اپریل ۲۰۲۱

فہرست مضامین

علّامہ اقبال اور دانش ِحاضر

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی | اپریل ۲۰۲۱ | اقبالیات

Responsive image Responsive image

ہمارے آج کے دانش وروں،خصوصاً’روشن خیال‘ دانش وروں کویہ بات مان لینی چاہیے کہ پوری بیسویں صدی میں اقبال سے بڑا کوئی صاحب ِدانش نہیں تھا،اوردانش حاضر اور اس کی گہرائیوں اور پیچیدگیوں سے بھی ان سے بڑھ کر کوئی واقف نہ تھا۔

اقبال کے ہاں’عقل‘اور’دانش‘مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں اورعقل کے کچھ محدودسے فوائد بھی علامہ نے بتائے ہیں، مگراس مضمون میں’دانشِ حاضر‘کی ترکیب اُس دانش اور عقل عیار کے معنی ومفہوم میں استعمال کی گئی ہے، جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا:

تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی ، مرا ایماں ہے زُنّاری

یا    ؎

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

دانشِ حاضر کی ترکیب تو اقبال نے دوچار جگہ ہی استعمال کی ہے مگرزمانۂ حاضر،تہذیب حاضر،علم حاضر،دورِحاضر،دانشِ فرنگ،سرمۂ افرنگ،عقلِ ذوفنوں،فکرِخداداد ،فلسفہ وحکمت اور آزادیِ افکارجیسی تراکیب اورخرد،خبر،علم ،ظن،تخمین عقل،دانش اور فرنگ جیسے الفاظ ان کے ہاں بکثرت ملتے ہیں۔ اگر ہم اس طرح کے اشعار کونگاہ میں رکھیں:

برا نہ مان ذرا آزما کے دیکھ
فرنگ دل کی خرابی ، خرد کی معموری

______

نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے
کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی بَرّاقی

______

ڈھونڈھ رہا ہے فرنگ ، عیشِ جہاں کا دوام
وائے تمنائے خام ، وائے تمنائے خام

تو اندازہ ہوگا کہ وہ اُس تہذیب،طرزِعمل اور فکر سے بے اطمینانی اور بے زاری کااظہارکررہے ہیں جو عقل پرستی کی بنیاد پروجود میںآنے والی دانش حاضر کاشاخسانہ ہے اور جس کے بارے میں علامہ نے کہا:

عذاب دانشِ حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل

صرف اقبال ہی نہیں،عہداقبال کاہرشخص دانشِ حاضر کے عذاب سے باخبر تھا بلکہ مابعدِ اقبال عہد کی دنیا بھی اس عذاب کوبھگت رہی ہے اور جانے کب تک اس عذاب کی آگ میں جلتی رہے گی۔

دانشِ حاضر چالاکی وعیاری،مکاری وفریب کاری،پُرکاری وسخن سازی اورچرب زبانی میں اپنی مثال آپ ہے۔ عہدحاضر میں دانشِ حاضر نے ساحرالموط کی سی حیثیت اختیارکرلی ہے۔ جو لوگ اس کے فریب میں آجاتے ہیں اور اس کے جال میں گرفتارہوجاتے ہیں، عہدِجدیدکا یہ ساحران کے سامنے ایسے حسین وجمیل،چمکنے دمکنے اور نظر کو خیرہ کرنے والے بت تراش دیتا ہے کہ نوگرفتار، ان کی چکاچوند کے سامنے بے اختیارسجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ان بتوں میں چھوٹے بڑے، مختلف شکل وصورت کے اورکئی قسموں کے بہت سے بت شامل ہیں، مثلاً:

  • وطنیت اور قوم پرستی کا بت
  • دین وسیاست کی مغائرت کا بت
  • عقیدوں،روایات اوراقدارمیں تشکیک اوران سے بغاوت کابت
  • ماد ہ پرستی اورفلزات پرستی کابت
  • ملحدانہ سوشلزم کابت
  • عوام کی حاکمیت کابت
  • آزادیِ افکارکابت
  • مردوزن کی مساوات اورنام نہاد آزادی نسواںکابت،وغیرہ۔

یہ سب معبودانِ فرنگی اُسی دانش حاضرکے تراشیدہ ہیںاور،میں بڑی معذرت کے ساتھ عرض کررہاہوں کہ ہمارے بہت سے پاکستان ہی کے نہیں،مسلم دنیا کے دانش وربھی( ادیب ،صحافی خصوصاًکالم نگار،قلم کار،اساتذہ اورایک نئی مخلوق جسے ’اینکرپرسن‘کانام دیاجاتاہے،یہ سب)، اِلّاماشاء اللہ اسی دانش حاضرکے پھندے میں گرفتارہیں اور انھی معبودان فرنگی کے سامنے سجدہ ریز ہیں، جن سے بچنے کاعلامہ اقبال نے مشورہ دیاتھااوران سے ہوشیار رہنے کی تنبیہ بھی کی تھی مگر  دانشِ حاضرکے بیچارے یہ نوگرفتار سمجھتے ہیں کہ ’وحیِ ولایت‘ کے ہرہرحرف پر آمنّاوصدّقنا       کہنا ہی زندگی میں کامیابی کی کلید ہے۔ یہاںمشکل تویہ ہے کہ جن کی تعریف میں ہمارے دانش وَر رطب اللّساں ہیں،ان میں سے کسی ایک بت نے بھی بنی نوع انسان کی مسیحائی نہیں کی بلکہ اس کے برعکس سو سو طرح سے مرنے والی مخلوقِ خداکوہمیشہ بے اطمینانی اوربے حضوری اور بے یقینی اور محرومی ہی سے دوچارکیاہے۔دانش حاضرکے زائیدہ تما م فلسفوں، اِزموں، بتوں اورمعبودوں نے انسان کے اعتماد …خداپرایمان، کائنات پر یقین، کسی مذہب پر(یعنی زندگی بسرکرنے کے لیے کسی ضابطے، راستے اورعقیدے پر)ایمان،اورانسان کاخوداپنے اوپریقین اوراعتماد…دانش حاضر نے ان سب کوٹھیس پہنچائی ہے،کمزورکیاہے اورانسان کوتشکیک اور تذبذب میں مبتلاکیاہے۔

علامہ فرماتے ہیں:

علمِ حاضر پیشِ آفل در سجود
شک بیفزود و یقیں از دل ربود

 اور اسی لیے عصر حاضر کاانسان’’بوعلی اندرغبارناقہ گم‘‘کی سی کیفیت سے دوچار ہے۔

علامہ اقبال نہایت دیانت داری سے سمجھتے تھے کہ دانش حاضر نہ صرف خودگم کردہ راہ ہے بلکہ گمراہی پھیلاتی بھی ہے اور اس نے ایک دنیا کو راہِ راست سے بھٹکایاہے۔اس گمراہی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دانش ِحاضر فیضانِ سماوی سے محروم ہے۔ اس نے مشرقی اقوام پر مغربی استعمار کی سامراجی گرفت کو مضبوط ترکرنے کانامسعودکارنامہ سرانجام دیاہے۔علامہ اقبال کے نزدیک دانش حاضرکے ڈانڈے ابلیس سے ملتے ہیں:

گو فکرِ خداداد سے روشن ہے زمانہ
آزادیِ افکار ہے ابلیس کی ایجاد

ابلیس کے علاوہ دوسری ہستی میکاولی کی ہے جسے دانش حاضر نے اپنا مرشد بنارکھاہے۔اس ابلیسیت اورمیکاولیت کی بنیاد پر دانش حاضرنے جو گل کھلائے،ہم اقبال کی وفات کے پون صدی بعدبھی اس کے ’’فیوض وبرکات‘‘کی زدسے باہر نہیں نکل سکے۔عہدحاضرمیںآزادی فکر،آزادی نسواں،مساوات مردوزن،رواداری،دوستی ، روشن خیالی اورنظریہ پاکستان کے مفہوم کے ازسرنوتعین کے سلسلے میں سیکولرزم پراصراراورایک خاص مفہوم اورپس منظر میں’عوام کی عدالت ‘کواسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستوراوراس کی مقننہ اورعدلیہ سے بھی بالاترقراردینے کانعرہ ۔ یہ سب جیساکہ اُوپرعرض کیاگیا،دانش حاضرکے زائیدہ مسائل اور امراض ہیں۔عہداقبال میں بھی یہ سب موجود تھے اور علامہ کو ان کاپوراادراک تھا۔اس کے بعض پہلوؤں کا اظہار انھوںنے ’بالِ جبریل‘ کی نظم’’لینن‘‘میں کیاہے۔ چنداشعارملاحظہ فرمائیے:

یورپ میں بہت روشنیِ علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات
رعنائیِ تعمیر میں ، رونق میں ، صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے ، حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبر ، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو ، دیتے ہیں تعلیم مساوات
بیکاری و عریانی و مے خواری و اِفلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات

 فرنگی مدنیت کی فتوحات کی پوری فہرست بہت طویل ہے ۔جنسی بے راہ روی نے کنواری ماؤں، ناجائزبچوںاورشادی کے رجحان میں بتدریج کمی کی منازل سے گزر کرفرنگی معاشرے کوخاندانی اکائی سے محروم اورخاندانی نظام کی تباہی سے دوچار کردیا ہے اوراب دانش حاضرہم جنس پرستی پر مصر ہے۔ جب دانشِ حاضر نے عالم انسانی کو اتنی ساری مہلک بیماریوں میں مبتلاکردیاتو انسانیت کیسے پنپ سکتی ہے۔ اقبال نے خطبات میںایک جگہ کہاہے:

Believe me, Europe to-day is the greatest hindrance in the way of man's ethical advancement

خیر،یہ توفرنگی مدنیت کاایک پہلوہے۔اس کاسب سے روشن اورقابل قدرچہرہ تو’’یہ علم ،یہ حکمت،یہ تدبر،یہ حکومت‘‘قراردیاجاتاتھا مگر اب مغرب کا علم و ہنر،تعلیم وتعلم،حکمت وحکومت اورتدبروتفکر وغیرہ سب کچھ دانش حاضر سے مسموم ہوچکاہے۔اب علم’تخمین وظن‘ اور ’سراپاحجاب‘  بن چکاہے۔اقبال نے اس ظلمات اوران فتنوں سے باخبررہنے کی تلقین کی ہے۔

اے مسلماناں ! فغاں از فتنہ ہائے علم و فن
اہرمن اندر جہاں ارزاں و یزداں دیریاب

خیال رہے کہ دانش حاضرکی زائیدہ بہت سی بیماریوں میں سے روشن خیالی کی بیماری، ہمارے ایک طبقے کوعہداقبال ہی سے لاحق ہوچکی تھی۔پنڈت نہروکے ساتھ قادیانیت کے مسئلے پرقلمی مناقشے میں ایک جگہ اقبال نے لکھاہے:

The so-called "enlightened" Muslim has seldom made an attempt to understand  the real cultural significance of the idea of Finality in Islam and a process of slow and imperceptible Westernisation has further deprived him even of the instinct  of self-preservation.

یہself-preservationسے محرومی کیاہے؟ اس کی وضاحت علامہ نے مثنوی’پس چہ باید کرداے اقوامِ شرق‘ میں بایں الفاظ کی ہے:

اے تہی از ذوق و شوق و سوز و درد
می شناسی عصرِ ما با ما چہ کرد
عصرِ ما ما را زِ ما بیگانہ کرد
از جمالِ مصطفیٰؐ بیگانہ کرد
سوزِ او تا از میانِ سینہ رفت
جوہرِ آئینہ از آئینہ رفت
باطنِ ایں عصر را نشناختی
داوِ اوّل خویش را درباختی

علّامہ نے صرف تشخیصِ مرض ہی پر اکتفا نہیںکیا،دانش حاضر کی اس بیماری کا علاج بھی بتایاہے اوروہ ہے:   ع

اندر ایں کشور مقامِ خود شناس

پھروہ کہتے ہیں کہ یہ خودشناسی لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ کی طرف مراجعت ہی سے ممکن ہے اوریہی دانش حاضرکے زہرکاتریاق ہے۔اسی مثنوی میں ایک جگہ کہتے ہیں:

نکتۂ می گویم از مردانِ حال
اُمتاں را لا جلال اِلَّا جمال
لا و اِلَّا احتسابِ کائنات
لا و اِلَّا فتحِ بابِ کائنات
ہر دو تقدیرِ جہانِ کاف و نوں
حرکت از لا زاید از اِلَّا سکوں
تا نہ رمزِ لَا اِلَہ آید بدست
بند غیر اللہ را نتواں شکست

یہ رمزلَااِلٰہ  کیاہے؟ا س کی وجہ علامہ نے لَااِلٰہ اِلَّااللّٰہَ کے عنوان سے ضرب کلیمکی پہلی نظم میں بیان کی ہے۔ خیال رہے کہ ۱۹۳۶ء میںضرب کلیم کی اشاعت کو اقبال نے دانش حاضر کے فتنے کے خلاف ’اعلانِ جنگ‘قراردیاتھا __  یہ نظم خود شناسی کی وضاحت بھی ہے اور رمز لَااِلٰہ کامفہوم بھی کھولتی ہے__فرماتے ہیں:

خودی کا سرِّ نہاں لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ
خودی ہے تیغ ، فساں لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں ،  لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زُنّاری
نہ ہے زماں نہ مکاں ،  لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ