۲۰۰۷فروری

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| ۲۰۰۷فروری | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

خانگی معاملات میں توازن

سوال : میں ان دنوں بہت زیادہ ذہنی انتشار کا شکار ہوں۔ میرا دل نہ تو عبادت میں لگتا ہے اور نہ گھر کا کوئی اور کام کرنے کو ہی دل چاہتا ہے۔ میری شادی پسند کی شادی ہے جس پر بعد میں والدین بھی راضی ہوگئے تھے۔ یہ شادی ہوجانے کے بعد وٹہ سٹہ اس طرح بن گیا کہ میری نند کی شادی میرے ماموں کے ساتھ ہوئی تھی۔ ان دونوں میاں بیوی میں اکثر جھگڑا رہتا ہے جس کے نتیجے میں بیوی کا ناراض ہوکر میکے چلے جانا لڑائی کا اہم جز بن چکا ہے‘ اور جواب میں میرے شوہر اور سسرال والے مجھے اپنے گھر‘ یعنی میکے بھیج دیتے ہیں۔ میرے شوہر ہردلیل کو اس وقت رد کردیتے ہیں جب معاملہ ان کی بہن کا ہو۔ میں اپنے شوہر کو ان کے ماں باپ اور بہن بھائی کی باتیں ماننے سے اس وقت منع کرتی ہوں جب وہ ایسی باتیں ماننے کو کہیں جو دین و شریعت میں بھی   لغو اور فضول ہوں۔

میرے شوہر کا کہنا ہے کہ ایک بیوی پر اپنے ماں باپ پر شوہر کے حقوق کو ترجیح دینا  فرض ہوتا ہے‘ جب کہ ایک بیٹا جو کہ اپنے والدین کے لیے امیدوں کا مرکز ہوتا ہے  اس کے لیے قرآن و حدیث میں والدین کی بات کو اوّلین ترجیح دینا فرض ہے چاہے وہ ناجائز ہی کیوں نہ ہو جیساکہ حضرت ابراہیم ؑاور ان کی بہو کا قصہ ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے میں اپنے والدین کی بھی نافرمان ہوں اور شوہر کی بھی۔ کیا والدین کی خدمت کرنا اور ان سے دعائیں حاصل کرنا صرف بیٹوں کے حصے میں آسکتا ہے؟

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ تقریباً دو ماہ پہلے میرا بیٹا پیدا ہو کر فوت ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے  دو بیٹیاں پیدا ہوکر فوت ہوگئی تھیں۔بچے نہ ہونا اور پیدا ہوکر فوت ہوجانے کو کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کالاجادو کیا گیا ہے۔ میرے شوہر ان چیزوں کو تسلیم کرتے ہیں‘ جب کہ میرا ذہن ان چیزوں کو تسلیم نہیں کرتا۔ میرے شوہر کہتے ہیں کہ اس کا علاج ہونا چاہیے‘جب کہ میں کہتی ہوں کہ جب اللہ کی رضا ہوگی‘ ہمیں بچے مل ہی جائیں گے۔ ڈاکٹری علاج تو ہم کروا ہی رہے ہیں تو پھر کیوں روحانی علاج کے نام پر شرک کے اندھے کنویں میں پھنس جائیں۔ جو کچھ بھی ہوسکتا ہے‘ ہم خود ہی پڑھا کریں گے۔ لیکن میرے شوہر نہیں مانتے۔ میں عمر میں اپنے میاں سے بہت کم ہونے کی وجہ سے اور تعلیم بھی کم ہونے کی وجہ سے تھوڑا سا دبتی ہوں اور مجھے یہ اچھا بھی لگتا تھا لیکن اب مجھے یہ سب کچھ بالکل بھی اچھا نہیں لگ رہا۔ بلکہ میں بہت زیادہ ذہنی ڈپریشن کا شکار ہوں۔

میرے لیے یہ بہت بڑا مسئلہ ہے کیوں کہ میرے والدین بھی ان چیزوں کو بہت مانتے ہیں۔ وہ میرے شوہر کے ساتھ ہیں لیکن میں کسی طور پر اس بات پر‘ یعنی پیروں فقیروں کے پاس جانے کے لیے راضی نہیں ہوں اور سوچتی ہوں کہ یہ ایک اور نافرمانی ہے‘    وہ بھی شوہر اور والدین کی مشترکہ طور پر۔ میں والدین کی سرپرستی میں ان پیروں فقیروں کے ہاتھوں کافی ذلیل و خوار ہوچکی ہوں۔ میں آپ سے پوچھتی ہوں کہ کیا روحانی علاج کرنے کے لیے لمبی سی مالا اور ہرا چوغہ پہننا ضروری ہے؟ کیا کوئی اسکالر یا عالم یا کوئی مذہبی رہنما اس کا علاج نہیں کرسکتا؟

جواب: آپ نے جن تین اہم پہلوؤں کی طرف اپنے خط میں متوجہ کیا ہے وہ ہمارے معاشرے کے اسلام سے دُوری کو ظاہر کرتے ہیں۔ وٹہ سٹہ کی شادی اور اس سے متعلقہ رسمی خرابیوں کا کوئی تعلق اسلام کے ساتھ نہیں ہے‘ بلکہ اس خطے میں پائی جانے والی قبل از اسلام کی ان روایات سے ہے جنھیں اسلام ختم کرنے کے لیے آیا تھا۔

اسلامی معاشرت کی بنیاد عدل‘ توازن‘ رواداری‘ محبت‘ عفو و درگزر‘ احترام اور اللہ تعالیٰ کے خوف پر ہے۔ یہاں ادلے بدلے کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ اگر ایک شخص کی بیوی تو حق پر ہو  لیکن اس کو سزا اس بات کی دی جائے کہ اس کی بہن جو اس کے کسی سسرالی کے عقد میں ہے کوئی قابلِ اعتراض بات کرتی ہے‘ تو یہ سراسر ظلم و استحصال ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ظلم سے بچائے اور جو لوگ اس کا ارتکاب کر رہے ہیں انھیں ہدایت دے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ شوہر کا حق والدین کے حق سے زیادہ ہے تو قرآن کریم کو اُٹھا کر دیکھیے‘ وہ بلاتفریق. ِجنس کتنی مرتبہ والدین کے حقوق کی طرف متوجہ کرتا ہے اور کتنے مقامات پر ان کے مقابلے میں شوہر کی ہر جائز و ناجائز بات کو ماننے کے لیے کہتا ہے؟ مسئلہ شوہر اور والدین کا مقابلہ کرکے یہ ثابت کرنے کا نہیں ہے کہ والدین کی ناجائز بات کو مانا جائے بلکہ یہ جاننے کا ہے کہ اس سلسلے میں قرآن و سنت کا اصول کیا ہے۔ قرآن و سنت نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ والدین کی اطاعت معروف میں ہوگی منکر میں نہیں۔ یہی اصول شوہر کی اطاعت کے سلسلے میں بھی ہے۔ ایسے میں اگر بیوی ایک ایسی بات پر اصرار کرے جو منکر ہو تو بیوی کی خوشی کے لیے منکر کو اختیار نہیں کیا جائے گا۔

جہاں تک آپ کے دوسرے مسئلے کا تعلق ہے‘ اس ضمن میں ایک اصول کو پیش نظر رکھیے۔ قرآن و سنت نے جن معاملات میں حلال و حرام کو متعین کردیا ہے ان میں کوئی مفاہمت کسی سے نہیں ہوسکتی‘ البتہ جہاں پر کسی حرام کا ارتکاب نہ کیا جا رہا ہو اور ایسے کام سے والدین یا شوہر خوش ہوں تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔

حضرت ابراہیم ؑکی ہدایت کو عموم کی شکل دینا شاید مناسب نہ ہو۔ وہ اللہ کے انتہائی بزرگ رسول تھے (علیہ الصلوٰۃ والسلام)‘ اور اس علم کی بنا پر جو ان کے رب نے ان کو دیا تھا‘ انھوں نے بغیر کسی وضاحت کے اپنے بیٹے کو مشورہ دیا۔ یہ معاملہ ابوالانبیا کے گھرانے کا تھا۔ یہ کوئی عام معاملہ  نہ تھا کہ اس سے نظیر لائی جائے۔

اسلام کا اصول اس سلسلے میں واضح ہے کہ آخری حد تک خاندان کے اتحاد کو بچایا جائے اور جب اصلاح احوال کا کوئی امکان نہ رہے تو صرف اس صورت میں طلاق کو اختیار کیا جائے۔ اسی لیے بالجبر دی گئی طلاق کی حیثیت شریعت میں واضح کر دی گئی ہے۔ ساس سسر کا تعصبات اور بغیر کسی شرعی سبب کے طلاق دلوانے کا کوئی جواز اسلامی شریعت میں نہیں پایا جاتا۔

قرآن و سنت سے جادو کا وجود ثابت ہے‘ اور اگر جادو کیا گیا ہو تو اس کا علاج کروانا بھی ثابت ہے۔ علاج کا طریقہ مسنون ہو اور اس میں کسی غیراللہ سے امداد طلب نہ کی جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اگر آپ کے شوہر کسی ایسے اللہ کے نیک بندے سے واقف ہوں جو جادو کا علاج بغیر کسی غیراللہ سے امداد لیے کرسکتا ہو تو آپ ان کی بات مان لیں۔ ایسے فرد کے لیے یہ شرط قطعاً نہیں ہے کہ وہ کسی خاص حلیے اور وضع قطع والا ہو۔

آپ نے جو کچھ لکھا ہے اس کی روشنی میں آپ اپنے والدین یا شوہر‘ کسی کی عدمِ اطاعت کی مرتکب نظر نہیں آتیں۔اس لیے اپنے ذہن سے اس وہم کو نکال دیں اور والدین اور شوہر جب تک معروف کی طرف بلائیں‘ ان کی بات کو سنیں اور مانیں کیوں کہ شریعت کا اصول ہے کہ معصیت.ِ خالق میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب! (ڈاکٹر انیس احمد)