نومبر ۲۰۰۸

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| نومبر ۲۰۰۸ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

قاری فدا محمد ‘پشاور

’رسموں کی بیڑیاں‘ (اکتوبر ۲۰۰۸ئ) کے عنوان سے مولانا مودودیؒ کی تحریر تقریبات میں اِسراف، معاشرت میں تعیش پسندی، رسوم کے بندھنوں سے گلوخلاصی اور جرأت سے سادہ زندگی اپنا کر معاشرے پر مثبت اثرات مرتب کرنے کے حوالے سے ہماری رہنمائی کے لیے خاصے کی چیز ہے۔ اس تحریر میں معاشرتِ اسلامی کی روح سے منافی رسموں کو فی زمانہ صرف تحریک سے غیروابستہ عام تعلق داروں کے حق میں احتجاج کے ساتھ کرہاً قبول کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، جب کہ تحریک سے وابستہ افراد سے تو یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پیٹھوں پر لدے ہوئے رواجوں کے بوجھ کو پٹخ دینے میں پہل کریں، اور اس کام کو تحریک سے وابستہ افراد کا فرض گردانا گیا ہے۔ مقامِ افسوس ہے کہ آج کل نہ صرف تحریک سے وابستہ عام صاحب ِ ثروت افراد بلکہ بعض رہنمایانِ تحریک بھی اسی رنگ ڈھنگ میں اپنی تقریبات رچاتے ہیں، جسے دوسروں کے حق میں بالکراہت قبول کرنے کی تاکید کی گئی تھی۔ نہ صرف تقریبات بلکہ ذاتی زندگی کے دوسرے مظاہر بھی اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہوتے ہیں، اور ہم معاشرے کی اصلاح کی خاطر نکّو بن کر رہنے کی ہدایت کے برعکس خود معاشرے میں اپنی ناک اُونچی رکھنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔


ڈاکٹر محمد شکیل ‘ لاہور

’زرداری صدارت ___ چیلنج اور توقعات‘ (اکتوبر ۲۰۰۸ئ) زرداری کی ’شخصیت‘ کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اب زرداری صاحب کو چاہیے کہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے اور کرپشن کی تلافی کے لیے اپنے ہی مقروض ملک پاکستان پر رحم کھاتے ہوئے ۶۰ملین ڈالر قومی خزانے میں واپس جمع کروا دیں تاکہ کچھ نہ کچھ کفارہ ادا ہوسکے۔

اس موقع پر انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والے اے پی ڈیم ایم کے موقف کے مضمرات و اثرات کا جائزہ لینا بھی مفید تھا۔ سیاسی بصیرت اور خود احتسابی کے لیے سیاسی جماعتوں کو اپنی پالیسیوں کا تنقیدی نظر سے جائزہ بھی لینا چاہیے کیونکہ یہ اہم پارٹیاں اب کافی حد تک پارلیمانی سیاست سے باہر ہیں۔ شفاف انتخابات کی وجہ سے ہی زرداری صاحب قوم پر مسلّط ہوگئے ہیں، جب کہ ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کوسوں دُور ہے۔ ملک و قوم مہنگائی اور دہشت گردی کے خوفناک بحران میں مبتلا ہیں جس سے نکلنے کی اہلیت و صلاحیت موجودہ حکمرانوں میں نظر نہیں آتی۔

’حاجی صاحب تُرنگ زئی‘ (اکتوبر ۲۰۰۸ئ) کا لازوال کردار غلبۂ دین اور سامراجی عزائم کے خلاف جدوجہد کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آج بھی قبائلی علاقوں کے لوگ اسی عزم اور ولولے سے امریکی جارحیت کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ امریکا کو عراق اور افغانستان کے بعد ایک نیا محاذ کھولنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے، بالآخر اسے پسپائی پر مجبور ہونا ہوگا۔


عبدالرشید عراقی ‘ وزیرآباد

’زرداری صدارت ___ چیلنج اور توقعات‘ (اکتوبر ۲۰۰۸ئ) میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے اور جو تجاویز پیش کی گئی ہیں، وہ صدر صاحب کے لیے بھی خوش آیند ہیں اور اہلِ پاکستان کے لیے بھی حوصلہ افزا ہیں۔ اگر صدرصاحب اور موجودہ حکومت خلوصِ دل سے ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے تو اس کا انجام بہتر ہوگا۔ انحراف کے نتیجے میں فوجی آمریت سے نجات اور حقیقی جمہوریت کی بحالی کا عوام کا بنیادی مطالبہ جو کہ خود عوامی حکومت کا دعویٰ بھی ہے شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکے گا اور مایوسی کا باعث ہوگا۔


ڈاکٹر طاہر فاروق ‘ لاہور

محترمہ عائشہ احمد نے ’او لیول کی اسلامیات میں فرقہ واریت‘ (جولائی ۲۰۰۸ئ) پر گرفت کی ہے (اکتوبر ۲۰۰۸ئ)۔ میرے نزدیک مضمون نگار نے نہ توکسی انتہاپسندی کا مظاہرہ کیاہے اور نہ بہت شدید ردعمل دکھایاہے بلکہ نپے تُلے اور شائستہ انداز سے ایک سنجیدہ مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اولیول کے بچوں کو خلافت، امامت، دورِصحابہ اور خصوصاً تدوینِحدیث کے اختلافات بتانے کی ضرورت کیوں پیش آگئی، جب کہ موصوفہ اس کا اوقاتِ سحروافطار سے موازنہ کر رہی ہیں۔ یہ حسّاس موضوعات شاید علما کو بھی کسی تخصیص کے مرحلے میں پڑھائے جاتے ہوں جو یہاں ۱۵سال کے ناپختہ ذہن کے بچے کو پڑھائے جارہے ہیں___ چہ معنی دارد؟ لکھا گیا ہے کہ اس نظام کے تحت طالب علموں کی نشوونما بہتر طریقے سے ہوسکتی ہے تو یہ اُن کی ذاتی راے ہوسکتی ہے، جو میری راے میں بڑی حد تک مرعوب ذہنی کیفیت کی آئینہ دار ہے۔


ماسٹر رشید ‘ جیانی، بلوچستان

کچھ مفتیوں نے فتویٰ دیا ہے کہ خودکشی اور خودکُش حملے حرام اور ناجائز ہیں۔ کیا ہی اچھا اور حق گوئی کا کمال ہوتا کہ یہ مفتیانِ کرام افواجِ پاکستان اور حکمرانوں پر بھی فتوے لگاتے کہ ان کی کیا پوزیشن ہے جو امریکا اور اس کی دولت و خشیت کے لیے طالبان کشی میں مصروف ہیں اور کافروں کے لیے مسلمانوں کا خون بہانے میں لگے ہوئے ہیں۔ کیا یہ مسلمان ہیں؟ فتویٰ لگائیں اور یہ بھی بتائیں کہ وہ لوگ کیوں کر بے گناہ ٹھیرے جنھوں نے امریکی پٹھوؤں کو ووٹ دیے جو طالبان سے یوں جنگ کر رہے ہیں جیسے دشمنوں کے خلاف لڑا جاتا ہے؟ کیا طالبان ہتھیار ڈال کر امریکی قبضہ مان لیں اور ملک و قوم ان کے حوالے کردیں اور انگریزوں والا   بے حیائی کا کلچر قبول کرلیں!