ستمبر ۲۰۲۱

فہرست مضامین

پاکستان کا تشخص: اسلامی یا سیکولر؟(۲)

ڈاکٹر امجد طفیل | ستمبر ۲۰۲۱ | پاکستانیات

Responsive image Responsive image

حسن جعفر زیدی، علامہ اقبال کو ’خالق تصور پاکستان‘ کہے جانے پر بھی ناراض دکھائی دیتے ہیں۔ بقول ان کے، ’’ اقبال نے نہ تو اپنی کسی تحریر میں لفظ پاکستان استعمال کیا اور اگر کسی نے یہ تاثر دینا چاہا تو اقبال نے اس کی سختی سے تردید کی‘‘۔ جہاں تک پہلی بات ہے، وہ تو بالکل درست ہے کہ اقبال نے شمال مغربی ہندستان میں ایک مسلم ریاست کے قیام کی بات تو کی ،لیکن اس ریاست کے لیے کوئی نام تجویز نہیں کیا، لیکن جب اقبال کے تصور سے ملتی جلتی ایک ریاست وجود میں آ گئی اور اس کا نام پاکستان رکھا گیا، تو کیا اس سے صاف انکار کر دیا جائے گا کہ اس ریاست کے قیام میں اقبال کا کچھ حصہ نہ تھا؟

اس حوالے سے ہمیں اقبال کے قائد اعظم کے نام خطوط کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، جن میں انھوں نے کھل کر اپنے تصورات کا اظہار کرتے ہوئے ہندستان کے مسلمانوں کی سیاسی سمت کا تعین کیا۔ اقبال نے ۲۰مارچ ۱۹۳۷ءکو قائداعظم کے نام خط میں لکھا:

I suppose you have read Pandit Jawaharlal Nehru's address to the All  India  National Convention and that you fully realize the policy under lying it in so far as Indian Muslims are concerned. I believe you are also aware that the new constitution has at least brought a unique opportunity to Indian Muslims for self organization in view of the future political development both in India and Muslim Asia. While we are ready to co-operate with other progressive parties in the country, we must not ignore the fact that the whole future of Islam as a moral and political force in Asia rests very largely on a complete organization of Indian Muslims. I therefore suggest that an effective  reply should be given to the All India National Convention (p29).

میرا خیال ہے کہ آپ نے پنڈت جواہر لال نہرو کا وہ خطبہ ملاحظہ فرما لیا ہوگا، جو انھوں نے کُل ہند نیشنل کنونشن میں دیا اور اس میں اسلامیانِ ہند کے بارے میں جس حکمت عملی کا اعلان کیا گیا ہے اس کو بھی آپ نے بخوبی محسوس کیا ہوگا۔ مجھے یقین ہے، آپ اس بات سے بھی آگاہ ہوں گے کہ نئے آئین نے ہند کے مسلمانوں کو کم از کم اس امر کا ایک نادر موقع ضرور دیا ہے کہ وہ ہند اور مسلم ایشیا میں رُونما ہونے والے سیاسی حالات کے پیش نظر اپنی ملّی تنظیم کرسکیں۔ بلاشبہہ ہم ملک کی دیگر ترقی پسند جماعتوں کے ساتھ اشتراک و تعاون کرنے کو تیار ہیں، لیکن ہمیں اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ ایشیا میں اسلام کی اخلاقی اور سیاسی طاقت کے مستقبل کا انحصار بڑی حد تک خود ہند کے مسلمانوں کی مکمل قومی تنظیم پر ہے۔ اس لیے میری رائے ہے کہ کُل ہند نیشنل کنونشن کو ایک مؤثر جواب دینا بے حد ضروری ہے۔(پاکستان: تصور سے حقیقت تک، تالیف و ترجمہ: پروفیسر ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار ، بزمِ اقبال، ص ۳۱-۳۲)

اسی طرح علامہ اقبال نے قائد اعظم کے نام اپنے ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کے خط میں تحریر کیا:

After a long and careful study of Islamic law, I have come to the conclusion that, if this system of law is properly understood and applied, at least the right to subsistence in served to everybody. But the enforcement of the shariat of Islam is impossible in this country without a free Muslim state or states. This has been my true conviction for many years and I still believe this to be the only way to solve the problem of bread for Muslims and as well as secure a peaceful India (p32).

اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظامِ قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہرشخص کے لیے کم از کم حقِ معاش محفوظ ہو جاتا ہے۔ لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقا ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اس ملک میں ناممکن ہے۔ سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور اب بھی مجھے یقین ہے کہ مسلمانوں کی غربت اور روٹی کا مسئلہ اور ہند میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہوسکتا ہے۔(ایضاً، ص۳۴-۳۵)

قائداعظم کا اقبال کو خراجِ تحسین

قائد اعظم محمد علی جناح نے اقبال کے خطوط کے جواب میں جو کچھ تحریر کیا، وہ بدقسمتی سے دستیاب نہیں۔ یہ خطوط پہلی بار قائد اعظم کی زندگی میں اور ان کے Forward (پیش لفظ) کے ساتھ شائع ہوئے تھے۔ قائد اعظم نے ان خطوط کی اہمیت اور علامہ اقبال کے ساتھ اپنے ذہنی و فکری روابط کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا :

Hence, I had no alternative but to publish the letters without my replies as I think these letters are of very great historical importance, particularly those which explain his (Iqbal) views in clear and unambiguous terms on the political future of Muslim India. His view were substantially in consonance with my own and had finally led me to the same conclusions as a result of careful examination and study of the constitutional problems facing India and found expression in due course in the united will of Muslim India as adumbrated in the Lahore resolution of the all India Muslim League. Popularly  known  as  the "Pakistan Resolution"  passed on 23  March, 1940.

چنانچہ اب میرے پاس اس کے سوا کوئی چارئہ کار نہیں کہ میں ان مکاتیب کو اپنے جوابات کے بغیر ہی شائع کرائوں، کیونکہ میرے نزدیک یہ مکاتیب بے حد تاریخی اہمیت کے حامل ہیں، بالخصوص وہ مکاتیب جن میں مسلم ہند کے سیاسی مستقبل کے بارے میں ان کے خیالات کا واضح اور غیرمبہم اظہار ہے۔ ان کے خیالات پورے طور پر میرے خیالات سے مطابقت رکھتے ہیں، اور بالآخر میں ہند کے دستوری مسائل کے مطالعہ اور تجزیہ کے بعد انھی نتائج پر پہنچا، اور کچھ عرصہ بعد یہی خیالات ہند کے مسلمانوں کی اس متحدہ خواہش کی صورت میں جلوہ گر ہوئے جس کا اظہار آل انڈیا مسلم لیگ کی ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کی منظور کردہ قرارداد لاہور ہے جو عام طور پر ’قراردادِ پاکستان‘ کے نام سے موسوم ہے۔(ایضاً،ص ۳۱)

مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ تو واضح ہو جاتا ہے کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم ہندستان کے مسلمانوں کے مسائل کا حل ایک الگ ریاست میں دیکھ رہے تھے اور کم از کم اقبال واضح طور پر اس میں Islamic Law کا نفاذ چاہتے تھے اور قائد اعظم نے بھی اپنے ’پیش لفظ‘ میں اس سے کہیں اختلاف نہیںکیا۔

حسن زیدی، اقبال کے خالق تصور پاکستان ہونے کے رد میں یہ دلیل لاتے ہیں کہ اقبال کی وفات کے بعد، جب کُل ہند مسلم لیگ کا اجلاس ہوا تو اس کی صدارت کرتے ہوئے قائداعظم نے اقبال کو خراج تحسین پیش کیا،لیکن ان کے اس پہلو کی طرف اشارہ نہیں کیا۔ اس حوالے سے انھوں نے قائد اعظم کا جو اقتباس درج کیا ہے، وہ بالکل درست ہے، مگر کاش! وہ اس سے آگے نکل کر ۲۰مارچ ۱۹۴۳ء کے یوم اقبال پر جناح کے پیغام کا بھی مطالعہ کر لیتے، قائد اعظم لکھتے ہیں :

Iqbal was not only philosopher but also a practical politician. He was one of the first to conceive of entire feasibility of the division of India on national lines as the only solution of India's political problem. He was one of the most powerful though tacit precursors and heralds of the modem practical evolution of Muslim India.

Iqbal,  therefore,  rises  above  the  average philosopher, as the essence of his teachings  in a beautiful blend of thought and action. He combines in himself the idealism of a poet and the realism of a man who took practical view of things. In Iqbal this compromise is essentially Islamic. In fact it is nothing but Islam. His ideal therefore is life according to the teachings of Islam with a motto "Dare and Live" (Speeches, Statements & Message of the Quaid-e-Azam, edited by Khurshid Ahmad Khan Yusufi, Vol. III, p1683-84).

اقبال محض فلسفی نہیں تھے بلکہ وہ ایک عملی سیاست دان بھی تھے۔ انھیں ان لوگوں میں اوّلیت کا مقام حاصل ہے جنھوں نے قومی بنیادوں پر ہند کے سیاسی مسئلے کا واحد قابلِ عمل حل تقسیم تجویز کیا۔ وہ مسلم ہند کے جدید سیاسی ارتقاء کے سلسلے میں ایک طاقت ور ترین مگر خاموش نقیب تھے۔ لہٰذا ،اقبال کا مقام عام فلسفیوں سے بہت بلند ہے، کیونکہ ان کے پیغام کی روح میں تخیل اور عمل دونوں کا حسین امتزاج ہے۔ ان کی ذات میں ایک شاعر کا تخیل اور ایک باعمل انسان کی حقیقت پسندی کا ایسا ملاپ ہے جو مسائل حیات کے بارے میں عملی نقطۂ نظر رکھتا ہے۔ اقبال میں یہ مفاہمت یقینی طورپر اسلامی ودیعت ہے۔ حقیقت میں یہ اسلام کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ اس لیے ان کا نظریۂ حیات اسلام کی تعلیمات کے مطابق یہ ہے: ’’جیو اور بے خطر جیو!‘‘(ایضاً، ص ۴۵-۴۶)

مندرجہ بالا اقتباس سے واضح ہو جاتا ہے کہ خود قائد اعظم ہندستان میں مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد میں اقبال کی فکر کو کتنی اہمیت دیتے تھے۔وقت کے ساتھ ساتھ قائد اعظم کے نظریات میں تبدیلی اور اسلام کی جانب جھکاؤ کے پس پردہ بھی اقبال کی فکر کارفرماتھی ۔ اب ایسی صورت حال میں ایک نئی مسلم ریاست یا ریاستوں کے قیام کے تصور کے حوالے سے اقبال کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے ،تو وہ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ ہاں، اگر اعتراض صرف یہ ہے کہ قائداعظم نے علامہ اقبال کے لیے خالق تصور پاکستان کے الفاظ کیوں استعمال نہیں کیے، تو اسے صرف کج فہمی اور بحث برائے بحث کہا جا سکتا ہے۔

قراردادِ مقاصد پر بعض اعتراضات

یہاں پر مناسب معلوم ہوتا ہے ایک سیکولر کالم نگار وجاہت مسعود کے سلسلہ وار کالم بعنوان ’قرار داد مقاصد اور سیکولرازم‘ پر ایک نظر ڈالی جائے۔ (روزنامہ آج کل ، مارچ - اپریل ۲۰۱۰ء)

موصوف کا نقطۂ نظر یہ ہے:             ’قرار داد نہ صرف جمہوری اصولوں کے منافی ہے، بلکہ یہ پاکستان کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے والے اہم لوگوں بالخصوص قائد اعظم کے افکار سے بھی متصادم ہے‘۔ پھر یہ کہ: ’جناح کا نصب العین ایک جدید جمہوری ریاست تھی اور قرارداد مقاصد لیاقت علی خان اور مولانا شبیر احمد عثمانی کی کاوشوں کا نتیجہ تھی‘۔ وہ مولانا شبیر احمد عثمانی پر کئی ایک اعتراضات کرتے ہوئے یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’مولانا ریاست حیدر آباد دکن کے وظیفہ خوار تھے‘۔ یہاں پر کالم نگار سے یہ سوال تو کیا جا سکتا ہے کہ متحدہ ہندستان میں رہنے والے فرد کے لیے اگر یہ بات باعث الزام ہے کہ کسی ریاست کا وظیفہ لے تو آج پاکستان میں این جی اوز کے زیر سایہ پرورش پانے والے ان دانش وروں کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے، جن کی زندگی کی ساری چکا چوند غیر ممالک سے ملنے والے عطیات (donations )کی مرہون منت ہے؟ یاد رہے کہ امیرملکوں کے وہ ادارے، جو پاکستان جیسے ملکوں میں این جی اوز کو رقوم فراہم کرتے ہیں Donors کہلاتے ہیں، یعنی ’عطیہ اور بخششیں دینے والے‘۔

جہاں تک قائد اعظم کے اس بیان کا تعلق ہے کہ وہ تھیوکریسی یا تھیوکریٹک اسٹیٹ نہیں چاہتے تھے، تو اس میں کوئی دوسری رائے نہیںہے۔ بذاتِ خود اسلام میں تھیوکریسی کی کوئی گنجایش نہیں ہے،مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سیکولر قسم کے دانش ور، چوں کہ مغربی طرزِ فکرکے قائل ہیں اور اسی کو طرزِ حیات کا افضل ماڈل تصورکرتے ہیں، اس لیےوہ اسلامی تصورات اور اداروں کو بھی مغربی اداروں اور مغربی تصورات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ناکام رہتے ہیں ۔پاکستان کو جب اسلامی فلاحی جمہوری ریاست بنانے کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب اسلامی قوانین اور اصولوں کی بالادستی ہوتا ہے، بحیثیت فرد یا بحیثیت ادارہ مولوی کی بالا دستی نہیں۔ اسلام اپنے پیروکار سے مذہب کی تفہیم کا مطالبہ کرتا ہےاور چودہ سو سال سے زیادہ کی تاریخ میں ہمیں ایک بھی تھیوکریٹک ریاست کی مثال نہیں ملتی ،مگر مذہب اسلام لوگوں کی زندگیوں میں اور اجتماعی زندگیوں میں رائج رہا ہے۔ جہاں جہاں حکمرانوں نے اسلامی تصورات سے رُو گردانی کرنے کی کوشش کی ہے، انھیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

آگے چل کر خود یہی کالم نگار تسلیم کرتے ہیں :’’مسلم لیگ ایک خاص مذہبی شناخت رکھنے والی جماعت تھی، چنانچہ قائداعظم کی جانب سے مسلم لیگ کے اجتماعات میں اسلامی عقائد، مسلم ثقافت اور مسلم تاریخ کے روشن پہلوؤں کا ذکر اچنبھے کی بات نہیں‘‘___ ہمارے نزدیک حیرت کی بات ہے کہ خاص مذہبی شناخت رکھنے والی جماعت کے سربراہ کے طور پر، مذہب کی بنیاد پہ ایک الگ وطن کے لیے جدوجہد کرنے والے قائداعظم حاصل ہونے والے ملک کو سیکولر بنانا چاہتے تھے! قائد اعظم نے پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے جو موقف اختیار کیا، وہ اسلام کے مذہبی رواداری کے اصول کے عین مطابق تھا۔

۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر پر ایک نظر

یہاں ایک نظر قائد اعظم کی ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء کی تقریر پر ڈال لی جائے۔ اس تقریر کو اکثر قائداعظم کے سیکولر ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس تقریر کا پورا متن موجود ہے۔ قائد اعظم نے پاکستان کے حوالے سے ایک بار بھی ’سیکولر ریاست‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ پاکستان میں بسنے والے افراد کے مساوی حقوق کی بات ضرور کی ہے اور درست کی ہے۔ یہاں انھی کالم نگار نے ایک اور نکتہ اٹھایا ہے، جس پر بات کرنا ضروری ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

ایک اہم زاویہ یہ ہے کہ اپنی تقریر میں قائد اعظم نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے لیے ’کمیونٹی‘ کا لفظ استعمال کیا۔ انھوں نے پاکستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو ’نیشن‘ قرار نہیں دیا، کیوںکہ پاکستان بننے کے بعد قوم کا رتبہ پاکستان کو حاصل تھا۔ (آج کل، ۷مارچ۲۰۱۰ء،لاہور)

آگے چل کر کالم نویس پاکستان میں بھارت کے پہلے ہائی کمشنر سری پرکاش کی گواہی لاتے ہیں کہ ’قائد اعظم نے ۳۱؍ اگست ۱۹۴۷ءکی تقریر میں اسلام کا نہیں، مسلم کا لفظ پانچ، چھ بار استعمال کیا‘۔بقول وجاہت مسعود ’پاکستان مسلم ریاست ہے، اسلامی نہیں‘۔

چلیے اس طرزِ بیان کو درست مان لیتے ہیں، مگرمجرد جمہوری اصولوں کے مطابق، کہ جن کی پاس داری کا احساس ہردم ہمارے سیکولر اور لبرل حضرات کے دامن گیر رہتا ہے۔ انھی اصولوں کے مطابق جہاں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو گی تو وہاں قوانین بناتے ہوئے ان کے عقیدے کا خیال کیوں نہیں رکھا جائے گا؟

اسی خلط مبحث کو بڑھاوا دیتے ہوئے وہ یہاں پر ڈیلی ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین کا کمزور حوالہ پیش کرتے ہیں۔ خواجہ شہاب الدین اور دوسری صف کے بعض مسلم لیگی رہنماؤں نے قائد اعظم کی ۱۱؍ اگست کی تقریر کو سنسر کرنے کی کوشش کی تھی۔ الطاف حسین کی گواہی اس لیے کمزور ہے کہ اس بات کی شہادت کسی دوسرے فرد نے نہیں دی اور پھر الطاف حسین کا جو کردار بعد میں رہا، وہ بھی ان کے بیان کو مشکوک بناتا ہے۔ آگے چلنے سے پہلے ۱۹ دسمبر ۱۹۴۶ءکو قائد اعظم کی اس تقریر کا حوالہ دینا ضروری ہے، جو انھوں نے مصر کے سرکاری ریڈیو سے کی تھی:

We want those two regions to be separate where possible, and to establish a Muslim Government dominating their territories. We want to live as a free and independent people our own life and to preserve all that Islam stands for. This means one fourth of the country, and the three fourths will go to the Hindus where they will live  also  as  a  free  and  independent  people  their  own life according to their philosophy, culture and social order based on Hindustani rites.

Muslims and Hindus are the two major nations in India. They are totally different   and  distinct  in  the  essentials   which   affect everything that matters in life. Not only are we different and distinct but we are sometimes antagonistic.We, the Muslims, have our history, culture, language, legislations, and jurisprudence, music, architecture, calendar, social  and  educational life, which totally differ from that of the Hindus (Speeches, Statements & Messages of the Quaid-i-Azam, edited by Khurshid Ahmad Khan Yusufi, Vol.  IV, p2494).

ہم چاہتے ہیں کہ ان دو منطقوں کو جہاں جہاں ممکن ہو علیحدہ کردیا جائے، جہاں ایک مسلم حکومت اپنے علاقوں پر فرماں روائی کرے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایک آزاد اور خودمختار قوم کی حیثیت سے اپنی زندگی بسر کریں اور ان تمام اقدار کا تحفظ کریں جن کا اسلام علَم بردار ہے۔ اس کے معنی ہیں ملک کا ایک چوتھائی حصہ مسلمانوں کو اور تین چوتھائی ہندوئوں کو  مل جائے گا جہاں وہ بھی ایک آزاد اور خودمختار قوم کی حیثیت سے ہندستانی رسم و رواج پر مبنی اپنے فلسفے، اپنے تمدن اور معاشرتی نظم کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں۔

ہند میں مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں۔ وہ ان ناگزیر عناصر کے تعلق سے، ہراس شے پر اثرانداز ہوتے ہیں جو زندگی میں ذرا بھی اہمیت رکھتی ہے، کلی طور پر ایک دوسرے سے مختلف اور نمایاں ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ہم ایک دوسرے سے مختلف اور نمایاں ہیں بلکہ بعض اوقات ہم ایک دوسرے کی ضد بھی ہیں۔ ہم مسلمانوں کو اپنی تاریخ، ثقافت، زبان، قوانین، اصول قوانین، موسیقی، فن تعمیر، تقویم، معاشرتی اور تعلیمی زندگی ہے جو ہندوئوں سے بالکل مختلف ہے(قائداعظم: تقاریر و بیانات، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، جلدچہارم، ص ۲۸۸)۔

اب بھی اگر قائد اعظم کےاس فرمان سے بھی ان کے تصور قومیت کے بارے میں ہمیں رہنمائی نہ مل سکے، تو اسے قومی بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے۔ قائد اعظم نے اپنی گیارہ اگست کی تقریر میں پاکستان میں موجود اقلیتوں کے حوالے سے جو موقف اختیار کیا تھا، وہ عین اسلامی تعلیمات کے مطابق تھا۔ اس سے پیش تر جب قیام پاکستان کی منزل سامنے نظر آ رہی تھی، تو انھوں نے ۲۷ مارچ ۱۹۴۷ءکو بمبئی میں میمن چیمبر آف کامرس میں تقریر کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا تھا:

We assure the Hindus that in Pakistan the minorities will be treated justly, fairly and generously. The whole history of Islam has shown  that.  The  whole  teaching  of  Islam is in that direction. (Speeches, Statements & Messages of the Quaid-i-Azam,  Vol IV, p2538).

ہم ہندوئوں کو یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ منصفانہ، عادلانہ اور فیاضی کا سلوک کیا جائے گا۔ اسلام کی پوری تاریخ اس کی شاہد ہے۔ اسلام کی ساری تعلیمات اسی جہت کی جانب اشارہ کرتی ہیں (قائداعظم: تقاریر و بیانات، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، جلدچہارم، ص ۳۱۷)۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بیان بھی من و عن روزنامہ ڈان   کی اشاعت ۲۸ مارچ ۱۹۴۷ء سے لیا گیا ہے اور اس وقت بھی ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین ہی تھے۔ پتا نہیں اسے مسلم لیگ کی دوسرے درجے کی قیادت نے سنسر کیا بھی تھا یا نہیں، کم از کم الطاف حسین اس معاملے میں خاموش ہیں۔

پاکستان میں معاملات کو کیسے چلایا جائے گا؟ اس کی وضاحت ایک بار پھر قائد اعظم کے الفاظ ہی میں ہے۔ یہ خطاب بار ایسوسی ایشن کراچی میں ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء میں کیا گیا اور  دی سول اینڈ ملٹری گزٹ کی اشاعت۲۷ جنوری ۱۹۴۷ء میں موجود ہے:

Quaid-i-Azam  Mohammad Ali Jinnah, Governor  General  of Pakistan, speaking  at  a  reception  given  to  him  on the Holy Prophet's birthday by the Bar Association, Karachi, said that he could not understand a section of the peoplewho deliberately wanted to create mischief and made propaganda that the constitution of Pakistan would not be made on the basis of Shariat.The Quaid -i- Azam said"Islamic Principles today are as applicable to life as they were 1300  years ago. (Speeches, Statements & Messages of the Quaid-i-Azam,  Vol IV, p2669)

قائداعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان نے عیدمیلاد النبیؐ کی تقریب پر، اپنے اعزاز میں بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دیے گئے ایک استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کر نا چاہتا ہے، یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی‘‘۔ قائداعظم نے فرمایا: ’’آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے، جس طرح ۱۳سوسال پیش تر ہوتا تھا۔(قائداعظم: تقاریر وبیانات،چہارم، ص ۴۰۱-۴۰۲)

اب وجاہت مسعود اور ان کی فکرکے حامل افراد یہ بتائیں کہ کیا قائد اعظم پاکستان میں سیکولر آئین چاہتے تھے اور قرارداد مقاصد صرف لیاقت علی خان اور مولانا شبیر احمد عثمانی کی ذہنی اختراع تھی؟ اپنے تیسرے کالم (۹مارچ ۲۰۱۰ء) میں مذکورہ کالم نگار نے اپنے موقف کی تائید میں قائداعظم کے عالمی اخباری ایجنسی رائٹرز کے نمایندے کے حوالے سے ایک بیان نقل کیا ہے:

نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہو گی ،جس میں اختیارات کا سر چشمہ (حاکمیت اعلیٰ) عوام ہوں گے۔ نئی قوم کا ہر شہری مذہب، ذات یا عقیدے کے بنا کسی امتیاز کے بغیر یکساں حقوق رکھے گا۔

وجاہت مسعود نے اس جانب اشارہ کرنے سے اجتناب کیا ہےکہ یہ بیان جسٹس محمدمنیر [م:۱۹۷۹ء] کی کتاب Pakistan from Jinnah to Zia سے لیا گیا ہے۔ اگرچہ اپنے کالموں میں آگے چل کر انھوں نے جھجکتے ہوئے ایک جگہ جسٹس محمدمنیر صاحب کا حوالہ بھی دیا ہے۔ اس بیان پر سیکولر حلقے بہت اصرار کرتے ہیں۔ مگر حیرت ہوتی ہے کہ خود کو روشن خیال، عقلیت پسند اور حقائق کو معروضی انداز میں سمجھنے کا دعویٰ کرنے والے دانش ور حضرات اپنے عصر میں شائع ہونے والی کتابوں سے بھی بے خبر رہتے ہیں۔

جسٹس منیر کے بیان کی حقیقت

جسٹس محمد منیر کے اس بیان کی حقیقت کو برطانوی نژاد محققہ سلینہ کریم نے بڑے مدلل انداز سے اپنی کتاب Secular Jinnah as Pakistan میںواضح کر دیا تھا۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۲۰۰۵ء میں اور اس کا چوتھا ایڈیشن  ۲۰۲۱ء میں یونی ورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹکنالوجی، لاہور سے شائع ہوا ہے۔ جس میں سلینہ کریم نے جسٹس منیر کے درج کردہ اقتباس اور قائداعظم کے اصل انٹر ویو کا موازنہ کرکے بتایا تھا کہ ’’قائد اعظم کے حوالے سے یہ بیان نقل کرتے ہوئے جملے تبدیل کر دیے گئے ہیں‘‘۔ سلینہ کریم کی کتاب سے جسٹس منیر کا درج کردہ اقتباس اور اصل اقتباس درج ذیل ہیں۔بقول سلینہ کریم، جسٹس منیر نے سنہ بھی غلط درج کیا تھا۔ ۱۹۴۶ء کے بجائے ۲۱مئی ۱۹۴۷ء تھا۔ گویا انھوں نے اصل متن نہیں دیکھا اور ثانوی ماخذ کو استعمال کیا۔

جسٹس محمد منیر کا درج کردہ بیان یوں ہے:

The new state would be a modern democratic state with sovereignty resting in the people and the members of the new nation having equal rights of citizenship regarding of religion, caste or creed.

یہ نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جس میں حاکمیت اعلیٰ کا اختیار عوام کے پاس ہوگا، اور نئی قوم کے تمام ممبران کو بلاتمیز مذہب اور ذات پات یکساں حقوق حاصل ہوں گے۔

جب کہ، قائد اعظم کے بیان کی اصل عبارت یہ ہے:

But the Government of Pakistan can only be a popular representative and democratic form of Government. Its Parliament and Cabinet responsible to the Parliament will both be finally responsible to the electorate and the people in general without any distinction of caste, creed or sect, which will be the final deciding factor with regard to the policy and programme of the Government that may be adapted from time to time (Speeches, Statements & Messages of the Quaid-e-Azam, edited by Khurshid Ahmad Khan Yusufi, Vol.  IV, p2563).

لیکن حکومت ِ پاکستان مقبول، نمایندہ اور جمہوری طرز کی ہی ہوسکتی ہے۔ یہ اور اس کی کابینہ پارلیمان کے سامنے جواب دہ ہوگی اور یہ دونوں رائے دہندگان اور عوام الناس کے سامنے بلاتمیز رنگ و نسل، عقیدہ، ذات پات یا مسلک جواب دہ ہوں گی جو قطعی اور حتمی حاکم ہوں گے، اور حکومت کی حکمت عملی اور اس کے پروگرام کی تشکیل کے ذمہ دار ہوں گے، جنھیں حکومت وقتاً فوقتاً ترتیب دے گی۔(قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلدچہارم، ص ۳۳۴)

آپ نے دیکھا کہ جسٹس منیر کا بیان اصل سے کتنا دُور ہے۔ یہ جسٹس منیر بھی عجیب آدمی تھے۔ یہ جب پنجاب باؤنڈری کمیشن کے ممبر بنے تو مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت نہ کر سکے اور مسلم اکثریت کی دو تحصیلیں ہندستان کو دے کر مسئلہ کشمیر پیدا کرنے کا ذریعہ بنے۔ جب بطور چیف جسٹس پاکستان آئین کی حفاظت کا معاملہ سامنے آیا تو ’نظریۂ ضرورت‘ کی نذر ہو گئے، اور جب پاکستان کے حوالے سے کتاب لکھی تو بڑی دیدہ دلیری سے اصل تحریر میں تحریف کا ارتکاب کرگزرے۔

وجاہت مسعود کے کالموں کا یہ سلسلہ اپنے اندر چند در چند داخلی تضادات بھی رکھتا ہے۔ چودھری خلیق الزمان کا حوالہ کبھی وہ اپنے موقف کی تائید میں درج کرتے ہیں اور کبھی انھی کے خلاف لکھتے ہیں۔ کبھی وہ حسین شہید سہروردی کو کلکتہ میں ہندو مسلم فسادات کرانے کا ملزم قرار دیتے ہیں اور کبھی وہ ان کو مسلم لیگ کے واحد لیڈر نظر آتے ہیں ،جو بنگال میں ہندو مسلم فسادات کے دوران انسان دوستی کا ثبوت دیتے ہیں۔ کبھی وہ قائد اعظم کو سیکولر لبرل لیڈر ثابت کرتے ہیں اور پھر آگے چل کر انھیں بہادر یار جنگ کی باتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بڑے جوش سے میز پر مکہ مارتے دکھاتے ہیں ۔

ان کالموں میں ایک عبرت ناک موڑ اس وقت آتا ہے، جب وجاہت مسعود تقسیم ہند کے حوالے سے ہونے والے فسادات کی تفصیلا ت بیان کرتے ہوئے اپنا زور اس بات پر صرف کرتے ہیں کہ فسادات بنیادی طور پر مسلمانوں نے کیے تھے۔ حالانکہ اپنے مقدمے میں وہ دراصل ’قرار داد مقاصد‘ کو اپنا ہدف بنا رہے تھے۔ اب یہ سوال تو ان سے کیا ہی جا سکتا ہے کہ کیا فسادات کی یہ بات، قرارداد مقاصد کے اسباب میں درج کر رہے ہیں یا نتائج میں؟ اسی طرح وہ قائد اعظم اور مسلم لیگ کی طرف سے ’راست اقدام‘ (Direct Action) کو بنگال میں فسادات کا موجب بتاتے ہیں۔ وجاہت صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ راست اقدام کا اعلان قائداعظم محمد علی جناح نے کیا تھا، لیاقت علی خان یا مولانا شبیر احمد عثمانی نے نہیں ۔ بہتر معلوم ہوتا ہے جسٹس منیر صاحب نے جو بیان نقل کیا ہے، اس کی مزید وضاحت خود سلینہ کریم کے افکار کے حوالے سے کر دی جائے:

First the above statement was given in answer to the a specific question. Don Campbell had asked of Jinnah: on what basis will the central administration of Pakistan be set up??

In other words he wanted to know the thoughts of Jinnah regarding the nature of Pakistan. He wanted to know whether it would be a secular state or a religious state, and how this would affect its relationship with neighboring? It was an opportunity for Jinnah to call Pakistan a secular state if he chose and this would have surely suited the western audience for whose benefit the interview was being conducted. Secondly the questions were given to Jinnah in writing a day before the interview giving him time to prepare his answer (p31).

پہلی بات تو یہ ہے کہ مذکورہ بالا بیان ایک مخصوص سوال کے جواب میں دیا گیا تھا۔ ڈون کیمپ بل نے جناح سے پوچھا تھا: ’’پاکستان کا مرکزی نظام کن بنیادوں پر استوار ہوگا؟‘‘

دوسرے لفظوں میں وہ پاکستان کی نوعیت کے بارے میں جناح کی فکر جاننا چاہ رہا تھا۔ وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ آیا یہ ایک سیکولر ریاست ہوگی یا ایک مذہبی ریاست ہوگی، اور یہ کس طرح سے اپنے ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات کو متاثر کرے گی؟ یہ جناح کے لیے ایک موقع تھا کہ وہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست قرار دیتے، اگر وہ ایسا کرتے اور یہ یقینا مغربی سامعین کو مناسب لگتا جن کے مفاد کے لیے یہ انٹرویو منعقد کیا گیا تھا۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ سوالات جناح کو انٹرویو سے ایک روز قبل تحریری شکل میں دیئے گئے تھے تاکہ انھیں سوالات کے جواب کی تیاری کے لیے وقت مل سکے۔

اپنے بیان کی مزید وضاحت کے دوران میں سلینہ کریم نے حاشیے میں بتایا ہے کہ ’’قائداعظم نے ۱۳دسمبر ۱۹۴۶ءکو امریکن براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے لیے بیورلی نکولس کو انٹر ویو دیتے ہوئے بطور گورنر جنرل پاکستان، آسٹریلیا کے لوگوں سے ریڈیائی گفتگو کرتے ہوئے اور ۲۵؍اکتوبر ۱۹۳۹ءکو Manchester Guardian کو انٹر ویو دیتے ہوئے بار بار اس بات کا اظہار کیا کہ مسلمان ایک Islamic Polity (اسلامی سیاسی نظام)قائم کرنا چاہتے ہیں۔

۱۹۴۶ء کے انتخابات اور صوبہ سرحد کا ریفرنڈم

پاکستان قائم کرنے والوں کے ذہن میں پاکستان کا نقشہ کیا تھا؟ اس کے بارے میں جاننے کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ ہم ۱۹۴۶ءکے انتخابات کا جائزہ لیں۔ ۱۹۴۶ءکے انتخابات اس حوالے سے اہمیت حیثیت رکھتے تھے کہ ہندستان کے مستقبل کا فیصلہ کن خطوط پر ہو گا؟ ان انتخابات میں مسلم لیگ نے بڑے واضح اور دو ٹوک انداز میں مسلمانوں کی مذہبی وابستگی کو اپیل کرتے ہوئے انھیں مائل کیا کہ وہ مسلم لیگ کو ووٹ دیں، تاکہ ان کے لیے الگ وطن کا حصول ممکن ہو سکے۔ اس حوالے سے آئین ٹالیوٹ نے پنجاب کی سیاست پر اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مسلم لیگ کی طرف سے مذہبی نعروں کا استعمال اس قدر شدید تھا کہ یونینٹسٹ پارٹی نے بھی اسلام کی بنیاد پر مسلمانوں سے ووٹ مانگنے شروع کر دیے۔

اس حوالے سے دوسری مثال جو اس سے بھی اہم ہے، وہ صوبہ سرحد [خیبرپختون خوا]کی ہے۔ سرحد میں سرخ پوش، کانگریس کے ساتھ ملے ہوئے تھے اور مسلم لیگ کے لیے مشکلات پیدا کر رہے تھے۔ انھی کے باعث سرحد میں جہاں ۹۲فی صد مسلمان تھے، ریفرنڈم کروانے کی ضرورت پیش آئی۔ جب سرخ پوش صوبہ سرحد کے لوگوں کو اپنی بات پر قائل کرنے میں کامیاب نہ ہوئے، تو انھوں نے پختونوں کی آزاد ریاست کا ذکر شروع کر دیا۔

 جس ریاست کا دستور جمہوریت، مساوات اور سماجی انصاف کے اسلامی اصولوں کے مطابق وضع کرنے کاوعدہ کیا گیا تھا، اس حوالے سے ہمیں قائداعظم پیپرز میں موجود درج ذیل دستاویز سے حقیقی شہادت مل سکتی ہے، ۸-۲۱، قائد اعظم کے اخباری بیان کا نظر ثانی شدہ مسودہ:

۲۸جون ۱۹۴۷ء

مجھے افسوس ہے کہ عبد الغفار خان نے وعدے کے مطابق مجھے صوبہ سرحد کانگریس کے فیصلے سے ابھی تک آگاہ نہیں کیا ، مگر ان کی قرارداد کا متن اخباروں کو دے دیا گیا ہے، جو ۲۳ جون ۱۹۴۷ءکو شائع ہو چکا ہے، لہٰذا اخباری رپورٹ کے مطابق میں اس معاملے پر تبصرہ کرنے کا پابند ہوں۔ اس قرارداد میں کہا گیا ہے:

۱- تمام پختونوں کی ایک آزاد پٹھان ریاست قائم ہونی چاہیے۔

۲- اس ریاست کا دستور جمہوریت، مساوات اور سماجی انصاف کے اسلامی اصولوں پر مبنی ہو گا۔

۳-تمام پٹھانوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول کے لیے متحد ہو جائیں اور غیر پختون تسلط کو قبول نہ کریں۔

پٹھانوں کی الگ ریاست کی بیل اس لیے بھی منڈھے نہ چڑھی کہ انگریزوں نے ریفرنڈم میں پٹھانوں کی آزاد ریاست کی شق کا اضافہ کرنے سے انکار کر دیا اور ریفرنڈم میں لوگوں سے صرف یہ پوچھا گیا کہ آیا وہ ’’پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت میں؟‘‘۔ یہ ریفرنڈم مسلم لیگ نے معمولی اکثریت سے جیت لیا۔

جناح کے بارے میں ہندو اسکالرز کا نقطۂ نظر

اپنی ان معروضات کے آخر میں ہندستان سے شائع ہونے والی دو کتابوں کا تذکرہ لازمی سمجھتا ہوں۔ ان میں سے پہلی کتاب اجیت جاوید کیSecular and Nationalist Jinnah (وطن پرست اور سیکولر جناح) ہے۔ اس کتاب میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ: ’’قائداعظم ایک سیکولر، لبرل سیاست دان تھے، لیکن کانگریس کے رویے نے انھیں مسلم قومیت کی طرف دھکیل دیا۔ دراصل قائد اعظم کی سیاست میں فیصلہ کن موڑ ۱۹۳۷ء میں ہندستان کے مختلف صوبوں میں بننے والی وزارتیں تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ علامہ محمد اقبال کے ساتھ ربط و تعلق نے بھی محمد علی جناح کے خیالات میں تبدیلی پیدا کی۔ جب ایک بار وہ مذہب کی بنیاد پر قومیت کے قائل ہو گئے تو اس کے بعد انھیں سیکولر، لبرل کہنا ان کے ساتھ نا انصافی ہے‘‘۔

 اجیت جاوید نے جو کچھ قائد اعظم کے بارے میں کہا، اس کا بیش تر حصہ تو ہم نے اپنی تعلیم کے دوران’مطالعہ پاکستان‘ میں پڑھا تھا۔ پاکستان کی درسی کتابیں اس بات سے انکار نہیں کرتیں کہ قائد اعظم کا سیاسی سفربطور سیکولر، لبر ل سیاست دان کے ہوا تھا (ہمارے سیکولر، لبرل دانش ور اس سے پریشان نہ ہوں، یہ سب ہماری درسی کتابوں میں آج بھی موجود ہے۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابیں اٹھا کر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ کتابیں آپ کے گھروں میں مشکل سے ملیں گی، کیوںکہ اب آپ کے بچے تو پاکستان میں شائع ہونے والی درسی کتابیں پڑھتے ہی نہیں )۔

اجیت جاوید سے بھی زیادہ جس مصنف کی کتاب نے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا، وہ جسونت سنگھ [م: ۲۰۲۰ء]کیJinnah: India, Partition, Independence  [۲۰۱۰ء] ہے۔ جسونت سنگھ کا نقطۂ نظر بھی کم و بیش اجیت جاوید سے ملتاجلتا ہے۔ انھوں نے بیسویں صدی کے پہلے پانچ عشروں میں ہندستان کی سیاست کے نشیب و فراز کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ جسونت سنگھ کے مطابق جناح نے ہر ممکن کوشش کی کہ ہندستان کے ہندو اور مسلمان مل کر سیاسی جدوجہد کریں اور انگریزوں سے آزادی حاصل کریں ،لیکن گاندھی، نہرو اور پٹیل کی ہٹ دھرمی نے بات وہاں تک پہنچا دی کہ محمد علی جناح کو کہنا پڑا: ’’عددی برتری کے زور پر ہندستان کے مسلمانوں کو اپنے زیر نگیں لانے کی کانگریس کی سوچ غلط ہے۔ مسلمان ہر حوالے سے ایک الگ قوم کی تعریف پر پورا اُترتے ہیں۔ اس لیے انھیں ایک چوتھائی ہندستان پر اپنی آزادخود مختار ریاست قائم کرنے کا حق حاصل ہے‘‘۔

جسونت سنگھ کے مجموعی موقف کو زیربحث لانا اس مضمون کا موضوع نہیں ہے، تاہم یہ بات تو کم از کم وہ بھی مانتے ہیں کہ رفتہ رفتہ محمد علی جناح متحدہ ہندستانی قومیت کے تصور سے دستبردار ہوگئے تھے اور اسلام کو بنیا د بنا کر مسلم قومیت کے تصور سے جڑ گئے تھے۔ جناح، اتحاد سے تقسیم تک کتاب کا اردو عنوان ہے، جو اس جانب واضح اشارہ کرتا ہے۔ایک بات کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ جسونت سنگھ نے ہندستان کی سیاسی کش مکش میں علامہ اقبال کے کردار کو بہت کم کرکے دکھانے کی کوشش کی ہےاور علامہ اقبال کا اتنا تذکرہ بھی اس کتاب میں شامل نہیں جتنا سرشفیع کا ہے۔

مضمون کے آخر میں ہم اتنا کہنے کی جسارت ضرور کریں گے کہ ہمارے جو دوست پاکستان کو بطور سیکولر ریاست دیکھنا چاہتے ہیں، وہ اپنی بات کا پرچار شروع دن سے کرتے آئے ہیں۔ اُن کے اس حق کو کوئی بھی سلب نہیں کررہا، تاہم ان سے ایک مؤدبانہ گزارش ہے کہ اپنے خیالات کا پرچار کرتے وقت اپنی تائید میں حقائق اور بیانات کو مسخ کرنے سے لازماً گریز کریں، کیوںکہ اس سے ان کے موقف میں مضبوطی نہیں آتی،بلکہ اس کی کمزوری میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ آج پاکستان ایک جمہوری ریاست ہے۔ اس کا آئین اسے اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے طور پر بیان کرتا ہے۔

اس بات کا فیصلہ کرنا پاکستان کے لوگوں کی واضح اکثریت کا حق ہے کہ اس ملک کا سیاسی و معاشی نظام کیسا ہو گا؟ جس دن پاکستان میں بسنے والے لوگوں کی عظیم اکثریت یہاں سیکولر طرزِحکومت کی قائل ہوجائے گی، تب کسی کو قائد اعظم یا کسی اور رہنما کے بیانات کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ تب تک ہمارے سیکولر، لبرل، روشن خیال دوستوں کو انتظار کرنا چاہیے۔ بہرحال، یقین ہے کہ اس انتظار کا دامن، قیامت کے دامن سے بندھا ہواہے ! [مکمل]