جنوری ۲۰۱۵

فہرست مضامین

داعش: پس منظر اور پیش منظر

عبد الغفار عزیز | جنوری ۲۰۱۵ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

۲۰۱۱ء میں عالم عرب کے کئی ممالک میں آمریت سے نجات کی لہر اُٹھی۔ تیونس، مصر، لیبیا، شام اور یمن میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ ان میں سے ہر ملک کے حالات مختلف اور تفصیل طلب ہیں۔ اس لیے اختصار کی خاطر صرف شام ہی کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ شامی عوام ۱۹۶۵ء سے    حافظ الاسد اور پھر بشار الاسد کے جابرانہ قہر و تسلط کا شکار ہیں۔ اس دوران وہاں ان پر وہ مظالم توڑے گئے کہ بیان کرتے ہوئے پتھر سے پتھر دل بھی تھرا جائیں، لیکن عوام نے مسلسل صبر سے کام لیا۔ تیونس اور مصر میں عوام کو عارضی رہائی ملی، تو شامی عوام بھی سڑکوں پر نکل آئے۔ لیبیا کے سفاک حکمران کی طرح بشار الاسد نے بھی پُرامن مظاہرین پر بارود کی بارش کردی۔ لیبیا تیل کے سمندر پر واقع ایک بڑا ملک تھا۔ ناٹو افواج میدان میں کود پڑیں اور قذافی پر پل پڑیں۔ وہاں کھیل ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ اسلامی قوتوں کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے ملک کے ایک حصے کو مسلسل انتشار کا شکار رکھا جارہا ہے۔ لیکن ملک کا ایک بڑا علاقہ جنگ سے محفوظ ہے۔

شام مقبوضہ فلسطین کے پڑوس میں واقع ایک اہم تاریخی ملک ہے۔ اس کے ایک حصے جولان (گولان) پر صہیونی ریاست نے قبضہ کررکھا ہے۔ شامی حکومت نے ایک سیاسی کارڈ کے طور پر ہی سہی مختلف فلسطینی تنظیموں کو وہاں رہنے کی اجازت دے رکھی تھی اور اس حقیقت سے بھی سب آشنا ہیں کہ صہیونی ریاست کو جب بھی حقیقی خطرہ لاحق ہوگا، اس میں شام کا کردار بہت اہم ہوگا۔ اس لیے بشار الاسد کو تحفظ دیتے ہوئے شام کو مکمل تباہی کا نشانہ بنادیا گیا۔

گذشتہ چار سال سے جاری شام کی خانہ جنگی نہ صرف اب ایک علاقائی جنگ کی صورت اختیار کرگئی ہے، بلکہ اس آگ میں فرقہ واریت اور علاقائی نفوذ کی دوڑکا تیل بھی چھڑکا جارہا ہے۔لیبیا میں قذافی کے خاتمے کے لیے ناٹو افواج آن دھمکی تھیں۔ بدقسمتی سے شام میں بشار کو بچانے کے لیے ایرانی افواج میدان میں ہیں۔ پہلے اسے ایک الزام کہا جاتا تھا، اب اس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جارہا ہے۔ روس بھی اپنے اسلحے اور کامل سیاسی سرپرستی کے ساتھ بشار کی پشت پر کھڑا ہے۔ امریکا اور سعودی عرب بشار کی مخالفت کررہے ہیں، لیکن عملاً شامی عوام کی ایسی کوئی مدد نہیں کررہے کہ وہ بشار سے نجات حاصل کرسکیں۔ پڑوسی ہونے کے ناتے ترکی پر لاکھوں شامی مہاجرین کا اتنا بوجھ آن پڑا ہے کہ شامی عوام کی کوئی عسکری معاونت اس کے بس میں نہیں رہی، اور نہ زمینی حقائق کی روشنی میں اس کا ارادہ ہے کہ بشار کے مقابل لڑتے لڑتے بالآخر ایران کے مقابل ہی  آن کھڑا ہو۔ اس ساری صورت حال کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ گذشتہ چار برس میں شام عملاً کھنڈرات کی شکل اختیار کر گیاہے۔ ڈیڑھ لاکھ سے زائد بے گناہ عوام جن میں ہزاروں بچے شامل ہیں، شہید ہوچکے ہیں۔ تقریباً ۲ کروڑ عوام دربدری پر مجبور ہیں۔ اس سب کچھ کے باوجود بشار انتظامیہ، اب بھی ان پر یوں بمباری کرتی ہے، جیسے شاید کسی جنگ کے دوران میں بھی نہ کی جاتی ہو۔

سفاکی کا یہ عالم ہے کہ بڑے بڑے تباہ کن بموں کی بارش سے تسکین نہیں ہوتی تو بارود سے بھرے ٹینکر فضا میں لے جا کر اپنے مخالف عوام پر برسادیے جاتے ہیں۔ نام نہاد مہذب دنیا اس سارے ظلم پر خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔امریکا ایک بار اور صرف اس وقت کچھ حرکت میں آیا جب بشار انتظامیہ نے کیمیائی بم پھینک کر سیکڑوں معصوم بچے شہید کردیے۔ اس وقت چند روز میں ایسی فضا بنادی گئی کہ گویا اگلے ہی روز ساری دنیا بشار پر پل پڑے گی اور عوام کو سُکھ کا سانس نصیب ہوگا۔ لیکن امریکا کا اصل ہدف عوام کی مدد یا خانہ جنگی کا خاتمہ نہیں، شام کے کیمیائی ہتھیاروں کا خاتمہ تھا جو مستقبل میں کسی بھی وقت اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکتے تھے۔ وہ دن اور آج کا دن عالمی تفتیش کار ان کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش و تدفین میں مصروف ہیں۔ بشار بھی وہیں، ا س کے مظالم بھی وہی اور مظلوم عوام کی بربادی بھی اسی طرح جاری و ساری۔

داعش: قیام اور پس منظر

اس ماحول میں گذشتہ سال، یعنی ۲۰۱۳ئمیں اچانک وہاں ایک مسلح گروہ سامنے آیااور  تین سالہ قربانیوں کے بعد بشار انتظامیہ سے آزاد ہوجانے والے علاقوں میں اپنی اسلامی ریاست: الدولیۃ اسلامیۃ کے قیام کا اعلان کردیا۔ پھر ۲۰۱۴ء کے وسط میں اس کی کارروائیوں کا دائرہ عراق کے کئی علاقوں تک پھیل گیا اور ریاست، ریاست اسلامی در عراق و شام: الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق و الشام (داعش) میں بدل گئی۔ حیرت انگیز طور پر اس کی کارروائیوں کے سامنے عراق کے اہل سنت اکثریتی علاقوں میں موجود عراقی فوج، جن کا ۹۹ فی صد شیعہ مذہب کا پیروکار تھا، بلاادنیٰ مزاحمت اپنا جدید ترین اسلحہ چھوڑتے ہوئے پسپا ہوگئی۔

بدقسمتی سے عراق میں امریکی افواج کی آمد کے بعد وہاں عرب کرد اور شیعہ سنی تقسیم اتنی گہری کردی گئی ہے کہ نوری المالکی کی شیعہ افواج کے مقابلے میں ایک سُنّی مسلح گروہ کا کامیاب ہونا، آغاز کار میں سنی عوام کو اپنی فتح یابی محسوس ہوا۔ قبائلی سرداروں، ان کے مسلح جتھوں اور   صدام حسین کے سابق فوجیوں نے بھی داعش کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ کے مصداق چند ہفتوں میں ہی داعش نے سب سے اپنی بیعت پر اصرار کرتے ہوئے اپنے ہرمخالف کی گردن اُڑانا شروع کردی۔ عمومی احکام شریعت کے بارے میں بھی کوئی دوسری راے رکھنے والوں کو اسی انجام سے دوچار ہونا پڑا۔

عراق میں الاخوان المسلمون کے ایک بزرگ رہنما، اخوان کی سیاسی تنظیم ’حزب اسلامی‘ کے سابق سربراہ اور بغداد یونی ورسٹی کے علاوہ عالم عرب کی کئی جامعات میں شریعت اسلامی کے سابق پروفیسر، ڈاکٹر محسن عبدالحمید نے راقم سے ایک حالیہ ملاقات میں بتایا کہ داعش کے خلیفہ  ابوبکر البغدادی کا نام ایاد السامرائی ہے اور وہ ان کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ کسی نے جنابِ بغدادی سے پوچھا کہ آپ کے استاد ڈاکٹر محسن عبد الحمید نے آپ کی بیعت نہیں کی، اگر وہ آپ کے ہاتھ آگئے تو کیا آپ انھیں بھی ذبح کردیں گے؟ خلیفہ صاحب نے جواب دیا: بہرحال وہ میرے استاد ہیں، میں خود تو انھیں ذبح نہیں کروں گا، لیکن اگر میرے کسی ساتھی نے ایسا کردیا تو میں اسے منع نہیں کروں گا۔ داعش کا فکر و فلسفہ جاننے کے لیے شاید اس سے زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔

اس سب پر مستزاد یہ کہ شام اور عراق میں داعش کی ۸۰ فی صد کارروائیوں کا نشانہ وہی عوام بنے اور بن رہے ہیں، جو پہلے ہی بشار الاسد اور مذہبی منافرت کے ہاتھوں بدترین مظالم کا شکار تھے۔ داعش بشار کے خلاف کارروائیوں کا اعلان بھی کرتی ہے لیکن اس کی سب سے زیادہ کارروائیاں خود بشار کے خلاف برسرپیکار مختلف جہادی تنظیموں ہی کے خلاف ہورہی ہیں۔ المناک حقیقت یہ ہے کہ داعش عراق اور شام میں اخوان اور اس کی برادر تنظیموں کو بالخصوص کارروائیوں کا نشانہ بنارہی ہے۔ دونوں جگہ اس کے ہاتھ ایسے ایسے قیمتی، باصلاحیت اور اللہ کے رنگ میں رنگے نوجوانوں کے خون سے رنگے ہیں کہ کسی کلمہ گو انسان کے ہاتھوں ان کی شہادت کا سنیں، تو کانوں کو یقین نہ آئے۔

چند غور طلب پھلو

عراق اور شام کی اس صورت حال نے کئی اہم سوال اور نکات پیدا کردیے ہیں:

  •  شام اور عراق میں مسلح گروہ تو وہاں امریکی قدم پہنچنے کے بعد سے ہی وجود میں آنا شروع ہوگئے تھے۔ کئی تنظیمیں براہِ راست امریکی استعمار سے مقابلے کے لیے ہی وجود میں آئیں۔ ان سب کو کسی عالمی ابلاغیاتی مہم کے ذریعے اتنا نمایاں نہیں کیا گیا، جتنا داعش کی تنظیم کو چند ہفتوں کے اندر بڑھا چڑھا کر پیش کردیا گیا۔
  •  فوراً ہی ۴۰کے قریب ممالک کو جمع کرتے ہوئے اس کے خلاف ایک عالمی بلاک بنادیا گیا اور ۵۵۰؍ ارب ڈالر کی خطیر رقم اس کے مقابلے کے لیے مختص کردی گئی جس کا زیادہ حصہ خود مسلمان ملکوں ہی سے وصول کیا جائے گا۔
  •  چند ہزار افراد سے جنگ کے لیے خطیر بجٹ ساتھ ہی یہ بھی اعلان کردیا گیا کہ یہ جنگ آیندہ ۱۰ برس تک جاری رہے گی۔
  •  ایک طرف داعش سے اتنی بڑی جنگ لڑی جارہی ہے اور دوسری طرف اسی سے تیل کے اہم عراقی کنوؤں سے نکالا جانے والا تیل بلیک مارکیٹ میں خریدا جارہا ہے۔
  •  اگرچہ خود عراق و شام میں اس کے قبضے میں آنے والے علاقوں میں ابھی سب نے اس کی بیعت نہیں کی، لیکن تقریباً ہر مسلم ملک کے درو دیوار پر کوئی جناتی ہاتھ ’داعش‘ کا خیر مقدم کررہا اور خلیفہ البغدادی کو پکار رہا ہے۔ لیبیا اور مصر کے بعض علاقوں میں تو اس کا باقاعدہ ظہور بھی ہوچکا ہے۔

l ۴۰ممالک کے داعش مخالف بلاک اور ۵۵۰؍ ارب ڈالر کے بجٹ کے بعد بھی داعش کے خلاف فوجی کارروائیاں صرف فضائی حملوں تک محدود ہیں۔ خود امریکی عسری ماہرین کہہ رہے ہیں کہ جب تک زمینی کارروائیاں نہ کی گئیں یہ فضائی حملے بے ہدف اور بے مقصد رہیں گے۔ لیکن اس فوجی حکمت عملی کی بلی بھی اس وقت تھیلے سے باہر آگئی جب امریکا بہادر دُہائیاں دینے لگا کہ زمینی کارروائیاں ناگزیر ہوگئیں۔ ہم بوجوہ یہ کارروائیاں نہیں کرسکتے، پڑوس میں واقع ترکی اگر واقعی دہشت گردی کے خلاف ہے تو اپنی زمینی افواج شام میں اتارے۔ گویا اصل مقصد ترکی کو پرائی آگ میں جھونکتے ہوئے اس کا خون بھی مسلسل نچوڑنا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ترکی اس پھندے میں نہیں پھنسا۔

یہ اور اس طرح کے کئی بنیادی پہلو ہر واقف حال کو اصل حقائق سے قریب تر پہنچا دیتے ہیں۔ لیکن ان سوالات و حقائق کا مطلب یہ بھی نہیں کہ داعش یا مماثل مسلح تنظیموں کے سب افراد  کسی کے ایجنٹ یا کارندے ہیں۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ان تنظیموں کے وابستگان کی غالب اکثریت مخلص، نیکوکار اور حصول جنت کی خاطر جان پر کھیل جانے والوں پر مشتمل ہے۔ البتہ ان تمام مخلص و فداکار افراد کو بھی یہ معلوم ہونا چاہیے کہ صرف اخلاص کا ہونا حقانیت کی دلیل نہیں ہوتا۔ خوارج کی اکثریت مخلصین پر مشتمل تھی لیکن تاقیامت فتنے کاشت کرگئی۔ انھیں یہ چند سوال بھی ضرور اپنے سامنے رکھنا چاہییں:

  •  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کس ہستی نے اپنے قول یا فعل سے یہ تعلیم دی کہ چند افراد اُٹھیں اور ہتھیاروں کے زور پر باقی ساری اُمت کو اپنی بیعت کا حکم دیں اور نہ ماننے پر قابل گردن زدنی قرار دیتے ہوئے اُنھیں ذبح کرنا شروع کردیں۔
  •  اگر تلوار اور توپ کے ذریعے ہی پوری قوم یا اُمت کو زیر اطاعت لانا شریعت قرار پائے تو آخر اس میں اور بدترین ڈکٹیٹر شپ میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟
  •  اپنے دشمنوں ہی نہیں اپنے مخالفین کو بھی تہ تیغ کرتے چلے جانے اور اپنے ہم وطن غیرمسلموں کی خواتین کو باندیاں بنا کر پیش کرنے سے دنیا کے سامنے اسلام کا کیا تعارف اور کیا تصور پیش کیا جارہا ہے؟
  •  شریعت چند القابات یا اصطلاحات کا نام نہیں۔ مقاصد شریعت میں جان مال، عزت آبرو، بنیادی انسانی آزادیوں کی حفاظت، شورائیت اور مساوات جیسے بنیادی حقوق شامل ہیں۔ کیا ہم صرف چند الفاظ اور خوش کن اصطلاحات کے اسیر ہو کر تمام مقاصد شریعت کا خون تو نہیں کررہے۔

عالمی امن اور امریکا کا کردار

دوسری جانب خود امریکا اور عالمی برادری کو بھی یہ ضرور بتانا ہوگا کہ:

  •  نائن الیون کی آڑ میں اور القاعدہ کے نام پر تقریباً ۱۴ سالہ جنگ کے نتائج مزید تباہی کے علاوہ کیا نکلے؟ گوانتانامو میں تذلیل آدمیت، اُسامہ بن لادن سمیت ہزاروں القاعدہ ممبروں کی جان لینے، افغانستان اور عراق میں اَربوں نہیں کھربوں ڈالر جنگ اور ہلاکت کی بھٹی میں جھونک دینے کے بعد بھی کیا یہ حقیقت نہیں کہ دنیا آج مزید غیر محفوظ ہوچکی ہے؟
  •  اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ اب ’داعش‘ کا ہوّا کھڑا کرکے ۴۰ممالک کا بلاک بناکر اور ان سے سیکڑوں اَرب ڈالر اس جنگ میں بھسم کروا دینے کے بعد، اس ساری جنگ کے نتائج     نائن الیون کی آڑ میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے مختلف نکلیں گے۔
  • کیا یہ حقیقت نہیں کہ ’نئے مشرق وسطیٰ‘ کے وہ نقشے جو خود امریکی دفاعی وتحقیقی اداروں نے شائع کیے، ان میں خطے کے تمام مسلم ممالک کو مزید تقسیم در تقسیم کرتے ہوئے صرف صہیونی ریاست کی سرحدیں مزید وسعت پزیر دکھائی گئی ہیں۔ اس نقشے پر عمل درآمد کے پہلے قدم کے   طور پر عراق اب عملاً تین الگ الگ ریاستوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔
  • کیا یہ حقیقت نہیں کہ افغانستان و عراق پر قبضے کے بعد امریکی دانشوروں نے ایک پالیسی کے طور پر ’’خود ساختہ و منظم فتنہ و فساد’الفوضی الخلاقہ‘ جیسی اصطلاحیں متعارف کروائیں۔  آج مشرق وسطیٰ سمیت اکثر مسلم ممالک میں مستقل، مسلسل اور ’منظم‘ فتنہ و فساد اسی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ کیا یہ ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کا نیا ورژن ہے؟
  • کیا یہ حقیقت نہیں کہ خود امریکی پالیسیاں عالم اسلام میں پائے جانے والے اس غم و غصے کا اصل سبب ہیں جو مختلف علاقوں اور مختلف صورتوں میں سامنے آتا ہے۔ فلسطین و کشمیر پر قابض افواج کی مکمل سرپرستی، مصر، شام اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں عوام کی آزادیاں سلب کرتے ہوئے ان پر مسلط بدترین ڈکٹیٹرشپ کی کامل پشتیبانی، عراق و افغانستان پر براہِ راست قبضہ اور مختلف مسلم ممالک پر بلا تردد ڈرون حملے وہ ایندھن ہے جو دنیا میں اشتعال کا سبب بن رہا ہے۔ امریکا واقعی دہشت گردی کا شکار اور اس کے خلاف جنگ میں مخلص ہے تو کیوں وہ آگ ہی نہیں بجھا دیتا،  جس سے دھواں اُٹھتا اور اُٹھ سکتا ہے۔
  • کیا یہ حقیقت نہیں کہ امریکا میدان جنگ و جدال کے علاوہ اپنی اصل جنگ تعلیم، ثقافت اور تہذیب کے میدان میں لڑ رہا ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں اور تنظیموں کے ذریعے بلامبالغہ کھربوں ڈالر کا بجٹ مسلم معاشروں میں اباحیت اور اخلاقی تباہی کو ترویج دینے پر خرچ کیا جارہا ہے۔ اس کی یہ کھلی جنگ مسلم نوجوانوں میں پائے جانے والے اضطراب کو مزید ہوا دیتی اور انھیں کسی بھی مخالف انتہا تک لے جانی کا باعث بن سکتی ہے۔ کیا دہشت گردی کے خلاف اصل جنگ یہ نہیں کہ دنیا پر مسلط اپنی اس تہذیبی دہشت گردی کو ختم کیا جائے؟

دنیا اب ایک عالمی بستی ہے۔ اس کی کوئی بھی روش اب یک طرفہ اور بلا ردعمل نہیں رہتی۔ اس عالمی بستی کے سب باسی ایک دوسرے سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔ بحیثیت انسان اگر ہم اپنا اور دنیا کا مستقبل محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو ہم سب کو اپنے اپنے رویے پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ آج کی دنیا میں اگر کوئی ایک فریق بھی ظلم، ہٹ دھرمی اور قتل و غارت پر بضد رہا تو یقینا وہ خود بھی اس کا نشانہ بن کر رہے گا۔ ایک مسلمان ہونے کے ناتے حقیقی ذمہ داری ہماری ہے کہ ہم خود بھی حق شناس بنیں اور ظلم و ہلاکت پر تلی دنیا کو بھی حق سے آشنا کرتے رہیں۔ آج کی دنیا میں جان پر کھیل جانا یا دوسروں کی جان لے لینا کوئی بڑا کمال نہیں، اصل کمال یہ ہے کہ ہم اسلام کا روشن اور حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرسکیں۔

بحیثیت مسلمان ہمیں ہر دم یہ یاد رکھنا چاہیے کہ خالق اپنے بندوں کی کمزوریاں بھی جانتا ہے اور ان کی ضروریات و مشکلات بھی۔ دلوں کے راز اور ذہنوں کے خیالات سے باخبر ہستی جانتی ہے کہ راہ ہدایت انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ہدایت نصیب ہوجائے تو تیروں سے چھلنی اور تختۂ دار پر جھول جانے والا بھی پکار اٹھتا ہے کہ فزت برب الکعبۃ  ، ربِ کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔ اور ہدایت نصیب میں نہ ہو تو خدائی کے دعوے دار کو بھی سب سے پہلے اس کا اپنا دل ملامت کررہا ہوتا ہے کہ تم جھوٹے ہو، فریبی ہو، نامراد ہو۔

ہدایت عطا ہوجانا دوجہاں کی سعادت ہے۔ لیکن ہدایت کا مل جانا ہی کافی نہیں، اس پر ثابت قدم رہنا بھی ناگزیر ہے۔ خاتم النبیینؐ، رحمۃ للعالمینؐ بھی ہمیشہ دُعا فرمایا کرتے: اللّٰہُمَّ یَامُقَلِّبَ القُلُوبِ وِ الاَبصَارِ ثَبِّت قَلبِی عَلَی دِینِکَ، ’’دل و نگاہ کو پھیرنے والے میرے معبود! میرے دل کو اپنے دین پر جمادے‘‘۔ اُم المومنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے حیرت سے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ بھی یہ دُعا کرتے رہتے ہیں..؟ آپؐ نے فرمایا: بندوں کے دل رحمن کی انگلیوں میں ہیں، وہ جب چاہیں انھیں پھیر دیتا ہے۔ ہدایت اور اس پر ثبات پروردگار کی توفیق کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ مہربان ہستی نے بندے کونماز کی معراج سے نوازدیا۔ ہر نماز ہی میں نہیں، نماز کی ہر رکعت میں صراطِ مستقیم کی دُعا لازمی قرار دے دی: اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ... اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ!