ستمبر ۲۰۱۹

فہرست مضامین

کاروبار میں اسلام کی رہنمائی

ڈاکٹر محمد واسع ظفر | ستمبر ۲۰۱۹ | اسلامی معاشیات

Responsive image Responsive image

کاروباری زندگی میں قدم قدم پر لالچ، حسرتیں اور اندیشے پیچھا کرتے ہیں،جن سے مجبور ہوکر کاروباری حضرات بعض مزید ناپسندیدہ افعال میں ملوث ہوجاتے ہیں۔

 کم نفع پر اکتفا کرنا

مسلمان تاجروں کو چاہیے کہ وہ کم نفع پر صبر کی روش اختیار کریں اور اپنی تجارت میں  جذبۂ احسان کو پیش نظر رکھیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’بے شک اللہ تعالیٰ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے‘‘ (النحل۱۶: ۹۰)،اور فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب ہے‘‘ (الاعراف۷: ۵۶)۔اس لیے ضرورت مند خریدار اگر اپنی ضرورت کے تحت زیادہ نفع دینے پر بھی تیار ہو، تو بھی جذبۂ احسان کا تقاضا یہ ہے کہ زیادہ نفع نہ لے۔ کم نفع لے کرزیادہ مال فروخت کرنا ایک ایسی پالیسی ہے جس سے تجارت کافی ترقی کرتی ہے۔ سلف صالحین کی عادت بھی یہی تھی کہ کم نفع پر زیادہ مال فروخت کرنے کو،زیادہ نفع حاصل کرنے پر ترجیح دیتے تھے۔ حضرت علیؓ کوفہ کے بازار میں چکر لگاتے تھے اور فرماتے تھے کہ: ’’اے لوگو! تھوڑے نفع کو نہ ٹھکراؤکہ زیادہ نفع سے بھی محروم ہوجاؤگے‘‘۔ عبدالرحمٰن بن عوف ؓ سے ایک بار لوگوں نے پوچھاکہ آپ کس طرح اتنے دولت مند ہوگئے؟ تو انھوں نے فرمایاکہ میں نے تھوڑے نفع کو بھی کبھی رد نہیں کیا۔ جس نے بھی مجھ سے کوئی جانور خریدنا چاہا میں نے اسے روک کر نہ رکھا بلکہ فروخت کردیا۔
  ایک دن عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے ایک ہزار اونٹ اصل قیمت ِخرید پرفروخت کردیے اور بجز ہزار رسیوں کے کچھ نفع حاصل نہ کیا۔ پھر ہر ایک رسّی ایک ایک درہم سے فروخت کی اور اونٹوں کے اس دن کے چارے کی قیمت ایک ہزار درہم ان کے ذمے سے ساقط ہوگئی۔ اس طرح دوہزار درہم کا انھیں نفع حاصل ہوا۔ (کیمیاے سعادت ، ص ۲۸۰)
 یہ ہے تجارت میں ترقی کا راز! لیکن اس سلسلے میں ہمارے یہاںبڑی بے صبری پائی جاتی ہے۔ ہم چند دنوں میں ہی لکھ پتی اور کروڑ پتی بن جانا چاہتے ہیں،جس کا نقصان سامنے آکر رہتا ہے، جب کہ بعض دوسری قوموں نے اس پالیسی کو اپنا لیاہے اور وہ اس کا خوب پھل کھارہے ہیں۔ 
یہاں یہ واضح کردینا بھی مناسب ہے کہ اگرچہ تاجر کو اپنی چیزوں کا نرخ (Rate) مقرر کرنے کا حق ہے اور فطری اصول و ضوابط کے تحت قیمتوں میں اضافہ کرنا بھی درست ہے، لیکن اتنا اضافہ جو غیرمعمولی، غیر فطری، غیر مناسب اور غیرمنصفانہ ہو اور جس سے صارفین کے استحصال کی صورت پیدا ہوتی ہو، درست نہیں۔ ایسی صورت میں حکومت ِوقت کو اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول کرنے کی حکمت عملی اپنانی چاہیے اور عوام کو تاجروںکے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ رقم طراز ہیں: ’’اگر ان (تاجروں) کی طرف سے (قیمتوں کے تعین میں) کھلا ظلم دکھائی دے،توان (قیمتوں) میں تبدیلی (یعنی کنٹرول) جائز ہے، کیوں کہ یہ (غیر مناسب بھاؤ بڑھا دینا) فساد فی الارض ہے‘‘۔(حجۃ اللہ البالغہ ، بیروت، ۱۹۹۰ء، ج ۲، ص ۳۰۱)
اس عبارت کی تشریح میں مولانا سعید احمد پالن پوری لکھتے ہیں: ’’اگر تاجروں کی طرف سے عام صارفین پر زیادتی ہورہی ہو، اور زیادتی ایسی واضح ہو کہ اس میں کوئی شک نہ ہو، تو قیمتوں پر کنٹرول کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ایسے وقت بھی تاجروں کو ظالمانہ نفع اندوزی کی چھوٹ دینا اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو تباہ کرنا ہے‘‘ (رحمۃ اللہ الواسعۃ شرح حجۃ اللہ البالغہ ، دیوبند، ۲۰۰۳ء ، ج ۴، ص۵۹۸)۔اس لیے تاجروں کو چاہیے کہ وہ قیمتوں کے تعلق سے بازار میں ایسی نامناسب  صورتِ حال پیدا نہ کریں جو عوام کے لیے پریشانی کا باعث اور حکومتی مداخلت کا جواز فراہم کرے۔ 

 دھوکا دہی سے پرہیز

تاجر کو چاہیے کہ خریدار کو کسی قسم کا دھوکا نہ دے، کیونکہ یہ خدمت اور حاجت روائی کے جذبے کے خلاف تو ہے ہی، دیانت داری کے بھی خلاف ہے۔ اس لیے اگر اس کے سامان میں کسی قسم کا عیب ہو تو اس کو نہ چھپائے بلکہ سچائی کے ساتھ بیان کردے۔ اگر چھپائے گا توخیانت اور ظلم کا مرتکب ہوگا اور ایسی صورت میں خریدار کو شریعت کی رو سے یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ تاجر کو عیب دارمال واپس کردے اور اپنی رقم لے لے۔ 
حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مسلمان مسلمان کابھائی ہے اور کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیںکہ اپنے بھائی کے ہاتھ کوئی ایسی چیز فروخت کرے جس میں کوئی عیب ہو، الا یہ کہ اس کے سامنے اس (عیب) کو ظاہر کردے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات،مَنْ  بَاعَ عَیْبًا فَلْیُبَیِّنْہُ، حدیث: ۲۲۴۶)
  اس حدیث کا یہ مطلب نہیںکہ غیر مسلموں کو دھوکا دینا جائز ہے۔ یہاںمسلمان کا ذکر خصوصاً اس لیے فرمایا کہ مسلمان گاہک کے ایک مسلمان تاجر پردو حق عائد ہوتے ہیں: ایک گاہک ہونے کی حیثیت سے اور دوسرا مسلمان ہونے کی حیثیت سے۔ اس لیے اس کو دھوکا دینا بہ نسبت ایک غیر مسلم گاہک کو دھوکا دینے کے زیادہ برا ہے کیونکہ یہاںدو حقوق کی تلفی ہے ورنہ خیانت اور   ظلم کسی کے ساتھ بھی روا نہیں۔ چنانچہ روایتوں میں بلا کسی تخصیص کے بھی اس عمل پر نکیر موجود ہے۔ 
مثال کے طور پر اس روایت کو ملاحظہ کیجئے: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غلے کی ایک ڈھیری کے پاس سے گزرے۔ آپؐ نے اپنا ہاتھ اس کے اندر داخل کردیا تو آپؐ کی انگلیوں نے گیلاپن محسوس کیا۔ پس آپؐ نے فرمایا: ’’اے غلے کے مالک! یہ کیا ہے (یعنی یہ تری اور نمی کیسی ہے)؟ اس نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! اس پر بارش کی بوندیں پڑگئی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا : تو تم نے اس (بھیگے ہوئے غلے) کو ڈھیری کے اوپر کیوں نہیں کردیا تاکہ لوگ اسے دیکھ سکتے ؟ (یاد رکھو!) جوشخص دھوکے بازی کرے وہ مجھ سے نہیں (یعنی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں)‘‘۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب قَولِ النَّبِیِّ : مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا)
امام سلیمان بن احمد طبرانیؒ نے اس روایت کے آخری اور کلیدی فقرے کو عبداللہ ابن مسعودؓ سے چند الفاظ کے اضافے کے ساتھ اس طرح روایت کیا ہے: مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا وَالْمَکْرُ وَالْخِدَاعُ فِي النَّارِ، یعنی جوشخص دھوکے بازی کرے وہ مجھ سے نہیں اور دغابازی اور فریب کا انجام جہنم ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث: ۱۰۲۳۴) 
لہٰذا، ایک مسلمان تاجر کو چاہیے کہ وہ چند سکّوں کی خاطراپنی آخرت کو داؤ پر نہ لگائے اور یہ یقین رکھے کہ چال بازی سے رزق میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ الٹا مال سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ ایسے شخص کی خیانت لوگوں میں مشہور ہوجاتی ہے اور گاہک اس سے گریز کرنے لگتے ہیں، جس کے نتیجے میں اس کا کاروبار بھی خراب ہوجاتا ہے۔ اس لیے بجاے دھوکا دینے کے دیانت داری کے ذریعے گاہکوں کو اپنے اعتماد میں لینے کی سعی کرنی چاہیے، اور سامان میں اگر کوئی عیب ہو تو اسے  واضح کردینا چاہیے، تاکہ ان کو یہ یقین اور اطمینان ہو جائے کہ آپ انھیں کبھی دھوکا نہیں دے سکتے۔ 
بعض تاجر اپنے سامان کا نقص ظاہر نہیں کرتے بلکہ خریدار سے ہی یہ کہتے ہیں کہ: ’’آپ خود اچھی طرح دیکھ لیں، اگر بعد میں کوئی نقص نکلا تو ہم ذمے دار نہیں ہوں گے‘‘، حالانکہ یہ ان کے علم میں ہوتا ہے کہ سامان میں کس قسم کا نقص ہے۔ یہ طریقہ بھی خلافِ شریعت ہے کیونکہ شارع نے عیب کو ظاہر کرنے کی ذمے داری تاجر پر ڈالی ہے، جیسا کہ حضرت عقبہ بن عامرؓکی روایت سے واضح ہے۔ ساتھ ہی تجارت کا نفع صرف اس شخص کے لیے جائز بتایا گیا ہے جو سامان کے بے عیب اور کارآمد ہونے کی ضمانت دے۔ جو شخص یہ ذمے داری نہیں لے سکتا اس کے لیے اس چیز کا نفع درست نہیں۔ حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں: وَلَا رِبْحُ مَالَمْ یُضْمَنُ، یعنی ’’حلال نہیں نفع اس کا جس کا ضامن وہ (تاجر) نہیں‘‘۔(جامع ترمذی، حدیث:۱۲۳۴، بروایت عبداللہ بن عمروؓ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک غلام یا لونڈی کی بیع میں ایک خریدار کو تحریری ضمانت دینا حدیث کی کتابوں میں منقول ہے : ھٰذَا مَا شْتَرَی الْعَدَّائُ بْنُ خَالِدِ بْنِ ھَوْذَۃَ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللّٰہِ ، اشْتَرَی مِنْہُ عَبْدًا أَوْ أَمَۃً، لَا دَائَ وَلا غَائِلَۃَ وَلَا خَبِثَۃَ، بَیْعَ الْمُسْلِمِ الْمُسْلِمَ، یعنی ’’یہ بیع نامہ ہے ایک ایسی چیز کا جو عداء بن خالد بن ھوذہ نے اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے خریدی ہے۔ انھوں نے آپؐ سے ایک ایسا غلام یا لونڈی خریدی ہے جس میں نہ تو کوئی بیماری ہے، نہ بھگوڑاپن اور نہ کوئی (اور) خباثت (یعنی اخلاقی برائی) ہی۔ یہ ایک مسلمان کی مسلمان کے ساتھ بیع ہے ‘‘۔ (جامع ترمذی، حدیث: ۱۲۱۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس قسم کی تحریر لکھ کر دینا امت کی تعلیم کے لیے ہی تھا ورنہ صحابہ کرامؓ میں سے کون ایسا فرد ہوگا، جسے آپؐ کی باتوں پر اعتماد نہ ہو۔ آج کے دور میں رسید اور وارنٹی کے کاغذات (warranty paper) کا دیا جانا تعلیم نبویؐ کی رُو سے ایک مستحسن عمل ہے، جس میں اس بات کی گنجایش موجود رہتی ہے کہ بعد میں سامان میں کوئی نقص سامنے آجائے تو خریدار ثبوت کے ساتھ فروخت کنندہ یا اس کی کمپنی سے رجوع کرسکے ۔ 
یہاں یہ ذکر کردینا بھی مناسب ہے کہ تجارت کی بعض شکلیں ایسی ہیں، جن میں فی نفسہٖ دھوکا موجود ہوتا ہے، جیسے پانی میں موجود مچھلی کی بیع کہ اس میں بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں میں سے کسی فریق کو حتمی طور پر یہ پتا نہیں ہوتا کہ اس میں مچھلی کی مقدار کتنی ہے؟ لہٰذا، ہرفریق کے دھوکا دینے یا کھانے کا امکان ہے ۔ اس طرح کی بیع جس میں بیچی جانے والی چیز اپنی جنس، ذات، مقدار اور اوصاف کے لحاظ سے مبہم اور مجہول ہو، متعین اور واضح نہ ہو، یا بیچنے والے کے قبضہ و قدرت سے باہر ہو اور اس کی سپردگی ممکن نہ ہو، اس کو شریعت کی اصطلاح میں ’بیع غرر‘ (Deceptive Transaction) کہا جاتا ہے۔ اس کی دوسری مثالوں میں شامل ہیں؛ غائب جانور یا فضا میں اڑتے ہوئے پرندے کی بیع، دودھ کی بیع جو جانور کے تھن میں ہی ہو وغیرہ۔ 
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ  عَنْ بَیْعِ الْحَصَاۃِ وَ عَنْ بَیْعِ الْغَرَرِ (مسلم، کتاب البیوع)،یعنی ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع حصات اور بیع غرر سے منع فرمایا ہے‘‘۔ یہاں ’بیع حصات‘ سے مراد وہ بیع ہے جو کنکری پھینک کر طے کی جائے۔ یہ بھی دھوکے کی ایک شکل ہے۔ اس لیے ممنوع ہے۔
دودھ دینے والے جانوروں کی بیع میں بھی دھوکے کی ایک صورت اس طرح پیدا کی جاتی ہے کہ گاہک کے سامنے پیش کرنے سے ایک یا دو روز قبل سے ہی اس کا دودھ دوہنا بند کر دیتے ہیں تاکہ اس کے تھن بھرے نظر آئیں اور گاہک یہ تاثرلے کہ جانور بہت زیادہ مقدار میںدودھ دینے والا ہے، جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ گاہک مغالطے میں آکر معاملہ کرلیتا ہے لیکن ایک سے دو دنوں میں ہی حقیقی صورتِ حال اس پر واضح ہوجاتی ہے۔ اس طرح کی بیع کو شرعی اصطلاح میں ’بیع مصراۃ‘ کہا گیا ہے جو کہ ممنوع ہے اور اس کے نتیجے میں دھوکا کھائے ہوئے خریدار کو شریعت نے اس بات کا اختیار دیا ہے کہ وہ بیع کو منسوخ کر دے اور جانور واپس کرکے اپنی رقم لے لے۔  اس اختیار کو شرعی اصطلاح میں ’خیا ر تدلیس‘ کہا جاتا ہے ۔ 
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اونٹنی اور بکری کے تھنوں میں دودھ کو روک کر نہ رکھو، اگر کسی نے (دھوکے میں آکر) کوئی ایسا جانور خرید لیا تو اسے دودھ دوہنے کے بعد دونوں اختیارات ہیں؛ چاہے تو جانور کو رکھ لے اور چاہے تو واپس کردے اور ایک صاع کھجور اس کے ساتھ دے دے‘‘ ۔ (بخاری، حدیث: ۲۱۴۸، بروایت ابوہریرہؓ)
ایک روایت کے مطابق لوٹانے کا یہ اختیار خریدار کو تین دنوں تک ہے: مَنِ ابْتَاعَ شَاۃً مُصَرَّاۃً فَھُوَ فِیْھَا بِالْخِیَارِ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ، إِنْ شَائَ أَمْسَکَھَا وَ إِنْ شَائَ رَدَّھَا، وَرَدَّ مَعَھَاصَاعًا مِّنْ تَمْرٍ،یعنی ’’جس نے ایسی بھیڑ (یا بکری ) خرید لی، جس کا دودھ روکا گیا ہو، تو اسے تین دن تک اس کے بارے میں اختیار ہے، اگر چاہے تو رکھ لے اور چاہے تو واپس کردے اور اگر لوٹائے تو اس کے ساتھ ایک صاع کھجور بھی دے‘‘ ۔ (مسلم، کتاب البیوع، حدیث: ۳۸۳۱؍۲۴)
 ایک صاع کھجورکے ساتھ جانور اس کے مالک کو لوٹانے کا حکم غالباً اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ خریدار نے اس کے دودھ سے فائدہ اٹھایا ہے اور بعضوں نے یہ کہا کہ یہ از راہِ احسان یا تالیفِ قلب کے لیے ہے، کیونکہ دودھ کے لیے تو خریدار نے جانور کو چارہ بھی ڈالا ہوگا اور الخراج بالضمان کے اصول کے مطابق حساب تو برابر ہوچکا۔ اور کھجور کی تخصیص اس لیے کی گئی کیونکہ یہ اس وقت وہاں کی عام غذا تھی۔ اس لیے یہ کوئی ضروری نہیں کہ ایک صاع کھجور ہی دی جائے بلکہ ہرزمانے میں اپنے اپنے ملکی دستور کے مطابق خوردنی غلہ اسی وزن سے یا اس کی قیمت کے برابر رقم بھی دی جاسکتی ہے۔    
اسی طرح درختوں اور باغات کو پھلوں کے نمودار ہونے سے پہلے ان کی امید پر ایک سال یا زیادہ مدت کے لیے بیچنا بھی ممنوع ہے کیونکہ اس بات کا امکان ہے کہ درختوں میں پھل نہ آئے یا آنے کے بعد پختگی سے پہلے ہی کسی آفت، مثلاً آندھی، بارش یا ژالہ باری کا شکار ہوجائے۔  اس طرح کی بیع کو حدیث میں ’معاومت‘ کہا گیا ہے اور اس سے روکا گیا ہے، نیز پھل لگنے کے بعد بھی اس وقت تک خرید و فروخت سے منع کیا گیا ہے، جب تک ان کی پختگی ظاہر نہ ہوجائے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک پھلوںکی بیع سے منع فرمایا ہے جب تک کہ ان کی پختگی ظاہر نہ ہوجائے۔ یہ ممانعت بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کے لیے ہے‘‘۔ (بخاری، حدیث: ۲۱۹۴)
دوسری روایت حضرت انسؓ سے یوں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’زھو‘ سے پہلے پھلوں کی بیع سے منع فرمایا ہے۔ ان سے دریافت کیا گیا کہ ’زھو‘ کسے کہتے ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا: ’’یہاں تک کہ سرخ ہوجائے (یعنی پکنے پر آجائے)۔ پھر آپؐ نے فرمایا: ’’ تم ہی بتاؤ اگر اللہ تعالیٰ پھلوں کو روک دے (یعنی پکنے سے روک دے یا کسی آفت کے ذریعے ضائع کردے) تو تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا مال کس بناپر لے گا؟‘‘ (بخاری، کتاب البیوع،حدیث: ۲۱۹۸)۔   اس لیے باغات کے مالکوں اور پھلوں کے تاجروں کو چاہیے کہ وہ پھلوں کے پختہ ہونے تک صبر و انتظار کریں اور اس کے بعد ہی خرید و فروخت کا کوئی معاملہ کریں۔ 

 جھوٹ سے پرہیز 

 تجارت میں جھوٹ سے بھی پرہیز لازمی ہے۔ دور حاضر کی تجارت میں لوگ اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ غیروں کی تو بات ہی کیا بعض سادہ لوح مسلمان بھی ایسا خیال رکھتے ہیں۔یاد رہے  کہ جھوٹ بولنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت کا اعلان قرآن کریم میں موجود ہے۔ ارشاد ربانی ہے: لَعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ O (اٰل عمرٰن۳:۶۱) ’’جو جھوٹا ہو اُس پر خدا کی لعنت ہو‘‘۔ 
رسول پاکؐ سے بھی دروغ گوئی کی مذمت میں بہت سے اقوال منقول ہیں، منجملہ ان کے یہ بھی ہے کہ اس کو منافقین کی صفت بتایا ہے۔ اب اس روایت کو دیکھیں: حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے کہ بیع و شرا کرنے والے فریقین (بائع اور مشتری ) کو اختیار ہے (فسخ بیع کا) جب تک جدا نہ ہوں۔پھر اگر وہ دونوںسچ بولیں اور حقیقت واضح کر دیں (یعنی جو کچھ عیب ہے سامان میںیا قیمت میں) توان کی بیع میں برکت ڈال دی جاتی ہے، اور اگر وہ جھوٹ بولیںاور چھپائیں (عیوب کو) تو ان کی بیع سے برکت ختم کردی جاتی ہے۔ (مسلم، کتاب البیوع)
اس طرح جھوٹ کانتیجہ تجارت میں بے برکتی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ لہٰذا، مراد یہ ہے کہ جو جھوٹ کی لعنت سے اپنی تجارت کو پاک نہیں کرتے، ان کی تجارت کو فروغ نہیں ہوگا۔ یہ تو دنیا کا نقصان ہے، اب ذرا آخرت سے متعلق وعید بھی ملاحظہ کیجیے۔ حضرت رفاعہ بن رافع انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تاجر لوگ قیامت کے دن فاجر اور گنہگار اٹھائے جائیں گے، سواے ان لوگوں کے جنھوں نے (اپنی تجارت میں)تقویٰ اور نیکی اورسچائی کی روش اختیار کی‘‘ (سنن ترمذی،کتاب البیوع، حدیث: ۱۲۱۴)۔ اس سلسلے میں ایک بات اور ذہن نشین رہنا ضروری ہے کہ کسی سامان کی اصل نوعیت سے زیادہ تعریف بھی جھوٹ میںشامل ہے، لہٰذا، اس سے بھی پرہیز لازم ہے۔

قسم کھانے سے اجتناب کرنا

کچھ تاجروں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ گاہکوں کو مطمئن کرنے کے لیے بات بات پر قسمیں کھاتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی منع فرمایاہے: إِیَّاکُمْ وَ کَثْرَۃَ الْحَلِفِ فِي الْبَیْعِ، فَإِنَّہُ یُنَفِّقُ ثُمَّ یَمْحَقُ،یعنی ’’ تم بیع میںبہت قسمیں کھانے سے اجتناب کرو۔اس لیے کہ وہ (اولاً) مال کو تو نکلوادیتی ہے (فروخت کروادیتی ہے) پھر ( اس کی برکت کو) مٹادیتی ہے۔ (مسلم، کِتَابُ الْمُسَاقَاۃِ وَالْمُزَارَعَۃِ، بابُ النَّھْيِ عَنِ الْحَلِفِ فِي الْبَیْعِ، بروایت ابوقتادہؓ)۔ اسی طرح آپؐ فرماتے تھے: الْحَلِفُ مَنْفَقَۃٌ لِلسِّلْعَۃِ مَمْحَقَۃٌ لِلرِّبْحِ، یعنی ’’قسم مال کو نکالنے والی ہے اور (بعد ازاں) نفع کو مٹانے والی ہے ‘‘۔ (مسلم، کِتَابُ الْمُسَاقَاۃِ وَالْمُزَارَعَۃِ ، بابُ النَّھْيِ عَنِ الْحَلِفِ فِي الْبَیْعِ، بروایت ابوہریرہؓ)۔ بخاری میں الفاظ ہیں:الْحَلِفُ مَنْفَقَۃٌ لِلسِّلْعَۃِ مَمْحَقَۃٌ لِلْبَرَکَۃِ ،یعنی ’’قسم مال کو نکالنے والی ہے اور (بعد ازاں) برکت کو مٹانے والی ہے ‘‘۔ (بخاری، کتاب البیوع،باب یَمْحَقُ اللہُ الرِّبَوٰاْ وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ، حدیث: ۲۰۸۷ )
 ان احادیث کا حاصل یہ ہے کہ قسم کھانے سے گرچہ ابتدا میں خریدار بھروسا کرلیتاہے اور مال نکل جاتا ہے، لیکن آیندہ نقصان لاحق ہوتا ہے کیوں کہ لوگ اس کی اس عادت سے واقف ہوجاتے ہیں اور اس کی قسموں پر یقین کرنا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ دوسری برائی اس میں یہ ہے کہ دُنیوی مفاد اور معمولی نفع کی خاطر اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے بابرکت نام کو بیچا جاتا ہے، جو کہ ایک طرح سے اس کے پاکیزہ نام کی بے حرمتی ہے اور بقول رسولِؐ رحمت اسی وجہ سے برکت بھی ختم ہوجاتی ہے۔
یہ سب نقصانات تو تب ہیں جب کہ قسم سچی ہو، اگر جھوٹی قسم کھائی تو اور بھی برا ہے۔   علما نے اسے گناہ کبیرہ بتایا ہے۔ رسولِ پاکؐ سے بھی اس سلسلے میں سخت وعید مروی ہے۔ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا : ’’تین شخص ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ تو کلام فرمائے گا، نہ ان کی طرف (نظر کرم سے) دیکھے گا، اور نہ ان کو (گناہوں سے) پاک کرے گا، اور ان (تینوں) کے لیے دردناک عذاب ہے۔ حضرت ابوذرؓ نے پوچھا:یا رسولؐ اللہ! وہ کون شخص ہیں؟ وہ تو نامراد ہوگئے اور خسارے میں پڑگئے ۔ آپؐ نے فرمایا: اپنے آزار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا، اپنی عطا کردہ چیزوں پر احسان جتانے والا، اور جھوٹی قسمیں کھا کر اپنا مالِ تجارت فروخت کرنے والا‘‘۔ (سنن ابن ماجہ ، کتاب التجارات، حدیث: ۲۲۰۸)

جعلی کرنسی چلانے سے پرہیز 

بعض لوگ منظم ڈھنگ سے جعلی کرنسی کا دھندا چلارہے ہیں اور بعض نادانی میں اس کا شکار ہورہے ہیں۔ جو لوگ اس سازش کا شکار ہوجاتے ہیںوہ بھی اپنے نقصان کی تلافی کے لیے کسی دوسرے کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح فریب دہی کا یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے دوسرے کا مال بالکل ناحق اور باطل طریقے سے کھایا جاتا ہے جس سے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَا تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ باِلْبَاطِلِ (البقرۃ۲:۱۸۸) یعنی ’’آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ‘‘۔ اس لیے ایسے پیسوں سے حاصل کیا گیا مال بالکل حرام ہے۔ 
دوسرے یہ کہ اس اصول کے تحت جس نے کسی گناہ کا کام جاری کیا،اس کو ان تمام لوگوں کے گناہ کے برابرگناہ حصے میں آئے گا، جو قیامت تک اس پر عمل کریں گے۔ بازار میں جعلی کرنسی چلانے والے کو بھی ان تمام لوگوں کے گناہ کے برابرگناہ ملے گا، جو سلسلے کے اخیر تک اس میں شریک ہوں گے۔ اسی لیے امام غزالیؒ نے کسی بزرگ کا مقولہ نقل کیا ہے کہ ایک کھوٹا درہم بازار میں چلانا سو درہم چُرانے سے بدتر ہے، کیوں کہ چوری کا گناہ تو اسی وقت تک ہے، جب کہ کھوٹے پیسے یا جعلی کرنسی چلانے کا گناہ ممکن ہے موت کے بعد تک جاری رہے۔ اور وہ شخص بڑا ہی بدنصیب ہے جو خود تو مرجائے، مگر اس کا گناہ نہ مرے اور اس گناہ کا مدتوں تک دنیا میں موجود رہنا ممکن ہے، اور ایسے شخص کو جس نے اس کی ابتدا کی قبر میں عذاب ہوتا رہے گا۔ اس لیے ان کی راے میں تاجر کے لیے کھوٹے سکّے اور جعلی نوٹ کو پہچاننے کاہنر جانناواجب ہے۔ یہ اس لیے نہیں کہ وہ خود دھوکا  نہ کھائے بلکہ اس لیے کہ لاعلمی میں وہ کسی اور کو دھوکا نہ دے دے۔ اگر کوئی خود دھوکا کھاجائے تو اسے چاہیے کہ خود اپنے نقصان پر صبر کرلے اور اس نوٹ کو ضائع کردے تاکہ اس کے بعد فریب دہی کا یہ سلسلہ جاری نہ رہے ۔ (کیمیاے سعادت، ص ۲۷۴)

ماپ تول کر لین دین کرنا 

تاجروں کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ بھی ہے کہ وہ خرید و فروخت میںچیزوں کا تبادلہ ماپ تول کر ہی کریں۔ حضرت عثمانؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: جب تو کوئی چیز بیچا کرے تو تول کے دیا کر اور جب تو کوئی چیز خریدے تو اسے بھی تول لیا کر (بخاری،کتاب البیوع، بَابُ الْکَیْلِ عَلَی الْبَائِعِ وَالْمُعْطِي)۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں دوحکمتیں پوشیدہ ہیں: ایک تواس سے دھوکا دہی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور دوسرے اس میں مستقبل میں رونما ہونے والے آپس کے اختلافات اور فتنوں سے حفاظت ہے۔ ساتھ ہی ایسے لین دین میں برکت کی بشارت بھی ہے۔ 
حضرت مقدام بن معدیکربؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’اپنے اناج کو ماپ لیا کرو، اس میں تم کو برکت ہوگی‘‘۔ (بخاری،کتاب البیوع، بابُ مَا یُسْتَحَبُّ مِنَ الْکَیْلِ، حدیث: ۲۱۲۸)۔ اس لیے تاجروں کو چاہیے کہ اپنی تجارت میں اس اصول کا پورا لحاظ رکھیں۔ تاہم، جو چیزیں تول کر نہیں بلکہ گنتی سے فروخت ہوتی ہیں، ان میں اس حکم کا اطلاق گنتی پر ہی ہوگا۔ اسی سے یہ اصول بھی اخذ ہوتاہے کہ آپس میں پیسے کا لین دین بھی گن کر ہی کرنا چاہیے۔
قرآن پاک کے علاوہ رسول پاکؐ سے بھی دروغ گوئی کی مذمت میں بہت سے اقوال منقول ہیں، منجملہ ان کے یہ بھی ہے کہ اس کو منافقین کی صفت بتایا ہے۔ حضرت حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے کہ بیع و شرا کرنے والے فریقین (بائع اور مشتری) کو (فسخ بیع کا) اختیار ہے ،جب تک کہ وہ جدا نہ ہوں۔پھر اگر وہ دونوںسچ بولیں اور واضح کر دیں حقیقت کو (یعنی جو کچھ عیب ہے سامان میںیا قیمت میں) توان کی بیع میں برکت ڈال دی جاتی ہے، اور اگر وہ جھوٹ بولیںاور چھپائیں (عیوب کو) تو ان کی بیع سے برکت ختم کردی جاتی ہے۔ (مسلم، کتاب البیوع)
حضرت رفاعہ بن رافع انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تاجر لوگ قیامت کے دن فاجر اور گنہگار اٹھائے جائیں گے سواے ان لوگوں کے جنھوں نے (اپنی تجارت میں)تقویٰ اور نیکی اورسچائی کی روش اختیار کی‘‘۔ (سنن ترمذی،کتاب البیوع) 
اب اگر کوئی قیامت میں فاسق و فاجراٹھایا جائے تو اس کا جو حشر ہوگا اسے بہ آسانی قیاس کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک بات اور ذہن نشین رہنا ضروری ہے کہ کسی سامان کی اصل نوعیت سے زیادہ تعریف بھی جھوٹ میںشامل ہے، لہٰذا اس سے بھی پرہیز لازم ہے۔

ماپ تول میں کمی نہ کرنا 

ماپ تول میں کمی کرنا بھی ایک بدترین اخلاقی بیماری ہے، جو آج کے بازار کے نظام میں ایک وبا کی شکل اختیا ر کرچکی ہے۔ یہ بدترین قسم کی خیانت ہے کہ پیسے تو پورے لیے جائیںاور چیز کم دی جائے۔ قرآن کریم میں اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی، کہ جب لوگوں سے ماپ کرلیتے ہیں تو پورا پورالیتے ہیںاور جب انھیں ماپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔کیا ایسے لوگ یہ خیال (بھی) نہیں کرتے کہ وہ (مرنے کے بعد زندہ )اٹھائے جانے والے ہیں؟ ایک عظیم دن (کی پیشی) کے لیے جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے‘‘۔ (المطفّفین۸۳: ۱-۶) 
مطلب یہ ہے کہ اس طرح کی حرکت وہی لوگ کرتے ہیں جن کے دلوں میںاللہ تعالیٰ کا خوف اور یومِ آخرت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی کا یقین نہیں۔ دوسری جگہ صحیح وزن کرنے کی تاکید ان الفاظ میں کی گئی ہے: ’’اور جب (کوئی چیز کسی کو)ماپ کر دینے لگو توبھرپور پیمانے سے ماپو اور (جب تول کر دو تو) سیدھی ترازو سے تولا کرو، یہ (فی نفسہٖ بھی) بہترہے اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت اچھا ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل۱۷: ۳۵)۔ اس میں ایک بہتری تو اجر و ثواب کے لحاظ سے ہے جس کا انجام جنت ہے، اور دوسری بہتری تجارت کے فروغ کے اعتبار سے ہے کہ ناپ تول میں دیانت داری سے گاہکوں میں دیر تک اعتماد پیدا ہوتا ہے۔
ان دو کے علاوہ قرآن کریم میں چند دیگر مقامات پر بھی ماپ تول میںدیانت داری اختیار کرنے کی تاکید ملتی ہے، مثلاً الانعام۶: ۱۵۲، الرحمٰن ۵۵: ۷ - ۹، الاعراف۷: ۸۵، ھود۱۱: ۸۴ - ۸۶ وغیرہ جس سے اس مسئلے کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سورئہ اعراف اور سورئہ ہود کی مذکورہ آیات میں یہ ہدایت حضرت شعیبؑ کے تذکرے میں ملتی ہے، کیونکہ ان کی قوم میں بھی یہ برائی عام تھی جس کی اصلاح کی فکر حضرت شعیبؑ نے کی، لیکن جب وہ نہیں مانے تو ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب بھی نازل ہوا۔ اسی لیے رسول اکرمؐ نے اپنی امت کو اس سے متنبہ فرمایاکہ اس لعنت میں گرفتار ہوکر کہیں وہ بھی غضب الٰہی کا شکار نہ ہوجائیں۔ آپؐ نے ناپ تول کرنے والوں سے فرمایا: ’’تم لوگ دو ایسے کام کے ذمے دار بنائے گئے ہو (یعنی ماپنا اور تولنا) جن میں (کوتاہی کے سبب) تم سے پہلے کی(بعض)اُمتیںہلاک ہوگئی ہیں‘‘(سنن ترمذی، ابواب البیوع، حدیث: ۱۲۱۷؍ ۱۲۲۱)۔ آپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ: جب کوئی قوم ماپ تول میں کمی کرتی ہے تو وہ قحط سالی، روزگار کی تنگی اور بادشاہ (حکمرانِ وقت) کے ظلم و ستم میں مبتلا کر دی جاتی ہے۔ (سنن ابن ماجہ ، کتاب الفتن، حدیث: ۴۰۱۹)
 اس لیے ایک مومن تاجر کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں احتیاط برتے، دیانت داری کا رویہ اپنائے اور چند سکّوں کی خاطر اللہ واحد القہار کے عذاب کا خود کو مستحق نہ بنائے۔

جھکتی ڈنڈی تولنا

 کم تولنے کو اسلام میں جہاں ناپسند کیا گیا ہے، وہیں جھکتا تولنے کو پسند کیا گیا ہے کیوں کہ اس میں ایثار اور احتیاط دونوں ہی پہلو شامل ہیں۔نبی کریمؐ سے اس سلسلے میں ہدایات بھی منقول ہیں۔ حضرت سوید بن قیسؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے اور مخرفہ عبدی نے ہَجَر(بحرین کے ایک شہر) سے کچھ کپڑے خرید ے اور اسے مکہ لے کر آئے، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس پیدل تشریف لائے اور ہم سے ایک پائجامہ کا سودا کیا، جو ہم نے آپؐ کے ہاتھ فروخت کردیا۔ وہاں ایک شخص تھا جو اُجرت لے کر مال وزن کیا کرتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:  زِنْ، وَ أَرْجِحْ،یعنی ’’وزن کرو اور جھکتی ڈنڈی تولو‘‘۔(سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، حدیث: ۳۳۳۶)
 دوسری روایت حضرت جابرؓ سے ملتی ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا: إِذَا وَزَنْتُمْ فَأَرْجِحُوا یعنی ’’ جب تم تولو، تو جھکتا ہوا تولو‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، حدیث: ۲۲۲۲)۔ ان احادیث کی بنیاد پرعلما نے جھکتی ڈنڈی تولنے کو مستحب کہا ہے۔ اس لیے تاجروں کو چاہیے کہ کسی کو سامان دیتے وقت اس اصول کو بھی مد نظر رکھیں۔

 ذخیرہ اندوزی سے پرہیز

  تجارت میں زیادہ نفع خوری کے لیے ایک حربہ یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ ضروری اشیا کی ذخیرہ اندوزی کر کے بازار میں مصنوعی قلت پیدا کردی جاتی ہے، جس سے مہنگائی بڑھ جاتی ہے اور چیزوں کے نرخ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ پھر گراں بازاری کے اس موقعے سے ذخیرہ اندوز تاجر خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ فقہی اصطلاح میں اس عمل کو ’احتکار‘ کہا جاتا ہے، جو شرعی نقطۂ نظر سے حرام اور انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے کیوں کہ اس میںانسانوں کی خدمت اور حاجت روائی کے جذبے کے بجاے ضرر رسانی اور استحصال کا جذبہ داخل ہوجاتا ہے۔ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنِ احْتَکَرَ فَھُوَ خَاطِیئٌ،یعنی ’’جس نے ذخیرہ اندوزی کی وہ گناہ گار ہے‘‘ (مسلم، بروایت معمر ؓ بن عبداللہ)۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: لَا یَحْتَکِرُ إِلَّا خَاطِیئٌ،یعنی ’’گناہ گار کے سوا کوئی اور شخص ذخیرہ اندوزی نہیں کرتا‘‘ (مسلم، بروایت معمرؓ بن عبداللہ)۔ آپؐ کایہ بھی ارشاد ہے: الْجَالِبُ مَرْزُوقٌ وَالْمُحْتَکِرُ  مَلْعُونٌ ،’’جالب (دوسرے شہروںسے غلہ وغیرہ لاکر بازار میں بیچنے والا تاجر) مرزوق ہے  (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے رزق دیا جاتا ہے)، اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی لعنت کا مستحق اور اس کی رحمت سے دُور ہے)‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث: ۲۱۵۳، بروایت عمرؓ بن الخطاب)
 آپؐ سے یہ بھی منقول ہے کہ جو شخص مسلمانوں سے غلے کا احتکار کرتا ہے( یعنی ان سے غذائی اشیا روک کر بعدہٗ گراں نرخ پران کے ہاتھ فروخت کرتا ہے) اللہ تعالیٰ اسے جذام اور افلاس میں مبتلا کردیتا ہے  (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، حدیث: ۲۱۵۵، بروایت عمرؓ بن الخطاب)۔ آپؐ سے یہ بھی روایت ہے کہ جس شخص نے ۴۰دن تک گرانی کے خیال سے غلے کو روک رکھا، وہ اللہ تعالیٰ سے بے زار ہوا اور اللہ اس سے بے زار ہوا ۔ ( مسند احمد، حدیث: ۴۹۹۰، بروایت عبداللہ     بن عمرؓ)۔ایک روایت میں یہ ہے کہ: جس شخص نے گراں فروشی کی نیت سے غلے کو ۴۰ دن تک روکے رکھا اور پھر اسے (اللہ کی راہ میں) صدقہ کردیا تو (بھی) وہ اس کے (اس گناہ) کے لیے کفّارہ نہیں ہوگا۔(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب البیوع، باب الاحتکار، حدیث: ۲۸۹۸، بروایت ابوامامہؓ)
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے ذخیرہ اندوزی کی مذمت واضح ہے۔ اس کے برعکس حاجت روائی کی نیت سے تجارت کرنے والے تاجر کے بارے میں آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ: جس نے اناج خریدا اور کسی شہر میں لے گیااور مروجہ نرخ پرفروخت کردیا، وہ ایسا ہے جیساکہ اس نے وہ سارا اناج خیرات کردیا۔(احیاء علوم الدین ،ص۵۱۶)
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ زمانہ قدیم میں ذخیرہ اندوزی عام طور سے غلے کی ہی ہوا کرتی تھی۔ اس لیے مذکورہ بالا احادیث میں غلے کا ہی ذکر ہے۔ اسی لیے ’احتکار‘ کا اطلاق علما عام طور سے غذائی اجناس کی ذخیرہ اندوزی پر ہی کرتے آئے ہیں۔ اس لیے ایسی اشیا کی ذخیرہ اندوزی کو جو غذا ئی ضرورت میں استعمال نہیں ہوتی، بعض علما نے حرام نہیں کہا ہے۔ (مظاہر حق، جلد۳، ص۵۲۲)
تاہم، اس سلسلے میں چند اہم نکات پر غور کرنا ضروری ہے۔ اول یہ کہ ذخیرہ اندوزی خواہ کسی بھی چیز کی ہو، اس میں استحصال اور موقع پرستی کا جذبہ شامل ہوتا ہے اور یہ انسانی حاجت روائی اور نفع رسانی کے جذبے کے خلاف ہے۔ دوم یہ کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے مزاج کے بھی خلاف ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ معاشی نظام ایسا ہو جس میں عوام خصوصاً غریبوں اور کم آمدنی والوں کا زندگی گزارنادشوار نہ ہو۔ اس لیے احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ہر قسم کی ذخیرہ اندوزی سے بچنا چاہیے۔ رہا علما کا مذکورہ بالا فتویٰ، تو یہ جاننا چاہیے کہ فتویٰ تو ظاہر پر ہوا کرتا ہے۔ اسی لیے امام غزالیؒ نے فرمایا: ــــــــ ’’بہت سے معاملات ایسے ہیں جن میں فتویٰ تو ہم یہی دیں گے کہ یہ درست ہے، لیکن اس معاملے کا مرتکب (اللہ تعالیٰ کی) لعنت میں گرفتار ہوگا، اور یہ وہ معاملہ ہے جس میں مسلمانوں کو تکلیف ونقصان پہنچتا ہو‘‘ (کیمیاے سعادت، ص ۲۷۲)۔اس لیے موجودہ دور میں رائج گھریلو استعمال کے لیے سلنڈروں میں گیس، چولھا جلانے کے لیے مٹی کا تیل اور ڈیزل، پھر دوا وغیرہ کی ذخیرہ اندوزی بھی قابل ملامت فعل ہے۔

خرید و فروخت میں نرمی کا رویّہ 

 یوںتو اسلام میں نرمی اور خوش خلقی کا رویہ اختیار کرنے کی عمومی تعلیم دی گئی ہے لیکن تجارت کے شعبے میں اسے خصوصاً پسند کیا گیا ہے۔ رسول اکرمؐ نے ایسے تاجر کے لیے جو خرید و فروخت میںنرمی کا رویہ اختیار کرتاہے، دعا فرمائی ہے: ’’ اللہ تعالیٰ اُس شخص پر رحم فرمائے جو بیچتے وقت، خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت فیاضی اور نرمی سے کام لیتا ہے‘‘۔ (بخاری ، کتاب البیوع، بروایت جابر بن عبداللہؓ، حدیث: ۲۰۷۶ )
 ایک روایت کے مطابق: آپؐ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے نرمی اور خوبی سے بیچنے کو، نرمی سے خریدنے کو،اور نرمی و آسانی سے قرض ادا کرنے کو‘‘۔ (سنن ترمذی ، کتاب البیوع، حدیث: ۱۳۱۹، بروایت ابوہریرہؓ)۔  آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو جو تم سے قبل (امت سے) تھا بخش دیا (اس لیے کہ) وہ آسانی اور نرمی کرتا تھا۔ جب (کچھ) بیچتا تھا تو آسانی اور نرمی کرتا تھا۔ جب (کچھ) خریدتا تھا، اور آسانی اور نرمی کرتا تھا، جب (قرض کی ادائی کا) تقاضا کرتا تھا‘‘۔ (حوالہ سابق، حدیث: ۱۳۲۰، بروایت جابرؓ)۔ ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل کردیا اس شخص کوجو بیچنے اور خریدنے میں نرمی کا معاملہ کیا کرتا تھا‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات،حدیث: ۲۲۰۲)
ان روایتوںکا تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان تاجر کو خرید و فروخت میںنرمی ہی کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ حقیقت میں یہ ایک ایسی پالیسی ہے جس کے ذریعے ایک تاجر بہت کم وقفے میں گاہکوں میں اپنی ساکھ قائم کرسکتا ہے اور اس کی تجارت چمک سکتی ہے۔ اس طرح تجارت میں اس سنت کو اپنانے سے دُنیوی اور اخروی دونوں فوائدہیں۔ لیکن افسوس کا پہلویہ ہے کہ مسلمان تاجر عام طور سے اس صفت سے خالی نظر آتے ہیں، جب کہ دوسری قوموںکے اکثر تاجروں نے اس پالیسی کو سختی سے اپنا رکھا ہے جس کے دنیوی ثمرات سے وہ استفادہ کر رہے ہیں۔

 فروخت کی ہوئی چیز واپس لینا 

تجارت میں بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بیع کا معاملہ ہونے کے بعد خریدار سامان یاقیمت سے مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے یا کسی اور مصلحت کی وجہ سے پشیمانی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور خریدی ہوئی چیز کو واپس کرنا چاہتا ہے، یا کبھی فروخت کرنے والا افسوس کرنے لگتا ہے کہ میں نے اتنی کم قیمت پریہ سامان کیوں فروخت کردیا اور اسے واپس لینا چاہتا ہے، تو ایسی صورت میں فریقین کو چاہیے کہ باہمی رضامندی سے اس معاملے کو ختم کر دیں، یعنی تاجر بکاہوا سامان واپس لے لے، یا خریدار خریدا ہوا سامان واپس کردے۔ اسے شریعت کی اصطلاح میں ’اقالہ‘ کہتے ہیں۔ اگرچہ ایسا کرنا فریقین پر واجب نہیں ہے، لیکن اس کا ثواب بہت زیادہ ہے کیونکہ ایساکرنا احسان میں داخل ہے۔ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن أَقَالَ مُسْلِمًا أَقَالَہُ اللّٰہُ عَثْرَتَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، یعنی جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کے ساتھ اقالے کا معاملہ کرے (یعنی اس کی بیچی ہوئی یا خریدی ہوئی چیز کی واپسی پر راضی ہوجائے) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہ بخش دے گا (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، حدیث:۲۱۹۹، بروایت ابوہریرہؓ)‘‘۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم  ؐ نے فرمایاکہ: ’’جو شخص کسی بیع کو فسخ کردے اور یہ تصور کرلے کہ میں نے بیع کی ہی نہیں، تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو ایسا جانتا ہے گویا اس نے گناہ کیے ہی نہیں‘‘۔ (کیمیاے سعادت،ص ۲۸۲)
اس لیے مسلمان تاجروں کو چاہیے کہ ان فضیلتوں کے پیش نظر اس طرح کے معاملات میں احسان کی روش ہی اختیار کریں۔ بعض مسلم تاجر غیروں کی نقل میں اپنی دکان میں ’بکا ہوا سامان واپس نہیں ہوگا ‘ کا بورڈ لگادیتے ہیں۔ گویا وہ علی الاعلان یہ کہہ رہے ہیں کہ اس سنت کی ان کے یہاں کوئی جگہ نہیں! یہ نہایت افسوس کی بات ہے۔ انھیں مذکورہ روایات پر غور کرنا چاہیے اورایسے کسی موقعے کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے، کیونکہ ہر شخص گناہوں کی بخشش کا محتاج ہے۔

دخل اندازی سے احتراز

کسی دو شخص کے جائز تجارتی معاملے میں تیسرے کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ مداخلت کی ایک صورت یہ ہے کہ قیمت بڑھا کر اس چیز کو خریدنے کا اظہار کرے جس کا معاملہ زیر غور ہے، اس میںخریدار کے نقصان کا امکان ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ خریدار سے یہ کہے کہ: ’’بالکل یہی چیز یا اس سے بہتر میں آپ کو اس سے کم قیمت پر فراہم کرسکتا ہوں‘‘۔ اگر آپ اس معاملے کو  فسخ کردیں، اس صورت میں بیچنے والے کے نقصان کا امکان ہے۔ یہ دونوں ہی صورتیں درست نہیں اور اگر مقصد خود خریدنا یا بیچنا نہ ہو صرف معاملے کو بگاڑنا ہوتو یہ اور بھی برا فعل ہے۔
 حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا یَبِیْعُ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَیْعِ بَعْضٍ،’’تم میں سے کوئی شخص کسی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے‘‘ (بخاری، کتاب البیوع، حدیث: ۲۱۶۵)۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: لَا یَسُمِ الْمُسْلِمُ عَلٰی سَوْمِ أَخِیْہِ، ’’ کوئی مسلمان اپنے بھائی کے سودے پر سودابازی نہ کرے‘‘ (مسلم، کتاب البیوع)۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ کے بقول آپؐ نے فرمایا: ’’کوئی شخص اپنے کسی (مسلمان) بھائی کے مول پرمول نہ کرے اور نہ نجش کرے‘‘۔ (بخاری، کتاب البیوع، حدیث: ۲۱۶۰)
’نجش‘ اس عمل کو کہتے ہیں کہ دو افراد کے بیچ کوئی تجارتی معاملہ طے پارہا ہو اور تیسرا شخص آکر اس چیز کی بے جا تعریف کرنے لگے کہ جس کا معاملہ زیر بحث ہو،یا اس کی زیادہ قیمت لگادے اور اس کا مقصد خریدنا نہ ہو بلکہ اس خریدار کو گمراہ کرنا اور دھوکے میں ڈالنا ہو، تاکہ وہ اس چیز کی خریداری کی طرف راغب ہوجائے یا زیادہ قیمت دینے کو تیار ہوجائے۔ اس طرح کی دلالی کیسے درست ہوسکتی ہے، جب کہ اس میں اصل خریدار کو فریب دینے کی سازش کی جاتی ہے۔ اس لیے مذکورہ بالا احادیث کی بنیاد پر علما نے کسی دو شخص کے مابین جائز تجارتی معاملے میں مداخلت کی   ذکر کردہ ہر صورت کو ناجائز اور حرام قرار دیا ہے، البتہ اگرکسی معاملے میں کوئی شرعی قباحت ہو، مثلاً کوئی شخص کسی کو غبن یا چوری کا مال بیچ رہا ہو، یا کسی اور قسم کا دھوکا دے رہا ہو، تو اس صورت میں مداخلت کرکے معاملے کو فسخ کرادینا اور ایک مسلمان کو نقصان سے بچانا جائز ہے۔

  اللہ کو یاد رکھنا 

 ایک مسلمان تاجر کو چاہیے کہ تجارت کی مشغولیت میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی یاد اور اس کے حقوق کی ادائی سے غافل نہ ہو۔ صحابہ کرامؓ تجارت کیا کرتے تھے، مگر جب اللہ تعالیٰ کا کو ئی فرض آن پڑتا تو کوئی تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے ان کو غافل نہ کرتی یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرتے۔ اس بات کی تعریف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی فرمائی۔ فرمایا: ’’ایسے لوگ جنھیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اورزکوٰۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی‘‘( النور۲۴: ۳۷)۔ آج ہم لوگ نماز جیسے اہم فریضے کی ادائی میں بھی اپنی تجارت کا حرج سمجھتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کی مدد کیسے شامل حال ہوسکتی ہے، جب کہ اس نے اپنی یاد کے لیے خصوصی طور پر اسے قائم کرنے کا حکم فرمایا ہے ( حالانکہ ساری ہی عبادات اس کی یاد کے لیے ہیں)۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور مجھے یاد رکھنے کے لیے نماز قائم کرو‘‘۔ (طٰہٰ ۲۰:۲۰) 
اس حکم سے تقربِ الٰہی کے حصول میں نماز کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔ اس لیے اس سے غفلت برتنا انتہائی خسارے کا سودا ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ اللہ رب العزت نے نماز کی وجہ سے رزق میں کسی قسم کے نقصان نہ ہونے کی ضمانت لی ہے بلکہ اس کے اہتمام پر رزق کا وعدہ بھی کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس پر ثابت قدم رہو، ہم تم سے رزق نہیں چاہتے، رزق تو ہم تمھیں دیں گے اور بہترین انجام تو پرہیزگاری ہی کا ہے‘‘ (طٰہٰ۲۰: ۱۳۲)۔ اس لیے بھی نماز کا اہتمام ضروری ہے اور جمعہ کی اذان کے بعد خرید و فروخت کو چھوڑ کر نماز کے لیے دوڑ جانے (یعنی بلاتاخیر جانے) کا خصوصی حکم سورۃ الجمعہ (۶۲:۹)میں موجود ہے۔ 
  ان اُمور کے اہتمام کے ساتھ اگر فارغ اوقات میں قرآن کی تلاوت کی جائے یا کوئی ذکر مسنونہ زبان پر ہمہ وقت جاری رہے، تواور بھی برکت اور تقرب الٰہی کا ذریعہ ہوگا۔ سورۃ الجمعہ میں ہے:’’جب نماز [جمعہ] پوری ہوچکے تو تم زمین میںمنتشر جاؤ اور اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرو اور اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تمھیں فلاح نصیب ہو ‘‘ (الجمعۃ۶۲: ۱۰)۔ اس آیت میں بھی گویا یہ تلقین کی گئی ہے کہ حصول رزق کی سعی تمھیں اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ کرے بلکہ ساری تگ و دو کے ساتھ کثرت سے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کا ذکر ہی تمھیں فلاح و کامیابی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔
چند کلمات ایسے ہیں جن کا پڑھنا کافی فضیلت رکھتا ہے۔ حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص بازار میں داخل ہوکر یہ کہے: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَاشَرِیْکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِي وَ یُمِیْتُ وَ ھُوَ حَیٌّ لَّا یَمُوْتُ بِیَدِہِ الْخَیْرُ، وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ  قَدِیْرٌ،تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ۱۰لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور ۱۰ لاکھ برائیاں اس کی مٹادیتا ہے اور ۱۰ لاکھ درجے اس کے بلند کردیتا ہے۔(سنن ترمذی، کتاب الدعوات، حدیث: ۳۴۲۸)
 امام ترمذیؒ کی اسی مضمون کی دوسری روایت کے آخر میں یہ ہے کہ: ’’اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنادیا جاتا ہے‘‘ (حوالہ سابق، حدیث: ۳۴۲۹)۔ اس لیے تاجروں کو چاہیے کہ ان کلمات کا ضرور اہتمام کریں کہ اس میں نہ کوئی مشقت ہے اور نہ وقت فارغ کرنے کی ہی ضرورت۔ اور ان سب کا حاصل یہ ہے کہ ہر وقت اللہ رب العزت کا استحضار رہے۔
یہ ہیں کاروبار اور تجارت کے چند اہم اسلامی اصول! اگر ان کی رعایت کرتے ہوئے تجارت کی جائے گی تو بلاشبہہ وہ تجارت دنیوی و اُخروی اعتبار سے بڑی نفع بخش ثابت ہوگی لیکن ان کا اہتمام وہی لوگ کرسکتے ہیں، جنھیں اللہ عز و جل کے وعدوں اور اس کے رسول ؐکی خبروں پر کامل یقین ہو۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور اس کے رسول ؐکی خبروں کے حوالے سے شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں یا جنھیں شرعی احکام کی تعمیل میں تجارت کا نقصان نظر آتا ہو ، ظاہر ہے ان سے ان اصولوں کی پاسداری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ تمام مسلمانوں کو ان کے تمام معاملات میں اپنے احکام اور اپنے حبیبؐ کی سنتوں کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!


قم: ۲۱۳۶)
حکیم بن حزامؓ سے ہی اس طرح روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض کیا کہ میں ایک غیرمعمولی کاروباری آدمی ہوں تو میرے لیے کون سی چیز حلال ہے اور کون سی چیز حرام ؟ اس پر آپ ؐ نے فرمایا: ’’کسی بھی چیز کو اس وقت تک فروخت نہ کرو، جب تک اسے قبضے میں نہ لے لو ‘‘۔ (معجم الکبیر للطبرانیؒ، جلد۳، حدیث:۳۱۰۸)
امام ابوداؤدؒ نے حضرت زید بن ثابتؓ سے ایک ایسی روایت نقل کی ہے، جس سے یہ پتاچلتا ہے کہ خریدی ہوئی منقولہ شے پر (یعنی وہ چیزجو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائی جاسکے) صرف قبضہ کافی نہیں بلکہ جب تک اسے خریدنے کی جگہ سے منتقل کرکے اپنے ٹھکانے پر نہ لے آئے، اس وقت تک اسے فروخت کرنا درست نہیں۔ انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو ان کا خریدا ہوا تیل بازار میں اسی جگہ فروخت کرنے سے یہ کہہ کر روکا:یعنی ’’اسے فروخت نہ کرو جہاں پر تم نے خریدا ہے، حتیٰ کہ تم اسے اپنے ٹھکانے پر لے جاؤ، کیو نکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سودے کو اسی جگہ بیچنے سے منع فرمایا ہے، جہاں اسے خریدا جاتا ہو، حتیٰ کہ تجار اسے اپنے گھروں کی طرف لے جائیں‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الاجارۃ، حدیث: ۳۴۹۹)
 یہاں یہ سوال کسی کے بھی ذہن میںآسکتا ہے کہ آخر اس حکم کی حکمت کیا ہے؟ اس کے جواب میں پہلی بات تو یہ کہی جاسکتی ہے کہ یہ ایک طرح سے کرنسی کے بدلے زائد کرنسی کی بیع ہے (جو کہ شریعت میں درست نہیں)۔ کیونکہ اس میںدوسرے تاجر کی عملی طور پر کوئی خدمت شامل نہیں ہوئی۔ اس وجہ سے کہ سامان وہیں کا وہیں پڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے حضرت طاؤس کے سوال پر بتائی، جسے امام بخاریؒ نے روایت کیا ہے۔ آپؓ نے فرمایا: ’’یہ تو روپے کا روپے کے بدلے بیچنا ہوا اور غلہ توبعد میں دیا جائے گا‘‘۔ (بخاری، کتاب البیوع، حدیث: ۲۱۳۲)
 دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ پہلا تاجر جب یہ دیکھے گا کہ دوسرا بغیر کسی محنت کے بہت زیادہ نفع حاصل کر رہا ہے، تو اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ کیوں نہیں وہ پہلی بیع کو فسخ کرکے تیسرے شخص سے براہ راست زیادہ قیمت پر معاملہ کرلے ؟ اس طرح وہ قبضہ نہ دینے اور پہلی بیع کو فسخ کرنے کے حیلے بہانے بناسکتا ہے، جس سے آپس میں جھگڑے کی نوبت آسکتی ہے۔ اگر وہ قبضہ دے بھی دے تو اس زائد نفع سے محرومی کا احساس اسے ستائے گا۔ تیسری بات یہ ہے کہ ایسا کرنے میں باربرداری کے شعبے سے وابستہ مزدوروں کے روزگار کے متاثر ہونے کا بھی قوی امکان ہے جس سے حفاظت مقصود ہے۔ چوتھی بات یہ کہ قبضے میںلیے بغیر آگے فروخت کرنے کا یہ سلسلہ اگر یوں ہی چلتا رہا، جیساکہ کسی صنعت و حرفت کی کمپنی سے نکلنے والی مصنوعات یا درآمدات کے ذریعے بازار میں آنے والی اشیا کے ساتھ اکثر دیکھنے کوملتا ہے، تو اصل صارف (Consumer)  تک پہنچتے پہنچتے متعلقہ شے کی قیمت بڑھ کرکہیں سے کہیں پہنچ جائے گی۔ کیوںکہ بیچ کا ہر تاجر کچھ نہ کچھ نفع پر ہی اگلے تاجر کو سامان فروخت کرے گا۔ اس عمل کے نتیجے میں سب سے زیادہ مالی نقصان تو اصل صارف کو ہی برداشت کرنا پڑے گا جو کہ ایک عام آدمی ہے۔ 
تاہم، اس مسئلے پر فقہا کے درمیان اختلاف راے ہے۔ امام مالکؒ کے نزدیک قبضے سے پہلے صرف غلے کا فروخت کرنا جائز نہیں، باقی تمام اشیا کا بیچنا جائز ہے۔ امام ابوحنیفہؒ اور امام یوسفؒ کے نزدیک اشیاے منقولہ میں سے کسی بھی چیز کا قبضے سے قبل بیچنا جائز نہیں، لیکن عقار، یعنی زمین کا بیچنا جائز ہے۔ امام احمدؒ کا بھی بظاہر یہی مسلک ہے۔ امام شافعیؒ اور حنفیہ میں سے امام محمدؒ کے نزدیک کسی بھی چیز کو خواہ وہ غلہ ہو یا اشیاے منقولہ میں سے کوئی اور چیز ہو یا پھر زمین، خریدنے کے بعد قبضے سے قبل فروخت کرنا درست نہیں۔ (مظاہر حق جدید، جلد۳، صفحہ ۴۹۶)
امام بخاریؒ نے اس سلسلے میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا یہ قول نقل کیا ہے: أَمَّا الَّذِي نَھَی عَنْہُ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ فَھُوَ الطَّعَامُ أَنْ یُبَاعَ حَتّٰی یُقْبَضَ یعنی ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز سے منع فرمایا تھا، وہ اس غلے کی بیع تھی جس پر ابھی قبضہ نہ کیا گیا ہو ‘‘۔ پھر ابن عباسؓ نے فرمایا: وَلَا أَحْسِبُ کُلَّ شَیْئٍ إِلَّا مِثْلَہُ ‘‘ یعنی میرا گمان یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہر چیز اسی ( غلہ) کی مانند ہے۔ (بخاری، کتاب البیوع،  حدیث: ۲۱۳۵)
گویا انھوں نے بھی اس مسئلے میں غلے پر ہی غیر غلے کو قیاس کیا اور کسی بھی چیز کو خریدنے کے بعد قبضے سے پہلے بیچنے کو صحیح نہیں ٹھیرایا اور اسی راے کو امام شافعیؒ اور امام محمدؒ نے اختیار کیا ہے جس کی مطابقت حضرت حکیم بن حزامؓ اور حضرت زید بن ثابتؓکی روایات سے بھی ہوگئی۔رہی   یہ بات کہ واضح نصوص، یعنی حضرت حکیم بن حزامؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ کی روایات کی موجودگی میں عبداللہ بن عباسؓ کو قیاس کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ان تک اس وقت تک یہ نصوص نہ پہنچے ہوں جیساکہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو یہ حکم اس وقت تک نہ پہنچا تھا جب زید بن ثابتؓ نے ان کے تیل کی تجارت میں مداخلت کی۔ 
اسی خدشے کا اظہار علامہ شوکانیؒ نے اس مسئلے کی بحث میں نیل الاوطار میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: استعمل ابن عباس قیاس، و لعلّہ لم یبلغہ النّصّ المقتضٰي لکون سائر الأشیاء کالطّعام کما سلف ،یعنی ابن عباسؓ نے قیاس کا استعمال کیا اور یہ شاید اس وجہ سے ہو کہ ان تک ضروی نصوص نہ پہنچے ہوں کہ سودے میں تمام اشیا غلے کی مانند ہیں (نیل الاوطار شرح منتقی الأخبار، لبنان، ۲۰۰۴ء، ص۹۸۶، کتاب البیوع )۔اس لیے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ ایک مسلمان تاجر کوئی بھی چیز، گو اس نے اسے خرید لیا ہو، اپنے قبضے میں آنے سے قبل کسی کو فروخت نہ کرے ۔
 تجارتی معاملات باہمی رضامندی سے طے کرنا
 بیع و شراء کے انعقاد کی بنیادی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ معاملہ بائع اور مشتری کی باہمی رضامندی سے طے کیا جائے۔ بیچنے والا اپنے اختیار سے اپنی چیز بیچے اور خریدنے والا بھی اپنے اختیار اور خوشنودی سے اسے خریدے۔ اگر کسی جانب سے بھی دوسرے فریق کو مجبور کرکے معاملہ کرایا گیا، جب کہ وہ دل سے اس پر راضی نہ تھا تو یہ بیع درست نہیں ہوگی بلکہ منعقد ہی نہیں ہوگی۔ کیوںکہ فرمان الٰہی ہے: 
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ ۝۰ۣ (النساء۴: ۲۹)اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ، اِلاّ یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضامندی سے وجودمیں آئی ہو (تو وہ جائز ہے)۔ 
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ارشاد ہے: إِنَّمَا الْبَیْعُ عَنْ تَرَاضٍ یعنی ’’بیع (فریقین کی) باہمی رضامندی سے ہی ہوتی ہے ‘‘ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، بابُ بَیْعِ الْخِیَارِ، حدیث: ۲۱۸۵، بروایت ابوسعید خدریؓ)۔آپ ؐکا یہ بھی فرمان ہے: ’’کسی شخص کے لیے یہ حلال نہیںکہ وہ اپنے بھائی کا عصا بھی اس کی خوشنودی و رضامندی کے بغیر لے ‘‘۔ (صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبانؒ، کتاب الجنایات،حدیث: ۵۹۷۸، بروایت ابوحمید ساعدیؓ)
یہ حدیث اس معاملے میں، یعنی بغیر رضا مندی کے کسی بھائی کی کوئی چیز لینے کی حرمت کی شدت کو واضح کررہی ہے، جسے سمجھنا کوئی مشکل امر نہیں، کہ لاٹھی جیسی معمولی چیز بھی جب کسی سے بغیر اس کی رضامندی کے لینا حلال نہیں، تو دوسری اہم چیزیںکیسے حلال ہوسکتی ہیں؟ اس لیے ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ خرید و فروخت کے ہر معاملے میں اس بنیادی اصول کا لحاظ رکھے بصورت دیگر وہ دوسرے کا مال باطل طریقے سے ہڑپ کر لینے والوں میں شمار کیا جائے گا۔
یہاں یہ واضح کردینا بھی مناسب ہے کہ یہ رضامندی حقیقی ہونی چاہیے، رسمی اور جبری نہیں۔ نہ دھوکے اور فریب کے ذریعے اس کی اصل قیمت سے دوسرے فریق کو اندھیرے میں رکھا گیا ہو۔ اگر ان حربوں سے رضامندی حاصل کی گئی ہو تو شریعت میں اس کا کوئی اعتبار نہیںاور متاثرہ فریق کو بیع منسوخ کرنے کا اختیار ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص انتہائی مجبوری اور بے بسی کے عالم میں اپنی کوئی چیز بیچ رہا ہو، تو اسے بازار کے نرخ (rate) یا مروجہ نرخ سے بہت کم پر خریدنا اگرچہ وہ اس پر بظاہر راضی بھی ہو، درست نہیں۔ کیوںکہ یہ بات یقینی ہے کہ مجبور شخص خوش دلی سے غیرمعمولی کم نرخ پر اپنی چیز بیچنے کو تیار نہیں ہوتا، جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاء قلبی خوشی کے موجود ہونے کی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں مجبور شخص کا سامان انتہائی کم قیمت پر خریدنے کی جو روش دیکھنے کو ملتی ہے، وہ یقیناً ناپسندیدہ اور اصلاح طلب ہے کیونکہ یہ انسانی خیرخواہی کے جذبے اور دین کی اصل اسپرٹ کے خلاف ہے۔
 خریدار کو صحیح مشورہ دینا 
 تجارت میں بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ گاہک اپنی کم علمی یا ناتجربے کاری کی وجہ سے کسی چیز کی نوعیت یا خاصیت کو از خود سمجھ نہیں پاتا اور دکاندار یا تاجر ہی سے مشورہ طلب کرتا ہے۔ ایسی صورت میں تاجر کو چاہیے کہ اس کو درست مشورہ دے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اَلْمُسْتَشَارُ مُؤتَمَنٌ یعنی ’’جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب الادب، حدیث: ۳۷۴۵، بروایت ابوہریرہؓ)،[یعنی اسے امانت داری کالحاظ کرتے ہوئے صحیح اور مفید مشورہ دینا چاہیے اور جس طرح امانت میں خیانت جائز نہیں ہے، اسی طرح کسی کو غلط مشورہ دینا بھی جائز نہیں، یہ بھی دھوکا دہی کی ہی ایک صورت ہے۔ایک شخص نے آپ پر بھروسہ کیا اور آپ نے اسے گمراہ کردیا۔ اس لیے تاجر کو چاہیے کہ محض ذاتی فوائد کے پیش نظر خریدار کو غلط مشورے نہ دے۔ اللہ تعالیٰ کی رزاقیت پر بھروسا رکھے، جو رزق اس کے مقدر میں ہوگا وہ ضرور مل کر رہے گا۔ اس کے اس عمل سے خریدار کا اس پر اعتماد قائم ہوجائے گا، جو انجامِ کار اس کے لیے ہی مفید ثابت ہوگا۔
 قیمت متعین کرنا ،  غیرمعین نہ رکھنا
 بیع کے منعقد ہونے کی بنیادی شرائط میں سے یہ ہے کہ مبیع، یعنی فروخت ہونے والی چیز اور ثمن، یعنی قیمت دونوں معلوم اور معیّن ہوں۔ نیز فریقین باہمی رضامندی سے ان کے تبادلے پر راضی ہوں۔ مجہول اور غیر معین ثمن کے ساتھ بیع صحیح نہیں ہوتی، کیونکہ فقہا نے بیع کی تعریف ہی یہی بیان کی ہے کہ یہ باہمی رضامندی کے ساتھ مال کے عوض مال کا تبادلہ ہے یا ملکیت کی منتقلی ہے۔ شارح بخاری حافظ ابن حجر العسقلانیؒ (م: ۱۴۴۹ء) نے بیع کی تعریف یوں کی ہے: والبیعُ نقلُ مِلکٍ اِلَی الغیر بثمنٍ ،یعنی ’’بیع (کا مطلب ) قیمت کے عوض کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا ہے‘‘۔ (فتح الباری للحافظ ابن حجر العسقلانیؒ ، دمشق،۲۰۱۳ء، جلد ۷، ص ۵)
۲۰ویں صدی کے معروف فقیہ سیّد سابق مصریؒ (م: ۲۰۰۰ء) اپنی مایہ ناز تصنیف   فقہ السنۃ میں، بیع کی تعریف میں رقم طراز ہیں: ’’شرعًا بیع سے مراد باہمی رضامندی کے راستے سے مال کا مال کے عوض تبادلہ یا ماذون (جس کی شریعت نے اجازت دی ہے) طریقے پر کسی عوض کے بدلے مِلک کا دوسرے کے نام انتقال ہے‘‘۔ (فقہ السنۃ ، ص ۸۹۸)
اس لیے یہ ضروری ہے کہ فروخت ہونے والی چیز کی قیمت متعین کی جائے جو فریقین کے علم میں بھی آجائے، خواہ وہ معاملہ نقد ہو یا ادھار کا اور سامان کی قیمت متعین کیے بغیر کوئی بھی تجارتی معاملہ نہ کیا جائے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ باہمی تعلقات کی وجہ سے سامان فروخت کرنے والا خریدنے والے سے یہ کہتا ہے کہ: آپ یہ سامان لے جائیں اور بازار میں جو قیمت رائج ہے یا جس قیمت پر لوگ اسے فروخت کر رہے ہیں، وہ مجھے آپ ادا کردیں گے، جب کہ بازار میں رائج قیمت کا فریقین یا خریدار کو علم نہیں ہوتا۔ اس صورت میں قیمت کے مجہول (Indeterminate)  رہنے کی وجہ سے بیع درست نہیں ہوتی۔ اسی طرح یہ کہنا بھی درست نہیں کہ جو قیمت آپ کو پسند ہو وہ دے دیں، کیوں کہ یہ عین ممکن ہے جو قیمت خریدار اپنی پسند سے دے، وہ فروخت کرنے والے کی توقع سے کم ہو،جو اس کی دل شکنی کا باعث بنے اور باہمی نزاع کی کوئی صورت پیدا کر دے۔ اس لیے ہر حال میں سامان کی قیمت طے کرکے ہی خرید و فروخت کا معاملہ کرنا چاہیے اور اس حکم کے پیچھے حکمت یہی ہے کہ آگے چل کر آپس میں جھگڑے کا کوئی اندیشہ اور امکان باقی نہ رہے۔ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ قیمت مروجہ کرنسی میں ہی طے ہو بلکہ ہروہ چیز جو شریعت کی نظر میں جائز ہو اور معاشرے میں اس کا بطور معاوضہ قبول کیا جانا رائج ہو، قیمت بننے کی اہل ہے ۔
 ادھار معاملات کو ضبطِ تحریر  میں لانا
یہ بھی اسلامی اصول میں سے ہے کہ خرید و فروخت کا معاملہ اگر ادھار پر مبنی ہوتو اسے  ضبطِ تحریر میں لانا چاہیے۔ ایسی صورت میں قیمت کے ساتھ ادائی کی مدت اور اس کی صورت و ترکیب کا بھی طے کیا جانا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ ادائی یکمشت ہوگی یا قسطوں میں؟ اور اگر قسطوں میں ہوگی تو کتنی قسطوں میں ہوگی وغیرہ؟ ان سب باتوں کو تحریر کے تحت لانا چاہیے، تاکہ آگے چل کر کسی بھی فریق کی بھول چوک سے، جس کا وقت گزرنے کے ساتھ امکان رہتا ہے، کسی قسم کی غلط فہمی اور اختلاف کی راہ ہموار نہ ہو۔ 
یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں اس کی تاکید فرمائی ہے۔ ارشاد باری ہے: 
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْہُ(البقرۃ۲: ۲۸۲) اے ایمان والو! جب تم معینہ میعاد کے لیے ادھار کا کوئی معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔
  آگے ارشاد باری تعالیٰ ہے: 
وَلْيُمْلِلِ الَّذِيْ عَلَيْہِ الْحَـقُّ وَلْيَتَّقِ اللہَ رَبَّہٗ وَلَا يَبْخَسْ مِنْہُ شَـيْــــًٔـا۝۰ۭ فَاِنْ كَانَ الَّذِيْ عَلَيْہِ الْحَـقُّ سَفِيْہًا اَوْ ضَعِيْفًا اَوْ لَا يَسْتَطِيْعُ اَنْ يُّـمِلَّ ھُوَفَلْيُمْلِلْ وَلِــيُّہٗ بِالْعَدْلِ۝۰ۭ وَاسْتَشْہِدُوْا شَہِيْدَيْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ۝۰ۚ(البقرۃ۲: ۲۸۲) اور جو معاملہ اپنی میعاد سے وابستہ ہو، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اسے لکھنے میں کاہلی نہ کرو، یہ بات اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ قرین انصاف ہے اور گواہی کو درست رکھنے کا بہتر ذریعہ ہے ، اور اس بات کی قریبی ضمانت ہے کہ تم آیندہ شک میں نہیں پڑوگے۔
اس لیے اس طرح کے معاملات کو ضرور دستاویزی شکل دینی چاہیے۔ اس کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ فریقین میں سے اگر کسی کا بھی انتقال ہوجائے تو ان کے ورثا کے لیے حق کی ادائی یا وصولی دونوں ہی میں یہ دستاویز معاون ثابت ہوگی۔ بدقسمتی سے عام طور پر لوگ اس طرح کی تحریر کو باہمی اعتماد اور تعلقات کی نزاکتوں کے خلاف سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں کوتاہی برتتے ہیں، جو بسااوقات آگے چل کر نسیان یا غلط فہمی کے باعث باہمی نزاع کا سبب بن جاتاہے۔ کبھی کبھی تو مقدمہ بازی تک کی نوبت آجاتی ہے۔ اس لیے ہمیںاللہ تعالیٰ کے اس حکم کی حکمت کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور سماجی اقدار کے خود ساختہ معیار قائم کر کے اس سلسلے میں کوتاہی نہیں برتنی چاہیے۔ 
ساتھ ہی فریقین کو چاہیے کہ وہ معاہدۂ بیع کی پابندی کریں، فروخت کنندہ میعاد معین سے پہلے ادائی کا مطالبہ نہ کرے اور خریدار اس سے تاخیر نہ کرے اور نہ ٹال مٹول ہی کا رویہ اختیار کرے، بلکہ حُسن ادائی کی صورت اختیار کرے۔ قرض کی ادائی پر قادر ہوتے ہوئے بھی ٹال مٹول کا رویہ اختیار کرنا ظلم ہے۔ اس لیے اس سے بچنا ضروری ہے اور اگر کسی معقول وجہ سے خریدار وقت پر ادھار کی رقم ادا نہ کرسکے تو تاجر کو خریدار سے نرمی کا رویہ اختیار کرنا چاہیے، اسے مہلت دینی چاہیے، اور جرمانہ وصول نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ سود ہی کے زمرے میں داخل ہوجائے گا۔