نومبر ۲۰۰۸

فہرست مضامین

قرآن اور یہ کائنات

عبدالرشید سیال | نومبر ۲۰۰۸ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

یہ ذکر ہے لازماں و لامکاں کا، جب کائنات اور وقت ابھی وجود میں نہیں آئے تھے۔ جب حکمرانی تھی ایک حاکمِ اعلیٰ کی جس کو آیندہ، یعنی مستقبل میں وہ تمام کچھ کر گزرنے پر مکمل اختیار حاصل تھا جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ وہی حاکمِ اعلیٰ ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔ یہ وہی تو تھا اور ہوگا جو اصل حقیقت ہے۔ وہی ہر اصل کا خالق و مالک ہے۔ اُسی کا رنگ ہر اصل میں جھلکتا ہے اور اُسی نے تمام مراحل کو ایک گوناگوں سانچے میں ڈھال دیا ہے۔

اُس لمحۂ کُن کا تصور کیجیے جب لازماں سے تخلیقِ زماں (کائنات او ر وقت) کا فیصلہ ہوتا ہے۔ حکم ہوتا ہے: آسمان اور زمین وجود میں آجائیں، تو فَیَکُون(پس ڈھل گئے)، یہ تمام عمل ظہور پذیر ہوجاتا ہے۔ اِس کائنات کو اپنے تمام مراحل طے کرنے میں  اربوں سال لگ گئے اور یہ ہے بھی حقیقت، جب کہ قرآن کہتا ہے کہ: ’’زمین و آسمان تعمیلِ حکم میں فوری طور پر وجود میں آگئے‘‘۔سائنس اس وقت کو   Plank Time (۴۳-۱۰ سیکنڈ) کا نام دیتی ہے۔ میں اُسے ’لمحۂ کُن‘ سے تعبیر کرتا ہوں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب آسمان اور کائنات جُدا ہوچکے تھے ۔ آسمانوں نے اپنی تخلیق کا عمل جاری رکھا جس کا انسانی ذرائع اور ذہن قطعی طور پر ادراک  نہیں کر سکتے لیکن تخلیق عالمین میں یہ سفر پہلے ایک سیکنڈ میں تمام وسائل و اسباب اور اصول کے ساتھ معرض وجود میں آ چکے تھے۔

جب حکم ہوا کہ تمام آسمان اور زمین وجود میں آجائیں (اور’کُن‘ جو دراصل اُس حاکمِ اعلیٰ کے ارادے ہی کا نام ہے) تو Nihility (عدم یا نیستی ۔ جو خود آسمان و زمین کا تکملہ ہے) ایک دم اربوں میل پر محیط فضا میں دھوئیں کی طرح بکھر جاتی ہے، اور وہ تمام اصول جو کائنات کی تخلیق کے لیے ضروری تھے، اس پہلے لمحے میں معرضِ وجود میں آجاتے ہیں۔ جب اصول طے پاگئے تو تخلیق نے اپنی منازل طے کرنا شروع کردیں۔

سائنسی پس منظر کی اھمیت

قرآن کریم کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے سائنسی پس منظر کے ساتھ دوسرے علوم کا جاننا ضروری ہے۔ مَیں کلامِ پاک کی سب سے پہلی آیتِ کریمہ  اَلْحَمْدُ  ِﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ کا ذکر کروں گا جس میں ربُّ العزت فرماتے ہیں کہ میں ربّ ہوں عالمین (multiverse)،یعنی عوالِم کا نہ کہ ایک عالَم (universe) کا۔

۲۰ویں صدی کے تقریباً اواخر تک سائنس دان اس بات پر متفق تھے کہ یہ ایک کائنات ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔ ۲۰ویں صدی کے آخری عشرے میں سائنس دانوں نے یہ معلوم کیا کہ  ہمارا عالَم تو ایک ذرّہ ہے اور ایسے بے شمارعوالِم موجود ہیں۔ سائنس دان اب تک چار متوازی طبقاتِ عوالم (Four Strata of Parallel Universes ) دریافت کرچکے ہیں۔ ہم ہر Strata of Universe  کو Mulltiverse  کہہ سکتے ہیں جس میں بے شمار عوالِم موجود ہیں اور ہر عالم میں اربوں کہکشائیں ہیں اور ہر کہکشاں میں اربوں ستارے ہیں اور ایسی ہی ایک کہکشاںمیں جس کا نام مِلکی وے (Milkyway) کہکشاں ہے، ہم رہتے ہیں۔

اس کہکشاں کا مرکز، یعنی کور (Core) یا ڈسک (Disc) ایک لاکھ نوری سال (Light Years)ہے، جب کہ ہمارا شمسی نظام اس کہکشاں کے ایک بازو پر تقریباً اس کے درمیان ہے اور اس کا فاصلہ مرکزی ڈسک سے ۲لاکھ ۲۶ ہزار نوری سال ہے، جب کہ ایک نوری سال ۶ کھرب میل کے برابر ہے۔ شاید اس مختصر تعارف سے آپ کائنات کی وسعتوں کا کچھ اِدراک کرسکیں۔

کائنات: حیران کن انکشافات

یہاں پر مَیں آپ کو اس کائنات کی وسعتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہم اس کائنات میں کس رفتار سے محوِ پرواز ہیں اور بے پناہ رفتار کے باوجود ہمیں معمولی سا چکر بھی نہیں آتا۔ ہم زمین کے باسی ہیں اور یہ :

  •    زمین اپنے محور کے گرد ایک ہزار ۶سو۷۰ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چکر کاٹ رہی ہے۔
  •  اس چکر کے ساتھ ساتھ یہ زمین اپنے مدار میں سورج کے گرد ایک لاکھ ۸ہزار کلومیٹر    فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے۔
  •  پھر یہ زمین اپنے شمسی نظام میں رہتے ہوئے اپنی کہکشاں کے گرد ۷لاکھ ۲۰ہزار کلومیٹر   فی گھنٹہ کی رفتار سے محوِ پرواز ہے۔
  •   تمام شمسی نظام مِلکی وے کہکشاں میں رہتے ہوئے ۹لاکھ ۵۰ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے عالم میں سفر کررہا ہے۔
  •  یہ زمین اپنے متوازی طبقات عوالِم کے ساتھ اپنے مرکز، یعنی اصل مقام، یعنی نقطۂ آغاز Big Bang  سے ۳لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ سے دُور بھاگ رہی ہے۔

یہاں میں یہ بھی عرض کردوں کہ یہ زمین جب اپنے مدار میں سورج کے گرد گھوم رہی ہے تو ہر۱۸میل کے بعد(یعنی ہر سیکنڈ کے بعد) اس میں ۸ئ۲ ملی میٹر کا ایک جھکاؤ آتا ہے، اگر یہ جھکاؤ ۵ئ۲ملی میٹر ہوجائے، یعنی ۳ئ۰ ملی میٹر کم ہوجائے تو زمین سورج سے اتنا دُور نکل جائے گی کہ کچھ عرصے میں یہ برف کا گولا بن جائے گی اور اگر اس ۳ئ۰ ملی میٹر کا جھکاؤ زیادہ، یعنی ۱ئ۳ملی میٹر ہوجائے تو زمین سورج کے اس قدر قریب چلی جائے گی کہ یہ آگ کا گولا بن جائے گی۔ اسی طرح سورج کا حجم ۳۰-۱۰x۶ئ۱ سے ۳۰-۱۰x۴ئ۲ کلوگرام ہے۔ اگر یہ اس سے کم ہوتا تو زمین برفیلی ہوجاتی اور اگر  یہ وزن اس سے زیادہ ہوتا تو انتہائی گرم ہوجاتی___ تو کیا یہ سب اتفاقی حادثہ ہے؟

کیا ہر نک سک سے درست یہ نظم بغیر کسی طاقت کے وقوع پذیر ہوسکتا ہے؟

رسالے Scientific American میں Parallel Universes کے مصنف  میکس ٹیگ مارک (Max Tegmark)کہتے ہیں کہ ہماری پیدایش اور کائنات کی تخلیق واقعتا ایک اتفاقی امر ہے، جیسے مَیں اپنی تاریخِ پیدایش والے دن (۱۱مئی) کو کسی ہوٹل میں کمرہ لینے کے لیے جاتا ہوں تو مجھے گیارھویں فلور پر ۵نمبرکمرہ ملتا ہے تو میری خوشی کی انتہا نہیں رہتی کہ میری پیدایش والے دن مجھے ہوٹل کا فلور اور کمرہ بھی اسی نمبر کا مل گیا۔ مَیں نے مصنف کو لکھا کہ مان لیا کہ آپ کی پیدایش اتفاقی ہوگی۔ کیا وہ ہوٹل (جس کے گیارھویں فلور پر کمرہ نمبر۵ آپ کو ملا) بھی اتفاقی طور پر بن گیا تھا؟ اور اگر اِس ہوٹل کے ڈیزائن اور تعمیر میں کوئی انجینیر اور لیبر کارفرما تھی جو انسانی مشینری کے مقابلے میں انتہائی بے وقعت سی چیز ہے تو کیا انسانی تخلیق بغیر کسی سوپرپاور کے معرض وجود میں آسکتی تھی؟

مَیں نے ٹیگ مارک کو مزید لکھا جیسے کہ آپ میرے اس مضمون کے متن سے اخذ کرلیں گے کہ مان لیا آپ پیرس میں صبح اتفاقی طور پر اپنی تاریخ پیدایش والے کمرے میں جاتے ہیں اور اسی دن بعد دوپہر لندن جانے کا اتفاق ہو تو آپ کی کیفیت کیا ہوگی جب پھر فلور نمبر ۱۱ پر کمرہ نمبر۵ملے۔ اور اگر اُسی شام آپ کو نیویارک جانے کا اتفاق ہو اور آپ کو وہاں بھی وہی کمرہ ملے، یعنی گیارھویں فلور پر کمرہ نمبر۵ تو آپ کی کیا کیفیت ہوگی! آپ یقینا استقبالیہ پر کھڑی لڑکی سے پوچھیں گے کہ یہ کمرہ کس نے میرے لیے بُک کیا، اور اگر جواب ملے کہ یہ اتفاقی طور پر ہوگیا تو یقینا آپ اس کی بات پر یقین نہیں کریں گے اور ضرور کہیں گے کہ اس کے پیچھے کوئی شخص کارفرما ہے۔  یہ بھی عین ممکن ہے کہ آپ اس کمرے میں جانا قطعی طور پرپسند نہیں کریں گے کہ شاید اس کے پیچھے کوئی سازش کارفرما ہو۔

اب اندازہ لگائیں کہ کائنات کا نظام آپ، یعنی سائنس دانوں ہی کے مطابق اربوں سالوں سے ایک خاص ڈسپلن میںکام کیے جارہا ہے اور اس کی فائن ٹیوننگ کا تو اندازہ آپ ہی کرسکتے ہیں کیونکہ (المُلک ۶۷:۳) میں ربُّ العزت فرماتے ہیں کہ کائنات کی طرف نظر اُٹھا کے دیکھو کہ شاید تمھیں اس میں کوئی رخنہ نظر آجائے۔ اور پھر تکرار ہے کہ ایک مرتبہ پھر نظر اُٹھا کے دیکھو کہ شاید اس میں تمھیں کوئی رخنہ نظر آجائے:

لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (مومن۴۰:۵۷) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسان کو پیدا کرنے کی بہ نسبت یقینا زیادہ بڑا کام ہے،مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

فَاسْتَفْتِھِمْ اَھُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمْ مَّنْ خَلَقْنَا اِِنَّا خَلَقْنٰھُمْ مِّنْ طِینٍ لاَّزِبٍ (الصّٰفّت ۳۷:۱۱) اب اِن سے پوچھو، اِن کی پیدایش زیادہ مشکل ہے یا اُن چیزوں کی جو ہم نے پیدا کر رکھی ہیں؟ اِن کو تو ہم نے لیس دار گارے سے پیدا کیا ہے۔

تخلیقِ کائنات اور انسان کی تخلیق سے متعلق خداوند قدوس فرماتے ہیں کہ تمھارا ایک مرتبہ پیدا کیا جانا اور مرنے کے بعد پھر پیدا کیا جانا تو کوئی بھی مشکل کام نہیں۔ کیونکہ یہ تو ایسا ہے جیسے کمپیوٹر سکرین پر آپ اپنا کوڈ اور بِٹ میں سٹور کیا ہوا ڈیٹا، مووی ، ویڈیو، پکچرز ایک کمانڈ میں دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے ہی ہمارے جینوم (Genome) پر لکھے ۵ئ۳ ارب کوڈ جو ہم ہرلمحے زمین میں بکھیرتے جارہے ہیں ایک ہی کمانڈ پر ربُّ العزت کے حضور انسانی شکل میں حاضر ہوں گے ۔ کمپیوٹر کی ایجاد نے روزِ جزا کے بے شمار عقدے حل کر دیے ہیں۔ اگر آپ تفصیل میں جانا چاہیں تو ہماری بینائی، یعنی دیکھنے کے عمل کے ساتھ ہمارا انٹرنیٹ پر بصری ردعمل اُس کی ادنیٰ مثال ہے ۔ یہ تفصیل کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں ۔بڑا کام تو تخلیقِ کائنات کا تھا، جیساکہ سورئہ ملک میں فرمایا کہ ’’تلاش کرکے تو دیکھو کہیں آپ کو کوئی اس فضاے بسیط میں کوئی رخنہ نظر آجائے‘‘۔ پھر کائنات کی اِن وسعتوں کو اُس ربُّ العزت نے نظر نہ آنے والے ستونوں سے جیسا کہ سورئہ بروج کے آغاز میں ہے، ایک نپے تلے نظام میں جوڑ دیا ہے، اور عصرِحاضر کے سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ یہ نظر نہ آنے والے بُرج برقی مقناطیسی میدان (Electromegnatic Fields) ہیں جنھوں نے تمام نظامِ قدرت کو ایک واضح اور صحیح رُخ میں متعین کررکھا ہے۔

وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیمِo (یٰسٓ ۳۶: ۳۹) اور چاند ، اُس کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ اُن سے گزرتا ہوا وہ پھر کھجور کی سوکھی شاخ کے مانند رہ جاتا ہے۔

لاَ الشَّمْسُ یَنْــبَغِی م۔     لَھَآ اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلاَ الَّیْلُ سَابِقُ النَّھَارِ وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ o (یٰسٓ ۳۶: ۴۰) نہ تو سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو جاپکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔

خداوند قدوس فرماتے ہیں کہ یہ چاند، سورج ایک مقررہ مدار میں اپنے سفر میں ایک   وقتِ مقرر تک رواں دواں ہیں۔ پھر اگر قرآن کریم کی بیش تر سورتوں میں دن کو رات پر اور رات کو دن پر لپیٹنے کا ذکر ہے تو کس خوب صورت انداز میں ربُّ العزت نے زمین کے گول ہونے کے شواہد دیے ہیں۔ اور پھر جب قیامت کی گھڑی آئے گی تو کچھ تو سو رہے ہوں گے، جب کہ کچھ اپنے کام میں مشغول ہوں گے۔ اس طرح ایک لطیف انداز میں زمین پر کہیں دن اور کہیں رات کا اشارہ دے دیا۔

سورئہ یٰسین (۳۶: ۳۹-۴۰) میں ہماری وسعتِ نظر کے مطابق قرآنِ کریم میں چاند اور ستاروں اور سورج کے سفر کا ذکر کیا ۔ آج کی سائنس یہ کہتی ہے کہ اگر یہ تمام ستارے ایک جگہ پر رُکے ہوتے تو ان سے منعکس ہو کر روشنی رات کو بھی دن کے اُجالے میں بدل دیتی، لہٰذا یہ تمام ستارے اپنے ایک مقررہ مدار میں رواں دواں ہیں۔ جو دن میں اُجالے اور رات میں اندھیرے کا سبب بنتے ہیں۔

ایک مرتبہ آئن سٹائن نے کہا کہ یہ کائنات ازل سے ایسے ہی (اتفاقیہ) چل رہی ہے۔ یہ نظریہ The Fudge Factor (Steady State of Universe)  اُنھوں نے پیش کیا لیکن جب ۱۹۲۹ء میں ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے یہ ثابت کردیا کہ ہم سے دُور کہکشائیں بڑی تیزی سے ایک دوسرے سے دُور بھاگتی نظر آرہی ہیں، تو پھر ۱۹۳۱ء میں البرٹ آئن سٹائن نے Big Bang Theory  کو مانتے ہوئے کہا کہ Fudge Factor  میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ اُس کے الفاظ ہیں کہ جب کوئی چیز پیدا ہوئی اور وہ اپنے سفر پر رواں دواں ہے تو پھر اُس کے پیدا کرنے والی ذات بھی ہوگی۔ ساتھ ہی ایڈون ہبل کے مشاہدے کو سراہتے ہوئے کہا کہ کائنات کی تخلیق اور ارتقا سے متعلق میں نے اس سے بہتر کوئی ثبوت نہیںدیکھا۔

کائنات کا آغاز اور اختتام

یہ کائنات جو اس قدر تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس میں ہر ذرّہ ٔ زمین سے لے کر کائنات بسیط کی وسعتوں میں عالمین تک اپنے اپنے سفر پر رواں دواں ہیں، پھر بھی یہ ایک محدود (closed) ماڈل کی طرح کام کر رہا ہے۔سائنس دان کائنات کے ختم اور دوبارہ شروع ہونے پر یقین رکھتے ہیں جیسا کہ سورۃ الانبیاء کے حسبِ ذیل حوالے سے واضح ہے، لیکن وہ محدود ماڈل اور حدود کے حالات (Boundry Conditions) کا ادراک نہیں کرسکتے جو قرآن حکیم میں مختلف جگہ بیان ہوئے ہیں۔ خدا وند قدوس نے فرمایا ہے:

یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآئَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ  وَعْدًا عَلَیْنَاط اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیْنَo (انبیاء ۲۱:۱۰۴) وہ دن جب کہ ہم آسمان کو یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے طُومار میں اَوراق لپیٹ دیے جاتے ہیں۔ جس طرح پہلے ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اُسی طرح ہم پھر اُس کا اعادہ کریں گے۔ یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذمّے، اور یہ کام ہمیں بہرحال کرنا ہے۔

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ قَادِرٌ عَلٰٓی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَھُمْ وَ جَعَلَ لَھُمْ اَجَلًا لَّا رَیْبَ فِیْہِ فَاَبَی الظّٰلِمُوْنَ اِلَّا کُفُوْرًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۹۹)  کیا ان کو یہ نہ سُوجھا کہ جس خدا نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے وہ اِن جیسوں کو پیدا کرنے کی ضرور قدرت رکھتا ہے؟ اُس نے اِن کے حشر کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جس کا آنا یقینی ہے، مگر ظالموں کو اصرار ہے کہ وہ اس کا انکار ہی کریں گے۔

وَھُوَ الَّذِیْٓ اَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَکَفُوْرٌo (الحج ۲۲: ۶۶) اور وہی ہے جس نے تمھیں زندگی بخشی ہے، وہی تم کو موت دیتا ہے اور وہی پھر تم کو زندہ کرے گا۔ سچ یہ ہے کہ انسان بڑا ہی منکرِ حق ہے۔

اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْہَا مِصْبَاحٌ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ الزُّجَاجَۃُ کَاَنَّھَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لاَّ شَرْقِیَّۃٍ وَّلاَ غَرْبِیَّۃٍ یَّکَادُ زَیْتُہَا یُضِیٓئُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ یَہْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَآئُ وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌo (النور۲۴:۳۵) اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ (کائنات میں) اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو، چراغ ایک فانونس میں ہو، فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا، اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگے اس کو نہ لگے  (اِس طرح) روشنی پر روشنی (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہوگئے ہوں)۔ اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی فرماتا ہے، وہ لوگوں کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے۔ وہ ہرچیز سے خوب واقف ہے۔

اس آیت کریمہ میں ربُّ العزت نے تمام کائنات کی ابتدا و آخری مادی اصول اور وہ سرحد (نچلا آسمان) جہاں تمام طبعی قوانین اختتام پذیر ہوں گے، کی نشان دہی کردی ہے، لیکن صرف اور صرف نورِ خدا ہی باقی آسمانوں میں پھیلا ہوگا کیونکہ وہی تو ہے جو تمام اصولوں کا خالق ہے۔

وَالسَّمَآئَ رَفَعَھَا وَوَضَعَ الْمِیْزَانَo (رحمٰن۵۵:۷) آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کردی۔

اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِo (رحمٰن ۵۵:۸)اس کا تقاضا ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو۔

فَاِِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآئُ فَکَانَتْ وَرْدَۃً کَالدِّھَانِo (رحمٰن۵۵:۳۷) پھر(کیا بنے گا اس وقت) جب آسمان پھٹے گا اور لال چمڑے کی طرح سُرخ ہو جائے گا۔

فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِo (رحمٰن۵۵:۳۸)(اس وقت) تم اپنے رب کی کن کن قدرتوںکو جھٹلائو گے۔

اِِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِزِیْنَۃِ نِ الْکَوَاکِبِo (الصفّٰت ۳۷:۶) ہم نے آسمانِ دنیا کو تاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے۔

تمام کائنات چاروں طرف سے فٹ بال کوَر کی طرح پہلے یا نچلے آسمان سے گھری ہوئی ہے اس لیے کہ Closed Model  میں ہر چیز نے تخریب یا توڑ پھوڑ کے عمل سے دوچار ہونا ہے (انفطار ۸۲:۱-۴ )، جیسے اگر گلاس میز سے فرش پر گرے تو ٹوٹ جائے گا۔ ہم ایک ٹوٹے ہوئے گلاس کو پھر سے میز پر اپنی اصلی حالت میں نہیں دیکھ سکتے۔ اس لیے کہ 2nd Law of Thermodynamic اس کی نفی کرتا ہے اور یہی Murphy Lawکی بنیاد فراہم کرتا ہے اور عملِ تخریب توڑ پھوڑ کا عمل Thermodynamic  Arrow of Timeکی ایک مثال ہے۔ (Murphy's Laws -----> In closed system-model disorder or entropy always increases) ۔ اگر یہ Open Model  ہوتا تو توڑ پھوڑ کا یہ عمل وجود میں نہ آتا۔ اِس کی مثال یوں ہے کہ اگر آپ کسی گول جار سے کسی طرح تمام ہوا نکال لیں اور اس میں شیشے کی کوئی چیز رکھ دیں اور پھر زور سے ہلائیں تو وہ نہیں ٹوٹے گا۔ لیکن ہماری کائنات کا عمل اس کے برعکس ہے۔

اب تصور کریں کہ اِس فضاے بسیط نے کب تک اور کہاں تک پھیلنا ہے۔ نچلے آسمان تک پہنچنے کے لیے جب یہ پھیلتی ہوئی کائنات آسمان سے ٹکرائے گی --- (Big Smash) تو مختلف Universes (عوالِم) اپنے اپنے وقت میں پھیلتے ہوئے اس سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجائیں گی ۔ اس وقت نچلا آسمان بھی پاش پاش ہورہا ہوگا۔ یہ کیفیت بڑی خوب صورتی سے  سورۃ الانبیائ(۲۱:۱۰۴) میں بیان کی گئی ہے۔ خداوند قدوس فرماتے ہیں کہ اس کے لیے ہم نے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ وہ نہ ایک گھڑی آگے ہوسکتا ہے اور نہ پیچھے۔

وَاِِذَا الْکَوَاکِبُ انْتَثَرَتْ o وَاِِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْo (انفطار۸۲:۲-۳) ’’اور جب سمندر پھاڑ دیے جائیں گے، سمندر اُبل پڑیں گے، یعنی سمندروں میں آگ لگ جانے سے بڑی سٹپٹاہٹ پیدا ہوتی ہے --- لیکن جب ٹکرا کر پاش پاش ہونے کے واقعات رونما ہورہے ہوں گے اس وقت یہ عمل جاری ہوگا اور کچھ اجرامِ فلکی ایسے بھی ہوں گے جو Black Holes  میں ضم ہوجائیں گے۔ لیکن ان کاکششِ ثقل کا اثر کائنات میں پھیلتا جائے گا۔ جس سے کائنات ایک دفعہ پھر اُسی طرح گرم ہوجائے گی جس طرح یہ شروع میں تھی اور وہ درجۂ حرارت اربوں سینٹی گریڈ تک پہنچ جائے گا۔ اور پھر سمندروں کی حالت آگ کے سمندر جیسی ہوگی۔

آج کے سائنس دان محدود ماڈل پر متفق ہیں لیکن وہ نہیں جانتے یہ اس قدر وسیع اور پھیلتی ہوئی کائنات محدود ماڈل کی طرح کیسے کام کرے گی۔ کاش وہ قرآن سے رہنمائی لیتے۔ میری کتاب :  Faith in the Scientific Philosophy of Religion جو اس وقت برطانیہ اور امریکا میں دستیاب ہے، میں اس مضمون پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے کہ Arrows of Time  کس طرح کام کریں گے اور کائنات ایک دفعہ ختم ہونے کے بعد پھر کیسے شروع ہوگی۔

خالقِ کائنات سے متعلق

مَیں اس کی مثال کچھ یوں دیا کرتا ہوں کہ ہم دن کی روشنی میں دیکھ سکتے ہیں۔ جب کہ رات کے اندھیرے میں ہمیں کچھ سُجھائی نہیں دیتا۔ ہم جانتے ہیں کہ دن کی روشنی کا سبب سورج ہے۔ اگر سورج کی روشنی نہ ہوتی تو ہم دیکھنے کے قابل نہ ہوتے۔ اب اس طرح سورج بھی تو بغیر کسی مقصد ، بغیر کسی وجہ کے معرضِ وجود میں نہیں آگیا۔ اس کے پیچھے بھی تو کوئی قوت کارفرما ہے یعنی:

Each effect has to have a source and the source has a logic behind its creation and we invariably call that Source "The Nature".

ہر مظہر یا نتیجے کا ایک مبداء یا سبب ہونا لازم ہے، اور مبداء کی اپنی تخلیق کے پیچھے ایک منطق ہوتی ہے۔ ہم اس مبداء یا قوت کو لامحالہ فطرت (nature) کہتے ہیں۔

لفظ فطرت سے کسی کو اختلاف نہیں۔ میں اُسے ’اﷲ‘ کہتا ہوں کوئی اُسے ’بھگوان‘ کا نام دیتا ہے اور کوئی اسے "God"کہتا ہے۔

حیران کن ’اتفاقات‘

قرآن کریم (الکہف۱۸:۲۵) میں ذکر ہے کہ وہ ۳۰۰ سال سوئے، اس میں ۹ جمع کردیں۔ اس لطیف فرق کی تفصیل آپ جانیں تو حیران ہوں گے کہ :

۳۰۰شمسی سال      =   ۲۴۲۲ئ۳۶۵ x ۳۰۰  =  ۶۶ئ۱۰۹۵۷۲ دن

اور   ۳۰۹ قمری سال             =   ۵۵۰۳۲۹ئ۲۹  x ۱۲ x ۳۰۹  =  ۶۶ئ۱۰۹۵۷۲ دن

یعنی خداوند قدوس نے صرف اس آیت کریمہ سے انسان کو شمسی اور قمری سال کی نسبت ۱۴۰۰ سال پہلے بتادی۔

سورۂ انشقاق کا نمبر ۸۴ ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ پلونیم (Polonium) جس کا عنصر نمبر ۸۴ ہے اور یہ عنصر پھٹنے (Spontanous Disintegration ) پر بے شمار انرجی پیدا کرتا ہے۔

اسی طرح سورۃ الحدید کا نمبر ۵۷ ہے اور لوہے کا Stable Isotop  بھی ۵۷ہے۔ کیا  یہ سب اتفاقیہ ہیں؟

انسان کا لفظ قرآن پاک میں ۶۵ مرتبہ آیا ہے، آئیے اب اس کو دیکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ ملتے جلتے الفاظ کلام پاک میں کتنی مرتبہ آئے : مٹی: ۱۷ دفعہ، نطفے کا قطرہ: ۱۲ دفعہ، غیرمکمل حالت میں بچہ: ۶دفعہ، نیم شکل میں گوشت کا لوتھڑا:۳ دفعہ، ہڈی:۱۵ دفعہ، گوشت: ۱۲ دفعہ۔ گویا کہ کُل ۶۵دفعہ۔

اسی طرح زمین کا ذکر ۱۳مرتبہ اور سمندر کا ذکر۳۲ مرتبہ آیا ہے۔ زمین پر پانی اور خشکی کا تناسب کس خوب صورت انداز میں ظاہر کیا گیا ہے:

زمین: ۱۳x ۱۰۰= ۴۵            ۸۸۸۸۸۸ئ۲۸ (خشکی)

پانی: ۳۲x ۱۰۰= ۴۵              ۱۱۱۱۱۱ئ۷۱ (سمندر)

اسی طرح کائنات اور آسمانوں کی تخلیق کا ذکر ۷ مرتبہ ہے:

دن یعنی یوم کا ذکر

=

۳۶۵ مرتبہ

(ایک سال کے دن)

ایام کا ذکر

=

۳۰ مرتبہ

(ایک ماہ کے دن)

مہینہ کا ذکر

=

۱۲ مرتبہ

(ایک سال کے مہینے)

کیا یہ سب اتفاقی امر ہے؟