مارچ ۲۰۱۳

فہرست مضامین

مالی: مغربی طاقتوں کی نئی رزم گاہ

پروفیسر شہزادالحسن چشتی | مارچ ۲۰۱۳ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

۱۱ جنوری ۲۰۱۳ء کو شمال مغربی افریقہ کے ملک ’مالی‘ کے شمالی علاقے میں فرانس نے اسلامی جہادی قوتوں کے خلاف اپنی زمینی فوجیں اُتار دیں اور بے تحاشا بم باری کی۔ گذشتہ سال، اپریل ۲۰۱۲ء میں مالی کے شمالی حصے میں جہادی قبائل جنوب کی مرکزی حکومت سے علیحدگی اختیار کرکے ملک کے ۶۰ فی صد حصے پر قابض ہوگئے اور ۶؍اپریل کو ’مملکت ازداد‘ کے قیام و آزادی کا اعلان کردیا۔ اس مملکت میں اہم شہر ٹمبکٹو،کدار اور مویٹی شامل ہیں۔ مجاہدین نے جنوب میں بھی مزید علاقے پر قبضہ کرلیا۔ اس طرح اہم شہر ’کونا‘ اور چاول کے کھیتوں اور ماہی گیروں کی کشتیوں سے گھرے شہر ڈایا بیلی پر بھی ۱۴جنوری کو قبضہ کرلیا۔ یہ شہر مرکزی محلِ وقوع کا حامل ہے اور ملک کے کئی اہم راستوں کے سنگم پر واقع ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق فرانس نے یہ علاقہ خالی کروا لیا ہے۔

مالی کسی زمانے میں اسلامی تہذیب کا ایک روشن ستارہ ہوا کرتا تھا۔ حالیہ مسلح کارروائیوں کے سبب باقاعدہ جنگ کا میدان بنا ہوا ہے۔شمالی مالی کا اہم جہادی گروپ ’انصارالدین‘ہے جو مالی کو ’اسلامی امارت‘ بنانا چاہتا ہے۔ مسلمانوں کا ایک اور گروپ ’لبرل گروپ‘ ہے جس نے مرکزی حکومت سے آزادی کے اعلان سے قطع تعلق کا اعلان کیا ہے۔ وہ پہلے اعلانِ آزادی میں اسلامی قوتوں کے ساتھ تھا۔ انصارالدین کے کمانڈر عمر نے اعلان کیا ہے کہ’ ’ہماری جنگ اسلامی اصولوں کے مطابق لڑی جائے گی۔ ہم بغاوت اور علیحدگی کی تحریک کے خلاف ہیں۔ ہم اس انقلاب کے خلاف ہیں جو اسلام کے مطابق نہ ہو۔ ہم اللہ کی رضا کے لیے سب کچھ کر رہے ہیں‘‘۔

مالی شمال مغربی افریقہ میں صحارا کے ریگستان میں ایک مسلمان مملکت ہے۔ اس کی آبادی ایک کروڑ ۴۵لاکھ ۱۸ہزار سے زائد ہے، جب کہ رقبہ ۱۲لاکھ ۴۰ہزارایک سو۹۲ مربع کلومیٹر ہے۔   ۸۰ فی صدآبادی مسلمان ہے جو مختلف قبائل پر مشتمل ہے۔ ۲ فی صد عیسائی ہیں، جب کہ ۱۸ فی صد مظاہرپرست ہیں۔ دارالحکومت ’باما کو‘ جنوبی علاقے کا بڑا شہر ہے۔ ملک معدنی ذخائر سے مالامال ہے، خصوصاً یورینیم کے ذخائر بڑے پیمانے پر موجود ہیں جن پر بیرونی قوتوں کی للچائی نگاہ ہے۔ ’اتحاد افریقی علما‘ نام کی ایک تنظیم کے مطابق ’حکومت مخالف مسلح تنظیمیں‘ دو طرح کی ہیں۔ ایک  قومی تحریک براے آزادیِ اَزداد ہے جو علاقے میں ایک خودمختار سیکولر ریاست قائم کرنا چاہتی ہے۔ دوسرے نقاذِ شریعت کا مطالبہ کرنے والی مسلح تحریکیں ہیں جن میں دو گروہ ہیں: ۱- انصار الدین نامی گروہ سب سے بڑا گروہ ہے، ۲-تحریک توحید و جہاد ہے، اس میں مالی کے علاوہ موریطانیہ اور الجزائر کے نوجوان بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ آخر الذکر کو القاعدہ سے منسلک سمجھا جاتا ہے۔

۱۹۶۰ء میں مالی کو فرانس کی استعماری حکومت سے آزادی ملی۔ جاتے جاتے فرانس نے اپنے گماشتوں کی حکومت قائم کردی۔ تب سے اب تک ملک میں کئی فوجی بغاوتیں ہوچکی ہیں اور اَزداد کی علیحدگی کی اب یہ چوتھی بڑی کاوش ہے جہاں آزاد حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

جب سے مالی میں موجودہ صورت حال نے جنم لیا ہے، قدرتی طور پر فرانس پر وحشت طاری ہے کیونکہ وہاں اس کے مفادات خطرے میں ہیں، لہٰذا اس نے واویلا شروع کر دیا ہے۔ اپنے یورپی ہمسایوں، امریکا اور اقوامِ متحدہ کو دہائی دے رہا ہے۔انسانی حقوق کی انجمنوں کو توجہ دلارہا ہے۔ افریقی ممالک کی یونین (ECOWAS) سے مدد کی درخواست کی گئی ہے کہ اس ’خطرے‘ سے نبٹا جائے۔ افریقی ممالک کی یونین خصوصاً نائیجیریا نے اپنی فوجیں جلد بھیجنے کی حامی بھرلی ہے۔ ٹوگو اور نائیجیریا سے کچھ فوجی بھی پہنچ گئے ہیں۔ ۱۶۰۰ فوجی نائیجر میں موجود ہیں۔

فرانس نے گذشتہ سال اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے ایک قرارداد منظور کرائی جس کا مقصد مالی میں شمالی علاقوں سے باغیوں کا قبضہ ختم کرانا اور افریقی اتحاد کی افواج کو وہاں تعینات کرنا تھا۔ لیکن جب افریقی اتحاد کی فوج کو مالی میں کارروائی کے حوالے سے دیر ہوئی تو فرانس نے اپنی زمینی فوجیں اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر مالی کے شمالی حصے میں اُتار دی ہیں، تقریباً ۱۹۰۰ فوجی۔ ان فوجیوں نے فوجی کارروائی شروع کردی ہے اور فوجی طیاروں سے بم باری کی جارہی ہے۔   اس کے باوجود وہ اب تک کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکا ہے۔ مغربی ذرائع کا کہنا ہے کہ    بڑی تعداد میں مجاہدین مارے گئے ہیں اور انھوں نے علاقے کو چھوڑ کر بھاگنا شروع کر دیا ہے۔ پھر یہ بھی اطلاع دی گئی ہے کہ قبائل نے فرانس کے فوجیوں کا ہاتھ ہلاہلا کر استقبال بھی کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی اطلاع ہے کہ بڑی سخت مزاحمت ہے اور مجاہدین اپنے محفوظ ٹھکانوں سے حملہ آورہورہے ہیں۔

فرانس نے امریکا اور دوسرے ممالک کو متوجہ کرنے کے لیے یہ شوشہ بھی چھوڑا ہے کہ القاعدہ کا ایک گروپ جو لیبیا میں برسرِپیکار تھا وہ وہاں سے فارغ ہوکر مالی مجاہدین کی مدد کو آپہنچا ہے۔ لیکن امریکا کے ڈیفنس سیکرٹری لیون ہرپینٹ نے کہا ہے کہ القاعدہ کے حوالے سے ہمارا اصل ہدف یمن اور صومالیہ ہیں جہاں القاعدہ کے مراکز ہیں۔ ابھی القاعدہ نے مالی یا شمالی افریقہ میں کوئی مرکزقائم نہیں کیا ہے۔ ہماری مدد فنی نوعیت کی ہی ہوگی۔ پھر یہ کوشش بھی ہے کہ نائیجیریا کے بوکوحرام نامی مسلمان مجاہدین کو اس قضیے میں ملوث قرار دیا جا رہا ہے۔

برطانیہ کے لیے مالی کے حالات پریشان کن ہیں۔ اس نے فرانس کی فوجی کارروائی کی حمایت کی ہے۔ حکومت برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ اخلاقی مدد فراہم کرے گی، یعنی محدود پیمانے پر لاجسٹک مدد جو دو بڑے RAF C-17 جنگی ٹرانسپورٹ جہازوں پر مشتمل ہوگی اور چند تکنیکی فوجی ماہرین ان کی حفاظت کے لیے ساتھ ہوں گے۔ اسی طرح کی حمایت کا اعلان کناڈا کی حکومت نے بھی کیا ہے۔ یورپی یونین کئی ہزار فوجی جوانوں پر مشتمل قافلہ آیندہ چند ہفتوں میں روانہ کرے گا۔

فرانس کی فوجی مداخلت اور دوسری کارروائیوں کے باعث مالی کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ فرانس نے ناٹو سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ مالی کے حالات کے پیش نظر وہاں فوجی کارروائی کرے، جب کہ خود فرانس ناٹو کی فوجوں سے علیحدہ ہوکر افغانستان سے بھاگ کھڑا ہوا ہے۔

فرانس اور مغربی دنیا مالی کے مجاہدین کو ’مسلم شدت پسند‘ اور ’دہشت گرد‘ قرار دیتے ہیں۔ یہ ’شدت پسند‘ اپنے زیرقبضہ علاقوں میں اسلامی قوانین نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ مجاہدین کی صفوں میں رخنہ ڈالنے کے لیے یہ حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے کہ مالی کے مختلف مذہبی اور غیرمذہبی گروپوں کو آپس میں اُلجھا دیا جائے۔ لہٰذا آزاد خیال گروپ کو ان سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی گئی۔    مغربی افریقہ میں چونکہ صوفیت کے بڑے اثرات ہیں، ان کی چھوٹی بڑی خانقاہیں، درگاہیں اور ذکروفکر کے مراکز ہیں، ان کو بھی ورغلایا جارہا ہے اور ساتھ ہی قدامت پسندوں کو بھی اُبھارا جا رہا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغربی دنیا بنیادی طور پر صہیونیوں کے زیراثر ہے، اور صلیبی جنگ کے حوالے سے بھی پُرامن اسلامی شریعت کے نفاذ کو ہرحال میں روکنا چاہتی ہے۔ گویا یہ ساری کوششیں اپنے ذاتی مفاد کے پیش نظر اور اسلام کے غلبے کو روکنے کے لیے ہیں۔

جنوبی مالی کو بچانے اور مجاہدین کا زور توڑنے کے ابتدائی مقصد کے حوالے سے فرانسیسی فوجوں کی کارروائی اب تک کی اطلاعات کے مطابق کامیاب دکھائی دیتی ہے۔ افریقی ممالک، یورپی یونین، برطانیہ اور امریکا ، کناڈا، ڈنمارک سے مختلف نوعیت کی مدد پہنچنا شروع ہوچکی ہے۔ پھر فرانسیسیوں کا خیال ہے کہ چونکہ مالی کے دیہی علاقوں میں جہادیوں نے لوگوں کا جینا حرام کررکھا ہے اس لیے ممکن ہے کہ بہت سے شہری ان سے انتقام لینے کے معاملے میں فرانس کی فوجوں سے مدد لیں۔ ان حالات کے پیش نظر فرانس کے وزیرخارجہ لارینٹ جنیس کا کہنا ہے کہ مالی میں فرانسیسی فوجی کارروائی چند ہفتوں کامعاملہ ہے لیکن دی اکانومسٹ نے اپنے ۲۶جنوری کے شمارے میں راے ظاہر کی ہے ’’مگر ایسا لگتا نہیں ہے‘‘۔ ہوسکتا ہے کہ مالی میں حقیقی استحکام پیدا کرنے میں مزید کچھ وقت لگ جائے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ فرانس ناٹو افواج کی موجودگی کے باوجود افغانستان کے ’میدانِ جہاد‘ کو چھوڑ بھاگا تھا تو مالی کے میدان سے بھی رفوچکر ہوجائے۔