مارچ ۲۰۱۳

فہرست مضامین

تفہیم القرآن: عصرِحاضر کی بے مثال تفسیر

مولانا جان محمد عباسی | مارچ ۲۰۱۳ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

تفہیم القرآن کا دنیا بھر کی بڑی بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے اور چاردانگ عالم میں بیسویں صدی کی اس فقیدالمثال کتاب کا مطالعہ ہورہا ہے۔ برعظیم پاک و ہند کی تو تمام چھوٹی بڑی زبانوں، مثلاً ہندی، بنگالی، گجراتی، مرہٹی اور اب سندھی وغیرہ میں یہ تفسیر منتقل ہوچکی ہے۔  اس کے علاوہ انگریزی، فرانسیسی، روسی، ترکی، فارسی، پشتو زبانیں بھی اپنا دامن تفہیم کے ترجمے سے بھرچکی ہیں۔ قرآنِ حکیم کا گہرا مطالعہ انسان کو خدا کے قریب لاتا ہے اور تفہیم القرآن کا  بغور مطالعہ پڑھنے والے کو قرآن آشنا بناکر اسے اسلام کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور کردیتا ہے۔ آج بھی دنیا میں سیکڑوں ایسے نومسلم آپ کو ملیں گے جو تفہیم القرآن ہی کو پڑھ کر مسلمان ہوئے ہیں۔ اس کتاب نے ہزاروں نہیں لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بدل دیں ہیں۔ اصل تو یہ معجزہ قرآن کا ہے لیکن اس کا کریڈٹ تفہیم القرآن کے ذریعے قرآن سمجھانے والے اس عبقری انسان کو جاتا ہے جسے دنیا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے نام سے جانتی ہے۔ سید مودودیؒ اس صدی کے عظیم ترین انسان تھے اور ان کی تالیف تفہیم القرآن بیسویں صدی کی بے مثال تفسیر سمجھی جائے گی۔ اس صدی میں کئی ایسی کتابیںلکھی گئی ہیں جن کو دنیا عظیم کتابیں کہتی ہے اور جن کے مصنفین و مؤلفین کو نوبیل پرائز اور دوسرے انعامات ملے ہیں، لیکن ان میں سے اکثر کتابیں صرف چالیس پچاس سال ہی کے اندر بھلا دی گئی ہیں لیکن تفہیم القرآن ہے کہ دن بدن اُبھر رہی ہے اور آئے دن اس کی چمک دمک اور اس کے قارئین میں اضافہ ہورہا ہے۔

کسی بھی کتاب کی اصل اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب وقت گزرنے کے  ساتھ ساتھ وہ اپنا سکّہ لوگوں کے دلوں پر بٹھاتی چلی جائے۔ کوئی بھی کتاب اگر ایک صدی گزر جانے کے بعد اتنی ہی توانا اور مقبول رہتی ہے جتنی کہ اپنی اشاعت کے وقت تھی تو ایسی کتاب کو اکثر نقاد ورلڈ کلاسیک (World Classic) گردانتے ہیں۔ تفہیم القرآن نے ابھی تو اپنی زندگی کی ایک صدی کی مدت بھی پوری نہیں کی لیکن جس تواتر سے یہ چھپ رہی ہے اور جس تیزی سے دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کے ترجمے ہورہے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتاب اکیسویں صدی میں اور چمکے گی۔ بعض حلقوں کی طرف سے تفہیم القرآن کے مؤلف کی اہمیت گھٹانے کی کوششیں کی گئیں لیکن کتاب اور اس کا مؤلف مزید چمکے اور اُبھرے گا اور یہ سلسلہ ان شاء اللہ جاری رہے گا    ؎

ہرگر نمیرد آں کہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما

تفہیم القرآن اور اس کا مرحوم و مغفور مفسر حافظ شیرازیؒ کے اس شعر کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ تفہیم القرآن کا مرحوم و مغفور مفسر علوم جدید و قدیم کا ایک بحرِذخّار تھا۔ اس نے کتابوں کی الماریاں نہیں، لائبریریاں پڑھی اور ہضم کی تھیں۔ یہ عبقری انسان چونکہ اللہ والا تھا اس لیے اپنے علم کو اس نے دین اسلام کی سچائی ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا۔ علم کے ہتھیار سے لیس ہوکر اس نے اپنے دور کے تمام جاہلی افکار کو للکارا۔ مسلمانوں کے مغرب گزیدہ طبقوں کے ذہن سے مرعوبیت کھرچ کھرچ کر نکالنے کے ساتھ ساتھ اس نے فتنۂ انکارِ سنت اور فتنۂ انکار ختم نبوت کو پاکستان سے دیس نکالا دینے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ سید مودودیؒ ایک ترتیب کے ساتھ مطالعہ کرتے تھے۔ جدید انسان کے ذہن میں دین اسلام کی سچائی سے متعلق جو شبہات موجود ہوتے، سید مرحوم ان سے بخوبی آگاہ رہتے اور ان شبہات کو ذہن میں رکھ کر اپنے تئیں کچھ سوالات قائم کرلیتے۔ ممکن ہے کہ ایسے سوالات ان کی کسی نوٹ بک میں موجود ہوتے ہوں۔ پھر مطالعے کے دوران میں ان سوالات کے جوابات تلاش کرتے اور سوچتے رہتے۔ سیدمودودیؒ چوں کہ خود پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوچکے تھے، اس لیے ان کا مطالعہ بھی اسلام کے لیے تھا اور ایسے ہربامقصد مطالعے اور علم کے متعلق مولانا رومیؒ فرماتے ہیں    ؎

علم را برتن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود

سید مودودیؒ جہاں جہاں ضرورت پڑتی ہے جدید علوم سے قرآن کی تفہیم کی خدمت لیتے ہیں۔ تفہیم القرآن کے اوراق میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ اس مختصر تحریر میں چند مثالوں ہی پر اکتفا کروں گا۔

سورئہ طارق میں ارشاد ہوتا ہے: ’’ پھر ذرا انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ ایک اُچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے‘‘ (آیات ۵تا۷)۔ اس سورہ کے حاشیے میں مولانا فرماتے ہیں: ’’اصل صُلب اور ترائب کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ صُلب ریڑھ کی ہڈی کو کہتے ہیں اور ترائب کے معنی ہیں: سینے کی ہڈیاں، یعنی پسلیاں۔ چونکہ عورت اور مرد دونوں کے مادئہ تولید انسان کے اس دھڑ سے خارج ہوتے ہیں جو صُلب اور سینے کے درمیان واقع ہے، اس لیے فرمایا گیا کہ انسان اس پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے۔ یہ مادہ اُس صورت میں بھی پیدا ہوتا ہے، جب کہ ہاتھ اور پائوں کٹ جائیں۔ اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ یہ انسان کے پورے جسم سے خارج ہوتا ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۶،ص ۳۰۴)

 اس حاشیے کو پڑھنے کے بعد ایک ڈاکٹر نے مولانا کو لکھا کہ آپ کی تشریح مَیں نے بغور کافی دفعہ پڑھی ہے لیکن مَیں نہ سمجھ سکا۔ یہ مادہ فوطے میں پیدا ہوتا ہے اور باریک باریک نالیوں کے ذریعے بڑی نالیوں میں گزرتا ہوا پیٹ کی دیوار پر کولہے کی ہڈی کے عین متوازی ایک نالی میں سے گزر کر قریب ہی ایک غدود میں داخل ہوجاتا ہے اور پھر وہاں سے رطوبت لے کر اس کا اخراج ہوتا ہے۔ سینے کی ہڈی اور ریڑھ کی ہڈی کے درمیان سے اس کے گزرنے کو مَیں نہ سمجھ سکا۔ میری درخواست ہے کہ آپ مجھے مفصل لکھیں کہ اس کی تفسیر کیا ہے۔

اس کے جواب میں مولانا مودودیؒ نے نومبر ۱۹۷۱ء کے ترجمان القرآن میں لکھا: اگرچہ جسم کے مختلف حصوں کے اعمال (functions) الگ الگ ہیں لیکن کوئی حصہ بھی بجاے خود تنہا کوئی فعل نہیں کرتا بلکہ دوسرے اعضا کے تعامل (co-ordination) سے اپنا کام کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ اسی لیے قرآنِ مجید میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ یہ مادہ ریڑھ کی ہڈی اور سینے کی ہڈیوں میں سے نکلتا ہے بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ ان دونوں کے درمیان جسم کا جو حصہ واقع ہے، اس سے یہ مادہ خارج ہوتا ہے۔ یہ اس بات کی نفی نہیں ہے کہ مادہ منویہ کے بننے اور اس کے اخراج کا ایک خاص نظامِ عمل (mechanism) ہے جسے جسم کے کچھ خاص حصے انجام دیتے ہیں، بلکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نظامِ عمل مستقل بالذات نہیں ہے۔ یہ اپنا کام اس پورے نظامِ اعضا کے مجموعی عمل کی بدولت انجام دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے صلب اور ترائب کے درمیان رکھ دیا ہے۔ اس سوال و جواب کو پڑھنے کے بعد دو مختلف مقامات سے دو ڈاکٹروں نے مولانا کے موقف کی حمایت کی اور ان کو لکھا۔ علاوہ بریں مادئہ منویہ اگرچہ انثیین پیدا کرتے ہیں اور وہ کیئسہ منویہ (seminal vesicles) میں جمع ہوجاتا ہے مگر اس کے اخراج کا مرکز تحریک بین الصلب والترائب ہی ہوتا ہے اور دماغ سے اعصابی روجب اس مرکز کو پہنچتی ہے تب اس مرکز کی تحریک (trigger action) سے کیئسہ منویہ سکڑتا ہے اور اس سے ماء دافق پچکاری کی طرح نکلتا ہے۔ اس لیے قرآن کا بیان ٹھیک ٹھیک     علم طب کی جدید تحقیقات کے مطابق ہے۔ اس حوالے سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ مولانا مودودیؒ نے عضویات اور انسانی ساخت کی تشریح کے متعلق علوم کا مطالعہ اس حد تک تو ضرور کیا ہے کہ  ڈاکٹر حضرات بھی ان کے اس علم کو ناقص نہیں کہہ سکتے، اور اس سے بھی اہم تر بات یہ ہے کہ مولانا نے یہ علم قرآن سمجھنے اور سمجھانے کے لیے حاصل کیا اور پھر اپنی بے پناہ زبان دانی کی مدد سے اسے استعمال کیا۔ بہت ہی کم لوگوں کو ایسے بامقصد اور بانظام (systematic) علم حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔

مولانا نے کائنات کے عمل کو سمجھنے اور قرآن کی روشنی میں اسے سمجھانے کے لیے فلکیات کا گہرا مطالعہ کیا۔ تفہیم القرآن میں اس علم کے جدید ترین نظریات کے حوالے بھی ملتے ہیں۔ مولانا نے پروفیسر عبدالحمید صدیقی کی انگریزی سے ترجمہ کردہ کتاب خدا موجود ہے کے تعارف میں ایک ایسے نظریے (super dense state theory) کا ذکر کیا ہے جس سے دنیا اس وقت آگاہ نہیں تھی۔ جب انھوں نے سورئہ انبیا کا حاشیہ نمبر۲۸ تحریر فرمایا تھا تو اس حاشیے میں    بیان کردہ حقائق کو بعد میں حاصل شدہ علمی معلومات کی مدد سے نہیں جھٹلایا جاسکتا۔ سورئہ انبیامیں  اللہ پاک کا ارشاد ہے: کیا وہ لوگ جنھوں نے (نبیؐ کی بات ماننے سے) انکار کردیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انھیں جدا کیا۔

اس پر مولاناؒ مذکورہ بالا حاشیہ نمبر۲۸ میں لکھتے ہیں: ’’اصل میں لفظ ’رتق‘ اور ’فتق‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ ’رتق‘ کے معنی ہیں یک جا ہونا، اکٹھا ہونا اور ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہونا، متصل اور متلاحق ہونا، اور فتق کے معنٰی پھاڑنے اور جدا کرنے کے ہیں۔ بظاہر ان الفاظ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کی ابتدائی شکل ایک تودے کی سی تھی۔ بعد میں اس کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کرکے زمین اور دوسرے اجرامِ فلکی جدا جدا دنیائوں کی شکل میں بنائے گئے۔ (نوٹ) سپر ڈینس اسٹیٹ نظریہ بھی یہی کہتا ہے۔

حم السجدہ میں ارشاد ہوتا ہے: پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا، جو اس وقت محض دھواں تھا (آیت ۱۱)۔ یہاں پر وَھِیَ دُخَانٌ کی تشریح کرتے ہوئے مولاناؒ لکھتے ہیں: ’’دھوئیں سے مراد مادے کی وہ ابتدائی حالت ہے جس میں وہ کائنات کی صورت گری سے پہلے ایک بے شکل منتشر الاجزا غبار کی طرح فضا میں پھیلا ہوا تھا۔ موجودہ زمانے کے سائنس دان اسی چیز کو سحابیے (Nebula) سے تعبیر کرتے ہیں اور آغازِ کائنات کے متعلق ان کا تصور بھی یہی ہے کہ تخلیق سے پہلے وہ مادہ جس سے کائنات بنی ہے اسی دخان یا سحابی شکل میں منتشر تھا‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۴،ص ۴۴۵)

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ صاحب تفہیم القرآن سے اشارہ پاکر جدید علوم قرآن کی خدمت کے لیے کس طرح حاضر ہوجاتے ہیں۔ حجاز اور مشرق وسطیٰ کی تاریخ اور جغرافیے کے متعلق تو مولاناؒ اس میدان کے کسی بھی بڑے سے بڑے ماہر (specialist) سے کم نہیں ہیں۔ ایسے علاقے اور مقامات جہاں پر انبیاے علیہم السلام نے اپنے فرائض مذہبی اور فرائض منصبی سرانجام دیے، ان کے تو چپے چپے سے مولاناؒ واقف ہیں۔ وہ شاید اچھرہ سے اتنے واقف نہ ہوں جتنے انبیاے علیہم السلام کے علاقوں سے واقف تھے۔ مکہ، مدینہ، طائف اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں موجود حجاز کے دوسرے شہر، قصبے اور مختلف قبائل کے ٹھکانوں سے تو وہ اتنے آشنا تھے کہ یوں لگتا ہے جیسے انھوں نے اپنی زندگی وہیں گزاری ہو۔ محب کو محبوب کا گھر اپنے گھر سے زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ حجاز مولانا مودودیؒ کا روحانی وطن تھا۔ مولاناؒ کا طریقِ تفسیر یہ ہے کہ وہ ہر سورت کا تاریخی پس منظر بیان کرنے کے بعد اس کا ترجمہ اور تفسیر بیان کرتے ہیں۔ تاریخی پس منظر اس قدر واضح اور شفاف ہوتا ہے کہ متعلقہ سورہ میں بیان کردہ واقعہ نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔ اقوام اور تہذیبوں کی تاریخ اس قدر جامع لیکن مختصر ہوتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ دریا کو کوزے میں بند کردیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں سورئہ فیل کا پس منظر اور سورئہ بروج کا حاشیہ بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں۔ مکہ پر ہاتھیوں سے چڑھائی کرنے والے یمن کے حبشی حاکم اَبرھہ اور اس کی سلطنت کی تاریخ  سورئہ فیل کے پس منظر میں بیان کی گئی ہے اور واقعات کی ترتیب انتہائی مؤثر انداز میں ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج کر جب حملہ آور فوج پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر پھنکوائے تو پوری فوج میں بھگدڑ مچ گئی۔

مولاناؒ فرماتے ہیں: اس بھگدڑ میں یہ لوگ گرگر کر مرتے رہے۔ عطا بن یسار کی روایت ہے کہ سب کے سب اسی وقت ہلاک نہیں ہوئے بلکہ کچھ تو وہیں ہلاک ہوئے اور کچھ بھاگتے ہوئے راستے بھر گرتے چلے گئے۔ اَبرھہ بھی بلادِ خثعم پہنچ کر مرا۔ اللہ تعالیٰ نے حبشیوں کو صرف یہی سزا دینے پر اکتفانہیں کیا بلکہ تین چار سال کے اندر یمن سے حبشی اقتدار ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعۂ فیل کے بعد یمن میں اُن کی طاقت بالکل ٹوٹ گئی، جگہ جگہ یمنی سردار علَمِ بغاوت لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ اس بیان سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ صاحب ِتفہیم نے واقعات ایسے مؤثرانداز میں پیش کیے ہیں کہ ساری صورتِ حال کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ اس طرح یہودیوں، رومیوں، عاد و ثمود اور دوسری اقوام کا جب تذکرہ کرتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ حالات و واقعات کا آنکھوں دیکھا حال بیان فرما رہے ہیں۔ غزواتِ النبیؐ کی تو پوری تاریخ تفہیم القرآن سے مرتب کی جاسکتی ہے بلکہ نعیم صدیقی صاحب نے تو حضوؐر کی سیرت کا کافی حصہ تفہیم القرآن کی مدد سے مرتب کیا ہے۔ اس طرح عبدالوکیل علوی صاحب ِتفہیم الاحادیث  کے عنوان سے ایک کتاب تالیف کر رہے ہیں جوکئی جِلدوں پر پھیلی ہوئی ہوگی اور ان میں اکثر وہ احادیث ہیں جن کا متن اور جن کی تشریح تفہیم القرآن میں ملتی ہے۔

اگر کوئی صاحب چاہیں بیسیوں فقہی مسائل تفہیم القرآن سے نکال کر ایک کتاب ترتیب دے سکتے ہیں۔ نکاح و طلاق، جنگ و صلح، وراثت کا قانون اور دوسرے کئی ایسے مسائل ہیں جو پوری تفصیل کے ساتھ نہ صرف بیان کیے گئے ہیں بلکہ مغربی اور دوسرے غیراسلامی قوانین سے ان کا موازنہ کرتے ہوئے قرآنی قانون کو واضح برتری اور اس کی افادیت ناقابلِ تردید استدلال سے ثابت بھی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ جہاں جہاں ضرورت محسوس کی گئی ہے وہاں ڈارون ازم، مارکسزم اور دوسرے ملحدانہ فلسفوں پر کاری ضربیں لگائی گئی ہیں۔ ایسے مواقع پر مولاناؒ کی اُردو    ادبی معراج کی حدوں کو چھو رہی ہوتی ہے۔ غرضیکہ تفہیم القرآن میں حدیث، سیرت، تاریخ، اقوام، فقہ اور جدید و قدیم فلسفوں اور قوانین پر ایک علمی ذخیرہ موجود ہے اور منطق و استدلال کے ساتھ زبان کی چاشنی ایسی کہ بقول انگریزی ادب کے معروف پروفیسر ڈاکٹر احسن فاروقی مرحوم کہ مولانا مودودیؒ محض خشک واعظ نہیں ہیں، بلکہ ایک ایسے نثرنویس ہیں کہ دنیا کے بڑے بڑے ادیبوں کی تحریروں کے مقابلے میں ان کی اُردونثر پیش کی جاسکتی ہے۔

 بعض حاسد اور نیم خواندہ حضرات مولانا مودودیؒ پر یہ الزام دھرتے ہیں کہ انھوں نے تفہیم القرآن میں اسلاف کی آرا کو نظرانداز کرتے ہوئے قرآنِ پاک کی من مانی تشریح پیش کی ہے۔ تفہیم القرآن کا ایک ایک حاشیہ اس بہتان اور اتہام کی تردید کرتا ہے۔ میں عرض کروں گا کہ آپ صرف سورئہ نور کا حاشیہ نمبر۲ اور ۶ دیکھ لیجیے۔ معلوم ہوگا کہ مملکت اسلامیہ کا قاضی القضاۃ اپنا فیصلہ (judgement) سنا رہا ہے، اور تمام قانونی پہلوئوں پر مستند حوالوں کے ساتھ بحث کر رہا ہے۔ مولاناؒ کا طریق تفسیر یہ ہے کہ کسی مقام کی تفسیر کرتے وقت پہلے وہ قرآن کے دوسرے مقامات سے اس کی وضاحت پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد متعلقہ احادیث کا ایک ذخیرہ      اپنے قاری کے سامنے پیش کردیتے ہیں۔ پھر صحابہؓ کے اقوال اور اس کے بعد تابعین، تبع تابعین ، ائمہ اربعہ اور سلف اور خلف کے علماے دین اور صلحاے اُمت کی آرا ترتیب کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ختمِ نبوت کے مسئلے پر کی گئی بحث کا حوالہ دے کر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔

مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن جلد چہارم میں سورۃ الاحزاب کے حاشیہ ۷۷ کے سلسلے میں ایک ضمیمہ بھی دیا ہے۔ یہ حاشیہ سورئہ احزاب کی آیت ۴۰ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے   لکھا گیا، آیت کا ترجمہ ہے:

(لوگو) محمدؐ تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں مگر وہ اللہ کے رسولؐ اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔

چونکہ اس آیت میں آپؐ کو خاتم النبیین فرمایا گیا ہے، اس لیے آیت کی تفسیر بیان کرنے کے بعد مولانا مرحوم نے ردِ قادیانیت کی خاطر ختم نبوت کے موضوع پر ضمیمہ لکھ کر سیرحاصل بحث کی ہے۔ ضمیمہ ایک علمی شاہکار ہے۔ سب سے پہلے مولانا مرحوم نے لغت کی رُو سے خاتم النبیینؐ کے معنی اور مفہوم بیان فرماتے ہیں۔ اس کے بعد ختم نبوت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات دیتے ہیں۔ حضوؐر کے یہ کُل ۱۴ ارشادات ہیں۔ اس کے بعد یہ بتاتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کا اس بات پر اجماع ہے کہ حضوؐر کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ آخر میں یہ بات آئی ہے کہ تمام علماے اُمت کا متفقہ طور پر یہ ایمان (اجماع) ہے کہ محمدؐ ہی آخری نبی ہیں اور ان کے بعد اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا، اور کوئی خبیث اگر ایسا دعویٰ کرتا ہے تو وہ کذاب ہے اور دجال ہے اور اپنے تمام پیروکاروں سمیت واجب القتل ہے۔ اس سلسلے میں مولانا مودودیؒ سب سے پہلے امام اعظم ابوحنیفہؒ کا قول نقل کرتے ہیں۔ اس کے بعد علامہ ابن جریر طبریؒ، امام طحاویؒ، علامہ ابن حزم ؒ، علامہ شہرستانیؒ، امام غزالیؒ، محی السنۃ بغویؒ، علامہ زمخشریؒ، قاضی عیاضؒ، امام رازیؒ، علامہ بیضاویؒ، علامہ علائوالدین بغدادیؒ، علامہ ابن کثیرؒ، علامہ جلال الدین سیوطیؒ، علامہ ابن نجیمؒ، مُلاعلی قاری، شیخ اسماعیل حقیؒ، فتاویٰ عالم گیری، علامہ شوکانیؒ، علامہ آلوسیؒ کے اقوال دیتے ہیں۔ ان بزرگوں کے اقوال نقل کرنے کے بعد مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں کہ یہ ہندستان سے لے کر مراکش اور اندلس تک اور ترکی سے  لے کر یمن تک ہرمسلمان ملک کے اکابر علما و فقہا، محدثین و مفسرین کی تصریحات ہیں۔ہم عرض کرتے ہیں کہ اگر وقت اور زمانے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ان حضرات کا دور پہلی صدی ہجری (امام اعظمؒ، پیدایش:۸۰ ہجری) سے لے کر تیرھویں صدی ہجری تک (علامہ آلوسی، متوفی: ۱۲۷۰ھ) پھیلا ہوا ہے۔ اس انداز سے قرآن سمجھانے والے کے متعلق کوئی شخص اگر یہ کہے کہ وہ تفسیر بالراے کا مجرم ہے تو ایسی بات کہنے والے کی نیت میں فتور ہے، یا دماغ میں خلل۔ وہ بدنیت ہے یا اس نے تفہیم القرآن پڑھی ہی نہیں۔

آخر میں عصرحاضر کے تمام لوگوں سے عرض کروں گا کہ جس نے مولانا مودودیؒ کا لٹریچر اور خصوصاً تفہیم القرآن نہیں پڑھی، تو ایسا شخص بیسویں صدی کے فتنوں کا مقابلہ کرنا تو درکنار  ان کو سمجھنے کے قابل بھی نہیں ہے۔