جنوری ۲۰۱۵

فہرست مضامین

احترامِ خواتین اور قرآن کریم

ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی | جنوری ۲۰۱۵ | عالم نسواں

Responsive image Responsive image

قرآن پاک کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مردوں کی طرح خواتین بھی یکساں توقیر اور احترام کی مستحق ہیں اور اس معاملے میں کسی تفریق یا امتیاز کی گنجایش نہیں ہے۔ مرد کو قوام بنانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ بربناے جنس وہ برتر اور افضل ہے اور عورت کم تر اور کم مرتبہ ہے، بلکہ گھر کی چھوٹی سی وحدت میں سربراہی کا مقام مرد کو حاصل ہے اور معاشی کفالت، محافظت و مدافعت کی ذمہ داری اُسی کے مضبوط کندھوں پر رکھی گئی ہے۔ اسی وجہ سے اُسے یک گونہ فضیلت حاصل ہوگئی ہے، مگر یہ فضیلت کلّی نہیں ہے بلکہ صرف وہ فضیلت ہے جو مرد کی قوامیت کو ثابت کرتی ہے۔ قرآن کہتا ہے:

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ ط (النساء ۴:۳۴) مرد عورتوں کے سرپرست ہیں، بوجہ   اس کے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی ہے اور بوجہ اس کے کہ انھوں نے اپنے مال خرچ کیے۔

قرآن کریم کے اسلوب پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مرد اور عورت دونوں کی فضیلت اور امتیاز کا اعتراف ہے۔ مرد کی فضیلت یہ ہے کہ اُسے باہر کی دنیا میں ہاتھ پائوں مارنے کی استعداد زیادہ دی گئی ہے اور حفاظت اور دفاع کی صلاحیت اور ہمت نسبتاً زیادہ بخشی گئی ہے۔  بعض دوسرے پہلو خواتین کے امتیاز اور فضیلت کے ہیں۔ گھر سنبھالنے، بچوں کی پرورش و پرداخت کرنے اور عائلی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کا صبروتحمل اور حکمت و فراست سے مقابلہ کرنے کی جو صلاحیت خواتین میں ہوتی ہے، مرد اُس سے محروم ہوتے ہیں۔ اُوپر کی آیت میں قرآن نے ابہام کا اسلوب اختیار کیا ہے: ’’جس سے مرد اور عورت دونوں کا کسی نہ کسی پہلو سے صاحب ِ فضیلت ہونا نکلتا ہے لیکن قوامیت کے پہلو سے مرد ہی کی فضیلت کا پہلو راجح ہے‘‘۔۱؎

رقابت فساد کی جڑ ھے

خواتین کو مردوں کی طرح گھر سے باہر سماجی و معاشی جدوجہد کرنے کے لیے پوری آزادی حاصل ہے۔ اگر ضرورت لاحق ہو تو وہ اپنے فطری دائرۂ کار سے آگے بڑھ کر متحرک ہونے کا حق رکھتی ہیں، کیونکہ اسلامی معاشرے میں دونوں اصناف کے درمیان کوئی معرکہ آرائی نہیں ہے۔ دنیوی مال و متاع کے حصول کے لیے باہمی کش مکش اور تنازعات سے یہ معاشرہ پاک ہوتا ہے۔ اس میں اس بات کی گنجایش نہیں ہے کہ کوئی طبقہ دوسرے کے خلاف صف آرا ہو، اس کی عیب چینی کرے، اس کی خامیوں پر انگشت نمائی کرے اور اُس کے مقابلے میں اپنے حقوق کی جنگ لڑے۔ صنفین کی ساخت اور خصوصیات میں تنوع ہے اور اسی لیے وظائف ِحیات اور ذمہ داریوں میں بھی رنگارنگی اور بوقلمونی ہے۔ اس تصورِ مساوات کو قرآن نے اس انداز میں بیان کیا ہے کہ مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ جیسی کمائی کریں گے اُسی کے مطابق اُن کا حصہ ہوگا۔ جو جتنی اور جیسی بھلائی یا بُرائی کمائے گا اُسی کے مطابق اللہ کے ہاں حصہ پائے گا۔

وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍط لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا ط وَ لِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ ط وَسْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا o (النساء ۴:۳۲)، اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو، جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق اُن کا حصہ۔ ہاں، اللہ سے اُس کے فضل کی دعا مانگتے رہو، یقینا اللہ ہرچیز کا علم رکھتا ہے۔

اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی جدوجہد کرنے اور گھر سے باہر بھاگ دوڑ کرنے کی آزادی حاصل ہے اور جو کچھ وہ کمائیں گے اُن کا حصہ شمار ہوگا۔ اکتساب کی یہ آزادی دنیاوی و روحانی دونوں میدانوں میں ہے۔ قرآن نے ایسا اسلوبِ بیان اپنایا ہے جس میں آخرت کے ساتھ دنیا کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا بھی شامل ہے۔ اگر یہ آیت معنوی مقاصد کے حصول کے لیے یکساں آزادی دینے کے اعلان تک محدود نہیں ہوتی تو آیت کے اوّلین حصے کا جوڑ بے ربط ہوتا، جس میں اہلِ ایمان مردوں اور عورتوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ    وہ دوسروں کی کمائی اور اُن کے مقدر پر حسد اور لالچ نہ کریں اور اللہ نے جو کچھ اُن کے نصیب میں لکھا ہے اُس پر شاکر و صابر اور قانع رہیں۔

اس آیت میں ایک اخلاقی تعلیم یہ بھی دی گئی ہے کہ اجتماعی زندگی میں بدامنی اور انتشار کی بڑی وجہ صبروقناعت کا فقدان اور حسد ورقابت کا بڑھتا ہوا میلان ہے۔ قدرت نے تمام انسانوں کو یکساں نہیں بنایا ہے۔ خوب صورتی و بدصورتی میں، طاقت اور کمزوری میں، آواز کی نرمی و کرختگی میں، سلیم الاعضا ہونے اور جسمانی طور پر ناقص ہونے میں، حالات کی بہتری و بدتری میں، صلاحیتوں اور قابلیتوں کے فرق و امتیاز میں دنیا کے انسان برابر نہیں ہیں اور اسی عدمِ برابری پر انسانی تمدن کی عمارت قائم ہے اور ثقافت و تہذیب کی ترقی منحصر ہے۔ اس فطری فرق و امتیاز کو ختم کردیا جائے تو معاشرے میں فساد رُونما ہوجائے اور تمدن کا ارتقا تھم جائے۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (۱۹۰۳ئ-۱۹۷۹ئ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیںکہ: ’’آدمی کی یہ ذہنیت کہ جسے کسی حیثیت سے اپنے مقابلے میں بڑھا ہوا دیکھے، بے چین ہوجائے، یہی اجتماعی زندگی میں رشک، حسد، رقابت، عداوت، مزاحمت اور کشاکش کی جڑ ہے، اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو فضل اُسے جائز طریقوں سے حاصل نہیں ہوتا اسے پھر وہ ناجائز تدبیروں سے حاصل کرنے پر اُتر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں اِسی ذہنیت سے بچنے کی ہدایت فرما رہا ہے۔ اس کے ارشاد کا مدّعا یہ ہے کہ جو فضل اُس نے دوسروں کو دیا ہو اس کی تمنا نہ کرو، البتہ اللہ سے فضل کی دعا کرو، وہ جس فضل کو اپنے علم و حکمت سے تمھارے لیے مناسب سمجھے گا، عطا فرمادے گا‘‘۔(تفہیم القرآن، ج اوّل، ص ۳۴۸)

مولانا امین احسن اصلاحیؒ (۱۹۰۶ئ-۱۹۹۷ئ) فرماتے ہیں کہ:’’ تنافُس (باہمی مقابلہ) کا اصلی میدان اکتسابی صفات کا میدان ہے، صفاتِ خلقت یا فطری ترجیحات کا نہیں۔ یہ میدان نیکی، تقویٰ، عبادت، ریاضت، توبہ، انابت یا زیادہ جامع الفاظ میں ایمان و عمل کا میدان ہے۔ اس میں بڑھنے کے لیے کسی پر کوئی روک نہیں ہے۔ مرد بڑھے وہ اپنی جدوجہد کا پورا ثمرہ پائے گا۔ عورت بڑھے وہ اپنی سعی کا پھل پائے گی۔ اگر کسی میں کچھ فطری اور خلقی رکاوٹیں ہیں تو اس کے کسر کا جبر بھی یہاں موجود ہے۔ خدا نے خلقی طور پر جو فضیلتیں بانٹی ہیں اُن سے ہزارہا اور لکھوکھا درجہ زیادہ اس کا فضل یہاں ہے تو جو فضیلت کے طالب ہیں وہ اس میدان میں اُتریں اور خدا کے  فضل کے طالب بنیں۔ دینے والا سب کی طلب، سب کے ذوق و شوق، اور سب کی نیت اور سب کے اخلاص سے واقف ہے اور اس کے خزانے میں نہ کمی ہے، نہ وہ دینے میں بخیل ہے، تو غلط میدان میں اپنی محنت برباد کرنے سے کیا حاصل ہے؟ جس کو قسمت آزمائی کرنی ہو اس میدان میں کرے‘‘۔ (تدبرقرآن، ج ۲،ص ۶۰)

اخلاقیات کی مساویانہ پاس داری

قرآن یہ صراحت بھی کرتا ہے کہ مرد اور عورت دونوں کی روحانی ترقی مطلوب ہے اور رضاے الٰہی کے حصول کے لیے اور روحانیت کے اعلیٰ مدارج طے کرنے کے لیے یکساں مواقع دونوں کو حاصل ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادایگی دونوں پر فرض ہے۔ اسلامی اخلاق و کردار کا مظاہرہ دونوں سے بحیثیت عادت اور صفت کے ہونا چاہیے۔ دین کا ظاہر، اسلام اور اس کا باطن، ایمان دین کی ایک جامع تعبیر ہے اور یہ دونوں بیک وقت مطلوب ہیں۔ دل کی پوری یکسوئی اور پوری نیازمندی کے ساتھ خدا و رسول کی فرماں برداری، قول و فعل کا صدق، صبرواستقامت اور استقلال و پامردی، فروتنی و خاکساری اور جلالِ خداوندی کا استحضار، انفاق و تصدق، ضبط ِ نفس اور تربیت صبر کے لیے روزوں کا اہتمام ، زیب و زینت کی جاہلانہ نمایش سے پرہیز اور عفت و عصمت پر اصرار اور ذکر الٰہی___ یہ وہ اعلیٰ درجے کی صفات ہیں جن سے مرد اور عورت دونوں کو متصف ہونے کی ضرورت ہے۔ اِن ہی صفاتِ محمودہ سے اسلامی معاشرہ وجود میں آتا ہے اور اسلامی اخلاق و کردار کی جلوہ گری ہوتی ہے۔ قرآن کہتا ہے:

اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصّٰئِمٰتِ۔ٓ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَھُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ لا اَعَدَّ اللّٰہُ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا (الاحزاب ۳۳:۳۵)، اطاعت کرنے والے مرد اور اطاعت کرنے والی عورتیں، ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں۔ فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرماں برداری کرنے والی عورتیں، راست باز مرد اور راست باز عورتیں، ثابت قدمی دکھانے والے مرد اور ثابت قدمی دکھانے والی عورتیں، فروتنی اختیار کرنے والے مرد اور فروتنی اختیار کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والی عورتیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد رکھنے والے مرد اور اللہ کو کثرت سے یاد رکھنے والی عورتیں۔ اِن کے لیے اللہ نے مغفرت اور اجرعظیم تیار کر رکھا ہے۔

اس آیت میں قرآن نے ۱۰ صفات گنائی ہیں اور اسلامی اخلاق کے جملہ پہلوئوں کو اُن کے اندر سمیٹ لیا ہے:

۱- اسلام، یعنی ظاہری اطاعت و فرماں برداری۔ ۲- ایمان، یعنی دین کا باطن جس میں اخلاص اہم ہے۔ ۳- قنوت، مکمل تابع داری اور کامل یکسوئی کے ساتھ خدا کی اطاعت۔ ۴- صدق، یعنی قول و فعل اور ارادہ تینوں کی استواری۔ ۵- صبر، یعنی پامردی اور مستقل مزاجی۔ ۶- خشوع، جو استکبار کی ضد ہے۔ اس سے خدا کے آگے جھکنے اور خلقِ خدا کے لیے مہربان ہونے کی صفت پیدا ہوتی ہے۔۷- صدقہ، حقوق العباد کی ادایگی کے لیے اپنا مال دوسروں پر خرچ کرنا۔۸- روزہ، صبر کی تربیت کا سب سے مؤثر ذریعہ۔۹- عفت و حیا، جس کے لیے حفظ فروج کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔۱۰- ذکرخداوندی، جو تمام محمود صفات کا منبع ہے۔(تدبرقرآن، ج ۵،ص ۲۲-۲۲۴)

اس آیت میں مسلمان مرد اور عورت دونوں کے لیے ایک آئینہ فراہم کیا گیا ہے جس میں وہ اپنی تصویر دیکھ سکتے ہیں اور اپنی اصلاح کرکے اپنے آپ کو سنوار سکتے اور رب کی خوشی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہاں خواتین کا تذکرہ ضمناً نہیں بلکہ مردوں کے پہلو بہ پہلو مستقلاً آیا ہے، کیونکہ وہ معاشرے کا بالکل نصف اور برابر حصہ ہے بلکہ معاشرے کی تعمیروتخریب میں اُن کی شراکت قدرے زائد ہے۔

اطاعتِ رسولؐ کا یکساں مطالبہ

سورئہ احزاب میں اُوپر مسلمان مردوں اور عورتوں کی مطلوبہ صفات و اخلاقیات فراہم کرنے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہؓ (م:۸ھ/ ۶۲۹ئ) کی زندگی کے ایک اہم واقعے کا تذکرہ اور اس سے متعلق اصولی ہدایات دی گئی ہیں۔

حضرت زید بن حارثہؓ کا تعلق قبیلہ کلب سے تھا۔ یہ بچپن میں دشمن کی کسی غارت گری میں گرفتار ہوئے اور غلام بنائے گئے۔ حکیم بن حزام نے ان کو اپنی پھوپھی حضرت خدیجہؓ کے لیے خریدا۔ حضرت خدیجہؓ جب رسولؐ اللہ کے عقدِنکاح میں آئیں تو انھوں نے ان کو آنحضرتؐ کو ہبہ کردیا۔ اس طرح اُن کو حضوؐر کی غلامی کا شرف حاصل ہوا۔ حضوؐر کی غلامی کی جو قدروعزت اُن کی نگاہ میں تھی اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ان کے والد اور چچا نے آنحضرتؐ سے اُن کی آزادی کا مطالبہ کیا تو حضوؐر نے ان کو اختیار دے دیا کہ وہ چاہیں تو اپنے باپ کے پاس چلے جائیں، اور چاہیں تو حضوؐر کی خدمت میں رہیں۔ اس موقعے پر حضرت زیدؓ نے آزادی کا اختیار نامہ پاجانے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کو ترجیح دی۔ اس کے بعد حضوؐر نے ان کو آزاد کردیا ، اور ان کی محبت دوچند ہوگئی۔

اللہ کے رسولؐ نے حضرت زیدؓ کی عزت افزائی کے لیے ان کا نکاح اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت حجشؓ (م: ۲۰ھ/۶۴۱ئ) کے ساتھ کردیا۔ ان کا تعلق خاندانِ بنی اسد سے تھا۔ اس نکاح پر عزیزوں اور رشتہ داروں نے اعتراض کیا کہ حضرت زیدؓ ایک آزاد کردہ غلام اور غیرکفو ہیں۔ لیکن رسول ؐ اللہ غلاموں کے تعلق سے لوگوں کے افکار میں انقلابی تبدیلی پیدا کرنا چاہتے تھے اس لیے آپؐ نے نکاح پر اصرار فرمایا۔ آخرکار حضرت زینبؓ راضی ہوگئیں اور نکاح ہوگیا۔

منافقین اس معاشرتی اصلاح کو آسانی سے قبول نہ کرسکتے تھے، اس لیے انھوں نے اس نکاح کے خلاف ایک مخالفانہ فضا پیدا کردی۔ انھوں نے حضرت زینبؓ کو بھی ورغلانے کی کوشش کی۔ عین ممکن ہے کہ ان باتوں کا ان کے دل پر اثر پڑا ہو۔ فضا میں بدگمانی بہرحال گشت کرگئی اور حضرت زیدؓ کو احساس ہونے لگاکہ حضرت زینبؓ احساسِ برتری رکھتی ہیں اور اس نکاح سے خوش نہیں ہیں۔ چنانچہ انھوں نے حضرت زینبؓ کو طلاق دے دی کہ اُن کی کبیدگی بھی رفع ہوجائے اور خود اُن کے سر کا بوجھ بھی اُتر جائے۔ طلاق کے بعد حضرت زینبؓ کو صدمہ ہوا۔ اب اُن کی دل داری کی صورت صرف یہ رہ گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود اُن سے نکاح کرلیں مگر دورِ جاہلیت کی رسم آڑے آرہی تھی۔ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس رسم کی اصلاح فرمائی اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ انسانوں کی مخالفت سے بے پروا ہوکر حضرت زینبؓ کو اپنے عقدِ نکاح میں لے لیں۔ اس ہدایت کے مطابق آپ نے حضرت زینبؓ سے نکاح کرلیا۔۲؎

اس واقعے پر تبصرہ کرنے اور اس سے متعلق ضروری ہدایات دینے سے پہلے اللہ نے   سورئہ احزاب میں ایک قاعدہ کلیہ بیان کیا کہ جب اللہ اور رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو اس میں کسی مومن مرد یا عورت کے لیے کسی چون و چرا کی گنجایش باقی نہیں رہتی:

وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ ط وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا o (احزاب ۳۳:۳۶)، کسی مومن یا مومنہ کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو ان کے لیے اس میں کوئی اختیار باقی رہ جائے اور جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے گا تو وہ کھلی ہوئی گمراہی میں پڑا۔

مولانا اصلاحی فرماتے ہیں کہ یہ آیت آگے آنے والے واقعے کی تمہید ہے۔ اس کا تعلق خاص حضرت زیدؓ اور حضرت زینبؓ سے نہیں ہے بلکہ اس کی نوعیت ایک کلیہ کی ہے کیونکہ ان دونوں میں سے کسی نے بھی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فیصلے کی مخالفت نہیں کی تھی۔حضرت زینبؓ کو جب معلوم ہوا کہ حضوؐر کی خواہش یہی ہے کہ حضرت زیدؓ سے اُن کا رشتہ ہوجائے تو انھوں نے اس خواہش کے آگے اپنا سر جھکا لیا، اور بعد میں جب حضوؐر نے اپنے لیے پیامِ نکاح بھیجا تو انھوں نے استخارہ کے بعد ہی اسے منظور کرلیا۔ اسی طرح حضرت زیدؓ نے بھی حضوؐر کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی۔ طلاق نہ دینے کے باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو انھوں نے ناصحانہ مشورے پر محمول کیا، اس کو کوئی فیصلہ نہ سمجھا، اور جب انھیں محسوس ہوا کہ حضرت زینبؓ سے نباہ کی کوئی صورت باقی نہیں بچی ہے تو انھیں طلاق دے دی۔ مولانا اصلاحیؒ کے نزدیک آیت میں   بیان کردہ حکم کی نوعیت ایک عام کلیہ کی ہے جس کے بیان کے لیے وقت کے حالات و واقعات نے مناسب فضا پیدا کردی تھی۔(تدبرقرآن، ج ۵، ص ۲۳۳)

آیت میں قاعدۂ کلیہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے کہ کسی مسلمان مرد اور عورت کے لیے روا نہیں ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کی خلاف ورزی کریں۔ یہ بات ایمان کے تقاضوں کے بالکل خلاف ہے، اور جو اِس کا ارتکاب کرتا ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت،وہ صریح ضلالت کا مرتکب ہوتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کو مستوجب ہے۔ اگر دلوں میں ایمان کی شمع روشن ہے تو اللہ اور اس کے رسولؐ کے کسی فیصلے پر اعتراض کرنے کی گنجایش نہیں رہ جاتی۔ رسولؐ جو فیصلہ بھی کرتا ہے اللہ کی اجازت اور اس کے حکم سے کرتا ہے۔ اِس وجہ سے اُس کی حیثیت مُطاع مطلق کی ہوتی ہے۔

حریف نھیں، رفیق

قرآن نے اہلِ ایمان کے معاشرے کی جو تصویر کھینچی ہے اس میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھی، دست و بازو اور ہمدرد و غم گسار ہیں۔ وہ اس مشترک خصوصیت کے مالک ہوتے ہیں کہ نیکی کو فروغ دیں، بُرائی سے نفرت کریں، خدا کی یاد خون بن کر ان کی رگوں میں دوڑے، راہِ خدا میں خرچ کرنے کے لیے اُن کے دل اور ہاتھ کھلے ہوں ، اور خدا و رسولؐ کی   فرماں برداری اُن کی زندگی کا وتیرہ ہو۔ اس مشترک اخلاقی مزاج اور طرزِ زندگی نے انھیں آپس میں ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ وہ معاشرے میں حریف بن کر کشاکش اور کش مکش پیدا نہیں کرتے بلکہ رفیق بن کر ایک دوسرے کے لیے سہارا ثابت ہوتے ہیں: ’’مومن بندے جب اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کے لیے نکلتے ہیں تو مومن بندیاں اُن کے پائوں کی زنجیر اور گلے کا پھندا بننے کی کوشش نہیں کرتیں بلکہ سچے دل سے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور اپنے ایثار، اپنی دعائوں، اور اپنی بے لوث وفاداری اور امانت داری سے ان کے جہاد میں تعاون کرتی ہیں اور اس طرح خود بھی اجروثواب میں شریک بنتی ہیں‘‘(تدبرقرآن، ج ۳، ص ۶۰۵)۔اہلِ ایمان کی یہ تصویرکشی اہلِ نفاق کی تصویر سے بالکل مختلف اور متصادم ہے۔

منافق مردوں اور عورتوں کی جو کیفیت اور صورتِ حال اسی سورہ میں بیان ہوئی ہے وہ اہلِ ایمان واخلاص کی کیفیت کے بالکل برعکس ہے۔ اگرچہ ایمان کا ظاہری اقرار اور اسلام کی پیروی کا خارجی اظہار دونوں گروہوں میں مشترک ہے لیکن دونوں کے مزاج، اخلاق، اطوار، عادات اور طرزِفکروعمل ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ منافق کی زبان پر ایمان کا دعویٰ ہے مگر دل سچے ایمان سے خالی ہے۔ بقول مولانا مودودی: ’’اُوپر کے لیبل پر تو لکھا ہے کہ یہ مُشک ہے مگر لیبل کے نیچے جو کچھ ہے وہ اپنے پورے وجود سے ثابت کر رہا ہے کہ یہ گوبر کے سوا کچھ نہیں۔ بخلاف اس کے جہاں ایمان اپنی اصل حقیقت کے ساتھ موجود ہے وہاں مشک اپنی صورت سے اپنی خوشبو سے، اپنی خاصیتوں سے ہر آزمایش اور ہرمعاملے میں اپنا مُشک ہونا کھولے دے رہا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج ۲، ص ۲۱۴)

منافق مرد اور خواتین دونوں برابر کے شریکِ جرم ہیں۔ منافقین کے ساتھ قرآن نے منافقات کا بھی ذکر کیا ہے تاکہ نفاق زدہ خواتین کو تنبیہہ ہو کہ مردوں کے ساتھ ان کا بھی انجامِ بد مقدر ہے۔ وہ بھی خدا کے غضب سے بچنے والی نہیں ہیں۔ انھوں نے اپنے مردوں پر جان و مال کی محبت کو غالب کردیا ہے اور انھیں بخیل و بزدل بنایا اور دین کے تقاضوں سے غافل کیا ہے تو نفاق کے اِس کھیل میں حصہ داری نبھانے کی وجہ سے یکساں طور پر وہ اللہ کی ناراضی کی مستحق ہیں۔ قرآن بڑی خوب صورتی سے پہلے منافق معاشرے کی کیفیت بیان کرتا ہے:

اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰــفِقٰتُ بَعْضُھُمْ مِّنْم بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَ یَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَھُمْ ط نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَھُمْ ط اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَo وَعَدَ اللّٰہُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْکُفَّارَ نَارَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ط ھِیَ حَسْبُھُمْ ج وَ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ وَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌo (التوبہ ۹: ۶۷-۶۸)، منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک ہی چٹّے کے بٹّے ہیں۔ یہ بُرائی کا حکم دیتے اور بھلائی سے روکتے اور ہاتھوں کو بند رکھتے ہیں۔ انھوں نے اللہ کو بھلا رکھا ہے تو اللہ نے بھی انھیں نظرانداز کردیا ہے۔ یہ منافق بڑے ہی بدعہد ہیں۔ منافق مردوں، منافق عورتوں اور کفار سے اللہ نے جہنم کی آگ کا وعدہ کر رکھا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی ان کے لیے کافی ہے اور ان پر اللہ کی لعنت اور ان کے لیے دائمی عذاب ہے۔

اس کے بعد مومن معاشرے کی تصویر کشی کرتا ہے:

وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَـہٗ ط اُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُھُمُ اللّٰہُ ط اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌo (التوبہ ۹: ۷۱)، اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ یہ بھلائی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے ہیں، اور نماز کا اہتمام کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہیں کہ اللہ ان کو اپنی رحمت سے نوازے گا، اللہ عزیزوحکیم ہے۔

اُوپر کی آیت میں مسلمان مردوں اور عورتوں کی انفرادی حیثیت میں بھی اور اجتماعی سطح پر بھی،ایک دوسرے کا ’ولی‘ قراردیا گیا ہے جس کی جمع ہے اولیا۔ ولی کے معنٰی ہیں دوست، رفیق،  دم ساز ، غم گسار اور محرم راز۔ مسلم معاشرے میں صنفی امتیاز و تفریق کی گنجایش نہیں ہوتی۔ مردوں کے حقوق و فرائض ہیں تو عورتوں کے بھی ہیں۔ امربالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے کی ادایگی میں دونوں ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں۔ اقامت ِ صلوٰۃ اور ایتاے زکوٰۃ کا نظام دونوں مل کر قائم کرتے ہیں۔ دونوں اصناف خدا و رسولؐ کی اطاعت کے لیے پابند عہد ہیں۔ مردوں اور عورتوں کی باہم رفاقت و ولایت کے نتیجے میں معاشرہ رحمت خداوندی کا مستحق بنتا ہے۔ اس پر انعامات الٰہی کا نزول ہوتا ہے اور تجلیاتِ ربانی کے فیضان سے وہ جگ مگ کرتا ہے۔طبقاتی کش مکش، صنفی تفریق، گروہی تصادم، نسلی و لسانی منافرت و مسابقت سے یہ معاشرہ کوسوں دُور ہوتا ہے۔

تکریم خواتین

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں خواتین کی تکریم و توقیر کی تعلیم دی، اُن کے ساتھ عفو و درگزر کا رویہ اپنانے کی تلقین کی اور اُن سے حسنِ سلوک کرنے کا حکم دیا۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

المَرْأۃُ کَالضِّلَع اِنْ اَقَمْتَھَا کَسَرْتَھَا وَ اِنْ اسْتَمتَعتَ بِہَا استَمْتَعتَ بِھَا، وَفِیْھَا عِوَجٌ، (بخاری، الجامع الصحیح، ج۵، ص ۱۹۸۷ئ، حدیث ۴۸۸۹) عورت پسلی کی طرح ہوتی ہے۔ اگر اسے سیدھا کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اور اگر اُسی طرح اس سے استفادہ کرنا چاہو تو استفادہ کرسکتے ہو، کیونکہ اس کے اندر ٹیڑھا پن موجود ہے۔

بعض حضرات اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ عورت پیدایشی طور پر اپنی خلقت کے اعتبار سے ٹیڑھی ہوتی ہے اس لیے وہ فروتر اور کم رُتبہ ہے۔ یہ حدیث کا غلط مطلب نکالنا ہے۔ فحواے کلام بتا رہا ہے کہ خواتین سے دھینگامشتی کرنے، ان کے ساتھ جبروتشدد کا رویہ اختیار کرنے سے منع کیا جا رہا ہے۔ خواتین میں منفعل المزاجی، جذباتیت، اثرپذیری میں سُرعت اور وسعت زیادہ ہوتی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے خواتین سے معاملہ کرتے وقت اُن کی اس فطرت کا لحاظ کرنے اور اُن کے ساتھ چشم پوشی اور رافت و رحمت کا سلوک کرنے کا حکم دیا۔ پسلی کی ہڈی ٹیڑھی ہوتی ہے اور سخت بھی۔ اگر زبردستی اسے سیدھا کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ ٹوٹ جائے گی۔ اللہ نے عورتوں کو منفرد خصوصیات اور ممتاز اوصاف سے ہمکنار کیا ہے۔ ان کی بھرپور رعایت کرنا ضروری ہے۔ ایک دوسری حدیث میں زیادہ صراحت کے ساتھ یہ مثال موجود ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَن کان یُؤمنُ بِاللّٰہِ وَالیومِ الآخِرِ فَلا یُؤْذِی جَارَہ وَاسْتَوْصُوْا بِالنِّسَائِ خَیْرًا فَاِنّھن خُلِقْنَ مِن ضِلْعٍ وَ اِنَّ اَعْوَجَ شَیئٍ فیِ الضِّلَع أعلاہ، فاِن ذَھَبْتَ تُقِیُمہٗ کسرتَہٗ، وَ اِنْ ترکتَہٗ لم یزل أعوجَ فَاستَوصُوا بالنِّسآئِ خَیرًا (ایضاً، حدیث ۴۸۹۰)، جو شخص اللہ پر اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اُس پر لازم ہے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔ عورتوں کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں میری وصیت قبول کرو۔ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور سب سے اُوپر والی پسلی سب سے زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو اسے توڑ دو گے اور    اگر اُسے اس کے حال پر چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی رہے گی، اس لیے عورتوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کے بارے میں میری وصیت قبول کرو۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعلیم بہت اہم ہے۔ اس میں خواتین کے مزاج، ان کی سرشت اور طبیعت کا بھرپور اِدراک ہے۔ اُن کی نفسیات اور طبعی خصوصیات پر بہترین روشنی اس میں ڈالی گئی ہے۔ عام طور پر مردجفاکش، طاقت ور، قوتِ مزاحمت اور قوتِ دفاع کا مالک ہوتا ہے۔ وہ بزور اپنی بات منواناچاہتا ہے۔ عورت رقیق و لطیف مزاج کی حامل ہوتی ہے۔ محبت و عقیدت اور سرفگندگی اس کی فطرت کا ناگزیر حصہ ہوتی ہے۔ مرد اپنی مردانگی کے زعم میں عورت کے لطیف جذبات کی پروا نہیں کرتا۔ وہ دھونس دھاندلی اور جبرواِکراہ سے عورت کو خاموش کرنا چاہتا ہے اور اسے مجبور کر کے اپنے مطالبات تسلیم کرواتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت دی کہ خواتین اپنی جبلت، خلقی فطرت اور مزاجی ساخت کی بناپر تکریم و توقیر کی زیادہ سزاوار ہیں۔اگر ان کی فطرت اور ساخت کو بزور بدلنے کی کوشش کی گئی تو وہ ٹوٹ جائیں گی۔ اُن کی صلاحیتیں ختم ہوجائیں گی اور معاشرے کی تعمیر میں اُن کا کردار صفر ہوکر رہ جائے گا۔ اُن کی قابلیت اور صلاحیت سے فائدہ اُٹھانا ہے اور بہتر سماج کی تشکیل میں ان کی حصہ داری کو یقینی بنانا ہے تو اُن کے مزاج، طبعی ساخت اور صنفی خصوصیات کی بھرپور رعایت رکھو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت بھی کردی کہ میں اُن کے ساتھ ہرحال میں حُسنِ سلوک کرنے اور بھلائی کا معاملہ کرنے کا حکم دیتا ہوں۔ اگر تمھیں اپنی خواتین کے اندر کوئی کجی، ضد اور انانیت کی کوئی رمق نظر آئے تو اشتعال انگیزی اور پُرتشدد کارروائی سے بچو۔ محبت، عفوودرگزر اور حُسنِ سلوک سے انھیں اپنانے اور اُن کا دل جیتنے کی کوشش کرو کیونکہ اگر اُن کا شیشۂ دل ٹوٹ گیا تو خاندان ٹوٹ جائے گا، سماج   بکھر جائے گا اور انسانیت ختم ہوجائے گی۔

ماں کی حیثیت میں عورت سب سے زیادہ مکرم اور واجب الاحترام ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے:

قال جاء رجلٌ اِلی رسولِ اللّٰہ فقال یارسول اللّٰہ، مَنْ اَحَقَّ النَّاس بحُسْن صَحابَتِیْ ، قال: امک، قال ثم من؟ قال: ثم امک، قال: ثم من؟ قال: ثم امک، قال ثم من؟ قال: ثم أبوک(بخاری، الجامع الصحیح، ج۵، ص۲۲۲۷، حدیث ۵۶۲۶)، ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکر سوال کیا:    اے اللہ کے رسولؐ! میرے حُسنِ سلوک کا سب زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں۔ اُس نے پوچھا: اس کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں۔ اس نے تیسری بار سوال کیا: اُس کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں۔ پھر پوچھا: اُس کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا: تیرا باپ۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت ِ جگر حضرت فاطمہؓ کے بارے میں تکریم کے جو الفاظ استعمال کیے، اُن سے دنیا کی تمام بیٹیوں کی قدرومنزلت متعین ہوگئی کیونکہ حضرت فاطمہؓ تمام دخترانِ انسانیت کے لیے اسوہ اور نمونہ تھیں۔ آپؐ نے فرمایا:

فاِنّ ابنتی بَضْعَۃ منّی یریبنی مارابھا ویؤذینی ما ازاھَا (ترمذی، السنن، ابواب المناقب، باب ماجاء فی فضل فاطمۃؓ)،میری بچی میرا ہی گوشت پوست ہے۔ جو بات اس کے لیے موجب ِ تشویش ہوگی وہ میری تشویش کا ذریعہ ہوگی اور جو چیز اس کے لیے باعث ِ اذیت ہوگی اُس سے یقینا مجھے بھی تکلیف پہنچے گی۔

بیوی کے ساتھ حُسنِ سلوک اور اس کی نازبرداری اسلام کی تعلیم ہے یہاں تک کہ خالص مذہبی معاملات میں اس کے جذبات کی رعایت کی تلقین ہے۔ نوافل کی ادایگی سے زیادہ ضروری ہے بیوی سے پیارومحبت کی باتیں کرنا۔ حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے:

جآء رجل الی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: یارسول اللّٰہ، انی کتبت فی غزوۃ کذا وکذا وامرأتی حاجّۃ؟ قال: ارجع فحج مع امراتک(بخاری، الجامع الصحیح، ج۳،ص ۱۱۱۴، حدیث ۲۸۹۶) ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے سوال کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں لکھ لیا گیا ہے، جب کہ میری بیوی حج کرنے جارہی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تم واپس جائو اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی ہی نہیں ، تمام خواتین کی   تعظیم و تکریم کی نصیحت کی۔ مشہور فرمانِ نبویؐ ہے:

حُبِّبَ اِلَیَّ مِنَ الدُّنْیَا النِّسآئُ وَالطِّیبُ وَجُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِی فیِ الصَّلٰوۃِ (نسائی، السنن، کتاب عشرۃ النسآئ، باب حب النسآئ) دنیاوی چیزوں میں میرے لیے محبوب بنا دی گئی ہیں خواتین اور خوشبو اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک رکھی گئی ہے نماز میں۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کے وجود کو پسندیدہ اور محبوب قرار دیا بالکل خوشبو کی طرح۔ کیونکہ عورتوں کا وجود ہی تصویر کائنات میں رنگ بھرتا اور اُسی کے ساز سے سوزِدروں قائم رہ سکتا ہے۔ آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہونے کا اعلان کر کے اللہ کے رسولؐ نے قلبی سکون و اطمینان کا مخزن بتا دیا کہ ذکرالٰہی سے ہی حقیقی مسرت اور شادمانی حاصل ہوتی ہے۔ اِن تینوں چیزوں کا حدیث میں حسین اجتماع اشارہ کرتا ہے اسلامی تہذیب و ثقافت کے عناصر تشکیلی کی طرف۔ علامہ اقبال ؒ نے کتنی خوب صورت ترجمانی کی ہے:

وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اُسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں

شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت ِ خاک اُس کی

کہ ہر شرف ہے اِسی دُرج کا دُرِّمکنوں

مکالماتِ فلاطوں نہ لکھ سکی ، لیکن

اُسی کے بطن سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں

 

حواشی

۱-            اصلاحی، امین احسن، تدبرقرآن، ج ۲، مکتبہ مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور، بار دوم، رمضان المبارک ۱۳۹۶ھ/ستمبر ۱۹۷۶ئ، ص ۶۳-۶۴۔ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے سیّد قطب شہید (۱۹۰۶ئ-۱۹۶۶ئ) کہتے ہیں کہ ’’مرد کی قوامیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ گھر میں اور انسانی سماج میں عورت کی شخصیت اور اس کی تمدنی حیثیت کو ختم کردیا گیا ہے۔ یہ تو خاندان کے اندرون کا مسئلہ ہے کہ کس طرح اس ادارے کا صحیح طور پر نظم اور اس کی حفاظت و صیانت ہو۔ کسی ادارے کے لیے منتظم کے وجود کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ اس میں شریک افراد یا اس کی ذمہ داریوں کو بجا لانے والے نفوس کے وجود، اُن کی شخصیت اور اُن کے حقوق کو ساقط کردیا گیا ہے۔ فی ظلال القرآن، اُردو ترجمہ، سیّد حامد علی، ہندستان پبلی کیشنز، دہلی، ۲۰۰۷ئ، جلد سوم، ص ۲۶۴

۲-            واقعے کی یہ تفصیل مولانا اصلاحی نے تمام روایات کی تحقیق کے بعد فراہم کی ہے۔ اُن کو اس طولِ بیان کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ مستشرقین نے اس واقعے کو اپنی رنگ آمیزیوں سے نہایت مکروہ بنادیا ہے اور صدمے کی بات یہ ہے کہ انھوں نے اس رنگ آمیزی کے لیے سارا مواد ہماری تفسیر وسیرت کی کتابوں ہی سے لیا ہے۔ (تدبرقرآن، ج۵، ص ۲۲۵-۲۲۷)