نومبر ۲۰۰۸

فہرست مضامین

عالمی غذائی بحران اور پاکستانی زراعت

حافظ وصی محمد خان | نومبر ۲۰۰۸ | شذرات

Responsive image Responsive image

پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ متحدہ ہندستان میں پنجاب کو اناج گھر کہا جاتا تھا جس کا ۴/۳ حصہ پاکستان کے حصے میں آیا۔ پاکستان کے حصے میں بہترین زرعی زمین اور دنیا کا اعلیٰ ترین نہری نظام آیا۔ ہم چاہتے تو زرعی ترقی کی بنیاد پر اپنا معاشی نظام مضبوط بناکر دنیا میں باعزت قوم کی طرح رہتے۔ ۱۹۴۷ء میں ملکی جی ڈی پی  میں زراعت کا حصہ ۶۸ فی صد تھا۔ پاکستان کی معاشی ترقی کا راز صنعتی پیداوار میں ڈھونڈا اور ان کی تمام پالیسیاں صنعتی ترقی کے لیے رہیں اور نتیجتاً آج ۶۰سال گزرنے کے بعد ملکی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ ۲۰ فی صد رہ گیا ہے اور صنعتی ترقی بھی شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکی۔

زرعی شعبے میں ترقی سیاسی ضروریات کی بنا پر صرف انفراسٹرکچر کی حد تک محدود ہوکر رہ گئی ہے، جب کہ تحقیق و ترقی کا شعبہ کاغذی حد تک موجود رہا۔ یہ کام انھوں نے غیروں کے سپرد کرکے یہ سمجھ لیا کہ ان کے ہاتھوں ہونے والی تحقیق سے ترقی کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی طرح سے پاکستان تک پہنچ ہی جائے گی، چاہے یہ ۵۰ برس بعدہی کیوں نہ پہنچے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم زراعت کے میدان میں:

۱- بیج کے لیے بھی دوسرے ممالک کے محتاج ہیں۔ اگر ہم یہ بیج وقت پر درآمد نہ کرپائیں تو اس کی قیمتیں بھی تین گنا بڑھ جاتی ہیں۔

۲- ہم جڑی بوٹیاں اور کیڑے مار ادویہ باہر سے لانے پر مجبور ہیں۔ کھاد کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں۔

۳- نہری نظام کو ایسے بے عمل تجربوں سے گزارا گیا ہے کہ ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا اصول لاگو ہوگیا اور یوں ٹیل والے رقبے بنجر ہوکر رہ گئے ہیں۔

۴- ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے فقدان کے باعث ۶۰ سال گزر جانے کے باوجود ہم  آم کے بٹور (بیماری) کے مسئلے کا حل نہیں ڈھونڈ سکے اور کسی مسیحا کے منتظر ہیں کہ وہ اپنی کی ہوئی ریسرچ سے ہمیں فائدہ دے اور ہم اس مسئلے کو حل کریں۔

۶۰ سال میں زراعت سے پہلوتہی ہمیں اس حد پر لے آئی ہے کہ ہم گذشتہ سال ۳ ارب ڈالر کی صرف غذائی اشیا درآمد کرنے پر مجبور ہوگئے جو کہ ہماری کل برآمدات کے چوتھے حصے کے برابر ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ درآمدات میں گندم، گوشت، آلو، ٹماٹر، ادرک، لہسن پیاز، خشک دودھ، دالیں، گرم مصالحہ جات اور روئی جیسی بنیادی ضروری زرعی اجناس شامل ہیں۔ معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی یہ بات سوچنے پر مجبور ہے کہ دوسرے ممالک کے کسانوں کو فائدہ دینے اور اپنے کسان کی حوصلہ شکنی میں اربابِ اختیار ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں کیوں لگے ہوئے ہیں؟ ہماری زراعت کُش پالیسیوں کی وجہ سے دیہاتوں سے روزگار کی تلاش میں شہروں کا رُخ کرنے والے ’مہاجرین کے قافلے‘ ہرجگہ نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے شہروں کے قریب بہترین زرعی زمینیں رہایشی کالونیوں کی نذر ہوگئی ہیں۔

یہ تاثر عام ہے کہ زراعت کے بجاے تجارت پر توجہ دینے سے ہمارے ملک میں پیسے کی ریل پیل ہوگی، ہم دنیا کے کسی بھی کونے سے خوراک منگوا کر اپنے ملک کے باسیوں کا پیٹ بھر سکتے ہیں۔

دوسری طرف ان تمام ملکوں میں، جو اجناس کے بڑے ایکسپورٹرزمانے جاتے ہیں، حالات نے صورت حال بالکل بدل کر رکھ دی ہے۔ ان عوامل میں:

۱- تیل مہنگا ہونے کی بنا پر بحری جہازوںکے کرایوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ نتیجتاً درآمدی ممالک کو اجناس کی زیادہ قیمت برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔

۲- ان ممالک کی اپنی آبادی بڑھنے سے ان کی غذائی ضروریات بڑھ گئی ہیں جن کی بنا پر درآمد کرنے والی اجناس کی مقدار کم ہوگئی ہے۔

۳- ان ممالک میں بھی قحط سالی کی کیفیت پیدا ہورہی ہے جس کی بنا پر یہ ممالک اپنی پیداوار کو ذخیرہ کر رہے ہیں۔

۴- چین اور بھارت جن کا شمار بڑے برآمد کنندگان میں ہوتا تھا انھوں نے بھی غذائی بحران کا سامنا کرنے کے لیے درآمد کو کم کرنے یا بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔

۵- یہ حالت دیکھ کر ذخیرہ اندوزوں نے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور غذائی اجناس کو سونے کی طرح ذخیرہ کرنا شروع کردیا تاکہ بعد میں اس کو مہنگے داموں فروخت کرسکیں۔

۶- پوری دنیا میں عمومی ترقی کی وجہ سے ایک ہی جنس کو مختلف پراڈکٹس میں پیش کیا جانے لگا ہے جس کی وجہ سے ایک ہی چیز کے مختلف ذائقے ہونے کی وجہ سے لوگ اپنی تسکین کے لیے انھیں استعمال میں لاتے ہیں اور یوں اجناس کا استعمال بڑھ گیا ہے۔

  • پاکستان میں شوکت عزیز نظریے کے تحت ذخیرہ اندوزوں کے ایک گروپ نے جنم لیا۔ جس سے مافیا کا مقصد ملکی غذائی اجناس کو ذخیرہ کر کے مصنوعی قلت پیدا کرنا ہے اور پھر اس مقصد کے حصول کے لیے اس کو مہنگے داموں فروخت کرنا ہے۔
  • تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے دنیا کے ایسے ممالک کو جو ایکسپورٹر گروپ میں تھے توانائی کے متبادل ذرائع ڈھونڈنے کی طرف راغب کیا، لہٰذا بائیوفیول بننے لگا جس کی بنا پر خاص طور پر مکئی، گنا اورسویابین کی کھپت صارفین کی دسترس سے نکل کر بائیوفیول کی زد میں آگئی۔
  • گوشت کا استعمال بڑھا اور گوشت پیدا کرنے والے رقبہ پر کاشت کی جانے والی فصلوں کی جگہ چاروں نے لے لی، جن پر پہلے انسانوں کے لیے اجناس کاشت کی جاتی تھی۔ ان تمام عوامل کا نتیجہ عالمی غذائی بحران کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ قیاس ہے کہ آیندہ ۱۰ برس دنیا کو اس بحران کا حل تلاش کرنے میں لگ جائیں گے اور غذائی بحران نسل آدم کے سر پر منڈلاتا رہے گا۔

ان تمام عوامل کو دیکھنے کے بعد غور کریں کہ پاکستان اس غذائی بحران میں اپنا کردار ادا کرکے کیا کیا فوائد حاصل کرسکتا ہے؟ میرے نزدیک اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہمیں اپنا گھراور   اپنی بنیاد ٹھیک کرنے کا ایک اور عمدہ موقع مل گیا ہے اور اب ہمیں اس بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے اور اپنی عوام کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا چاہیے۔ اس لیے ایک لائحہ عمل وضع کرکے اس پر سنجیدگی سے پالیسی تشکیل دینی چاہیے جس میں مندرجہ ذیل نکات کو مدنظر رکھا جائے تو ہم غذائی بحران سے بڑے اچھے انداز میں نمٹ سکتے ہیں:

۱- زرعی سیکٹر میں ریسرچ اور ڈویلپمنٹ پر بھرپور توجہ دینی چاہیے تاکہ فصلوں کے مداخل، مثلاً ہائبرڈ بیج، کرم کُش اور فصلی ادویہ اپنے ملک میں پیدا کرسکیں۔

۲- طلب کو سامنے رکھتے ہوئے ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا۔

۳- ان ترجیحات کے مطابق زرعی پالیسی ترتیب دی جائے اور وہ فصلات جوبیرون ملک اور اپنے ملک میں زرِمبادلہ کا باعث بن سکتی ہوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

۴- ملک میں سائلوز (اناج گھر) ہنگامی بنیادوں پر کھڑے کر کے بنیادی غذائی اجناس کو ذخیرہ کرنے کا بندوبست کرنا چاہیے۔

۵- اگر ہم شوکت عزیز نظریے کے مطابق ذخیرہ اندوزوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجاے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت کمپنیاں بنائیں تو ہم ملکی پیداوار کو ذخیرہ اور اس کا بہتر وقت میں استعمال کرسکتے ہیں۔

۶- اگر زرعی مداخل کی قیمتوں کی بنیاد انٹرنیشنل پرائس پر رکھنی ہو تو کسان کی پیداوار بھی انٹرنیشنل پرائس پر خریدنی چاہیے۔

۷- تمام فصلوںکی قیمت خرید اور ہدف کو واضح طور پر وقت سے پہلے اعلان کے ذریعے بتانا چاہیے۔

۸- شوگر مل مافیا کو کسانوں کے استحصال سے باز رکھا جائے اور اس مقصد کے حصول کے لیے شوگرملوں کو پابند کیا جائے کہ وہ وقت پر کرشنگ شروع کریں اور کرشنگ کا عمل بھی تیز کیا جانا چاہیے تاکہ گنے کی فصل سے خالی ہونے والی زمین پر گندم کاشت کی جاسکے۔

۹- مزید رقبہ زیرِکاشت لایا جائے اور فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لیے کسانوں کو ترغیبات کے ساتھ ساتھ جدید ٹکنالوجی بھی مہیا کی جائے۔

۱۰- ٹنل فارمنگ اور ڈرپ اری گیشن سسٹم کو رواج دیا جائے تاکہ پانی کے شدید ترین بحران سے اچھے انداز سے نمٹا جاسکے۔

۱۱- سرکاری رقبوں کی غیرمنصفانہ بندربانٹ سے ہٹ کر ایسا فارمولا ترتیب دیا جائے جس کے تحت زمین ایسے بے زمین کاشت کاروں میں تقسیم ہو جو اس رقبے سے اچھی پیداوار لینے کا فن جانتے ہوں اور جدید ٹکنالوجی کے ذریعے انھیں اس قابل بنایا جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرسکیں۔

۱۲- چھوٹے کسانوں کے لیے زرعی مداخل کی خرید کے لیے بلاسود یا کم از کم سروس چارجز پر قرضے فراہم کیے جانے چاہییں۔

۱۳- زراعت کی پیداوار پر سے ہر قسم کے بلاواسطہ یا بالواسطہ ٹیکسوں کا خاتمہ کیا جائے اس سے فی ایکڑ زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا اور ملک اس قابل ہوجائے گا کہ زرعی اجناس کو بیرونِ ملک فروخت کرکے قیمتی زرمبادلہ کما سکے اور اس طرح اس کے ریونیو پر بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

عالمی سطح پر تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث استعمال کی تمام چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ازبس ضروری ہے۔ پاکستان جہاں سیاسی اور معاشی بحرانوں کا شکار ہے وہاں ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود اشیا کی درآمد پر اربوں ڈالروں کا خرچ ہونا بھی لمحۂ فکریہ ہونے کے ساتھ ساتھ  ملکی معیشت پر ایک ناقابلِ برداشت بوجھ بھی ہے۔ ملکی زراعت کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں ایک ایسی پالیسی مرتب کرنی ہوگی جس سے تمام افراد کو یکسر فائدہ ہو اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرکے ہم اس قابل ہوسکیں کہ اپنی زرعی اجناس کو برآمد کرکے نہ صرف اپنے لیے قیمتی زرِمبادلہ بچا سکتے ہیں بلکہ عالمی غذائی بحران کے خاتمے میں بھی نمایاں کردار ادا کرسکتے ہیں۔