فروری ۲۰۲۱

فہرست مضامین

عصرِحاضر میں اجتہاد اور مسلم دُنیا

جسٹس (ر) تنزیل الرحمٰن | فروری ۲۰۲۱ | فقہ و اجتہاد

Responsive image Responsive image

اجتہادکا لفظ ’جہد‘ سے مشتق ہے، جس کے لغوی معنی ایسی کوشش کے ہیں، جس میں مشقت شامل ہو۔ اجتہاد اپنے اصطلاحی معنی میں فکرواستنباط کے ذریعے حکمِ شرعی معلوم کرنے کا نام ہے۔ اجتہاد اپنے شرعی معنی میں اس مربوط اور منظم طریقۂ استنباط کا نام ہے، کہ جس کسی مسئلے کے بارے میں قرآن و سنت کی نص موجود نہ ہو، اس میں قرآن و سنت کی تعلیمات میں مضمر اصولوں کو سامنے رکھ کر ’اصول قیاس‘ کے تحت اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی خاطر حکم شرعی معلوم کیاجائے۔

یہ ہدایت ہمیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں جسے ’حدیث معاذ‘ کہا جاتاہے، زیادہ وضاحت اور قطعیت کے ساتھ ملتی ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کا گورنر مقرر فرمایا، تو ان سے پوچھا کہ: ’’جب تمھارے سامنے کوئی معاملہ فیصلے کے لیے لایا جائے گا، تو تم اس کا فیصلہ کیسے کرو گے؟‘‘ حضرت معاذؓ نے عرض کیا کہ ’’میں مقدمات کا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کروں گا‘‘۔ فرمایا: ’’ لیکن اگر تمھیں قرآنِ مجید میں کوئی ایسا حکم نہ ملے جس سے رہنمائی حاصل کرسکو تو اس صورت میں کیا کرو گے؟‘‘ عرض کیا: ’’میں ایسی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کروں گا‘‘۔فرمایا: ’’اگر سنت بھی اس مسئلے میں خاموش ہو تو؟‘‘ عرض کیا: ’’میں اس مسئلے کا فیصلہ اپنے اجتہاد سے کروں گا‘‘۔

اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جس مسئلے میں قرآن کریم یا سنت نبویؐ کا واضح حکم موجود ہو ، اس میں اجتہاد جائز نہیں بلکہ ’مردود‘ ہے، البتہ جس کسی مسئلے کے حکم میں قرآن و سنت خاموش ہوں، ان میں اجتہاد نہ صرف جائز بلکہ ’محمود‘ ہے۔

  • اجتہاد کی اقسام : اجتہاد کی دو قسمیں ہیں: ایک اجتہاد مطلق (Absolute Ijthad) اور دوسری اجتہاد اضافی ( Relative Ijtihad)۔ کسی ایسے مسئلے میں حکمِ شرعی معلوم کرنا، جس کی کوئی نظیر یا صورت نہ تو قرآن و سنت میں موجود ہو اور نہ اجتہاد کے ذریعے پہلے کبھی معلوم کی گئی ہو، اجتہاد مطلق میں داخل ہے۔ اجتہاد اضافی سے کسی ایسے مسئلے میں اجتہاد کرنا مراد ہے، جس کی نظیر یا صورت پہلے سے کسی مسئلے میں ’قیاس‘ کے ذریعے معلوم ہو اور پہلے مسئلے کے حکم پر قیاس کرکے اس دوسرے مشابہ مسئلے میں حکم لگا دیا جائے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں تین چار صدی تک ایسے فقہا موجودرہے ہیں، جو اجتہاد مطلق کی صلاحیت و قابلیت سے آراستہ تھے، لیکن بعد کے اَدوار میں، منظم مکاتب ِ فقہ کے فکری تسلط کے باعث اجتہاد مطلق کی صلاحیت ختم ہوگئی اور اس کا دروازہ بند ہوگیا اور اس کی جگہ تقلید، یعنی ائمہ فقہ کی قدیم آرا کی غیر مشروط اتباع نے لے لی۔
  • اجتہاد کے بجائے تقلید کا آغاز : یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ مطلق اجتہاد کا دروازہ درحقیقت سیاسی اسباب کی بناپر بند کیا گیا تھا، تاکہ مطلق العنان بادشاہ اور حکمران اپنے مستبدانہ اقدامات کے لیے اسلام کے نام پر قانونی جواز حاصل کرکے مسلم معاشرے میں انتشار  اور افراتفری کی فضا پیدا نہ کرسکیں۔ گویا [دورِفتن و جبر میں] اجتہاد کا دروازہ بند کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اللہ ربّ العزت کے دین کو بدعات وجدت پسندی اور ذاتی رجحانات کی آلایش سے پاک رکھا جائے، تاکہ اسلام کے قانونی نظام کی بقا اور دوام و استحکام کی ضمانت حاصل ہوسکے۔

اسلام کی تاریخ میں جو اسباب دروازئہ اجتہاد کے بند ہونے اور تقلیدی رویے کے اپنائے جانے کا باعث بنے، وہ بڑی حد تک اسلام میں بے جا عقلیت پسندی کے رجحانات ، مسلمانوں میں تصوف پر مسیحیت کے اثرات، اور خاص طور پر بغداد کی تباہی کے سبب پیدا ہوئے تھے۔ ان اسباب نے اسلام کی فکری نشوونما کو تقریباً مفلوج کرکے ر کھ دیا تھا۔ البتہ بعد کے اَدوار میں بھی کچھ ایسے افراد پیدا ہوئے، جو اپنی ذاتی حیثیت میں اجتہاد اضافی کا فریضہ انجام دیتے رہے، لیکن یہ عمل صرف ان کے اپنے اپنے مذاہب ِ فقہ کی حدودکے اندر رہا، یعنی ان مسائل کی حد تک جو فقہی مذاہب کے بانیوں نے غیرحل شدہ چھوڑ دیے تھے۔ اس کے علاوہ بعض صورتوں میں اجتہاد کا عمل مختلف مذاہب [مکاتب ِ فکر]کی قانونی آرا کے تقابلی مطالعے اور متفرق مسائل کے انتخاب و ترجیح کی صورت میں بھی جاری رہا اور اس طرح معاملے کے کسی خاص پہلو پر غوروفکر کے ذریعے اسلامی فقہ کے دائرے میں جو وسعت پیدا ہوئی، اس سے اجتہاد اضافی کے لیے بھی مواقع پیدا ہوتے رہے۔

  • اجتہاد کی ضرورت: گذشتہ دس صدی کے دوران میں صرف ایک ممتاز فقیہ ایسا پیدا ہوا جو بجاطور پر یہ حق رکھتا تھا کہ مجتہدِ مطلق ہونے کا دعویٰ کرے اور اس نے یہ دعویٰ کیا بھی، یعنی امام تقی الدین احمد ابن تیمیہؒ ۔ براعظم پاک و ہند کی حالیہ تاریخ میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی [م:۱۷۶۲ء] کا نام نامی بھی بجا طور پر اس کا مستحق ہے کہ ابن تیمیہؒ کے بعد بحیثیت مجتہدان کا تذکرہ کیا جائے۔ شاہ صاحب نے اس ضرورت پر زور دیا کہ نئے زمانے اور بدلتی ہوئی معاشرتی اقدار کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی فکر کے بنیادی سرچشموں کی اَزسرنو تعبیر و تشریح کی جانی چاہیے۔ اسی طرح ڈاکٹر محمد اقبال [م: ۱۹۳۸ء] اگرچہ خود مجتہد یا عالمِ دین نہ تھے، لیکن اپنے دور میں اجتہاد کے سب سے بڑے داعی تھے اور آج کل انھیں ان تمام لوگوں کا پیش رو سمجھا جاتا ہے جو پاکستان میں اجتہاد کی تبلیغ اور وکالت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

ہمارا آج کا مسلم معاشرہ بے شمار سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل سے دوچار ہے، جنھیں صرف اس صورت میں حل کیا جاسکتا ہے، جب کہ ہم اجتہاد سے کام لیں، خصوصاً ایسے معاملات میں جن کے متعلق قرآنِ مجید یا سنت ِ رسولؐ میں کوئی براہِ راست اور واضح نص موجود نہیں۔ ایسے مسائل کےضمن میں ہم موجودہ تجارتی لین دین اور اس سے متعلقہ اُمور کا ذکر کرسکتے ہیں، جن میں بیمہ، ذاتی ملکیت کا حق، قومی ملکیت میں لے لینے کا تصور، جدید مالی قوانین اور محاصل، [میڈیکل سے متعلقہ گوناگوں مسائل و معاملات]، نظامِ حکومت، اسمبلیوں کے لیے عوامی نمایندوں اور سربراہِ مملکت کے انتخاب کا طریقہ، جمہوری معمولات کے سیاق و سباق کے حوالے سے بالغ راے دہی کا نظام، بین الاقوامی قانون سے متعلق مسائل جیسے بودوباش سے تعلق رکھنے والے معاملات وغیرہ۔

اجتہاد کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اسے کسی صورت اور حالت میں، قرآن و سنت کے احکام کے خلاف نہ ہونا چاہیے۔ اسے لازمی طور پر اسلامی مقاصد سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ جو افراد یا جماعتیں انفرادی طورپر یا اجتماعی صورت میں اجتہاد سے کام لیں ، انھیں نہ صرف یہ کہ دینی علوم اور ان کے اصول و کلیات سے مکمل طور پر آگاہ ہونا چاہیے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ صاحبانِ تقویٰ اور اعلیٰ اخلاق و کردار کے حامل ہوں، تاکہ وہ دینی مسائل میں استنباط و استخراج کا فریضہ، اپنی ذاتی پسند و ناپسند اور نفسانی خواہشات و احساسات کے تقاضوں سے بالاتر رہ کر انجام دے سکیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اجتہاد کی وہ کون سی حدود ہیں، جن کا اسلامی معاشرے میں بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق متعلقہ قوانین میں ترمیم و اصلاح کے دوران ملحوظ رکھا جانا ضروری ہے؟ بالفاظ دیگروہ کون سا طریقہ ہے، جس کے ذریعے اسلامی نظامِ اجتہاد کو ہمارے جدید معاشرے میں بروئے کار آنا چاہیے؟نیز یہ کہ وہ اسلامی قانون کیا ہے؟

گویا اجتہاد کے ذریعے قانون میں ترمیم نہیں کی جاتی بلکہ اس کے ذریعے قانون سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ اصول اجتہاد کے تحت وہ تمام معاملات جن کے بارے میں کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ کے احکام اور ہدایات واضح اور قطعی ہیں، ان میں کسی ترمیم اور تبدیلی کی گنجایش نہیں۔ اسی طرح جن معاملات پر کتاب وسنت کی روشنی میں صحابۂ کرامؓ کا اجماع ہوچکا، ان سے انحراف ممکن نہیں کیونکہ وہ شاہدین اوّل ہیں۔ انھی کی روایت کے ذریعے ہم تک قرآن پہنچا۔ وہ نبی کریمؐ کی صحبت سے مستفیض تھے اور علومِ نبوت کے براہِ راست حامل اور شارح تھے اور جو علم صحابۂ کرامؓ نے براہِ راست رسولؐ اللہ سے حاصل کیا اور اس کی تعبیر و تشریح کی،وہ معلم کتاب کی منشا و مراد ہے۔

البتہ وہ مسائل و معاملات کہ جن کے بارے میں کتاب وسنت کی عبارات مختلف یا ایک سے زائد معنی کی متحمل ہیں اور ان کی تعبیر و تشریح میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے، ان کے متعلق اُمت کے فقہا ماحول، مقتضیات اور مملکت کے مفاد کے پیش نظر کسی ایک تعبیرو تشریح کو ترجیح دے سکتے ہیں یا کوئی جدید تعبیر و تشریح اختیار کرسکتے ہیں، اور جن مسائل کے بارے میں اصل ہدایات تو کتاب و سنت میں موجود ہیں، لیکن تفصیلات اور جزئیات موجود نہیں، ان کے بارے میں کتاب و سنت کی روشنی میں اجتہاد کے ذریعے احکام وضع کیے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح وہ مسائل جن کا کتاب و سنت یا اسلامی فقہی ادب میں کوئی ذکر نہیں ہے، عہدِحاضر کے جدید مسائل ہیں، ان کے متعلق اجتہاد کے ذریعے قوانین وضع کیے جاسکتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ اجتہاد کے ذریعے وضع کیے جانے والے قوانین کتاب وسنت کی روح اور منشا کے خلاف یا منافی نہ ہوں۔

لہٰذا، نہ صرف یہ کہ [ہرعہد کی طرح] موجودہ دور میں بھی اجتہاد کا جواز موجود ہے بلکہ اس سے کام لیا جانا ضروری ہے۔ کیونکہ یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے ہم ترقی پذیر بنیادوں پر اسلامی معاشرے کی تجدیدواحیا اور تنظیمِ نو کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔ جس چیز کی ہمیں آج کے دور میں ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ ہم صرف اسلامی تعلیمات اور ہدایات کی روشنی میں خارجی قوتوں اور مغرب کے ذہنی اور ثقافتی غلبے سے متاثر ہوئےبغیر اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ اچھائیوں اور بُرائیوں کا اپنے اندر ادراک اور شعور پیدا کریں۔

اس لیے جب ہم اجتہاد کے عمل اور طریقے کی پیروی کریں تو ہمیں نص کی جانب سے بے توجہی نہ برتنی چاہیے اور نہ قرآن و سنت کے باقاعدہ علم سے بے بہرہ ہونے اور اسلامی قانون اور فلسفۂ قانون کے اصولوں سے لاعلم ہونے کی غلطی کرنی چاہیے۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام پاپائیت پر یقین نہیں رکھتا، لیکن وہ ہرعمومی علم رکھنے والے شخص کو نہ یہ حق دیتا ہے اور نہ دے سکتا ہے کہ وہ اجتہاد کا اہم اور محنت طلب فریضہ اپنے ہاتھ میں لے۔ اجتہاد کا دروازہ بلاشبہہ کھلا ہے لیکن داخلے کا حق صرف ان لوگوں کو حاصل ہے، جو اجتہاد کی تمام شرائط پوری کرتے ہوں، یعنی علم دین بھی اور پارسائی کی زندگی بھی۔

  • قانون سازی کی راہ میں عملی مشکلات: اگر ہم بیسویں صدی کے اسلامی ادب میں قانون سازی کے مضمرات کا مطالعہ کریں، جس کا آغاز اکثر اسلامی ممالک میں اس صدی کے ربع اوّل میں ہوا، تو ہمیں بہت سی ایسی قانونی دفعات ملیں گی، خصوصاً عائلی قوانین نکاح میں بعض جزئی اختلافات کے ساتھ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ طلاق کا اندراج یا توثیق ریاست کی مقرر کردہ کسی ہیئت (اتھارٹی) سے کروائی جائے۔

اسی طرح تعدد ِ اَزواج کے معاملے میں بھی عراق، شام، مراکش، اُردن،پاکستان اور کچھ دیگر مسلم ممالک میں مردوں کے اس اختیار پر پابندیاں عائد کردی گئی ہیں کہ وہ بیک وقت ایک سے زیادہ بیویاں اپنے نکاح میں رکھ سکتے ہیں۔ تاہم، تیونس کے قانون میں تو تعددِ اَزواج پر مکمل پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس معاملے میں تیونس کا قانون دیگر مسلم ممالک کے مقابلے میں منفردہے۔ مصر میں تمام طلاقیں ، سواے اس طلاق کے جو دخول سے پہلے دی گئی ہو، یا وہ جس کا معاوضہ لے لیا گیا ہو، یا وہ تین طلاقیں جو تین طہر میں دی گئی ہوں، ۱۹۲۹ء کے قانون کی رُو سے رجعی قرار دے دی گئی ہیں ۔ سوڈان میں ایکٹ ۱۹۳۵ء کے مطابق ایک وقت میں دی گئی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق قرار دے دیا گیا ہے۔ شام میں بھی ایکٹ ۱۹۵۳ء کی رُو سے ایسا ہی قانون اپنا لیا گیا، جیسا مصر میں رائج ہے۔تاہم لبنان اور انڈونیشیا میں ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کو غیررجعی سمجھا جاتا ہے۔ ہندستان کے مسلمانوں میں بھی یہی صورت رائج ہے۔ پاکستان میں عائلی قوانین کے آرڈی ننس مجریہ ۱۹۶۱ء کے تحت طلاق سوائے اس صورت کے، جب کہ اس سے رجوع کرلیا گیا ہو، یونین کمیٹی کے چیئرمین کو خاوند کی جانب سے جس نے طلاق دی ہے ، قطع نظر اس امر کے کہ ایک طلاق دی ہے یا دو تین یا زیادہ طلاقیں اور یہ کہ ایک وقت میں دی ہیں، یا مختلف اوقات میں، طلاق کا نوٹس ملنے کی تاریخ سے ۹۰ دن گزر جانے کے بعد مؤثر ہوتی ہے۔

پھر قانونِ وراثت میں روایتی قانون کے مطابق یتیم پوتے پوتیاں اپنے دادا کی وراثت سے محروم رہتے ہیں، لیکن مصر کے قانون انتظام وصیت کے تحت لازمی میراث کا طریقہ رائج کیا گیا ہے کہ یتیم پوتوں اور پوتیوں کو اپنے دادا کی میراث میں اتنے حصے کا مستحق قرار دیا گیا ہے، جتنا حصہ ان کے والدین کو زندہ ہونے کی صورت میں ملتا۔ تاہم، یہ حصہ کُل میراث کے ایک تہائی حصے سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ یہی طریقہ شام نے ۱۹۵۳ء میں، تیونس نے ۱۹۵۷ء میں، مراکش نے ۱۹۵۸ء میں اور عراق نے ۱۹۵۹ء میں اپنایا۔تاہم، شامی اور مراکشی قوانین کے مطابق لازمی میراث کا یہ طریقہ صرف فوت شدہ بیٹے کی اولاد تک محدود ہے۔ فوت شدہ بیٹی کی اولاد پر اطلاق نہیں ہوتا۔

اس کے برعکس پاکستان میں عائلی قوانین کے آرڈی ننس مجریہ ۱۹۶۱ء کی رُو سے دادا کی میراث میں یتیم پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے حصے کے متعلق قرار دیا گیا ہے کہ اگر جانشینی کا آغاز ہونے سے پہلے مورث کا کوئی بیٹا یا بیٹی وفات پاچکی ہو تو اس بیٹے یا بیٹی کی اولاد جو آغاز ِ جانشینی کے وقت زندہ موجود ہو، حسب مراتب اس حصے کے مساوی حصہ وصول کرلے گی، جتنا حصہ اس بیٹے یا بیٹی کو ملتا اگروہ زندہ ہوتے۔ یوں پاکستان کا قانون دیگر مسلم ممالک کے قانون سے بالکل مختلف ہے۔

اوقاف کے معاملے میں جن میں وقف علی الاولاد بھی شامل ہے،مصرکے قانون وقف مجریہ ۱۹۴۶ء کی رُو سے بنیادی تبدیلیاں بروئے کار لائی گئی ہیں، یہاں تک کہ اگر وقف خیراتی ہو تو یہ عارضی اورمستقل دونوں صورتوں میں جائز ہے ، لیکن اگر وقف خیراتی نہ ہو تو مستقل طور پر اسے وقف کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ چنانچہ وقف علی الاولاد کی مدت، حیات واقف کو مستثنیٰ کرتے ہوئے صرف دو نسلوں یا ۶۰سال تک جو بھی پہلے ختم ہو، محدود کردی گئی ہے۔تاہم، کسی مسجد کے وقف یا مسجد کے حق میں وقف کو، اگر وہ محدود مدت کے لیے ہو تو اسے ناجائز قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ایسا وقف مستقل بنیادوں پر کیا جائے۔ لبنان میں بھی اوقاف کی قانونی حیثیت یہی ہے، جب کہ بہت سے دوسرے ممالک میں جہاں مسلمان آباد ہیں، اوقاف کا روایتی قانون رائج ہے۔

  • عالمی ادارہ اسلامی قانون سازی کی ضرورت: ان مثالوں کو پیش کرنے کا  مقصد ان اختلافات کا اندازہ کرانا ہے جو مسلم ممالک کی قانون سازی میں نمایاں ہورہے ہیں، اگرچہ ان میں سے کوئی بھی ملک نص، یعنی قرآن و سنت کی ظاہری عبارت کو ترک کرنے کا دعوے دار نہیں ہے۔ اس صورتِ حال سے بخوبی عہدہ برآ ہونے اور اجتہاد کے میدان میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے واحد حل یہ ہے کہ مسلم فقہا کا ایک عالمی ادارہ قائم کیا جانا چاہیے، جس میں عالمِ اسلام کے نمایاں صلاحیت رکھنے والے محققین اور فقہا کو نمایندگی حاصل ہو۔

ایسا کمیشن جدید دور میں ادارہ اجماع کے اغراض و مقاصد پورے کرے گا اورفقہی ذکاوت کے ذریعے قبولیت عام کی ضمانت مہیا کرے گا اور اُمت کی اجتماعی خواہش کےلیے قابلِ قبول بھی ہوگا۔ اس عمل میں قرآن و سنت کی تعلیمات کی حدود میں رہتے ہوئے اور وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اجتہاد کے طریقے پرعمل پیرا ہوکر قوانین کو وسیع تر بنیادوں پر تمام مسلّمہ فقہی مذاہب کے اسلامی قانون کے ذخیرئہ کتب و مواد پر مبنی ہونا چاہیے اور ان قوانین کی تدوین کے لیے کسی ایک فقہی مسلک پر انحصار نہ کرنا چاہیے۔

ہمیں یقین ہے کہ اجتہاد کا عمل اپنا شان دار کردار ادا کرے گا اور دورِحاضر میں اسلام کی ذہنی و فکری نشاتِ ثانیہ میں براہِ راست اور بھرپور حصہ لے گا۔ اجتہاد سے جدید تہذیب کے چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور مسلم معاشروں میں اس وقت جو جمود پایا جاتا ہے، وہ ختم کیا جاسکتا ہے۔ اجتہادکے نتیجے میں بلاشبہہ ساری دنیا کے مسلمان ایک دوسرے کے قریب آئیں گے اور وہ چیز حاصل ہوگی جو ہمارا بنیادی مقصد ہے، یعنی عالمِ اسلام کا اتحاد۔