جنوری ۲۰۱۵

فہرست مضامین

قصواء، رسولِ اکرمؐ کی مبارک اُونٹنی

عبدالستار خان | جنوری ۲۰۱۵ | اسوہ حسنہ

Responsive image Responsive image

 

 رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُونٹنی کا نام قصواء تھا۔قصواء اس اُونٹنی کو کہتے ہیں جو مالک کے نزدیک انتہائی محبوب ہو اور اس محبت کی وجہ سے اس کا مالک اسے کام اور بوجھ ڈھونے سے آزاد کردے اوردوسری اُونٹنیوں کی طرح اسے چرنے کے لیے چراگاہ نہ بھیجے ۔قصواء اس اُونٹنی کو بھی کہتے ہیں جس کے کان یا ناک یا ہونٹ کا کوئی حصہ کٹا ہوا ہو مگر رسولِ اکرمؐ کی اُونٹنی قصواء اس طرح کے کسی عیب سے پاک تھی۔قصواء نامی مبارک اُونٹنی رسولِ اکرمؐ کو بہت محبوب تھی۔ اس محبت کی وجہ یہ تھی کہ قصواء اُونٹنی نہایت فرماں بردار اورشریف الطبع تھی۔ اسلامی تاریخ میں’ قصواء اُونٹنی‘ کا بڑامقام ہے۔

قصوا ء قبیلہ بنی قشیر کی چراگاہوں میں پیدا ہوئی۔ اس کی رنگت سرخی مائل تھی۔ جب قصواء چارسال کی ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اسے بنی قشیر سے ۸۰۰ درہم کے عوض خرید لیا۔سیرت کی کتابوں میں ہے کہ جب رسولِ اکرمؐ نے صحابہ کرامؓ کو مدینہ منورہ ہجرت کی اجازت دی تو اکثر صحابہ کرامؓ  ہجرت کرگئے مگر آپؐ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ہجرت سے یہ کہہ کر روکے رکھا کہ شاید اللہ تعالیٰ آپ کے لیے کسی ساتھی کا انتظام کردے۔ یہ سن کرحضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ہجرت کی تیاری شروع کردی اور بنی قشیر سے دو تیز رفتار اورطاقت ور اُونٹیاں خرید لیں۔ ان دو اُونٹیوں میں سے ایک قصواء تھی۔

بخاری میں ہے کہ ہجرت کے وقت رسولِ اکرمؐ اور صدیق اکبرؓ نے غار میں پناہ لی۔   تین دن کے بعد جب روانگی کا وقت آیا تو صدیق اکبرؓ نے رسولِ اکرمؐ کی سواری کے لیے اُونٹنی  پیش کرتے ہوئے فرمایا:اے اللہ کے رسولؐ ! آپؐ پر میرے ماں باپ قربان، آپؐ ان دو اُونٹیوں میں سے کوئی ایک پسند فرمالیں۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں ! مگر میں اس کی قیمت ادا کروں گا۔ صدیق اکبرؓ نے جو اُونٹنی رسولِ اکرمؐ کو فروخت کی اس کا نام قصواء رکھا گیا۔ آپؐ نے اس کی قیمت ادا کی ، پھر اس پر سوار ہوکر مدینہ منورہ روانہ ہوئے۔

علماے کرام ؒ کا کہنا ہے کہ سفر ہجرت میں حضرت ابوبکر صدیقؓ سے اُونٹنی خریدنے میں حکمت یہ ہے کہ رسولِ اکرمؐ چاہتے تھے کہ اس مبارک اور تاریخی سفر ہجرت میں آپؐ اپنی جان ومال سے ہجرت فرمائیں۔ قصواء کو یہ شرف حاصل ہوا کہ آپؐ نے اس پر سوار ہوکر مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تک کا وہ عظیم سفر کیا جسے اسلامی تاریخ میں ہجرت کہا جاتا ہے۔

اس سفر کے بعد قصواء اُونٹنی کو شرف ورفعت کی کئی منزلیں ملیں۔

مدینہ منورہ پہنچ کر رسولِ اکرمؐ نے قبا میں قیام فرمایا ۔ پھر رسولِ اکرمؐ نے مدینہ منورہ کا رخ کیا جہاں پہنچنے پر مدینہ منورہ کی بچیوں نے دف بجا کر رسولِ اکرمؐ کا استقبال کیا۔ اس مبارک سفر میں بھی رسولِ اکرمؐ قصواء پر سوار تھے۔

مولانا صفی الرحمن مبارکپوری لکھتے ہیں:’’انصار اگرچہ دولت مند نہ تھے لیکن ہر ایک کی یہی آرزو تھی کہ رسولِ اکرمؐ اس کے ہاں قیام فرمائیں۔ چنانچہ آپؐ انصار کے جس مکان یا محلے سے گزرتے وہاں کے لوگ آپؐ کی اُونٹنی کی نکیل پکڑ لیتے اور عرض کرتے کہ تعدادوسامان اور ہتھیار وحفاظت فرشِ راہ ہیں، تشریف لائیے مگر رسولِ اکرمؐ فرماتے کہ اُونٹنی کی راہ چھوڑ دو، یہ اللہ کی طرف سے مامور ہے۔ (الرحیق المختوم، ص ۲۴۱)

مطلب یہ ہے کہ قصواء اُونٹنی توفیق الٰہی سے چل رہی ہے ، اس کی راہ چھوڑ دو، اسے جہاں حکم ہوگا وہیں بیٹھ جائے گی۔ نیز اُونٹنی کے بیٹھنے کے مقام پر ہی مسجد نبویؐ کی تعمیر ہوگی اور وہیں رسول ؐاللہ قیام فرمائیں گے۔

یہ سن کر سب قصواء کی راہ سے ہٹ گئے اور حیرت واستعجاب سے اس کی حرکات وسکنات کا جائزہ لیتے رہے۔ قصواء چلتی رہی یہاں تک کہ اس مقام پر پہنچ کر بیٹھی جہاں آج مسجد نبویؐ ہے لیکن رسولِ اکرمؐ نیچے نہیں اُترے۔ قصواء دوبارہ اٹھی ، تھوڑی دور گئی ، مڑکر دیکھنے کے بعد دوبارہ اسی مقام پر آکر بیٹھ گئی۔ اس کے بعد آپؐ نیچے تشریف لے آئے۔ یہ آپؐ کے ننھیال والوں، یعنی بنی نجار کا محلہ تھا۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو ننھیال میں قیام فرماکر رسولِ اکرمؐ کی عزت افزائی کرنا چاہتے تھے۔ اب بنونجار کے لوگوں نے میزبانی کا شرف حاصل کرنے کے لیے رسولِ اکرمؐ سے عرض کیا مگر حضرت ابوایوب انصاریؓ نے لپک کر قصواء سے کجاوہ اٹھالیا اور اپنے گھر لے گئے۔اس پر رسولِ اکرمؐ نے فرمایا:’’آدمی اپنے کجاوے کے ساتھ ہے‘‘ ۔ چنانچہ حضرت ابوایوب انصاریؓ کو رسولِ اکرمؐ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ ادھر حضرت سعد بن زرارہ ؓ نے آکر قصواء کی نکیل پکڑ لی چنانچہ     اس مدت کے دوران قصواء ان کے پاس رہی۔

اللہ تعالیٰ نے قصواء کو وہ طاقت وقوت عطا کی کہ وہ وحی کے بار کو برداشت کرسکے۔  علماے کرام کہتے ہیں کہ یہ واحد سواری تھی جو وحی کا بار برداشت کرسکتی تھی۔ آپؐ اس پر سوار ہوتے اور اچانک آپؐ پروحی کا نزول ہوتا تھا۔وحی کے نزول کے وقت آپؐ کا جسم اطہر اپنے وزن سے  کئی گنا بھاری ہوجاتا تھایہاں تک کہ اس کی تاثیر ارد گرد کی چیزوں پر بھی ہوتی تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ  فرماتی ہیں:’’رسولؐ اللہ اپنی اُونٹنی پرسوار ہوتے اور اچانک وحی کا نزول ہوتا۔ وحی کا اتنا بوجھ ہوتاتھا کہ ہمیں ایسا معلوم ہوتا گویا قصواء کی ہڈیاں چٹخ جائیں گی ‘‘۔

وحی کے بوجھ کا اندازہ لگانے کے لیے ایک اور روایت پیش خدمت ہے۔ ایک مرتبہ آپؐ  حضرت زید بن ثابتؓ کی ران پر سر مبارک رکھ کر آرام فرمارہے تھے کہ اچانک وحی کا نزول شروع ہوگیا۔ سیدنا زید کہتے ہیں:’’اللہ کی قسم ! قرآن کے بوجھ سے قریب تھا کہ میری ہڈی ٹوٹ جاتی۔ میں سمجھا کہ آج کے بعد میں اپنے پیروںپر نہیں چل سکتا‘‘ ۔

قصواء کو یہ شرف حاصل ہے کہ اسے پانچ اہم مواقع میں شرکت نصیب ہوئی۔ رسولِ اکرمؐ غزوۂ بدر کے لیے اسی پر سوار ہوکرتشریف لے گئے۔ صلح حدیبیہ ، عمرہ قضا، فتح مکہ اور حجۃ الوداع کے سفرمیں بھی قصواء شریک تھی۔

فتح مکہ کے موقعے پر رسولِ اکرمؐ مکہ مکرمہ میں اس حال میں داخل ہوئے کہ تواضع اور انکساری سے آپؐ کا سر جھکاہوا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ رسولِ اکرمؐ نے اس قدر سر جھکالیا کہ سراقدس قصواء کے کوہان سے لگ رہا تھا۔ جب آپؐ مسجد الحرام میں فاتح بن کر داخل ہوئے تب بھی آپؐ قصواء پر سوار تھے۔ اس وقت بیت اللہ کے گرد۳۶۰ بت تھے۔ آپؐ کے ہاتھ میں کمان تھی۔ آپؐ کمان سے بتو ںکو مارتے اور فرماتے:’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا،باطل جانے والی چیز ہے ‘‘۔آپؐ کی ٹھوکرسے بت اوندھے منہ گرپڑتے۔ آپؐ نے قصواء پر سوار ہوکر بیت اللہ کا طواف فرمایا۔  

آپؐ جب کسی صحابی کو کسی اہم مہم کے لیے اپنا سفیر بناکر روانہ کرتے تو اسے قصواء پر بھیجتے تھے۔ ذو القعدہ ۹ہجری کو نبی کریمؐ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو امیر الحج بناکر مکہ مکرمہ روانہ کیا۔ قافلے کی روانگی کے بعد سورۂ توبہ کی ابتدائی آیات نازل ہوتی ہیںجن میں مشرکین سے کیے گئے عہد وپیمان کو برابری کی بنیاد پر ختم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس حکم کے آجانے کے بعد رسول اکرمؐ نے حضرت علی ؓ کو روانہ فرمایاتاکہ وہ آپؐ کی جانب سے اعلان کردیں۔خون اور مال کے عہد وپیمان میں عربوں کا دستور تھا کہ آدمی یا تو خود اعلان کرے یا اپنے خاندان کے کسی فرد سے اعلان کروائے۔ خاندان سے باہر کے کسی آدمی کا کیا ہوا اعلان تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ آپؐ نے حضرت علیؓ کو قصواء پر سوار کیا اور مکہ مکرمہ کی طرف روانہ کیا۔

ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی  ؓ قصواء پر سوار ہوکر جب حضرت ابوبکرؓ تک پہنچتے ہیں تونماز کا وقت ہوگیاتھا۔ تکبیر کہی گئی تھی اور حضرت ابوبکرؓجماعت کی امامت کرنے کے لیے آگے بڑھے ہی تھے کہ قصواء کی آواز سنائی دی۔ حضرت ابوبکر ؓ جو تکبیر کہنے والے تھے، رُک گئے اور فرمایا: ’’یہ قصواء کی آواز ہے، شاید آپﷺ خود تشریف لائے ہیں‘‘۔ جب قصواء قریب آتی ہے تو اس پر سوار بھی نظر آجاتے ہیں۔

دوسری روایت کے مطابق حضرت علیؓ کی حضرت صدیق اکبرؓ سے ملاقات عرج یا وادیِ ضجنان میں ہوئی۔ حضرت ابوبکر نے سیدنا علیؓ کو قصواء پر سوار دیکھا تودریافت کیا:امیر ہو یا مامور؟ حضرت علیؓ نے فرمایا: مامور۔ پھر دونوں آگے بڑھے۔

حضرت ابوبکرؓ نے امیر الحج کی حیثیت سے لوگوں کو حج کرایا۔ دسویں تاریخ، یعنی قربانی کے دن حضرت علیؓ نے قصواء پر سوار ہوکر جمرہ کے پاس لوگوں میں وہ اعلان کیا جس کا حکم رسولؐ اللہ نے دیاتھا۔ تمام عہد والوں کا عہد ختم کردیا اور انھیں چارمہینے کی مہلت دی۔ جن کے ساتھ عہد وپیمان نہیں تھا، انھیں بھی چارمہینے کی مہلت دی۔ جن مشرکین نے مسلمانوں سے عہد نبھانے میں کوتاہی نہیں کی، نہ مسلمانوں کے خلاف کسی کی مدد کی، تو ان کا عہد ان کی طے کردہ مدت تک برقرار رکھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے صحابہ کی ایک جماعت بھیج کر یہ اعلانِ عام کروایا کہ آیندہ کوئی مشرک حج نہیں کرسکتا ،نہ کوئی بے لباس ہوکر بیت اللہ کا طواف کرسکتا ہے۔ یہ اعلان گویا جزیرہ عرب سے بت پرستی کے خاتمے کا اعلان تھا۔

مختلف مہمات کے علاوہ سفر وحضر کے دوران بھی اکثر وبیشتر صحابہ کرام ؓ ، رسولِ اکرمؐ کے ساتھ قصواء پر سوار ہوئے۔ حجۃ الوداع کا سفر بھی آپؐ نے قصواء پر کیا۔روایات میں آتا ہے کہ ۹ذوالحجہ کو آپؐ کے حکم پر قصواء پر کجاوہ کسا گیا اور آپؐ  بطن وادی میں تشریف لے گئے جہاں ایک لاکھ ۲۴ہزار یا ایک لاکھ ۴۴ ہزار صحابہ کرام کا مجمع تھا۔ آپؐ نے وہاں ایک جامع خطبہ دیا۔ یہ خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے معروف ہے۔ یہ مساواتِ انسانیت اور ذات پات کے خاتمے کا اولین چارٹر ہے۔ قصواء کو یہ شرف حاصل ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر یہ جامع خطبہ ارشاد فرمایا: ’’لوگو! میری بات سنو۔ میں نہیں جانتا کہ شاید اس سال کے بعد اس مقام پر میں تم سے کبھی مل سکوں۔ تمھارا خون اور تمھارامال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے جس طرح تمھارے آج کے دن کی، رواں مہینے کی اور اس شہر کی حرمت ہے۔سن لو! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں تلے روند دی گئی۔

عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو کیوں کہ تم نے انھیں اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور اللہ کے کلمے کے ذریعہ حلال کیا ہے ۔

میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھاتو تم اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے، وہ ہے اللہ کی کتاب اور میری سنت۔

تم سے میرے بارے میں پوچھا جانے والا ہے، توتم لوگ کیا کہو گے؟ صحابہؓ نے کہا کہ ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپؐ نے تبلیغ کردی، پیغام پہنچادیا اور خیر خواہی کا حق ادا فرمادیا۔ یہ سن کر  آپؐ نے انگشتِ شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا: اے اللہ گواہ رہ۔

واضح رہے کہ رسولِ اکرمؐ کے تمام خطبات میں یہ خطبہ جو حجۃ الوداع کے موقعے پر ارشاد فرمایا گیا ، آپؐ کا طویل ترین خطبہ ہے۔

مولانا صفی الرحمن مبارکپوری لکھتے ہیں: ’’خطبہ ارشاد فرمانے اور ظہر وعصر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپؐ جاے وقوف پر تشریف لے گئے۔ قصواء کا شکم چٹانوں کی جانب کیا اور جبل مشاۃ کو سامنے کیا اور قبلہ رخ وقوف فرمایا یہاں تک کہ سورج غروب ہونے لگا۔اس کے بعد رسولِ اکرمؐ قصواء پر سوار ہوئے اور حضرت اسامہ بن زیدؓ کو پیچھے بٹھایا۔وہاں سے مزدلفہ تشریف لے گئے‘‘۔

رسولِ اکرمؐ کو قصواء اس قدر محبوب تھی کہ اسے دیگر اُونٹنیوں کی طرح کھونٹے سے باندھ کر نہیں رکھا جاتاتھا بلکہ اسے کھلا چھوڑا جاتا تھا۔ قصواء کا دائمی مسکن جنت البقیع کے قریب ایک چراگاہ تھی۔ قصواء وہاں قرب وجوار کی جھاڑیوں سے چرتی تھی۔رسولِ اکرمؐ قصواء کو پیار سے کبھی ’جدعائ‘ بھی کہہ کر بلاتے۔ کبھی ’قضبائ‘ اور کبھی’ عصباء ‘کہتے۔گویا یہ سب قصواء کے نام ہیں۔قصواء کو  اُونٹوں کے دوڑ کے مقابلوں میں بھی کبھی کبھار شریک کرایا جاتا تھا۔حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں:’’جب کبھی قصواء کو اُونٹوں کے مقابلوں میں شریک کروایا گیا تو قصواء دوڑ میں ہمیشہ بازی لے گئی‘‘۔

حضرت سعید بن المسیبؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ دوڑ کے مقابلے میں قصواء پیچھے رہ گئی اور دوسری اُونٹنی اس پر سبقت لے گئی۔ اس پر مسلمانوں کو افسوس ہوا ۔ جب نبی کریمؐ کو معلوم ہوا تو آپؐ نے فرمایا:’’دنیا کی چیزوں میں جس چیز کو لوگ بہت زیادہ بلند مقام دینے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ضرور اسے اس کے مقام سے گراتا ہے‘‘۔

قصواء رسولِ اکرمؐ کی خدمت میں۱۱سال تک رہی۔ آپؐ کی وفات جہاں تمام صحابہ کرامؓ کے لیے عظیم صدمہ تھا وہاں قصواء کے لیے بھی حضوؐر کی وفات کسی بڑی مصیبت سے کم نہ تھی۔  صحابہ کرام ؓ اس صدمے سے نکل آئے مگر قصواء کو رسولِ اکرمؐ کی جدائی برداشت نہ ہوسکی۔ شدتِ غم کی وجہ سے خود اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ رہی۔ قصواء نے کھانا پینا ترک کردیا۔ آنکھوں سے مسلسل آنسو بہتے ر ہتے تھے، یہاں تک صحابہ کرامؓ نے اس پر رحم کھاتے ہوئے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔ رسولِ اکرمؐ کی وصال کے بعد قصواء پر کوئی سوار نہ ہوا، پھر حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کا ایک سال بھی پورا نہیں ہوا کہ قصواء بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔