جنوری ۲۰۱۵

فہرست مضامین

نبی اکرمؐ کا نظامِ حکومت ایک عمومی خاکہ

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | جنوری ۲۰۱۵ | اسوہ حسنہ

Responsive image Responsive image

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنیادی طور پرجو چیز پیش کی وہ یہ تھی کہ اقتدارِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا نہیں ہے۔ زمین خدا کی ہے، ہوا اور پانی اور روشنی اور ہر وہ چیز جس پر ہم زندگی   بسر کرتے ہیں، سب کچھ خدا کا ہے۔ یہ جسم جو ہمیں حاصل ہے اور اس کے اندر جو طاقتیںہیں اور اس کے جو اعضا ہیں، سب خدا کے بخشے ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ حق پہنچتا ہی نہیں کہ ہم خوداقتدارِاعلیٰ کا دعویٰ کریں، یا کسی ایسے شخص یا گروہ، یا ادارے کا دعویٰ قبول کریں جو اقتدارِاعلیٰ کا مدعی ہو۔   حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اوّلین بات جو انسان کے ذہن نشین کرانے کی کوشش فرمائی اور جس پر ایمان لانے کی لوگوں کو دعوت دی، وہ یہی تھی کہ ملک بھی اللہ تعالیٰ کا ہے، حکم بھی اللہ تعالیٰ کا ہے اوراس کے سوا کسی کو انسان کے لیے قانون بنانے کا حق نہیں ہے۔

دوسری بات جو اسی طرح بنیادی اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو براہِ راست قانون نہیں دیتا، بلکہ اپنے رسولوں کے ذریعے سے دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے منتخب کیے ہوئے حکمران نہیں تھے نہ خود بنے ہوئے حکمران تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس منصب پر مقرر فرمایا تھا کہ آپ لوگوں کو تعلیم بھی دیں،  ان کی تربیت بھی کریں، ان کے ذہن وفکر اور اخلاق کو بھی ٹھیک کریں۔ ان کو اللہ تعالیٰ کے احکام بھی پہنچائیں اور جو لوگ ان احکام کو قبول کر کے ان کے برحق ہونے پر ایمان لائے ان کے ذریعے سے احکامِ الٰہی کو نافذ بھی فرمائیں۔

تیسری اہم چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کو بتائی اور اس پر ایمان لانے کی دعوت دی، وہ آخرت کا تصور ہے۔ اگر انسان اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ نہ سمجھے اور اس کو یہ یقین نہ ہو کہ ایک دن اسے مرکر اپنے خدا کے سامنے جانا ہے، اور اپنے تمام اعمال کا جواب دینا ہے، تووہ نہ اسلام کے راستے پر چل سکتا ہے، نہ حقیقت میں صحیح انسان بن سکتا ہے۔

ان عقائد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے ۱۳ برس مکہ معظمہ میں دعوت و تبلیغ کے ذریعے سے لوگوں کے سامنے پیش کیا، اور جن لوگوں نے ان کو مان لیا، ان کو آپ نے ایک جماعت، ایک اُمت کی شکل میں منظم کیا۔

حضوؐر کے زمانۂ قیامِ مکہ کے آخری تین سال ایسے تھے جن میں مدینہ منورہ کے باشندوں کی ایک چھوٹی سی جماعت ایمان لے آئی اور اس نے آپ کو دعو ت دی کہ آپ ان کے شہر میں سب مسلمانوں کے ساتھ تشریف لے آئیں۔ حضرت عائشہ نے بہت صحیح بات فرمائی ہے کہ ’’مدینے کو قرآن نے فتح کیا ہے‘‘۔ یعنی کوئی تلوار نہیں تھی، کوئی جابرانہ طاقت نہیں تھی جس سے مدینے کے لوگ اسلام کے پیرو بنے ہوں، بلکہ قرآنِ مجید جب ان کو پہنچا، اور مکہ معظمہ میں قرآن کی جو سورتیں نازل ہوئی تھیں وہ ان کے علم میں آئیں، تو وہ نہ صرف یہ کہ سچے دل سے ایمان لے آئے، بلکہ انھوں نے اپنی چھوٹی سی بستی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھی اہلِ ایمان کو تشریف لے آنے کی دعوت دے دی۔ یہ دعوت اس بات کی نہ تھی کہ آپ اور مکہ کے مسلمان  ان کے ہاں پناہ گزیں ہوں بلکہ اس بات کی دعوت تھی کہ حضوؐر ان کے معلّم، مربی اور فرماں روا ہوں، مہاجرین و انصار ایک اُمت ِ مسلمہ بن جائیں اور مدینے میں وہ نظامِ زندگی قائم ہو جس پر یہ اُمت ایمان لائی ہے۔ اس طرح جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے، اسی روز اسلامی حکومت کی بنا پڑگئی۔

اسلامی حکومت کے فرائض

  •  اشاعت ِ اسلام: اس حکومت کا اوّلین کام یہ تھا کہ لوگوں میں اسلام کا علم پھیلایا جائے کیونکہ اسلام جہالت کا نام نہیں ، علم کا نام ہے۔ حضوؐر اور آپؐ کے ساتھیوں نے اپنی پوری قوت اس بات پر صرف کردی کہ لوگ دین کو سمجھیں اور سمجھ کر ایمان لائیں۔ جوں جوں یہ علم پھیلتا گیا اور لوگ اس کو جان کر مانتے گئے،اسلام کی طاقت بڑھتی چلی گئی او ر اس کی بنیاد بھی مضبوط ہوتی چلی گئی۔
  •  تزکیۂ اخلاق و تعمیر سیرت: دوسرا عظیم کام جو آپ نے کیا وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کے اخلاق درست کیے، اور ایک ایسا اسلامی معاشرہ پیدا کیا، جس کی ہرچیز اخلاقِ صالحہ پر مبنی تھی۔ کوئی نظامِ حکومت خواہ کیسا ہی اعلیٰ مرتبے کا ہو،اور اس کے قوانین خواہ کتنے ہی بہتر ہوں، اگر اس کی عمارت عمدہ اخلاق کی مضبوط بنیاد پر قائم نہ ہو، اگر اس کے چلانے والے بلندسیرت و کردار کے مالک نہ ہوں، اور اگر وہ معاشرہ جس میں اسے قائم کیا گیا ہو، ایمان دار اور خدا ترس نہ ہو، تو وہ کبھی کامیابی کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ اس لیے حضوؐر نے ایمان کی دعوت اور علمِ دین کی اشاعت کے بعد سب سے زیادہ زور جس چیز پر دیا، وہ تزکیۂ اخلاق تھا۔ آپؐ کے قائم کیے ہوئے نظامِ حکومت کی فطرت ہی یہ تقاضا کرتی تھی کہ لوگوں کے اخلاق ٹھیک اس نظام کے مزاج کے مطابق ہوں۔ اس صورت میں احکام کو نافذ کرنے کے لیے قوت استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ جبروقہر کے ساتھ زبردستی اطاعت کرانے اور لوگوں کو دبا کر فرماں بردار بنانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ بس یہ کہہ دینا کافی ہوتا ہے کہ فلاں چیز کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور فلاں چیز سے منع فرمایا ہے۔ اس کے بعد لوگ خود بخود ان فرامین کی تعمیل کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت میں کوئی پولیس نہ تھی۔ کوئی جیل خانہ نہیں تھا۔ کوئی جاسوسی نظام نہیں تھا۔ اس بات کا تصور تک نہ کیا جاسکتا تھا کہ آپ کی زبانِ مبارک سے کوئی حکم لوگوں کو پہنچے اور وہ اس کی خلاف ورزی کریں۔

اس کے لیے امتناعِ شراب ہی کے معاملے کو بطورِ مثال لے لیجیے۔ جس وقت مدینے کی بستی میں یہ اعلان ہوا کہ شراب حرام کردی گئی ہے، اسی وقت شراب کے مٹکے توڑ دیے گئے،اور پینے والوں میں سے جس کا ہاتھ جہاں تھا وہیں رُک گیا۔ اس طرح کی پابندیِ قانون کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔اس کے برعکس امریکا میں اربوں روپیہ اس کام پر صرف کیا گیا کہ لوگوں کو شراب کی بُرائی اور اس کے نقصانات کا قائل کیا جائے۔ بہت بڑے پیمانے پر اس کے خلاف پروپیگنڈاکیا گیا اور راے عامہ کی تائید سے امریکا کے دستور میں ترمیم کر کے امتناعِ شراب کا قانون پاس کیا گیا۔ لیکن جس روز یہ قانون پاس ہوا اس کے دوسرے ہی روز سے پورے ملک میں اس کی خلاف ورزی شروع ہوگئی۔ طرح طرح کی زہریلی شرابیں پی جانے لگیں، اور یہ وبا اس قدر خطرناک صورت اختیار کرگئی کہ آخرکار اس قانون کو منسوخ کرنا پڑا۔ اب ذرا مقابلہ کرکے دیکھ لیجیے۔ ایک جگہ بس ایک حکم سنا دیا جاتا ہے اور فوراً اس کی تعمیل کی جاتی ہے۔دوسری جگہ بڑی تیاری کے بعد لوگوں کی مرضی سے قانون بنایا جاتا ہے اور لوگ اس کو توڑ ڈالتے ہیں۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ ایک صالح نظامِ حکومت کی بنیاد ایمان اور اخلاق پر قائم ہوتی ہے ۔ جہاں یہ دونوں چیزیں موجود نہ ہوں وہاں آپ کاغذ پر خواہ کتنا ہی اچھا دستور اور قانون بنا لیجیے، زمین پر وہ کبھی نافذ نہیں ہوسکتا....

  •  حاکمیت اعلٰی: جہاں تک اقتدارِ اعلیٰ کا تعلق ہے، میں بتا چکا ہوں کہ حضوؐر کی تعلیم کے مطابق یہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔ رہی نظامِ حکومت کی تین شعبوں میں تقسیم، یعنی منتظمہ، مقننہ اور عدلیہ تو یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت میں نہ تھی۔ حضوؐر قانون دینے والے بھی تھے، جج بھی تھے اور حاکم بھی۔ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ نبی کی حیثیت سے یہ تمام اختیارات آپؐ کی ایک ہی ذات میں جمع تھے۔

لیکن حضوؐ ر کا قاعدہ یہ تھا کہ جو حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ملتا تھا اس میں تو آپ لوگوں سے بے چون و چرا اطاعت کا مطالبہ کرتے تھے۔ اس میں کسی کے لیے کلام کرنے کی کوئی گنجایش نہ تھی، لیکن جس معاملے میں اُوپر سے کوئی حکم آیا ہوا نہ ہوتا تھا اس میں آپ صحابہؓ سے خود بھی مشورہ فرماتے تھے۔ صحابہؓ کو بھی یہ حق دیتے تھے کہ وہ آپؐ کی راے سے اختلاف کریں اور بارہا ایسا ہوا ہے کہ آپؐ نے اپنی راے چھوڑ کر ان کی راے قبول فرمائی ہے۔ مشہور واقعہ ہے کہ جنگ ِ بدر کے موقعے پر آپؐ نے ابتدا میں جس جگہ پڑائو کیا تھا اس کے متعلق ایک صحابی نے اُٹھ کر پوچھا کہ یہ جگہ آپؐ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اختیار فرمائی ہے یا یہ آپؐ کی اپنی راے ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’نہیں، میں نے خود یہ جگہ تجویز کی ہے‘‘۔ اس پر انھوں نے عرض کیا کہ ’’اس کے بجاے فلاں مقام جنگی حیثیت سے زیادہ موزوں ہے‘‘۔ اور آپؐ نے ان کی راے قبول فرما لی۔

اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو دو طرح کی تربیت دے رہے تھے۔ ایک اس بات کی تربیت کہ جب خدا کی طرف سے کوئی حکم آئے تو اس کی بے چون وچرا اطاعت کرو۔ دوسری تربیت اس بات کی کہ جس معاملے میں خدا کا حکم نہ ہو، اس میں اہل الراے سے مشورہ بھی کیا جائے، لوگوں کوبحث کا کھلاحق بھی دیا جائے، حضوؐر کی اپنی راے تک سے اختلاف کرتے ہوئے دوسری راے بھی پیش کی جاسکے اور مشورے کے بعد جو بات طے ہو اس پر عمل کیا جائے۔

ایک اور مثال ملاحظہ فرمایئے۔ جنگ ِ احزاب کے موقعے پر جب حالات بہت نازک ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ دشمنوں کے چند قبائل، جن کی بڑی طاقت وہاں جمع تھی، ان کو مدینے کی پیداوار کا ایک حصہ پیش کرکے مخالفین کی جتھہ بندی سے انھیں الگ کردیا جائے۔ انصار کے سرداروں نے حضوؐر سے عرض کیا کہ ’’یہ معاملہ آپؐ اللہ تعالیٰ کے حکم سے طے فرما رہے ہیں یا یہ آپؐ کا اپنا خیال ہے؟‘‘ حضوؐر نے فرمایا: ’’یہ میرا اپنا خیال ہے، میں تمھیں اس خطرے سے نکالنا چاہتا ہوں جس میں تم پڑگئے ہو‘‘۔ انھوں نے کہا: یارسولؐ اللہ! جب ہم کافر تھے اس زمانے میں بھی یہ قبائل ہم سے ایک حبّہ تک نہ لے سکے تھے اور اب تو ہم مسلمان ہیں۔ اب ہم سے کوئی چیز کیسے لے سکتے ہیں‘‘۔ چنانچہ اسی وقت ان کے کہنے کے مطابق یہ معاملہ ختم کردیا گیا۔ اس مثال سے بھی آپ رسولؐ اللہ کے طرزِ حکومت کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ جن معاملات میں اللہ کا حکم ہوتا تھا وہاں کوئی جمہوریت نہ تھی اور جن معاملات میں اُوپر کا حکم نہ ہوتا تھا ان میں پوری جمہوریت تھی۔

  •  عدلیہ: اب عدلیہ کے مسئلے کو لیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قاضی تھے۔ اس لیے عدلیہ بھی پوری طرح آپ ہی کے ہاتھ میں تھی۔ اس معاملے میں آپؐ کا طریقہ یہ تھا کہ نہ صرف انصاف کیا جائے بلکہ لوگ بھی یہ دیکھ لیں کہ انصاف کیا جا رہا ہے۔ تمام مقدمات کی سماعت کھلی عدالت میں ہوتی تھی۔ خفیہ سماعت کی کوئی نظیر آپؐ کے طریقِ عدل میں نہیں ملتی۔

بڑا مشہور واقعہ ہے کہ فتحِ مکہ سے پہلے ایک صحابی نے مشرکینِ مکہ کے نام ایک خط لکھ دیا جس میں ان کو مطلع کیا گیا تھا کہ تم پر حملہ ہونے والا ہے۔ وہ خط پکڑا گیا۔ اب یہ صریح جاسوسی کا معاملہ تھا۔ اِس زمانے کے لوگ کہیں گے کہ ایسا خطرناک معاملہ تو بند کمرے میں پیش ہونا چاہیے تھا ، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبویؐ میں اس کی کھلی سماعت فرمائی۔ دوسرا اہم قاعدہ آپ کی عدالت کا یہ تھا کہ کسی مقدمے کا فیصلہ فریقین کی بات سنے بغیر نہ کیا جائے اور کسی شخص کو صفائی کا پورا موقع دیے بغیر ایک لمحے کے لیے بھی اس کے کسی بنیادی حق سے محروم نہ کیا جائے۔ حضوؐر نے مدینہ کے باہر جو قاضی مقرر فرمائے تھے ان کو بھی آپؐ کی ہدایت یہ تھی کہ فریقین کی بات سنے بغیر کسی معاملے کا فیصلہ نہ کریں۔ عدالت کے کام میں سفارش کا دروازہ آپؐ نے بڑی سختی کے ساتھ بند کردیا تھا۔ فتح مکہ کے بعد قریش کے ایک معزز خاندان کی عورت نے چوری کا ارتکاب کیا۔ اس کے خاندان نے کوشش کی کہ اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔

حضرت اسامہؓ بن زیدؓ سے، جو حضوؐر کو نہایت عزیز تھے، سفارش کرائی گئی۔ حضوؐر نے فرمایا کہ ’’تم حدوداللہ کے معاملے میں سفارش کرتے ہو؟ تم سے پہلے جو قومیں گزر چکی ہیں وہ اسی لیے تباہ ہوئیں کہ ان کے عام آدمی جب کوئی جرم کرتے تھے تو ان کو قانون کے مطابق سزا دی جاتی تھی، اور بڑے لوگ جب وہی جرم کرتے تھے تو ان کے ساتھ رعایت برتی جاتی تھی۔ خدا کی قسم! اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو مَیں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا‘‘۔ اس طرح آپؐ نے سفارش کا دروازہ ہی بند نہ کیا بلکہ یہ اصول بھی قائم فرما دیا کہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ یہ اصول بھی آپؐ نے قائم فرما دیا کہ اگر کوئی شخص عدالت کو دھوکا دے کر اپنے حق میں غلط فیصلہ حاصل کرلے تو اس کا فائدہ وہ دنیا ہی میں اُٹھا سکے گا۔ آخرت میں خدا کی پکڑ سے کوئی چیز اسے نہ بچا سکے گی۔

  •  مقننّہ:اس کے بعد مقننہ کا مسئلہ ہمارے سامنے آتا ہے جو دین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے اس میں چونکہ بنیادی طور پر قانون اللہ تعالیٰ کا تھا اور وہی قانون بنانے کا حق رکھتا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت قانون ساز کی نہ تھی بلکہ قانون کو نافذ کرنے والے، اس کی تشریح کرنے والے اور لوگوں کو اس کے مطابق عدل و انصاف کا نظام چلانے کی تربیت دینے والے کی تھی۔ آپؐ نے مسلمانوں کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ کا قانون کیا ہے اور پھر اس کی وہ تشریح فرمائی جو سنت میں پائی جاتی ہے، مثلاً قرآنِ مجید میں چوری کی سزا کا حکم بڑے مختصر الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دو۔ اس سے زائد کوئی تفصیل قرآن میں نہیں ہے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے جس نے ہمیں بتایا کہ اس حکم پر عمل کن حالات میں ہوگا اور کن حالات میں نہ ہوگا۔ چوری کسے کہتے ہیں اور کسے نہیں کہتے؟ کس قسم کے اور کتنے مال کی چوری کے لیے یہ سزا ہے اور اس پر عمل کس طرح ہوگا؟ اگر سنت کے ذریعے سے قرآن کے حکم کی یہ تشریح ہمیں نہ ملی ہوتی تو ہم اس حکم کی کبھی صحیح تعمیل نہ کرسکتے تھے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حضوؐر خود قانون ساز نہیں  تھے بلکہ اصل قانون ساز اللہ تعالیٰ تھااور آپ اس کے مقرر کردہ سرکاری شارح تھے۔ اس طرح جس چیز کو ہم اسلامی قانون کہتے ہیں وہ قرآن اور سنت ِ رسولؐ کے مجموعے کا نام ہے۔

قانون نافذ کرنے کے معاملے میں جو نظام آپؐ نے قائم فرمایا تھا اس کے بڑے بڑے اصول یہ تھے کہ لوگوں کو جہاں تک ممکن ہو سزا سے بچائو۔ قاضی کا کسی قصوروار کو چھوڑ دینے کی غلطی کرنا اس سے بہتر ہے کہ وہ بے قصور کو سزا دینے میں غلطی کرے۔ آپس کے جھگڑوں کا فیصلہ لوگ خود کرلیں، یاکسی کے قصور کو معاف کرنا ہو تو معاف کردیں، یا کسی کے جرم و گناہ پر پردہ ڈالنا ہو تو ڈال دیں۔ یہ سب کچھ عدالت میں معاملہ پہنچنے سے پہلے تک ہوسکتا ہے، لیکن جب عدالت تک معاملہ پہنچ جائے تو کوئی معافی اور پردہ پوشی نہیں ہوسکتی۔ اس کے بعد تو پھر عدالت ہی قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی۔ عدالت کے فیصلے پر اثرانداز ہونے کی ہرکوشش کو آپ نے سختی کے ساتھ منع فرما دیا اور قاضی کو قرآن و سنت اور خود اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق بے لاگ فیصلہ دینے کے لیے آزاد قرار دیا۔ آپؐ نے لوگوں کو یہ بھی بتایا کہ علم کے بغیر فیصلہ کرنا، یا علم رکھتے ہوئے غلط فیصلہ کرنا سخت گناہ ہے۔ صحیح قاضی وہ ہے جو قانون کا علم رکھتا ہو اور اپنے علم کے مطابق بے رُو رعایت فیصلہ کرے۔

  •  گورنروں کا تعیّن اور فرائض:اس سلسلے میں چند باتیں اور سمجھ لینی چاہییں۔ موجودہ زمانے کے سیاسی نظریات کو بنیاد بناکر عہدِرسالت ؐ کے معاملات کو اچھی طرح نہیں سمجھا جاسکتا۔ مثلاً اس زمانے میں ریاست کے تین شعبے ہوتے ہیں: انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ۔ پھر آئینی طریقے سے یہ طے کیا جاتا ہے کہ ان شعبوں کے حدود کیا ہیں؟ مگر اُس زمانے میں صورتِ معاملہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینے تشریف لے جانے سے پہلے وہاں کے بڑے بڑے گھرانوں کے الگ الگ احاطے ہوتے تھے جن کے اندر ان کی زمینیں ، ان کے باغات، ان کے رہنے سہنے کے گھر اور ان کے سقیفے (یعنی چوپالیں اور پنچایت خانے) ہوتے تھے۔ وہاں قبائلی نظام رائج تھااورہرقبیلے کے لوگ اپنے معاملات کو خود چلاتے تھے۔ مکہ معظمہ میں جب رسول اللہ کے دست ِ مبارک پر اہلِ مدینہ کے ایک بڑے گروہ نے بیعت کی تو آپؐ نے خود ان کی درخواست پر بارہ نقیب مقرر فرما دیے جو اپنے اپنے قبیلوں میں زیادہ قابل، زیادہ بااثر اور زیادہ بااعتماد تھے۔ اور یہ ہرنقیب کی ذمہ داری تھی کہ اس کے قبیلے کے مختلف گھرانوں میں جو صالح اور معتبر سردار ہوں ان کی مدد سے اخلاق اور معاملات کو درست رکھیں۔ قبیلوں اور گھرانوں میں جو لوگ فطری طریقے سے سردار پائے جاتے تھے انھی میں سے ایمان لانے والوں کو آپؐ نے سربراہ بنا دیا  تھا۔ پھر جب حضوؐر خود مدینہ تشریف لے گئے تو اس نظام کو آپؐ نے برقرار رکھا۔ فرق جو کچھ واقع ہوا وہ یہ تھا کہ شہر کے مشرک سرداروں کی جگہ ایمان لانے والوں کو سرداری کا مقام حاصل ہوگیا۔ یہ تغیر ووٹوں کے ذریعے نہیں ہوا بلکہ یہ اسلامی انقلاب کا فطری تقاضا تھا کہ مشرک پیچھے ہٹتے چلے گئے اور مسلمان سردار آگے آتے گئے۔ شہر کے معاملات کو چلانے کے لیے حضوؐر مہاجرین کے اہل الراے اور انصار کے سرداروں سے مشورہ فرماتے تھے۔ یہ مجلسِ مشاورت موجودہ زمانے کی مقننہ یا پارلیمنٹ سے کوئی مشابہت نہ رکھتی تھی۔ مسلمانوں میں جو لوگ بھی بااثر ، ذی علم اور سمجھ دار لوگ تھے کہ اگر موجودہ زمانے کے طریقے پر الیکشن بھی ہوتے تو انھی کو منتخب کیا جاتا۔ ہر معاملے میں ان سب کا بلایا جانا ضروری نہ تھا۔ جس وقت کسی مسئلے میں مشورے کی حاجت پیش آتی تو اس وقت جولوگ بھی موجود ہوتے ان سے راے لے لی جاتی، اور بڑے اہم مسائل میں بس یہ اعلان کرا دیا جاتا کہ مسجد نبویؐ میں لوگ حاضر ہوجائیں۔

مدینے سے باہر جب اسلامی مملکت پھیلنی شروع ہوئی تو مختلف علاقوں میں گورنر مقرر کردیے گئے، وہی اپنے علاقے کے منتظم بھی تھے اور سپہ سالار بھی۔ اس زمانے میں کوئی مستقل فوج نہیں تھی۔ جس وقت بھی ضرورت ہوتی رضاکارانہ طور پر لوگ جہاد کے لیے آجاتے تھے۔ حضوؐر نے مختلف علاقوں میں قاضی بھی مقرر فرما دیے تھے جن کے عدالتی کام میں کوئی گورنر دخل نہ دے سکتا تھا۔ آپؐ نے ہر علاقے میں ایسے لوگ بھی مقرر کیے تھے جو باشندوں کو اسلام کی تعلیم دیں۔ تعلیم سے مراد یہ نہیں تھی کہ لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں، بلکہ اس سے مراد یہ تھی کہ وہ عوام کو قرآن سنائیں، اس کے معانی و مطالب سمجھائیں، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ان کو آگاہ کریں۔ یہ کام زیادہ تر زبانی تلقین کے ذریعے سے کیا جاتا تھا اور معلمین لوگوں کی اخلاقی اور ذہنی تربیت اسی طریقے پر کرتے تھے، جس طریقے پر حضوؐر نے خود ان کی تربیت فرمائی تھی۔ مثال کے طور پر جب مکہ معظمہ فتح ہوا تو حضوؐر نے حضرت عتابؓ بن اسیّد کو گورنر اور حضرت معاذ بن جبل کو معلم مقرر فرمایا تھا۔

  •  نظامِ زکٰوۃ: زکوٰۃ کے نظام کی صورت یہ تھی کہ کہیں آپؐ نے باقاعدہ تحصیل دار مقرر کیے تھے اور بعض علاقوں میں قبیلوں کے سرداروں کو اس کی تحصیل کا کام سپرد فرمادیا  تھا۔ جہاں غیرمسلم آبادی نے اطاعت قبول کرکے خراج ادا کرنے کا معاہدہ کیا تھا وہاں بھی خراج کی تحصیل کے لیے کوئی مستقل تحصیل دار مقرر نہ تھا۔ جب خیبر فتح ہوا اور وہاں کے باشندوں نے نصف پیداوار ادا کرنا قبول کرکے صلح کرلی تو فصل کی کٹائی کے وقت حضوؐر کسی صحابیؓ کو بھیج دیتے تھے اور وہ پیداوار کا نصف نصف الگ کر کے یہودیوں کو اختیار دے دیتے تھے کہ دونوں ڈھیروں میں سے جو ڈھیر چاہیں، اُٹھالیں۔ تاریخ میں یہ واقعہ موجود ہے کہ جب اس طریقے پر خراج لیا گیا تو یہودی پکار اُٹھے کہ اسی انصاف پر زمین و آسمان قائم ہیں۔ یہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نظامِ حکومت کا ایک مختصر خاکہ۔(ریڈیو پاکستان کو انٹرویو، ۹-۱۰ مارچ ۱۹۷۸ئ، بحوالہ تصریحات، ص ۴۰۳-۴۱۱)