نومبر ۲۰۰۸

فہرست مضامین

کتاب نما

| نومبر ۲۰۰۸ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

The Only Son Offered for Sacrifice: Isaac or Ismael?، [فرزند ِ واحد جس کی قربانی پیش کی گئی:اسحاق یا اسماعیل؟]،عبدالستار غوری و   احسان الرحمن غوری۔ ناشر: المورد، لاہور۔ صفحات: ۳۱۳۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

یہودی، عیسائی اور مسلمان، تینوں براہیمی مذاہب کے ماننے والے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ، اللہ تعالیٰ کے ایک اشارے پر اپنے پیارے بیٹے کو قربان کرنے پر تیار ہوگئے تھے۔ اختلاف اس میں ہے کہ کون قربانی کے لیے پیش کیے گئے: اسماعیل یا اسحاق؟ بائبل کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ کے ’واحد فرزند‘ اسحق تھے جنھیں سوختنی (جلائی جانے والی) قربانی کے طور پر پیش کیا گیا، جب کہ قرآن مجید واضح طور پر حضرت اسماعیل ؑکی قربانی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ (الصافات ۳۷: ۱۰۲، ۱۰۳)

مصنفین نے اس اختلافی مسئلے کے ضمن میں بڑی کاوش اور عرق ریزی سے تحقیق کی ہے اور نہ صرف عہدنامۂ قدیم و جدید، بلکہ عیسائی لٹریچر اور متعدد حوالہ جاتی کتب سے متعلقہ مواد اخذ و پیش کیا ہے اور قطعیت کے ساتھ ثابت کردیا ہے کہ ’ذبیح‘ فی الواقع حضرت اسماعیل ؑ ہی تھے۔ بائبل کے بیانات میں زور اس بات پر ہے کہ اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم ؑنے اپنے ’واحد فرزند‘ کو قربانی کے لیے پیش کیا، جب کہ وہاں یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ حضرت اسماعیل ؑکی پیدائش کے وقت حضرت ابراہیم ؑکی عمر ۸۶سال تھی اور حضرت اسحاقؑ کی پیدایش کے وقت وہ ۱۰۰سال کے تھے۔ گویا ۱۴ سال تک حضرت ابراہیم ؑ کے ’واحد فرزند‘ حضرت اسماعیل ؑ ہی تھے اور پھر حضرت اسحاقؑ کی پیدایش کے بعد کسے ’واحد فرزند‘ کا خطاب دیا جاسکتا ہے؟

اس سب کے باوجود بائبل کی کہانی میں یہ بیان کہ حضرت ابراہیم ؑ اپنے بیٹے اسحاقؑ کو قربانی کے لیے لے گئے، اور جب اکیلے واپس ہوئے تو اسحاقؑ کی والدہ سارہ صدمے سے انتقال کر گئیں، حیرت انگیز ہے۔

بہت سے یہودی اور عیسائی اور بدقسمتی سے بعض مسلمان بھی (الطبری) حضرت اسحاقؑ کو ذبیح قرار دے کر گویا حضرت اسماعیل ؑ کو حضرت ابراہیم ؑ کی حقیقی اولاد ہی تسلیم نہیں کرتے، کیوں کہ ان کے خیال میں والدۂ اسحاقؑ ، سارہ ہی حضرت ابراہیم ؑ کی حقیقی بیوی تھیں، اور والدۂ اسماعیل ؑ (حضرت ہاجرہ ـ ؑ) تو محض ایک کنیز تھیں، جن کے بطن سے پیدا ہونے والی اولاد حقیقتاً ’فرزند‘ نہیں کہی جاسکتی۔ اگرچہ حضرت ہاجرہ ؑکا محض کنیز ہونا بھی محلِّ نظر ہے، اور اس کے لیے کوئی قابلِ قبول شہادت نہیں کہ وہ حضرت ابراہیم ؑ کی زوجۂ محترمہ نہ تھیں، لیکن اس سے قطع نظر خود انجیل بتاتی ہے کہ کنیز خاتون (slave woman) کا ولد بھی تمھارا بیٹا ہے، اور میں [اللہ] اس کی اولاد کو ایک عظیم قوم بنائوںگا‘‘ (پیدایش ۲۱:۱۳)۔ (ص ۳۶)

مصنفین نے عہدنامۂ قدیم اور عہدنامۂ جدید کی تاریخی حیثیت پر جو سیرحاصل گفتگو کی ہے اور ضمناً فلسطین کے تاریخی مقامات کے بارے میں جو معلومات فراہم کی ہیں، وہ ایک وسیع لوازمے کو ایک جگہ مرتب کردینے کی نہایت کامیاب کوشش ہے۔ یہ کتاب ہمارے عیسائی اور یہودی بھائیوں کو تحفے میں دینے کے لیے نہایت موزوں ہے۔ اُردودان طبقے کے لیے بھی اگر اس کا ترجمہ کردیا جائے تو اچھا ہوگا۔ جاویداحمد غامدی نے ’پیش لفظ‘ میں اس کوشش کو اپنے ادارے کے لیے باعثِ فخر قرار دیا ہے۔ (پروفیسر عبدالقدیرسلیم)


نقوشِ سیرت، شیرمحمد زمان چشتی ،مرتب: ڈاکٹر محمد میاں صدیقی۔ پروگریسو بکس، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور، صفحات:۲۴۳۔ قیمت: درج نہیں۔

ڈاکٹر شیرمحمد زمان چشتی (ایس ایم زمان) عربی زبان و ادب کے بلندپایہ اسکالر ہیں۔ عمربھر درس وتدریس سے وابستہ رہے۔ متعدد جامعات کے شیخ الجامعہ اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ (۱۹۹۷ئ-۲۰۰۳ئ) کی حیثیت سے گراں قدر خدمات انجام دیتے رہے۔ زیرنظر کتاب ان کے علمی مقالات، صدارتی خطبات اور کتب ِسیرت پر لکھے جانے والے مقدمات یا تعارفی و انتقادی مضامین پر مشتمل ہے، جنھیں محمدمیاں صدیقی نے نہایت محنت سے ترتیب دیا ہے۔ مرتب نے بعض مقامات پر اضافہ اور بعض جگہ پر نظرثانی کی ہے اور بعض حواشی کو زیادہ بامعنی بنانے کی کوشش بھی کی ہے، جس سے کتاب کا علمی معیار بلند تر ہوگیا ہے۔

کتاب میں کُل ۹ مقالات ہیں جنھیں موضوعات کی بنیاد پر تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بعض عنوانات اس طرح ہیں: ’عزم و ثبات کا کوہِ گراں‘، ’محمدرسولؐ اللہ: نبی رحمت و عزیمت‘، ’اطاعتِ رسولؐ: فوزوفلاح کا ذریعہ‘ اور ’اسلامی فلاحی ریاست:اسوئہ حسنہ کی روشنی میں‘۔ خطباتِ رسولؐ (از محمدمیاں صدیقی) ثناے خواجہؐ (بریگیڈیر گلزاراحمد) کا مختصر مطالعہ اور عزیزملک کی کتاب تذکارنبیؐ کا تعارف بھی پیش کیا گیا ہے۔

کتاب کے آخری حصے میں ’اُردو میں سیرت پر چندحالیہ تصانیف: محمدطفیل کی زیرادارت نقوش کے رسولؐ نمبر، محمد رفیق ڈوگر کی الامین اور ظفر علی قریشی کی  ازواجِ مطہراتؓ اور مستشرقین پر ڈاکٹر صاحب نے تنقیدی نظر ڈالی ہے۔

یہ مضامین روایتی انداز میں نہیں لکھے گئے بلکہ ان میں عہدِحاضر کے بنیادی مسائل کا حل سیرت کی روشنی میں تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عہدِحاضر میں مغربی تہذیب کے زیراثر بعض ناپسندیدہ واقعات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے دعوتی سرگرمیوں کو باقاعدگی دینے اور دعوتی عمل میں نبی کریمؐ کے ضبط و تحمل اور مستقل مزاجی سے ہدایت ورہنمائی حاصل کرنے کی طرف واضح اشارے دیے ہیں۔ مصنف نے واقعات کی تاریخی حیثیت سے زیادہ ان کے عملی اور سبق آموز پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھا ہے۔

ڈاکٹر خالدعلوی نے مصنف کی استنادی پختگی، زبان و بیان کی لطافت کے ساتھ ایمان اور ادبِ نبوت کی چاشنی، جاں نثارانِ مصطفی کی تصویر کشی اور راست فکری کو سراہا ہے (ص ۱۵)۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کے بقول: ڈاکٹر صاحب کا اسلوبِ بیان راست اور نقطۂ نظر دوٹوک اور ابہام سے پاک ہوتا ہے۔ وہ جابجا ایک ایک جملے میں ایک قولِ فیصل سموتے چلے جاتے ہیں، جو نظر کی وسعت، فکر کی گیرائی، عقیدے کی مضبوطی اور چشمِ بصیرت کو کھلا رکھنے کی طویل ریاضت کا ثمرہ ہے (ص۲۳)۔ پروفیسر عبدالجبار شاکر کے خیال میں ڈاکٹرصاحب نے سیرت شناسی میں ایک ایسا اسلوب وضع کیا ہے، جو ادبی جلال و جمال کی تمام تر دل فریبیوں اور شوکت کے باوجود حقائق آشنا رہتا ہے۔ (ص ۳۵)

ڈاکٹر محمد میاں صدیقی نے مصنف کے کوائف، اشاریے اور فنی تدوین کے ذریعے کتاب کے علمی وقار میں خاطرخواہ اضافہ کردیا ہے۔ (ڈاکٹر خالد ندیم)


مکالماتِ جاوید، مرتب: ڈاکٹر اخترالنسائ۔ ناشر: نشریات، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۲۱۴۔ قیمت: ۲۰۰روپے۔

علامہ اقبال کے فرزند ِ ارجمند جسٹس (ر) جاویداقبال، ماہر قانون ہونے کے ساتھ ماہرِاقبالیات بھی ہیں اور اقبالیاتی ادب میں ان کی تصانیف خصوصاً اقبال کی سوانح عمری زندہ رود سند کا درجہ رکھتی ہیں۔

زیرنظر کتاب ان کے مصاحبوں (انٹرویوز) کا مجموعہ ہے، جس میں ڈاکٹر اخترالنساء نے متنوع موضوعات پر اخبارات و رسائل میں مطبوعہ ڈاکٹر جاویداقبال صاحب کے ۱۹ مصاحبے جمع کردیے ہیں۔ انٹرویو لینے والوں میں متین فکری، ظفراعوان، طارق نیازی، ایس ایم ناز، محمدجاوید اقبال، رحمت علی رازی، تنویرظہور، صہیب مرغوب، سہیل وڑائچ، اسداللہ غالب اور ڈاکٹر راشد حمید شامل ہیں۔

ان مکالمات کا زمانہ کم و بیش ۴۰ برسوں پر پھیلا ہوا ہے اور سوال جواب میں خاصا تنوع ہے، مثلاً اقبال کا تصورِ پاکستان، نظریۂ جمہوریت،فاشزم، ایرانی انقلاب، اجتہاد، ڈاکٹر ٹامسن کی تضاد بیانی، اقبال اور مودودیؒ وغیرہ ___ اسی طرح علامہ اقبال کی شخصیت کے بعض پہلو اور خود جاویداقبال کے سوانح کی کچھ تفصیلات اور چودھری محمد حسین کی شخصیت وغیرہ۔ الغرض کتاب اپنے موضوعات کے حوالے سے نہایت اہم ہے۔ ڈاکٹر اخترالنساء نے اہم انٹرویو منتخب کرکے انھیں سلیقے سے مرتب کیا ہے۔ دیباچے میں ڈاکٹر جاویداقبال کے مختصر سوانح، تصانیف کی فہرست اور کارناموں کا ذکر شامل ہے۔ کتاب کی دو ایک کمزوریوں کی طرف توجہ مبذول کرانا نامناسب نہ ہوگا۔ فہرست میں ’پیش لفظ‘ نگار (ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی) اور دیباچہ نگار (خود مؤلفہ) کا نام نہیں ہے۔ فہرست میں مصاحبوں کی تاریخیں اور انٹرویو لینے والے کا نام بھی دینا چاہیے تھا۔ بعض الفاظ کا املا دوقسم کا نظر آتا ہے۔ ص ۹۱،۹۲ کی جڑائی غلط ہے اور پروف کی کچھ اغلاط بھی رہ گئی ہیں وغیرہ، مگر ان کوتاہیوں کے باوجود کتاب کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ یہ کتاب سیاسیات، پاکستان، تاریخ اور اقبالیات کے طلبہ ہی نہیں، عام قارئین کے لیے بھی نہایت مفید اور دل چسپ ہے۔ (قاسم محمود احمد)


ابن بطوطہ ہوا کرے کوئی، ڈاکٹر صہیب حسن۔ نشریات، لاہور۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے، اُردو بازار، غزنی سٹریٹ، لاہور۔ صفحات: ۲۶۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

سفربالعموم خانگی، معاشی و تجارتی، سیاسی اورسماجی ضرورتوں کے لیے ہوتا ہے یا سیروتفریح اور ثقافتی دل چسپیوں کے لیے۔ لیکن سفر کی ایک قسم اور بڑی اہم قسم وہ بھی ہے جسے علمی، ادبی اور دعوتی مقاصد کے لیے انجام دیا جاتا ہے۔ وہ سفرنامے جو اس نوعیت کے اسفار کے تجربات اور احساسات پر مبنی ہوں غیرمعمولی افادیت رکھتے ہیں۔ ایسے سفرنامے دنیا کے مختلف ممالک، اقوام اور ثقافت و تمدن کے حالات و ظروف کا مرقع اور بڑے قیمتی انسانی تجربات کا گلدستہ بن جاتے ہیں اور ایک طرح دوسروں کی تعلیم کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔

مسلمانوں کی تاریخ میں اس نوعیت کے سفرنامے ایک منفرد مقام رکھتے ہیں اور ڈاکٹر صہیب حسن نے مشرق و مغرب کے ۱۰،۱۲ممالک میں اپنے دعوتی اور ملّی اسفار کے احوال و تجربات میں دوسروں کو شریک کرکے بڑی مفید خدمت انجام دی ہے۔ بیت المقدس، بوسنیا، قاہرہ، فیجی، ناروے، بحرین اور سعودی عرب کے اسفار کا تذکرہ تاریخی معلومات، اسلامی تنظیموں اور شخصیات کی سرگرمیوں، اور بڑے سبق آموز انسانی تجربات سے پُر ہے۔ تحریر شگفتہ اور تبصرے معلومات آفریں اور دینی حمیت کے مظہر ہیں۔ آج کے دور میں مسلمان جن مسائل اورمشکلات سے دو چار ہیں اور اچھی اسلامی زندگی کے فروغ کے جو امکانات ہیں، زیرنظر پُراز معلومات سفرنامے میں ان سب کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ذاتی تعلقات اور تجربات کی اس داستان کو دل چسپ اور سبق آموز رہنا چاہیے۔ امریکا میں امیگریشن کے عملے کے ہاتھوں ایک معروف عالمِ دین اور معزز شخصیت پر جو گزری، وہ مہذب دنیا کے دہرے معیارات اور گہرے تعصبات کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن جس شرافت اور عزیمت سے ڈاکٹر صہیب حسن نے اس آزمایش کو بھگتا، وہ ان کی بصیرت اور بُردباری کا آئینہ ہے۔

ڈاکٹر صہیب حسن جس جس جگہ گئے ہیںاس سفرنامے میں  ان مقامات کے بارے میں اتنی معلومات محفوظ کردی ہیں کہ اس سفرنامے کا جو قاری بھی اُن دیارو امصار میں جائے گا وہ اپنے کو وہاں اجنبی محسوس نہیں کرے گا۔

اس سفرنامے پر پروفیسر عبدالجبار شاکر نے حرفِ اول کا اضافہ کیا ہے جو اس پہلو سے بڑی مفید تحریر ہے کہ اس میں اسلامی تاریخ کے سفرناموں کی بڑی دل چسپ داستان آگئی ہے اور    اس پس منظر میں ڈاکٹر صہیب حسن کا سفرنامہ اسی سلسلۃ الذہب کی ایک تازہ کڑی معلوم ہوتا ہے۔ ابن بطوطہ ہوا کرے کوئی اُردو کے سفری ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہے، خاص طور پر مسلمانوں کی نئی نسلوں کے لیے ایک ایسا تحفہ ہے جس کے توسط سے وہ گھر بیٹھے مشرق و مغرب کے دسیوں ممالک کی سیر کرسکتے ہیں اور صرف سیر ہی نہیں، دوسروں کے تجربات سے بہت کچھ سیکھ بھی سکتے ہیں۔( مسلم سجاد)


خان محمد باقر خان (مرحوم) کی یاد میں، اعزاز باقر۔ ناشر: محمد باقر خان میموریل ٹرسٹ، مکان ۲۵، گلی ۲۱، ایف سیون ٹو، اسلام آباد۔ صفحات: ۱۳۵۔ قیمت (مجلد): ۱۰۰ روپے۔

یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ احیاے اسلام کی تحریکوں نے اپنے دور اور اپنے معاشرے کے بہترین افراد کو اپنی طرف کھینچا اور وہ انھیں دنیا کے سامنے مثالی انسانوں اور کارکنوں کی حیثیت سے پیش کیا۔ تمام اسلامی تحریکوں میں آپ کو ایسے لوگ مل جائیں گے جنھیں مثالی کہا جاسکتا ہے۔ خان محمد باقر خان (۱۹۱۶ئ-۲۰ جنوری ۱۹۶۳ئ) ایک نڈر، دبنگ، مستعد، باذوق شخص تھے جنھوں نے ایک شیعہ خاندان میں آنکھیں کھولیں۔ اوائلِ عمر میں کچھ عرصہ خاکسار تحریک اور مجلسِ احرار سے بھی وابستہ رہے۔ بعدازاں ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریروں سے متاثر ہوکر مسلکِ حنفی اختیار کیا اور جماعت اسلامی سے تعلقِ خاطر دیگر تمام وابستگیوں سے فائق اور بالاتر ثابت ہوا حتیٰ کہ انھوں نے اچھی خاصی سرکاری ملازمت بھی چھوڑ دی۔

زیرنظر کتاب میں ان کے دوستوں، احباب اور بیٹے بیٹیوں کے مضامین جمع کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب ۴۸سال کی عمر میں داغِ مفارقت دے جانے والے ایک خوش لباس، خوش گفتار، خوش اطوار انسان کی دل نواز شخصیت کی بعض جھلکیاں پیش کرتی ہے۔

مضمون نگاروں میں ماہرالقادری، سیداقبال شاہ، احسان زبیری، سیداسعد گیلانی، محمد افضل بدر، ڈاکٹر کرامت علی، میاں نصیراحمد، ڈاکٹر عبدالغنی فاروق، ڈاکٹر راشدہ تبسم، ڈاکٹر ریاض باقر، اعزاز باقر، اعجاز باقر اور مرحوم کی اہلیہ محترمہ شامل ہیں۔ سیداسعد گیلانی کا مضمون خاصا مفصل ہے اور اس میں باقرخان مرحوم کی اس ڈائری کے کچھ اوراق بھی شامل ہیں جو انھوں نے جماعت اسلامی کے ایک وفد کے رکن کی حیثیت سے مشرقی پاکستان کے دورے کے دوران میں لکھی تھی۔ اس کے بعض حصے چشم کشا ہیں، مثلاً لکھتے ہیں: ’’معلوم ہوا کہ یہاں پنجابی افسروں نے اپنے حاکمانہ رعب سے بنگالیوں میں کافی برہمی پیدا کی ہوئی ہے اور پنجابی افسروں کے خلاف یہاں شدید نفرت کا جذبہ پایا جاتا ہے‘‘ (ص ۴۶)۔ مہاجر اور مقامی میں بہت نفرت ہے اور اس نفرت کی خلیج روز بروز وسیع ہورہی ہے (ص ۵۰) وغیرہ۔

چودھری علی احمد خان کے بعد تحریکِ اسلامی میں وہ دوسرے آدمی تھے جو ہرقسم کے چیلنجوں کا جواب دینے اور تحریک کے مہماتی کاموں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا سلیقہ اور ذوق رکھتے تھے۔ بقول سید اسعد گیلانی: مرحوم کے خیال میں وہ تحریک اسلامی کا ایسا بیش قیمت اثاثہ تھے جن کی زندگی کا مطالعہ تحریکِ اسلامی کے وابستگان کے لیے آج بھی دلیلِ راہ بن سکتا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


پاکستان صدیوں کا سفر (عالمِ اسلام کی بیداری)، محمد حسین چودھری۔ ملنے کا پتا: محمد حسین چودھری ابدالین، معرفت پوسٹ ماسٹر کھڈیاں خاص، تحصیل و ضلع قصور۔ فون: ۴۹۰۹۰۶۳-۰۳۰۶۔ صفحات: ۵۸۸۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

نئی نسل بالخصوص اسکول کے طلبہ کو یہ آگہی دینا کہ پاکستان کا قیام مسلمانوں کی صدیوں کی جدوجہد اور عالمِ اسلام کی بیداری کا عنوان ہے، سببِ تالیف ہے۔ ابتدا میں ۱۰۶ تصاویر کی روشنی میں محمد بن قاسم سے لے کر قائداعظم کے جنازے تک مختصراً انگریزی اور اُردو میں تحریکِ پاکستان کی جدوجہد اور مراحل کو پیش کیا گیا ہے۔ ایک باب میں مختلف مسلم ادوار میں ترقی، غیرمسلموں سے مسلمانوں کا سلوک اور مسلم حکمرانوں کے قابلِ تحسین کردار کا تذکرہ ہے۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد مسلمانوں پر ہندوؤں اور سکھوں کے مظالم، خوں ریزی اور مسلمان عورتوں کی  بے حُرمتی کی پُرآشوب داستان مختصراً پیش کی گئی ہے کہ نئی نسل کو پاکستان کی صحیح معنوں میں قدر ہوسکے۔ ۲۲کالم نگاروں کے منتخب کالموں کے ذریعے پاکستان کو درپیش مسائل کا تذکرہ ہے۔  علامہ اقبال اور قائداعظم کی شخصیت، افکار اور جدوجہد کے ساتھ ساتھ قائداعظم کی شخصیت اور  نظریۂ پاکستان کو مسخ کرنے کی مذموم کوششوں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ توجہ دلائی گئی ہے کہ مسلمانوں کی نجات اور ترقی صرف اللہ تعالیٰ کی اتباع اور اسلام پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔ مختلف ضمیموں میں منتخب حمدیہ و نعتیہ کلام، حضوؐر کی حیاتِ طیبہ ایک نظر میں، مقاماتِ مقدسہ کی تصاویر، علامہ اقبال کی سیاسی جدوجہد کی مختلف تصاویر، اور آخر میں تعلیم کا مقصد، تربیت کے رہنما اصول اور امتحانات میں کامیابی کے طریقے بتائے گئے ہیں۔ گویا سمندر کو کوزے میں سمونے کی کوشش ہے۔ اس کتاب کو تعلیمی اداروں کی لائبریریوں میں لازماً ہونا چاہیے۔ (امجد عباسی)


تعارف کتب

  • روح و ریحان ،عبدالرحمن محسن انصاری۔ ادارۂ ادب اسلامی ہند، مہاراشٹر۔ صفحات: ۱۳۱۔ قیمت: ۵۰روپے۔[ محسن انصاری تحریک ادب اسلامی کے وابستگانِ قدیم میں شامل ہیں۔ پہلا مجموعہ رگِ جاں، ان کے دیرینہ دوست اور ہم جماعت سید اسعد گیلانی مرحوم کی مساعی سے الفیصل لاہور نے ۱۹۹۰ء میں شائع کیا تھا۔ زیرنظر مجموعہ ۱۸ حمدونعت اور ۱۰۴ غزلوں پر مشتمل ہے۔پختہ کلام شاعر ہیں۔]
  • آوازِ معلم،  محمد عباس العزم۔ ناشر: مکتبہ معارف اسلامی، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی- ۷۵۹۵۰۔ فون: ۶۸۰۹۲۰۱۔ صفحات: ۱۵۱۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔[مصنف نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی تسکین قلب اور ذہنی آسودگی کے ساتھ ساتھ طلبہ اور نوجوانوں میں نئے جوہر پیدا کرنے کے لیے ایک نئی طرح ڈالی ہے۔ انھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی غبارِ خاطر (مجموعۂ خطوط) سے متاثر ہوکر ایک شاگرد کے نام خطوط قلم بند کیے ہیں اور اس طرح تمام نوجوانوں کو مخاطب کرکے ان کی کردارسازی اور رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ہے۔ ضرب الامثال ، زریں اقوال، انگریزی کے شعر اور دانش وروں کے اقوال وغیرہ۔]
  • اچھے بچوں کے لیے اچھی کہانیاں ، مؤلف: مہدی آذریزدی، مترجم: ڈاکٹر تحسین فراقی۔ ناشر: ادارہ مطبوعات سلیمانی، رحمن مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۷۲۳۲۷۸۸-۰۴۲۔ صفحات: ۱۹۹۔ قیمت (مجلد): ۲۲۵ روپے۔ [ایرانی ادب کی ہزار سالہ قدیم اور مشہور کتاب مرزبان نامہ کی ۲۱ حکایات کا عام فہم اور    دل چسپ انداز میں فارسی ترجمہ۔ ان میں حکمت و اخلاق کی باتیں جانوروں کی زبان میں دل چسپ پیرایے میں سکھائی گئی ہیں۔ تحسین فراقی نے اُردو میں ان کہانیوں کا پہلا ترجمہ کیا ہے۔ اس سے قبل وہ ایرانی کہانیوں کا ترجمہ بے زبانوں کی زبانی کے نام سے بھی کرچکے ہیں۔پاکستانی بچوں کے لیے ایرانی ادب سے عمدہ تحفہ۔]