۲۰۰۷فروری

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| ۲۰۰۷فروری | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

راجا کرامت حسین ‘ٹیکسلا

’جموں و کشمیر سے دست برداری‘ (جنوری ۲۰۰۷ء) ہرغیرت مند پاکستانی مسلمان اور کشمیری کے لیے چشم کشا اور دل دہلا دینے والا ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے روشن خیال اور امریکی ڈکٹیشن پر آنکھیں بند کرکے چلنے والے حکمران کشمیری مسلمانوں کی لازوال قربانیوں اور عزت مآب کشمیری ماؤں بہنوں کی عزت کا سودا کرچکے ہیں۔ وہ کشمیر جسے قائداعظمؒ نے پاکستان کی شہ رگ اور مفکراسلام سید مودودیؒ نے اپنے جسم کا حصہ گردانا‘ اسے امریکی مفادات اور بھارتی اَنا کی بھینٹ چڑھانے کی تمام تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں۔

سیدزادہ ‘ باجوڑ ایجنسی

’محاسبہ اور تربیت ِ نفس‘ (جنوری ۲۰۰۷ء) پڑھ کر نیا حوصلہ ملا۔ ’افغانستان: طالبان کا ظہورثانی‘ معلوماتی ہے اور امید افزا بھی۔ ’انتہاپسندی‘ بنیادپرستی اور دہشت گردی‘ کے مطالعے سے بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا۔

ڈاکٹر توقیر احمد بٹ ‘ ملتان

جنوری ۲۰۰۷ء کا ترجمان القرآن خوب صورت سرورق کے ساتھ ساتھ معیاری مضامین سے مزین ہے‘ خصوصاً ’راہ ایمان کے موانع‘ اور ’نائن الیون کے بعد مسلم نوجوان کا کردار۔ عالم اسلام کا درد رکھنے والی نومسلمہ وُون رِڈلے نے مسلمان حکمرانوں کو خوابِ خرگوش سے جگانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔

ارشد علی آفریدی ‘ لنڈی کوتل۔  اے ڈی جمیل‘ جھنگ

وُون رِڈلے کی ایمان افروز تحریر مسلمانوں بالخصوص اُمت مسلمہ کے حکمران طبقے کو جھنجھوڑ رہی ہے اور خوابِ غفلت سے بیدار کر رہی ہے۔ موجودہ تہذیبی کش مکش میں مسلم نوجوانوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ اسلام ہی وہ نظریۂ حیات اور روحانی نظام ہے جو دنیا میں حقیقی امن و سلامتی اور خوش حالی برپا کرسکتا ہے۔

سید حامد الکاف ‘ صنعا‘ یمن

’’اور یہ تحفظات اس ماحول کو رکھ کر کیے گئے تھے جس میں پاکستان میں اقامت دین کے نام پر دین میں سیاست کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے اور اندیشہ ہے کہ حِسبہ کا سیاسی استعمال شریعت اور دین کو متنازع بنا دے گا‘‘ (’اسلامی نظریاتی کونسل اور قانونی تحفظ نسواں‘ ص ۷۵‘ جنوری ۲۰۰۷ء)‘ مجھے اسلامی نظریاتی کونسل کے صدرمحترم سے اس قسم کے جملوں کے صدور کی قطعاً توقع نہ تھی۔اس سے ایک طرف تو دین اور سیاست میں تفریق کا اظہار ہوتا ہے تو دوسری طرف اقامت دین‘ شریعت اور دین بہ ضمن  حِسبہ‘ جیسی اصطلاحوں کو متنازع فیہ بنانے کی کوشش نظر آتی ہے۔ اس دین پر کلی اور مجموعی نظر نہ رکھنے والے جب ایک مسلمان کو تہجد کی نماز اور دیگر پانچ نمازیں پڑھتے دیکھتے ہیں تو یہ کہہ اُٹھتے ہیں کہ یہ دین تو نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج کا دین ہے‘ جب کہ یہ دین ان عبادتوں کے بغیر نہ تو قائم کیا جا سکتا ہے اور نہ قائم ہی رہ سکتا ہے۔ یہی کچھ حال ان لوگوں کا ہے جو رسولؐ اللہ کی مدینہ میںجہادی سرگرمیوں کو دیکھ کر اور غزوات اور سرایا کی کثرت کو دیکھ کر یہ حکم لگاتے ہیں کہ اس دین میں جنگ جوئی کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے‘ آج کل اس کو ’دہشت گردی‘ کا نام بھی دیا گیا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دین پہلے دن سے  اتنا ہی عبادتی ہے جتنا یہ سیاسی تھا اور روزِ اوّل سے وہ اتنا ہی سیاسی ہے جتنا کہ وہ مالی اور اقتصادی تھا۔

حکیم شریف احسن‘ فیصل آباد

’مساجد میں خواتین کی شرکت‘ (دسمبر ۲۰۰۶ء) میں ڈاکٹر انیس احمد حضرت عائشہؓ کے ایک ارشاد کا مفہوم یوں بیان کرتے ہیں: ’’اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حیات ہوتے اور مدینہ میں خواتین جس طرح مسجد میں جاتی تھیں‘ خود ملاحظہ فرماتے تو شاید خواتین کا داخلہ مسجد میں منع فرما دیتے‘‘ (ص ۹۵)۔ روایت کے اصل الفاظ میں لَمَنَعَھُنَّ میں لام تاکید ہے بمعنی ضرور۔’ضرور کی جگہ ’شاید‘ کا لفظ لانے سے مفہوم مسخ ہوگیا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کے بقول احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ خواتین کی گھر میں ادا کردہ نماز کا اجر مسجد میںادا کی گئی جماعت کے مساوی ہے‘‘ (ص ۹۴)۔ کسی صحیح حدیث میں گھر اور مسجد کی نماز کے اجر کو مساوی قرار نہیں دیا گیا‘ بلکہ احادیث میں تو گھر کی نماز کو افضل اور بہتر بتایا گیا ہے۔

آسی ضیائی ‘ لاہور

آج کل ہماری حکومت کثرتِ آبادی سے پریشان ہوکر‘ پورے اہتمام سے آبادی روکنے کا پروپیگنڈا کررہی ہے۔ ٹیلی وژن‘ ریڈیو اور اخبارات میں شاید ہی کوئی دن جاتا ہو جب اس کی یہ اپیل نظر سے نہ گزرتی ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کی اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کی کثرتِ آبادی سے خوف زدہ ہیں اور اُنھی کی بدولت ہماری حکومت اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے‘ حالانکہ اگر اسلام کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ ساری کوشش اللہ تعالیٰ پر عدمِ اعتماد کا منہ بولتا ثبوت ہے اور افلاس کے اندیشے سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو کی صریح نافرمانی ہے۔ ہمارے علما نے اس طرف توجہ نہیں دی کہ اس کی تردید اسلامی نقطۂ نظر سے کریں حالانکہ یہ بھی غضبِ الٰہی کو بھڑکانے کا باعث بن سکتا ہے۔ ضبطِ ولادت کا نظریہ کن نتائج کا حامل ہے‘ مغرب کو کن تہذیبی مسائل اور نسلی خودکشی جیسے مسائل کا سامنا ہے‘ کوئی اس سے عبرت بھی نہیں پکڑتا۔