مارچ ۲۰۱۴

فہرست مضامین

قرآن کا طریقِ دعوت

ابو سلیم محمد عبدالحی | مارچ ۲۰۱۴ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

قرآن کریم ایک دعوت کی کتاب ہے اور ایک دعوت اور تحریک کے ساتھ ساتھ نازل کی گئی ہے۔ پورے ۲۳برس کی مدت میں اسلامی دعوت کو جن جن مرحلوں سے ہوکر گزرنا پڑا، ان تمام مرحلوں میں اس کتاب نے بروقت رہنمائی کی ہے۔ ہرموقع پر ضرورت کے لحاظ سے اس کے مختلف حصے نازل ہوتے رہے ہیں۔ ضرورت کے تقاضوں کے تحت، انداز بدل بدل کر ایک بات کو بار بار دُہرایا گیا ہے اور ہر موقع پر کسی ضروری پہلو کو زیادہ اُبھارا گیا ہے۔

ایسی کتاب کو اگر آپ دوسری کتابوں کی طرح پڑھیں گے تو ظاہر ہے کہ آپ پورا فائدہ نہیں اُٹھا سکیں گے۔ جو باتیں کسی خاص موقع اور کسی خاص محل پر کہی جاتی ہیں، اگر آپ انھیں موقع اور محل کے تصور سے الگ کرکے دیکھیں تو ان میں نہ اثر باقی رہتا ہے اور نہ سننے والے اس سے وہ لطف محسوس کرسکتے ہیں۔ آپ نے خود تجربہ کیا ہوگا۔ کبھی کسی نازک موقع پر خاص حالات کے تحت کسی شاعر کا ایک مصرع یا کسی شخص کا کوئی مقولہ سننے والوں کو تڑپا دیتا ہے۔ لیکن وہی مصرع اور وہی مقولہ اگر ان حالات سے الگ ہوکر دہرایا جائے تو اس میں کوئی خاص بات معلوم نہیں ہوتی۔

قرآن ایک دعوت کی کتاب ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ قرآن آپ کی آنکھوں کو پُرنم اور آپ کی قوتوں کو متحرک کرے، تو آپ پہلے اس دعوت کو اپنائیں، جو قرآن کریم پیش کرتا ہے۔ آپ اس دعوت کو عملاً دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ اگر آپ سچ مچ اسلامی دعوت کو لے کر اُٹھیں گے تو آپ محسوس کریں گے کہ آپ کو قدم قدم پر رہنمائی کی ضرورت ہے، اور جب آپ کے حسب ِ ضرورت وہ رہنمائی براہِ راست مالکِ کائنات کے الفاظ میں آپ کے سامنے آئے گی تو ممکن نہیں کہ آپ کے جذبات میں اُبھار پیدا نہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کی آنکھیں پُرنم ہوجائیں، اور آپ اپنے اندر ایسی قوت محسوس کرنے لگیں کہ آپ کو دنیا کی ساری قوتیں ہیچ نظر آئیں۔

ایک ایسا شخص جو پیاسا نہ ہو اور جسے پانی کی ضرورت بھی نہ ہو، وہ پانی کے اوصاف بہت کچھ بیان کرسکتا ہے۔ وہ اچھی طرح بتا سکتا ہے کہ پانی کس کس گیس سے مل کر بنا ہے، کیا خاصیتیں رکھتا ہے، کتنے درجے گرمی پاکر اُبلتا ہے، کس درجے پر جم جاتا ہے، غرض یہ کہ آپ اُس کی باتیں سن کر محسوس کریں گے کہ وہ پانی کا مکمل عالم ہے اور پانی کے بارے میں اُس کی معلومات انتہائی قابلِ قدر ہیں۔لیکن اگر پانی کی صحیح قدروقیمت کا اندازہ کرنا ہو تو آپ اُس پیاسے سے پوچھیے جو کسی ریگستان میں کئی دن تک پانی کی تلاش میں گھوم چکا ہو، اور آخر میں کہیں سے ایک پیالہ بھر پانی پاجائے۔

اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرنے کے لیے غور کیجیے کہ قرآن پاک کے ابتدائی دور میں اللہ تعالیٰ نے داعیِحق (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کچھ ایسی ہدایات دی ہیں جن میں انھیں اس مشکل کام کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے کی تاکید ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس اُونچے کام کے لیے آپؐ کو منتخب فرمایا تھا، اس کے لیے ضروری صلاحیتیں آپؐ میں پہلے ہی پیدا ہوچکی تھیں۔ آپؐ دنیا کے تمام انسانوں میں بہتر انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ کی خاص مدد آپؐ کو حاصل تھی لہٰذا اپنے آپ کو تیار کرنے والی ہدایات کی ضرورت آپؐ کو اتنی نہ تھی جتنی کہ آپؐ کے بعد آنے والے ان لوگوں کو تھی جو آپؐ کی ہدایات کے تحت اللہ کے دین کو قائم کرنے کا کام کرنے والے تھے۔ اب ظاہر ہے کہ آپؐ کی اُمت میں سے قیامت تک جو لوگ دعوتِ اسلامی کا کام کرنے کے لیے تیار ہوں گے، اللہ کے دین کو دنیا میں قائم کرنے کا ارادہ کریں گے اور اس راہ میں کوئی قدم بڑھائیں گے، وہ کتنی سخت ضرورت محسوس کریں گے کہ دنیا کے اس سب سے دشوار کام کے لیے انھیں کچھ ہدایات ملیں اور ان کی بروقت رہنمائی ہو۔ ایسے لوگوں کے سامنے جب اس دور کا نازل شدہ قرآن آئے گا تو انھیں وہی چیز ملے گی جس کو ان کے دل ڈھونڈ رہے ہوں گے۔ سورئہ مزمل جس میں نماز، ذکر اور تہجد سے قوت حاصل کرنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایات دی گئی ہیں، ایک جملہ یہ بھی ہے کہ: اِنَّ لَکَ فِی النَّھَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا، (مزمل۷۳:۷)، ’’بلاشبہہ تمھیں دن میں بہت لمبا (دعوتِ اسلامی کا کام)کام کرنا پڑتا ہے‘‘ ۔ اس لمبے کام کے لیے قوت کی ضرورت ہے۔ اس خدمت کے لیے تیاری لازمی ہے اور اس قوت اور اس تیاری کے لیے یہ نسخہ موجود ہے۔ بات بالکل کھلی ہوئی ہے۔ جسے کوئی لمبا کام کرنا ہی نہ ہو، اس کے لیے ان ہدایات میں کیا رکھا ہے۔ نسخہ اور دوا تو بیمار کو عزیز ہوتا ہے۔

اس طرح آگے بڑھیے۔ مکی دور کے پورے قرآن میں کفارِ مکہ کی وہ کش مکش جس نے اہلِ ایمان کا جینا دوبھر کر دیا تھا، بطور پسِ منظر کے موجود ہے۔ اللہ کا نام لینا جرم ہے۔ اپنے پرائے ہوتے جارہے ہیں۔ دوست دشمنی کا برتائو کر رہے ہیں۔ اوچھے اور کمیں لوگ، بااخلاق اور شریف لوگوں پر قسم قسم کی بے ہودہ گندگیاں اُچھال رہے ہیں۔ پھر اہلِ ایمان جو کچھ کہہ رہے ہیں اور جو کچھ کررہے ہیں، ان میں کوئی مادی غرض چھپی ہوئی نہیں ہے۔ وہ خود سیدھی راہ پر چلنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو خود انھی کے بھلے کے لیے سیدھی راہ پر چلانا چاہتے ہیں۔ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ بڑی سیدھی اور سچی بات ہے۔ پھر اُسے زبردستی منوانا نہیں چاہتے، مان لینے کے لیے پیش کررہے ہیں۔ سوچنے اور سمجھنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ مگر مخالفین ضد اور ہٹ دھرمی پر اَڑے ہوئے ہیں۔ ہربات کو سنی اَن سنی کردیتے ہیں۔ کسی بات کو معقولیت کے ساتھ سنتے ہی نہیں، غور اور فکر کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔

اب ذرا سوچیے اگر کوئی گروہ یا کوئی شخص حق کی دعوت لے کر اُٹھے، اپنی حد تک دنیا میں اللہ کے دین کا پیغام دوسروں تک پہنچائے ، اور اللہ کے دین کو قائم رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ کوشش شروع کردے اور اس کے نتیجے میں اُسے بھی کچھ ایسے ہی حالات پیش آنے لگیں جن کا کچھ مختصر ذکر اُوپر ہوا ہے، وہ بھی مخالفتوں کا نشانہ بن جائے، اسے اپنے بھی پرایا سمجھنے لگیں، اس کے لیے بھی صرف ایک اللہ کا اپنا حاکم و مالک مان لینا جرم ہوجائے، اس کی بات کو بھی لوگ سننے اور اس پر   غور کرنے کے بجاے یوں ہی ہوا میں اُڑانے لگیں، تو ایسے شخص کو ان نازک حالات میں مناسب اور بروقت ہدایت کی کیسی سخت ضرورت محسوس ہوگی۔

جس اللہ نے اُمت ِ مسلمہ پر قیامت تک کے لیے اقامت ِ دین کا فرض عائد کیا ہے اس کا بڑا احسان ہے کہ اس نے یہ مشکل خدمت انجام دینے کے لیے ہدایات بھی دے دی ہیں۔ ان ہدایات کی صحیح قدروقیمت تب ہی محسوس ہوسکتی ہے جب اس خدمت اور فرض کو ادا کرنے کے لیے عملاً میدان میں اُترا جائے جس کے سلسلے میں یہ ہدایات دی گئی ہیں۔

اسی انداز پر آپ ان مضامین پر غور کرتے جایئے اور پھر فیصلہ کیجیے کہ جب تک واقعی کوئی متحرک دعوتی کام لوگوں کے سامنے نہ ہوں، ان کے لیے اس سرمایے میں سے کتنا تھوڑا حصہ آسکتا ہے۔

  • صبر کی تلقین تو اسی شخص کے لیے موزوں ہے جو مخالفتوں کا شکار ہورہا ہو اور مشکل حالات میں گھرا ہوا ہو۔
  • دنیا کو مقصود نہ بنانے کی نصیحت تو اسی کو کی جاسکتی ہے جو دنیا کو جیتنے اور حاصل کرنے کے لیے نکلا ہو۔ توحید و آخرت کی دلیلیں تو اسی شخص کو وجد میں لاسکتی ہیں جو یا تو خود منکرِ توحید و آخرت رہا ہو یا جس میں منکرینِ توحید و آخرت کو بات پہنچانے کی تڑپ ہو۔
  • شرک کے خلاف قرآن کی پیش کردہ مہم تو اسی کے لیے سبق بن سکتی ہے جو شرک اور توحید کے فرق کو سمجھنے کا اور سمجھانے کا ارادہ رکھتا ہو۔
  • اسلام کے خلاف قسم قسم کے شبہات کا جواب اور مخالفین کی ڈالی ہوئی اُلجھنوں کی صفائی کا لطف تو وہی اُٹھا سکتا ہے جس نے ان شبہات کو دُور کرنے اور ان الجھنوں کو صاف کرنے کا دردِسر اپنے ذمے لیا ہو۔
  • کسی صالح جماعت کے بننے کی ضرورت اور اس کے اصولوں کا ذکر تو اسی شخص کے لیے مفید ہو سکتا ہے جو اسلام کو بحیثیت ایک اجتماعی دین کے خود تسلیم کرچکا ہو، اور دوسروں پر اس کی اس حیثیت کو واضح کرنا چاہتا ہو۔
  • اسلامی ریاست کی تعمیر کے لیے بنیادی اصول تو اسی شخص کی دل چسپی کا موجب ہوسکتے ہیں جس کے سامنے کسی اسلامی نظام کو واقعی برپا کرنے کا سوال ہو۔
  • اسلامی تمدن اور اسلامی رہن سہن کے اصول و ضوابط کو سمجھنے کی کوشش تو وہ کرے جسے واقعی کوئی اسلامی معاشرہ تیار کرنا ہو اور ایسے معاشرے کو دنیا کے سامنے ایک جیتے جاگتے اسلامی نمونے کی حیثیت سے پیش کرنا ہو۔
  • زندگی کے مختلف شعبوں میں اسلامی رہنمائی کا علم تو اس کے لیے ضروری ہے جس نے اپنی زندگی کے لیے یہ فیصلہ کرلیا ہو کہ اُسے بہرحال اسلامی اصولوں پر قائم رہنا ہے اور دنیا کے تمام دوسرے اصولوں پر ان اصولوں کی برتری کو اپنے قول اور اپنے عمل سے ثابت کرنا ہے۔
  • منافقوں کے ذکر میں تو اسی کے لیے نصیحت ہے جو ہر آن اس بات سے ڈرتا ہو کہ کہیں کوئی منافقوں جیسی بات اس میں پیدا نہ ہوجائے، اور جو اس بات کا درد رکھتا ہو کہ اپنی حد تک اُمت مسلمہ سے اس روگ کو دُور کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔
  • جنگ کی ہدایات، جنگ کے اخلاق اور جنگ کی پاندیوں کا تذکرہ تو اسی کے لیے مفید ہوسکتا ہے جس نے کسی ایسے کام کی ابتدا کی ہو جس کے نتیجے میں کبھی ایسا خطرناک وقت آنے کا بھی کوئی امکان ہو، لیکن جن لوگوں نے خوب سوچ سمجھ کر اپنے خیال میں بے ضرر راستے اختیار کرلیے ہوں اور جو ہر قدم کو نہ صرف پھونک پھونک کر رکھتے ہوں بلکہ ہر دم اس بات کے لیے  تیار ہوں کہ جب اور جیسی ضرورت پڑے قدم فوراً واپس ہٹا لیا جائے تو ان کے لیے یہ ساری باتیں پچھلے واقعات سے زیادہ کیا اہمیت رکھ سکتی ہیں۔

غرض یہ کہ پورے قرآن پر نظرڈالی جائے۔ اس کا ہر مضمون مطالبہ کرتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی منظم تحریک، کسی مستقل دعوت کا پروگرام اور کسی عملی جدوجہد کا نمونہ ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر یہ سارے مضامین تقریباً بے روح ہوتے ہیں اور اس بات کا سب سے بڑا زندہ ثبوت خود  آج اُمت ِ مسلمہ ہے۔

اب بھی مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ان کی بگڑی ہوئی حالت کا صحیح علاج صرف قرآن مجید ہے لیکن یہ علاج ان ہی لوگوں کے لیے کارگر ہوسکتا ہے جو یہ طے کرلیں کہ وہ اس پروگرام کو لے کر اُٹھیں گے جو قرآن پیش کرتا ہے اور اس دعوت کو عملاً پیش کرنے کی جدوجہد کریں گے جن کی ہدایات قرآن کے ہرصفحے پر مل سکتی ہیں۔ سب سے پہلے مسلمانوں کا حق ہے کہ وہ اس خدائی ہدایت کو سچے معنوںمیں قبول کریں اور اس دنیا کے سامنے پیش کریں لیکن اگر خدانخواستہ انھوں نے اس خدمت کو انجام نہ دیا تو اللہ کا یہ نور ہدایت تو پھیل کر رہے گا۔

اللہ تعالیٰ کچھ اور لوگوں کو اُٹھائے گا اور وہ اُن کی طرح ناکارہ نہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ    ہم سب کو محرومی سے بچائے اور اپنے دین کو قائم کرنے کی ہمیں سعادت نصیب فرمائے۔ یہی   اس زندگی کی سب سے بڑی کمائی ہے۔