مارچ ۲۰۱۴

فہرست مضامین

مولانا ابوالکلام محمد یوسفؒ

پروفیسر خورشید احمد | مارچ ۲۰۱۴ | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

برادر محترم عبدالقادر مُلّا شہید کے غم کو ابھی دو مہینے بھی نہ ہوئے تھے کہ مولانا ابوالکلام محمدیوسف کے دورانِ حراست رحلت کی خبر دل پر بجلی بن کر گری۔ اس طرح بنگلہ دیش، تحریک اسلامی اور اُمت مسلمہ اپنے ایک اور نام وَر خادم سے محروم ہوگئی :  اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔

مولانا اے کے ایم یوسف کو یہ اعزازبھی حاصل ہوا کہ میرے علم کی حد تک جماعت اسلامی کے وہ پہلے قائد ہیں جنھوں نے جیل میں جاں جانِ آفریں کے سپرد کی ۔ یوں وہ ظالم حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی بے گناہی کا اعلان اور حق کی خاطر اپنی زندگی بھر کی جدوجہد کا پورے عزم اور اعتماد سے دفاع کرتے ہوئے اپنے رب سے ملاقات کے ابدی سفر پر روانہ ہوگئے۔ الحمدللہ ۸۸سال کے اس جواں عزم رکھنے والے مجاہد نے کسی موقعے پر بھی کوئی کمزوری نہ دکھائی اور اپنے رب سے کیے ہوئے وعدے کو سچا کر دکھایا:

مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ ز وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o (الاحزاب ۳۳:۲۳)  ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچاکر دکھایا___ اور ان میں کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔

مولانا ابوالکلام محمد یوسف ۲فروری ۱۹۲۶ء کو بنگلہ دیش کے ایک گائوں راجیہ (سارن کھالہ) ضلع باگرہاٹ میں پیدا ہوئے اور ۹فروری ۲۰۱۴ء کوشمیور سنٹرل جیل ڈھاکہ میں دل کا دورہ پڑنے کے بعد بنگلہ بندھو میڈیکل یونی ورسٹی ہسپتال لے جاتے ہوئے ربِ حقیقی سے جاملے۔ بنگلہ دیش کی منتقم حکومت نے ان کو ۱۲مئی ۲۰۱۳ء کو جنگی جرائم کے جھوٹے الزامات کے نام پر گرفتار کیا تھا۔ دل کا دورہ پڑنے کے بعد، پولیس انھیں قریب ترین ہسپتال میں لے جانے کے بجاے ایک دُور کے ہسپتال لے کر گئی اور وہاں پہنچتے پہنچتے وہ اللہ کو پیارے ہوگئے    ؎

یہ خون جو ہے مظلوموں کا، ضائع تو نہ جائے گا لیکن

کتنے وہ مبارک قطرے ہیں، جو صرفِ بہارا ں ہوتے ہیں

مولانا ابوالکلام محمد یوسف نے ابتدائی تعلیم دینی مدرسے میں حاصل کی پھر اسی سفر کو جاری رکھا تاآنکہ ۱۹۵۲ء میںدینی تعلیم کی اعلیٰ ترین سند ممتاز المحدثین حاصل کر کے ایک معلم اور داعی کی حیثیت سے عملی کردار کا آغاز کیا۔ مدرسہ عالیہ سے بھی دینی علوم میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور پھر دینی مدارس میں تدریس کی ذمہ داریاں ادا کیں اور اعلیٰ تدریسی و انتظامی صلاحیتوں کے سبب ۱۹۵۸ء میں مدرسے کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ دورانِ تعلیم ہی میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں سے استفادہ کیا اور پھر تحریکِ اسلامی میں رچ بس گئے۔ مولانا عبدالرحیمؒ مشرقی پاکستان میں بنگلہ بولنے والے پہلے رکن جماعت اسلامی تھے اور مولانا ابوالکلام محمد یوسف کو دوسرا رکن ہونے کی سعادت حاصل ہے۔ ۱۹۵۶ء میں کھلنا ضلع کے امیر مقرر ہوئے۔ ۱۹۶۲ء میں مرکزی مجلس شوریٰ میں منتخب ہوئے اور ۱۹۷۱ء تک اس ذمہ داری کو بہ حُسن و خوبی ادا کیا۔ اس زمانے میں مشرقی پاکستان جماعت اسلامی کے سیکرٹری اور نائب امیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

پاکستان قومی زندگی میں مولانا ابوالکلام محمد یوسف کی سیاسی جدوجہد کا آغاز ۱۹۶۲ء میں مشرقی پاکستان سے قومی اسمبلی کا رُکن منتخب ہونے سے ہوا۔ ۸جون ۱۹۶۲ء کو حلف لے کر غیرجماعتی ایوان میں کلمۂ حق بلند کرنے کا آغاز کیا۔ وہ ۱۹۶۹ء تک اسمبلی کے رکن رہے۔ ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان ڈاکٹر محمد مالک کی صوبائی حکومت میں چند ہفتوں کے لیے وزیرمال بھی رہے۔ دسمبر ۱۹۷۱ء کے سانحہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد قیدوبند کی صعوبتوں کو جھیلا، جس سے دسمبر ۱۹۷۵ء میں نجات ملی۔ پھر زندگی کے آخری سال میں ایک بار حسینہ واجد کی آتشِ انتقام کا نشانہ بن کر پابند سلاسل ہوئے اور نام نہاد وارکرائمز ٹربیونل کی انتقامی کارروائی سے پہلے ہی حکم ربانی کے تحت باعزت اور نہ ختم ہونے والی رہائی حاصل کرلی  ع

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

مولانا اے کے ایم یوسف مرحوم سے میری ملاقاتوں اور پھر قریبی تحریکی تعلق کاآغاز ۱۹۶۲ء ہی سے ہوا جب وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوکر اسمبلی میں جماعت اسلامی ہی نہیں، بلکہ تمام دینی اور تعمیری قوتوں کی آواز بن گئے۔ مشرقی پاکستان سے جماعت کی حمایت سے تین ارکان منتخب ہوئے تھے___ دو ارکان اور ایک متفق: یعنی مولانا ابوالکلام محمدیوسف اور جناب عبدالخالق صاحب رکن جماعت تھے اور بیرسٹر اخترالدین صاحب متفق اور ہم نوا مگر پوری طرح جماعت کے نظم کے پابند اور اس کی فکر کے ترجمان۔ البتہ اسمبلی میں مولانا ابوالکلام محمدیوسف جماعت کے پارلیمانی لیڈر کا کردار ادا کرتے تھے۔ اخترالدین احمد انگریزی اور مولانا بنگالی میں اور کبھی کبھی بنگالی اور اُردو میں اظہارِ خیال فرماتے تھے۔ وہ اپنی تقاریر میں ہمیشہ دلائل کے ساتھ قومی اُمور پر جماعت اسلامی کے موقف کو پورے اعتماد اور وقار سے پیش کرتے تھے۔ وہ طبعاً بڑے لطیف مزاج تھے، اور اپنے اس ذوق کو موقع بہ موقع بڑی خوب صورتی سے استعمال کرتے تھے اور سب اس سے لطف اُٹھاتے تھے۔ جہاں تک بنگلہ زبان کا تعلق ہے مولانا محمد یوسف اس کے شعلہ بیان مقرر تھے نیز اُردو میں بھی وہ بڑی روانی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔

جماعت اسلامی کے پارلیمانی کردار کا آغاز مولانا محمد یوسف نے ۱۱جون ۱۹۶۲ء کو مولوی تمیزالدین صاحب کے اسپیکر منتخب ہونے پر مبارک باد میں کی جانے والی تقریر سے کیا اور پارلیمانی بحث پر تحریکی فکر کے نقوش مرتسم کردیے۔ اس پہلی تقریر میں قیامِ پاکستان کے اصل مقصد، یعنی اسلامی نظام کے قیام کا بھرپور انداز میں اظہار کیا۔ فوجی ڈکٹیٹر محمد ایوب خان کے جس دستور کے تحت یہ اسمبلی بنی تھی، اس پر تنقید کی، اسے ایک غیراسلامی دستور قرار دیا اور بڑے لطیف انداز میں کہا کہ بس اس دستور کا ایک خوش آیند پہلو یہ ہے کہ اس میں ترمیم ہوسکتی ہے اور ان شاء اللہ وہ ہم جلد کریں گے اور اسے اسلام کے مطابق ڈھال کر دم لیں گے۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار جناب عبدالخالق نے بھی کیا۔ انھوں نے اپنی پہلی ہی تقریر میں یہ بات بھی کہہ دی تھی کہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں اصل رشتہ اسلام کا ہے اور صرف اسلام کے مطابق انصاف ہی کی بنیاد پر یہ ملک ترقی کرسکتا ہے، نیز یہ کہ اس ملک میں حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے سیاسی جماعتوں کی بحالی اور ان کا بھرپور کردار ضروری ہے۔

صدرفیلڈمارشل ایوب خان نے اپنی قوت کے نشے میں ۱۹۶۲ء کے دستور سے قراردادِ مقاصد خارج کردی تھی۔ مملکت کا نام جو ۱۹۵۶ء سے دستور میں ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ تھا بدل کر صرف ’جمہوریہ پاکستان‘ کردیا تھا اور قانون سازی کے سلسلے میں قرآن وسنت کی جگہ صرف ’اسلام‘ کا ذکر کیا تھا اور  عدالتوں کے ذریعے اس شق کے نفاذ کو (justiciable ) دستور میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔

جماعت اسلامی اور ہم آواز اسلامی قوتوں کی مساعی کے نتیجے میں پہلے ہی مہینے سیاسی جماعتوں کا قانون بڑی رد و کد کے بعد وضع کیا گیا۔ جولائی ۱۹۶۲ء میں سیاسی جماعتیں بحال ہوئیں اور اس بحث کے دوران اسلام کو ملک کی آئیڈیالوجی کے طور پر بھی ایوبی آمریت کے کارندوں کی ساری رکاوٹوں کے باوجود منظور کرایا گیا۔ اس کا موقع اس طرح پیدا کیا گیا کہ سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری قرار دیاگیا تھا کہ ’’وہ پاکستان کی سالمیت کو مجروح کرنے والی کسی سرگرمی میں ملوث‘‘ نہیں ہوں گی،جب کہ مولانا ابوالکلام محمدیوسف اور دوسرے اسلام پسند ارکان کے اصرار پر اس شرط کے ساتھ ’نظریۂ پاکستان کی مخالفت‘ کو بھی شامل کیا گیا اور پھر واضح الفاظ میں نظریۂ پاکستان کی یہ وضاحت بھی شامل کی گئی کہ اسلام ہی نظریۂ پاکستان ہے۔

قومی اسمبلی میں کی جانے والی بحث کا یہ حصہ بڑا چشم کشا ہے۔ اس وقت کے وزیرقانون  جناب سابق جسٹس محمد منیر تھے، جو پنجاب کے ۱۹۵۳ء کے فسادات کے سلسلے میں تیار کی جانے والی رپورٹ کے مصنف تھے اور پاکستان کی اسلامی اساس کے منکر تھے۔ انھی کی قیادت میں سیاسی جماعتوں کا یہ بل متحدہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش ہوا۔ سب کمیٹی نے، جس میں بیرسٹر اخترالدین احمدصاحب تھے، متفقہ طور پر ’پاکستان آئیڈیالوجی‘ کا لفظ اضافہ کیا۔ اسمبلی میں ترمیم کے ذریعے   اس وضاحت کا مزید اضافہ کیا گیا کہ پاکستان آئیڈیالوجی کے معنی اسلام ہیں۔ سیکولر طبقے سے یہ اضافہ ہضم نہیںہو رہا تھا اور طرح طرح کے  حیلے بہانے کیے گئے لیکن بالآخر اس ترمیم کو منظور کرنا پڑا۔ اس طرح ۱۹۶۲ء میں، نہ کہ ۱۹۶۹ء میں جنرل شیرعلی یا ۱۹۷۷ء میں جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اسلامی آئیڈیالوجی بحیثیت پاکستان آئیڈیالوجی ان ہی الفاظ میں قانون کا حصہ بنی، اور پھر اسمبلی اور تمام اہم مناصب پر مامور افراد کے حلف کا حصہ بنی۔

اس کامیابی میں مولانا ابوالکلام محمدیوسف کا دوسرے اہم ارکان کے ساتھ بڑا نمایاں حصہ تھا۔ بالآخر سابق جسٹس منیر کو بھی شرمسار ہوکر اس ترمیم کو ایوان کی مرضی کے طور پر تسلیم کرنا پڑا اور ان کے مندرجہ ذیل الفاظ کارروائی ہی کا نہیں تاریخ کا حصہ بن گئے۔افسوس کا مقام ہے کہ اس واقعے کے سات سال بعد شائع ہونے والی کتاب From Jinnah to Zia جس کے مصنف بھی یہی سابق جسٹس محمد منیرہیں، وہ اس میں ایک بار پھر وہی راگ الاپتے نظر آئے کہ: ’پاکستان، نیز اسلامی آئیڈیالوجی کے ’مسلط‘ کرنے کا کام جنرل ضیاء الحق نے انجام دیا جو محمدعلی جناح کے تصور کے برعکس تھا‘۔ لیکن نتیجہ یہ ہے کہ اسمبلی کے ایوان میں سابق جسٹس منیر کے یہ الفاظ ان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں جو کبھی مٹایا نہ جاسکے گا:

ڈپٹی اسپیکر:

تحریک پیش کی جاتی ہے کہ ’’بل کی دفعہ ۲کے پیرا (c) کے بعد درج ذیل پیرا شامل کیا جائے:

(d) آئیڈیالوجی آف پاکستان کا مطلب ہے اسلام

مسٹر محمد منیر: جناب عالی! اصل بل میں لفظ ’آئیڈیالوجی‘ شامل نہیں تھا اور جب مَیں یہ بل ڈرافٹ کر رہا تھا تو میں نے اس سوال پر غور کیا کہ لفظ ’آئیڈیالوجی‘ شامل ہو یا نہ ہو؟ مَیں نے آخری فیصلہ یہ کیا کہ اس لفظ کو شامل نہ کیا جائے کیوں کہ مَیں محسوس کرتا ہوں کہ الفاظ ’پاکستان کی آئیڈیالوجی‘ کی تعریف کرنا بہت زیادہ مشکل ہوگا۔ لیکن سلیکٹ کمیٹی نے اس لفظ کو شامل کیا ہے اور اب یہ ایک ترمیم ہے کہ الفاظ ’پاکستان کی آئیڈیالوجی‘ کی تعریف اس طرح کی جائے کہ اس کا مطلب اسلام ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، میں اس لفظ سے مکمل طور پر بے تعلق ہوں کہ لفظ ’آئیڈیالوجی‘ یہاں ہو یا لفظ ’آئیڈیالوجی‘ کو حذف کردیا جائے، یا لفظ ’آئیڈیالوجی‘ کی تعریف اسلام کے لفظ سے کی جائے۔ مَیں یہ ایوان پر چھوڑتا ہوں۔(قومی اسمبلی پاکستان کی کارروائی، ۱۱ جولائی ۱۹۶۲ء، ص ۱۳۳۴)

مولانا ابوالکلام محمدیوسف نے دستور میں پہلی ترمیم کے سلسلے میں بھی بڑا مثبت بلکہ  جارحانہ کردار ادا کیا اور بالآخر اسمبلی کو پاکستان کا اصل نام ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ بحال کرنا پڑا۔ ’قراردادِ مقاصد‘ دستور اپنی اصل شکل میں دستور کا دیباچہ بنائی گئی۔ قانون سازی کے باب میں ’اسلام‘ کی جگہ اصل الفاظ ’قرآن وسنت‘ بحال کیے گئے اور ان سے متصادم قانون سازی پر پابندی لگائی گئی۔ نیز ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے احکام کے مطابق ڈھالنے کی ان شقوں کو بحال کیا گیا جو ۱۹۵۶ء کے دستور میں تھیں، مگر ۱۹۶۲ء کے دستور میں ان کو عملاً غیرمؤثر کردیا گیا تھا۔ دستور میں اس بنیادی ترمیم میں ایک سال سے زیادہ کا وقت لگ گیا، لیکن جماعت اسلامی، نظام اسلام پارٹی، مفتی محمود صاحب اور مسلم لیگ کے کچھ ارکان کی مشترکہ کوششوں سے ۲جولائی ۱۹۶۲ء ہی کو ایک قرارداد اسمبلی میں پیش کی گئی اور ۳جولائی کو اسے متفقہ طور پر منظور کرایا گیا کہ: ’’ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت سے ہم آہنگ کیا جائے گا‘‘۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کردار     جن لوگوں نے ادا کیا، ان میں محمد ایوب، میاں عبدالباری اور مفتی محمود کے ساتھ ساتھ مولانا یوسف، جناب عبدالخالق صاحب اور بیرسٹر اخترالدین احمد نے ادا کیا اور سابق جسٹس محمد منیرصاحب پیچ و تاب کھاتے رہے مگر   ع  

رہ گئے وہ بھی ہاں کرتے کرتے!

مولانا ابوالکلام محمدیوسف نے اسمبلی میں جو تقاریر کی ہیں، وہ ان کی بالغ نظری، جرأتِ ایمانی اور پاکستان اور تحریک اسلامی سے وفاداری کی روشن نظیر ہیں۔ ان میں انھوں نے خارجہ پالیسی، بجٹ سازی، اُمور حکمرانی (governance)، غرض ہر مسئلے پر کلام کیا اور قدرتِ کلام کا مظاہرہ کیا ہے۔ بجٹ پر ان کی تقاریر اسلامی اور معاشی ہردواعتبار سے بڑا مبسوط و مربوط تبصرہ ہیں۔ ان تقاریر میں انھوں نے صرف سود، اسراف اور غلط معاشی ترجیحات ہی پر احتساب نہیں کیا ہے، بلکہ زندگی کے ہرشعبے پر کلام کیا ہے۔

اسی طرح خارجہ پالیسی پر ان کی کئی تقاریربڑی چشم کشا ہیں، جن میں انھوں نے   خارجہ پالیسی کے عدم توازن کا بھانڈا پھوڑا۔ سفارت خانوں کی کارکردگی پر احتساب کیا ہے ۔ امریکا کی گودمیں بیٹھ جانے پر شدید تنقید کی ہے اور امریکا کے ناقابلِ اعتبار دوست ہونے کی حقیقت بیان کی۔ خصوصیت سے جب ۱۹۶۲ء میں امریکا نے پاکستان سے کیے گئے وعدوں کی کھلی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کو اسلحے کی سپلائی شروع کی تو اس پر ان کی تنقید بڑی بھرپور اور جامع ہے۔ انھوں نے روس اور چین سے تعلقات کو نظرانداز کرنے اور صرف امریکا پر بھروسا کرنے پر سخت گرفت کی۔ اعداد و شمار کے ساتھ پیش کیا ہے کہ امریکا نے سیٹو اور سینٹو میں پاکستان کی شرکت سے لے کر ۱۹۶۲ء تک، یعنی ۱۰سال میں جو امداد دی، بھارت کو صرف تین مہینے میں اس سے ۸گنا زیادہ کااسلحہ فراہم کیا۔ یہ بھی یاد دلایا کہ امریکی صدر جان ایف کینیڈی اپنا یہ وعدہ بھول گئے کہ پاکستان سے مشورے کے بغیر بھارت کو کوئی اسلحہ فراہم نہیں کریں گے۔ بڑے لطیف انداز میں انھوں نے کہا کہ امریکا کی پاکستان سے دوستی ہم پاکستانیوں کی مرغی سے دوستی کی طرح ہے کہ جب دل چاہا مرغی کو ذبح کر کے دسترخوان کی زینت بناڈالا۔

۱۹۶۲ء سے ۱۹۶۹ء تک مشرقی پاکستان کے ساتھ جو ناانصافیاں ہورہی تھیں۔ مولانا محمدیوسف نے ان پر بھی بھرپور کلام کیا ہے۔ سوالات کی شکل میں بھی اور بحث اور دوسرے مواقع پر  اپنی تقاریرکے اندر بھی۔ تعجب ہوتا ہے کہ حج تک کے معاملے میں ناانصافی کی گئی۔ اپریل ۱۹۶۳ء کے ایک سوال کے جواب میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان سے حج کے لیے جانے والوں میں ایک اور چار کی نسبت تھی اور ۱۹۶۳ء میں مشرقی پاکستان سے صرف ۴۸۰۰حاجی جاسکے، جب کہ اس سال مغربی پاکستان سے حج کے لیے جانے والوں کی تعداد ۱۱۳۰۰ تھی۔ اسی طرح ہرشعبے میں ملازمتوں میں، ترقیاتی اخراجات میں، غرض زندگی کے ہر شعبے میں مشرقی پاکستان کے حقوق پامال کیے جارہے تھے۔ یہ آواز جماعت اسلامی کے ارکان اسمبلی نے ساٹھ کے عشرے میں اُٹھائی، جو تاریخ کا حصہ ہے۔

مسلمانانِ پاکستان ’ریڈ کراس سوسائٹی‘ (سرخ صلیب) کے نام پر ہمیشہ سے معترض تھے۔ اس میں عیسائی مشنری اور سامراجی سیاسی رشتے کی جو جھلک نظر آتی ہے، اس سے خلاصی چاہتے تھے۔ ۷۰ کے عشرے میں غالباً جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ریڈکراس سوسائٹی کا نام تبدیل کرکے اسے پاکستان ریڈکریسنٹ (ہلالِ احمر) سوسائٹی قرار دیا گیا، لیکن کم لوگوں کو علم ہے کہ   اس تبدیلی کا سب سے پہلے مطالبہ مولانا محمد یوسف نے اسمبلی میں اپریل ۱۹۶۳ء میں کیا تھا اور عملاً۱۳؍اپریل ۱۹۶۳ء کو ایک بل اس تبدیلی کے لیے اسمبلی میں داخل کردیا تھا، جس پر بحث کے دوران ارکان کی بڑی تعداد نے اس کی تائید کی۔ اس تائیدی لہر سے خائف ہوکر اس وقت کی حکومت نے بڑی چال بازی کے ساتھ اس بل کو کمیٹی کے سپرد کردیا، لیکن جب بھی نام میں یہ تبدیلی ہوئی اس کا اصل اعزاز مولانامحمدیوسف ہی کو جاتا ہے۔

اسی طرح وقت بے وقت آرڈی ننس جاری کرکے حکمرانی کرنے پر بھی مولانا محمد یوسف نے اسمبلی میں بھرپور تنقید کی اور لطیف انداز میں کہا کہ ہم تو مطالبہ کر رہے تھے: ’’بھارت میں ۵۰کے قریب آرڈی ننس فیکٹریاں ہیں، جہاں سے اسلحہ تیار ہو رہا ہے اور بڑی مشکل سے ایک اسلحہ ساز فیکٹری کا پاکستان میں آغاز ہوا،لیکن بدقسمتی سے ہماری حکومتوں نے دوسری نوعیت کی  تین آرڈی ننس فیکٹریاںکھولی ہوئی ہیں اور یہ تینوں ہمہ وقتی گولہ باری کررہی ہیں: ایک ایوانِ صدر سے اور دو گورنر ہائوسز سے۔ یہ آرڈی ننس فیکٹریاں اسمبلی میں قانون سازی کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ اسمبلی کے دو سیشنوں کے درمیان گیارہ گیارہ اور سات سات گولے داغے جارہے ہیں۔ یہ اسمبلیوں کے حق پر کھلی دست درازی ہے اور اسے ختم ہونا چاہیے‘‘۔ اس سلسلے میں ان کی سب سے مؤثر اور دل چسپ تقریر ۲۷بومبر ۱۹۶۳ء کو اسمبلی میں ہوئی، جس نے ایوان کو کشت ِ زعفران بنادیا۔

اسی طرح آمریت پر انسانی حقوق کی پامالی اور سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتاریوں پر انھوں نے باربار کڑی تنقید کی اور صدر ایوب کو خطاب کر کے ایک بار یہاں تک کہا کہ: ’’جمہوریت ڈنڈے کے ذریعے نہیں آتی، اور اگر ڈنڈا یہ کام کرسکتا تو پھر اللہ تعالیٰ کو انبیا ؑ بھیجنے کی ضرورت نہ تھی، جو تعلیم و تلقین کے ذریعے انسانوں کو بدلتے اور دنیا میں امن و آشتی اور انصاف کے قیام کی جدوجہد کرتے ہیں بلکہ صرف ڈنڈا نازل فرما دیتے‘‘۔ قبائلی علاقوں میں انتظامی قوانین (FCR) پر بھی انھوں نے بھرپور تنقیدکی۔ عدلیہ کی آزادی اور سیاست سے ججوں کے دُور رہنے پر بھی انھوں نے باربار کلام کیا اورسابق جج محمدمنیر کی موجودگی میں یہاں تک کہا کہ: ’’عدلیہ کی آزادی کے لیے    یہ ایک خطرہ ہے کہ جج وزیر بن جائیں اور وزیر جج بننے کے لیے کوشاں ہوں۔ ان کی دُوری ہی عدلیہ کی آزادی کی ضمانت ہے‘‘۔

اس بات کی ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ میں جماعت اسلامی کے ارکان نے ہردور میں: ۶۲-۱۹۶۹ء ، ۷۲-۱۹۷۶ء اور ۱۹۸۵ء سے اب تک جو کردار ادا کیاہے وہ قوم کے سامنے لایا جائے۔ نئی نسلوں کو حتیٰ کہ جماعت کے اپنے حلقوں میں لوگوں کو احساس نہیں کہ اس سلسلے میں جو بات جماعت آج کہہ رہی ہے کس دیانت اور استقامت کے ساتھ اس نے ہر دور میں وہی بات کہی ہے۔

مولانا محمد یوسف سے میرے تعلقات ۵۲سال پر پھیلے ہوئے ہیں۔ میں نے ان کو ایک اچھا انسان، ایک سچا مسلمان ، اور محب ِ وطن پاکستانی ،اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بنگلہ دیش اور سب سے بڑھ کر تحریکِ اسلامی اور اُمت مسلمہ کا خادم پایا۔ ان کی طبیعت بے حد سادہ، ان کی باتوں میں خلوص کی خوشبو، اور ان کے معاملات میں دیانت اور خیرخواہی کا جذبہ فراواں پایا جاتا تھا۔ ان کی تنقید میں اصلاح کی جستجو ہوتی تھی۔ حق کی جدوجہد میں ہردور میں انھوں نے استقامت دکھائی۔ خدمت ِ خلق ان کا شعار تھا۔ کسانوں کے حالات میں بہتری لانے اور مساجد اور مدارس کے قیام میں ہمیشہ مصروف رہے۔ ۴۰۰ سے زیادہ مساجد، مدارس اور یتیم خانے ان کی کوششوں کے نتیجے میں قائم ہوئے، جو ان کے لیے صدقۂ جاریہ کے طور پر ان شاء اللہ ان کے حسنات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔ دل گواہی دیتا ہے کہ وہ ان خوش نصیب انسانوں میں سے ہیں،   جن کے بارے میں ہمارے مالک نے فرمایاہے:

یٰٓاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْٓ اِِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً o فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ o وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْo (الفجر ۸۹: ۲۷-۳۰) اے نفس مطمئن! چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ شامل ہوجا میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں۔