اپریل ۲۰۱۴

فہرست مضامین

تھرپارکر کا المیہ

پروفیسر خورشید احمد | اپریل ۲۰۱۴ | شذرات

Responsive image Responsive image

تھرپارکر کا صحرا دنیا کا چھٹا بڑا صحرا ہے، جو پاکستان اور بھارت میں مشترک ہے۔ پاکستانی حصہ ۳۳ہزارمربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، جو چھے تحصیلوں پر محیط ہے اور اس کی آبادی ۱۵لاکھ کے قریب ہے۔ زیادہ آبادی ۲ہزار ۳ سو دیہات میں مکین ہے، جب کہ کچھ شہری آبادی بھی ہے۔ زیرکاشت رقبہ سوا تین لاکھ ایکڑ سے زیادہ ہے، جو آبادی کے ۲۰ فی صد کی ضرورتوں کو بمشکل پورا کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے خوراک کے باب میں عدم تحفظ اس صورت حال کا لازمی نتیجہ ہے اور ایک مستقل مسئلہ ہے۔ گلہ بانی یہاں کے لوگوں کا دوسرا بڑا پیشہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ۶۰لاکھ مویشی اس علاقے میں ہیں، جو سندھ اور خصوصیت سے کراچی کی گوشت کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ البتہ مویشیوں کے لیے بھی چارے کا مسئلہ پریشان کن ہے، جو نتیجتاً مویشیوں میں مختلف نوعیت کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق ۵لاکھ سے زیادہ بھیڑبکریاں sheep pax اور دوسری بیماریوں میں مبتلا ہیں اور علاج کی سہولتیں سخت ناکافی ہیں، جس کے نتیجے میں بہت سے بیمار مویشی انسانی غذا کا حصہ بنتے ہیں اوریہ چیز انسانی صحت کے لیے ایک مستقل مسئلہ اور خطرہ ہے۔

تھر کے علاقے میں خشک سالی، اور اس کے نتیجے میں رُونما ہونے والی خوراک کی عدم فراہمی  اور غذائی قلت بچوں اور خواتین میں بیماریوں کا بڑا سبب ہیں جو قحط اور غذا کی کمیابی کی مختلف کیفیات (intensities) کے ساتھ ایک معمول بن گئی ہیں۔ علاج کی سہولتیں ناپید ہیں۔ گذشتہ ۲۰سال میں نو بار خشک سالی اور غذا کی قلت وبا کی صورت اختیار کرچکے ہیں اور انسانوں اور مویشیوں کی قابلِ ذکر پیمانے پر ہلاکت کا باعث رہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ علاقہ ایک مخدوش علاقہ ہے اور خشک سالی اور غذا کی قلت ایک معلوم مسئلہ ہے، جس کے حل کے لیے مناسب منصوبہ بندی اور غذا، صحت، تعلیم اور روزگارکی فراہمی کا ایسا نظام ضروری ہے جو ہردو تین سال کے بعد خشک سالی سے پیدا ہونے والے مسائل کے مستقل حل کا ذریعہ ہو۔ اچھی حکمرانی کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں کے حالات اور موسم اور دوسرے قدرتی عوامل کے اُتارچڑھائو کی تاریخ اور صورتِ حال کی روشنی میں اصلاح احوال کا مستقل بنیادوں پر اہتمام کیا جائے۔ تھر کا صحرا دنیا کے ان چند صحرائوں میں سے ہے جنھیں زرخیز صحرا کہا جاتا ہے، یعنی پانی کی فراہمی کے مناسب انتظام کی صحیح منصوبہ بندی اور ترقیاتی پروگراموں کے ذریعے اسے سبزہ زار بنایا جاسکتا ہے اور قدرت کے تھپیڑوں کا بڑی حد تک کامیابی سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔

اس پس منظر میں ۷مارچ ۲۰۱۴ء کو میڈیا پر سوا سو بچوں کے بھوک، کم خوراکی اور بیماریوں سے لقمۂ اجل بن جانے کی خبر نے پاکستان کے عوام کو ہلا کر رکھ دیا اور گذشتہ دو ہفتوں میں جو حقائق قوم کے سامنے آئے ہیں، وہ جہاں نہایت افسوس ناک اور شرم ناک ہیں، وہیں سندھ کی حکومت کی غفلت ہی نہیں مجرمانہ غفلت کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب تصدق حسین جیلانی نے بجاطور پر سوموٹو نوٹس پر سماعت کے دوران تھر کی صورت حال کو  پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دینے کے مترادف قرار دیا ہے اور اس کی بنیادی ذمہ داری صوبہ سندھ کی حکومت اور اس کی پالیسیوں اور رویوں کو قرار دیا ہے۔

بنیادی بات یہ ہے کہ تھرپارکر کے حالات اور تاریخی اعداد و شمار کوئی نئی شے نہیں۔    اقوامِ متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگری کلچرل آرگنائزیشن (FAO) نے پانچ سال پہلے متنبہ کیا تھا کہ آنے والے برسوں میںاس علاقے میں خوراک کی قلت اور فاقہ کشی کے شدید خطرات ہیں، اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری طور پر مناسب اقدامات کی ضرورت ہے جس کی طرف حکومت کو توجہ دینی چاہیے اور صحیح پالیسیاں وضع کر کے انھیں رُوبہ عمل لانا چاہیے___ لیکن مقامی انتظامیہ اور صوبائی حکومت غافل رہے۔

ستم یہ ہے کہ خود صوبائی حکومت نے ۲۰۱۲ء میں تھرپارکر کے پورے علاقے کو بڑی تباہی کا خطہ قرار دیا تھا اور ایک قانون کا مسودہ صوبائی حکومت نے Draft-Nutritional Policy کے عنوان سے تیار کیا تھا لیکن دوسال میں وہ ڈرافٹ صرف ڈرافٹ ہی رہا، جسے نہ حکومت کی پالیسی کی صورت اختیار کرنا نصیب ہوا اور نہ اس کی تنفیذ سے خوراک اور پانی کی فراہمی کے لیے کوئی قانون سازی ہوئی۔ خطرات منڈلاتے رہے۔ اربابِ حکومت اپنی حکمرانی کی دُھن میں مَست بانسری بجاتے رہے اور ان کی دل چسپی عوام کی مشکلات کو دُور کرنے کے لیے ضروری اقدامات کی جگہ فیسٹیول منانے اور اپنے حلوے مانڈے تک محدود رہی۔

پھر اگست ۲۰۱۳ء میں محکمہ موسمیات نے وارننگ دے دی تھی کہ ۱۵؍اگست تک بارشوں کے نہ ہونے سے انسانوں اور مویشیوں کے لیے خوراک کی قلت کا شدید خطرہ ہے لیکن یہ وارننگ بھی صدا بہ صحرا ثابت ہوئی اور ستمبر۲۰۱۳ء سے بچوں کی اموات کا سلسلہ شروع ہوگیا جس میں دسمبر۲۰۱۳ء میں تیزی سے اضافہ ہوا اور فروری ۲۰۱۴ء تک ۱۲۱بچے زندگی کی بازی ہارگئے۔      ان سطور کی تحریر کے وقت (۲۰؍مارچ ۲۰۱۴ء) تک اموات کی وہ تعداد جو رپورٹ ہوئی ہے ۱۷۲تک پہنچ چکی ہے اور خدشہ ہے کہ ایک خاصی بڑی تعداد ان بچوں کی بھی ہے جو ہسپتالوں تک نہیں لائے جاسکے اور جو اپنے اپنے دیہات یا صحرا کی ریت ہی پر دم تو ڑ گئے۔ اس طرح سیکڑوں کی تعداد میں انسانی غنچے بن کھلے ہی مرجھا گئے۔

یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ۲۰۱۱ء میں پاکستان کے تمام علاقوں کے بارے میں غذائی اجناس کی فراہمی کے باب میں ایک اہم سروے ہوا تھا جسے Pakistan Nutritional Survey 2011  کہا جاتا ہے۔ اس کی رُو سے ملک کی آبادی کا ۵۷ فی صد غذائی عدم تحفظ (food insecurity) کا شکار ہے اور سب سے خراب صورت حال فاٹا کے  ساتھ ساتھ سندھ اور خصوصیت سے تھرپارکر کے علاقے میں پائی جاتی ہے۔ اسی طرح صحت اور تعلیم کے حالات کے تمام جائزوں کے ذریعے یہ بات سامنے آئی تھی کہ یہ علاقہ معرضِ خطر میں ہے اور فوری اور مستقل ہردو بنیادوں پر مؤثرمنصوبہ بندی اور عملی اقدام کی ضرورت ہے، مگر صوبے کی انتظامیہ اور سیاسی قیادت اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی۔

حکومت اور انتظامیہ کی ناکامی اور بے حسی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ریلیف اور صحت کے شعبے کا کوئی وزیر ہی موجود نہیں ہے۔ جن صاحب کو عارضی چارج دیا گیا ہے، انھوں نے کبھی اس علاقے کے حالات کو جاننے اور سنوارنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی۔ انتظامی عہدوں پر نااہل اقربا کا تقرر کیا گیا جنھیں علاقے کی فلاح و بہبود سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ سپریم کورٹ میں صوبے کے سیکرٹری صحت نے اپنے بیان میں ہسپتالوں اور صحت مراکز پر ڈاکٹروں کی غیرحاضری کا جو نقشہ کھینچا ہے اس پر انسان صرف سر ہی پھوڑ سکتا ہے۔ ارشاد ہے کہ صرف اس علاقے کے جہاں صحت اور ادویہ کی عدم فراہمی کی وجہ سے سیکڑوں بچے موت کی آغوش میں جابسے ہیں، ۴۵۰ڈاکٹر ڈیوٹی سے غائب تھے اور اب انھیں شوکاز نوٹس دیے گئے ہیں۔

صوبائی حکومت کی بے بصیرتی، غیرسنجیدگی اور بدترین نوعیت کی حکمرانی اس صورت حال کا اولین سبب ہے۔ دوم: انتظامیہ کی نااہلی، کرپشن اور احتساب اور نگرانی کے نظام کا فقدان۔ سوم: اس علاقے میں معاشی اور سماجی انفراسٹرکچر کا فقدان اور منصوبہ بندی کا افلاس ہے۔ سڑکیں بنادی گئی ہیں مگر ٹرانسپورٹ نہیں ہے۔ ہسپتال موجود ہیں مگر ڈاکٹر اور ادویات ندارد۔ گندم کی بوریاں گوداموں میں سڑرہی ہیں اور لوگ روٹی کے دو لقموں کو ترس رہے ہیں۔ پانی کی ترسیل کا کوئی معقول بندوبست نہیں ہے۔ ان پر مستزاد عملے کی نااہلی اور کرپشن___ قوم نے اپنا پیٹ کاٹ کر جو وسائل اس علاقے کے لیے فراہم کیے اس کا بمشکل ۱۰ فی صد عوام تک پہنچتا ہے اور ۹۰ فی صد کرپٹ عناصر کی ہوس زرگری کی نذر ہوجاتا ہے اور اُوپر سے نیچے تک احتساب کا کوئی نظام ہی موجود نہیں ہے۔

اس سب کچھ پر بے حسی کا یہ عالم ہے کہ حکومت کی بڑی ذمہ دار ہستی جسے خصوصیت سے حالات کو سدھارنے کے لیے کراچی سے تھر بھیجا گیا ہے، ان کا ارشاد ہے کہ یہ سارا فاقہ و فساد میڈیا کا کیا دھرا ہے۔بڑی شانِ بے نیازی کے ساتھ اس کے لیے ایک نئی اصطلاح وضع فرماتے ہیں کہ یہ MMD ہے یعنی Media Made Disaster۔ خود وزیراعلیٰ صاحب فرماتے ہیں: This is a normal occurence in the Thar district.  (ضلع تھر میں یہ ایک معمول کا واقعہ یا صورتِ حال ہے)___   اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ الیہ رٰجعون! یعنی یہاں پہلے بھی لوگ مرتے رہتے ہیں اور اب بھی مر رہے ہیں۔

یہ وہ حکمران فرما رہے ہیں جو ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے نعرے پر اقتدار میں آئے تھے اور غریب عوام کے مسائل کو حل کرنے کے سب سے بڑے دعوے دار تھے۔

ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے پالیسی سازی کا بحران، بدترین حکمرانی اور کرپشن کے ساتھ اربابِ اقتدار کی بے حسی اور غیرسنجیدگی نے بھی حالات کو بگاڑنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اصل مسئلہ خوراک کی عدم فراہمی نہیں، بدترین طرزِ حکمرانی ہے۔ ریلیف کی فوری کوششوں کے ساتھ واضح پالیسی کی تشکیل اور انتظامی مشینری اور خدمات کی فراہمی، خصوصیت سے پہنچانے کے نظام کی اصلاح ازبس ضروری ہے۔ محض فنڈز کی فراہمی سے یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔ حکومت کی مشینری کی نااہلی اور ناکامی کے ساتھ اگر ایک نظر غیرحکومتی خدمتی اداروں کی کارکردگی پر ڈالی جائے تو فرق صاف نظر آتا ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اپنے محدود وسائل کے ساتھ ۱۹۹۸ء سے اس علاقے میں پانی کی فراہمی، تعلیم اور ادویات کی فراہمی کے لیے ایک جامع منصوبے کے تحت کام کررہی ہے۔ اس عرصے میں ۵۰۰ سے زیادہ کنویں کھودے گئے ہیں، جسے زم زم پراجیکٹ کا عنوان دیا گیا ہے اور ہزاروں افراد کو پینے کا صاف پانی میسر آیا ہے۔ حالیہ بحران کے موقعے پر بھی الخدمت فائونڈیشن مؤثر خدمات انجام دے رہی ہے۔ اسی طرح جماعت الدعوۃ، پیماریلیف، ایدھی فائونڈیشن اور خود فوج کے دستوں نے بڑی مفید خدمات انجام دی ہیں۔

اگر یہ ادارے انسانی جانوں کو بچانے اور بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے اتنا کچھ کرسکتے ہیں، تو پھر حکومت کیوں اپنے اربوں روپے کے ترقیاتی پروگراموں اور ہزاروں افسروں اور کارندوں کے لائولشکر کے باوجود کوئی مؤثر خدمت انجام نہیں دے سکی؟ ___ وقت آگیا ہے کہ  جن کے ہاتھوں میں حکومت کی زمامِ کار ہے اور جو قوم کے وسائل کے استعمال پر مامور ہیں، ان کا پورا پورا احتساب کیا جائے اور قوم کے وسائل قوم کی بہبود کے لیے استعمال کیے جانے کا اہتمام کیا جائے۔