پاکستان کا قیام اللہ کی مشیت کا ثمرہ اور برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی قائداعظم کی قیادت میں مخلصانہ جدوجہد اور فقید المثال قربانیوں کا عطیہ ہے۔ یہ ملک اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی تمام سازشوں، کاوشوں اور ریشہ دوانیوں کے باوجود ان شاء للہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قائم و دائم رہے گا، لیکن اس امانت کی حفاظت ملک کے عوام کی ذمہ داری ہے۔ آج ملک کو جو خطرات درپیش ہیں ان کی زد براہ راست اس کے وجود پر ہے جس کی طرف پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری صاحب نے، کراچی کے حالات پر کراچی میں ہی منعقدہ از خود نوٹس (Suo Motu) سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے، ان درد بھرے الفاظ میں اشارہ کیا ہے: ’’آپ کس چیز کی حفاظت کر رہے ہیں___ حکومت یا ریاست؟‘‘
یہ سوال آج پوری پاکستانی قوم کے لیے لمحۂ فکریہ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے عملی جواب کے لیے ان کو دعوت عمل دے رہا ہے۔ عدالت کے فیصلے کا سب کو انتظار ہے۔ ہمیں امید ہے اور ہماری دعا بھی ہے کہ وہ حکومت سے تحریری ضمانتوں کے سراب کے تعاقب سے اپنے کو بچا کر حکومت اور اس سے بڑھ کر قوم کے لیے اس راہ عمل کی واضح نشان دہی کر سکے جو ہمیں اس دلدل سے نکال سکے۔ نہ صرف یہ کہ راستے کی نشان دہی کرے بلکہ اس پر عمل کو دستور کے تحت لازمی ذمہ داری (imperative)بھی قرار دے، فیصلے پر عمل سے اجتناب یا انحراف پر قانون کی گرفت کو مستحکم کرے، تمام دستوری اداروں کو پابند کرے کہ وہ قومی تاریخ کے اس نازک مرحلے میں ملک کی آزادی اور حکمرانی (governance) دونوں کو تار تار کرنے والی حکومت سے نجات، ریاست کے تحفظ اور اس کے تمام اداروں کو دستور کے نقشے کے مطابق بروے کار لانے کی خدمت انجام دے، تاکہ دستور کے تحفظ کی جو ذمہ داری فرد، دستور اور قوم نے عدلیہ کے سپرد کی ہے اسے پورا کیا جا سکے۔
آج عدالت عظمیٰ کے سامنے فیصلہ کسی حکومت کو بچانے کا نہیں بلکہ ریاست کو بچانے کا ہے۔ دستور کے تحت حکومت کا کام دستور کی روشنی میں اچھی حکمرانی ہے جس کا پیمانہ ملک کی آزادی، سلامتی، خود مختاری، عزت و شناخت کا تحفظ اور ملک کے عوام کو امن و امان، انصاف اور عزت کی زندگی کی فراہمی ہے___ لیکن موجودہ وفاقی حکومت نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں اچھی حکمرانی اور صلاحیت کار کے فقدان، بدعنوانی کے طوفان، دستور اور قانون کے احترام اور عوام کے مسائل و مشکلات کے باب میں بے حسی کا جو ریکارڈ قائم کیا ہے، اس کی روشنی میں اسے مزید مہلت دینا ریاست کی بنیادوں کو پامال کرنے اور ملک کے وجود کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ اس حکومت کی کارکردگی پہلے دن ہی سے مخدوش اور ناقابل اطمینان تھی لیکن سال رواں میں خصوصاً گذشتہ دو مہینوں میں اس کی جو کچھ کارکردگی قوم کے سامنے آئی ہے، اس کے بعد تو اس کے سوا کچھ کہنا مشکل ہے کہ اب یہ حکومت پاکستان کی ریاست کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔ ان حالات میں ایسی حکومت سے نجات اور دستور کے تحت تبدیلی کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں۔ عدالت، پارلیمنٹ اور قوم سب کے سامنے اس وقت اصل سوال یہی ہے کہ ایک ایسی حکومت سے کیسے نجات حاصل کی جائے جو قانونی جواز مکمل طور پر کھو چکی ہے اور جس کے تسلسل سے ملک کی آزادی، سلامتی، عزت، معیشت اور امن وامان، غرض ہر چیز معرض خطر میں ہے۔
ہم یہ الفاظ بڑے گہرے غور، غیر جذباتی فکر، اور بے حد دکھ کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر رقم کر رہے ہیں، اور اس احساس کے ساتھ کر رہے ہیں کہ یہ صرف ہمارے جذبات اور احساسات نہیں بلکہ پاکستان کے ہر با شعور شہری کے دل کی آواز ہیں۔ روز کے اخبارات اور میڈیا پر نشر ہونے والی خبریں اور تبصرے ایک آئینہ ہیں، جس میں حالات کی صحیح تصویر ہر شخص دیکھ رہا ہے اور خون کے آنسو رو رہا ہے۔ صرف اتمام حجت کے لیے ہم یہاں ان چند حقائق کی نشان دہی کرنا چاہتے ہیں جو ان دنوںبہت ہی کھل کر سامنے آ رہے ہیں اور جن کے ادراک سے دل و دماغ تہ و بالا ہیں۔
پہلی بات انسانی جان کی ارزانی اور خون ناحق کی فراوانی ہے، جس نے ملک و قوم کو اپنی گرفت میںلے لیا ہے۔ ستم بالاے ستم یہ کہ جن کی ذمہ داری جان و مال کے تحفظ اور امن و امان کا قیام تھا، وہ خود ان کی پامالی کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ معاشرتی زندگی کے ہر شعبے میں تشدد کا رجحان روزافزوں ہے، جرائم بڑھ رہے ہیں، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے، ظلم اور زیادتی کا طوفان امنڈ رہا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے غافل، خاموش اور بے بس ہیں بلکہ ان میں سے کچھ اس ظلم میں شریک اور ساجھی ہیں۔ ۲۰۰۳ء میں پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے قتل کے کل ۱۸۹ واقعات ہوئے تھے، جن میں سے ۱۶۰ عام شہری تھے، لیکن ۲۰۰۹ء میں ہلاکتوں کی تعداد ااہزار ۷ سو۴ ہوئی، اور ۲۰۱۱ء کے صرف ابتدائی چھے ماہ میں ۴ہزار ۸۲۔ ان ۱۰ سالوںمیں ۳۶ ہزار ۷ سو ۵ افراد اس اجتماعی تشدد کا نشانہ بن گئے۔ اس سے بھی زیادہ چشم کشا حقیقت یہ ہے کہ پاکستان وہ واحد ملک نہیں ہے جو دہشت گردی کی گرفت میں ہے۔ جنوبی ایشیا کے ایک جائزے کے مطابق پورے جنوب ایشیا میں ۲۰۰۵ء میں اس نوعیت کے قتل کے واقعات میں پاکستان کا حصہ ۱۰ فی صد تھا، جو۲۰۱۱ء میں بڑھ کر ۷۹ فی صد ہوگیا ہے۔(ڈان، ۲۶ اگست۲۰۱۱ء)
ایک دوسرے جائزے کی روشنی میں صرف گذشہ تین سال کے دہشت گردی کے واقعات کو لیا جائے تو سر فہرست بلوچستان آتا ہے، جہاں ۱۰۲۴ دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے۔ پھر صوبہ خیبر پختون خوا کا نمبر آتا ہے، جہاں یہ تعداد ۱۰۱۸ تھی۔ البتہ اگر تمام جرائم کا جائزہ لیا جائے جن میں عام قتل، اغوا براے تاوان اور (Imported Explosive Device) IED شامل ہیں، تو پنجاب ۱۵ہزار واقعات کے ساتھ سب سے آگے ہے، جب کہ سندھ میں ۹ ہزار ۲۰، خیبر پختون خوا میں ۶ ہزار ۷۶ اور بلوچستان میں ۱۳۵۵ واقعات رونما ہوئے۔ (دی نیشن، ۲۲؍اگست۲۰۱۱ء)۔ ستم یہ ہے کہ تشدد کا رجحان روزمرہ زندگی میںبڑھ رہا ہے۔ خاندان، سکول، کالج، محلہ، دیہات، شہر، غرض ہر جگہ یہ روز افزوں ہے، جو واضح طور پر اخلاقی زوال اور قانون کی حکمرانی کے فقدان کی علامت ہے۔
اس پس منظر میں کراچی کے حالات اور لاپتا افراد کی تلاش کے بارے میں سپریم کورٹ نے جو از خود عدالتی کار روائیاں کی ہیں اور اس سلسلے میں جو حالات سامنے آئے ہیں، وہ رونگٹے کھڑے کردینے والے ہیں۔ کراچی میں صرف اس سال میں۱۳۱۰ افراد ہدفی قتل (ٹارگٹ کلنگ) کا نشانہ بنے ہیں۔ کراچی میں: ۱۲؍ربیع الاول، ۱۲ ؍مئی ۲۰۰۷، ۸؍ اکتوبر ۲۰۰۷، ۷ اپریل ۲۰۰۸، سانحہ عاشورہ و چہلم، سانحہ بولٹن مارکیٹ کے خونیں واقعات ہماری تاریخ کے روح فرسا نشان بن گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سامنے جو حقائق پیش کیے گئے ہیں اور جو عدالت کے ریکارڈ کا حصہ ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ کراچی میں ۲۰۰۱ء میں ٹارگٹ کلنگ کے ۲۷۳ خونیں واقعات ہوئے، جو ۲۰۱۰ء میں بڑھ کر ۷۷۸ ہو گئے، اور ۲۰۱۱ء کے صرف پہلے آٹھ مہینوں میں یہ تعداد ۱۴۰۰ ہو گئی ہے۔ سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس کہنے پر مجبور ہوئے کہ میں کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں، کیوں کہ پولیس میں ۳۰سے ۴۰ فی صد بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہیں اور میں پولیس افسران (ڈی آئی جی اور دیگر ) کے خلاف کوئی کار روائی نہیں کر سکتا۔
آئی جی نے عدالت کے سامنے اعتراف کیا کہ کراچی جو ملک کا اہم شہر ہے اس کے حالات وزیرستان سے بھی خراب ہیں ۔ چیف جسٹس صاحب بار بار پوچھتے رہے کہ مجرموں کے خلاف کار روائی کیوں نہیں ہوتی؟ انھیں چارج شیٹ تک نہیں کیا جاتا اور گرفتار کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے، پھر شہادتیں ہی مفقود ہوتی ہیں۔ وزیر داخلہ اعلان کرتے ہیں کہ مجرموں کی فہرستیں ان کے پاس ہیں لیکن کسی کے خلاف اقدام نہیں کیا جاتا۔ جواب میں اٹارنی جنرل انوارالحق صاحب عدالت کے سامنے یہ کہنے پر مجبور ہیں:
Police has not taken action against terrorists
پولیس نے دہشت گردوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔
۱۹ وکیل قتل کر دیے جاتے ہیں، پولیس اور فوج کے ۹۲ افسروں کو (جنھوں نے ماضی میں قاتلوں اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں حصہ لیا تھا) بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے مگرکوئی گرفت نہیں ہوتی۔ ٹارگٹ کلرز کے اقبالی بیان ریکارڈ پر ہیں۔ انوسٹی گیشن رپورٹیں جن کی تیاری میں پاکستان کی تمام قومی خفیہ ایجنسیوں نے شرکت کی ہے، ناموں کے تعین کے ساتھ مجرموں کی نشان دہی کرتی ہیں مگر مجرمین پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔
عدالت کے سامنے کئی اقبالی بیان لائے گئے ہیں، جن میں سے ایک اجمل پہاڑی کا ہے اور جس نے ۱۱۰ سے زیادہ قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ نام لے کر ایسی ایسی تفصیلات بھی بیان کی ہیں جن میں کراچی کی غالب لسانی پارٹی کی مرکزی قیادت کا واضح کردار موجود ہے۔ بھارتی حکومت اور ایجنسیوں کی معاونت کے مکمل ثبوت موجود ہیں۔ بیرونی ممالک اور ٹھکانوں کی نشان دہی ہے لیکن حکومتِ وقت، جنرل پرویزمشرف کے دور میں اور اس کے بعد زرداری، گیلانی اور رحمن ملک کے دور میں بھی ان کے خلاف نہ صرف کوئی کار روائی نہیںکرتی، بلکہ ان عناصرکی پشت پناہی کرتی اور انھیں شریک اقتدار کرتی اور ’مفاہمت‘ کے نام پر ان کے جرائم کی (بشمول بھتاخوری، قتل و غارت گری، زمینوں پر قبضے، اذیت خانوں کے قیام اور جیلوں میں مجرموں کی سرپرستی) کی پردہ پوشی کرتی ہے۔
کراچی ہی نہیںپورے ملک میں غیر قانونی اسلحے کی بھر مار کی بات کی جاتی ہے لیکن شہر کو اسلحے سے پاک کرنے کی کسی باضابطہ و موثر مہم کا کہیں دور دور تک پتا نہیں۔ پھر ناجائز اسلحہ تو ہے ہی ناجائر، خوں ریزی اور دہشت گردی میں لائسنس یافتہ اسلحے کا کردار بھی کم نہیں۔ لائسنس یافتہ اسلحے کو بھی محدود کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ پرویز مشرف اور زرداری حکومتوں کے زمانے میں چند خاص سیاسی جماعتوں اور مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے ذریعے اسلحہ لائسنسوںکا ایسا پھیلائو ہوا ہے جس کا پہلے کوئی تصور نہیں تھا۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزانے اپنے تین سالہ دور میں ۳ لاکھ اسلحہ لائسنسوں کے اجرا کو خود تسلیم کیا ہے اور پولیس میں ۱۰ ہزار کی بھرتی کی بات کی ہے۔ سندھ کے آئی جی نے عدالت کے سامنے کہا کہ قیام پاکستان سے ۲۰۰۱ء تک کے ۵۳ سالوں میںپورے سندھ میں صرف ۵۰ ہزار لائسنس جاری کیے گئے، جب کہ گذشتہ ۱۰ سال میں، یعنی مشرف ، مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم (۲۰۰۲ء- ۲۰۰۸ء) کے دور میں اور پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی (۲۰۰۸ء -۲۰۱۱ء) کے دور میں ساڑھے پانچ لاکھ لائسنس جاری کیے گئے (ان میں ممنوعہ بور کا اسلحہ بھی شامل ہے)۔ پیپلز پارٹی نے ’جیالا‘ کلچر روشناس کروایا ، الذوالفقار نامی تنظیم نے دہشت گردی کا بازار گرم کیا۔ لیاری کی نام نہاد امن کمیٹی پی پی پی ہی کی بازوے شمشیر زن تھی اور یہ اس کی واحد شمشیر نہ تھی۔ رہی ایم کیو ایم، تو اس نے تو اپنی پوری سیاست کی بنیاد ہی بھتا خوری، دہشت گردی اور تشدد پر رکھی۔ ۱۹۸۹ء ہی میں جناب الطاف حسین نے برملا اعلان کیا کہ ٹیلی ویژن بیچ کر اسلحہ خرید لو۔ ان کی سیاست کا محور اور قوت کا راز ہی جدید ترین اسلحے سے مسلح ان کا عسکری ونگ رہا ہے اور ان کا ماٹو (’’قائد کا جو غدار ہے، وہ موت کا حق دار ہے‘‘ )ان کے سیاسی کلچر کا ترجمان ہے۔کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے دوسرے شہروں کے لوگ اس کا تجربہ رکھتے ہیں اور عالمی سطح پر بھی اس کا پورا ادراک پایا جاتا ہے۔ گو، اپنے اپنے سیاسی مصالح یا کمزوریوں کی وجہ سے ہر کسی نے یا اس سے اغماض برتا ہے یا ان کو شریک کار بنا لیا ہے۔ کینیڈا کی ریاست کیوبک میں ایم کیو ایم کو پاکستان میں اس کے دہشت گردی کے کردار کی بنیاد پر’ایک دہشت گردی تنظیم‘ قرار دیا گیا ہے۔ صوبے اور ملک کی ہائی کورٹ دونوں ہی نے یہ فیصلہ کرکے ان کے افراد کو امیگریشن کے قوانین کے تحت ملک بدر کیا ہے۔ سندھ کے سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے بیانات، خواہ آدھا سچ ہی پیش کرتے ہوں، ایسے تکلیف دہ، ہولناک اور شرمناک جرائم کی متعین انداز میں نشان دہی کرتے ہیں، جن پر بر وقت گرفت نہ کرنے کے نتیجے میں ملک تباہی کے دہانے پر آ کھڑا ہوا ہے۔ قانون اور شرافت کی دھجیاں بکھیرنے والے یہ تمام عناصر جو سیاست میں بھی بڑے معتبر رہے ہیں ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں میں ان کا چہرہ صاف نظر آ رہا ہے۔ پھران کی پشت پناہی کرنے والوں، ان کو شریک اقتدار کرنے والوں، اور ان جرائم کا علم اور پورا ریکارڈ اپنے پاس رکھنے کے باوجود اور اقتدار کی قوت حاصل ہونے کے علیٰ الرغم ان پر کار روائی نہ کرنے والوں کا چہرہ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اوراس تصویر کی مدد سے ان تمام اسباب اور عوامل کا ادراک بھی ہو جاتا ہے جو ان حالات کا باعث ہوئے۔ آج بڑے بڑے سیاسی کھلاڑی ایک دوسرے کے چہروں پر خون کے دھبوں کی نشان دہی کررہے ہیں، لیکن اپنی معاونت اور ذمہ داری کے باب میں خاموش ہیں۔ ہمارے دوست پروفیسرعنایت علی خاں کا شعر اس صورت حال پر کتنا صادق آتا ہے کہ ؎
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر
مجرم اور مجرم کو پناہ دینے والے دونوں برابر کے مجرم اور ان حالات کے ذمہ دار ہیں اور اگر ان تمام حقائق کے سامنے آنے کے بعد بھی مفاہمت اور منافقت کا کاروبار گرم رہتا ہے، عدالت بھی انصاف اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجاے وعظ اور تحریری ضمانتوں کا خود کش راستہ اختیار کرتی ہے، تو پھر ہمیں ڈر ہے کہ انقلاب کے نام پر انتشاراور انتقام کو روکنا کسی کے بس میں نہ ہوگا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کا سامان ہو سکتا ہے جس سے ہم اللہ ہی کی پناہ مانگتے ہیں۔
عدالت عالیہ کے سامنے جو حقائق پیش کیے گئے ہیں، اور عدالت کے باہر ڈاکٹر ذولفقار مرزا اور دوسرے افراد نے پورے تعین کے ساتھ اور افراد کی نشان دہی کرتے ہوئے جو حقائق قوم کے سامنے رکھے ہیں، وہ ایک آئینہ ہیں جن میں ملک کے حالات اور خصوصیت سے ارباب اختیار کے کردار، سیاسی جماعتوں کے رول اور حکومت، پولیس، رینجر اور اپنے اپنے زمانے کی فوجی قیادت کے کردار کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اب یہ لاوا پھٹ رہا ہے اور عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔ اگر عدالت عظمیٰ اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کرتی،اگر حکومت دستور، قانون، اخلاق اور شرافت کی اقدار کو اسی بے دردی کے ساتھ پامال کرتی ہے،مجرموں کی نہ صرف پشت پناہی کی جا تی ہے، بلکہ انھیں سرکاری عہدوں پر بحال رکھ کر کھل کھیلنے کا پورا پورا موقع دیا جاتا ہے،تو پھر یا عوامی انقلاب کے ذریعے حالات بدلیں گے، یا پھر پورا معاشرہ اللہ کی گرفت میں آئے گا بشمول ان کے۔ ایسی صورت حال میں وہ لوگ جو خواہ ان جرائم میں شریک نہ ہوں اور عدل و انصاف کے نظام کے قیام کی جدوجہد ہی کرتے ہوں،مگر حقِ نصیحت ادا کرنے میں کوتاہی کے سبب وہ بھی اللہ کی گرفت سے نہ بچ سکیں گے۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم سب اصلاح احوال کا راستہ اختیار کریں اور تباہی سے بچنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں۔
جس طرح ایک آئینے میں ہم ملک میں بدامنی، دہشت گردی اور ظلم و زیادتی کے حالات اور خصوصیت سے سپریم کورٹ کی از خود سماعت (سوموٹو) کار روائیوں میں سامنے آنے والے واقعات دیکھ رہے ہیں، اسی طرح دوسرے آئینے میں وہ انکشافات ہیں جو وکی لیکس کے ذریعے پاکستان کی قیادت، سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں، فوجی ذمہ داروں اور خود میڈیا کے افراد کی امریکی سفارت کاروں سے بات چیت، عرض داشتوں، خوشامدوں اور سفارشات اور معاملہ بندی کا مرقع ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ان تمام دستاویزات کا معروضی انداز میں مطالعہ اور تجزیہ کیا جائے۔ تلخ حقائق کے اس دروبست کو سمجھا جائے جو سفارت کاری کے نام پر ہماری قسمتوں کا فیصلہ کرنے کے لیے ہم پر مسلط ہے۔ اخبارات میں جو حصے شائع ہوئے ہیں ان سے جو تصویر ابھرتی ہے وہ بڑی مکروہ ہے۔ ایک طرف استعمار کی وہ نئی شکل امریکا کی سلطنت (hubris)کی صورت میں سامنے آئی ہے جو ہم پر اور باقی مسلم اور تیسری دنیا کے ممالک پر تھوپی گئی ہے اور جسے بڑی خوش اسلوبی سے جمہوریت، لبرلزم، موڈرنزم، دوستی اور اسٹرے ٹیجک پارٹنر شپ کا لبادہ اڑھا یا گیا ہے۔ اس کا دوسرا پہلو ہمارے اپنے حکمرانوں اور ارباب اختیار کی وہ سوچ، ان کے اصل عزائم اور ان کا وہ کردار ہے جو بظاہر نظروں سے پوشیدہ رہتا ہے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے علاوہ ملک کی تمام ہی سیاسی اور کچھ مذہبی جماعتوں کی جو تصویران مراسلات میں ابھرتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ الفاظ، انداز تکلم اور التفات کی شکلوں میں اختلاف ہے لیکن مدعا سب کا ایک ہی نظر آتا ہے___ امریکا ہی ان سب کا اصل مولا اور کرتا دھرتا ہے۔اسی کی نظر التفات ہر ایک کو مطلوب ہے۔ اسی کے ایجنڈے کو ہر ایک آگے بڑھانے کے لیے تیار ہے۔ اسی کی مدد سے اقتدار میں آنے اور اقتدار کو برقرار رکھنے کا ہر کوئی متمنی ہے۔ جناب عنایت علی خاں نے ان حضرات کی اسی کیفیت کو اپنی ’گلوبل حمد‘ ،’یا حافظ امریکا، یا ناصر امریکا‘میں بیان کیا ہے، چند اشعار ملاحظہ کریں:
جو تیری طلب ہو گی ہم اس سے سوا دیں گے
اک تیرے اشارے پر ہم جان لڑا دیں گے
پیاروں کو کٹا دیں گے، خوابوں کو سلا دیں گے
خود اپنے نشیمن کو ہم آگ لگا دیں گے
پھر آگ کے شعلوں کو ڈالر کی ہوا دیں گے
مقتل میں تہہ خنجر جینے کی دعا دیں
یوں شانِ وفاداری دنیا کو دکھا دیں گے
ہمارے اپنے ملک کی آزادی اور قوم کا وقار اور عزت، ہمارے اپنے ملّی اور ملکی مفادات اور ترجیحات اور ہمارے ایمانی تقاضے، تہذیبی اور تمدنی روایات اور عوامی امنگیں اور ضروریات یہ سب کچھ ان کے لیے یا غیر متعلق ہے یا صرف جزوی طور پر قابل لحاظ___ اصل فیصلہ کن بات وہ ہے جو امریکا چاہتا ہے اور جس کی خاطر ہم اپنے تمام معاملات کو چلانے اور طے کرنے میں عافیت دیکھتے ہیں۔ بات سخت ہے لیکن اگر الفاظ کو، یعنی معنی کواصل اہمیت دی جائے تو ان مراسلوں سے صاف ظاہر ہے کہ ہماری مقتدر قیادتوں کی بدعملی اور قومی مفادات سے بے وفائی کے سبب ہماری آزادی ایک سراب بن کر رہ گئی ہے۔ان حکمرانوں نے اپنے مفادات کی خاطر ہماری ہر چیز کا سودا کر لیا ہے یا کرنے کو تیار ہیں، اور اس سے بھی یہ کوئی سبق سیکھنے سے عاری ہیں کہ عالمی طاقتیں اپنی مطلب براری کے لیے دوسروں کو کس طرح استعمال کرتی ہیں اور اپنا مطلب نکال کر کس طرح دودھ میں سے بال کی طرح نکال پھینکنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان کو خوش کرنے کے لیے اپنے لوگوں کو دھوکا دینا ان حکمرانوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل اور روزمرہ کا مشغلہ ہے، اور ان کی ساری کاوش امریکا کی نظرِ کرم کو حاصل کرنے پر مرکوز رہتی ہے___الا ماشاء اللہ! بحیثیت مجموعی ان حکمرانوں کے لیے اصل چیز ان کا اپنا مفاد، ان کا اقتدار، اس چند سال کی زندگی کے لیے سہولتوں کا حصول اور پھر اپنے خاندان اور اپنی آل اولاد کے لیے ان کا تسلسل ہے۔
وکی لیکس عالم سیاست میں ہوش ربا داستانوں کی ایک الف لیلیٰ ہے۔ پاکستان اور مسلم دنیا کے حکمرانوں اور ارباب بست و کشاد کی جو تصویر وکی لیکس کے ذریعے ہمارے سامنے آتی ہے ہم قارئین کی توجہ اس کی طرف مبذول کرانا اور بتانا چاہتے ہیں کہ اس کا کیا تعلق ہمارے حالات سے ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ حالات میں جو بگاڑ ہر قدم پر نظر آ رہا ہے اس کا سبب ہمارے اپنے ارباب اختیار کے عزائم، کردار اور ترجیحات ہیں۔ بیرونی قوتوں کا عمل دخل ہمارے معاملات میں ہرہر سطح تک اور ہر ہر انداز میں پہنچ گیا ہے، اور کوئی شعبہ اس سے محفوظ نہیں ہے۔ بیرونی قوتیں تو وہی کردار ادا کر رہی ہیں جو ان کے مفاد میں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار کیا کردار کر رہے ہیں؟ اور ہم نے ان کو یہ سب کچھ کرنے کا موقع کیوں دے رکھا ہے؟ بظاہر دستور بھی ہے اور دستوری ادارے بھی، میڈیا بھی آزاد ہے اور اس کا کردار بھی بڑھ رہا ہے، لیکن ان تمام ذرائع کو دوسرے کس طرح استعمال کر رہے ہیں اور ہم کس طرح استعمال ہو رہے ہیں؟ بیرونی سازشوں کا نوحہ بہت ہوچکا، اب جس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ تباہی اور بربادی کی اس افتاد میں ہمارا اپنا کردار بھی ہے___ اور جب تک ہم اپنے گھر کو درست کرنے اور زمام کار ان ہاتھوں سے چھین لینے کی فکر نہیںکرتے جو ہمارے اور ہمارے دین و ملت کے حقیقی وفادار نہیں، اس وقت تک ہم نہ اپنے گھر کو درست کر سکیں گے، نہ اپنے وسائل کو اپنے لوگوں کی بہبود کے لیے خرچ کر سکیں گے۔ اورنہ دنیا میں اپنا اصل مقام ہی حاصل کر سکیں گے۔
آئینے میں جو تصویر سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیے جانے والے حقائق سے ابھرتی ہے، ایک دوسرے انداز میں وہی تصویر وکی لیکس کے آئینے میں بھی نظر آتی ہے___اور اس کا تقاضا بھی وہی ہے، جو پہلی تصویر سے سامنے آ رہا ہے۔
ایک اور آئینہ وہ ہے جو بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاری اور بحیثیت مجموعی معیشت کی زبوں حالی کا عکاس ہے۔ ایک طرف دولت کی ریل پیل ہے اور دوسری طرف غربت اور فقر و فاقہ اپنی انتہائوں کو چھو رہے ہیں۔ آبادی کا پانچواں حصہ سارے وسائل پر قابض ہے اور ۸۰ فی صد آبادی محرومیوں کا شکا رہے۔ اگر بین الاقوامی اشاریے کی روشنی میں دو ڈالر یومیہ آمدنی (۱۷۰ روپے) کو کم سے کم ضرورت سمجھا جائے تو ۷۵ فی صدی آبادی اس خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اگر یہ افراد کسی طرح جسم اور روح کے رشتے کو باقی رکھ بھی لیتے ہیں تو بھی یہ تعلیم، صحت اور ترقی کے مواقع سے محروم رہتے ہیں۔ پھر ملک کا معاشی اور سماجی انفراسٹرکچر ہے، جو بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس کو بچانے اور مستحکم کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ سرکاری انتظام میں چلنے والے تمام ہی ادارے بحران کا شکار اور قرضوں کے گرداب میں گرفتار ہیں۔ صرف ان کو زندہ رکھنے کے لیے غریب عوام کا پیٹ کاٹ کر۴ سو ارب روپے سالانہ ان کو دیے جا رہے ہیں اور خسارہ ہے کہ ہر سال بڑھ رہا ہے اور بڑے بڑے ادارے دم توڑتے اور سہولتیں ختم ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ سڑکیں اور پل برے حال میں ہیں، بجلی، گیس او رپانی کی فراہمی روبہ زوال ہے، پی آئی اے ، اسٹیل مل اور ریلوے جان بلب ہیں۔ سرکاری تعلیمی ادارے، ہسپتال اور دوسرے طبی سہولتوں کے مراکز زبوں حالی کا شکار ہیں۔ روزگار کے مواقع مفقود ہیں۔ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جا رہا ہے۔ ملک پر قرضوں کا جتنا بوجھ ملک کے قیام سے ۲۰۰۷ء تک کے ۶۰ سالوں میں تھا، بعدکے صرف چار سالوں میں اس سے کچھ زیادہ ہم پر لاد دیا گیا ہے۔
اس پر مستزاد اشیاے ضرورت کی قلت، ان کی ناقص کوالٹی اور سب سے بڑھ کر قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہے۔ ان چار سالوں میں افراط زر (مہنگائی) ۱۲ اور ۱۴ فی صد رہی ہے۔ اور اشیاے خوردو نوش میں مہنگائی کی شرح عام اشاریے سے زیادہ رہی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ عام آدمی کے لیے اشیاے خوردو نوش میں ان چار سالوں میں ۸۰ سے ۱۰۰ فی صد اضافہ ہو گیا۔ مزید برآں آفات سماوی ہیں جن کا تازیانہ برابر پڑ رہا ہے اور ہماری آنکھیں ہیں کہ کھلنے کا نام نہیں لیتیں۔ ۲۰۰۵ء کا زلزلہ، ۲۰۱۰ء کا سیلاب اور اب ۲۰۱۱ء کی بارشیں اور سیلاب___لاکھوں انسان گھر سے بے گھر ہو گئے ہیں، کھڑی فصلیں بہ گئی ہیں، مکانات منہدم ہو گئے ہیں، مال مویشی لقمۂ اجل بن گئے ہیں۔ اور تمام تنبیہات کے باوجود نہ خطرات کے مقابلے کے لیے مناسب پیش بندی کی گئی اور نہ افتاد زدہ علاقوں اور افراد کی مدد اور اعانت کے لیے معقول انتظام کیا گیا۔ غضب ہے کہ گذشتہ سال کے سیلاب کے موقعے پر جو رقم ملک اور ملک کے باہر سے امداد کی مد میں آئی تھی، اسے بھی مستحقین پر خرچ نہیں کیا گیا ہے۔ غفلت اور بد عنوانی دونوں نے تباہی کو اور بھی سوا کر دیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کا کوئی وجود نہیں۔ بیوروکریسی بے لگام ہے اور سیاسی قیادت بے حس ہے۔
سیلاب زدگان کی مدد کے سلسلے میں پبلک اور دینی اور نجی دائرے کے خدمت خلق کے اداروں کی طرف سے متاثرین کی مدد کے لیے بڑا قابل تحسین کام ہوا ہے۔ یہ جہاں خیر کی علامت ہے، وہیں حکومتی اداروں کی غفلت اور بدعنوانی پر ماتم کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے۔ صدر مملکت فوٹو سیشن کے لیے تو خاصے چاق و چوبند تھے لیکن اس کے فوراً بعدپھر اسی طرح بیرونی دوروں پر روانہ ہوئے جیسے ۲۰۱۰ء کے سیلاب کے موقع پر ہوئے تھے___ان کی ترجیحات میں عوام کے مسائل اور مصائب کا مقام دور دور نظر نہیں آتا۔
جس کام کو قومی ترجیحات میں اولین مقام حاصل ہونا چاہیے، اس کے بارے میں اتنی غفلت اوربے توجہی ایک بنیادی مرض کی علامت ہے۔ اس کا علاج بھی وہی فکر و نظر کی تبدیلی اور انقلابِ قیادت ہے۔
ان تمام حالات کا تقاضا تھا کہ سب سے پہلے اللہ سے رشتے کو مضبوط کرنے اور اس کی ہدایت کے مطابق اپنی منزل کے تعین اور ترجیحات کی ترتیب نو کی فکر کی جاتی۔ اللہ سے عہد کی تجدید ہوتی اور قوم کے وسائل کو امانت اور حکمت کے ساتھ قوم کے مستحقین کی ضرورتوں کو پورا کرنے، امن و امان کے قیام اور انصاف کے ساتھ سب کے حقوق کی ادایگی کے لیے استعمال کیا جاتا۔ پاکستان وسائل کے باب میں غریب اور محروم ملک نہیں۔ اصل چیلنج وسائل کی ترقی اور صحیح استعمال کا ہے اور یہیں ہم بار بار ٹھوکریںکھا رہے ہیں۔ اصل وجہ اخلاص کی کمی، منزل کا عدم شعور، رب کی بندگی، اور محنت، تعاون، خدمت اور مشارکت کے اسلامی اصولوں کی عدم پاسداری ہے۔
بات اب صرف اس نصب العین، ہدف اور حکمت عملی سے گریز ہی تک محدود نہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے منتخب کیا ہے اور جسے اصولی اور اجمالی طور پر دستور پاکستان میں رقم کر دیا گیا ہے۔ نوبت اب یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کھلے بندوں اس مقصد اور منزل ہی سے دستبرداری کے دعوے اور انحراف کی راہوں کی استواری کا سامان کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی اسلامی بنیاد کو مسمار کرنے کے لیے بیرونی دشمن تو پہلے دن ہی سے مصروف تھے، لیکن اب ایک منظم سازش کے ذریعے اس تصور ہی پر تیشہ چلایا جا رہا ہے جو اقبال اور قائداعظم نے دیا تھا اورجس کی بنیاد پر برعظیم کے مسلمانوں نے آزادی کی جدوجہد میں جان و مال کی بازی لگائی تھی۔
ایک صاحب لندن میں بیٹھ کر اور ملکۂ برطانیہ سے وفاداری کا عہد لے کر قوم کو بتا رہے ہیں کہ قائداعظم ایک سیکولر انسان تھے اور پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالٰہ الا اللہ محض ایک واہمہ اور بعد کی اختراع ہے۔ اور یہ وہ صاحب ہیں جنھوں نے بھارت کی سرزمین پر اعلان کیا تھا کہ پاکستان کا قیام ہی ایک غلطی تھی اور اگر وہ اس وقت ہوتے تو پاکستان کے حق میں ووٹ نہ دیتے۔ایک اور بزرگ پاکستان بھارت دوستی کے راگ کو اتنا بلند کرتے ہیں کہ انھیںپاکستان اور بھارت اور مسلمان اور ہندو کلچر میںکوئی فرق ہی نظر نہیں آتا، اور وہ اس قوم کے ساتھ آلو گوشت کھانے کی بات کرتے ہیں جو گوشت کو ہاتھ لگانے سے نجس ہونے کا عقیدہ رکھتی ہے اور جس نے اپنے سماج کی بنیاد ہی ’ہندو پانی‘ ’مسلمان پانی‘ کے دو جداگانہ دھاروں پر رکھی ہے۔ اس وقت پاکستان کو اس کی نظریاتی شناخت سے محروم کرنے اور اسے ایک بے لنگر کے جہاز میں تبدیل کرنے کی منظم کوشش ہو رہی ہے۔ خاص طور پر انگریزی پریس میں تو پاکستان کے تصور کے خلاف صلیبی جنگ کی سی فضا پائی جاتی ہے، اوراب اردو پریس میں بھی اس کی پرچھائیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ پاکستان کی قوم اور اس کی نئی نسل کو اس کی تاریخ سے کاٹنے اور بے بہرہ رکھنے کی کوشش ہو رہی ہے، اور استعماری اہداف کو پورا کرنے کے لیے ایک نئی تاریخ وضع کرنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ قائداعظم نے جس بنیاد پر برعظیم کے مسلمانوں کو ایک آزادمسلم ریاست کے قیام کے لیے بیدار اور متحرک کیا تھا وہ اسلام کے سوا کچھ نہ تھی۔ قائداعظم نے ۱۹۴۴ء میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمۂ توحید ہے ___نہ وطن ہے او رنہ نسل۔‘‘ان کا ارشاد تھا کہ:
ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیںکیا تھا، بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔
قائد اعظم نے پنجاب مسلم فیڈریشن سے خطاب کرتے ہوئے مارچ ۱۹۴۵ء میں فرمایا تھا کہ ’’اسلام ہمارا رہنما اور ہماری زندگی کا مکمل ضابطہ حیات ہے۔‘‘قیام پاکستان کے بعد ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو اسی شہر لاہور (پنجاب یونی ورسٹی گرائونڈ) میں یہ ایمان افروز اعلان فرمایا تھا:
ہر شخص کو میرا پیغام پہنچا دیجیے کہ وہ عہد کرے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور اسے دنیا کی عظیم ترین قوموں کی صف میں شامل کرنے کے لیے بوقت ضرورت اپنا سب کچھ قربان کرنے پر تیار ہے۔
یہ ہے پاکستان کی اصل تقدیر___اور یہی وہ تقدیر ہے جو قوم میں یکسوئی اور یک رنگی پیدا کر سکتی ہے جس کے نتیجے میں انصاف اور خوش حالی پر مبنی معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے اور دنیا اور آخرت میں مسلمان کامیاب و کامران ہو سکتا ہے۔
جس انقلاب کی پاکستان کو ضرورت ہے، وہ یہ ہے___ اور جس قیادت نے اس وقت پاکستان پر قبضہ کر رکھا ہے وہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ وسلم کی وفادار ہے اور نہ اقبال اور قائداعظم کے تصور پاکستان سے اسے کوئی نسبت ہے (اگر وہ نبی کریمؐ سے وفاداری کا دعویٰ کرے بھی تو اس کا عمل اس دعوے کی نفی کر رہا ہے)۔ اس کا اصل چہرہ وہ ہے جو اوپر کے آئینوں میں نظر آ رہا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ان چہروں کو بدل دیا جائے جو پاکستان کو اس کی اسلامی منزل سے کاٹ کر استعماری قوتوں کی چاکری کے لیے، اور اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے قربان کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
پاکستان کو اس گروہ کے چنگل سے نکالنے اور اسے اُمت کے اصل مقصد او رمنزل کے لیے وقف کرنے کی جدوجہد وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت اس وجہ سے اور بھی بڑھ گئی ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو غیروں کی نگاہ میں معتبر بنانے اور ان کے سہارے اپنی قوم پر اپنے تسلط کو باقی رکھنے کے لیے پاکستان کو امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی آگ میں دھکیل دیا تھا جس کی تباہ کن قیمت ہم اب تک ادا کر رہے ہیں۔ اب اس صورت حال سے جلد از جلد نکلنے کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ ایک عظیم جھوٹ پر مبنی تھی اور اس کے نتیجے میں دنیا ظلم اور طغیان سے بھر گئی ہے، دہشت گردی میں چند دو چند اضافہ ہو گیا ہے، لاکھوں انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں، اور امریکا سمیت دنیا کی معیشت کو کھربوں ڈالر کے نقصانات اٹھا چکی ہے مگر افسوس کہ اس تباہی کے رکنے کا کوئی سامان نظر نہیں آ رہا ہے۔
امریکا یہ جنگ افغانستان میں ہار چکا ہے اور کابل میں خود اپنے اور ناٹو کے مراکز کی حفاظت کے لیے جو حصار اندر حصار اس نے تعمیر کیے تھے وہ درہم برہم ہو چکے ہیں۔ معاشی اعتبار سے اس کے لیے اس جنگ کو جاری رکھنا مشکل تر ہو رہا ہے اور اس سال راے عامہ کے تازہ ترین جائزوں میں امریکی عوام کی اکثریت نے پہلی بار اسے ایک ناکام جنگ قرار دیا ہے اور اس سے نکلنے کا مطالبہ اب تیزی سے اکثریت کا مطالبہ بنتا جا رہا ہے۔
امریکا اپنی شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے۔ سیاسی اور معاشی دبائو کا ہر حربہ استعمال کر رہا ہے اورپاکستان کو اپنے بچے کچھے دوستوں سے بھی محروم کر رہاہے۔ اس کی کوشش ہے کہ شمالی وزیرستان میں جنگ کی آگ بھڑکا کر ہمیں اس میں جھونک دے۔ اس کے لیے امریکا نے اپنی 3-B مہم (Bully Bribe & Blackmail)یعنی دھونس ، رشوت اور ناجائز دبائو تیزتر کر دی ہے۔ امریکا کی قومی اور سیاسی قیادت نے پاکستان پر دبائو میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔اس امریکی دبائو سے ہماری سیاسی قیادت کے بازو ڈگمگانے لگے ہیں۔ گذشتہ دو ہفتے میں جس طرح امریکی وزیر دفاع، وزیر خارجہ، چیف آف اسٹاف اور امریکی صدر نے پاکستان کا گھیرائو کیا ہے، وہ امریکا کے جارحانہ عزائم کو واشگاف کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ دبائو ابھی اور بڑھے گا اور بھارت بھی اس میں اپنا کردار بڑھائے گا۔ یہ وقت امریکا کے بارے میں پاکستان کی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کا وقت ہے، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب قوم موجودہ امریکا نواز اور امریکیوں کی اسیر قیادت سے نجات پائے اور عوامی قوت سے ایک ایسی قیادت بروے کار لائے جو قیام و حصول پاکستان کے اصل مقاصد کی علم بردار ہو، جو دیانت اور اہلیت کے جوہر سے مالا مال ہو، جس کے دامن پر کرپشن اور امریکا پرستی کا داغ نہ ہو، جو بھارت سے برابری کی بنیاد پر دوستی اور باعزت تعلقات کی تو خواہاں ہو لیکن بھارت کے اس کھیل کا حصہ نہ بنے،جو وہ علاقے میں کھیل رہا ہے اور چین کے خلاف حصار بنانے میں مصروف ہے، کشمیر پرغاصبانہ قبضہ جاری رکھنے پر مصر ہے اور پاکستان کو پانی سے محروم کرکے ایک بنجر اور بھارت پر انحصار کرنے والا ملک بنانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔
امریکا کا دوغلا پن تو اس بات سے ہی ظاہر ہے کہ وہ خود تو طالبان سے مذکرات کرنے میں مشغول ہے اور کابل حکومت سے ان کے اشتراک اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے لیے کوشاں ہے، اور ہمیں ان سے لڑانے پر مصر ہے۔ ہم پر الزام ہے کہ حقانی نیٹ ورک شمالی وزیرستان سے کارروائیاں کر رہا ہے، جب کہ حقانی نیٹ ورک کے قائد کا دعویٰ ہے کہ ہم افغانستان میں ہیں اور وہیں سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ شکایت ہے کہ شمالی وزیرستان سے افغانستان میں لوگ کیوں داخل ہوتے ہیں لیکن اس سوال کا کوئی جواب امریکا کے پاس نہیں کہ امریکا اور ناٹو کے ڈیڑھ لاکھ فوجی اورافغانستان کی نیشنل آرمی کے ۲ لاکھ جوان ان چند مجاہدین کا راستہ روکنے میں کیوں ناکام ہیں؟ وہ افغان سرحد سے کئی سو کلومیٹر دور کابل کے قلب میں ان مقامات پر کار روائیاں کر رہے ہیں جن کے گرد تین تین آہنی سکیورٹی حصار قائم کرنے کے دعوے کئی ماہ سے کیے جا رہے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ صرف اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر گرانے اور پاکستان کی قیادت اور فوج کو بلیک میل کرنے کے لیے یہ دبائو ڈالا جا رہا ہے ۔ وقت آگیا ہے کہ اب اس جنگ سے نکلنے کا اعلان کرکے اپنے دفاع کی مناسب اور موثر حکمت عملی بنائی جائے۔ پوری قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اس حکمت عملی کی پشت پر ہو۔ امریکا سے you do more کہنا بے معنی ہے۔ ۱؎ ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکا کو بتا دیا جائے کہ پاکستان نے جو کچھ کیا اور امریکا نے اس کا جو بدلہ دیا ہے اس کے بعد ہمارا صرف ایک ہدف ہے اور وہ یہ کہ امریکا کی مسلط کردہ پالیسی سے خلاصی اور چھٹکارا۔ do more کا صحیح جواب no more ہے اور اس کے لیے پوری قوم کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ہم یقین سے کہتے ہیں کہ اس پالیسی کے اختیار کرتے ہی حالات بدلنا شروع ہو جائیں گے۔ پاکستان کو دہشت گردی کی جس آگ میں جھونک دیا گیا ہے وہ آہستہ آہستہ ٹھنڈی پڑ جائے گی۔
جو جنگ ہم نے خود امریکا کے دبائو میں اپنے اوپر مسلط کر لی ہے، اس سے جلد نجات مل جائے گی۔ پارلیمنٹ نے ۲۲؍ اکتوبر ۲۰۰۸ء کی اپنی قرار داد میں واضح کیا تھا کہ مسئلہ سیاسی ہے اوراس کا حل بھی سیاسی ہونا چاہیے، فوجی حل ممکن نہیں۔ اس لیے 3-D ) Dialogue, (Development, Deterrance یعنی مکالمہ، ترقی اور سدجارحیت ہی کے ذریعے امن قائم ہو سکتا ہے۔ ہمیںپارلیمنٹ کی اسی قرار داد کے مطابق ہی آگے بڑھنا چاہیے۔ صرف اسی طرح، یعنی بات چیت اور مذاکرات ہی سے، جن کو ہم نے امریکا کی خاطر دشمن بنا لیا تھا توقع ہے کہ وہ بھی اپنا رویہ بدلیں گے اور نئی فضا قائم ہوگی، پاکستان میں امن بحال ہوگا اور پاکستان اور افغانستان میں بھی تعاون اور دوستی کا نیا دور شروع ہوگا۔
سپریم کورٹ میں اور وکی لیکس کے آئینے میں نظر آنے والی تصویریں ہوں یا نظریہ پاکستان کی میزان، اور امریکا پاکستان تعلقات کے باہمی تعلقات، یا موجودہ مرحلہ، سب کا تقاضا ایک ہی ہے___ موجودہ حکمرانوں سے نجات، اسلامی فلاحی جمہوری پاکستان کی تعمیر اور ایک دیانت دار، باصلاحیت، خدا ترس اور خادمِ خلق قیادت کو منصب اختیار کی تفویض۔ اگر ہم اس راہ پر عزم صمیم کے ساتھ گامزن ہونے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، تو پھر اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ راستے کی تمام مشکلات کو آسان کر دیتا ہے اور ضعف طاقت میں، نا اُمیدی اُمید میں، اور ہزیمت کامیابی میں بدل جاتی ہے۔
وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِ یَنَّہُمْ سُبُلَنَاط(العنکنوت ۲۹:۶۹)
جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔
انسان کی تخلیق کے حوالے سے قرآن کریم میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ایک ایسی جامع اصطلاح بیان فرمائی ہے جو انسان کی پوری زندگی میں ہونے والے اعمال اور ان کے انجام کا احاطہ کرلیتی ہے۔فرمایا گیا: یاَیُّھَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ o الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰکَ فَعَدَلَکَ o فِیْٓ اَیِّ صُورَۃٍ مَّا شَآئَ رَکَّبَکَ o (الانفطار ۸۲:۶-۸) ’’اے انسان کس چیز نے تجھے اپنے اس ربِّ کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے نِک سُک سے درست کیا، تجھے متناسب بنایا اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا‘‘۔
ان آیاتِ مبارکہ میں جہاںانسان کو یاد دہانی کی جارہی ہے کہ وہ اپنی اصل کو نہ بھولے ، وہاں اسے اللہ تعالیٰ کے اس احسان سے بھی آگاہ کیا جارہا ہے کہ خالق کائنات جو عادل ہے، وہ نہ کسی پر زیادتی کرتا ہے اور نہ کسی معاملے میں بے جا گرفت کرتا ہے۔ انسان کو بناتے وقت نہ صرف ہرلحاظ سے بہترین شکل میں پیدا کیا، بلکہ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی نوک پلک کا خیال رکھتے ہوئے اسے انتہائی متناسب بنایا، جیساکہ سورۃ التین میں کہا گیا: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ o (التین ۹۵:۴) ’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا‘‘۔
جس طرح ایک مصور تصویرکشی سے قبل اپنے ذہن میں ایک نقشہ بناتا ہے اور یہ بھی طے کرتا ہے کہ اس کی تخلیق کا استعمال کیا ہوگا، اسی طرح خالق کائنات نے انسان کو بہترین ساخت اور توازن کے ساتھ پیدا کرنے سے قبل ہی یہ بات فرشتوں کو سمجھا دی تھی کہ اس کا مقصد اور کردار کیا ہوگا، اسے کہاں زندگی بسر کرنی ہوگی، اور کیا اسے بے لگام چھوڑ دیا جائے گا یا جس طرح اس کی تخلیق میں نِک سُک کا خیال رکھا گیا اسی طرح انسان کو ایسی ہدایت سے نوازا جائے گا جو جامع اور کامل ہو، اور اس کی زندگی کے تمام معاملات میں ہدایت فراہم کرے۔ سورۃ الاعلیٰ میں اسی جانب اشارہ فرمایا گیا ہے: الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی o وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَہَدٰیo (الاعلٰی ۸۷:۲-۳) ’’جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا، جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی‘‘۔
انسان کی یہ بہترین تخلیق جہاں خالق کے خود کمال کے اعلیٰ ترین درجے پر ہونے کی دلیل ہے، وہیں اس بات کی بھی شاہد ہے کہ اگر اس نے، جو عادل ہے اور انسان کو تعدیل کے ساتھ پیدا کیا ہے، تو انسان کا فرض ہے کہ وہ عدل کو اپنا وتیرا بنائے اور عدل و توازن کے قیام کے لیے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے خلیفہ کی حیثیت سے اس نظامِ عدل کو قائم کرے، جس کا مکمل نقشہ خالق کائنات نے اپنے کلام اور صاحب ِ کلام کے ذریعے انسانوں تک پہنچا دیا ہے، تاکہ زندگی کے ہر شعبے میں عدل قائم کیا جاسکے کہ کارِنبوت کا اصل ہدف یہی ہے: ’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں اور لوہا اُتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہے‘‘۔(الحدید ۵۷:۲۵)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ’میزان‘ اور ’حدید‘ کی وضاحت ان تاریخی الفاظ میں کرتے ہیں: ’’میزان، یعنی وہ معیار حق و باطل جو ٹھیک ٹھیک ترازو کی طرح تول تول کر یہ بتا دے کہ افکار، اخلاق اور معاملات میں افراط و تفریط کی مختلف انتہائوں کے درمیان انصاف کی بات کیا ہے… انبیاے علیہم السلام کے مشن کو بیان کرنے کے معاً بعد یہ فرمانا[یعنی لوہے کا نازل کیا جانا] خود بخود اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہاں لوہے سے مراد سیاسی اور جنگی طاقت ہے اور کلام کا مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو قیامِ عدل کی محض ایک اسکیم پیش کردینے کے لیے مبعوث نہیں فرمایا تھا، بلکہ یہ بات بھی ان کے مشن میں شامل تھی کہ اس کو عملاً نافذ کرنے کی کوشش کی جائے اور وہ قوت فراہم کی جائے جس سے فی الواقع عدل قائم ہوسکے، اسے درہم برہم کرنے والوں کو سزا دی جاسکے اور اس کی مزاحمت کرنے والوں کا زور توڑا جاسکے‘‘۔ (تفہیم القرآن، پنجم، ص ۳۲۲)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت اوراس سے قبل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا کہ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۸۰) ’’پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے‘‘، اور پھر یہ بشارت کہ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘، اس بات کا ثبوت ہے کہ عدل اور اس کا قیام ہی وہ محور ہے جس کے گرد زندگی کا پورا نظام گردش کرتا ہے اور کائنات کی تخلیق کا مرکزی نکتہ بھی میزان ہی کا قیام ہے۔
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے انسان کو معتدل و متناسب بناکر جو مقصد اور مشن اس کے سپرد کیا وہ بھی اس ترکیب تخلیق سے گہری مناسبت رکھتا ہے، یعنی ایک ایسا متوازن، معتدل اور متناسب نظام کا قیام جس میں ظلم و استحصال،اللہ سے بغاوت، اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی، انسانی حقوق کی پامالی نہ پائی جاتی ہو، اور فرد، معاشرہ، معیشت، سیاست، ثقافت، قانون، تعلیم، غرض ہر شعبۂ حیات میں مکمل عدل پایا جائے۔ نظامِ عدل کے قیام کے لیے قرآن و سنت نے جو اصول، لوازمات اور لائحہ عمل بتایا ہے اسے جب اور جہاں کہیں اختیار کیا جائے گا معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کے راستے کشادہ ہوجائیں گے اور جب اور جہاں کہیں بھی ان اصولوں سے انحراف کیا جائے گا متضاد نتائج سامنے آئیں گے۔
قرآن کریم عدل کی جامع اور مثبت اصطلاح کو ظلم، فساد، عدوان اور طاغوت کی اصطلاحات کی مخالف اصطلاح کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ جو لوگ زمین میں فساد اور ظلم پھیلاتے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں اپنے عادل، مطیع اور متقی بندوں کے ذریعے تبدیل کرتا ہے تاکہ زمین میں قیامِ عدل ہو اور انسان افراط و تفریط کی جگہ متوازن طرزِ حیات اختیار کرسکیں۔ فرمایا گیا: وَ لَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ (البقرہ۲:۲۵۱) ’’اگر اس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے ہٹاتا نہ رہتا تو زمین کا نظام بگڑ جاتا‘‘۔
عدل کے قیام اور عدل اختیار کرنے کا مفہوم عموماً یہ لیا جاتا ہے کہ دو افراد کے درمیان غیرجانب داری کے ساتھ کسی تنازعے کا فیصلہ کردیا جائے۔ قرآن کریم نے اس طرف واضح اشارہ کیا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط (النساء ۴:۵۸) ’’مسلمانو، اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔ اسی طرح گواہوں کے حوالے سے بھی عدل کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے کہ عادل افراد کو گواہ بنایا جائے: فَاِِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّاَشْہِدُوْا ذَوَی عَدْلٍ مِّنْکُمْ (الطلاق ۶۵:۲) ’’پھر جب وہ اپنی (عدت کی) مدت کے خاتمے پر پہنچیں تو یا انھیں بھلے طریقے سے (اپنے نکاح میں) روک رکھو، یا بھلے طریقے سے اُن سے جدا ہوجائو اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو تم میں سے صاحب ِ عدل ہوں‘‘۔
اگر غور کیا جائے تو نظام عدالت ہو، عدالت میں گواہی ہو، یا خاندانی معاملات میں کسی دو افراد کا گواہ بنانا ہو، ان سب کا قریبی تعلق اُس مجموعی نظام کے ساتھ ہے جس کا قیام اور جس کے لیے جدوجہد کو انسان کا مقصد تخلیق قرار دیا گیا ہے، یعنی زمین پر اللہ کے حکم کا نفاذ اور زندگی کے تمام معاملات میں خالق کائنات کی رضا کو اختیار کرتے ہوئے اصلاحِ احوال، تزکیۂ مال، تزکیۂ وقت، تزکیۂ صلاحیت کرتے ہوئے خلافتِ الٰہیہ کا قیام۔
قرآن کریم نے زمین پر خلافتِ الٰہیہ کے قیام کو ان افراد سے وابستہ و مشروط کردیا ہے جو خود جادۂ عدل و توازن پر قائم ہوں۔ اسی بنا پر تخلیقِ انسان کے حوالے سے قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انسان کو بنانے کے بعد اور صحیح شکل و صورت دینے کے بعد اسے ہرلحاظ سے متوازن و معتدل بنایا گیا ہے۔ اس میں ایک لطیف اشارہ اس جانب پایا جاتا ہے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اپنی عظیم صفت عدل کے تناظر میں انسان کو اپنا خلیفہ بنانے کے لیے اس توازن و عدل پر تخلیق فرمایا جو اس ذمہ داری کے ادا کرنے کے لیے لازمی شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی تناظر میں قرآن کریم نے اُمت مسلمہ اور اُمت مسلمہ میں ایک ایسے گروہ اور جماعت کی ضرورت پر زور دیا ہے جو نقطۂ اعتدال و توازن یا وسط کو اختیار کرلے اور یہی اس کی پہچان بنے۔ وہ غلو، شدت پسندی، اور انتہا کے رویے کے مقابلے میں توازن، عدل اور میانہ روی کو اختیار کرنے والی اُمت ہو: ’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو‘‘۔(البقرہ ۲:۱۴۳)
اسلامی عدل اجتماعی کی بنیاد کسی قیاسی سوشل کنٹریکٹ پر نہیں ہے جس کی تعبیر ہر دور میں صاحب ِ اختیار افراد اپنے مفاد کے پیش نظرکرتے رہیں۔ اسلامی اخلاق و قانون کا ماخذ کسی فرد یا کسی گروہ کی اپنی پسند یا ناپسند نہیں، بلکہ خالق انسان کی جانب سے نازل کردہ وہ قوانین و اصول ہیں جو انسانوں کو دہرے اخلاقی معیار سے نجات دلاکر زندگی کے تمام معاملات کو توحیدی نقطۂ نظر سے دیکھ کر ایک وحدانیت میں لے آتے ہیں۔ جس انسانی معاشرے میں دہرے اخلاقی معیار پائے جاتے ہوں وہ عدلِ اجتماعی سے محروم رہتا ہے۔
آزادی کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ایک شخص کو شعور کی آزادی اور فیصلے کی آزادی حاصل ہو۔ اس پر ایسے تصورات اور ایسی ثقافت کو زبردستی مسلط نہ کردیا جائے جو اس کے بنیادی عقائد و تصورات سے ٹکراتی ہو۔ چنانچہ آج عالم گیریت کے سہارے یک قطبی سامراجیت اپنی ثقافت کو جس طرح دنیا بھر کی اقوام پرتعلیم، معاشی حکمت عملی، سیاسی دبائو کے ذریعے مسلط کرنے میں مصروفِ عمل ہے، یہ جارحیت کی ایک واضح شکل ہے۔ یہ آزادیِ راے کو معطل یا مقید کردینا ہے۔ یہ انسانوں کے ذہنوں کو ابلاغِ عامہ کے ذریعے اپنا محکوم بنا کر غیرمؤثر کردینا ہے۔ اسلامی عدلِ اجتماعی ہرفرد کو آزادیِ راے، آزادیِ اجتماع اور آزادیِ عمل دے کر شعور وآگہی اور معروف و منکر کی آفاقی بنیادوں کی روشنی میں کسی عمل کو اختیار کرنے یا رد کرنے کا پورا حق دیتا ہے۔ اس کے بالمقابل آمریت ہو یا بادشاہت، سرمایہ دارانہ نظام ہو یااشتراکیت زدہ نظام، اپنی معاشی اور سیاسی گرفت (grip) کی بنا پر عملاً انسانوںسے ان کی قوتِ فیصلہ چھین لیتا ہے اور انھیں اپنی سامراجیت کا غلام بنا لیتا ہے۔ اسلامی نظامِ عدل اس استحصال سے نجات کا نام ہے۔
کسی بھی انسانی معاشرے میں حادثات کے نتیجے میں کل تک جو صاحب ِ وسائل تھا وہ مفلوک الحال بن سکتا ہے۔ معاشی میدان میں قیمتی تجارتی سامان لے کر ایک بحری جہاز روانہ ہوتا ہے اورمنزل پر پہنچنے سے قبل غرق ہوکر تمام اثاثوں کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔ ایسے مواقع زندگی میں کسی بھی وقت پیش آسکتے ہیں۔ اس لیے اسلامی عدلِ اجتماعی میں تکافل اجتماعی کا تصور اسلامی معاشرے کے قیام کے ساتھ ہی وجود میں آگیاتھا، اور ایسے مواقع پر انسانی ہمدردی اور تعاون کی بنیاد پر تکافلِ اجتماعی کا ادارہ جس میں معاشرے کے افراد اپنا حصہ ڈالتے ہیں، اس نقصان کو پورا کرتا ہے۔
اللہ کی زمین پر اس کا حکم اور نظام قائم کرنے کے لیے اہلِ ایمان میں ایک ایسی منظم جماعت ضروری ہے جو منزل اور مقصد کا واضح شعور رکھتی ہو اور جس کا ہدف صرف اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایات کا نافذ کرنا ہو: ’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے‘‘ (اٰل عمرٰن۳:۱۰۴)۔ گویا نظامِ عدل اپنے آپ نافذ نہیں ہوجائے گا بلکہ اس کے لیے مسلسل جدوجہد، ایثاروقربانی اور جوش اور ولولہ کے ساتھ کوشش کرنی ہوگی۔ یہی وہ جماعت ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں کہا گیا ہے: وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا (البقرہ ۲:۱۴۳)’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک اُمت وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو‘‘۔
انسان پر شہادت کا یہ فریضہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس صالح جماعت سے وابستہ ہر فرد اپنے نفس کا جائزہ لیتے ہوئے برابر احتساب کرتا رہے کہ اس کا طرزِعمل کہاں تک عدل سے مناسبت رکھتا ہے۔ کیا وہ اپنے نفس کو پال کر فربہ کر رہا ہے، یا نفس کشی کے ذریعے اپنے اُوپر ان سہولتوں کو حرام کررہا ہے جو اس کے رب نے اسے بطور انعام و فضل دی ہیں؟ کیا وہ اپنی غذا میں، اپنے لباس میں، اپنے رہن سہن میں، اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ تعلق و حقوق کی ادایگی میں یا اپنے ہمسایے کے حقوق کے حوالے سے عدل و توازن اور وسط کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، یا اس کے اہلِ خانہ والدین، بیوی، بچے اس کی عدم توجہ کا شکار ہیں؟ جس دعوت کو لے کر وہ دنیا کو بدلنے کے لیے نکلا ہے اس دعوت کا کتنا حصہ خود اس کے اپنے گھر میں رائج ہوسکا ہے؟ جس نظامِ عدل کے قیام کے لیے اُس نے اپنی زندگی کا سودا اپنے رب سے کیا ہے، اُس عدل کا عکس اس کے اپنے معاملات اور کاروبار میں کتنا نظر آتا ہے؟ ایک جانب وہ دنیا سے استحصال، زیادتی اور باطل کو ختم کرنے کے لیے نکلا ہے، تو کیا دوسری جانب اپنے کاروبار میں بھی اُس نے عدل کے اس پہلو کو نافذ کیا ہے؟ کیا وہ خود اپنے ملازمین کے ساتھ عدل کررہا ہے؟ کیا وہ کارخانہ جو وہ بطور کاروبارچلا رہا ہے اس میں تمام معاملات میں توازن اور تناسب پایا جاتا ہے، یا وہ بھی اُس ردعمل کا شکار ہے جو آج مسلم معاشروں کی ایک بنیادی بیماری ہے؟ کیا سورۂ صف کی وہ آیت اس کے ذہن میں تازہ رہتی ہے کہ ’’تم وہ کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں، اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم وہ کہو جو کرتے نہیں ‘‘ (الصف ۶۱: ۲-۴)۔ کیا اس کے کاروبار میں وہ شفافیت ہے جو وہ نظامِ عدل قائم ہونے کے بعد دیکھنا چاہتا ہے؟ کیا وہ اپنے عہد، اپنے وعدے جو وہ گاہکوں سے کرتا ہے پورے کر رہا ہے اور اشیا کا وہ معیار (quality) جس کی قیمت وہ لے رہا ہے گاہک کو مل رہی ہے؟ گویا عدل جب تک ایک کارکن کے گھر اور اس کے کاروبار میں داخل نہیں ہوگا اور قابلِ محسوس طور پر اس کا نفاذ نہیں ہوگا، اس وقت تک انسان کے مقصد اور خلافتِ الٰہیہ کے قیام کے مطالبات شرمندۂ تعبیر ہی رہیں گے۔
اس سے ایک قدم آگے چل کر دیکھا جائے تو یہ عدل اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ معاشرے میں جہاں کہیں بھی ظلم و استحصال، زیادتی اور حقوق کی پامالی پائی جاتی ہے وہ اس کو دُور کرنے کے لیے عادلانہ رویے کے ساتھ کہاں تک اپنے ہاتھ، اپنی زبان اور اپنے دل کا وہ استعمال کررہا ہے جس کی طرف خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامِ حق کے لیے جو ترجیح متعین فرما دی ہے وہ قیامت تک کے لیے ویسی ہی رہے گی، یعنی ہاتھ سے برائی کو مٹانے کے لیے ممکنہ وسائل کا استعمال ہمیشہ اوّلیت پر رہے گا۔ جو شخص جتنے وسائل رکھتا ہے اس کی جواب دہی اسی کے مطابق ہے۔ اس لیے اگر اس کے ہاتھ کا اختیار صرف اس کے دفتر تک ہے، گھر تک ہے، فیکٹری تک ہے اور وہ اس اختیار کا استعمال نہیں کرتا تو جادۂ عدل کے منافی کام کر رہا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے صلاحیت دی ہے کہ وہ باطل کو مٹانے کے لیے قلم کا استعمال کرے اور وہ ایسا نہیں کر رہا تو یہ عدل کے منافی ہے۔ اگر کسی کو اللہ نے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ اپنے قول سے حق کی دعوت پہنچا سکتا ہے اور برائی کو مٹانے کے لیے سچائی کا استعمال کرسکتا ہے اور وہ ایسا نہ کرے تو وہ ظلم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ جہاں تک دل میں برائی کو بُرا سمجھنا ہے تو، وہ تو اضعف الایمان ہے اور نظامِ عدل قائم کرنے کی جدوجہد میں سرگرم کارکن سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ اضعف الایمان پر کسی صورت میں مطمئن ہوجائے۔
گویا نظامِ عدل کے قیام کے لیے ایک ایسی اُمت وسط کی ضرورت ہے جس کا قول و فعل یکساں ہو اور جس نے اپنی ذات اور اپنے خاندان اور کاروبار میں عدل کو عملاً نافذ کر دیا ہو، یا نافذ کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہو۔ شیطان، جو قرآن کے مطابق انسان کا کھلا دشمن ہے، دن کے ۲۴گھنٹوں میں کسی ایک لمحے کے لیے بھی اپنے مشن اور مقصد سے غافل نہیں ہوتا اور طاغوت، ظلم، فساد اور برائی کے لیے ہمہ وقت کارکن کے طور پر مصروف رہتا ہے، اسے بے شمار مواقع پر ناکامی کا سامنا ہوتا ہے اور اس کی کوششیں بارآور نہیں ہوتیں لیکن وہ کبھی مایوس نہیں ہوتا ___ کیا وہ نظامِ عدل قائم کرنے والوں کے دلوں میں بار بار یہ سوال اُبھارتا ہے کہ برسوں کی کوشش کے باوجود آخر نظامِ عدل قائم کیوں نہیں ہو پایا؟ بات بہت آسان ہے۔ اگر جائزہ لے کر دیکھا جائے تو جب تک اس نظام کے لیے صحیح افرادی قوت، صحیح وسائل اور صحیح فضا پیدا نہ ہوجائے نتائج کے بارے میں غور کرنا بہت قبل از وقت ہوگا۔ پھر کیا قرآن کریم ہمیں یہ نہیں سمجھاتا کہ بعض اوقات پورے خلوص، ہمت، توجہ، قربانی اور ہمہ وقت کام کرتے رہنے کے باوجود مشیت الٰہی اپنی کسی حکمت کی بنا پر نتائج کو مؤخر کردیتی ہے، اور رب کریم اپنے بندوں پر فضل و کرم کی بنا پر اس جہادِ خیر میں کچھ اور دیر مصروف رکھ کر اس تاخیر کو ان کے اجر اور درجات میں اضافے کا ایک سبب بنا دیتا ہے۔ اس جملۂ معترضہ سے قطع نظر جو بنیادی سوال ہمارے لیے اہمیت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا انفرادی اور خاندانی سطح پر اپنے حقوق و فرائض ادا کرنے کے ساتھ ہماری کوششوں سے معاشرے سے برائی، ظلم و استحصال کو ختم کرنے اور نیکی، بھلائی، عدل اور حق کو قائم کرنے کی جدوجہد آگے بڑھی ہے؟ کیا لوگوں میں اس کا احساس پیدا ہوا ہے؟ کیا معاشرے میں کوئی حرکت اور آگہی نظر آرہی ہے یا ہماری ساری جدوجہد محض اپنے خاندان اور کاروبار تک ہی اثرات پیدا کر رہی ہے؟
عقل مطالبہ کرتی ہے کہ اگر بھلائی کے پودے کا بیج گھر میں لگا ہے یا کاروبار میں، تو یہ شجرطیبہ محض اُس مقام پر فائدہ نہیں پہنچائے گا جہاں اسے بویا گیا ہے۔ قرآن کریم اِس بلیغ مثال کے ذریعے نظامِ عدل کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی مساعی اور قربانیوں کو اُس بیج سے تعبیر کرتا ہے جو کلمۂ طیبہ اور اسلام کے نظامِ عدل کی جڑ اور بنیاد ہے۔ ایک مرتبہ جب یہ پودا اپنا اکھوا نکالتا ہے تو پھر تندوتیز ہوائیں اس کا راستہ نہیں روک سکتیں اور نہ تمازتِ موسم۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ اپنے تنے کو مضبوط کرتا ہے، اس پر کھڑا ہوتا ہے، اس کی شاخیں فضائوں میں پھیل کر ہر راہ گزر کو سایہ اور اس کے پھل ہر مسافر کو غذا فراہم کرتے ہیں۔ یہ کڑوے کسیلے شجرخبیثہ کی طرح نہیں ہوتا کہ نہ سایہ، نہ ذائقہ، نہ فائدہ۔
اس پس منظر میں اگر غور کیا جائے تو پاکستان ہو یا عالمِ اسلام کا کوئی ملک، حتیٰ کہ نظامِ کفر پر چلنے والا کوئی بھی ملک، جب اس کے معاشرے سے عدل اُٹھ جاتا ہے تو پھر کوئی قوت اس کا دفاع اور تحفظ نہیں کرسکتی۔جو قوم معاشی معاملات میں عدل سے ہٹ جائے اور اس کے لینے کے پیمانے کچھ اور ہوں اور دینے کے کچھ دوسرے ہوجائیں، یا پھر وہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کو بھول کر اس کی بندگی کی جگہ مالی منفعت کو اپنا خدا بنا لے تو پھر وہ اللہ کے عذاب کی مستحق ہوجاتی ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سزا دینے میں تاخیر کرتا ہے تو صرف اس بنا پر کہ وہ ارحم الراحمین ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ مجرموں کو ڈھیل دے کر انھیں سنبھلنے اور اپنی اصلاح کرنے کا زیادہ سے زیادہ موقع دے، اور جو لوگ نظامِ عدل قائم کرنے نکلے ہیں انھیں بھی موقع دے کہ وہ گمراہوں کو راہِ راست پر لانے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھیں۔
نظامِ عدل کے علَم برداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جہاں کہیں وسائل کے استعمال سے معاشی سرطان کی اصلاح کرسکتے ہوں اور جہاں زبان و قلم سے آواز اُٹھا سکتے ہوں، وہاں اس میںکسر نہ اُٹھا رکھیں تاکہ اتمام حجت ہوسکے اور اگر اللہ کی مشیت شاملِ حال ہو تو مفسدین کو ہدایت مل جائے اور عذاب سے بچائو بھی ہوجائے۔ کیونکہ جب عذاب آتا ہے تو پھر بستی کے سب لوگ اس کا نشانہ بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بستیوں کے باغیوں کو تنگی کے بعد خوش حالی دے کر اصلاح کا موقع دیتے ہیں۔ لیکن اگر نہ تنگی میں نہ خوش حالی میں وہ جاگتے نہیں اور دعوتِ اصلاح کو رد کرتے رہتے ہیں تو پھر اچانک انھیں عذاب آپکڑتا ہے: فَاَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِھِمْ جٰثِمِیْنَo (اعراف ۷:۹۱) ’’مگر ہوا یہ کہ ایک دہلا دینے والی آفت نے ان کو آلیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے‘‘۔
معاشی عدل کے ساتھ سیاسی عدل بھی یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ اگر اقتدار کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھ میں ہو جو نہ وعدوں کے سچے ہوں، نہ ذمہ داری کے امین اور مستحق ہوں، جو قومی دولت کو اپنی خاندانی جاگیر اور ذاتی ملکیت تصور کرتے ہوں، جو لسانی، نسلی، علاقائی عصبیت میں سرتاپا ڈوبے ہوئے ہوں، جن کا عمل اور قول متضاد ہو اور جو اللہ کی حدود کو پامال کرنے میں پیش پیش ہوں، جو اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی قرآنی سزائوں کو پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر بدلنے پر فخر محسوس کرتے ہوں، جن کے بارے میں قرآن کریم صاف کہتا ہے کہ: ’’جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں… وہی ظالم ہیں… وہی فاسق ہیں‘‘ (المائدہ ۵:۴۴-۴۷)۔ ایسے افراد اور ایسے نظام سے نجات حاصل کرنے اور اسلام کے عدلِ اجتماعی کے قیام کے لیے جدوجہد کرنا وہ دینی فریضہ ہے جس سے کسی بھی صاحب ِ ایمان کو بری نہیں کیا گیا۔
اہلِ ایمان کی ایک اہم خصوصیت ظلم کے نظام کی جگہ نظامِ عدل کے قیام کی جدوجہد ہے:
وَ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ مِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہٖٓ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ oیٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوْا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (المائدہ ۵:۷-۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
یہاں اہلِ ایمان کو متوجہ کرتے ہوئے پہلی بات یہ سمجھائی جارہی ہے کہ قیامِ نظامِ عدل کی جدوجہد کرتے ہوئے اولین چیز جو انھیں شعوری طور پر اختیار کرنی ہوگی وہ صرف اللہ کے لیے راہِ راست، صراطِ مستقیم اور سواء السبیل پر قائم ہونا ہے۔ اپنا رُخ مشرق و مغرب سے موڑ کر صرف اللہ کی رضا کو متاعِ عزیز بنانا ہے۔ یہ کام نہ تمغۂ کارکردگی کے لیے ہے، نہ کسی مجلس میں مقامِ تقرب کے لیے، نہ کسی جماعت میں مقامِ قیادت تک پہنچنے کے لیے ہے بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاصِ نیت کے ساتھ ہے۔ یہی مومن کے ہرعمل کی پہچان ہے۔
دوسری بات یہ سمجھائی جارہی ہے کہ ہمیشہ انصاف کی گواہی دی جائے، یعنی ایک تو گواہی دینے میں عدل برتا جائے اور دوسرے یہ کہ عدل و انصاف کی سربلندی کی جدوجہد میں شامل ہوکر عدل کے قیام کو روشن اور قریب تر بنایا جائے۔ اس عمل میں انتہاپسندی کی جگہ توازن، وسط اور قسط کو اختیار کیا جائے۔ ہرقسم کے غلو اور شدتِ پسندی سے چاہے وہ اپنی راے پر بے جا اصرار ہو یا ہرمعاملے میں انتہائی رویہ اختیار کرنا ہو، ہر دو سے اپنے آپ کو نکال کر توازن و اعتدال کو اختیار کیا جائے۔ اس روش کو تقویٰ سے قریب بیان کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ تقویٰ خود ایک متوازن طرزِعمل کا نام ہے۔ تقویٰ انتہاپسندی کا نام نہیں ہے، حتیٰ کہ عبادات میں بھی تقویٰ کا مطلب وہ توازن ہے جس کی مثال خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے ملتی ہے۔
جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ اپنے ذوقِ عبادت میں رات بھر نوافل اور دن بھر روزے سے رہتے تھے۔ ان کے والد حضرت عمرو بن عاصؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے بیٹے کی انتہاپسندی کی شکایت کی تو حضور نبی کریمؐ نے انھیں طلب کیا اور دریافت فرمایا: کیا تم نے دن میں روزہ اور رات بھر نماز پڑھنے کو اپنا معمول بنا رکھا ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، یارسولؐ اللہ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ طریقہ چھوڑ دو، روزے بھی رکھو اور ناغہ بھی کیا کرو۔ رات کو نماز بھی پڑھا کرو اور سویا بھی کرو، کیونکہ تمھارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمھاری آنکھ کابھی تم پر حق ہے، تمھاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اور تمھارے مہمانوں، ملاقاتیوں کا بھی تم پر حق ہے۔ جو ہمیشہ بلاناغہ روزہ رکھے گا اس نے گویا روزہ رکھا ہی نہیں۔ ہر مہینے میں تین دن نفلی روزے رکھ لینا (رمضان کے فرض روزوں کے علاوہ)، ہمیشہ روزہ رکھنے کے حکم میں ہے۔ اس لیے تم ہر مہینے بس تین روزے رکھ لیا کرو اور مہینے میں ایک قرآن (تہجد میں) ختم کرلیاکرو۔
حضرت عبداللہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر تم دائود علیہ السلام کی طرح ایک دن روزہ رکھو ، ایک دن افطار کرو اور اس کے علاوہ تہجد میں سات دنوں میں ایک مرتبہ قرآن ختم کرلیا کرو۔ (بخاری، مسلم، مسنداحمد)
گویا قرآن کریم سے محبت اور تعلق کی نوعیت کیا ہو، خود اپنے نفس کے حقوق نیند، آرام، خاندانی تعلق اور دیگر معاشی اور معاشرتی ذمہ داریوں کے ساتھ روزہ کا اہتمام کرنا ہو تو اس میں بھی توازن و اعتدال ہو۔ یہی صورت حال ہمیں اس حدیث مبارکہ میں ملتی ہے جس میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض اصحاب کے بارے میں یہ اطلاع ملنے پر کہ کوئی تمام رات نوافل کا اہتمام کرنا چاہتا ہے اور کسی نے مسلسل روزے کا عہد کیا ہے اور کسی نے نکاح نہ کرنے کی قسم کھائی ہے، ان تینوں اصحاب کو طلب فرما کر یہ ارشاد فرمایا تھا کہ آپؐ ان سے زیادہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا تقویٰ اور خشیہ کرتے ہیں اور رات کے کچھ حصے میں عبادت اور کچھ میں آرام فرماتے ہیں۔ کبھی روزہ رکھتے ہیں، کبھی ناغہ کرتے ہیں اور نکاح آپؐ کی سنت ہے۔ یہاں بھی مقصود توازن و اعتدال کی تعلیم ہی تھی۔
بلاشبہہ انفرادی سطح پر عدل کا اختیار کرنا اسلام کے اوّلین مطالبات میں سے ایک اہم تعلیم ہے۔ قرآن و سنت جتنی شدت سے عدل کا رویہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہی اسی شدت کے ساتھ عدل اجتماعی کے قیام کو اُمت مسلمہ کا مقصد اور ہدف قرار دیتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو اسلام اور دیگر مذاہب اور نظاموں میں بنیادی فرق اسلام کا تصورِ اجتماعیت ہی ہے۔ دیگر مذاہب فرد کی نجات، فرد کی روحانیت اور فرد کے تزکیے پر زور دیتے ہیں، جب کہ اسلام عبادات کا معاملہ ہو یا معاشی اور معاشرتی مسائل، ہرشعبۂ حیات میں عدل اجتماعی کو اہمیت دیتا ہے۔ چنانچہ مصالح عامہ اور فلاحِ انسانیت کے پیش نظر قوانین کو مدون کرتا ہے۔
اسلام کے اتنے جامع عدلِ اجتماعی کی موجودگی میں کیا وجہ ہے کہ اُمت مسلمہ میں معاشی بدحالی، تعلیمی زبوں حالی اور فکری و عملی انتشار اور سیاسی عدم استحکام پایا جاتاہے؟ عالمِ اسلام کس طرح اپنی اصلاح کرسکتاہے، اور کیا اسلامی عدلِ اجتماعی ایک عالمی نظامِ عدل کے قیام کی بنیاد فراہم کرسکتا ہے؟
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا پندرہ سو سال کی گردش کے بعد تاریخ کے جس موڑ پر پہنچ گئی ہے اس میں ساتویںصدی عیسوی میں پائے جانے والے رجحانات اور معاشی، معاشرتی اور اخلاقی زبوں حالی سے گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ اگر وہ قدیم جاہلیت تھی تو آج جدید جاہلیت ہے۔ اگر اس وقت انسان اپنی قبائلی عصبیت، نام و نسب پر فخر اور ذاتی مفاد کے لیے ہرکام کرنے پر تیار تھا، تو آج کا انسان بھی اپنے ذاتی مفاد کا بندہ اور خودساختہ عصبیتوں کا پرستار نظر آتا ہے۔ فوری فائدے کے حصول کے لیے وہ عظیم تر مفاد کو قربان کر دینے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا۔ بے روزگاری، آمریت، معاشی اور سیاسی استحصال نے انسان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ وہ گوناگوں مسائل و مشکلات میں اس حد تک گھرگیا ہے کہ اسے منزل کا شعور بھی نہیں رہا۔ اس کسمپرسی میں وہ اپنے مسائل کا حل دوسروں کے تجویز کردہ نسخوں میں تلاش کررہا ہے، جب کہ خود اس کے پاس ایسا نسخۂ کیمیا موجود ہے جو اُس کے تمام امراض کا تشفی بخش علاج کرسکتا ہے۔ اس بے خبری کی کیفیت میں اغیار کی بظاہر معاشی ترقی اور سیاسی تسلط نے اسے یہ بات باور کرا دی ہے کہ ترقی کا آسان نسخہ اغیار کی نقالی ہی میں ہے۔ لیکن کیا واقعی نقالی اُمت مسلمہ کو اس کے معاشی، سیاسی، فکری اور اخلاقی بحران سے نکال سکتی ہے؟ کیا مانگے کا اُجالا اس کے دل کے ویرانوں کو منور کرسکتا ہے، اور کیا اس مانگے کے اُجالے کے ذریعے اُمت مسلمہ اپنے آزاد وجود کو تسلیم کروا سکتی ہے؟ یہ بنیادی اور اہم سوالات اپنی عملی اہمیت کی بنا پر نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔
قیام نظامِ عدل کی ایک ایسی تحریک جسے آج سے پندرہ سو سال قبل خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے برپا کیا تھا، آج وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ جس طرح اس تحریک کے قیام کے وقت آپؐ کے سامنے ہدف اور مقصد واضح تھا، اسی طرح آج بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ جائزہ لے کر دیکھا جائے کہ تحریکاتِ اسلامی کی جدوجہد میں مقصد کا تصور (vision) کہاں تک واضح ہے۔ یہ کہیں دھندلا تو نہیں گیا اور مقصد اور ہدف کے پیشِ نظر جو حکمت عملی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضع فرمائی تھی کیا اس میں تبدیلیِ حالات اور وقت کے لحاظ سے کسی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
آج بھی تحریکِ اسلامی کو نظامِ عدل کے قیام کے لیے اس ترتیب کو پیش نظر رکھنا ہوگا لیکن مدینہ میں برپا ہونے والے اسلامی انقلاب سے سبق لیتے ہوئے تمام ذہنی مغالطوں سے آزاد ہوکر اپنے تصورِ تبدیلی و اصلاح کو محض اپنے معاشرے اور ملک تک محدود نہیں رکھنا ہوگا۔ مدینہ میں قائم ہونے والا نظامِ عدل ایک عالمی نظامِ عدل کے قیام کا پیش خیمہ تھا۔ مکہ کے راستے مدینے میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست ایک عرب مملکت نہ تھی، بلکہ تمام دنیا سے ظلم، استحصال، کفر اور طاغوت کو ختم کرنے کی ایک تحریک تھی۔ اس کا ہدف عالم گیر عدل کا قیام اور تمام انسانوں کو سامراجیت، نسلی عصبیت، علاقائی محدودیت، لسانی قوم پرستی اور انسانوں کی انسانوں پر حاکمیت سے نجات دلاکر خالق کائنات کی حاکمیت اور العادل کے دیے ہوئے نظامِ عدل و توازن کو دنیا کے تمام گوشوں میں قائم کرنا تھا۔
یہ عالم گیر تحریک براے قیامِ عدل اُس تصور کی ضد ہے جو عالم گیریت (globalization) کے نام پر سامراجی نظام نافذ کرنے میں مصروفِ عمل ہے۔ آج دنیا جس چیز کو عالم گیریت کے نام سے پکارتی ہے وہ انسانوں کو انفرادی آزادی سے محروم کرنے، مغرب کی بزعمِ خود ’’اعلیٰ اور برتر تہذیب ومعاشرت‘‘ کو دیگر اقوام پر نافذ کرنے، اور ان کی معاشی، سیاسی اور ثقافتی آزادی کو چند عالمی اداروں کا غلام بنانے کادوسرا نام ہے۔ اسلام جس عالم گیر نظامِ عدل کی دعوت دیتا ہے وہ انفرادی آزادی، آزادیِ راے، آزادیِ عمل، آزادیِ دین اور انسانی حقوق کی فراہمی پر مبنی ہے۔
اس نظام کے قیام کے لیے ہرفرد کو خواہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا، اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اُٹھنا ہوگا، اور ظلم و استحصال اور غربت و بے روزگاری سے متاثر افراد کے حقوق کی بحالی کے لیے اپنے آپ کو منظم کرکے بھلائی کو غالب کرنے اور برائی کو مٹانے میں اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا۔ یہ کام محض نظری باتوں سے نہیں ہوگا۔ اس کے لیے انسانی وسائل کو یک جا کرنا ہوگا، اور انسانوں کی قوت کو منظم کر کے نظامِ عدل کے قیام کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنا ہوگا۔
رمضان المبارک کی آمد سے ہر صاحب ایمان کے دل کی کلی کھِل اٹھی ہے۔ہر چہار طرف رمضان کی آمد اور اس کے استقبال کے لیے طبیعتوں کو آمادہ کرنے کے سامان فراہم کیے جارہے ہیں۔ ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو جانتا پہچانتا ہے اور اپنے زندگی کے شب وروز اور معمولات سے واقف ہے، لازم ہے کہ وہ اس ماہِ مبارک کا بڑی بے چینی سے انتظار کرے، اس کے استقبال کی تیاری کرے، اور بحیثیت مجموعی اللہ تعالیٰ کے ساتھ رابطے کی جو شکلیں رمضان المبارک میںنظر آتی اور دکھائی دیتی ہیں،ان کا نہ صرف پہلے سے احاطہ کرے، بلکہ ان تمام حوالوں سے اپنی زندگی کو اس ماہِ مبارک میں مکمل طور پر تبدیل کرنے اوریکسوئی اور طمانیت کے ساتھ اپنے رب سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھاکہ جب آپ رجب کا چاند دیکھتے تھے تو یہ دعا فرماتے تھے: اَللّٰھُمَّ بَارِکَ لَنَا فِی رَجَبْ وَ شَعْبَانْ وَبَلَغْنَا رَمَضَان، (اے اللہ! ہمیں رجب اور شعبان کی برکتیں عطا فرمائیے،اور رمضان المبارک تک پہنچا دیجیے)۔ ماہِ رمضان کی آمد سے دو مہینے پہلے ہی آپؐ کی طبیعت کا یہ اشتیاق چھلکا پڑتا تھا۔ رمضان المبارک کا استقبال کرنے کے لیے طبیعتوں کو جس طرح آمادہ ہونا چاہیے، اس دعا میں اس کا احاطہ کردیا گیا ہے۔ اس کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو رمضان المبارک سے بھرپور استفادہ کرنے کی ترغیب دی ہے تاکہ اس کی برکتوں کو سمیٹا جا سکے،اس کی رحمتوں کا سزاوار ہوا جاسکے، اس سے مغفرت کے پروانے حاصل کیے جاسکیں، دوزخ سے آزادی حاصل کی جائے اور نجات کی جانب چلا اور بڑھا جاسکے۔
اس حدیث کوبالعموم ایسے بیان کیا جاتا ہے جیسے جبرئیل ؑامین نے کوئی بد دعا کی ہواور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق فرما ئی ہو۔حالانکہ بات اس سے مختلف ہے۔جب چاروں طرف بہار کا موسم ہو،پورا معاشرہ لہلہا رہا ہو، دُور تک پھیلا ہوا منظر گل وگلزار بناہوا ہو اور ہرگرا پڑا بیج برگ و بار لا رہا ہو، چٹانیں بھی سبزہ اگل رہی ہوں اور پتھروں سے بھی سبزے کی نمو نظر آتی ہو، ان حالات کے اندربھی اگر کوئی بیج واقعی گرا پڑا رہ جائے، برگ و بار نہ لاسکے، اور اپنی نمو اور افزایش کا سلسلہ شروع نہ کرسکے، تواس کے لیے بد دعا کی نہیں بلکہ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ واقعی وہ اس قابل تھا کہ ہلاک ہو جائے۔بالفاظ دیگر اس حدیث کے اندر ترغیب و تشویق اورتحریص کی ایک پوری دنیا آباد ہے کہ رمضان المبارک کو سمجھو، اس کے شب و روز کی برکات کو جانواور پہچانو، اس میں جو کچھ حسنات پنہاں ہیں، ان کو حاصل کرنے کے لیے اپنے دامن کو پھیلائو۔ اپنے رب سے رجوع کرنے کے جو عنوانات ہو سکتے ہیں، ان کو سجائو۔ جنت کے سارے دروازے کھلے ہوئے ہیں، دوزخ کے سارے دروازے بند کردیے گئے ہیں۔ شیاطین قید کردیے گئے ہیں، نیکی کرنا آسان ہوگیا ہے۔ برائی اور گناہ کے لیے حالات کے اندر ایک ناسازگاری، اور طبیعتوں کے اوپر ایک گرانی جو پہلے نہ بھی پائی جاتی ہو، موجود ہے۔ ہرشخص یہ مصمم ارادہ کرلے، یہ نیت دل کی گہرائی کے اندرسمو لے کہ بہت سے رمضان المبارک یوں ہی گزر گئے ہیں لیکن اس رمضان کو یوں ہی نہیں گزرنے دینا ہے، بلکہ اس کے اندر جو کچھ برکات موجود ہیں،ان سے استفادہ کرنا ہے۔ دل و دماغ کی دنیا میں جو کانٹے بچھے ہوئے ہیں، منکرات کے جوجھاڑ جھنکار نظر آتے ہیں، معصیت کے جو طوفان اٹھے ہوئے ہیں، گناہ کے لیے لذت اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف بڑھنے میں کوئی قدغن نظر نہیں آتی ہے، ان تمام چیزوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا صلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ جو شخص اس ماہِ مبارک میںروزے دار کا روزہ افطار کرائے تو اس روزے دار کے اجر میں کوئی کمی کیے بغیربارگاہ رب العزت سے اس افطار کرانے والے کو بھی اس روزے دار جتنا اجر اور ثواب مل جاتا ہے۔صحابہ کرام ؓ میں نیکی کے معاملے میں سبقت لے جانے، خیر کا کوئی عنوان ترک نہ کرنے اور اس تک پہنچنے کی کوئی سبیل تلاش کرنے کی آرزو، خواہش اور تڑپ بدرجۂ اتم موجود تھی۔ حضرت سلمان فارسیؓ جو اس خطبے کے راوی ہیں،انتہائی ناداری اور کس مپرسی کے عالم میں زندگی گزار رہے تھے اور اکثر صحابہ کرام ؓ کی یہی کیفیت تھی، یہ بات سن کر بے قرار ہوگئے اور عالم بے تابی میں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ حضور ہم جیسے لوگ جنھیں اپنی افطاری کا سامان بھی میسر نہیں ہے،وہ بھلا دوسروں کو کیا افطار کرائیں گے۔تو کیا ہم اس عظیم اجر، ثواب اور صلے سے، اور خیر کے اس کام سے محروم رہیں گے؟ نیکی کی طرف جانے کی ایک تڑپ اورنیکیوں کا انبار لگانے اور اپنے دامن میں سمیٹ لینے کی کسک ہے کہ یہ بات سنتے ہی بول پڑے ہیں ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، اگر تم لسی یا پانی کے ایک گھونٹ سے بھی کسی کو افطار کرائو گے تو اجر اور صلے سے محروم نہ رہو گے۔ہاں، اگر کسی کے اندر یہ استطاعت ہے کہ وہ روزے دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے، تو روز محشر وہ حوض کوثر پر جام کوثر سے فیض یاب ہوگااور اپنے جاے مقام تک پہنچنے میں اسے پیاس تک محسوس نہ ہوگی۔
الحمد للہ ہمارے معاشرے میں افطار پارٹی اور افطار ڈنر کا ایک کلچر موجود ہے۔ اس کو جاری رہنا چاہیے،اس کے اپنے فوائد ہیں لیکن کبھی آپ نے سوچا کہ میں جب افطار پارٹی کرتا ہوں تو اپنے جیسے لوگوں کو بلاتا ہوںاور چاہتا ہوں کہ اگر مجھ سے بھی بڑے رتبے اور شان و شوکت اور سٹیٹس کے لوگ آ جائیں تو افطار پارٹی کو چار چاند لگ جائیں گے۔افطار پارٹی فائیو سٹار بن جائے گی۔ اس خواہش کی وجہ سے ہمدردی وغم خواری کے مستحق لوگ محروم اور سوالیہ نشان بنے رہتے ہیں۔ اسی طرح گاہے ہم سوچتے ہیںکہ یہ جو سڑک پر پتھر کوٹتے رہتے ہیں، روڑے ڈھوتے اور مشقت اٹھاتے رہتے ہیں، ان کا کیا روزہ ہوتا ہوگا؟ حالانکہ یہ بڑا نازک معاملہ ہے ۔ روزے دارکی ہر نیکی جس پس منظر اورجس نیت سے کی گئی ہو،جس مشقت کو اٹھا کر اور جس قربانی کا پیکر بن کر کی گئی ہو، اس حساب سے اللہ تعالیٰ ۱۰ گنا سے لے کر ۷۰۰ گنا تک اس کا اجر پھیلاتے اور بڑھاتے ہیںلیکن حدیث قدسی کے مطابق روزہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندہ میری خاطرشب و روز کی مشقتیں اٹھاتاہے، بھوک اور پیاس برداشت کرتا ہے ۔ قوی مضمحل ہوں، اعصاب جواب دے رہے ہوں،اور دل و دماغ کی دنیااڑی اڑی اور ویران سی ہو، اس کے باوجود بھی وہ میری رضا کے لیے روزے کی طرف آتا ہے تو یہ معاملہ کسی عددی ہندسے پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اس کا اجر میں ہی دوں گا۔ اور ایک حدیث میں ارشاد ہوتا ہے کہ میں ہی اس کا اجر ہوں، یعنی بندے نے روزہ رکھا اور اسے اس کا رب مل گیا۔جب رب مل جائے تو پھر کسی اور چیز کی طلب باقی نہیں رہتی ہے۔ساری نعمتیں قدموں میں ڈھیر ہوجاتی ہیں۔ ساری رحمتیں اور مغفرتیں وسعت دامن کے ساتھ ساتھ چلنے والی ہو جاتی ہیں۔
روزے کی فرضیت کے بارے میں قرآن پاک کی آیات اپنے اندر جو شیرینی،مٹھاس، ٹھنڈک اور طراوٹ لیے ہوئے ہیں اور جس طرح ہر پیرایہ، عنوان میں بندہ اور رب کے درمیان حجابات کو اٹھانے، واشگاف اندازمیں تعلق باللہ کی استواری اور آبیاری کرتی ہیں،وہ ایک عجیب اور انوکھا منظر پیش کرتی ہیں ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۶) اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو انھیں بتا دو کہ میں اُن سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ (یہ بات تم انھیں سنادو) شاید کہ وہ راہِ راست پالیں۔
اس انداز میں کس قدر اپنائیت،طمانیت اور چاہت ہے، بندوں کی نسبت اپنی طرف فرمائی،میرے بندے کہا !! اور یہ سب روزے کا صلہ ہے ۔ بندگیِ رب کی مسافتیں طے ہو رہی ہیں، قربتیں پیدا ہو رہی ہیں،فاصلے سمٹ رہے اور دوریاں ختم ہو رہی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ روزہ نفس پر شاق ہونے کے اعتبار سے تمام عبادات میں نمایاں ہے ۔جس قدر انسانی مرغوبات ہیں، پسند اور چاہت کے عنوانات ہیں، سب پر کچھ نہ کچھ پابندیاں، قواعد و ضوابط کے بندھن،اور پہرے بٹھادیے جاتے ہیں۔ حلال و طیب، جائز اعمال سال کے گیارہ مہینے جن پر کوئی قدغن نہیں، اس ماہِ مبارک میں ان کو از سر نو ترتیب دیا جاتاہے۔ بندۂ مومن اپنے رب کی رضا، اس کی ہدایت کی پابندی اور اس کی بارگاہ میں سرخرو ہونے کے لیے بخوشی ان پابندیوں کو قبول کرتاہے۔ ایمان کی لذت سے آشنا ہوتاہے۔ تعلق باللہ کا کیف و سرور، کچھ مشقت اٹھا کر،پابندیاں سہ کر دوچند ہوجاتاہے۔روزہ سخت کوشی کی تربیت دیتاہے۔ ایک طرف کھانا پینا، سونا اور آرام کرنا کم، جب کہ دوسری طرف غیبت، جھوٹ، لڑنا جھگڑنا، فضول اور نکمی و بے مقصد گفتگو بھی روزے کے اعلیٰ مقاصد کی نفی قرار پاتے ہیں۔ بلاشبہہ روزہ کھانے پینے کے شوق کو اُکسا دیتاہے، اس اکساہٹ کو دبانا، نہ کہ پرورش دینا، اس سے نجات پانا نہ کہ ناز نخرے اٹھانا مطلوب ہے اور تزکیہ نفس کے جلی عنوات سے عبارت ہے۔ جن حضرات کو تسلسل سے روزہ رکھتے ہوئے ۶۰،۷۰ سال ہوگئے ہوں، انھوںنے گرمی کے روزے، سردی کے روزے، جوانی کے روزے، بڑھاپے کے روزے، صحت کے روزے، عدم صحت کے روزے،غربت اور ناداری کے روزے،سہولتوں اور آسایشوں کے روزے رکھے ہوں گے۔ خوش حالی اور خستہ حالی،سفر و حضر، دھوپ چھائو ں، تنگی ترشی سے گزرے ہوںگے۔ وہ سراپا اس کی گواہی دیں گے کہ یہ عبادت ہر طرح کے حالات میں بندگی کی تربیت دیتی ہے۔ برسہا برس اس فرض کی پکار پر لبیک کہتے کہتے، اس عبادت سے استغنا اور بے نیازی نہیں پیدا ہوتی،بلکہ طلب،آرزو اور کیف و سرور کی لذت و آشنائی، بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے ۔
رمضان المبارک صیام اور قیام سے عبارت ہے، یعنی دن کو روزے اور رات کو قرآنِ پاک کے ساتھ شغف اور تعلق کی آبیاری !دن بھر نفس کو بھوکا پیاسا رکھ کر اس قابل بنایا جاتاہے کہ قرآن سن سکے اور جذب وانجذاب کے مراحل سے گزر سکے ۔ یوں نفس کی کثافتیں دور کی جاتی ہیں تاکہ قرآن پاک سے حقیقی مناسبت پیدا ہوسکے ۔ دن بھر نفس کو قابو کیا جاتاہے۔ منہ زور گھوڑے کو لگام دی جاتی ہے۔ پھر منزل (قرآن پاک )کی طرف اسے روانہ کر دیا جاتاہے۔ صیام اور قیام، دونوں سے مل کر ہی وہ انسان تشکیل پاتاہے جو اسلام کا انسانِ مطلوب ہے۔
یہ بات ذہن و دل کے دوردرازگوشے میں بھی مستحضر رہنی چاہیے کہ ’عبادات ‘ ازخود مطلوب ہیں۔ ان میں پنہاں حکمتیں، مادی اور دینوی فوائد اپنی جگہ لیکن ان کا اللہ کی ہدایت وحکم ہونا اس امر کے لیے کافی ہے کہ انھیں دائماً ظاہری آداب اور باطنی محاسن سے آراستہ و پیراستہ کیا جائے اور ان کے لیے سنتِ ثابتہ سے رہنمائی لی جائے۔ آخرت کی جواب دہی کے تصو رکو زندہ و تابندہ کیا جائے اور بجا طور پر دنیا میں خلافت اور نیابت کے جس منصب پر ہمیں فائز کیا گیا ہے، عبادات سے اس کردار کو ادا کرنے میں مدد لی جائے۔
روزے کی نفسیات اور جزئیات پر جس قدر غور کیا جائے،حقیقت یہ ہے کہ بندگی رب کا سفر طے کرنے، معراج ِانسانیت کو پہنچنے، نیز انسانی معاشروں کو قیادت و سیادت فراہم کرنے، معروف کی چمن بند ی اور منکر کے جھاڑ جھنکار سے نجات دلانے کے لیے ’روزہ ‘ فیصلہ کن عمل انگیز (catalyst) کا کردار ادا کرتاہے ۔ مستحکم قوتِ ارادی،عزمِ صمیم، کرنے اور کر گزرنے کا داعیہ، تعلق باللہ کی استواری، اپنے رب سے ایک اٹوٹ اور جیتے جاگتے تعلق کی آبیاری،اس کی رضا جوئی کی بڑھتی ہوئی طلب، یہ وہ صفات ہیں جو روزے سے پیدا ہوتی ہیں۔
اس بار رمضان المبارک اس حال میں طلوع ہو رہاہے کہ پوری اُمت میں بیداری کی لہر پیدا ہو رہی ہے۔ ہزار ہا ہزار فرزندانِ توحید اور شمعِ رسالت ؐ کے پروانے اپنے رب کی طرف دیوانہ وار بڑھ رہے ہیںاور طاغوت کی فرماں روائی کو چیلنج کررہے ہیں۔ قرآن وسنت کی بالادستی کے لیے اور اسلام کو ایک نظامِ حیات کے طور نافذ کرانے کے لیے شب و روز کی کوششوں اور مشقتوں میں اپنے پیروں کو غبار آلود کررہے ہیں۔
رجب سنہ ۲ ہجری میں تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا۔ گویا پچھلی اُمت منصب قیادت و رہنمائی سے ہٹادی گئی اور اُمت مسلمہ کو اس ذمہ داری پر فائز کردیاگیا۔ سن ۲ہجری کے اگلے مہینے، شعبان المعظم میں رمضان کے روزے فرض کردیے گئے ۔ گویا قیادت و سیادت کی تربیت اور تزکیے کا اہتمام اور رہنمائی کے منصب کے لیے صلاحیت و استعداد کو پرورش دینے کا عمل رمضان المبارک سے جوڑ دیا گیا۔ سنہ ۲ہجری کے اگلے مہینے، رمضان المبارک میں،جہاد وقتال کا حکم نازل ہوا۔ ہمارے حالات آج بھی سنہ ۲ہجری کے تین ماہ میں ربانی فیصلوں اور ان کی ترتیب میں اُمت کے لیے کچھ کرنے اور کر گزرنے،بے خطر آتش نمرود میں کودپڑنے اور اُمت کی بگڑی بنانے کی طرف بلا رہے ہیں۔ نہتے اور بے سروسامان غازیوں، مجاہدوں اور صف شکنوں کے قافلے رواں دواں ہیں، پیروں کو غبار آلو د کرتے ہوئے، سرسے کفن باندھ کر جان ہتھیلی پر لیے بآواز بلند پکارتے ہوئے کہ ع یہ بندہ دو عالم سے خفا تیرے لیے ہے، منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ نشانات منزل عبور کررہے ہیں۔ رمضان المبارک ان جذبوں کو مہمیز دینے کے لیے طلوع ہو رہا ہے، بھولا ہوا سبق یاد دلانے اور تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر، ماضی سے اپنے رشتے استوار کرنے کے لیے رب کی رضا اور اس کی جنتوں کے حصول کے لیے میری نماز،میری قربانی، جینا اور مرنا رب العالمین کے لیے ہے، اس کا ورد کرتے ہوئے پوری اُمت میں ایک طرف جہاد کا کلچر فروغ پارہاہے اور اس کے ساتھ ساتھ دعوت الی اللہ اور رجوع الی اللہ کی تحریک زور پکڑ رہی ہے ۔ بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب کی طرف لے جانے کی تدبیر روبۂ عمل آرہی ہے۔
لوگ اس شعور سے مزین اور آشنا ہوتے جارہے ہیں کہ اُمت کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے، ۵۷ حکومتیں ہیں،اتنی ہی فوجیں ہیں، ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک بھی ہے، مادی وسائل، جغرافیائی اور اسٹرے ٹیجک اہمیت کے خطے،اُمت کے ہم رکاب ہیں___ لیکن اے بسا آرزو، یہ سارے وسائل دشمن کے لیے استعمال ہو رہے ہیں، اسے لا جسٹک سپورٹ فراہم کی جارہی ہے۔اللہ اور اس کے رسولؐ کے باغیوں کو ہر طرح کی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں،انھیں کھل کھیلنے کا موقع جابجا دیا جارہاہے۔سارے مسلم حکمران، الاماشاء اللہ،امریکا اور مغرب کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں، غیروں کی دی گئی ہر ڈکٹیشن انھیں قبول ہے، طاغوت کی ہر پالیسی پر آمنا وصدقنا اور بلاچوں وچراسرتسلیم خم کردینا ہمارے حکمرانوں کا شیوہ ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں نوجوان غول درغول ردعمل کا شکار ہورہے ہیں، اشتعال کے حوالے ہورہے ہیں، ’جہاد ‘ کی نئی نئی تعبیریں بھی سامنے آ رہی ہیں ۔ لیکن جدوجہد کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہواہے___ قال اللّٰہ وقال الرسول کی پکارجا بجاسنی جارہی ہے، منبر و محراب سے وابستگی میں اضافہ روز کا تجربہ ہے، ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر جانیں نثار کرنے والے، ڈنکے کی چوٹ پر شمع رسالت کے پروانے بنے ہوئے ہیں،ختم نبوت کے عقیدے سے چھیڑ چھاڑ کرنے والوں کے لیے استدلال کی قوت اور قوت کے اظہار کے لیے سرگرداں ہیں ۔ ایسے میں رمضان المبارک کی ساعتیں بآواز بلند بھی اور بانداز خفی بھی ع فضائے بدر پیدا کر نے ......کی سرگوشیاں کررہی ہیں!
قرآن پاک کی رہنمائی، اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش پا، شب قدر کی فیصلہ کن اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے جڑی ہوئی یقین سے سرشار، انشراح صدر کی دولت، حالتِ روزہ کی پاکیزہ گھڑیاں اُمت کے ایجنڈے پر غور وفکر کے لیے صرف ہونی چاہییں ۔ اُمت کی زبوں حالی کہ ع ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات، اور اس کے متوازی، بیداری اور رجوع الی اللہ کی لہر کی قدر افزائی اور حوصلہ افزائی کی اجتماعی طور پر ضرورت ہے۔
رمضان المبارک کی رہنمائی ہمہ جہت ہے، ہمہ وقت ہے، ہر لمحے اور تاقیامت ہے۔ غزوۂ بدربھی اگر محض ایک واقعہ ہوتاتو تاریخ کا حصہ بن چکاہوتا، ماضی کے جھروکوں میں گم ہوگیا ہوتا، لیکن یہ رہنمائی ہے ۔ ایک ابدی پیغام ہے اور قیامت تک کے لیے دیوارپر لکھی تحریر ہے ع بہار ہو کہ خزاں لا الٰہ الا اللہ! اس کے پیغام میں تازگی و نمو ہے، سیرابی اور شادابی ہے کہ جب عقیدوں کی جنگ ہو، تہذیبوں کا معرکہ ہو یا اصولوںکی آویزش___اس میں عددی قوت،اسلحہ اور ساز وسامان، آلات ِ حرب و ضرب ثانوی اہمیت اختیار کرجاتے ہیں، فیصلہ کن حیثیت اور اقدام کی صلاحیت عقیدہ و اصول کی ہوجاتی ہے۔ قیامت تک یہی کلیہ کارفرمارہے گا ۔ رسیوں اور لاٹھیوں کو سانپ سمجھ کر ان سے خوف زدہ ہونے والے ایک تاریخ رقم کریں گے اور اژدھوں اور سانپوں کو بے معنی اور پرکاہ کے برابر اہمیت نہ دینے والے بھی ۔ تن و توش کروفر اور سائنس وٹکنالوجی کی ایجادات پر غرہ کرنے والے اور ناخدائوں کو خدا بنانے والے بھی موجود رہیں گے اور کئی کئی وقت کے فاقوں سے پیٹ پر پتھر باندھنے والے اور جنت کی خوشبو اور اس کی لپٹوں سے سرشار ہونے والے بھی حق و باطل کے اس معرکے میں اپنی گردنوں پر سرسجائے، گردنیں کٹوانے کے لیے تیار نظر آئیں گے!
اہل علم ہی یہ کام کرسکتے ہیں کہ اُمت کو باور کرائیں کہ ہمارا اصل ہتھیار،ایٹم بم نہیں ہے، گو ہمیں اس کا بھی حکم دیا گیاہے کہ وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ (اور تم لوگ جہاں تک تمھارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو۔ انفال ۸:۶۰)___ مگر ہمارا اصل ہتھیار اپنے رب پر جیتا جاگتا ایمان، قرآن پاک کی رہنمائی اور ہدایت کو سینے سے لگانا اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ تک جانے کے تمام راستے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو کر گزرتے ہیں، آپؐ کی سنتوں کو اپنانا، آپؐ کی شریعت کے نفاذ کے لیے اٹھنا، اور آپؐ جو جدوجہد اور کش مکش ہمارے درمیان چھوڑ گئے ہیں اس کا خوگر بننا، کامیابی کی نوید ہے۔
رمضان المبارک، تذکیر کاعنوان ہے: ’’پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ‘‘ کا امید افزا پیغام ہے۔ ہمیں اس پیغام کو نہ صرف رمضان میں بلکہ باقی گیارہ مہینوں میں بھی تازہ رکھنے اور مقدور بھر اُمت کے ایک ایک فرد تک پہنچانے کی ذمہ داری ادا کرنی ہے۔
یہ ایک المیہ ہے کہ ایک مدت سے پاکستان میں سالانہ بجٹ عوام کے لیے خوشی کا کوئی پیغام لانے سے قاصر رہا ہے۔ بجٹ آنے سے پہلے خوف اور اس کے اعلان کے بعد مایوسی قوم کا مقدر بن گئے ہیں۔ بجٹ سازی کے عمل میں عوام، سول سوسائٹی کے اہم ادارے، حتیٰ کہ معیشت کے ان عناصر کا، جن پر اسے اثرانداز ہونا ہے (stake holders) کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ اور اگر چند نمایشی مشاورتی نشستوں کا تکلف کیا بھی گیا، تب بھی بجٹ پر ان کے نقوش کہیں بھی نظر نہیں آتے۔ اس سال کا بجٹ بھی غیرمعمولی معاشی حالات کے باوجود، معمول کے مطابق روایتی کارروائی کی تصویر پیش کر رہا ہے۔
یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ بجٹ محض حکومت کی آمد و خرچ کا ایک میزانیہ نہیں ہوتا بلکہ وہ دستور کے دیے ہوئے معاشی، سیاسی اور معاشرتی پالیسیوں کے فریم ورک میں اور اربابِ حکومت کے عوام سے کیے ہوئے وعدوں اور ان کی ضروریات اور عزائم کی تکمیل کے لیے جامع پالیسیوں یا ان کے فقدان کا مظہر ہوتا ہے۔ بجٹ اعداد و شمار کا کھیل نہیں ہوتا اور اس کا کام جمع و تفریق کے ذریعے مالی بیلنس شیٹ کی خانہ پُری بھی نہیں ہوتی۔ حکومت کے اخراجات کی ہرمد اور آمدنی کا ہرذریعہ ایک معاشی پالیسی کا آئینہ دار ہوتا ہے اور اس کے دُوررس اثرات ملک کی معیشت اور عوام کی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔ بجٹ یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ حکومت کی ایک پورے سال کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے ، اور اس کارکردگی کی روشنی میں اگلے سال بلکہ سالوں کے لیے صحیح منصوبہ بندی کی جائے، مستقبل کے لیے مناسب پالیسیوں اور حکمت عملیوں کی تشکیل ہو اور ان پر عمل درآمد کے لیے جن مالیاتی وسائل کی ضرورت ہے، ان کی فراہمی اور خرچ کی مدات اور مقدار کا حقیقت پسندانہ پروگرام قوم اور اس کے نمایندوں کے سامنے پیش کیا جائے اور ان کی تائید اور توثیق سے اگلے سال کا تفصیلی پروگرام مرتب کیا جائے۔
پاکستان میں بجٹ سازی کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں پارلیمنٹ میں بمشکل تین ہفتے اور صوبائی اسمبلیوں میں تو ایک ہی ہفتے میں بجٹ پیش ہوکر منظور ہوجاتا ہے اور ارکانِ پارلیمنٹ اِلاماشاء اللہ بجٹ کے موقعے پر فراہم کی جانے والی دستاویزات کی ورق گردانی کی زحمت بھی نہیں کرتے اور پارٹی کے حکم کے تحت بجٹ منظور کردیتے ہیں۔ عوام اور میڈیا کی آہ و بکا کا کوئی اثر نہ حکومت پر ہوتا ہے اور نہ عوام کے نمایندے ہی عوام کا مقدمہ لڑنے کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں۔ یہ بڑی ہی مایوس کن صورت حال ہے جس سے عوام کا اعتماد سیاسی قیادت پر بُری طرح مجروح ہورہا ہے اور ملک و قوم کو معاشی بحران کے گرداب سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ہے۔
ملک کے دستور (دفعہ ۸۴) میں ایک اہم سقم یہ ہے کہ حکومت کو بجٹ کے باہر اخراجات کی آزادی بھی حاصل ہے جسے ضمنی گرانٹ کے نام پر ہرسال بجٹ کے موقعے پر سندِجواز دے دی جاتی ہے اور اس طرح حکومت کو پارلیمنٹ اور بجٹ دونوں کا مذاق اُڑانے کی کھلی چھٹی حاصل ہے۔ اس سال (۲۰۱۱ء-۲۰۱۰ء) بھی بجٹ میں کل حکومتی اخراجات کے لیے ۱۸۹۱؍ارب روپے کی حد مقرر کی گئی تھی مگر حکومت نے اس سے ۳۸۷؍ارب روپے زیادہ خرچ کیے جو بجٹ کا ۴ء۲۰ فی صد بن جاتا ہے۔ یہ اس وقت جب کہ آمدنی کی مد میں جو متوقع رقم رکھی گئی تھی اصل ٹیکس کی آمدنی اس سے ۱۰۰؍ ارب روپے کم ہوئی۔ یہ مالیاتی بے قاعدگی (fiscal indiscipline) کی بدترین مثال ہے اور پارلیمنٹ نے سینیٹ کے انتباہ کے باوجود چند منٹ میں اس اضافی گرانٹ کی منظوری دے دی اور حکومت کا کوئی احتساب نہیں کیا۔
پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حکومت کو، اقتدار میں آئے ساڑھے تین سال ہوچکے ہیں۔ حکومت نے اپنا چوتھا بجٹ پیش کیا ہے اور توقع تھی کہ اس وقت ملک جس معاشی بحران میں مبتلا ہے، اس بجٹ میں اس سے نکلنے کے لیے کوئی مؤثر اور حقیقت پسند پالیسی اور اس پر عمل کا مکمل نقشۂ کار پیش کیا جائے گا مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!
پیپلزپارٹی کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اسے اپنے اقتدار کے چاروں ادوار میں کوئی ایسا وزیرخزانہ پسند نہ آیا جو معاشیات پر گہری نظر رکھتا ہو اور ملک کی معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے کی صلاحیت کا حامل ہو۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سیاسی نعرے بازی اور نظریاتی شوروغوغا تو بہت تھا مگر افسوس ہے کہ ان ساڑھے پانچ سالوں میں کوئی ٹھوس اور مربوط معاشی منصوبہ بندی اور پالیسی سازی نہ ہوسکی۔ ڈاکٹر مبشرحسن نے نظریاتی اعتبار سے چند اقدام کیے لیکن معیشت پر ان کی گرفت نہیں تھی۔ سارا نظام بیوروکریسی کے ہاتھوں میں تھا اور غلام اسحاق خاں، وی اے جعفری اور ایم ایم احمد اصلی کرتا دھرتا تھے۔ محترمہ بے نظیر کے اقتدار کے دونوں ادوار میں وی اے جعفری حالات کے کرتا دھرتا رہے اور احسان الحق پراچہ اور نوید قمر کو مختصر مدت کے لیے وزارتِ خزانہ کی ذمہ داری ملی مگر دونوں کوئی ابتدا بھی نہ کرسکے۔ زرداری گیلانی کے تازہ ادوارِ اقتدار میں بھی پارٹی درآمد شدہ وزارے خزانہ کی مرہونِ منت ہے اور پاکستان ورلڈبنک، آئی ایم ایف اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے دیے ہوئے خطوط پر چلنے پر اپنے کو مجبور پاتا ہے۔ رہی سہی کسر امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ اور مفاد پرست اربابِ اقتدار کی نااہلی، کرپشن اور بے تدبیری نے نکال دی ہے۔ یہ تین ساڑھے تین سال معاشی اعتبار سے بدترین سال رہے ہیں۔ اس عرصے میں چار بار وزیرخزانہ تبدیل ہوئے، چار بار وزارتِ خزانہ کے سیکرٹری اور تین بار اسٹیٹ بنک کے گورنر بدلے۔ معاشی منصوبہ بندی کمیشن میں بھی اُکھاڑ پچھاڑ ہوتی رہی اور معاشی امور سے متعلقہ نصف درجن وزارتوں میں کوئی ہم آہنگی موجود نہ تھی۔ ہر ایک اپنی چلانے کی کوشش کرتا رہا اور معیشت کا حال بد سے بدتر ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ جناب شوکت ترین نے ایک بار پھر آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دی اور ملک استحکام کے نام پر معاشی جمود اور اس کے ساتھ افراطِ زر اور بے روزگاری اور غربت میں اضافے کے بھنور میں گرفتار ہوگیا۔
پیپلزپارٹی کے اقتدار کے اس دور میں معاشی ترقی کی رفتار پاکستان کی تاریخ میں پست ترین رہی ہے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں ترقی کی رفتار چھے اور سات فی صد تک رہی۔ ۱۹۵۰ء سے ۲۰۰۶ء تک کے معاشی حالات کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ سارے نشیب و فراز اور باربار کی امریکی پابندیوں کے باوجود اوسط رفتار ترقی سالانہ پانچ فی صد رہی۔ یہ صورتِ حال پاکستان کی ۶۴سالہ تاریخ میں پہلی بار رونماہوئی ہے کہ گذشتہ چار برسوں میں اوسط رفتار ترقی ۵ء۲ فی صد رہی ہے جو آبادی میں ۱ء۲ فیصد اضافے کے بعد ترقی کے مفقود ہونے اور حقیقی جمود (stagnation) کی غماز ہے۔ اس پر مستزاد مہنگائی اور افراطِ زر ہے جس کی اوسط شرح ان چار برسوں میں ۱۵ فی صد رہی ہے اور اشیاے خوردونوش کی مہنگائی کا اوسط سالانہ ۱۸فی صد رہا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ان چار برسوں میں غربت میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ وہ افراد جن کی روزانہ آمدنی ۲۵ء۱ ڈالر (۱۰۰روپے) یا اس سے کم ہے، ۲۰۰۰ء میں ۴کروڑ ۷۰ لاکھ تھی جو ۲۰۱۱ء میں بڑھ کر ۷کروڑ ۲۰لاکھ ہوگئی ہے یعنی مطلق غربت میں ۲کروڑ ۵۰لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔ اگر غربت کی حد (poverty line) کو دو ڈالر یا ۱۷۰روپے یومیہ رکھا جائے تو ۱۸کروڑ کے اس ملک میں ۱۱کروڑ افراد اس کس مپرسی کے عالم میں مبتلا ہیں۔ ملک میں عدم مساوات میں دن دونا اوررات چوگنا اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف امیرطبقہ ہے جو امیرتر ہورہا ہے۔ آبادی کا ایک فی صد ہرمہینہ اوسطاً پانچ لاکھ یا اس سے زیادہ کما رہا ہے۔ اُوپر کا ۱۰ فی صد ۵۰ ہزار ماہانہ یا اس سے زیادہ کما رہا ہے۔ دوسری طرف آبادی کا وہ ۱۰ فی صد ہے جو معیشت کے پست ترین درجے میں ہے، اس کی ماہانہ آمدنی ۲۰۰۷ روپے یا اس سے بھی کم ہے۔ ان چار برسوں میں کھانے پینے کی اشیامیں اوسط اضافہ ۷۴ فی صد ہوا ہے اور بے روزگاری میں بھی ۲۰فی صد سے زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔ بجلی اور گیس کی قلت اور مہنگائی نے حالات کو اور بھی خراب کردیا ہے۔ زراعت اور بڑی صنعت میں ترقی کی رفتار یا منفی رہی ہے یا براے نام اضافہ ہوا ہے۔
Pew ریسرچ سنٹر نے راے عامہ کا جو جائزہ ۲۱جون ۲۰۱۱ء کو شائع کیا ہے، اس کی رُو سے آبادی کے ۹۲ فی صد کا کہنا ہے کہ ملک غلط سمت میں جارہا ہے اور ۸۵فی صد نے کہا ہے ملک کی معاشی حالت خراب اور ناقابلِ برداشت ہے۔ اس سے زیادہ پریشان کن یہ امرہے کہ آبادی کا ۶۰فی صد مستقبل میں بھی معاشی حالات میں کسی بہتری کی توقع نہیں رکھتا۔آبادی کے ۹۷ فی صد کی نگاہ میں سب سے اہم مسئلہ مہنگائی اور۸۹ فی صد روزگار کے مواقع کے فقدان کو قراردیتا ہے۔ جرائم کے فروغ اور دہشت گردی کے اضافے میں دوسرے اسباب کے ساتھ ان معاشی حالات کا بھی اہم حصہ ہے۔ اس ملک کی تاریخ میں غربت اور افلاس تو ماضی میں بھی رہے ہیں، لیکن یہ کیفیت کبھی نہ ہوئی تھی کہ غربت کی وجہ سے اس بڑی تعداد میں لوگ خودکشی کے مرتکب ہوں، اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں ہلاک کر دیں یا سرعام ان کو بیچنے پر مجبور ہوجائیں۔ ایک طرف حالات کی یہ سنگینی ہے اور دوسری طرف اربابِ اقتدار کا یہ حال ان کے عیش و عشرت میں کوئی کمی نہیں۔ ان کی شہ خرچیاں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ بدعنوانی، کرپشن اور قومی دولت کے غلط استعمال کا بازار گرم ہے۔ تعجب ہے کہ جب آبادی کے ۷۵ فی صد کی یومیہ آمدنی ۱۷۰ روپے یا اس سے کم ہے صرف ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم کا روزانہ خرچ ۲۵ لاکھ روپے ہے۔ اور صرف صدر اور وزیراعظم کے بیرونی دوروں پر خرچ ہونے والی رقم ۲؍ارب روپے ہے___ یعنی روزانہ ۵۵لاکھ روپے۔
ایک طرف عوام کی یہ حالت زار ہے اور دوسری طرف قومی خزانے کو کس طرح لوٹا جارہا ہے اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور ورلڈبنک کے اندازوں کے مطابق ٹیکسوں کی چوری سالانہ ۱۰۰۰؍ ارب روپے سے ۱۲۰۰؍ ارب روپے ہے۔ ایف بی آر کے حساب سے جو ٹیکس ادا ہورہا ہے اس کا ۷۹ فی صد چوری ہو رہا ہے۔ ورلڈبنک کے مطابق یہ تناسب ۶۹ فی صد ہے۔ اگر صرف اس ٹیکس چوری کا ۵۰ فی صد وصول کرلیا جائے تو بجٹ کا خسارہ ختم ہوسکتا ہے۔
زندگی کے ہرشعبے میں کرپشن کا راج ہے۔ ورلڈبنک اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے اندازے کے مطابق ۳۰۰؍ارب روپے سے ۶۰۰؍ارب روپے کرپشن کی نذر ہورہے ہیں۔ ناقص کارکردگی اور ضیاع (leakages) ان پر مستزاد ہیں۔ حالات ابتری کی کس انتہا پر ہیں، اس کااندازہ اس سے کیجیے کہ اے جی پی آر کی سرکاری رپورٹ کے مطابق اس حکومت کے پہلے سال میں صرف کھلی کھلی بے قاعدگیوں کے نتیجے میں ۳۳۰؍ارب روپے کے وہ اخراجات ہوئے ہیں جن کا کوئی جواز نہ تھا۔ سرکاری انتظام میں چلنے والے تقریباً سارے ادارے خسارے میں چل رہے ہیں۔ ان کی نااہلی اور بدعنوانی کے نتیجے میں سرکاری خزانے سے ۴۰۰ سے ۶۰۰؍ارب روپے عام آدمی کا پیٹ کاٹ کر ان کو دیے جارہے ہیں۔ وزارتِ قانون نے کسی قانونی استحقاق کے بغیر کروڑوں روپے اپنی من پسند بار ایسوسی ایشنوں کو بانٹ دیے، صرف ایک وزارت نے ۳؍ارب روپے خفیہ فنڈ کے نام پر اُڑا دیے۔ ترقیاتی منصوبوں میں ۳۰ فی صد ایسے ہیں جن کو مشکوک قراردیا گیا ہے۔ ورلڈبنک نالاں ہے کہ جس پروجیکٹ کو ۳۴ ماہ میں پورا ہونا چاہیے وہ ۶۸مہینے لے رہا ہے۔ پروجیکٹ کی لاگت میں ۱۰۰فی صد اضافہ ہوجاتا ہے۔ پلاننگ کمیشن اور قومی معاشی کونسل کی معاشی کمیٹی (ECNEC) کی بے تدبیری کا یہ حال ہے کہ اس اعلیٰ ترین معاشی ادارے نے جو منصوبے منظور کیے ہیں ان میں سے ۸ء۲۷ فی صد ایسے ہیں جن کو منظور کردیا گیا ہے مگر ان کی کوئی تفصیلی رپورٹ موجود نہیں ہے۔ بس خانہ پُری کے لیے اعلان کردیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیکڑوں منصوبے ایسے ہیں جن میں اربوں روپے صرف ہوگئے ہیں لیکن عملاً ان منصوبوں کے کبھی بھی پایۂ تکمیل تک پہنچنے کا کوئی امکان نہیں۔
بجٹ اور زمینی معاشی حقائق میں کوئی ربط و تعلق نہیں۔ حکومت کی گرفت نہ معاشی زمینی حقائق پر ہے اور نہ اس کے پاس معاشی تشکیلِ نو کا کوئی واضح اور مربوط وژن ہے۔ المیہ یہ ہے کہ
رو ہیں رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
سالِ گذشتہ کے بجٹ میں جو متعین اہداف بیان کیے گئے تھے، ان میں سے تقریباً ہر ایک کے بارے میں موجودہ بجٹ اور بجٹ کے ساتھ پیش کی جانے والی دستاویزات کے مطابق وہ پورے نہیں ہوئے۔ معاشی ترقی کی رفتار، زرعی اور صنعتی پیداوار، روزگار کے مواقع، افراطِ زر کی شرح، ٹیکس کی آمدنی، بجٹ خسارے کی مقدار ___کوئی ایک بھی ہدف پورا نہیں ہوا ہے۔ معاشی ترقی کی رفتار کا ہدف ۵ء۴ فی صد تھا جو صرف ۴ء۲ فی صد پر رک گئی ہے۔ آزاد معاشی ماہرین کی راے میں عملاً یہ ایک فی صد سے زیادہ نہیں۔ افراطِ زر کو ۹ فی صد پر لانے کا دعویٰ تھا مگر عملاً وہ ۱۴ فی صد سے زیادہ ہے، یعنی صارفین کا قیمتوں کا اشاریہ لیکن اگر تھوک قیمتوں کے اشاریے کو لیا جائے تو وہ ۲۹ء۲۳ فی صد تھا۔ GDP تقلیلِ زر ۱۹ فی صد ہے جو افراطِ زر کو ناپنے کا ایک بہتر ذریعہ ہے۔ نتیجتاً ملک اس معاشی بیماری میں شدت سے مبتلا ہے جسے stagflationکہا جاتا ہے، یعنی ایک طرف معیشت میں جمود ہے تو دوسری طرف اس کے ساتھ افراطِ زر بھی عروج پر ہے اور اس طرح ایک کریلا وہ بھی نیم چڑھا کی صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے۔
حکومت کے اخراجات بے قابوگئے ہیں۔ ۹۹-۱۹۹۸ء میں حکومت کے کل غیرترقیاتی اخراجات ۵۴۷؍ارب روپے تھے جو ۱۱-۲۰۱۰ء میں بڑھ کر ۱۸۹۱؍ارب روپے ہوگئے اور آیندہ سال یعنی ۱۲-۲۰۱۱ء میں مزید بڑھ کر ۲۳۱۵؍ارب روپے ہوجائیںگے۔ جن میں صرف قرضوں پر سود اور ناگزیر قسطوں کی ادایگی کے لیے سالِ رواں میں ۷۹۱؍ارب روپے صرف ہوجائیں گے۔ دفاع اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے اتنی ہی رقم مزید درکار ہوگی یعنی تقریباً ۸۰۰؍ارب۔ حکومت کے انتظامی اخراجات کے لیے بجٹ کا بمشکل ۱۰ فی صد میسر ہوگا جس کا ایک بڑا حصہ تنخواہوں کی ادایگی کے بعد شاہ خرچیوں کی نذر ہوگا، کاروبار مملکت چلانے کے لیے اندرونی اور بیرونی قرضوں پر انحصار ہوگا۔ یہی وجہ ہے سارا نظام ’قرض کی مئے‘ کے سہارے چل رہا ہے اور اس غریب قوم پرقرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ گذشتہ ۶۰برسوں میں اندرونی اور بیرونی قرضوں کا کُل حجم ۴۷۰۰؍ا رب روپے تھا جو ان چار برسوں میں بڑھ کر ۱۰ہزار ارب روپے کی حدوں کو پھلانگ گیاہے۔ یعنی صرف ان چار برسوں میں گذشتہ ۶۰سال میں لیے جانے والے ۴۷۰۰؍ارب روپے کے قرض میں ۵۰۰۰؍ارب روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوگیاہے۔ اگر یہی طورطریقے جاری رہے تو خطرہ ہے کہ اگلے سال اس میں مزید ایک سے ڈیڑھ ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوجائے گا۔ اس لیے کہ اندازے کے مطابق اگلے مالی سال میں صرف بجٹ کا خسارہ ایک ہزار ارب روپے سے کم نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے خسارے کی جو رقم کم دکھائی گئی ہے خسارے کا اس کی حدود میں رہنا ناممکن ہے۔ دعویٰ کیا گیا ہے خسارے کو کم رکھنے کی وجہ یہ توقع ہے کہ صوبوں میں ۱۲۵؍ارب روپے زائد (surplus) ہوں گے لیکن اگلے سال کے لیے چاروں صوبوں کا بجٹ آگیا ہے اور ان میں مجموعی بچت بمشکل ایک ارب روپے بنتی ہے۔ باقی ۱۲۴؍ارب روپے کہاں سے آئیںگے؟
مرکزی حکومت کو مرکزی بنک اور کمرشل بنکوں سے قرض لینا ہوگا۔ بہت سے مصارف کم اور بہت سی آمدنی رقوم کو قابلِ وصول حد سے زیادہ دکھایا گیا ہے۔ مثلاً اسٹیٹ بنک سے نفع کو ۱۲۰۰؍ارب دکھایا گیا ہے جو ۱۶۰؍ارب روپے سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ ٹیکس کے ہدف کے بارے میں بھی معاشی ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس میں ۱۰۰؍ارب زیادہ لگائے گئے ہیں۔ یہی صورت تین جی لائسنسوں کے سلسلے میں ہے جس سے ۷۵؍ارب کی متوقع آمدنی رکھی گئی ہے لیکن اس کی وصولیابی مشتبہ ہے۔ اس کے برعکس معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ بہت سے اخراجات ہیں جن کو کم لگایا گیا ہے اور خطرہ ہے کہ جس طرح ۱۱-۲۰۱۰ء میں اضافی اخراجات ۳۸۷؍ارب روپے کے ہوئے آیندہ سال بھی بجٹ میں دکھائے ہوئے اخراجات سے ۲۵۰ سے ۳۵۰؍ارب روپے کے اخراجات زیادہ ہوںگے۔ جس راستے پر موجودہ حکومت گام زن ہے، وہ تباہی کا راستہ ہے۔ فارن پالیسی میگزین نے ناکام ریاستوں کاجو گوشوارہ اسی مہینے شائع کیا ہے، اس میں اس نے دنیا کے ۱۷۲ممالک میں پاکستان کو نیچے سے ۱۲ویں نمبر پر رکھا ہے۔ ملکوں کی درجہ بندی کے تمام ہی ادارے بدقسمتی سے پاکستان کی معیشت کی درجہ بندی برابر کم کررہے ہیں۔ بیرونی سرمایے کی آمد رُک گئی ہے بلکہ ملکی سرمایہ باہر جا رہا ہے حتیٰ کہ پاکستانی صنعت کار بنگلہ دیش اور دبئی کا رُخ کر رہے ہیں اور اربابِ حکومت کو ان حالات کا کوئی ادراک نہیں۔
اس وقت معاشی میدان میں جو سب سے بڑے چیلنج درپیش ہیں وہ یہ ہیں:
۱- غربت اور اس میں مسلسل اضافے کا رجحان
۲- معاشی ترقی کی رفتار کا ٹھٹھر جانا، جس کا مظہر سرمایہ کاری میں کمی، صنعت اور زراعت میں جمود، روزگار کے مواقع کا مسدود ہوجانا، اور بے روزگاری میں اضافہ ہے۔
۳-مہنگائی اور وہ بھی ہوش ربا مہنگائی۔
۴- مالیاتی بے قاعدگی جس کے نتیجے میں اخراجات اور وہ بھی غیرترقیاتی اخراجات میں بے پناہ اضافہ اور حکومت کے ترقیاتی مصارف میں کمی۔ یہ مصارف ۱۰، ۱۵ سال پہلے قومی پیداوار کا ۷فی صد ہوا کرتے تھے اور اب ۳فی صد سے بھی کم ہوگئے ہیں۔ غیرترقیاتی اخراجات میں اضافے کے ساتھ، قرض کے بار میں اضافہ اور ٹیکس اور دوسری آمدنیوں میں خاطرخواہ اضافے کی کمی ہوئی جس کے نتیجے میں مالیاتی خسارہ بڑھ رہا ہے اور خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے۔ ۲۰۰۵ء میں پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیا تھا جسے Fiscal Responsibility Act کہتے ہیں، اس کی رُو سے نہ صرف حکومتی خسارے کو ایک حد میں رہناتھا بلکہ ہرسال اس میں اڑھائی فی صد کمی کرنی تھی اور ۲۰۱۳ء تک بجٹ کے خسارے کو ختم کرنا تھا۔ حکومت نے ان چار برسوں میں اس قانون کے الفاظ اور روح، دونوں کی خلاف ورزی کی ہے اور آج مالیاتی خسارہ معیشت کے استحکام کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گیا ہے۔
۵- بیرونی قرضوں میں اضافہ اور عالمی سطح پر ملک کو مریضانہ حد تک محتاجی سے دوچار کردینا۔ اگلے سال سے آئی ایم ایف کے قرضوں کی ادایگی بھی شروع ہونا ہے۔ اس وقت ۷سے ۸؍ارب ڈالر سالانہ قرض ادایگی کی نذر کرنا پڑرہے ہیں اور قرض کی یہ ادایگی بھی نئے قرض سے کرناپڑرہی ہے۔اگربیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر جو اَب ۱۰ سے ۱۲؍ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ گئی ہیں، نہ ہوتیں تو ہمارے زرمبادلہ کے محفوظ ذخائر ختم ہوچکے ہوتے اور ملک خدانخواستہ دیوالیہ ہوجاتا۔ اس خطرناک صورت حال کا حکومت کو کوئی اِدراک نہیں اور اس کے مقابلے کے لیے کوئی حکمت عملی اس بجٹ میں موجودنہیں۔
۶- ملکی معیشت میں ایک اور عدم توازن حقیقی پیداوار یعنی زراعت، صنعت (بڑی، وسطی اور چھوٹی) اور توانائی سیکٹر کا سکڑجانا اور صارفین سیکٹر اور خدمات سیکٹر کا پھیلائو ہے۔یہ عدم توازن شوکت عزیز صاحب کے زمانے میں شروع ہوا اور اب خطرناک حدود میں داخل ہوچکا ہے۔ لیکن بجٹ میں اس عدم توازن کو دُور کرنے اور پیداواری سیکٹر کو فروغ دینے کی کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔
۷- ایک اور بنیادی مسئلہ دولت کی عدم مساوات اور اس میں مسلسل اضافہ، اور ٹیکسوں کا ایسا نظام ہے جس کا بوجھ امیرطبقات کے مقابلے میں غریبوں پرزیادہ پڑرہا ہے۔ ٹیکس کا ۶۲ فی صد بالواسطہ ٹیکس ہے جس کا بڑا بوجھ غریب عوام پر پڑتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ۷۵ فی صد غریب آبادی کو اپنی آمدنی کا ۱۰ فی صد ٹیکس میں دینا پڑ رہا ہے، جب کہ امیرطبقے کی آمدنی پر بلاواسطہ ٹیکس کا جو بوجھ ہے، وہ ان کی آمدنی کا بمشکل پانچ فی صد بنتا ہے۔ نیز امیر طبقوں کے کئی اہم حصے ایسے ہیں جو عملاً ٹیکس کے جال سے باہر ہیں۔ خاص طور پر بڑے زمین دار جن کی آمدنی میں صرف گندم کی قیمت بڑھانے سے ۳۰۰ سے ۴۰۰؍ارب روپے کا سالانہ اضافہ ہوا ہے، جب کہ ان کی آمدنی ٹیکس کی گرفت سے باہر ہے۔ غضب ہے کہ صوبوں نے جو براے نام ٹیکس بڑے زمین داروں پر لگایا ہے، اس سے نہ صرف یہ کہ پورے ملک سے بمشکل ایک ڈیڑھ ارب روپے حاصل ہوتے ہیں بلکہ سندھ میں تازہ بجٹ کے اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اس مد سے آمدنی ۵۰۰ ملین روپے ہورہی تھی جو اس سال کم ہوکر ۱۵۰ ملین روپے رہ گئی ہے۔ یہی حال ملک کی خریدوفروخت، اسٹاک ایکسچینج کے تاجروں اور بڑے بڑے پیشوں سے متعلق افراد کا ہے جن میں وکیل، ڈاکٹر، مشیر، اکائونٹنٹ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ نظام ملک کی دولت کی عدم مساوات کو بڑھا رہا ہے۔ امیرامیر تر ہو رہا ہے اور غریب پر محصولات اور افراطِ زر دونوں کی وجہ سے بوجھ بڑھ رہا ہے۔
۸- کرپشن ایک ناسور کی طرح معیشت کے ہرشعبے کو کھارہا ہے اور صدرسے معمولی اہل کار تک ہرکوئی اس بگاڑ میں شامل ہے۔ آج پاکستان دنیا کے ۱۰ کرپٹ ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ بلاشبہہ یہ نظام کی خرابی ہے مگر اس بگاڑ کو اپنی انتہا تک پہنچانے میں تین چیزوں کا خاص دخل ہے: ایک قیادت کا اپنا کردار اور مثال، دوسرا انتظامی امور میں صواب دیدی راے کا عمل دخل اور تیسرے ملک میں احتساب کے مؤثر اور شفاف نظام کا فقدان۔
غضب ہے کہ نیب کا ادارہ عضو معطل بنا دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود احتساب کے نظام کو فعال کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ ستم بالاے ستم کہ قومی اسمبلی میں احتساب کے قانون کا مسودہ دواڑھائی سال سے زیرغور ہے لیکن مفاد پرست عناصر اس کوقانون نہیں بننے دیتے۔ کرپشن کو سختی سے ختم کیے بغیر ملک کے لیے معاشی دلدل اور ظلم اور ناانصافی کے چنگل سے نکلنا محال ہے۔ کرپشن ہی کی ایک شکل میرٹ کا خون ہے۔ موجودہ حکومت کا ریکارڈ اس سلسلے میں سب سے خراب ہے۔ اس نے جس طرح سیاسی اور شخصی مقاصد کے لیے نااہل لوگوں کو ذمہ داری کے مناصب پر لگایاہے اور عدالت، میڈیا اور سول سوسائٹی کے احتجاج کے علی الرغم ہرجگہ اپنی من مانی کی ہے، اس نے انتظامی مشینری، فیصلہ سازی کے نظام اور شعبہ انتظامیات کے پورے دروبست کو تباہ وبرباد کر دیا ہے۔ کوئی ادارہ ایسا نہیں جہاں قانون اور ضوابط کے مطابق خالص میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں ہورہی ہوں۔ اس سے انتظامی مشینری کی چولیں ہل گئی ہیں اور حکومت کے نظام میں ہر جگہ نااہلی اور بدعنوانی اور بددیانتی کا بازار گرم ہے۔ حالات پہلے بھی بہت اچھے نہ تھے مگر زرداری گیلانی دور کے بارے میں تو یہ خرابیاں اپنے عروج پر پہنچ گئی ہیں۔
۹- پبلک سیکٹر کے تقریباً تمام ہی اہم کاروباری ادارے آج خسارے میں جارہے ہیں اور ان کو زندہ رکھنے کے لیے سرکاری خزانے سے ۳۰۰ سے ۴۰۰؍ارب روپے سالانہ خرچ کرنا پڑر ہے ہیں جو صریح ظلم ہے۔ اس کی وجہ سے وہ شعبہ ہاے زندگی سب سے زیادہ وسائل سے محروم ہورہے ہیں جن پر کسی ملک کے مستقبل اور خوش حال فلاحی معاشرے کا قیام اور فروغ ممکن ہے۔ یعنی تعلیم، صحت اور فنی ضرورتوں کی روشنی میںانفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ۔ ۱۵سال پہلے تعلیم پر کُل قومی دولت کا اڑھائی فی صد صرف ہو رہاتھا اور اسے چارفی صدتک لے جانے کی کوشش ہورہی تھی۔ مگر اب یہ کم ہوکر۸ء۱ فی صد رہ گیاہے۔ صحت پر اخراجات کا یہ تناسب ۸ء فیصد تھا جو اب کم ہوکر ۶ء فی صدرہ گیا ہے، جب کہ تعلیم پر قومی دولت کا کم از کم چارسے چھے فی صد اور صحت پر دو سے تین فی صد صرف ہونا چاہیے۔ سندھ کے بارے میں ایک تازہ ترین سروے کے نتیجے میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ وہاں ۴۲ہزار اسکولوں میں صرف ۷ہزار ایسے ہیں جو حقیقت میں برسرِکار (functional ) ہیں ورنہ ایک نمایاں تعداد بھوت اسکولوں کی ہے جن کا کوئی وجود نہیں۔ ان اسکولوں کا ۷۰ فیصد ایسا ہے کہ وہاں صرف ایک کمرہ اور ایک استاد ہے اور ایک کلاس میں طلبہ کی اوسط تعداد صرف سات ہے۔ سرکاری ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کا حال اس سے بھی ابتر ہے۔
ملک کی معاشی حالت کو جن نکات میں ہم نے اُوپر بیان کیا ہے، وہ ایسے ہیں کہ انسان کا دن کا چین اور رات کا آرام مشکل ہوجاتا ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ موجودہ قیادت کو ان کا کوئی احساس نہیں۔ وژن، دیانت اور صلاحیت ہر ایک کا فقدان ہے۔ عوام نے جو توقعات ان سے وابستہ کی تھیں اور جس حکمرانی اور جمہوری انداز میں ملک کے مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری ان کو سونپی تھی، اس کو انھوں نے بُری طرح پامال کیا ہے۔ ان کی اپنی نااہلی کے ساتھ ان کی خارجہ پالیسی بھی معاشی حالات کو دگرگوں کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ امریکا دہشت گردی کے نام پر جو کھیل کھیل رہا ہے وہ سب کے لیے تباہی کا راستہ ہے۔
امریکا کے اپنے عالمی عزائم ہیں اور وہ ان کے حصول کے لیے اس جنگ کو نت نئے رنگ میں آگے بڑھا رہا ہے حالانکہ خود اسے ان ۱۰برسوں میں ۵ سے ۶ ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ صرف افغانستان میں ۱۰۰؍ارب ڈالر جنگ کی آگ میںجھونک رہا ہے اور کسی ایک میدان میں بھی کامیابی حاصل نہیں ہورہی اور بالآخر اب جولائی ۲۰۱۱ء سے انخلا کی حکمت عملی پر عمل شروع کر رہا ہے۔ اس کے بعد اب پاکستان کو میدانِ جنگ میں تبدیل کرنے کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اس سال کے معاشی سروے میں حکومت نے خود اس معاشی قیمت کا ایک اندازہ پیش کیا ہے جو پاکستان کو امریکا کی جنگ میں شرکت کی وجہ سے برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستانی قوم نے پہلے دن سے اسے اپنی جنگ نہیں سمجھا اور Pew کا جو تازہ سروے آیاہے اس کی رُو سے پاکستان کی آبادی کا ۷۳ فی صد امریکا کی اس جنگ کے خلاف ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے اس جنگ میں سب سے زیادہ قیمت ادا کی ہے، جب کہ اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ ۳۵ہزارپاکستانی عوام شہید ہوئے ہیں اور۶ہزار پاکستانی فوجی اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد لقمۂ اجل بنے ہیں۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ اور بے گھر ہونے والے ۵۰لاکھ سے زیادہ ہیں۔ یہ تو وہ نقصانات ہیں جن کا روپوں اور ڈالروں میں کوئی اندازہ ممکن ہی نہیں۔ لیکن جونقصانات بلاواسطہ اور بالواسطہ خالص معاشی میدان میں اُٹھانے پڑر ہے ہیں، ان کا اندازہ بھی ۶۸بلین ڈالر ہے جو پاکستانی روپوں میں ۸ء۵۰۳۶؍ ارب روپے ہوجاتا ہے جو اس نام نہاد امریکی امداد سے جو ان ۱۰برسوں میں کسی بھی شکل میں بشمول پاکستان کی فوجی خدمات کے عوض دی گئی ہیں پانچ گنا زیادہ ہے۔ یعنی اس جنگ میں جو امریکا کے ہر ایک ڈالر کے مقابلہ میں پاکستان کے غریب عوام نے پانچ ڈالر کا بوجھ اُٹھایا ہے۔ یہ صرف معاشی پہلو ہے____ پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور سالمیت کو جو نقصان پہنچا ہے اور جو انسانی تباہی و بربادی ہوئی ہے وہ اس کے سوا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان حالات سے نکلنے کاراستہ کیا ہے؟ بات بہت واضح ہے کہ پاکستانی قوم اور قیادت کو ایک بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا اور اس کے دو پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ امریکا کی اس ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے جلد از جلد نکلنا اور جو تباہی اس کی وجہ سے پاکستان میں ہوئی ہے کم از کم اس سے بچنے کا آغاز۔
لیکن دوسرا اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ہمیں کہاں جانا ہے، ہمارے اپنے قومی مفادات کیا ہیں، ہمیں کس قسم کی معیشت قائم کرنی ہے اور پاکستان کی شناخت اور اس کی سیاسی، معاشی اور تہذیبی منزل کا صحیح صحیح تعین___ اور پھر اس کی روشنی میں پوری معاشی پالیسی، معاشی منصوبہ بندی اور بجٹ سازی کی نئی راہ کا تعین، گویا امریکا کی مسلط کردہ جنگ اور پاک امریکی تعلقات کے موجودہ انتظام سے اپنے کو علیحدہ کرنا اور بالکل نئے اہداف اور مقاصد کے مطابق امریکا سے شرائط معاملہ (terms of engagment)کو ازسرِنو مرتب کرنا اور اسی طرح پاکستان کے تاریخی اور قومی مفادات کی روشنی میں معاشی حکمت عملی کی تشکیلِ نو۔
پاکستان وہ بدنصیب ملک ہے جو مادی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود آج غربت، بے روزگاری، مہنگائی، توانائی کے بحران اور قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور اس کی اصل وجہ اس وژن کوبھول جانا ہے جس نے تحریکِ پاکستان کو جنم دیا تھا اور مقصد سے بے وفائی جس کے لیے ملتِ اسلامیہ پاک و ہند نے قائداعظم کی رہنمائی میں عظیم قربانیاں دے کر یہ خطۂ زمین حاصل کیا تھا۔ اس کی دوسری وجہ اچھی قیادت کا فقدان، یا بہ الفاظ صحیح تر، ملک پر ایک ایسی قیادت کا غلبہ جو وژن، دیانت اور صلاحیت سے محروم ہے اور جس کے سامنے اپنے ذاتی مفادات کے سوا کوئی اور مقصد نہیں۔ وژن اور منزلِ مقصود کے باب میں مثالی نمونے کی تبدیلی (paradigm shift) اور اس کے ساتھ انقلابِ قیادت جس کے نتیجے میں ایسے لوگ برسرِاقتدار لائے جاسکیں جو پاکستان کے مقصدِ وجود سے وفادار ہوں، جودیانت اور اعلیٰ صلاحیت کا نمونہ ہوں، جو عوام میںسے ہوں اور عوام کے سامنے جواب دہ ہوں اور سب سے بڑھ کر جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا اور اطاعت کا رشتہ رکھتے ہوں اور ان کے سامنے اپنے کو جواب دہ سمجھتے ہوں۔ صحیح وژن اور اہل قیادت___ یہی وہ دو چیزیں ہیں جن کے ذریعے مطلوبہ تبدیلی ممکن ہے۔
استخلاف وہ بنیادی تصور ہے جس کے گرد زمین پر اسلام کے کردار اور اُمت مسلمہ کی اصل ذمہ داری کو سمجھا جاسکتا ہے۔ استخلاف کے تومعنی ہی یہ ہیں کہ مسلمان اللہ کے بندے کی حیثیت سے زندگی کے پورے نقشے کو اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ڈھالنے کی ہمہ گیر کوشش کرے اور انصاف کی بنیاد پر اجتماعی نظام قائم کرے۔ حضرت یوسف ؑکے اسوے سے یہ سبق ملتا ہے کہ خوش حالی کے سات سال اور خشک سالی کے سات سال زندگی کی حقیقت ہیں اورفراستِ نبوی کا تقاضا ہے کہ معاملات کو اس طرح انجام دیا جائے کہ خوش حالی کے ثمرات کو خشک سالی کے اَدوار تک پہنچایا جاسکے۔ اس کے لیے حکمت اور امانت دونوں درکار ہیں۔ استخلاف کی ذمہ داری اختیار، اقتدار اور وسائل کے صحیح استعمال کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں جو معاشی نظام قائم کیا اس میں محنت اور جدوجہد اور وسائل کی ترقی اور ان کا صحیح استعمال، ان کی منصفانہ تقسیم اور ان کے درست انتظام کے نتیجے میں خوش حالی، منصفانہ اور طاقت ور معاشرے کاقیام ہے، جس کی بنیادی خصوصیت حلال و حرام کے احترام کے ساتھ انسانوں کے درمیان انصاف کا قیام اور آزادی اور اخوت کا ایسا ماحول قائم کرنا ہے جس میںہرفرد بحیثیت خلیفہ اپنا کردار ادا کرسکے اور کوئی کسی کا محتاج نہ ہو۔ اقبال نے اسی انقلابی تصور کو دو مصرعوں میں اس طرح ادا کردیا ہے ؎
کس نہ باشد در جہاں محتاج کس
نکتہ شرع مبیں، این است و بس
اقبال نے قائداعظم کو ملّتِ اسلامیہ ہند کی جس جدوجہد کی قیادت کی دعوت دی تھی اس کا اظہار انھوں نے اپنے ۲۸؍مئی ۱۹۳۷ء کے خط میں بڑے واضح الفاظ میں یوں کیا تھا:
ہمارے سیاسی اداروں نے مسلمانوں کی عمومی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کبھی غوروفکر نہیں کیا۔ روزگار کا مسئلہ زیادہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ مسلمانوں نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ وہ گذشتہ ۲۰۰برسوں سے نیچے ہی نیچے جا رہے ہیں۔عام طور پر وہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کی غربت کا سبب ہندو مہاجنی یا سرمایہ داری ہے۔ انھیں یہ شعور نہیں ہے کہ یہ بیرونی حکمرانی کا نتیجہ ہے لیکن انھیں جلد یہ ادراک ہوکر رہے گا۔ جواہر لال نہرو کے بے خدا سوشلزم کو مسلمانوں کی طرف سے زیادہ پذیرائی نہیں ملے گی۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا مسئلہ کس طرح حل ہو؟ اور لیگ کے مستقبل کا انحصار بھی اسی پر ہے کہ وہ اس مسئلے کو کس طرح حل کرتی ہے۔
خوش قسمتی سے اس مسئلے کا حل اسلامی قانون کے نفاذ میں ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس قانون کو مناسب انداز میں سمجھا اور نافذ کیا جائے تو اس کے نتیجے میں ہرایک کا روزگار کا حق محفوظ ہوجائے گا۔ لیکن اس ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ اور ارتقا ایک آزاد اسلامی ریاست یا ریاستوں کے بغیر ممکن نہیں۔
قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے تیرھویں اجلاس میں جو دہلی میں ۲۴جولائی ۱۹۴۳ء میں منعقد ہوا تھا پاکستان کے قیام کے اس مقصد کو ان الفاظ میں اور بڑے جذبات سے اداکیا:
یہاں میں ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کروں گا جو ہمارے وسائل کے بل پر پھلے پھولے ہیں۔ عوام کا استحصال ان کے خون میں سرایت کرچکا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ اسلام کا سبق بھول چکے ہیں۔ آپ دیہی علاقے میں کہیں بھی چلے جائیں میں خود دیہاتوں میں گیا ہوں۔ ہمارے لکھوکھا لوگ ہیں جنھیں ایک وقت کی روٹی بھی بمشکل ملتی ہے۔ کیا یہ تہذیب ہے؟ کیا یہ پاکستان کا مقصد ہے؟ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ لاکھوں لوگوں کا استحصال کیا جاچکا ہے اور انھیں ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ اگر یہ پاکستان کا تصور ہے، تو یہ میرے پیش نظر نہیں ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ۲۷ستمبر ۱۹۴۷ء ولیکا ٹیکسٹائل ملز کا سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:
اپنے ملک میں صنعت کاری کے ذریعے ہم اشیاے صرف کی فراہمی کے لیے بیرونی دنیا پر انحصار کم کرسکیں گے، لوگوں کو روزگار کے زیادہ مواقع فراہم کرسکیںگے اور مملکت کے وسائل میں بھی اضافہ کرسکیں گے۔قدرت نے ہمیں صنعت و حرفت میں کام آنے والے بہت سے خام مال سے نوازا ہے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اسے ملک اور عوام کے بہترین مفاد کے لیے استعمال کریں۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلد چہارم، ص ۳۷۳)
اور یکم جولائی ۱۹۴۸ء بنک دولت پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
حکومتِ پاکستان کی حکمت عملی یہ ہے کہ قیمتوں کو ایسی سطح پر مستحکم کردے جو تیار کنندہ اور صارف دونوں کے لیے منصفانہ ہو۔ مجھے امید ہے کہ اس اہم مسئلہ کو کامیابی کے ساتھ حل کرنے کے لیے آپ کی مساعی بھی اس جہت کا لحاظ رکھیں گی۔
آپ کا تحقیقی شعبہ، بنکاری کے طور طریقوں کو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں جو کام کرے گا، میں ان کا دل چسپی کے ساتھ انتظار کروں گا۔ اس وقت مغربی اقتصادی نظام نے تقریباً ناقابلِ حل مسائل پیداکردیے ہیں اور ہم میں سے اکثر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہی دنیا کو اس بربادی سے بچا سکے جس کا اسے اس وقت سامنا ہے..... مغربی اقدار، نظریے اور طریقے خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگاجس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے اسلامی تصور پر استوار ہو۔ (ایضاً، ص ۵۰۰-۵۰۱)
یہ ہے پاکستان کا اصل وژن۔
۱۹۷۳ء کے دستور میں اس وژن کو اس طرح پاکستان کے اساسی قانون کا حصہ اور حکومت کے لیے پالیسی سازی کے لیے واضح ہدایت مقرر کیا گیا ہے:
دفعہ ۳ (۲) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل کے لیے کوشش کرے گی:
(ا) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا ، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا اور قرآن پاک کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کااہتمام کرنا۔
(ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا، اور
(ج) زکوٰۃ (عشر) اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔
دفعہ (۳۷)
(ا) پس ماندہ طبقات یا علاقوں کے تعلیمی اور معاشی مفادات کو خصوصی توجہ کے ساتھ فروغ دے گی۔
(ب) کم سے کم ممکنہ مدت کے اندر ناخواندگی کا خاتمہ کرے گی اور مفت اور لازمی ثانوی تعلیم مہیا کرے گی۔
(ج) فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کو عام طور پر ممکن الحصول اور اعلیٰ تعلیم کو لیاقت کی بنیاد پر سب کے لیے مساوی طور پر قابلِ دسترس بنائے گی۔
(د) سستے اور سہل الحصول انصاف کو یقینی بنائے گی۔
(ہ) منصفانہ اور نرم شرائط کار، اس امر کی ضمانت دیتے ہوئے کہ بچوں اور عورتوں سے ایسے پیشوں میں کام نہ لیا جائے گا جو ان کی عمر یا جنس کے لیے نامناسب ہوں، مقرر کرنے کے لیے احکام وضع کرے گی۔
(و) مختلف علاقوں کے افراد کو، تعلیم، تربیت، زرعی اور صنعتی ترقی اور دیگر طریقوں سے اس قابل بنائے گی کہ وہ ہرقسم کی قومی سرگرمیوں میں، جن میں ملازمت پاکستان میں خدمت بھی شامل ہے، پورا پورا حصہ لے سکیں۔
(ز) عصمت فروشی، قمار بازی اور ضرر رساں ادویات کے استعمال، فحش ادب اور اشتہارات کی طباعت، نشرواشاعت اور نمایش کی روک تھام کرے گی۔
(ح) نشہ آور مشروبات کے استعمال کی، سواے اس کے کہ وہ طبی اغراض کے لیے یا غیرمسلموں کی صورت میں مذہبی اغراض کے لیے ہو، روک تھام کرے گی، اور
(ط) نظم ونسق حکومت کی مرکزیت دُور کرے گی تاکہ عوام کو سہولت بہم پہنچانے اور ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے کام کے مستعد تصفیہ میں آسانی پیدا ہو۔
دفعہ ۳۸- مملکت
(ا) عام آدمی کے معیارِ زندگی کو بلند کر کے، دولت اور وسائل پیداوار و تقسیم کو چند اشخاص کے ہاتھوں میں اس طرح جمع ہونے سے روک کر کہ اس سے مفادِ عامہ کو نقصان پہنچے اور آجر وماجور اور زمین دار و مزارع کے درمیان حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دے کر بلالحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل، عوام کی فلاح و بہبود کے حصول کی کوشش کرے گی۔
(ب) تمام شہریوں کے لیے، ملک میں دستیاب وسائل کے اندر، معقول آرام و فرصت کے ساتھکام اور مناسب روزی کی سہولتیں مہیا کرے گی۔
(ج) پاکستان کی ملازمت میں، یا بصورتِ دیگر تمام ملازم اشخاص کو لازمی معاشرتی بیمے کے ذریعے یا کسی اور طرح معاشرتی تحفظ مہیا کرے گی۔
(د) ان تمام شہریوں کے لیے جو کمزوری، بیماری یا بے روزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزی نہ کما سکتے ہوں بلالحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل، بنیادی ضروریاتِ زندگی مثلاً خوراک، لباس، رہایش، تعلیم اور طبی امداد مہیا کرے گی۔
(ہ) پاکستان کی ملازمت کے مختلف درجات میں اشخاص سمیت، افراد کی آمدنی اورکمائی میں عدم مساوات کو کم کرے گی اور
(و) ربا کو جتنی جلد ممکن ہو، ختم کرے گی۔
اقبال اور قائداعظم کے بیانات اور دستورِ پاکستان میں وہ وژن بہت صاف الفاظ میں موجود ہے جو پاکستان کے معاشی، مالیاتی اور تہذیبی نظام کے خدوخال متعین کرتا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری قیادت ان تمام ہدایات اور اہداف کو نظرانداز کر رہی ہے اور قوم کو ایک بحران کے اور دوسرے بحران سے دوچارکر رہی ہے۔ اسلام نے پہلے دن سے تمام معاشی وسائل کو امانت قراردیا ہے اور قیادت اور عامۃ المسلمین پر لازم کیا ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ اللہ کے دیے ہوئے وسائل انسانی محنت کے ساتھ تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہوں۔ بیت المال کا ادارہ دورِخلافتِ راشدہ ہی میں قائم ہوگیا تھا اور اس کا مقصد نظامِ حکومت چلانے کے لیے جو وسائل درکار ہیں ان کے حصول اور استعمال کے ساتھ معاشرے میں خوش حالی اور فلاحِ عامہ کے لیے وسائل کا صحیح صحیح استعمال یقینی بنایا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ پہلے دن سے بیت المال کے دو شعبے قائم کیے گئے___ ایک کا تعلق ’اموال المسلمین‘ سے تھا، تودوسرے کو ’اموال الصدقہ‘ قرار دیا گیا تاکہ تمام اجتماعی اور فلاحی ضرورتیں پوری ہوسکیں گی۔ ملوکیت میں خزانہ بادشاہ کی مرضی کے تابع ہوتا تھا اور حکمران کے ذاتی اموال اور عوام کے اموال میں کوئی تمیز نہ تھی۔ لیکن اسلام نے اس کو بیت المال کا مالک نہیں امین بنایا اور دورِ ملوکیت میں بھی بیت المال الخاصّہ جو خلیفہ کے ذاتی تصرف میں ہوتا تھا، اور بیت المال المسلمین جو تمام مسلمانوں کے لیے تھا، میں واضح فرق کیا جاتا تھا۔ دولت عثمانیہ تک یہ فرق نظام کاحصہ تھا۔
ان تاریخی حقائق کی روشنی میں ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان کی معیشت کی تنظیم نو اسلامی بنیادوں پر کی جائے اور دیانت اور اہلیت کے ساتھ جو وسائل اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیے ہیں ان کوترقی دی جائے اور استعمال کیا جائے تو پاکستان چند برسوں میں دنیاکے لیے نمونہ بن سکتاہے۔ ہمیں کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں۔ ہمارے پاس وہ وسائل موجود ہیں جن کو دیانت اور سمجھ داری سے ترقی دے کر پاکستان کو ایک خوش حال فلاحی معاشرہ بنایا جاسکتا ہے اور ایک ایسے نظام کا نقشہ دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکتاہے جو ترقی اور خوش حالی کا ایسا نمونہ جس میں کوئی کسی کا محتاج نہ ہواور سب ایک دوسرے کے لیے تقویت کا ذریعہ بنیں۔ ترقی کا یہ راستہ خودانحصاری اورانصاف کے قیام سے عبارت ہے اور یہی ہمارے لیے نجات کی راہ ہے۔
قوم ابھی ۲مئی ۲۰۱۱ء کے ایبٹ آباد پر امریکی حملے کے زخموں سے بے حال تھی کہ ۲۲مئی کو پاکستان نیوی کے مہران بیس پر دشمن نے ایک کاری ضرب لگائی، اور پاک بحریہ اپنے دفاع کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے تمام دعووں اور نیول بیس پر ۱۱۰۰ محافظوں کی موجودگی کے باوجود چار یا چھے یا ۱۲سرپھرے نوجوانوں کی ۱۶گھنٹے پر محیط کارروائی کے نتیجے میں اپنے قیمتی ترین دفاعی اثاثوں سے محروم ہوگئی۔ ۱۲ عسکری جوانوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، ۲۰سے زیادہ زخمی ہوئے، اور پاکستان کی دفاعی صلاحیت پر قوم کو جو ناز تھا اور دشمن جس سے خوف زدہ تھے، اس کے بارے میں ایسے سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے جو دن کا چین اور رات کی نیند حرام کردینے والے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں شرکت کے فیصلے سے اب تک ہماری دفاعی تنصیبات اور اداروں پر ۱۲۱حملے ہوچکے ہیں جن میں فضائیہ، بری فوج، بحریہ اور آئی ایس آئی کے حساس ترین مقامات پر دشمن نے کارروائیاں کی ہیں اور ’دہشت گردی کی کمرتوڑ دینے‘ کے باربار کے دعووں کے باوجود دہشت گردی کی کارروائیوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہورہی ہے بلکہ کمیت اور کیفیت دونوں کے اعتبار سے اضافہ ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کی آنکھیں کھلیں اور پورے مسئلے کا ازسرِنو جائزہ لے کر ان ۱۰برسوں میں جو کچھ ہوا ہے، اس کا بے لاگ تجزیہ کرکے نفع اور نقصان کا مکمل میزانیہ تیار کیا جائے اور آگ اور خون کے اس جہنم سے نکلنے کے لیے نئی سوچ اور نئی حکمت عملی وضع کی جائے۔
اہلِ نظر اور دانش ور ہر بڑے واقعے کو wake-up call (جاگو! جاگو!!) کہتے ہیں لیکن قیادت ہے کہ امریکا کے طلسم میں مسحور خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کو تیار نہیں۔ امریکی ڈرون حملے روز افزوں ہیں۔ بارک اوباما، ہیلری کلنٹن اور امریکا کی عسکری قیادت حتیٰ کہ پاکستان میں امریکا کے سفیر بھی مسلسل اعلان کر رہے ہیں کہ انھیں پاکستان پر اپنے یک طرفہ فوجی ایکشن، ہماری حاکمیت کی پامالی، اور ہمارے شہریوں کی ہلاکت پر نہ صرف کوئی افسوس نہیں اور وہ کسی قسم کی معذرت کے اظہار تک کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ دھڑلّے سے کہہ رہے ہیں کہ جو کچھ ماضی میں کیا ہے، پاکستانی عوام کے سارے احتجاج اور امریکا کی مخالفت کے جذبات کے پُرزور اظہار کے باوجود، وہ پھر ویسے ہی حملے کریںگے اور پاکستان کی پارلیمنٹ نے امریکا کی ان جارحانہ کارروائیوں کے خلاف جو متفق علیہ اعلان ایک بار پھر ۱۴مئی ۲۰۱۱ء کو کیا ہے، اس کی وہ پرِکاہ کے برابر بھی پروا نہیں کرتے۔ دوسری طرف پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کا حال یہ ہے کہ ’’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘، اور اس سے بھی زیادہ پریشان کن رویہ ان صحافیوں، دانش وروں، اینکر پرسنز اور سیاست دانوں کا ہے جو معروضی حقائق، عوام کے جذبات اور پارلیمنٹ کی قراردادوں کو یکسرنظرانداز کرتے ہوئے قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکا کی گرفت سے نکلنے کی کوشش تباہ کن ہوگی___ گویا اس قوم کی آزادی، سالمیت، خودمختاری، عزت اور وقار سب غیرمتعلق ہیں اور صرف چند ارب ڈالروں کے لیے ملت اسلامیہ پاکستان نے لاکھوں انسانوں کی قربانی دے کر جو آزادی اور عزت حاصل کی ہے اور ایک ایٹمی طاقت پاور بن کر جو مقام حاصل کیا ہے، اسے چند ٹکوں کی خاطر قربان کردیا جائے۔ یہ وہ غلامانہ ذہنیت اور تباہ کن مفاد پرستی ہے جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا ؎
تھا جو ناخوب ، بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
آج قوم کے سامنے ایک بار پھر وہی سوال ہے جو برطانوی دورِ غلامی میں اس کے سامنے تھا ___ یعنی وقتی مفادات کی پوجا یا آزادی اور عزت کی زندگی کے لیے ازسرِنو جدوجہد، خواہ وہ کیسی ہی کٹھن کیوں نہ ہو۔ ملت اسلامیہ پاکستان نے جس طرح اُس وقت کے مفاد پرست سیاست دانوں اور عافیت کوشوں کے خوش نما الفاظ ان کے منہ پر دے مارے تھے اور ہرقسم کی قربانیاں دے کر آزادی اور عزت کا راستہ اختیار کیا تھا، آج بھی قوم کو اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے موجودہ سیاسی بازی گروں اور مفاد پرستوں کے چنگل سے نکل کر پاکستان اور اس کے آزادی اور اسلامی تشخص کی حفاظت کے لیے سردھڑ کی بازی لگانا ہوگی، اس لیے کہ بقول اقبال ؎
یا مُردہ ہے یا نزع کے عالم میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے
اگر قوم کو اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے امریکا کی سامراجی گرفت سے نکلنا ہے___ اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سامنے اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ موجود ہی نہیں ہے___ تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پوری دیانت داری کے ساتھ ان عوامل کو سمجھا جائے جن کی وجہ سے ہماری آزادی گروی ہوگئی ہے اور ہماری پالیسیاں واشنگٹن کے اشارے پر اور بہت بڑی حد تک صرف امریکا کے مفاد میں وضع کی جارہی ہیں۔
اس نئی غلامی کے کَسے شکنجوں کو مضبوط تر کرنے کے لیے معاشی زنجیریں روز افزوں ہیں۔ حکمرانوں کو ان کی کرپشن اور مفاد پرستی کی وجہ سے امریکا نے اپنا آلۂ کار بنالیا ہے۔ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکی سفارت کاروں، امریکی این جی اوز، امریکی ماہرین اور محاسبوں کی فوج ظفر موج، اور ان کے ساتھ ہماری سرزمین پر ا مریکی افواج، سی آئی اے کے اہل کار اور مخبر سرگرم ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کے خون آشام ڈرامے نے اس امریکی نیٹ ورک کو بے نقاب کردیا جو ملک کی باگ ڈور کو اپنی مرضی کے مطابق چلا رہا ہے۔ ڈرون حملوں کی روز افزوں بوچھاڑ اور ہماری سرزمین پر امریکی فوجی قدموں کی چاپ، نیز ہر روز واشنگٹن اور کابل سے امریکی سول اور فوجی آقائوں کی آمدورفت، اس نئے استعماری انتظام کے وہ چند پہلو ہیں جو اب کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ ہمارے حکمران خواہ کیسے ہی خوابِ غفلت میں مبتلا ہوں یا اس خطرناک کھیل میں شریک کار ہوں لیکن پاکستانی قوم اب بیدار ہوچکی ہے اور اس کے سامنے اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے ہرممکن ذریعے سے اجتماعی جدوجہد کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہا ہے۔ یہ معرکہ کس طرح سر کیا جائے، اس پر گفتگو کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ چند حقائق کو ذہنوں میں تازہ کرلیا جائے۔
یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ امریکا اور یورپی اقوام ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر ایک دوسرے ہی ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔ اصل ایشو دنیا کے، اور خصوصیت سے مسلم اور عرب دنیا کے معدنی، معاشی اور اسٹرے ٹیجک وسائل پر قبضہ اور ان کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ نیز اس استحصالی بندوبست کو محفوظ کرنے کے لیے مسلم اور عرب ممالک پر ایسی قیادتوں کو مسلط کرنا اور مسلط رکھنا ہے جو امریکا کے آلۂ کار کی حیثیت سے خدمات انجام دے سکیں۔ اس سلسلے میں سیاسی اور عسکری قیادتوں کے ساتھ لبرل دانش ور صحافیوں اور سول سوسائٹی کے اداروں کا استعمال ان کی حکمت عملی کا مرکزی حصہ ہے۔ معاشی طور پر ان ممالک کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے قرضوں کا جال بچھایا گیا ہے اور ان ممالک کو عالم گیریت (globalization) کے نام پر مغربی اقوام اور اداروں کی محتاجی (dependence) کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے۔ آخری حربے کے طور پر امریکی افواج کو، جو تباہ کن ٹکنالوجی سے آراستہ ہیں، استعمال کیا جا رہا ہے۔ آج دنیا میں ۸۰ سے زائد مقامات پر امریکی فوجی اڈے موجود ہیں۔ افغانستان اور عراق کی جنگ اور عالمِ عرب کے قلب میں اسرائیل کی کیل کانٹے سے لیس افواج اور خفیہ تنظیموں کا کردار اس گیم پلان کا حصہ ہے۔
امریکی سرمایہ دارانہ نظام کے بقا اور ترقی کے لیے جنگ، جنگی امداد اور تجارت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس کی پالیسی پر عمل کا مؤثر ترین ذریعہ ہیں۔ اس گریٹ گیم کو سب سے بڑا خطرہ مسلمان عوام، ان کے دینی شعور اور اُمت مسلمہ کے جذبۂ جہاد سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جنگ عسکری قوتوں سے لڑی جارہی ہے اور جس ملک سے مزاحمت کا خطرہ ہے، اس کی عسکری اور مزاحمتی قوت کو توڑنا اور وسائل بشمول عسکری اثاثہ جات کو اپنی گرفت اور کنٹرول میں لانا اس حکمت عملی کا مرکزی حصہ ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ، نظریاتی اور تہذیبی جنگ کے ذریعے اسلام، اسلامی تحریکات اور اسلامی احیا کے تمام مظاہر کو ہدف بنایا جارہا ہے اور اسلام کے ایک ایسے نمونے (version) کو مسلمانوں میں پھیلانے کی کوشش ہورہی ہے جو سیاسی، معاشی اور تہذیبی میدان میں مغرب کے فکر اور نمونے کو قبول کرلے اور دین کو محض نمایشی رسوم تک محدود کردے۔ اس کے لیے روشن خیالی، موڈریشن، صوفی اسلام اور نہ معلوم کس کس عنوان کو استعمال کیا جارہا ہے اور اسلامی احیا اور سامراج مخالف رجحانات کو دہشت گردی، تشدد، جبر اور خونیں تصادم کے عنوان سے بدنام کرنے کی عالم گیر پیمانے پر منظم کوششیں ہورہی ہیں۔
اس خطرناک کھیل میں دانا دشمنوں کے ساتھ نادان دوست بھی اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والا ملک ہے اس لیے وہ خصوصی ہدف بنا ہوا ہے۔ پاکستان عسکری طور پر مضبوط اور جوہری طاقت کا حامل ملک ہے اس لیے اس کی فوجی قوت اور جوہری صلاحیت کو خصوصی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ دنیاے اسلام میں مغربی استعمار کو چیلنج کرنے والی جو بھی قوت ہے اسے کمزور اور غیر مؤثر کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘، مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے جارحانہ کھیل کی مکمل سرپرستی اور مسلم دنیا میں بیرونی افواج کے تسلط کے خلاف ہر مزاحمتی تحریک کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ مصر، جو عرب دنیا کی ایک مؤثر ترین قوت تھا، اُسے اپنے مہروں کے ذریعے غیرمؤثر کر دیا گیا۔ عراق، جو اسرائیل کے لیے ایک خطرہ تھا، اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ افغانستان، جس نے اپنی بے سروسامانی کے باوجود روسی استعمار کا منہ پھیر دیا، اسے مسلسل خانہ جنگی میں جھونک دیا گیا، پھر القاعدہ پر یلغار کے نام پر اس پر اپنا فوجی تسلط قائم کر دیا گیا اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کو بھی نائن الیون کے واقعے کی لپیٹ میں لیتے ہوئے اپنی گرفت میں لے لیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کو جس طرح اپنے قابو میں کیا گیا اور پاکستانی فوج کو عملاً اپنے ہی ملک میں اپنی ہی قوم سے برسرِپیکار کردیا گیا___ یہ سب اس خطرناک کھیل کا حصہ ہے۔
آج جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے اس کی اصل حقیقت کا اِدراک، اس پس منظر کے سمجھے بغیر، ممکن نہیں۔ آج پاکستان میں معصوم انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ مسجدوں، امام بارگاہوں، مزاروں، فوجی تنصیبات، حساس اور فوجی اداروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ ہراعتبار سے قابلِ مذمت اور ایک نقصان کا سودا ہے لیکن اس تباہی سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ دہشت گردی سے دنیا کو پاک کرنے کے نام پر امریکا کی مسلط کردہ جنگ اور اس کی معاونت کے لیے کام کرنے والے اداروں، حکومتوں اور کارندوں کے کردار کو سمجھا جائے اور افراد،گروہوں اور حکومتوں، سب کی ان سرگرمیوں کو روکا جائے جو دراصل دہشت گردی کے فروغ کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ امریکا اور مغربی اقوام کی ظالمانہ پالیسیوں کی تبدیلی اور عسکری، سیاسی، معاشی اور تہذیبی جنگ کے شعلوں کو بجھانے کی حکمت عملی ہی مسئلے کے سیاسی اور پایدار حل کا راستہ ہموار کرسکتی ہے۔ استعماری قوتوں اور ان کے حامیوں اور آلہ کاروں کی خون آشامیوں کو قابو میں لاکر ہی مزاحمتی قوتوں کو مذاکرات کی میز پر لانا اور معاملات کا سیاسی حل نکالنا ممکن ہوسکتا ہے۔ حقیقی مزاحمت کاروں اور جرائم پیشہ عناصر اور دوسروں کے مفاد کے لیے تباہی مچانے والے عناصر کو ایک دوسرے سے الگ کیا جاسکتا ہے اور پھر قانون اور انصاف کے اصولوں کے مطابق ہر نوعیت کے مجرموں کو سزا بھی دی جاسکتی ہے۔ اس طرح اس علاقے کو ایک بار پھر امن اور سلامتی کا گہوارا بنایا جاسکتا ہے۔
ہماری نگاہ میں حالات کو قابو میں لانے کے لیے مندرجہ ذیل امور ضروری ہیں:
اس امر کا اقرار اور اعلان کہ مسئلے کا حل سیاسی ہے، عسکری نہیں، اور عسکری کی ہرشکل کو بند کرنا ضروری ہے تاکہ اصل اسباب کی طرف توجہ دی جاسکے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگ سیاسی مسائل کا حل نہیں۔ امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نے دہشت گردی کو فروغ دیا ہے اور اسے کچھ حلقوں اور علاقوں میں معتبر بنا دیا ہے۔ ۳ہزار افراد کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے لاکھوں افراد کو لقمۂ اجل بنایا جاچکا ہے، لاکھوں کو ہمیشہ کے لیے اپاہج کردیا گیا ہے، لاکھوں کو بے گھر کیا جارہا ہے، ایک کے بعد دوسرے ملک کو تباہ و برباد کردیا گیا ہے۔ معاشی حیثیت سے پوری دنیا کو تباہی کے دہانے پر لے آیا گیا ہے۔ اس ۱۰سالہ جنگ میں صرف امریکا کو چھے سے ۱۰ ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔عراق اور افغانستان کو تباہ کردیا گیا ہے۔ صرف پاکستان میں ۳۶ہزار معصوم انسانوں، بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو ہلاک کیا گیا ہے۔ ۵ہزار سے زائد فوجیوں اور قانون نافذ کرنے والے افراد کو زندگی کی نعمتوں سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ایک لاکھ کے قریب افراد مجروح ہوئے ہیں، ۴۰لاکھ افراد اپنے ہی ملک میں بے گھر ہوگئے ہیں اور نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ معیشت کو ۹۰سے ۱۰۰؍ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ شہروں اور دیہات کا امن تہ و بالا ہوگیا ہے، بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے اور فوج اور قوم کے درمیان محبت، اعتماد اور احترام کا جو رشتہ تھا وہ پارہ پارہ ہوگیا ہے۔ جرائم پیشہ افراد اور ملک کے بیرونی دشمنوں نے اس فضا سے پورا فائدہ اٹھایا ہے اور اپنے مذموم کھیل کے لیے اس دھوئیں کی چادر (smoke screen)کو استعمال کیا ہے۔ حکومت، فوج اور قوم اس دلدل میں پھنستی چلی جارہی ہے۔
ملک میں انتہاپسندی، تشدد، دہشت گردی اور کشت و خون کے اس کھیل کو امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کے کردار سے الگ کر کے نہ سمجھا جاسکتا ہے اور نہ کوئی حل نکالا جاسکتا ہے۔ اگرحکومت اور عسکری قیادت پارلیمنٹ کے متفقہ طور پر منظور شدہ قراردادوں اور پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی کے مرتب کردہ نقشۂ کار پر خلوص، دیانت اور حکمت کے ساتھ عمل کرنے کا راستہ اختیار کرے اور تمام سیاسی اور دینی قوتوں اور اس تصادم سے متاثر ہونے والے تمام عناصر کو شریک کر کے قومی سلامتی کے پروگرام پر عمل پیرا ہو، تو ایک مختصر وقت میں ہم اس جنگ سے نکل کر قومی تعمیروترقی کے لیے سرگرم ہوسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں سیاسی قیادت اور عسکری ذمہ داران کو باہم مشاورت سے اور دستور اور سیاسی نظام کی بالادستی کے اصول کے تحت نقشۂ کار بنانا ہوگا۔ اس سلسلے میں یہ بھی بہت ضروری ہے کہ افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کا انخلا ہو، افغانستان میں قومی سطح کی تمام اہم قوتوں کو باہمی مفاہمت کی بنیاد پر ایک میثاقِ ملّی پر مجتمع کیا جائے اور ایک دوسرے کی حاکمیت کے مکمل احترام کے ساتھ افغانستان اور اس کے تمام ہمسایہ ممالک علاقے کی سلامتی اور استحکام کا نقشہ تیار کرنے میں ایک دوسرے کے ممدومعاون ہوں۔
پاکستان کو امریکا کی گرفت سے نکالنے کے لیے ایک ایسی آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل ناگزیر ہے، جس کا مرکز و محور پاکستان کی آزادی، سلامتی، حاکمیت اور ترقی کے حصول کے لیے اس کے حقیقی مفادات کا تحفظ ہو، اور علاقے کے دوسرے تمام ممالک سے مشترک مفادات، باہمی تعاون اور انصاف اور بین الاقوامی قانون اور کنونشنز کی روشنی میں دوستی اور معاونت کا اہتمام ہو۔ یہ دیوانے کا خواب نہیں، وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور یہ پاکستان کی قیادت اور عوام کی ترجیح اوّل ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں یہ بھی ضروری ہے کہ امریکا کے ساتھ تعلقات کی نئی بنیادوں پر تشکیل کی جائے۔ دہشت گردی کی جنگ سے نکلنے کا مقصد اور ہدف دوٹوک انداز میں واضح کردیا جائے۔ امریکا کی معاشی امداد سے، جس کا ہماری معیشت میں کوئی بنیادی کردار نہیں اور جس کے بغیر معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر منظم کیا جاسکتا ہے، خوش اسلوبی سے نجات حاصل کی جائے۔ جن شرائط (terms of engagement) پر گذشتہ ۱۰سال سے معاملہ ہو رہا ہے، وہ سراسر پاکستان کے مفادات سے متصادم ہیں اور اس بارے میں دو آرا نہیں کہ پاکستان کی معیشت کو اس جنگ سے، اس امداد کے مقابلے میں جو ملی ہے، کم از کم ۸گنا زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اس امداد کا بہت کم حصہ پاکستان اور اس کے غریب عوام کے حصے میں آیا ہے، اور اس کے عوض ہماری آزادی اور عزت دونوں کا سودا ہوگیا ہے۔ ملک کی معیشت ٹھٹھر کر رہ گئی ہے۔ قرضوں کا بوجھ ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ گیا ہے۔ ملک پر اس کی تاریخ کے پہلے ۶۱برسوں میں قرض کا جو بوجھ پڑا ہے، وہ ساڑھے چار ہزار ارب روپے تھا، لیکن ان ساڑھے تین برسوں میں یہ بڑھ کر ۱۰ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ گویا ۶۱برسوں کے قرض ایک طرف، اور صرف ان تین برسوں کے قرض دوسری طرف۔ آج ہر وہ بچہ جو پاکستان میں آنکھیں کھول رہا ہے، ۶۰ہزار روپے سے زیادہ کا مقروض پیدا ہو رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو جن وسائل سے نوازا ہے ، وہ خودانحصاری کی بنیاد پر ایک ترقی یافتہ ملک بننے اور ترقی کی دوڑ میں دوسرے ممالک سے آگے نکلنے کے لیے کافی ہیں۔یہ ہماری ناکام پالیسیاں اور نااہل اور بددیانت قیادتیں ہیں جن کی وجہ سے یہ قدرتی دولت سے مالا مال ملک دوسروں کا دست نگر بن گیا ہے۔ اس وقت بیرونی اور اندرونی قرضوں پر سود اور قسط کی ادایگی پر ۹۰۰؍ارب روپے سالانہ خرچ کرنے پڑرہے ہیں،جب کہ حکومتی سطح پر تمام ترقیاتی منصوبوںپر سال میں بمشکل ۲۸۰؍ارب روپے خرچ ہو رہے ہیں اور ان کا بھی بڑا حصہ بدعنوانی کی نذر ہو رہا ہے۔ اس وقت ۳۲۰۰ ترقیاتی منصوبے نامکمل پڑے ہیں اور ان پر جو اربوں روپے خرچ ہوچکے ہیں وہ خسارے کا سودا ہیں۔
ملک میں کرپشن کا دور دورہ ہے اور اس کا اندازہ بھی کرنا مشکل ہے کہ اس کالے کنویں (black hole) میں کتنی قومی دولت ضائع ہو رہی ہے۔ محتاط اندازہ ۶۰۰ سے ۱۰۰۰؍ ارب روپے سالانہ کا ہے۔ اس پر مستزاد وہ شاہ خرچیاں ہیں جو حکومت اور بیوروکریسی کی پہچان بن گئی ہیں۔ ایسی ایسی ہوش ربا مستند داستانیں ٹی وی چینل پر آئی ہیں کہ یقین نہیں آتا۔ لیکن کوئی گرفت اور سزا نہیں۔ سپریم کورٹ کو بھی ’’احترام، احترام‘‘ کرتے، عملاً بے اثر کر دیا گیا ہے۔ دوسری طرف وزیروں، مشیروں اور خصوصی معاونین کی ریل پیل ہے۔ مرکز میں وزرا کم کرنے کا اعلان کیا گیا مگر جس دن امریکا ایبٹ آباد پر حملہ کر رہا تھا، اس وقت ایوانِ صدر میں ڈیڑھ درجن نئے وزرا حلف لے رہے تھے۔ سب سے غریب صوبے کا یہ حال ہے کہ اس کی اسمبلی میں ۶۰ ارکان ہیں مگر وزیروں اور مشیروں کی تعداد ۵۵ تک پہنچ چکی ہے۔ وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ غیرترقیاتی اخراجات میں ۳۰ فی صد کمی کی جائے گی مگر عملاً ان میں اضافہ ہوا ہے، براے نام بھی کمی نہیں کی گئی۔
ادھر آمدنی کا یہ حال ہے کہ فیڈرل بیورو آف ریونیو کے مطابق ۱۵۸۰؍ ارب روپے سالانہ وصول ہو رہے ہیں، جب کہ ۱۱۰۰؍ارب روپے سالانہ ٹیکس چوری کی نذر ہو رہے ہیں۔ اگر اس کا تین چوتھائی وصول کرلیا جائے تو بجٹ کا خسارہ ختم ہوسکتا ہے۔ پھر اہلِ ثروت کے بڑے بڑے گروہ ہیں جو ٹیکس کے نیٹ ورک میں آ ہی نہیں رہے۔ ان میں بڑے زمین دار، غیرمنقولہ جایدادوں کے مالک اور تاجر، اہم پیشہ ور افراد، جن میں وکلا، ڈاکٹر، انجینیر، اکائونٹنٹس وغیرہ شامل ہیں۔ اور پھر اسٹاک ایکسچینج کے تاجر اور وہاں حصص کا کاروبار کرنے والے اور اس میں بڑی رقوم کا منافع کمانے والے ہیں۔ اس وقت ٹیکس کی حد ۳لاکھ روپے سالانہ آمدنی ہے، اس حد کو بڑھا کر ۴ یا ۵ لاکھ بھی کیا جاسکتا ہے، مگر جس کی آمدنی بھی ۵لاکھ سالانہ یا اس سے زیادہ ہو، وہ واقعی ٹیکس دے تو حکومت کی آمدنی دگنی ہوسکتی ہے۔ اس وقت ۱۸کروڑ افراد کے ملک میں صرف ۱۸لاکھ افراد ٹیکس ادا کر رہے ہیں، جب کہ یہ تعداد کسی اعتبار سے بھی ۴۰سے ۵۰لاکھ سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ٹیکس کے نیٹ ورک کو ایمان داری اور فرض شناسی کے ساتھ وسیع کیا جائے تو نہ حکومت کو قرضوں کی ضرورت ہو اور نہ بجٹ کا خسارہ ہمارا منہ چڑائے___ لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ملک کو دیانت دار اور لائق قیادت میسرہو، کرپشن کا خاتمہ کیا جائے، ملک میں قانون اور انصاف کا بول بالا ہو، احتساب کا مؤثر نظام موجود ہو، تمام ادارے اپنا اپنا کام دستور کے دائرے میں انجام دیں۔ معاشی پالیسیاں عوام دوست ہوں اور ترقی اور فلاحِ عامہ کے لیے بنائی جائیں اور ان پر دیانت سے عمل ہو۔
آج حالات بلاشبہ بہت ہی خراب ہیں، مگر اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو ان تمام مادی اور انسانی وسائل سے مالامال کیا ہے جو ترقی اور خوش حالی کے لیے ضروری ہیں___ اصلاحِ احوال کے لیے ضروری ہے کہ اس وقت جو بنیادی خرابیاں ہیں، ان پر قابو پانے کی سرتوڑ کوشش کی جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم اللہ کے حضور اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور اصلاحِ احوال کے لیے خلوص اور دیانت سے زندگی کا ایک نیا ورق کھولیں۔ سب سے اہم چیز پاکستان کے قیام کے اصل مقصد اور عوام اور تاریخ سے کیے جانے والے وعدے کا پُرخلوص اعادہ ہے۔ علامہ اقبالؒ اور قائداعظم محمدعلی جناحؒ نے جو وعدہ اللہ اور عوام سے کیا تھا وہ یہ تھا کہ:
پاکستان کے نام سے ہم جو خطۂ زمین حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ اسلام کا گہوارا اور دورِحاضر میں اسلامی نظام کی تجربہ گاہ ہوگا اور ہم اپنے لیے اور پوری دنیا کے لیے دورِ جدید میں اسلام کا نمونہ پیش کرنے کی کوشش کریںگے۔
۱۹۴۰ء کی قراردادِ پاکستان اور علامہ اقبال کے ۱۹۳۰ء کے الٰہ آباد خطبۂ صدارت کی یہی روح ہے۔ قائداعظم نے ۱۹۴۰ء کے کنونشن سے جو خطاب کیا، حصولِ پاکستان کے مقاصد کے سلسلے میں قیامِ پاکستان سے قبل ایک سو سے ایک اور قیامِ پاکستان کے بعد ۱۴ مرتبہ اعلانات کیے، مزیدبرآں ۱۹۴۶ء کے مسلم لیگ لیجسلٹر کنونشن کی قرارداد، ۱۹۴۹ء کی قرارداد مقاصد اور پھر ۱۹۵۶ء، ۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۳ء کے دساتیر میں قرارداد مقاصد اور ریاست کے لیے پالیسی کے رہنما اصولوں کی شکل میں ان وعدوں اور اعلانات کی قانون کی زبان میں تکرار___ ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی تہذیب و تمدن کا احیا ہوگا اور اسلام عملاً یہاںنافذ ہوگا۔
آج امریکا اور نام نہاد لبرل حلقوں کی طرف سے پاکستان کے اسلامی تشخص کو مجروح کرنے اور ایک نظریاتی کے بجاے محض ’قومی ریاست‘ بنانے کی سرگرمیوں کا سختی سے نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ یہ ملک میں نظریاتی کش مکش اور انتشار پھیلانے کی سازش ہے اور اس کا بھرپور اور مؤثر مقابلہ ضروری ہے۔
دوسری چیز پاکستان کو امریکا کی سیاسی اور معاشی غلامی سے نکالنا اور آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل ہے۔ نیز ملک کی معیشت، تعلیم اور تہذیبی اور سماجی زندگی کو عوام کے ایمان اور عزائم کے مطابق ڈھالنا اور خاص طور پر معاشی خودانحصاری اور عوام کی فلاح اور خوش حالی پر مرکوز کرنا ہے۔
تیسری چیز دستور کے دیے ہوئے نقشے کے مطابق:
چوتھی چیز سیاسی نظام اور سیاسی قیادت پر عوام کا اعتماد اور ان کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے۔ اس وقت ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ عوام نے حکمرانوں کو جو مینڈیٹ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں دیا تھا، اسے بُری طرح پامال کردیا گیا ہے۔ عوام نے جن تین باتوں کا اپنے مینڈیٹ کے مرکزی پیغام کے طور پر بہت ہی واضح انداز میں اظہار کیا، وہ یہ تھیں:
۱- جنرل پرویز مشرف کے دور، اس کے طرزِ حکمرانی اور اس کی پالیسیوں پر مکمل عدم اعتماد کا اظہار___ اور صرف چہروں کی نہیںپالیسیوں اور طرزِ حکمرانی کی تبدیلی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ایک جماعت کو اکثریت حاصل نہ ہوئی بلکہ تبدیلی اور ایک نئے دور کے آغاز کی تمنا جس میں ملک کا مفاد، عوام کے حقوق اور حقیقی جمہوری طرزِ حکومت کا فروغ ان کا اصل ہدف تھا۔
۲- امریکا کی گرفت سے آزادی، امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے علیحدگی، آزاد خارجہ پالیسی اور ملکی مفادات، علاقے میں امن اور اُمت مسلمہ کی مضبوطی کو خارجہ امور اور ملکی سیاست کا مرکز و محور بنانا۔
۳- عدلیہ کی آزادی، فوج کے سیاسی کردار کی نفی، مرکز میں صوبوں کے درمیان اختیارات کی منصفانہ تقسیم، دستور کی اس کی اصل اسلامی، جمہوری، وفاقی اور فلاحی شناخت کے مطابق آمرانہ دور کی دراندازیوں سے پاک کرکے بحالی، ملک کو صحیح جمہوری خطوط پر منظم اور مضبوط کرنا، نیز بلوچستان کے ساتھ جو زیادتیاں اس زمانے میں ہوئی ہیں، ان کا فوری تدارک۔
یہ تین چیزیں وہ بنیاد تھیں جن پر عوام نے اپنا فیصلہ دیا۔ یہی وجہ تھی کہ انتخاب کے بعد جب حکومت کی تشکیل کا مرحلہ آیا تو ایک نوعیت کا قومی اتفاق راے پیداکرنے کی کوشش کی گئی۔ وزیراعظم کا انتخاب پارٹی بنیادوں پر کرنے کے بجاے پورے ایوان نے ان کو اعتماد کا ووٹ دیا اور جن جماعتوں نے اصول کی بنیاد پر انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، انھوں نے بھی نئے قومی ایجنڈے پر حکومت کے کارفرما ہونے پر اسے تعاون کا یقین دلایا۔ لیکن چند ہی مہینوں میں یہ ساری توقعات خاک میں مل گئیں اور صدر زرداری نے مفاہمت کے نام پر مفادات اور منافقت کی سیاست کو فروغ دیا، سیاسی عہدوپیمان کو مذاق بنا دیا، کرپشن اور یاردوستوں کو نوازنے (cronyism) کی بدترین مثال قائم کی۔ اپنی پارٹی کے منشور اور اس میثاقِ جمہوریت کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جسے دورِ نو کا چارٹر بنا کر پیش کیا تھا۔ امریکا کی دراندازی کو اور بھی کھُل کھیلنے کا موقع دیا اور اپنی کرپشن کو تحفظ دینے کے لیے این آر او جیسے کالے قانون کو دستور عمل بنایا، عدالت کی بحالی کے لیے ہر ممکنہ رکاوٹ کھڑی کی اور جب مجبوراً اسے بحال کرنا پڑا تو اس کے بعد سے اس سے تصادم اور عدالت کے ہراہم فیصلے کو ناکام کرنے کے لیے سوچے سمجھے اقدامات کیے۔ امریکا کی مداخلت اتنی بڑھی کہ ڈرون حملے روز کا معمول بن گئے اور کھلے بندوں امریکا نے ایک متوازی نظام ملک میں قائم کرلیا اور اپنی مرضی سے جب چاہا ہماری حاکمیت کو پامال اور ہماری عزت کو داغ دار کیا۔ پھر معیشت کے میدان میں اس حکومت نے پہلے دن سے غلط اقدامات کی بھرمار کر دی، نااہلوں کو آگے بڑھایا اور تمام اداروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی دوڑ شروع کردی جس نے پوری دستوری اسکیم کو درہم برہم کر دیا۔
معیشت ایک کے بعد دوسرے بحران سے دوچار ہوئی، ترقی کی رفتار دو اور تین فی صد کے درمیان پھنس گئی۔ افراطِ زر اور بے روزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی۔ بجلی کا بحران، گیس کی قلت، پٹرول اور اس کی مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ، اشیاے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں، لاقانونیت کا دوردورہ ہے اور کسی کی جان، مال اور عزت کوئی چیز محفوظ نہیں ہے۔ خراب حکمرانی (bad governance) اور عوام کے مسائل اور مشکلات کے باب میں مجرمانہ بے حسی اس کا شعاربن گئے۔ حد یہ کہ خود اپنی قائد، جس کے نام پر اقتدار حاصل کیا، اس کے قاتلوں کا سراغ لگانے میں ناقابلِ یقین بے توجہی، بلکہ وہ رویہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں قاتلوں کو تحفظ دیے جانے کے شبہات نے جنم لیا۔ جنرل پرویز مشرف سے مفاہمت اور پھر اس کی ملک سے باعزت رخصتی اور جن کو ’قاتل لیگ‘ کہا تھا ان کو شریکِ اقتدار کرنا اور جن کے بارے میں جولائی ۲۰۰۷ء کی لندن کانفرنس میں متفقہ طور پر طے کیاتھا کہ ان کے ساتھ کوئی سیاسی مفاہمت یا شراکت نہیں ہوگی، ان کو نہ صرف گلے سے لگایا بلکہ ان کی خوشنودی کے لیے ہراصول اور ضابطے کا کھلے بندوں خون کیا، جس کے نتیجے میں کراچی لاقانونیت کی بدترین تصویر پیش کرنے لگا۔ ان تین برسوں میں صرف کراچی میں ٹارگٹ کلنگ (ہدفی قتل) کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اور وہاں کی معیشت بُری طرح متاثر ہوئی۔
ان سوا تین برسوں میں حکومت نے جو کارنامے انجام دیے ہیں ان کے نتیجے میں جو صورت حال پیدا ہوئی ہے اسے ان چار نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:
۱- سیاسی اور اخلاقی جواز نہیں رہا ہے۔
۲- اعتبار اُٹھ گیا ہے۔
۳- نااہلیت ثابت ہوگئی ہے۔
۴- کرپشن کا دور دورہ ہے۔
یہ وہ چیزیں ہیں جن کی وجہ سے وہ مینڈیٹ جو عوام نے دیا تھا، اپنا جواز کھو چکا ہے۔ مینڈیٹ اچھی حکمرانی (good governance) کے لیے تھا، محض پانچ سال پورے کرنے اور بدترین اور کرپٹ ترین اندازِ حکمرانی کے لیے نہیں تھا۔ ایسے حالات میں دستوری مدت سے قبل انتخابات اور عوام سے نیا مینڈیٹ حاصل کرنے کی ضرورت جمہوریت کا ایک بنیادی اصول ہے۔ بھارت میں گذشتہ ۶۳برس میں نو مرتبہ انتخابات دستوری مدت پوری کرنے سے پہلے ہوئے ہیں۔ اسی طرح انگلستان میں دوسری جنگ کے بعد سے اب تک کئی بار پارلیمنٹ کے وسط مدتی انتخابات منعقد کیے گئے ہیں۔ نئے انتخاب کا انحصار حکومت کی کارکردگی اور عوام کے اعتماد یا بے اعتمادی کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ یہ حکومت اپنا جواز کھوچکی ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ نئے انتخابات کا انعقاد ہو، جو غیر جانب دار اور آزاد الیکشن کمیشن کے تحت نئے انتخابی قواعد کے مطابق ہوں۔ اس لیے کہ ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے موقع پر جو ووٹروں کی فہرست تھی اس میں ۴۵ فی صد بوگس ووٹ تھے جس کا اعتراف نادرا اور عدالتِ عالیہ نے کیا ہے۔
ملک کو سیاسی انتشار، معاشی بدحالی اور امریکا کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے یہ سب سے معقول اور جمہوری اعتبار سے معتبر راستہ ہے۔ ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی کوشش اور فوج کی کسی بھی شکل میں مداخلت حالات کو بگاڑنے کا ذریعہ تو ہوسکتے ہیں، اصلاحِ احوال کی طرف پیش رفت کا موجب نہیں ہوسکتے۔
اس کے ساتھ اس امر کی ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترک اجلاس کی متفقہ قرارداد پر اس کے الفاظ اور روح کے مطابق فوری طور پر عمل ہو، جس کے کم از کم تقاضے یہ ہیں:
اوّل: ۲ مئی کے واقعے کے تمام پہلوئوں کا بے لاگ اور غیر جانب دارانہ جائزہ لینے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی آزاد کمیشن کا قیام جو انٹیلی جنس کی ناکامی اور قومی سلامتی کے تحفظ میں ناکامی (security failure) کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے اور پوری پیشہ ورانہ مہارت اور دیانت کے ساتھ تمام حقائق پارلیمنٹ اور قوم کے سامنے لائے۔ عوام کا اعتماد حکومت اور دفاع اور قومی سلامتی کے اداروںپر متزلزل ہوگیا ہے۔ ۲۲مئی کے واقعے نے حالات کی نزاکت اور مخدوش صورت حال کو اور بھی گمبھیر کردیا ہے۔ اس لیے اس کمیشن کا فی الفور قیام ملک کی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔
دوم: امریکا سے تعلقات پر مکمل نظرثانی کا آغاز بھی فوری طور پر ہوجانا چاہیے۔ قوم کے سامنے وہ سارے حقائق آنے چاہییں جن پر آج تک پردہ پڑا رہا ہے۔ کچھ حقائق امریکا کے عملی رویے اور جارحانہ کارروائیوں سے اور کچھ وکی لیکس کے انکشافات سے سامنے آرہے ہیں اور کچھ ریمنڈ ڈیوس کے واقعے سے سامنے آئے ہیں۔ ان پس پردہ حقائق نے کچھ بنیادی سوالات کو بھی جنم دیا ہے جن کا جواب قوم اور پارلیمنٹ کے لیے جاننا ضروری ہے۔ ماضی میں جو بھی کھلے عام یا خفیہ مفاہمت تھی، اس کو ختم ہونا چاہیے اور تمام معاملات کو دو اور دو چار کی طرح تحریری طور پر طے ہونا چاہیے اور وہ کابینہ اور پارلیمنٹ کے علم میں لائے جانے چاہییں۔ اس قرارداد اور پارلیمنٹ کی اس سے پہلے کی قراردادوں کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہے کہ پارلیمنٹ کی نگاہ میں:
۱- خارجہ پالیسی کو آزاد ہونا چاہیے اور امریکا سے خودمختارانہ برابری (sovereign equality) کے اصول کی بنیاد پر معاملات طے ہونے چاہییں جن کا محور پاکستان کی آزادی، حاکمیت، نظریاتی تشخص، اور اس کے سیاسی، معاشی اور علاقائی مفادات کا مکمل تحفظ ہے۔
۲- دہشت گردی کے خلاف جنگ سے باعزت دُوری اور اس اصول کی بنیاد پر نئی حکمت عملی کا تعین کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ اصل حل سیاسی ہے اور اس کے لیے مذاکرات کے سوا کوئی طریقہ نہیں۔ ان مذاکرات میں تمام متعلقہ عناصر (stake holders) کی شرکت لازمی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مکالمہ (Dialogue) ترقی (Development) اور باز رکھنا (Deterrence) (یعنی تین Ds) ہی صحیح طریقہ ہے۔
سوم: پاکستان کی حاکمیت اور خودمختار سرحدوں (sovereign borders) کا تحفظ اولین اہمیت کا مسئلہ ہے۔ ڈرون حملے ہماری حاکمیت کی کھلی خلاف ورزی ہیں اور امریکا یا کسی کی طرف سے بھی کوئی یک طرفہ مداخلت ہماری حاکمیت اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے جسے کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا کو اس سلسلے میں صاف وارننگ دے دی جائے اور اگر اس کے بعد بھی کوئی ڈرون حملہ ہو یا کسی بھی شکل میں فوجی مداخلت ہوتی ہے تو ناٹو افواج کی راہداری کی سہولتیں فوراً ختم کی جائیں اور تمام دفاعی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال ہو۔ ہم امریکا سے تصادم نہیںچاہتے، لیکن امریکا کو اپنی سرزمین پر اس نوعیت کے جارحانہ فوجی اقدامات کی اجازت بھی نہیں دے سکتے۔ اگر کیوبا ۱۹۶۰ء سے امریکا کی دراندازیوں کا مقابلہ کرسکتا ہے اور جنوبی امریکا کے نصف درجن سے زیادہ ممالک امریکا کو اس کی اپنی حدود میں رکھنے اور اپنی عزت اور آزادی کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہوسکتے ہیں، اگر شمالی کوریا امریکا اور جنوبی کوریا دونوں کو اپنی حدود کو پامال کرنے سے روک سکتا ہے تو پاکستان جو ایک ایٹمی طاقت ہے، جس کے عوام نے اپنی افواج کو دفاع کے لیے ناقابلِ تسخیر قوت کی فراہمی کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر وسائل فراہم کیے ہیں،وہ ملک کی سرحدوں اور قیمتی اثاثوں کا دفاع کیوں نہیں کرسکتیں، جب کہ ہمارے عسکری قائدین پبلک اور پرائیویٹ ہر موقع پر یقین دلاتے ہیں کہ ان شاء اللہ دفاع کا حق ادا کریںگے، ان کو صرف سول حکومت کی اجازت اور اشارے کی ضرورت ہے۔
چہارم: ملک کے سلامتی کی صورت حال (security paradigm) پر بھی ازسرِنو غور کی ضرورت ہے۔ اس میںمشرق اور مغرب ہرسمت سے جو خطرات ممکن ہیں، ان کا ادراک ضروری ہے۔ امریکا کے رویے کی وجہ سے خطرے کے ادراک (threat perception) پرنظرثانی کی جو ضرورت ہے، اس پر عسکری اور سیاسی قیادت دونوں کو فوری طور پر توجہ دینے اور سلامتی کی حکمت عملی کو ازسرِنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکلنے کے ساتھ ساتھ اس پر بھی غور کرنا ہوگا کہ پاکستان کی سرزمین ملک کے اندر یا ملک کے باہر، دوسروں کے لیے کسی نوعیت کی بھی دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دیا جائے، اور اس کے لیے دہشت گردی کے خلاف جس حکمت عملی، اختیار اور قانون سازی کی ضرورت ہے اس پر فوری توجہ دی جائے۔ دہشت گردی اور جنگ آزادی دو لگ الگ چیزیں ہیں لیکن حقیقی دہشت گردی کسی بھی ملک کے لیے قابلِ برداشت نہیں۔ البتہ ان اسباب کی اصلاح بھی ضروری ہے جو جمہوری اور قانونی راستوں کو غیرمؤثر بناتے ہیں اور لوگوں کو غلط راستوں کی طرف دھکیلتے ہیں۔ اس کے لیے سیاسی، نظریاتی، اخلاقی اور قانونی تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر ایک جامع حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔
پنجم: پارلیمنٹ کی قراردادوں کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ پاکستان اور اس کے سفارت کار پاکستان کے موقف کو دنیا کے سامنے دلیل کے ساتھ اور مؤثر ترین انداز میں پیش کریں اور سفارتی فعالیت (activism) کا راستہ اختیارکیا جائے۔ آج پاکستان کے امیج کو خراب کرنے اور اسے ایک ناکام یا ناکامی کی طرف بڑھتی ہوئی ریاست کی شکل میں بڑے منظم انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ بلاشبہہ ہمیں اپنے گھر کی اصلاح کرنی ہے لیکن اس کے ساتھ اپنے موقف کے ابلاغ اور دنیا میں دوستوں کو متحرک کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
ہمارے بعض دانش ور، میڈیا کے بعض حلقے اور وہ عناصر جو پاکستان کو امریکا کے زیراثر رکھ کر عوام کی آرزوئوں کے برخلاف سیکولر اباحیت پسند معاشرہ چاہتے ہیں ملک کے خیرخواہ بن کر یہ نقشہ کھینچ رہے ہیں اور ڈرا رہے ہیں___ اگر امریکی امداد بند ہوگئی تو ہماری معیشت بالکل بیٹھ جائے گی اور پاکستان ختم ہوجائے گا۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے پہلے چار دفعہ: ۱۹۶۵ء، ۱۹۷۱ء، ۱۹۸۹ء اور ۱۹۹۸ء میں امریکا نے اپنی ہر طرح کی معاشی اور عسکری معاونت ختم کر دی تھی لیکن الحمدللہ! پاکستانی معیشت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا اور ترقی کا سفر جاری رہا۔ موجودہ حالات میں یہ حکومت یا کوئی دوسری حکومت عزت و وقار کے ساتھ امریکی امداد کو ٹھکرا دے تو پاکستان کے عوام کے لیے خیروبرکت کا باعث ہوگا اور ہماری معیشت اپنے پائوںپر کھڑی ہوجائے گی۔ عوام بھی ایک جذبے سے بڑھ کر اپنا حصہ ادا کریں گے، ٹیکس بھی زیادہ ملیں گے اور کرپشن میں بھی کمی آئے گی۔
سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم دنیا کے مظلوم انسانوں اور مسلم اُمت کے عام نفوس تک پہنچیں اور ان کی قوت کو اپنے لیے مسخرومنظم کریں۔ ایسے حکمرانوں سے تائید ہماری قوت کا ذریعہ نہیں جو خود ظلم و استبداد کے مرتکب ہوں۔ ہماری اصل ہم آہنگی اپنے ملک کے عوام اور تمام دنیا کے عوام سے ہونی چاہیے جو اس ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے برأت کا اعلان کرتے ہیں۔ مسلم دنیا کے ۹۰ فی صد عوام اس جنگ کو ایک ناحق جنگ سمجھتے اور امریکا کو اس کی مسلم کش پالیسیوں کی وجہ سے اپنا دوست نہیں سمجھتے۔ اب خود امریکی راے عامہ کے تازہ ترین جائزوں کی روشنی میں آبادی کے ۶۲ فی صد نے اس جنگ سے امریکا کے نکلنے کے حق میں راے کا اظہار کیا ہے۔
آخری چیز ملک کی معیشت کو سنبھالنا، نئی معاشی پالیسی کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد کا انتظام ہے۔ معیشت کی اصلاح کا بڑا قریبی تعلق سیاسی تبدیلی اور آزاد خارجہ پالیسی اور علاقائی امن و سلامتی کے لیے علاقے کے ممالک کے ساتھ مل کر نئے دروبست کے قیام پر ہے، اور حالات اسی طرح اشارہ کر رہے ہیں۔ اس تبدیلی کے لیے موجودہ قیادت سے توقع عبث ہے۔ اس کا راستہ عوام کو متحرک کرنے اور عوام کی قوت سے دستور کے مطابق جمہوری عمل کے لیے نئی قیادت کو زمامِ کار سنبھالنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ آج پاکستان ہم سے اس جدوجہد کا مطالبہ کر رہا ہے۔
۲مئی ۲۰۱۱ء پاکستان کی ۶۴سالہ تاریخ کے سیاہ ایام میں سیاہ ترین دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکا کی دوستی کی چھتری کے تلے چلائے جانے والے نیزوںکے زخم اس ملک کے جسم کے ایک ایک حصے میں پیوست ہیں لیکن ڈرون حملوں کی نہ ختم ہونے والی بوچھاڑ کے ساتھ جو فوجی کارروائی یکم اور ۲مئی کی درمیانی شب ایبٹ آباد کے حسّاس علاقے میں امریکا کے چار ہیلی کاپٹروں اور ۲۴خصوصی کمانڈوز (SEALS) کے ذریعے ہوئی___ جس کے نتیجے میں مبینہ طور پر نہتے شیخ اسامہ بن لادن، اس کے غیرمسلح صاحب زادے حمزہ بن لادن، اس کے دو رفقاے کار اور ان میں سے ایک کی اہلیہ کو شہید کیا گیا اور ان کے مکان سے اپنے مطلب کا قیمتی سامان اور شیخ اسامہ اور حمزہ کی لاشوں کو بے دردی سے گھسیٹتے ہوئے ساتھ لے جایا گیا___ وہ پاکستان کی آزادی، حاکمیت، خودمختاری اور عزت پر حملہ ہے۔ بین الاقوامی قانون کی زبان میں اسے ایک نوعیت کا اعلانِ جنگ بھی تصور کیا جاسکتا ہے۔ اس جرم کے مختلف پہلوئوں پر گفتگو کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصراً ان اُمور کو ذہن میں تازہ کرلیا جائے جو اس فوجی اقدام کی اصل حقیقت کو سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔
نائن الیون کے الم ناک اور قابلِ مذمت واقعے کے بعد، امریکا نے اپنے ایجنڈے کے مطابق القاعدہ کی سرکوبی کے عنوان سے افغانستان اور پھر عراق کو یک طرفہ جنگ کی آگ میں جھونک دیا اور پاکستان کو تباہ کرنے اور پتھر کے زمانے میں پہنچا دینے کی دھمکی دے کر سات شرم ناک مطالبات کے ذریعے اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔خود کو ’کمانڈو صدر‘ کہنے والے سربراہِ مملکت نے امریکی غلامی کا نیا طوق بخوشی پہن لیا اور امریکا کو فوجی اڈے، راہداری اور وہ تمام سہولتیں اور مراعات دے دیں جن کا امریکا نے مطالبہ کیا اور اس طرح ایک ہمسایہ مسلمان ملک پر امریکی فوج کشی کے لیے اپنے کندھے پیش کر دیے۔ جس جنگ کا ہم سے کوئی دُور و نزدیک کا واسطہ بھی نہ تھا، یوں اس میں ہم امریکا کے طفیلی کی حیثیت سے شریک ہوگئے۔ جس پالیسی کا آغاز پرویز مشرف نے کیا تھا، ۲۰۰۷ء کے این آر او اور ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتیجے میں برسرِاقتدار آنے والی سول حکومت نے بھی اسی غلامانہ پالیسی کو جاری رکھا۔
اس کے نتیجے میں ملک کے طول و عرض میں دہشت گردی اور لاقانونیت کا دور دورہ ہوگیا۔ امریکا نے پورے ملک میں اپنے جاسوسوں اور فوجی اور کرایے کے سورمائوں (private security personnel) کا جال بچھا یا۔ ملک کی معیشت اس پالیسی کے نتیجے میں تباہ و برباد ہوئی۔ سرکاری اداروں کے اندازے کے مطابق ۴۰ہزار سے زیادہ عام شہری اور فوجی اس جنگ میں لقمۂ اجل بن چکے ہیں، اس سے دگنی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں اور صرف پہلے آٹھ برسوں میں عملاً معیشت کو ۶۸ ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے جس میں ۸۲ ارب روپے کا وہ نقصان شامل نہیں ہے جو راہداری کی سہولت دینے کی وجہ سے ملک کی سڑکوں، پُلوں اور انفراسٹرکچر کو ہوا ہے۔ اس سب کے باوجود امریکا کی ’ڈو مور‘ کی رَٹ میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور سول اورفوجی دونوں قیادتوں اور سرکاری سراغ رساں ایجنسیوں پر عدمِ اعتماد، منافقت اور دوغلے پن کے الزامات کی صبح و شام بوچھاڑ ہوتی رہتی ہے۔ امریکا کی پالیسی کو اگر تین الفاظ میں سمیٹنے کی کوشش کی جائے تو اسے 3-Bs کہا جاسکتا ہے، یعنی:
اس کے ساتھ جسے معاشی امداد اور فوجی تعاون اور ٹریننگ کہا جاتا ہے، اس کے ذریعے ایک طرف ملک کی معیشت پر امریکا نے اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے تو دوسری طرف زندگی کے ہرشعبے میں اپنے اثرونفوذ کو بڑھانے اور اپنے ہرکاروں کو آگے بڑھانے کا کام انجام دیا ہے۔ یہ سیاسی اور معاشی غلامی کا ایک نیا بندوبست ہے جسے ماضی کے سامراجی نظام کی ایک صاف ستھری شکل (refined version) کہا جاسکتا ہے۔
اس سلسلے میں پاکستان کی سالمیت پر سب سے بڑا وار ڈرون حملوں کے ذریعے کیا گیا جس کا آغاز ۲۰۰۴ء میں ہوا۔ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۷ء تک ۹ حملے ہوئے جن میں ۱۱۲؍افراد شہید کیے گئے۔ ۲۰۰۸ء میں یہ تعداد ۳۳، ۲۰۰۹ء میں ۵۳، اور ۲۰۱۰ء میں ۱۱۸ ہوگئی۔ ۲۰۱۱ء کے پہلے تین مہینوں میں ۲۴ حملے ہوئے۔ ان حملوں میں ۲۵۰۰؍ افراد ہلاک اور ۱۰ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ امریکا کے تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ایک مبینہ دہشت گرد کے مقابلے میں ۱۰ عام معصوم شہری، مرد، خواتین اور بچے نشانہ بنے ہیں، جب کہ کچھ دوسرے آزاد اداروں کے مطابق یہ تناسب ایک اور ۵۰ کا ہے۔ ان ڈرون حملوں کی ملک کے تمام حلقوں، اور پارلیمنٹ کی متفقہ قراردادوں میں بھرپور مذمت کی گئی اور انھیں ملک کی حاکمیت پر حملہ، معصوم انسانوں کا قتلِ ناحق اور سیاسی اعتبار سے امریکی مخالفت کے رجحان کو تقویت دینے کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ دنیا بھرمیں بشمول امریکا بنیادی حقوق کے تحفظ کے اداروں نے ان کی مذمت کی ہے اور اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی ان کو عالمی قانون کے خلاف اور امنِ عالم کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے لیکن امریکا کے رویے میں نہ صرف کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ اس نے اس سے آگے بڑھ کر تین بار اپنے فوجیوں کے ذریعے مختصر کارروائیاں کی ہیں۔
اب حکومت کی بے حسی سے شہ پاکر ۲مئی کو وہ کارروائی کی ہے جسے ہراعتبار سے ایک آزاد اور خودمختار ملک پر (جسے امریکا اپنا حلیف اور اسٹرے ٹیجک پارٹنر بھی کہتا ہے) حملہ اور بین الاقوامی قانون کی زبان میں کھلی جارحیت اور جنگی کارروائی (act of war) قرار دیا جائے گا۔ یہ اقدام پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ہوا اور امریکی صدر کے باقاعدہ احکام کے تحت انجام دیا گیا۔ اس میں چار فوجی ہیلی کاپٹر جدید ترین ٹکنالوجی سے مسلح تھے جسے سٹیلتھ (stealth) ٹکنالوجی کہا جاتا ہے۔ یہ صرف امریکا کے پاس ہے اور اسے عام ریڈار سے دیکھا نہیں جاسکتا۔ یہ ہیلی کاپٹر بگرام کے ہوائی اڈے سے روانہ ہوئے۔ پاکستان میں غالباً تربیلا کے آس پاس ان میں ایندھن بھرا گیا۔ دوہیلی کاپٹروں نے عملاً حملے میں شرکت کی اور دو حفاظتی کردار ادا کرتے رہے۔ ۲۴ خصوصی کمانڈوز نے جو بشمول میزائلز ہرطرح کے اسلحے سے لیس تھے، زمینی کارروائی میں حصہ لیا، پانچ افراد کو ہلاک کیا، ایک خاتون کو زخمی کیا، اپنے ہی ایک ہیلی کاپٹر کو جو فنی خرابی یا زمین سے گولی لگنے سے گر کر نذرِآتش ہوگیا تھا، مزید تباہ کرکے ضروری سامان کو لوٹ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اس آپریشن میں تقریباً دوگھنٹے لگے۔ ۴۰ منٹ ایبٹ آباد کے آپریشن میں اور ۸۰ منٹ آنے اور جانے میں۔ اس پورے عرصے میں افغانستان کی فضائی حدود میں ایف-۱۶ طیارے اس لیے موجود رہے کہ اگر پاکستان کی طرف سے کوئی مزاحمت ہو تو پاکستانی ایئرفورس کے جہازوں پر حملہ کیا جاسکے۔ اس کے لیے امریکا نے حفاظت خوداختیاری کا بہانہ تراشا اور دعویٰ کیا کہ اس نے اپنی اس اعلان شدہ پالیسی پر عمل کیا ہے کہ وہ اپنے مطلوبہ افراد کو دنیا کے جس گوشے میں بھی پائیں گے، فوجی کارروائی کر کے اپنے قبضے میں لے لیں گے، حالانکہ نہ اقوام متحدہ نے ان کو یہ حق دیا ہے اور نہ بین الاقوامی قانون اور روایات نے، جن کی رُو سے صرف اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ۷ کے تحت یا قانونی طور پر دو ملکوں کے درمیان معاہدے (treaty) کے تحت ایسی کارروائی جائز ہوسکتی ہے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان کوئی معاہدہ موجود نہیں، اس لیے کہ پاکستان کے دستور کے تحت کوئی معاہدہ اس وقت تک قانون کا درجہ حاصل نہیں کرتا جب تک کابینہ نے اس کی توثیق نہ کی ہو۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان میں فوجی کارروائی کے لیے جو قرارداد منظور کی ہے، اس کا اطلاق صرف افغانستان کی حدود پر ہوتا ہے، اس کی حدود سے باہر نہیں اور دہشت گردی کے مقابلے کے لیے جو قرارداد منظور کی گئی ہے اس میں تمام ممالک کو ایک دوسرے سے تعاون کے لیے کہا گیا ہے ۔ اس قرارداد میں کسی ایک ملک کی طرف سے یک طرفہ کارروائی کی گنجایش نہیں ہے، مگر امریکا نے اس قرارداد کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی اور حکومت تمام معلومات امریکا کو دیتے رہے لیکن امریکا نے اس اقدام سے پہلے کسی طرح کی اطلاعات و معلومات میں پاکستان کو شریک نہیں کیا، بلکہ اس ذلت آمیز دعوے کے ساتھ کہ اگر پاکستان کو معلومات میں شریک کیا گیا تو وہ مطلوبہ عناصر کو اس کی اطلاع دے دے گا، پاکستان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ یوں امریکا نے پاکستان کے سارے تعاون پر پانی پھیر دیا اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے برعکس یک طرفہ کارروائی کرکے ایک آزاد ملک کی حاکمیت اور خودمختاری کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی۔
۱- پاکستان کی حاکمیت پر حملہ اور اس کی فضائی حدود (air space) اور آباد زمینی علاقے کی خلاف ورزی، فوجی کارروائی کی شکل میں۔
۲- نہتے انسانوں (مرد، عورتوں اور بچوں) پر حملہ، پانچ افراد کا قتل، ایک کو زخمی کرنا۔
۳- دو مقتول انسانوں کی لاشیں غیرقانونی طور پر اپنے قبضے میں لینا اور انھیں ملک سے باہر لے جانا اور غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق ایک شخص کو اغوا بھی کرنا۔
۴-شہری جایداد اور گھریلو سامان کی تباہی۔
۵- لوٹ اور غصب___ دوسروں کی املاک کو نہ صرف تباہ کرنا بلکہ محض جبر اور قوت کے بل پر ان کی املاک کو اپنے ساتھ لے جانا۔
یہ پانچوں جرم ایک ایسے ملک نے کیے ہیں جو اپنے آپ کو تہذیب کا گہوارہ، جمہوریت کا علَم بردار، انسانی حقوق کا محافظ اور عالمی امن کا پرچارک قرار دیتا ہے۔ جو اقوام متحدہ کا رکن ہے اور اس جارحیت کا نشانہ اقوام متحدہ کے ایک دوسرے رکن ملک کو بناتا ہے جسے وہ اپنا اتحادی بھی کہتا ہے۔ اس کی حدود اور سرزمین کی کھلے بندوں پوری فوجی تیاری اور قوت کے بے محابا استعمال کے ذریعے خلاف ورزی کرتا ہے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتا ہے۔ امریکا نے اپنے اس اقدام کی وجہ سے پاکستان، پوری عالمی برادری اور خود اقوام متحدہ کے مجرم ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ امریکا نے اپنے اس کارنامے کو اپنی فتح قرار دیا ہے۔ اس پر خوشیوں کے شادیانے بجا رہا ہے اور ستم بالاے ستم یہ کہ اپنے اس گھنائونے جرم پر ’’ہم نے انصاف کردیا‘‘ کا لیبل لگا رہا ہے۔ امریکا اور اس کے میڈیا نے جھوٹ کا ایک طوفان برپا کر دیا ہے اور اس کے خوشامدی اور کاسہ لیس اس کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں لیکن جن کا ضمیر بیدار ہے، وہ امریکا کے اس جرم کا اعتراف کررہے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ نائن الیون کے سانحے میں جو ہلاک ہوئے ہیں، ان کے ورثا میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اسے انصاف نہیں انصاف کا خون قرار دے رہے ہیں۔
دی گارڈین لندن کی ۳مئی ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں نائن الیون کے سانحے کے نتیجے میں بیوہ ہونے والی ایک خاتون کا یہ چشم کشا تاثر شائع ہوا ہے جو اس نے پھولوں کے گلدستے کے ساتھ نیویارک میں گرائونڈ زیرو پر بن لادن کے حادثے کے بعد رکھا ہے:
مَیں اور نائن الیون کے ہلاک شدگان کے رشتہ دار اُمید کرتے ہیں کہ ہم اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے امریکا کو جنگ کے بجاے انصاف کی راہ پر لائیں گے۔
اپنے اس مختصر نوٹ میں وہ لکھتی ہے:
بن لادن کی موت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تشدد سے تشدد جنم لیتا ہے۔ مَیں اور میرے ساتھی پُرامن مستقبل کے لیے چاہتے ہیں کہ نائن الیون کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ انصاف عدالت کے کمرے میں ملتا ہے، میدانِ جنگ میں نہیں۔ مجھے انتقام نہیں، انصاف چاہیے اور یہ دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ ساڑھے نو برس سے میں نائن الیون کی انسانی قیمت کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔ یہ صرف وہی زندگیاں نہیں ہیں جو اس روز لی گئیں بلکہ وہ سب فوجی اور شہری جن کی جانیں ان دو جنگوں کی نذر ہوئیں اور جن کی زندگیاں اب بھی خطرے میں ہیں اور ۱۱ستمبر کے نام پر برباد کی جارہی ہیں، سب اس میں شامل ہیں۔
کیوبا کے سربراہ فیڈل کاسٹرو نے ۴ مئی کو اپنے تاثرات کا ان الفاظ میں اظہار کیا ہے:
بن لادن کئی برس تک امریکا کا دوست رہا۔ اسی نے اسے فوجی تربیت دی۔ وہ روس اور سوشلزم کا دشمن تھا۔ اس پر خواہ کوئی بھی الزام لگائے جائیں لیکن عزیزوں کے سامنے ایک غیرمسلح شخص کا قتل، ایک قابلِ نفرت بات ہے۔ بظاہر یہ تاریخ کی سب سے زیادہ طاقت ور قوم کی حکومت نے کیا ہے۔ اوباما نے اپنے ۳ہزار شہریوں کی ہلاکت پر غم کا اظہار کیا ہے لیکن دیانت دار انسان یہ نہیں بھول سکتے کہ امریکا نے عراق اور افغانستان میں جو غیرمنصفانہ جنگیں مسلط کیں، ان کے نتیجے میں لاکھوں بچے اپنے ماں باپ کے بغیر بڑے ہوئے،اور لاکھوں والدین اپنے بچوں کے لمس سے محروم کردیے گئے۔ لاکھوں شہری عراق، افغانستان، ویت نام، لائوس، کمبوڈیا اور کیوبا اور دنیا کے بہت سے دوسرے ملکوں کے دیہاتوں سے لے جائے گئے۔ لاکھوں انسانوں کے ذہنوں میں ابھی تک وہ ہولناک مظالم محفوظ ہیں جو کیوبا کے مقبوضہ علاقے گوانتاناموبے میں برسوں قید رکھے جانے والے قیدیوں پر ناقابلِ برداشت تعذیب کی صورت میں ڈھائے گئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اغوا کیا گیا اور نام نہاد مہذب معاشروں کی ملی بھگت سے خفیہ قیدخانوں میں منتقل کیا گیا۔
امریکا کا مشہور دانش ور چوم نومسکی ۶مئی کو اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کرتا ہے:
اسامہ کی حیثیت ایک مشتبہ کی تھی۔ طالبان کی حکومت امریکا سے ثبوت مانگتی رہی لیکن امریکا کے پاس ثبوت نہیں تھے، چنانچہ اب اوباما کا اپنے بیان میں یہ کہنا کہ ’’جلد ہی معلوم ہوگیا کہ نائن الیون کے حملے القاعدہ نے کیے تھے‘‘، سراسر جھوٹ ہے۔ بعد میں بھی ابھی تک کوئی سنجیدہ ثبوت پیش نہیں کیے جاسکے۔ بن لادن کے اقبالی بیان کا بہت ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ میں یہ اعتراف کرلوں کہ میں نے بوسٹن میراتھن جیتی ہے۔ ہمیں اپنے آپ سے یہ پوچھنا چاہیے کہ اگر عراقی کمانڈو جارج بش کے کمپائونڈ میں اُتریں، اس کو قتل کردیں اور اس کی لاش کو بحراوقیانوس میں پھینک دیں تو ہمارا کیا ردعمل ہوگا؟ اس کے جرائم بلاکسی خوف تردید بن لادن سے بہت زیادہ ہیں اور اس کی حیثیت ایک مشتبہ کی نہیں بلکہ فیصلہ کرنے والے کی ہے جس نے بین الاقوامی جرم کرنے کا حکم دیا۔ یہ وہ جرائم ہیں جن پر نازی مجرموں کو پھانسیاں دی گئیں۔
برطانیہ کا چوٹی کا وکیل جیفرے رابرٹسن لندن کے اخبار دی انڈی پنڈنٹ کی ۳مئی ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں اپنے ایک طویل مضمون میں جس کا عنوان Why it is Absurd to claim that Justice has been done ہے، یہ لکھتا ہے:
امریکا میں مشرق کے چالاک جادوگر کی موت پر خوشیاں منائی جارہی ہیں۔ یہ ایک ایسے قتل کی تائید کرنا ہے جس کا ایک صدر نے حکم دیا جو قانون کے ایک سابق پروفیسر کی حیثیت سے جانتا ہے کہ اس کا یہ بیان کہ ’انصاف ہوگیا‘ واہیات بات ہے۔ بن لادن کے قتل کی تائید کی جارہی ہے کیونکہ گرفتاری، مقدمہ اور پھر فیصلہ دینے میں بڑی مشکلات تھیں لیکن ایک بہتر دنیا کے مفاد میں کیا اس کی کوشش نہیں کی جانا چاہیے تھی؟ مقابلے کی تفصیلات بھی واضح نہیں۔ قانون اپنے دفاع میں مجرم کو مارنے کی اجازت دیتا ہے۔ ممکن ہو تو ہتھیار ڈالنے کا موقع دینا چاہیے اور اگر وہ ہاتھ نہ بھی اُٹھائیں تو کسی اندیشے کے بغیر ممکن ہو تو انھیں زندہ گرفتار کرنا چاہیے۔ بن لادن کو گولی کیسے ماری گئی؟ خصوصاً اگر سر کے پچھلی جانب ماری گئی ہے تو اس کی وضاحت کی ضرورت ہے۔ پوسٹ مارٹم کے بغیر جو کہ قانون کا تقاضا تھا سمندربرد کرنے کی آخر کیا جلدی تھی؟ جو لوگ مقدمے کو غیرضروری، مشکل اور خطرناک سمجھتے ہیں وہ یہ بات نظرانداز کردیتے ہیں کہ بن لادن کے قتل نے اسے شہید بنا دیا ہے۔ وہ بعد موت کے اس کردار میں زیادہ خطرناک ہے، اور اس پر مقدمہ نہ چلنے کے نتیجے میں اس کے افسانوی کردار اور نائن الیون کے بارے میں سازشیں تصفیہ طلب ہی رہیں گی۔
دی انڈی پنڈنٹ کی ایک اور مضمون نگار جوڈی می انٹائر ۳مئی ۲۰۱۱ء کے شمارے میں لکھتی ہے:
میں سمجھتی تھی کہ انصاف یہ ہے کہ جرم کرنے والوں کو عدالت میں لایا جائے نہ کہ انھیں ہدف بنا کر ختم کردیا جائے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ میں غلطی پر تھی۔ اگر ہم اس منطق کو مان لیں کہ بن لادن نامی ایک آدمی کو قتل کرنے سے نائن الیون کے ہزاروں مقتولین سے انصاف ہوگیا تو امریکا اور برطانیہ کے عراق پر حملے کے بعد اندازاً ۱۰لاکھ عراقیوں کے خون کا انصاف کس طرح ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ حالات اب بھی موجود ہیں جن سے بن لادن کا نظریہ پھیلتا ہے۔ فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ اب بھی قائم ہے۔ عراق اور افغانستان پر قبضہ اب بھی برقرار ہے۔ لیبیا پر بم باری جاری ہے۔ اگر آج اسامہ بن لادن مارا جاچکا ہے تو کیا دنیا ایک بہتر جگہ بن گئی ہے؟ کیا ہم زیادہ محفوظ ہوگئے ہیں؟ اس صورت میں کہ ایک ایسے ملک میں جو اپنے آپ کو دنیا کا تھانے دار بھی سمجھتا ہے اور دنیا بھر میں ایک ہزار سے زائد فوجی اڈے رکھتا ہے، میں اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتی۔
انگلستان کے اہم ترین مذہبی رہنما آرچ بشپ آف کینٹربری ڈاکٹر روان ولیمز نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ:
Killing Bin Laden when he was not carrying a weapon meant that justice could not be seen to be done.
ہم نے امریکا اور یورپ کی چند اہم شخصیات کے ان واضح خیالات کو اس لیے پاکستان کے سوچنے سمجھنے والے حضرات کے غوروفکر کے لیے پیش کیا ہے کہ اسلام اور پاکستان کے بارے میں ساری غلط فہمیوں کے باوجود، امریکا کے ان جارحانہ، غیرقانونی، غیراخلاقی اور غیرانسانی اقدامات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ہرقانون کو پامال کرنے، دوسروں کی حاکمیت اور سلامتی کو محض قوت کے زعم پر پامال کرنے پر گرفت کرنے والے بھی موجود ہیں۔ شرم کا مقام ہے کہ وہ ملک جس کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری کو اس دیدہ دلیری کے ساتھ پامال کیا گیا، اس کی قیادت، حتیٰ کہ اس کا صدر، وزیراعظم اور وزارتِ خارجہ بھی ۴۸گھنٹے تک مذمت کا ایک لفظ کہنے کی جرأت نہ کرسکے، بلکہ صدر اور وزیراعظم نے امریکا کے اس جارحانہ اقدام پر مبارک باد دی اور وزارتِ خارجہ کے سرکاری ردعمل میں پہلا جملہ ہی یہ تھا کہ:
یہ آپریشن امریکا کی اعلان شدہ پالیسی کے مطابق تھا کہ اسامہ بن لادن دنیا میں جہاں بھی پایا جائے گا، براہِ راست فوجی کارروائی کر کے اسے ختم کردیا جائے گا۔
اس سے زیادہ معذرت خواہانہ بلکہ غلامانہ ردعمل اور کیا ہوسکتا ہے۔ شرم کا مقام ہے کہ ہماری وزارتِ خارجہ یہ بیان دے رہی ہے اور بھارت کا ایک نام ور کالم نگار پرافل بڈوال اس واقعے پر Did the US serve Justice? کے عنوان سے لکھتا ہے:
کیا امریکا نے، جیساکہ صدر بارک اوباما نے کہا ہے، اسامہ بن لادن کو قتل کرکے نائن الیون کے ہلاک شدگان کا انصاف حاصل کرلیا ہے___ دیانت داری سے اس کا جواب ’نہیں‘ ہے۔ امریکا نے انتقام لیا ہے، انصاف نہیں کیا۔ مکمل انصاف کا مطلب یہ ہوگا کہ نائن الیون کے تمام مجرموں پر کھلا مقدمہ چلایا جائے۔ اس کا یہ بھی تقاضا ہوگا کہ جہادی دہشت گرد جن جائز شکایات کو استعمال کرتے ہیں ان کو انسانی بنیادوں پر دُور کیا جائے، جن کا تعلق مغرب کی بالادستی کے منصوبوں اور اسلام کو مجسم شر کی حیثیت سے پیش کرنے، اور فلسطین پر اسرائیل کے قبضے سے ہے۔
ہم نے اپنے تجزیے کے اس حصے میں امریکا کے جارحانہ اقدام، پاکستان کی حاکمیت، آزادی اور خودمختاری کی بدترین پامالی اور بین الاقوامی قانون، اور انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور انصاف کے بنیادی اصولوں کی پوری دیدہ دلیری، اور رعونت سے بربادی اور پامالی کے کچھ پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ معاملے کا صرف ایک پہلو ہے۔
دوسرا الم ناک پہلو پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے کردار کا ہے۔ امریکا نے تو وہ کیا جو وہ کرنا چاہتا تھا اور اس کے عزائم اور ہتھکنڈے کوئی ڈھکی چھپی چیز نہ تھے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری انٹیلی جنس اور دفاع کے ذمہ داروں کا کیا کردار رہا؟ امریکا کو اتنی ہولناک کارروائی کرنے کا موقع کیوں حاصل ہوا؟ ہماری خفیہ ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں کہ نہ ان کو یہ معلوم ہوسکا کہ اسامہ بن لادن کب سے کہاں مقیم ہے؟ آئی ایس آئی، ایم آئی، ایف آئی اے، صوبائی پولیس اور اسپیشل برانچ یہ سب کہاں غائب تھے؟ پھر اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ امریکی ہیلی کاپٹر کم از کم دو گھنٹے ہمارے ملک میں دندناتے پھرتے رہے، ایندھن بھی بھرا گیا، حملہ آور بھی ہوگئے، ایک ہیلی کاپٹر گر گیا یا گرا لیا گیا اور اس کے شعلے بلند ہوگئے۔ محلے کے سارے لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے، چھتوں پر شوروغوغا ہوا مگر ہماری سرحدوں کے محافظ اور ہمارے شہروں کے پاسبان دشمن کے اپنا مشن پورا کرنے کے بعد حرکت میں آئے اور صرف ہاتھ مَلتے رہ گئے۔ ہماری نگاہ میں اس کے کم ازکم آٹھ پہلو ہیں جن پر گفتگو کی ضرورت ہے، یعنی:
۱- انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی___ غفلت، یا اہلیت کی کمی۔
۲- دفاعی نظام کی کمزوری اور ناکامی کہ بروقت اقدام سے عاجز رہا، خصوصیت سے مسلسل دو گھنٹے تک کارروائی جاری رہنا اور جوابی ردعمل میں کوتاہی۔
۳- خطرات کا ادراک (perception) اور اس کے مطابق دفاعی حکمت عملی کی خامیاں۔
۴- ملک کی سلامتی کی پوری صورت حال کا جائزہ کہ اس میں کہاں خلا ہے اور کون کون سے وہ پہلو ہیں جن کا لحاظ نہیں رکھا گیا اور اتنی بڑی چوٹ کھانی پڑی۔
۵- ان سب کی روشنی میں سب سے بنیادی مسئلہ امریکا سے تعلقات کی نوعیت، اس کے اور ہمارے مقاصد، مفادات اور تحفظات کا ادراک، پاکستان میں امریکا کا کردار۔ پرویز مشرف کے دور سے اب تک کیا مراعات اور مواقع ان کو دیے گئے ہیں جن کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ باہمی تعامل کے قواعد کیا ہیں اور کن حدود میں رہ کر ایک غیرملک اور اس کے اداروں کو کام کی اجازت اور مواقع ہیں؟ ان کی نگرانی کا کیا نظام ہے اور خلاف ورزی کو چیک کرنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کیا نظامِ کار بنایا گیا ہے؟ اگر نہیں بنایا گیا تو کیوں اور اگر ہے تو اس میں کیا خامیاں اور خلا ہیں؟
۶- جو کچھ ہو رہا ہے اس کا بڑا گہرا تعلق امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس میں پاکستان کے پھنس جانے کا بڑا اہم کردار ہے۔ دوسروں کی جنگ نے کس طرح ہماری سرزمین کو جنگ کے میدان میں تبدیل کر دیا۔ جہاں سے کبھی کوئی خطرہ نہ تھا وہ اب خطرات کا جنگل بن گیا ہے۔ دوست دشمن بن گئے اور جن کو دوست سمجھا وہ دشمنوں سے بھی کچھ سوا نکلے۔ پورے علاقے کے امن کو کس چیز نے تہ و بالا کر دیا ہے اور کس طرح اس جنگ کی آگ کو ٹھنڈا کیا جائے اور جو اسباب، بگاڑ اور تصادم کے ذمہ دار ہیں، ان کو کس طرح دُور کیا جائے۔ ایبٹ آباد کا واقعہ اس پورے سلسلے کی ایک کڑی ہے اور ضرورت اس پورے مسئلے پر ازسرنو غور کرنے اور نئی پالیسی اور نئی حکمت عملی بنانے کی ہے۔
ایک اور بڑا اہم پہلو سول اور فوجی نظام کے تعلق کا ہے جس کا اس پورے معاملے سے بڑا گہرا اور قریبی تعلق ہے۔ عوام اور حکومت کی سوچ اور عزائم میں فرق، سول اور فوجی اداروں کے درمیان پالیسی اور دوسرے تمام متعلقہ امور کے بارے میں ہم آہنگی اور عوام کی توقعات اور سول اور فوجی قیادت کی کارکردگی میں فرق۔ عوام کی نظریاتی، سیاسی اور تہذیبی اُمنگیں اور عوام کے سیاسی، معاشی، معاشرتی، تہذیبی مسائل، نیز قومی وسائل کے منصفانہ اور حکیمانہ استعمال کا مسئلہ جس کے نتیجے میں عوام کو خوش حالی، امن اور انصاف میسر آسکے۔ معیشت کا قرضوں کے بوجھ تلے دب کر امریکا پر ایسا انحصار جو ملک کی آزادی اور سالمیت کو متاثر کر رہا ہے، ایک بڑا بنیادی ایشو بن گیا ہے۔ دفاع اور عوام کی ضروریات کی تسکین کے تقاضے کہاں ہم آہنگ ہیں اور کہاں متصادم ہیں۔ ان میں صحیح تناسب کس طرح قائم ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی، عسکری اور معاشی امور باہم مربوط ہیں اور حالات کے صحیح تجزیے اور مناسب پالیسیوں کی تشکیل کے لیے ان تمام امور پر غور ضروری ہے۔
ان تمام امور کے ساتھ ایک بڑا اہم مسئلہ ہمارے قومی موقف، ہمارے اہداف، حکمت عملی اور جائز مفادات کے صحیح صحیح ابلاغ (communication) سے متعلق ہے۔ ایک طرف پاکستان کو ساری دنیا میں ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے، ہماری صورت کو بگاڑ کر پیش کیا جا رہا ہے، ہمیں مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے، اور دوسری طرف ہماری حکومت ہمارے سفارتی نمایندے اور ہمارا میڈیا اپنے اپنے چکروں میں پھنسے ہوئے ہیں اور پاکستان کے موقف کو دلیل اور قوت کے ساتھ پیش نہیں کیا جا رہا۔ بلاشبہہ صحیح پالیسی کی تشکیل اولین ضرورت ہے لیکن اپنی پالیسی اور اپنے نقطۂ نظر کو مؤثرانداز میں پیش کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ بہت سی وہ باتیں جو ہمیں اعتماد کے ساتھ پیش کرنی چاہییں، دوسرے اپنے الفاظ میں اور اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر پیش کر رہے ہیں اور ہمارا مقدمہ مناسب پیروی نہ ہونے کے باعث کمزوری کا شکار ہے اور ہم کوتاہی کی وجہ سے نقصان اُٹھا رہے ہیں۔ اس لیے ابلاغ بھی ایک اہم ضرورت ہے جس کے تقاضوں کو پورا کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
ان امور کی روشنی میں اصل چیلنج یہ ہے کہ آیندہ کے لیے قومی پالیسیاںا ور دفاع اور ترقی کی ایسی حکمت عملی کا تعین کیا جائے جو ملک کو موجودہ دلدل سے نکالنے میں ممدومعاون ہو۔ ہم کوشش کریں گے کہ ان تمام امور پر آیندہ اشارات میں اپنی معروضات پیش کریں۔ وما توفیقی الا باللّٰہ۔
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ الابلاغ ٹرسٹ کے زیراہتمام ماہنامہ ترجمان القرآن مارچ ۲۰۱۱ء تک جاری رہا۔ اب بوجوہ اسی ادارت اور انتظام کے تحت ایک نئے نام سے آغاز کیا جا رہا ہے۔ یہ رسالہ کسی تجارتی مقصد یا ذاتی غرض سے نہیں نکالا جارہا ہے بلکہ ایک فکری تحریک کا نقیب اور ایک دعوت اور تحریک کا داعی اور ایک نظریاتی، اخلاقی، انفرادی اور اجتماعی انقلاب کے لیے جرسِ کارواں کا کردار ادا کرنے والا رسالہ ہے۔ سیدمودودیؒ کے الفاظ میں: ہمارے پیش نظر صرف ایک مقصد ہے، اور وہ مسلمانوں کو قرآن کی طرف دعوت دینا ہے۔ رسالے کی اشاعت فی نفسہٖ مقصود نہیں بلکہ محض اس دعوت کی اشاعت کے لیے ہے۔ ہر داعی و مبلغ کی طرح ہماری بھی یہ دلی خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ آدمیوں تک ہمارا پیغام پہنچے۔ ہمیں خریداروں کی ضرورت نہیں، پڑھنے والوں کی ضرورت ہے۔ اگر ایک رسالے کو ہزار ہزار آدمی بھی پڑھیں، تو ہمیں رنج نہ ہوگا بلکہ مسرت ہوگی۔ اگر ہمارے مضامین اخباروں اور رسالوں میں نقل کیے جائیں تو ہم اُن کا شکریہ ادا کریں گے کہ انھوں نے اس دعوت میں ہمارا ہاتھ بٹایا۔
عالمی ترجمان القرآن قرآنی افکارو تہذیب کا نقیب ہے۔ ہمارا تعلق اسی فکری اور نظریاتی تحریک سے ہے جس کا آفتاب حرا اور فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہوا تھا اور جس کا مقصدِوحید قرآن و سنت کی روشنی میں اور اپنے دور کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر زندگی کے ہر شعبے کی تشکیلِ نو اور اسلامی نشاتِ ثانیہ ہے۔ اسلام کسی ایسے مذہب کا نام نہیں جو صرف انسان کی نجی اور انفرادی اصلاح کرتا ہو اور جس کا کُل سرمایۂ حیات کچھ عبادات، چند اذکار اور رسوم و رواج کے ایک مجموعے پر مشتمل ہو۔ اسلام تو ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو خالقِ کائنات اللہ رب العالمین کی ہدایت اور اس کے نبی صادق علیہ السلام کے نمونے کی روشنی میں زندگی کے تمام شعبوں کی صورت گری کرتا ہے اور حیاتِ انسانی کے ہر پہلو کو اللہ کے نور سے منور کرتا ہے، خواہ وہ پہلو انفرادی ہو یا اجتماعی، معاشرتی ہو یا تمدنی، مادی ہو یا روحانی، معاشی ہو یا سیاسی، ملکی زندگی سے متعلق ہو یا بین الاقوامی اور عالمی امور سے۔ اسلام کی اصل دعوت ہی یہ ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کا قانون جاری و ساری ہو اور دل کی دنیا سے لے کر تہذیب و تمدن کے ہر گوشے تک خالق کائنات کی مرضی پوری ہو___ یہی وجہ ہے کہ مسلمان نام ہے اس نظریاتی انسان کا جو ایک طرف خود اپنی پوری زندگی کو خدا کی اطاعت کے لیے خالص کرلے اور دوسری طرف خدا کے دین کو اپنے گھر، اپنے معاشرے، اپنی معیشت، اپنی سیاست اور ریاست اور بالآخر تمام روے زمین پر غالب کرنے کی جدوجہد کو اپنی زندگی کا مشن بنا لے ، اس لیے کہ: اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (اٰل عمرٰن۳:۱۹) ’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے‘‘۔ اس دین کا اپنے تمام پیروکاروں سے مطالبہ ہی یہ ہے کہ زندگی کو خانوں میں تقسیم نہ کریں اور پوری زندگی کو اپنے رب کی مرضی کے تابع کر دیں، تاکہ زندگی کی تمام وسعتوں کے لیے روشنی اور ہدایت صرف اس دین سے حاصل کی جائے، اور طاغوت کو زندگی کے کسی بھی گوشے میں اپنے پنجے گاڑنے کا موقع نہ ملے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ o (البقرہ ۲:۲۰۸) اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔
عالمی ترجمان القرآن اس دعوت کا داعی ہے اور آنے والے دنوں میں حالات کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا بھر میں اس پیغام کو ہرایک تک پہنچائے گا۔
آیئے! اس موقع پر عزمِ نو کے ساتھ ساتھ دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں: اے اللہ! تو ہمارا حامی و ناصر ہوجا، ہم صرف تیری رضا کے لیے، تیرے دین کی سربلندی کے لیے، تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو عام کرنے کے لیے، تیرے بندوں کو تیری بندگی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے اور انسانیت کو طاغوت کی مسلط کردہ تاریکیوں سے نکال کر تیری ہدایت کی روشنی کی طرف لانے کے لیے، تیری مدد، توفیق اور استعانت کے طالب ہیں۔
ہمارا سہارا تو اور صرف تو ہے اور تیرے سوا کوئی نہیں جو ہم جیسے کمزور انسانوں کو سہارا دے سکے، بلاشبہہ تو ہی نعم المولٰی ونعم النصیر ہے___ وما توفیقی الا باللّٰہ!
الابلاغ ٹرسٹ کے پاس جن خریداروں کا زرتعاون جمع ہے ، ان کی خریداری میں ایک ماہ کا اضافہ کردیا جائے گا___ انتظامیہ الابلاغ ٹرسٹ
۲۷ جنوری ۲۰۱۱ء پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کوئی نام نہاد سفارت کار نہیں ہے، بلکہ درحقیقت سی آئی اے کا خون خوار کمانڈو ہے جس کے ہاتھوں پر چار معصوم پاکستانیوں کا خون ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ ایک ایسا آئینہ بن گیا ہے جس میں امریکا کے سامراجی کردار اور ایک دوست ملک کو بلیک میل کرنے، عدم استحکام کا شکار کرنے اور اپنے مذموم مقاصد کے لیے آلۂ کار بنائے جانے کے ناپاک کھیل کی پوری تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ جس نے پاکستانی قوم اور اس کی مقتدر قوتوں کو نہ صرف جھنجھوڑ دیا ہے، بلکہ ملک اور قوم کے لیے امریکا سے تعلقات کے پورے مسئلے پر بنیادی نظرثانی کو ناگزیر بنادیا ہے۔
۲۷ جنوری کا واقعہ ایک خونیں سانحہ تو ہے ہی، لیکن اس سے زیادہ پوری قوم کے لیے ایک انتباہ کی حیثیت بھی اختیار کرچکا ہے۔ تیونس میں ایک نوجوان کی خودکشی نے تیونس ہی نہیں پورے عالمِ عرب میں بیداری کی اس انقلابِ آفریں لہر کو جنم دیا، جو تاریخ کا رُخ موڑنے کا کارنامہ انجام دے رہی ہے۔ بالکل اسی طرح پاکستان میں امریکی درندگی کا نشانہ بننے والے ان تین نوجوانوں کا خون پاکستان اور عالمِ اسلام کے لیے امریکا کی غلامی سے نجات کی تحریک کی آبیاری اور ملّی غیرت و حمیت میں تقویت کا ایک فیصلہ کن ذریعہ بنتا نظر آرہا ہے۔
پوری ملت اسلامیہ، پاکستان اور اہلِ پاکستان ۲۷ جنوری کے اس اندوہناک اور دل خراش واقعے میں ظلم کا نشانہ بننے والے خاندانوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم سب ان کی حُب الوطنی پر نازاں اور پاکستانی مفادات کے باب میں ان کے لیے استقامت کے لیے دعاگو ہیں۔ اس واقعے کی روشنی میں انصاف اور قومی اور ملّی مفادات کے تحفظ کے حوالے سے ان پہلوئوں پر چند معروضات پوری قوم اور خصوصیت سے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
اصل واقعے کی بیش تر تفصیلات قوم کے سامنے آگئی ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے، اس سلسلے میں سارے دبائو اور ملکی اور بیرونی عناصر کی ریشہ دوانیوں کے علی الرغم، اصل حقائق کو تلاش کرنے اور جرأت سے انھیں بیان کرنے کے لیے جو کردار ادا کیا ہے، اس پر انھیں ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں۔ یہ اعتراف بھی ضروری ہے کہ عدالت نے بروقت احکام جاری کیے۔ اسی طرح ملک کی دینی و سیاسی قوتوں اور عوام نے امریکا کے حاشیہ برداروں کے سارے کھیل کو ناکام بنانے کے لیے جو مساعی کی ہیں، وہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ مگر ہم دکھ کے ساتھ اس حقیقت کو بھی ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ مرکزی حکومت کا بحیثیت مجموعی اور اس کے کچھ بڑے نمایاں قائدین کا کردار سخت مشکوک اور تشویش ناک رہا ہے۔ نئی وزیر اطلاعات اور پیپلزپارٹی کی سابقہ سیکرٹری اطلاعات نے تو کھل کر امریکی مفادات کی ترجمانی کی ہے۔ پھر ایوانِ صدر کے کردار پر بھی بڑے بڑے سوالیہ نشان ثبت ہیں۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ نے بھی خاطرخواہ طریقے سے اپنا کردارادا نہ کیا۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے تو وزارت کا قلم دان چھین لیا گیا، لیکن ایک بدیہی حقیقت سے لاہور ہائی کورٹ کو مطلع کرنے کے لیے واقعے کے دو ہفتے کے بعد بھی وزارتِ خارجہ نے مزید تین ہفتے کی مہلت مانگی ہے۔ اس چیز نے وزارتِ خارجہ کے کردار کو خاصا مشکوک بنا دیا ہے۔ لیکن چونکہ عوام، دینی اور کچھ سیاسی قوتیں اور میڈیا بیدار ہیں، اس لیے ہمیں توقع ہے کہ وزارتِ خارجہ اور اعیانِ حکومت حقائق پر پردہ ڈالنے، عوام اور عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی حماقت سے پرہیز کریں گے، اور اصل حقائق بے کم و کاست عدالت اور قوم کے سامنے پیش کر دیں گے۔
ریمنڈ ڈیوس کم از کم چھے جرائم کا مرتکب ہوا ہے اور اس پر ان تمام امور کے بارے میں مقدمے قائم ہونے چاہییں اور قانون کے مطابق بھرپور کارروائی ہونی چاہیے۔ اس کے جرائم یہ ہیں:
۱- دو نوجوانوں فیضان اور فہیم کا دن دہاڑے بلاجوازقتلِ عمد۔
۲- تیسرے نوجوان عبیدالرحمن کی ہلاکت کی ذمہ داری میں شراکت (اسی کے بلانے پر اندھادھند وہ گاڑی آئی، اور اسی کی سازباز سے وہ بھاگنے میں کامیاب ہوسکے)۔
۳- ناجائز اسلحے کا وجود اور استعمال، اور وہ بھی ممنوعہ ۹؍ایم ایم بور کا نیم خودکار پستول مع ۷۵گولیاں، جس کا کوئی لائسنس بھی اس کے پاس نہیں تھا اور جسے اس نے بے دریغ استعمال کیا۔ (اسلحے کا پبلک مقام پر لے کر جانا بذاتِ خود ایک سنگین جرم ہے چہ جائیکہ اس کا خونیں استعمال کیا جائے۔)
۴- اپنی اصل شناخت کو چھپانا(impersonification) ،فرضی نام سے پاسپورٹ بنوانا، اور اس پاسپورٹ اور اس نام پر دوسرے ملک میں نقل و حرکت کرنا اور مراعات حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ امریکا کے سرکاری ترجمان نے ایک بار نہیں دو بار اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ جو شخص اس جرم میں ملوث ہے، اس کا اصل نام ریمنڈ ڈیوس نہیں ہے۔ اس طرح غلط نام پر پاسپورٹ، سفر اور پاکستان میں کارروائیاں کرنا، خود ایک مستقل بالذات جرم ہے اور اس حوالے سے بھی موصوف پر مقدمہ قائم ہونا چاہیے۔
۵- جو آلات اس کی کار سے نکلے ہیں، جو معلومات اس کے دو موبائل ٹیلی فونوں سے حاصل ہوئی ہیں، جو تصاویر اس کے کیمرے میں محفوظ ہیں، یہ سب اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ وہ کسی سفارت کاری میں نہیں بلکہ جاسوسی کے قبیح فعل میں مصروف تھا اور مسلسل دوسال سے یہی کام کرر ہا تھا۔ اس لیے اس پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور جاسوسی کے قوانین کے تحت بھی مقدمہ قائم ہونا چاہیے۔
۶- ایک اوراہم جرم جو اس کے ان تمام آلات اور ریکارڈ سے سامنے آیا ہے، خاص طور پر موبائل ٹیلی فون اور برقی پیغامات ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں تخریب کاری میں ملوث کم از کم ۳۲ افراد، ٹھکانوں اور تنظیموں سے اس کا رابطہ تھا، اور اس واقعے سے صرف سات دن پہلے اس نے وزیرستان کی ’تحریک طالبان پاکستان‘ اور کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے لوگوں سے رابطہ قائم کیا تھا۔ گویا وہ دہشت گردی میں خود ملوث تھا اور یا ان لوگوں کے ساتھ منسلک تھا، جن پر امریکا اور پاکستانی حکام دہشت گردی کا الزام عائد کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں دہشت گردی، یا دہشت گردی کی سرپرستی یا کم از کم اس میں اعانت مجرمانہ کے تحت بھی اس پر الزام آتا ہے اور ایک مقدمہ اس کے خلاف اس قانون کے تحت بھی درج ہونا چاہیے۔
یہ چھے وہ کھلے کھلے جرائم ہیں، جن میں اس کے ملوث ہونے کا ثبوت اب تک کی حاصل کردہ معلومات سے سامنے آتا ہے۔ بلاشبہہ اسے اپنے دفاع کا پورا پورا موقع ملنا چاہیے، اور سزا بھی عدالتی عمل کے ذریعے ملنی چاہیے، لیکن صرف قتل اور ناجائز اسلحہ اپنے قبضے میں رکھنے کے الزام ہی نہیں، باقی چاروں جرم بھی تقاضا کرتے ہیں کہ اس پر باضابطہ فردِ جرم قائم کی جائے۔ اس کے علاوہ عبیدالرحمن کے قتل کے جرم میں بھی شراکت کا الزام اس پر آتا ہے۔ یہ تمام امور ایک دوسرے سے منسلک ہیں، اس لیے انھیں ایک ساتھ لینا ضروری ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ملک میں تخریب کاری کے گھنائونے اور خون آشام کاروبار میں شریک تمام قوتوں تک پہنچنا اور ان کا بے نقاب ہونا ضروری ہے۔ نیز خون بہا اور دیت کی جو باتیں ایوانِ صدر، وزیراعظم اور امریکی اور امریکا نواز عناصر کررہے ہیں اور اسلام کا سہارا لیتے ہوئے کر رہے ہیں، ان کے پس منظر میں بھی یہ بات سامنے آنی چاہیے کہ ریمنڈ ڈیوس کے جرائم ان دو نوجوانوں کے قتل سے زیادہ ہیں۔ اس لیے جب تک تمام جرائم کے بارے میں عدالتی کارروائی مکمل نہیں ہوجاتی، کسی ایک چیز کے بہانے اس سے گلوخلاصی کرانے کی سازش کو ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیا جاسکتا۔
اوّلاً: ۲۷ جنوری کے واقعے کے فوراً بعد لاہور کے امریکی قونصل خانے کا سرکاری بیان، اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کا اعلان، امریکی سرکار کے ترجمان کا بیان اور خود ریمنڈ ڈیوس کا اس کی اپنی زبان سے پولیس کے سامنے آکر اعتراف، یہ سب ایک ہی بات پر گواہ ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس لاہور کے قونصل خانے میں ’انتظامی اور فنی معاونت‘ پر مامور تھا۔ ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کو امریکی سفارت خانے نے سفارتی استثنا کے حامل جن افراد کی فہرست پاکستانی وزارتِ خارجہ کو دی، اس میں ریمنڈ ڈیوس کا نام نہیں تھا۔ اس واقعے کے دو دن بعد ہی پہلی بار اسلام آباد کے سفارت خانے کے کارکن کی حیثیت سے اس کا ذکر کیا گیا۔ جس کی واضح وجہ یہ ہے کہ ویانا کنونشن کی رُو سے قونصل خانے کے اسٹاف کو مکمل استثنا حاصل نہیں ہوتا، اور اگر ان کا عملہ کسی بڑے جرم میں ملوث ہو تو اسے استثنا حاصل نہیں۔ ۲۹جنوری سے جو قلابازی امریکی حکام نے کھائی ہے، وہ ایک مجرم کو دھوکے کے ذریعے سے سفارتی استثنا دلوانے کی ناپاک کوشش ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ امریکا کے صدر، امریکی وزیرخارجہ کے منصب پر فائز خاتون اور سینیٹر جان کیری جیسے لوگ بھی صریح دھوکے اور غلط بیانی کا پوری ڈھٹائی سے ارتکاب کر رہے ہیں۔ جس طرح عراق پر ایک جانے بوجھے جھوٹ اور دھوکے، یعنی ’بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے‘کی موجودگی کو جواز بنایا گیا تھا، بالکل اسی طرح ریمنڈڈیوس کی حیثیت کو جانتے بوجھتے تبدیل کرنے اور دنیا اور قانون و انصاف کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ خود ایک جرم ہے جو امریکا کی قیادت کے اخلاقی دیوالیہ پن کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔ اب تو امریکی سفارت خانے کے اس خط کی نقل میڈیا میں آگئی ہے جو ۲۰جنوری ۲۰۱۰ء کو امریکی سفارت خانے نے وزارتِ خارجہ کو لکھا تھا کہ:’’ منظورشدہ پرفارما چھے کی تعداد میں منسلک ہیں۔ ان کے ساتھ اس کے پاسپورٹ کی ایک کاپی ہے اور اس کے غیرسفارتی شناختی کارڈ میں استعمال کے لیے چھے تصاویر ہیں‘‘۔ اس کے بعد بھی یہ دعویٰ کہ ریمنڈ ڈیوس ’پاکستان میں ہمارا سفارت کار‘ ہے۔ یہ سب سخن سازی ایک جھوٹ اور افترا کے سوا کچھ نہیں۔
ثانیاً: اب یہ حقیقت کہ ریمنڈ ڈیوس سفارت کار نہیں بلکہ دراصل سی آئی اے کا فعال کارندہ ہے۔ اس کا تعلق پہلے امریکی فوج سے تھا اور گذشتہ ۱۰ سال سے وہ اس پرائیویٹ سیکورٹی کے نظام سے وابستہ ہے، جو امریکا کی افواج اور اس کے اثاثوں اور مفادات کی حفاظت کے لیے سی آئی اے نے تشکیل دیے ہیں، تاکہ وہ انتظامی فریم ورک اور جواب دہی کے نظام سے بچ کر جاسوسی اور تخریب کاری کے کام کو انجام دلوا سکیں۔ یہ بات پہلے دن سے امریکی انتظامیہ اور حکمرانوں کو معلوم تھی اور جیساکہ اب کھلا اعتراف کیا جا رہا ہے کہ امریکی پریس کے پاس یہ تمام معلومات تھیں، مگر امریکی میڈیا نے آزادیِ صحافت کے تمام دعووں کے علی الرغم حکومت کے حکم پر اسے شائع نہیں کیا۔ جب یورپ کے اخبارات میں سارے حقائق آگئے ہیں تو مجبوراً امریکا میں بھی ان کو شائع کیا گیا، اور کھل کر اس امر کا اعتراف کیا گیا کہ ان حقائق کو امریکا کی حکومت کے ایما پر دبایا گیا تھا۔ نیویارک ٹائمز کو مجبوراً یہ اعتراف کرنا پڑا کہ: ’’ڈیوس سی آئی اے کی رہنمائی میں پاکستان کے جنگ جُو گروپوں کی نگرانی کرنے والے خفیہ اہل کاروں کا حصہ تھا‘‘۔ اور یہ بھی کہ موصوف نے ایک ٹھیکے دار کی حیثیت سے کئی برس سی آئی اے میں بھی کام کیا، اور کچھ وقت بلیک واٹر میں بھی گزارا۔
امریکی قیادت اور میڈیا ان حقائق سے واقف تھے، مگر ہفتوں جان بوجھ کر دنیا کو غلط معلومات دیتے رہے اور پاکستان کو دھمکیوں سے نوازتے رہے۔ نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے اعتراف کیا ہے کہ ان اخبارات نے حقائق کو امریکی حکومت کے ایما پر چھپایا اور غلط بیانی کی: ’’اوباما انتظامیہ کی درخواست پر لوگوں نے یہ منظور کیا کہ ایجنسی سے ڈیوس کے تعلقات کے بارے میں معلومات کو عارضی طور پر شائع نہ کریں‘‘۔
امریکا کا ایک نام ور وکیل گلین گرینالڈ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:
ایک اخبار کے لیے یہ ایک اہم بات ہے کہ وہ کوئی معلومات اس لیے شائع نہ کرے کہ اس سے انسانی جانوں کو خطرہ ہوگا مگر یہاں امریکی حکومت نے کئی ہفتے ایسے بیانات دینے میں گزارے جوانتہائی حد تک گمراہ کن تھے۔
امریکی صدر نے جانتے بوجھتے اس سی آئی اے کے جاسوس اور تخریب کار کو ’پاکستان میں ہمارا ڈپلومیٹ‘ قرار دیا۔ گرینالڈ کے الفاظ میں: ’’یہ معلومات چھپانے سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ یہ تو صدر کو جھوٹ بولنے پر آمادہ کرنا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے جان بوجھ کر حقائق چھپائے… اسی کو سرکاری پروپیگنڈے کا پرچار کرنا کہا جاتا ہے‘‘۔
امریکی قیادت کی دیانت اور امریکی پریس کی آزادی کی اس سے قبیح مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک قاتل اور مجرم کو بچانے کے لیے انھوں نے ایسے ایسے ہتھکنڈے برتنے میں کوئی باک محسوس نہیں کی۔ بعد کی معلومات جس سمت میں اشارہ کر رہی ہیں وہ صرف یہی نہیں ہے کہ ریمنڈ ڈیوس اور اس کے نیٹ ورک سے متعلق تمام افراد جن کی تعداد سیکڑوں میں ہے، پاکستان میں تخریب کاری کرنے والے عناصر سے ربط میں ہیں۔ کچھ پتا نہیں کہ فوج، آئی ایس آئی، سرکاری عمارتوں، مساجد، امام بارگاہوں اور بے گناہ انسانوں کو تخریب کاری کا نشانہ بنانے میں اس کا بلاواسطہ یا بالواسطہ کتنا کردار ہے؟ نیز سی آئی اے کے ساتھ ’موساد‘ اور ’را‘ کے کارندوں کا کتنا اشتراک ہے؟
بھارت کے ایک آزاد صحافی ایم کے بھنڈرا کمار نے اخبار ایشین ٹائمز میں وہ سوالات صاف لفظوں میں اٹھائے ہیں جو پاکستان کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کو پریشان کیے ہوئے تھے:
اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کافی مدت سے حیران تھا کہ نام نہاد پاکستانی طالبان کو پاکستانی فوج پر اتنے گہرے زخم لگانے پر کوئی اُبھار رہا تھا اور پاکستان کو کمزور کرکے غیرمستحکم کر رہا تھا۔ (دی نیشن، ۱۸ فروری ۲۰۱۱ء)
بلّی تھیلے سے باہر آگئی ہے اور ریمنڈ ڈیوس اور اس کے گروہ کی سرگرمیوں سے پردہ اُٹھتا نظر آرہا ہے بشرطیکہ اس سے مکمل تفتیش ہو اور ہر بات شفاف انداز میں عدالت اور قوم کے سامنے آئے۔یہ مسئلہ ایک فرد کا نہیں، امریکا اور اس کے گماشتوں کے پورے کردار کا ہے کہ جسے غیرناٹو سانجھی (non Nato Ally) کہا جا رہا تھا، جس کو اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کی افیون کی گولیاں کھلائی جارہی تھیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایسے یارِ وفاردار کے ساتھ اصل معاملہ کیا کیا جا رہا تھا؟ بقول حفیظ جالندھری ؎
دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
lباھمی تعلقات: کشیدگی میں شدت: ۲۷جنوری کے واقعے نے جن حقائق سے پردہ اُٹھایا ہے، ان کے بارے میں اندازے اور شکوک و شبہات تو اوّل روز سے تھے، لیکن اب تو حقائق اس طرح سامنے آگئے ہیں کہ زبانِ خنجر کے ساتھ آستین کا لہو پکار اُٹھا ہے۔یوں آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے درمیان ایک ایسی کشیدگی پیدا ہوگئی ہے، جس کا اعتراف دونوں طرف کی قیادت کر رہی ہے۔ اگرچہ امریکا کے بارے میں پاکستان کے عوام کو تو کبھی غلط فہمی نہیں تھی، مگر مقتدر طبقے کی آنکھیں جوں کی توں بند تھیں۔
یہ طبقے ۱۹۶۵ء میں بھارتی جارحیت کے موقع پر امریکا کی طوطاچشمی، ۱۹۷۱ء میں اسی کردار کی تکرار اور پھر ۱۹۹۰ء اور ۱۹۹۸ء کی پابندیوں کے تجربے کی روشنی میں امریکا کی دوستی پر بھروسا کرنے کو تیار نہ تھے۔ ۲۰۰۱ء میں جنرل مشرف امریکی دھمکی کے نتیجے میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہوگئے۔ راے عامہ کے تمام سروے امریکا سے بے زاری کی شہادت دیتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ ’زرداری گیلانی حکومت‘ نے تمام تنبیہات کے باوجود نہ صرف جنرل مشرف کی پالیسی کو جاری رکھا، بلکہ امریکا کی غلامی میں اس سے بھی دوچار ہاتھ آگے نکل گئے۔ آج عالم یہ ہے کہ امریکی گماشتے ملک کے چپے چپے پر اپنا گھنائونا کھیل کھیل رہے ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج ان کی لگائی ہوئی آگ میں جھلس رہی ہیں۔ گذشتہ ۱۰ برس میں ۳ہزار سے زائد فوجی ہلاک ہوچکے ہیں، ۲۵۰ سے زیادہ آئی ایس آئی کے اہلکار دہشت گردی کی نذر ہوچکے ہیں۔ فوج سے متعلق افراد میں زخمیوں کی تعداد ۱۰ہزار سے متجاوز ہے۔ عام شہریوں کا جانی نقصان، فوج کے نقصان سے کم از کم ۱۰ گنا زیادہ ہے۔ معیشت کا حال دگرگوں ہے۔ وزارتِ خزانہ کے اندازے کے مطابق صرف ۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۸ء تک ۴۳/ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے، جو اَب ۵۵اور ۶۰؍ارب ڈالر سے زیادہ ہوگیا ہے۔ اگر جانی نقصان اور ان نقصانات کو اس میں شامل کرلیا جائے، جسے معاشیات کی اصطلاح میں جو مواقع حاصل ہوسکتے ہیں ان سے محرومی کی بنا پر مزید کیا نقصان ہوا ہے، تو یہ نقصانات ۱۰۰؍ارب ڈالر سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ اس کے مقابلے میں وہ امریکی امداد اور قرضے جن کا احسان جتایا جاتاہے ۷ تا ۹؍ارب ڈالر سے زیادہ نہیں ہے۔ گویا اس غریب ملک نے امریکا کی ایک جارحانہ اور سامراجی جنگ کو اپنے خون اور پسینے ہی سے نہیں، اپنے غریب عوام کے منہ سے نوالا چھین کر امریکی جنگ کے جہنم میں جھونک دیا ہے۔ اس کے بدلے امریکا نے ہمارے اپنے ملک میں تخریب کاری کا ایک وسیع جال بچھا دیا ہے، جس سے ملک کا استحکام، سلامتی، آزادی، عزت اور معیشت، ہرچیز معرضِ خطر میں ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں جس طرح امریکا کی سیاسی اورفوجی قیادت نے پاکستان کو بلیک میل کیا ہے، اور ایک قاتل اور تخریب کار کو سفارتی استثنا کے نام پر قانون کی گرفت سے نکالنے کی کوشش کی ہے، اس نے امریکا کے اصل چہرے کو بالکل بے نقاب کر دیا ہے، اور امریکا سے بے زاری کے رجحان کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔ ۱۹۵۸ء میں ایک امریکی ناول نگار ولیم لیڈرر نے اپنے ناول Ugly American میں امریکی افواج اور سیاسی قیادت کی، خصوصیت سے مشرقی ایشیا میں کارفرمائیوں کا جو نقشہ کھینچا ہے، اس میں غرور اور تحکم کے علاوہ دوسروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا اور ان کی آزادی، عزتِ نفس، مفادات، احساسات اور تمدن و روایات سے بے اعتنائی بلکہ تحقیر نمایاں ہے۔ آج نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی قیادت کے رویے میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی، بلکہ مزید خرابی ہی آئی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے واقعے نے ایک بار پھر امریکا کے اس چہرے کو پاکستان کے سامنے بالخصوص اور پوری دنیا کے سامنے بالعموم بے نقاب کر دیا ہے اور اس وقت پاکستانی قوم کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ امریکا سے اپنے تعلقات کی نوعیت پر نظرثانی کرے، اس علاقے میں امریکا کے مقاصد اور مفادات کو اچھی طرح سمجھے، اور پاکستان کے مقاصد اور مفادات کی روشنی میں ان تعلقات کی نوعیت اور اس کے جملہ پہلوئوں کی ازسرنو صورت گری کرے۔
ایک چھوٹی سی مگر چشم کشا مثال یہ ہے کہ سابق وزیرخارجہ شاہ محمود آج دہائی دے رہے ہیں کہ جان کیری تک نے ان کو اُمید دلائی کہ اگر ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں ان کی ہم نوائی کرے تو وہ دوبارہ وزیرخارجہ بن سکتے ہیں۔ وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن اور صدر اوباما نے صدر زرداری سے کیا کہا؟ اس کی تفصیل میں جانے کی ضروت نہیں۔ نتیجہ سامنے ہے کہ زرداری صاحب نے شاہ محمود قریشی صاحب کو وزارتِ خارجہ سے نکال باہر کیا ہے۔ وزیرداخلہ رحمان ملک نے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو رات کو جگاکر ریمنڈ ڈیوس کے لیے سفارتی استثنا کا حکم دیا، اور ایوانِ صدر کے ہم نوائوں نے اس قاتل کے سفارتی استثنا کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا۔ امریکی نواز لابی نے میڈیا اور سیاسی ایوانوں میں ’غیرت‘ اور ’حکمت‘ کے سبق پڑھانے شروع کردیے اور بڑے بقراطی انداز میں فرمایا کہ اس مسئلے پر ’جذباتی ردعمل‘ اختیار نہ کیا جائے ورنہ معیشت تباہ ہوجائے گی، فوج کی رسد ختم ہوجائے گی اور ملک غربت اور انتشار کا شکار ہوجائے گا۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پہلے جنرل مشرف نے ملک کے درودیوار کو امریکا کی دخل اندازی کے لیے کھولا، اور اس کے بعد ’زرداری گیلانی حکومت‘ نے امریکا کو دخل اندازی کے اور زیادہ مواقع فراہم کیے، اور تمام سفارتی آداب اور ملک کی سلامتی اور تحفظ کے لیے کیے جانے والی پیش بندیوں کو بالاے طاق رکھ کر امریکا کو یہاں کھل کھیلنے کی پوری چھٹی دیے رکھی۔ ایوانِ صدر اور وزیراعظم کے احکامات کے تحت امریکیوں کے لیے ویزا کی لوٹ سیل کا اہتمام کیا گیا اور کسی تحقیق اور تحفظ کے بغیر تھوک کے بھائو سے ویزے واشنگٹن اور دوبئی سے جاری کیے گئے ہیں۔ غلط نام اور جعلی پتوں پر امریکیوں کو ویزے دیے گئے ہیں، اور سی آئی اے اور غالباً موساد تک کے کارکنوں کے لیے سرزمینِ پاکستان کے دروازے کھول دیے گئے ہیں___ کچھ پتا نہیں کہ کتنے ریمنڈ ڈیوس ہیں جو آج ہماری سرزمین پر دندناتے پھر رہے ہیں۔ باب وڈورڈ کی کتاب Obama's Wars امریکا کے عزائم اور پاکستان کی قیادت میں موجود میرجعفروں اور میرصادقوں کے کردار کا ایک شرم ناک ریکارڈ ہے۔
ڈرون حملے ہوں یا پاکستان کی سرزمین پر امریکی کارندوں کی کارفرمائیاں، جن کے لیے ’مشترکہ آپریشن‘ کے نام پر زمین ہموار کی گئی ہے اور جس میں آئی ایس آئی اور سی آئی اے کو مشترکہ زمینی کارروائیاں کرنی تھیں، مگر باب وڈورڈ کے مطابق: پاکستانی مشترکہ آپریشن میں شامل نہ ہوئے۔ اس لیے پاکستان میں داخلے کے لیے سی آئی اے کے لوگوں کو زیادہ ویزے جاری کیے گئے۔ (Obama's Wars ،ص ۲۰۶-۲۰۷)
ریمنڈ ڈیوس اور اس کے نیٹ ورک کے تمام کمانڈوز اس انتظام کا حصہ ہیں۔ موجودہ عوامی اور سابقہ فوجی، دونوں حکومتیں اس صورت حال کی ذمہ دار ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خود آئی ایس آئی کا عمل دخل کم کر دیاگیا ہے اور ایوانِ صدر، وزارتِ داخلہ اور واشنگٹن میں ہمارا سفارت خانہ باقی اداروں کو نظرانداز کرکے سارا کھیل کھیل رہا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے نے آئی ایس آئی کی غفلت، نااہلی یا اسے تصویر سے باہر یا بے خبر رکھنے کے منظرنامے پر سے بھی پردہ اُٹھا دیا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے معروف سفارتی اصول و آداب کو امریکا کے معاملے میں غیرمؤثر کر دیا گیا ہے۔ امریکا کے سفارت خانے میں ڈیڑھ ہزار سے زیادہ مستقل سفارتی استثنا رکھنے والے افراد ہیں اور اس کے علاوہ ہزاروں افراد ویزے پر ہر سال آرہے ہیں۔ امریکی سفارت خانہ، پاکستانی وزارتِ داخلہ سے براہِ راست معاملات طے کرتا ہے اور یہ اصول کہ تمام سفارت خانے صرف وزارتِ خارجہ کے توسط ہی سے ملک کے تمام اداروں سے ربط قائم کریں، یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ امریکا کے سول اور فوجی نمایندوں کو فوج کے اعلیٰ ترین مقامات تک براہِ راست رسائی حاصل ہے۔ سفارت کاری کے تمام آداب کو نظرانداز کرکے امریکا سے جو بھی آتا ہے، اسے صدر، وزیراعظم اور دوسرے اہم مقامات تک براہِ راست رسائی دے دی جاتی ہے۔ امریکی کانگریس کے وفود آتے ہیں مگر پاکستان کی پارلیمنٹ یا اس کے ارکان سے ان کی کوئی دل چسپی دیکھنے میں نہیں آتی، وہ سیدھے وزیراعظم، صدر مملکت اور چیف آف آرمی اسٹاف سے ملتے ہیں۔ ان سرگرمیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان امریکا کی کالونی بن گیا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے سلسلے میں جو رویہ امریکی سفیر سے لے کر امریکی صدر اور دوسرے اعلیٰ عہدے داران نے اختیار کیا، یہ وہی رویہ تھا، جو ایک سامراجی قوت اپنے محکوم ممالک کے ساتھ اختیار کرتی ہے۔
بلاشبہہ یہ لولی لنگڑی جمہوریت ہی کا نتیجہ ہے کہ حکمرانوں کے ایک طبقے کی دلی خواہش اور عیارانہ کوششوں کے باوجود، دینی اور جمہوری قوتوں کے میدان میں موجود ہونے اور میڈیا کی آزادی نے امریکا کے رنگ میں بھنگ ڈال دی اور ساری اُچھل کود کے باوجود، وہ اپنا مقصد پوری طرح حاصل نہیں کرسکے۔ تاہم ان کے عزائم اور حکمرانوں کی کمزوری بالکل الم نشرح ہوگئی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ہمیں آیندہ کے لیے خارجہ پالیسی اور خصوصیت سے امریکا سے تعلقات کی نوعیت اوراس کی تفصیلات طے کرتے وقت پاکستان کے قومی مقاصد، مفادات اور ضروریات کو سامنے رکھ کر سوچ بچار اور قومی اتفاق راے سے معاملات کو طے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ قوم کے تمام متعلقہ حلقے سرجوڑ کر بیٹھیں اور پالیسی کی تشکیلِ نو کریں۔ پارلیمنٹ نے ۲۳؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کو جو متفقہ قرارداد منظور کی تھی اور پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے اس پر عمل درآمد کے لیے اپریل ۲۰۰۹ء میں جو تفصیلی نقشۂ کار (road map) مرتب کیا تھا، اس پر حکومت نے ۵ فی صد بھی عمل نہیں کیا، حالانکہ وہ آج بھی بے حد متعلق ہے اور ہماری پالیسی پر نظرثانی کا نقطۂ آغاز بن سکتا ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کا کیس ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اس پر ان تمام جرائم کے سلسلے میں عدالت میں مقدمہ چلے گا، جس کا اس نے ارتکاب کیا ہے اور اس کے بارے میں کسی سفارتی استثنا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خون بہا کے سلسلے میں بھی یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ اس خاص معاملے میں اصل معیار قصاص ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کا جرم محض دو افراد کے خلاف نہیں بلکہ پاکستان کی سوسائٹی اور ریاست کے خلاف تھا۔ خون بہا کا تعلق صرف مسئلے کے ایک حصے سے تو ہوسکتا ہے، اس لیے اس کے تمام جرائم کا خون بہا لینا دینا ممکن نہیں۔ نیز پشاور ہائی کورٹ کا ایک تاریخی فیصلہ اس سلسلے میں بہت اہم ہے، جس میں ایسا قتل جو فساد فی الارض کے زمرے میں آتا ہو، اس میں خون بہا نہیں تعزیراصل چیز ہے۔ اس لیے سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ امریکا اس مقدمے میں مداخلت سے یکسر باز رہے اور عدالت کو قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا پورا موقع ملے۔ پاکستان کی عدالت پر مکمل اعتماد ضروری ہے اور یہ مقدمہ صرف پاکستان میں چلے گا۔
دوسری بات یہ ضروری ہے کہ امریکا اور خصوصیت سے سی آئی اے اور امریکی سفارت خانہ ان تمام افراد کے پورے کوائف حکومت کے علم میں لائے جو ’سلامتی کے کاموں‘ کے عنوان کے تحت پاکستان میں ہیں۔ نیز امریکا سے معلومات کے حصول کا انتظار کیے بغیر پاکستان کی ایجنسیوں کو فوری طور پر ایسے تمام افراد کا کھوج لگانا چاہیے، اور پاکستان میں جتنے بھی غیرملکی ہیں خصوصیت سے امریکی اور ان کے مقامی یا دوسرے کارندے ان پر نگرانی کا مقرر نظام قائم کیا جائے۔
تیسرا، ویزے کے سلسلے میں ’فراخ دلانہ‘ پالیسی کو فوری طور پر ختم کیا جائے اور ہر ویزا پوری چھان بین کے بعد اور تمام ایجنسیوں سے کلیئرنس کے بعد ہی جاری کیا جائے۔
چوتھی چیز فوری طور پر وزارتِ خارجہ، وزارتِ داخلہ اور متعلقہ ایجنسیوں کے تعاون سے امریکی اور یورپی ممالک کے سفارتی عملے کی تعداد پر نظرثانی کی جائے، ان کے نقل و حمل اور سرگرمیوں پر نگاہ رکھی جائے۔ نیز حکومت کے تمام اداروں اور تمام سفارت کاروں کو پابند کیا جائے کہ سارے معاملات دفترخارجہ کے ذریعے انجام دیے جائیں۔ ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم بھی اس سلسلے میں واضح ضابطوں اور آداب کا لحاظ رکھیں۔
پانچویں چیز دہشت گردی کے خلاف امریکا کی اس جنگ کے بارے میں پاکستان کے کردار کو نئے سرے سے واضح اور متعین کیا جائے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو دونوں ملکوں کے مفادات اور تاریخی رشتوں اور تعلقات کی روشنی میں مرتب کیا جائے۔ امریکا افغانستان میں جنگ ہارچکا ہے اور اس کے لیے واپسی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ اسے واپسی کا قابلِ قبول راستہ ضرور دیا جائے، لیکن اس طرح نہیں کہ وہ افغانستان کے معاملات کی ڈوریاں اپنے ہاتھ میں رکھے اور افغانستان میں بھارت اس کے قائم مقام کے طور پر یا خود اپنے مفادات کے فروغ کے لیے کوئی مستقل کردار ادا کرنے کی مسند سنبھال لے۔
چھٹی چیز یہ ہے کہ اس امر کی بھی فوری ضرورت ہے کہ امریکا کے ان دعووں کی شفاف انداز میں تحقیق ہو کہ مشرف اور زرداری دور میں کچھ تحریری طور پر اور کچھ زبانی مراعات حکومتِ پاکستان نے امریکا کی حکومت ، اس کی فوج، سی آئی اے اور دوسرے اداروں کو دی ہیں۔ یہ مراعات کیا ہیں؟ یہ تمام معلومات فوری طور پر پارلیمنٹ کے سامنے آنی چاہییں ۔ امریکی اخبارات نے بے نام سرکاری ذرائع کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ ۲۰۰۸ء کے آخر میںایک ۱۱ نکاتی معاہدہ ہوا تھا جس میں سفارتی استثنا، اور بلالائسنس اسلحہ رکھنے کے بارے میں امریکیوں کو ناقابلِ یقین مراعات دی گئی ہیں ۔ اسی طرح ڈرون حملوں اور مشترک کارروائیوںکے نام پر بھی طرح طرح کی اور بے محابا سہولتوں کا بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ اس بارے میں تمام حقائق پارلیمنٹ کے سامنے فوری طور پر آنے چاہییں تاکہ معلوم ہو کہ کون سی سہولت کس نے دی۔ نیز پچھلے ۱۰ برسوں میں جو کچھ بھی کیا گیا ہے اس پر پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی میں بھرپور غور کیا جائے اور ان تمام سہولتوں اور مراعات کو فی الفور ختم کیا جائے جو ملکی حاکمیت اور خود مختاری کو مجروح کرتی ہیں۔
ساتویں چیز پاکستانی معیشت کی تعمیرنو کی بنیاد خودانحصاری ہو۔ جس طرح آج ملک امریکا اور عالمی اداروں کی گرفت میں آگیاہے، اس سے جلداز جلد نکلنے کا راستہ اختیار کیا جائے۔ ہماری نگاہ میں امریکی امداد ملک کے لیے قوت کا نہیں کمزوری کا باعث ہے۔ ہمیں ایسی معاشی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو معاشی ترقی، سماجی انصاف اور عوام کی خوش حالی پرمرکوز ہو۔ امریکا کی جنگ میں شرکت سے ہمیں شدید معاشی نقصان ہوا ہے اور قرضوں کا پہاڑ اس پر مستزاد ہے۔ معاشی استحکام کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہم دوسروں پر انحصار کے دھوکے سے نکلیں۔ یہ وقت ایک بڑے فیصلے کا ہے اور اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو وہ وسائل دیے ہیں، جن کے صحیح استعمال سے ہم معاشی ترقی اور سیاسی آزادی دونوں اہداف حاصل کرسکتے ہیں۔ آزاد خارجہ پالیسی اور معاشی ترقی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر پاکستانی قیادت ایمان دار، باصلاحیت اور جرأت مند افراد کے ہاتھوں میں ہو، تو آج پاکستان کو وہ مقام حاصل ہے کہ ہم اپنی شرائط پر دوسروں سے معاملات طے کرسکتے ہیں۔
دنیا کے حالات کروٹ لے رہے ہیں۔ آمریت کے بت گررہے ہیں اور عوام ہراس نظام سے بے زار ہیں، جس میں ان کی آزادی، عزت اور وسائل پر ان کا کنٹرول، ہرچیز تباہ ہوئی ہے۔ اُمت مسلمہ کے وسائل دوسروں کی چاکری کی نذر ہورہے ہیں۔ صرف مشرق وسطیٰ کی برآمدات کے ذریعے سالانہ آمدنی ۵۰۰؍ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اگر یہ وسائل اُمت مسلمہ کی ترقی اور استحکام کے لیے صرف ہوں تو پانچ سال میں دنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ ضرورت صرف چہروں کے بدلنے کی نہیں، نظام کی تبدیلی کی ہے۔ اس کے لیے نئے وژن کی، صحیح منزل کے تعین کی، دیانت دار اور باصلاحیت قیادت کی، اور زمینی حقائق پر مبنی دوررس نتائج حاصل کرنے والی پالیسیوں کی تشکیل اور ان پر خلوص اور محنت سے عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور تمام ہی مسلم ممالک کے عوام جس تبدیلی کے خواہاں ہیں، اسے اپنے اپنے ملک کو سامراجی تسلط اور اس کے مقامی کارپردازوں سے نجات کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ امریکا کی غلامی کے چنگل سے نکلے بغیر پاکستان اس منزل کی طرف پیش رفت نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے امریکا سے تصادم نہیں بلکہ امریکا سے تعلقات اس نہج پر استوار کرنے کی ضرورت ہے، جس میں اوّلیت پاکستان کے مفادات اور مقاصد و اہداف کو حاصل ہو۔ ریمنڈ ڈیوس کے واقعے نے اصل ایشو کو توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ اصل چیلنج اس وسیع تر مسئلے کا مناسب حل ہے، محض جزوی امور کے گورکھ دھندے میں اُلجھنا نہیں ہے۔
ہر سال ربیع الاول کا مہینہ رحمتوں، برکتوں اور روحانی نعمتوںکا تحفہ لے کر آتا ہے اور ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کی زندگی میں نئی روح پھونکنے کا ذریعہ بنتا ہے، لیکن یہ حقیقت بھی ہر لمحے سامنے رکھنا ضروری ہے کہ حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق نہ کسی خاص مہینے سے ہے، نہ کسی خاص مقام اور موسم سے۔ یہ تو وہ سدابہار کیفیت ہے جو ایمان کے پہلے لمحے سے زندگی کے آخری سانس تک مومن کا سرمایۂ زیست ہے، شرط ایمان کی ہے۔
شعوری طور پر، حتیٰ کہ صرف رسمی طور پر بھی جب ایک شخص اپنے مسلمان ہونے کا اعلان یہ کہہ کر کرتا ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو اپنا وحدہٗ لاشریک رب مانتا ہے اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا سچا رسول اور بندہ تسلیم کرتا ہے (اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمداً عبدہٗ ورسولہٗ)، تو وہ اللہ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک پیمانِ محبت باندھتا ہے اور اپنے آپ کو اپنے رب، مالکِ حقیقی اور اپنے رہنما، قائد، محسن اور ہادی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ایسے رشتے میں منسلک کرتا ہے جو اسے رنگ و نسل، خون اور مقام کی قید سے آزاد اُمت مسلمہ اور اُمت محمدیہ کا ایک جزولاینفک بنادیتا ہے۔ بلاشبہہ اس رشتے کا اصل لطف شعوری تعلق کی صورت میں ہے لیکن یہ بھی اللہ کا انعام ہے کہ جس شخص نے صرف زبان سے اظہار اور دل سے اقرار کیا ہو، اور اس نے اس رشتے سے وابستہ ہونے کے مطالبات اور شرائط و واجبات پر غور نہ بھی کیا ہو، تب بھی وہ اپنے قائد و رہنما محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو دل کی ہر دھڑکن میں محسوس کرتا ہے اور یہ محبت ساری زندگی اس کی رگوں میں خون کی شکل میں گردش کرتی رہتی ہے۔ وہ ایک دیہاتی ہو، شہری ہو، کوہستانی ہو، صحرا نشین ہو، سمندر میں دن رات سفر کرنے والا مچھیرا ہو، ایک طالب علم ہو یا دانش ور، وہ اپنے آپ کو اس رشتے سے اس طرح وابستہ کردیتا ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی قوت بھی، حتیٰ کہ جب موت سامنے نظر آرہی ہو، اس وقت بھی وہ نہیں چاہتا کہ اس کے رسولؐ اس کے محسن صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و شخصیت کو ایک پھانس کے برابر بھی تکلیف پہنچے۔ حضرت خبیبؓ کا واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب انھیں شہید کرتے وقت ان کے قاتل نے سوال کیا کہ اگر تمھاری جگہ یہ عمل تمھارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا جاتا تو تم کیا محسوس کرتے، تو ان کا جواب قیامت تک کے لیے ہرمسلم و مومن کی طرف سے دیا جانے والا جواب تھا، یعنی میں تویہ بھی نہیں پسند کروں گا کہ اس ہستی کو ایک پھانس کے برابر بھی تکلیف پہنچے۔
یہ محبت، یہ تعلق، یہ وابستگی ربیع الاول میں کچھ زیادہ واضح شکل اس لیے اختیار کرلیتی ہے کہ اس ماہ میں اخبارات ہوں یا ریڈیو اور ٹیلی وژن کے اکثر چینل ۱۲ربیع الاول کو اپنی خصوصی نشریات کا اہتمام کرتے ہیں، میلاد النبیؐ کے جلسے منعقد ہوتے اور جلوس نکلتے ہیں، اسکولوں میں تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ بعض سرکاری ادارے سیرت پر کتابوں اور مضمون نویسی کے مقابلے منعقد کرا کے انعامات دیتے ہیں۔ یوں اس مہینے کے ۲۹ یا ۳۰ دنوں میں ایک دلی اظہارِ محبت و وابستگی کے بعد پاکستان میں بسنے والی اُمت مسلمہ مطمئن ہوجاتی ہے کہ اُس نے حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ادا کر دیا۔ بعض عاشقانِ رسولؐ بازاروں میں جھنڈیاں لگاکر پٹاخے چھوڑ کر بھی اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
حضرت عبدالرحمن بن ابی قرادؓ فرماتے ہیں: ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا۔ آپؐ کے کچھ اصحاب آپؐ کے وضو کا پانی لے کر اپنے چہروں پر مَلنے لگے تو آپؐ نے پوچھا: تمھارے اس کام کا محرک کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اوررسولؐ کی محبت۔ آپؐ نے فرمایا: جن لوگوں کو اس بات کی خوشی ہو کہ وہ اللہ اور رسولؐ سے محبت کرتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ جب بات کریں تو سچ بولیں، جب ان کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو اس کو (بہ حفاظت) مالک کے حوالے کریں، اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ (مشکوٰۃ)
حضرت انسؓ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اُس کی نگاہ میں اس کے باپ، اس کے بیٹے اور سارے انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔ (بخاری، مسلم)
اگر صرف ان دو احادیث پر غور کیا جائے تو آج ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں ان کے حوالے سے ان میں بیش بہا ہدایات موجود ہیں۔
سب سے پہلی بات جس کا سمجھنا ضروری ہے وہ یہ ہے۔ بلاشبہہ محبت کے مظاہر ایک فطری عمل ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کا منہ بولتا ثبوت ہیں لیکن اس کے ساتھ محبت کی اصل روح اور تقاضوں کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ محبت کی تعریف اور مفہوم یہ نہیں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس پانی سے وضو فرمایا ہو اس کو تبرکاً اپنے چہرے پر مَل کر یہ سمجھ لیا جائے کہ اس برکت کے سہارے ربِ کریم ہم پر عنایت فرما دے گا، بلکہ محبت کا تعلق ’عمل‘ سے ہے۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی قلبی کیفیت اور وابستگی کو حکمت ِ رسالت کے ذریعے تین ایسے اعمال میں بدل دینے کا حکم دیا جو ایک مسلمان کو صحیح معنوں میں مومن بنا سکتے ہیں، چنانچہ پہلی بات یہ ارشاد فرمائی کہ جب بات کریں تو سچ (صدق) کو اختیار کریں۔ یہ صدق محض زبان سے سچی بات کہنے تک محدود نہیں ہے، گو اس کی بھی غیرمعمولی اہمیت ہے، بلکہ اصل مقصد اور ہدف اپنے تمام معاملات میں صدق کو اختیار کرنا مطلوب ہے جس کی مثال حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اسوہ میں ہے کہ اللہ کی کتاب میں ان کی زندگی کا مرکزی وصف ہی یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ وعدے کا سچا تھا (سورئہ مریم ۱۹:۵۰)۔ یہی نکتہ اس ارشاد ربانی سے بھی ہمارے سامنے آتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے خاندانی زندگی کے آغاز کے موقع پر جو اصطلاح مہر کے حوالے سے پسند فرمائی وہ بھی اسی مادے سے تعلق رکھتی ہے: وَ ٰاتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃً ط (النساء۴:۴) ’’اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو‘‘۔
اہلِ ایمان کی پہچان اسی صدق کو قرار دیا گیا: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ o (التوبہ ۹:۱۱۹) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو‘‘۔ مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کے قیام، حق کے غالب آنے اور باطل کے مٹ جانے کے عمل کو بھی صدق کے ساتھ وابستہ کیا گیا اور ہجرتِ نبویؐ کے حوالے سے قرآن کریم نے ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو دعا تعلیم فرمائی وہ صداقت اور شہادتِ حق کے ساتھ مشکلات و مصائب کا مقابلہ کرنے کے بعد صداقت اور شہادتِ حق دیتے ہوئے دارالاسلام اور مرکز اُمت کے قیام کی طرف اشارہ کرتی ہے:
وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۸۰) اور دعا کرو کہ پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے۔
صدق جس کی طرف خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے حب ِ رسول کے حوالے سے متوجہ فرمایا اہلِ ایمان کی صفات کے حوالے سے بارہا قرآن کریم میں بیان کیا جاتا ہے۔ چنانچہ سورئہ احزاب میں اہلِ ایمان کی جن صفات کا ذکر ہے اس میں صدق کو اعلیٰ مقام حاصل ہے:
اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصّٰٓئِمٰتِ۔ٓ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَھُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ لا اَعَدَّاللّٰہُ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًاo (احزاب ۳۳:۳۵) بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیع فرمان ہیں، راست باز (صادق اور صادقات) ہیں، صابر ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ (بشمول زکوٰۃ) دینے والے ہیں، روزے رکھنے والے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کررکھا ہے۔
صداقت، صالحیت اور شہادت میں ربط اور یگانگت پائی جاتی ہے۔ چنانچہ قولِ صادق عملِ صالح میں اور عملِ صالح اللہ کے حضور شہادت کا ذریعہ بنتا ہے، اور اس دنیا میں بھی ایک مردِصادق یا ایک صادقہ خاتون اپنے زبانی اعلان و اقرار کو اپنی صالحیت، بھلائی پر قائم رہنے کے ذریعے اپنے مومن یا مومنہ ہونے کی شہادت فراہم کرتے ہیں، حتیٰ کہ جان اور مال کے ذریعے تصدیق کرتے ہوئے شہادت کے اعلیٰ مقام تک پہنچتے ہیں۔
رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دوسرے عملِ صالح کے ذریعے حب ِ رسولؐ کے لازمی مظہر کی حقیقت کو بیان فرمایا ہے وہ بھی قرآن و سنت کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک اہم عمل ہے جس کے بغیر ہم موجودہ اخلاقی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی انتشار سے نہیں نکل سکتے۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ویُؤَدِّ امانتہٗ اذائتُمِنَ ، یعنی امانت کو بہ حفاظت مالک کے حوالے کرے۔
قرآن کریم نے امانت کو اہلِ ایمان کی اوّلین صفات کے طور پر جگہ جگہ بیان کیا ہے۔ چنانچہ سورئہ مومنون میں فرمایا گیا: وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمَانٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَ o (المومنون ۲۳: ۸) ’’اپنی امانتوں اور اپنے عہدوپیمان کا پاس رکھتے ہیں‘‘۔ انبیاے کرام ؑکے حوالے سے بار بار یہ بات بیان کی گئی ہے کہ وہ امانت دار رسول (رسولٌ امین) یا قوی اور امین ہیں۔ (الشعراء ۲۶: ۱۰۷، ۱۶۳، ۱۹۳، النمل ۲۷:۳۹)
ذمہ داریوں اور قیادت کے حوالے سے یہ صفت شرط کی حیثیت رکھتی ہے، چنانچہ حضرت موسٰی ؑ کے حوالے سے اس طرف اشارہ ہوتا ہے (القصص ۲۸:۳۶)، اور حکومتی اورفنی امور کے حوالے سے قرآن کریم یہ حکم دیتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا لا (النساء ۴:۵۸) ’’مسلمانو، اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں رب کریم نے بطور مشورہ یا تجویز کے نہیں بلکہ بطورِ حکم یہ بات فرمائی ہے کہ اہلِ ایمان اپنے معاملات ایسے افراد کے ہاتھ میں دیں جو اُس ذمہ داری کے اہل ہوں۔ اس کے مضمرات معاشی، سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی و ابلاغی شعبوں میں غیرمعمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر ایک ایسے شخص کو جو بذاتِ خود اور جس کا قبیلہ اپنی ماضی کی تاریخ کے لحاظ سے چور، بددیانت اور ڈاکو کے طور پر شہرت رکھتا ہو، ملک کی اعلیٰ ترین ذمہ داری سونپ دی جائے اور پھر کفِ افسوس مَلا جائے کہ ملک کے امیر امیر تر اور غریب، غریب تر ہو رہے ہیں، سرکاری خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے، پرائیویٹائزیشن کے نام پر اپنے ہم نوالہ افراد کو کوڑیوں کے مول قومی اثاثے فروخت کیے جارہے ہیں، سیاسی حلیفوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے ہزاروں ایکڑ زمین تقریباً مفت دی جارہی ہو، تو یہ قصور صرف چور ہی کا نہیں بلکہ چور کو امانت حوالے کرنے والوں کا بھی ہے۔
اگرابلاغی سطح پر صحافت اور برقی ابلاغِ عامہ کو ایسے افراد کے حوالے کر دیا جائے جو ذہناً یا تو مغرب کے غلام ہوں یا ہندوانہ ثقافت اورمفادات کی حمایت میں اپنی دانش وری کو استعمال کرنے کے لیے مشہور ہوں تو الزام کسے دیا جائے گا؟ اگر تعلیم گاہ میں ایک ایسے شخص کو استاد بنا دیا جائے جو نہ علم رکھتا ہو نہ کردار، تو جو نسل اُس کے زیرتربیت پیدا ہوگی کیا اس میں صداقت اور امانت پیدا ہوسکتی ہے؟ اقبال نے صداقت اور امانت کے حوالے ہی سے کہا تھا کہ ان دو اسلامی اقدار اور احکاماتِ نبویؐ کو جب تک اختیار نہیں کیا جائے گا اس وقت تک قوموں کی امامت کا فریضہ ادا نہیں ہوسکتا ؎
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
تیسری اہم ہدایت جو حب ِ رسولؐ کے حوالے سے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی وہ پڑوسی کے حقوق کے حوالے سے ہے۔ ہم عموماً اس سے یہ بات سمجھتے ہیں کہ عیدبقرعید کے موقع پر اگر پڑوسی کے ہاں گوشت کا حصہ یا سویاں بھیج دی گئیں تو اس کا حق ادا ہوگیا، حالانکہ اس کا مقصد وہ تمام افراد ہیں جن سے تعلق سکونت کے باب میں مستقل رفاقت کا ہو، یا جو عارضی طور پر رفیقِ سفر بن جائیں۔ اس کا اشارہ اس حدیث سے بھی ملتا ہے، جس میں یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ پڑوسی سے مراد محض فوری پڑوسی نہیں ہے بلکہ ۴۰ گھر سیدھے ہاتھ کی طرف اور ۴۰ گھر بائیں ہاتھ کی طرف پڑوسی شمار کیے جائیں گے۔ ایسے ہی پڑوسی سے مراد وہ شخص بھی ہے جو ہمارا ہم سفر ہو، بس میں، جہاز میں، ٹرین میں،ویگن میں، کہیں بھی۔ گویا اتنے کم عرصے کے لیے بھی اس کے حقوق کا خیال رکھنا حب ِ رسولؐ کا تقاضا اور مطالبہ ہے۔
حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے قرآن کریم نے جو اصول طے کر دیا ہے وہ رسمی اظہارِ محبت سے عبارت نہیں۔ دل، زبان اور اعمال سے محبت کے اظہار کے ساتھ اس سے بھی کہیں بڑھ کر قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے کہ:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَo (اٰل عمران ۳:۳۱-۳۲) اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ ان سے کہو کہ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت قبول کرو۔ پھر اگر وہ تمھاری یہ دعوت قبول نہ کریں تو یقینا یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں۔
محبت ِ رسولؐ کا پہلا مطالبہ اطاعتِ رسولؐ ہے۔ شخصی زندگی میں بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی۔ یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ جب معاملہ محض زبانی اظہار ہی کا نہیں بلکہ باقاعدہ دستورِ مملکت کے ذریعے بھی یہ اعلان کیا جائے کہ شریعت بالادست ہے اور حکومت اسلامی تعلیمات کے نفاذ کی ذمہ دار ہے اور اس کے باوجود کوئی حکومتی ہرکارہ ناموسِ رسولؐ کے حوالے سے غیرذمہ داری کی بات کرے، تو وہ دستورِ پاکستان کی خلاف ورزی اور قرآن کے واضح حکم کی مخالفت کا مرتکب ہوگا۔
قرآن کریم سے براہِ راست تعلق کی کمی اور سیرتِ رسولؐ سے محض جذباتی وابستگی کے نتیجے میں اکثر مغرب زدہ دانش ور یہ بات بظاہر بڑی معصومیت سے کہتے ہیں کہ قرآن کریم تو اللہ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود اس کی حفاظت کا بندوبست کیا ہے۔ اس بنا پر اس کی تعلیمات و احکام کو ماننا فرض ہے لیکن حدیث اور سنتِ رسولؐ ان کے خیال میںایک انسانی عمل ہے جو وقت کی قید کی بنا پر ساتویں صدی میلادی میں تو قابلِ عمل تھا لیکن معاشرتی ارتقا اور حالات کی تبدیلی کے بعد اس کی حیثیت اخلاقی تعلیمات کی تو ہوسکتی ہے لیکن اسے قانون کا درجہ نہیں دیاجانا چاہیے۔ اس مفروضے کی بنیاد تین منطقی مغالطوں پر ہے:
اوّلاً یہ مفروضہ کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل صرف ساتویں صدی کے عربوں اور عرب معاشرے کے لیے تھا۔ گویا نعوذباللہ آپؐ ایک عرب قبائلی مصلح (ریفارمر) تھے۔ دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ حدیث یا سنت، خاتم النبیینؐ کا ذاتی عمل تھا اور اس کی پیروی بعد کے افراد پر واجب نہیں۔ تیسرا مفروضہ یہ ہے کہ آپؐ کا کام محض چند اخلاقی اصول سمجھانا تھا۔ آپؐ کوئی قانون و شریعت لے کر نہیں آئے۔
ان تینوں مفروضوں پر کسی فلسفیانہ، عقل و منطق پر مبنی گفتگو اور دلائل کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ اگر وہ حضرات جو خود کو اہلِ قرآن کہتے ہیں یا یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے لیے قرآن کافی ہے، قرآن کریم نے خود ان تینوں مفروضوں کا جواب دیا ہے اور جو بات خالق کائنات اور انسانوں کا مالک خود فرمائے اُس سے زیادہ وزنی اور قطعی ثبوت و دلیل اور کوئی نہیں ہوسکتی۔
پہلے اور دوسرے مفروضے کے حوالے سے قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں تمام اہلِ ایمان کے لیے قیامت تک کے لیے بہترین قابلِ عمل نمونہ ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (احزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں بہترین نمونہ ہے۔
یہ نمونہ اور اسوہ محض عبادات میں نہیں ہے بلکہ معاملات اور زندگی کے ہرہر عمل کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس بات کا رد بھی قرآن کریم نے خود کردیا ہے کہ آپؐ محض عربوں کے لیے نہیں آئے بلکہ جس طرح قرآن تمام انسانوں کے لیے قیامت تک کے لیے ہدایت ہے (البقرہ ۲:۱۸۵) ،اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تمام انسانوں کے لیے قابلِ عمل اور واجب العمل نمونہ ہے:
قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَانِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ص فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ کَلِمٰتِہٖ وَ اتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَo (اعراف ۷:۱۵۸) اے محمدؐ! کہو کہ اے انسانو، میں تم سب کی طرف اس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے،وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمّی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے، اور پیروی اختیار کرو اس کی، امید ہے کہ تم راہِ راست پا لوگے۔
یہاں یہ بات انتہائی واضح الفاظ میں فرما دی گئی کہ آپؐ کی نبوت اور رسالت تمام انسانوں کے لیے ہے اور تمام انسانوں کو آپؐ کی پیروی اختیار کرنا شرطِ کامیابی ہے۔
رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد کئی مقامات پر خود قرآن کریم نے واضح الفاظ میں یوں بیان کیا ہے کہ رسولؐ کا کام محض کتاب پہنچا دینا نہیں ہے، بلکہ وہ اس کتاب کو صحیح طور پر پڑھنے، اس کتاب کی تعلیمات کو سمجھانے، اس کتاب کی تشریح اور وضاحت کے ساتھ ساتھ خود حکمت سمجھانے اور اہلِ ایمان کو تزکیے کا طریقہ سکھانے پر مامور کیاگیا ہے۔ وہ نعوذباللہ محض ڈاکیا نہیں ہے کہ کتاب پہنچا کر اس کا کام ختم ہوگیا، بلکہ وہ نہ صرف شارح بلکہ شارع ہے۔ چنانچہ سورۂ اعراف میں یہ بات قرآن کریم نے واضح کر دی کہ آپؐ اہلِ ایمان پر سے بوجھ کو ہلکا کرتے ہیں، پاک اور طیب چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتے ہیں اور خبائث و منکرات کو حرام قرار دیتے ہیں۔ اس آیت ِ مبارکہ میں تحلیل و تحریم کا اختیار نبیؐ سے وابستہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ ز یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ لا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (اعراف ۷:۱۵۷) (پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر، نبی اُمّی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریںجس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اُتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اِس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اُس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔
اسی بات کو سورئہ حشر میں یوں فرمایا گیا:
وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ق وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابo(الحشر ۵۹:۷) جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کوروک دے اس سے رُک جائو۔ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
رسولؐ کی اس اطاعت و فرماں برداری کو براہِ راست اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف سے حمایت و توثیق حاصل ہے اور اللہ کے حکم کی بنا پر ہی یہ اطاعت کرنا فرض کی گئی ہے۔ چنانچہ اہلِ ایمان کا صحیح طرزِ عمل قرآن کریم نے رسولؐ کی بات کو سن کر سرتسلیم خم کرنے کوقراردیا ہے:
اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ط وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَخْشَ اللّٰہَ وَیَتَّقْہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفَآئِزُوْنَo(النور ۲۴:۵۱-۵۲) ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسولؐ کی طرف بلائے جائیں تاکہ رسولؐ ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں، اور کامیاب وہی ہیں جو اللہ اور رسول کی فرماں برداری کریں اور اللہ سے ڈریں اور اس کی نافرمانی سے بچیں۔
یہاں یہ بات صراحت سے بیان کر دی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مقدمے یا معاملے کا جو فیصلہ فرما دیں اسے سن کر فوری طور پر اطاعت کرنا ہی ایمان ہے۔ سورئہ نساء میں اس پہلو کو اس طرح بیان کیا گیا:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِط (النساء ۴:۶۴) ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ اذنِ خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔
گویا محض قرآن کے احکامات کی نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فیصلے، حکم اور عمل کی اطاعت کرنا ایمان کا تقاضا ہے۔ آگے چل کر اسی بات کی مزید تاکید کی گئی:
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًاo (النساء ۴:۶۹) جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیاؑ اور صدیقین اور شہدا اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔
قرآن کریم نے جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو شامل کر کے ان تمام مفروضوں کو باطل قرار دیا ہے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے تشریعی ہونے پر کسی شبہے کا اظہار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا (النساء۴:۵۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں۔ پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پہ ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔
یہاں قرآن کریم نے اہلِ ایمان کا سنت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کن ہونے کے حوالے سے رویہ واضح کرتے ہوئے اس بات کو اللہ اورآخرت پر ایمان سے مشروط کردیا ہے، یعنی اگر کوئی اللہ اور آخرت پر یقین رکھتا ہے تو وہ اپنے تمام معاملات میں آخری فیصلہ صرف اللہ اور رسولؐ کا مانے گا، حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو اصحابِ علم ہوں اور صاحب ِ مسند قضٰی ہوں۔ اگر ان سے اختلاف ہو تو حاکم، قاضی اور عالم کی بات کوقرآن و سنت پر جانچا جائے گا اور یہ دو غیر متغیر اُصول و مصادر جو فیصلہ کریں وہ عالم اور قاضی یا حاکم کو بھی ماننا ہوگا۔ حاکم اور امیر کی اطاعت صرف اس وقت تک کی جائے گی جب تک وہ اللہ اور رسولؐ دونوں کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے کسی بات کو کرنے کا فیصلہ کرے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے تشریعی ہونے کے حوالے سے قرآن کریم نے بڑی وضاحت سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ چونکہ رسولؐ کی نگرانی ہمہ وقت کی جاتی ہے اور وہ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی بات نہ کہتا ہے، نہ کرتا ہے، اس لیے اب تک تو یہ کہا گیا تھا کہ اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی۔ اب انداز بدلتے ہوئے یہ کہا جا رہا ہے کہ:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ وَ مَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا(النساء ۴:۸۰) جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی اور جو منہ موڑ گیا تو بہرحال ہم نے تمھیں ان لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے۔
اگر ایسا نہ کیا گیا تو قرآن وعید سناتا ہے کہ ایسے اہلِ ایمان کے تمام اعمال گویا ضائع ہوں گے، العیاذ باللّٰہ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔ چنانچہ فرمایا گیا:
یاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلاَ تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَکُمْ o اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ مَاتُوا وَھُمْ کُفَّارٌ فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَھُمْo(محمد ۴۷:۳۳-۳۴) اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرلو۔ کفر کرنے والوں، راہِ خدا سے روکنے والوں اور مرتے دم تک کفر پر جمے رہنے والوں کو تو اللہ ہرگز معاف نہ کرے گا۔
جس طرح اطاعت میں اللہ اور رسولؐ دونوں کو شامل کیا گیا، ایسے ہی نافرمانی کے حوالے سے بھی قرآن دونوں کی نافرمانی کو مساوی قرار دیتا ہے:
وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ ط وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاo (احزاب ۳۳:۳۶) کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کردے تو پھر اسے اپنے اُس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور فیصلے کے بارے میں دل میں معمولی سا بھی شبہہ ہو تو قرآن اسے نفاق سے تعبیر کرتا ہے:
وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًاo (النساء ۴:۶۱) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آئو رسولؐ کی طرف، تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمھاری طرف آنے سے کتراتے ہیں۔
قرآن کریم کی اتنی واضح آیات کے بعد بھی اگر کوئی یہ کہنے کی جسارت کرتا ہے کہ صرف قرآن شریعت ہے اور سنت، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی عمل ہے تو وہ خود قرآن کریم کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا تقاضا یہی ہے کہ آپؐ کی دی ہوئی ہدایات، آپؐ کے احکامات اور عمل کو جوں کا توں تسلیم کرنے کے بعد اپنے طرزِعمل میں اسے اختیار کرلے۔ مسلمان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرہرعمل کو اختیار کرنے کی کوشش ہی میں نجات ہے۔
حدیث میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کے احساس اور قلبی کیفیت کو ایک مسلمان کے قابلِ محسوس عمل سے وابستہ کرنے کے ذریعے محبت کو عمل میں تبدیل کر دیا، اور عمل بھی وہ جو درود و سلام اور عبادات کے ساتھ صداقت، امانت اور حقوق العباد کی شکل میں معاشرے کی فلاح اور ایک ایسی حکومت کے قیام کی بنیاد فراہم کرے جو اسلام کے عادلانہ نظام کو نافذ کرنا چاہتی ہو۔
حب ِ الٰہی اور حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ قرآن ہمارے زبانی دعووں کو عمل میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ وہ بے شمار مقامات پر ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ اہلِ ایمان اللہ سے کتنی محبت رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے کن اور کیسے بندوں کو پسند کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا:
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ط(البقرہ ۲:۱۶۵) حالانکہ ایمان رکھنے والے سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔
پھر یہ بات کہی گئی کہ: اللہ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ مال کو اپنا رب نہ بنایا جائے نہ مال کی محبت میں ایسا گرفتار ہو کہ کروڑوں، اربوں کے اثاثوں کو ملک کے باہر اور ملک کے اندر اپنے قبضے میں کرنے کے بعد بھی ھل من مزید کی ہوس میں اتنا وارفتہ ہو کہ جیسے اسے شیطان نے ہاتھ لگاکر دولت کا باولا کردیا ہو:
وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ وَ اَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَo (البقرہ ۲:۱۹۵) اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے۔
وہ اہلِ ایمان بھی جو اللہ کی راہ میں استقامت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور صبر کے ساتھ حق کی اشاعت اور شہادت میں لگ جاتے ہیں ان کے حوالے سے رب کریم اپنی پسند کا اظہار فرماتا ہے:
بَلٰی مَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ وَ اتَّقٰی فَاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَo (اٰل عمران۳:۷۶) جو بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا اور برائی سے بچ کر رہے گا وہ اللہ کا محبوب بنے گا۔
آگے چل کر اللہ کے ان محبوب بندوں میں ان کا ذکر آتا ہے جو پوری قوت کے ساتھ باطل، ظلم، کفر، طاغوت اور استحصال کا مقابلہ کرنے میں اپنے عمل سے مستقل مزاجی، مسلسل جدوجہد اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں:
وَ کَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَ مَعَہٗ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْرٌ فَمَا وَ ھَنُوْا لِمَآ اَصَابَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ مَا ضَعُفُوْا وَ مَا اسْتَکَانُوْا ط وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۱۴۶) اس سے پہلے کتنے ہی نبی ایسے گزر چکے ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے خدا پرستوں نے جنگ کی۔ اللہ کی راہ میں جو مصیبتیں ان پر پڑیں، ان سے وہ دل شکستہ نہیں ہوئے، انھوں نے کمزوری نہیں دکھائی، وہ (باطل کے آگے) سر نگوں نہیں ہوئے۔ ایسے ہی صابروں کو اللہ پسند کرتا ہے۔
ہر مسلمان اور خصوصیت سے تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے یہ بات قابلِ غور ہے کہ اکثر انسانی ذہن اپنے اندازے کے مطابق ایک وقت کا اندازہ (time frame) قائم کرتا ہے اور پھر سوچتا ہے کہ آخر کب تک نظامِ عدل اور نظامِ اسلامی کے قیام کے لیے کوششیں کی جائیں گی؟ منزل قریب کیوں نہیں آرہی؟ مشکلات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ کیا ہماری عددی قوت میں مناسب اضافہ ہو رہا ہے؟ اور کیا یہ عددی قوت تناسب کے لحاظ سے کفر کی بڑھتی ہوئی تعداد کا مقابلہ کرسکے گی وغیرہ۔ ان تمام ممکنہ سوالات کا جواب قرآن نے اپنے منفرد انداز میں انبیا ماقبل کے تجربات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے یہ کہہ کر دے دیا ہے کہ اللہ کے ان برگزیدہ نمایندوں کے ساتھ بھی اس طرح کے حالات پیش آئے ہیں لیکن انھوں نے صبرواستقامت سے وقت کی قید سے آزاد ہوکر اللہ کی راہ میں اپنا جہاد جاری رکھا اور وہی اللہ کے محبوب بندے ہیں۔ کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور کامیابی بھی ہوسکتی ہے کہ ایک بندہ جس کی مخلوق ہو، جس نے اسے اپنے حکم سے پیدا کیا ہو، وہ اپنے بندے کے صبرواستقامت کو دیکھ کر اس کی طرف نگاہ محبت کو ملتفت کردے! کیا اس سے بڑھ کر کوئی کامیابی ہوسکتی ہے کہ ایسے بندوں کا نام وہ اپنے مقربین میں لکھ دے اور انھیں صدیقین، صلحا اور شہدا کی صف میں شامل کرلے!
اللہ کی راہ میں حُب ِ رسولؐ سے آراستہ تحریکِ اسلامی کے کارکن قیامِ عدل اور اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں اسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں جب وہ اپنی طرف سے کوشش میں کسی کمی کے شکار نہ ہوں اور ساتھ ہی وہ اپنے رب پر مکمل توکل رکھتے ہوں۔ ربِ کریم اپنے ایسے بندوں کو اپنے محبوب بندوں میں شامل کرلیتا ہے اور دعوتِ دین کی جدوجہد میں ہونے والی بعض لغزشوں کو معاف کردتیا ہے:
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَ اسْتَغْفِرْلَھُمْ وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَo اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمْ وَ اِنْ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَنْصُرُکُمْ مِّنْم بَعْدِہٖ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹-۱۶۰) (اے محمدؐ!) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو، ورنہ اگر کہیںتم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔ ان کے قصور معاف کر دو، ان کے حق میں دعاے مغفرت کرو اور دین کے کام میں ان کو بھی شریکِ مشورہ رکھو۔ پھر جب تمھارا عزم کسی راے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسا کرو۔ اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔ اللہ تمھاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں، اور وہ تمھیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمھاری مدد کرسکتا ہو؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسا رکھنا چاہیے۔
اس حوالے سے ہمیں آج جو عملی مشکلات پیش آتی ہیں وہ کوئی آج کی پیداوار نہیں ہیں۔ دورِ نبویؐ ہو یا دورِ خلفاے راشدین، تمام کلیدی معاملات میں ایک سے زائد آرا کا وجود اسلامی ریاست میں ایک معروف عمل تھا۔ اس لیے شورائیت کا مطلب یہ قطعاً نہیں ہے کہ ایک راے پہلے سے قائم کرلی جائے اور پھر اس پر راے کو ہموار کر دیا جائے، بلکہ ہر راے کو پوری آزادی اور توجہ سے سنا جائے اور معاملے کے مثبت و منفی پہلو پر غور کرنے کے بعد اتفاق راے سے معاملات کو چلایا جائے۔ اس عمل سے گزرنے کے بعد، جو اہم بات سمجھائی جارہی ہے وہ توکل ہے، یعنی اپنی طرف سے مقدور بھر منصوبہ بندی، افرادی قوت اور دیگر وسائل کا جائزہ لینے کے بعد جب ایک معاملے میں یکسو ہوجائو تو پھر نتائج اللہ پر چھوڑ دو۔ توکل کا یہ مطلب نہیں کہ اپنی طرف سے کوئی حکمت عملی نہ بنائی جائے اور محض ردعمل کے طور پر وقتاً فوقتاً اپنے موقف کو بیان کردیا جائے۔
ظاہر ہے یہ فکر اسلام کی بنیاد توحیدِ خالص کے منافی اور ضد ہے لیکن اس کے ساتھ اگر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو رب ماننے کے ساتھ یہ تصور بھی پایا جاتا ہو کہ فلاں بڑی عالمی طاقت ہمیں غذا، اسلحہ اور حمایت و نصرت فراہم کرے گی تو ہم زندہ رہیں گے ورنہ ہمارا وجود خطرے میں پڑ جائے گا، تو یہ اُس شرک سے کسی طرح بھی مختلف نہیں ہے جسے ایک غیرتعلیم یافتہ مسلمان بھی غلط سمجھتا ہے۔
اگر کوئی قوم ہر نماز میں اور پھر ہر جمعہ کے دن مسجد میں جاکر یہ اعلان کرے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ آپ اکبر، عظیم اور اعلیٰ ہیں، نہ کوئی آپ سے بڑا ہے نہ بلند، نہ طاقت ور، اور ابھی نماز مکمل ہی ہوئی ہو اور وہ باہر آکر اپنی معیشت کو کسی سرمایہ دارانہ طاقت سے وابستہ، اپنی معاشرت کو کسی یورپی یا ایشیائی ملک کی جاہلانہ اور مشرکانہ روایات سے متعلق کردے، اور اپنی سیاست کو لادینی جمہوریت سے منسلک کردے، تو مسجد میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو وحدہٗ لاشریک ماننے کے باوجود یہ اس کی صفات میں ہی نہیں اس کی ذات میں بھی شرک کے مترادف ہے۔
گویا، اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا آسان سا مفہوم ان کی ہرمعاملے میں اطاعت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ ایسے ہی حب رسولؐ بھی صرف ایک مفہوم رکھتی ہے، یعنی صدق و سچائی کے ساتھ اور ایک امانت دار شخص کی طرح وہ تمام حقوق جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم پر واجب ہیں، ان کی ادایگی، ورنہ نہ ہم نے صدق کی پیروی کی نہ امانت کا رویہ اختیار کیا۔
حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شرطِ ایمان ہونے پر وہ حدیث بھی ہماری رہنمائی کرتی ہے جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ لا یومن احدکم حتّٰی اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ والناس اجمعین (بخاری، مسلم)،یعنی تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کی نگاہ میں اس کے باپ، اس کے بیٹے اور سارے انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔
حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غالب ہونے کا مفہوم اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ اولاد کے لیے والدین اور والدین کے لیے اولاد کے مفاد سے زیادہ انھیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور اسوہ کی پیروی کرنے کی فکر ہو۔ وہ گھریلو معاملات ہوں یا ملکی سیاسی، معاشی مسائل، ہرہرفیصلہ کرتے وقت یہ دیکھیں کہ کیا ایسا کرنے سے اللہ کے رسولؐ کی اطاعت ہورہی ہے یا بغاوت کے مرتکب ہورہے ہیں۔
اس مختصر وضاحت کے بعد یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ ملکی حالات میں وہ کون سے اقدامات ہیں جو حب ِ رسولؐ کے مظہر ہوسکتے ہیں:
___ صدق کا تقاضا ہے کہ سب سے پہلے تجدید ایمان کرتے ہوئے ہم اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اور خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے مطیع و فرماں بردار ہونے کے عہد کو شعوری طور پر تازہ کریں اور ان تمام اداروں اور افراد کی غلامی و محکومیت سے اپنے آپ کو نکالیں جو اس تعلق پر اثرانداز ہورہے ہوں۔
___ دوسرا تقاضا یہ ہے کہ اس ملکِ عزیز کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک قدر والی رات میں عطیہ اور میراث کو ایک امین کی طرح سے اصل مالک کی مرضی کے مطابق اور اس کی شریعت کے مطابق معاشی، معاشرتی، ثقافتی، تعلیمی، قانونی اور سیاسی معاملات کو ترتیب دیں۔
___ تیسرا تقاضا یہ ہے کہ اس ملک کی سربراہی اور قیادت ایسے افراد کے ہاتھ میں دیں جو امین اور صادق ہوں اور ایسے افراد سے نجات حاصل کریں جو خائن اور کاذب ہوں۔
___ چوتھا تقاضا یہ ہے کہ ایسے معاملات میں اور افرادِ کار کے انتخاب میں صلاحیت اور قابلیت کو معیار بنائیں، اور خاندانوں کی حکومت، مصاحبوں کی بادشاہ گری اور ذاتی مفادات کی غلامی سے نکل کر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا خوف رکھنے والے افراد کو ملک کی زمامِ کار سونپیں۔
___ پانچواں تقاضا یہ ہے کہ نظامِ اسلامی کے قیام کی جدوجہد میں اپنا وقت، صلاحیت، دولت، غرض جو کچھ ہمارے اختیار میں ہو، لگاتے وقت صبرواستقامت کے رویے کو اختیار کریں اور حالات کی نزاکت سے گھبرا کر یہ کبھی نہ سوچیں کہ اب تو یہ ملک ٹوٹنے کے قریب ہے۔ نااُمیدی کفر ہے اور رات کے بعد صبح کا نور اللہ کی سنت اور وعدہ ہے۔ ہماری ذمہ داری بس اتنی ہے کہ اپنی جانب سے کوششوں میں کوئی کسر نہ چھوڑیں اور سعی و جہد کے ساتھ اللہ پر توکل کریں اور یاد رکھیں کہ ہماری مساعی میں اضافہ ہی مسائل کا حل ہے ؎
کی محمدؐ سے وفا ُتو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
(کتابچہ دستیاب ہے، قیمت: ۹ روپے۔ منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور-۵۴۷۹۰)
پہلے افغانستان کے بارے میں امریکی خفیہ دستاویزات سے پردہ اٹھایا گیا، پھر عراق کے بارے میں پنڈورا باکس کھولا گیا، اور طوفان کے تیسرے تھپیڑے نے تو پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی امریکی سفارت خانے ہیں، وہاں ایک بھونچال آگیا۔ نیویارک کی جڑواں عمارتوں پر حملے اور عالمی اقتصادی بحران کے بعد یہ نئی صدی کا تیسرا بڑا واقعہ ہے جس کے ، مستقبل کی سیاست و معیشت اور مجموعی عالمی صورتِ حال پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اگرچہ ان دستاویزات میں بیان کیے گئے لاکھوں انکشافات میں سے اکثر باتیں وہی ہیں جنھیں کھلا راز کہا جاسکتا ہے، لیکن اسے بجا طور پر سفارتی نائن الیون قرار دیا جارہا ہے۔ اعتماد و اعتبار کسی بھی سفارت کار کا اصل ہتھیار ہوا کرتا ہے، لیکن اب دنیا میں ہر امریکی سفارت کار بے اعتبار ہو کر رہ گیا ہے۔ اب امریکا کے غلام، ایجنٹ اور زر خرید ’دوست‘ بھی اس سے کوئی بات کرتے ہوئے مستقبل کے وکی لیکس کو ضرور ذہن میں رکھا کریں گے۔ ان ’لِیکس‘ نے امریکی سفارت کاری کی زنبیل میں ایسا چھید کردیا ہے کہ طویل عرصے تک اسے رفو نہیں کیا جاسکتا۔ انکشافات نما دستاویزات کے مندرجات پر دنیا بھر میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور مزید بہت کچھ لکھا جاتا رہے گا، ہم یہاں اختصار کے ساتھ بعض اصولی نکات کا جائزہ پیش کر رہے ہیں:
ہر انسان کے لیے سب سے بنیادی سبق یہ ہے کہ اس کا ہرقول، ہرعمل کہیں نہ کہیں ریکارڈ ہورہا ہے۔ بعض انتہائی اہم افراد نے اپنے تئیں یہ سمجھ کر کچھ باتیں یا اقدامات کیے یا انھیں تحریر میں لے آئے کہ جو کچھ وہ خفیہ طور پر کررہے ہیں وہ خفیہ ہی رہے گا۔ پھر شاید وہ خود بھی بھول گئے کہ انھوں نے کبھی ایسی کوئی بات کہی تھی، لیکن کئی سال کے بعد اپنے ہی الفاظ اچانک ان کے سامنے آکر، انھیں آئینہ دکھانے لگے ہیں، اور وہ اس پر شرم سار ہورہے ہیں: ع آئینہ ان کو دکھایا تو بُرا مان گئے۔
کوئی انکار کررہا ہے اور کوئی اپنی بات کو ’’سیاق و سباق سے کٹی ہوئی ادھوری بات‘‘ قرار دے رہا ہے۔ ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو، بہت ممکن ہے کہ کہے گئے الفاظ کو امریکی ’کاتبین‘ نے اپنی خواہشات کا تڑکا بھی لگا دیا ہو، لیکن کیا ہمیں اس موقع پر اپنے رب کی منادی سنائی دی:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ o اِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ o مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ o وَجَآئَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ط ذٰلِکَ مَا کُنْتَ مِنْہُ تَحِیْدُ o (قٓ ۵۰:۱۶-۱۹) ہم نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں۔ ہم اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں۔ (اور ہمارے اس براہ راست علم کے علاوہ) دو کاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کررہے ہیں۔ کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا، جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگران موجود نہ ہو۔ پھر دیکھو وہ موت کی جان کنی حق لے کر آپہنچی۔ یہ وہی چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔
یہ دستاویزات تو انسانوں کا تیار کردہ ریکارڈ ہیں۔ انسانی وسائل ہی اس کا ثبوت ہیں، کہیں کوئی کمپیوٹر ڈسک، کوئی خفیہ کیمرہ، ٹیپ یا کاغذ کا کوئی ٹکڑا، لیکن جو ریکارڈ خالق تیار کررہا ہے اس میں تو دل میں بسے احساسات اور ذہنوں میں چھپے خیالات تک بلا کم و کاست محفوظ ہورہے ہیں۔ راز افشا ہوجانے پر دنیا میں ہونے والی جگ ہنسائی اور بدنامی تو دنیا ہی کی طرح عارضی اور وقتی ہے۔ کوئی تدبیر یا کوئی دھوکا و دجل شاید اس کا مداوا بھی کردے، لیکن اگر روز محشر بھی بدنامی و پردہ کشائی ہی حاصل ہوئی تو ہمیشہ ہمیشہ کی اس روسیاہی کا پھر کہیں کوئی علاج نہ ہوگا۔ ہاں، انسان اگر کاتب تقدیر ہی کو اپنا وکیل بنا لے تو دنیا و آخرت کی ہر عدالت میں ہمیشہ سرخ رو قرار پائے گا۔
ان انکشافات میں سب سے قابلِ رحم طبقہ عالم اسلام کے حکمرانوں کا سامنے آیا ہے، یا پھر ان سیاست دانوں کا جو صرف اقتدار کو اپنا اول و آخر اور اصل ایمان سمجھتا ہے۔ اپنے عوام کے لیے خوں خوار بھیڑیوں سے بھی زیادہ سفاک، تمام تر ملکی مفادات کو اپنے اقتدار کی بھینٹ چڑھا دینے کے لیے ہر دم مستعد حکمران اور سیاست دان، اصل ایمان یہ رکھتے ہیں کہ اقتدار کا اصل سرچشمہ امریکی خوشنودی ہے۔ امریکا جسے چاہتا ہے اقتدار عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اقتدار چھین لیتا ہے۔ اپنے عوام اور اپنے کارکنان کے سامنے، فرعون کی طرح اکڑے یہ سب طرم خان، جب امریکی دربار میں حاضری دیتے یا کسی سفیر کبیر کے سامنے آتے ہیںتو آدابِ غلامی بجا لاتے ہوئے اور سب سے بڑھ کر مطیع فرمان و فرماں بردار ہونے کا یقین دلاتے ہوئے حاضر ہوتے ہیں۔ بے گناہ اور معصوم شہریوں پر امریکی آقا کے ڈرون حملوں سے لے کر، براہ راست فوجی مداخلت اور عسکری آپریشن تک ہر ظلم کو عین انصاف اور حق قرار دیتے ہیں۔ پاکستان، یمن اور مصر کے حکمرانوں کے اس طرح کے بہت سے جملے ان دستاویزات میں ثبت ہیں کہ ’’آپ حملے کرتے رہیے، ہم کہیں گے یہ امریکا کی نہیں، دہشت گردوں کے خلاف ہماری اپنی کارروائی ہے‘‘۔ ’’آپ حملے کرتے رہیں، ہم مخالفانہ مذمتی بیان دے دیں گے، لیکن یقین رکھیں یہ صرف اپنے عوام کو بہلانے کے لیے ہوگا‘‘، ’’ہم اپنی اسمبلی سے آپ کے حملوں کے خلاف قرار داد منظور کروارہے ہیں لیکن آپ فکر نہ کریں، آپ کی کسی کارروائی میں کوئی خلل نہ آنے دیں گے‘‘۔ ہوسکتا ہے کہ یہ الفاظ اور جملے کہنے والے حکمران، اپنے ملک اور شہریوں کے دشمن نہ بھی ہوں لیکن سمجھتے یہی ہیں کہ یہ ان کی مجبوری ہے۔ امریکی خوشنودی کے بغیر کرسی نہیں ملتی اور اپنے لوگ مروائے بغیر امریکا راضی نہیں ہوتا۔
پاکستان کی موجودہ قیادت کی جو تصویر ان انکشافات میں سامنے آئی ہے وہ قوم کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ زرداری صاحب کھلے الفاظ میں کہتے ہیں کہ وہ امریکا کی وجہ سے اقتدار میں آئے اور امریکا کے مشورے سے ساری پالیسیاں بنانے کا اطمینان دلاتے ہیں۔ موساد نے کہا: مشرف کی حکومت قائم رہنی چاہیے۔ زرداری نے جوبائیڈن سے کہا: فوج مجھے اقتدار سے محروم کرسکتی ہے۔ زرداری صاحب امریکی سفیرہ کو دہائی دیتے ہیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور وہ اپنا جانشین اپنی بہن فریال تالپور کو مقرر فرماتے ہیں۔ جنرل کیانی نواز شریف کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے باب میں امریکی سفیرہ سے راز و نیاز فرماتے ہیں اور اسفندیار کو صدر بنانے کا عندیہ دیتے ہیں۔ نواز شریف صاحب جنرل کیانی کو آرمی چیف بنوانے پر امریکا کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
اس طرح پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کی جو جو شکلیں سامنے آئی ہیں وہ پاکستان کے ایک آزاد، خودمختار اور باوقار ملک ہونے کی نفی کرتی ہیں اور اس کی سرتاسر ذمہ داری پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت پر آتی ہے۔ مسئلہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن کا ہو یا بھارت سے تعلقات کا یا دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان اور اس کی فوج کے کردار کا___ پرویز مشرف سے لے کر موجودہ قائدین تک ہرجگہ اس ملک کی قیادت امریکا کے اشارئہ چشم و ابرو پر ناچتے نظر آتے ہیں۔ باربار یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امریکی اسپیشل دستے پاکستان میں موجود ہیں۔ ڈرون حملے پاکستان کی سرزمین سے اور پاکستان کی قیادت کی ملی بھگت سے کیے جارہے ہیں۔ کم از کم ۱۶ امریکی فوجی قبائلی علاقوں میں پاک فوج کے ساتھ کارروائیوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ امریکا چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کے خلاف تھا، ڈاکٹر قدیر پر پابندیاں اس کے دبائو میں لگائی گئیں، سوات آپریشن امریکا کے ایما پر کیا گیا اور اس آپریشن میں فوج کی ماوراے قانون کارروائیوں پر پورے علم کے ساتھ امریکا پردہ ڈالتا رہا۔
کیا محکومی اور ذلت کی یہ شرم ناک داستان قوم کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں؟
قرآن کریم کے الفاظ و آیات ہی نہیں ان کی ترتیب اور حرکات و سکنات بھی اپنے اندر ایک معنی و پیغام رکھتی ہے۔ ذرا ایک عجیب ترتیب ملاحظہ فرمائیے۔ سورہ آل عمران کی دو آیات میں انتہائی وضاحت و صراحت کے ساتھ اقتدار عطا ہونے اور چھین لیے جانے کے الٰہی اختیار و قدرت کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا:
قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَ تُعِزُّمَنْ تَشَآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ طبِیَدِکَ الْخَیْرُ ط اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ o تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّھَارِ وَ تُوْلِجُ النَّھَارَ فِی الَّیْلِ وَ تُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ تُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَ تَرْزُقُ مَنْ تَشَآئُ بَغَیْرِ حِسَابٍ o (اٰل عمران ۳:۲۶-۲۷ ) کہو خدایا! ملک کے مالک تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کردے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں۔ بے جان میں سے جان دار کو نکالتا ہے اور جان دار میں سے بے جان کو، اور جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔
پھر ان آیات کے فوراً بعد ارشاد ہوتا ہے:
لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰۃً طوَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ ط وَ اِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ o قُلْ اِنْ تُخْفُوْا مَا فِیْ صُدُوْرِکُمْ اَوْ تُبْدُوْہُ یَعْلَمْہُ اللّٰہُ ط وَیَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِط وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ o یَوْمَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا وَّ مَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْٓئٍ تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَھَا وَ بَیْنَہٗٓ اَمَدًا م بَعِیْدًا ط وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ طوَ اللّٰہُ رَئُ وْفٌم بِالْعِبَادِ o (اٰل عمرٰن ۳:۲۸-۲۹) مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور یار و مددگار ہرگز نہ بنائیں۔ جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں۔ ہاں، یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرز عمل اختیار کرجاؤ، مگر اللہ تمھیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمھیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ اے نبی لوگوں کو خبردار کردو کہ تمھارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے خواہ تم چھپاؤ یا ظاہر کرو، اللہ بہرحال اسے جانتا ہے۔ زمین و آسمان کی کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ہے اور اس کا اقتدار ہر چیز پر حاوی ہے۔
اقتدار کی حرص میں گرفتار لوگوں کے لیے اس سے بہتر کوئی نصیحت اور اس سے سخت وعید کوئی اور ہوسکتی ہے؟ رب ذو الجلال کو علم تھا کہ اقتدار کے لالچ کا شکار ہوکر اہل ایمان بھی کفار سے خفیہ دوستیاں گانٹھیں گے، اس لیے واضح حکم بھی دے دیا اور خبردار بھی کردیا کہ انھیں رفیق و مددگار نہ بناؤ، وگرنہ اللہ سے تمھارا کوئی تعلق واسطہ نہ رہے گا‘‘ اور دیکھو اللہ تمھارے کھلے چھپے ہرحال سے آگاہ ہے، کسی سے چھپ چھپا کر بھی راز و نیاز، وعدہ، وعید اور عہدوپیمان کروگے تو اللہ ان سے باخبر ہوجائے گا۔ صاحب تفہیم القرآن ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’کہیں انسانوں کا خوف تم پر اتنا نہ چھا جائے کہ خدا کا خوف دل سے نکل جائے، انسان حد سے حد تمھاری دنیا بگاڑ سکتے ہیں مگر خدا تمھیں ہمیشگی کا عذاب دے سکتا ہے… خبردار کفر اور کفار کی کوئی ایسی خدمت تمھارے ہاتھوں انجام نہ ہونے پائے، جس سے اسلام کے مقابلے میں کفر کو فروغ حاصل ہونے اور مسلمانوں پر کفار کے غالب آجانے کا امکان ہو۔ خوب سمجھ لو کہ اگر اپنے آپ کو بچانے کے لیے تم نے اللہ کے دین کو، یا اہل ایمان کی جماعت کو، یا کسی ایک فرد مومن کو بھی نقصان پہنچایا، یا خدا کے باغیوں کی کوئی حقیقی خدمت انجام دی، تو اللہ کے محاسبے سے ہرگز نہ بچ سکو گے۔ جاناتم کو بہرحال اسی کے پاس ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، جلد اوّل، آل عمران حاشیہ ۲۶)
اس مضمون کو خالق کائنات نے قرآن کریم میں جا بجا بیان فرمایا ہے۔ کہیں کہا :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ لَا یَاْلُوْنَکُمْ خَبَالًا طوَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآئُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ وَ مَا تُخْفِیْ صُدُوْرُھُمْ اَکْبَرُ ط قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ o (اٰل عمران ۳:۱۱۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ۔ وہ تمھاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں نہیں چوکتے۔ تمھیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے۔ ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں، وہ اس سے بھی شدید تر ہے۔ ہم نے تمھیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں۔ اگر تم عقل رکھتے ہو (تو ان سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتو گے)۔
سورئہ مائدہ میں فرمایا:
وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمط فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ یُّسَارِعُوْنَ فِیْھِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓی اَنْ تُصِیْبَنَا دَآئِرَۃٌ o (المائدہ ۵:۵۱-۵۲) ’’اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انھیں میں ہے۔ تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ انھی میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں۔ کہتے ہیں ’’ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکر میں نہ پھنس جائیں‘‘۔
سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’مسلمانوں میں جو لوگ منافق تھے وہ اسلامی جماعت میں رہتے ہوئے، یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ بھی ربط ضبط رکھنا چاہتے تھے۔ تاکہ کش مکش اگر اسلام کی شکست پر ختم ہو تو ان کے لیے کوئی نہ کوئی جاے پناہ محفوظ رہے۔ معاشی اسباب کی بنا پر بھی یہ منافق لوگ ان کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھنے کے خواہش مند تھے۔ ان کا گمان تھا کہ اگر اسلام و کفر کی اس کش مکش میں ہمہ تن ہو کر ہم نے ان سب قوموں سے اپنے تعلقات منقطع کرلیے جن کے ساتھ اسلام اس وقت برسرپیکار ہے، تو یہ فعل سیاسی اور معاشی دونوں حیثیتوں سے ہمارے لیے خطرناک ہوگا۔ (تفہیم القرآن، ج۱، ص ۴۸۰)
اسلام اور اہل اسلام سے دشمنی رکھنے والوں کے ساتھ خفیہ ملاقاتوں میں انھیں اپنی وفاداریوں کا یقین دلانے والے سورۃ الممتحنۃ کا مطالعہ بھی ضرور کرلیں۔ وہاں دیگرارشادات کے علاوہ یہ ارشاد ربانی بھی خصوصی توجہ چاہتا ہے:
تُسِرُّوْنَ اِلَیْھِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَآ اَخْفَیْتُمْ وَمَآ اَعْلَنتُمْ طوَمَنْ یَّفْعَلْہُ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآئَ السَّبِیْلِ (الممتحنہ ۶۰:۱) تم چھپا کر ان کو دوستانہ پیغام دیتے ہو، حالانکہ جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو علانیہ کرتے ہو، ہر چیز کو میں خوب جانتا ہوں، جو شخص بھی تم میں سے ایسا کرے یقینا راہِ راست سے بھٹک گیا۔
کسی دنیاوی لالچ یا خوف کے باعث دشمن سے گٹھ جوڑ کرنا، اسے اپنی وفاداریوں کا یقین دلانا اور ذاتی مفاد کی خاطر ملک و ملت سے غداری کرنا اتنا سنگین جرم ہے کہ قرآن کریم میں مزید کئی مقامات پر اس سلسلے میں تفصیلی احکام و تنبیہات ملتی ہیں، لیکن یہاں مذکورہ بالا آیات و اقتباسات ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔
ان سفارتی دستاویزات میں جہاں مسلمان حکمرانوں ، سیاست دانوں، فوجی جرنیلوں، حکومتی کار پردازوں، اور دانشوروں کے ’اقوال زریں‘ درج کیے گئے ہیں، وہیں اپنے ان زرخرید دوستوں کے بارے میں امریکی آقاؤں کے ارشادات عالیہ بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ان کی تمام تر وفاداریوں کا صلہ انھیں مکار، گھامڑ، بڈھا کھوسٹ، ازکار رفتہ، کرسی کا بھوکا، خرانٹ اور بعض ایسے ایسے القابات کی صورت میں دیا گیا ہے، کہ ایک مہذب انسان کے لیے انھیں زبان پر بھی لانا ممکن نہ ہو۔ امریکی ذمہ داران نے اپنے یہ سارے ادبی خزانے طشت ازبام ہوجانے پر بھی، کوئی ندامت یا شرمندگی محسوس نہ کی، نہ ہی ان پر کوئی معذرت کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ البتہ امریکی وزیر خارجہ یہ بیان دے کر اپنے تئیں فارغ ہوگئیں کہ سفارتی راز سامنے آنے سے ہمارے دوستوں کو جو شرمندگی ہوئی ہے، ہمیں اس پر افسوس ہے۔ پوری کوشش کریں گے کہ آیندہ ایسا نہ ہو۔ گویا صدمہ اگر ہے بھی تو اس بات پر کہ ’غلام اپنے غلاموں‘ کے سامنے بے نقاب ہوگئے وگرنہ، نہ تو ان کے بارے میں کہے گئے الفاظ و القاب غلط ہیں اور نہ خود ان کے اپنے بیانات میں کسی شک کی گنجایش ہے۔
اگرچہ دنیا کے صرف چند ممالک ہی ان لیکس کی زہرناکی سے محفوظ رہے یا رکھے گئے ہیں، لیکن ان کا غالب ترین حصہ مسلمان ممالک کے بارے میں ہے۔ اہل پاکستان کو لگتا ہے کہ وطن فروشی اور ضمیر کشی کی اس برہنہ دوڑ میں ان کے بڑے سب سے آگے ہیں، لیکن مجموعی طور پر دیکھیں تو الاماشاء اللہ ہر ملک کا عالم یہی ہے۔ اکثر مسلم ممالک کے بارے میں جاری کی گئی دستاویزات، امریکی خواہشات اور منصوبوں کی حقیقی عکاسی کرتی ہیں۔ مثلاً ایران پر حملہ کرنے کی بات ہی لے لیجیے، کون نہیں جانتا کہ امریکا اور اسرائیل ایک عرصے سے اسی آرزو میں گھلے جارہے ہیں۔ عراق کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں WMD's کے بعد ایرانی ایٹمی پروگرام کو اسی عالمی جوڑے نے ہو .ّا بنا کر پیش کیا ہے، لیکن اپنے سفارتی مراسلوں میں اپنے اس پورے خواب اور منصوبے کا ملبہ عرب حکمرانوں پر ڈال دیا۔ شیعہ سنی اختلاف اور خوں ریزی کی ساری آگ پر تیل تو خود چھڑک رہا ہے، لیکن کندھا عرب حکمرانوں کا استعمال کیا جارہا ہے۔ صرف عرب، عجم یا شیعہ و سنی ہی نہیں تقریباً تمام پڑوسی مسلمان ملکوں کو اسی طرح ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا گیا ہے۔ الجزائری صدر بوتفلیقہ پڑوسی ملک مراکش کے بادشاہ کے بارے میں بیان دیتے ہوئے اسے استعمار کا چہیتا قرار دے رہا ہے اور خلیجی حکمران حزب اللہ اور شام کے حکمرانوں سے شاکی ہیں۔ امریکی سفارت کار اگر ان سارے لڑائی جھگڑوں کو اپنی وزارت خارجہ کے سامنے بغلیں بجاتے ہوئے پیش کررہے ہیں، تو خود امریکی ارادوں کو بھانپنے اور اُن کا مطلب و مفہوم سمجھنے کے لیے کسی کا عبقری ہونا ضروری نہیں۔ ہاں اس پورے شر میں سے اگر خیر کا کوئی پہلو نکلتا ہے تو وہ یہی ہے کہ امریکی آرزوؤں کی بلی تھیلے سے باہر آجانے کے بعد، مسلمان حکمرانوں کے سامنے سنبھل جانے کا ایک اور موقع موجود ہے۔ کم از کم یہ ثابت کرنے کے لیے ہی وہ باہمی اختلافات کے الاؤ میں کودنے سے باز رہ سکتے ہیں کہ یہ دستاویزات ہماری نہیں امریکی خواہشات کا پرتو ہیں اور ہم ان سے اپنی برأت کا اظہار قولاً ہی نہیں عملاً بھی کرتے ہیں۔
مسلمان ممالک بالخصوص پاکستان کے حکمرانوں کو یہاں یہ حقیقت بھی دوبارہ اور اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ وہ امریکی خوشنودی کے لیے اپنا سارا ملک بھی کھنڈرات میں بدل دیں اور اپنی ساری قوم کو بھی موت کے گھاٹ اتار ڈالیں، یہ حرافہ راضی ہونے والی نہیں ہے۔ اس کے مطالبات جہنم کے پیٹ کی طرح ہیں، انسانوں اور پتھروں کا جتنا بھی ایندھن ڈال دیں، اس میں سے یہی صدا آئے گی: ھَلْ مِنْ مَزِیْد۔ امریکی زبان میں اس کا ترجمہ یہی ہے Do More ۔ قرآن کریم نے واضح طور پر خبردار کردیا کہ ان یہود و نصاریٰ کی خوشنودی صرف ایک صورت میں حاصل ہوسکتی ہے کہ اپنے رب کا دین چھوڑ کر ان کے دین میں داخل ہوجاؤ۔’ڈو مور‘ کی تابع داری کرتے حکمران، اقتدار کی کرسی بچاتے بچاتے اسی ھَلْ مِنْ مَزِیْد کے کنویں میں تو جاگریں گے، ’ڈومور‘ کا ڈھول بند نہیں ہوگا۔ جنوبی کے بعد شمالی وزیرستان، کوئٹہ اور پھر جنوبی پنجاب، کراچی اور پھر مریدکے… امریکا کہاں کہاں خون کی ہولی نہیں کھیلنا چاہتا۔
جواباً ہمارے ہاتھ میں کیا آتا ہے؟ لیکس کے مطابق ہالبروک اور دیگر امریکی ذمہ داران کی بھارت کو یہ یقین دہانیاں کہ وہ افغانستان میں مکمل آزادی سے کُھل کھیلے، ہم اس بارے میں کسی پاکستانی احتجاج یا مفاد کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔ آج افغانستان سے لگاتار یہ خبریں آرہی ہیں کہ وہاں بچے بچے کے دل میں پاکستان سے نفرت بٹھائی جارہی ہے، بھارت وہاں ہر شعبہ زندگی میں پاؤں جما رہا ہے، خود افغانستان میں افغانیوں کی تربیت کے علاوہ چار ہزار سے زائد افغان فوجیوں کو بھارت لے جا کر انھیں عسکری و فکری تربیت دے چکا ہے اور یہ سلسلہ مزید جاری ہے۔ ساتھ ہی پختون اور بلوچ علیحدگی پسندوں کو بھی مسلسل اکسایا اور مضبوط کیا جارہا ہے، اگر اب بھی ’ڈومور‘ کے مطالبے کو مسترد نہ کیا گیا تو ہم مشرق و مغرب سے ایسے شکنجے میں کَس دیے جائیں گے کہ ان سے نکلنا کسی کے لیے ممکن نہ رہے گا۔
امریکی سفارت کار اپنی دستاویزات میں یہ اعتراف و اظہار کرتے ہیں کہ بھارت مظلوم کشمیریوں پر ناقابل بیان ظلم ڈھارہا ہے۔ کشمیری عوام کو زندگی کے ہر عنوان سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ان دستاویزات میں بھارتی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ایچ ایس پاناگ کو بدنامِ زمانہ سرب درندے، میلوسووچ سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ ان تمام حقائق سے باخبر ہونے کے باوجود، امریکی غلامی کے گذشتہ ۱۰برسوں میں کبھی بھی امریکا نے بھارت کو اپنی دہشت گردی سے باز آنے کا نہیں کہا۔ وکی لیکس کے مطابق، امریکی اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ ہندو انتہا پسند طاقتیں بھارتی فوج اور ایجنسیوں سے مضبوط رشتہ رکھتی ہیں۔ اور یہ ہندو تنظیمیں عالمی امن کے لیے ان تمام تنظیموں سے بڑا خطرہ ہیں جن کا نام پاکستان کے حوالے سے لیا جاتا ہے۔ بھارتی ایٹمی اثاثوں کا ۸۰ فی صد بھی بھارت کے منہ زور باغیوں کے علاقے میں اور ان کی ممکنہ دسترس میں ہے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود، دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے ۱۰ برسوں میں کسی نے اس بارے میں بات نہیں کی۔ ان ۰ابرسوں میں امریکی صدور سمیت جو امریکی ذمہ دار بھی بھارت گیا، اس نے دلی میں حکمرانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر، پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات کی ٹیپ چلانا اپنا فرض منصبی سمجھا۔ بھارتی پارلیمنٹ اور ممبئی حملوں کے بھارتی ڈراموں کا ملبہ پاکستان پر ڈالتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کے اڈے بند کرنے کا مطالبہ دہرایا۔ لیکن کشمیر، بھارتی مظالم، انسانی حقوق، کشمیر کے بارے میں بین الاقوامی قراردادوں جیسے کسی بے کار لفظ کو قابل التفات نہیں سمجھا۔ لیکس نے واضح کیا کہ امریکا اور عالمی برادری کور چشمی کے مریض نہیں۔ کشمیر ی عوام کی خوں ریزی انھیں بھی دکھائی دیتی ہے لیکن مسلمان حکمرانوں کی طرح امریکی بھی مجبور ہیں۔ ان کی مجبوری یہ ہے کہ کشمیری عوام نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ پاکستان سے محبت کا جرم بھی کرتے ہیں۔
وکی لیکس نے دنیا کے تقریباً ہر ملک کی خفیہ کہانیاں سرعام بیان کر دی ہیں، لیکن ان انکشافات کا ایک نہایت اہم پہلو، جس کی طرف مبصرین اور تجزیہ نگاروں کی بہت کم توجہ گئی ہے، یہ ہے کہ فی الوقت دنیا پر اصل قبضہ یہودیوں کا ہے لیکن وکی لیکس میں کہیں بھی صہیونی حکمرانوں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ جن برسوں کی یہ یادداشتیں ہیں، انھی برسوں میں اسرائیلی درندوں نے سفاکیت کے نئے عالمی ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ لبنان کی تباہ کن جنگ کے علاوہ، غزہ میں قیامت خیز تباہی برپا کی ہے۔ یاسر عرفات سے کام نکل جانے کے بعد انھیں زہر دے کر موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ لیکن ان تمام صہیونی کارناموں کو قابل اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ اب ہوسکتا ہے کہ اپنی ساکھ قائم کرنے کے لیے صہیونی ریاست کے راز و نیاز سے بھی کچھ پردہ سرکا دیا جائے لیکن یہ سوال اپنی جگہ رہے گا کہ لاکھوں دستاویزات میں اب تک کیوں اسے کوئی جگہ نہ مل سکی؟ اس طرح کے دیگر کئی اہم سوالیہ نشانات کی روشنی میں بعض تجزیہ نگاروں کی راے میں ان لیکس میں ایک ڈرامے اور سازش کے سارے رنگ موجود ہیں۔ اس بارے میں دو آرا ہوسکتی ہیں لیکن اتنی بات بہرحال اظہر من الشمس ہے کہ تمام دستاویزات میں سے صہیونی ریاست سے متعلق تمام منفی چیزیں حذف کردی گئیں یا انھیں پردۂ اخفا میں رکھا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر۔
اس چابک دستی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان انکشافات کا وہ حصہ باقی رکھا گیا ہے جو ہے تو صہیونی جرائم کے بارے میں، لیکن اس میں کچھ کردار عرب حکمرانوں کا بھی ہے۔ عرب حکمرانوں کا پردہ چاک والی یہ دستاویزات باقی رہنے دی گئی ہیں۔ مثلاً یہ کہ غزہ پر اسرائیلی حملے کے لیے پڑوسی عرب حکمرانوں بالخصوص مصری اور الفتح کے ذمہ داران نے نہ صرف اسرائیل کی حوصلہ افزائی کی تھی، بلکہ انھوں نے اس آرزو اور خواہش کا اظہار بھی کیا تھا، کہ غزہ سے حماس کی منتخب حکومت کا خاتمہ کرکے وہاں محمود عباس کے سیکورٹی مشیر محمد دحلان کا اقتدار قائم کیا جائے۔ یہ دستاویزات بتاتی ہیں کہ مصری حکومت نے نہ صرف اسرائیلی احکام کی پیروی کرتے ہوئے غزہ کا محاصرہ کیا بلکہ غزہ کا ہر راستہ بند ہوجانے کے بعد، اہل غزہ کی طرف سے مصری بارڈر پر کھودی جانے والی سرنگوں کی نشان دہی بھی کی، جنھیں اسرائیلی حملوںکے ذریعے تباہ کردیا گیا۔ ان لیکس میں ان کئی حکمرانوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات ہیں، یہ سب کچھ بتانے کا ایک مقصد یقینا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دیگر مسلمان حکمرانوں کو بھی اس طرح کے روابط کے لیے حجت فراہم کی جائے۔ اس صورت حال کے تناظر میں بعض اسرائیلی صحافتی ذرائع نے اب باقاعدہ دعویٰ کردیا ہے کہ ولی لیکس انتظامیہ نے صہیونی ذمہ داران سے معاہدہ کیا تھا، کہ ان کے بارے میں تمام مراسلات پردئہ اخفا میں رکھے جائیں گے۔
کثرت اور تنوع کے ساتھ ساتھ ان دستاویزات سے یہ امر بھی پوری طرح مترشح ہوتا ہے کہ امریکی سفارت کار دنیا کے ہر ملک میں اور اس کے تمام اُمور میں مداخلت کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی ملک کے نچلے سے نچلے طبقے تک براہ راست رسائی رکھتے ہیں۔ سیاست دان، صحافتی، تعلیمی اور عسکری حلقے ان کی سرگرمیوں اور توجہ کا خصوصی مرکز ہیں۔ معاشرتی دائروں میںبھی وہ تمام طبقوں بالخصوص خواتین اور نوجوانوں میں گہری رسائی حاصل کررہے ہیں۔ وہ ہر طبقے کے افراد کو ڈالروں، عیاشیوں، بیرونی دوروں یا دیگر مفادات کے گرداب میں پھانسنے اور پھر انھیں بلیک میل کرتے رہنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ معروف اور طے شدہ سفارتی اصول و ضوابط کے مطابق، غیر ملکوں میں موجود سفارت کار، ان ممالک کے محدود علاقوں اور محدود افراد و اداروں تک ہی رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ دیگر افراد اور علاقوں تک پہنچنے کے لیے اس ملک کی وزارتِ خارجہ کے ذریعے، متعین ضوابط کی پابندی کرنا لازمی ہے لیکن امریکا بہادر خود کو کسی ضابطے کا پابند نہیں سمجھتا۔
اب تو سفارتی حلقوں کے علاوہ غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) بھی بہت بڑی تعداد میں میدان میں اُتار دی گئی ہیں، جو ہر جگہ اپنی پوری کی پوری سلطنتیں قائم کررہی ہیں۔ بالخصوص مسلم دنیا میں این جی اوز اور استعماری کارندوں کے ہراول دستے کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ اس کی نمایاں ترین مثال بنگلہ دیش کی نام نہاد این جی او براک (BRAC) ہے جس کا آغاز ۱۹۷۲ء میں ہوا مگر اس نے ۱۵برس کے اندر اندر بنگلہ دیش کے سیاسی، سماجی اور معاشی میدان میں اپنی گرفت مضبوط تر کرلی۔ ۱۹۹۲ء میں خالدہ ضیا کی حکومت نے اس کے معاملات اور مداخلت کاری کا جائزہ لینے کے لیے ایک باقاعدہ کمیشن بنایا۔ کمیشن نے یہ بات متعین اور واضح طور پر کہہ دی کہ یہ نام نہاد این جی او عملاً ایک مداخلت کار اور ریاست کے اندر ریاست ہے۔ لیکن پھر جونہی اس پر قدغن لگانے کی بات کی گئی تو اصل راز کھل گیا۔ یورپی یونین نے دھمکی دے دی کہ اگر براک پر بنگلہ دیشی حکومت نے ہاتھ ڈالا تو ہم اس سے سفارتی تعلقات توڑ لیں گے۔ آج اس تنظیم کے ۳۸ ہزار سے زائد غیر رسمی تعلیم کے اسکول اور ایک لاکھ ۲۵ ہزار سے زیادہ تنخواہ دار کارندے، بنگلہ دیش کی تعلیمی ہی نہیں سیاسی، سماجی، معاشی حتیٰ کہ داخلہ پالیسی تک کے معاملات پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ اب اسی تجربے کو دیگر ممالک میں پھیلاتے ہوئے خاص طور پر افغانستان اور پاکستان کو ہدف بنایاجارہا ہے۔ افغانستان میں تو ۲۰۰۲ء سے اس کو تقویت دینے کے لیے ۳۴ میں سے ۲۳ صوبوں میں کسی نہ کسی رنگ میں کام کرنے کے مواقع دیے گئے ہیں، جب کہ پاکستان میں اس نے ۲۰۰۷ء سے کام کا آغاز کیا ہے اور ۸ اضلاع میں اپنے نیٹ ورک کو مضبوط بنالیا ہے۔ کمپنی کی سابقہ مشہوری کے سبب یورپی اور امریکی پشت پناہی کے دروازے چوپٹ کھلے رہیں گے، لیکن اگر معاملہ یہی رہا تو آیندہ دو سال کے بعد خود پاکستان کے وہ حکمران جو اس کے لیے مدد کے دروازے کھول رہے ہیں اپنے کیے پر یقینا پچھتائیں گے۔ مگر تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔
امریکی دستاویزات سامنے آنے کا ایک مفید پہلو یہ ہے کہ اس سے دنیا کے سامنے اسلامی تحریکوں کی شفافیت اور اصول پسندی مزید واضح اور اجاگر ہوگئی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان سمیت دنیا کی کوئی ایک بھی اسلامی تحریک نہیں کہ جس کی قیادت نے امریکا کے ساتھ اپنے ایمان و ضمیر کا سودا کیا ہو۔ سفارتی روابط ان کے بھی ہیں اور کئی ممالک میں کئی دیگر جماعتوں اور پارٹیوں سے زیادہ مستحکم و مربوط بھی، لیکن یہ ان پر اللہ کا خصوصی کرم ہے کہ ان کی قیادت براے فروخت نہیں ہے۔ وہ بند کمروں میں بھی امریکیوں سے وہی کہتے ہیں جو لاکھوں کے مجمعے میں۔ یقینا اللہ کی حفاظت نہ ہوتی، تو یہ کمزور انسان بھی امریکا کی پھیلائی آلایشوں سے محفوظ نہ رہتے۔
مسلمان ممالک کے حکمرانوں کے بارے میں امریکی رپورٹوں اور تبصروں کے جواب میں اب تک صرف دو حکمران ایسے سامنے آئے ہیں جنھوں نے خود پر لگائے گئے الزامات کا پوری شدومد اور مضبوطی سے جواب دیا ہے۔ ایک تو ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوگان جن پر الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے مالی بدعنوانی کی ہے۔ سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں ان کے آٹھ اکاؤنٹس ہیں اور ان میں بھاری رقوم پڑی ہیں۔ طیب اردوگان نے فوراً پریس کانفرنس بلائی اور چیلنج کیا کہ سوئس بنکوں میں میرا ایک بھی اکاؤنٹ اور ایک بھی پیسہ ثابت کردو تو مَیں حکومت و سیاست سے ابھی استعفا دینے کو تیار ہوں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہم ان امریکی سفارت کاروں کے خلاف عالمی اور امریکی عدالت میں مقدمہ درج کروائیں گے جنھوں نے الزامات پر مبنی یہ رپورٹس بھیجی ہیں۔ فوراً امریکی وزیرخارجہ نے رابطہ کیا اور ترک حکومت سے باضابطہ معذرت کی گئی۔ لیکن ترک حکومت پر اصل الزامات وہ ہیں جو دیگر سیکڑوں دستاویزات کے ذریعے پیش کیے گئے ہیں اور جن میں ترک حکومت کو اسرائیل کا کھلا مخالف قرار دیتے ہوئے، ترکی اسرائیل تعلقات میں روز افزوں ابتری اور تناؤ پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
دوسرے حکمران سوڈان کے صدر عمر حسن البشیر ہیں ان پر بھی مالی بدعنوانی اور ۱۰ ارب ڈالر برطانیہ لے جانے کا الزام لگایا گیا۔ انھوں نے بھی اس کی شدید مذمت و تردید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ثابت کردو کہ میں نے یہ رقم اڑائی اور برطانیہ میں رکھی ہے، تو مَیں خود یہ ساری رقم الزام ثابت کرنے والے کی نذر کردوں گا۔ لیکن سوڈان چونکہ خود مشکلات میں گھرا ہوا ہے، اس کے جنوبی حصے کی علیحدگی کا سورج سوا نیزے پر آگیا ہے، اس لیے ایسی مشکل میں گھرے ہوئے پریشان حال سوڈان سے معذرت کا تکلف نہیں کیا گیا۔
امریکی دستاویزات نے پوری دنیا میں پھیلے امریکی سفارت کاروں کو ان ممالک کے اصل حکمران ہونے کے زعم و خبط کا شکار دکھایا ہے۔ خود امریکی اعلیٰ عہدے دار بھی اسی خدائی دعوے کی پھنکاریں مارتے نظر آتے ہیں، لیکن خود امریکا ہی میں لاتعداد امریکی دانش ور اور تجزیہ نگار، دہائیاں دے رہے ہیں کہ خدارا اس پاگل پن سے نجات حاصل کرلو۔ عالمی امپیریل پاور بننے کے جنون میں ہم نے خود کو تباہی کے مہیب دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اگر ہمارے پاگل پن کا دورہ اسی شدت پر رہا، تو کوئی دن جاتا ہے کہ ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ دیگ کے ایک دانے کے طور پر چند روز قبل انتقال پاجانے والے امریکی دانش ور چیلمرز جانسن Chalmers Jonson کا مفصل مقالہ بعنوان Blowback: The Costs and Consequences of American Empire ملاحظہ کرلیجیے۔ جانسن اپنی کئی تحریروں میں سابقہ استعماری اور عالمی طاقتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ انھوں نے بھی دیگر اقوام و ممالک پر قبضے کو قدرت کا فیصلہ اور انتخاب قراردیا۔ اپنے اپنے زمانے کی یہ سوپر طاقتیں بھی باقی تمام اقوام کو کمزور، وحشی اور جاہل قراردیتے ہوئے، دنیا کو ترقی اور حقیقی امن و آزادی دینے کا دعویٰ کرتے ہوئے، ان پر قابض ہوتی چلی گئیں لیکن اپنے گھر سے باہر پھلتے پھولتے اور پھیلتے، وہ بالآخر اپنے گھر میں بھی تباہ حالی کا شکار ہوگئیں اور باہر بھی شکست و نامرادی سے دوچار ہوگئیں۔
جانسن امریکی وزارت دفاع کے اعداد و شمار کی روشنی میں بتاتا ہے کہ اس وقت دنیا میں امریکا کے ۷۳۷ فوجی اڈے ہیں۔ دنیا کے ۱۳۰ ممالک میں اس کے تقریباً ۵ لاکھ فوجی، جاسوس یا ایجنٹ پھیلے ہوئے ہیں۔ افغانستان اور عراق میں بیٹھے لاکھوں فوجی جاسوس اور ایجنٹ اس کے علاوہ ہیں۔ لیکن اتنی بڑی عسکری قوت کے باوجود اس کی بیرونی فوجی ایمپائر بھی تیزی سے زوال اور ہلاکت کی دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے اور اندرونی جمہوری نظام کی بنیادیں بھی بتدریج بوسیدہ اور کمزور ہوتی جارہی ہیں۔ اپنے ملک کے ساتھ مخلص ایک دانش ور اپنی تحریروں میں بار بار امریکی ایمپائر کو اختتام (End) سے خبردار کرتے اور ’’تمھارے دن گنے جاچکے‘‘ کہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوگیا۔ کیا وقت نہیں آیا کہ وکی لیکس کے لاکھوں صفحات میں بکھری داستانوں کو پڑھ کر، ان سے کچھ سیکھ کر، اور خدا توفیق دے تو کچھ عبرت پکڑ کر مسلمان حکمران (اور عوام بھی) ایک ڈوبتے ہوئے آقا کے در سے اُٹھ کھڑے ہوں اور اپنے رب کے حضور جھک جائیں___؟
وہ یقین کریں کہ رب کے در پر سر جھکانے سے وہ اتنے سربلند ہوں گے کہ انھیں ساری دنیا اپنے سامنے جھکی ہوئی اور پست نظر آئے گی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پاکستان کی داخلی سیاست میں ہر تھوڑے عرصے کے بعد، خصوصاً ایسے مواقع پر جب ملک کو سخت معاشی بحران اور سیاسی انتشار کا سامنا ہو، بعض ایسے معاملات کو جو غیرمتنازع اور اُمت کے اندر اجماع کی حیثیت رکھتے ہوں ،نئے سرے سے کھڑا کر دیا جاتا ہے تاکہ عوام کی توجہ کو معاشی اور سیاسی مسائل سے ہٹا کر ان معاملات میں اُلجھا دیا جائے اور غیرمتنازع امور کو متنازعہ بنا دیاجائے۔ اس سلسلے میں الیکٹرونک میڈیا باہمی مسابقت اور بعض دیگر وجوہ سے مسئلے کو اُلجھانے میں اور ان سوالات کو اُٹھانے میں سرگرم ہوجاتا ہے جو نام نہاد حقوق انسانی کے علَم بردار اور سیکولر لابی کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
ان موضوعات میں ایک قانونِ ناموس رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس میں سیکولر لابی اور بیرونی امداد کے سہارے چلنے والی این جی اوز اور انسانی حقوق کے نام پر کام کرنے والے بعض ادارے نہ صرف خصوصی دل چسپی لیتے ہیں بلکہ منظم انداز میں سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ملک کو تصادم کی طرف دھکیلنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
آج کل ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے حوالے سے ملکی صحافت اور ٹی وی چینل عوام الناس کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مروجہ قانون ایک انسانی قانون ہے۔ یہ کوئی الٰہی قانون نہیں ہے، اس لیے اسے تبدیل کرکے شاتمِ رسولؐ کے لیے جو سزا قانون میں موجود ہے، اسے ایسا بنادیا جائے جو ’مہذب دنیا‘ کے لیے قابلِ قبول ہوجائے (حالانکہ اس ’مہذب دنیا‘کے ہاتھوں دنیا کے گوشے گوشے میں معصوم انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے، اسی ’مہذب دنیا‘ نے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر پوری دنیا میں دہشت گردی کا بازار گرم کررکھا ہے جس سے لاکھوں افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں اور اب بھی ہزاروں کو محض شبہے کی بنیاد پر گولیوں اور میزائل کا نشانہ بنایا جارہا ہے)۔ واضح رہے کہ موصوفہ کا معاملہ ابھی عدالت ِ عالیہ میں زیرسماعت ہے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ایک طوفان برپا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
گورنر پنجاب نے بھی اپنے اخباری بیان میں اسی بات پر زور دیا کہ یہ ایک انسان کا بنایا ہوا قانون (بلکہ العیاذ باللہ ان کے الفاظ میں: ’کالا قانون‘) ہے اور اسے تبدیل کیا جانا چاہیے۔ وہ اپنے منصب کے دستوری تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے جیل میں پہنچ گئے اور ملزمہ کے ساتھ ایک پریس کانفرنس تک منعقد کرڈالی جو ملک میں نافذ دستور اور نظامِ قانون کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف تھی۔ ہم چاہیں گے کہ اس موضوع پر انتہائی اختصار کے ساتھ معاملے کے چند بنیادی پہلوئوں کی طرف صرف نکات کی شکل میں اشارتاً کچھ عرض کریں۔
مسئلے کا سب سے اہم اور بنیادی پہلو وہی ہے جسے ایک صوبائی گورنر نے متنازعہ بنانا چاہا ہے، یعنی شاتمِ رسولؐ کی سزا کیا انسانوں کی طے کی ہوئی شے ہے، یا یہ اللہ کا حکم ہے جس کی بنیاد قرآن و سنت کی واضح ہدایات اور نصوص ہیں، نیز کیا یہ حکم اسلام کے ساتھ خاص ہے یا یہ الٰہی قانون تمام مذاہب اور تہذیبوں کی مشترک میراث ہے۔ مناسب ہوگاکہ قرآن کریم یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنے سے قبل یہ دیکھ لیا جائے کہ کیا قبلِ اسلام اس نوعیت کا کوئی الہامی یا الٰہی حکم پایا جاتا تھا یا نہیں۔
یہودی اور عیسائی مذہب کی مقدس کتابوں عہدنامہ قدیم اور عہدنامہ جدید پر نظر ڈالی جائے تو عہدنامہ قدیم میں واضح طور پر یہ الفاظ ملتے ہیں:
you shall not revile God (Exodus 22: 28)
اس کا مفہوم یہ ہوگا: ’’تو خدا کو نہ کوسنا‘‘ اور بُرا بھلا نہ کہنا‘‘ (ملاحظہ ہو، کتاب مقدس پرانا اور نیا عہدنامہ، لاہور ۱۹۹۳ئ، بائبل سوسائٹی، ص ۷۵)۔ عہدنامہ قدیم میں آگے چل کر مزید وضاحت اور متعین الفاظ کے ساتھ یہ بات کہی گئی: اور جو خداوند کے نام پر کفر بکے ضرور جان سے مارا جائے۔ ساری جماعت اسے قطعی سنگسار کرے خواہ وہ دیسی ہو یا پردیسی جب وہ پاک نام پر کفر بکے تو وہ ضرور جان سے مارا جائے۔ (ایضاً احبار، باب ۲۴:۱۵-۱۷، ص ۱۱۸)
And he that blasphemeth the name of the Lord, he shall surely be put to death, and all the congregation shall certainly stone him: as well as the stranger, as he that is born in the Land, when he blashphemeth the name of the Lord, shall be put to death. (Leveticm 24: 11-16).
Wherefore I say unto you, all manner of sin and blasphemy shall be forgiven unto men: but to blasphemy against the Holy Christ, shall not be forgiven unto men. (Mathen 12:31)
اس کا مفہوم یہ ہوگا: ’’اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ آدمیوں کا ہر گناہ اور کفر تو معاف کیا جائے گا مگر جو کفر روحِ مقدس کے بارے میں ہو، وہ معاف نہ کیا جائے گا‘‘ (متی باب ۱۲: ۳۱، کتاب مقدس، مطبوعہ بائبل سوسائٹی، انارکلی لاہور،۱۹۹۳ئ، میثاقِ جدید،ص ۱۵)
اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو شخص بغاوت (treason) کرتا ہے، قرآن کریم نے اس کی سزا کو واضح الفاظ میں بیان کیا ہے چنانچہ فرمایا گیا:
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَ اَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ط ذٰلِکَ لَھُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ o (المائدہ ۵:۳۳)جو لوگ اللہ سے اور اس کے رسولؐ سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں، یا ان کے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا وہ جلاوطن کردیے جائیں۔
اِِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ کُبِتُوْا کَمَا کُبِتَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَقَدْ اَنْزَلْنَآ اٰیٰتٍم بَیِّنٰتٍ ط وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ o (المجادلہ ۵۸:۵) جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کی مخالفت کرتے ہیں وہ ذلیل کیے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے لوگ ذلیل کیے گئے تھے اور ہم نے صاف اور کھلی آیتیں نازل کر دی ہیں جو نہیں مانتے ان کو ذلت کا عذاب ہوگا۔
گویا الٰہی قانون میں توہینِ رسالت (blasphemy )کی سزا بنی اسرائیل کے لیے، عیسائی مذہب کے پیروکاروں کے لیے، اور اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یکساں طور پر مجرم کا قتل کیا جانا ہے۔
ایک لمحے کے لیے اس پہلو پر بھی غور کرلینا مفید ہوگا کہ کیا ایسی سزا کا نفاذ ایک ایسی ہستیؐ کے مزاج، طبیعت اور شخصیت سے مناسبت رکھتا ہے جسے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے تمام عالَموں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہو، جو خون کے پیاسوں کو قبائیں دینے کا حوصلہ رکھتا ہو، جو اپنے چچاؓ کے قاتلوں کو بھی معاف کردینے کا دل گردہ رکھتا ہو۔ بات بڑی آسان سی ہے۔ سیرتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے تابناک ابواب میں سے فتح مکہ کے باب کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے ہرممکنہ ظلم مکّی دور میں آپؐ پر کیا، حضرت یوسف ؑ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے آپؐ نے ان سب کو معاف کر دیا، لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ___ لیکن بات یہاں رُک نہیں گئی ___ اس عظیم معافی کے باوجود وہ چار افراد جو ارتداد اور توہینِ رسالتؐ کے مرتکب ہوئے پیش کیے گئے تو ان کے قتل کا فیصلہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا اور ان تین مردوں اور ایک خاتون کو موت کی سزا دی گئی۔ ان میں سے خاتون قریبہ جو ابن اخلی کی لونڈی تھی مکہ کی مغنیہ تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور ہجو پر مبنی گیت اس کا وتیرہ تھے۔ (ملاحظہ ہو: بخاری، فتح مکہ اور شبلی نعمانی کی سیرت النبیؐ، جلد اوّل، اعظم گڑھ، مطبع معارف، ۱۹۴۶ئ، ص ۵۲۵)
یہ محض ایک واقعے سے استدلال نہیں، نبی اکرمؐ کے ایک قانونی فیصلے کا معاملہ ہے جو اُمت کے لیے ہمیشہ کے لیے حجت ہے۔
قرآن و سنتِ رسولؐ کے ان نصوص کے بعد قرآن اور حدیث کو سند اور حجت ماننے والا کوئی شخص کس طرح یہ کہہ سکتا ہے کہ شاتمِ رسولؐ کی سزا قتل کے علاوہ کچھ اور ہوسکتی ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر اُمت مسلمہ کا اجماع ہے۔ چنانچہ وہ اہلِ سنت ہوں یا اہلِ تشیع، ۱۵ سو سال میں اس مسئلے پر کسی کا اختلاف نہیں پایا جاتا۔ اس سلسلے میں فقہاے اُمت میں علامہ ابن تیمیہ کی الصارم المسلول علی شاتم الرسولؐ، تقی الدین سبکی کی السیف المسلول علی من سب الرسولؐ، ابن عابدین شامی کی تنبیہ الولاۃ والحکام علی احکام شاتم خیرالانامؐ ان چند معروف کتب میں سے ہیں جو اس اجماعِ اُمت کو محکم دلائل اور شواہد کے ساتھ ثابت کرتی ہیں۔
پاکستان کے تناظر میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ سیکولر لابی عموماً اس معاملے میں اپنا نزلہ مولویوں پر ہی گراتی ہے کہ یہ ان کا پیدا کردہ مسئلہ ہے ورنہ جو لوگ روشن خیال، وسیع القلب اور تعلیم یافتہ شمار کیے جاتے ہیں، وہ اس قسم کے معاملات میں نہ دل چسپی رکھتے ہیں اور نہ ایسے مسائل کی توثیق کرتے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ اس حوالے سے صرف دو ایسی شخصیات کا تذکرہ کردیا جائے جنھیں سیکولر لابی کی نگاہ میں بھی ’روشن خیال‘، ’وسیع القلب‘ اور’ تعلیم یافتہ‘ تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ مغربی قانون اور فلسفۂ قانون پر ان کی ماہرانہ حیثیت بھی مسلّم ہے۔ گویا کسی بھی زاویے سے انھیں مولویوں کے زمرے میں شمار نہیں کیا جاسکتا، یعنی بانیِ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح اور تصورِ پاکستان کے خالق اور شارح علامہ ڈاکٹر محمد اقبال۔
اس خطے میں جب غازی علم الدین شہید نے ایک شاتمِ رسولؐ کو قتل کیا تو ملزم کا وکیل کوئی ’مولوی‘ نہیں وہی ’روشن خیال‘ برطانیہ میں تعلیم پانے والا، اصول پرست اور کھرا انسان محمد علی جناح تھا جس نے کبھی کوئی جھوٹا یا مشتبہ مقدمہ لڑنا پسند نہیں کیا اور اپنے ملزم کے دفاع میں اور ناموسِ رسولؐ کے دفاع میں اپنی تمام تر صلاحیت کو استعمال کیا۔ اور جب غازی علم الدین کی تدفین کا مرحلہ آیا تو ’روشن دماغ‘ علامہ اقبال نے یہ کہہ کر اسے لحد میں اُتارا کہ’’ایک ترکھان کا بیٹا ہم پڑھے لکھوںپر بازی لے گیا‘‘۔
سوچنے کی بات صرف اتنی سی ہے کہ کیا یہ دو ماہر قانون دان ’حریت بیان‘، ’قلم کی آزادی‘ ، ’انسان کے پیدایشی حقِ اظہار‘ سے اتنے ناواقف تھے کہ ’جذبات‘ میں بہہ گئے۔
معاملے کا دوسرا پہلو حقوقِ انسانی سے تعلق رکھتا ہے۔ ہر انسان کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی راے کا اظہار کرے اور اگر کوئی چیز قابلِ تنقید ہو تو اس پر تنقید بھی کرے، لیکن کسی بھی انسان کو آزادیِ قلم اور حریت بیان کے بہانے یہ آزادی نہیں دی جاسکتی کہ وہ کسی دوسرے فرد کی عزت، ساکھ، معاشرتی مقام اور کردار کو نشانہ بناکر نہ صرف اس کی بلکہ اُس سے وابستہ افراد کی دل آزاری کا ارتکاب کرے۔
اگر یورپ کے بعض ممالک میں (مثلاً ڈنمارک، اسپین، فن لینڈ، جرمنی، یونان، اٹلی، آئرلینڈ، ناروے، نیدرلینڈ، سوئٹزرلینڈ، آسٹریا وغیرہ) آج تک blasphemy یا مذہبی جذبات مجروح کرنے پر قانون پایا جاتا ہے اور برطانیہ جیسے رواداری والے ملک میں ملکہ کے خلاف توہین blasphemy کی تعریف میں آتی ہے، تو کیا کسی کارٹونسٹ یا کم تر درجے کے ادیب یا ادیبہ بلکہ کسی بھی فرد کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ گھٹیا ادب کے نام پر جو ہرزہ سرائی چاہے کرے۔ معاملہ تحریر کا ہو یا تقریر کا، ہر وہ لفظ اور ہر وہ بات جو ہتک آمیز ہو، اسے ’آزادیِ راے‘ کے نام پر جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ ایسی بدیہی حقیقت ہے جس کا انکار کوئی عقل کا اندھا ہی کرسکتا ہے۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں آزادیِ راے کے نام پر کسی دوسرے کے حقِ شہرت، حقِ عزت کو پامال نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔
سیکولر اور آزاد خیال دنیا جس چیز کو اہم سمجھتی ہے، اس پر حرف گیری کو جرم قرار دیتی ہے اور عملاً اپنے پسندیدہ تصورات اور واقعات پر تنقید، محاسبے اور بحث و استدلال تک کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں۔
آج جو لوگ اللہ کی مقدس کتابوں کی تحقیر و تذلیل اور اللہ کے پاک باز رسولوں کو سب و شتم کا نشانہ بنانے سے روکنے کو آزادیِ راے اور آزادیِ اظہار کے منافی قرار دیتے ہیں اور ان گھنائونے جرائم کے مرتکبین کو پناہ دینے میں شیر ہیں، ان کا اپنا حال یہ ہے کہ جرمنی میں ہٹلر کے دور میں یہودیوں پر جو مظالم ڈھائے گئے اور جنھیں بین الاقوامی قانون اور سیاست کی اصطلاح میں ’ہولوکاسٹ‘ کہا جاتا ہے محض یہودیوں اور صہیونیت کے علَم برداروں کو خوش کرنے کے لیے ان پر تنقید کو اپنے دستور یا قانون میں جرم قرار دیتے ہیں۔ ایسے محققین، مؤرخین اور اہلِ علم کو جو دلیل اور تاریخی شہادتوں کی بنا پر ’ہولوکاسٹ‘ کا انکار نہیں صرف اس کے بارے میں غیرحقیقی دعووں پر تنقید و احتساب کرتے ہیں، نہ صرف انھیں مجرم قرار دیتے ہیں بلکہ عملاً انھیں طویل مدت کی سزائیں دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر آسٹریا کا قانون National Socialism Prohibition Law 1947 amended 1992کی رُو سے جو مندرجہ ذیل جرم کا ارتکاب کرے گا:
Whoever denies, grossly plays down, approves, or tries to excuse the National Socialist genocide or other National Socialist crimes against humanity in print publication, in broadcast or other media....will be punished with imprisonment from one to ten years, and in cases of particularly dangerous suspects or activity be punished with upto twenty years imprisonment.
جو کوئی طباعتی، نشری یا کسی اور میڈیا میں انسانیت کے خلاف قومی سوشلسٹ جرائم یا قومی سوشلسٹ نسل کشی کا انکار کرتا ہے، یا اسے بہت زیادہ کم کر کے بیان کرتا ہے یا اس کے لیے عذر فراہم کرتا ہے، اسے ایک تا ۱۰ سال کی سزاے قید اور خصوصی طور پر خطرناک مجرموں کو یا سرگرمیوں پر ۲۰سال تک کی سزاے قید دی جاسکے گی۔
آسٹریا میں یہ قانون کتابِ قانون کی صرف زینت ہی نہیں ہے بلکہ عملاً دسیوں محققین، اہلِ علم، صحافیوں اور سیاسی شخصیات کو سزا دی گئی ہے اور برسوں وہ جیل میں محبوس رہے ہیں۔ اس سلسلے کے مشہور مقدمات میں مارچ ۲۰۰۶ء میں برطانوی مؤرخ ڈیوڈ ارونگ کو ایک سال کی سزا اور جنوری ۲۰۰۸ء میں وولف گینگ فرولچ کو ساڑھے چھے سال کی سزا دی گئی اور عالمی احتجاج کے باوجود انھیںاپنی سزا بھگتنی پڑی۔ حقوقِ انسانی کے کسی علَم بردار ادارے یا ملک نے ان کی رہائی کے لیے احتجاج نہیں کیا اور نہ سیاسی پناہ دے کر ہی انھیں اس سزا سے نجات دلائی۔ یورپ کے جن ممالک میں محض ایک تاریخی واقعے کے بارے میں اظہار یا تخفیف کے اظہار کو جرم قرار دیا گیا ان میں آسٹریا کے علاوہ بلجیم۱؎ ، چیک ری پبلک ۲؎، فرانس ۳؎، جرمنی۴؎، ہنگری۵؎ ،سوئٹزرلینڈ۶؎،لکسمبرگ۷؎ ، ہالینڈ۸؎ اور پولینڈ۹؎میں قوانین موجود ہیں۔ اسی طرح اسپین،پرتگال اور رومانیہ میں بھی قوانین موجود ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر ایک عام آدمی کی عزت کی حفاظت کے لیے Law of Libel and Slander آزادیِ اظہار کے خلاف نہیں اور ہولوکاسٹ کے انکار یا بیان میں تحقیر یا تخفیف کو جرم قابلِ سزا تسلیم کیا جاتا ہے تو اللہ کے رسولوں اور انسانیت کے محسنوں اور رہنمائوں کی عزت و ناموس کی حفاظت کے قوانین نعوذ باللہ ’کالے قوانین‘ کیسے قرار دیے جاسکتے ہیں۔
رہی آج کی مہذب دنیا جو انسانی جان، آزادی اور اظہار راے کی محافظ اور علَم بردار بن کر دوسرے ممالک اور تہذیبوں پر اپنی راے مسلط کرنے کی جارحانہ کارروائیاں کررہی ہے، وہ کس منہ سے یہ دعویٰ کر رہی ہے جب اس کا اپنا حال یہ ہے کہ محض شبہے کی بنیاد پر دوچار اور دس بیس نہیں لاکھوں انسانوں کو اپنی فوج کشی اور مہلک ہتھیاروں سے موت کے گھاٹ اُتار رہی ہے۔ بیسویں صدی انسانی تاریخ کی سب سے خوں آشام صدی رہی ہے۔ جس میں صرف ایک صدی میں دنیا کی کُل آبادی کا ۳ئ۷ فی صد استعماری جنگوں اور مہم جوئی کی کارروائیوں میں لقمۂ اجل بنا دیا گیا ہے اور اکیسویں صدی کا آغاز ہی افغانستان اور پاکستان میں بلاامتیاز شہریوں کو ہلاک کرنے سے کیا گیا ہے ؎
اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ
قانون توھینِ رسالتؐ کی ضرورت
تیسرا قابلِ غور پہلو اس قانون کا اجماعی قانون ہونا ہے۔ یہ کسی آمر کا دیا ہوا قانون ہے یا پارلیمنٹ کا پاس کردہ، اس پر تو ہم آگے چل کر بات کریں گے۔ یہاں صرف یہ بتانا ہے کہ اس قانون کی ضرورت کم از کم چار وجوہات کی بنا پر تھی:
اوّل، یہ قانون ملزم کو عوام کے رحم و کرم سے نکال کر قانون کے دائرے میں لاتا ہے۔ اس طرح اسے عدلیہ کے فاضل ججوں کے بے لاگ اور عادلانہ تحقیق کے دائرے میں پہنچا دیتا ہے۔ اب کسی کے شاتم ہونے کا فیصلہ کوئی فرد یا عوامی عدالت نہیں کرسکتی۔ عوام کے جذبات اور دخل اندازی کی گنجایش ختم ہوجاتی ہے۔ جب تک فاضل عدالت پوری تحقیقات نہ کرلے، ملزم کو صفائی کا موقع فراہم نہ کرے، کوئی اقدام نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے یہ قانون سب سے زیادہ تحفظ ملزم ہی کو فراہم کرتا ہے اور یہی اس کے نفاذ کا سب سے اہم پہلو ہے۔
دوم، یہ قانون دستورِ پاکستان کا تقاضا ہے کیونکہ دستورِ پاکستان ریاست کو اس بات کا ذمہ دار ٹھیراتا ہے کہ وہ اسلامی شعائر کا احترام و تحفظ کرے اور ساتھ ہی مسلمان اور غیرمسلم شہریوں کے حقوق کو پامال ہونے سے بچائے۔
سوم، یہ قانون پاکستان کی ۹۵ فی صد آبادی کے جذبات کا ترجمان ہے جس کا ہر فرد قرآن کریم اور حدیثِ رسولؐ کے ارشادات کی رُو سے اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ اپنی جان، اپنے والدین، دنیا کی ہرچیز والد والدہ اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ رکھے۔ (بخاری ، مسلم)
یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ National Commission for Justice & Peace کی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ ۱۹۸۶ء سے ۲۰۰۹ء تک اس قانون کے حوالے سے پاکستان میں کُل ۹۶۴ مقدمات زیرسماعت آئے جن میں ۴۷۹ کا تعلق مسلمانوں سے، ۳۴۰ کا احمدیوں سے، ۱۱۹ کا عیسائیوں سے، ۱۴ کا ہندوئوں سے اور ۱۲ کا دیگر مسالک کے پیروکاروں سے تھا۔ ان تمام مقدمات میں سے کسی ایک میں بھی اس قانون کے تحت عملاً کسی کو سزاے موت نہیں دی گئی۔ عدالتیں قانون کے مطابق انصاف کرانے کے عمل کے تمام تقاضے پورا کرتی ہیں، جب کہ سیکولر لابی ہر ملزم کو مظلوم بناکر پیش کرتی ہے۔ انصاف کے عمل کو سبوتاژ کیا جاتا ہے۔ میڈیاوار اور بیرونی حکومتوں، اداروں اور این جی اوز کا واویلا قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے، قانون کی عمل داری اور انصاف کی فراہمی کے عمل کو ناکام کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک شخص اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہتک، توہین، سب و شتم کا ارتکاب کرتا ہے تو عدالت کو حقیقت کو جاننے اور اس کے مطابق مقدمے کا فیصلہ کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ صحافت اور الیکٹرونک میڈیا اور این جی اوز اس کی ہمدردی اور ’مظلومیت‘ میں رطب اللسان ہوجاتے ہیں، حالانکہ مسئلہ ایک عظیم شخصیت انسانِ کامل اور ہادیِ اعظم کو نشانہ بنانے کا اور کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کا ہے۔ کیا اہانت اور استہزا کو محض ’آزادیِ قلم و لسان‘ قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیا اسی کا نام عدل و رواداری ہے؟ حقیقی مظلوم کون ہے؟
جو کھیل ہمارے یہ آزادی کے علَم بردار کھیل رہے ہیں وہ نہ اخلاق کے مسلّمہ اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ انصاف کے تقاضوں سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ یہ محض جانب داری اور من مانی کا رویہ ہے۔ اسلام ہر فرد سے انصاف کا معاملہ کرنے کا حکم دیتا ہے اور ایک شخص اس وقت تک صرف ملزم ہے مجرم نہیں جب تک الزام عدالتی عمل کے ذریعے ثابت نہیں ہوجاتا۔ لیکن جس طرح عام انسانوں کا جذبات کی رو میں بہہ کر ایسے ملزم کو ہلاک کردینا ایک ناقابلِ معافی جرم ہے، اسی طرح ایسے فرد کو الزام سے عدالتی عمل کے ذریعے بری ہوئے بغیر مظلوم قرار دے کر اور سیاسی اور بین الاقوامی دبائو کو استعمال کر کے عدالتی عمل سے نکالنا بلکہ ملک ہی سے باہر لے جانا بھی انصاف کا خون کرنا ہے اور لاقانونیت کی بدترین مثال ہے۔
آسیہ کیس کے بارے میں دی نیوز کی وہ رپورٹ بڑی اہمیت کی حامل ہے جو ۲۶نومبر کے شمارے میں شائع کی گئی ہے اور جس میں اس امر کی نشان دہی کی گئی ہے کہ یہ واقعہ جون ۲۰۰۹ء کا ہے جس کو ایس پی پولیس کی سطح پر واقعے کے فوراً بعد شکایت کرنے والے ۲۷ گواہوں اور ملزمہ کی طرف سے پانچ گواہوں سے تفتیش کے بعد سیشن عدالت میں دائر کیا گیا۔ ملزمہ نے ایک جرگے کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا اور معافی کی درخواست کی۔ مقدمے کے دوران کسی ایسے دوسرے تنازعے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا جسے اب وجہِ تنازع بنایا جا رہا ہے۔ جس جج نے فیصلہ دیا ہے وہ اچھی شہرت کا حامل ہے اور ننکانہ بار ایسوسی ایشن کے صدر راے ولایت کھرل نے جج موصوف کی دیانت اور integrity کا برملا اعتراف کیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بات بھی صاف الفاظ میں درج ہے کہ:
علاقے کی بار ایسوسی ایشن کا دعویٰ ہے کہ اصل فیصلے کو پڑھے بغیر شوروغوغا کیا جا رہا ہے، حالانکہ عدالت میں ملزمہ کے بیان میں کسی دشمنی یا کسی سیاسی زاویے کا ذکر نہیں جس کا اظہار اب کچھ سیاست دانوں یا حقوقِ انسانی کے چیمپئن اور این جی اوز کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اصل فیصلے کے مندرجات کو یکسر نظرانداز کر کے اس کیس کو سیاسی انداز میں اُچھالا جارہا ہے اور قانون ناموسِ رسالتؐ کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ ہم اس رپورٹ کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ ابھی عدالتی عمل کے اہم مراحل موجود ہیں۔ ہائی کورٹ میں اپیل اور سپریم کورٹ سے استغاثہ وہ قانونی عمل ہے جس کے ذریعے انصاف کا حصول ممکن ہے اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکتا ہے۔ لیکن اس عمل کو آگے بڑھانے کے بجاے ایک گروہ اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے، اور اس سے بھی زیادہ قابلِ مذمت بات یہ ہے کہ تحفظ ناموس رسالتؐ کے قانون ہی کی تنسیخ یا ترمیم کا کو رَس برپا کیا جا رہا ہے جو ایک خالص سیکولر اور دین دشمن ایجنڈے کا حصہ ہے۔ پاکستان کی حکومت اور قوم کو اس کھیل کو آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دینا چاہیے۔
آزادیِ اظہار کے نام پر جرم کی تحلیل اور مجرموں کی توقیر کا دروازہ کھلنے کا نتیجہ بڑی تباہی کی شکل میں رونما ہوسکتا ہے۔ جیساکہ ہم نے عرض کیا یہ قانون ایک حصار ہے اور ایک طرف دین اور شعائر دین کے تحفظ کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف سوسائٹی میں رونما ہونے والے کسی ناخوش گوار واقعے کو قانون کی گرفت میں لانے اور انصاف کے عمل کا حصہ بنانے کا ذریعہ ہے ورنہ معاشرے میں تصادم، فساد اور خون خرابے کا خطرہ ہوسکتا ہے جس کا یہ سدباب کرتا ہے۔ قانون اپنی جگہ صحیح، محکم اور ضروری ہے۔ قانون کے تحت پورے عدالتی عمل ہی کے راستے کو ہر کسی کو اختیار کرنا چاہیے، نہ عوام کے لیے جائز ہے کہ قانون اپنے ہاتھ میں لیں اور نہ ان طاقت ور لابیز کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ قانون کا مذاق اُڑائیں اور عدالتی عمل کی دھجیاں بکھیرنے کا کھیل کھیلیں۔ معاشرے میں رواداری، برداشت اور قانون کے احترام کی روایت کا قیام ازبس ضروری ہے اور آج ہر دو طرف سے قانون کی حکمرانی ہی کو خطرہ ہے۔
حق تو یہ ہے کہ یہ قانون نہ صرف اہلِ ایمان بلکہ ہر ایسے انسان کے لیے اہمیت رکھتا ہے جو رواداری، عدل و انصاف اور معاشرے میں افراد کی عزت کے تحفظ پر یقین رکھتا ہو۔ یہ معاملہ محض خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے لیے ہر نبی اور ہر رسول کی عزت و ناموس محترم ہے۔ اس لیے اس قانون کو نہ تو اختلافی مسئلہ بنایا جاسکتا ہے اور نہ اسے یہ کہہ کر کہ یہ محض ایک انسانی قانون ہے، تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ہاں، اگر کہیں اس کے نفاذ کے حوالے سے انتظامی امور یا کارروائی کو زیادہ عادلانہ بنانے کے لیے طریق کار میں بہتری پیدا کرنے کی ضرورت ہو، تو دلیل اور تجربے کی بنیاد پر اس پر غور کیا جاسکتا ہے اور قانون کے احترام اور اس کی روح کے مطابق اطلاق کو مؤثر بنانے کے لیے ضروری اقدام ہوسکتے ہیں تاکہ عدالت جلد اور معقول تحقیق کرنے کے بعد فیصلے تک پہنچ سکے۔ بیرونی دبائو اور عالمی استعمار اور سیکولر لابی کی ریشہ دوانیوں کے تحت قانون کی تنسیخ یا ترمیم کا مطالبہ تو ہمارے ایمان، ہماری آزادی، ہماری عزت اور ہماری تہذیب کے خلاف ایک گھنائونی سازش ہی نہیں ان کے خلاف اعلانِ جنگ ہے جن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ معذرت خواہانہ رویہ دراصل کفر کی یلغار اور دشمنوں کی سازشوں کے آگے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہوگا۔
میڈیا،این جی اوز، عیسائی اور احمدی لابی اور پیپلزپارٹی کے گورنر اور ترجمانوں کی ہائو ہو کو ناکافی سمجھتے ہوئے اور استعماری قوتوں کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے پیپلزپارٹی کی ایک رکن پارلیمنٹ نے عملاً قومی اسمبلی میں توہینِ رسالتؐ کے قانون میں ترامیم کی نام پر ایک شرانگیز مسودہ قانون جمع کروا دیا ہے، جو اَب قوم کے سامنے ہے اور اس کے ایمان اور غیرت کا امتحان ہے۔ اس قانون کے دیباچے میں قائداعظم کی ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کو ایک بار پھر اس کے اصل پس منظر اور مقصد سے کاٹ کر اپنے مخصوص نظریات کی تائید میں استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور سارا کھیل یہ ہے کہ دین و مذہب کا ریاست اور قانون سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قانون سازی کو شریعت کی گرفت سے باہر ہونا چاہیے حالانکہ یہ اس بنیادی تصور کی ضد ہے جس پر تحریکِ پاکستان برپا ہوئی اور جس کے نتیجے میں پاکستان قائم ہوا ہے اور جسے قرارداد مقاصد میں تسلیم کیا گیا، وہ قراردادِ مقاصد جسے سیکولر لابی کی تمام ریشہ دوانیوں کے باوجود پاکستان کے دستور کی بنیاد اور اساسی قانون (grundnorm) تسلیم کیا گیا ہے۔
قائداعظم کی اس تقریر کو قائداعظم کی دوسری تمام متعلقہ تقاریر کے ساتھ ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس تقریر کی اس سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں کہ تقسیمِ ملک کے خوں آشام حالات میں قائداعظم نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی جو وہ اس سے پہلے ہی بارہا دے چکے تھے اور جو پوری پاکستانی قوم کا عہد ہے۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ مذہب کا اور شریعت کا قانون سے کوئی تعلق نہیں اور ریاست پاکستان قانون سازی کے باب میں اسی طرح آزاد ہے جس طرح ایک لادین ملک ہوتا ہے تو یہ حقیقت کے خلاف اور اقبال اور قائداعظم پر ایک بہتان ہے۔
۲۴ نومبر ۲۰۱۰ء کو پارلیمنٹ میں جو بل داخل کیا گیا ہے اس میں محرک نے یہ درخواست کی ہے کہ مروجہ قانونِ توہینِ رسالتؐ 295-C اور اس سے متعلقہ دیگر دفعات میں بنیادی تبدیلیاں کی جائیں۔ بل میں جو تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں ان کا مقصد ترمیم نہیں، بلکہ اس قانون کی عملی تنسیخ ہے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ترمیم کی ضرورت پر غور کرلیا جائے۔ ترمیم کا عمومی مقصد قانون کی روح کو برقرار رکھتے ہوئے کسی ایسے پہلو کا دُور کرنا ہوتا ہے جو قانون کے نفاذ میں رکاوٹ پیدا کر رہا ہو یا کسی ایسے پہلو کی تکمیل مقصود ہو جو مروجہ قانون میں رہ گیا ہو۔ اس حیثیت سے اگر حالیہ قانون کی دفعہ 295-C اور مجوزہ ترمیم کے الفاظ کا مقابلہ کیا جائے تو صورت حال کچھ مختلف نظر آتی ہے۔ مروجہ قانون میں 295-B میں ارتکاب جرم کرنے والے کے لیے سزا عمرقید ہے، shall be punishable with imprisonment to life۔ 295 میں الفاظ ہیں: shall be punished with deathجب کہ مجوزہ بل میں 295-B کے لیے جو متبادل الفاظ تجویز کیے گئے ہیں وہ ہیں: shall be punishable with imprisonment of either description for a term which may extend to five years or with fine or both.۔ اسی طرح 295-C کے لیے جو متبادل الفاظ تجویز کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں: shall be punishable with imprisonment of either description for a term
which may extend to ten years or with fine or with both.
گویا دونوں مجوزہ دفعات میں اگر کوئی فرق ہے تو صرف قید کی مدت، یعنی 295-B میں حد سے حد پانچ سال ، 295-CV میں حد سے حد ۱۰ سال! جو بھلا انسان بھی باہوش و حواس اس تقابل کو دیکھے گا وہ یہی کہے گا کہ اس تجویز کا اصل کام ’تنسیخ‘ ہے ترمیم نہیں۔ واضح رہے کہ اس میں قید اور جرمانہ کے درمیان’یا‘ کا رشتہ قائم کیا گیا ہے۔ گویا سزا کے بغیر صرف جرمانہ، جس کا بھی تعین نہیں کیا گیا ادا کرکے کوئی بھی شاتمِ رسولؐ اُمت مسلمہ کے جذبات کا خون اور اُن کی آنکھوں میں دھول جھونک سکتا ہے۔
اس تجویز میں ناموسِ رسالتؐ کو پامال کرنے والے کے لیے قرآن و سنت اور اجماعِ اُمت کے فیصلے کی جگہ ملزم کو معصوم اور بے گناہ تصور کرتے ہوئے ساری ہمدردی اسی کے پلڑے میں ڈال دی گئی ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ناموسِ رسالتؐ یا قرآن کریم کی بے حُرمتی کرنا ایک اتنا ہلکا سا جرم ہے کہ اگر حد سے حد پانچ سال یا ۱۰ سال کی قید دے دی جائے یا صرف چند روپے جرمانہ کردیا جائے تو اس گھنائونے جرم کی قرارواقعی سزا ہوجائے۔ یہ بھی نہ بھولیے کہ اس سزا کو چندلمحات بعد کوئی نام نہاد صدرِ مملکت معاف بھی کر دے تو اُمت مسلمہ بری الذمہ ہوجائے گی!
ہمارے خیال میں کسی مسلمان سے یہ توقع نہیں رکھی جاتی کہ اگر اس کے نسب کے بارے میں ایک بُرا لفظ منہ سے نکالا جائے تو وہ کہنے والے کی زبان کھینچنے کو اپنا حق نہ سمجھے لیکن اگر قرآنِ کریم یا خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی حملہ ہو اور کھلی بغاوت ہو تو ’رواداری‘ اور ’عفوودرگزر‘ میں پناہ دی جائے۔
معلوم ہوتا ہے کہ یہ تجویز پیش کرنے والوں کے خیال میں کسی کی عزت، جذبات، شخصیت اور مقام پر حملہ کرنا تو ’انسانی حق‘، ’آزادی راے‘ اور ’اقلیتی حقوق‘ کی بنا پر ایک نادانستہ غلطی مان لیا جائے، اور جس پر یہ حملہ کیا جا رہا ہے، جس کی شخصیت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کے ساتھ اس زیادتی کو نہ ظلم کہا جائے، نہ اسے انسانی حقوق کی پامالی سمجھا جائے، بلکہ الزام تراشی کرنے والے کو معصوم ثابت کرنے اور جرم کی سنگینی اور گھنائونے ہونے کو کم سے کم کیا جائے اور عملاً اس جرم پر گرفت ایک سنگین جرم بنا دیا جائے۔ گویا ع
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
یہ بل ملت اسلامیہ کے ایمان، حب ِ رسولؐ اور عظمتِ قرآن کے ساتھ ایک ہتک آمیز مذاق کی حیثیت رکھتا ہے ،اور اقلیتوں کے ’تحفظ‘ کے نعرے کے زور سے اُمت مسلمہ کی اکثریت کو بے معنی قرار دیتے ہوئے اس کی روایات اور قرآن و سنت کے واضح فیصلوں کی تردید بلکہ تنسیخ کرتا ہے۔
اس موقع پر یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان ہی میں نہیں، پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان مسلم ممالک میں غالب اکثریت رکھتے ہیں غیرمسلموں کا تحفظ ان کا دینی فریضہ ہے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ نے ان کا ذمہ لیا ہے، اس لیے کوئی مسلمان ان کی جان، مال اور عزت کو اپنے لیے حلال نہیں کرسکتا لیکن کوئی شخص مسلمان ہو یا غیرمسلم، اسے یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ برسرِعام جب چاہے قرآن اور صاحب ِ قرآن علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بے حُرمتی کا مرتکب بھی ہو اور اس پر کوئی قانونی کارروائی بھی نہ کی جائے کہ ایسا کرنے سے بعض پڑوسی ناراض ہوجائیں گے۔
Anyone making a false or frivolous accusation under any of the sections 295-A, 295 B and 295-c, of the Pakistan Penal Code shall be punished in accordance with similar punishment prescribed in the Section under which the false or frivolous accusation was made.
حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے افراد قانون کی پاسبانی کا دعویٰ کرتے ہیں جو قانون کے بنیادی تصورات کو کھلے عام پامال کرنے پر آمادہ ہیں۔ ملزم کے ساتھ تمام تر ہمدردی کے باوجود کیا ۱۵ سو سال میں ایک واقعہ بھی ایسا پیش کیا جاسکتا ہے کہ ایک شخص نے کسی پر بدکاری کا الزام لگایا جس کے ثابت ہونے کی شکل میں بدکار کو سنگسار کیا جانا تھا لیکن الزام ثابت نہ ہوسکا تو الزام لگانے والے کو سنگسار کر دیا گیا ہو۔ قذف کا قانون اسلامی قانون کا حصہ ہے لیکن وہ نصوص پر مبنی ہے اور صرف زنا کے ایک جرم کے ساتھ خاص ہے۔ البتہ اتہام، جھوٹی شہادت وغیرہ تعزیری جرم ہوسکتے ہیں اور ان پر ضرورت اور حالات کے مطابق غور کیا جاسکتا ہے مگر جھوٹے گواہ کو ہمیشہ کے لیے ناقابلِ قبول گواہ قرار دینا اسلام کے تعزیری قانون کا حصہ ہے۔ لیکن جس طرح یہاں ان نامساوی چیزوں کو برابر برابر (juxtapose) کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ قانون کا صحیح نفاذ نہیں بلکہ قانون سے جان چھڑانے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ جو تصور اس ترمیم میں پیش کیا گیا ہے کیا تمام تعزیری قوانین پر اس کا اطلاق ہوگا؟ اس کا اصولِ قانون و انصاف سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو جنگل کے قانون کی طرف مراجعت کا نسخہ معلوم ہوتا ہے! کیا اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہوگا کہ ہمارا حکمران طبقہ اس معاملے میں شاید اُس مقامِ زوال تک پہنچ گیا ہے جہاں عقل کا استعمال قابلِ دست اندازی پولیس جرم تصور کر لیا جائے گا؟
اسلامی قانون میں قذف کی سزا کی موجودگی میں نہ تو حد میں اضافہ ہوسکتا ہے اور نہ قذف کے ملزم پر زنا کی حد جاری کی جاسکتی ہے۔ ایک پارلیمنٹ کے رکن کی جانب سے ردعمل کی بنیاد پر یہ تجویز بنیادی انسانی حقوق اور قانون کے فطری اصولوں کے ساتھ گھنائونا مذاق ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو سمجھ بوجھ سے نوازے تاکہ وہ اپنی فکری غلطیوں کو محسوس کرسکے۔
ایک ایسے قانون کو جسے ملک کی وفاقی شرعی عدالت نے تجویز کیا ہو، جسے پارلیمنٹ اور سینیٹ کے اجلاس نے متفقہ طور پر قانون کا درجہ دیا ہو، محض یہ کہہ کر ایک طرف رکھ دینا کہ یہ فلاں فوجی آمر کے دور میں پارلیمنٹ نے بنایا، ہرگز قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ نیز یہ دستورِ پاکستان کے ساتھ ایک مذاق کے مترادف ہے۔
۱۸۶۰ء سے ۱۹۹۲ء تک جو قانون عوامی ضرورت کی بنا پر وجود میں آیا جس میں ناموسِ رسولؐ کے تحفظ کے لیے اضافی قانون شامل کیا گیا وہ ایک غیر متنازع اور متفق علیہ معاملہ ہے۔ اسے ایسے وقت میں ایک اختلافی مسئلہ بنا کر پیش کرنا جب ملک کو شدید معاشی زبوں حالی اور سیاسی انتشار کا سامنا ہے، ملک کے باشندوں کے ساتھ بے وفائی اور ان کے جذبات کو مجروح کرنے کی ایک ناپاک کوشش ہے۔
اس امر کی ضرورت ہے کہ یک طرفہ پروپیگنڈے بلکہ ایک نوعیت سے کروسیڈ کا بھرپور انداز میں مقابلہ کیا جائے۔ اس موقع پر اہلِ حق کی خاموشی ایک جرم کا درجہ رکھتی ہے۔ اور اس بات کا خطرہ ہے کہ اس سے ان عناصر کو شہ ملے گی جو دلیل، قانون اور سیاسی عمل کے ذریعے اصلاح سے مایوس ہوکر تشدد کے راستے کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ جہاں قانون کا منصفانہ نفاذ وقت کی ضرورت ہے اور عوام و خواص سب کی تعلیم اور راے عامہ کی استواری ضروری ہے، وہیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ایک مبنی برحق قانون کو جھوٹے سہاروں اور نفاذ کے باب میں مبینہ بدعنوانیوں کے نام پر قانون کو مسخ کرنے کی کوشش کا دلیل اور عوامی تائید کے ذریعے مقابلہ کیا جائے ۔ میڈیا پر ناموسِ رسالتؐ کے قانون کا مؤثر دفاع اوراس کی ضرورت اور افادیت کے تمام پہلوئوں کو اُجاگر کیا جائے، وہیں عمومی تعلیم اور انتظامیہ، پولیس اور عدالت سب کے تعاون سے اس قانون کے غلط استعمال کو جہاں کہیں بھی ہو، قانون اور عدل و انصاف کے معروف ضابطوں کے مطابق روکا جائے، اور جو عناصر مسلمانوں کے ایمان اور ان کے جذبات سے کھیلنے پر تلے ہوئے ہیں اور جو کردار ان کے آلۂ کار بننے کو تیار ہوں ان کی سرپرستی اور بیرونِ ملک آبادکاری کے مذموم کھیل میں مصروف ہیں، ان کی ہر شرارت کا دروازہ بند کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک طرف اہلِ علم اور اہلِ قلم اپنی ذمہ داری ادا کریں تو اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے وہیں مسجد اور منبر سے بھی پورے توازن اور ذمہ داری کے ساتھ اس آواز کو اُٹھایا جائے۔ نیز پارلیمنٹ کے ارکان تک حق کی آواز کو مؤثر انداز میں پہنچایا جائے اور ہرہرحلقے میں اہلِ علم اور سیاسی کارکن اپنے امیدواروں کو پاکستان کے دستور اور اسلام کے شعائر کی حفاظت کے لیے مضبوطی سے سرگرم عمل ہونے کی دعوت دیں۔
قائداعظم کی ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کو بددیانتی اور دیدہ دلیری سے استعمال کیا جارہا ہے۔ قراردادِ مقاصد کے خلاف جو فکری جنگ برپا ہے اس کا بھرپور مقابلہ کیا جائے اور قائداعظم کے بیان کو آج جس طرح اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اس کا پردہ چاک کیا جائے۔ اس لیے کہ قائداعظم نے قیامِ پاکستان کی ساری جنگ دو قومی نظریے، مسلمانوں کی نظریاتی قومیت، دین پر مبنی ان کی شناخت اور اسلامی نظریے کے لیے پاکستان کو تجربہ گاہ بنانے کے مسلسل وعدوں پر لڑی تھی۔ آج سیکولر لابی اس عظیم تاریخی تحریک کو جس کے دوران ملّت اسلامیہ ہند نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں، ہائی جیک کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اسے محض معاشی مفادات کا کھیل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جو تاریخ کے ساتھ مذاق، قائداعظم سے بے وفائی اور اُمت مسلمہ اور پاکستان کے لیے قربانی دینے والوں کے خون سے غداری کے مترادف ہے۔
قائداعظم نے پاکستان کس مقصد اور کس عہدوپیمان پر قائم کیا تھا وہ بار بار سامنے لانا ضروری ہے۔ ہم قائداعظم ہی کے چند زریں اقوال پر ان گزارشات کا خاتمہ کرتے ہیں تاکہ ناموسِ رسولؐ کی حفاظت کے قانون پر ان تازہ حملوں کے لیے قائداعظم کے نام کو استعمال کرنے والوں کی بدباطنی سب پر آشکارا ہوجائے۔ کاش! وہ خود بھی اس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ لیں اور قائداعظم کا سہارا لے کر اپنے اس شیطانی کھیل سے اجتناب کریں۔
قائداعظم نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کے بعد اکتوبر ۱۹۴۷ء میں ان تمام غلط فہمیوں کو خود دور کر دیا تھا جو مخالفین پیدا کر رہے تھے بلکہ واضح الفاظ میں پاکستان کے قیام کے مقاصد اور اس عمرانی معاہدے کا برملا اعلان کیا تھا جو انھوں نے ملّت اسلامیہ پاک و ہند سے کیا تھا:
پاکستان کا قیام جس کے لیے ہم ۱۰ سال سے کوشاں تھے بفضلہ تعالیٰ اب ایک زندہ حقیقت ہے لیکن خود اپنی آزاد مملکت کا قیام ہمارے اصل مقصد کا صرف ایک ذریعہ تھا، اصل مقصد نہ تھا۔ ہمارا اصل منشا و مقصود یہ تھا کہ ایک ایسی مملکت قائم ہو جس میں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہیں، جس کو ہم اپنے مخصوص مزاج اور اپنی ثقافت کے مطابق ترقی دیں اور جس میں اسلامی عدل اجتماعی کے اصولِ آزادی کے ساتھ برتے جائیں۔
قائداعظم اچھی طرح جانتے تھے کہ اسلام محض عقائد اور عبادات کا نام نہیں بلکہ وہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے جو تطہیر افکار اور تعمیر اخلاق کے ساتھ اجتماعی زندگی کی نئی صورت گری کا تقاضا کرتا ہے اور جس میں قانون، معاشرت اور معیشت سب کی تشکیل کو قرآن و سنت کے مطابق ہونا ہی اصل مطلوب ہے۔ معاملہ حدود قوانین کا ہو یا تحفظ ناموسِ رسالتؐ کے قانون کا، زکوٰۃ و عشر کے قوانین ہوں یا اسلام کا قانونِ شہادت، یہ سب پاکستان کے مقصدِ وجود کا تقاضا ہیں اور قائداعظم کو اس بارے میں کوئی ابہام نہیں تھا۔ ان کا ارشاد ہے:
ان لوگوں کو چھوڑ کر جو بالکل ہی ناواقف ہیں ہر شخص جانتا ہے کہ قرآن مسلمانوں کا ہمہ گیر ضابطۂ حیات ہے۔ مذہبی، معاشرتی، دیوانی، معاشی، عدالتی، غرض یہ کہ ہماری مذہبی رسومات سے لے کر روز مرہ زندگی کے معاملات تک، روح کی نجات سے جسم کی صحت تک، اجتماعی حقوق سے انفرادی حقوق تک، اخلاقیات سے جرائم تک کو دنیاوی سزائوں سے لے کر آنے والی زندگی کی جزا وسزا تک کے تمام معاملات پر اس کی عمل داری ہے اور ہمارے پیغمبرؐ نے ہمیں ہدایت کی ہے کہ ہرشخص اپنے پاس قرآن رکھے اور خود رہنمائی حاصل کرے۔ اس لیے اسلام صرف روحانی احکام اور تعلیمات اور مراسم تک ہی محدود نہیں ہے۔ یہ ایک کامل ضابطہ ہے جو مسلم معاشرے کو مرتب کرتا ہے۔
۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر سے قبل دہلی میں پاکستان کے لیے روانہ ہونے سے پہلے قائداعظم نے بہت صاف الفاظ میں اس وقت کے صوبہ سرحد میں استصواب کے موقع پر جو عہدوپیمان قوم سے کیا تھا خود اس کو بھی ذہن میں تازہ کرلیں۔ یہ کوئی عام تقریر نہیں بلکہ سرحد کے مسلمانوں کے ساتھ ایک عہد (covenant)ہے جس کے مطابق انھوں نے خان عبدالغفار خان کے موقف کو رد کیا اور قائداعظم کے موقف پر اعتماد کرکے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا:
خان برادران نے اخبارات میں ایک اور زہریلا نعرہ بلند کیا ہے کہ مجلس دستور ساز پاکستان، شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی قوانین کو نظرانداز کردے گی۔ یہ بھی ایک بالکل نادرست بات ہے۔ ۱۳ سے زیادہ صدیاں بیت گئیں،اچھے اور بُرے موسموں کا سامنا کرنے کے باوجود، ہم مسلمان نہ صرف اپنی عظیم اور مقدس کتاب قرآن کریم پر فخر کرتے رہے، بلکہ ان تمام ادوار میں جملہ مبادیات کو حرزِ جاں بنائے رکھا… معلوم نہیں کہ خان برادران کو اچانک اسلام اور قرآنی قوانین کی علَم برداری کا دورہ کیسے پڑا ہے، اور انھیں اُس ہند مجلس دستور ساز پر اعتبار ہے کہ جس میں ہندوئوں کی ظالمانہ اکثریت ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ صوبہ سرحد کے مسلمان واضح طور پر یہ سمجھ لیں کہ وہ پہلے مسلمان ہیں اور بعد میں پٹھان۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، ج۴، ترجمہ اقبال احمد صدیقی، بزمِ اقبال، لاہور، ص ۳۴۶-۳۴۷)
دیکھیے بات بہت واضح ہے، پاکستان کے قیام کا مقصد قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی اور زندگی کے پورے نظام کو ان اصولوں اور ہدایات کے مطابق منظم اور مرتب کرنا تھا۔ اس لیے آج ایشو یہ ہے کہ کیا ناموسِ رسالتؐ کی حفاظت اور توہینِ رسالتؐ کے خلاف قانون قرآن و سنت کا حکم اور اقتضا ہے یا نہیں۔ اور اگر ہے تو پھر اس سلسلے میں کسی معذرت کی ضرورت نہیں۔ قانون کی تنسیخ اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف بغاوت ہوگی اور قانون میں ایسی ترمیم جس سے وہ محض ایک نمایشی چیز بن کر رہ جائے قرآن و سنت سے مذاق اور ذاتِ رسالت مآبؐ سے بے وفائی ہوگی۔ بلاشبہہ قانون کا نفاذ اس طرح ہونا چاہیے کہ کوئی شاتمِ رسولؐ اپنے جرم کی سزا سے بچ نہ سکے اور کوئی معصوم فرد ذاتی، گروہی ، معاشی مفادات کے تنازعے کی وجہ سے اس کی زد میں نہ آسکے۔ انصاف سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ضروری ہے اور وہ یہ کہ آپؐ کی ذاتِ مبارک کے بارے میں کسی کو بھی تضحیک اور توہین کی جرأت نہ ہو۔ پھر انصاف معاشرے کے ہر فرد کے ساتھ ضروری ہے خواہ وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم، مرد ہو یا عورت، امیر ہو یا غریب، تعلیم یافتہ ہو یا ناخواندہ کہ مجرم اور صرف مجرم قانون کے شکنجے میں آئے۔ نہ عام انسان قانون کو اپنے ہاتھ میں لیں اور نہ کسی کو قانون کی گرفت سے نکلوانے کے لیے سیاسی وڈیروں، دولت مند مفاد پرستوں، سیکولر دہشت گردوں یا بین الاقوامی شاطروں کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع مل سکے۔ اس سلسلے میں جن انتظامی اصلاحات یا انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جن تدابیر کی ضرورت ہے، ان کے بارے میں نہ ماضی میں کوئی مشکل حائل تھی اور نہ آج ہونی چاہیے۔ لیکن ترمیم کے نام سے قانون کو بے اثر کرنے اور امریکا و یورپ اور عالمی سیکولر اور سامراج کے کارندوں کو کھل کھیلنے کا موقع دینا ہمارے ایمان، آزادی، عزت اور حمیت کے خلاف ہے اور اس کی یہ قوم کبھی اور کسی کو بھی اجازت نہیں دے گی۔ اس لیے کہ ؎
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
(کتابچہ تقسیم عام کے لیے دستیاب ہے، -/۹ روپے۔ سیکڑے پر خصوصی رعایت۔ منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۲۰ تا ۲۲؍اکتوبر ۲۰۱۰ء واشنگٹن میں پاکستان اور امریکا کے درمیان ’اسٹرے ٹیجک مذاکرات‘ کے نام سے جاری بات چیت کا تیسرا دور منعقد ہوا، جس میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے انجام دی ہے۔ ۱۳ وزارتوں کے نمایندوں (بشمول پانچ وزرا) نے ان مذاکرات میں شرکت کی ہے لیکن پاکستان کی جانب سے کلیدی کردار بری افواج کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی ہی نے ادا کیا ہے۔
جنرل صاحب حسب معمول خاموش ہیں، لیکن پاکستانی وزیرخارجہ اور وزیر اطلاعات پھولے نہیں سما رہے اوریہ دعویٰ تک کر رہے ہیں کہ: ’’ہمیشہ امریکا ہمیں سناتا اور مطالبات کرتا تھا، لیکن اب وہ ہماری بھی سن رہا ہے اور ہم نے ’برابری کی بنیاد‘ پر بات چیت کی ہے‘‘۔ ایک وزیرصاحب نے ارشاد فرمایا: ’’امریکا ہمیں کمزور نہیں دیکھنا چاہتا‘‘۔ ایک اور شریکِ سفر وزیر کا فرمانا ہے: ’’امریکا ملک کے شمال مغربی علاقے میں دو چھوٹے ڈیم بنانے کے مصارف برداشت کرے گا‘‘، اور سب ہی آواز میں آواز ملا کر کہہ رہے ہیں: ’’ان مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو نئی زندگی اور تقویت میسر آئی ہے‘‘۔
ملک کے کم و بیش تمام اخبارات نے اپنے ادارتی تبصروں میں، حزبِ اختلاف کے تمام قائدین نے بیانات کے ذریعے، اور ٹی وی کے معروف ٹیلی میزبانوں میں سے بیش تر نے اپنے تجزیاتی پروگراموں میں ان دعووں کو بڑی حد تک ہوائی باتیں اور حقیقت سے عاری اور خوش فہمی پر مبنی خام خیالیاں قرار دیا ہے۔ امریکا سے پاکستان کے خارجہ تعلقات کی تقریباً ۶۰برسوں پر پھیلی ہوئی تاریخ کی روشنی میں اس دعوے کو تسلیم کرنے کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے کہ پاک امریکی تعلقات محض وقتی اور مالیاتی لین دین کے مرحلے (transanctional framework) سے نکل کر اب زیادہ اصولی، دیرپا اور بنیادی نوعیت کے تعاون میں داخل ہوگئے ہیں، جسے بین الاقوامی تعلقات کی اصطلاح میں برابری کے اسٹرے ٹیجک تعلقات کہا جاتا ہے۔ زبانی کلامی ایسے دعووں کا آغاز بش کے آخری دور میں ہوگیا تھا، مگر اس کو ایک متعین شکل اب صدر اوباما کے دور میں دی جارہی ہے اور عملاً اس کا آغاز فروری ۲۰۱۰ء سے ہوا ہے۔ حالیہ مذاکرات اس سلسلے کی تیسری کڑی ہیں اور چوتھا رائونڈ ۲۰۱۱ء کے آغاز میں متوقع ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ زیادہ گہرائی میں جاکر پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی اصل حقیقت کو متعین کریں، تاکہ قوم، پارلیمنٹ، میڈیا اور اگر اللہ توفیق دے تو موجودہ قیادت حالات کا صحیح صحیح ادراک کرسکے اور اس کی روشنی میں سیاسی، عسکری، معاشی اور تہذیبی حکمت عملی کی صورت گری کرے۔
ویسے تو خارجہ تعلقات کا ایک مسلّمہ اصول یہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں نہ دوست مستقل ہوتے ہیں اور نہ دشمن، مستقل اور دائمی اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف مفادات ہیں۔ اس لیے ایک ملک کی خارجہ پالیسی انھی مفادات کے گرد گردش کرتی ہے۔ البتہ ان مفادات کے تعین میں متعلقہ ملک کے عالمی اور علاقائی مقاصد اور اہداف، اس کے سیاسی اور معاشی عزائم اور اس کی معاشی، عسکری اور سیاسی قوت پر مشتمل عناصر کارفرما ہوتے ہیں۔ ہمہ وقت بنتے اور بدلتے تعلقات پر جہاں وقتی عناصر اور تقاضے اثرانداز ہوتے ہیں، وہیں کچھ دیرپا تعلقات اور روابط بھی ہیں جو لنگر کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں، اور ان کا انحصار بھی مقاصد کی ہم آہنگی، اقدار میں اشتراک اور مفادات کی یکسانی پر ہوا ہے اور انھی کی بنیاد پر ایک تعمیری یا افادی انداز میں تزویراتی (strategic) شراکت وجود میں آتی ہے۔
نظری طور پر ایسی حکمت عملی کے تصور کا شجرہ نسب یونان کے مفکرین سے جا ملتا ہے۔ یونانی زبان میں اس کا اصل مفہوم generalship ہے، جس کے معنی جنگ میں اعلیٰ ترین سطح پر مقاصد اور حکمت عملی مرتب کرنے کا نظام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹرے ٹیجی [حکمت کاری]کا تصور فلسفۂ جنگ کا ایک کلیدی تصور رہا ہے اور وہیں سے یہ علمِ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں داخل ہوا اور پھر تزویراتی ہیکل یا strategic structure خود ایک مستقل مضمون بن گیا۔ دورِ حاضر میں جنگ اور اس کی صورت گری کرنے والے داخلی اور خارجی عوامل، اور خود جنگ کی حکمت عملی اور اس حکمت عملی کو عمل کا روپ دینے اور معاملات کا گہرائی کے ساتھ جس شخص نے مطالعے کا آغاز کیا ہے، وہ ایک جرمن فوجی کمانڈر اور استاد کارل وون کلازے ویٹز (۱۸۳۳ئ-۱۷۸۰ئ) ہے، جس کی کتاب On Warایک کلاسیک کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں اس نے اسٹرے ٹیجی اور چال (tactic) کے فرق کو نمایاں کیا ہے۔ تزویری حکمت عملی کا تعلق مقصد اور اصل جنگی اہداف سے ہے، جب کہ ٹیکٹک ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے ذرائع، اعمال اور تنفیذی اقدام سے متعلق ہیں۔ گذشتہ دو صدیوں میں ملٹری سائنس، علمِ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات میں اپنے اپنے انداز میں ان تصورات کو مزید نکھارا گیا اور اسٹرے ٹیجی میں بھی ’عظیم تر اسٹرے ٹیجی‘ اور ’عملی اسٹرے ٹیجی‘ کی درجہ بندی کی گئی۔ پھر جنگ، سرد جنگ، توازن، قوت وغیرہ کے پس منظر میں ان تصورات کو مزید ترقی دی گئی۔۱؎
خارجہ سیاست کے ان مباحث کی روشنی میں اگر دیکھا جائے، تو ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے امریکا کے اسٹرے ٹیجک تعلقات صرف تین ممالک سے ہیں، یعنی برطانیہ، جو اب ایک صدی پر محیط ہیں، اور اسرائیل اور ناٹو ممالک جو تقریباً ۶۰ سال کے نشیب و فراز دیکھ چکے ہیں۔ دنیا کے باقی ممالک سے اس کے تعلقات محض کاروباری معاملہ فہمی کی حد تک رہے ہیں اور مفادات کی دھوپ چھائوں کے مطابق اس میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں، جس کی زیادہ تر حیثیت آنکھ مچولی کی رہی ہے۔ کلنٹن کی صدارت کے دور میں بھارت سے امریکا کے تعلقات کو کاروباری سطح سے بلند کرکے اسے اسٹرے ٹیجک تعلقات کی طرف لے جانے کا آغاز ہوا۔ گذشتہ ۱۰، ۱۵ برسوں میں آہستہ آہستہ معاشی، عسکری اور سیاسی میدانوں میں اس سمت میں پیش رفت ہوئی، جسے بالآخر صدبش کے دور میں ۲۰۰۶ء میں نیوکلیر تعاون کے معاہدے کے ذریعے اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کی شکل دے دی گئی۔ امریکا میں بھارتی کمیونٹی نے بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ صدراوباما کی حکومت کے ایک درجن سے زیادہ کلیدی مناصب پر بھارتی نژاد امریکی رونق افروز ہیں۔ بھارت اور امریکا کی تجارت کا حجم اس وقت ۶۱ ارب ڈالر سالانہ ہے۔ پھر بھارت اور امریکا کی براہِ راست سرمایہ کاری ۱۶ ارب ڈالر سالانہ سے متجاوز ہے۔ امریکا سے کمپیوٹر ٹکنالوجی کی ہر پانچ کمپنیوں میں سے دو بھارت میں اپنا کام پھیلا چکی ہیں اور دفاعی میدان میں اسلحے کی خریداری، بھارتی مسلح افواج کی جنگی تربیت اور مشترکہ شعبوں میں تعاون کے لیے حیرت انگیز حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت نے اگلے پانچ سال کے لیے جس ۱۰۰ ملین ڈالر کی جنگی خریداریوں کا منصوبہ بنایا ہے، اس کا بڑا حصہ امریکا اور اسرائیل سے حاصل کیا جانا ہے۔ بھارت اور امریکا کا نیوکلیر تعاون کوئی حادثاتی یا وقتی تعاون کا معاہدہ نہیں ہے، بلکہ ہموار تعلقات کا ایک حصہ ہے، جس میں بھارت کو چین کے مقابلے ایک علاقائی سوپر پاور سے بڑھ کر ایک عالمی جنگی کھلاڑی کے کردار پر مامور کرنے کی مشترک حکمت عملی کا حصہ ہے۔ افغانستان میں بھی بھارت کے کردار کا معاملہ اسی ’عظیم تر حکمت عملی‘ کا ایک پہلو ہے۔
اس پس منظر میں پاکستانی قوم اور قیادت دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ حقیقت پسندی کے ساتھ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے حال اور مستقبل کے امکانات کا صحیح صحیح ادراک کرے، اور محض خوش فہمیوں، سر ٹکرانے کی مشقوں اور خوش نما مگر بے معنی الفاظ کے طلسم کا شکار ہوکر، اسٹرے ٹیجک مغالطوں اور دھوکوں کی دلدل سے ملک و قوم کو محفوظ رکھے۔ حال اور مستقبل کا کوئی مبنی برحقیقت نقشہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں عالمی اور علاقائی حالات کو سمجھے بغیر بنانا ممکن نہیں ہے۔
پاکستان نے اپنے قیام کے فوراً بعد امریکا کے جمہوری دعووں اور سامراج کی گرفت سے آزاد ہونے والے ممالک کی تحریکاتِ آزادی کے بارے میں امریکی قیادت اور دانش وروں کے اعلانات کی روشنی میں معاشی تعاون اور سیاسی دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ خود قائداعظم نے میرلائق علی کے ذریعے امریکی صدر کو خصوصی پیغام بھیجا، لیکن اس کا کوئی بامعنی ردعمل رونما نہ ہوا۔ پھر جب خان لیاقت علی خاں کو اشتراکی روس کے دورے کی دعوت ملی تو امریکا نے نہ صرف ان کو دورے کی دعوت دے دی، بلکہ اس کے لیے سیاسی چال بازی سے بھی کام لیاجس کے نتیجے میں روس کا دورہ منسوخ اور امریکا کا دورہ کرنا منظور ہوا۔ اس دورے کے نتیجے میں عملاً کچھ حاصل کیے بغیر ہم اپنے اڑوس پڑوس میں روس سے دُور اور ہزاروں کلومیٹر دُور امریکا کے کیمپ کی طرف سرکنے بلکہ لڑھکنے لگے۔ اس موقع پر امریکا نے ایک نئی چال چلی، جس کے بڑے دور رس اثرات پاکستان کی پوری تاریخ، اس کے بین الاقوامی تعلقات کے رُخ اور سب سے بڑھ کر ملک کی اندرونی سیاست اور قومی سلامتی کی نئی صورت گری اور پاکستانی مسلح افواج کے سیاسی کردار کی شکل میں مرتب ہوئے۔ بلاشبہہ اس میں پاکستانی افواج کی اس وقت کی قیادت کے اپنے عزائم کا بھی ایک اہم کردار ہے، لیکن یہ معاملہ یک طرفہ نہیں تھا۔ تالی کے دونوں ہی ہاتھ سرگرم تھے۔ گویا ’’دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی‘‘۔
پاکستان کے لیے امریکی فوجی امداد جنرل ایوب کی اقدامی کوشش سے ممکن ہوئی۔ یہ خیال ان کے دماغ میں آیا اور امریکا کے سیاسی اور فوجی قائدین سے ان کے مذاکرات کے نتیجے میں امریکی حکومت نے پاکستان کو باہمی دفاعی معاہدہ کرنے کی دعوت دی۔ (دیکھیے: My Chief، لیفٹیننٹ کرنل محمداحمد، ۱۹۶۰ئ، ص ۷۳-۷۴)
جنرل ایوب خان کی کوششوں سے پاکستان سیٹو (SEATO) اور سنٹو (CENTO) کے جال میں پھنسا۔ دوسرے فوجی ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ کے دورِ حکومت میں امریکا چین تعلق کا باب کھلا۔ تیسرے فوجی ڈکٹیٹر جنرل محمد ضیاء الحق کے زمانے میں فوجی اور معاشی تعاون نئی بلندیوں پر پہنچا۔ چوتھے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے امریکا کی’ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کو جھونک دیا، جس آگ میں افغانستان اور عراق کے ساتھ پاکستان بھی جل رہا ہے اور خصوصیت سے اس کے شمالی علاقے اور ان علاقوں میں بھی خصوصیت سے سوات، باجوڑ،شمالی اور جنوبی وزیرستان برستی آگ اور بہتے خون کی لپیٹ میں ہیں۔ اب ’اسٹرے ٹیجک تعلقات‘ کے عنوان سے اس آگ کو شمالی وزیرستان میں بھی بھڑکانے کے لیے ترغیب و ترہیب کا ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے اور ۲ارب ڈالر کے وعدۂ فردا پر مبنی فوجی امداد کا چکمہ بھی دیا گیا ہے۔
یہ تصویر کا ایک رُخ ہے، دوسرا اور اصل چہرہ یہ ہے کہ ہر دور میں پاکستان کو تو اپنے مقاصد کے لیے بے دریغ استعمال کیا گیا، لیکن جب بھی پاکستان پر کوئی کڑا وقت پڑا تو بے رُخی سے منہ دوسری طرف موڑ لیا گیا۔ جب ۱۹۶۵ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو اسی لمحے امریکا نے پاکستان کی فوجی اور اقتصادی امداد کو بند کر دیا حتیٰ کہ ان فاضل پرزوں سے بھی فوج کو محروم کر دیا گیا، جو ملک کی سیکورٹی کے لیے ضروری تھے۔ یہی ڈراما دسمبر ۱۹۷۱ء میں ہوا۔ پھر اپنی بدترین شکل میں افغانستان سے روسی فوجیوں کے انخلا کے معاً بعد نہ صرف افغانستان کو غیریقینی پن اور بدترین انتشار میں دھکیل دیا گیا اور پاکستان کو اس کے نتائج بھگتنے اور ۳۰لاکھ سے زائد مہاجرین کے بوجھ کو تن تنہا سنبھالنے کی آزمایش میں ڈال دیاگیا۔ یہی نہیں بلکہ چشم زدن میں امریکی صدر کو نیوکلیر پھیلائو میں پاکستان کا کردار بھی نظر آنے لگا اور اسے پوری بے دردی سے معاشی پابندیوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام امریکا کی دوستی کو محض مطلب براری کا ایک ڈھکوسلا سمجھتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم (۴۵-۱۹۳۹ئ) کے بعد سے دنیا کے تقریباً ہر اس ملک سے، جسے امریکا نے اپنی دوستی کے جال میں پھنسایا ہے، اپنا کام نکالنے کے بعد ٹشوپیپر کی طرح پھینک دیا ہے۔ اس کا مقصد محض اپنے ایجنڈے کی تکمیل رہا ہے، کسی نوعیت کی حقیقی دوستی اور شراکت نہیں۔ امریکا کا کردار مفاد پرستی کے ساتھ ساتھ دوغلے پن، رعونت اور دوسروں کی تحقیر و تذلیل کا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے پاکستان کے عوام نے ۱۹۶۵ء کے بعد کبھی بھی امریکا کو اپنا دوست تصور نہیں کیا، حتیٰ کہ اس زمانے میں بھی جب افغان جہاد کے سلسلے میں امریکا، پاکستان اور عالمِ اسلام میں خاصی قربت تھی۔ عراق ایران جنگ کے دوران میں تو امریکا مخالف لاوا بری طرح پھٹ پڑا۔ تمام اسلامی ایشوز کے سلسلے میں امریکا کی پالیسیوں اور اس کی اسرائیل نوازیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔
۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے قابلِ مذمت واقعے کو جس طرح امریکا نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور افغانستان، عراق، اور خود پاکستان کے علاقوں کو جنگ کا میدان بنا دیا، اس نے امریکا مخالف کے جذبات کو تقویت دی، اور ان مسلمان حکمرانوں کو بھی نفرت کا ہدف بنادیا، جو امریکا کا ساتھ اپنے عوام کے جذبات اور احساسات کے برعکس دے رہے تھے۔ ۲۰۰۲ء سے آج تک جتنے بھی سروے پاکستان، عالمِ اسلام اور تیسری دنیا میں ہوئے ہیں، ان میں آبادی کی عظیم اکثریت نے مسلمان ممالک بشمول پاکستان ۷۰ سے ۸۰ فی صد آبادی نے امریکا کی پالیسیوں، اس کے جارحانہ اقدامات، اور اس کے دوغلے پن پر شدید نفرت اور غصے کا اظہار کیا ہے۔ گیلپ کے سروے ہوں، یا پیوگلوبل کے، یا خود امریکی اداروں کے۱؎، ان سب کا حاصل امریکا کے خلاف شدید بے زاری، اس کے سامراجی ایجنڈے کی مخالفت رہا ہے۔ مسلمان ممالک میں اس کی فوجی کارروائیوں کی شدید مذمت، امریکا اور اس کی ان پالیسیوں اور اقدام کو اپنی آزادی، سلامتی اور نظریاتی اور تہذیبی شناخت کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھنا ہے۔ امریکا نے جو بھی کوشش مسلمانوں کے دل و دماغ میں کوئی خوش گوار تصور قائم کرنے کے لیے کی، وہ بُری طرح ناکام رہی ہے۔ مسلمان عوام کا عزم اور ارادہ بالکل واضح ہے، یعنی امریکا کی گرفت سے آزادی۔ جہاں بھی وہ فوج کشی کر رہا ہے، اس کے خاتمے اور اپنے معاملات کو خود اپنے نظریات، تصورات اور خود اپنے مفادات کی روشنی میں منظم اور مرتب کرنے کے عزم اور امریکا کی گرفت سے نجات کی کوشش ایک عملی جذبے کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔
عوام کی سوچ ، اور حکمرانوں کی سوچ اور پالیسیوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس کا اندازہ اس سروے سے کیا جاسکتا ہے، جو خالص امریکی ادارے ’نیوامریکن فاونڈیشن‘ نے سوات، باجوڑ اور فاٹا کے دوسرے علاقوں میں ابھی ۲۰۱۰ء کے وسط میں کیا ہے اور جس سے خود ان کے دانش ور انگشت بدنداں ہیں۔ یہ سروے صرف اس علاقے کے لوگوں کی آرا پر مبنی ہے، جہاں اس وقت دہشت گردی اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا محاذ گرم ہے۔ جہاں پاکستانی فوج اور امریکی ڈرون حملے بظاہر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سرگرم ہیں، اور اس طرح مقامی آبادی کو دہشت گردوں سے بچانے کی خدمت انجام دے رہے ہیں، لیکن آگ اور خون کی اس ہولی کے ستم زدہ عوام کا ۷۵ فی صد امریکا کے ڈرون حملوں کا مخالف ہے۔ سروے میں جواب دینے والوں میں سے ۴۸ فی صد کی راے میں ان حملوں سے صرف معصوم انسان لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔ ۳۳فی صد کا دعویٰ ہے کہ سویلین اور دہشت گرد دونوں ان کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس سروے کا سب سے زیادہ چشم کشا حصہ وہ ہے، جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ وہ لوگ جو دہشت گردوں کے خلاف ہیں، ان میں سے بھی ۱۰ میں سے ۶، یعنی ۶۰ فی صد یہ کہتے ہیں کہ: ’’امریکی افواج کے خلاف خودکش حملے اپنا جواز رکھتے ہیں‘‘۔ اور ستم بالاے ستم یہ کہ ۱۰ فی صد کی نگاہ میں پاکستانی فوج جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہے، اسے بھی نشانہ بنایا جانا درست ہے۔ (ڈیلی ٹائمز، اسلام آباد، ۸؍اکتوبر ۲۰۱۰ئ، دی نیشن، لاہور، ۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۰ئ)
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس ملک کی آبادی کا ۸۰ فی صد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ اور اس میں پاکستان کی حکومت اور فوج کی شرکت کے خلاف ہو اور فاٹا کا وہ علاقہ جسے دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے امریکی فوج ڈرون حملے کر رہی ہو، وہاں کی آبادی بھی ۷۵فی صد، ڈرون حملوں کے خلاف ہو، وہاں کے ۶۰ فی صد لوگ امریکی فوج کے خلاف خودکش حملوں تک کو صحیح سمجھتے ہوں اور جس ملک کی پارلیمنٹ نے اپنے مشترک اجلاس میں مکمل یکسوئی کے ساتھ متفقہ طور پر خارجہ پالیسی کو آزاد بنانے، ملک کی حاکمیت پر حملوں کا جواب دینے، اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی پالیسی پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کیا ہو، اس کی حکومت اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کے نام پر امریکی پالیسیوں کو جاری رکھنے اور امریکا کے لیے اپنے لوگوں کو مارنے اور اپنے ہی علاقوں میں بم باری کرنے کی خدمات کا صلہ وصول کرنے کا راستہ اختیار کرتی ہے، تو کیا اسے قوم کے عزائم اور خواہشات کے مطابق کہا جائے گا یا ان کی مکمل نفی سمجھا جائے گا؟
حکومت کی پالیسیوں اور عوام کی خواہشات میں جتنی وسیع خلیج حائل ہے، اور خود ملک میں پائے جانے والے ایک نہیں کئی کئی حوالوں سے اعتماد کا بحران ہے۔ ایک پالیسی کے واضح تفاوت (policy deficit) کی غمازی کرتا ہے۔ یہ عمل اپنی اصل کے اعتبار سے بالآخر خود جمہوریت کے فقدان (democracy deficit) کی شکل اختیار کرتا ہے۔ جمہوریت نام ہے عوام کی مرضی کے مطابق حکمرانی کا۔ جمہوریت، حکمرانوں اور ان کے بیرونی آقائوں کی خواہشات مسلط کرنے کا نام نہیں اور یہی وجہ ہے کہ امریکی پالیسیوں کو خواہ کچھ بھی نام دیا جائے اور ان کو قابلِ قبول بنانے کے لیے کتنی ہی شکرآمیز(sugar coated) امداد کا اضافہ کردیا جائے، قوم انھیں قبول تو کیا، برداشت بھی نہیں کرے گی۔ نتیجہ یہ کہ حکومت، فوج اور عوام میں دُوری اور مغائرت بڑھتی جائے گی جس کے نتیجے میں امریکا کے خلاف نفرت اور غصے میں اور بھی اضافہ ہوگا۔ کش مکش اور تصادم کی کیفیت روز افزوں ہوگی اور معاشرہ امن و چین سے محروم رہے گا۔
اس تصویر کا ایک اور رُخ بھی ہے جو پریشان کن ہے اور وہ خود امریکا کے حکمرانوں، پالیسی سازوں، میڈیا اور بالآخر عوام میں پاکستان کے امیج اور تصور سے متعلق ہے۔ اسٹرے ٹیجک تعلقات تو تاریخی بات ہیں، عام تعلقات کا انحصار بھی اعتمادِ باہمی، اور ایک دوسرے کے بارے میں منافقت پر مبنی نہیں۔ خلوص اور شفاف انداز میں اچھے جذبات اور قابلِ بھروسا توقعات پر ہونا چاہیے۔ اگر دل کی گہرائیوں سے ایک دوسرے پر بھروسا نہ ہو، صداقت کے بجاے کذب، دھوکا اور گندم نما جو فروشی کا خدشہ بلکہ یقین ہو اور ہر قدم پر دوغلی پالیسی پر عمل دکھائی دے رہا ہو تو اس فضا میں دوستی اور تعاون مغالطے اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان کے عوام اور اغلباً اس کی فوج اور وہ حکمران جو عملاً امریکا سے معاملات کرتے رہے ہیں اور باربار کے ڈسے ہوئے ہیں، امریکا کے ناقابلِ اعتماد ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ عوام سے کیے گئے تمام ہی اہم راے عامہ کے جائزوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستانی عوام امریکا کی دوستی کو اثاثہ نہیں ایک بوجھ، مصیبت اور خطرہ سمجھتے ہیں۔ ایک غیرملکی ادارے ورلڈ پبلک اوپنین آرگنائزیشن (WPOO) کے جنوری ۲۰۰۸ء کے ایک سروے کے مطابق: ’’صرف ۶ فی صد عوام یہ سمجھتے ہیں کہ پاک امریکا دوستی سے پاکستان کو فائدہ پہنچا ہے۔ اس کے مقابلے میں ۴۴ فی صد کا کہنا ہے کہ یہ تمام پالیسیاں صرف امریکا کے مفاد میں تھیں اور ۲۹ فی صد نے کھل کر کہا ہے: ’’امریکا نے پاکستانی مفادات کو نقصان پہنچایا ہے‘‘۔
بحیثیت مجموعی ۷۲ فی صد پاکستانی عوام اس راے کے حامل ہیں کہ ایشیا میں امریکی افواج کی موجودگی پاکستان کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے، جب کہ مزید: ’’۱۲ فی صد کا خیال ہے بڑا تو نہیں، لیکن خطرہ ضرور ہے۔ گویا ۸۴ فی صد اس علاقے میں امریکا اور روس کی افواج کی موجودگی کو کسی نہ کسی شکل میں خطرہ سمجھتی ہے۔ کیا اس احساس کے باوجود پاکستان اور امریکا میں کسی حقیقی اسٹرے ٹیجک تعاون کا امکان ہے؟
یہ تو پاکستانی عوام کے جذبات اور خدشات ہیں، لیکن خود امریکا کے کارفرمائوں کا پاکستان، اس کی قیادت، اس کی افواج کے ذمہ داران اور ان کی پالیسیوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس کا اندازہ ہر وہ شخص کرسکتا ہے، جو امریکی سول اور فوجی قیادت کے بیانات اور میڈیا کی گل افشانیوں پر کچھ بھی نظر رکھتا ہے۔ اس چیز کے عملی تجربے سے ہر وہ شخص گزرتا ہے، جو پاکستانی پاسپورٹ پر امریکا کے سفر کی اذیت سے گزرتا ہے۔ واشنگٹن کے حالیہ مذاکرات کی روداد نگاری کے لیے جو صحافی پاکستانی وفد کے ساتھ گئے تھے، وہ اس کے چشم دید گواہ ہیں۔ جسے کچھ شک ہو وہ جاوید چودھری کا کالم ۲۱؍اکتوبر کے ایکسپریس ٹربیون میں پڑھ لے۔ راقم الحروف نے تو اپریل ۲۰۰۴ء میں ایرپورٹ کے عملے کے ہتک آمیز رویے کے وقت ہی کہہ دیا تھا کہ اس کے بعد امریکا سفر نہیں کرے گا۔ یہ ذاتی تجربات بھی قوموں کے تعلقات کی صورت گری کو متاثر کرتے ہیں، لیکن ہم یہاں پاکستانی قوم اور اس کی قیادت کی توجہ باب ووڈ ورڈ (Bob Woodward) کی حالیہ کتاب Obma's Wars: The Inside Storyکی طرف مبذول کرائیں گے، جو اوباما اور ان کی پالیسی ساز ٹیم کے ذہن کی عکاس ہے، اور جسے بھی امریکا سے معاملہ کرنا ہو، اس کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ازبس ضروری ہے۔
باب ووڈورڈ، امریکا کا ایک چوٹی کا صحافی اور نہایت وسیع تعلقات رکھنے والا سیاسی تجزیہ نگاراور مصنف ہے۔ اس کی کتاب Bush's Warsصدر بش کے دورِ حکومت میں شائع ہوئی، اور بش کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ اس کے حقیقی مقاصد، پالیسی ساز افراد کی سوچ، اور اس کی روشنی میں بننے والی آخری حکمت عملی پر ایک مستند دستاویز سمجھی جاتی ہے۔ اب امریکی صدر اوباما کی حکمرانی کے دو سال پورے ہونے سے قبل Obama's Wars کی شکل میں اوباما کے دور میں خارجہ پالیسی اور خصوصیت سے جنگی حکمت عملی میں جوتبدیلیاں آئی ہیں، ان کا احوال اس کتاب میں مذکور ہے۔ ان دونوں کتابوں کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں امریکی صدور اور ان کے چوٹی کے مشیروں اور پالیسی ساز افراد کی سوچ اور پالیسی سازی کے پیچھے جو مشورہ، فکر، بحث و مباحثہ ہوا ہے، اس کا ایک معتبر مرقع ہے۔ یہ امریکی جمہوریت کا ایک مثبت پہلو ہے کہ اس میں پالیسی سازی کے بارے میں ایسی معلومات قوم کے سامنے لائی جا سکتی ہیں، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے علم کی حد تک ان دونوں کتابوں میں جو باتیں کہی گئی ہیں اور امریکی صدر، پالیسی ساز افراد اور دنیا کے دوسرے لیڈروں سے جو باتیں منسوب کی گئی ہیں، ان کی تردید نہیں آئی۔ اس لیے اس کتاب کے مندرجات کو معتبر ماننے میں کوئی چیز مانع نہیں۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ امریکا کا صدر اور پالیسی ساز اپنے ملک کے مفادات کے مطابق پالیسی سازی کے لیے کتنے بحث ونظر کے بعد پالیسیاں بناتے ہیں، جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ جس کا جی چاہتا ہے چلتے پھرتے نہایت بنیادی پالیسی بیان داغ دیتا ہے، اور تمام بنیادی مشاورتی اداروں کو نظرانداز کرکے پالیسیوں کا اعلان کر دیتا ہے۔ جنرل مشرف تو ڈکٹیٹر تھا، جو خواہ معاملہ نائن الیون کے بعد کی پالیسی کا ہو اور خواہ کشمیر کے حل کی تلاش میں اقوامِ متحدہ کی قراردادوں تک کو نظرانداز کرنے کا، وہ اپنی من مرضی کی بنیاد پر قوم کی قسمت سے کھیلتا تھا۔ اب یہی حال زرداری صاحب، گیلانی صاحب اور حتیٰ کہ وزیرخارجہ صاحب کا بھی ہے کہ جو منہ میں آتا ہے، بے دریغ بیان فرما دیتے ہیں اور کوئی احتساب نہیں ہوتا۔ اس کی تازہ ترین مثال وزیرخارجہ کا وہ ناقابلِ فہم بیان ہے، جو انھوں نے ہاورڈ یونی ورسٹی میں ایران کے ایٹمی پروگرام اور اس کے سکیورٹی معاملات کے بارے میں ارشاد فرمایا۔ امریکا میں جو وقت اور صلاحیت، پالیسی سازی کے لیے صرف کی جاتی ہے، پھر تحقیق، بحث و مباحثہ اور افہام و تفہیم سے قومی امور کو طے کرنے کے لیے دماغ سوزی کی جاتی ہے، ہمارے یہاں وہ بدقسمتی سے سازشوں اور ذاتی مفادات کے حصول کی نذر ہوجاتی ہے۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے جو پالیسیاں بنتی ہیںعارضی نوعیت کی ہوتی ہیں اور قومی مفادات اور تاریخی تقاضوں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتیں۔
اوباما صاحب کے ایک مشیر بروس ریڈل (Bruce Ridel) جس کا افغانستان اور پاکستان کے بارے میں پالیسی بنانے میں کلیدی کردار ہے اور جو AFPAK (افغانستان، پاکستان) جیسی مکروہ اصطلاح کا خالق ہے، اس کا کہنا ہے کہ ’’امریکا کی سلامتی کے لیے پاکستان ایک خطرہ ہے‘‘۔ ملاحظہ ہو:
آج کی دنیا کا خطرناک ترین ملک [پاکستان ہے] جہاں اکیسویں صدی کے تمام خوف ناک امور___ دہشت گردی، حکومت کا عدمِ استحکام، کرپشن اور ایٹمی ہتھیار جمع ہیں۔ (باب ووڈ ورڈ، Obma's Wars: The Inside Story، ص ۸۹)
لیکن امریکا کوفوری خطرہ ان وار زونز سے نہیں ہے بلکہ پاکستان سے ہے جو ۱۷کروڑ آبادی کا ایک غیرمستحکم ملک ہے اور جس کی جنوبی افغانستان کے ساتھ ۱۵۰۰ میل کی سرحد ہے اور جس کے پاس تقریباً ۱۰۰ ایٹمی ہتھیار ہیں۔ (ایضاً، ص ۳)
ایک اور مشیر وائس ایڈمرل مائیکل میک کونیل کا ارشاد گرامی ہے: ’’پاکستان افغان جنگ میں امریکا کا بددیانت پارٹنر ہے۔ وہ [پاکستانی] جھوٹ بولتے ہیں‘‘(ایضاً، ص ۳)۔ ایک اور مشیر ڈینس بلیر نے لکھا ہے: ’’مختلف اسلامی گروپوں کو جڑ سے اُکھاڑنے میں حکومتِ پاکستان زیادہ مددگار نہیں رہی ہے‘‘۔(ایضاً، ص ۱۶۲)
ان بیانات کی روشنی میں ہمیں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ خیالات صرف مشیروں کے نہیں، خود صدرباراک اوباما ساری بحث سن کر جو واضح بات کہتے ہیں، وہ امریکی قیادت کے اصل ذہن اور ہدف کے بارے میں کوئی شبہہ باقی نہیں رہنے دیتی: ’’ہمیں لوگوں کو واضح طور پر یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ سرطان پاکستان میں ہے‘‘۔(ایضاً، ص ۳۰۲)
یہی وجہ ہے کہ نئی حکمت عملی کا عنوان AFPAK )(ایفپاک) رکھا گیا، بلکہ ایک موقع پر تو اسے PAKAF رکھا جانے کا مشورہ دیا گیا، مگر بطور مصلحت یا دھوکا دینے کے لیے افغانستان کو پہلے اور پاکستان کو بعد میں رکھا، البتہ مقصد بالکل واضح تھا___ افغانستان اور پاکستان دونوں اب ایک مشترکہ ہدف کے طور پر نشانے پر ہیں۔ بروس ریڈل کے الفاظ میں: ’’بڑی تبدیلی یہ ہے کہ امریکا، افغانستان اور پاکستان کے دو ممالک کا نہیں بلکہ ایک چیلنج: AFPAK کا سامنا کرے گا‘‘۔ (ایضاً، ص ۹۹)
امریکا کی ’عظیم تر حکمت عملی‘ کے اس منظرنامے میں، وہ کیا اقدام کر رہا ہے یا کرنا چاہتا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے ذہن میں یہ بات تازہ کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکا، پاکستان، اس کی سیاسی قیادت، عسکری قیادت، اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے بارے میں کئی مفروضوں پر اپنی سوچ اور اپنے اثرات مرتب کررہا ہے۔
امریکا کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں فیصلہ سازی کے عمل میں سول حکومت کے مقابلے میں فوجی قیادت کا کردار زیادہ اہم ہے، اس لیے اس کی توجہ کا اصل مرکز فوجی قیادت ہے: ’’بہت سے حوالوں سے پاکستانی فوج کو ملک کی قسمت اور سمت پر تاریخی طور پر کمزور سول قیادت کی بہ نسبت بہت زیادہ اختیار حاصل ہے‘‘۔ (جنرل کیانی، جو پاکستان کی فوج کے سربراہ ہیں، ان کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے، ص ۱۸۸)
۱۹۸۰ء کے وسط کے بعد سے میں آئی ایس آئی کے ہر سربراہ کو جانتا ہوں۔ کیانی کو یا تو اپنی تنظیم پر کنٹرول نہیں ہے یا وہ سچ نہیں بول رہا۔ امریکا کو یہ واضح بات دیکھنا چاہیے۔ اس نے کہا کہ پاکستانی جھوٹ بول رہے ہیں۔ اس نے مولن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: تم کیانی سے درجنوں بار ملے ہو، تم یہاں موجود لوگوں میں سب سے زیادہ اسے جانتے ہو۔ میرا تاثر ہے کہ وہ دوسرے زمرے میں آتا ہے، یعنی جھوٹا۔ مولن نے اختلاف نہیں کیا۔(ایضاً، ص ۱۰۱)
کرزئی نے اس یقین کا اظہار کیا کہ پاکستان کی آئی ایس آئی نے طالبان کو بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ کلنٹن نے پوچھا کہ کیا تم واقعی سمجھتے ہو کہ اگر آئی ایس آئی چاہے تو ملاعمر کو پکڑ سکتی ہے؟ کرزئی نے اپنے سامنے پلیٹ سے ایک چاکلیٹ بسکٹ اُٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ ملاعمر کو اس طرح پکڑ سکتے ہیں جس طرح میں نے یہ بسکٹ اُٹھایا ہے۔(ایضاً، ص ۳۵۵)
ایک طرف پاکستان کی بے وفائیوں اور کذب بیانیوں کی یہ افسانہ سازی ہے، تو دوسری طرف یہ بھی دیکھیں کہ عملاً جنرل پرویز مشرف اور صدر آصف زرداری کا ہاتھ مروڑ کر امریکا نے پاکستان میں اپنی عسکری اور سیاسی سیادت کس حد تک قائم کی ہوئی ہے اور پھر بھی ’ہل من مزید‘ یا ’کچھ اور کرو‘ کا مطالبہ ہے اور ساتھ ہی ساتھ دوغلے پن کا طعنہ اور بلیک میل بھی کیا جا رہا ہے۔
اوباما نے پوچھا: آپ پاکستان میں کتنا کر رہے ہیں؟ بائیڈن نے کہا: پوری دنیا میں ہونے والے امریکی حملوں کا ۸۰ فی صد یہاں ہوتے ہیں۔ آسمان کے ہم مالک ہیں، ڈرون پاکستان میں خفیہ بیس سے اُڑتے ہیں اور واپس آتے ہیں۔ القاعدہ قبائلی علاقے میں ایسے لوگوں کو تربیت دے رہی ہے جن کو اگر آپ ڈلس کی ویزا لینے والوں کی قطار میں دیکھیں گے تو ان کو خطرے کے طور پر نہیں پہچان پائیں گے۔(ایضاً، ص ۵۲)
صدر آصف زرداری کس طرح امریکی نائب صدر جوبائیڈن کے سامنے اپنی اسنادِ خدمت پیش کرتے ہیں، اس کی ایک جھلک بھی دیکھ لیں کہ پاکستان اور امریکا کے نام نہاد اسٹرے ٹیجک تعلقات کا ایک منظر یہ بھی ہے:
آپ کو میری مدد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ میں اپنے ملک میں کافی اثرورسوخ حاصل کروں۔ آپ کو معلوم ہے کہ ملک امریکا دشمنی سے بھرا ہوا ہے اور وہ ایک امریکی آلہ کار کی حیثیت سے مجھ سے نفرت کریں گے۔ آپ کو مجھے اقتصادی وسائل دینا ہوں گے تاکہ میں لوگوں کی حمایت حاصل کرسکوں کہ ان کے لیے بھی اس میں کچھ ہے۔ زرداری نے کہا: میں آئی ایس آئی کو ٹھیک کرنے میں مدد دینا چاہتا ہوں۔ ہمیں اس کھیل سے باہر نکلنا چاہیے۔(ایضاً، ص ۶۳-۶۴)
ڈرون حملے، جن کے بارے میں ڈھائی سال کے انکار کے بعد اب پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے فضائی نگرانی کے لیے اجازت دی تھی، لیکن اب بھی یہ اعتراف نہیں کیا کہ میزائل گرانے کی اجازت کس نے دی ہوئی ہے۔ دوسری طرف امریکی قیادت اس سلسلے میں کوئی پردہ نہیں رکھتی اور برملا کہتی ہے ہم سب کچھ پاکستان کی سرزمین سے کر رہے ہیں اور پاکستانی حکومت اور فوج کے تعاون سے کررہے ہیں۔ جنرل مائیکل ہیڈن کا بیان اُوپر آگیا ہے۔ اب خود صدر پاکستان کی شہادت بھی دیکھ لیں۔ باب ووڈورڈ صدر زرداری سے جنرل مائیکل ہیڈن کی ۱۲نومبر ۲۰۰۹ء نیویارک میں ملاقات کی کچھ جھلکیاں یوں دکھاتا ہے:
ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت پر پاکستانی میڈیا امریکا کو بُرا بھلا کہتا رہا ہے لیکن پاکستانی شہریوں کی اتفاقیہ ہلاکتیں کہانی کا صرف نصف حصہ ہیں۔
بہت سے مغرب کے افراد جن میں امریکی پاسپورٹ رکھنے والے بھی کچھ شامل ہیں، پانچ دن قبل شمالی وزیرستان کے قبائلی علاقے میں ’کیم شام ٹریننگ کیمپ‘میں ہلاک ہوئے تھے۔ پاکستانیوں کو سی آئی اے کا ایک نہایت خفیہ نقشہ دیا گیا تھا جس میں حملے کی تفصیل بتائی گئی تھی لیکن اس میں ہلاکتوں کے چونکا دینے والے اس واقعے کا ذکر نہ تھا۔ سی آئی اے تفصیلات بتانے کو تیار نہیں تھا۔
پاکستانی سفیر نے ہیڈن سے پوچھا کہ آپ ہدف کا انتخاب کیسے کرتے ہیں؟ ہیڈن نے جواب دیا: سی آئی اے بہت زیادہ احتیاط کرتی ہے۔ القاعدہ کے سات چوٹی کے لیڈر اس سال بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ ایک گھنٹے کی گفت و شنید کے بعد صدر پاکستان کی ہیڈن سے ون آن ون ملاقات ہوئی۔ زرداری ڈرون حملوں سے شہری ہلاکتوں کے بارے میں تنازعے کی بوجھل فضا کو صاف کرنا چاہ رہے تھے۔ زرداری نے کہا: سینیرز کو ہلاک کرو۔ ضمنی نقصانات امریکیوں کو پریشان کرتے ہیں، مجھے نہیں۔
اس کے بعد باب ووڈورڈ لکھتا ہے: ’’زرداری نے سی آئی اے کو اہم گرین سگنل دے دیا۔ ہیڈن نے حمایت کی تحسین کی، مگر اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس سے القاعدہ کو تباہ کرنے کا مقصد حاصل نہیں ہوگا‘‘۔(ایضاً، ص ۲۶)
صدر جارج بش کے دورِصدارت کے بارے میں باب ووڈورڈ لکھتا ہے: ’’بش نے ہدایت کی تھی کہ پاکستان کو ڈرون حملے کی اطلاع ساتھ ہی ملنا چاہیے، یعنی جب حملہ ہو رہا ہو تو انھیں اس کا علم ہو، یا یقینی بات کرنے کے لیے چند منٹ کے بعد‘‘۔(ایضاً، ص ۵)
باب ووڈورڈ، صدر بش کے دور میں امریکی ڈرون حملوں کے علاوہ باقاعدہ امریکی فوجی آپریشن کا بھی ذکر کرتا ہے، اور بش کا یہ فیصلہ بھی ریکارڈ کرتا ہے کہ: ’’امریکی ڈرون اب پاکستانی آسمانوں کے مالک ہیں۔ اب پاکستان کی حدود کے اندر مزید کوئی زمینی حملہ نہیں کیا جائے گا‘‘۔(ایضاً، ص ۸)
البتہ ایسے آپریشن کی تیاری اور اگر ضرورت محسوس ہو تو اسے کر گزرنے کی تیاریاں پوری طرح ہیں:
ایک اہم خفیہ راز جو میڈیا یا کہیں بھی رپورٹ نہیں ہوا ہے، افغانستان میں سی آئی اے کی ۳ہزار افراد پر مشتمل خفیہ فوج کی موجودگی ہے۔ دہشت گردی کا پیچھا کرنے والی یہ ٹیمیں (سی ٹی پی ٹی) بیش تر افغانوں پر مشتمل ہیں جو سی آئی اے کی راے میں فوج کا بہترین عنصر ہیں۔ ان ٹیموں کو سی آئی اے تنخواہ دیتی ہے، تربیت دیتی ہے، اور یہ سی آئی اے کے آلۂ کار ہیں اس کی اجازت بش نے دی تھی۔ یہ ٹیمیں طالبان باغیوں کو قتل کرنے یا پکڑنے کے لیے آپریشن کرتی تھیں اور قبائلی علاقوں میں بھی امن قائم کرنے یا حمایت حاصل کرنے کے لیے ان علاقوں کے اندر چلی جاتی تھیں۔(ایضاً، ص ۸)
اس کے ساتھ امریکا ایک طرف ڈرون حملوں کے دائرے کو وسیع کرنے کے مطالبات کررہا ہے اور دوسری طرف مختلف طریقوں سے پاکستان کی سرزمین پر فوجی آپریشن کے لیے مطالبات میں اپنی راہ کشادہ کر رہا ہے۔ یہ دھمکی اور تیاری بھی ساتھ ساتھ ہے کہ: ’’اگر امریکا میں کوئی بھی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تو پاکستان کی خیر نہیں اور اجازت تو کیا اطلاع کے بغیر امریکا اقدام کرگزرے گا، اور اس کے لیے ۱۵۰ مقامات کی نشان دہی کی جاچکی ہے‘‘۔
اس کتاب میں دو جگہ صاف صاف اس عندیے کا اظہار کیا گیا ہے اور فیصل شہزاد کے واقعے کے بعد خصوصی ایلچی کے ذریعے صدر زرداری صاحب کو صاف پیغام دے دیا گیا ہے اور اس کی تازہ ترین قسط وہ ہے، جو حالیہ واشنگٹن مذاکرات کے موقعے پر صدر اوباما سے ’اتفاقیہ‘ ملاقات میں پوری شانِ تحکم کے ساتھ ادا کی گئی___ یعنی: اگر کوئی واقعہ ہوتا ہے تو امریکی فوجوں کی براہِ راست مداخلت کا مزا چکھنے کے لیے تیار رہو:
اصل مسئلہ یہ تھا کہ کیا امریکی فوجی پاکستان کی سرزمین پر آپریشن کرسکتے ہیں؟ روایتی طور پر یہ ایک سرخ لکیر ہوتی تھی لیکن یہی مسئلے کی جڑ تھی جسے حل ہونا تھا۔ سلامتی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے انھیں مرکزثقل کی طرف جانا ہوگا اور یہ انھیں کرنا ہوگا۔(ایضاً، ص ۲۰۸)
پاکستان نے ڈورن پروازوں کی اجازت مخصوص علاقوں کے لیے دی تھی جن کو ’باکس‘ کہا جاتا ہے کیونکہ جنوب میں پاکستان کی زمینی فوج بہت بڑی تعداد میں موجود ہے، لہٰذا وہ اس علاقے میں ’باکس‘ کی اجازت نہیں دیں گے۔ پینیٹر نے کہا: اس ’باکس‘ کو حاصل کرنا ہماری ضرورت ہے۔ ہمیں اپنا آپریشن کرنے کے لیے اس کی ضرورت ہے۔
پینیٹرنے کہا: امریکا کو کچھ نہ کچھ زمینی افواج کی ضرورت ہے۔ ہم یہ کام زمین پر اپنے فوجیوں کے بغیر نہیں کرسکتے۔ یہ پاکستانی ہوسکتے ہیں یا ہمارے۔ بہرحال ہمیں زمین پر کچھ فوجی ضرور چاہییں۔ امریکا کی تیزی سے حملہ آور جے سی او سی یونٹس بہت زیادہ نظروں میں آتی ہیں۔ اس کا اصل متبادل خفیہ جنگ کی بہت بڑی توسیع ہے۔ اب اس کی ۳ہزار افواج پر مشتمل سی ٹی پی ٹی کے دستے سرحد پار کرکے پاکستان کے اندر آپریشن کر رہے ہیں۔(ایضاً، ص ۳۶۰-۳۶۱)
کیا اس سے بھی زیادہ کھلے لفظوں میں امریکا کے اصل اسٹرے ٹیجک اہداف کی کسی نشان دہی کی ضرورت ہے؟ کتاب کے آخری ابواب میں باب ووڈورڈ امریکا کے مخمصے کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اورعسکری قیادتیں اپنے اپنے انداز میں مایوس کن ہیں:
ان لوگوں کے ذریعے امریکا کچھ حاصل نہیں کر رہا۔ زرداری سے بات کرکے جس کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، یا کیانی سے جس کے پاس کچھ کرنے کے اختیارات ہیں لیکن اس نے کچھ زیادہ کرنے سے انکار کر دیا۔ کوئی اس کو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ آخری حد مایوس کن تھی۔(ایضاً، ص ۳۶۷)
یہ ہے وہ پس منظر جس میں پاکستان کے بارے میں امریکا کے اصل اسٹرے ٹیجک مقاصد اور اہداف کو سمجھا جاسکتا ہے۔ مسئلہ صرف امریکا کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے پاکستان کو دھونس، دبائو، دھمکی کی لاٹھی اور معاشی اور عسکری امداد کے لالچ کے ذریعے آمادہ کرنا ہے۔ اس کتاب میں اس اسٹرے ٹیجک مقصد اور پاکستان کی سیاسی قیادت کی آمادگی دونوں کو کتاب کے اوراق اور لفظوں کی روح میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اِلا یہ کہ کوئی آنکھیں رکھتے ہوئے بھی دیکھنے کی کوشش نہ کرے، ملاحظہ ہو: پالیسی کے جائزے کی ساری بحث کے بعد صدر اوباما نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ:
ہمیں وہاں سے شروع کرنا چاہیے جہاں ہمارے مفادات ہیں۔ اور یہ پاکستان ہے، افغانستان نہیں۔
ا- امریکی سرزمین ، اس کے حلیفوں اور بیرونِ ملک امریکی مفادات کا تحفظ۔
ب- پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں اور استحکام کے بارے میں تشویش
ج- بھارت پاکستان تعلقات (ایضاً، ص ۱۸۷)
واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں مسئلہ کشمیر، پانی کا مسئلہ یا پاکستان کے دوسرے مسائل و معاملات کا کوئی مقام نہیں، ضمنی طور پر بھی نہیں۔ اصل مسئلہ پاکستان کو یہ باور کرانا ہے کہ بھارت اس کے لیے کوئی خطرہ نہیں اور اسے اپنی خارجہ پالیسی میں سے ’بھارتی خطرے‘ کے لفظ کو کھرچنا ہوگا۔ پاکستان کی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ اوباما کے الفاظ میں: ’’ہمارے بنیادی مقاصد کے حصول کی کلید پاکستان کی سوچ کو بدلنا ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۸۷)
بروس رِڈل نے اس مقصد کو اور اس کے لیے امریکی پالیسی کو جو ہدف سامنے رکھنا چاہیے، اسے اور بھی زیادہ صاف اور واضح ترین الفاظ میں ادا کیا ہے: ’’خلاصے کے طور پر رڈل نے کہا کہ انھیں پاکستان کی اسٹرے ٹیجک سمت کو بدلنا ہوگا‘‘۔(ایضاً، ص ۱۰۸)
جس مقصد کے لیے امریکا نے اسٹرے ٹیجک مذاکرات کا جال پھیلایا ہے، وہ فی الحقیقت پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو کاروباری سطح سے بلند کرکے اسٹرے ٹیجک سطح پر لانا نہیں ہے، بلکہ امریکا کے مقاصد کے لیے پاکستان کے موقف میں اسٹرے ٹیجک تبدیلی لانا ہے، جس کا اظہار صدراوباما نے کچھ اس طرح کیا:
بعد میں صدر نے تصدیق کی کہ کسی بھی نئی اسٹرے ٹیجی کا مرکزی نکتہ پاکستان ہوگا۔ ہمیں پاکستان کی سول، فوجی اور اہلِ دانش قیادت سے سنجیدگی سے قریبی تعلقات رکھنے ہوں گے۔ (ایضاً، ص ۱۰۹)
فوجی قیادت کے تحفظات کا ذکر تو اُوپر آچکا ہے، لیکن صدر زرداری نے جس گرم جوشی سے امریکی ایجنڈے کو قبول کیا ہے، اس کا کچھ ذکر تو اُوپر آیا ہے، لیکن قوم کے لیے ضروری ہے کہ اسے معلوم ہو کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن صدرمملکت اور اس ذوالفقار علی بھٹو کے داماد جس نے پاکستان کے حقوق کے لیے ہزار سال تک بھارت سے جنگ کا عندیہ دیا تھا، امریکا کی قیادت کے سامنے اپنے کس عزم کا اظہار کیا:
آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ میرے ملک میں اچھا خاصا آگے بڑھنے کے لیے میری مدد کریں۔ آپ کو مجھے اقتصادی وسائل دینے ہوں گے تاکہ میں عوام کو جیت سکوں۔ میں آئی ایس آئی کو ٹھیک کرنے میں مدد کروں گا۔(ایضاً، ص ۶۳-۶۴)
ہم بھارت کے بارے میں آپ کی تشویش پر آپ کو الزام نہیں دیتے۔ مجھے معلوم ہے کہ بہت سے پاکستانیوں کو تشویش ہے لیکن ہم بھارت کے خلاف آپ کو مسلح کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہتے۔ اس بارے میں میرا موقف بالکل واضح ہے۔
زرداری نے کہا: ہم اپنا ورلڈ ویو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر یہ راتوں رات نہیں ہوسکتا۔(ایضاً، ص ۱۱۵)
پاکستان میں امریکا کی سفیر اینی پیٹرسن نے آصف زرداری کے بارے میں گواہی دی ہے کہ:
زرداری، حکومت کرنے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ وہ مسٹر بے نظیر بھٹو ہونے سے کبھی باہر نہیں نکلے گا لیکن وہ بنیادی طور پر ہمارا طرف دار ہے۔(ایضاً، ص ۱۳۶)
اس نے اپنے لبرل اقدام پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا: بھارتی فلموں کی پہلی دفعہ اجازت میں نے دی ہے۔(ایضاً، ص ۱۳۷)
یہ مکالمات امریکی سفیرصاحبہ اور جنرل جونز کے درمیان ہیں، جو موصوف سے اسلام آباد کے دورے کے دوران میں ہوئے۔ واشنگٹن میں پینٹاگون کے ہال اے میں پاکستانی سفیر حسین حقانی صاحب، رابرٹ گیٹس کو مطلع کرتے ہیں کہ:
اگلے چند ہفتوں میں پاکستانی فوج وزیرستان میں داخل ہوجائے گی۔ اس اقدام کے لیے زرداری نے کوشش کی۔ کیونکہ امریکا کا حامی ہونے کی وجہ سے اس کی حمایت ختم ہورہی تھی۔ زرداری نے خیال کیا کہ وہ طالبان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرکے حمایت حاصل کرسکتا ہے۔
یہ ہے اصل حقیقت، اس فوجی آپریشن کی جس کے بارے میں قوم سے کہا جاتا ہے کہ: ’’فیصلہ ہم کرتے ہیں‘‘۔
جن مذاکرات اور تعلقات کو اسٹرے ٹیجک کا نام دیا جا رہا ہے، وہ بالکل اسی نوعیت کے تعلقات ہیں جن کا تجربہ گذشتہ ۶۰برس سے پاکستان کر رہا ہے۔ یہ بات کہ مذاکرات اسٹرے ٹیجک ہیں اور عملاً تیسرا گروپ بنا کر ہر نوعیت کے امور پر بات چیت ہورہی ہے جس کا حاصل صرف یہ ہے کہ ڈیڑھ سو صحافیوں اور وزارتِ اطلاعات کے ۸۰ افراد کو ذہنی غسل (brain washing) کے لیے ان کو ایک ایک ماہ کے لیے امریکا کے مطالعاتی دورے پر بھیجا جائے گا اور شمالی علاقہ جات میں دو چھوٹے ڈیم میں امریکا سرمایہ کاری کرے گا۔ کیا اسٹرے ٹیجک مذاکرات کے یہ موضوع ہوتے ہیں؟
امریکا کے اسٹرے ٹیجک مقاصد اور اہداف بالکل واضح ہیں۔ اس کا اصل مقصد اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ امریکا، پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا جو ٹرائی اینگل اسلوب ۱۹۵۰ء کی دہائی سے قائم تھا، اسے بش کے دور میں درہم برہم کردیا گیا اور اسے پاکستان اور بھارت کے امریکا تعلقات کے ربط ختم کرنے (de-hyphenization) کا عنوان دیا گیا حالانکہ اصل مقصد بھارت سے اسٹرے ٹیجک شراکت کا قیام تھا جسے ۲۰۰۶ء میں ایک واضح شکل دے دی گئی ہے اور پاکستان کے تمام خدشات و تحفظات کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ اوباماصاحب کو نومبر ۲۰۱۰ء میں ہونے والا چار ممالک کا دورہ جس میں بھارت سرفہرست ہے امریکی حکمت عملی کا علامتی اظہار ہے، اس راستے میں پاکستان کہیں بھی نہیں ہے البتہ اشک شوئی کے لیے کہا جارہا ہے کہ ۲۰۱۱ء میں پاکستان کا دورہ کیا جائے گا مگر امریکا نے اپنی ترجیحات واضح کر دی ہیں:
اگر پاکستان اور امریکا کے تعلقات کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو ان دونوں ممالک کے باب میں یہ پانچوں چیزیں مفقود ہیں۔
امریکا کا مقصد اپنے عالمی غلبے کو باقی رکھنا اور کم از کم اکیسویں صدی کے اوّلین نصف میں اپنی عالمی بالادستی کا تحفظ اور ہر متبادل قوت کو اپنے گھیرے میں لینا ہے۔ اس وجہ سے وہ دنیا کے ۱۴۸ممالک میں اپنی فوجیں رکھے ہوئے ہے اور سیاسی اور معاشی معاہدات کے ذریعے اپنی گرفت کو مستحکم رکھنا چاہتا ہے۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر یہ سارا منظرنامہ اس کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے سے جو خلا پیدا ہوگیا تھا، اسے اس نئی جنگ اور اس کی بنیاد پر کون کس کے ساتھ ہے؟ کے فلسفے کی روشنی میں عالمی سیاست کا دروبست قائم کیا گیا ہے۔ اس میں ناٹو کے لیے ایک نیا کردار تراشا جارہا ہے۔ اسرائیل، شرق اوسط کا اہم ترین کھلاڑی ہے۔ ایشیا کو اپنی گرفت میں رکھنے اور چین کے گرد گھیرا مضبوط کرنے کے لیے امریکا اور بھارت کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ وجود میں آئی ہے۔
ان امریکی مقاصد میں سے کوئی بھی ہدف پاکستان کے مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ ایسی عالمی بساط پر ہم کوئی کھلاڑی نہیں۔ چین سے ہمارا تعلق حقیقی اسٹرے ٹیجک نوعیت کا ہے، جب کہ ہمارے سارے تنازعات کا تعلق بھارت سے ہے۔ افغانستان اور ایران سے متعلق ہماری سرحدات تاریخی اعتبار سے محفوظ ترین تھیں اورسارے خطرات صرف بھارت کی طرف سے تھے۔ امریکا کی حکمت عملی ہمیں شمال اور شمال مغرب میں اُلجھانا ہے اور بھارت کے لیے برعظیم ہی میں نہیں جنوبی، شرقی اور وسطی ایشیا میں بھی کردار کو فروغ دینا ہے۔ اس فریم ورک میں امریکا اور پاکستان کے عالمی مقاصد میں کوئی مطابقت نہیں۔
جہاں تک مفادات کا تعلق ہے امریکا کا مسئلہ تیل اور دوسرے معاشی وسائل پر تسلط اور اپنی مصنوعات اور سرمایے کے لیے منڈیوں کا حصول ہے۔ اس کی نگاہ میں کسی بھی ملک اور خاص طور پر پاکستان، ایران، کوریا، عراق یا کسی بھی عرب ملک یا اسلامی ملک کی نیوکلیر صلاحیت ایک خطرہ ہے۔ہر ایسی معاشی صف بندی جو دنیا کے ان ممالک میں خودانحصاری کی کیفیت پیدا کرسکے، امریکا اور عالمی سرمایہ دارانہ سامراج کے مفادات کے خلاف ہے، جب کہ عالمی تجارت کی راہوں کے کھلے ہونے کے ساتھ پاکستان، عالمِ اسلام اور تیسری دنیا کے ممالک کا مفاد اس میں ہے کہ وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکیں۔ بنیادی ضروریات اور ٹکنالوجی کے میدان میں امریکا اور مغرب پر ان کا انحصار کم ہو۔ وہ خود اپنے وسائل کو اپنی ترجیحات اور اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرسکیں۔
یہاںبھی امریکا، مغرب کے سامراجی ممالک اور پاکستان، دوسرے مسلمان اور تیسری دنیا کے ممالک کے مفادات سے متصادم ہیں۔ پھر پاکستان کے فوری مسائل اور مفادات ہیں، جن کا تعلق مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین، پانی کا مسئلہ، خوراک میں خودانحصاری، معاشی ترقی اور استحکام اور نظریاتی اور تہذیبی شناخت کی حفاظت اور پرورش ہیں۔ یہاں بھی پاکستان اور امریکا کے مفادات میں فاصلے زیادہ اور قربت کم اور واجبی ہے۔
یہی معاملہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا ہے، جس کی سب سے بھاری قیمت پاکستان، افغانستان اور عراق نے ادا کی ہے۔ امریکا کے جتنے فوجی اور شہری افغانستان اور عراق میں ہلاک ہوئے ہیں، ان سے کہیں زیادہ پاکستانی فوجی اور عام شہری محض امریکا کی جنگ میں شرکت کی سزا میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ معاشی اور فوجی امداد کا بڑا چرچا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر جانی نقصان کو نظرانداز کردیا جائے (گو ایسا کرنا ایک سنگین جرم ہوگا) اور صرف معاشی پہلو کو لیا جائے تو امریکا نے جو ۱۹بلین ڈالر گذشتہ نوسال میں دیے ہیں ان میں ۱۱بلین ڈالر ان اخراجات اور خدمات کی مد میں ہیں، جو پاکستان نے امریکی افواج اور ضروریات کے لیے انجام دی ہیں، اور جسے ’کولیشن سپورٹ فنڈ‘ کہتے ہیں، جب کہ اس جنگ میں شرکت کا جو معاشی نقصان پاکستان کو ہوا ہے، وہ وزارتِ خزانہ کے ہر اعتبار سے کم سے کم ترین پر تخمینوںکے مطابق بھی ۴۳ارب ڈالر سے زیادہ ہیں، اور خود ’کولیشن سپورٹ فنڈ‘ کے اس وقت ڈھائی ارب ڈالر واجب الادا ہیں۔ یہ وہ خرچہ ہے جو حکومتِ پاکستان، اسٹیٹ بنک سے قرض لے کر کرچکی ہے، اور جس کی وجہ سے وہ اس وقت اسٹیٹ بنک کی ۱۸۵ ارب کی مقروض ہے، اور جس پر ۲ ارب روپے ماہانہ سود بھی حکومتِ پاکستان کو ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ نفع کا سودا ہے یا صریح نقصان کا۔ یہ صورت حال مفادات کے اشتراک کی تصویر پیش کرتی ہے یا ان میں تصادم اور تناقض کی۔
تیسرے نکتے کا حال بھی ذرا مختلف نہیں۔ معاشی تعاون اور سرمایہ کاری میں اشتراک کے چند منصوبوں کو چھوڑ کر، زیادہ معاملات میں پاکستان اور امریکا کے درمیان اشتراکِ عمل کے جو پروگرام ہیں، وہ نمایشی زیادہ اور حقیقی کم ہیں۔ پھر ان تعلقات میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ وقتی اور ہوا کے جھونکوں کے ساتھ بدل جانے والے ہیں۔ برابری کی بنیاد پر توازنِ قوت کے تفاوت کی وجہ سے معاملات مرتب کرنے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ لیکن کم از کم مقدار میں بھی ایک دوسرے کی آزادی، عزتِ نفس، قومی مفادات، نظریاتی اور تہذیبی اختلافات بلکہ احترام کا بھی فقدان ہے، اور تعلقات اور منصوبوں میں کوئی تسلسل اور دوام نہیں۔ آج دوستی میں گاڑھی چھن رہی ہے اور کل پابندیاں مسلط کردی جاتی ہیں، تمام منصوبوں کو بیچ میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ دفاعی سسٹم کے باب میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ دفاعی تنصیبات سے متعلق فاضل پُرزوں اور مرمت تک کی سہولت کو منقطع کردیا جاتا ہے، جس سے ملک کی سلامتی کو شدید خطرات درپیش ہوتے ہیں۔ مختلف عذرات کی بنیاد پر پاکستانی مصنوعات کو عالمی مارکیٹ تک رسائی حاصل نہیں ہوپاتی۔ جہاں تجارتی تعلقات ہیں وہاں بھی ایسی ہی امتیازی پالیسیاں اختیار کی جاتی ہیں جو ترقی پذیر ممالک کے مفادات کے خلاف ہیں۔ اپنے پسندیدہ ممالک کو اور جہاں ضرورت محسوس ہو تحفظ دیا جاتا ہے، لیکن دوسروں کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے قومی مفاد کی روشنی میں انھی حربوں کو استعمال کریں۔ اس طرح تیسرے اور چوتھے دونوں نکات کے سلسلے میں بھی اتفاق کے نکات کم اور محدود اور اختلاف کے وسیع ہیں۔
رہا معاملہ باہمی اعتماد کا تو اس کا دُور دُور تک وجود نہیں اور یہی وجہ ہے کہ لالچ اور خوف ہی کارفرما قوتیں ہیں۔ اعتماد، ایثار اور شراکت کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ ان حالات میں ہمارے ارباب حل و عقد کی جانب سے اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کے دعووں کو خودفریبی کے سوا کس نام سے پکارا جاسکتا ہے۔ ہم پاکستان اور امریکا کے درمیان دوستانہ تعلقات کا فروغ چاہتے ہیں، لیکن یہ تاریخی تجربات اور زمینی حقائق کی بنیاد ہی پر ہوسکتے ہیں۔ امریکا ایک سوپر پاور ہے اور اس سے تصادم بلاشبہہ مفاد میں نہیں۔ بہت سے معاملات میں تعاون کے ہزاروں راستے نکالے جاسکتے ہیں، جس میں دونوں کے لیے بھلائی اور نفع ہو۔عالمی تجارت کے اسی اصول پر فروغ پاتی ہے۔ چھوٹے ممالک کی بھی اسٹرے ٹیجک اہمیت ہوسکتی ہے اور پاکستان کو یہ حیثیت حاصل ہے۔ مختلف ممالک باہمی رضامندی اور باہمی لین دین کے معروف اصولوں کی روشنی میں سب استفادہ کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حقائق کو کھلے دل سے قبول کیا جائے۔ ایک دوسرے کے جائز مفادات کو سامنے رکھ کر آزاد مرضی سے معاملات طے کیے جائیں۔ پستول تان کر یا رشوت اور دھونس جماکر ایک پارٹی دوسرے پر اپنی راے مسلط نہ کرے اور کمزور ممالک میں اپنے طفیلی عناصر کو حکمران بنا کر ان کے ذریعے قوم کی تمنائوں، عزائم اور مفادات کے برعکس پالیسیاں مسلط نہ کی جائیں۔
ہرملک اور قوم کی اپنی ترجیحات اور ضرورتیں ہیں اور آزادی، عزتِ نفس، نظریاتی اور تہذیبی تشخص اور سیاسی اور معاشی مفادات ہر ایک کے لیے اہم ہیں۔ اس لیے انصاف اور تعاون باہمی کی بنیاد پر تو سب سے تعلقات خوش گوار رہ سکتے ہیں اور یہی مطلوب ہے۔ امریکا سے تعلقات بھی اسی زمرے میں آتے ہیں اس سے ہٹ کر جو راستہ بھی اختیار کیا جائے گا وہ جبر اور مجبوری کی حد تک تو کچھ عرصے کے لیے چل سکتا ہے لیکن نہ وہ دیرپا ہوسکتا ہے اور نہ اس کے نتائج سے خیروفلاح کی توقع کی جاسکتی ہے۔ امریکا کی قیادت کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ایک سوپرپاور ہوتے ہوئے اور دنیا کے مختلف علاقوں اور ممالک میں بعض اچھے اور مفید کام کرنے کے باوجود بھی دنیا کے ممالک کی ایک عظیم اکثریت کے عوام میں اس کے خلاف بے زاری، نفرت اور مخالفت کے جذبات کیوں موجزن ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ع
ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا
بلاشبہہ امریکی نظامِ حکومت، معاشرے اور تمدن میں بہت سی چیزیں مثبت بھی ہیں، جن میں تمام کمزوریوں اور مفاد پرست عناصر کے سارے کھیل کے باوجود بڑی حد تک دستور اور قانون کی حکمرانی کا ایک نسبتاً قابلِ بھروسا نظام موجود ہے۔ اس کے پہلو بہ پہلو ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور دوسرے مسلمان، عرب، میکسی کن اور خود ایفرو امریکی حضرات کے باب میں کی جانے والی کھلی کھلی ناانصافیوں اور تعصب کے مظاہر بھی موجود ہیں۔ اسی طرح شخصی، سیاسی اور معاشی آزادی کی روایات، تعلیم، تحقیق، ایجاد و اختراع، معاشی اور سیاسی میدانوں میں بڑی حد تک ترقی کے مواقع کی موجودگی اور فراہمی، خوش حال معاشرے کا قیام اور احتساب کا نظام مثبت پہلو ہیں، جن کا اعتراف نہ کرنا حق و انصاف کے منافی ہوگی۔ پھر اپنی قوم سے قیادت کی وفاداری اور بحیثیت مجموعی قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر فوقیت دینا قابلِ قدر پہلو ہے۔ اسی طرح جیساکہ ہم نے عرض کیا باہمی مفاد کی بنیاد پر سیاسی، سماجی، معاشی، تعلیمی اور حتیٰ کہ عسکری تعاون کی گنجایش بھی موجود ہے۔
امریکا پر ہماری تنقید کی بنیادی وجہ امریکا کی وہ پالیسیاں ہیں جو ہمارے مسلم اُمہ کے اور دنیا کے مظلوم عوام کے مفاد کے خلاف، اور اس کے اپنے جہانگیری اور سامراجی مقاصد اور عزائم کے حصول کے لیے اس نے اختیار کی ہیں۔ بین الاقوامی میدان میں اپنی مرضی کو دوسروں پر مسلط کرنے اور ان کے مفادات کو بے دردی سے کچلنے کا ذریعہ ہیں۔ یا پھر وہ منافقت اور دو رنگی ہے، جو قول و عمل کے تضاد یا انسانوں، گروہوں اور اقوام کے درمیان امتیازی سلوک اور سفاکانہ رویوں کا مظہر ہیں۔ اگر امریکا کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے مقاصد اور اپنے مفادات کے لیے کام کرے تو یہی حق ہم کو اور دنیا کی دوسری اقوام اور اہلِ مذہب کو بھی حاصل ہے۔ بین الاقوامی امن اور انصاف کسی ایک کو دوسرے پر اپنی راے قوت، جبر اور دھوکے سے مسلط کرنے کا حق نہیں دیتے۔ دوطرفہ تعلقات صرف افہام و تفہیم اور ایک دوسرے کے حقوق اور مفادات کے احترام سے حاصل ہوسکتے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جو پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں مفقود ہے۔
(کتابچہ دستیاب ہے، قیمت:۱۲ روپے۔ منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خوش قسمتی سے آج مجھے یہ موقع مل رہا ہے کہ مرکز اسلام میں حج کے عالم گیر اجتماع کے لیے دنیاے اسلام کے مختلف حصوں سے جو بندگانِ حق آئے ہوئے ہیں ان سے خطاب کروں اور ان کو یہ بتائوں کہ اس زمانے میں مومنین و صادقین اور خصوصاً ان کے نوجوان تعلیم یافتہ لوگوں کے کرنے کا اصل کام کیا ہے۔ میں اس قیمتی اور نادر موقع سے پورا فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں اور یہ سمجھتے ہوئے کہ شاید ایسا موقع مجھے پھر نہ مل سکے گا، اپنا دل کھول کر آپ کے سامنے رکھ دینا چاہتا ہوں، تاکہ آپ لوگ اس وقت کی حقیقی صورتِ حال کو اور اس کے واقعی اسباب کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لیں اور اس کی اصلاح کے لیے حکمت اور جرأت کے ساتھ وہ تدبیر اختیار کریں جو میرے نزدیک موزوں ترین تدابیر ہیں۔
سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیجیے کہ دنیاے اسلام اس وقت دو بڑے حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک حصہ وہ جہاںمسلمان اقلیت میں ہیں اور سیاسی اقتدار غیرمسلموں کے ہاتھ میں ہے۔ دوسرا حصہ وہ جہاں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے اور سیاسی اقتدار بھی انھی کے ہاتھ میں ہے۔ ان دونوں حصوں میں سے فطری طور پر زیادہ اہمیت دوسرے حصے کو حاصل ہے اور ملّت اسلامیہ کا مستقبل بہت بڑی حد تک اُس روش پر منحصر ہے جو آزاد مسلم مملکتیں اختیار کر رہی ہیں اور آگے اختیار کرنے والی ہیں۔ اگرچہ پہلا حصہ بھی کچھ کم وزن نہیں رکھتا۔ اپنی جگہ اس کو بھی بڑا اہم مقام حاصل ہے، کیونکہ کسی نظریۂ حیات اور عقیدہ و مسلک کے پیرووں کا دنیا کے ہر خطے اور ہرگوشے میں پہلے ہی سے موجود ہونا، اور قلیل تعداد میں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں موجود ہونا، ان لوگوں کے لیے بڑی تقویت کا موجب ہوسکتا ہے جو اُس نظریے اور عقیدہ ومسلک کی علَم برداری کے لیے اُٹھیں۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ اگر وہ نظریہ اور عقیدہ و مسلک خود اپنے ہی گھر میں مغلوب ہوجائے تو روے زمین پر پھیلے ہوئے اس کے یہ پیرو،جو پہلے ہی سے مغلوب ہیں، زیادہ دیر تک اپنے مقام پر ٹھیرے نہیں رہ سکتے۔ اس بنا پر یہ کہنا صحیح ہے کہ اس وقت نظر بظاہر دنیاے اسلام کے مستقبل کا انحصار اُن مسلم ممالک ہی کے مستقبل پر ہے جو انڈونیشیا اورملایا سے لے کر مراکو اور نائیجیریا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت وحکمت کوئی اور کرشمہ دکھا دے جس کا ہم ظاہری اسباب کو دیکھتے ہوئے کوئی اندازہ نہ کرسکتے ہوں۔ وہ چاہے تو چٹانوں میں سے چشمے پھوڑ کر نکال سکتا ہے اور ریگستانوں کو اپنے ایک اشارے سے گلستانوں میں تبدیل کرسکتا ہے۔
اب اسی مفروضے پر کہ دنیاے اسلام کا مستقبل مسلم ممالک کے ساتھ وابستہ ہے، ذرا اس امر کا جائزہ لیجیے کہ یہ ملک اس وقت کس حالت میں ہیں، اور جس حال میں یہ ہیں، اس کے اسباب کیا ہیں۔
آپ لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ ایک طویل مدت تک ذہنی جمود، عقلی انحطاط، اخلاقی زوال اور مادی اضمحلال میں مبتلا رہنے کے بعد آخرکار اکثروبیشتر مسلمان ملک مغربی استعمار کے شکار ہوتے چلے گئے تھے۔ اٹھارھویں صدی مسیحی سے یہ عمل شروع ہوا تھا اور موجودہ صدی کے اوائل میں یہ اپنے انتہائی کمال کو پہنچ گیاتھا۔ اس زمانے میں گنتی کے صرف دو چار مسلمان ملک باقی رہ گئے تھے جو براہِ راست مغربی مستعمرین کی سیاسی غلامی میں مبتلا ہونے سے بچ گئے تھے۔ مگر پے درپے شکستیں کھاکھا کر اُن کا حال غلام ملکوں سے بھی بدتر ہوگیا اور اُن کی مرعوبیت اور دہشت زدگی اُن لوگوں سے بھی کچھ زیادہ بڑھ گئی جواپنی سیاسی آزادی پوری طرح کھو بیٹھے تھے۔
مغربی استعمار کے اس غلبے کا سب سے زیادہ تباہ کن نتیجہ وہ تھا جو ہماری ذہنی شکست اور ہمارے اخلاقی بگاڑ کی شکل میں رونما ہوا۔ اگر یہ مستعمرین ہمیں لوٹ کر بالکل غارت کر دیتے اور قتلِ عام کرکے ہماری نسلوں کو مٹا دیتے تب بھی یہ اتنا بڑا ظلم نہ ہوتا جتنا بڑا ظلم انھوں نے اپنی تعلیم اور اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنے اخلاقی مفاسد پھیلاکر ہم پر ڈھایا۔ جن جن مسلمان ملکوں پر اُن کا تسلط ہوا وہاں ان سب کی مشترک پالیسی یہ رہی کہ ہمارے آزاد نظامِ تعلیم کو ختم کر دیں، یا اگر وہ پوری طرح ختم نہ ہوسکے تو اس سے فارغ ہوکر نکلنے والوں کے لیے حیات اجتماعی میں کوئی مصرف باقی نہ رہنے دیں۔ اسی طرح یہ بھی ان کی پالیسی کا ایک لازمی جز رہا کہ مفتوح قوموں کی اپنی زبان کو ذریعۂ تعلیم اور سرکاری زبان کی حیثیت سے باقی نہ رہنے دیںاور ان کی جگہ فاتحین کی زبانوں کو ذریعۂ تعلیم بھی بنائیں اور سرکاری زبان بھی قرار دیں۔
مشرق سے مغرب تک تمام مغربی فاتحین نے بالاتفاق یہی عمل تمام مسلم ممالک میں کیا، خواہ وہ ڈچ ہوں یا انگریز یا فرانسیسی یااطالوی یا کوئی اور۔ اس طریقے سے ان مستعمرین نے ہمارے ہاں ایک ایسی نسل تیار کر دی جو ایک طرف تو اسلام اور اس کی تعلیمات سے ناواقف، اس کے عقیدہ و مسلک سے بیگانہ، اور اس کی تاریخ اور روایات سے نابلد تھی، اور دوسری طرف اس کا ذہن اور اندازِ فکر اور زاویۂ نظر مغربی سانچے میں ڈھل چکا تھا۔ پھر اس نسل کے بعد پے درپے دوسری نسلیں ایسی اُٹھتی چلی گئیں جو اسلام سے اور زیادہ دُور اور مغربی فلسفۂ حیات اور تہذیب وتمدن میں زیادہ سے زیادہ غرق ہوچکی تھیں۔ ان کے لیے اپنی زبان میں بات کرنا موجب ننگ و عار اور فاتحین کی زبان میں بولنا موجبِ افتخار بن گیا۔ مغربی فاتح نصرانیت کے لیے خواہ کتنے ہی متعصب ہوں، ان فرنگیت مآب غلاموں کو مسلمان ہونے پر شرم آنے لگی اور اسلام کے خلاف بغاوت کا یہ فخریہ اظہار کرنے لگے۔ مغربی فاتح اپنی فرسودہ اور بوسیدہ قومی روایات کا کتنا ہی احترام کرتے ہوں، یہ غلام لوگ اپنی روایات کی تحقیر کرنا ہی اپنے لیے ذریعۂ عزت سمجھنے لگے۔ مغربی فاتحین نے مدت العمرمسلمان ملکوں میں رہنے کے باوجود کبھی مسلمانوں کے لباس اور طرزِ زندگی اختیار نہ کیے، مگر یہ غلام لوگ اپنے ہی ملکوں میں رہتے ہوئے ان فاتحین کے لباس، اُن کے رہن سہن کے طریقے، ان کے کھانے پینے کے ڈھنگ، ان کی ثقافت کے اطوار، حتیٰ کہ ان کی حرکات و سکنات تک کی نقل اُتارنے لگے اور اپنی قوم کی ہر چیز ان کی نگاہوں میں حقیر ہوکر رہ گئی۔ پھر مغربی فاتحین کی تقلید میں ان لوگوں نے مادہ پرستی، الحاد، عصبیتِ جاہلیہ، قوم پرستی، اخلاقی بے قیدی اور فسق وفجور کا پور زہر اپنے اندر جذب کرلیا، اور ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جو کچھ مغرب کی طرف سے آتا ہے وہ سراسر حق ہے، اسے اختیار کرنا ہی ترقی پسندی ہے اور اس سے منہ موڑنے کے معنی رجعت کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
مغربی مستعمرین کی مستقل پالیسی یہ تھی کہ جولوگ اس رنگ میں جتنے زیادہ رنگ جائیں اور اسلام کے اثرات سے جس قدر زیادہ عاری ہوں، اُن کو زندگی کے ہر شعبے میں اتنا ہی زیادہ بلند مرتبہ دیا جائے۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا، اور اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا چاہیے تھا کہ سلطنتوں میں اُونچے سے اُونچے عہدے ان ہی کوملے۔ مستعمرین کی فوجی اور سول ملازمتوں میں یہی کلیدی مناصب پر پہنچے۔ سیاست میں انھی کو اہم حیثیت حاصل ہوئی۔ سیاسی تحریکوں کے یہی لیڈر بنے۔ پارلیمنٹوں میں یہی نمایندے بن کر پہنچے اور مسلمان ملکوں کی معاشی زندگی پر بھی یہی چھا گئے۔
اس کے بعد جب مسلمان ملکوں میں آزادی کی تحریکیں اُٹھنی شروع ہوئیں تو ناگزیر تھا کہ ان تحریکوں کی قیادت یہی لوگ کریں، کیونکہ یہی حکمرانوں کی زبان میں بات کرسکتے تھے، یہی ان کے مزاج کو سمجھتے تھے، اور یہی اُن سے قریب تر تھے۔ اسی طرح جب یہ ممالک آزاد ہونے شروع ہوئے تو آزادی کے بعد اقتدار بھی انھی کے ہاتھوں میں منتقل ہوا اور مستعمرین کی خلافت انھی کو نصیب ہوئی، کیونکہ مستعمرین کے ماتحت سیاسی نفوذ و اثر انھی کو حاصل تھا، سول حکومت کا نظم و نسق یہی چلارہے تھے اور فوجوں میں بھی قیادت کے مناصب پر یہی فائز تھے۔
استعمار کے آغاز سے لے کر اس کے اختتام اور آزادی کی ابتدا تک کی اس تاریخ کے چند نمایاں پہلو ایسے ہیں جنھیں نگاہ میںرکھنا ضروری ہے، کیونکہ انھیں نظرانداز کرکے اس وقت کی پوری صورتِ حال کوٹھیک ٹھیک نہیں سمجھا جاسکتا۔
یہ چار حقائق جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیے ہیں، ان کو نگاہ میں رکھ کر آپ دنیا کی آزاد مسلمان قوموں کی موجودہ حالت کا جائزہ لیںتو اس وقت کی پوری صورت حال آپ پر واضح ہوجائے گی۔ دنیا کی تمام آزاد مسلم حکومتیں اس وقت بالکل کھوکھلی ہورہی ہیں۔ کیونکہ ہر جگہ وہ اپنی اپنی قوموں کے ضمیر سے لڑرہی ہیں۔ ان کی قومیں اسلام کی طرف پلٹنا چاہتی ہیں اور یہ اُن کو زبردستی مغربیت کی راہ پر گھسیٹ رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کہیں بھی مسلمان قوموں کے دل اپنی حکومتوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ حکومتیں اس وقت مضبوط ہوتی ہیں جب حکمرانوں کے ہاتھ اور قوموں کے دل پوری طرح متفق ہوکر تعمیرحیات کے لیے سعی کریں۔ اس کے بجاے جہاں دل اور ہاتھ ایک دوسرے سے نزاع و کش مکش میں مشغول ہوں وہاں ساری قوتیں آپس ہی کی لڑائی میں کھپ جاتی ہیں اور تعمیروترقی کی راہ میں کوئی پیش قدمی نہیں ہوتی۔
اسی صورتِ حال کا ایک فطری نتیجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان ملکوں میں پے درپے آمریتیں قائم ہورہی ہیں۔ مغربیت زدہ طبقے کی وہ چھوٹی سی اقلیت، جس کو مستعمرین کی خلافت حاصل ہوئی ہے، اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر نظامِ حکومت عوام کے ووٹوں پر مبنی ہو تو اقتدار ان کے ہاتھ میں نہیں رہ سکتا بلکہ جلدی یا دیر سے وہ لازماً ان لوگوں کی طرف منتقل ہوجائے گا جو عوام کے جذبات اور اعتقادات کے مطابق حکومت کا نظام چلانے والے ہوں۔ اس لیے وہ کسی جگہ بھی جمہوریت کو چلنے نہیں دے رہے ہیں اور آمرانہ نظام قائم کرتے جارہے ہیں۔ اگرچہ فریب دینے کے لیے انھوں نے آمریت کا نام جمہوریت رکھ دیا ہے۔
ابتداً کچھ مدت تک قیادت اس گروہ کے سیاسی لیڈروں کے ہاتھ میں رہی اور سول حکام مسلمان ملکوں کے نظم و نسق چلاتے رہے۔ لیکن یہ بھی اسی صورتِ حال کا ایک فطری نتیجہ تھا کہ مسلمان ملکوں کی فوجوں میں بہت جلدی یہ احساس پیدا ہوگیا کہ آمریت کا اصل انحصار انھی کی طاقت پر ہے۔ یہ احساس بہت جلدی فوجی افسروں کو میدانِ سیاست میں لے آیا اور انھوں نے خفیہ سازشوں کے ذریعے سے حکومتوں کے تختے اُلٹنے اور خود اپنی آمریتیںقائم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اب مسلمان ملکوں کے لیے ان کی فوجیں ایک مصیبت بن چکی ہیں۔ اُن کا کام باہر کے دشمنوں سے لڑنا اور ملک کی حفاظت کرنا نہیں رہا بلکہ اب اُن کاکام یہ ہے کہ اپنے ہی ملکوں کو فتح کریں اور جو ہتھیار اُن کی قوموں نے ان کو مدافعت کے لیے دیے تھے انھی سے کام لے کر وہ اپنی قوموں کو اپنا غلام بنالیں۔ اب مسلمان ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے انتخابات یا پارلیمنٹوں میں نہیں بلکہ فوجی بیرکوں میں ہو رہے ہیں۔ اور یہ فوجیں بھی کسی ایک قیادت پر متفق نہیں ہیں بلکہ ہر فوجی افسر اس تاک میں لگا ہوا ہے کہ کب اسے کوئی سازش کرنے کا موقع ملے اور وہ دوسرے کو مار کر خود اس کی جگہ لے لے۔ ان میں سے ہر ایک جب آتا ہے تو زعیم انقلاب بن کر آتا ہے اور جب رخصت ہوتا ہے تو خائن و غدار قرار پاتا ہے۔ مشرق سے مغرب تک بیش تر مسلمان قومیں اب محض تماشائی ہیں۔ ان کے معاملات چلانے میں اب ان کی راے اور مرضی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ان کے علم کے بغیر اندھیرے میں انقلاب کی کھچڑی پکتی ہے اور کسی روز یکایک ان کے سروں پر اُلٹ پڑتی ہے۔ البتہ ایک چیز میں یہ سب متحارف انقلابی لیڈر متفق ہیں اور وہ یہ ہے کہ ان میں سے جو بھی اُبھر کر اُوپر آتاہے وہ اپنے پیش رو ہی کی طرح مغرب کا ذہنی غلام اور الحاد و فسق کا علَم بردار ہوتا ہے۔
ان تاریک حالات میں ایک روشنی موجود ہے جس کے اندر دو حقیقتیں مجھے صاف نظر آرہی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے الحاد و فسق کے ان علَم برداروں کو ایک دوسرے سے لڑا دیا ہے اور یہ خود ہی ایک دوسرے کی جڑ کاٹ رہے ہیں۔ خدانخواستہ اگر یہ متحد ہوتے تو ناقابلِ علاج مصیبت بن جاتے۔ مگر ان کا رہنما شیطان ہے اور شیطان کا کید ہمیشہ ضعیف ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ دوسری اہم حقیقت جو مَیں دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ مسلمان قوموں کے دل بالکل محفوظ ہیں، وہ ہرگز ان نام نہاد انقلابی لیڈروں سے راضی نہیں ہیں اور اس امر کے پورے امکانات موجود ہیں کہ اگر کوئی صالح گروہ فکر کے اعتبار سے مسلمان اور ذہنی قابلیتوں کے لحاظ سے قیادت کا اہل ہوتو آخرکار وہی غالب آئے گا اور مسلمان قومیں اس الحاد و فسق کی قیادت سے نجات پاجائیں گی۔
اس وقت کام کا اصل موقع اُن لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے ایک طرف مغربی طرز کی تعلیم پائی ہے اور دوسری طرف جن کے دلوں میں خدا اور رسولؐ اور قرآن اور آخرت پر ایمان محفوظ ہے۔ قدیم طرز کی دینی تعلیم پائے ہوئے لوگ، اخلاقی اور روحانی اعتبار سے اور علم دین کے لحاظ سے ان کے بہترین مددگار بن سکتے ہیں، مگر بدقسمتی سے وہ اُن صلاحیتوں کے حامل نہیں ہیں جو قیادت اور زمامِ کار سنبھالنے کے لیے درکار ہیں۔ یہ صلاحیتیں فی الحال صرف مقدم الذکر گروہ ہی میں پائی جاتی ہیں اور ضرورت ہے کہ اس وقت یہی گروہ آگے بڑھ کر کام کرے۔ ان لوگوں کو جو مشورے میں دے سکتا ہوں وہ مختصراً یہ ہیں:
۱- اسلام کا صحیح فھم: ان کو اسلام کا صحیح علم حاصل کرنا چاہیے تاکہ ان کے دل جس طرح مسلمان ہیں اسی طرح ان کے دماغ بھی مسلمان ہوجائیں، اور یہ اجتماعی معاملات کو اسلامی احکام اور اصولوں کے مطابق چلانے کے قابل بن جائیں۔
۲- ذاتی اخلاقی اصلاح: ان کو اپنی اخلاقی اصلاح کرنی چاہیے تاکہ ان کی اخلاقی زندگیاں عملاً بھی اُسی اسلام کے مطابق ہوجائیں جس کو وہ اعتقاداً برحق مانتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ قول اور عمل کا تضاد آدمی کے اندر نفاق پیدا کرتاہے اور باہر کی دنیا میں اس کا اعتبار ختم کردیتا ہے۔ آپ کی کامیابی کا سارا انحصار اخلاص اور راست بازی پر ہے، اور کوئی ایسا شخص نہ مخلص ہوسکتا ہے، نہ مخلص مانا جاسکتا ہے، جو کہے کچھ اور کرے کچھ۔ آپ کی اپنی زندگی میں اگر تناقض ہوگا تو نہ دوسرے آپ پر اعتمادکریں گے اور نہ خود آپ کے دل میں اپنے اُوپر وثوق پیدا ہوسکے گا۔ اس لیے دعوتِ اسلامی کے لیے کام کرنے والے تمام لوگوں کو میری مخلصانہ نصیحت یہ ہے کہ جن جن امور کے متعلق انھیں یہ علم حاصل ہوتا جائے کہ اسلام نے ان کا حکم دیا ہے اُن پر عامل ہونے کی اور جن کے متعلق انھیں معلوم ہوتا جائے کہ اسلام نے انھیں منع کیا ہے، ان سے اجتناب کرنے کی پوری کوشش کریں۔
۳- مغربی تھذیب و فلسفہ پر تنقید: اُن کو اپنی تمام ذہنی صلاحیتیں اور تحریر و تقریر کی قوتیں اس کام پر صرف کر دینی چاہییں کہ مغربی تہذیب و ثقافت اور فلسفۂ حیات پر تنقید کر کے اُس بت کو پاش پاش کردیں جن کی آج دنیا میں پرستش کی جارہی ہے اور اُس کے مقابلے میں اسلام کے عقائد اور اصول و مبادی اور قوانینِ حیات کی تشریح و تدوین ایسے معقول طریقوں سے کریں جو نسلِ جدید کے ذہن کو ان کی صحت کا یقین دلاسکے اور اُن کے اندر یہ اعتماد پیدا کرسکے کہ دورِحاضر میں ایک قوم ان عقائد اور اصول و قوانین کو اختیار کر کے نہ صرف ترقی کرسکتی ہے بلکہ دوسروں سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ یہ کام جتنے صحیح خطوط پر جتنے بڑے پیمانے پر ہوگا، اتنے ہی دعوت اسلامی کے لیے آپ کو سپاہی ملتے چلے جائیںگے، اور یہ سپاہی ہرشعبۂ حیات سے نکل نکل کر آئیں گے۔ اس عمل کا سلسلہ ایک طویل مدت تک جاری رہنا چاہیے، تاکہ ایک کثیرتعداداُن لوگوں کی پیدا ہوجائے جو ایک ملک کے نظام کو اسلامی اصولوں پر چلانے کے لیے درکار ہیں۔ یہ عمل جب تک بتدریج اپنی انتہا کو نہ پہنچ جائے آپ کسی اسلامی انقلاب کے برپا ہونے کی توقع نہیں کرسکتے، اور اگر کسی مصنوعی طریقے سے وہ برپا ہو بھی جائے تو وہ مستحکم نہیں ہوسکتا۔
۴- تنظیم : دعوتِ اسلامی سے جتنے لوگ متاثر ہوتے جائیں ان کو منظم ہونا چاہیے اور ان کی تنظیم کو ڈھیلا اور سُست نہ ہونا چاہیے۔ نظم و ضبط اور سمع و طاعت کے بغیر محض ہم خیال لوگوں کا ایک بکھرا ہوا گروہ فراہم کر دینے سے کوئی کارگر طاقت پیدا نہیں ہوسکتی۔
۵- عمومی دعوت : اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو عوام میں اپنی دعوت پھیلانی چاہیے تاکہ عام لوگوں کی جہالت دُور ہو اور وہ اسلام سے واقف ہوں اور اسلام و جاہلیت کا فرق جان لیں۔ اس کے ساتھ انھیں عوام کی اخلاقی اصلاح کی بھی کوشش کرنی چاہیے اور فسق و فجور کے اس سیلاب کو روکنے کے لیے اپنا پورا زور لگا دینا چاہیے جو فاسق قیادت کے اثر سے مسلمان قوموں میں روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک قوم فاسق ہوجانے کے بعد ایک اسلامی حکومت کی رعایا بننے کے قابل نہیں رہتی۔ عامۃ الناس میں فسق جتنا بڑھے گا اُن کے معاشرے میں اسلامی نظام کا چلنا اتنا ہی مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ جھوٹے، بددیانت اور بدکار لوگ نظامِ کفر کے لیے جتنے موزوں ہیں، نظامِ اسلامی کے لیے اتنے ہی غیرموزوں ہیں۔
۶- صبر و حِکمت : انھیں بے صبر ہوکر خام بنیادوں پر جلدی سے کوئی اسلامی انقلاب برپا کردینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ جو مقصود ہمارے پیش نظر ہے اس کے لیے بڑا صبر درکار ہے۔ حکمت کے ساتھ جانچ تول کر ایک ایک قدم اٹھایئے اور دوسرا قدم اٹھانے سے پہلے خوب اطمینان کرلیجیے کہ پہلے قدم میں جو نتائج آپ نے حاصل کیے ہیں وہ مستحکم ہوچکے ہیں۔ جلدبازی میں جو پیش قدمی بھی ہوگی اس میں فائدے کی بہ نسبت نقصان کا خطرہ زیادہ ہوگا۔ مثال کے طور پر فاسق قیادت کے ساتھ شریک ہوکر یہ اُمید کی جاتی ہے کہ شاید اس طرح منزلِ مقصود تک پہنچنے کا راستہ آسان ہوجائے گا اور کچھ نہ کچھ اپنے مقصد کے لیے مفید کام بھی ہوسکے گا۔لیکن عملی تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس لالچ سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا، کیونکہ دراصل زمامِ امر جن لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ اپنی ہی پالیسی چلاتے ہیں اور ان کے ساتھ لگنے والوں کو ہر قدم پر ان سے مصالحتیں کرنی پڑتی ہیں، یہاں تک کہ وہ آخرکار بس ان کے آلۂ کار بن کر رہ جاتے ہیں۔
۷- مسلح اور خفیہ تحریکوں سے اجتناب: اس سلسلے میں اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے، بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے۔ اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلدبازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا اسی راستے سے وہ مٹایا بھی جاسکے گا۔
یہ چند کلمات نصیحت ہیں جو دعوتِ اسلامی کے لیے کام کرنے والوں کے سامنے میں پیش کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی رہنمائی فرمائے اور ہمیں دین حق کی سربلندی کے لیے صحیح طریقے سے جدوجہد کرنے کی توفیق بخشے۔ (تفہیمات، حصہ سوم، ص ۳۵۰-۳۶۳)
مدیر ترجمان القرآن پروفیسر خورشیداحمد ناسازی طبع کی وجہ سے ’اشارات‘ نہیں لکھ سکے ہیں۔ قارئین سے ان کی صحت کے لیے دعا کی درخواست ہے۔ (ادارہ)