مارچ ۲۰۱۳

فہرست مضامین

کتاب نما

| مارچ ۲۰۱۳ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

 

نورالقرآن [سات تراجم، نو تفاسیر]، مرتب: محمد صدیق بخاری۔ ناشر: سوے حرم پبلی کیشنز،  ۵۳- وسیم بلاک، حسن ٹائون، ملتان روڈ، لاہور- فون: ۴۰۲۱۷۱۳-۰۳۲۱۔ صفحات: اوّل:۵۲۰۔  دوم:۳۴۴۔ سوم:۳۵۰۔ چہارم:۳۰۴۔ ہدیہ (علی الترتیب):  اوّل: ۵۰۰ روپے، دوم: ۴۰۰ روپے، سوم و چہارم: ۵۰۰ روپے۔

محترم محمد صدیق بخاری نے اُردو کے معتبر تراجم (شاہ عبدالقادر، مولانا اشرف علی  تھانوی، مولانا احمد رضا خان، مولانا جونا گڑھی، سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی، محترم جاوید احمد غامدی)اور معتبر تفاسیر (معارف القرآن، خزائن العرفان، تفہیم القرآن، احسن البیان، ضیاء القرآن، تفسیرماجدی، تدبر قرآن، البیان)کے منتخب نکات نُورالقرآن میں جمع کردیے ہیں۔ یہ ایک بہترین کوشش اور کاوش ہے۔ اُردو تفاسیر کے مطالعے کا خواہش مند طالب علم اور عالم ایک مجموعے میں تمام تفاسیر کا مطالعہ کرلیتا ہے، اور اسے انتخاب کی دقت بھی نہیں اُٹھانا پڑتی۔ مترجمین اور مفسرین اپنے دور کی مشہور اور معروف بلندپایہ علمی شخصیات ہیں جو مرجع خلائق تھے اور ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نے پوری عرق ریزی اور محنت سے    قرآنِ پاک کا گہرائی اور گیرائی سے مطالعہ کیا اور اہلِ ایمان کو قرآنِ پاک سے وابستہ کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

آج بھی اہلِ علم ان تفاسیر سے استفادہ کر رہے ہیں۔ مرتب نے استفادہ کرنے والوں کا کام آسان کردیا ہے۔ اس کام کا طریق کار اور مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’مرتب کے پیش نظر کسی خاص مکتب ِفکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دینا ہے۔ اس لیے مرتب نے کہیں بھی اپنا نقطۂ نظر بیان کرنے کی کوشش نہیں کی۔ تمام مکاتب فکر کی آرا کا خلاصہ کم و بیش انھی کے الفاظ میں قاری تک پہنچانا پیش نظر ہے۔ لیکن یہ خیال رہے کہ تمام آرا کو بیان کرنے کا   یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرتب کے نزدیک یہ سب صحیح ہیں۔ ان میں بہتر، غیربہتر یا صحیح یا غلط کا انتخاب قاری کے ذمے ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ نُورالقرآن کے قاری میں جستجو پیدا ہو اور وہ حق کی تلاش میں آگے بڑھے، اہلِ علم سے رجوع کرے اور مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دے تاکہ دینِ حق سے اس کا شعوری تعلق قائم ہو، نہ کہ وہ تعلق جو محض آباواجداد کی روایات اور سنی سنائی باتوں اور  چند تعصبات اور رسوم پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ معاشرے میں دوسروں کی بات سننے، پڑھنے اور اس پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ وسعت اور برداشت کی روایت جنم لے۔ مسالک اور مکاتب فکر کے درمیان فاصلے کم ہوں، نفرت کی دیواریں کمزور ہونا شروع ہوں اور شخصیات کے بجاے دلیل کی حکمرانی قائم ہو۔ اُمیدواثق ہے کہ اس سلسلے میں نُورالقرآن معاون و مددگار ثابت ہوگا‘‘۔ (نُورالقرآنکا مقصد،ص ۳)

مرتب نے قرآن کے ایک طالب علم کے لیے تفاسیر کا تقابلی مطالعہ بالکل آسان کردیا ہے۔ کسی موضوع پر قرآن کا نقطۂ نظر معلوم کرنے کے لیے نو مفسرین کی معاونت ایک ہی جگہ حاصل ہوجاتی ہے۔ ہر طالب علم قرآن کے نو مفسروں کی راے بھی جان سکتا ہے۔

نُورالقرآن کے اب تک چار اجزا سورئہ بقرہ، آل عمران، نساء اور مائدہ مرتب ہوکر سامنے آئے ہیں۔تفسیری نکات سے پہلے مذکورہ بالا سورتوں کا پورا متنِ عربی نقل کیا گیا ہے تاکہ قاری تفسیری نکات سے پہلے قرآن پاک کی تلاوت کا شرف بھی حاصل کرسکے اور متن سے اس کا تعلق کمزور نہ ہو۔ اس کارِخیر پر محمد صدیق بخاری ہدیۂ تبریک کے مستحق ہیں۔ اس سلسلے میں ایک خصوصی گزارش یہ ہے کہ اگر وہ جناب جاوید احمد غامدی کے متنازعہ افکار کو اس تفسیر کا حصہ     نہ بناتے تو بہتر ہوتا۔ بے شک ان کے ایسے خیالات جو متنازعہ نہیں ، جو اختلاف کے باوجود گوارا ہوں، انھیں ضرور شامل کرلیں لیکن اجماع اُمت اور اسلامی نظام کے نظریے کو نقصان پہنچانے والے مضامین سے احتراز کریں تو اس مجموعے کی افادیت ہوگی اور تمام مکاتب ِ فکر اس سے کسی تحفظ کے بغیر استفادہ کریں گے اور عوام کو استفادے کی طرف متوجہ کریں گے۔ اسلامی تحریک کے کارکنان کے لیے بھی یہ قیمتی سرمایہ ہوگا۔(مولانا عبدالمالک)


بایبل، قرآن کی روشنی میں، انجینیرگلبدین حکمت یار (اُردو ترجمہ: ساجد افغانی)۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۲۴۷۶-۰۴۲۔ صفحات: ۸۲۸۔ قیمت:۷۵۰ روپے۔

گلبدین حکمت یار، افغانستان میں اسلامی تحریکِ انقلاب کے مشہور قائد کی حیثیت سے معروف ہیں۔ لیکن کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ وہ ایک دانش ور، محقق اور مصنف بھی ہیں۔ پیش نظر کتاب اپنے موضوع پر ایک منفرد دستاویز ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ افغانستان میں اشتراکی روس کی ناکامی کے بعد مغرب کی صلیبی طاقتوں نے یلغار شروع کی۔ خیراتی اداروں اور مشرقِ بعید سے سیاحت اور ’دوسرے کاموں‘ کی آڑ میں ہزاروں مبلغین کی غیرمسلح افواج اور طائفوں کے لشکر نے افغانستان اور ملحقہ ممالک پر حملہ کر دیا۔ ’افغانستان اور عراق پر صلیبی قوتوں کے مشترکہ حملے اور  مسلم ممالک کی حکومتوں کا انھیں برملا مدد اور خفیہ ساتھ دینے سے واضح ہوگیا کہ اُمت اسلامیہ کتنی مظلوم اور اسلام کتنا تنہا ہے۔ (ص۴)

امداد، خدمت اور تبلیغِ مسیحیت کے رُوپ میں مغربی استعمار کی اس یلغار نے گلبدین حکمت یار  کو اس طرف متوجہ کیا کہ وہ بایبل کا مطالعہ کریں، اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ عہدنامۂ قدیم اور عہدنامۂ جدید کوئی تحریف شدہ الہامی کتابیں نہیں، بلکہ یہ ساری انسانوں کی تصانیف ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ بایبل کی طرف یہ جاننے کے لیے رجوع کریں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے متعلق کیا کہتی ہے، اس کی تعریف کیسے کرتی ہے،اس کی صفات کیا ہیں اور اس کے وجود کے دلائل کیا ہیں، تو آپ کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔ نہ صرف یہ کہ آپ خالی ہاتھ اُٹھیں گے، بلکہ دوسرے بہت سے نئے نئے سوالات آپ کے ذہن میں جنم لیں گے۔ بایبل میں آپ اللہ تعالیٰ کو اس طرح پائیں گے، جیسے وہ ایک کمزور انسان کی طرح ہے۔ اس نے انسان کو اپنی شکل میں پیدا کیا ہے،    وہ صرف بنی اسرائیل کا خدا ہے، ان کے ساتھ ہے، ان کے ساتھ رہتا ہے، وہ اس کی اپنی قوم ہیں، وہ اس کے بیٹے ہیں۔ کبھی کبھار انسان کے رُوپ میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ بنی اسرائیل کے جدِامجد حضرت یعقوب ؑ کے ساتھ اس نے کُشتی بھی لڑی ہے، مگر انھیں پچھاڑنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ (ص۸)

پیش نظر کتاب میں عہدنامۂ قدیم کی ساری ’مقدس کتابوں‘ کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔ اِن میں پیدایش، خروج،، لاوی، گنتی، قضاۃ، سیموئیل، سلاطین، مزامیر اور غزل المغزلات‘ شامل ہیں۔ اِن کتابوں میں سے طویل اقتباسات دے کر مصنف نے ثابت کیا ہے کہ ان میں حضرت ابراہیم ؑ سے حضرت یونس ؑ تک انبیا ؑاور اقوام کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں، اُن سے پڑھنے والے کے ذہن میں اُن کی تقدیس، عظمت اور عزت کے بجاے ان کے بارے میں نہایت منفی تصویریں سامنے آتی ہیں۔

عہدنامۂ جدید، حضرت عیسٰی ؑ کے حواریوں سے منسوب کچھ خطوط اور یادداشتوں پر مشتمل ہے جن میں متیٰ، مرقس اور یوحنا شامل ہیں۔ لوقا تو حضرت عیسٰی ؑکے حواریوں میں سے نہ تھے، مگر اُن کی ’انجیل‘ بھی اناجیل کے مجموعے میں شامل ہے۔ اِن اناجیل میں حضرت عیسٰی ؑ ایک نبی کے بجاے ایک کمزور سے مُصلح دکھائی دیتے ہیں، اپنے مشن میں ناکام ہوکر درجن بھر اصحاب بھی آخر وقت تک اُن کا ساتھ نہ دے سکے۔

بعض انبیاے کرام ؑ کا ذکر اور اُن سے متعلق واقعات قرآنِ مجید اور بایبل دونوں میں آتے ہیں، لیکن ان دونوں کے بیانات کا موازنہ کیا جائے تو الہام اور داستان کا فرق صاف نظر آتا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسماعیل ؑ، حضرت اسحاقؑ، حضرت یعقوب ؑ اور حضرت یوسف ؑسبھی نعوذباللہ بشری کمزوریوں کا شکار نظر آتے ہیں۔ ایسے کردار کے حامل، جو کسی بھی باوقار اور معزز شخص کے ساتھ منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت دائود ؑاور حضرت سلیمان ؑتو معاذاللہ عام سلاطین کی طرح عیش و عشرت کے دل دادہ معلوم ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ ’الہامی کتابیں‘ کسی داستان گو کی کہانیاں نظر آتی ہیں، جس کا مذہب سے لگائو بس واجبی سا ہے۔

بایبل قرآن کی روشنی میں نہایت اہتمام سے طبع ہوئی ہے، تاہم ساجد افغانی  کے اُردو ترجمے پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ’’آتی ہے اُردو زبان آتے آتے‘‘۔(ڈاکٹر عبدالقدیر سلیم)


برزخ، ایک خواب، ایک حقیقت (حصہ اوّل)، دوزخ اور اس کے ہولناک مناظر، ملک عطامحمد۔ ملنے کا پتا: ۸۵-رحمت پارک، یونی ورسٹی روڈ، سرگودھا۔ فون: ۳۲۱۴۶۸۵۔ صفحات: ۴۸۰۔    قیمت: ۱۰۰۰ روپے۔

بڑی تقطیع پر ، عام کتابی سائز کے تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل یہ کتاب اس صنفِ ادب سے تعلق رکھتی ہے جس میں ہم موت کے بعد کا منظر، قبر میں کیا ہوگا؟ وغیرہ میں پڑھتے رہے ہیں اور حال ہی میں ابویحییٰ کی جب زندگی دوبارہ شروع ہوگی نے فروخت کے ریکارڈ قائم کردیے۔ زیرتبصرہ کتاب بھی عالمِ برزخ کے حوالے سے دوزخ اور اس کے ہولناک مناظر کو ایسے بیان کرتی ہے جیسے آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور سب کیرکٹر خود بول رہے ہیں۔ ملک عطامحمدکے سامنے ملک کے حالات ہیں کہ یہاں کام کرنے والے، تباہی لانے والے، غلط راہوں پر لے جانے والے اپنے لیے جہنم کما رہے ہیں۔ ان لوگوں کے انجام کے بارے میں انھیں قرآن و احادیث میں بیان کی ہوئی ساری تفصیلات کا علم ہے۔ شب معراج میں تو رسولؐ اللہ نے دوچار مناظر دیکھے تھے لیکن یہاں ایک مخصوص انداز سے فاضل مصنف ۵۰۰ صفحات کی داستان سے گزارتے ہیں۔  ان کا جدید دور اور عالمی طاقتوں کا علم بھی تازہ ہے۔ اس جامع پس منظر کے ساتھ جب وہ لکھتے ہیں تو ایک نہایت قابل عبرت دستاویز بنتی ہے جس میں آپ کو پہچاننا مشکل نہیں ہوتا کہ جو فحاشی پھیلاتے ہیں ان کے لیے عذابِ الیم کیا ہے؟ ٹی وی چینل کے مالک پر کیا گزر رہی ہے؟ دہریے، کافر اور مشرک اور منافق کا حشر دیکھیے۔ غیبت کرنے والے کی سزا، ڈپٹی کمشنر دوزخ میں،    مولوی دوزخ میں، ساس بہو جہنم میں، وزیر جہنم میں،اور آخری ہے صدر جہنم میں۔ آئینہ وہ رکھ دیتے ہیں، تصویر آپ کو پہچاننا ہوتی ہے۔

معلوم نہیں علماے کرام اس پر کیا فتویٰ دیں، لیکن اگر کوئی فلم ساز اس پوری کتاب پر ۳،۴ملین ڈالر خرچ کرکے کوئی اڑھائی گھنٹے کی فلم بنائے تو یہ ابلاغِ دین کی دورِحاضر کے لحاظ سے انذار کی ایک مؤثر شکل ہوگی۔ مصنف نے بتایا ہے کہ وہ اس کا دوسرا حصہ جنت کے حوالے سے تیار کر رہے ہیں۔ وہ بھی آجائے تووہ بشارت کے لحاظ سے کوشش ہوگی، اور دونوں ایک متوازن تصویر پیش کریں گے، کہ جو چاہے اہلِ جنت کے نقشِ قدم پر چلے، اور جو چاہے جانتے بوجھتے اہلِ جہنم کے راستے پر چلے اور عبرت نہ پکڑے۔طباعت معیاری بلکہ احسن ہے۔ (مسلم سجاد)


تعارف القرآن، عبدالرشید عراقی۔ ناشر: مکتبہ جمال، تیسری منزل، حسن مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۴۰۰۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

قرآنِ کریم دنیا کی واحد کتاب ہے جس کے حوالے سے ہرسال دنیا کی بے شمار زبانوں میں درجنوں کتب تحقیق کے ساتھ طبع ہوتی ہیں اور اس عظیم کتاب کے اسرار و رُموز کو مختلف زاویوں سے پیش کرتی ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب میں قرآن کریم کی سورتوں کے زمانۂ نزول اور ان کے مضامین کے خلاصے کے ساتھ ایک جدول کی مدد سے ترتیب ِ نزولی بھی درج کی گئی ہے۔ کالجوں اور مدارس کے طلبہ کے لیے یہ معلومات افزا کتاب بہت مفید رہے گی ۔ گو اکثر مقامات پر معلومات فراہم کرتے وقت سند کا ذکر بھی آگیا ہے لیکن کتاب کے آغاز میں ص ۲۳ تا ۴۵ جو معلومات درج کی گئی ہیں ان کی سند اور حوالے درج نہیں ہیں۔ اگر اگلی طباعت میں اس کمی کو پورا کرلیا جائے تو بہتر ہوگا۔کتاب سلیس زبان میں ہے اور قرآن کریم کے بارے میں ابتدائی معلومات بہت سلیقے کے ساتھ آگئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مؤلف کو بہترین اجر سے نوازے، آمین!(ڈاکٹر انیس احمد)


لہو پکارے گا آستیں کا، طارق اسماعیل ساگر۔ ناشر: ساگر پبلی کیشنز، ۱۶-ای، ٹمپل روڈ،  مہتہ سٹریٹ، صفانوالہ چوک، لاہور۔ صفحات: ۱۳۶۔ قیمت، مجلد: ۲۵۰ روپے۔

بنگلہ دیش کے آج کل کے حالات میں شرمیلا بوس کی کتاب جو اوکسفرڈ یونی ورسٹی نے Dead Reckoning, Memories of 1971 Bangladesh War کے نام سے شائع  کی ہے، اس کتاب نے برعظیم کی علاقائی سیاست میں اس لحاظ سے کھلبلی مچادی کہ اُن سیکڑوں الزامات کو اس کتاب میں ردکیا گیا ہے جو مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے علیحدگی کے دوران ہزاروں بار اُٹھائے گئے۔ ان میں ۳۰لاکھ افراد کے ہلاک کیے جانے، اور ہزاروں بنگلہ عورتوں کی عصمت دری جیسے الزامات شامل ہیں۔ طارق اسماعیل ساگر نے پاکستانی ذرائع ابلاغ پر زبردست تنقید کرتے ہوئے شرمیلا بوس کی کتاب کے کم و بیش مکمل ترجمے کو لہو پکارے گا آستیں کا کے نام سے شائع کردیا ہے۔ شرمیلابوس نے پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش کی سرکردہ سیاسی و فوجی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ ان تین ممالک کے علاوہ امریکا و برطانیہ کے تحقیقی اداروں کی لائبریریوں کو کھنگالا اور یہ ثابت کر دیا کہ مجیب الرحمن نے نفرت و دشمنی کا جو ہمالیائی تلاطم کھڑا کیا تھا اُس نے افواہوں اور الزامات کا بحرالکاہل تخلیق کر دیا۔ ’ادھر ہم اُدھر تم‘ کے خالق نے ۹۰ہزار فوجیوں کو جنگی قیدی بننے پر مجبور کر دیا اور بنگلہ دیش کی ریاست الاماشاء اللہ وہی فاش غلطیاں کر رہی ہے جو مشترکہ پاکستان کے سیاست دان اور فوجی جرنیل کرتے رہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جھوٹے الزامات کے ذریعے بی این پی، حساب باک کرنے کی کوشش کررہی ہے، جس سے بنگلہ دیش کسی الم ناک سانحے اور عدمِ استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔ بھارتی حکومت کی دیرینہ خواہش یہی ہے۔

اس کتاب کی سطر سطر حقیقی معلومات فراہم کر رہی ہے۔ مصنفہ کا کہنا ہے کہ مَیں نے درجنوں نہیں سیکڑوں بنگلہ دیشی قصبوں اور دیہاتوں کا دورہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ مغربی پاکستان کی فوج نے جن ہزاروں لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتارا تھا اُن کی قبریں دیکھ سکے لیکن ایک دو دیہاتوں کے علاوہ کہیں اور اس کا ثبوت نہ مل سکا۔ شرمیلا نے اُن ’ہزاروں لاکھوں‘ عورتوں سے براہِ راست انٹرویو کرنے کی کوشش کی جن کے اعزہ و اقربا اُن کی ’آنکھوں کے سامنے‘ تہِ تیغ کردیے گئے تھے لیکن مصنفہ کو اس میں بھی ناکامی ہوئی۔ یہی معاملہ آبروریزی کے الزامات کے ساتھ پیش آیا۔

مصنفہ نے انگریزی کتاب میں کھل کر تسلیم کیا ہے کہ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں اُس کے تحقیقی کام کی تحسین نہیں کی گئی، کیونکہ بساطِ سیاست کے کئی چہرے بے نقاب ہورہے تھے۔ اُس نے اپنی تحقیق جاری رکھی اور یہ ثابت کیا کہ بھارتی دشمنی ، امریکی سرپرستی اور پاکستانی   سیاست دانوں کی ہٹ دھرمی نے بنگلہ دیش کے قیام کو حتمی شکل دینے میں کتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں شیخ مجیب الرحمن کو حکومت بنانے کی دعوت دے دی جاتی تو شیخ صاحب ایک ماہ میں اپنی ناکامی کا اعلان کرکے دوبارہ انتخاب کا انعقاد کرنے پر مجبور ہوتے۔ افسوس، ایک سیاسی شاطر کی ہوس نے سب سے بڑی اسلامی مملکت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔

شرمیلا بوس نے غیربنگالیوں کے قتل عام کے حوالے سے بھی تفتیش کی ہے اور بھارت کے گھنائونے کردار کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ لہو پکارے گا آستین کا، کا مطالعہ نہ صرف ماضی کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوگا بلکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کو بھی آیندہ حادثوں سے محفوظ کرنے کی سبیل پیدا کرے گا۔(محمد ایوب منیر)


حاجی گل شہیدؒ، ایک شخصیت، ایک کردار۔ مرتبین: ڈاکٹرمحمداقبال خلیل، نورالواحد جدون۔ ناشر: اسلامک پبلی کیشنز، منصورہ، لاہور۔ فون : ۳۵۴۱۷۰۷۴-۰۴۲۔ صفحات:۱۴۴۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

حاجی دوست محمد حاجی گل شہیدؒ جماعت اسلامی پشاور کے روحِ رواں تھے۔ سانحۂ قصۂ خوانی میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ جماعتی و سیاسی حلقوں، ہرمکتبۂ فکر کے علماے کرام اور خدمت خلق کے حوالے سے معروف تھے۔ بلدیہ پشاور کے کونسلر منتخب ہونے پر اصلاحِ معاشرہ، منکرات کے خاتمے اور امن و امان کے لیے ’علما کمیٹی براے اصلاحِ معاشرہ‘ قائم کی اور مثالی جدوجہد کے ذریعے شاہی باغ یونین کونسل کو مثالی حلقہ بنا دیا۔ جماعت اسلامی کے ہفتہ وار اجتماع کے خصوصی اہتمام، محلے و مسجد کی سطح پر کام، دارالمطالعے، ڈسپنسریوں اور خدمت خلق، نیز علماے کرام اور مؤثر لوگوں سے خصوصی رابطہ و تعلق کی بنا پر جماعت کے کام کو وسیع پیمانے پر آگے بڑھایا۔ دینی مدارس کے قیام اور انفاق فی سبیل اللہ سے خصوصی شغف تھا اور بڑے مہمان نواز تھے۔ کتاب میں اہلِ خانہ، دوست احباب اور تحریکی رفقا کے تاثرات بھی دیے گئے ہیں جن سے ان کی شخصیت کے مختلف گوشے سامنے آتے ہیں۔ آخر میں غوث الرحمن شہید، مکرم صافی شہید، ملک حسام الدین شہید، گل نذیر شہید اور غلام سرور شہید کا تذکرہ ہے جو حاجی گل شہید کے ساتھ شہید ہوئے تھے۔ کتاب ایک مثالی کارکن کا تذکرہ ہے جو دوسروں کے لیے تحریک کا باعث ہے۔(امجد عباسی)

تعارف کتب

  •  قرآن کے کثیرالمعانی الفاظ ،  صابر شاہ فاروقی۔ ناشر: مکتبہ تطہیرافکار، مرکز اسلامی ، جی ٹی روڈ، پشاور۔ صفحات: ۵۸۸۔قیمت: ۵۷۰ روپے۔[قرآنِ مجید میں مستعمل اُن مادوں اور الفاظ کو حروفِ تہجی کے اعتبار سے زیربحث لایا گیا ہے جو کثیرالمعانی ہیں، اور ان کے متفرق اساسی معانی کو مختلف لُغات کی مدد سے اُجاگر کیا گیا ہے، نیز آیاتِ قرآنی دی گئی ہیں جن میں یہ الفاظ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ حصہ اوّل ہمزہ سے شین تک کے الفاظ پر مشتمل ہے۔]
  • مجلہ نقطۂ نظر ، (اکتوبر۲۰۱۲ء-مارچ ۲۰۱۳ء)،مدیر: سفیراختر۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، گلی نمبر۸، سیکٹر۳/۶-ایف، اسلام آباد۔ فون: ۱-۸۴۳۸۳۹۰-۰۵۱۔صفحات:۶۳۔ قیمت: درج نہیں۔ [نقطۂ نظر، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کا شش ماہی مجلہ ہے جس میں قرآن، حدیث، سیرت النبیؐ، اسلامی افکار وعقائد،  تصوف، اسلامی تحریکات، مغرب اور اسلام، تاریخ و سوانح، ادب، لسانیات جیسے متنوع موضوعات کے تحت  کتب پر تبصرے شائع کیے جاتے ہیں۔ زیرنظر شمارے میں mاندلس میں علمِ حدیث کا ارتقا از محمد احمد زبیری، mسیرت نگاری: آغاز و ارتقا، از نگار سجاد ظہیر، mعہدِنبویؐ کا بلدیاتی نظم و نسق، از نجمہ راجا یٰسین، mبرصغیر میں اہلِ حدیث کی سرگزشت، از محمد اسحاق بھٹی، mمقالاتِ جاوید از جاوید اقبال پر تبصرے ہیں۔ ’کتاب نامہ‘ کے تحت اندلس کے موضوع پر جامع مطالعہ بھی شاملِ اشاعت ہے۔]