ستمبر ۲۰۲۱

فہرست مضامین

اہلِ طائف کا قبولِ اسلام

ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی | ستمبر ۲۰۲۱ | تاریخ و سوانح

Responsive image Responsive image

فتح مکہ (۸ھ) کے بعد جب عرب قبائل کو اندازہ ہو گیا کہ اب اسلام کی پیش قدمی کو روکنا ممکن نہیں ہے اور وہ اہل اسلام کو شکست نہیں دے سکتے، تو انھوں نے اپنے رویے پر غور کیا ۔ انھیں کوئی راہِ نجات نظر نہیں آئی ،سوائے اس کے کہ سر تسلیم خم کر دیں اور دائرۂ اسلام میں داخل ہوجائیں۔ چنانچہ انھوں نے اپنے وفود رسول اکرمؐ کی خدمت میں بھیجے ، جنھوں نے آپؐ  کے ہاتھ پر بیعت کی اور اطاعت کا عہد کیا ۔مؤرخین اور سوانح نگاروں نے ۷۰ سے زائد ایسے وفود کا تذکرہ کیا ہے۔ اسی وجہ سے اس زمانے کو ’عام الوفود‘ کہا گیا ہے ۔ان وفود میں ایک وفد قبیلۂ ثقیف کا بھی تھا ۔

قبیلۂ ثقیف کا شمار عرب کے طاقت وَر اور جنگجو قبائل میں ہوتا تھا ۔یہ طائف میں آباد تھا ۔ ہجرتِ مدینہ سے قبل اللہ کے رسولؐ  دعوت کے نئے اُفق تلاش کرنے کی غرض سے طائف تشریف لے گئے تھے ،تو اسی قبیلے کے افراد نے آپؐ کے ساتھ بد ترین معاملہ کیا تھا اور آپؐ کو شدید جسمانی اذیتیں پہنچائی تھیں۔ فتح مکہ کے بعد بہت سے قبائل نے اطاعت قبول کر لی ،لیکن ہوازن اور ثقیف کا دل نہ پسیجا اور وہ لوگ اپنی طاقت کے زَعم میں رہے ۔ انھوں نے بہت بڑی جمعیت اکٹھی کی اور اوطاس (مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام )میں خیمہ زن ہوگئے۔ رسول اکرمؐ کو جب اس بات کی خبر ملی تو آپؐ نے ان کی سرکوبی کا ارادہ کیا اور ایک لشکر کے ساتھ ان کی طرف کوچ کیا۔ اہل ہوازن و ثقیف نے فوجی دستوں کو وادیِ حنین میں تعینات کر دیا، جنھوں نے وادی کے مختلف حصوں میں کمین گاہیں اور مورچے بنالیے۔ جوں ہی مسلمان وہاں پہنچے ان پر ہرطرف سے تیر برسنے لگے ۔اس اچانک حملے سے مسلمانوں پر بدحواسی طاری ہو گئی۔ بد حواسی کا یہ عالم تھا کہ کسی کو دوسرے کی خبر نہ تھی مگر بہت جلد مسلمانوں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا ۔ہوازن اور ثقیف کو شکست ہوئی، بہت سے لوگ قتل ہوئے اور بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا ۔

شکست خوردہ فوج نے طائف میں جا کر پناہ لی اور قلعہ بند ہو گئی ۔رسول اکرمؐ نے صحابہ کرامؓ کے ساتھ طائف کا رخ کیا اور وہاں پہنچ کر محاصرہ کرلیا ۔ثقیف نے اپنے قلعوں سے مسلمانوں پر خوب تیر برسائے جس سے متعدد مسلمان شہید ہو گئے ۔طائف کا محاصرہ تقریباً ۲۰ روز تک جاری رہا مگر شہر فتح نہ ہو سکا،با لآخر رسول اکرمؐ نے محاصرہ اٹھا کر واپسی کا اعلان فرما دیا ۔

اس موقعے پر بعض صحابہؓ نے عرض کیا :اے اللہ کے رسولؐ!  قبیلۂ ثقیف کے لیے بد دعا کردیجیے ۔آپؐ نے ہاتھ اٹھائے اور آپؐ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے : ’’اے اللہ! ثقیف کو ہدایت دے اور ان کو میرے پاس بھیج دے ‘‘۔ بقول سیّد سلیمان ندوی :’’یہ دعائے نبویؐ  کا اعجاز تھا کہ وہ قبیلہ جو تلوار کے ذریعے زیر نہ ہوسکا تھا ،دفعتاً جلالِ نبوتؐ نے اس کی گردن آستانۂ اسلام پر جھکادی اور پورا قبیلہ مسلمان ہو گیا‘‘۔(سیرت النبی ؐ ،دوم، ص ۳۱)

چند روز بعد قبیلۂ ثقیف کے لوگوں نے باہم مشورہ کیا اور طے پایا کہ ایک وفد رسولؐ اللہ کی خدمت میں بھیجا جائے۔سفارت نے مدینہ کا رخ کیا۔ بستی کے قریب اس کی ملاقات حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے ہوگئی ۔ان کا تعلق اسی قبیلے سے تھا ۔وہ دوڑے کہ رسولؐ اللہ کو اس کی آمد کی خبر پہنچائیں۔ راستے میں ان کی ملاقات ابوبکر صدیقؓ سے ہو گئی۔ان کو معلوم ہوا تو مغیرہ کو قسم دلائی کہ یہ خوش خبری مجھے پہنچانے دو ۔اس وفد کی آمد پر رسول ؐ اللہ نے بھی مسرت کا اظہار کیا ۔وفدِ ثقیف کو مسجد نبویؐ میں ٹھیرایا گیا، اس لیے کہ صحن مسجد میں خیمے نصب کیے گئے تھے ۔یہ لوگ نماز اور خطبے کے وقت موجود رہتے تھے۔ مسلمانوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے اور قرآن سنتے تھے۔

یہ وفد مدینہ منورہ میں چند دن ٹھیرا ۔اس عرصے میں وقتاً فوقتاً رسول ؐ اللہ کی خدمت میں حاضری دیتا ،اور آپؐ بھی ان کے پاس آتے جاتے رہے اور انھیں اسلام کی دعوت دیتے رہے (سیرت ابن ہشام)۔ ابن سعد نے لکھا ہے :کہ آں حضرتؐ ان لوگوں کے پاس ہر رات عشاء کے بعد تشریف لے جاتے تھے اور کھڑے کھڑے ان سے گفتگو فرماتے تھے ۔زیادہ دیر تک کھڑے رہنے کی وجہ سے آپؐ تھکن محسوس کرتے تو پہلو بدل لیتے تھے۔ (طبقات ابن سعد)

اس وفد میں عثمان بن ابی العاص نامی ایک نوجوان بھی تھا ۔ارکانِ وفد نبی اکرمؐ کی خدمت میں جاتے تو اسے بچہ سمجھ کر خیمے میں چھوڑ جاتے۔ خدمت نبویؐ میں حاضری سے محرومی اور  تعلیماتِ اسلام سیکھنے کی تڑپ اسے بے چین کیے رکھتی۔ چنانچہ جب وہ لوگ واپس آکر دوپہر میں آرام کرتے تو عثمان آں حضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔آپؐ سے قرآن سن کر یاد کرتا اور آپؐ  سے دین کی معلومات حاصل کرتا ۔کسی موقعے پر اگر وہ آپؐ کو سوتا ہوا پاتا تو حضرت ابو بکر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوجاتااور ان سے دین سیکھتا ۔یہ کام وہ اپنے قبیلے والوں سے چھپ کر کرتا تھا۔ اس کا یہ ذوق و شوق دیکھ کر رسول اکرمؐ کو بہت خوشی ہوئی ۔

ارکان وفد کو اسلام کی بنیادی تعلیمات بتائی گئیں تو انھوں نے اسلام قبول کرنے سے قبل رسولؐ کے سامنے چند شرطیں رکھیں ۔ اس سلسلے میں سربراہ ِوفد کنانہ بن عبد یالیل سے یہ گفتگو ہوئی :

۱- اس نے کہا : ہمیں کثرت سے سفر کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے لیے جنسی جذبے پر قابو پانا مشکل ہے ،لہٰذا ہمیں زنا کی اجازت دے دیجیے۔

اللہ کے رسولؐ نے فرمایا :وہ تم پر حرام ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی  اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً  ط  وَسَآئَ سَبِیْلًا o (بنی اسرائیل ۱۷: ۳۲) زنا کے قریب نہ پھٹکو ۔وہ بہت بُرا فعل ہے اور بڑا ہی بُرا راستہ ۔

۲- اس نے کہا :ہماری ساری تجارت سود پر مبنی ہے۔ ہمیں سود لینے کی اجازت دے دیجیے۔

اللہ کے رسولؐ نے فرمایا :تمھیں صرف اصل سرمایہ لینے کا حق ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o  (البقرہ۲:۲۷۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو اور جو کچھ تمھارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو ۔

۳- اس نے کہا : ہمارے علاقے میں شراب بڑے اہتمام سے کشید کی جاتی ہے اور وہ ہمارے لیے ضروری ہے ۔ آپؐ نے فرمایا :اللہ نے اسے حرام قرار دیا ہے ،اس کا ارشاد ہے :

یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (مائدہ۵:۹۰) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو ،امید ہے کہ تمھیں فلاح نصیب ہو گی ۔

۴- اس نے نماز سے رخصت چاہی تو آپؐ نے فرمایا: ’’اس دین میں کوئی بھلائی نہیں جس میں نماز نہ ہو ‘‘۔

۵-اس نے درخواست کی کہ ان کے بت ’لات‘ کو جس کی وہ پوجا کرتے ہیں ،تین سال کے لیے چھوڑ دیا جائے اور ان کے معبد کو منہدم نہ کیا جائے۔ آپؐ نے انکار کیا۔ انھوں نے دو سال کے لیے چھوڑنے کی گزارش کی ۔آپؐ  نے اسے بھی قبول نہ کیا ۔وہ اسی طرح تھوڑی تھوڑی مدت  کم کرتارہا ،لیکن آپؐ  نے انھیں کچھ بھی مہلت نہیں دی ۔تب انھوں نے کہا:اچھا! تو پھر آپؐ ہی اسے توڑ ڈالیں ۔ہم اسے اپنے ہاتھوں سے نہیں توڑ سکتے ۔آپؐ اس پر رضامند ہو گئے اور فرمایا: میں کسی کو بھیج دوں گا جو یہ کام کر دے گا۔

۶-اس نے درخواست کی کہ ان کو جہاد میںشریک ہونے کا پابند نہ کیا جائے ۔آپؐ نے ان کی یہ درخواست قبول کرلی ۔

۷-اس نے درخواست کی کہ انھیں صدقات ِواجبہ کی ادائیگی سے مستثنیٰ رکھا جائے۔ آپؐ نے ان کی یہ درخواست بھی قبول کر لی ۔

۸- اس نے درخواست کی کہ ان کے علاقے کا عامل (گورنر)ان کے قبیلے سے باہر کے کسی فرد کو نہ بنایا جائے۔آپؐ  نے یہ درخواست بھی قبول کرلی ۔

وفد نے واپسی کا ارداہ کیا تو اللہ کے رسولؐ سے گزارش کی کہ کسی کو ہمارا امیر بنا دیجیے۔ آپؐ نے وفد کے اس سب سے کم عمر رکن ،عثمان بن ابی العاص کو ان کا امیر نامزد فرمایا۔ بعد میں آں حضرتؐ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کی سربراہی میں حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ اور حضرت ابو سفیان بن حربؓکو بھیجا کہ وہ جاکر لات کے معبد کو منہدم کردیں۔

قبیلۂ ثقیف کے قبولِ اسلام کے اس واقعے میں عبرت و نصیحت کے متعدد پہلو ہیں :

  • راہِ دعوت میں مشکلات و مصائب کا استقبال : داعی کو ہر لمحے تیار رہنا چاہیے کہ دعوت کی راہ پھولوں کی سیج نہیں ہے بلکہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ اسے مشکلات سے دوچار ہونا پڑے۔ بسااوقات ممکن ہے کہ جن لوگوں کے سامنے وہ دعوت پیش کرے وہ اسے رد کردیں ۔اس کے درپے آزار ہوں اور اسے اذیتیں پہنچائیں۔ رسول اکرمؐ کا اسوہ بتاتا ہے کہ ان اذیتوں کو برداشت کرنا ہے۔ سفرطائف کے موقعے پر آپؐ کو قبیلۂ ثقیف سے جو اذیتیں پہنچیں ان کی تفصیلات پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔خود آپؐ  نے اس واقعے کو اپنی زندگی کا سب سے زیادہ الم ناک واقعہ قرار دیا ہے ۔ام المومینن حضرت عائشہؓ  نے ایک موقعے پر آپؐ سے دریافت فرمایا: کیا آپ پر کوئی ایسا وقت بھی آیا ہے جو معرکۂ احد سے زیادہ سخت ہو ؟ آپؐ نے فرمایا : ’’مجھے تمھاری قوم سے بارہا تکلیفیں پہنچیں ہیں ،ان میں سب سے زیادہ سخت وقت میرے لیے یوم العقبہ (طائف) کا تھا ‘‘۔ اس طرح آپؐ نے اپنی امت کو تعلیم دی کہ راہِ دعوت میں پیش آنے والی تکلیفوں پر صبر کریں اور اس پر اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھیں ۔
  • مایوسی کے بجائے عزم و حوصلہ: حالات کتنے بھی سخت ہوں اور مدعوین کا رویہ کتنا بھی تلخ اور تکلیف دہ ہو ،داعی کو چاہیے کہ کسی بھی صورت میں مایوسی کو اپنے قریب نہ پھٹکنے دے۔ اسے رجائیت پسند ہونا چاہیے ۔امید رکھے کہ ان شاء اللہ حالات بد لیں گے ،دل نرم اور حق کی طرف مائل ہوں گے اور اسلام کا بول بالا ہوگا ۔سفرِ طائف کے موقعے پر اہلِ ثقیف کے رویے نے رسول ؐاللہ کو بہت زیادہ غم زدہ کر دیا ۔ان کی بد سلوکی کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کو جلال آگیا،پہاڑوں کے فرشتے نے حاضر ہو کر کہا :اے محمدؐ! اللہ نے آپ کی دعوت پر آپ کی قوم کا جواب سن لیا ہے۔   اللہ نے مجھے آپؐ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپؐ جو چاہیں حکم دیں ۔اگر آپؐ چاہیں تو میں ان دونوں طرف کی پہاڑیوں کو ملا کر بستی کو پیس دوں ؟ آپؐ نے جواب میں فرمایا : ’’نہیں، میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اللہ وحدہٗـ لا شریک کی عبادت کریں گے‘‘۔

اس واقعے کو ۱۰ سال کا عرصہ بھی نہ گزرا تھا کہ پورا قبیلہ مشرف بہ اسلام ہو گیا ۔ابن سعد نے لکھا ہے کہ ،حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے فرمایا:’’مجھے نہیں معلوم کہ عرب کا کوئی قبیلہ ،جو ایک باپ کی نسل سے ہو ،اس کا اسلام اتنا راسخ اور اس کے عقائد اتنے بے آمیز ہوں جتنے اس قبیلے کے تھے‘‘ (طبقات ابن سعد ، ج۲،ص ۷۸) ۔ قبیلۂ ثقیف کے اسلام قبول کرنے کی پختگی اور عقائد کی   بے آمیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسولؐ اللہ کی وفات کے بعد عرب کے بہت سے قبائل مرتد ہو گئے تھے اور انھوں نے اسلامی ریاست سے بغاوت کر دی تھی،لیکن اس موقعے پر ثقیف کے تمام افراد نے استقامت کا مظاہرہ کیا اور اسلام پر قائم رہے ۔

  • انتقامی جذبات سے گریز : داعی کو اپنی شخصیت کو انتقامی جذبات سے بلند رکھنا چاہیے۔ اسے مدعوین کی طرف سے چاہے جتنی،جسمانی یا روحانی تکلیفیں پہنچیں ،لیکن اس کا دل صاف رہنا چاہیے ۔وہ ان کی ہدایت کا خواہاں اور اس کا حریص ہو ۔پھر اگر اس کی کوششوں اور  اللہ تعالیٰ کی توفیق سے وہ ہدایت پاجائیں تو اسے اس طرح مسرت کا اظہار کرنا چاہیے،جیسے اسے کوئی بہت بڑی دولت مل گئی ہو۔ثقیف نے اسلام دشمنی میں کیا کیا نہیں کیا!لیکن جب انھوں نے خدمت نبویؐ میں حاضری کا قصد کیا اور ان کے قبولِ اسلام کی کی کچھ اُمید بندھی تو حضرت مغیرہ   بن شعبہؓ پھولے نہیں سمائے ۔وہ آپؐ کو خبر دینے کے لیے دوڑنے لگے ۔راستے میں ان سے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی ملاقات ہو گئی اور انھیں مغیرہؓ کے دوڑنے کا سبب معلوم ہوا تو کہنے لگے یہ تواتنی غیرمعمولی اور انتہائی مسرت بخش خبر ہے کہ اسے رسولؐ اللہ تک میں پہنچاؤں گا۔ آپؐ کو اطلاع ملی تو آپؐ نے بھی مسرت کا اظہار فرمایا ۔ایک لمحہ ٹھیر کر غور کریں کیا اس موقع پر حضوؐر کے ذہن میں سفر طائف کا دل دوز منظر گھوم نہ گیا ہوگا؟کیا آپؐ کے دل میں یہ بات نہ آئی ہوگی کہ یہی لوگ تھے جنھوں نے میری دعوت کو رد کر دیا تھا لیکن آپؐ نے ان کے ساتھ ایسا برتائو کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

مدینہ میں وفدثقیف کے قیام کے دوران آپؐ برابر انھیں شرف باریابی سے نوازتے رہے اور ان کے پاس برابر جاتے رہے اور دین کی باتیں بتاتے رہے۔ آپؐ ان کے پاس خاصا وقت گزارتے ۔ان سے محبت و مودت کی گفتگو کرتے ۔ان کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کرتے اور انھیں دین کا فہم عطا کرتے ،یہاں تک کہ اللہ نے ان کے دل نرم کر دیے اور وہ مشرف بہ اسلام ہوگئے۔

  • دعا : مومن کا سب سے بڑا ہتھیار دعا ہے ۔جب تمام سہارے ٹوٹ جاتے ہیں تو سب سے بڑا سہارا یہی باقی رہتا ہے ۔ اسی کے نتیجے میں اللہ کی مددو نصرت شامل ہوتی ہے، اطمینانِ قلب میسر آتا ہے، اور ایک مومن راہِ خدا میں صبرواستقامت کے ساتھ جدوجہد کرسکتا ہے۔