مارچ ۲۰۱۳

فہرست مضامین

چہرے نہیں، نظام کی تبدیلی

| مارچ ۲۰۱۳ | حکمت مودودی

Responsive image Responsive image

ہماری یہ جماعت جس غرض کے لیے اُٹھی ہے وہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں، اور آغازِ کار کے طور پر اس ملک میں، ایک ایسی سوسائٹی منظم کی جائے جو اسلام کے اصلی اصولوں پر شعور و اخلاص کے ساتھ خود عامل ہو، دنیا کے سامنے اپنے قول و عمل سے اس کی صحیح نمایندگی کرے، اور بالآخر جہاں جہاں بھی اس کی طاقت جڑ پکڑ جائے وہاں کے افکار، اخلاق، تمدن، معاشرت، سیاست اور معیشت کے نظام کو موجودہ دہریت اور مادہ پرستی کی بنیادوں سے اُکھاڑ کر سچی خداپرستی ، یعنی توحید کی بنیاد پر قائم کردے۔ اس جماعت کو یہ یقین ہے کہ موجودہ تہذیب اور اس کا پورا نظامِ زندگی     جن اصولوں پر قائم ہے وہ قطعاً فاسد ہیں اور اگر دنیا کا انتظام انھی اصولوں پر چلتا رہے تو وہ   بڑے ہولناک نتائج سے دوچار ہوگی۔ اس کے جو نتائج اب تک نکل چکے ہیں وہ بھی کچھ کم ہولناک نہیں ہیں، مگر انھیں کوئی نسبت انجام کی اس ہولناکی سے نہیں ہے جس کی طرف یہ تہذیب دنیا کو لیے جارہی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ہم اس دنیا سے کہیں باہر نہیں جی رہے ہیں بلکہ اس کے اندر ہی سانس لے رہے ہیں۔ لہٰذا اگر ہم ان اصولوں کو فاسد اور بدانجام سمجھتے ہوئے بھی منفعلانہ طریقے سے (passively) اسی نظام کے تحت زندگی بسر کیے چلے جائیں اور تہذیب حاضر کے مغربی اماموں اور مشرقی مقلدوں کی پیشوائی و سربراہ کاری کے آگے سپر ڈالے رہیں، تو جس تباہی     کے گڑھے میں یہ دنیا گرے گی اسی میں اس کے ساتھ ساتھ ہم بھی جاگریں گے اور اس انجام کے ہم مستحق ہوں گے۔

ہم پوری بصیرت کے ساتھ یہ جانتے ہیں ، اور اپنے اس علم پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا نے انسان کی رہنمائی کے لیے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے جو ہدایت نازل کی ہے اسی کی پیروی میں ہماری اور سب انسانوں کی فلاح مضمر ہے اور انسانی زندگی کا پورا نظام اسی وقت صحیح چل سکتا ہے، جب کہ  اسے ان اصولوں پر قائم کیا جائے جو انسانوں کے خالق کی دی ہوئی ہدایت میں ہم کو ملتے ہیں۔ ہمارے اس علم و یقین سے یہ فرض خود بخود ہم پر عائد ہوجاتا ہے___ اور یہی فرض خدا نے بھی اپنے مطیع فرماں بندوں پر عائد کیا ہے___ کہ ہم اُس نظامِ زندگی کے خلاف جنگ کریں جو فاسد اصولوں پر چل رہا ہے اور وہ صالح نظام قائم کرنے کے لیے جدوجہد کریں جو خدائی ہدایت کے دیے ہوئے اصولوں پر مبنی ہو۔

یہ کوشش ہمیں صرف اسی لیے نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا کی خیرخواہی ہم سے اس کا مطالبہ کرتی ہے۔ نہیں، ہم خود اپنے بھی سخت بدخواہ ہوں گے اگر اس سعی و جہد میں اپنی جان نہ لڑائیں، کیونکہ جب اجتماعی زندگی کا سارا نظام فاسد اصولوں پر چل رہا ہو، جب باطل نظریات و افکار ساری دنیا پر چھائے ہوئے ہوں، جب خیالات کو ڈھالنے اور اخلاق و سیرت کو بنانے کی عالم گیر طاقتوں پر فاسد نظامِ تعلیم، گمراہ کن ادبیات، فتنہ انگیز صحافت اور شیطنت سے لبریز ریڈیو اور سینما کا تسلط ہو، جب رزق کے تمام وسائل پر ایک ایسے معاشی نظام کا قبضہ ہو جو حرام و حلال کی قیود سے ناآشنا ہے، جب تمدن کی صورت گری کرنے اور اس کو ایک خاص راہ پر لے چلنے کی ساری طاقت ایسے قوانین اور ایسی قانون ساز مشینری کے ہاتھ میں ہو جو اخلاق و تمدن کے سراسر مادہ پرستانہ تصورات پر مبنی ہیں، اور جب قوموں کی امامت اور انتظام دنیا کی پوری زمامِ کار ان لیڈروں اور حکمرانوں کے ہاتھ میں ہو جو خدا کے خوف سے خالی اور اس کی رضا سے بے نیاز ہیں اور اپنے کسی معاملے میں بھی یہ دریافت کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ ان کے خالق کی ہدایت اس معاملے میں کیا ہے___ تو ایسے نظام کی ہمہ گیر گرفت میں رہتے ہوئے ہم خود اپنے آپ کو ہی اس کے بُرے اثرات اور بدتر نتائج سے کب بچا سکتے ہیں۔ یہ نظام جس جہنم کی طرف جا رہا ہے اسی کی طرف وہ دنیا کے ساتھ ہمیں بھی تو گھسیٹے لیے جارہا ہے۔ اگر ہم اس کی مزاحمت نہ کریں اور اس کو بدلنے کی کوشش میں ایڑی چوٹی کا زور نہ لگائیں، تو یہ ہماری اور ہماری آیندی نسلوں کی دنیا خراب اور عاقبت خراب تر کرکے چھوڑے گا۔ لہٰذا محض دنیا کی اصلاح ہی کے لیے نہیں، بلکہ خود اپنے بچائو کے لیے بھی یہ فرض ہم پر عائد ہوتا ہے___ اور یہ سب فرضوں سے بڑا فرض ہے___ کہ ہم جس نظامِ زندگی کو پوری بصیرت کے ساتھ فاسد و مہلک جانتے ہیں اسے بدلنے کی سعی کریں اور جس نظام کے برحق اور واحد ذریعۂ فلاح و نجات ہونے پر ایمان رکھتے ہیں اسے عملاً قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔

اس مختصر گزارش سے آپ یہ بات پاگئے ہوں گے کہ ہمارا اصل مدعا موجودہ نظام کے چلانے والے ہاتھوں کابدلنا نہیں ہے بلکہ خود نظام کا بدلنا ہے۔ ہماری کوششوں کا مقصود یہ نہیں ہے کہ نظام تو یہی رہے اور انھی اصولوں پر چلتا رہے مگر اس کو مغربی نہ چلائے، مشرقی چلائے، یا انگریز نہ چلائے، ہندستانی چلائے، یا ہندو نہ چلائے، ’مسلمان‘ چلائے۔ ہمارے نزدیک محض ہاتھوں کے بدل جانے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ سُور تو بہرحال سُور ہی ہے اور اپنی ذات میں ناپاک ہے، خواہ اسے کافر باورچی پکائے یا مسلمان باورچی، بلکہ مسلمان باورچی کا سُور پکانا اور بھی زیادہ  افسوس ناک ہے اور گمراہ کن بھی۔ بہت سے بندگانِ خدا، حتیٰ کہ اچھے خاصے پرہیزگار لوگ بھی اس ظالم کے ہاتھ کا پکا ہوا سُور اس اطمینان کی بنا پر کھا جائیں گے کہ یہ مسلمان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا ہے، اور اگر پُخت و پُز کے دوران میں چمچے کی ہرگردش پر بآوازِ بلند بسم اللہ پڑھتا رہے، اور اس کے چُنے ہوئے دسترخوان پر مسلمانوں کو کافر کے دسترخوان کی بہ نسبت تناولِ ماحضر کی زیادہ آسانیاں اور آزادیاں میسر ہوں، اور محفلِ طعام کے گردوپیش کچھ ایسے لوازم بھی فراہم کردیے جائیں جو عام طور پر اسلامی لوازم سمجھے جاتے ہیں، تو یہ اور بھی زیادہ سخت دھوکا دینے والی چیز ہوگی۔ اس قسم کی نمایشی اسلامیت اگر موجود ہو تو وہ اس حرام خوراک کو قبول کرلینے کے لیے کوئی سفارش نہیں ہے، بلکہ یہ  ظاہر فریبیاں اس معاملے کو اور بھی زیادہ پُرخطر بنادیتی ہیں۔ لہٰذا ہم کسی ایسی ظاہر تبدیلی پر نہ خود مطمئن ہوسکتے ہیں اور نہ کسی کو مطمئن ہوتے دیکھ سکتے ہیں جس میں یہ فاسد نظام تو جُوں کا تُوں قائم رہے اور صرف اس کے چلانے والے ہاتھ بدل جائیں۔ ہماری نظر ہاتھوں پر نہیں بلکہ ان اصولوں پر ہے جن پر زندگی کا نظام چلایا جاتا ہے۔ وہ اصول اگر فاسد ہوں تو ہم ان کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے اور انھیں صالح اصولوں سے بدلنے کی کوشش کریں گے۔ (جماعت اسلامی کی دعوت، ص ۷-۱۰)