لگتا ہے کہ جمو ں و کشمیر میں تاریخ کا پہیہ گھوم پھر کر وہیں پہنچ جاتا ہے۔ اقتدار کی کرسی پر کوئی بھی بیٹھے، اختیارات ہمیشہ کہیں اور سمٹ جاتے ہیں۔ کبھی بندوق برداروں کا خوف تھا، مگر آج لیفٹیننٹ گورنر کی انتظامیہ، خفیہ ایجنسیاں اور ہندو قوم پرستوں کے نیٹ ورک نے وہی کردار سنبھال لیا ہے۔ عام لوگوں کے لیے جینے، بولنے اور سوچنے کی جگہ تنگ تر ہوتی جا رہی ہے۔
ایسے میں جب گذشتہ سال اسمبلی انتخابات کا اعلان ہوا تو عوام میں ایک نئی امید جاگی۔ لوگوں کو لگا کہ شاید اب ایک عوامی حکومت قائم ہوگی، جو کم سے کم سانس لینے کی گنجائش فراہم کرے۔
ان انتخابات میں، بالکل ۱۹۹۶ء کی طرح، ’نیشنل کانفرنس‘ کو سبقت حاصل ہوئی۔ ۹۰ رکنی اسمبلی میں اس نے ۴۲ نشستیں جیتیں۔ اس کی اتحادی کانگریس کو چھ سیٹوں پر کامیابی ملی۔ وادیٔ کشمیر کی ۴۷ میں سے ۳۵ نشستیں ’نیشنل کانفرنس‘ نے جیتیں،جب کہ جموں کی ۴۳ میں سے سات نشستیں حاصل کیں۔ بی جے پی جموں خطے میں ۲۹ نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بنی۔ ان نتائج نے ایک طرف دہلی کو سکون دیا کہ کوئی مزاحمتی جماعت اقتدار میں نہیں آئی، مگر دوسری طرف کشمیری عوام کے لیے یہ ایک ایسے موقع کے طور پر دیکھے گئے، جہاں وہ اپنی انفرادیت، آبادیاتی شناخت اور کھوئی ہوئی خودمختاری کے احساس کو دوبارہ بحال کر سکتے تھے۔
مگر ایک سال گزرنے کے بعد وہ تمام اُمیدیں دھندلی پڑ چکی ہیں۔ عمر عبداللہ کی قیادت میں بننے والی حکومت کے پاس اقتدار تو ہے، مگر اختیار نہیں۔ ۱۶؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء کو جب انھوں نے وزیراعلیٰ کے طور پر حلف لیا، تو یہ تصور تھا کہ ایک عشرے سے زیادہ مرکزی حکمرانی کے بعد اب قدرے جمہوری دور کا آغاز ہوگا۔ بہت سے لوگ اسے نئی صبح کہہ رہے تھے۔ لیکن آج، ایک سال گزرنے کے بعد، وہی لوگ اعتراف کر رہے ہیں کہ شاید کشمیر کی تاریخ میں یہ سب سے بے اختیار حکومت ہے۔
سینئر صحافی مسعود حسین لکھتے ہیں: عمر عبداللہ کی مخالفت حلف لینے سے پہلے ہی شروع ہوگئی تھی۔ وہ یاد دلاتے ہیں کہ جب انھوں نے ہچکچاتے ہوئے انتخابی دوڑ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو ان پر طنز کیا گیا:’’نہ نہ کرتے، ہاں کر دی‘‘۔ اب جب ایک سال گزر گیا ہے تو وہ جموں و کشمیر کے سب سے کمزور وزرائے اعلیٰ میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے مخالفین کہتے ہیں: ’’وہ ایک ’آئینی مجسمہ‘ ہیں، جن کے اردگرد طاقت کے سارے بٹن کسی اور کے ہاتھ میں ہیں‘‘۔
اصل مسئلہ ڈھانچے کا ہے۔ یونین ٹیریٹری کے نظام میں لیفٹیننٹ گورنر (LG) اعلیٰ ترین انتظامی اتھارٹی ہے۔ وہ افسران کی سالانہ خفیہ رپورٹیں لکھتا ہے۔ تمام بڑے فیصلوں کے لیے اس کی منظوری ضروری ہے۔ بیوروکریسی عملاً اس کے سامنے جواب دہ ہے، نہ کہ منتخب وزیراعلیٰ کے سامنے۔ افسران جانتے ہیں کہ ان کے تبادلے، ترقی اور مراعات کا دارومدار راج بھون پر ہے، اس لیے وہ سیاسی قیادت کے احکامات کو ترجیح نہیں دیتے۔ کئی بار وزیراعلیٰ دفتر سے جاری احکامات بھی محض فائلوں میں دب جاتے ہیں۔
ایک سینئر بیوروکریٹ نے نجی گفتگو میں کہا:’’یہ ایک ایسا نظام ہے جہاں وزیراعلیٰ کے دستخط کا وزن کم اور ’ایل جی‘ کی خاموشی کا اثر زیادہ ہے‘‘۔ عمر عبداللہ کے اقتدار کا پہلا سال اسی توازن کی تلاش میں گزرا ہے، مگر نتیجہ صفر رہا۔ کئی بار اجلاس بلانے کے بعد افسران شریک نہیں ہوئے۔ وزیراعلیٰ دفتر کو خود خط لکھنے پڑے کہ متعلقہ سکریٹری کیوں غیر حاضر ہیں؟
مارچ ۲۰۲۵ء تک کابینہ نے جو فیصلے کیے، ان میں سے متعدد آج تک راج بھون کی منظوری کے منتظر ہیں۔ حکومت کی مشاورتی کونسل کو ایک طرح سے ’عارضی کابینہ‘ بنا کر رکھا گیا ہے، جس کے فیصلے نافذ نہیں ہو سکتے جب تک لیفٹیننٹ گورنر مہر نہ لگائے۔ یہ وہی تاثر ہے جسے عمر عبداللہ خود بھی کئی بار اشاروں کنایوں میں ظاہر کر چکے ہیں۔ انھوں نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا: ’’ہم فیصلہ تو کرتے ہیں ،مگر عمل درآمد کا اختیار نہیں‘‘۔
یہی نہیں، عمر عبداللہ اپنے قریبی مشیر ناصر اسلم وانی کو باضابطہ تعینات نہیں کرسکے۔ ایڈووکیٹ جنرل، جسے وزیراعلیٰ نے برقرار رہنے کے لیے قائل کیا تھا، راج بھون کی زبانی ہدایت پر واپس نہیں آیا۔ حتیٰ کہ عمر عبداللہ کو پیرس کے ایک سرکاری دورے کو منسوخ کرنا پڑا کیونکہ کلیئرنس نہیں ملی۔ حالانکہ یہ دورہ ’ٹورازم فیسٹیول‘ (سیاحتی فروغ میلے) کے لیے تھا، تاکہ بیرونی سیاحوں کو کشمیر کی طرف دعوت دی جائے۔ دہلی کے ایک عہدیدار نے بعد میں تبصرہ کیا: ’’جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ کی حیثیت اب کسی ریاستی وزیر سے زیادہ نہیں رہی‘‘۔
اقتدار کے دھارے کہاں ہیں؟ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ امن و امان، پولیس، اینٹی کرپشن بیورو، آئی اے ایس افسران کی تقرریاں، حتیٰ کہ معمول کی انتظامی تبدیلیاں بھی راج بھون کے کنٹرول میں ہیں۔ وزارت داخلہ نے پولیس فورس کا پورا مالی بوجھ اپنے بجٹ میں منتقل کر دیا ہے۔ بیوروکریٹس کے لیے راج بھون حکم ہے اور وزیراعلیٰ محض مشورہ۔
’جموں و کشمیر اسٹیٹ پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن‘، جو ایک منافع بخش ادارہ ہے، اب بھی بیوروکریٹس کے زیر کنٹرول ہے۔ آرٹ، کلچر اینڈ لینگویجز اکیڈمی، جو کبھی کشمیری شناخت کی علامت سمجھی جاتی تھی، اب وزارت سے باہر ہے۔ شیرکشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز جیسے اہم ادارے میں بھی ڈائریکٹر وزیراعلیٰ کو نہیں بلکہ براہ راست لیفٹیننٹ گورنر کو رپورٹ کرتا ہے۔ اردو، جو سرکاری زبان تھی، اب ہندی اور انگریزی کے دباؤ میں آچکی ہے۔ عمرعبداللہ نے وعدہ کیا تھا کہ سو دن میں کلچر پالیسی لاگو کریں گے، مگر وہ فائل ابھی تک راج بھون کے پاس پڑی ہے۔
یہ وہی منظرنامہ ہے جسے کئی لوگ ’جمہوری فریب‘ کہتے ہیں۔ ایک ایسی حکومت جو موجود ہے، مگر فیصلہ سازی کے قابل نہیں۔ ’پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی‘ نے بھی بیان دیا کہ نیشنل کانفرنس ایک رسمی حکومت بننے کے خطرے میں ہے جو علامت تو ہے مگر جوہر نہیں۔ مرکز کے ساتھ نرمی اور تعلقات کی سیاست نے بھی کوئی فائدہ نہیں دیا۔ عمر عبداللہ نے ہمیشہ ٹکراؤ سے بچنے کی پالیسی اپنائی۔ انھوں نے نہ سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی طرح احتجاج کیا، نہ کجریوال کی طرح عدالتی لڑائیاں لڑیں، مگر دہلی نے اس شائستگی کو کمزوری سمجھا۔پھر ریاستی درجہ کی بحالی پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
کئی مواقع پر عمر عبداللہ کو سرکاری تقریبات میں نظرانداز کیا گیا۔ ۱۳ جولائی کو انھیں شہداء کے قبرستان جانے کی اجازت نہیں دی گئی، وہ اگلے دن اکیلے گئے۔ مرکزی وزراء کے ساتھ دوروں میں وہ پیچھے کھڑے دکھائی دیے۔ ایک ویڈیو میں ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کے لیڈر اور اپوزیشن لیڈر سنیل شرما افسران کو بریفنگ دیتے دکھائی دیے، جو عام طور پر وزیراعلیٰ کا کام ہوتا ہے۔ نائب وزیراعلیٰ کو بھی سیکیورٹی اور سفر کے مسائل کا سامنا رہا۔ یہ سب مظاہر اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ عمرعبداللہ حکومت محض برائے نام ہے۔
پہاڑی بولنے والے طبقے کو شیڈولڈ قبائل میں شامل کرنے سے ریزرویشن کا توازن بگڑ گیا ہے۔ اب تقریباً ۷۰ فی صد سرکاری نوکریاں مخصوص کیٹیگریز کے لیے مختص ہیں۔ اوپن میرٹ سکڑ گیا ہے اور نوجوانوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ جون ۲۰۲۵ء میں پیش کی گئی وزارتی سب کمیٹی کی رپورٹ پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ حکومت کے اہداف میں جموں و کشمیر پبلک سروس کمیشن کی ایک ہزار ایک سوبیس تقرریاں،ایس ایس بی کی ۵ہزار ۸ سو ۵۳ اور ۷۵ ہمدردی کی بنیاد پر ملازمتیں شامل تھیں، مگر ان میں معمولی پیش رفت ہے۔
سیب کی فصل کے دوران جب قومی شاہراہ تین ہفتے بند رہی، ہزاروں ٹرک پھنس گئے۔ سیب سڑ گئے اور معیشت کو ہزاروں کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ عمرعبداللہ نے کہا کہ اگر اختیار ان کے پاس ہوتا تو وہ ایک دن میں سڑک کھول دیتے، مگر یہ ان کے اختیار میں نہیں تھا۔
تاہم، اتنے دبائو کے باوجود کچھ مثبت اقدامات بھی ہوئے: حکومت نے نجی اسکولوں سے مشاورت کے بعد ۲۰۱۹ء سے پہلے کا تعلیمی کیلنڈر بحال کیا۔ سرکاری بسوں میں خواتین کے لیے نشستیں مخصوص کی گئیں۔ غریب لڑکیوں کی شادی کی امداد بڑھا کر ۷۰ ہزار روپے کر دی گئی۔ خاندان کے اندر زمین کی منتقلی پر اسٹامپ ڈیوٹی ختم کر دی گئی، اس سے رجسٹریشن کی آمدنی بڑھی۔
اسی طرح مقامی چھوٹے کاروباروں کے لیے ۳۰ فی صد سرکاری خریداری مختص کرنے کی پالیسی زیر غور ہے، جس میں خواتین اور پسماندہ طبقے کے اداروں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ لیکن یہ سب اقدامات اسی احساس کے سائے میں ہیں کہ وزیراعلیٰ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
ریاستی درجہ کی بحالی پر عمر عبداللہ کا موقف واضح ہے، مگر عملی پیش رفت نہیں۔ وہ بارہا کہتے رہے کہ یہ ان کا مرکزی انتخابی وعدہ تھا، مگر نئی دہلی نے اب تک کوئی مثبت اشارہ نہیں دیا۔ سابق مالیاتی افسران کے مطابق، حکومت نے ری آرگنائزیشن ایکٹ کی شق ۸۳(۱) استعمال کرنے کا موقع گنوا دیا، جس کے تحت مرکز سے ٹیکسوں میں حصہ مانگا جا سکتا تھا۔ یہ سیاسی طور پر ایک مضبوط اشارہ ہوتا مگر حکومت نے خاموشی اختیار کی۔
جنرل سیلز ٹیکس کے نظام نے ریاستی مالیاتی آزادی مزید محدود کر دی ہے۔ اب زیادہ تر ترقیاتی اسکیمیں مرکزی فنڈز سے چلتی ہیں۔ بجٹ دراصل دہلی کی توسیع بن گیا ہے۔ عمرعبدﷲ حکومت کا مالی دائرہ اختیار اتنا محدود ہے کہ وہ اپنے منصوبے آزادانہ طور پر طے نہیں کر سکتی۔
پھر اس دوران دو مرتبہ وادیٔ کشمیر میں بڑے پیمانے پر کتابوں پر پابندی عائد کی گئی، جماعت اسلامی سے کچھ بھی نسبت رکھنے والے اسکولوں کا گلا گھونٹا گیا، کئی جگہ ماورائے عدالت لوگوں کو جان سے مارا گیا، بڑے پیمانے پرگرفتاریاں کی گئیں، تشدد کے واقعات تو معمول بنے رہے، بعض جگہ جائیدادیں ضبط بھی کی گئیں اور کئی جگہ بلڈوزروں سے تعمیرات زمین بوس کی گئیں۔
یہ سب حالات مل کر اس احساس کو جنم دیتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں جمہوریت محض ایک چہرہ ہے، جس کے پیچھے مکمل انتظامی کنٹرول مرکز کے ہاتھ میں ہے۔ اس نئے نظام میں وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ مشورہ دے سکتی ہے، مگر فیصلہ نہیں۔ راج بھون حکم دیتا ہے، مگر جواب دہی سے آزاد ہے۔
عمر عبداللہ کا سیاسی طرزِعمل ہمیشہ شائستگی اور دلیل پر مبنی رہا ہے۔ مگر یہ سلجھا ہوا طرزِ سیاست ایک ایسے سخت بیوروکریٹک نظام کے سامنے ناکام دکھائی دیتا ہے، جہاں نرم لہجہ کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ انھیں زیادہ جارحانہ رویہ اپنانا چاہیے تھا، ورنہ دہلی حکومت انھیں محض نمائشی چہرے کے طور پر استعمال کرتی رہے گی۔
پچھلے ایک سال میں عوامی سطح پر مایوسی بڑھ گئی ہے۔ جو لوگ ووٹ ڈالنے نکلے تھے، وہ اب کہہ رہے ہیں کہ شاید مرکز نے انتخابات کروا کر دنیا کو صرف یہ دکھانا چاہا کہ کشمیر میں جمہوریت بحال ہو گئی ہے، حالانکہ عملی طور پر کچھ نہیں بدلا۔ نیشنل کانفرنس کے کارکن برملا اعتراف کرتے ہیں کہ:’’ہمارے لیڈر کے پاس فیصلے کرنے کی طاقت نہیں۔ ہم نے لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے مستقبل کے فیصلے خود لیں گے، مگر اب فیصلے وہی لوگ کر رہے ہیں جنھیں ووٹ نہیں ملا‘‘۔
جموں و کشمیر کی سیاست ایک نئے موڑ پر کھڑی ہے۔ نیشنل کانفرنس، جو دہلی اور سرینگر کے درمیان پل سمجھی جاتی تھی، اب دونوں کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔ دہلی کے لیے وہ قابلِ قبول ہے مگر مفید نہیں، اور وادی کے عوام کے لیے وہ اپنی ہے مگر بے بس۔
عمر عبداللہ حکومت کا پہلا سال ایک ایسی مثال بن چکا ہے، جو ۲۰۱۹ء کے بعد کے انتظامی نظام کی تمام خامیوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ حکومت کے پاس آئینی جواز تو ہے، مگر اثر و رسوخ نہیں۔ راج بھون کمانڈ رکھتا ہے مگر جواب دہی نہیں۔ ان دونوں کے درمیان ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے جس نے عوامی اعتماد کو مزید کمزور کر دیا ہے۔
عمر عبداللہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ’’کئی ایسے شعبے ہیں جہاں منتخب نمائندوں کو فیصلہ کرنا چاہیے، لیکن ہم ابھی تک اس اختیار کے منتظر ہیں‘‘۔ ان کا یہ جملہ دراصل پورے سال کی داستان ہے۔
کشمیر کے عوام، جنھوں نے گھٹن بھرے پانچ برسوں کے بعد ووٹ ڈالا، آج ایک بار پھر وہی سوال لیے کھڑے ہیں کہ جمہوریت آخر کہاں ہے؟ اگر منتخب وزیراعلیٰ بھی محض دستخط کرنے والا ربڑ سٹمپ رہ گیا ہے تو اس نظام کو جمہوری کہنے کا مطلب کیا ہے؟
عمر عبداللہ کی حکومت ایک امید کے طور پر شروع ہوئی تھی مگر اب وہ ایک علامت بن گئی ہے، ایسی علامت جو بتاتی ہے کہ جموں و کشمیر میں اقتدار عوام کے ہاتھ میں نہیں، بلکہ مرکز کی بیوروکریسی کے شکنجے میں ہے۔ جمہوریت کا جسد موجود ہے مگر روح سے خالی ہے۔ اور یہی اس حکومت کا سب سے بڑا المیہ ہے۔یہ وہ کشمیر ہے جہاں عوام کو وعدے تو بار بار ملتے ہیں، مگر اختیار کبھی نہیں۔ جہاں ووٹ ڈالنے کے بعد بھی فیصلہ وہی کرتا ہے جو سرینگر میں نہیں، دہلی میں بیٹھا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ تاریخ ایک بار پھر وہیں لوٹ آئی ہےجہاں اقتدار تھا مگر اختیار نہیں۔