اپریل ۲۰۱۴

فہرست مضامین

امریکی جمہوریت

ڈاکٹر عبداللہ فیضی | اپریل ۲۰۱۴ | احوالِ عالم

Responsive image Responsive image

بین الاقوامی قانون، شخصی آزادی اور نجی زندگی کے تحفظ کے لیے خطرہ

امریکا اس وقت معاشی، سیاسی اور فوجی اعتبار سے دنیا کا طاقت ور ترین ملک ہے ۔عالمی طاقت ہونے کے ناتے جمہوریت، قانون کی بالادستی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بھی خود کو پوری دنیا کے لیے نمونہ سمجھتا ہے اور اسی وجہ سے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کبھی تو انسانی حقوق اورکبھی جمہوریت کے نام پر دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کو اپنا جائز حق سمجھتا ہے۔ لیکن در حقیقت انسانی حقوق اور جمہوری روایات کے حوالے سے امریکا کی اپنی تاریخ خاصی تلخ واقع ہوئی ہے۔ وکی لیکس اور اب ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات نے نہ صرف اس نقاب سے پردہ اٹھایا ہے بلکہ اُن کے پیچھے چھپے امریکا کے اصل توسیع پسندانہ عزائم کو بھی بے نقاب کیا ہے۔امریکا میں نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے سابق خفیہ اہل کار ایڈورڈ سنوڈن کے ہاتھوں افشا ہونے والے جاسوسی پروگرام ’پرزم ‘کی تفصیلات سے متعلقہ معلومات پر جاری گرما گرم بحث اب ایک باقاعدہ قانونی جنگ کی صورت اختیار کر رہی ہے۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ۴جنوری۲۰۱۳ء کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت نے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے خفیہ پروگرام ’پرزم‘کے خلاف آنے والے ۱۶دسمبر ۲۰۱۳ء کے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا فیصلہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے ایک امریکی شہری لینی کلے مین نے امریکی وفاقی ضلعی عدالت میںپرائیویسی قوانین کی خلاف ورزی کو جواز بناتے ہوئے ایک مقدمہ Klayman v. Obama دائر کیا تھا۔ ۱۶دسمبر ۲۰۱۳ء کو مذکورہ مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے وفاقی عدالت کے  جج ریچرڈ لیون نے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے خفیہ پروگرام ’پرزم‘کو امریکی آئین کی چوتھی ترمیم جس میں Privacy Rights کا تحفظ کیا گیا ہے ، سے متصادم قرار دیتے ہوئے نہ صرف غیرآئینی بلکہ فلاحی ریاست کے لیے تباہ کن قرار دیا اور     مذکورہ پروگرام کو بند کرنے کا حکم جاری کیا۔ بعد ازاں ۲۷دسمبر کو اسی سلسلے کے ایک اور مقدمے ACLU v. Clapper میں ایک دوسرے وفاقی جج ویلیم پویلے نے حکومتی عذر کو تسلیم کرتے ہوئے مذکورہ پروگرام جاری رکھنے کی اجازت دی۔

ان دونوں مقدمات میں ہونے والی بحث اور قانونی نکات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس موضوع سے متعلق اہم واقعات اور دیگر پہلوئوں کو اچھی طرح سمجھا جائے۔ حالیہ بحث کا آغاز اس وقت ہوا جب برطانوی اخبار دی گارڈین نے اپنی ۷جون ۲۰۱۳ء کی رپورٹ میں نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے سابق خفیہ اہل کار ایڈورڈ سنوڈن کے حوالے سے انتہائی اہم نوعیت کی خفیہ معلومات افشا کیں۔ اس رپورٹ کے مطابق نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے گوگل، سکائپ، مائیکروسافٹ، یوٹیوب، یاہو، فیس بُک اور ایپل کے پاس موجود دنیا بھر کے صارفین کی ذاتی معلومات تک رسائی حاصل کی اور انھیں جمع کیا۔ جمع کی جانے والی معلومات میں ان کمپنیوں کے صارفین کی نجی معلومات، ای میل، چٹینگ اور فون ریکارڈ خفیہ طور پر سنا اور اکٹھا کیا جاتا تھا۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق یہ حساس اور ذاتی نوعیت کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کو انٹر نیٹ کمپنیوں کے سرورز تک رسائی حاصل تھی جنھیں بیک ڈور چینلز کا نام دیا گیا۔ یہاں سے صارفین کی تمام تر معلومات بلاواسطہ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے کمپیوٹرز تک پہنچ جاتی تھیں، جب کہ مشہور سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کے صارفین کے ڈیٹاتک رسائی کے لیے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے فیس بک کا جعلی سرور بھی بنایا جس پر فیس بک کے سربراہ مارک زبرگ نے مایوسی کا اظہار کیا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ۲۰۱۲ء میں ۲۰۱۱ء کی نسبت سکائپ سے حاصل کی جانے والی معلومات میں ۲۴۸ فی صد، فیس بُک سے ۱۳ فی صد اور گوگل سے ۶۳ فی صد معلومات میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

دی گارڈینکی رپورٹ کے مطابق ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے افشا کردہ کل ۵۸ہزار دستاویزات میں سے اخبار نے اب تک بہت کم تفصیلات عام کی ہیں۔رپورٹ کے مطابق   نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے تقریباً ۲۷ٹیرا بائٹ کی مقدار تک معلومات حاصل کی تھیں۔یہ مقدار   اتنی بڑی تھی کہ خود نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کو بھی اس کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے خاصی دقت کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ یہ عمل ایک کمپیوٹر سسٹم ’تریولر ‘ کی مدد سے کیا گیا۔

یہاں یہ بات بھی دل چسپی سے خالی نہ ہوگی کہ ۳مارچ کو شائع کردہ  دی گارڈین کے مضمون میں برطانوی نائب وزیر اعظم نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ ۲۰۱۳ء کے صرف ۱۰منٹ میں پوری دنیا کے انٹرنیٹ صارفین کی جانب سے پیدا کردہ معلومات /ڈیٹا کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ جتنی تاریخ کی ابتدا سے لے کر ۲۰۰۲ء تک کے ڈیٹا/معلومات کی تھی۔ اس امر سے اس بات کا اندازہ بھی خوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ٹکنالوجی کی ترقی اور دنیا کے عالمی گائوں بن جانے سے معلومات کے بہائو میں کس حیران کن حد تک تیزی اور تبدیلی آ چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی بی سی کی ۷مارچ کی شائع کردہ رپورٹ میں امریکی فوج کے اعلیٰ اہل کار کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے افشا کردہ معلومات کی مقدار کے تعین اور اس سے ہونے والے نقصانات کے تدارک کے لیے بھی دو سال کا عرصہ درکار ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے اس جاسوسی پروگرام کی نوعیت پہلے سے موجود منصوبوں سے خاصی سنگین ہے اور یہ انٹرنیٹ صارفین کی ذاتی زندگیوں پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ امریکی قانون میں امریکی شہری کے خلاف کی جانے والی اس قسم کی جاسوسی سے پہلے متعلقہ عدالت کے جج سے منظوری لینا لازمی ہے لیکن ’پرزم‘ کے تحت کی جانے والی الیکٹرانک جاسوسی کے لیے ایسی کوئی بھی منظوری حاصل نہیں کی گئی تھی۔ مزید یہ کہ  یہ تمام سرگرمیاں امریکی Privacy Laws کے بھی خلاف تھی جو کہ امریکی آئین میں شامل چوتھی ترمیم کے تحت تمام شہریوں کو Unreasonable Search سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہاں   ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی ملک کو اپنی قومی سلامتی اور ملکی دفاع کے حوالے سے اقدامات کرنے کا حق تو حاصل ہے لیکن اس کے ساتھ ہی فرد کی نجی زندگی اور بین الاقوامی اور ملکی قوانین کی مکمل پاس داری بھی نہایت ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایڈورڈ سنوڈن جو کہ اس وقت روس میں عارضی پناہ لیے ہوئے ہیں، کے مطابق انھوں نے یہ راز امریکی عوام کے مفاداور ریاست کی جانب سے عوام کی آزادی اور انفرادی زندگیوں میں مداخلت کے خلاف اٹھائے تاکہ امریکی شہریوں کی آزادی کا تحفظ کیا جا سکے۔ ان کے اس اقدام نے انھیں امریکی اور دنیا بھر کے عوام کی نظروں میں ایک ہیرو بنادیا، جب کہ امریکی حکومت نے انھیں مجرم قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ چلانے اور  روس سے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا جسے روسی حکومت نے رد کر دیا۔

نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کی جانب سے کی جانے والی جاسوسی کا سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ دی گارڈین ہی کی ایک اور رپورٹ (شائع شدہ ۲۵؍اکتوبر۲۰۱۳ء )کے مطابق امریکا نے دنیا بھر کے ۳۵سربراہان مملکت کے استعمال میں موجود موبائل فونز اور ای میلز کی بھی نگرانی کی۔ رپورٹ کے مطابق ایک امریکی اہل کار نے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کو ۲۰۰مشہور شخصیات کے فون نمبروں کی لسٹ فراہم کی جن کی جاسوسی کرنے کو کہا گیا۔ ان شخصیات میں ۳۵ سربراہان مملکت کے فون نمبر بھی شامل تھے۔ جن سربراہان مملکت کے فون ریکارڈ کیے گئے ان میں برازیل،میکسکو اور کیوبا کے ساتھ ساتھ امریکا کے دوست اور اتحادی ملک جرمنی کی چانسلر اینجیلامرکل کا فون ٹیپ کرنا بھی شامل تھا۔

اس رپورٹ کے افشا ہونے کے بعد امریکا اور یورپین یونین کے تعلقات میں شدید سفارتی تنائوپیدا ہوا جس کو برسلز میں ہونے والے یورپی سربراہ کانفرنس ۲۰۱۳ء کے موقع پر اینجیلا مرکل کی طرف سے اعتماد کا مجروح ہونا قرار دیا کہا گیا۔ اس قسم کی جاسوسی کے بعد امریکا کو یورپی یونین اور دیگر ممالک کی طرف سے بھی شدید تنقید اور مذمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تمام صورت حال پر   سب سے زیادہ شدید اور سخت ردعمل برازیل کی طرف سے دیا گیا جہاں برازیل کی صدر ڈلمارسل نے دسمبر ۲۰۱۳ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خطاب میں امریکا کے اس اقدام کی شدید مذمت کی اور اسے بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا اور خطاب کے بعد اپنی پہلے سے طے شدہ ملاقات جو کہ برازیلی صدر اور اوباما کے مابین ہونا تھی کو منسوخ کرتے ہوئے وطن واپس چلی آئیں۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق جو نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کی انٹرنل آڈٹ رپورٹ کا حصہ ہے، خود نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے اندرونی حلقوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ  ۲۰۰۸ء کے بعد سے کانگریس سے ملنے والے اختیارات کو ناجائز استعمال کرتے ہوئے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں Privacy Laws کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق  ۲۰۱۱ء میں Foreign Intelligence Survelliance Act کی ۱۵۰ بار اور صدارتی ایگزیکٹو آرڈر کی ۳۰۰ بار خلاف ورزی کی ہے۔

’پرزم‘ کے اس پروگرام کے تحت امریکی شہریوں اور سربراہان مملکت کے علاوہ باقی تمام دنیا بھر کے افراد اور اداروں کی جاسوسی بھی کی گئی، حتیٰ کہ بڑی کاروباری کمپنیاں اور آئل ریفائنریز تک بھی جاسوسی کے اس جال سے بچ نہ سکیں۔ جس بڑے پیمانے پر یہ جاسوسی کی گئی اس کا اندازہ ۱۳جنوری ۲۰۱۴ء کو جاری کردہ وہ بی بی سی کی رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق روزانہ دنیا بھر سے ارسال کردہ ۲۰۰ملین موبائل فون ایس ایم ایس پیغامات کا معائنہ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی میں کیا جاتا ہے، جب کہ ۱۵؍ارب موبائلز کے محل وقوع کے بارے میں معلومات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔

یہاں یہ بات معلوم ہونا بھی ضروری ہے کہ عدالت میں دورانِ سماعت یہ بات بھی سامنے آئی کہ جس ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ اور نیشنل سیکیورٹی کی آڑ میں یہ تمام جاسوسی کی جاتی ہے، اس کے لیے اس تمام عرصے کے دوران اس ذریعے سے حاصل کردہ معلومات کی وجہ سے ایک بھی دہشت گرد یا دہشت گردی کا منصوبہ نہیں پکڑا جا سکا۔ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے خفیہ پروگرام ’پرزم‘سے متعلق سب سے اہم اور تشویش ناک معلومات پاکستان کے متعلق دریافت ہوئی ہیں۔  ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے پاکستان کے متعلق فراہم کردہ معلومات جو برطانوی اخبار دی گارڈین میں ۱۱جون۲۰۱۳ء کو Boundless Informant کے عنوان سے اور پاکستانی انگریزی روزنامے دی ایکسپریس ٹربیونکی ۹جون۲۰۱۳ء کی اشاعت میں شائع ہوئی ہیں کے مطابق دنیا بھر میں جاسوسی کی بنیاد پر حاصل کردہ ڈیٹا کے اعتبار سے پاکستان دوسرے نمبر پر ہے، یعنی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے سب سے زیادہ جاسوسی جن ممالک کی کی، پاکستان ان میں دوسرے نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۳ء میں صرف مارچ کے مہینے میں سب سے زیادہ ڈیٹا ایران سے حاصل کیا گیا جو کہ ۱۴بلین، انٹیلی جنس رپورٹس پر مشتمل تھا اور دوسرے نمبر پر مارچ ہی کے مہینے میں پاکستان سے ۵ء۱۳بلین، انٹیلی جنس رپورٹس حاصل کی گئیں۔ مذکورہ رپورٹ پڑھ کر یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ پاکستانی شہریوں اور اہم شخصیات کی جاسوسی بہت بڑے پیمانے پر کی جارہی ہے، یعنی ہمارا  ایس ایم ایس، ای میل اور دیگر ذاتی اور حساس نوعیت کا ڈیٹا مسلسل نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے پاس جمع ہو رہا ہے۔

اسی سلسلے میں پاکستان کے حوالے سے امریکی عزائم افشا کرتی ایک اور نہایت اہم دستاویز NSA Black Budget Summary ہے۔ یہ دستاویز امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ۲۹؍اگست ۲۰۱۳ء کی اشاعت میں افشا کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے ۲۰۱۳ئکے لیے ۶ء۵۲ بلین ڈالر کے خطیر بجٹ اور اس کے مصارف بیان کیے گئے ہیں۔ قابلِ ذکر اور باعثِ تشویش بات یہ ہے کہ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے اس بجٹ میں پاکستان  میں جاسوسی سرگرمیوں کے لیے بڑا حصہ رکھا گیا ہے۔ رپورٹ کا سب سے افسوس ناک اور چشم کشا پہلو یہ ہے کہ اس میں پاکستان کو جو کہ کسی زمانے میںغیرناٹو حلیف تھا، اب ایک مشکل سے قابو آنے والا ہدف قرار دیا گیا ہے۔ یہ چشم کشا اور حقائق پر مبنی معلومات نہ صرف امریکا کی پاکستان دشمنی کی غماز ہیں بلکہ ان تمام محب وطن حلقوں کے شبہات کو بھی تقویت دیتی ہیں جو پاکستان کی سلامتی اور داخلی امور کے حوالے سے امریکا کے مشکوک کردار پر انگلی اٹھاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان رپورٹس کے بعد پاکستان امریکا سے جواب طلب کرتا لیکن افسوس کہ ہمارے دفترخارجہ کی طرف سے ایک رسمی بیان تک نہ جاری ہو سکا۔ فراہم کردہ معلومات، ماضی کے کردار اور امریکا کی طرف سے عالمی قوانین کی پامالی کے حوالے سے ایک طویل تاریخ کے تناظر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکا جو اس وقت طاقت کے نشے میں بدمست ہے دنیا کے کسی بھی قانون اور ضابطے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے صرف ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘  کے فلسفے پر کاربند ہے۔ نیشنل سیکیورٹی اور نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی آڑ میں اپنے استعماری ایجنڈے کو پوری دنیا پر بزور طاقت نافذ کرنے کے درپے ہے اور اس کے لیے ہر حد سے گزرنے کو تیار ہے۔ بدقسمتی سے مسلم دنیا کی قیادت اس ایجنڈے کے آگے بند باندھنے اور اس کا توڑ کرنے سے قطعی قاصر نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے مسلم ممالک اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود امریکا کو آئینہ دکھانا تو دور کی بات اپنے ہی حق کے لیے بھی آواز بلند نہیں کر پا رہے۔

پاکستان جو غیرناٹو حلیف کے درجے سے ترقی پا کر آج ہدف کی منزل تک پہنچ چکا ہے، اس کے حکمرانوں کو بھی اب ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔ امریکا کے ساتھ تعاون کی پالیسی اور امریکی جنگ میں شمولیت کے ثمرات آج پاکستان کے طول و عرض میں نظر آنے لگے ہیں۔ بلوچستان اور کراچی عالمی طاقتوں کے کھیل کے میدان، جب کہ قبائلی علاقہ جات ہماری اپنی عاقبت نااندیشی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ اب امریکا جو کہ عالمی قوانین اور انسانی حقوق کا   علَم بردار بنا بیٹھا ہے اس کا حقیق چہرہ دکھایا جائے اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ جو دراصل امریکی ایجنڈے اور توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل ہے، سے باہر نکلا جائے اور اس بات پر  غور کیا جائے کہ امریکا کا ساتھ دے کر ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟

حالیہ بحث اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ردِ عمل سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس حوالے سے تین نکات بہت اہمیت کے حامل ہیں جن کو حل کرنا دنیا کے تحفظ کے لیے اور خود امریکا کے اپنے تشخص کے لیے بے حد ضروری ہے :

۱-قومی سلامتی کے اداروں کے طریقہ کار اور فرد کی پرائیویسی کے تحفظ کے درمیان توازن، معلومات تک رسائی کے حوالے سے موجودہ قوانین کا از سرِ نو جائزہ اور خود کا ر احتسابی نظام کی تشکیل۔

۲-اختیارات کے ناجائز استعمال اور فرد کی ذاتی معلومات کے مجرو ح ہونے کی صورت میں قانونی ضمانت، جب کہ دوسرے ملکوں کی آزادی اور سلامتی کی ضمانت کے سلسلے میں بین الاقوامی قوانین کی مکمل اور بلاامتیاز پاس داری ۔

۳-صرف اسلامی ہی نہیں بلکہ انسانی نقطۂ نگاہ سے ٹکنالوجی سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں اور تمام مذاہب، رنگ و نسل اور اقوام کی عزت و ناموس کے حوالے سے مؤثر قانون سازی اور ضابطۂ اخلاق بھی وقت کی اہم ضرورت ہے، تاکہ نہ صرف فرد کی آزادی کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے بلکہ ادیان عالم اور اقوام کی عزت و ناموس اور سلامتی کا بھی پاس رکھا جاسکے۔

ہماری نظر میں مؤثر قانون سازی کے بغیر یہ مسئلہ ایک گمبھیر صورت حال اختیار کرتے ہوئے اب عالمی مسئلے کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ لہٰذا تمام اقوام کو متحدہو کر اقوام متحدہ کی سطح پر اس مسئلے کے تدارک کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے چاہییں، تاکہ یہ دنیا رہنے کے لیے ایک بہتر جگہ بن سکے جہاں تمام اقوام امن، عزت اور برابری کے حقوق کے تحت مل جل کر جینے کا حق پاسکیں۔

(مضمون نگار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد میں ریسرچ اسسٹنٹ ہیں)