دسمبر ۲۰۱۱

فہرست مضامین

مصر کی انقلابی تبدیلیاں، خطرات ___اور پاکستان کے لیے سبق

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | دسمبر ۲۰۱۱ | بحث و نظر

Responsive image Responsive image

۸ کروڑ ۵۰ لاکھ کی آبادی پر مشتمل مصری عوام، فوجی آمرحسنی مبارک کے ۳۰سالہ جابرانہ دور کے عوامی قوت کے ذریعے خاتمے کے باوجود اپنے خوابوں کی تعبیر کے منتظر اور نام نہاد سپریم کونسل کی شاطرانہ چالوں کا ہدف ہیں۔ حسنی مبارک کی جانشینی ان فوجی سربراہوں نے اختیار کی جن کی اپنی سلامتی حسنی مبارک سے اپنے آپ کو علیحدہ کرنے میںتھی، اور جو ہوا کے رُخ کو دیکھ کر یہ سمجھ چکے تھے کہ اب حسنی مبارک کا باقی رہنا ناممکن ہے۔ چنانچہ وہ معصوم چہرے کے ساتھ عوامی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے آگے بڑھے اور مصری انقلابی نوجوانوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ وہ چند ہفتوں میں اقتدار عوام کے حوالے کردیںگے۔ طاغوتی طاقتوں کا یہ حربہ نیا نہیں ہے۔ عموماً اسی عہد کے ساتھ پاکستان، انڈونیشیا اور دیگر ممالک میں بعض نام نہاد نجات دہندہ     سامنے آئے ہیں اورپھر سالہا سال تک اقتدار سے چمٹے رہنے کے بعد بھی بخوشی کرسی چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے ہیں۔

مصر کے تناظر میں جہاں فوج حسنی مبارک کے طویل آمرانہ دور میں معاشی اور سیاسی فوائد سے فیض یاب ہوتی رہی، وہیں فوج کی تربیت اور اس کی فکری رہنمائی امریکی حکومت کے ہاتھ میں رہی۔ اس بنا پر فوج کی اعلیٰ اور درمیانہ قیادت امریکا کی پروردہ ہونے کے سبب امریکا نواز تسلیم کی جاتی ہے۔ امریکی وزیرخارجہ کے حالیہ بیان کو جس میں اس نے سپریم کونسل سے کہا ہے کہ وہ    جلد اقتدار کی منتقلی کی کارروائی شروع کرے، اگر بغیر کسی پس منظر کے پڑھاجائے تو بہت جمہوریت پسندانہ نظر آتاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مصری عوام امریکا کے مصر میں عمل دخل کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔  چونکہ فوج امریکی حکومت سے قریبی تعلق رکھتی ہے اس لیے امریکی وزیرخارجہ کے بیان کا اصل مقصد خود اپنی صفائی پیش کرناہے کہ امریکا فوجی کونسل کے مستقل طور پراقتدار پر قابض رہنے کی حمایت نہیں کرتا۔ گو حقیقتاً یہ امریکا ہی تھا جس نے ۳۰سال حسنی مبارک کی اندھادھند حمایت کی، اور جہاں کہیں بھی فوجی یا غیر فوجی آمر مسلم دنیا میں اقتدار پر قابض ہوئے امریکا نے ہمیشہ ان کی حمایت اور سرپرستی کا نیک فریضہ جمہوریت کے وظیفے کے ساتھ جاری رکھا ہے۔

عوامی موقف

جہاں تک عوام کے تاثرکا تعلق ہے وہ خود مغربی ذرائع کے مطابق واضح طور پر اسلامیان (Islamists) کے حق میں ہے۔ نیویارک ٹائمز کے تجزیہ نگار کے مطابق ۸۰ فی صد عوام اخوان المسلمون کو پسند کرتے ہیں اور اگر آج غیر جانب دار انتخابات کرائے جائیں تو وہ بھاری اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ میں کامیاب ہوں گے۔ مصری پارلیمنٹ کی ۴۹۸ نشستوں کے لیے تقریباً ۶ہزار اُمیدواروں کو میدان میں آنا ہے۔ ملک کی زرعی علاقوں اور دیہاتوں کی آبادی روایتی طور پر اسلام سے تعلق رکھتی ہے اور اگر اسے بغیر کسی دھاندلی اور دبائو کے ووٹ کا حق دیا جائے تو اسلامی جماعتوں خصوصاً اخوان المسلمون کو ووٹ دے گی۔ اخوان نے ۱۹۲۸ء سے عوامی سطح پر کام کیا ہے، عظیم قربانیاں دی ہیں اور ہر دور میں آمروں کے مظالم کا نشانہ بنے ہیں۔ اس کے باوجود انھوں نے عزم و استقامت کے ساتھ اپنی دعوت کو دیہاتوں اور شہروں میں ہرجگہ بہت سلیقے سے پیش کیا ہے۔

آج بھی اخوان کے رہنما عدل و حریت کا علَم لے کرمیدان میں آئے ہیں اور اپنے روایتی شعار کی جگہ نئی سیاسی زبان کا استعمال کرتے ہوئے عوام کے بنیادی مسائل روٹی، روزگار، پانی کی فراہمی، زمینوں کی عادلانہ تقسیم، خواتین کے حقوق کی بحالی جیسے اہم بنیادی مسائل کو اپنی انتخابی مہم کا موضوع بنارہے ہیں۔ نتیجتاً مصر کی آبادی کا بڑا حصہ مصر میں اسلامی عدل و انصاف اور حقوقِ انسانی کی بحالی کے لیے اخوان کے موقف کی تائید کرر ہاہے۔ یہ امر امریکی حکومت کے لیے بہت اضطراب اور فکرمندی کا باعث ہے۔ گو وہ عرصے سے یہ کوشش کرتی رہی ہے کہ غیرسرکاری طور پر اخوانی رہنمائوں سے رابطہ رکھے لیکن اس کی اپنی ترجیح فوجی یا نیم فوجی قیادت کے دوبار ہ آجانے میں ہوگی کیونکہ اس طرح وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے چند افراد سے معاملہ طے کرتا ہے، جب کہ عوامی نمایندوں کی حکومت کی شکل میں اس کے لیے اتنی تعداد میں افراد کا خریدنا اور انھیں امریکی مفاد کی حمایت پر قائم رکھنا قدرے مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کے باوجود ظاہری طور پر امریکی حکومت عوامی خواہش کواچھی طرح جاننے کے باوجود کوشش کرے گی کہ اسلامی قوتوں کے درمیان آپس میں مقابلہ ہوکر ووٹ تقسیم ہوجائیں اور سیکولر اور سوشلسٹ ذہن کی جماعتوں کو کامیابی حاصل ہو اور اس طرح اسلامی قوتوں کو واضح اکثریت نہ مل سکے۔

تیونس میں بھی امریکی حکمت عملی یہی تھی لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے وہاں تحریک اسلامی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ اس عشرے میں جو بظاہر تحریکاتِ اسلامی کا عشرہ نظرآرہا ہے، مصر میں حالات جس رُخ پر جارہے ہیں اس میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان شاء اللہ اخوان المسلمون مناسب اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔ گو مصر کی قبطی عیسائی آبادی جو اندازاً ۱۰ فی صد بتائی جاتی ہے اسلامی تحریک کی کامیابی کی مخالفت کرے گی ۔ نہ صرف عیسائی بلکہ بعض آزاد خیال مسلمان بھی تحریکاتِ اسلامی کے بارے میں یہ غلط تصور رکھتے ہیں کہ یہ ’قدامت پرست‘، ’انتہاپسند‘ اور ماضی میں بسنے والی جماعتیں ہیں۔ حقیقت حال بہت مختلف ہے۔ اخوان المسلمون کی قیادت کی بڑی تعداد ان افراد پر مبنی ہے جو مغرب کی اعلیٰ درس گاہوں سے انجیینرنگ، میڈیکل سائنسز، عمرانی علوم اور دیگر شعبہ ہاے علم میں اعلیٰ سندات لے کر مصروفِ عمل ہیں۔ اخوان کے رہنما عصام العریان نے اپنے حالیہ بیان (۱۷نومبر ۲۰۱۱ء) میں واضح طور پر یہ کہا ہے کہ ان کی جماعت جمہوریت اور جمہوری ذرائع پر یقین رکھتی ہے اور وہ انتخابی نتائج جو بھی ہوں انھیں تسلیم کریں گے۔ انھوں نے مزید یہ کہا ہے کہ ان کی جماعت حقوقِ انسانی کی بحالی اور خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد میں یقین رکھتی ہے۔ واضح رہے کہ اخوان کے زیراثر جو سیاسی جماعت میدان میں ہے اس کا ایک نائب صدر ایک عیسائی قبطی ہے۔

دوسری جانب مصر کی فوجی سپریم کونسل عوامی انقلاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود یہ چاہتی ہے کہ پارلیمنٹ کے انتخابات تو ہو جائیں لیکن فوج کو فیصلہ کن مقام حاصل رہے۔ اس کے لیے اس کا اصرار ہے کہ اصل فیصلے فوج کی اعلیٰ قیادت کرے، چنانچہ یہ اعلان کیا گیا ہے کہ  پارلیمنٹ کے ۱۰۰ نمایندوں پر مبنی ایک کمیٹی بنے گی جو ملک کے نئے دستور کومرتب کرے گی جس میں دستوری طور پر سپریم کونسل کو حتمی فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے گا!

گویا اس جمہوری جدوجہد اور قیمتی جانوں کی قربانی کے بعد بھی وہی ڈھاک کے تین پات! فرق صرف یہ ہے کہ حسنی مبارک کی جگہ فیلڈمارشل طنطاوی اور اس کا ٹولہ ملک پر قابض رہے اور پارلیمنٹ محض ایک غیرمؤثر عوامی نمایندوں کے ادارے کے طور پر کام کرتی رہے۔ اس بات کا اظہار مصر کے معروف اخبار الاھرام کے تجزیہ نگار عماد جاد نے بھی کیا ہے کہ مصر کے عوام کی ۵۰فی صد آبادی اس امر پر متفق ہے کہ مصری سپریم کونسل انقلاب کو ناکام بنانے اور اس کی روح کو ختم کرنے کے درپے ہے اور اس بنا پر انتخابات کا عمل شروع کرانے اور اقتدار منتقل کرنے میں شعوری طور پر تاخیر کی جارہی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انتخابات کے بعد بھی ۲۰۱۳ء تک یہی کونسل حکمران رہے گی۔

نیوزویک کے تبصرہ نگار نے مصری عوام سے براہِ راست انٹرویو کرنے کے بعد جو راے قائم کی ہے وہ بھی ہمارے لیے غور کے زاویے فراہم کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسلام پسند جماعتوں کو بعض حلقے ’سلفی‘ کہہ کر ان کے بارے میں ذہنوں میں تحفظات پیدا کرنے میں مصروف ہیں لیکن اس کے اپنے تجربے کے مطابق جن کو سلفی کہا جا رہا ہے، یہ وہ حضرات ہیں جو نماز، روزے کی پابندی کے ساتھ عوامی فلاحی کاموں میں مصروفِ عمل ہیں۔ چنانچہ غریبوں کو طبی امداد کی فراہمی اور غریبوں کے علاج کے لیے خون کے عطیات جمع کرنے اور دیہی آبادی میں غریب اور ضرورت مند افراد کے لیے ضروری سہولتیں فراہم کرنے میں ان کا بڑا حصہ ہے۔

ا س کا کہنا ہے کہ ملک کی ایک اقلیت ضرور یہ راے رکھتی ہے کہ حکومت میں اسلام کا   عمل دخل نہیں ہونا چاہیے لیکن عوام الناس کی بھاری اکثریت جو کُل آبادی کا تقریباً ۸۰ فی صد ہے، قرآنی نظام کا نفاذ چاہتی ہے۔ لوگ بدعنوانی، بے ایمانی، حکمرانوں کی نفسا نفسی اور اپنی ذات کے لیے ہرکام کرنے کی روش سے تنگ آچکی ہے۔ اب وہ عدل و انصاف چاہتے ہیں اور اس بنا پر اخوان المسلمون کا اپنی سیاسی جماعت کے لیے حریت اور عدل کا اختیار کرنا عوامی جذبات کی صحیح نمایندگی ہے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں تحریکِ اسلامی کے لیے غور کرنے کے کئی زاویے سامنے آتے ہیں۔ انتخابی حکمت کے حوالے سے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کن مسائل کو مرکزی اہمیت دی جائے۔ اندرونی مسائل اور بیرونی مسائل میں ترجیحات کا تعین غیرمعمولی طور پر معروضیت اور خود احتسابی کا متقاضی ہے۔

پاکستان میں تحریکِ اسلامی نے امریکا کی دخل اندازی کی پالیسی کی ہرسطح پر مستقلاً مخالفت کی ہے اور عوامی سطح پر ’بھاگ امریکا بھاگ‘ کے نعرے کو عوامی مقبولیت کی حد تک پہنچا دیا ہے۔ اس سلسلے میں دیکھاجائے تو جماعت کے اس طرزِعمل کا عکس تقریباً عالمی تحریکاتِ اسلامی کے ہاں بھی نظر آتا ہے۔ مصر ہو یا تیونس، تحریکاتِ اسلامی نے امریکی دخل اندازیوں پر مسلم مفاد کے خلاف  بین الاقوامی پالیسی اختیار کرنے پر امریکا کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔ لیکن کیا اسے الیکشن کا ایشو بنانا عوامی حمایت کے حصول میں مددگار ہوگا یا اس کے مقابلے میں ملک میں بجلی کا بحران، ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں میں ناقابلِ برداشت اضافے، بے روزگاری، ملکی اداروں کی تباہی، عدلیہ کے فیصلوں کو نظرانداز کرنا، اہم مناصب پر نااہل افراد کی تقرری، ملک میں لاقانونیت، بدامنی اور عدم تحفظ، فرقہ واریت کا برداشت کیا جانا اور ملک میں کرپشن کا طوفان وہ مسائل ہیں جن کا تعلق ایک عام شہری سے ہے، اور کسی بھی نمایندہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان بنیادی مسائل کے حل کے لیے اپنا مجوزہ حل پیش کرے۔

خارجہ پالیسی کو بھی ایک اہم مقام حاصل ہے اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے حالات کو بگاڑنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ لیکن مسئلہ focus کا ہے، یعنی وہ چیز جو عوام کو متحرک کرنے کا مؤثر ذریعہ بن سکے۔ اس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

تحریکِ اسلامی مصر نے سیاسی محاذ پر ایک نئے نام سے جدوجہد کا آغاز کر کے یہ مثال قائم کی ہے کہ تحریک بغیر کسی تضاد کا شکار ہوئے اپنے دستوری اہداف کے حصول کے لیے نیم خودمختار تنظیم یا ادارہ قائم کرسکتی ہے جس کا یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ ایسے ادارے سے وابستہ افراد تحریک کی اخلاقی اور دستوری پابندیوں سے آزاد تصور کیے جائیں گے۔ اس کا مقصد صرف مخصوص سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ایسی حکمت عملی اختیار کرنا ہے جو تحریک کے سیاسی مقاصد کے حصول میں راے عامہ ہموار کرسکے۔ اس کا یہ مطلب لینا بھی درست نہ ہوگا کہ تحریک صرف تزکیۂ نفس اور تربیت اخلاق کے لیے ہے اور ذیلی سیاسی جماعت سیاسی ہنگامہ خیزی کے لیے۔ نہ اسے کوئی اصولی انحراف کہا جاسکتا ہے۔ تحریکات کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ مباحات کے دائرے میں رہتے ہوئے اور حرام سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے کس طرح حصولِ مقصد کے لیے حکمت عملی میں وقت کے لحاظ سے تبدیلی پیدا کی جائے۔ اگر کسی ایسی حکمت عملی سے تحریک کی پہنچ زیادہ وسیع دائرے تک ہوسکتی ہے تو ایسا کرنا تحریکی مفاد اور دستور کی روح کے مطابق ہی سمجھا جائے گا۔

تحریکاتِ اسلامی کو عموماً دو محاذوں پر مخالفین کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک شریعت کا نفاذ، دوسرا خواتین کی آزادی کا مسئلہ۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ اصولوں سے انحراف کیے بغیر واضح طور پر یہ بات سمجھائی جائے کہ شریعت کے نفاذ سے ہمار ی مراد کیا ہے۔ کیا اسلام کا نظامِ قانون صرف سزائوں پر مشتمل ہے یا اسلامی شریعت دراصل عدل و انصاف کے قیام کا نام ہے۔ اس عدل میں نہ صرف انفرادی طور پر عدل شامل ہے بلکہ ایک فرد کے اپنے نفس کے حقوق کا صحیح طور پر ادا کرنا، اہلِ خانہ کے حقوق کی ادایگی، اعزہ و اقربا اور دوستوں کے حقوق کی ادایگی بھی شامل ہے، اس کے ساتھ ہمسایوں اور خصوصاً اہلِ حاجت کے حقوق کی ادایگی معاشرے میں بھلائی کے قیام اور بُرائی کے مٹانے کی کوشش، معاشی استحصال کا خاتمہ اور معاشی عدل کا قیام بھی۔ اسی طرح معاشرتی معاملات میں خواتین کو جو حقوق اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیے، ان کا نفاذ، ان کی تعلیم، صحت، عزت و احترام، گھر اور معاشرے میں ان کا تحفظ۔ پھر ثقافتی میدان میں عدل کا قیام کہ جن اقدار پر ثقافت کی بنیاد ہے، ان کا فروغ اور جو صفات اسلام ناپسند کرتا ہے، ثقافت سے ان کا خاتمہ۔ غرض عدل و انصاف کا قیام بذاتِ خود ایک ایسا موضوع ہے جس پر اگر ایک عام شہری کو اس کی زبان میں اس کے معاشرے کی مثالوں کی مدد سے بات سمجھائی جائے تو وہ سب سے بڑا شریعت کا حامی بننا پسند کرے گا۔ اسی طرح خواتین کی آزادی کی حدود، اور ان معاملات میں ان کے حقوق کے لیے جنگ جنھیں ہمارے معاشرے میں برادری، قبیلے کی روایت اور ذات پات کی ناک کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ ان معاملات پر کھل کر موقف کی وضاحت کرنا بہت ضروری ہے۔

یہ تمام امور انتخابی منشورمیں وضاحت سے آنے چاہییں اور اس کے ساتھ چھوٹے بڑے اجتماعات، ٹی وی پر گفتگو، اخبارات میں بیانات، پمفلٹ اور کتابچوں کے ساتھ ساتھ جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال بھرپور طریقے سے کرنا ہوگا، کیونکہ آج کی اصل زبان سوشل میڈیا کی زبان ہے۔ موبائل فون، انٹرنیٹ، فیکس بُک وغیرہ کے ذریعے پیغامات اور دیگر ذرائع کا استعال ہی ان موضوعات پر پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دُور کرسکتا ہے۔

امریکا کی سامراجی پالیسیوں اور کارروائیوں کی بھرپور مخالفت کے ساتھ عالمی سطح پر مغربی ممالک کے ایسے معاملات میں تعاون کے امکانات کو ختم نہیں کیا جاسکتا، جن میں مسلمانوں کا مفاد شامل ہو، یا جو آج کے عالم گیریت کے ماحول میں ہرملک کے لیے اہمیت اختیار کرچکے ہیں۔ اس لیے خود ان ممالک کے بارے میں سوچی سمجھی راے تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جہاں ایک طرف اُمت مسلمہ کے مفاد کے خلاف اقدام کا مقابلہ کیا جائے وہیں انسانیت کے مشترکہ مفاد اور باہمی مفادات کے تحفظ کے لیے سب کے ساتھ معاملہ کیا جاسکے، اور عدل اور مشترکات کے حصول کے لیے ہر دروازہ کھلا رکھا جائے۔

مصر، تیونس، لیبیا، شام، یمن، کویت، بحرین، غرض مسلم ممالک میں حالیہ صورت حال پر باربار مختلف زاویوں سے غور کرنے اور اس تناظر میں تحریکِ اسلامی کی اپنی حکمت عملی پر تنقیدی نگاہ سے غور کرنا ہی تحریک کے آگے بڑھنے اور ایک صحیح فیصلے تک پہنچنے میں مددگار ہوسکتا ہے۔ حالات جس رُخ پر جارہے ہیں ان میں تحریکِ اسلامی کی کامیابی اور مقبولیت میں اضافے کے گہرے نقوشِ نظر آرہے ہیں۔عزم و استقامت اور حکمت عملی کے ساتھ ان حالات کے جائزے کے ساتھ اپنی حکمت عملی میں نئی صبح کے انتظار کے ساتھ ہمیں اپنے وسائل کی تنظیمِ نو کرنی ہوگی۔