دسمبر ۲۰۱۱

فہرست مضامین

چند اہم سماجی مسائل اور اسلام

محمد رضی الاسلام ندوی | دسمبر ۲۰۱۱ | مغرب اور اسلام

Responsive image Responsive image

گذشتہ چند صدیوں میں مختلف مغربی ممالک میں بنیادی انسانی حقوق کے پُرزور نعرے لگائے گئے اور ان کے لیے زبردست تحریکیں چلائی گئیں۔ اس کے نتیجے میں مطلق العنان حکم رانوں کے لامحدود اختیارات پر قدغن لگی اور بے بس اور مجبور انسانوں کو بہت سے وہ حقوق اور اختیارات حاصل ہوئے جن سے وہ صدیوں سے محروم تھے۔ دھیرے دھیرے عوام طاقت ور ہوتے گئے تو ان کو حاصل ہونے والے حقوق میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ ان تحریکوں کے نتیجے میں آزادی، مساوات اور عدل و انصاف کے تصورات کو فروغ ملا۔ ان کے ثمرات و فوائد سے یوں توعام انسان بہرہ ور ہوئے، لیکن خاص طور پر عورتوں کو ان کا وافر حصہ ملا۔ وہ صدیوں سے اپنے حقوق سے محروم تھیں۔ انھیں مردوں کا محکوم اور زیرنگیں سمجھا جاتا تھا۔ ان تحریکوں نے انھیں محرومی اور جبر سے آزادی اور زندگی کے ہر میدان میں مردوں کے برابر درجہ دینے اور انھی جیسا معاملہ کرنے کی وکالت کی۔

بنیادی حقوق (Fundamental Rights)، مساوی حقوق (Equal Rights) اور آزادیِ نسواں (Emancipation of women) کے نام سے برپا ہونے والی یہ تحریکیں اصلاً مغربی ماحول کی پیداوار تھیں اور کلیسا کے جبر اور عورتوں کے بارے میں مسیحی نقطۂ نظر نے اس کے لیے راہ ہموار کی تھی۔ اس لیے یہ ردِّ عمل کی نفسیات کا شکار تھیں۔ تفریط کے ردّ عمل میں افراط نے جنم لیا اور حدود و قیود سے ماورا ہرطرح کی آزادی اور مردوزن کے درمیان ہر اعتبار سے مساوات کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ ان تحریکوں کے اثرات کو مشرقی ممالک نے بھی قبول کیا اگرچہ ان کا تہذیبی و ثقافتی اور تاریخی پس منظر مغربی ممالک سے مختلف اور جداگانہ تھا، لیکن وہاں بھی ان تحریکوں کو خوب پھلنے پھولنے کا موقع ملا اور آزادی و مساوات کے ان تصورات کو کافی فروغ ملا۔

  •  خاندانی شکست و ریخت اور جنسی بے راہ روی: اخلاقی اقدار سے عاری ان تصوّرات نے یوں تو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو متاثر کیا ہے، لیکن اس کا سب سے زیادہ   اثر نظام خاندان پر پڑا ہے۔ اس کے نتیجے میں خاندان کا ادارہ بری طرح شکست و ریخت سے دوچار ہوا ہے۔ اباحیت اور آزاد شہوت رانی کی مختلف صورتوں کو فروغ ملا ہے، سماجی ذمہ داریوں سے فرار کا رجحان بڑھا ہے اور اخلاقی قدریں بری طرح پامال ہوئی ہیں۔

خاندان کی تشکیل مرد اورعورت کے باضابطہ جنسی تعلّق سے ہوتی ہے۔ یہ تعلق ایک دوسرے کے حقوق اور ذمہ داریاں متعین کرتا ہے، جن کی پاس داری بہتر خطوط پر افراد خاندان کے رہن سہن اور نشو و نما کے لیے ضروری ہوتی ہے، لیکن ذمہ داریوں سے بچتے ہوئے لذّت کے  حصول کے رجحان نے ضابطے کے ساتھ جنسی تعلق کو فرسودہ قرار دیا اور بغیر نکاح آزاد جنسی رابطہ  (Pre Marital Sexual Permissiveness) کو سندِ جواز عطا کی۔ یہ دلیل دی گئی کہ اگر نکاح کے بندھن میں بندھ کر کوئی مرد اور عورت ایک ساتھ زندگی گزاریں گے تو کچھ عرصہ کے بعد ناپسندیدگی یا کسی اور وجہ سے الگ ہونے میں قانونی رکاوٹیں ہوں گی، اس لیے زیادہ بہتر صورت یہ ہے کہ بغیر نکاح کے وہ ایک ساتھ رہیں اور جب ان کا جی بھر جائے، ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجائیں۔ جدید اصطلاح میں اسے Live in Relationship کا نام دیا گیا ہے۔ یہ طرزِ رہایش ان نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں مقبول ہو رہا ہے جو اعلیٰ تعلیم کے حصول یا ملازمتوں کے لیے اپنے وطن سے دوٗر کہیں عارضی طور پر مقیم ہوتے ہیں اور مختلف اسباب سے ابھی ان کے لیے نکاح کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ وبا مغربی ملکوں میں تو پہلے سے عام تھی، ہندستان میں، جو مذہبی پس منظر رکھتا ہے، اسے عموماً ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، لیکن اب دھیرے دھیرے اس کے حق میں فضا ہموار کی جارہی ہے۔اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دینا مناسب ہوگا۔ گذشتہ سال ۲۳؍مارچ ۲۰۱۰ء کو سپریم کورٹ کے تین فاضل ججوں پر مشتمل ایک بنچ نے جنوبی ہند کی مشہور اداکارہ ’خوشبو‘ (جس نے قبل از نکاح جنسی تعلق کی حمایت کی تھی) کی پٹیشن پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھتے ہوئے ان احساسات کا اظہار کیا تھا: ’’اگر دو جوان (مرد اور عورت) ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں تواس میں جرم کیا ہے؟ یہ معاملہ جرم تک کہاں پہنچتا ہے؟ ایک ساتھ رہنا جرم نہیں ہے۔ یہ جرم ہو بھی نہیں سکتا‘‘۔ اس سے آگے بڑھ کر فاضل ججوں نے دستور کی دفعہ ۲۱ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھاکہ یہ  حقِ حیات او رحق آزادی کے خلاف ہے، جنھیں دستور میں ’بنیادی حقوق‘ کی حیثیت دی گئی ہے۔

یہ تو قبل از نکاح جنسی تعلق کا معاملہ تھا۔ بعد از نکاح جنسی آزاد روی کے معاملے میں تو اس سے بھی زیادہ کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ کہا گیا کہ ہر مرد اور عورت، خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیرشادی شدہ، آزاد اور اپنی مرضی کا مالک ہے۔ جنسی تعلق کے لیے اس پر جبر تو قابلِ مواخذہ اور موجب تعزیر ہے، لیکن اگر دونوں باہم رضامندی سے یہ تعلق قائم کریں تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ قانون کی کوئی کتاب یا عدلیہ کا کوئی فیصلہ اٹھاکر دیکھ لیجیے ، اس میں زنا (Rape) کی تعریف یہی ملے گی: (وہ جنسی تعلق جو کسی شخص سے بالجبر اس کی مرضی کے خلاف قائم کیا جائے۔ گویا وہ جنسی تعلق جو بالرضا قائم ہو اس پر نہ سماج کو انگلی اٹھانے کا حق ہے، نہ قانون اس پر کوئی گرفت کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باہمی رضامندی سے جنسی تعلقات کے واقعات آئے دن میڈیا پر زیربحث رہتے ہیں۔ جو واقعات قانون کی گرفت میں آجاتے ہیں ان کے مقابلے میں ان واقعات کی تعداد بہت زیادہ ہے جو سماج کی نظروں سے پوشیدہ رہ کر انجام پاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو جنسی تعلق باہم رضا مندی سے قائم کیا جائے گا، دوسروں پر اس کا انکشاف شاذ و نادر ہی ہوپائے گا۔

  •  غیرفطری جنسی رویوں کا فروغ: آزاد روی کی اس روش نے جنس کے معاملے میں متعدد منحرف اور غیر فطری رویّوں کو جنم دیا ہے۔ مرد کا مرد سے جنسی تعلق  (Homosexuality) اور عورت کی عورت سے جنسی تسکین  (Lesbianism) اس سلسلے کی دونمایاں مثالیں ہیں۔ دنیا میں ایسے انسان کروڑوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں جو جنسی تسکین کے ان غیر فطری طریقوں کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان کے مطالبات سے مجبور ہوکر بہت سے مغربی ممالک، مثلاً ڈنمارک ، ناروے ، سویڈن، فرانس، نیدرلینڈ وغیرہ نے ان منحرف جنسی رویّوں کو باقاعدہ قانونی جواز عطا کردیا ہے اور ہم جنسی میں مبتلا جوڑوں کو ان تمام حقوق کی ضمانت دی ہے جو روایتی شادی شدہ جوڑوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ دوسرے بہت سے ممالک اس سلسلے میں قانون کی تشکیل کے مختلف مراحل میں ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق ہندستان میں ہم جنس پرستوں کی تعداد تقریباً ۲۵ لاکھ ہے۔ اگرچہ یہاں کے قانون میں اب تک ہم جنس پرستی کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے، لیکن اب ایسی آوازیں اٹھنے لگی ہیں کہ اسے قانونی جواز عطا کیا جائے اور ہم جنس پرستوں کے بھی روایتی شادی شدہ جوڑوں جیسے حقوق تسلیم کیے جائیں۔ چند سال سے ایک غیر سرکاری تنظیم (NGO) ناز فاؤنڈیشن دہلی اس کے حق میں تحریک چلارہی ہے۔ چنانچہ جون ۲۰۰۹ء میں دہلی ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں ہم جنس پرستی کو قانونی جواز دیے جانے کی رائے ظاہر کی۔ فاضل ججوں نے کہا کہ برطانوی عہد کے بنے ہوئے انڈین پینل کوڈ ۱۸۶۰ء کی دفعہ ۳۷۷، جس میں ہم جنس پرستی اور تسکین جنس کے دیگر غیر فطری طریقوں کو قابل تعزیر جرم قرار دیا گیا ہے، دستور ہند کی دفعہ ۲۱ سے ٹکراتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کے ہر باشندے کو زندگی گزارنے کے یکساں مواقع حاصل ہیں اور تمام لوگ قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ [پاکستانی معاشرے میں آزادانہ جنسی تعلقات اور ہم جنس پرستی کو  ایک برائی تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم، جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں حدود قوانین میں ترمیم کرکے مرد و خواتین کے ناجائز تعلقات کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پیپلزپارٹی کے موجودہ دورِحکومت میں ’ہم جنس پرستی‘ کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے امریکی سفارت خانے میں پہلی مرتبہ ہم جنس پرستوں کی تقریب کا باقاعدہ انعقاد کیا گیا۔ ایک لبرل معاشرے کے مقابلے میں اسلام چونکہ آزاد جنسی تعلق اور ہم جنسی پرستی کو ممنوع قرار دیتا ہے، لہٰذا لبرل اور مغربی تصورات کے فروغ میں یہ ایک بڑی ’رکاوٹ‘ ہے۔ تاہم، لبرل اور سیکولر عناصر اپنے آلۂ کار حکمرانوں اور میڈیا کے ذریعے اس سوچ کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں۔]

  •  قائم مقام ماں(Surrogate Mother): آزادی اور افادیت کے تصورات نے ایک اور سماجی مسئلے کو جنم دیا ہے، جسے قائم مقام مادریت  (Surrogate Motherhood) کا نام دیا گیا ہے۔ کہا گیا کہ عورت اپنی مرضی کی مالک ہے اور اپنے اعضاے جسم کی بھی۔ اس لیے اگر وہ چاہے تو اپنے رحم (Uterus) کو کرایے پر اٹھا سکتی ہے۔ جو شادی شدہ عورت کسی ایسے مرض میں مبتلا ہے، جس سے اس کے رحم میں استقرار حمل نہیں ہوسکتا یا وہ اپنی عیش پسندی کی وجہ سے حمل کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتی اور بچے کی بھی خواہش رکھتی ہے، وہ کچھ پیسے خرچ کرکے کسی دوسری عورت کے رحم کو کرایے پر لے سکتی ہے۔ اسی طرح اس تکنیک سے وہ عورتیں بھی فائدہ اٹھا سکتی ہیں جو شادی کے بندھن میں بندھے بغیر زندگی گزارتی ہیں اور فطری تقاضے سے کسی بچے کی پرورش کرنا چاہتی ہیں۔ ان کی خواہش کی تکمیل کے لیے مادۂ منویہ کی دوکانیں  (Sperm Banks) قائم ہیں، جن میں بڑی بڑی اور مشہور شخصیات کے مادہ منویہ کو محفوظ رکھا جاتا ہے۔ وہ کسی من پسند شخصیت کے مادۂ منویہ (sperm) کو خرید کر، کسی ٹیسٹ ٹیوب میں اپنے بیضہ (ovum) کے ساتھ استقرار حمل کرواکے، کسی عورت کے رحم میں بہ صورت جنین اس کی پرورش کرواسکتی ہیں ۔ دنیا کے متعدد ممالک، مثلاً جارجیا، نیدرلینڈ، بلجیم، یوکرین، اسرائیل اور امریکا کی بعض ریاستوں میں اسے قانونی جواز عطا کردیا گیا ہے۔ بعض ممالک میں قائم مقام مادریت کے ذریعے منافع خوری (commercial surrogacy) پر تو پابندی ہے، لیکن دیگر طریقوں سے اس تکنیک کے ذریعے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس صورت حال میں بہت بڑی تعداد میں عورتوں کا ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا ہے جو اس کام کے لیے اپنی خدمات پیش کرتا ہے اور اس کے ذریعے خاطر خواہ دولت کماتا ہے۔ ہندستان کی  سپریم کورٹ نے ۲۰۰۲ء میں اپنے ایک فیصلے کے ذریعے Commercial Surrogacy کو قانونی حیثیت دے دی ہے۔ اس کے بعد سے ہندستان ایک ایسے ملک کی حیثیت سے ابھرا ہے، جہاں دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم خرچ پر قائم مقام ماں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
  •  جنین کشی کا رجحان: عصر حاضر کا ایک اہم مسئلہ رحم مادر میں جنین کشی  (Foeticide) کا ہے۔ اسے اگرچہ بسااوقات قبل از نکاح جنسی تعلق کے نتیجے میں استقرار شدہ حمل کو زائل کرنے کے لیے بروے کار لایا جاتا ہے، لیکن اس کا غالب استعمال اس صورت میں کیا جاتا ہے، جب بعد از نکاح استقرار حمل کے بعد الٹرا ساؤنڈ یا کسی دیگر تکنیک کے ذریعے معلوم کرلیا جاتا ہے کہ رحم میں لڑکی پرورش پارہی ہے۔ اس سماجی رویے نے عالمی سطح پر سنگین صورت اختیار کرلی ہے۔ ہندستان بھی اس سنگین مسئلے سے دوچار ہے۔ ۳۱ مارچ ۲۰۱۱ء کو انڈین یونین ہوم سکریٹری نے  ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں، ان کے مطابق ملک کی آبادی تقریباً سوا ارب ہوگئی ہے۔ اس میں مرد ۵۴ء۵۱ فی صد اور عورتیں  ۴۶ء۴۸ فی صد ہیں۔بہ الفاظ دیگر ایک ہزار مردوں کے مقابلے میں عورتوں کا تناسب ۹۴۰ ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جب کہ گذشتہ ۱۰برسوں میں عورتوں کی تعداد میں اضافہ کی شرح مردوں کے مقابلے میں بڑھی ہے۔ (۲۰۰۱ء میں مردوں اور عورتوں کا باہمی تناسب ایک ہزار کے مقابلے میں ۹۳۳ تھا)۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ بچوں میں صنفی تناسب کا فرق گذشتہ دہائی کے مقابلے میں اور بڑھاہے۔ ۲۰۰۱ء میں ایک ہزار لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد ۹۲۷ تھی، جب کہ ۲۰۱۱ء میں ۹۱۴ رہ گئی ہے۔
  •  بوڑہوں کے لیے ھوسٹل کا رجحان: خاندان اور سماج کا ایک اہم جز بوڑھے اور بزرگ ہوتے ہیں۔ ہر فرد اپنی عمر کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے بڑھاپے کو پہنچتا ہے۔ اس عمر میں اگرچہ اس کے جسمانی قویٰ مضمحل ہوجاتے ہیں اور وہ دوسروں کا دست نگر بن جاتا ہے، لیکن اپنے قیمتی تجربات اور سرپرستی کے پہلو سے اس کی اہمیت نہ صرف باقی رہتی ہے، بلکہ بڑھ جاتی ہے۔ موجودہ دور کے تصورِ افادیت نے انھیں ایک  بے کار اور غیر مفید فرد کی حیثیت دے دی ہے۔ چنانچہ ان سے نجات پانے کے لیے Old Age Homes قائم کیے گئے ہیں۔ مغربی ممالک میں تو ایسے مراکز عام ہیں، جہاں فیس ادا کرکے یامفت میں بوڑھے رہایش اختیار کرسکتے ہیں، ہندستان میں بھی ان کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ ۱۹۹۸ء کی ایک رپورٹ کے مطابق یہاں ۷۲۸ اولڈ ایج ہوم تھے، جن میں سب سے زیادہ (۱۲۴) کیرالا جیسی خوش حال ریاست میں تھے۔  [پاکستان میں بھی مادیت کے فروغ اور معاشرتی اقدار کے کمزور پڑنے سے بزرگوں کی خدمت کی اخلاقی قدر متاثر ہوئی ہے جس کا ایک ثبوت بوڑھوں کے لیے ہوسٹل بنانے کا رجحان کا پیدا ہونا ہے۔ ماضی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔]
  •  جسم فروشی ایک صنعت: دیگر اور بھی متعدد مسائل ہیں جن سے انسانی معاشرہ عالمی سطح پر دوچار ہے مثلاً: عصمت و عفّت کو ایک شے بے معنی سمجھ لیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں جسم فروشی نے ایک صنعت کی شکل اختیار کرلی ہے۔ بہت سی غربت کی ماری عورتیں اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے قحبہ گری کا پیشہ اختیار کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ دوسری طرف سیکس مافیا کا بہت بڑا اور منظّم گروہ ہے، جو ’گرم گوشت‘ کی بین الاقوامی تجارت میں ملوّث ہے۔ وہ پس ماندہ ممالک سے لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں معصوم لڑکیوں کو اغوا کرکے یا غریب والدین کو پیسوں کا لالچ دے کر انھیں ترقی یافتہ ممالک میں سپلائی کرتا ہے۔ بہت سی لڑکیاں شوق میں یا اپنے بڑھے ہوئے اخراجات پورے کرنے کے لیے یہ پیشہ اختیار کرتی ہیں، لیکن اس دلدل میں پھنسنے کے بعد پھر اس سے نکل پانا ان کے نصیب میں نہیںہوتا۔

ایک سماجی مسئلہ یہ بھی ہے کہ نکاح دشوار، پُرپیچ اور کثیر المصارف ہوجانے کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں لڑکیاں بڑی عمر کو پہنچ جانے کے باوجود بیٹھی رہ جاتی ہیں اوران کے رشتے نہیں ہوپاتے۔ یہ صورت حال طرح طرح کے سماجی مسائل کو جنم دیتی ہے۔ پھر ناجائز جنسی تعلقات کے نتیجے میں جو بچے پیدا ہوتے ہیں وہ صحیح خطوط پر نشو ونما اور مناسب تربیت اور سرپرستی سے محروم ہونے کی بنا پر سماج کے لیے وبالِ جان بن جاتے ہیں۔

  •  مساوات مرد و زن اور خواتین پر تشدد:عورتوں کو ہر طرح کے حقوق سے   بہرہ ور کرنے کے لیے ایک تحریک برپا کی گئی، جسے تحریک حقوقِ نسواں (Feminism) کا نام دیا گیا۔ اس نے نعرہ دیا کہ عورت کو ہر حیثیت سے مرد کے مساوی مقام حاصل ہے اور وہ ہروہ کام کرسکتی ہے جسے مرد انجام دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ اس تصور نے خاندان کے دونوں مرکزی ستونوں کو، جو حقیقت میں باہم رفیق اور حلیف تھے، ایک دوسرے کا فریق اور حریف بنادیا۔ جب عورت کو ہر حیثیت سے مرد کے مساوی مقام حاصل ہے تو وہ نظامِ خاندان میں مرد کی ماتحتی کیوں قبول کرے۔ ملازمت اور روزگار کے مواقع نے اسے خود کفیل بنادیا اور مرد پر اس کا انحصار کم یا ختم ہوکر رہ گیا۔ اس کے نتیجے میں اس کی جانب سے سرکشی اور خود سری کا مظاہرہ ہونے لگا۔ دوسری طرف مرد نے اسے قابو میں کرنے کے لیے اپنے زور بازو کا استعمال شروع کردیا۔ اس چیز نے گھریلو تشدّد (Domestic Violence) کو جنم دیا، جو آج کل پوری دنیا کا ایک سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس کا اظہار اقوام متحدہ کے ایک نمایندہ Yakin Erturk کی ایک رپورٹ سے ہوتا ہے جس میں اس نے کہا ہے : ’’عورتوں کے خلاف تشدد ایک عالمی مظہر ہے جو دنیا کے تمام ممالک میں پایا جاتا ہے‘‘۔
  •  معاشرتی انتشار و انحطاط: ان مسائل کے بطن سے دیگر بہت سے سماجی مسائل نے جنم لیا ہے، جن کی وجہ سے نہ صرف خاندان کا روایتی نظام معرضِ خطر میں ہے اور اس کی بنیادیں متزلزل ہیں، بلکہ پورا انسانی معاشرہ ان کی زد میں ہے اور ان کی مار جھیل رہا ہے۔ عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے جرائم کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں اور ان کے اسباب و علل پر غور کریں تو ان کی جڑ میں یہی مسائل دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی وجہ سے اخلاق و شرافت کا جنازہ نکل گیا ہے اور انسانوں کا معاشرہ خالص حیوانی معاشرے کی تصویر پیش کررہا ہے۔ جس طرح حیوانات جنس کے معاملے میں تمام حدود و قیود سے آزاد ہوتے ہیں، اسی طرح انسانوں کے درمیان بھی آزادی اور بنیادی حقوق کے نام پر تمام پابندیاں ختم کی جارہی ہیں۔ جو لوگ ازدواجی تعلقات کے سلسلے میں ضابطوں کی پابندی کرتے ہیں ان کے درمیان بھی ایک دوسرے کے حقوق کی پامالی، ظلم و زیادتی، تشدد اور بے وفائی کے واقعات عام ہیں۔ اس کے نتیجے میں زوجین کے درمیان علیٰحدگی اور طلاق کے واقعات کثرت سے پیش آتے ہیں۔ نوعمر لڑکیوں کے اغوا اور ان کے ساتھ زنا بالجبر اور قتل کے واقعات اتنے زیادہ پیش آرہے ہیں کہ ان کی سنگینی کا احساس ختم ہوتا جارہا ہے۔ والدین اور اولاد کے درمیان مودّت اور مرحمت کا تعلق کم زور سے کم زور تر ہوتا جارہا ہے۔ والدین اگر اپنے نوعمر بچوں کو آزادی سے منع کرتے اور اخلاقی حدود میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ بغاوت پر اتر آتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ان کی روک ٹوک کو انسانی آزادی میں مداخلت کا نام دے کر اسے قابل تعزیر جرم قرار دیتے ہیں۔ [پاکستانی معاشرہ بھی انتشار سے دوچار ہے۔ خاندان کا ادارہ کمزور پڑ رہا ہے، طلاق کی شرح میں اضافہ ہوگیا ہے۔ جرائم بالخصوص جنسی جرائم میں اضافہ ہورہا ہے۔ نئی اور پرانی نسل میں تفاوت بڑھ رہا ہے۔ اولاد والدین کے کہنے میں نہیں، اور معمولی معمولی بات پر خودکشیاں کی جارہی ہیں۔ جنسی بے راہروی بڑھ رہی ہے اور اس کو بڑھانے میں میڈیا بالخصوص اشتہارات میں خواتین کا نیم عریاں حالت میں اخلاق سوز حرکات کے ارتکاب کا اہم کردار ہے۔ بے پردگی اور معاشرتی سطح پر مرد و خواتین بالخصوص نوجوان طلبہ و طالبات کا آزادانہ میل جول اور مخلوط ماحول اخلاقی بے راہ روی کا باعث ہے۔ نتیجتاً حلال و حرام کی تمیز اُٹھ رہی ہے،شراب نوشی اور زناکاری کا رجحان بڑھ رہا ہے، اور بتدریج مذہب کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے جو معاشرتی انتشار کا باعث ہے۔]

جنسی آوارگی کی سزا قدرت نے ایڈز کی شکل میں دی ہے، جس سے دنیا کے تمام ممالک پریشان ہیں اور کروڑوں اربوں ڈالر خرچ کرنے او ربے شمار احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باوجود اس موذی اور بھیانک مرض پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔  UNAIDSکی ۲۰۰۷ء کی رپورٹ کے مطابق، دنیا میں تقریباً ۳ کروڑ ۳۰ لاکھ افراد ایچ آئی وی اور ایڈز سے متاثر ہیں۔ ان میں سے تقریباً نصف تعداد عورتوں کی ہے۔ ڈیڑھ کروڑ بچے ایسے ہیں جن کے والدین میں سے ایک یا دونوں ایڈز سے جاں بہ حق ہوگئے ہیں ۔ ایڈز سے متاثر ہونے والے نئے مریضوں میں ۱۵ سے ۲۴سال کی درمیانی عمر کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا تناسب ۴۵ فی صد ہے۔ ہندستان میں، ایک اندازے کے مطابق ۲۰۰۷ء میں ایڈز اور ایچ آئی وی سے متاثر افراد کی تعداد ۲۵لاکھ سے زائد تھی جن کی تعداد اب پہلے سے زیادہ ہے۔

یہ ہیں وہ چند سنگین مسائل، جو عالمی سطح پر بھی اور ملکی سطح پر بھی انسانی سماج کو درپیش ہیں۔ ان مسائل نے دنیا کے تمام مفکرین، دانش وروں، سیاست دانوں، امن و قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سماجی مصلحین کو پریشان کررکھا ہے۔ انھیں کوئی راہِ عمل سجھائی نہیں دے رہی ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے اوران کی گتھیوں کو سُلجھانے کے لیے وہ نت نئی تدابیر اختیار کرتے ہیں، مگر مسائل ہیں کہ مزید الجھتے چلے جارہے ہیں۔ طرح طرح کے قوانین بناتے ہیں، مگر وہ ذرا بھی مؤثر ثابت نہیں ہورہے ہیں۔ فطرت سے بغاوت کا یہ انجام تو سامنے آنا ہی تھا اور اس کے کڑوے کسیلے پھلوں کا مزا تو چکھنا ہی تھا۔

  •  سماجی مسائل اور اسلام کا حل: اسلام نے خاندان اور سماج کا جو تصور پیش کیا ہے وہ موجودہ دور کے ان تصورات سے قطعی مختلف ہے۔ اس نے انسان کی فطرت میں ودیعت شدہ جنسی جذبے کو اہمیت دی ہے۔ وہ نہ اسے دبانے اور کچلنے کا قائل ہے، نہ انسان کو بے مہار چھوڑ دیتا ہے کہ اس کی تسکین کے لیے جو طریقہ چاہے اختیار کرے، بلکہ وہ اسے ایک مخصوص طریقے کا پابند کرتا ہے، جس کا نام ’نکاح‘ ہے۔ اس کے ذریعے مرد اور عورت کے درمیان جنسی تعلق صحیح بنیادوں پر استوار ہوتا ہے اور خاندان کا ادارہ تشکیل پاتا ہے۔ اس کی نظر میں زنا صرف وہی نہیں، جس میں  جبر واکراہ شامل ہو، بلکہ وہ بھی ہے جو طرفین کی رضا مندی سے ہوا ہو۔ نکاح کے بغیر جنسی تعلق قائم کرنا ہر حال میں حرام ہے، خواہ اس کاارتکاب سماج کی نگاہوں کے سامنے ہو یا پوشیدہ اوراس میں طرفین کی مرضی شامل ہو یا نہ ہو۔ اس کے نزدیک ہم جنس پرستی شدید مبغوض شئے اور موجبِ تعزیر جرم ہے، اس لیے کہ یہ انسان کے فطری داعیے کے خلاف اور اس سے بغاوت ہے۔ اس کے نزدیک انسان اپنے اعضاے جسم کا مالک نہیں، بلکہ امین ہے، اس لیے مادۂ منویہ کو اسپرم بینک میں محفوظ کرنے اور رحم کو کرایے پر دینے کا اسے کوئی حق نہیں۔ اس کے نزدیک ’عفت و عصمت‘    اعلیٰ اخلاقی قدر اور بڑی قیمتی شے ہے، اس لیے اس سے کھلواڑ کرنے، اسے ذریعۂ معاش بنانے یا اسے مال تجارت کی حیثیت دینے کا کسی کو حق نہیں۔ اس کے نزدیک اولاد شادی شدہ جوڑے کے لیے اللہ تعالیٰ کا انمول عطیہ ہے، اس لیے رحم مادر میں پرورش پانے والا جنین لڑکا ہو یا لڑکی، دونوں یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔ اللہ نے روزی اور وسائل معاش فراہم کرنے کا ذمہ اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے ، اس لیے کم افادیت یا عدمِ افادیت کے بہانے مادہ (female) جنین کا اسقاط کروانا جائز نہیں۔ اس کے نزدیک بوڑھے والدین خاندان کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں، اس لیے ان کی ہرطرح سے خدمت کرنا، ان کے لیے دیدہ و دل کو فرشِ راہ کرنا اور ان کی تنک مزاجی کو برداشت کرنا سعادت مند اولاد کا فریضہ ہے۔ وہ نظام خاندان میں مرد اور عورت کے حقوق کے درمیان مساوات کا تو قائل ہے، لیکن ان کی یکسانیت کا قائل نہیں ہے۔ اس نے دونوں کے دائرۂ کار الگ الگ رکھے ہیں اور دونوں کو الگ الگ نوعیت کی ذمہ داریاں سونپی ہیں۔

خاندان اور سماج کی صحیح خطوط پر استواری کے لیے اسلام نے جو تعلیمات دی ہیں، اگر ان پر عمل کیا جائے تو وہ مسائل پیدا ہی نہیں ہوں گے، جن کا اوپر کی سطور میں تذکرہ کیا گیا ہے، اس لیے کہ اللہ رب العالمین انسانوں کی ضروریات سے بھی واقف ہے اور ان کی فطرت سے بھی اچھی طرح آگاہ ہے، جس پر اس نے انھیں پیدا کیا ہے۔ خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب انسان اپنی فطرت سے بغاوت کرتے ہیں اور اس سے انحراف کرکے غلط راہوں پر جاپڑتے ہیں۔ اسلام کی یہ تعلیمات محض خیالی اور نظریاتی نہیں ہیں، بلکہ ایک عرصے تک دنیا کے قابل لحاظ حصے میں نافذ رہی ہیں اور سماج پر ان کے بہت خوش گوار اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ آج بھی جن معاشروں میں ان پر عمل کیا جارہا ہے وہ پاکیزگی ، امن اور باہمی ہم دردی و رحم دلی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اس لیے جو لوگ بھی موجودہ دور کے مذکورہ بالا سماجی مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنا اور ان کے برے اثرات اور پیچیدہ عواقب سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں، انھیں اسلام کی ان تعلیمات کو اختیار کرنے اور انھیں اپنے سماج میں نافذ کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔


مقالہ نگار ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ میں محقق اور مجلہ تحقیقاتِ اسلامی کے معاون مدیر ہیں