اپریل۲۰۲۲

فہرست مضامین

بھائی حسین خان مرحوم

پروفیسر خورشید احمد | اپریل۲۰۲۲ | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

انسان کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ ماہ و سال کا سفر اسے آخرت کا سبق بھی بھلا دیتا ہے، لیکن نہایت قریبی ساتھیوں، اور خاص طور پر لڑکپن کے زمانے سے ہمدرد اور ہمہ دم دوستوں کی رحلت، بڑی شدت سے آخرت کی حقیقت یاد دلاتی ہے۔ برادرم محمدحاشرفاروقی کی جدائی (۱۱جنوری ۲۰۲۲ء) کے صدمے سے ابھی نہیں نکلا تھا کہ بھائی حسین خان کے انتقال کی خبر نے نڈھال کر دیا__ انا لِلّٰہِ  وانا الیہ رٰجعون

میری یادداشت کے سامنے وہ منظر تازہ ہوگیا کہ ۱۹۵۱ءمیں خالق دینا ہال میں مولانا مودودیؒ کی تقریر سننے کے بعد روشن چہرے اور پُرعزم جذبوں سے سرشار ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی، جو دل و جان سے جمعیت کے ساتھ وابستگی رکھنے اور دعوت کو سمجھنے کے لیے جوش و ولولہ لیے ہوئے تھا۔ اس نوجوان کا نام حسین خان تھا، جو حیدرآباد دکن سے ہجرت کرکے پچھلے ہی سال کراچی آئے تھے۔

چند ہی ملاقاتوں کے بعد میں نے اندازہ لگا لیا کہ یہ نوجوان تعلیم میں بھی اچھے ہیں، مطالعے کا بھی بہترین ذوق رکھتے ہیں اور طلبہ سیاسیات کے رموز کو بھی بہت خوبی سے جانتے پہچانتے اور بصیرت کے ساتھ آگے بڑھ کر کام کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ عبداللہ جعفر صدیقی بھائی نے ان کی تربیت پر حسب ِ ذوق خصوصی توجہ دی، یوں بہت جلد جمعیت کے رکن بنے اور کراچی جمعیت کےاہل الرائے رفقا میں شمار ہونے لگے۔

جب ۱۹۵۳ء سے ۱۹۵۵ء کے دوران میں ارکانِ جمعیت نے مجھے نظامت اعلیٰ کی ذمہ داری سونپی، تو میں نے حسین خان بھائی کو جمعیت کا مرکزی سیکرٹری (معتمدعمومی) مقرر کیا۔ انھوں نے بڑی دل جمعی کے ساتھ جمعیت کی تنظیم کو مضبوط بنانے اور مقامات سے رابطہ رکھنے اور اُمیدوارانِ رکنیت کی تربیت کانظام وضع کرنے کے لیے دن رات ایک کرکے اپنی بہترین صلاحیتیں لگادیں۔ اس طرح انھوں نے نظامت کی ذمہ داری میں شراکت کا حق ادا کیا۔

پھر میرے بعد اکتوبر ۱۹۵۵ء میں حسین خان اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے، اور اگلے سیشن کے لیے بھی ۱۹۵۶ء میں انھی کا انتخاب ہوا۔ لیکن انھوں نے جرأت مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے مرکزی شوریٰ کے سامنے یہ عرض داشت رکھی کہ مجھے نظامت ِاعلیٰ کی ذمہ داری سے فارغ کر دیا جائے، میں مشرقی پاکستان میں جاکر جمعیت کی دعوت و تنظیم کا کام کرنا چاہتا ہوں۔ دراصل انھوں نے ۱۹۵۶ء میں مشرقی پاکستان کے دورے کے دوران یہ دیکھا کہ تنگ نظر بنگلہ قوم پرستی اور سوشلسٹ تحریک کے بالمقابل، مختلف تعلیمی اداروں میں اُن کی تقاریر نے وہاں کے طلبہ پر اچھا نقش چھوڑا ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنے گھربار کا آرام ترک کرنے اور تعلیم چھوڑ کر مشرقی پاکستان منتقلی کا فیصلہ کرکے شوریٰ کو اپنی رائے کی تائید پر قائل کرلیا۔ یوں مرکزی مجلس شوریٰ نے ان کی جگہ برادرم ابصار عالم کو ناظم اعلیٰ منتخب کرلیا اور یہ ڈھاکا چلے گئے۔

ڈھاکا پہنچ کر انھوںنے وہاں کے مقامی رفقا محمدعلی کو ناظم مشرقی پاکستان اور قربان علی کو معتمد صوبہ مقرر کرکے، ان کے ایک معاون کے طور پر کام شروع کر دیا، اور ترجیحی طور پر بنگلہ زبان سیکھنےپر توجہ دی۔ انھی کی تجویز پر ڈھاکا میں مستحق اور نادار طلبہ کے لیے ایک ہاسٹل قائم کیا گیا، جہاں سے جمعیت کو بڑے ہونہار کارکن ملے، جنھوں نے تحریک کے لیے شان دار خدمات انجام دیں۔

حسین خان کی ان روز و شب کی سرگرمیوں سے مشرقی پاکستان جمعیت کی جڑیں مضبوط ہوگئیں۔ اکتوبر ۱۹۵۸ء کو ارکان نے لاہور میں سالانہ اجتماع کے دوران نظامت ِاعلیٰ کا انتخاب بھی عجیب صورت میں کیا۔ ۸؍اکتوبر کو پاکستان میں تو مارشل لا لگ گیا، مگر اپنے پروگرام کے مطابق ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳؍اکتوبر کے گیارھویں سالانہ اجتماع کے لیے کچھ ارکان لاہور پہنچ گئے۔ حالات کی سنگینی دیکھ کر، جمعیت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے حسین خان بھائی کو ناظم اعلیٰ منتخب کرلیا۔ ساتھ میں مارشل لا نے جمعیت پر پابندی عائد کردی، اور یہ پابندی کا دور جون ۱۹۶۲ء کو مارشل لا کے اختتام پر ختم ہوا، تب اکتوبر ۱۹۶۲ء کو شیخ محبوب علی جمعیت کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ یوں حسین خان نے ۱۹۵۸ء سے ۱۹۶۲ء تک پابندی کے زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے بڑے کٹھن حالات میں یہ ذمہ داری ادا کی۔

عملی زندگی میں قدم رکھا تو انھوں نے چٹاگانگ کو اپنا مستقر بنایا۔ حسین خان بھائی کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کمیونسٹوں اور قوم پرستوں سے گریز کے بجائے، ان سے مکالمہ رکھنے، تعلقات بنانے، اپنی بات ان تک پہنچانے اور ان کی حکمت ِعملی کو سمجھ کر تحریک کے لیے راہیں کشادہ کرنے کی دُھن میں رہتے۔ اس لیے بلاشبہہ مشرقی پاکستان میں سب سے پہلے خواجہ محبوب الٰہی بھائی نے جمعیت کے کام کو آگے بڑھایا، لیکن اس کو مضبوط بنیادوں پر تناور درخت حسین بھائی نے بنایا۔

چٹاگانگ میں کاروں کی کمپنی کی ملازمت کے دوران بہت سے تحریکی رفقا کو ملازمتیں دلائیں اور چٹاگانگ میں تحریک کے کام پر اپنا گہرا نقش مرتسم کیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ڈھاکا میں   خرم بھائی کی توجہ سے تحریک کے کارکنوں پر تربیت کا رنگ نمایاں تھا اور چٹاگانگ میں حسین بھائی کے ہاتھوں سیاسی اور اجتماعی اُمور میں آگے بڑھنے کا ذوق گہرا تھا۔ چٹاگانگ میں جماعت اسلامی کے فیصلے اور حسین خان بھائی کے ذوق کے مطابق انھیں مزدوروں میں کام کی ذمہ داری سونپی گئی، جہاں انھوں نے چٹاگانگ ریلوے میں کمیونسٹ مزدور یونین کو ۲۰برس بعد شکست سےدوچار کیا۔ بہرحال، ۱۹۶۵ء میں ٹوکیو یونی ورسٹی میں اکنامکس میں داخلہ لیا، اور پھر تادمِ آخر جاپان ہی کے ہوکر رہ گئے۔

جاپان میں ان سے قبل عبدالرحمٰن صدیقی صاحب اور عراق کے ڈاکٹر صالح مہدی سامرائی دعوتِ دین کی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ یاد رہے صالح مہدی، زرعی کالج فیصل آباد میں زیرتعلیم تھے، اور یہیں سے میرے رابطے میں آئے،جنھیں مَیں عربی اور انگریزی میں مولانا محترم کی کتب بھیجتا رہا اور جب ’مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن، جاپان‘ کی دعوت پر حسین بھائی ٹوکیو پہنچے، تو اب یہ قافلۂ راہِ حق تین ساتھیوں پر مشتمل ہوگیا۔

یہاں جاپان کے نومسلم حاجی عمرمیتا نے رسالہ دینیات کا جاپانی میں ترجمہ کیا، جو آج تک ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوچکا ہے۔ قبل ازیں قرآن کریم کے جاپانی زبان میں پانچ چھے غیرمستند ترجمے شائع ہورہے تھے۔حسین خان بھائی نے جاپان مسلم ایسوسی ایشن کے صدر عبدالکریم سائتو اور حاجی عمرمیتا کے ساتھ مشورہ کیا کہ درست ترجمۂ قرآن شائع کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے ہرہفتے اکٹھے ہوکر حسین بھائی، حاجی عمر مرحوم کو تفہیم القرآن سے جاپانی میں ترجمۂ قرآن کے لیے معاونت دیتے۔ یوں پانچ سال کی مسلسل کوشش کے بعد، فی الحقیقت مولانا مودودی کے ترجمۂ قرآن کو جاپانی میں رواں اور مستند ترجمۂ قرآن کا رُوپ دینے کا کارنامہ انجام دیا۔

گذشتہ کئی برسوں سے وہ کوشش کر رہے تھے کہ تفہیم القرآن کا جاپانی میں ترجمہ مکمل کرلیں۔ اس مقصد کے لیے جتنی پیش رفت ہوتی، اسے وہ شائع کر دیتے، مگر یہ منصوبہ مکمل نہ ہوسکا۔

عزیزم سلیم منصور نے مجھے بتایا ہے کہ تین ماہ پہلے دسمبر میں حسین خان بھائی نے انھیں فون پر تاکید سے کہا کہ ’’پاکستان میں بی ایس، ایم اے، ایم ایس سی، ایم فل، پی ایچ ڈی اور ہائرایجوکیشن کے طلبہ و طالبات تک تفہیم القرآن پہنچانے کا بجٹ بتائیں اور ان تک پہنچانے کی اسکیم بنا کر بھیجیں‘‘۔ میں نے بتایا کہ یہ تعداد چار لاکھ نفوس تک ہے، اور اس مقصد کے لیے ڈھائی ارب روپے سے زیادہ اخراجات ہوں گے تو وہ کہنے لگے: ٹھیک ہے، مجھے متعلقہ پریس کی تفصیل بھیجیں کہ کہاں رقم بھجوائوں اور اس بجٹ میں جو رائلٹی بنتی ہے، سب سے پہلے وہ مولانا محترم کے بچوں کو دوں گا‘‘۔ انھیں کہا کہ ’’چین، ترکی یا بیروت سے کام ممکن ہوسکتا ہے کیونکہ پاکستان میں نہ تو کوئی پریس اتنا بڑا کام کرسکتا ہے اور نہ جلدبندی اور کاغذ کی فراہمی آسانی سے ممکن ہوگی‘‘ تو کہنے لگے: ’’میرے لیےان تینوں ملکوں میں معاملہ کرنا زیادہ آسان ہوگا‘‘۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ کام بڑا بھاری تھا، اور اس کے لیے نقشۂ کار اس سے بھی زیادہ کٹھن تھا۔ نتیجہ یہ کہ میں کچھ نہ کرسکا‘‘___ اس واقعے سے آپ ان کی لگن اور قرآن سےمحبت کا پیمانہ دیکھ سکتے ہیں۔

حسین خان، جاپان میں پاکستان کے عوامی سفیر تھے اور دعوتِ دین کے رہبر اور مسلم اُمہ کے مسائل و مشکلات کو پیش کرنے والے دلِ بے تاب۔ دسمبر ۱۹۶۸ء میں جب مَیں نے ماہ نامہ چراغِ راہ کراچی  سوشلزم نمبر شائع کیا تو اُس میں انھوں نے ایک علمی مقالہ ’سوشلزم اور معاشی ترقی‘ تحریر کیا۔ جسے مولانا مودودیؒ نے بہت مفید تحریر قرار دیا۔ وہ علمی کتب خریدنے، پڑھنے اور ان سے قیمتی نکات کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی خصوصی اہتمام کرتے تھے۔ آج اپنے مرحوم بھائی کو یاد کر رہا ہوں تو ۷۰برس کا سفر آنکھوں کے سامنے آگیا ہے۔ وہ ۲فروری ۱۹۳۳ء کو پیدا ہوئے اور ۱۹مارچ ۲۰۲۲ء کو زندگی کا سفر مکمل کرکے اللہ کے حضور پیش ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خطائوں کو معاف فرمائے اور صدقاتِ جاریہ میں برکت عطا فرمائے، آمین!