مارچ ۲۰۱۴

فہرست مضامین

غیرمسلم اقربا کی وراثت

| مارچ ۲۰۱۴ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

سوال:

مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کو جن مسائل کا سامنا ہے، اُن میں سے ایک وراثت کا مسئلہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: لَا یَرِثُ الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ وَلَا الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ کے مطابق کافر مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں بن سکتا۔ جمہورفقہا، ائمہ اربعہ کا بھی یہی موقف ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹریوسف القرضاوی کے فتویٰ کی روشنی میں چند سوالات پیش خدمت ہیں:

۱- کیا یہ حدیث موؤل قرار دی جاسکتی ہے کہ اس میں لفظ کافر کی تاویل کی جاسکے؟

۲- کیا کفار کی طرف سے وراثت کو وصیت مانا جاسکتا ہے؟ کیونکہ کافر کی وصیت مسلمان کے لیے اور مسلمان کی وصیت غیرحربی کے لیے جائز ہے۔

۳- کیا وراثت کے ایسے مال کو غیرمسلم ممالک کے بنکوں سے حاصل ہونے والے سود کی مانند قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیونکہ فقہا اِس سود کو ان کے بنکوں میں چھوڑ دینے کے بجاے اسے لے کر خیرکے کاموں میں استعمال کو زیادہ ضروری قرار دیتے ہیں۔

جواب: 

اسلام عدل و انصاف کا جامع نظام ہے۔ اس کا کوئی حکم کارخیر کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ لَا یَرِثُ الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ وَلَا الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ کا معنی یہ ہے کہ مسلمان کافر سے اور کافر مسلمان سے وراثت قانوناً  طلب نہیں کرسکتا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مسلمان اپنے کافر قرابت دار کو اور کافر اپنے مسلمان قرابت دار کو اپنی وراثت میں سے حصہ نہیں دے سکتا بلکہ اس کے جواز کے لیے تو قرآن پاک میں مستقل حکم آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَ کُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَ نِ الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ ج  حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَo (البقرہ ۲:۱۸۰) ’’تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو، تو والدین اور رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر‘‘۔تقویٰ کا تقاضا ہے کہ وصیت کی جائے۔ مفسرین نے اس آیت میں والدین اور قرابت داروں سے وہ قرابت دار مراد لیے ہیں جو کافر ہوں اور بلاوصیت وراثت کے حق دار نہ ہوں۔ایسے ورثا کے لیے وصیت کے ذریعے مال پہنچانے کا حکم ہے۔

علامہ قرطبی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’ابن المنذر کہتے ہیں: تمام اہلِ علم جن کی بات محفوظ کی جاتی ہے اسی بات پر ان کا اجماع ہے کہ وصیت ان والدین کے لیے اور قرابت داروں کے لیے جو وارث نہیں ہیں، جائز ہے۔ ابن عباس، حسن بصری اور قتادہ فرماتے ہیں: آیت عام ہے اور ایک زمانے تک اس پر عمل بھی جاری رہا ہے اوران لوگوں کے حق میں جن کو       آیۃ الفرائض سے وراثت مل گئی ہے، آیت وصیت کا حصہ ان ورثا کے حق میں منسوخ ہوگیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت الفرائض نے ورثا کے حق میں آیت کو منسوخ نہیں کیا بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: ’’یقینا اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے۔ اس لیے وارث کے بارے میں کوئی وصیت نہیں ہے۔ اس روایت کو حضرت ابوامامۃ نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی میں اس کا ذکر کیا ہے اور اس حدیث کے بارے میں فرمایا ہے: یہ حدیث حسن اور صحیح ہے۔ پس آیت وصیۃ کا ورثا کے بارے میں منسوخ ہونا روایت میراث سے نہیں بلکہ اس ثابت شدہ حدیث سے ہے۔ علما کے اقوال میں سے زیادہ صحیح قول یہی ہے‘‘۔(تفسیر قرطبی، ص ۲۶۲-۲۶۳)

پس واضح ہوگیا کہ غیرمسلم والدین اور قرابت داروں کے بارے میں وصیت کا حکم قرآنِ پاک کی مذکورہ آیت سے ثابت ہے اور یہ آیت چاہے عام ہو، وارث غیروارث دونوں کو شامل ہو۔  اس کے بعد آیت فرائض سے ورثا کے حق میں یہ آیت منسوخ ہوچکی ہو، چاہے غیرمسلم والدین اور قرابت داروں کے ساتھ خاص ہو۔ دونوں صورتوں میں اس بات پر تو اجماع ہے کہ غیرمسلم والدین اور قرابت دار وصیت کے مستحق ہیں اور مسلمان وارث وصیت کے مستحق نہیں ہیں۔ آیت میراث ان کا استحقاق ختم کرتی ہو یا حدیث، بہرحال مسلمان ورثا وصیت کے مستحق نہیں ہیں اور غیرمسلم والدین اور قرابت دار وصیت کے مستحق ہیں (ملاحظہ ہو، تفسیرقرطبی، ج۲، ص ۲۶۵)۔ اس لیے یورپ میں رہنے والے مسلمان اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ وہ اپنے غیرمسلم قرابت داروں کے ترکے میں سے حصہ لیں، جب کہ وہاں کے قوانین میں اس بات کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے کہ مسلمان اپنے غیرمسلم والدین کے ترکے میں سے حصہ لے۔ اور اگر والدین سارا مال اس کے نام کردیں تو پھر وہ سارا مال بھی لے سکتا ہے۔ اسی طرح مسلمان اپنے غیرمسلم والدین کے لیے بھی اپنے مال میں سے ایک تہائی مال تک کی وصیت کرسکتا ہے۔ البتہ ورثا میں سے جو محتاج ہوں ان کے بارے میں بھی وصیت کو نافذ کیا جائے گا اگر باقی وارث راضی ہوں۔

او اجاز ذٰلک الکافۃ اذا اجازہا الورثۃ، ’’اہلِ ظواہر کے علاوہ تمام فقہا نے وارث کے بارے میں وصیت کو جائز قرار دیا ہے، جب کہ ورثا نے اس کی اجازت دے دی ہو‘‘۔ دیارِ کفر میں رہنے والے مسلمان اپنے غیرمسلم والدین کی وراثت میں سے ضرور حصہ لیں۔

حدیث کی جو تشریح کی گئی ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ حدیث موؤل (جس کی تاویل کی جاسکے) نہیں ہے بلکہ اپنے ظاہر پر ہے اور مسلمان کے کافر کے وارث نہ ہونے اور کافر کے مسلمان کے وارث نہ ہونے کا معنیٰ یہ ہے کہ:

۱-  قانوناً اور زبردستی کوئی کسی سے وراثت حاصل نہیں کرسکتا لیکن اگر باہمی رضامندی سے ایسا ہو تو جائز ہے۔

۲- کفار کی طرف سے وراثت کو وصیت کے حکم میں داخل کیا جاسکتا ہے جیساکہ پوری تفصیل بیان کردی گئی ہے۔

۳- غیرمسلم ممالک کے بنکوں سے جو سود لیا جاتا ہے اسے اس نظریے سے لے لینا چاہیے کہ اگر نہ لیا گیا تو بنک اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے گا یا غیرمسلم کو دے گا تو وہ اسے  ذاتی یا خلافِ اسلام کاموں میں استعمال کرے گا۔علامہ یوسف قرضاوی نے غیرمسلم ممالک میں مسلمان ہونے والے اشخاص کے لیے غیرمسلم ورثا کے ترکے سے حصہ لینے کو جائز قرار دیا ہے۔ اسی طرح مکان بنانے کی خاطر سودی قرضہ لینے کی اجازت دی ہے اور ’سود‘ کو مذکورہ بالا نظریے سے لینے کی اجازت دی ہے تو ہم بھی ان کی تائید کرتے ہیں۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)