نومبر ۲۰۰۸

فہرست مضامین

بحران: قرضوں کا ، یا اخلاقی اقدار کا؟

منصور درانی | نومبر ۲۰۰۸ | احوالِ عالم

Responsive image Responsive image

ترجمہ: ریاض محمود انجم / مسلم سجاد

یہ ماضی قریب کی بات ہے جب دنیا کے امیر ترین شخص وارن بوفے نے Derivatives٭ اور مالی آلات مبادلہ (CDS) کو گذشتہ تین سالوں کے دوران وسیع تباہی پھیلانے والے مالی ہتھیار قرار دیا۔ ہم میں سے کچھ ہی نے ان پر توجہ دی۔ اُس وقت عالمی معیشت رُوبہ ترقی تھی۔ یورپ کی مالی منڈی بلندی کے مراحل طے کر رہی تھی۔ امریکا ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں کامیابی حاصل کر رہا تھا اور باقی دنیا ’امریکی خواب‘ نامی اس سراب کی، اندھوں کی طرح نقل کررہی تھی۔

حالیہ مالیاتی بحران پر متبادل پس منظر میں اعلیٰ معیار کے کئی مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ ایک عام شخص کی حیثیت سے اس چوپٹ صورت حال کو سمجھنے کے لیے ہمیں ماضی کی بنیادیات تک جانا ہوگا۔ Derivativesکی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ جیسے ایک آئینے کو دوسرے آئینے   کے سامنے رکھ دیا جائے جس کے باعث ٹھوس جسم کا عکس لامتناہی ہوجائے۔ آسٹریلوی وزیراعظم کیون رڈ (Kevin Rudd) نے ’انتہاپسند سرمایہ دارانہ نظام کی مکمل ناکامی‘ کو معاشی بحران کی وجہ قرار دیا ہے۔ ان کی راے میں لالچ اور خوف کی جڑواں برائیاں ہی معاشی تباہی کی اصل جڑ ہیں۔ سود اور سٹے پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کافی عرصے سے رائج تھا لیکن اس نظام کی انتہائی شدید نوعیت کے بیج امریکا کی طرف سے اس وقت بوئے گئے جب رونالڈ ریگن کی صدارت میں جدید قدامت پسندوں (neo-cons)نے وہائٹ ہائوس میں ڈیرا جمایا۔ ان کی غرض و غایت یہ تھی کہ گذشتہ سات عشروں کی نسبت اب زیادہ تیزرفتاری کے ساتھ عالمی ذرائع اور وسائل کو ہتھیایا جائے۔

دنیا کی ’امیر ترین قوم‘ نے بیرونی اور اندرونی طور پر قرض مہیا کرنے والے اداروں سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے لیے تحقیق اور تیاری اور جنگوں کے لیے  کھربوں ڈالر ادھار لیے ہیں۔ ری پبلکن صدارتی امیدوار نے کہا ہے کہ وہ آیندہ ۱۰۰ برس تک   بہ خوشی جنگ جاری رکھیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا دیوالیہ ہوچکا ہے۔ امریکا کے کمپٹرولر جنرل (Comptroller General) اور سرکاری دفتر حسابات (GAO) کے سربراہ نے امریکی حکومت کی مالیاتی صورت حال پر کانگریس کو اپنی ۱۷؍ستمبر ۲۰۰۷ء کی رپورٹ میں کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے مالیاتی رپورٹ اور قواعد و ضوابط کی پابندی پر مؤثر کنٹرول نہیں رکھا‘‘۔

جی اے او، رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ۳۰ستمبر ۲۰۰۷ء کو وفاقی حکومت پر ۵۳۰کھرب ڈالر کے واجبات تھے۔ دماغ کو چکرا کے رکھ دینے والے اس قرض کے لیے رقومات مختص نہیں کی گئیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ ادایگی کا ارادہ ہی نہیں ہے۔ ۵۳۰ کھرب کا مطلب ۵۳ہزار ارب ڈالر ہے۔ جی اے او کے سربراہ کی حیثیت سے واکر نے حال ہی میں استعفا دے دیا ہے۔ امریکی معیشت کی اس نازک صورت حال کا عکس دوسری کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر کی گرتی ہوئی قیمت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ۱۷؍مارچ ۲۰۰۸ء کو ایک سوئس فرانک ایک ڈالر سے زیادہ قیمت رکھتا تھا۔ ۱۹۷۰ء میں ایک ڈالر کے بدلے ۲ئ۴ سوئس فرانک ملتے تھے۔ ۱۹۷۰ء میں ایک ڈالر کے ۳۶۰ جاپانی ین لیے جاسکتے تھے، آج ایک ڈالر میں صرف ۱۰۰ ین آتے ہیں۔

امریکا نے صرف ۲۰۰۷ء میں ۷۳۹ ارب ڈالر ادھار لیے جن میں سے زیادہ تر رقم عراق کو مکمل طور پر تباہ کرنے پر خرچ کی گئی تاکہ تباہی کے ان ہتھیاروں کو تلاش کیا جائے جن کا سرے سے کہیں وجود ہی نہیں تھا۔ اسی طرح افغانستان کو تباہ کرنے میں اور ایک فرد کی تلاش کے عذر پر جس کا پتا چلانے میں امریکا ناکام رہا۔ ہاں امریکا، لاکھوں شہری موت کے گھاٹ اُتارنے میں ضرور کامیاب رہا۔ دیگر ’امیر‘ صلیبی ممالک نے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں اس عالمی غنڈے کے ساتھ شراکت کرلی ہے۔ انھوں نے بھی ۲۰۰۷ء میں بہت زیادہ رقوم ادھار کے طور پر حاصل کیں۔ مثلاً اسپین نے ۱۴۶ ارب، برطانیہ نے ۱۳۶ ارب ، آسٹریلیا نے ۵۶ ارب اور اٹلی نے  ۴۷ ارب ڈالر قرضے کی مد میں حاصل کیے۔ امریکا کی ۲۰۰۸ء میں ادھار لی ہوئی رقم ۱۰ کھرب ڈالر سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔ اگرچہ یہ ہوش اُڑا دینے والی رقوم نظری طور پر ادھار حاصل کی گئی ہیں، لیکن قرض خواہ ممالک و افراد دو وجوہ کے باعث قرض دار سے اپنی یہ رقوم وصول نہ کرسکیں گے:

ا- قرض لینے والا ملک ایمان دار نہیں، اس نے ادایگی کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا ہے۔

ب- قرض لینے والا ملک اس وقت فوجی طور پر بہت طاقت ور ہے۔

چین کے علاوہ دیگر اُدھار دینے والے ممالک اپنی ’سرمایہ کاری‘ کو مشکل ہی سے واپس لے پائیں گے۔

یکے بعد دیگرے جدید قدامت پسند (نیو کونز) صدور نے نہایت ہی جارحانہ اور انتہا پسندانہ انداز میں مالی منڈیوں کے قواعد و ضوابط نرم کردیے اور انھیں لالچی سٹے بازوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اب تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ ایک مثال ہے جس نے عالمی سطح پر افراطِ زر پیدا کردیا جس کے نتیجے میں دنیا کے کروڑوں انسان غریب تر ہوگئے۔ مالی اور تجارتی قواعد وضوابط مرتب کرنے والے امریکی ادارے (Commodity Futures Trading Commission- CFTC)کی ایک حالیہ اطلاع کے مطابق نیویارک تجارتی ایکسچینج کے تیل کے معاہدات میں ان مالی اداروں کا حصہ جو اپنے گاہکوں یا اپنے لیے سٹّے بازی کرتے ہیںتقریباً ۸۱ فی صد ہے، اور یہ ایکسچینج ان اشیا کے لیے دنیابھر کا سب سے بڑا لین دین کرنے والا ادارہ ہے۔ سرمایہ کاری کی رقوم اشیا کی منڈی میں ایجنٹوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر لگا دی گئیں۔ جس کی وجہ سے ۲۰۰۳ء میں ان کے حصص کی ۱۳ارب ڈالر مالیت اس سال بڑھ کر ۲۶۰ ارب ڈالر ہوگئی ہے۔ اس عرصے کے دوران، خام تیل کی قیمت میں بلاروک ٹوک ہرسال اضافہ ہوتا گیا۔ اس حقیقت کے ذریعے بش کے اِس استدلال کے غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ چین کی اقتصادی ترقی اور خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہندستانی عوام کی بسیار خوری کے باعث ہوا۔

سٹّے بازوں نے جن کو ’بھینسے‘ یا ’ریچھ‘ کا نام دیا گیا ہے، اپنے پاس کوئی بھی چیز موجود نہ ہونے کے باوجود اسے فروخت کرنے (ریچھ)اور اپنے پاس رقم موجود نہ ہونے کے باوجود فرضی خریداری (بھینسے) کے ذریعے حصص اور اشیا کی منڈی میں تباہی پھیلا دی۔ ان کے تجارتی اور سرمایہ کاری سے منسلک بنکاری کے شعبے کے ’رشتے داروں‘ نے کاریں،گھر، کپڑے، ریفریجریٹر بلکہ تعطیلات تک خریدنے کے لیے ان لوگوں کو رقوم ادھار دینی شروع کردیں جو یہ رقوم واپس کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ قرض واپس کرنے کی کم استطاعت (جو بعدازاں عدمِ استطاعت میں تبدیل ہوگئی) رکھنے کے باعث انھیں کم تر معیار (sub prime) کے گاہکوں کا نام دیا گیا اور ان پر کافی زیادہ شرح سود عائد کی گئی۔ اس قسم کے غیرمحتاط اور حرص و آز پر مبنی اُدھار دینے کے فیصلوں کے باوجود بھی بنک کسی قسم کا کوئی خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہ تھے۔ لہٰذا انھوں نے ان قرضوں کا سی ڈی ایس CDS کے ذریعے بیمہ کروایا جن کی واپسی کا امکان نہیں تھا۔ اس صورت حال کے باعث تباہی کا امکان وسیع تر ہوگیا، حتیٰ کہ بیمہ کرنے والوں کی رقم بھی دائو پر لگ گئی۔ شرح سود میں معمولی اضافہ ہوا تو کم تر معیار کے گاہک نادہندہ ہونے لگے۔ ان حالات کے باعث بڑے پیمانے پر افراد اپنے قرضے واپس کرنے کی اہلیت سے محروم ہوکر نادہندہ ہوگئے۔ جن بنکوں نے ان گاہکوں کو قرضے دیے تھے، وہ ڈوبنے لگے۔ انھوں نے اپنی رقوم واپس لینے کے لیے   رہن شدہ جایدادوںکو فروخت کرنے کی کوشش کی لیکن ان جایدادوں کو خریدنے کے لیے کوئی بھی تیار نہ تھا۔ یہ صورت حال، اس خطرناک کھیل کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی جو ’انتہا پسند سرمایہ دارانہ نظام‘ کے تحت کھیلا جارہا تھا۔

برطانیہ کے چوٹی کے بنک بارکلے کی ۲۰۰۷ء کی سالانہ رپورٹ، گاہکوں کو کُل قرضوں، یعنی ان کی اصل تجارت کی مالیت ۳۴۵ ارب برطانوی پائونڈ بتاتی ہے۔ دوسری طرف تجارت اور derivatives مل کر ۵۴۱ ارب پائونڈ ہوجاتے ہیں۔ سٹّے کی تجارت میں اتنی زیادہ سرمایہ کاری بے تُکی ہے اور اس کی کوئی توجیہہ نہیں کی جاسکتی۔ لالچ اور لاپروائی ہی اس کی وجہ نظر آتے ہیں۔ بالکل بنیادی سطح پر، سود پر مبنی مالیاتی آلات سرمایے پر متعین رقم وصول کرتے ہیں جو تجارت یا صَرف کے لیے دیے جاتے ہیں۔ اس نظام میں اگر وصول کرنے والا فائدہ اٹھا رہا ہے تو سرمایہ فراہم کرنے والے (بنک اور دوسرے مالیاتی ادارے) زیادہ فکرمند نہیں ہوتے۔ یہ لوگ قانوناً پابند ہوتے ہیں کہ وہ حاصل کردہ رقم سے زیادہ ادا کریں اگرچہ انھیں نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ اسلام اس عمل کو صریح ناانصافی سے تعبیر کرتا ہے۔ اسے اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف اعلانِ جنگ قرار دیتا ہے۔ اس لیے سود پر مبنی نظام کی تباہی تو مقدر تھی اور یہی ہے جو ہو رہا ہے۔

فنانشل ٹائمز کے ۱۰؍اکتوبر کے شمارے میں فلپ اسٹیفنز نے کس قدر درست اور برمحل لکھا کہ ’’گذشتہ دو سے زیادہ صدیوں سے امریکا اور یورپ کو بلاشرکت غیرے معاشی، سیاسی اور ثقافتی بالادستی حاصل رہی۔ اب یہ دور ختم ہو رہا ہے‘‘۔ یہ بحران کس طرح پیدا ہوا، اس پر ضخیم کتابیں اور مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ ہزاروں کے روزگار خطرے میں ہیں۔ ڈیپریشن اور خودکشیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹیکس دہندگان کے کروڑوں ڈالر، وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے مالی ہتھیاروں کے تیار کرنے اور استعمال کرنے والوں کو بچانے کے لیے جھونکے جارہے ہیں۔ آزاد منڈی کے علَم برداروں کی طرف سے ان اقدامات کے باعث ہمیں یہ یقین ہوتا جا رہا ہے کہ اس نظام کے تحت منافعے فرد وصول کرتا ہے، جب کہ خسارے اجتماعی سطح پر بھگتنا پڑتے ہیں۔ یہ صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے جس کی ’تبلیغ‘ یہ امیر علَم بردار ’تیسری دنیا‘ کو کرتے ہیں۔

عالمی مبصرین کی پیش گوئی ہے کہ جلد ہی سورج پھر چمکنے لگے گا، یقینا یہ چمکے گا۔ لیکن اتنا روشن اب کبھی نہ ہوگا اور ایسا کبھی ہونا بھی نہیں چاہیے۔ کیوں کہ یہ ’انتہائی روشنی‘ کرۂ ارض کے اربوں باسیوں کے لیے زندگی کو مشکل بنا رہی تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام کے باعث ہمارا معاشرہ دوطبقوں میں تقسیم ہوگیا ہے: انتہائی امیر اور انتہائی غریب۔ اس نظام کے تحت انگلستان میں رہنے والا ہندستانی صنعت کار ۳۰۰ ملین پائونڈ کی مالیت کا گھر اپنی بیوی کے لیے خریدتا ہے، جب کہ ۳۰۰ ملین سے زائد ہندستانی یومیہ نصف پائونڈ پر گزارا کرتے ہیں۔ مزیدبرآں لاکھوں ایشیائی، افریقی، کون جانے امریکی اور یورپی بھی بھوک کے ہاتھوں موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ معاشی تفاوت صرف صنعت کاروں تک محدود نہیں ہے۔ کمپنیوں کے سربراہوں اور متوسط درجے کے ملازمین کی آمدنی کا فرق بھی مغرب میں بہت بڑھ گیا ہے۔ امریکا کے ۱۵ اداروں کے سربراہ ۲۰۰۳ء میں اوسط سے ۳۶۰ گنا پا رہے تھے، اور ۲۰۰۷ء میں ۵۲۰ گنا پا رہے ہیں۔لہٰذا میں اسے معاشی یا مالی بحران تسلیم نہیں کرتا۔ یہ انسانی اقدار کی عظیم تباہی ہے۔

اسلام میں کوئی مالیاتی معیشت نہیں ہے، صرف حقیقی معیشت ہے۔ اسلام قرض کی تجارت، رعایت یا ضمانت کی اجازت نہیں دیتا۔ کرس رافٹ نے ایشیامنی (Asiamoney) کے ستمبر ۲۰۰۸ء کے شمارے میں اسلامی بنکوں کے بارے میں لکھا: یہ ادارے کم معیاری قرضوں کے بحران میں اپنے جیسے بہت سے روایتی اداروں کے مقابلے میں بہت بہتر طور پر اُبھرے ہیں۔

زندگی تو بہت ہی سادہ اور سہل ہے لیکن ہم نے اپنے خالقِ حقیقی کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کرکے اسے مشکل بنا دیا ہے۔ جب قرآن یہ اعلان کرتا ہے: ’’اللہ تعالیٰ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے‘‘ (البقرہ ۲: ۲۷۶) تو اس کے ذریعے مسلمانوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ وہ اپنے فالتو سرمایے سے کم سرمایہ رکھنے والے تاجروں کے ساتھ سرمایہ کاری کریں اور  نفع و نقصان دونوں میں شریک ہوں، اور اس طرح کم تر معیار (sub prime) کے مسلم اور غیرمسلم بھائی بہنوں کو ایک ’انسانی‘ زندگی گزارنے میں مدد دیں۔ انتہائی بنیادی سطح پر، سود پر مشتمل آلاتِ زرمبادلہ کے ذریعے کاروباری یا صارفی مقاصد کے لیے مہیا کی جانے والی اصل رقم پر ایک مقررہ منافع حاصل ہوتا ہے۔ اس نظام کے تحت، سرمایہ فراہم کرنے والے (بنک اور دیگر مالی ادارے) اس امر کی کم ہی احتیاط کرتے ہیں کہ ان کی رقم کے باعث وصول کنندہ ناجائز طور پر معاشی فوائد نہ اٹھائے۔ حتیٰ کہ وصول کنندہ نقصان بھی اٹھاتا ہے تو پھر بھی یہ ادارے اسے قانونی طور پر اصل سے زیادہ رقم دینے پر مجبور کرتے ہیں۔ اسلام کے نزدیک یہ صورت حال انتہائی غیرمنصفانہ ہے، حتیٰ کہ یہ عمل اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف جنگ کے مترادف ہے۔ لہٰذا سود پر مبنی نظام کی تباہی، مقدر کا لکھا ہے اور یہی صورت حال واقع ہورہی ہے۔

اسلام اپنے پیروکاروں کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ کوئی ایسی چیز فروخت کے لیے پیش کریں جو ان کی ملکیت نہیں ہے کیونکہ یہ تو صریحاً جوا ہے، اس میں خطرات اور اندیشے بہت زیادہ ہیں۔ مستقبل غیریقینی ہوتا ہے، ہمیں معلوم نہیں کہ ہم جو کچھ پیشگی فروخت کر رہے ہیں، وہ بعد میں ہمارے پاس ہوگا بھی یا نہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے میں Islamic Equity Funds کے بارے اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کر رہا ہوں۔ میں حصص/سرمایہ کے تصور کو غلط نہیں سمجھتا اور نہ ہی اس کا مخالف ہوں۔ اگر اسے جائز شعبوں میں بطور سرمایہ کاری لگایا جائے تو اسلامی طریقے کے مطابق ہوگا۔ مجھے تو حصص/سرمایے کی منڈی کی بگڑتی ہوئی ساکھ (volaltility) کے متعلق پریشانی ہے۔ یہ عمل اتفاقیہ نہیں ہوتا بلکہ یہ عمل مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دیا جاتا ہے۔ اور اس کے پیچھے ’بھینسے یا ریچھ‘ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ بغیر رقم بہت زیادہ خریداری، اور اسٹاک کے بغیر فروخت اسلامی حصص کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ ہمیں اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ عالمی سرمایہ منڈیوں میں اسٹاک کی تجارت کے موجودہ قواعد شریعت کے مطابق ہیں یا نہیں۔ میرے خیال میں نہیں۔

اسلامی مالیاتی نظام اور ڈھانچے میں ’بھینسے یاریچھ‘ کا کوئی تصور نہیں۔ یہاں تو صرف سرمایہ کار ہوتے ہیں، وہ ترجیحاً طویل المدت یا وسط مدتی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مالی اور معاشی استحکام مہیا کیا جائے جس کے باعث سیاسی اور سماجی لحاظ سے پُرسکون اور خوش گوار فضا تشکیل پاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ نیوکونز مقدس ہستیاں نہیں تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ جہاں تک ممکن ہو،وہ جنگ کے بغیر ہی عالمی دولت پر قبضہ جما لیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس امر کے بھی خواہاں تھے کہ وہ اُن ممالک کے سماجی اور سیاسی نظاموں کو بھی (جنھیں یہ صرف کاروباری منڈیاں سمجھتے تھے) نیست و نابود کردیں جو ان کی اقدار اور اصولوں کو نہیں اپناتے۔

۲۰۰۲ء میں شیخ محمد سے جو اَب عرب امارات کے وزیراعظم ہیں، ایک بین الاقوامی انعام وصول کرنے کے بعد میں نے اسلامی بنک کاروں اور علما سے درخواست کی تھی کہ روایتی اداروں کی نقل میں اسلامی مالی معاملات میں نت نئے تجربے نہ کریں۔ یہ چیزیں نقصان دہ تو نہیں، لیکن موجودہ بحران ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہم ان فضول اور غیرضروری جدتوں اور نزاکتوں سے دُور رہیں۔

ان مایوس کن حالات میں بھی مجھے صرف ان لوگوں کے لیے امید اور روشنی کی کرن نظر آتی ہے جو اس بحران کے موقع پر بھی لالچ اور خوف کا شکار نہیں ہیں۔ قرآنی تعلیمات کے مطابق مسلمان ان دونوں کیفیات سے اپنے کو بچاتے ہیں۔ اب تو حالات ایسے پیدا ہو رہے ہیں کہ انصاف اور ایمان داری پر مبنی مالی نظام (سود اور سٹّے بازی کے بغیر) ہی باقی رہے گا اور مستقبل میں بھی پھلے پھولے گا۔