا پیغام عام کردیں۔

یہ تصنیف پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے آنے والے اُن مسلمانوں کی اولاد کے لیے لکھی گئی ہے جو امریکا میں مقیم ہیں اور اُردو رسم الخط سے ناواقف ہیں یا اُردو کتابیں نہیں پڑھ سکتے۔  امریکا میں دعوت و تبلیغ اور اقامت ِ دین کی مختلف تنظیموں کا تعارف بھی پیش کیا گیا ہے۔ اُن پر قدرے تنقید بھی کی ہے۔

مصنف کا موقف ’’دنیا بھر کی اسلامی تحریکیں داعی تیار کریں‘‘ (ص ۱۲۳) محلِ نظر ہے کیونکہ کفر اور اُس کے نمایندے سیاسی اقتدار پر قابض ہیں۔ اس لیے سیاسی جدوجہد کو ترک نہیں کیا جاسکتا، اُن کا یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ ’’دعوتی لٹریچر لاکھوں کی تعداد میں موجود ہے‘‘ (ص ۸۲)۔ امریکا میں اسلامی دعوت کا کام کریں اور راہنما کردار ادا کریں‘‘ (ص ۲۰۵)۔ امریکا میں بسنے والے مسلمان سرگرم زندگی گزار رہے ہیں اور اُن کی صلاحیتوں کا لوہا مانا جاتا ہے۔ اُنھیں چاہیے کہ وہ بھی اسلامی تحریکات سے سیکھیں۔ امریکا میں رہنے والے مسلمان سود، مخلوط معاشرے، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور طالبانائزیشن کا مقابلہ کیسے کریں، اس کا ذکر نہیں۔ (محمد ایوب منیر)


عصرحاضر کی مجاہد خواتین، مریم السیّد ہنداوی۔ ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔صفحات: ۲۳۲۔ قیمت: ۲۱۰روپے۔

آج اخوان دنیا کا موضوع ہیں لیکن یہ تحریک اس سے پہلے کس کس مرحلے سے گزری، یہ حالیہ تاریخ کی ایک عجیب داستان ہے۔ اخون سے مسلسل قلبی تعلق اور ان کے بارے میں ہمارے لٹریچر کے آگاہی دینے سے ایسا لگتا ہے کہ نصف صدی سے زیادہ کی یہ پوری تاریخ ہماری آنکھوں کے سامنے گزری ہے۔

حسن البنا کی شہادت، چھے قائدین کو پھانسی دیا جانا، اور پھر سیدقطب کی پھانسی، جیسے سب کل کی باتیں ہیں۔ مولانا مسعود عالم ندوی کی دیارِعرب میں چند ماہ نے پاکستان کی تحریک اسلامی کو عالمِ عرب سے، وہاں کی تحریکات سے، شخصیات سے، اہم کتب، رسائل اور فکری لہروں سے آگاہ کیا۔ پھر یہ سلسلہ مختلف شکلوں میں مختلف افراد کے ذریعے جاری رہا۔ ۱۹۵۲ء میں مصری انقلاب میں شاہِ فاروق کا تخت اُلٹ گیا، اور معروف ہے کہ ناصر اور اس کے ساتھیوں کی پشت پر اخوان تھے۔ ۲۰، ۲۵ سال میں اخوان نہ صرف مصر، بلکہ دوسرے عرب ممالک میں ایک قوت بن چکے تھے۔ لیکن پھر ناصر کے سازشی ذہن اور عالمی طاقتوں کے مفادات کی خاطر ایک جلسے میں ناصر پر قاتلانہ حملے کا ڈراما رچایا گیا اور اس کا الزام اخوان پر رکھ کر پورے ملک میں جیلیں اخوان سے  بھر دی گئیں اور داروگیر کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو دراز ہی ہوتا گیا۔

اس دور میں اخوان پر اور ان کے قائدین پر کیا گزری، اس کی ایک جھلک ان مجاہد خواتین کے تذکرے میں ملتی ہے۔ یہ ان خواتین کی زندگی کی مختصر کہانیاں ہیں جو دراصل مصری حکومت کے اخوان اور مصری عوام کے ساتھ سلوک کا آنکھوں دیکھا بلکہ برتا ہوا مستند بیان ہے۔ عموماً یہ خواتین ان قائدین کی شریکِ حیات یا بہنیں، بیٹیاں ہیں جس میں یہ تفصیل آتی ہے کہ ان کے مرد جیلوں میں بند تھے لیکن مصر کی حکومت کے ان کے اور ان کے جاننے والوں کے ساتھ کتنے سخت جابرانہ رویے تھے۔ یہ اپنے بیٹوں، عزیزوں کی رہائی کے لیے ایک سے دوسری جیل پھرتی رہیں۔ شوہر کا جسدخاکی اس شرط پر باپ کو دیا گیا کہ تدفین میں کوئی عزیز شریک نہیں ہوگا۔ ایک گائوں کرداسہ کے شہدا کی لاشوںکو کئی روز تک دفن نہیں ہونے دیا گیا۔ یہ بھی ہوا کہ مساجد بند کردی گئیں اور نماز پر پابندی عائد کردی گئی۔ ۱۹۴۸ء میں پہلی پابندی کے وقت جو اخوان گرفتار ہوئے اور عدم ثبوت پر رہا کردیے گئے تھے، ۱۹۶۰ء میں ان سب کو دوبارہ گرفتار کیا گیا اور پھر ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

ڈاکٹر رخسانہ جبیں نے چند جملوں میں پوری کتاب کی مکمل تصویر بیان کردی ہے: ’’یہ انتہا درجے کی جدوجہد کی مثالیں ہیں کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں، غلبۂ دین کی جدوجہد کیسے جاری رکھنا ہے۔ شوہر شہادت پاجائیں، جیل میں قیدوبند کی اذیتیں سہ رہے ہوں، کمسن بچے گرفتار ہورہے ہوں، نوبیاہتا دولہا کو پولیس گھسیٹ کر لے جارہی ہو، گھروں کو اُلٹ پلٹ کیا جارہا ہو، جوان بیٹوں کو لہولہان کیا جارہا ہو،ہر حال میں صبرواستقامت کا دامن تھامے رکھنا ہے، بلکہ آلِ یاسر کی طرح اقامتِ دین کی تحریک کو اپنے خون سے سینچنا ہے‘‘۔لاریب ان خواتین نے یہ فریضہ پوری کامیابی سے انجام دیا۔ (وقار احمد زبیری)


ایفاے عہد، جنرل (ر) حمید گل، مرتب: مبین غزنوی۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز، الحمدمارکیٹ، ۴۰-اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۲۳۳۶-۰۴۲صفحات: ۱۹۲۔ قیمت: ۴۰۰ روپے ۔

پاکستان کے موجودہ مسائل اور مصائب کے مختلف پہلوئوں پر زیرنظر مضامین کا مطالعہ کرتے ہوئے ہر دردمند مسلمان اور پاکستانی محسوس کرتا ہے کہ  ع

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

اس میں اُمت ِ مسلمہ پر نائن الیون کے ڈرامے کے دُور رس اثرات، جنرل مشرف کا پاکستان کی گردن میں امریکی غلامی کا طوق ڈال دینا ، افغانستان پر امریکی حملہ، ہماری کشمیر پالیسی، پاکستان پر بھارت کا دبائو اور اس کا قافیہ تنگ کرنے کی بھارتی پالیسی پر امریکا کی ہلاشیری جیسے موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔

گذشتہ ۱۰، ۱۵ برسوں کے دوران میں جنرل حمیدگل صاحب نے بہت کچھ لکھا۔ ان کے ایک مداح مبین غزنوی نے اخبارات میں شائع شدہ ان کے ۳۸منتخب مضامین پر مشتمل یہ مجموعہ مرتب کیا ہے۔ یہ مضامین، لکھنے والے کی حب الوطنی ، پاکستان کی سربلندی، امریکی غلامی سے نجات، نہ صرف افغانستان بلکہ پورے عالمِ اسلام کی امریکا سے رہائی اور بہ حیثیت مجموعی اسلامی نشاتِ ثانیہ کے لیے اس کی آرزو اور تمنائوں کے ترجمان ہیں۔

جنرل صاحب کشمیر کو بجا طور پر پاکستان کی ایسی شہ رگ سمجھتے ہیں جس کے بغیر پاکستان کی بقا مشکوک ہے۔ چنانچہ زیرنظر کتاب کا سب سے بڑا موضوع مسئلۂ کشمیر ہے (۱۰ مضامین)۔    ان کے خیال میں ’خودمختار کشمیر‘ ایک ہلاکت آفریں سراب ہے۔ جنرل صاحب نے پاکستان کی کشمیر پالیسی کو درست سمت دینے کے لیے ۱۱ تجاویز پیش کی ہیں۔ مسئلۂ افغانستان ان تحریروں کا دوسرا بڑا موضوع ہے۔ افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت ان کے خیال میں امریکا کا چھوڑا ہوا ’شیطانی اور بے بنیاد شوشہ‘ ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ امریکا کی رخصتی، افغان دھڑوں کا باہمی اتحاد اور نفاذِشریعت ہی سے افغانستان میں قیامِ امن ممکن ہے۔

 حقیقت یہ ہے کہ امریکا (درپردہ صہیونی) نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالمِ اسلام کو خوابِ غفلت سے بیداری اور نشاتِ ثانیہ کی راہ سے ہٹانے کے لیے کوشاں ہے۔ مگر ہمارے حکمرانوں کا معاملہ وہی ہے کہ بیمار ہوئے جس کے سبب، اُسی عطار کے ’صاحب زادے‘ سے    دوا لیتے ہیں۔ یہ مضامین جنرل حمیدگل کے پیشہ ورانہ تجربے، تاریخ کے مطالعے اور حکمت و دانش کے امتزاج کے عکاس ہیں۔ انھوں نے یہ مضامین بہ تقاضاے ایمان، ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے لکھے ہیں۔ (ر - ہ )


تعارف کتب

  • نبویؐ اسلوبِ دعوت، سید فضل الرحمن، ناشر: ریجنل دعوہ سنٹر، سندھ، کراچی۔ پی ایس ۱/۵، کے ڈی اے اسکیم ۳۳، احسن آباد، نزد گلشن معمار، کراچی۔ صفحات: ۴۰۔ قیمت: درج نہیں۔[نبی کریمؐ کے اسوہ کی روشنی میں دعوت کا اسلوب، حکمت دعوت ، دعوت کے اصول و آداب اور تقاضوں کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان  اصلاح طلب پہلوئوں کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے جنھیں کارِ دعوت میں پیش نظر رکھنا چاہیے۔]
  • وحدت اُمت، مفتی محمد شفیع۔ ناشر: دارالاشاعت، اُردو بازار، کراچی۔ صفحات: ۶۴۔ قیمت: درج نہیں۔ [مولانا سید محمدانور شاہ ؒ نے فرمایا: ہماری عمر کا، ہماری تقریروں کا، ہماری ساری کدوکاوش کا خلاصہ یہ رہا کہ دوسرے مسلکوں پر حنفیت کی ترجیح قائم کردیں۔ اب غور کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ کس چیز میں عمر برباد کی؟ کیا حاصل ہے اس کا؟ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنے مسلک کو درست مسلک جس میں خطا کا احتمال موجود ہے، ثابت کردیں، اور دوسرے کے مسلک کو غلط مسلک جس کے حق ہونے کا احتمال موجود ہے۔ اس سے آگے کوئی نتیجہ نہیں ان تمام بحثوں اور تحقیقات کا جن میں ہم مصروف ہیں (ص ۱۵-۱۶)۔ اس کتابچے میں اتحاد اُمت کی اسی اہمیت، افتراق اُمت کے اسباب، مذموم و محمود اختلاف راے کے حدود، اختلاف راے اور جھگڑے و فساد میں فرق کو واضح کرتے ہوئے اسلام کی دعوت اتحاد کو اُجاگر کیا گیا ہے۔]
  • پتھروں میں سوئی آوازیں، میک دزدار، مترجم: ڈاکٹر محمد حامد۔ناشر:نیشنل بک فائونڈیشن، اسلام آباد۔ صفحات:۱۵۰۔ قیمت:۳۰۰ روپے۔[خوب صورت، ۱۵۰ صفحے کی کتاب پر ہرصفحے کی شاعری پڑھنے کے لائق اور قاری کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔ لکھا گیا ہے کہ اُردو کے قالب میں میک دزدار جوکہ بوسنیا کے قومی شاعر ہیں کے اشعار ایسے ہیں جیسے ہم اقبال کے اشعار قالب بدل کر پڑھ رہے ہوں۔ وہ عزتِ نفس، خودی، آزادی کی تڑپ اور ایمان کے جذبے کی تحریک پیداکرتا ہے ۔ ترجمہ کار ڈاکٹر محمد حامد ، قصیدہ بردہ شریف کو   پانچ زبانوں میں ترجمہ کرچکے ہیں۔ روسی ترکستان کا نام بھی شامل ہے۔ اس کتاب کے فلیپ پر فتح محمد ملک، کشور ناہید، امجد اسلام امجد کے کلمات درج ہیں۔]
  • حرف کمیاب (سائنسی غزلیات)، یونس رمز۔ ناشر: عبیدپبلی کیشنز، ۲۲-ای، کمرشل ایریا، ناظم آباد، کراچی۔ صفحات: ۲۶۳۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔[سائنسی اصطلاحات کو اُردو کے پیکر میں ڈھال کر شاعری آسان کام نہیں۔ شاعری ویسے بھی جگرسوزی ہے اور سائنسی شاعری تو کوئی پختہ اور قادرالکلام شاعر ہی کرسکتا ہے۔ یونس رمز نے اس پیچیدہ عمل کو اپنے کارگہ فن میں ڈھالا اور خوب صورت انداز میں سائنسی شاعری کو پیرہن بخشا جو ان کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کتاب سات تعارفی مضامین، دو حمدونعت، اور ۱۰۹ سائنسی غزلیات پر مشتمل خوب صورت پیش کش ہے جس میں جابجا سائنسی اصطلاحات نگینے کی طرح جڑی نظر آتی ہیں۔]

دانش یار ،لاہور

سید منور حسن صاحب نے ’اشارات‘ (اکتوبر ۲۰۱۲ئ) میں بجاتوجہ دلائی ہے کہ توسیع دعوت کے لیے اپنے لٹریچر کا مطالعہ، انفرادی ملاقاتیں اور منصوبہ بندی سے شخصی اور انفرادی رابطے کے بغیر منظرنامۂ عالم پر جماعت اسلامی اپنا وجود ثابت نہ کرپائے گی۔


راجا محمد ظہور ، چیچہ وطنی

’اسلام اور ناموسِ رسالتؐ پر کروسیڈی حملے اور اُمت مسلمہ کی ذمہ داری‘ (اکتوبر ۲۰۱۲ئ) بڑا مدلل اور اپنے موضوع پر جامع تجزیہ ہے۔ مصر کے حالات کے متعلق اخبارات میں متضاد چیزیں آتی رہیں، لیکن ارشادالرحمن نے مصر کے پوست کندہ [بے لاگ] حالات ہمارے سامنے رکھ دیے جس سے مکمل معلومات حاصل ہوئیں۔


عبدالرشید عراقی ، سوہدرہ ، گوجرانوالہ

’حمیدہ قطب بھی چل بسیں‘ (اکتوبر ۲۰۱۲ئ) میں اُن کے برادر سیدقطب شہیدؒ کی حق گوئی اور اُن کی استقامت و عزیمت کی مثال بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ حق و صداقت کے پیش نظر شہادت کو قبول کرلیا لیکن اپنی زبان کو جھوٹ سے آلودہ نہیں کیا۔ اسی طرح حمیدہ قطبؒ نے بھی اپنے اُوپر لگائے گئے الزامات کو قبول کرلیا، مگر ان کے پاے استقلال میں لغزش نہیں آئی، اور دونوں بہن بھائی اپنی زندگی کا بیش تر حصہ جیل کی سلاخوں میں گزار کر اپنا نام تاریخ میں ثبت کرگئے۔


حافظ افتخار احمد خاور ، لاہور

’مصر، اخوانی صدر کے فیصلے اور کارکردگی‘ (اکتوبر ۲۰۱۲ئ) نظر سے گزرا۔ اخوانی صدر کے فیصلے یقینا مصری عوام کے لیے ایک نعمت غیرمترقبہ ہیں۔ مصری عوام کو بھی ڈاکٹر محمد مُرسی جیسے اسلام پسند اور جرأت مند صدر کا شکرگزار ہونا چاہیے۔


زاہدہ حمید، کراچی

’حج اور عمرہ: چند توجہ طلب اُمور‘ (اکتوبر ۲۰۱۲ئ) اہم مضمون ہے اور عملی مسائل کے حوالے سے رہنمائی دی گئی ہے، تاہم بروقت ہونا چاہیے تھا۔ اب تو لوگ حج کے لیے روانہ ہوچکے ہیں، استفادہ نہ کرسکیںگے۔ حج سے متعلق تحریریں حاجیوں کی روانگی سے قبل شائع ہوں توزیادہ مفید ہوں۔


بشیر احمد ، لاہور

’حج اور عمرہ: چند توجہ طلب امور‘ (اکتوبر ۲۰۱۲ئ) میں سیرحاصل باتیں لکھی گئی ہیں۔ تاہم چند باتیں وضاحت طلب بھی ہیں:سورئہ بقرہ کی آیت ۱۹۷ کے ترجمے سے احتمال ہوتا ہے کہ حج کے دوران شاید میاں بیوی کا ازدواجی تعلق بھی اس پورے سفر میں منع ہے، حالانکہ یہ ممانعت صرف احرام کی حالت میں ہے نہ کہ سارے سفر کے دوران۔ خانہ کعبہ کے استلام کے تحت حضوؐر کے عملِ مبارک میں خانہ کعبہ کے استلام میں حجراسود کے ساتھ ساتھ رکن یمانی کا بھی لکھا ہے (ص ۵۲)، جب کہ آج کل جتنے کتابچے اور کتابیں حج اور عمرہ کے متعلق ملتے ہیں اور جو حجاج عمل کرتے ہیں اس میں صرف حجراسود کا استلام کرتے ہیں۔’طوافِ وداع میں سرزد ہونے والی خطائیں‘ (ص ۵۸) پر غالباً مصنف نے طوافِ زیارت کو طوافِ وداع لکھاہے۔ طوافِ زیارت تو ۱۰ ذی الحج کو قربانی اور حلق کے بعد احرام کھول کر عام لباس میں مکہ مکرمہ جاکر کرنا ہوتا ہے اور پھر واپس منیٰ آجانا ہے۔


احمد علی محمودی ، حاصل پور

’میڈیا کی آزادی پر میڈیا کا شب خون‘ از انصار عباسی (ستمبر ۲۰۱۲ئ) گھر کے فرد کی سچی گواہی ہے کہ کس طرح یہودوہنود کے ایجنٹوں نے میڈیا کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ ٹی وی چینل اور اینکرپرسنز کی زبانیں بند کرنا کہ وہ فحاشی اور بداخلاقی اور غیرقانونی انڈین چینل کے موضوع پر کوئی بات نہ کرسکیں، قوم و ملک کے لیے لمحۂ فکریہ اور آزادیِ صحافت پر ایک سنگین یلغار ہے۔ ان حالات میں باضمیر اور جرأت مند مذہبی، سیاسی و سماجی رہنمائوں اور صحافیوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ میڈیا میں چھائی ہوئی فحاشی و عریانی کے خلاف بھرپور آواز بلند کریں۔


پروفیسر ڈاکٹر سید ظاہر شاہ ، پشاور

انگریزی ذریعۂ تعلیم کے ذریعے جہاں انگریزی تہذیب و ثقافت بھی پھیلتی اور فروغ پاتی ہے، وہاں ہماری اپنی ثقافت و روایات بھی سکڑتی چلی جاتی ہیں۔ اب کتنے افراد ہجری کیلنڈر اور تاریخوں سے واقفیت رکھ کر ان کو اپنے خطوط اور مراسلوں میں استعمال کرتے ہیں؟ اسی طرح کتنے ہی گھرانوں میں بچے اُردو زبان کے ہندسے لکھنا پڑھنا نہیں جانتے ہیں، (بجاے ابوجان اور امی جان کے) ڈیڈ اور ممی وغیرہ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ بچپن سے بچے کے ذہن میں یہ غلامانہ تصور بیٹھ جاتا ہے کہ دستخط صرف انگریزی زبان میں ہوتے ہیں۔ صرف  چند کو مستثنا کرکے تقریباً تمام پاکستانی انگریزی زبان میں دستخط کرتے ہیں۔ بظاہریہ چھوٹی چھوٹی چیزیں تہذیب و ثقافت اور اقدار کا خاصا بڑاحصہ بن جاتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی تہذیب و ثقافت اور    اقدار و روایات کے سب سے پہلے ہم امین بن جائیں، اور گردونواح میں اس کو فروغ دینے کی کوشش کریں۔


محمد عمار فیضان ، (بذریعہ ای میل)

ہر سال حجاب ڈے کو ایک مخصوص نام اور پروگرامات کے تحت منانا کہیں اسلامی روایات میں نظر نہیں آتا۔ آج ہم بہت مزے سے مغرب کے منائے جانے والے دنوں کا مذق اڑاتے ہیں اور اپنی نسلوں کو یہ بتاتے ہیں کہ کوئی دن محبت کا نہیں ہوتا ،کوئی خاص دن ماں اور باپ کی خدمت کا نہیں ہو تا،کوئی ویلنٹائن ڈے نہیں ہوتا، لیکن اس کے ساتھ ہی سال میں ایک ’حجاب ڈے‘ ہو تا ہے۔


طلال، ہلال، عاکفہ، منیرہ ، اسلام آباد

کسی فلم میں ایکٹریس کا نام عائشہ، خدیجہ، فاطمہ دیکھ کر، سن کر دل کو بڑی اذیت ہوتی ہے۔ یہ اداکارائیں جو چاہیں حرکتیں کریں مگر خدا کے لیے ہم مسلمانوں پر اتنا رحم کریں کہ نام تبدیل کرلیں۔ ’فاطمہ کھاد‘ بھی تکلیف دہ ہے۔ جب کراچی میں بازارِ محمد کا اشتہار آیا تو احتجاج ہوا اور نام بازارِ فیصل کردیا گیا!


محیط اسماعیل ، لاہور

سرورق ازحد پیارا اور چار رنگوں کا باوقار امتزاج لیے ایک خوش گوار تاثر چھوڑتا ہے۔ ایک تجویز یہ ہے کہ اللہ کا لفظ عربی رسم الخط میں دیں۔

دینیات کی تعلیم کی تحقیر

ہم نے اپنے قومی خرچ پر جو درس گاہیں قائم کیں ان میں بھی ہم نے وہی سارا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جو سرکاری درس گاہوں میں تھا۔ ہم نے کوشش کی کہ ہمارے طلبہ انگریزی بولیں اور انگریزی لباس پہنیں۔ ہم نے کوشش کی کہ وہ انگریزی کلچر ہی کے رنگ میں رنگے جائیں۔ ہم نے کھیلوں میں اور نشست و برخاست میں اور رہنے سہنے میں اور مسائل پر مباحثوں میں، غرض ہرچیز میں یہی کوشش کی کہ ہماری یہ قومی درس گاہیں کسی طرح بھی سرکاری درس گاہوں سے مختلف نہ ہوں..... اور کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ انگریزی معیار کے لحاظ سے سرکاری درس گاہوں سے نکلے ہوئے لوگوں سے کسی طرح بھی کم تر ہیں.....اس ماحول کے اندر اسلام کی وہ ذرا سی قلم جو ہم نے لگائی وہ آخر اپنا کیا رنگ دکھا سکتی تھی۔ تعلیمی حیثیت سے وہ نہایت کمزور تھی۔ دوسرے کسی نصابِ تعلیم سے اس کا کوئی جوڑ نہ تھا..... اس پر مزید ستم ہم نے یہ کیا کہ اپنے قومی کالجوں میں بھی سرکاری کالجوں کی طرح زندگی کا پورا ماحول اور ذہنی تربیت کا پورا نظام ایسا رکھا جو اسلام کے اس کمزور سے پیوند کے بجاے فرنگیت اور الحاد کے لیے ہی سازگار تھا۔ اس میں کوئی چیز بھی ایسی نہ تھی جو اس پیوند کو غذا دینے والی ہو، بلکہ ہرچیز عین اس کی فطرت کے خلاف تھی۔

یہ سب کچھ کرکے ہم اس معجزے کی توقع رکھتے تھے کہ دینیات کی اس تعلیم سے حقیقت میں کوئی دینی جذبہ پیدا ہوگا، کوئی دینی رجحان نشوونماپائے گا، اسلام کی قدروقیمت لوگوں کے دلوں میں جاگزیں ہوگی اور ان کے اندر اسلامی کیریکٹر پیدا ہوگا۔ حالانکہ قانونِ فطرت کے مطابق اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا اور یہی عملاً برآمد ہوا کہ جن طلبہ کو اس طریقے سے دینیات کی تعلیم دی گئی   ان کی نگاہوں سے دین گر گیا اور ان کی دینی حالت مشن کالجوں اور گورنمنٹ کالجوں کے طلبہ سے بھی زیادہ بدتر ہوگئی۔ یہ واقعہ ہے کہ ہمارے کالجوں میں بالعموم دینیات کا گھنٹہ تفریح اور مذاق کا گھنٹہ رہا ہے اور اس نے دلوں میں ایمان پیدا کرنے کے بجاے رہے سہے ایمان کا بھی خاتمہ کردینے کی خدمت انجام دی ہے۔  ظاہر ہے کہ جب ہم خود اپنی اولاد کے سامنے اپنے دین کو تمام دوسرے مضامین سے حقیر تر بناکر پیش کریں گے تو اس کی کم سے کم سزا جو قدرت کی طرف سے ہمیں ملنی چاہیے وہ یہی ہے کہ ہمارے بچے ہماری آنکھوں کے سامنے ملحد اور زندیق بن کر اُٹھیں اور اپنے  اُن بزرگوں کو احمق سمجھیں جو خدا اور رسولؐ اور آخرت کو مانتے تھے۔ (’اسلامی نظامِ تعلیم‘سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد ۳۹، عدد ۲، صفر ۱۳۷۲ھ، نومبر ۱۹۵۲ئ، ص ۶۲، ۶۳)