اپریل ۲۰۱۴

فہرست مضامین

نظریۂ ارتقا اور اس کی درمیانی کڑی

رضی الدین سید | اپریل ۲۰۱۴ | سوانح

پِلٹ ڈائون میں

برطانوی مفکر ’چارلس رابرٹ ڈارون (۱۸۰۹ء-۱۸۲۲ء) ، ایک ڈاکٹر کا بیٹااور ایک بایالوجسٹ تھا،ا ور خوش حال خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے اپنے دور میں نظریۂ ارتقا پر ایک کتاب On the Origin of Species تحریر کی تھی جس میں اس نے اپنی تحقیقات سے ثابت کیا تھا کہ ہر جان دارنے درجہ بدرجہ ترقی کرکے ہی اپنی موجودہ اصلی شکل اختیار کی ہے۔اس کا کہنا تھا کہ، مثلاً زرافے نے اپنی موجودہ گردن اونچی اونچی شاخوں سے غذا حاصل کرنے کے لیے ہی رفتہ رفتہ لمبی کی تھی۔ وہ کہتا ہے کہ انسان نے بھی درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے ہی اپنی موجودہ انسانی شکل اختیار کی ہے۔اس کے نزدیک بندر (چیمپینزی) نے پہلے پہل اپنے اگلے دونوں پائوں اُوپر اٹھائے تھے ،جھکی ہوئی حالت میں زندگی گزارنے کے قابل ہوا تھا، اورپھرر فتہ رفتہ اس کے جسم کے گھنے بال کم ہونے شروع ہوئے تھے ۔اس کے بعد ہی سے اس میں عقل کی نشوو نما بھی ہونے لگی تھی۔  چنانچہ قطعی حتمیت کے ساتھ اس کا کہنا ہے کہ انسان کے آبا ؤ اجداد اپنی اصل میں بندر تھے۔وہ زور دیتا ہے کہ انسان پہلے ’انسا ن نما بندر ‘، پھر ’بندر نما انسان‘، اور پھر آخر کار ’ مکمل انسان ‘بن سکا ہے۔

ڈارون کے اس انکشاف نے سائنس دانوں کی ایک بڑی تعداد کو گویا ہلا کر رکھ دیا تھا اور  وہ اس پر بلا تردّد ایمان رکھنے لگے ۔ حیرت انگیز طور پر آج کا ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ یہودی، ربی، ’بنجامن بلیخ ‘بھی اس کے نظریے کی تائید کرتا  ہوا نظر آتا ہے  ۔وہ سوال کرتا ہے کہ ’’ ہمیںتورات کی جانب دیکھنا چاہیے کہ وہ اس ضمن میں ہمیں کیا سکھا تی ہے؟ ۔ وہ کہتی ہے کہ موجودہ دنیا،     اپنی تکمیلی حالت میں ترقی کرتے ہوئے ہی اس آج کے دور تک نمودار ہوسکی ہے۔ بنجامن سمجھاتا ہے کہ تورات بیان کرتی ہے کہ’’ خدا نے تخلیقِ کائنات کا جب منصوبہ بنایا تھا تو سب سے پہلے دن  اس نے ’دن ‘کو جنم دیا تھا ۔پھردوسرے دن اس نے’ آسمان ‘کی پیدایش کی تھی۔ تیسر ے دن ’ اس نے ’خشک زمین ‘کو جنم دیا تھا۔ چوتھے دن سورج اور چاند تاروں کی تخلیق۔ پانچویں دن ’مچھلیوںاور پانی‘ کی تخلیق، اور آخری اور چھٹے دن’ چوپایوں اور انسانوں ‘کی تخلیق کی تھی‘‘۔ ربی’ بنجامن‘    سوال کرتا ہے کہ پھر اگر انسان بھی اسی طرح بندر کی شکل و صورت ،اور عادات و اطوار سے تبدیل ہوتے ہوتے موجودہ اصل انسانی حالت میں سامنے آیا ہے تو اس میں اچنبھے کی کیا بات ہے؟۔ (Jewish History and Culture ،امریکا،ص ۳۸-۳۹)۔اتفاق دیکھیے کہ کمیونزم کا بانی کارل مارکس بھی ڈارون کی اس کتاب پر اپنی پسندیدگی کااظہار کرتاہو ا نظر آتا ہے۔

 ربی کا یہ بیان بہرحال ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دشواری پیدا نہیں کرتا کہ یہودی مذہبی زعما بھی ڈارون کے نظریے سے متفق نظر آتے ہیں۔پھریہیںسے یہ بات بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ مفاد پرست حضرات جھوٹ اور فاسد امور کی خاطر دلائل بھی آخر کہاں کہاں سے لے کر آتے ہیں، یعنی وہ اس معاملے میںمقدس کتابوں تک کو بھی نہیں بخشتے!                                            

ایک طویل مدت تک ڈارون کے اس نظریے کی تشہیر ہوتی رہی۔ اپنی اصل الٰہی تخلیق، حضرت آدم ؑ و حو ؑا کو چھوڑ کر انھوں نے خود کو بآسانی بن مانسوں کی اولاد قرار دے لیا تھا۔اگرچہ   اس نظریے کے رد میں آج خود مغرب سے بے شمار کتابیں منظرعام پر آرہی ہیں لیکن کوئی مضائقہ نہیںاگراس کے ایک دو پہلوؤں کا ہم خود بھی جائزہ لے لیں۔                                                                

کہاگیا تھا کہ انسان بننے کی جانب قدم اٹھاتے ہوئے اس نے پہلے اپنے اگلے دونوں پائوں اٹھا لیے تھے اور جھک کر چلنے لگا تھا (اس قسم کی مفروضہ تصاویر بھی انسائی کلو پیڈیا میں عام نظر آتی ہیں)۔ تاہم عقل ان کی اس دلیل کو تسلیم کرنے سے اِبا کرتی ہے ۔ وہ اسے پہلی فرصت ہی میں رد کردیتی ہے کیونکہ انسان کچھ عرصے کے لیے تو جھک کر چل سکتا ہے لیکن اس صورت میں وہ خود کو مسلسل برقرار نہیں رکھ سکتا ۔ایسا کرنااس کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ حیوانات بے فکر ہو کر، اور آرام سے یا تو چاروں ہاتھ پائوں کی مدد سے چل سکتے ہیں یا پھر محض دو پیروں کی مدد سے۔لیکن یہ کہ ان کے پیر تو چار ہوں اور وہ چلیں سیدھے ہوکر محض دو پیروں کی مدد سے ، تویہ عمل حیوانات کے لیے ممکن ہی نہیں ہے! پھر یہ بھی کہا گیا کہ ارتقا کی منزل ہی میں زرافے نے اُونچے درختوں سے غذا حاصل کرنے کے لیے اپنی گردن موجودہ شکل میں تبدیل کی تھی۔حالانکہ یہ بھی محض ایک واہمہ ہی ہے کیونکہ سائنس دانوں نے بہت تحقیق کے بعد آگاہ کیا ہے کہ اب سے چار پانچ ہزار سال پہلے کے زرافے کے جو ڈھانچے دریافت ہوئے ہیں ،ان میں بھی اس کی گردن آج ہی کی مانندلمبی پائی گئی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈارون کے نظریات و انکشافات شکوک و شبہات کی نذر ہونے لگے ۔ حیرت انگیز طورپر سائنسی تحقیق سے صورت حال ایک بالکل نئے انداز سے سامنے آنے لگی۔ معلوم ہو ا کہ حقائق وہ نہیں ہیں جو ڈارون نے پیش کیے تھے ،بلکہ حقائق اس کے ماسوا کچھ اور ہیں۔ سائنس دانوں نے بتایا کہ ڈارون نے اپنے یہ نظر یات کسی بھی لحاظ سے ٹھوس بنیادوں پر استوار نہیں کیے ہیں۔ بات کی وضاحت کی خاطر انھوں نے اس موضوع پر دلائل بھی فراہم کیے، اور مضامین و مقالات کا ایک نہ رُکنے والا سلسلہ بھی شروع کیا ۔انھوں نے بتایا کہ انسان اپنی ابتدا میں بھی آج ہی کی طرح کاایک مکمل انسان تھا جس کا بندروں کی نسل چیمپینزی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن حقائق کی روشنی میں لائے جانے کے باوجود مذکورہ بالاگمراہ کن نظریہ آج بھی حسب ِ سابق شدومد کے ساتھ پھیلا یا جارہا ہے۔نئی تحقیقات اپنی جگہ ،لیکن ڈارون کا نظریۂ ارتقا اپنی جگہ!۔ آخر ایسا کیوں ہے؟اس کی وجہ یہی ہے کہ دہریے نظریات کے حامل دانش ور ان، دنیا کے لوگوں کو    ان کے تخلیق کرنے والے خدا سے بالکل کاٹ کے رکھ دینا چاہتے ہیں۔ وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ مذہب اور خدا کا دنیا میں کہیں بھی چرچا ہوتا رہے۔ اسی سلسلے کو یہ لوگ ’الیو میناتی نظام‘(یعنی روشنی کا نظام)قرار دیتے ہیں۔ الیومیناتی دانش وران قرار دیتے ہیںکہ دنیا میں محض ان کے جنم شدہ شیطانی نظام ہی کو بالادستی دی جانی ہوگی اور اسی کا سکہ یہاں رائج ہو کر رہے گا۔اگرچہ وہ اسے ’روشنی کا نظام ‘ قرار دیتے ہیں لیکن اپنی اصل میں یہ ’ اندھیرے اور شیطنیت کا نظام‘ ہے ۔

چنانچہ انھی کے تربیت یافتہ مادہ پرست ذرائع ابلاغ ،اور روحانیت سے جان چھڑانے والے باغی سائنس دان ہیں جن کی تاریک کتابیں روشنی کے اس دور میں بھی مسلسل سامنے آتی چلی جارہی ہیں۔عالمی ذرائع ابلاغ بھی انھی کی مانند اس نظریے کو فروغ دینے میںپیش پیش ہیں، کیونکہ ان کی توفطرت ہی یہ ہے کہ حقائق سے زیاد ہ وہ افسانوںاور سنسنی خیزیوںمیں دل چسپی لیتے ہیں۔ یہی ان کے روزگا ر کی شاہ کلید بھی ہے۔ چنانچہ انسانی ارتقا کے مختلف درجوں کی فرضی تصویریں دنیا بھر میںپھیلا دینے والے لوگ اور ادارے بھی یہی ہیں۔ انھی مفکرین نے کمپیو ٹر کی چال بازیوں کی مدد سے مردوں اور عورتوں(انسانوں) کو مکمل برہنہ حالت میں جسم پر گھنے بال رکھے ہوئے دکھا یا ہے اور انھیں تعلیمی نصاب میں شامل کروایا ہے۔ بلکہ حیرت انگیز طورپر وہ تو ان کے جسموں پر پتے بھی نہیں دکھاتے جن کا وہ تعلیمی اسباق میں بہت چرچاکرتے ہیں ۔حالانکہ بندر نما انسان یا انسان نما بندر اگر کسی حد تک چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تھا اور اس کا دماغ بھی کم از کم کسی درجہ ’ذہنی ترقی‘ بھی کرچکاتھا، تو اپنے پوشیدہ حصوںکو تو اسے فوراً ہی ڈھانپنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی کیونکہ شرم و حیا تو اللہ تعالیٰ نے جانوروںکے ا ندربھی رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مر غی سب کے سامنے کبھی انڈے نہیں دیتی اور جانور اپنی دموں کو عموماًگرا کر ہی رکھتے ہیں ۔

آج کی ترقی یافتہ خواتین بھی چوبیس گھنٹے اور تین سو پینسٹھ دن بغیر لباس کے زندگی نہیں گزار سکتیں ۔کیونکہ مرد ہو یا عورت ، انسان اپنی شرم و حیا کے ہاتھوں مجبور ہے۔ دوسری جانب موسموں کے بھی اپنے کچھ تقاضے ہوتے ہیں!۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ضمن میں ان الیومیناتی لوگوںکو ایک تصویر بھی اپنی اصلی حالت میں حاصل نہیں ہوسکی ہے!۔ سائنسی حقائق کے پہلو بہ پہلو یہ لوگ جعلی و مسترد شدہ نظریات کو بھی مسلسل گردش میں رکھتے ہیں ۔

پروپیگنڈا اصل میں ایک بہت طاقت ور ہتھیا ر ہے ۔ صحیح یا غلط ، دونوں نظریات کو بلا جبر، دنیا بھر کی ۷؍ ارب کی آبادی سے اگرازخود منوانے کا کسی کا ارادہ ہو تو کتب، رسائل ،اور دیگر  ذرائع ابلاغ ،اس کی اس آرزو کو چندسالوں ہی میں بآسانی پورا کرسکتے ہیں، جب کہ ان کی مدد کے بغیر ان کاذب نظریات کا رد ، اور اصل حقائق سے لوگوں کی با خبری،تقریباً ناممکن بنا دی جاتی ہے!۔

پِلٹ ڈاؤن مین (Piltdown Man)

ڈارون کے نظریے کی اشاعت کے کچھ ہی عرصے کے بعد اس کے خیالات کو بہ لطف و کمال آگے بڑھانے والے دین بے زار سائنس دانوں نے پھر ایک اور چال بھی چلی۔ انھوں نے بہت بعد میںایک ایسا درمیانی انسان بھی’دریافت ‘ کر لیا جو بقول ان کے ۳۰۰، ۴۰۰ سالوں کے بعد   بس مکمل انسان کی شکل میں ڈھلنے ہی والا تھا۔

یہ ۱۹۱۲ء کی بات ہے جب انگلینڈ میں اسی کے تقریباً ہم نام ایک اور سائنس دان چارلس ڈاسن نے برطانوی گائوں Piltdown  میں ایک حیوانی سر کا ڈھانچا پایا جس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کے سر کا ڈھانچا اور جبڑے کی ہڈی چیمپینزی کی، اور دانت انسانوں کے سے بتائے گئے تھے۔ چنانچہ اس کے بعد حتمی طور پر طے کردیا گیا کہ ڈارون کی جانب سے پیش کیا جانے والا نظریۂ ارتقا بالکل درست تھا،اور یہ کہ یہ انسان اس کا عملی و عقلی ثبوت ہے ۔ ڈھانچا چونکہ ’پِلٹ ڈائون ‘ نامی علاقے برطانیہ سے ملا تھا،اس لیے ڈھانچے کو بھی Piltdown Man  کہہ کر پکارا جانے لگا ۔

اپنی اس دریافت پر سائنس دان اس درجے خوش ہوئے کہ پھر اس پر وہ تحقیقی مقالے لکھنے لگے اور اسے نصاب میں شامل کروایا۔ کہا گیا کہ انسانی و حیوانی یہ ڈھانچا کم از کم ۵لاکھ سال پرانا ہے ۔مزید یہ بھی کہا گیا کہ یہ ڈھانچا کسی یورپی فرد کا ہے، جب کہ بعض اخبارات نے حسبِ دستور اسے کسی عورت کا ڈھانچا گردانا!۔ اپنے کارنامے پر یہ حضرات اس درجے پُر مسرت تھے کہ اس پر کم از کم ۵۰۰مقالے لکھے گئے اور ۴۰برسوں تک اسے اہمیت دی جاتی رہی۔ حدیہ ہے کہ آج کل کے ’ایچ جی ویلز‘ اور ’برٹرینڈ رسل‘ جیسے معروف دانش ور حضرات بھی اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور انھوں نے اسے اپنی کتابوں بالترتیب  The Outline of Historyاور     A History of  Western  Philosophy  میں انسان کی جدید علمی فتوحات میں شمار کیا۔ تاہم دھوکے بازی زیادہ دیر تک اپنا بھرم نہیں رکھ سکی کیونکہ دھوکا بازی بہرحال دھوکا بازی ہی ہوتی ہے اور حقائق بہرحال اپنا آپ منوا کر ہی رہتے ہیں۔چنانچہ ۴۰برسوں کے بعد جاکر کہیں پتا لگا کہ   اس ڈھانچے کی تمام تر کہانی بے بنیاد ہے۔

برطانوی عجائب گھر کے ایک نگراں Kennith Okley  نے ۱۹۵۲ء میں اس پر کچھ مزید طبی و سائنسی تحقیقات کیں تو پتا لگا کہ اس کے بارے میں جو کچھ کہا اور لکھا گیا ہے ، وہ کئی لحاظ سے درست نہیں ہے۔ ا س نے آگاہ کیا کہ کسی فرد نے چیمپینزی کے بڑے دانتوں کو گھس کر انسانوں  جیسا چھوٹا کیا ہے اور ڈھانچے کو ایک خاص رنگ سے رنگ دیا ہے تاکہ ایک نئی انسان و بندر نما  شکل سامنے آسکے۔                                                      

اس نئے انکشاف نے تو گویا سائنس کی دنیا میں ایک بار پھر وہی قدیم ہلچل مچا دی ۔کس کو پتا تھا کہ عظیم سائنس دان ’ڈارون‘ کا نظریہ یوں بالکل تار تار ہوجائے گا کیونکہ اس طرح کی  صورتِ حال کا کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا۔بہرحال بہت چھان پھٹک کرنے کے بعد آ خر کا ر اعلان کردیا گیا کہ ’’دریافت شدہ ڈھانچا سائنسی لحاظ سے تاریخ کا سب سے بڑا دھوکا ہے !‘‘۔ جدید ماہرین نے واضح کیا کہ مذکورہ ’ شکل و صورت‘ میں بعض جعل سازیاں کی گئی ہیں اور انسان کی شکل میںڈھالنے کی ایک دانستہ کوشش کی گئی ہے۔ نیز یہ کہ چیمپینزی کا جبڑا وغیرہ بھی کسی لاکھوں سال پہلے کا نہیں بلکہ محض حالیہ مرے ہوئے کسی بندر کا ہے۔ اس انکشاف کے نتیجے میں ہلچل کے بعد سے پلٹ ڈائون مین کا وہ ڈھانچا برطانوی عجائب گھر سے فوری طور پر ہٹا دیا گیا جہاں ۴۰برسوں سے وہ مسلسل دنیا کی’ معلومات‘ میں اضافہ کررہا تھا!۔

ڈارون اور اس کے قبیل کے دیگر مفکرین کے یہ نظریات علمی وسائنسی فضا میں تقریباً ایک صدی محض اس لیے چھائے رہے کہ اس دور تک جدید سفری آسانیاں ، حساس تحقیقاتی آلات ، خورد بین ودُوربین، تشخیصی سہولتیں ، سائنسی علوم، اور غور و فکر کی صلاحیتیں وغیرہ، ہمہ معیاری اور بااعتماد حد تک سامنے نہیں آسکی تھیں۔لیکن جوں جوں سائنس آگے بڑھتی رہی ،اور علم اپنا دامن وسیع تر کرتا رہا، ڈارون کے نظریات بھی اسی لحاظ سے شکوک و شبہات کی زد میں آتے چلے گئے۔

حقائق اور تہہ تک پہنچ جانے والے علم کی آج کی یہ دنیا، نہ تو چارلس ڈارون کے نظریۂ ارتقا کو درست مانتی ہے اور نہ چارلس ڈاسن کے خود ساختہ ’پِلٹ ڈائون مین‘ کو کوئی اہمیت دینے کو تیار ہے۔ کل کا دھوم مچادینے والا ’پِلٹ ڈائون مین‘ آج کا محض افسانہ بن کر رہ گیا ہے!

_______________

کتابیات

۱- ہارون یحییٰ Tell Me About  the Creation - New Delhi 

۲- انسائی کلوپیڈیا، جلدنمبر۱۲،کولییرز،امریکا      ۳- انٹر نیٹ ، وکی پیڈیا سرچ

۴- Jewish History and Culture, Alpha Publishers, U.S.A.

۵-عظمتِ قرآن، مولانا وحید الدین خان، بھارت