عدلیہ اور اس کی آزادی پر جنرل پرویز مشرف نے ایک کاری ضرب ۹مارچ ۲۰۰۷ء کو لگائی تھی جس کا مقصد اپنے آمرانہ اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے عدلیہ کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے آنا تھا۔ یہی چال فوجی آمر کے اقتدار کے زوال کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئی۔
ماضی میں چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کے کچھ اقدامات پر ذہنی تحفظات کے باوجود، ۹مارچ کو جس جرأت، استقامت اور حکمت سے انھوں نے آمروقت کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کیا اور سارے دبائو کے باوجود اپنی، اعلیٰ عدالت کی عزت اور دستور کے احترام کے تحفظ کی جدوجہد کا آغاز کیا، اس نے انھیں قوم کی آنکھوں کا تارا بنا دیا۔ وکلا برادری نے ان کا بھرپور ساتھ دیا، سول سوسائٹی اور سیاسی و دینی جماعتوں نے اس تحریک کی بھرپور معاونت کی اور چار مہینے کی جدوجہد کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق چیف جسٹس افتخار چودھری اپنے دستوری منصب پر بحال ہوگئے۔ لیکن ہٹ دھرم آمروقت کی آنکھوں میں یہ بحالی کانٹے کی طرح کھٹکتی رہی۔ جب اس نے دیکھا کہ عدالتِ عظمیٰ اس کے وردی میں نئے صدارتی انتخاب اور بدنامِ زمانہ مفاہمتی آرڈی ننس (NRO) کے بارے میں دستور کے مطابق اقدام کرنے کا عندیہ رکھتی ہے تو اس پر جنون کی کیفیت طاری ہوگئی۔ تب اس نے دوسرا اور نہایت مجرمانہ وار ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو ایمرجنسی پلس (emergency plus) کے نام پر کیا۔ چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے دستورِ پاکستان کو دوسری بار معطل کرکے ایک نئے پی سی او (PCO) کا نفاذ کیا۔ اطاعت اور تابع داری کے لیے عدلیہ کے لیے نیا حلف اٹھانا لازم کیا۔ جس کے نتیجے کے طور پر نہ صرف چیف جسٹس افتخار چودھری کو فارغ کر دیا گیا بلکہ اعلیٰ عدالتوں کے ۶۵ ججوں کو نیا حلف نہ لینے کی پاداش میں برطرف کر دیا گیا۔ ان کو اور ان کے اہلِ خانہ کو گھروں میں نظربند کر کے ایک تابع مہمل شخص عبدالحمید ڈوگر کو عدالت کا سربراہ مقرر کیا۔
۳ نومبر ۲۰۰۷ء سے ۱۵ دسمبر ۲۰۰۷ء تک یہ نئی طرز کا مارشل لا نافذ رہا، جسے ڈوگر عدالت نے سندجواز عطاکر دی۔ اس وقت کی کرم خوردہ پارلیمنٹ نے جو اپنی زندگی کے آخری سانس لے رہی تھی، مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے ایما پر ۳ نومبر کی ایمرجنسی کو قرارداد کے ذریعے سندجواز دینے کی بے ڈھنگی (outlandish) حرکت بھی کرڈالی جو اس پارلیمنٹ کی طرف سے قوم کے لیے الوداعی ٹھوکر تھی۔ باضمیر ججوں، پوری وکلا برادری، تمام اہم سیاسی اور دینی جماعتوں نے دستور کو پارہ پارہ کرنے کی اس مذموم کوشش کی بھرپور مذمت کی۔ انھوں نے جنرل مشرف سے نجات اور عدلیہ کی آزادی اور اپنی اصل شکل میں بحالی کی ملک گیر مہم چلائی، جس کے ثمرات ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابی نتائج کی شکل میں رونما ہوئے۔ قوم نے جنرل مشرف اور اس کے حواریوں کورد کر دیا اور چیف جسٹس افتخار چودھری اور دستور اور عدلیہ کی بحالی کا وعدہ کرنے والوں کو تبدیلی کا اختیار عطا کیا۔
یہ ایک دل خراش حقیقت ہے کہ اس پورے دور میں چند ملکی قوتیں اور بیرونی طاقتیں عوام کے مینڈیٹ کو ناکام کرنے میں مصروف رہیں اور اس سلسلے میں پیپلزپارٹی کی قیادت اور خصوصیت سے اس کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری کا رویہ بہت ہی مشکوک رہا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے انتخاب کے موقع پر ہی ججوں کی رہائی کا اعلان کیا، جس سے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ البتہ ججوں کی بحالی ، مشرف کے محاسبے اور دستور کو اس کی ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء سے پہلے کی اصل شکل میں بحال کرنے کے دعووں کو پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ انھیں محض سیاسی تسلی کے لیے کیے گئے وعدے قرار دے کر فرار کا راستہ اختیار کیا۔ زرداری اور گیلانی کی حکومت نے نہ صرف یہ کہ ڈوگر عدالت کو سینے سے لگایا بلکہ بہت بڑی تعداد میں نئے ججوں کا تقرر کردیا۔ یوں عدلیہ کی آزادی اور بحالی کا خواب چکنا چور کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ان حالات میں وکلا برادری، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے، خصوصیت سے جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بالآخر ۱۶مارچ ۲۰۰۹ء کے فیصلہ کن معرکے میں ججوں، وکلا برادری اور عوام کی تحریک کامیاب رہی اور حکومت کو عدلیہ کی بحالی کے مطالبے کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔
۳۱ جولائی ۲۰۰۹ء کو عدالتِ عظمیٰ کے ۱۴ رکنی بنچ کا جو اہم فیصلہ آیا ہے، وہ اس مہم کا ثمرہ اور عدلیہ کی آزادی کو دستوری، قانونی اور سیاسی تحفظ فراہم کرنے کا قانونی چارٹر ہے۔ تفصیلی فیصلہ ابھی آنے والا ہے، لیکن مختصر فیصلہ بھی ایک تاریخی دستاویز ہے، جس نے ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو نافذ کیے جانے والے ایمرجنسی کے نام پر نافذکردہ مارشل لا اور اس کے تحت کیے جانے والے دستوری، قانونی اور انتظامی فیصلوں اور اقدامات کو غیردستوری، غیرقانونی اور ناجائز قرار دیا ہے۔ اس طرح اس فیصلے نے دستور سے بغاوت اور انحراف کے ایک تاریک باب کو ہمیشہ کے لیے بند کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔
یہ فیصلہ ہماری دستوری، قانونی اور سیاسی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے ہراعتبار سے تاریخی، انقلابی اور معیاری کہنے کے بارے میں تو دو آرا ہوسکتی ہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کی حد تک، اس فیصلے نے ماضی کے کچھ عدالتی فیصلوں اور غلط روایات کو دوٹوک انداز میں رد کر دیا ہے۔ اس بات تک کو خاطر میں نہیں لایا گیا کہ اس سے خود اعلیٰ عدلیہ کے ۱۰۶ جج متاثر ہوں گے، اور جن میں ایک محترم جج وہ بھی ہیں، جو خود اس ۱۴ رکنی بنچ کے ممبر ہیں۔ لیکن اصول کی بالادستی اور دستور کے الفاظ اور حقیقی مفہوم کے تحفظ اور تعبیر کی صحت کے لیے اس بنچ نے متفقہ طور پر دستور کی صحیح تشریح کردی ہے۔ اس طرح ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے ماوراے آئینِ اقدام اور اس کے تحت قائم ہونے والے عدالتی انتظام بشمول اس وقت کے چیف جسٹس کے تقرر کو خلافِ دستور و قانون کالعدم (null and void) قرار دیا ہے۔
چیف جسٹس حمود الرحمن کے ۱۹۷۳ء کے عاصمہ جیلانی بنام حکومت پنجاب کے فیصلے کے بعد، یہ پہلا فیصلہ ہے جس نے دستور اور عدلیہ پر فوجی قیادت کے شب خون مارنے کے اقدام کو غلط قرار دیا ہے، اور ’نظریۂ ضرورت‘ کو کم از کم جزوی حد تک رد کر دیا ہے۔ اس فیصلے میں جو اہم اصول طے کردیے گئے ہیں، وہ بہت اہم اور دُور رس اثرات کے حامل ہیں۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ان اصولوں کو صاف لفظوں میں بیان کر دیں:
۱- دستورِ پاکستان، مملکت کی بنیاد اور تمام اداروں اور کارفرما قوتوں کے لیے ضابطۂ کار متعین کرتا ہے، جسے کسی صورت میں بھی توڑنے، معطل کرنے اور غیرمؤثر بنانے کا کوئی قانونی جواز نہیں۔ حکومتِ وقت کی کارکردگی کو بہانہ بناکر کسی کو دستور سے انحراف یا اس کے اِبطال کا حق نہیں اور جو ایسا کرے، اس کی حیثیت دستور کے باغی کی ہے۔
۲- ماضی میں دستور کے ساتھ یہ کھیل کھیلا جاتا رہا ہے۔ عدالتیں اور پارلیمنٹ دستور پر کیے جانے والے ان قاتلانہ حملوں کو جواز دینے کی مذموم حرکت کرتے رہے ہیں۔ ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو بھی ایک غیردستوری عدالت نے جواز فراہم کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ اپنے اولیں لمحے (ab initio) ہی سے غلط اور غیرقانونی تھی اور عدالت عالیہ کے ۱۴ رکنی بنچ نے اسے اس کی مکمل شکل میں باطل (void) قرار دیا ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ دستور میں ترمیم کا حق کسی چیف آف آرمی اسٹاف کو نہیں اور جو کچھ ۳نومبر کو اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف نے کیا، وہ غلط اور قانون کی سند سے عاری تھا۔
۳- ۳نومبر کے اقدام کے غیرقانونی ہونے کا یہ فطری اور لازمی تقاضا ہے کہ جن ججوں کو اس کے تحت فارغ کیا گیا، وہ غلط تھا اور وہ اس جبری معزولی کے تمام زمانے میں دستور اور قانون کے مطابق جج تھے۔ اسی طرح چیف جسٹس کا عہدہ کبھی خالی نہیں ہوا اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر کا بہ حیثیت چیف جسٹس تقرر غیرقانونی تھا۔ اس لیے ان کے مشورے سے اعلیٰ عدلیہ کے جتنے جج صدر نے مقرر کیے، خواہ وہ مشرف کے دور میں ہوں یا صدر زرداری کے زمانے میں، وہ تمام تقرر غلط اور غیرقانونی تھے اور اس فیصلے کی رُو سے وہ سب جج فارغ ہوگئے یا اپنی اس پوزیشن پر لوٹ گئے جس پر وہ موجودہ تقرر سے پہلے تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ جو ۳نومبر کے اختیارات کے تحت آرڈی ننس کے ذریعے قائم کی گئی تھی، وہ بھی غیرقانونی تھی اور اسے فی الفور ختم کر دیا گیا ہے۔
۴- اسی طرح اس فیصلے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ زرداری گیلانی حکومت نے ۲۰۰۸ء کے فنانس بل کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں جو اضافہ کیا، وہ بھی غلط تھا۔ فنانس بل کے ذریعے تنخواہوں کے لیے مالی سہولت تو بہم پہنچائی جاسکتی ہے، مگر ججوں کی تعداد کے قانون میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ اس فیصلے کے بڑے اہم اور دُور رس اثرات ہوں گے، اس لیے کہ گذشتہ ۱۰،۱۵سال سے حکومتِ وقت فنانس بل کے ذریعے درجنوں قوانین میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرتی رہی ہے، جس پر سینیٹ میں بار بار اعتراض بھی اٹھایا جاتا رہا ہے اور سیاسی تجزیہ نگار بھی اس پر تنقید کرتے رہے ہیں، مگر ہر حکومت نے اس روش کو جاری رکھا ہے۔ اب اس فیصلے کی رُو سے اس دروازے کو بند کردیا گیا ہے۔
۵- اس فیصلے کے ذریعے بڑے واضح انداز میں یہ اصول بھی طے کر دیا گیا ہے کہ جج بھی اسی طرح دستور اور قانون کے پابند ہیں جس طرح باقی تمام ادارے اور افراد۔ بلاشبہہ قانون کی تعبیر کے باب میں ان کی بات حرفِ آخر ہے، لیکن ان کا تقرر، طریق ترقی و تنزل، دستور اور قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہو تو ان کو بھی اسی طرح قانون کی گرفت میں آنا چاہیے، جس طرح باقی تمام شہری آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اعلیٰ عدلیہ کے ۱۰۶ ججوں پر اس فیصلے کی ضرب پڑی ہے اور یہ ایک اچھی مثال ہے۔
۶- گو عدالت کو دستور میں ترمیم کا اختیار نہیں لیکن عدالت دستور میں ترمیم کی ضرورت کی نشان دہی کرسکتی ہے اور ماضی میں بھی کرتی رہی ہے۔ اس فیصلے میں دستور توڑنے والوں کے نظام کے تحت ججوں کے نئے حلف لینے کی روایت پر گرفت کی گئی ہے اور یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ اگر کوئی جج دستور کے شیڈول میں دیے ہوئے حلف سے ہٹ کر کوئی حلف کسی پی سی او کے تحت لیتا ہے تو یہ ایک عدالتی بداخلاقی (judicial misconduct) ہوگی اور ایسے جج کو عدلیہ سے خارج کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے دستور کی دفعہ ۲۰۹ میں ترمیم تجویز کی گئی ہے۔
۷- سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے دستور میں ان ترامیم کو بھی رد کر دیا ہے جو جنرل پرویز مشرف نے ۳نومبر کے اقدام کے تحت کی تھیں۔ اس کے نتیجے میں وہ تمام اقدام اور آرڈی ننس جنھیں دستور کے آرٹیکل AAA-۲۲۷ کی شکل میں تحفظ دیا گیا تھا، وہ سب غیرمؤثر ہوگئے ہیں۔ البتہ عدالت نے ان کو فوراً کالعدم قرار دینے کے بجاے دستور میں مرکزی اور صوبائی آرڈی ننس کے لیے جو مدت مقرر کی ہے (یعنی مرکزی آرڈی ننس کے لیے ۴ مہینے اور صوبائی کے لیے ۳مہینے)، وہ عدالت کے فیصلے کی تاریخ سے دے دی ہے تاکہ مقننہ اس عرصے میں ردوقبول کے عمل کے ذریعے ان کی قسمت کا فیصلہ کرسکے۔ اس کے لیے عدالت نے جس اصول کا سہارا لیا ہے، وہ دستور میں طے کردہ تقسیمِ اختیارات کا نظام ہے۔ اس طرح بظاہر عدالت نے یہ ذمہ داری اپنے اُوپر سے منتقل کرکے پارلیمنٹ کے کندھوں پر ڈال دی ہے، حالانکہ ۳نومبر کے اقدام کو اس کی زندگی کے اولیں لمحے سے کالعدم اور غیرقانونی قرار دینے کا منطقی تقاضا یہ تھا کہ ان آرڈی ننسوں کو جن پر تین،چار مہینے نہیں، ۱۸ مہینے گزر چکے ہیں، کالعدم قرار دیا جاتا۔ لیکن یہاں عدالت نے ’نظریۂ ضرورت‘ کا سہارا لیا ہے اور نظام کو بچانے کی خواہش کی بنیاد پر انھیں اور ایسے بہت سے انتظامی اقدامات کو جن میں صدرزرداری کا حلف بھی شامل ہے سندِجواز دے دی ہے جس پر کچھ حلقوں نے بجاطور پر تنقید کی ہے۔
ہماری نگاہ میں اس فیصلے کے قانونی مضمرات بے حد اہم ہیں اور ملک کو دستور اور قانون کی حکمرانی کی طرف لاتے ہیں۔ اس کا کردار بہت مثبت ہوسکتا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ اس فیصلے کے چند اقتباسات یہاں دے دیں، تاکہ عدالت کی سوچ اسی کے الفاظ میں سب کے سامنے آسکے۔ عدالت کی یہ تصریحات (observations) ہراعتبار سے بے حد اہم ہیں۔ ہم آگے جو تجزیہ پیش کرنا چاہتے ہیں، اس کی ضرورت اور اہمیت کو بھی ان کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے۔
۸- فیصلے کے پیراگراف ۹ اور ۱۰ میں دستور پر فوج کی قیادت کی دست درازیوں کا جس انداز میں ذکر کیا گیا ہے، وہ اس لیے اہم ہے کہ ان تبدیلیوں کو اپنے اپنے دور میں عدالتوں نے جواز (validation ) دیا ہے۔ لیکن جو زبان ان حصوں میں استعمال کی گئی ہے، وہ ماضی سے بہت مختلف ہے۔ البتہ جیساکہ ہم بعد میں عرض کریں گے، عدالت نے اس تجزیے کے قانونی تقاضے اپنے فیصلے میں پورے نہیں کیے، جس کی تشنگی ہرصاحبِ نظر محسوس کرے گا:
۹- تقسیم کے بعد آزادی کے ۶۰ برسوں میں عوام کی بدقسمتی سے مقننہ کے بنائے ہوئے دساتیر کو کئی بار منسوخ کیا گیا اور عوام کی حکمرانی کو نشوونما پانے اور ملک کی سیاست میں گہری جڑیں پکڑنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ۳ نومبر ۲۰۰۷ء سے قبل متعدد بار دستور منسوخ کیا گیا یا معطل کیا گیا اور حکمرانی کے جمہوری نظام کو ختم کر دیا گیا۔ پہلی دفعہ ۱۹۵۶ء کا دستور ۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو منسوخ کیا گیا اور اس وقت کے صدر سکندر مرزا نے مارشل لا نافذ کیا، مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو برخواست کردیا، مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی تحلیل کر دی، تمام سیاسی پارٹیوں کو ختم کر دیا اور اس وقت کے کمانڈر ان چیف جنرل محمد ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔ چند ہی دن بعد سکندر مرزا کی جگہ موخرالذکر نے لے لی۔ ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ء کو پھر اس وقت کے آرمی کے سربراہ جنرل آغا محمد یحییٰ خاں نے ۱۹۶۲ء کا دستور منسوخ کر دیا اور اپنے اعلان (پی ایل ڈی ۱۹۶۹ء مرکزی قوانین ۴۲) کے ذریعے مارشل لا لگا دیا جس کے بعد عارضی دستوری حکم نامہ (پی سی او) نافذ کیا گیا (گزٹ آف پاکستان غیرمعمولی، ۴؍اپریل ۱۹۶۹ء)۔ ۵جولائی ۱۹۷۷ء کو ایک دفعہ پھر اس وقت کے آرمی کے سربراہ جنرل محمد ضیاء الحق نے مارشل لا لگا دیا۔ انھوں نے مارشل لا حکم نامہ (پی ایل ڈی ۱۹۶۹ء، مرکزی قوانین ۳۲۶) کے ذریعے قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کر دی اور ۱۹۷۳ء کے دستور کو معطل کردیا۔ جس کے بعد لاز آرڈر ۱۹۷۷ء نافذ کیا گیا۔ جب یہ دستور بحال ہوا تو بدنامِ زمانہ ۸ویں ترمیم کے ذریعے مسخ شدہ حالت میں بحال ہوا۔
۱۰- بعد میں، جاری جمہوری نظام پر ایک اور حملہ کیا گیا۔ ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء کو اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف نے، جو اب ریٹائرڈ ہیں، ایک دفعہ پھر دستور کو معطل کردیا اور پورا ملک مسلح افواج کے کنٹرول میں لے آیا گیا۔ قومی اسمبلی، سینیٹ، اور صوبائی اسمبلیاں معطل کر دی گئیں۔ ساتھ ہی سینیٹ کے چیئرمین اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر بھی معطل کردیے گئے اور یہ اعلان کیا گیا کہ وزیراعظم، وفاقی وزرا، پارلیمانی سیکرٹری، صوبائی گورنر، صوبائی وزراے اعلیٰ اور ان کے مشیر اپنے منصب پر برقرار نہیں رہے۔ اس کے بعد پی سی او اور ججوں کا حلف نامہ ۲۰۰۰ جاری کیا گیا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے آپ کو چیف ایگزیکٹو قرار دے دیا اور نئے نظام کے تحت ملک پر حکومت کرنا شروع کر دی۔ بعد میں انھوں نے صدر کے منصب پر بھی قبضہ کرلیا اور آنے والے برسوں میں دستور کو ۱۷ویں ترمیم کے ساتھ بحال کیا۔
۸ (vii ) حیرت ہے کہ ماضی میں اس وقت کی عدالتوں نے مہم جوؤں کو نوازنے کے لیے انھیں دستور میں ترمیم کا اختیار دیا جو دراصل ان کے کھلے اور چھپے ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے تھا، لیکن اس دفعہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے پی سی او کے ذریعے یہ اختیارات خود سنبھال لیے اور اپنے مفاد میں متعدد غیردستوری ترامیم کیں۔
اس کے بعد عدالت نے ۳نومبر کے اقدام کی تفصیلات بیان کی ہیں اور اپنے فیصلے کے اطلاقی پہلوئوں میں توجہ کو صرف ۳نومبر کی ایمرجنسی تک محدود کرلیا ہے۔ حالانکہ اس بات کی ضرورت تھی کہ عدالت اپنے نظرثانی (review) کے اختیارات کا بجا طور پر استعمال کرتے ہوئے ماضی میں عدالتوں کے فراہم کردہ جواز اور آمروں کے دستور میں ترمیم کے حق پر واضح فیصلہ دیتی، تاکہ کم از کم دستور اور اس کی تعبیر کے باب میں دستور پر فوجی قیادتوں کی دست درازیوں کا دروازہ حتمی طور پر بند کیا جاتا۔نہ معلوم کس مصلحت کی بنا پر عدالت نے اپنی باقی توجہ صرف ۳نومبر پر مرکوز رکھی اور ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء تک کے اقدام اور آٹھویں اور سترھویں ترمیم کو قابلِ مذمت (obnoxious) قرار دینے کے باوجود ’نظریۂ ضرورت‘ کے اس قاتلانہ کردار کو ہمیشہ کے لیے دفن نہیں کیا۔ اس بات کی ضرورت تھی کہ عدالت صاف الفاظ میں یہ وضاحت کرتی کہ:
ا- دستور کو معطل کرنے، منسوخ کرنے یا غیرمؤثر کرنے کی ہر کوشش بغاوت ہے اور دستور کی دفعہ ۶ کے تحت آتی ہے۔ ایسا کرنے والے اور ایسا کرنے والے کی معاونت کرنے والے تمام افراد ایک سنگین جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور ان کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔
ب- اگرچہ یہ بات تو فیصلے میں آگئی ہے کہ کسی جج کو پی سی او کے تحت حلف نہیں لینا چاہیے، لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کسی عدالت کو پی سی او کو سندِجواز دینے کا اختیار نہیں۔ اور جو ایسا کرے گا، وہ بھی دستور کی دفعہ ۶ کی زد میں آئے گا۔
ج- تیسری بات جسے دو ٹوک انداز میں عدالت کے فیصلے میں آنا چاہیے تھا، وہ یہ ہے کہ دستور میں ترمیم کا اختیار صرف پارلیمنٹ کو ہے جو صرف دستور میں دیے ہوئے طریقے کے مطابق کوئی ترمیم کرسکتی ہے۔ کسی عدالت کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ خود دستور میں ترمیم کرے یا کسی کو ترمیم کرنے کا اختیار دے یا کسی غاصب کی طے کردہ ترمیم کو دستور کا حصہ تصور کرے۔
یہ تین بنیادی اصول اس فیصلے میں آنا چاہییں تھے، لیکن نگاہیں ان کو تلاش کرتی ہیں، ناکام ہوکر لوٹ آتی ہیں۔
۸- عدالت نے بجاطور پر یہ فیصلہ دیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کا اقدام قطعاً غیرقانونی تھا، ملاحظہ ہو پیراگراف ۱۳ (۱):
(i) ۱۳- جنرل (ر) پرویز مشرف نے ایمرجنسی پلس اور پی سی او کے پردے میں خود حاصل کردہ اختیارات کے تحت دستور میں ترامیم کیں جو سب غیردستوری ہیں، بغیر اختیار کے ہیں، بغیر کسی قانونی بنیاد کے ہیں اور اس لیے کسی قانونی نتائج کے بغیر ہیں۔
لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس نتیجے کے باوجود اور اس اقدام کے تحت عدالتوں کے نظام میں تقرریوں اور ترقیوں کے اقدام کو کالعدم کرنے کے باوجود، غیردستوری عدالتوں کے بہت سے اقدامات پر اور غیردستوری عدالتوں کے ہاتھوں حلف لینے والی سیاسی تقرریوں پر کوئی گرفت نہیں کی گئی، حالانکہ عدالت کے لیے یہ موقع تھا کہ ایسے بیش تر اقدام کو ’نظرثانی‘ (review ) اور ’تجدید‘ (renewal) سے مشروط قرار دیتی، تاکہ ’نظریۂ ضرورت‘ کو ہمیشہ کے لیے دفن کیا جاسکتا۔ ایسے معاملات میں عدالت نے بدنامِ زمانہ ’نظریۂ ضرورت‘ کا سہارا لیا ہے، حالانکہ سیاسی نظام کو تہ و بالا کیے بغیر، ایک متعین مدت کے اندر ایسے تمام قوانین، ترجیحات، احکامات کا دوبارہ جائزہ لیا جاسکتا ہے اور تمام تقرریوں کا نیا حلف ہوسکتا ہے، جو دستور کے مطابق ہو۔ اس سے نظام کے پٹڑی سے اُترنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ اس طرح ایک غیرقانونی عمل کو ’قانونی‘ بنانے کی روایت ختم کی جاسکتی تھی۔ لیکن عدالت نے اسی نظریۂ ضرورت کا سہارا لیا ہے، خواہ جزوی طور پر ہی سہی:
۲۲ (ii) یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کو ہرگز خالی نہیں ہوا اور اس کے نتیجے میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ مسٹر جسٹس عبدالحمید ڈوگر کا بہ حیثیت چیف جسٹس آف پاکستان تقرر غیردستوری تھا، ابتدا ہی سے بے بنیاد تھا اور کسی قانونی اثر کے بغیر تھا۔
آگے جو کچھ کہا جائے اس کے باوجود جسٹس عبدالحمید ڈوگر کا بہ حیثیت جسٹس آف پاکستان مذکورہ غیردستوری تقرر ان کے کسی انتظامی یا مالی اقدامات کے جواز کو متاثر نہیں کرے گا۔ اور نہ کسی حلف کو جو اس منصب کے معمول کی کارروائی کے دوران ان کے سامنے لیا گیا ہو۔
۲۲ (v) سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی بنچ نے فیصلے کیے ہوں، حکم نامے جاری کیے ہوں یا decrees منظر کیے ہوں، جو مذکورہ ججوں پر مشتمل ہوں یا وہ ان میں شامل ہوں، ان کو ملک اسد علی کیس پی ایل ڈی ۱۹۹۸، ایس سی ۱۶۱ میں طے شدہ دستور کے مطابق تحفظ دیا جا رہا ہے۔
اس اہم فیصلے کے یہ تضادات نگاہوں کو بہت کھٹکتے ہیں۔ اگر ۱۰۶ ججوں کو فارغ کرنے سے پاکستان میں عدل کا نظام تہ و بالا نہیں ہوا تو چند سیاسی تبدیلیوں، عہدوں کے نئے حلف اور قوانین یا اقدامات کو ایک متعین مدت کے اندر اندر دوبارہ روبہ عمل لانے اور تصحیح (rectify) کرنے سے کون سا آسمان ٹوٹ پڑتا۔ اگر صوبہ بلوچستان کی عدالت کے سارے جج اس فیصلے سے متاثر ہوئے تو کیا غضب ہوگیا۔ ۴۸گھنٹے میں نئی تقرریاں ہوگئیں اور عدالتی عمل کی گاڑی چلنے لگی۔ جب تک اس باب میں سمجھوتے کی روش کو ترک نہیں کیا جائے گا، صحیح مثال قائم نہیں ہوسکے گی۔ اس فیصلے کی نظریاتی اور قانونی بنیادوں اور فیصلے کی زبان اور تجزیے اور تحلیل کے باوجود اسی پرانے ’نظریۂ ضرورت‘ کا سہارا لینا، یقینا اضطراب کا باعث ہے۔ بہت سے اقدامات کا ذکر کر کے جو ۳نومبر والے اختیارات کے تحت ہوئے ہیں، سیاسی نظام کے تحفظ کے نام پر ضرورت کے تحت انھیں جواز دینا تشویش ناک ہے:
(vi) ان اقدامات کو زمانۂ قدیم کے اصول Salius Populi Est Surmalex (جس کا اظہار پی ایل ڈی ۱۹۷۲ء ایس سی ۱۳۹ میں کیا گیا ہے) کے مطابق مکمل تحفظ حاصل ہے۔
عدالتی فیصلے کے ان مثبت اور قابلِ غور پہلوئوں کی نشان دہی کے بعد اب ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس اہم فیصلے کے بعد کرنے کے بڑے بڑے کام کیا ہیں:
۱- عدالت کا تفصیلی فیصلہ ابھی آنا ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس میں جس حد تک بھی ممکن ہو، جن تضادات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یا جن پہلوئوں کی مزید وضاحت کی ضرورت ہے، ان کا اس میں احاطہ کرلیا جائے۔ اس طرح یہ فیصلہ ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی اصلاح کا ذریعہ بھی بنے گا اور آیندہ کے لیے طالع آزمائوں اور ان کے اعوان و انصار کا راستہ روکنے کا کردار بھی ادا کرسکے گا۔
۲- عدلیہ میں نئی تقرریوں کو خالص اہلیت کی بنیادوں پر کرنے اور حکومتِ وقت کی سیاسی دراندازیوں کا دروازہ بند کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جہاں عدلیہ اور انتظامیہ میں ’اختیارات کی مکمل علیحدگی‘ کے اصول اور ضابطوں کی پابندی کی جائے، وہیں ذاتی پسند و ناپسند کا دروازہ بھی بند کردیا جائے۔ اس لیے پارلیمنٹ کو ججوں کی تقرری کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر طے کرنا چاہیے اور اس میں حکومت اور حزبِ اختلا ف کو مل کر ایک متفقہ معروضی اور شفاف طریق کار طے کر دینا چاہیے۔ یہ کام فوری توجہ کا متقاضی ہے۔
۳- وہ تمام قوانین اور آرڈی ننس جو جنرل (ر) پرویز مشرف کے پورے دورِ حکومت میں نافذ ہوئے ہیں، ان کا فوری طور پر جائزہ لیا جائے۔ جن کو ختم کرنا ضروری ہو، (جیسے شیڈول ۶ کے تحت تحفظ یافتہ قوانین یا این آر او وغیرہ) ان کو فی الفور ختم کیا جائے۔ جن کو ترمیم کے ذریعے دستور اور جمہوری اصولوں سے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہو، ان کے بارے میں فوری نئی قانون سازی کی جائے۔ اصل مشکل یہ ہے کہ پارلیمنٹ نے ۱۸ مہینے گزر جانے کے باوجود دستور کے بگاڑ کی اصلاح اور ضروری قانون سازی کے باب میں مجرمانہ غفلت برتی ہے، اور اس کی اولین ذمہ داری پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں پر آتی ہے۔ اگرچہ سترھویں ترمیم کو ختم کرنے کا غلغلہ ہے، مگر ۱۸مہینے میں اس منزل کی جانب ایک چھوٹا سا قدم بھی نہیں اٹھایا گیا، حالانکہ یہ ’میثاق جمہوریت‘ (COD) اور ۷جولائی ۲۰۰۷ء میں لندن کے مشترکہ اعلامیے کا حصہ ہے۔ تمام بڑی جماعتوں نے اپنے اپنے منشور میں اس کا وعدہ بھی کیا ہے اور صدرزرداری، پارلیمنٹ سے اپنے دونوں خطابات میں یہ تحفہ دینے کا اعلان بھی کرچکے ہیں مگر ان کے بارے میں تو یہ کہاجاسکتا ہے ’’وہ وعدہ ہی کیا جسے وہ وفا کردیں!‘‘
۴- میڈیا اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ اگر حکومت ان بنیادی کاموں کے سلسلے میں غفلت بلکہ مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہے، تو وہ ان امور کو اپنی توجہ کا محور بنائیں اور راے عامہ کو ہموار بلکہ بیدار کریں۔ پارلیمنٹ میں پرائیویٹ ممبربل کی شکل میں اہم ایشو پر متبادل قوانین کو پیش کریں۔ ہمیں اچھی طرح یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ دستور، آزادی اور حقوق کا تحفظ، جدوجہد اور قربانیوں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ۰۹-۲۰۰۷ء کی عدلیہ کی بحالی کی تحریک کے آئینے میں سیاسی جدوجہد کی اہمیت کا نقشہ دیکھا جاسکتا ہے۔ آیندہ کے لیے دستور اور جمہوری نظام کو فوجی یا دوسرے طالع آزمائوں کی یورش سے بچانا اسی وقت ممکن ہے، جب پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی اپنا کردار بڑھ چڑھ کر ادا کرے اور غاصبوں کے مقابلے کے لیے سینہ سپر ہوجائیں۔ جن حالات سے آج پاکستان دوچار ہے، ان کا تقاضا ہے کہ جس طرح عوام نے قیامِ پاکستان کے لیے جدوجہد کی اسی طرح پاکستان کی آزادی، خودمختاری، اسلامی شناخت اور انصاف پر مبنی فلاحی اور جمہوری نظام کے قیام، دستور کی حفاظت اور قانون کی حکمرانی کے قیام اور آزاد عدلیہ کی حفاظت کے لیے بھرپور جدوجہد کریں۔
جہدِ پیہم اور مسلسل قربانیوں کے بغیر علامہ اقبال اور قائداعظم کے تصور اور وژن کے مطابق معاشرے اور ریاست کی تعمیر ناممکن ہے۔ اقبال نے یہی پیغام ہمیں دیا ہے کہ ؎
یا مُردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے
۵- ان تمام دستوری، پارلیمانی، عدالتی اور عوامی کاموں کے ساتھ ساتھ جو سب سے اہم اقدام ضروری ہے، وہ احتساب ہے۔ عوام اور عدلیہ دونوں نے دوٹوک انداز میں یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا اقتدار غاصبانہ اور ناجائزتھا۔ جنرل موصوف نے دستور کو توڑ کر دفعہ۶ کے تحت بغاوت (treason) کا ارتکاب کیا ہے۔ اس کے دورِاقتدار میں پاکستان کی آزادی، نظریاتی تشخص، جمہوری عمل، عوام کے حقوق، صوبوں کے مفادات پامال ہوئے ہیں۔ پھر فوج اور عوام میں دُوری ہی نہیں تصادم کی کیفیت پیدا کردی گئی ہے۔ ملک کو عملاً امریکا کی ایک کالونی بنادیا گیا ہے۔ اس افسوس ناک منظرنامے کا تقاضا ہے کہ دستور اور قانون کے تحت جنرل مشرف کا بھرپور محاسبہ ہو، اسے صفائی کا پورا موقع دیا جائے۔ جن جرائم کا اس نے ارتکاب کیا ہے، اس کے بعد محض این آر او یا مغربی اقوام کے دبائو میں اسے قانون کی گرفت سے باہر رکھنا اس قوم پر ظلم اور مستقبل کے طالع آزمائوں کے لیے غلط پیغام ہوگا۔ ہم انتقام کو گناہ سمجھتے ہیں، لیکن انصاف کا قیام دین اور دنیا دونوں کا تقاضا ہے۔ صدر زرداری صاحب توجنرل پرویز مشرف کو تحفظ دے ہی رہے تھے، لیکن اب وزیراعظم گیلانی نے بھی عدالت کے فیصلے پر اولیں ردعمل میں اُلٹی زقند لگائی ہے۔ اس بات کا اعتراف کرنے کے بعد کہ ’’عدالت نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے، اب دستور کے مطابق پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا ہے‘‘، اب ایک طرف تو فرما رہے ہیں کہ ’’میں نے معاف کیا‘‘ (جیسے مشرف کے ساتھ ان کی کوئی ذاتی رنجش تھی جسے سبک سر بن کر وہ معاف کر رہے ہیں۔ سمجھنا چاہیے کہ مشرف آپ کا ذاتی نہیں، قومی مجرم اور غدار ہے۔ اس نے حدوداللہ تو پامال کیے ہی، بندوں کی حق تلفیاں بھی کیں۔ آپ حقوق العباد کے ضمن میں کیسے معافی دے سکتے ہیں)، اور دوسری طرف ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کا راگ الاپا جا رہا ہے جو سیاسی شاعری ہے اور محض ایک فریب کاری اور مجرموں کو تحفظ فراہم کرنے کے مترادف ہے۔
ایک اور کھیل بھی کھیلا جا رہا ہے، جس میں یہ نیا فلسفہ گھڑ کے بیان کیا جا رہا ہے کہ: ’’پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد ہی کے ذریعے مشرف کا محاسبہ ہوسکتا ہے‘‘۔ یہ بھی ایک فریب کاری ہے۔ ۱۹۷۳ء اور ۱۹۷۴ء کے بغاوت ایکٹ کی رُو سے دفعہ ۶ کے تحت مقدمہ چلانے کی ذمہ داری مرکزی حکومت پر ہے، اور صرف اس کے ایما پر اس دفعہ کے تحت مقدمہ دائر کیا جاسکتا ہے۔ یہ قانون اپنی جگہ اس اعتبار سے بہت ناقص ہے۔ غداری اور بغاوت پوری قوم کے خلاف جرم ہے، اور ہر فرد اس کی زد میں آتا ہے۔ پارلیمنٹ میں بار بار یہ آواز اٹھائی گئی ہے کہ کسی بھی شہری کو اس قانون کے تحت مقدمہ دائر کرنے کا اختیار حاصل ہونا چاہیے، لیکن موجودہ قانونی پوزیشن یہی ہے کہ صرف مرکزی حکومت کی مقرر کردہ اہل اتھارٹی ہی اس جرم کے مرتکب فرد کے خلاف مقدمہ دائر کرسکتی ہے۔ اس میں پارلیمنٹ یا کسی اور کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اس لیے پوری قوم کو یک زبان ہوکر مشرف پر دفعہ ۶ کے تحت مقدمے کا مطالبہ کرنا چاہیے اور حکومت کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ قوم کو اس غاصب کے مقابلے میں انصاف دلائے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ حکومت عوامی دبائو کے بغیر یہ اقدام نہیں اٹھائے گی۔ اگر آیندہ طالع آزماؤں کا دروازہ بند کرنا ہے تو اس مجرم کو جسے مغربی اقوام پناہ دے رہی ہیں، کیفرکردار تک پہنچانا ضروری ہے۔ یہ انصاف کا تقاضا ہے اور یہ آیندہ کے لیے ملک اور دستور کی سلامتی کے تحفظ کے لیے بھی ضروری ہے۔
۶- ویسے تو جتنے قوانین اور آرڈی ننس مشرف دور میں آئے ہیں، ان سب کے جائزے کی ضرورت ہے لیکن سب سے اہم آرڈی ننس جسے منسوخ کرنا فوری ضرورت ہے، وہ این آراو ہے۔ یہ قانون شرم ناک تو ہے ہی، لیکن اس کے سایے تلے مجرموں اور قوم کی دولت لوٹنے اور معصوم انسانوں کو قتل کرنے اور غائب کرنے کے مرتکب افراد نے قانون کی گرفت سے خلاصی حاصل کر لی ہے اور لوٹ مار کے نئے کاروبار کرنے میں مشغول ہیں۔ یہ ایک قومی جرم ہے۔ احتساب کے بغیر کوئی نظام ٹھیک ٹھیک نہیں چل سکتا۔
بدعنوانی پورے ملک کو گھن کی طرح کھائے جارہی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ۲۰۰۹ء کے جائزے کے مطابق پاکستان کی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا ۱۵ فی صد کرپشن کی وجہ سے چند لٹیروں کے ہاتھوں میں جا رہا ہے اور مشرف کے دورِحکومت میں ملک میں کرپشن میں ۴۰۰فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ این آر او بدعنوانی کو تحفظ دینے کا کالا قانون ہے۔ امریکا، برطانیہ، مشرف اور پیپلزپارٹی کی قیادت سب اس کالے قانون کی تشکیل اور تحفظ کے جرم میں برابر کی شریک ہیں۔ زرداری صاحب، جنرل مشرف کو تحفظ بھی اسی کالے قانون کی وجہ سے دے رہے ہیں۔ ہماری نگاہ میں محاسبے کا قانون اچھی حکمرانی کے لیے ازبس ضروری ہے۔ بلاشبہہ اسے اعلیٰ جوڈیشل ادارے کے ذریعے انجام دیا جانا چاہیے۔ سارا عمل شفاف ہونا چاہیے۔ ہر شخص کو اپنے دفاع کا پورا موقع دیا جانا چاہیے۔ یہ انتظام سب کے لیے ہونا چاہیے۔ جس میں سیاست دان، سرکاری عہدے دار، جرنیل، جج اور تاجر سب کا احتساب ہو۔ عدالتی عمل کے ذریعے جس کا جرم ثابت ہو، اسے قرارواقعی سزا ملنی چاہیے اور لوٹی ہوئی دولت وطنِ عزیز میں واپس آنی چاہیے۔ اگر سیاسی انتقام کے لیے لوگوں کو نشانہ بنایا جائے تو وہ غلط ہے اور ایسا کرنے والوں کو سزا ملنا چاہیے، لیکن اگر فی الحقیقت کچھ لوگوں نے بڑے پیمانے پر بدعنوانی کی ہے اور قومی خزانے کو لوٹا ہے تو ان کو معاف کردینا ناقابلِ معافی جرم ہے۔
جن لوگوں پر دسیوں افراد کے قتل کے مقدمے تھے، اس قانون کے تحت انھیں کھلی چھوٹ (carte blanche) مل گئی ہے۔ جن کے اربوں ڈالر بیرونِ ملک میں موجود ہیں اور ان میں سے کچھ کی تفصیل انٹرنیٹ پر موجود ہے (مثلاً ویکی پیڈیا کی ویب سائٹ پر بنکوں کے ناموں کے تعین کے ساتھ معلومات موجود ہیں) تو آخر کس دلیل پر ان کو کھلی چھٹی دی جارہی ہے؟ جو شخص بھی پبلک لائف میں ہے، اس کا فرض ہے کہ اپنی دولت کے ذرائع کا اعلان کرے اور ثابت کرے کہ اس نے اسے جائز ذرائع سے کمایا ہے۔ اگروہ یہ نہیں کرسکتا تو اس کا احتساب ہونا چاہیے۔ محض یہ بات کہ ماضی میں مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوا، کوئی دلیل نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ کس طرح مقدمات میں پیشیاں لے لے کر فیصلے کو تعویق میں ڈالا گیا ہے۔ حتیٰ کہ جھوٹے حلف نامے اور بیماریوں کے سرٹیفکیٹ دیے گئے ہیں۔ ان سب حیلوں بہانوں کے ساتھ پاک دامنی کا دعویٰ چہ معنی دارد۔
احتساب سب کا ہونا چاہیے، کسی کو بھی اس سے استثنا نہیں دیا جاسکتا۔ اس لیے این آر او کو فوری طور پر ختم ہونا چاہیے اور جو افراد اس کالے قانون کی وجہ سے فیض یاب ہوئے ہیں، ان کو اپنی پاک دامنی عدالتی عمل کے ذریعے ثابت کرنا ہوگی۔ اگر مشرف کا محاسبہ اور این آر او میں پناہ لینے والے پردہ نشینوں کا کھلا اور شفاف احتساب نہیں ہوتا، تو نہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے اور نہ ملک کو کرپشن سے پاک کیا جاسکے گا۔ ۳۱ جولائی ۲۰۰۹ء کے فیصلے کا یہ بھی اتنا ہی اہم تقاضا ہے جتنے دوسرے دستوری اور قانونی اقدامات___ اس لیے جنرل (ر) پرویز مشرف پر دفعہ ۶ کے تحت مقدمہ اور این آر او کو ختم کرکے اس کے تحت رخصت لینے والے تمام افراد کا اعلیٰ عدالتی ٹریبونل کے سامنے احتساب اور متعین وقت میں ان کا فیصلہ ملک کو جمہوریت اور ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے ضروری ہے ع
گر یہ نہیں تو بابا، پھر سب کہانیاں ہیں!
۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی زندگی میں ایک تاریخی لمحے کی حیثیت رکھتا ہے۔ برعظیم پر ہزار سال حکومت کرنے کے بعد برطانیہ کی ۲۰۰ غلامی کے طوق سے نجات کی جدوجہد نے، ۲۰ویں صدی کے دوسرے ربعے میں ایک غیرمعمولی صورت اختیار کر لی تھی۔ آزادی کی تحریک، جس کی قیادت تحریکِ خلافت کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی، سقوطِ خلافت کے بعد ایک نئی دلدل میں پھنستی نظر آرہی تھی۔ برطانوی حکومت اور انڈین نیشنل کانگریس دونوں نے متحدہ قومیت کا جال کچھ اس طرح بُنا تھا کہ دام ہم رنگِ زمین، کچھ اس طرح بچھایا تھا کہ اگر مسلمان اس جال میں پھنس جاتے تو مسلمان، برعظیم کی آبادی کا ایک چوتھائی ہونے کے باوجود آزادی سے محروم ہی رہتے اور خطرہ تھا کہ انگریز کی غلامی سے نکل کر ہندو کی غلامی میں چلے جاتے۔ان حالات میں مسلمانوں کی قیادت نے اپنے دینی، سیاسی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت کی خاطر تقسیم ملک کا راستہ اختیار کیا اور بالآخر قائداعظم کی قیادت میں ایک تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء اور اپریل ۱۹۴۶ء کے مسلم لیگ کنونشن کی قراردادوں کی روشنی میں ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو جو ۲۷ رمضان المبارک کا مبارک دن بھی تھا، ایک آزاد اسلامی ملک کے قیام کی شکل میں صبحِ نو کا دیدار کیا۔
اس جدوجہد میں مسلمانوں نے کتنی بڑی قربانیاں پیش کیں؟ ان کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں نے ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کی خاطر اپنے لیے ہندوئوں کی عددی بالادستی میں نیم آزادی کی زندگی گزارنے پر بہ رضا و رغبت آمادگی کا اظہار کیا، اور برعظیم کے مسلمانوں نے مسلم کش فسادات میں لاکھوں انسانوں کی جانوں اور ہزاروں عصمت مآب خواتین کی عزتوں کی قربانی پیش کی۔ ایک کروڑ سے زیادہ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور نہایت بے سروسامانی کے حالات میں اس اطمینان کے ساتھ پاکستان نے اپنی زندگی کے سفر کا آغاز کیا کہ یہ سب قربانی ایک اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے دی گئی ہے، یعنی آزادی اور اسلام کے اصولوں کی روشنی میں ایک مبنی برحق و انصاف اجتماعی نظام کا قیام۔ جن آنکھوں نے خون میں لت پت اور لٹے پٹے قافلوں کو پاکستان کی سرزمین میں داخل ہوتے ہی سجدہ ریز ہوتے دیکھا ہے، وہ ان ساری ہی مصیبتوں اور صعوبتوں کی آغوش میں حاصل ہونے والی اس عظیم کامیابی اور الٰہی انعام کے لذت آشنا ہیں۔
۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء ایک دور کے اختتام اور ایک نئے دور کے آغاز کا تاریخی لمحہ ہے۔ آج ۶۲ سال گزرنے کے بعد بھی اس لمحے کی یاد ہوا کے ایک معطر جھونکے کی مانند ہے۔ اللہ کے اس انعام اور برعظیم کے مسلمانوں کی اس کامیاب جدوجہد پر جتنا بھی رب غفور و رحیم کا شکر ادا کیا جائے، کم ہے___ لیکن تشکر کے یہ جذبات اپنی آغوش میں ایک بڑی دکھ بھری داستان لیے ہوئے ہیں اور یہ داستان ملک کی مختلف قیادتوں کی بے وفائی، نااہلی اور خودسری کے ان احوال سے عبارت ہے، جن کے نتیجے میں ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو قائم ہونے والا پاکستان آج تک ان مقاصد کا گہوارا اور ان تمنائوں اور عزائم کی زندہ مثال نہ بن سکا، جن کی خاطر یہ ملک قائم ہوا تھا اور ملت اسلامیہ پاک و ہند نے بیش بہا قربانیاں دی تھیں۔
۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو ’قرارداد مقاصد‘ کی شکل میں اپنی قومی منزل کا تعین اور اعلان کرنے کے باوجود، ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے اصل منزل کی طرف پیش قدمی کے بجاے مفادات کی سیاست اور ذاتی اور گروہی اہداف کے حصول کی جنگ میں ملک و قوم کو جھونک دیا۔ ۱۹۵۳ء میں لاہور میں مختصر مدت کے لیے نافذ کردہ مارشل لا کے تجربے کے بعد، فوجی قیادت نے ۱۹۵۸ء میں پورے پاکستان پر مارشل لا کی شکل میں شب خون مارا ۔ گاڑی پٹڑی سے اُتر گئی، وہ دن اور آج کا دن کہ قوم کی یہ گاڑی پٹڑی پر رواں دواں نہ ہوسکی۔
۱۹۷۱ء کا سانحہ رونما ہوا، جس نے ملک کو دولخت کر دیا۔ ۱۹۷۳ء کے متفق علیہ دستور کی شکل میں امید کی نئی کرن رونما ہوئی لیکن اس وقت کی سیاسی قیادت نے اس دستور کے مطابق نظامِ زندگی کو چلانے کا راستہ اختیار کرنے کے بجاے پہلے ہی دن سے اس سے انحراف کی راہ اختیار کی۔ جس دن دستور نافذ ہوا، اسی دن بنیادی حقوق کو معطل کرکے ملک کو ایمرجنسی کی گرفت میں دے دیا گیا۔ پھر ۱۹۷۷ء میں ایک بڑی عوامی تحریک ’پاکستان قومی اتحاد‘ کی شکل میں اُبھری مگر وہ بھی کامیابی کے دہانے تک پہنچنے کے بعد غیرمؤثر ہوگئی کہ اس تحریک کی منزل کو مارشل لا نے کھوٹا کردیا۔ گویا کہ متفقہ دستور، سیاست دانوں اور ججوں کی خواہشوں اور فیصلوں کا تختۂ مشق بن گیا۔ بالآخر ایک اور طالع آزما نے ۱۲ نومبر ۱۹۹۹ء کو دستور کو معطل کر کے ملک و قوم پر نہ صرف شخصی آمریت کی طویل رات مسلط کر دی، بلکہ نائن الیون کے بعد ملک کی آزادی اور حاکمیت تک کو دائو پر لگا دیا جس کے نتیجے میں قومی زندگی میں امریکی عمل دخل اتنا بڑھ گیا کہ اب پاکستان ایک امریکی کالونی کا منظر پیش کرتا ہے۔ اس امریکی ایجنڈے کے مطابق حکمران سارے اختیارات بھی اپنے ہاتھوں میں مرتکز کررہے ہیں اور قیادت کی تبدیلیاں بھی باہر والوں کے اشارۂ ابرو پر ہو رہی ہیں، لیکن اللہ کا قانون اور مشیت اپنی جگہ ہے، جس کا ایک نظارہ ہم نے ۲۰۰۷ء میں دیکھا۔
۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو مطلق العنان فوجی آمر نے عدالت عظمیٰ کو اپنی گرفت میں لانے کے لیے ایک بھرپور وار کیا، مگر یہی وار حالات کو بدلنے کا ذریعہ بن گیا۔ وکلا کی قیادت میں قوم نے آمریت کے خلاف ایک نئی جدوجہد کا آغاز کیا۔ جس کے نتیجے میں فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کا انعقاد ہوا اور ۱۶ مارچ ۲۰۰۹ء کو عدلیہ کی بحالی کا ایک مرحلہ مکمل ہوا۔
۱۴؍اگست ۲۰۰۹ء ایسے حالات میں آرہا ہے جب ایک طرف امریکا وطن عزیز اور اس پورے علاقے کے لیے نئے جال بُن رہا ہے اور ملک کی موجودہ قیادت خصوصیت سے صدر آصف علی زرداری عملاً اس کے آلۂ کار بن کر اپنی ہی قوم، اس کے عزائم اور احساسات کے خلاف برسرِجنگ ہیں۔ مزید یہ کہ وہ فوج اور قوم کو لڑانے کے سامراجی کھیل میں شریک ہیں۔ دوسری طرف قوم کا حسّاس طبقہ امریکی غلامی کی اس بلا کا مقابلہ کرنے کے لیے بیدار ہورہا ہے۔ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریک کا آغاز ہوچکا ہے۔’گو امریکا گو‘ اور ’امریکی غلامی نامنظور‘ کے نعروں سے ملک کے دروبام گونجنے لگے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ دستور کی بالادستی کے قیام کے لیے ایک روشن کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس پس منظر میں ۱۴؍اگست جہاں ایک یومِ تشکر ہے، وہیں ایک یومِ احتساب بھی ہے، تاکہ پوری دیانت اور حقیقت پسندی کے ساتھ یہ متعین کیا جاسکے کہ خرابی کی اصل وجوہ کیا ہیں، اور اصلاح کی جدوجہد کا حقیقی ایجنڈا کیا ہونا چاہیے۔ ہم اس موقع پر قوم اور اس کی سیاسی، دینی اور عسکری قیادت کو انھی امور پر غوروفکر کی دعوت دے رہے ہیں۔
ملک و قوم کو درپیش اصل مسائل اور چیلنجوں پر گفتگو کرنے سے پہلے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ ان تین اہم اور خطرناک مغالطوں کا پردہ چاک کریں جو دراصل اہم نظریاتی، سیاسی اور نفسیاتی حملے ہیں، اور جن کا تانا بانا بڑی عیاری اور چابک دستی سے عالمی سطح پر پاکستان دشمن قوتوں اور بدقسمتی سے خود ملک میں کارفرما کچھ عناصر کی ملی بھگت سے بُنا جا رہا ہے۔ ان میں سے ایک کا تعلق پاکستان کی شناخت اور اس کے مستقبل سے بڑا گہرا ہے۔ پاکستان کے وجود کے لیے اصل خطرہ اگر کوئی ہے تووہ ان ہی سوچے سمجھے مغالطوں سے ہے۔
ہم آغاز ہی میں یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ان حقیقی خطرات کو جو افراد محض ’سازشی نظریہ‘ کہہ کر نظرانداز کرنا چاہتے ہیں، وہ عالمی سیاست کے زمینی حقائق سے صرفِ نظر کررہے ہیں۔ وہ اس سنجیدہ مسئلے کو محض ایک ’ذہنی خوف‘ کہہ کر تاریخ کی کھلی کھلی تنبیہات سے آنکھیں بند کر رہے ہیں اور قوم کو دھوکا دینے کی مذموم کوششوں کا شکار ہورہے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان خطرات کا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کیا جائے۔
پاکستان کا قیام اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے، اس کا اندازہ اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب تقسیم سے قبل کے ان حالات پر نگاہ ڈالی جائے جن سے مسلمان اس وقت دوچار تھے، جو برطانوی استعمار اور ہندو اکثریت کے گٹھ جوڑ کے پیدا کردہ تھے۔ اقتدار سے محرومی کے ۲۰۰ برسوں میں مسلمان ہر اعتبار سے پس ماندگی کا شکار تھے اور زندگی کے ہر میدان میں ان کے لیے معاشی ترقی اور نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت اور فروغ کو ناممکن بنا دیا گیا تھا۔ پاکستان کی مختلف قیادتوں کی تمام کوتاہیوں اور ناکامیوں کے باوجود زندگی کے ہرشعبے میں جو مواقع اس آزاد مملکت میں مسلمانوں کو آج حاصل ہیں، ان کا مقابلہ بھارت کے ۱۵ سے ۲۰کروڑ مسلمانوں کی زبوں حالی سے کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک کا قیام کتنا بڑا انعام ہے، جس کی قدر اس قوم کا ایک حصہ نہیں کر رہا۔ حال ہی میں بھارت میں سچر کمیشن کی جو رپورٹ آئی ہے اس میں سرکاری طور پر اعتراف کیا گیا ہے کہ آبادی میں مسلمانوں کا حصہ ساڑھے بارہ سے ۲۵ فی صد ہے لیکن زندگی کے ہرشعبے میں ان کی نمایندگی مشکل سے دو اڑھائی فی صد ہے۔
بلاشبہہ ہماری قیادت کی روح فرسا غلطیوں اور بھارت کی جارحانہ سیاسی مداخلت اور فوج کشی کے نتیجے میں ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان، پاکستان سے جدا ہوگیا، لیکن بھارت کی تمام تر کوششوں اور ریشہ دوانیوں کے باوجود، بنگلہ دیش نے اپنا آزاد اور مسلمان تشخص باقی رکھا ہے۔ بھارت اور بنگلہ قوم پرستوں کی خواہش کے باوجود مشرقی اور مغربی بنگال ایک نہ ہوسکے۔ بنگلہ دیش برعظیم میں ایک دوسری مسلم مملکت کی حیثیت سے قائم ہے اور ترقی کر رہا ہے۔ اس طرح برعظیم میں یہ دو آزاد مسلمان مملکتیں ہیں، جو بھارت کی متعصب ہندو قیادت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہیں اور مختلف انداز میں بھارت کی سیاسی اور معاشی اور سفارتی سازشوں کا ہدف بنی ہوئی ہیں۔ بھارت کے دانش وروں اور نام نہاد پالیسی سازوں کی آواز میں آواز ملانے میں، آج امریکا اور برطانیہ کے کئی تھنک ٹینک ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف ہیں اور سب کے ہاں ٹیپ کا بند ایک ہی ہے: پاکستان کا قیام ایک غلطی تھا اور پاکستان، ان کے خیال میں چند برسوں اور کچھ کی نگاہ میں تو چند مہینوں اور ہفتوں کا مہمان ہے۔
اس سلسلے میں ایک بھارتی دانش ور کپیل کومیرڈ کا ایک زہریلا اور شرانگیز مضمون لندن کے اخبار گارڈین میں ۱۴ جون ۲۰۰۹ء کو شائع ہوا ہے:’’پاکستان کا ٹوٹنا اَٹل ہے اور ۲۰سال کے اندر پاکستان ختم ہوجائے گا‘‘۔ موصوف نے صدر زرداری کے اس ارشاد کو بھی اپنی تائید میں پیش کیا ہے کہ: ’’اگر اس ملک میں جمہوریت ناکام ہوتی ہے، اگر دنیا جمہوریت کی مدد نہیں کرتی، پھر کچھ بھی ممکن ہے‘‘۔
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
ہم صاف لفظوں میں اس امر کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ نہ پاکستان کا قیام کسی درجے میں بھی کوئی غلطی تھا، نہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے، اور نہ پاکستان کسی طالبانیت کے خطرے کی زد میں ہے۔ یہ تینوں مغالطے امریکا کی عالمی سیاست کو آگے بڑھاوا دینے کے لیے بڑی چابک دستی سے استعمال کیے جا رہے ہیں اور ان مغالطوں کے زیراثر جو پالیسی بھی بنے گی، وہ نہ حقیقت پر مبنی ہوگی اورنہ پاکستان کے حقیقی مفادات سے اس کا کوئی تعلق ہوسکتا ہے، بلکہ وہ پاکستان کے مقصدِ وجود، قوم کی حقیقی اُمنگوں، اس کے اقتدار اعلیٰ اور مفادات کے منافی ہوگی۔
اسی طرح یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادتوں نے قوم کو بُری طرح مایوس کیا ہے، اور وہ پاکستان کے ملّی جوہر کو حقیقت کا رنگ دینے میں ناکام رہی ہیں۔ لیکن مغرب کی آشیرباد رکھنے والی ان مقتدر اور سیکولر قیادتوں کی اس ناکامی کو پاکستان کی ناکامی اور ریاست کی ناکامی کا نام دینا اور پاکستان کے وجود کے لیے خطرے کی گھنٹی بجانا ہمالیہ سے بھی بڑی غلطی ہے۔
پاکستان اللہ کے فضل سے قائم ہوا ہے اور اس کے قیام کے لیے ملتِ اسلامیہ ہند نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔ مشکلات اپنی جگہ، لیکن پاکستانی قوم نے ہر مشکل کا مقابلہ اللہ پر بھروسے اور جواں مردی سے کیا ہے۔ ان شاء اللہ آج بھی قوم اسی جذبے سے موجودہ خطرات کا مقابلہ کرے گی۔ ہم صرف تحدیثِ نعمت کے طور پر چند بنیادی حقائق کا اعادہ ضروری سمجھتے ہیں، تاکہ قوم ایک عزمِ نو کے ساتھ آج کے درپیش خطرات کا مقابلہ کرسکے۔
قیامِ پاکستان کے وقت بھارت اور برطانیہ دونوں کا اندازہ یہی تھا کہ یہ ملک چند برسوں کا مہمان ہے، اور یہ بہت جلد بھارت کا حصہ بن جائے گا۔ الحمدللہ تمام تر بے سروسامانی، مسلم کش فسادات اور بھارت کے معاشی، سیاسی اور عسکری دبائو کے باوجود پاکستان قائم رہا۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں بھارت کے جارحانہ عزائم کو خاک میں ملایا گیا اور زندگی کے مختلف میدانوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی گئیں۔
قیامِ پاکستان کے وقت درپیش معاشی اور سیاسی دبائو اور چیلنجوں کے ساتھ نظریاتی چیلنج بھی رونما ہوئے۔ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کی سازشیں شروع ہوگئیں، لیکن پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے اسلامی نظام کے لیے ایک ملک گیر تحریک کے جلو میں ’قرارداد مقاصد‘ منظور کرکے ریاست کا مقصد اور منزل واضح الفاظ میں متعین کردیے۔ پھر تمام مکاتبِ فکر کے علما نے اسلامی ریاست کے ۲۲ اصول متفقہ طور پر مرتب کر کے اس نظریاتی شاہراہ کو اور بھی روشن کر دیا۔ سیکولر اور بھارتی لابیاں اپنا کام برابر کرتی رہیں، لیکن دشمن کے ہر وار کا مقابلہ قوم نے پوری مستعدی سے کیا۔ ۱۹۵۶ء کے دستور پاکستان میں ملک کے اسلامی تشخص کو واضح کیا گیا۔
جنرل ایوب خان نے ۱۹۶۲ء میں اپنے دیے ہوئے دستور سے ’قرارداد مقاصد‘ حذف کردی اور ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جگہ جمہوریہ پاکستان رکھا، مگر دو ہی سال کے اندر انھیں ۱۹۶۴ء میں ترمیم کے ذریعے قرارداد مقاصد کو بھی دستور کا دیباچہ بنانا پڑا، اور ملک کا نام بھی دوبارہ اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھنا پڑا۔ حالانکہ یہ ایسی اسمبلی تھی جو براہِ راست بالغ حق راے دہی کے ذریعے وجود میں نہیں آئی تھی، بلکہ یہ اسمبلی ایوب صاحب کی بنیادی جمہوریتوں کا عطیہ تھی جس میں ارکان اسمبلی کو منتخب کرنے والوں کی تعداد ۸۰ ہزار تھی۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ۱۹۷۲ء کے عبوری دستور اور نئے مسودہ دستور میں پاکستان کے نظریاتی تشخص پر ایک بار پھر حملہ ہوا، اور اس مرتبہ پاکستان کو ایک سوشلسٹ اسٹیٹ قرار دینے کی کوشش ہوئی۔ لیکن ۱۹۷۳ء کے دستور میں ایک بار پھر قوم نے اپنی اصل شناخت اور اس ملک کے مقصدِ وجود کا صاف الفاظ میں اظہار کیا۔ جس مسودے پر قومی اتفاقِ راے (national consensus) ہوا، اس کے عناصرِ اربعہ: اسلامی شناخت، پارلیمانی جمہوریت، فلاحی معاشرہ، وفاقی کردار متعین ہوئے۔ پھر ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو اس اسمبلی نے مکمل اتفاقِ راے سے مسلمان کی تعریف بھی دستور میں شامل کی اور اس طرح ملک کے نظریاتی تشخص کو ہرشبہے سے پاک کرکے واضح اور مستحکم کر دیا۔ ۱۹۷۳ء کا دستور اس قوم کے ’نظریاتی عہد‘ کا مظہر ہے۔
یہ بات درست ہے کہ اس دستور کو توڑنے اور مسخ کرنے کی باربار کوششیں ہوئیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں آمریت خواہ وہ فوجی ہو یا سول عناصر کی مسلط کردہ، تادیر قائم نہیں رہ سکی اور ہر آمریت کا خاتمہ عوامی جدوجہد کے نتیجے میں بالضرور ہوا۔ معاملہ مصر، لیبیا اور شام کا ہو یا افریقہ اور جنوبی امریکا کے ممالک کا___ ان سب کے مقابلے میں پاکستانی قوم نے لمبے عرصے کے لیے فوجی حکومت اور آمرانہ نظام کو برداشت نہیں کیا۔ پاکستان تحریکِ جمہوریت (PDM) ہو یا متحدہ جمہوری محاذ (UDF)، پاکستان قومی اتحاد (PNA) ہو یا اسلامی جمہوری اتحاد ( IJI)___ عوام نے اپنی منظم جدوجہد کے ذریعے آمرانہ قوتوں کا مقابلہ کیا اور جمہوریت کی شمع کو گل نہیں ہونے دیا۔ آخر میں اہم تحریک ۲۰۰۷ء کی عدلیہ کی بحالی کی تحریک تھی جس نے جنرل مشرف کے دورِاقتدار کی چولیں ہلا دیں اور پھر موصوف کو نشانِ عبرت بنا کر رکھ دیا۔ عوام کی احیاے جمہوریت کی تحریک سیاسی اُفق پر روشنی کی ایک کرن ہے اور ہر آمر کے لیے ایک تازیانہ۔
جس ملک میں ایسی اہم تحریکیں اُٹھی ہوں اور آمریت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کیا گیا ہو، اسے ناکام ریاست کسی پہلو سے بھی نہیں کہا جاسکتا۔ نشیب ضرور آئے ہیں لیکن ہر نشیب کے بعد فراز بھی ایک حقیقت ہے، اور یہی وہ پہلو ہے جسے آج پھر قوم کو سامنے رکھ کر اپنے وطن کی اصلاح اور اپنی آزادی کی بازیافت کی جدوجہد کرنے کے لیے میدانِ عمل میں آنے کی ضرورت ہے۔
گویا کہ جب بھی اس قوم کو صحیح قیادت میسر آئی ہے اور اسے وقت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے منظم و متحرک کیا گیا ہے، اس نے غیرمعمولی استعداد کا مظاہرہ کیا ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت پورے ملک میں صرف دو کپڑے کے کارخانے تھے اور دنیا میں پٹ سَن کی پیدوار کا سب سے بڑا گہوارہ ہونے کے باوجود پٹ سَن کی ایک بھی مِل موجود نہ تھی، مگر دیکھتے ہی دیکھتے ۱۰ سال میں ملک نے صنعت و حرفت کے ہر میدان میں اپنا لوہا منوا لیا۔اسی طرح کھیل کے میدان میں بھی پاکستان سربلند اور کامیاب رہا۔ بھارت کے ایٹمی تجربے کے بعد سائنس کے میدان میں قوم کواپنی تاریخ کے سب سے بڑے چیلنج سے سابقہ پڑا اور الحمدللہ ساری دنیا کی مخالفت اور ٹکنالوجی کے حصول کے ہر دروازے کو بند کردینے کے باوجود ڈاکٹر عبدالقدیرخاں اور دیگر متعدد محب وطن سائنس دانوں اور انجینیروں کی پوری ایک ٹیم نے اللہ کے فضل سے اور اپنی مخلصانہ اور اَن تھک کوششوں کے ذریعے سے صرف سات سال میں وہ کام کر دکھایا، جو امریکا اور دوسری مغربی اقوام نے اس سے دگنے وقت میں انجام دیا تھا اور ساری ایٹمی صلاحیت کے حصول پر جو مالی صرفہ آیا وہ ایف-۱۶ کے ایک اسکواڈرن کی قیمت سے زیادہ نہ تھا۔
بلاشبہہ پاکستانی قیادت کی ناکامیوں کی داستان ہی بڑی طویل اور دل خراش ہے، لیکن اگر صحیح وژن ہو، قوم اور قیادت میں ہم آہنگی ہو، صحیح قیادت میسر آجائے تو اس قوم نے کم وسائل اور تمام تر مشکلات کے باوجود وہ کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں جن پر سب کو فخر ہے۔ قومی تاریخ کے ان مثبت پہلوئوں اور روشن کارناموں کی موجودگی میں یہ احساس اور بھی قوی ہوجاتا ہے کہ ع
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
دشمنوں کے مذموم ایجنڈے اور قوم کی تاریخ کے تابناک پہلوئوں کے پس منظر میں ہم آج کے یومِ آزادی کے موقع پر جہاں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے اس طوفان میں ملک عزیز کو قائم و دائم رکھا ہے، وہیں یہ بات بھی کہنا چاہتے ہیں کہ اس وقت ملک و قوم بڑے سنگین خطرات سے دوچار ہے۔ ان خطرات کو سمجھنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی بنانے اور اس کے حصول کے لیے قوم کو متحرک کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
آج ملک کو درپیش سب سے اہم خطرہ اس کی اس آزادی کو درپیش ہے، جو بڑی بیش بہا قربانیوں کے بعد حاصل ہوئی ہے۔اس آزادی کی مکمل بازیابی کے بغیر یہ قوم اپنے اصل مقاصد اور اہداف کی طرف پیش قدمی نہیں کرسکتی۔
سابق آمر جنرل پرویز مشرف نے جو ظلم اس ملک اور قوم پر کیے ہیں، ان میں سب سے بڑا ظلم جو ایک ناقابلِ معافی جرم بھی ہے، وہ قوم کی آزادی کو امریکی بالادستی کی بھینٹ چڑھانا ہے۔ امریکا میں ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو جو افسوس ناک حادثہ ہوا، اس کے سارے حقائق ایک نہ ایک دن دنیا کے سامنے آکر رہیں گے، اور امریکا نے ان پر جو پردے ڈال رکھے ہیں، وہ ایک دن ضرور تار تار ہوں گے لیکن جو چیز ناقابلِ تردید ہے، وہ یہ ہے کہ اس مذموم واقعے کی آڑ میں امریکا نے پوری دنیا کو دہشت گردی کی جنگ میں جھونک دیا ہے، افغانستان اور عراق پر فوج کشی کی ہے، اور اسلام اور پوری مسلم دنیا کو اس انداز سے نشانہ بنایا ہے کہ اس نے اس علاقے ہی کی نہیں پوری دنیا کی سیاست کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
عراق پر حملے (۲۰۰۳ء) کو تو اب سب ہی ایک غلطی کہنے لگے ہیں اور خود امریکا نے بھی اپنے انخلا کا اعلان کر دیا ہے۔ لیکن افغانستان پر امریکی اور ناٹو افواج کی فوج کشی کو ابھی تک اگر مگر کی بھول بھلیوں میں گم کیا ہوا ہے۔ حالانکہ آٹھ سال کی اس بے نتیجہ جنگ میں ہزاروں انسانوں کی ہلاکت اور کھربوں ڈالر کو آگ میں جھونکنے کے باوجود صاف نظر آرہا ہے کہ جس طرح افغانستان ماضی کی بڑی طاقتوں کا قبرستان بنا ہے، اسی طرح امریکا کے لیے بھی یہ دوسرا ویت نام بننے کے قریب ہے۔ افغانستان میں جو تباہی واقع ہوئی ہے وہ دردناک ہے، لیکن افغانستان پر امریکی قبضے نے جو صورت حال پاکستان کی بنا دی ہے اور جنرل پرویز مشرف نے امریکا کی دھمکی کے تحت جس طرح اس کے سامنے سپر ڈال کر پاکستان اور اس کی افواج کو جس آزمایش میں مبتلا کیا ہے، اس کے ہولناک نتائج سامنے آرہے ہیں۔ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے بعد پاکستانی قوم کو امریکا کی اس جنگ کے چنگل سے نکلنے کی جو توقع تھی، وہ زرداری،گیلانی حکومت کے ڈیڑھ سالہ دورِ حکومت میں مٹی میں ملتی نظرآرہی ہے۔ اب قوم کے سامنے اس کے سوا کوئی اور چارۂ کار باقی نہیں رہا ہے کہ عوامی تحریک کے ذریعے ملک کو امریکا کی گرفت سے نکالنے کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کرے۔ جماعت اسلامی کی ’گو امریکا گو‘ تحریک اس سمت میں ایک بروقت اقدام ہے۔
پاکستان اور امریکا میں دوستی اور تعاون ایک فطری امر اور پاکستان اور امریکا دونوں کی ضرورت رہا ہے۔ ہم دنیا کے تمام ممالک سے دوستی کے تعلقات چاہتے ہیں اور ان کو فروغ دینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت کرنا صحیح نہیں سمجھتے۔ لیکن یہ تعلقات معاشی، سیاسی اور عسکری قوت کے فرق کے باوجود دو آزاد اور خودمختار ملکوں میں باہمی مفاد اور بھائی چارے کی بنیاد پر استوار ہونے چاہییں۔ یہ کسی ایک کی بالادستی اور دوسرے کی مجبوری اور محکومی کی بنیاد پر نہیں ہونے چاہییں۔
اس وقت پاکستانی قوم جس چیز پر مضطرب اور نکتہ چین ہے وہ پاکستان کے معاملات میں ایسی امریکی مداخلت ہے، جس کے نتیجے میں ہم اپنی آزادی اور خودمختاری سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ نہ صرف ہماری خارجہ اور داخلہ پالیسی بلکہ تعلیمی اور معاشی پالیسیاں بھی امریکا کے اشارے پر اور اس کے مفاد میں مرتب کی جارہی ہے۔ یہ کم و بیش وہی کیفیت ہے جو سامراجی نظام کا خاصّہ ہے اور جس کا تجربہ برطانوی اقتدار کے ۲۰۰ سالہ دور میں برعظیم کے عوام کرچکے ہیں۔
’گو امریکا گو‘ کے معنی امریکا کی سامراجی بالادستی کو ختم کر کے پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور اس کے اپنے نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت ہے۔ اس کا ہدف امریکا کی ریاست یا امریکی عوام نہیں، بلکہ امریکا کی پالیسیاں اور خصوصیت سے پاکستان کے بارے میں اس کی امتیازی پالیسیاں اور پاکستان کے معاملات میں اس کی اندھا دھند مداخلت اور وہ طریق واردات ہے کہ جس کا تلخ تجربہ پاکستانی قوم خاص طور پر نائن الیون کے بعد سے کررہی ہے۔ یہ پالیسی صدرزرداری کے دورِ اقتدار میں اپنی تمام حدیں عبور کر کے آزادی اور خودمختاری کے ساتھ قوم کی عزت اور وقار کے بھی منافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح تحریکِ پاکستان کے دو متعین ہدف تھے یعنی برطانوی سامراج سے نجات اور اپنے نظریات،عزائم اور مفادات کے مطابق اپنی سرزمین پر مکمل اختیارات کا حصول، اسی طرح آج پھر یہ قوم امریکا کے سامراجی کردار کے خلاف صف آرا ہورہی ہے۔ آزادی کے حصول کے بعد برطانیہ سے ہمارے تعلقات دوستانہ رہے اور اس برطانیہ مخالف تحریک کا کوئی سایہ ان تعلقات پر نہیں پڑا۔ بالکل اسی طرح ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ’گو امریکا گو‘ کا ہدف پاکستان کے بارے میں امریکا کی پالیسی اور ہمارے معاملات میں اس کا عمل دخل ہے۔ یہی چیز امریکا سے نفرت کا سبب ہے۔ ہماری کوئی لڑائی امریکی عوام سے نہیں اور نہ امریکی دستور سے ہے۔ امریکی تہذیب اور طرزِ حیات پر اگر امریکی عوام خوش اور مطمئن ہیں تو ہمیں اس سے کیا پرخاش؟ ہاں، ہم ان کے سامنے دلیل کے ساتھ اور منطقی انداز میں واضح کرتے رہیں گے کہ حق اور باطل کیا ہے؟ ہمارے اختلاف کا آغاز اس مقام پر ہوتا ہے جہاں امریکا یا کوئی اور ملک اور قوم اپنے نظریات، اپنی اقدار اوراپنے مفادات کو ہم پر جبر کے بل بوتے پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ رہا معاملہ فکری اور نظریاتی مکالمے اور سیاسی اور معاشی تعلقات کا، تو وہ دنیا کی تمام ہی اقوام کی ایک فطری ضرورت ہے۔ ان دونوں معاملات کو گڈمڈ کرنے سے بڑی قباحتیں اور تصادم کی شکلیں رونما ہوتی ہیں۔
آج پاکستانی قوم ہی نہیں، دنیا کی بیش تر اقوام امریکا کی جو مخالفت کر رہی ہیں، وہ اس کی پالیسیوں اور عالمی سامراجی مہم جوئیوں کی وجہ سے ہے۔ ۲ جولائی ۲۰۰۹ء کے اخبارات میں امریکا کے ادارے ’ورلڈ پبلک اوپینین‘ کا جو سروے پاکستان کے بارے میں شائع ہوا ہے، اس میں پاکستانی عوام نے ایک طرف طالبان کی ان حرکتوں پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے جو ان کے نام پر سوات میں کی گئی ہیں، دوسری طرف آبادی کی دو تہائی اکثریت نے پاکستان کے معاملات میں امریکا کی مخالفت اس طرح کی ہے، جس طرح بش کے دور میں کر رہی تھی، اور ۶۲ فی صد پاکستانیوں کی نگاہ میں اوباما کی صدارت سے اس میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا ہے۔ امریکا کے ڈرون حملوں کی ۸۲ فی صد نے مخالفت کی ہے۔ امریکا کی افغانستان میں موجودگی اور اس کے جنگی اقدامات کی ۷۲فی صد نے مخالفت کی اور آبادی کے ۷۹ فی صد نے اس جنگ کو فی الفور ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ۸۶ فی صد نے صدر اوباما کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجوں میں اضافہ نہ کیا جائے گا۔ ان کی نگاہ میں اس سے حالات مزید خراب ہوں گے۔ اسی طرح اس سروے کی رو سے آبادی کے ۹۳ فی صد افراد کا خیال ہے کہ امریکا مسلم دنیا پر اپنا کلچر مسلط کرنا چاہتا ہے اور ۹۰ فی صد نے اس خدشے کی تائید کی کہ امریکا مسلم دنیا کو کمزور کرنے اور تقسیم در تقسیم پر تلا ہوا ہے۔ (دی نیوزانٹرنیشنل، ۲جولائی ۲۰۰۹ء)
امریکا کے بارے میں یہ جذبات پاکستان یا صرف مسلم دنیا تک محدود نہیں ہیں۔ صدر اوباما کے روس کے دورے سے چند دن قبل جو سروے روسی راے عامہ کے بارے میں ہوا ہے، اس سے بھی یہی تصویر اُبھرتی ہے کہ روس کی آبادی کے ۷۵ فی صد کی نگاہ میں امریکا اپنی قوت کا غلط استعمال کر رہا ہے اور وہ روس پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتا ہے۔ (ڈیلی ٹائمز، ۷جولائی ۲۰۰۹ء)
اس اصولی وضاحت کے بعد اب ہم متعین طور پر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں امریکا کی مداخلت اور ہماری خارجہ اور داخلہ پالیسیوں پر اس کی گرفت کیا شکل اختیار کرگئی ہے؟ جس نئی غلامی کا آغاز جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں ہوا تھا، وہ صدر زرداری کے دور میں اس سے بدرجہا زیادہ قبیح اور خطرناک صورت اختیار کرچکی ہے اور یہ پالیسی ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچارہی ہے۔ امریکا کے اثرورسوخ اور دراندازیوں میں اضافہ نائن الیون کے بعد مشرف کی اختیار کردہ پالیسیوں کا ثمرہ ہے اور خسارے کے اس سودے کی جہاں اولیں ذمہ داری جنرل پرویز مشرف کی ہے، وہیں اس ذمہ داری میں موصوف کی پوری ٹیم شریک ہے، خواہ اس کا تعلق ملک کی فوجی قیادت سے ہو یا مشرف دور کے وہ مددگار جن میں مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم سب مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ وعدہ معاف گواہ آج جو بھی کہیں، کم از کم ۲۰۰۲ء سے ۲۰۰۷ء تک جو کچھ ہوا، اس کی ذمہ داری میں یہ سب برابر کے شریک ہیں اور انھیں اس کی جواب دہی کرنا ہوگی۔
قوم نے فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں مشرف کی پالیسیوں کو یک سر مسترد کر دیا، لیکن یہ ایک تاریخی سانحہ ہے کہ پی پی پی کی حکومت نے زرداری صاحب کی قیادت میں نہ صرف مشرف کی پالیسیوں کو جاری رکھا، بلکہ اپنے تمام ہی اساسی معاملات کو امریکا کے تابع کردینے میں یہ پرویز مشرف سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ زرداری صاحب سے ان کے حالیہ دورئہ امریکا میں اوباما، ہیلری کلنٹن اور دوسرے امریکی حکام نے جس سردمہری اور بے نیازی سے معاملہ کیا، اس نے پاکستان کی عزت و وقار کو خاک میں ملا دیا ہے۔ امریکا، زرداری کے ساتھ بحیثیت فرد جو بھی معاملہ کرے یہ اس کا اختیار ہے، لیکن پاکستان کے صدر زرداری کے ساتھ جو کچھ اس نے کیا، اس کا پاکستانی قوم کو دکھ ہے اور وہ نہ امریکا کو اس بے عزتی پر معاف کرے گی اور نہ زرداری صاحب کو، جن کا حال یہ ہے کہ اس تحقیر و توہین آمیز رویے کے باوجود کاسۂ گدائی لیے پھرتے رہے اور ۴جولائی کو امریکی یومِ آزادی کے موقع پر نہ صرف امریکی سفارت خانے جاکر تقریب میں شرکت فرمائی بلکہ اخباری اطلاعات کے مطابق اس موقع پر یہ شرم ناک الفاظ بھی ادا کیے:
میں اس موقع پر پاکستان میں امریکی سرزمین سے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فخر محسوس کر رہا ہوں۔ (جنگ، ۱۳ جولائی۲۰۰۹ء، انصار عباسی کا کالم ’خطرے کی گھنٹی اور بے حس قیادت‘)
پاکستان کی زمین کا چپہ چپہ پاکستان کا حصہ ہے۔ زرداری صاحب کو ایسے اعلان کرنے ہیں تو شوق سے نیویارک کے اپنے فلیٹ سے نشر کریں، مگر خدارا پاکستان کی سرزمین کو ایسے پوچ خیالات کے اظہار کے لیے استعمال نہ کریں۔
امریکا نے محض قوت اور دھونس کے ذریعے پاکستان کو اپنی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک کیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اس جنگ میں شرکت کے سبب اب تک جو نقصان اٹھا چکا ہے وہ ۳۵ ارب ڈالر یعنی ۲۸ کھرب روپے سے متجاوز ہے۔ اس پر مستزاد ہزاروں قیمتی جانوں کا اتلاف ہے، خواہ ان کا تعلق فوج سے ہو یا عوام سے۔ ڈرون حملے روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں اور امریکا پوری رعونت سے ہماری سرحدوں کی بے دریغ خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ پاکستانیوں کو حشرات الارض کی طرح مار رہا ہے۔ خود امریکی ترجمان کے مطابق ان ڈرون حملوں میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے ۱۷۰ افراد مارے گئے ہیں ، مگر عام پاکستانی جو اس جارحیت کاشکار ہوئے ہیں ان کی تعداد ۸۰۰ سے زیادہ ہے۔ پاکستان کی موجودہ قیادت ان حملوں کو روکنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود اور پارلیمنٹ کے متفقہ مطالبے کے علی الرغم ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنی ہوئی ہے، اور یہ قیادت جس فدویانہ ادب سے روایتی احتجاج کر رہی ہے، وہ اس امر کا ثبوت ہے کہ امریکا کو درپردہ اس کی شہ حاصل ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس نے اس قیادت پر سے قوم کے اعتماد کو پارہ پارہ کر دیا ہے، اور قوم اسے شریکِ جرم سمجھتی ہے۔
پاکستانی قوم یہ جانتی ہے اور اس کا برملا اظہار کر رہی ہے کہ اس علاقے کے حالات کو بگاڑنے کا اصل سبب افغانستان پر امریکی فوج کشی ہے۔ خود افغان قوم، امریکی اور ناٹو افواج کے اس جارحانہ قبضے کی اس انداز سے مزاحمت کر رہی ہے، جس طرح اشتراکی روس کی فوجوں کی مزاحمت کر رہی تھی۔ امریکا اور یورپی اقوام جان گئی ہیں کہ افغانستان میں وہ جنگ نہیں جیت سکتے اور انھیں وہاں سے لازماً نکلنا ہی پڑے گا، مگر پاکستان کی قیادت کے فکری افلاس کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ وہ امریکا کی جنگ کو اپنی جنگ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ امریکا کے اس دوغلے پن سے بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں کہ وہ ایک طرف افغانستان میں فوجوں کی تعداد کو بڑھا رہا ہے تو دوسری طرف اچھے اور بُرے طالبان کا افسانہ تراش کر مذاکرات اور انخلا کی حکمت عملی کی طرف بھی بڑھ رہا ہے۔ امریکا، پاکستان پر مزید دبائو بڑھا رہا ہے کہ اس جنگ میں اپنی فوج کو جھونکے رکھے اور نئے نئے محاذ کھولے اور پاکستان کی موجودہ قیادت ہر حکم پر ’حاضر جناب‘کہہ کر عمل پیرا ہو رہی ہے۔ اس قیادت نے ملک کے حساس علاقوں کو جنگ کی آگ میں جھونک کر ۳۸ لاکھ افراد کو اپنے ہی وطن میں بے گھر کر دیا ہے جس کا مالی نقصان بھی اب کھربوں روپے کی خبر دے رہا ہے۔۱؎
امریکا اور یورپ کے تجزیہ نگار اب کھل کر یہ بات لکھ رہے ہیں کہ امریکا کے لیے افغانستان کی جنگ میں کامیابی حاصل کرنا ناممکن ہے، اس لیے جتنی جلد ممکن ہو، وہاں سے نکلنے کا راستہ اختیار کیا جائے، لیکن یہ پاکستان کی قیادت ہے کہ وہ اس دلدل میں اور بھی دھنستی چلی جارہی ہے۔ سوات اور بونیر کے بعد دیر، مالاکنڈ اور اب وزیرستان اور ناٹو کے حکم کے مطابق جلد ہی بلوچستان میں بھی فوج کشی کا سامان کیا جا رہا ہے۔۱؎ ناٹو کے کمانڈر صاحب پاکستان کو یہ حکم دے رہے ہیں اور خود افغانستان کے بارے میں جو مسئلے کی جڑ ہے، ارشاد فرماتے ہیں: ’’اس کے ساتھ ہی انھوں نے اختلافات طے کرنے کے لیے کسی فوجی آپشن کے بجاے سیاسی مکالمے کی زیادہ ضرورت پر زور دیا‘‘۔
یہ ہے یورپی افواج کے کمانڈر کا دوغلا پن۔ لیکن ہمیں افسوس تو اس پاکستانی قیادت پر ہے، جو اس کھیل کے مہروں کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں اور اطاعت شعاری اور ڈالروں کے عوض اپنے ملک کو جنگ کی آگ میں جھونکنے اور جنگ کے دائرے کو وسیع کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
برطانیہ اور امریکا کے اہم اخبارات اور تجزیہ کاروں کے خیالات کا جائزہ لینے سے جو نتیجہ کھل کر سامنے آرہا ہے، وہ افغانستان کی جنگ کی ناکامی کا احساس، امریکی اور یورپی افواج کی ہلاکت (جو پاکستانی افواج اور سول افراد سے ۱۰ گنا کم ہے) پر اضطراب اور بے چینی، مصالحت اور فوجوں کے انخلا پر مبنی نئی حکمت عملی کی تلاش ہے۔ لندن کے اخبار گارڈین (۹جولائی ۲۰۰۹ء) میں ایک ہفتے میں ساتویں برطانوی فوجی کی موت کی خبر شائع ہونے کے بعد ایک عوامی سروے میں آبادی کے ۷۱ فی صد نے کہا ہے کہ:’’افغانستان میں فوجی کارروائی سود مند ثابت نہیں ہو رہی اور حکومت کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے‘‘۔
برطانوی وزیرخارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے بار بار اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک غلط اقدام تھا اور ہمیں انتہا پسندی روکنے کے لیے اپنی کوششوں اور اس کے نتیجے میں ہولناک تشدد کے ایک بنیادی جائزے کی ضرورت ہے۔
ملی بینڈ کی نگاہ میں یہ جنگ صحیح نتائج سامنے نہیں لا سکتی اور جس نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے وہ سیاسی ہے:
دہشت گرد گروپوں کی بنیادوں سے نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے۔ اسلحے اوررقم کی فراہمی کے راستوں کو روک کر، ان کے دعووں کے کھوکھلے پن کو ظاہر کر کے، ان کے پیرووں کو جمہوری سیاست میں لاکر… (دی گارڈین، ۱۵جنوری ۲۰۰۹ء)
امریکا کی سابق وزیرخارجہ میڈلین آل برائٹ نے صدر بش کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ’امریکی خارجہ پالیسی میں گہرا خلا‘ قرار دیا ہے۔ گارڈین کے مضمون نگار جیمز ڈینسلو نے ۷جولائی ۲۰۰۹ء کے شمارے میں اپنے مضمون: ’تاریخ نے ابھی فیصلہ نہیں دیا‘ میں کہا ہے کہ عراق پر امریکا کی فوج کشی ایک تاریخی تباہی کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک قوم تباہ ہوگئی اور اسے خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ امریکا کے سابق صدارتی امیدوار سینیٹر جان کیری اور کانگریس کے رکن گیری ایکرمین بار بار اس امر کا اظہار کر رہے ہیں کہ افغانستان میں فوجی حل پر مبنی حکمت عملی کام نہیں کر رہی اور اس پر ازسرِنو غور کی ضرورت ہے۔ گراہم فولر امریکا کے تھنک ٹینک، رینڈ کارپوریشن کا سابق سربراہ ہے، جو ایک زمانے میں افغانستان میں سی آئی اے کا ذمہ دار بھی رہا ہے اپنے ایک حالیہ مضمون میں انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں لکھتا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔لندن گارڈین کا ایک اور مضمون نگار پیٹر پرنسٹن (۱۲ جولائی ۲۰۰۹ء) اپنے مضمون: ’’بہت ہوچکا! افغانستان میں بے مقصد اور احمقانہ جنگ کو فوراً بند ہونا چاہیے‘‘ میں لکھتا ہے کہ افغانستان میں ناٹو افواج کی کامیابی کا دُور دُور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ’’تم جو کچھ کر رہے ہو، اگر وہ بالکل غلط ہو رہا ہو تو ہمیشہ ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ اسے روک دو‘‘۔
وہ اپنی اور ناٹو اور امریکا کی قیادتوں کو متنبہ کرتا ہے کہ:’’سب سے زیادہ خونیں فریب یہ ہوسکتا ہے کہ ہلمند میں بڑھی ہوئی کارروائیوں کا حاصل مزید خون خرابے کے سوا کچھ اور ہوسکتا ہے‘‘۔
پیڈی ایشڈرون برطانیہ کے چوٹی کے سیاست دانوں میں شمارہوتا ہے اور وہ یورپی یونین میں مختلف سیاسی ذمہ داریوں پر فائز رہا ہے، اس کا بیان یکم جولائی ۲۰۰۹ء کے برطانوی اخبارات میں شائع ہوا ہے، جس میں اس نے اعتراف کیا ہے کہ امریکا اور ناٹو سمیت تمام غیرملکی فوجیں افغانستان میں شکست سے دوچار ہیں اور اس نے حکمت عملی کی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔ ’’اس حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہے جس سے افغانستان میں ہم جنگ ہار رہے ہیں اور فوجی قتل ہورہے ہیں‘‘۔
چین کے ایک بڑے انگریزی اخبار نے لکھا ہے کہ اوباما بھی افغانستان میں جنگوں میں شکست کا سبب بننے والی غلطیاں دہرا رہے ہیں۔ اب تک اس جنگ میں ۷۰۸ امریکی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں اور ۳۰۶۳ زخمی ہوچکے ہیں۔ ۲۰۰۲ء سے لے کر اب تک ۴۴۰ ارب ڈالر خرچ ہوچکے ہیں۔ تازہ راے عامہ کے سروے کے مطابق امریکا کے ۴۸ فی صد افراد اس جنگ کے خلاف ہیں، جب کہ اس کی تائید کرنے والے صرف ۲ فی صد زیادہ ہیں یعنی ۵۰ فی صد۔ اب تک کے تمام جائزوں سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ صدر اوباما، امریکی عوام کے جذبات کو افغانستان کی جنگ جاری رکھنے کے لیے ہموار نہیں کرسکے۔ ایک تازہ سروے میں امریکی آبادی کے ۶۶ فی صد نے کہا ہے کہ اوباما کی اصل ترجیح معیشت، روزگار اور حکومت کی بہتری ہونی چاہیے، صرف ۹ فی صد نے عراق اور افغانستان کی جنگ کو اپنی ترجیح قرار دیا ہے۔ (جنگ، لندن، یکم جولائی ۲۰۰۹ء)
نیویارک ٹائمز نے (۱۲ جولائی ۲۰۰۹ء) اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ برطانوی راے عامہ میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے اور اسے افغانستان میں جنگ کی ناکامی کا یقین ہوتا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں: ’’جنگ میں برطانیہ کی شرکت ملک میں اتنی شدید تنقید کی زد میں آئی ہے جیسی اس سے پہلے نہ آئی تھی‘‘۔
اور برطانیہ کے مشہور دانش ور اور سیاسی تجزیہ نگار سائمن جین کنز نے گارڈین (۲۵جولائی ۲۰۰۹ء) میں امریکا کو مشورہ دیا ہے: ’’اوباما کو اس حماقت کو ختم کرنے کا اعلان کرنا چاہیے، اس سے پہلے کہ افغانستان اس کا ویت نام بن جائے‘‘۔ اس نے صاف الفاظ میں متنبہ کیا ہے: ’’نہ پینٹاگان اور نہ برطانیہ کی وزارتِ دفاع محض اسلحے کے زور پر افغانستان کی جنگ جیت سکتی ہے‘‘۔
اس نے دعویٰ کیا ہے کہ خود امریکی فوجی کمانڈر کے ایک کلیدی مشیر نے بھی اس جنگ کے تباہ کن اثرات سے امریکی صدر کو متنبہ کیا ہے: ’’جنگ کے مقاصد کی واضح ناکامی کا کھلا کھلا تجزیہ اوباما کے کلیدی جنرل ڈیوڈ پیٹرس کے مشیر ڈینیل کلکولر نے کردیاہے‘‘۔
سائمن جین کنز نے واضح طور پر لکھ دیا ہے:
۲۰۰۱ء کا حملہ کرنے، اسامہ بن لادن کو پکڑنے اور علاقے کو دہشت گردی سے صاف کرنے کی پالیسی آزمائی جاچکی ہے اور ناکام ہوچکی ہے۔ حکمت عملی نوجوان مغربی سپاہیوں اور ہزاروں افغانوں کے بے معنی قتل تک محدود ہوگئی ہے۔ افواج صرف اس لیے بھیجی جارہی ہیں کہ لیبر منسٹر میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ یہ تسلیم کرسکیں کہ بلیئر کا اسلامی خطرے کو ختم کرنے کی کوشش محض اس کا پاگل پن تھا۔ بلیئر کہتے تھے کہ لندن کی شاہراہوں کو محفوظ بنا رہے ہیں لیکن عملاً وہ ان شاہراہوں کو اور زیادہ پُرخطر بنا رہے ہیں۔ ویت نام نے دو صدور جانسن اور نکسن کو ختم کیا اور نوجوان امریکیوں کی ایک نسل کا عالمی اعتماد بھی ختم کیا۔ افغانستان بظاہر ’اچھی جنگ‘ ہے مگر اس کے نتائج بھی ویت نام جیسے ہوسکتے ہیں۔ (گارڈین، لندن، ۲۵ جون ۲۰۰۹ء)
مقالہ نگار نے جو کچھ امریکا اور برطانیہ کے بارے میں لکھا ہے، وہ پاکستان اور اس کی موجودہ قیادت کے بارے میں ۱۰ گنا زیادہ درست ہے۔ ہم اپنے وسائل اور اپنی قوتیں ایک ہاری ہوئی جنگ میں جھونک رہے ہیں، جب کہ ہمیں اس جنگ سے قطع تعلق کرنے اور افغانستان کے امریکا اور ناٹو کی فوجوں کے واپسی کے منظرنامے میں اپنے، افغانستان اور پورے علاقے کے حالات اور تعلقات پر اپنی توجہ دینی چاہیے۔ ہم اس کا اعتراف کریں یا نہ کریں، مگر امریکا کے سوچنے سمجھنے والے افراد امریکا کی افغان پالیسی کی ناکامی کو نوشتۂ دیوار کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ امریکی کانگریس کی سب کمیٹی براے شرقِ اوسط اور جنوب ایشیا کے چیئرمین گریگ ایکرمین نے اعتراف کیا ہے کہ: ’فاٹا میں امریکی حکمت عملی کارگر نہیں ہے‘ (ملاحظہ ہو، انور اقبال کی رپورٹ، روزنامہ ڈان، ۲۷ جون ۲۰۰۹ء)۔
امریکا کے ایک سابق سفیر چارلس ڈبلیو فری مین کی واشنگٹن میں کی جانے والی تقریر کی روداد ہر اعتبار سے چشم کشا ہے۔ اس نے امریکا کی جاری پالیسی کی ناکامی کا کھل کر اعتراف کیا ہے، اور اس پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ نہ صرف امریکا نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ امریکا کے دبائو میں خود پاکستان نے ایک پُرامن علاقے کو شورش اور جنگ و جدل کی آماج گاہ بنا دیا ہے۔
سفیر فری مین نے امریکی پالیسی کو حالات کے ناقص ادراک کا نتیجہ قرار دیا ہے، اور علاقے کی تاریخ، روایات اور زمینی حقائق سے ناواقفیت کی پیداوار قرار دیا ہے۔ اس کی نگاہ میں ایک بنیادی مغالطہ جاسوسی کے ذریعے حاصل کردہ معلومات اور حقائق کو گڈمڈ کر دینا ہے۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ القاعدہ اور طالبان کو ایک سمجھ لیا گیا ہے اور دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جا رہا ہے۔ اس کی نگاہ میں یہ تباہ کن غلطی ہے… جو حالات کے معروضی جائزے کے مقابلے میں اخبارات کی احمقانہ سرخیوں کی پیداوار ہے اور امریکا کے خلاف عوامل ردعمل امریکا کی انھی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
امریکی پالیسی کے اثرات کے تحت امریکا مخالف دہشت گردی مزید پھیل رہی ہے، خاص طور پر پاکستان میں۔ (دیکھیے: Refusing to Learn ، دی ٹائمز، ۹جولائی ۲۰۰۹ء)
لندن کے اخبار دی انڈی پنڈنٹ نے ۱۲ جولائی ۲۰۰۹ء کے اداریے میں افغانستان سے برطانیہ کی افواج کی واپسی کا مشورہ دیا ہے اور کہا ہے: ’’افغانستان میں ہمارا مشن سخت خطرے میں ہے‘‘۔ اس اداریے میں انڈی پنڈنٹ نے افغانستان کے ایک عوامی سروے کا حوالہ بھی دیا ہے جس کی رُو سے افغانستان کی آبادی کے ۶۸ فی صد کی خواہش ہے کہ: ’’ان کی حکومت گفت و شنید کرے اور طالبان سے مصالحت کرے‘‘۔
انڈی پنڈنٹ نے آخر میں برطانوی وزیراعظم کو مخاطب کر کے کہا ہے: ’’اگر وہ طالبان سے باوقار مذاکرات نہیں کرسکتے، تو انھیں اپنی فوجیں واپس بلا لینی چاہییں‘‘۔
یہ ہے اس وقت کی عالمی فضا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو اس تبدیلی کا کوئی شعور نہیں اور لگتا ہے کہ وہ آنکھیں بند کرکے، عین مین انھی راہوں پر سفر کر رہی ہیں، جن پر چلنے کی انھیں امریکی آقائوں نے ہدایت کی ہے۔ اس وقت امریکا کا اصل کھیل یہ ہے کہ:
افغانستان میں جاری جنگ کا رُخ پاکستان کی طرف پھیر دیں۔ اسرائیل ایران پر حملے کے لیے پَر تول رہا ہے اور پاکستان اور شرقِ اوسط کے ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں یا درپردہ شریکِ کار ہیں۔ افغانستان کے صوبے ہلمند میں جو آپریشن اس وقت جاری ہے، وہ پاکستان پر دبائو کو بڑھانے کا سبب بن رہا ہے۔بھارت افغانستان میں ایک خاص کردار ادا کر رہا ہے اور افغانستان سے پاکستان میں بھی دراندازیاں کر رہا ہے۔ امریکا خود افغانستان سے نکلنے کی تدبیریں کر رہا ہے، جب کہ پاکستان کو اس آگ میں جھونک دینے میں مصروف ہے۔
امریکا نے پاکستان کی معاشی ناکہ بندی بھی کرڈالی ہے اور عالمی مالیاتی فنڈ، عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کے ذریعے اپنے شکنجے مزید کس رہا ہے۔ ۵ء۱ بلین ڈالر کی جس امداد کا بڑا شور ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف اس کے ذریعے سے پاکستان کی معیشت ہی نہیں، تعلیم، انتظامیہ، فوج اور سیاسی اور خارجہ پالیسیوں تک کو اپنا پابند کیا جا رہا ہے، دوسری طرف جسے امداد کہا جا رہا ہے، اس کا بڑا حصہ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ساتھ ۲۵ ایکڑ مزید اراضی پر، جو حکومتِ پاکستان سے کوڑیوں کے مول حاصل کرلی گئی ہے، ایک بڑا تعمیراتی کمپلیکس تعمیر کیا جا رہا ہے۔ یہ کمپلیکس جو جاسوسی اور فوجی کارروائیوں کے لیے امریکا کے اڈے کی حیثیت رکھے گا اور اس پر ۳۰۰ افسران کے رہنے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ یہ اڈا بغداد کے بعد دنیا میں سب سے بڑا امریکی اڈا ہوگا۔ نیویارک ٹائمز (۱۴جولائی ۲۰۰۹ء) میں چالمس جانسن کا چشم کشا مضمون Empire of Bases (اڈوں کی سلطنت) شائع ہوا ہے، جس میں دنیا میں امریکا کے ۸۰۰ اڈوں کا تذکرہ ہے اور اس میں سرفہرست پاکستان کے نئے اڈے کا ذکر خیر ہے، ملاحظہ ہو:
آغاز میں ۲۷ مئی کو ہمیں معلوم ہوا کہ محکمہ خارجہ ۷۳۶ ملین ڈالر کے خرچ سے اسلام آباد میں ایک نیا سفارت خانہ تعمیر کرے گا۔ یہ عمارت ویٹی کن شہر کے برابر ہوگی۔ بش انتظامیہ نے بغداد میں جو عمارت تعمیر کرائی، اس کے بعد یہ دوسری بڑی قیمتی عمارت ہوگی۔
واضح رہے کہ یہ ۷۳۶ ملین ڈالر اس ۵ء۱ بلین ڈالر امداد کا حصہ ہے، جو لوگر بل کے زیرسایہ پاکستان کو دینے کا اعلان ہوا ہے۔ یہ نئی تعمیر ان اڈوں کے علاوہ ہے جو امریکا ۲۰۰۱ء کے بعد قائم کرچکا ہے اور جن کے بارے میں امریکا نواز ہفت روزہ فرائیڈے ٹائمز کی ۱۹ تا ۲۵جون ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں ایک مضمون نگار نے شاہد جاوید برکی کے حوالے سے لکھا ہے: ’’کھاریاں چھائونی دراصل امریکی افواج کے لیے تعمیر کی گئی تھی‘‘۔
تربیلا اور بلوچستان کے بارے میں ڈاکٹر شیریں مزاری کے ۲۲ جولائی ۲۰۰۹ء کے مضمون میں یہ حوالہ قابلِ غور ہے:
امریکیوں کے متفرق گروپ مقامی لوگوں کے بھیس میں (مشابہ لباس اور ڈاڑھیوں کے ساتھ) تربیلا کے آس پاس اور بلوچستان میں گھومتے ہوئے دیکھے گئے ہیں ۔ اس لیے اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کا بہت احتیاط سے جائزہ لیں۔ (دی نیوز، ۲۲ جولائی ۲۰۰۹ء)
امریکا جس طرح ہمارے خارجی اور داخلی معاملات میں دخیل ہوگیا ہے، وہ پاکستان کی آزادی، سالمیت، خودمختاری اور نظریاتی تشخص کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس کا ایک شاخسانہ یہ بھی ہے کہ امریکا ہی اب ہمیں یہ سمجھا رہا ہے کہ بھارت سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں ہے، اور امریکی دہشت گردی کے نتیجے میں رونما ہونے والے اندرونی دہشت گردی کے واقعات کو ’اصل خطرہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ان کا وجود امریکا کے افغانستان پر فوجی قبضے اور پاکستان میں اس کی دراندازیوں کا رہینِ منت ہے۔ امریکی صدر، ہیلری کلنٹن، ہالبروک اور میڈیا کی طرف سے بہ تکرار ایک ہی آواز آرہی ہے کہ پاکستان کے لیے اصل خطرہ بھارت نہیں، طالبان ہیں اور صدرزرداری اس کی صداے بازگشت بن گئے ہیں، جب کہ وزیراعظم صاحب فرما رہے ہیں کہ یہ زرداری صاحب کی ذاتی راے ہے ،صدر پاکستان کا فرمان نہیں۔
یہ ہیں وہ حالات جن میں پاکستان کی آزادی کی بازیابی کی جدوجہد ناگزیر ہوگئی ہے اور اس کے لیے قومی مفاد اور قومی مقاصد کے مطابق امریکا سے پاکستان کے تعلقات کی ازسرِنو تشکیل اولیں اہمیت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے لاتعلقی اور ملک کے لیے آزاد خارجہ پالیسی کو مرتب کرنا اور اس پر عمل، اولیں اہمیت کے حامل چیلنج ہیں۔ ہمیں اپنی سلامتی کے میزانیے کو خود مرتب کرنا ہے۔ اس کی روشنی میں امریکا، بھارت، افغانستان اور دوسرے ممالک سے تعلقات استوار کرنے ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہمارے معاملات پر امریکا کا غلبہ اور بالادستی ختم ہو۔ ’گو امریکا گو‘ کی تحریک کا اصل مقصد خارجہ پالیسی اور داخلہ سیاست کو امریکا کی گرفت سے آزاد کراتے ہوئے پاکستانی قوم کے عزائم، مفادات اور خواہشات کے مطابق ازسرِنو مرتب و منظم کرنا ہے۔
اس سلسلے میں ایک اہم قدم ملک کی پارلیمنٹ نے ۲۳ اکتوبر ۲۰۰۸ء کی متفقہ قرارداد کی شکل میں اختیار کیا تھا، لیکن زرداری حکومت نے اپنی پالیسیوں اور مسلسل اقدامات کے ذریعے سے اسے غیرمؤثر بنا دیا ہے۔ افسوس کہ پارلیمنٹ اس خلاف ورزی پر گرفت کرنے کے بجاے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اب اس کے سوا کوئی چارئہ کار نہیں کہ قوم خود اپنی آزادی اور اپنے تہذیبی تشخص کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہو، اور ایک عوامی تحریک کے ذریعے سے جمہوری قوت کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے اپنے ملک کو امریکا کی گرفت سے نکالے اور اپنے مستقبل کا سفر اپنے مقاصد اور اپنی ترجیحات کی روشنی میں مرتب کرے۔
(۱۴؍اگست : یومِ تشکر، یومِ احتساب بھی، کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت:۱۰ روپے۔ سیکڑے پر رعایت، منشورات، منصورہ، لاہور- فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹، فیکس: ۳۵۴۳۴۹۰۷)
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں، اور خصوصیت سے عالمِ اسلام میں، امریکی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف جذبات کا ایک طوفان برپا ہے۔ امریکا سے بے زاری کے یہ جذبات و احساسات ویسے تو دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد سے برابر بڑھ رہے ہیں، لیکن ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے قابلِ مذمت واقعات کے بعد امریکی صدر جارج بش کی قیادت میں امریکا کے خونیں ردعمل کو، جسے ’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ کا نام دیا گیا ہے، امریکا مخالف جذبات میں تلخی اور شدت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
ایک وقت تھا کہ مسلم دنیا، یورپ کے سامراجی نظام کے خلاف اپنی جدوجہد میں امریکا کو ایک حد تک اپنا دوست اور ہم نوا سمجھتی تھی اور امریکی صدر ووڈرو ولسن کے آزادی، حقوقِ انسانی اور مظلوم اقوام کے حق خود ارادیت کے اعلانات پر یقین کرنے لگی تھی۔۱؎ یہی وجہ ہے کہ جب پہلی عالمی جنگ کے بعد بلادِ شام اور فلسطین کی تولیت (trusteeship) کا سوال اُٹھا، تو ان ممالک کے نمایندوں نے فرانس اور برطانیہ کے مقابلے میں امریکا کو حکمرانی کا اختیار (مینڈیٹ ) دینے کا مطالبہ کیا، جسے یورپ کی بعض دیگر قوتوں نے منظور نہ کیا۔ لیکن دوسری عالمی جنگ (۱۹۳۹ء-۱۹۴۵ء) کے بعد فضا بدلنی شروع ہوئی۔ امریکا نے عالمی بالادستی کے عزائم ظاہر کیے تو اس پر اعتماد متزلزل ہونے لگا۔ پھر اسرائیل کے قیام میں امریکا کے سخت منفی کردار نے اس اعتماد کو بالکل ہی چکنا چور کردیا۔ وہ وقت اور آج___یہ بے اعتمادی بڑھتے بڑھتے بے زاری اور نفرت کا روپ دھارنے لگی۔ سرد جنگ (۱۹۴۶ء-۱۹۹۱ء) میں امریکا کے کردار اور سامراج دشمنی کی عالمی تحریکوں نے بھی اس نفرت کو پروان چڑھانے میں ایک کردار ادا کیا۔ تاہم، جو چیزیں اس کی اصل وجہ بنیں، وہ امریکا کے عالمی عزائم اور مسلم دنیا میں ایک ناجائز ریاست قائم کرنے کے لیے اسرائیل کی پشت پناہی، قوم پرستی کی تحریکوں کی سرپرستی، عالمِ اسلام کے معاشی، خصوصیت سے تیل اور انرجی کے وسائل پر قبضہ اور ان کا امریکا اور مغربی اقوام کے مفاد میں استعمال تھا۔ پھر اس عمل کے لیے ہرملک میں اپنے پٹھو تیار کرنا اور آمروں کے ذریعے مسلمانوں کو قابو میں رکھنا ہے۔ جو بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اس مخالفت اور بے زاری کا سبب امریکا کا نظامِ حکومت اور جمہوریت کی وہ اقدار ہرگز نہ تھیں، جن کا نام لے کر امریکی قیادت اور خصوصیت سے صدربش نے دنیا پر یلغار کی تھی،بلکہ اصل وجہ امریکا کی پالیسیاں اور اس کا سامراجی اور ظالمانہ رویہ تھا، اور جب تک ہرسطح پر اس حقیقت کا صحیح ادراک نہیں ہوجاتا اور پالیسیوں اور رویوں کی تبدیلی کا اہتمام نہیں ہوتا، تعلقات میں بنیادی تبدیلی ناممکن ہے۔
ان حالات کا معروضی تجزیہ یونی ورسٹی آف پنسلوانیا میں علمِ سیاست کے دو پروفیسروں۲؎ نے پیش کیا ہے، ہر دو حضرات نے نائن الیون سے ۱۶سال پہلے ۱۹۸۵ء میں امریکا مخالفت کے اس آتش فشاں کی نشان دہی کی تھی۔ انھوں نے لکھا تھا کہ تیسری دنیا کے بیش تر ممالک میں جو لاوا پک رہا ہے وہ کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ ان کی نگاہ میں بجاطور پر امریکا کی مخالفت کے رجحان کی اصل وجہ امریکا کی وہ پالیسیاں اور عملی سرگرمیاں تھیں جن کے نتیجے میں امریکا سے دنیا کی اچھی توقعات خاک میں مل گئیں، امید کی شمع گل ہوگئی اور مایوسی اور بے زاری نے بغاوت اور تصادم کی راہ ہموار کی۔ ۱۹۸۸ء ہی میں امریکا کے ایک سابق سفیر رچرڈ بی پارکر نے کہا تھا:
امریکیوں اور امریکی علامات کے خلاف تشدد علاقے میں امریکی پالیسی کے خلاف ردعمل تھا، اس لیے کہ یہ پالیسی حکمت عملی کا لحاظ رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ یہ داخلی مفادات اور امریکا کے اندر توازنِ اقتدار اور فوجی صنعتی کمپلیکس کے دبائو کے تحت تشکیل دی گئی تھی۔۳؎
ان تمام محققین کی نگاہ میں: ’’امریکا کے خلاف ردعمل ان ملکوں کا امریکی پالیسی اور معاشی سرگرمیوں سے مایوسی کا نتیجہ تھا‘‘۔
امریکا سے یہ مایوسی اور بے زاری تو نائن الیون سے بہت پہلے موجود تھی، البتہ نائن الیون کے بعد اس میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اور ۲۰۰۳ء سے لے کر آج تک کے تمام راے عامہ کے سروے، مسلم عوام کے ان جذبات کے عکاس ہیں۔ امریکی ادارے The Pew Global Attitude Project کی ۲۰۰۳ء کی رپورٹ اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کرتی ہے:
۲۰۰۰ء کے بعد سے امریکا کے لیے پسندیدگی کی شرح ان ۲۷ ممالک میں سے ۱۹ میں گرگئی ہے جہاں رجحانات معلوم کیے جاسکے ہیں… امریکا کے بارے میں راے عامہ شرق اوسط میں بڑے پیمانے پر منفی ہے۔ اُن ممالک میں بھی جہاں حکومت کے امریکا سے قریبی تعلقات قائم ہیں، یعنی اُردن، ترکی، پاکستان، وہاں بھی قابلِ لحاظ اکثریت امریکا کے خلاف راے رکھتی ہے۔
دی پیو (Pew)، گیلپ انٹرنیشنل، زوگبی (Zogby) تینوں کے سروے مسلسل یہ نتائج سامنے لارہے ہیں کہ تمام ہی مسلم دنیا میں، بیش تر ترقی پذیر ممالک میں اور کچھ یورپی ممالک خصوصیت سے فرانس اور اسپین میں، امریکی پالیسیوں کی وجہ سے امریکا کے خلاف بے زاری کی لہر میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ خود مصر میں جہاں امریکی صدر اوباما نے ۴ جون ۲۰۰۹ء کو خطاب کیا ہے، آبادی کے ۶۷ فی صد کی نگاہ میں پوری دنیا اور خصوصیت سے مسلم دنیا میں امریکا کا کردار منفی ہے۔ ۷۶فی صد کی نگاہ میں امریکی حکمران مسلم دنیا کو بانٹنے اور کمزور کرنے میں مصروف ہیں۔
لندن کے جریدے New Statesmen کی ۴ جون ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں عالمِ اسلام کی اس کیفیت کو یوں بیان کیا گیا:
افغانستان اور عراق پر تباہ کن حملوں اور قبضے کے آٹھ سال، ایران اور شام کے خلاف تندوتیز لفظی حملے، لبنان اور غزہ پر اسرائیلی بم باری کی امریکی حمایت نے دنیا کے ۳ء۱ ارب مسلمانوں میں امریکا کے خلاف نفرت پیدا کر دی ہے۔ بش کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے پہلے دن سے پوری دنیا میں مسلمانوں کو امریکا کے خلاف کر دیا اور امریکا دشمن احساسات کی سطح کو بہت بڑھا دیا۔ مثال کے طور پر زوگبی پول کے مطابق ۲۰۰۲ء اور ۲۰۰۴ء کے درمیان امریکا کے خلاف منفی رویہ رکھنے والوں کا تناسب ۷۶ سے ۹۸ فی صد ہوگیا، یعنی تقریباً پورا ملک۔
نومبر ۲۰۰۷ء کی امریکی حکومت کی ایک رپورٹ (جسے امریکی فوج کے اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز کے ایک ماہر اینڈریو لارنس نے تیار کیا ہے) تلخ مگر حقیقت پر مبنی نتیجہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکا کے خلاف دہشت گردی کے واقعات سے مسلم دنیا میں یہ احساس فروغ پارہا ہے، کہ انھیں وسائل سے محروم کیا جا رہا ہے، اور اس روز افزوں احساس کے نتیجے میں مسلمانوں کی مایوسی اور بے زاری و بے اطمینانی میں اضافہ ہوا ہے:
امریکا کی پالیسی اور حکمت عملی نے مسلم دنیا میں قول و فعل کے درمیان اعتماد کا خلا پیدا کردیا ہے۔ (The Global War on Terrorism، نومبر ۲۰۰۷ء)
اس رپورٹ میں یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ: حالیہ قومی پالیسیاں اور اقدامات درحقیقت کم نہیں بلکہ زیادہ انتہاپسند پیدا کر رہی ہیں۔
ہم نے صدر اوباما کی تقریر پر گفتگو کرنے سے پہلے، اس پس منظر کے اہم خدوخال پر توجہ مرکوز کرانا اس لیے ضروری سمجھا ہے کہ اس کے ادراک کے بغیر نہ وقت کے چیلنج کو صحیح طرح سمجھا جاسکتا ہے، اور نہ مستقبل کے لیے کوئی لائحہ عمل حقیقت پسندی کے ساتھ مرتب کیا جاسکتا ہے۔ امریکی قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مسلم دنیا کے حکمران جو بھی کہیں، یا ان کے زیراثر جو کچھ بھی کریں، اصل معاملہ مسلم عوام ہی نے طے کرنا ہے۔ ان کے احساسات، خدشات اور توقعات کو سمجھے بغیر اور ان کے صحیح فہم و ادراک کے بغیر یک طرفہ طور پر نہیں بلکہ مشترک مقاصد اور مفادات اور حقیقی مشاورت پر مبنی اتفاق باہمی پر مبنی حکمت عملی بنانے کا راستہ اختیار نہیں کیا جاتا تو خوش کن الفاظ اور ڈرامائی حرکات سے حالات کا سدھار ممکن نہیں۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ دنیا، خصوصاً مسلم دنیا میں امریکا کو جو اعتماد اور تائید ایک وقت حاصل تھی، اب اس کا عشر عشیر بھی باقی نہیں رہا ہے اور جب تک اعتماد کی نئی فضا نہ پیدا کی جائے، ایک ایسی فضا جو خواہشات اور ظاہری تکلفات کے مقابلے میں حقیقی مسائل کے ادراک اور برابری کی بنیاد پر مبنی ہو اور جب تک ایک دوسرے کے مقاصد اور مفادات کو دیانت داری کے ساتھ اور حقیقی تناظر میں نہ سمجھا جائے اور کسی بھی قسم کے دبائو کے بغیر تعاون کے نقشۂ کار کو سامنے نہ لایا جائے، اس وقت تک تقریریں اور وعظ لاحاصل رہیں گے۔
صدر بارک حسین اوباما نے اپنی انتخابی مہم کے دوران میں حسب ذیل وعدے کیے تھے، جن کی یاد دہانی ضروری ہے:
ا- بش کی پالیسیاں ناکام رہی ہیں اور وقت آگیا ہے کہ ان میں تسلسل کے بجاے تبدیلی کا راستہ اختیار کیا جائے۔
ب- دہشت گردی کا مقابلہ محض قوت کے استعمال سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے ان اسباب کو دُور کرنا ضروری ہے، جن کے نتیجے میں دنیا دہشت گردی کی آماج گاہ بن گئی ہے، نیز یہ کہ دل و دماغ کی تسخیر اور خیالات اور افکار کی ہم آہنگی کے بغیر اس دلدل سے نکلنا ممکن نہیں۔
ج- عالمی امن اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب دنیا میں قانون کی حکمرانی، انصاف کی فراہمی اور ان اصولوں کی طرف مراجعت ہو، جو انسانیت کی مشترک میراث اور [اس کے خیال میں] امریکی دستور کی اساس ہیں۔ قانون اور انصاف کے اصولوں سے انحراف کا جو راستہ اختیار کیا گیا ہے، اس کی تبدیلی کے بغیر اصلاح ممکن نہیں۔اس کے لیے گوانتانامو جیسے تعذیب خانوں کو بند کرنا ہوگا اور تشدد اور تعذیب کے تمام حربوں سے اجتناب ضروری ہے۔
د- امریکا کو مسلمانوں کے دل جیتنے کی پالیسی اختیار کرنی ہوگی اور ماضی میں ان کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئی ہیں، ان کی تلافی ضروری ہے [اس سلسلے میں اوباما نے فلسطین اور کشمیر کے مسئلے کا خاص طور پر ذکر کیا اور ایران، لبنان اور شام وغیرہ کے بارے میں پالیسی پر نظرثانی کا عندیہ دیا]۔
ھ- قوموں کے درمیان برابری کی بنیاد پر ایک دوسرے کی حاکمیت کا احترام کیا جائے۔ بش دور کی یک رُخی مہم جوئی سے اجتناب کا پیغام بھی دنیا کی اقوام کو دیا گیا۔
انتخابی مہم کے دوران میں اوباما کے ان اعلانات سے امریکا اور پوری دنیا میں، خاص طور پر مسلم دنیا میں جو پچھلے ۶۰، ۷۰ سال کے بالعموم اور بش کے آٹھ سالہ دورِ اقتدار میں خاص طور پر امریکا کی جنگ جو مہم کاریوں کا نشانہ بنی ہوئی تھی ، اُمید کی ایک مدھم سی کرن روشن ہوئی تھی۔
صدر اوباما نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اپنے اقتدار کے پہلے ۱۰۰ دنوں ہی میں وہ مسلم دنیا سے تعلقات کے ایک نئے باب کے آغاز کریں گے۔ حلفِ صدارت کے فوراً بعد انھوں نے العریبیہ ٹیلی وژن کے نمایندے کو انٹرویو دیا۔ ۱۰۰ دن کے دوران ہی میں مئی ۲۰۰۹ء میں ترکی کی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ: ’’امریکا، اسلام سے برسرِ جنگ نہیں‘‘۔ ۴ جون ۲۰۰۹ء کو جامعہ قاہرہ اور جامعہ الازہر کے پلیٹ فارم سے اُمت مسلمہ سے خطاب کیا اور اسے: ’’اسلام اور مغرب کے درمیان تعلقات کے نئے آغاز کا نام دیا‘‘۔ اس تقریر پر اس کی اہمیت کے اعتبار سے مسلم دنیا ہی میں نہیں دنیا کے ہر گوشے میں بحث و گفتگو ہورہی ہے۔ ہم بھی اسے ایک اہم پیش رفت سمجھتے ہیں اور اس کے بارے میں اپنے خیالات کا بے لاگ اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ اگر خلوص اور دیانت سے اُمت مسلمہ سے دوستی اور تعاون کے لیے کہیں سے بھی کوئی ہاتھ بڑھایا جاتا ہے تو اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ یہی ہماری روایت اور تاریخ ہے، لیکن یہ سارا کام آنکھیں کھول کر اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں کیا جانا چاہیے۔ اس حقیقت کے ادراک اور اظہار کے ساتھ کرنا چاہیے کہ اصل چیز قول نہیں، عمل ہے، اور مسلمانوں کو تو ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی ہے کہ مسلمان ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا۔
صدر اوباما کے خطاب میں دوسرے امریکی صدور اور خصوصیت سے ان کے پیش رو جارج بش کے اندازِ گفتگو کے برعکس مفاہمت کی زبان استعمال کی گئی، اور تعلقات میں باہمی مفادات اور ایک دوسرے کے احترام کی بات بار بار کی گئی ہے۔ اگر یہ محض رسمی وعظ نہیں ہے تو قابلِ قدر ہے۔ لیکن ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں اس تقریر کو ’’ایک نئے آغاز کا پیش خیمہ‘‘ قرار دینا مشکل ہے۔ اس لیے جہاں ہم محتاط انداز میں نئے دور کی تلاش کے اعلانات کا خیرمقدم کرتے ہیں، وہیں اس امر کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ صرف خوش نما الفاظ سے اس خلیج کو پاٹنا ممکن نہیں ہے، جو پوری ایک صدی کے تلخ تجربات کی پیداوار ہے۔ دنیا اور خصوصیت سے مسلم دنیا، صدر اوباما کے ارشادات کو پالیسی کی تبدیلیوں اور عمل کی میزان پر دیکھے، پرکھے اور جانچے گی۔
ہمارا پہلا تاثر یہ ہے کہ اس تقریر میں خوش نما الفاظ اور جوشِ خطابت کا پلڑا بھاری ہے اور بنیادی امور اور مسائل کے بارے میں واضح پالیسی کے خطوط کار اور متعین تبدیلیوں کا سراغ دُور دُور نظر نہیں آتا۔ امریکا کی قیادت کو ایک بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا۔ کیا وہ دنیا کے دوسرے ممالک اور اقوام، اور خصوصیت سے مسلم دنیا سے اصول، حق و انصاف اور معتبر مفادات اور آزادی اور عزت کے احترام کے ساتھ معاملہ کرنا چاہتی ہے، یا اصل ہدف اور مقصد تو فقط امریکی مفادات کا حصول ہے، اور اس کے لیے ایک نئے انداز اور اسلوب سے معاملہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو ان کی تقریر تضادات کا مجموعہ ہے۔ کبھی تبدیلی کا اشارہ دیا جاتا ہے اور پھر جلد ہی پرانی شراب، نئی بوتلوں میں پیش کردی جاتی ہے۔ بیش تر اساسی امور پر پالیسی کی تبدیلی کی طرف کوئی واضح اقدام تو کیا غیرمبہم اشارہ بھی نہیں دیا جاتا اور ’’صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کا منظر پیش کیا جاتا ہے۔ محض اسٹائل اور اندازِ گفتگو کی تبدیلی سے مطلوبہ تبدیلی کی طرف کوئی پیش قدمی ممکن نہیں۔ محض ذاتی جذبات و احساسات پر مبنی خیالات پہ قوموں اور تہذیبوں کے مسائل کو نہ ماضی میں حل کیا گیا ہے اور نہ آج ممکن ہے۔
صدر اوباما کے اس خطاب میں جو مثبت چیزیں ہمیں نظر آئیں پہلے ان کا ذکر مناسب ہوگا:
پہلی بات یہ ہے کہ صدر اوباما، مسلمانوں سے ربط اور تعلق کو بہتر بنانے اور صدربش کی ناکامی، نفرت اور تصادم پیدا کرنے والی پالیسیوں سے فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ وہ ان پالیسیوں کی ناکامی کا کھل کر اعتراف نہیں کرتے، لیکن ان کے تسلسل کے نتیجے میں خطرات اور قباحتوں سے بھی پریشان نظر آتے ہیں۔ ایک جانب وہ ان سے نکلنے کے اشارے بھی دے رہے ہیں، مگر امریکی مفادات اور امریکی مقتدرہ اور ہیئت حاکمہ کی سوچ کے حلقۂ زنجیر سے نکلنے کا کوئی واضح عندیہ ابھی تک نہیں دے سکے ہیں۔ سابق امریکی وزیرخارجہ میڈلین آل برائٹ نے اپنے ایک مضمون (نیویارک ٹائمز ،۳ جون ۲۰۰۹ء) میں ان کی تقریر سے ایک دن پہلے ان کے اس مخمصے کا دل چسپ بیان کیا ہے، جس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا ضروری ہے:
اوباما کا مخمصہ یہ ہے کہ کوئی تقریر خواہ کتنی عمدہ کیوں نہ ہو، عراق، افغانستان، پاکستان، ایران اور شرق اوسط کے حالیہ واقعات کے زیرِاثر امریکا مسلم تعلقات کی صورت حال سے عہدہ برا نہیں ہوسکتی۔ اس کا امکان کم ہے کہ صدر پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کا اعلان کرسکیں، اس لیے کہ ان کو مسلمانوں کو یہ سمجھانا ہے کہ وہ حالیہ جاری پالیسی کو نئی روشنی میں دیکھیں۔
میڈلین آل برائٹ نے ایک جملے میں اصل مسئلے کو پیش کر دیا ہے۔ امریکا کی خواہش ہے کہ موجودہ پالیسیاں ہی جاری رہیں، مگر انھیں ’نئے جامے‘ میں پیش کیا جائے، جب کہ اصل مسئلہ پالیسیوں کی تبدیلی کا ہے۔ انھیں نئی تزئین و آرایش سے پیش کرکے قابلِ قبول بنانا ممکن نہیں۔
اس بنیادی وضاحت کے بعد ہم جن چیزوں کا خیرمقدم کرتے ہیں وہ یہ ہیں:
۱- مسلمانوں سے بحیثیت مسلمان بات کا آغاز کرنے کی کوشش اور کم از کم اس امر کا اظہار کہ امریکا، اسلام اور مسلمانوں کا دشمن نہیں اور تہذیبوں کے تصادم کے فریم ورک میں جو پالیسیاں اور اقدامات کیے جارہے ہیں، ان پر نظرثانی کے لیے آمادہ ہوسکتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے اسلام کی جو مرکزی اہمیت ہے، اس کا کچھ نہ کچھ احساس صدر اوباما کو ہے اور وہ امریکا کی پالیسیوں پر نیا چہرہ سجانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صدر اوباما کی اس تقریر میں دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر بش کی محبوب و مرغوب اصطلاحات کا کوئی ذکر نہیں۔
وہ پُرتشدد انتہا پسندی (violent extremism) کا بار بار ذکر کرتے ہیں مگر دہشت گردی کا لفظ ایک بار بھی استعمال نہیں کرتے۔ اگر یہ صرف اظہارِ بیان کی تبدیلی ہے، جس کا خطرہ اور امکان غالب ہے، تو اس لیپاپوتی اور ظاہری ٹپ ٹاپ سے کوئی فرق واقع نہیں ہوگا۔ لیکن اگر یہ پورے مسئلے پر ازسرِنو غور کرنے کی طرف پہلا قدم ہے تو اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
۲- اس تقریر میں کم از کم اس بات کا اعتراف ہے کہ سرد جنگ کے زمانے میں امریکا نے مسلم ممالک کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے، اور اس سیاسی کھیل میں مسلمانوں کے اپنے عزائم اور خواہشات و مفادات کو اہمیت نہیں دی گئی۔ اس کی اصلاح کے لیے اب مشترک مفادات اور باہمی احترام کے رویے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ سب کچھ ایک جنگی حربے کی تبدیلی پر مبنی عمل جیسی چال ہے تو اس کا کوئی حقیقی فائدہ نہیں ہوگا، لیکن اگر یہ حکمت عملی کی تبدیلی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے تو اس سے کچھ خیر رونما ہونے کا امکان ہوسکتا ہے۔ ہم اسے بہ یک جنبش رد نہیں کرسکتے۔ احتیاط سے اس احساس کو تبدیلی کی طرف لے جانے والے عمل کا حصہ بنانے کے امکانات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
۳- صدر اوباما کی طرف سے سچ بولنے کی کوشش اور دل کی بات کو زبان پر لانے کی دعوت بھی اپنے اندر مثبت پیغام رکھتی ہے۔ البتہ اس کا اطلاق محض کسی ایک فریق پر نہیں، تمام متعلقہ فریقوں پر ہونا چاہیے اور مسلمان حکمرانوں کے لیے بھی اس میں غوروفکر کا بہت سامان موجود ہے۔
۴- صدر اوباما کی اس تقریر کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ انھوں نے عالمِ اسلام اور عالمِ عرب کے حکمرانوں کے مقابلے میں مسلم دنیا کے عوام کو اپنا مخاطب بنایا ہے، اور اسلام کو مسئلے کا ایک حصہ نہیں بلکہ مسائل کے حل اور امن و سلامتی کے حصول کی جدوجہد میں ایک مثبت عامل کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ بھی اگر زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ سوچ میں ایک بنیادی تبدیلی کی طرف اشارہ ہے، تو اس ہلکے سے اشارے کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔ مسلمان اُمت کی اصل حیثیت ایک داعی اور صاحب ِ دعوت اُمت کی ہے اور تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ م بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ (آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ اٰل عمرٰن ۳:۶۴) کے اصول پر ہمیں ہررونما ہونے والے موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔
۵- صدر اوباما نے بار بار اس امر کا اظہار کیا ہے کہ اسلام، امریکا کے لیے غیر نہیں اس کا حصہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قاہرہ کے خطاب میں انھوں نے امریکا میں مقیم ۷۰ لاکھ مسلمانوں کا ذکر کیا ہے اور اس کے چند دن بعد ہی ڈان کے نمایندے کو دیے جانے والے انٹرویو میں ۵۰لاکھ کی بات کی ہے، جو ناقابلِ فہم ہے۔ لیکن اسلام اور مسلمانوں کو امریکی معاشرے کا حصہ تسلیم کرنا اور مساوی بنیادوں پر ان کے کردار کا لفظی اظہار بھی نائن الیون کی مسموم فضا میں وہاں بسنے والے مسلمانوں کے لیے ہوا کا ایک خوش گوار جھونکا قرار دیا جاسکتا ہے۔ توقع رکھنی چاہیے کہ یہ بات صرف زبانی جمع خرچ تک محدود نہیں رہے گی اور مسلمانوں کے لیے امریکا میں جو بے اعتمادی، شک اور تعصب اور امتیازی رویے (discrimination) کی فضا بنا دی گئی ہے، وہ ختم کردی جائے گی۔ انھیں آزادی اور اپنے تشخص کی حفاظت کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنے کا بھرپور موقع حاصل ہوگا۔
صدر اوباما نے اس تقریر اور تعلقات کے نئے باب کے آغاز کی دعوت کے لیے مصر کا انتخاب کیوں کیا، جب کہ مصر میں ۳۰سال سے ایک ایسی امریکا کی تابع مہمل حکومت قائم ہے جو آمریت کی بدترین مثال ہے اور اپنی ہی قوم کو جبر و استبداد کی تاریکی میں لپیٹے ہوئے ہے۔ مصر ہی کے ایک معروف دانش ور سعد الدین ابراہیم نے مصر کو منتخب کرنے پر اس بنیاد پہ اعتراض کیا کہ: ’’وہاں جمہوریت کا قتلِ عام ہو رہا ہے، تو مصری حکومت نے ان کی آواز کو دبانے کے لیے قوت کا استعمال کیا اور انھیں جیل میں دھکیل دیا۔ صدر اوباما کی جانب سے اس شہر کے انتخاب پر ایک مدت تک اضطراب کا اظہار کیا جاتا رہے گا۔
صدر اوباما نے حالات کا جو تجزیہ کیا ہے، وہ بھی کئی پہلوئوں سے محلِ نظر اور حقائق کے صحیح ادراک سے عاری نظر آتا ہے، مثلاً ان کا یہ دعویٰ کہ جدیدیت اور عالم گیریت کی لائی ہوئی بڑے پیمانے پر تبدیلی کے نتیجے میں بہت سے مسلمانوں نے مغرب کو اسلام کی روایات کے دشمن کے طور پر دیکھا___ ایک باطل مفروضہ اور ساری بحث کو خلط مبحث کی نذر کرنے کی بدترین مثال ہے۔ جدیدیت اور عالم گیریت کے اپنے مسائل ہیں، اور دنیا کی تمام ہی اقوام ان کے مثبت اور منفی پہلوئوں سے نبردآزما ہیں، مگر ان کو مغرب کے خلاف بغاوت کی وجہ قرار دینا فکری و ذہنی فساد کے سوا کچھ نہیں۔ اصل ایشو امریکا اور مغربی اقوام کی سامراجی پالیسیاں اور مسلم ممالک کے وسائل کا استحصال ہے، نیز اسلامی احیا کی تحریکوں کو کچلنے اور مسلم ممالک پر اپنے من پسند حکمرانوں کو مسلط کرنے اور ان حربوں کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک کو ایک نئی غلامی کے جال میں گرفتار کرنے کی قابلِ مذمت پالیسی ہے۔ آج بھی دنیا کے ۴۰ سے زائد ممالک میں امریکا کی کئی لاکھ افواج موجود ہیں۔ سیاسی، معاشی اور ثقافتی غلامی اور محکومی وہ اصل سبب ہے جس کی وجہ سے دنیا میں ظلم کا دور دورہ ہے اور مسلم ممالک امریکا کے براہِ راست قبضے یا کہیں بالواسطہ قبضے کا شکار ہیں۔
اسی طرح دہشت گردی کے نام پر، اور اب نام بدل کر انتہا پسندی اور پُرتشدد انتہا پسندی کے عنوان سے جو جنگیں امریکا نے مسلم دنیا پر مسلط کی ہوئی ہیں، اور جن کے نتیجے میں مختلف نوعیتوں کی قتل و غارت گری برپا ہے اور جس درجہ مسلم ممالک کو تباہی کا نشانہ بنایا ہوا ہے، ان سب زیادتیوں کا مداوا محض دوستی اور احترام کے خوش نما الفاظ سے ممکن نہیں۔
صدر اوباما نے سچ بولنے کی تلقین کی ہے اور اس سلسلے میں قرآن کی ہدایت کا بھی تذکرہ کیا ہے، مگر ہر اہم موضوع پر جس کا انھوں نے ذکر کیا ہے، وہ خود سچ اور پورے سچ کی راہ صواب سے بہت دُور رہے ہیں۔ حماس کے کمزور اور ناپختہ میزائلوں پر ان کی تقریر دل پذیر اور اسرائیل کے حملوں، غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں پر امریکا کے فراہم کردہ ایف ۱۶ سے حملے، میزائلوں کی بارش، بھاری توپ خانے سے بم باری، اور غزہ کی پوری آبادی کی ایسی ناکہ بندی کہ اشیاے ضرورت اور خوردونوش کے سامان سے بھی محرومی مقدر بنا دی گئی___ یہ سب ظالمانہ اور چنگیزی کارروائیاں نہ صدر اوباما کو نظر آئیں اور نہ ان کی تقریر میں کوئی جگہ پاسکیں۔ حماس کو انھوں نے لیکچر پلایا کہ تشدد کا راستہ ترک کردیں، لیکن اسرائیل کے ریاستی تشدد اور مغربی کنارے پر اسرائیلی قابضین (settlers) کے تشدد کا کوئی خیال تک ان کو نہیں آیا۔ ایران کی ایٹمی صلاحیت ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہے اور اس وجہ سے انھیں اس علاقے میں ایٹمی دوڑ کا خدشہ نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل کے ۲۰۰ سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ان کی پیشانی پر شکن پیدا کرنے کا سبب نہیں بنتے ہیں۔ کیا دنیا یہ بھول گئی ہے کہ لبنان میں ۱۹۸۲ء کے دوران اسرائیل کے حملے میں ۱۷ہزار ۵سو عام شہری جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد تھی، شہید کیے گئے؟ کیا صبرااور شاتیلا کے ان ۱۷۰۰ معصوم انسانوں کے بے دردانہ قتلِ عام کو دنیا بھول گئی ہے؟ کیا ۱۹۹۶ء میں ۱۰۶ لبنانی عام شہریوں کے، جن میں نصف بچے تھے، قتل کا خون اسرائیل کے ہاتھوں پر نہیں؟ کیا ۲۰۰۶ء میں فلسطینیوں کے مہاجرین کیمپ سے اسرائیلی حکم پر سیکڑوں افراد کا انخلا، اور پھر اسرائیلی ہیلی کاپٹروں سے ان کو موت کے گھاٹ اُتارنے کا واقعہ قابلِ ذکر نہیں؟ اور کیا ۲۰۰۶ء میں لبنان میں ایک ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اُتارنا اور ۲۰۰۸ء میں غزہ میں ۱۳۰۰ کی شہادت کسی شمارقطار میں نہیں؟ اگر صدراوباما کو یہ سب نظر نہیں آتا تو پھر ان کی طرف سے انصاف کی دہائی اور صدق بیانی کی تلقین پر کون یقین کرے گا؟
صدر اوباما افغانستان میں جنگ کو ’مجبوری کی جنگ‘ (war of necessity) قرار دیتے ہیں اور عراق میں فوج کشی کو ’مرضی کی جنگ‘ (war of choice)کہتے ہیں۔ لیکن جس جھوٹ پر اور جن واہموں پر ان تمام جنگی کارروائیوں کا انحصار ہے، ان کا ذکر ضروری نہیں سمجھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نہ عراق میں مستقل قیام چاہتے ہیں اور نہ افغانستان میں، لیکن عملاً دونوں ممالک کو اپنی گرفت میں رکھنے اور پاکستان کو بھی اپنی فوجی جاگیر میں شامل کرنے کے تمام اقدامات کو معمول کی کارروائی سمجھتے ہیں، اور ان ممالک پر اپنے احسانات کا بوجھ ڈالنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ عراق سے واپسی کی باتیں ۲۰۱۲ء کی خبر لارہی ہیں اور افغانستان میں دسیوں سال قیام کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ ان عملی کارروائیوں کے ساتھ انخلا کی حکمت عملی کی بات بھلا کیا مناسبت رکھتی ہے۔
تین ماہ پہلے پاکستان کو چند مہینوں اور چند ہفتوں کا مہمان کہا جا رہا تھا، اور اب پاکستانی حکومت اور فوج نے ان کے احکام کی تعمیل میں اپنی قوم کو جس جنگ میں جھونک دیا ہے اس سے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچ رہی ہے اور اب پاکستان ان کو مستحکم ہاتھوں میں نظر آرہا ہے۔ صدراوباما کو سمجھنا چاہیے کہ یہ مسئلہ خوش کلامی کا نہیں، امریکا کی پالیسیوں اور ان کے نتیجے میں رونما ہونے والی تباہ کاریوں کا ہے اور جب تک امریکا اپنی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرکے جنگی جنون سے باز نہیں آتا، عالمِ اسلام سے تعلقات کی درستی کا خواب ’اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے‘ سے زیادہ نہیں۔ عالمِ اسلام کے زخم حسین الفاظ اور خاندانی رشتوں کے تذکرے سے مندمل نہیں ہوسکتے۔ اس کے لیے پالیسیوں کی تبدیلی اور عملی اقدام کی ضرورت ہے۔
اسرائیل جو مظالم بھی ڈھا رہا ہے وہ امریکا کی اشیرباد اور سیاسی اور مالی مدد کی وجہ سے ہے۔ اوباما صاحب نے نئے یہودیوں کی نئی آبادکاری کے خلاف بات کی ہے، لیکن اصل مسئلہ تو اسرائیل یا فلسطینیوں کی سرزمین پر ناجائز قبضے اور اپنی سرحدوں کو محض طاقت کے بل بوتے پر بڑھانا اور فلسطینیوں کو ان کے اپنے گھروں سے بے دخل کرنا ہے۔ امریکی صدر کو اسرائیل کے وجود اور سلامتی کی تو فکر ہے اور ان کے ’اساطیری حقِ واپسی‘ (mythical right of return) پر بھی کوئی اعتراض نہیں لیکن فلسطینیوں کی اپنی سرزمین سے بے دخلی اور اپنے گھروں میں واپسی کا حق موصوف کو دُور دُور نظر نہیں آتا، جب کہ اسرائیل کو اس کھیل کے جاری رکھنے کے لیے امریکا نہ صرف ہرسال اربوں ڈالر دے رہا ہے، بلکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ۴۰ سے زیادہ بار ویٹو کا حق بھی استعمال کرچکا ہے۔ اس کے باوجود فلسطینیوں سے گلہ ہے کہ وہ ظالم کے خلاف کیوں اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں؟ انتخابی مہم کے دوران صدر اوباما نے کشمیر کا ذکر کیا تھا اور خصوصی نمایندہ مقرر کرنے کی بات بھی کی تھی، مگر اب وہ سب بھول گئے ہیںاور بھارت کو علاقے کا لیڈر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ پاکستان پر سارا دبائو ہے اور ’ایفپاک‘ (Af-Pak) کے شرمناک تصور کے تحت پاکستان اور افغانستان کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کا کارنامہ انجام دے رہے ہیں اور سبق پڑھا رہے ہیں سچ اور انصاف کا___ اس پس منظر میں محض الفاظ پر بھلا کون یقین کرے گا؟
امریکا کی ٹفٹ یونی ورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر گیری لیوپ نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں بش کی پالیسیوں کو پاکستان کے ’وجود کے لیے خطرہ‘ قرار دیا ہے، جن پر امریکا کی موجودہ قیادت کامل یکسوئی کے ساتھ عمل کر رہی ہے اور زرداری حکومت ان کی پوری گرفت میں ہے۔ صدر اوباما کے سینے میں اگر سچ سننے کا دل دھڑک رہا ہے، تو پروفیسر گیری لیوپ کے ان الفاظ پر غور کریں۔ وہ کب تک اصل اسباب پر پردہ ڈالتے رہیں گے:
بش کی انتظامیہ نے مشرف پر دبائو ڈالا کہ سرحدی صوبوں میں پاکستانی فوج کو تعینات کرے جہاں وہ اس سے پہلے کبھی نہیں لگائی گئی تھی، جہاں اس کی محض موجودگی ہی اشتعال انگیز سمجھی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ۲۰۰۵ء کا امن معاہدہ ہوا جس میں حکومت نے سرحد کے ساتھ فوجی چوکیاں ختم کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور اس کے بدلے میں قبائلی لیڈروں نے یہ وعدہ کیا کہ وہ شدت پسندی کی حمایت ختم کردیں گے اور افغانستان کی سرحد سے آمدورفت کو روکیں گے۔ یہ حکومت کے لیے ایک طرح سے باعزت شکست تھی جس پر امریکا نے تنقید کی۔ بعد میں جنگجوئوں سے کیے جانے والے سارے معاہدے ٹوٹ گئے، جیساکہ فروری میں سوات کا معاہدہ۔
بش کی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستان پر ایسی دہشت گردی مسلط کر دی ہے جس کا انجام نظر نہیں آتا۔ اوباما کی افغانستان پاکستان (Af-Pak) جنگ میں زیادہ فوجیں، زیادہ ڈرون حملے اور ’تقسیم کرو حکومت کرو‘ جیسی تدابیر سے بھی کامیابی کی کم اُمید ہے۔ امریکی افسران یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جیسے وہ واقعی حیران ہیں کہ پاکستانی زیادہ نہیں کر رہے۔ پاکستانی حیران ہیں کہ وہ کیوں یہ نہیں سمجھتے کہ ملک کا وجود خطرے میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ باہر رہ کر اندر دیکھنے والے یہ نہیں سمجھتے کہ امریکی استعمار کے مفادات مذہبی، قومی اور نسلی احساسات کو ختم نہیں کردیتے۔ مقامی لیڈروں کے لیے چاہے وہ استعمار کے تنخواہ یافتہ ہوں ممکن نہیں ہے کہ مقامی مزاحمت کو ختم کریں اور امن پیدا کریں۔ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی، امریکی استعمار اور جس طرح یہ کیا گیا، اس نے پاکستانی آبادی کے بڑے حصے کو ناراض کر دیا ہے۔ یہ واشنگٹن کا اسلام آباد کے لیے غیر مطلوب تحفہ ہے جس کے لیے اسلام آباد کو برابر ادایگی کی جارہی ہے اور وہ اس کی قیمت ادا کر رہا ہے۔
الحق مرٌّ (سچ کڑوا ہوتا ہے) لیکن سچائی کو جانے بغیر اصلاح کا کوئی امکان نہیں اور جو پالیسی حقائق کو نظرانداز کرکے بنے گی وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔
صدر اوباما نے گوانتانامو کے تعذیب خانے کو بند کرنے کا اعلان بڑے طمطراق سے کیا تھا، مگر امریکی کانگریس میں اسے بند کرنے کے لیے جو بل پیش کیا گیا، اسے بھاری اکثریت سے جن میں ان کے اپنے ڈیموکریٹ ووٹ بھی شامل تھے، رد کر دیا گیا ہے۔
تحقیقات میں تعذیب (torture) کے استعمال کی صدر اوباما نے سختی سے نفی کی ہے، مگر انھی کی ٹیم کے افسران وہی بش والے دلائل دے رہے ہیں۴؎ اور ’معلومات کے حصول کے قانون کے تحت بش دور کی تعذیب پر مبنی جو تصاویر حاصل کی گئی تھیں‘ خود ان کی حکومت نے ان کی اشاعت کو روک دیا ہے۔ ان حکام کا کوئی احتساب ایجنڈے پر نہیں، جو گذشتہ آٹھ سالوں میں ان تعذیبی ہتھکنڈوں کا بے دریغ استعمال کرتے رہے ہیں۔ قول اور عمل میں اگر مطابقت نہ ہو تو پھر اخلاقی وعظ اور نیک تمنائوں کی دل پذیر تقاریر کو کون سنے گا اور ان پر کون اعتماد کرے گا؟
صدر اوباما کی تقریر پر لندن کے اخبار دی گارڈین کے ادارتی تبصرے کا ایک جملہ دسیوں صفحات پر پھیلے ہوئے تبصروں پر بھاری ہے:
یہ ایک ایسے شخص کی جو بلاشبہہ اپنے مقاصد کے لیے مخلص ہے، دبنگ تقریر تھی۔ یہ ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوتی ہے یا نہیں، اس کا انحصار اس پر ہے کہ وہ اپنے اعلیٰ خیالات کو ٹھوس اقدامات میں تبدیل کرسکتا ہے یا نہیں۔ (اداریہ، دی گارڈین، ۵ جون ۲۰۰۹ء)
ایک اور عرب دانش ور رامی خوری (Rami Khouri) جو لبنان کے The Star کا مدیر اور امریکن یونی ورسٹی آف بیروت کے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی کا ڈائرکٹر ہے، عرب اور مسلم عوام کے دل کی آواز کا یوں اظہار کرتا ہے:
بُری خبر یہ ہے کہ اس میں سے کوئی بات بھی نئی نہیں ہے۔ انھوں نے کوئی ایسا ٹھوس اشارہ نہیں دیا کہ امریکی پالیسی کے اصولوں کا یہ اعلان پالیسی میں عملاً تبدیلی پر منتج ہوگا۔ عرب اسلامی دنیا کے لیے امریکی پالیسیوں میں جو بنیادی تضادات اور بے حسی ہے، وہ اسی کا اظہار کرتے رہے، اور اس پر قائم تھے کہ واشنگٹن کا ایجنڈا اسامہ بن لادن طے کرے۔ اس ایجنڈے میں معقول پالیسیاں اختیار کرنے کے بجاے اکثر اسلام کا خبط فیصلہ کن ہوتا ہے۔
امرِواقعہ یہ ہے کہ قاہرہ میں اوباما کی تقریر میں بیان کردہ ہراچھے اصول کی تردید پورے علاقے میں امریکی پالیسی سے ہوتی ہے لیکن اس سے دورے کی اہمیت یا تقریر میں اس کے خیالات کی امکانی قوت کم نہیں ہوتی۔
ہم دل کی گہرائیوں سے چاہتے ہیں کہ امریکا حقائق کو ان کے اصل رنگ میں دیکھے اور مفاد، دھونس اور سامراج کی عینک اُتار دے۔ ہم دنیا کے تمام ممالک سے پاکستان اور مسلم دنیا کی دوستی چاہتے ہیں، مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب مفاد پرستی کی راہ کو ترک کرکے حق و انصاف کی بنیاد پر معاملات طے کرنے کی مخلصانہ کوششیں ہوں، اور عملاً ان پالیسیوں اور منصوبوں کو ترک کیا جائے جو حالات کو بگاڑنے کا سبب بنے ہیں۔ جب تک یہ تبدیلی واقع نہیں ہوتی، دل پذیر تقریروں سے مصائب کو ٹالا نہیں جاسکتا، اور جنگ کی آگ کو خوب صورت الفاظ سے بجھانا ممکن نہیں۔ مرزاغالب نے ایسے ہی قول و فعل کے تضاد کو دیکھ کر کہا تھا ؎
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
موت برحق اور ہر انسان کا مقدر ہے۔ باقی رہنے والی ذات صرف اللہ رب العالمین کی ہے___ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے بارے میں دل یہی چاہتا ہے کہ وہ ہم سے کبھی رخصت نہ ہوں۔ تاہم، انسانی خواہشات اپنی جگہ اور اللہ کا قانون اپنی جگہ۔ بلاشبہہ ہر ذی نفس کے لیے موت کا ایک وقت مقرر ہے، البتہ کامیاب وہ ہے جس نے زندگی اس طرح گزاری ہو کہ کبھی کسی کو تکلیف نہ دی ہو، جس کی محبت اور مخالفت کا معیار اللہ کی رضا، اس کے دین سے وفاداری، اور نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی سربلندی ہو، اور جس کی موت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عہدوفا پر واقع ہوئی ہو، اور جس کی نیکیاں اس کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی صدقۂ جاریہ کی شکل میں جاری و ساری رہیں۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اپنے محترم قائد، محسن اور رہنما میاں طفیل محمد صاحب کو جن کی سرپرستی میں زندگی کے ۶۰ سال گزارنے کی سعادت مجھے حاصل رہی، میں نے اللہ کا ایک مخلص بندہ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا عاشق اور ان کی رضا اور خوش نودی کو زندگی کی ہردوسری مصلحت پر مقدم رکھنے والا، اُمت کا خیرخواہ، جماعت اسلامی کا وفادار اور خادم، مولانا مودودیؒ کا مخلص ترین ساتھی اور محبت و شفقت کا پیکر پایا۔ وہ صبرواستقامت کے کوہِ گراں اور اخلاص و خیرخواہی میں سب سے آگے تھے۔ دورِحاضر میں ان کی زندگی اسلاف کا ایک نمونہ تھی۔
جوانی میں مولانا مودودیؒ کی دعوت پر لبیک کہہ کر پوری زندگی اس عہدِوفا کو پورا کیا جو اگست ۱۹۴۱ء میں ایک سوٹڈ بوٹڈ وکیل نے اللہ اور اللہ کی طرف بلانے والوں کے ایک مختصر گروہ سے کیا تھا۔ بلاشبہہ انھوں نے اپنے عہد کو سچا کردکھایا۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں اور خدمات کو قبول فرمائے اور جنت کے اعلیٰ ترین مقامات سے ان کو سرفراز فرمائے۔ ان پر قرآن کی یہ شہادت صادق آتی ہے:
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ (الاحزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے عہد کو سچا کردکھایا۔
میاں طفیل محمد مرحوم مولانا مودودیؒ کے بعد جماعت اسلامی کے سب سے اہم رہنما تھے اور بلاشبہہ مولانا مرحوم کے وژن کو نظامِ جماعت کی شکل میں ڈھالنے، مردانِ کار تیار کرنے اور اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا کامیابی سے مقابلہ کرنے میں اپنی نظیر آپ تھے۔ ان کی سادگی، ان کا خلوص، ان کی شفقت، ان کی بے لوثی، ان کی استقامت، ان کی للہیت، ان کا پیار___ انسان کس کس بات کا ذکر اور اعتراف کرے۔ ان کی زندگی میں ہم جیسے کمزور اور گنہگار انسانوں نے اسلام کی انسان سازی کی معجزانہ قوت کا بچشم سر نظارہ کیا، اور ایک بار پھر خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ اسلام ہر دور میں اپنے مطلوبہ انسان پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
میاں صاحب کو میں نے مشکل سے مشکل حالات میں صبر اور استقامت کا پیکر پایا۔ ان کی زبان سے کبھی کسی ذاتی معاملے میں حرفِ شکایت نہیں سنا۔ امارت سے قبل، امارت کے دوران، اور امارت کے بعد ان کی زندگی کے جس دور پر نگاہ ڈالتا ہوں انھیں ایک عظیم انسان، ایک زیرک قائد، ایک روشن ضمیر مرشد، ایک اعلیٰ منتظم اور ایک شفیق باپ پاتا ہوں۔ ان کی زندگی بھی روشنی کا مینار تھی اور موت (۲۵ جون ۲۰۰۹ء) کے بعد بھی ان کی مثال ایک نمونہ اور چراغِ راہ کی رہے گی ع
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ سوات میں امن اور نظامِ عدل کے قیام کی کوشش کا گلا، امریکا اور اس کے پاکستانی گماشتوں نے پیدایش سے پہلے ہی گھونٹ دیا۔ اس طرح سوات، اس کے گردونواح کے تمام علاقوں بشمول بونیر اور دیر وغیرہ کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیل دیا گیا۔ انجامِ کار پاکستانی حکمرانوں نے امریکی خوشنودی کی خاطر ۲۵، ۳۰ لاکھ انسانوں کو اپنے ہی وطن میں بے گھر اور بے سروسامان کر دیا۔
اس خطرناک اور خونیں اقدام سے امریکا اور اس کے اسٹرے ٹیجک اتحادیوں نے ایک طرف اس تاریخی عمل کو پٹڑی سے اُتار دیا، جو ۲۲اکتوبر ۲۰۰۸ء کو پاکستانی پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کی شکل میں خارجہ پالیسی میں تبدیلی لانے، دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کی گرفت سے پاکستان کو نکالنے اور اس کی سالمیت کے دفاع کو درپیش خطرات سے نجات دلانے کے لیے شروع ہوا تھا۔ امریکا کی مسلط کردہ دہشت گردی کی اسی نام نہاد جنگ نے ملک کو سیاسی، معاشی، عسکری ہراعتبار سے کمزور اور مجروح کر دیا ہے۔ اس قرارداد میں سیاسی مسائل کے فوجی حل کو ترک کر کے سیاسی حل تلاش کرنے کی تلقین کی گئی تھی۔ جس کی روشنی میں پہلا اہم اقدام فروری ۲۰۰۹ء کا سوات امن معاہدہ اور شریعت پر مبنی نظامِ عدل کے نفاذ کی کوشش تھی۔
افسوس کہ اس نئی حکمت عملی کو قبول کرنے میں، وفاقی حکومت اور خاص طور پر صدرزرداری صاحب نے جس تردّد اور پُراسرار رویے اور عمل کا اظہار کیا، اسی نے اندیشہ ہاے دُوردراز پیدا کردیے تھے۔ بعدازاں کھلے کھلے امریکی دبائو کے تحت صوبائی حکومت، وفاقی حکومت اور فوج نے اس معاہدے کو قصۂ پارینہ قرار دے کر جس عجلت سے فوج کشی شروع کی اور سوات اور اہلِ سوات کی بربادی کے تباہ کن راستے پر بگ ٹٹ گامزن ہوگئے، وہ پاکستان کی تاریخ کا سنگین ترین المیہ ہے۔ اس اقدام نے ملک کے نقشے تک کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس خونیں ڈرامے کے اہم کردار ہیں: مفاد پرست اربابِ اقتدار، پاکستان کے ہوشیار دشمن، اور نادان دوست! ان میں سے ہر ایک نے اپنا اپنا منفی کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کو امریکی جنگ کی دلدل سے نکالنے کا جو عمل شروع ہوا تھا، اس عمل سے اسے پارہ پارہ کرکے وہ حالات پیدا کردیے گئے ہیں کہ جن کو اگر بروقت روکا نہ گیا تو خدانخواستہ پاکستان کا وجود، اس کی آزادی، سلامتی اور نظریاتی شناخت معرضِ خطر میں پڑ جائے گی۔
حالات کا صحیح تجزیہ، اصلاحِ احوال کی حکمت عملی کا تعین اور اس کے لیے ملک کے ۱۷کروڑ عوام کو پاکستان کے تحفظ اور بقا کی جدوجہد کے لیے بیدار اور متحرک کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ جن حالات کو ہمارے دشمن پاکستان کے ’وجود کو درپیش بحران‘ کہہ رہے ہیں، اسے قومی یک جہتی، قومی ترقی، قومی بقا اور بلندپایہ تہذیبی تشخص میں تبدیل کردینا ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ ہم اس چیلنج کے مختلف پہلوئوں پر اپنی معروضات پیش کررہے ہیں۔
سب سے پہلے مسئلے کی نوعیت کو علمی دیانت اور دقتِ نظر سے سمجھنا ضروری ہے۔ دہشت گردی کے واقعات دنیا بھر میں اور تاریخ کے ہر دور میں ہوتے رہے ہیں، اور ان کا مقابلہ ملک کے نظامِ قانون، ریاستی اداروں اور دستوری ضوابط و اختیارات کے فریم ورک میں کیا جاتا رہا ہے۔ دنیابھر اور خود پاکستان میں ایسے واقعات کو ملک کے قانونِ فوجداری کے تحت گرفت میں لایا گیا ہے۔ عصرِحاضر کے ممالک اور اقوام نے جہاں دہشت گردی پر قرارواقعی گرفت کی ہے، وہیں یہ کوشش بھی کی ہے کہ قانون اور انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں بھی خوارج اور باطنی فرقے کے assassins کے فتنے رونما ہوئے، مگر ان کا مقابلہ اصولِ انصاف اور ضابطۂ قانون کے تحت کیا گیا۔ یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ امریکا نے اس روایت سے یکسر انحراف کرتے ہوئے، نائن الیون کے واقعے کے بعد دہشت گردی کے افسوس ناک واقعے کو بنیاد بناکر پوری دنیا میں ایک عالم گیر جنگ (Global war on terror) کا طبل بجادیا، جس کا نشانہ عملاً افغانستان، عراق اور پاکستان کو بنایا، جب کہ عام مسلمانوں کو بھی اس کی لپیٹ میں لے لیا۔ یوں ۸سال سے دنیا ایک مجہول، ناقابلِ شناخت اور غیرمحدود جنگ کی آگ میں جھونک دی گئی ہے۔ یہ ایسی افسوس ناک جنگ بلکہ دہشت گردی ہے جس کے نتیجے میں خود دہشت گردی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے: گروہی اور ریاستی دہشت گردی، اداراتی اور نسلی دہشت گردی۔
بین الاقوامی قانون، ملکی حدود میں قانون کی حکمرانی اور حقوقِ انسانی کا تحفظ بُری طرح پامال ہوئے ہیں۔ لاکھوں انسان جان کی بازی ہار گئے ہیں اور دنیا کا امن و چین تہ و بالا ہوا ہے۔ محتاط ترین اندازے کے مطابق صرف امریکا کو ۳ کھرب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ گویا عالمی مالیاتی اور معاشی بحران پیدا کرنے اور دنیا میں غربت و افلاس کو بڑھانے میں اس نام نہاد جنگ کا بھی ایک کردار ہے۔ خود پاکستان کا حال یہ ہے کہ جو علاقے ۱۹۴۷ء سے پُرامن تھے وہ اب آتش فشاں بن گئے ہیں۔ ملک کی معیشت کو ڈھائی کھرب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ ہر سال ۵ سے ۶ ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے اور اس سے بڑھ کر ملک کی آبادی کا سُکھ چین رخصت ہوگیا ہے۔ مزید یہ کہ ملک کی آزادی، خودمختاری اور سالمیت خطرے میں ہے۔
بلاشبہہ ماضی میں سیاسی، لسانی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر دہشت گردی کے اِکا دکا واقعات ہوتے رہے ہیں، لیکن امریکا کی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں سابق آمرمطلق جنرل پرویز مشرف کی شرکت اور پاکستان کی سرزمین کو برادر ملک افغانستان پر امریکی فوج کشی کے لیے کندھا پیش کرنے سے دہشت گردی کی جو لہر رونما ہوئی ہے، اور پھر ۲۰۰۴ء میں خود پاکستان کی فوج کو جس طرح اس جنگ میں دھکیل دیا گیا ہے، اس کے نتیجے میں تباہ کن صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔
جوہری اعتبار سے یہ صورت حال ایسی ہے کہ اسے معروف سیاسی، لسانی، نسلی اور فرقہ وارانہ فساد کے پس منظر میں رکھ کر نہیں دیکھنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اس صورت حال کا روایتی انداز سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتاہے۔ یہ اس نوعیت کی بغاوت (insurgency) نہیں ہے جو سیاسی یا علیحدگی پسندی کی تحریکات کے نتیجے میں رونما ہوتی ہے۔ درحقیقت یہ مزاحمتی تحریک کا ایک حصہ ہے، جو افغانستان پر امریکا اور ناٹو افواج کے قبضے کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے، جس کا اصل میدان جنگ تو افغانستان کو بنایا گیا تھا اور امریکی عزائم کے مطابق وہ اب تک میدانِ جنگ ہی ہے، البتہ جنرل پرویزمشرف کی امریکی جنگ میں شرکت،اور اپنی فوجوں کو ۲۰۰۴ء سے اس علاقے میں استعمال کے نتیجے میں یہ آگ خود ہمارے وطن میں آن پہنچی ہے، اور روز افزوں ہے۔ امریکا نے ہمیں اس جنگ میں فریق بنانے اور اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے بڑی ہوشیاری اور چابک دستی سے ہمارے سرحدی اور قبائلی علاقوں کوخوفناک خطے قرار دینے کا پروپیگنڈا شروع کیا، اور ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا واویلا کیا۔ جنرل مشرف کی پالیسیوں کے نتیجے میں جو مزاحمت افغانستان میں ہو رہی تھی اور جسے امریکا قابو کرنے میں بری طرح ناکام ہوگیا تھا اور ہے، اس جنگ کو خود پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دھکیل دیا گیا، تاکہ پاکستان کے وجود کو خطرناک ثابت کرنے کا جواز پیدا کیا جاسکے۔
اس پس منظر میں یہ بات سمجھنا ذرا بھی مشکل نہیں ہے کہ پاکستان کے سرحدی اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی اصلاً کسی داخلی سبب کی پیداوار نہیں ہے، بلکہ یہ افغانستان پر امریکی سامراجی قبضے کا نتیجہ ہے اور مشرف اور زرداری حکومتوں کی پالیسیوں سے اس جنگ کو ہماری سرزمین میں دَرآنے کا موقع ملا ہے۔ ۲۰۰۴ء سے جو فوجی ایکشن اس علاقے میں پاکستان اور خود امریکا کررہے تھے، اس نے یہ ساری آگ بھڑکائی ہے، اور جب ایسی آگ کے الائو بلند ہوتے ہیں تو پھر اس میں بہت سے داخلی عوامل بھی شریک ہوجاتے ہیں۔ دشمن قوتیں بھی حالات کو مزید بگاڑنے کے لیے اپنا اپنا ایجنڈا آگے بڑھاتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت اور اسرائیل نے ان حالات سے پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ امریکا اور افغانستان کے وہ عناصر جو پاکستان سے دشمنی رکھتے ہیں، وہ بھی حالات کو مزید بگاڑ رہے ہیں۔ اس خرابی کا اصل سرچشمہ افغانستان پر امریکا کا قبضہ، وہاں امریکی اور ناٹو افواج کی موجودگی اور ان کی خون آشامی ہے۔ امریکی ڈرون حملے، تربیت کے نام پر امریکی فوجوں کی پاکستان میں موجودگی اور ان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارگزاریاں، اس آگ پر تیل چھڑکنے اور اسے ملک کے طول و عرض تک پھیل جانے کا سامان کر رہے ہیں۔
اس صورتِ حال میں سوات کے مسئلے کو مرکزیت حاصل ہے۔ اسی طرح دیر اور بونیر کے حالات فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ تاہم مسئلے کی اصل جڑ افغانستان پر امریکی تسلط ہی ہے۔ جب تک پاکستان کی حکومت قوم کے جذبات کا احترام اور پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کے واضح پیغام کے مطابق اپنی خارجہ پالیسی کو حقیقی معنوں میں آزاد خارجہ پالیسی بنانے اور پاکستان کی بقا اور سلامتی کے مسئلے کو امریکا کی نظر سے نہیں، بلکہ پاکستان کے حالات، مفاد اور تاریخی خطرات کی روشنی میں دیکھنے، سمجھنے اور پالیسی تشکیل دینے کی کوشش نہیں کرتی ہے، مسائل نہ صرف جوں کے توں رہیں گے، بلکہ بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔ پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے علیحدگی کے عمل کو فی الفور شروع کردے۔ دنیا میں، خصوصیت سے افغانستان اور عراق میں امریکی جنگی حکمت عملی جس بری طرح ناکام ہورہی ہے، اسے دیکھتے ہوئے دانش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ اب مزید اس تباہ کن کھیل کا حصہ نہ رہا جائے۔ جب تک ہماری حکومت ایسا نہیں کرتی، حالات میں بنیادی تبدیلی اور امن اور چین کی طرف حقیقی پیش رفت ممکن نہیں۔
دوسری بنیادی بات جسے قلب و نظر کے پورے اطمینان کے ساتھ سمجھنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ سیاسی مسائل خواہ کتنے ہی پیچیدہ اور کثیرجہت کیوں نہ ہوں، ان کا محض کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔ بلاشبہہ کچھ حالات میں ریاستی قوت کا استعمال ضروری ہوتا ہے لیکن ہر وہ علاقہ جو سرزمینِ وطن کا حصہ ہے، وہاں پر سیاسی عمل، قانون کی حکمرانی، عوام کی مرضی اور انصاف کے قواعد و ضوابط کی پاسداری کے ذریعے ہی ریاستی عمل داری، اداروں کی بالادستی اور شہری زندگی کی بحالی ممکن ہے۔ کھلے کھلے بیرونی دبائو یا اندرونی اُلجھنوں اور مشکلات سے گھبرا کر قوت کا استعمال اور وہ بھی بے محابا عسکری قوت کا استعمال حالات کو بگاڑنے کا ذریعہ تو بن سکتا ہے، حالات کی اصلاح کا نہیں۔ تاریخ کا یہ بہت واضح سبق ہے، مگر اقتدار کے نشے میں مست قیادتیں اور بیرونی دبائو کے اسیر حکمران وہی غلطیاں کرتے چلے جاتے ہیں، جو ماضی میں اقوام کی تباہی اور انسانیت کی بربادی کا سبب بنی ہیں۔ موجودہ وفاقی حکومت اور سرحد کی صوبائی حکومت دونوں نے سوات کے معاملے میں تاریخی غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے، اور سیکڑوں ہزاروں انسانوں کی ہلاکت اور ۳۰لاکھ سے زیادہ افراد کی خانہ بربادی کی ذمہ داری اپنے سر لی ہے۔
ہم اس بات کو بڑے واشگاف انداز میں کہنا چاہتے ہیں کہ سوات اور بونیر میں طالبان یا طالبان کے نام سے مختلف افراد اور گروہوں نے جو بھی غلطیاں کی ہوں، ان پر گرفت ضروری ہے۔ مگر ان کو وجہِ جواز بناکر امن کے پورے عمل کو برباد کرکے رکھ دینے، اور امریکی خواہشات کی تسکین کے لیے اپنی فوج کو، اپنی ہی قوم کے خلاف جنگ میں جھونک دینے کا کوئی جواز نہیں۔ مذاکرات، افہام و تفہیم، جرگہ اور مفاہمت کے سوا حالات کی اصلاح کا کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔ قوت کا استعمال دراصل سیاسی قیادت اور اس کی حکمت عملیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے، اور ۳۰ لاکھ افراد کی خانہ بربادی اس پالیسی کے ناکام ہونے کا کھلا اظہار ہے۔
ہمیں تعجب ہوتا ہے کہ حکمران، لبرل سیکولر دانش ور اور کالم نگار بار بار یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ: ’’مذاکرات کس سے کیے جائیں‘‘؟ پارلیمنٹ کی قرارداد نے اس کا واضح جواب دے دیا ہے کہ تمام متعلقہ عناصر سے بات چیت ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے بلاشبہہ جنگ بندی ضروری ہے مگر ’پہلے ہتھیار پھینکو پھر بات کریں گے‘ کا مطالبہ سیاسی اورعسکری تاریخ سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ جن کو دہشت گرد کہا جاتا ہے، انھی سے بات چیت کرنا ہوتی ہے اور پوری تاریخ اس پر گواہ ہے۔ کیا جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا سے، جسے مغربی اقوام نے دہشت گرد قرار دیا ہوا تھا، مذاکرات نہیں کیے گئے؟ کیا آئرلینڈ میں آئرش جنگ جوؤں سے مذاکرات نہیں ہوئے اور معاہدات طے نہیں ہوئے؟ ۱۸سال کی اس دہشت گردی اور جنگ و جدل کے ذمہ داران جن کا برطانوی ریڈیو یا ٹی وی پر نام نہیں لیا جاسکتا تھا، وہی مذاکرات اور معاہدات کے شریک نہیں بنے، اور طرفہ تماشا یہ کہ معاہدے کے ۱۵سال گزرنے کے بعد آج تک ہتھیاروں کی واپسی کا عمل مکمل طور پر پورا نہیں ہوا۔ کیا عراق میں مسلح جماعتوں کی قیادتوں سے امریکا اور عراق کی امریکا کی پروردہ قیادت نے بات چیت نہیں کی؟ کیا افغانستان میں ہلمند کے صوبے میں برطانوی فوج نے وہاں کے طالبان سے مذاکرات اور افہام و تفہیم کے راستے اختیار نہیں کیے؟ کیا اس وقت امریکا میں ’اچھے طالبان‘ اور ’بُرے طالبان‘ کا فرق پیدا کرکے مذاکرات کی راہیں ہموار نہیں کی جارہیں؟ کیا ہالبروک نے گلبدین حکمت یار کو ’عالمی دہشت گرد‘ کا خطاب نہیں دیا تھا؟ اور اب انھی سے سلسلہ جنبانی شروع کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی؟
اگر پوری تاریخ مذاکرات، افہام و تفہیم اور سیاسی عمل کے ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے تو پاکستان میں جن کو دہشت گرد کہا جا رہا ہے، ان سے بات چیت کیوں نہیں ہوسکتی اور صرف ایک بار نہیں، بار بار کیوں نہیں ہوسکتی؟ مشکل حالات سے نکلنے کے لیے ایک نہیں سو بار بھی بات چیت کی جائے تو مضائقہ نہیں۔
اس باب میں امریکا کی پالیسی نہ صرف دوغلی ہے، بلکہ حقائق پر بھی مبنی نہیں ہے۔ اس نے نہ ویت نام سے کوئی سبق سیکھا ہے اور نہ لاطینی امریکا میں اپنے جارحانہ تجربات کی تلخ تاریخ سے۔ ایک طرف عراق سے افواج نکالنے کی بات کر رہا ہے، تو دوسری طرف افغانستان میں فوج بڑھانے کا عندیہ دے رہا ہے۔ سری لنکا میں سرکاری فوج کی تامل ٹائیگرز پر فوج کشی کی امریکا، برطانیہ، یورپی اقوام، حقوق انسانی کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے مذمت کی، مگر دوسری طرف پاکستان میں سوات پر فوج کشی پر تعریفوں کے ڈونگرے برسائے اور ڈالروں کی بارش کرنے کی طفل تسلیاں دیں۔ طالبان کی کارروائیوں کو حکومت کی رِٹ اور ملک کی حاکمیت پر ضرب قرار دیا اور اپنے ڈرون حملوں کو ’اپنے حق دفاع‘ کا نام دیا۔ امرِواقعہ یہ ہے کہ امریکی سرکاری ترجمان کے مطابق پاکستان کی سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں القاعدہ کے صرف ۱۴ افراد مارے گئے، جب کہ عام معصوم شہریوں کی ہلاکت ۷۰۰ سے زیادہ ہے، یعنی ۲ فی صد کی خاطر ۹۸ فی صد معصوم انسانوں کو قتل کیا گیا اور پاکستان کی آزادی اور عزت کا کھلا مذاق اڑایا گیا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ وقت آگیا ہے کہ پاکستانی قوم، پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کو بڑے بنیادی فیصلے کرنا ہوں گے۔ ملک میں امن و امان کا قیام حکومت کی اولین ذمہ داری ہے، لیکن حکومت اس سلسلے میں ہرجگہ ناکام رہی ہے۔ قتل و غارت ، دہشت گردی، اغوا براے تاوان، ڈاکے اور خوں ریز تصادم صرف قبائلی علاقہ جات، سوات اور مالاکنڈ ہی میں نہیں ہو رہے، پورے ملک میں ہورہے ہیں۔ کیا کراچی میں ۱۲مئی ۲۰۰۷ء اور پھر ۱۹ اپریل اور پھر طالبانائزیشن کا ہوا کھڑا کر کے ایک ہی دن میں ۴۰ افراد کو لقمۂ اجل نہیں بنایا گیا۔ مئی ۲۰۰۹ء میں قومی اسمبلی میں جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں، ان کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں جنوری ۲۰۰۸ء سے مارچ ۲۰۰۹ء تک ملک بھر میں دہشت گردی کے ۱۸۴۲ واقعات ہوئے، جن میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۱۳۹۵ ہے۔
سب سے زیادہ واقعات بلوچستان میں ہوئے ہیں، جہاں ۱۱۲۲ واقعات میں ۴۳۶ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کیا حکومت کی رِٹ کا تعلق صرف سوات اور مالاکنڈ سے ہے، اور یہ جو تازہ ترین اطلاعات امریکا سے آرہی ہیں، کہ اس کی فوجیں افغانستان کے ساتھ ساتھ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ قبائلی علاقوں میں بھی آپریشن کے لیے داخل ہورہی ہیں اور نیوکلیر اثاثہ جات پر قبضہ کرنے کے لیے پرتول رہی ہیں یا موقعے کا انتظار کر رہی ہیں۔ کیا ان سب مداخلتوں کا کوئی تعلق حکومت کی رِٹ سے نہیں ہے ؟
ہم اصولی طور پر سیاسی مسائل کا سیاسی حل تلاش کرنے کو صحیح حکمت عملی سمجھتے ہیں۔ قوت کا کامیاب ترین استعمال بطور دبائو (deterrence) تو روا رکھا جاسکتا ہے مگر بطور فوج کشی نہیں۔ قانون نافذ کرنے کا کام سول اداروں کو کرنا چاہیے۔ پولیس، اسکائوٹس، لیوی اور فرنیٹرکور کا یہ منصبی کردار ہے۔ نیز سول انتظامیہ اور روایتی جرگہ اس علاقے کا ایک بہت مؤثر اور تاریخی طور پر بڑا کارگر ادارہ ہے۔ مذاکرات اور افہام و تفہیم کا عمل ان کے ذریعے آگے بڑھنا چاہیے اور کوشش ہونی چاہیے کہ تمام متعلقین کو اس میں شریک کیا جائے ،اور معاملات کو مل جل کر مشاورت کے ذریعے طے کیا جائے، جس میں اعتمادسازی کے اقدامات سے لے کر اساسی نوعیت کے ایشوز پر اتفاق راے اور فیصلوں کے نفاذ کا طریقہ اور آداب طے کیے جائیں۔
فوج کا اولیں اور اصل کام ملک کی سرحدوں کا دفاع ہے، اپنی قوم پر گولیاں برسانا نہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں سول معاملات میں فوج کے استعمال کے جتنے تجربات ہوئے ہیں وہ سب ناکام رہے ہیں، خواہ ان کا تعلق بلوچستان سے ہو، یا مشرقی پاکستان سے، یا قبائلی علاقہ جات سے۔ خود سوات میں یہ تیسرا فوجی آپریشن ہے جو اپنی تباہ کاری میں اپنے پیش روؤں سے بازی لے گیا ہے اور اس کے ختم ہونے کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ یہ دعویٰ کہ: ہم دہشت گردوں کو تباہ کردیں گے ایک بے سروپا دعویٰ ہے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کی کوشش ضرور ہونی چاہیے لیکن بش اور اوباما سے لے کر مشرف اور زرداری تک جو یہ دعوے کر رہے ہیں کہ وہ ان تمام لوگوں کو جنھیں وہ دہشت گرد قرار دیتے ہیں تباہ و برباد کر دیں گے، یہ طاقت کے ذریعے ایک ناقابلِ حصول ہدف ہے جس میں ہٹلر کے دعوؤں کی بازگشت سنی جاسکتی ہے۔ اس لب و لہجے میں نہ ہٹلر کامیاب ہوا اور نہ آج کے مزعومہ ہٹلر کامیاب ہوسکتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ فوجی حکومت ہو یا جمہوری سب کے رنگ ڈھنگ ایک ہی جیسے ہیں: دھونس، دھمکی، گولی اور تباہی۔ افسوس کہ مکالمہ، حکمت اور دل جیتنے کے راستے پر قدم بڑھانے سے یہ گھبراتے ہیں ؎
زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا!
طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
ہم یہ بات بھی بہت صاف الفاظ میں کہہ دینا چاہتے ہیں کہ سوات کے معاہدے میں بہت سے سقم تھے، مگر ان سب کے باوجود وہ صحیح سمت میں ایک درست قدم تھا اور اس پر عمل ہونا چاہیے تھا۔ بلاشبہہ اس سلسلے میں سرحد کی صوبائی حکومت سے بھی بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں لیکن ان سب کے باوجود معاہدے میں یہ صلاحیت تھی کہ سوات اور مالاکنڈ امن کی طرف پیش قدمی کرسکتے تھے۔ وفاقی حکومت اور امریکی قیادت نے، صوبائی حکومت کو اس معاہدے پر عمل کا موقع ہی نہیں دیا۔ جناب صوفی محمدصاحب کی خوش گفتاریاں اپنی جگہ اور طالبان کے کچھ عناصر کی ریشہ دوانیاں بھی امرِواقعہ ہیں، لیکن اصل ناکامی زرداری صاحب کی حکومت اور صوبائی حکومت کی ہے۔ پھر پاکستانی فوج کی قیادت نے بھی بہت جلدبازی کا مظاہرہ کیا اور گمان غالب ہے کہ یہ سب کچھ امریکا کے شدید دبائو، سیاسی بلیک میل اور معاشی رشوت کا کیا دھرا ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ہماری قیادت میں یہ دم خم اور یہ صلاحیت کیوں نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک کے مفاد اور اپنے عوام کے جذبات اور احساسات کے مطابق فیصلے کرے اور امریکا کی تابع مہمل نہ ہوجائے۔ امریکا کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے اور اس کے عالمی عزائم ایک کھلی کتاب کے مانند ہیں۔ امریکا کے اس کردار کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، لیکن اس باب میں بنیادی مجرم ہماری اپنی قیادت ہے، جو امریکا کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے اور اپنی قوم اور اپنے ملک کے مفادات کا خون کر رہی ہے۔ اقبال نے بجاطور پر کہا تھا ؎
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا ُتو
مجھ کو تو گلا تجھ سے ہے ، یورپ سے نہیں ہے
حالات کو خراب کرنے میں حکمرانوں کی کمزوری، بے حکمتی اور مفاد پرستی کے ساتھ امریکا کا دبائو اور ہمارے ملکی معاملات میں اس کا اس قدر دخل کہ عمومی پالیسی سازی (macro- management) سے لے کر اب تو انتظامی معاملات اور اہم مقامات پر افراد کی تعیناتی یا منتقلی تک میں جسے micro-management کہا جاتا ہے، اس کا عمل دخل ہے۔ سیاسی قیادت، فوجی ذمہ داران، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ، اہم اپوزیشن جماعتوں کے کرتا دھرتا سب تک ان کی رسائی ہے۔ ترغیب و ترہیب (carrot and stick) کا ہرحربہ وہ بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ یہ بڑی خطرناک صورت حال ہے اور سوات کے امن معاہدے، پھر سوات، دیر، بونیر، مالاکنڈ اور فاٹا میں عملاً فوج کشی میں ان کا کردار ہرحد کو پامال اور ملک کی آزادی اور سالمیت کو مخدوش کر رہا ہے۔ امریکا کی کھلی مداخلت کے ساتھ امریکا، بھارت اور اسرائیل کی خفیہ کارروائیاں اور تخریبی عناصر کے ذریعے ہماری سیاسی زندگی میں ان کی دراندازیاں ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں۔ اگر قوم اپنی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے اب بھی نہیں اٹھتی ہے تو ہمیں ڈر ہے کہ پھر اٹھنے اور آزادی کو بازیافت کرنے کے مواقع سے بھی محرومی ہمارا مقدر بن سکتی ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ جہاں مذاکرات، افہام و تفہیم اور مسائل کے سیاسی حل کو ہم اصلاحِ احوال کا واحد مؤثر ذریعہ سمجھتے ہیں، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ سیاسی عمل، سفارت کاری اور معاہدہ بندی کے جو معروف اصول اور طریقے ہیں، ان کا اہتمام بھی کیا جائے۔ ورنہ تدبیر کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے سیاسی عمل مجروح اور ناکام ہوسکتا ہے۔ اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کا وبال سیاسی عمل پر نہیں ڈالا جاسکتا، سوال تو اس عمل کو بروے کار لانے کا ہے۔ افسوس کہ بے تدبیری، عجلت پسندی، اور دُوراندیشی سے عاری رویوں کا تمام تر ملبہ محض مذاکرات کی افادیت پر ڈال دیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں اگر سوات معاہدے کے طریق کار اور متعلقین کے کردار کا جائزہ لیا جائے، تو اس کی ناکامی کے اسباب کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔ پہلی چیز طالبان اور امریکا دونوں کی طرف سے دبائو اور صوبائی حکومت کی کمزور پوزیشن ہے، جسے ہر مرحلے پر دیکھا جاسکتا ہے۔ پھر صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کا ایک فکری سطح پر باہم تعاون کے لیے آمادۂ کار نہ ہونا ہے۔ صدر زرداری اس معاہدے کے پہلے دن سے مخالف تھے اور اس کے بارے میں منفی تاثر دینے میں لگے ہوئے تھے۔ بے اعتمادی اور صوبائی حکومت کے بے اثر ہونے کا تاثر بھی ان کے رویے ہی سے پیدا ہوا۔ اس پورے زمانے میں صدر کچھ کہہ رہے تھے، ان کے وزیرداخلہ کچھ اور فرما رہے تھے۔ فوجی ترجمانوں کی زبان کچھ اور صوبائی حکومت کچھ اور ہی راگ الاپ رہی تھی، بلکہ صوبائی حکومت نے مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے علیحدگی کی دھمکی پر معاہدے کی راہ ہموار کی۔ معاہدہ ہونے کے بعد صدرمملکت نے ۸ ہفتے تک معاہدے پر دستخط نہیں کیے، کہ جس کے بغیر وہ نہ قانونی دستاویز کا مقام حاصل کرسکتا تھا اور نہ اس کے نفاذ کو حقیقی قرار دیا جاسکتا تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے معاہدے کے نفاذ کا اعلان ۱۶ فروری کو کردیا، جب کہ اس پر دستخط اپریل کے وسط میں قومی اسمبلی کے ڈرامے کے بعد کیے گئے، اور اس طرح کیے گئے کہ امریکا میں وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن سے لے کر تمام سرکاری اور فوجی ترجمانوں اور پورے میڈیا نے اس عمل پر پاکستانی حکومت کو ہتھیار ڈالنے کا طعنہ دیا۔ پھر کہا کہ اب طالبان اسلام آباد اور نیوکلیر اثاثوں پر قبضہ کرلیں گے بلکہ ہیلری کلنٹن نے تو پاکستان کے عوام تک سے اپیل کی کہ اس کے خلاف اعلانِ بغاوت کریں اور مزاحمت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔
معاہدے پر عمل درآمد کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوا تھا کہ اسے سبوتاژ کرنے کا منظم کام شروع ہوگیا۔ فوج کی نقل و حرکت بھی شروع ہوگئی۔ معاہدے کے چند دن کے بعد فوج کے ایک قافلے کو طالبان کی مزاحمت کی وجہ سے واپس آنا پڑا اور اس فوجی حرکت نے بے اعتمادی کی فضا کو بڑھا دیا۔ طالبان کی طرف سے بھی پے درپے ناقابلِ فہم غلطیاں اور حماقتیں ہوئیں، جن میں جناب صوفی محمد کے بیانات اور بونیر کی طرف طالبان کی نقل و حرکت نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ امریکا نے اپنے ترپ کے پتے بڑی ہوشیاری سے استعمال کیے۔ صدر زرداری اور افغان صدر کرزئی کو بلیک میل کی عالم گیر فضا میں واشنگٹن بلایا اور امریکا کی فوجی قیادت نے پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت پر طرح طرح سے ’کمانڈو ایکشن‘ کیا اور بالآخر یہ معاہدہ زمین پر چکناچور ہوگیا۔
امن کی جو ننھی سی کرن روشن ہوئی تھی، وہ دم توڑ گئی۔ آسمانوں سے گولے برسنے لگے اور سوات کے بے بس شہری دربدر ہونے پر مجبور ہوگئے۔ لاکھوں بے گھر ہوئے اور جو گھروں سے نہ نکل سکے ان کے گھر ہی قیدخانے اور عقوبت خانے بن گئے اور وہ بے کسی اور کسمپرسی کے عالم میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے لگے۔
سرحد حکومت کی دو اور غلطیاں بھی ہیں جن کی نشان دہی ضروری ہے۔ مرکز کا عدم تعاون بلکہ اس عمل کو درہم برہم کرنے کی کوششیں اپنی جگہ، اور امریکا کا دبائو اور ریشہ دوانیاں بھی مسلّم، مگر صوبائی حکومت نے صرف ایک شخص جناب صوفی محمد پر غیرضروری اور غیرمعمولی اعتماد کیا اور مذاکرات کے عمل میں علاقے کے تمام متعلقہ طبقوں بشمول طالبان کے نمایندوں کو شامل نہیں کیا۔ محترم صوفی محمدصاحب اس علاقے کی ایک معروف شخصیت ہیں۔ ان کا علمی مقام خواہ کچھ ہو، مگر ان کا خلوص اور سادگی اور علاقے میں ان کی پذیرائی ایک جانی بوجھی حقیقت ہے۔ لیکن اس امر سے بھی سبھی واقف ہیں کہ جمہوریت وغیرہ کے بارے میں ان کے کچھ مخصوص خیالات ہیں جن کا وہ گذشتہ ۲۰سال سے اظہار کرتے رہے ہیں، یہ کوئی نئی چیز نہیں۔ لیکن ان کو اشتعال دلاکر یا ایک منصوبے کے تحت ان سے کچھ باتیں اگلوائی گئیں اور پھر ان کی بڑے پیمانے پر تشہیر کرکے انھیں معاہدے کو پرزے پرزے کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ کھیل صاف دیکھا جاسکتا ہے اور بدقسمتی سے صوبائی حکومت بھی اس کا شکار ہوگئی۔ اگر صوبائی حکومت نے تمام عناصر کو شریکِ معاہدہ کیا ہوتا تو ایک فرد کی کسی راے سے وہ فساد نہ اٹھایا جاسکتا۔ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ ایک طرف ایک تنظیم کو کالعدم کہا جا رہا ہے، دوسری طرف اس کے سربراہ سے سربراہ کی حیثیت سے معاہدہ کیا جاتا ہے۔
دوسری بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ ماضی کے معاہدات اور ان کی ناکامی سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ ہرمعاہدے کو امریکا نے سبوتاژ کیا، اس لیے پیش بندی کی ضرورت تھی۔ اس سے بھی زیادہ اہم چیز یہ تھی کہ معاہدے میں ایک داخلی خودکار انتظام اس امر کا ہونا چاہیے تھا کہ خلاف ورزی کی صورت میں اختلافات کو رفع کرنے کا طریق کار کیا ہوگا؟ پشتون علاقے کی جرگے کی روایات کا یہ ایک حصہ ہے کہ خلاف ورزی کے تعین کا طریقہ، ثالثی اور خلاف ورزی کی سزا معاہدے کا حصہ ہوتا ہے۔ جدید اصولِ قانون (Jurisprudence) میں جسےalternate Justice (قیامِ انصاف کا متبادل نظام )کہا جاتا ہے، اس کا ایک معروف اصول یہ ہے کہ ثالثی اور خلاف ورزیوں پر قابو پانے کا انتظام معاہدے کا حصہ ہوتا ہے۔ اس علاقے میں پچھلے ۲سال میں ۶ معاہدوں کی ناکامی کے پس منظر میں صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ معاہدے میں خلاف ورزی اور اس سے نمٹنے کے طریقے اور نظامِ کار کا اہتمام کرتی۔ لیکن جلدبازی میں یا دبائو کے تحت ان بنیادی امور کو ملحوظ نہیں رکھا گیا، جس کی بڑی بھاری قیمت یہ علاقہ اور پوری قوم ادا کر رہی ہے۔
اس دلدل میں جس طرح فوج دھنستی چلی جارہی ہے، وہ قومی سلامتی اور فوج اور قوم کے درمیان اعتماد اور یک رنگی کے رشتے کو بُری طرح متاثر کر رہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ سیاسی اور فوجی قیادت بڑے شفاف انداز میں اور دستور کی اسکیم، جمہوری اور اسلامی آدابِ حکمرانی کے مسلّمہ اصولوں اور ضابطوں کی روشنی میں اس پورے معاملے پر غور کرے۔ جلد از جلد فوج کو سیاسی کردار اور داخلی آپریشن کی دلدل سے نکالنے کا کام انجام دیا جائے۔ طالبان سے فوج اور اس کی ایجنسیوں کے تعلق، اور خصوصیت سے گذشتہ ۶ سال کے مختلف فوجی آپریشنوں اور ان آپریشنوں کے وقت، دورانیے اور تفویض کردہ اہداف کی روشنی میں بڑے پریشان کن سوالات سامنے آرہے ہیں، جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
مثال کے طور پر بار بار یہ بات کہی جاتی ہے کہ: ’’فوج کی تربیت روایتی جنگ کے لیے ہوئی ہے اور اندرونی انتشار کے مقابلے کی نہ اس کو تربیت دی گئی ہے، اور نہ اس کے پاس اس کام کے لیے مطلوبہ سازوسامان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج ان علاقوں میں فضائی قوت اور بھاری توپ خانہ استعمال کر رہی ہے‘‘۔ بظاہر ان باتوں میں وزن بھی نظر آتا ہے لیکن گہرائی میں جاکر حالات کا جائزہ لیا جائے تو تصویر کے بہت سے دوسرے رُخ بھی سامنے آتے ہیں۔ پیادہ فوج (انفنٹری) اور کمانڈو یونٹوں کی تربیت اور ان کے میدان کار کو پیش نظر رکھا جائے تو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ زمینی میدانِ جنگ کے حالات سے نمٹنا ان کا حصہ ہے۔ فضائی قوت اور بھاری توپ خانے کا استعمال جنگی حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے، مجبوری نہیں۔ یہ وہ حکمت عملی ہے جسے امریکا نے استعمال کیا ہے، تاکہ فوج، انسانی ٹکرائو اور مقابلے کے جواب میں تکنیکی جنگ کے ذریعے مدمقابل کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا سکے اور اپنے جانی نقصان کو کم سے کم رکھ سکے۔ لیکن انسانی نقطۂ نظر سے یہ بڑی ظالمانہ اور سفاکانہ حکمت عملی ہے جس کے نتیجے میں مجرموں کے مقابلے میں عام انسانی جانیں بڑے پیمانے پر ضائع ہوتی ہیں، اور بڑی بڑی آبادیاں برباد کر دی جاتی ہیں۔
فوج نے جو حکمت عملی اس علاقے میں اختیار کی ہے، اس کا منطقی تقاضا بڑے پیمانے پر جانوں کا اتلاف اور علاقوں کی بربادی ہے۔ اعتراض ملٹری آپریشن پر بھی ہے اور اس طریق کار اور حکمت عملی پر بھی، جو اختیار کی گئی ہے جس کے نتیجے میں عوام کا نقصان بڑے پیمانے پر واقع ہو رہا ہے۔ جن کو اصل نشانہ قرار دے کر آپریشن کا آغاز کیا گیا ہے، وہ خود فوجی ترجمان کے بقول بچ نکلتے ہیں۔ اعتراض اس پر بھی ہے کہ یہ پورا عمل کسی قومی مشاورت اور کسی اتفاق راے کے بغیر انجام دیا جا رہا ہے۔ اگر اس کے طریق واردات کا جائزہ لیا جائے تو امریکی مطالبات سے ان کا رشتہ بہت صاف نظر آتا ہے۔ اسی طرح امریکی قیادت سے پاکستان میں یا امریکا میں ملاقاتوں کے ساتھ بھی ان کا بڑا واضح تعلق سامنے آتا ہے۔ یہ تمام چیزیں پورے عمل کو بڑا مخدوش بنا دیتی ہیں۔ طالبان اور دہشت پسندوں کے مارے جانے کے جو دعوے کیے جاتے ہیں، ان کی بھی آزاد ذرائع سے توثیق یا تردید کے تمام راستے بند کردیے گئے ہیں۔ سرکاری دعووں میں عام شہریوں اور معصوم خواتین و حضرات اور بچوں کی ہلاکت کا کوئی ذکر نہیں کیا جاتا، جب کہ عوامی سطح پر جو حقائق سامنے آتے ہیں، ان میں بڑا نقصان عام انسانوں ہی کا بتایا جاتا ہے، اور جو افراد ان علاقوں سے نقل مکانی کرکے آئے ہیں ان کی داستانیں سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اپنی ہی فوج کے ہاتھوں، اپنے بھائی، بہنوں اور بچوں کی ہلاکت اور تباہی کے احوال دیکھ اور سن کر انسان کلیجہ تھام کر رہ جاتا ہے۔
پھر اگر ان ستم زدہ انسانوں کی داستانوں کا تجزیہ کیا جائے تو بڑے پریشان کن سوالات اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور آپریشن کا ہدف بننے والے علاقے میں فوج کی چوکیاں اور مبینہ طالبان کی چوکیاں اپنے اپنے مقامات پر موجود رہتی ہیں۔ فضائی بم باری اور توپ خانے کی بم باری سے ان پر کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اسی طرح دہشت پسندوں کے بہت سے ٹھکانے صرف اس وقت تباہ ہوتے ہیں، جب وہ ان کو خالی کر کے دوسرے مقامات پر منتقل ہوچکے ہوتے ہیں۔ ہزاروں افراد کو تو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، مگر بڑے بڑے مطلوبہ دہشت گرد ہرگرفت سے آزاد رہتے ہیں۔ وہ ایف ایم ریڈیو کہ جنھیں غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ کے طلبہ کہتے ہیں کہ ہم غیرمؤثر اور جام کرسکتے ہیں،وہ برابر آتش افشانی کرتے رہتے ہیں اور سول و فوجی قیادت اپنی بے بسی کا اظہار کرتی ہے۔ اسی طرح دہشت گردوں کے پاس ڈالروں کی فراوانی اور تازہ ترین اسلحے کا واویلا کیا جاتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ان کی سپلائی کے راستوں کو ختم کرنے کے لیے کیا کیا گیا؟ اس کا عوام یا عوامی نمایندوں کو کچھ پتا نہیں ہے۔ کیا وجہ تھی کہ مقامی پولیس نے فتنے کے ابتدائی ادوار ہی میں اسے قابو کرنے کی کوشش نہیں کی؟
روزنامہ ایکسپریس ، اسلام آباد کے ایک کالم نگار فضل ربی راہی نے اپنے مضمون: ’اپنا اثاثہ کون ضائع کرتا ہے‘ کے تحت ایسے ہی واقعات کے انبار میں سے چند نکات کو سوالیہ نشان کے ساتھ پیش کیا ہے، جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا:
۱- جب مولانا فضل اللہ کو اسلحہ بارود فراہم کیا جارہا تھا اور ان کے ساتھیوں کو ’ضروری ٹریننگ‘ دی جا رہی تھی تو اس وقت حساس اداروں نے کیوں اپنی آنکھیں بند کیے رکھیں؟
۲- جب مولانا فضل اللہ کی سرگرمیاں روکنے میں مقامی پولیس بھی کامیاب ہوسکتی تھی تو اس وقت جوابی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ ایک مقامی ایس ایچ او کے مطابق: ’’اگر اس وقت مجھے فری ہینڈ دے دیا جاتا تو چند گھنٹوں کے اندر ہی وہ اپنے تمام ساتھیوں سمیت حوالات میں بند ہوتے‘‘۔ لیکن بقول ان کے انھیں سختی سے ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ اس معاملے میں ٹانگ نہ اڑائیں۔
۳- جب مشرف دور میں سوات کے راستے لنڈا کی چیک پوسٹ پر مبینہ طور پر اسلحے سے بھرا ہوا ایک ٹرک پکڑ لیا گیا تھا، تو کسی نے اُوپر سے احکامات جاری کردیے تھے کہ اسے بحفاظت امام ڈھیری تک پہنچنے دیا جائے۔
۴- سوات میں اس سے قبل بھی ۳ بار فوجی آپریشن چلتے رہے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق اپرسوات اور تحصیل خوازہ خیلہ کی بعض چیک پوسٹوں پر ’طالبان‘ کو باقاعدہ آمدورفت کی اجازت تھی، جب کہ ان ہی آرمی چیک پوسٹوں پر عام شہریوں کو خوب تنگ کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ چیک پوسٹ کے قریب طالبان نے متعدد دفعہ لوگوں کو ’شرعی سزائیں‘ دیں، لیکن چیک پوسٹ پر تعینات سیکورٹی فورسز تماشا دیکھتیں اور ’کاروبارِ طالبان‘ میں کوئی مداخلت کی جرأت نہ کرتیں۔ حالانکہ اس وقت فضا میں گن شپ ہیلی کاپٹر بھی محوِپرواز ہوتے، لیکن ان کی فائرنگ کا نشانہ پہاڑ ہوتے۔
۵- سابقہ آپریشنز جو قریباً ڈیڑھ سال تک جاری رہے، ان میں شہری آبادی کا غیرمعمولی جانی و مالی نقصان ہوتا رہا۔ قریباً ۲ ہزار عام شہری، مارٹر گولوں اور سیکورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ ہزاروں گھر اور دکانیں تباہ ہوئیں، لاکھوں لوگوں نے متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی کی۔ ایک سال تک سوات بھر میں کرفیو نافذ رہا، لیکن اس کے باوجود عسکریت پسندوں کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ سوات کے ۲۰۰ اسکولوں کو تباہ ہونے سے نہیں بچایا جاسکا۔
۶- سابق آپریشنوں میں ۵۰ طالبان بھی نہیں مارے گئے ہیں اور اس کی تصدیق نہ صرف غیرجانب دار میڈیا کرے گا، بلکہ سوات میں رہنے والے کسی بھی فرد سے پوچھا جاسکتا ہے کہ مختلف علاقوں میں کتنے طالبان کی نمازِ جنازہ پڑھائی گئی ہیں؟
کالم نگار نے ان واقعات کا ذکر کرنے کے بعد بجا طور پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ: درج بالا حقائق کی روشنی میں سوات کے لوگ اب بھی موجودہ آپریشن کو ’ڈراما‘ سمجھتے ہیں، اور ان کا خیال ہے کہ جس فوجی کارروائی کے لیے ۱۵ لاکھ سے زائد لوگوں کو اپنے ہی ملک میں بے گھر کرکے دربدر کیا گیا، یہ کارروائی کمانڈو ایکشن کے ذریعے چند دنوں میں بہ آسانی مکمل کی جاسکتی تھی۔ ایک حاضرسروس میجر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ پاک فوج کے پاس اتنی صلاحیت موجود ہے کہ اگر وہ چاہے تو محض ۶ گھنٹوں میں پورے سوات کو عسکریت پسندوں سے خالی کرسکتی ہے۔
پاک فوج کی صلاحیت کے بارے میں سوال بار بار اٹھایا جا رہا ہے، اور امریکا بھی اس کا سہارا لے کر پاک فوج میں ’تربیت فراہم کرنے‘ کے نام پر، اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ تاہم حال ہی میں سری لنکا کی فوج کی کارروائیوں کے بارے میں جو جائزے آئے ہیں، ان میں یہ دل چسپ اور چشم کشا بات سامنے آئی ہے کہ سری لنکا کی فوج کو داخلی بغاوت کا مقابلہ کرنے کی تربیت جن ممالک نے دی تھی، ان میں پاکستانی فوج بھی شامل ہے۔ ملاحظہ ہو، دی نیوز کی رپورٹ Pakistan's Role in Death of LITTE (۲۰ مئی ۲۰۰۹ء)۔ صرف ایک اقتباس:
سری لنکا کی فوج کے ہاتھوں تامل ٹائیگرز کی بغاوت کو کچلنے میں سری لنکا کے ساتھ پاکستان کے دفاعی تعاون نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ تعاون ہائی ٹیک فوجی سامان کی فراہمی کی شکل میں تھا۔ یہ بات کہ سری لنکا اور پاکستان کی افواج میں تامل ٹائیگرز بغاوت کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی تعاون تھا، اس کی تصدیق سری لنکا کی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر اودیا ناناکارا نے ۲۸ اپریل ۲۰۰۶ء کو کی تھی کہ پاکستان اور بھارت دونوں سری لنکا کی افواج کو تامل ٹائیگرز کی بغاوت کو ختم کرنے کے لیے تربیت دے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سری لنکا کی فوج نے دونوں ممالک سے جدید ترین ٹکنالوجی حاصل کی۔
اگر سری لنکا کی فوج کو پاکستانی فوج یہ یہ کچھ صلاحیت دے سکتی ہے تو پھر تہی دامن ہونے کا گلہ___ چہ معنی دارد؟ خود سوات کے لوگوں کا اس بارے میں کیا احساس ہے؟ اسے سوات ہی کے ایک روزنامہ آزادی (۲۲ مئی ۲۰۰۹ء) میں بی بی سی کے نمایندے کے الفاظ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
بی بی سی نے دعویٰ کیا ہے کہ سوات میں فوجی کارروائی میں طالبان کی شکست، مختلف علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے اور کامیاب نتائج برآمد ہونے کا دعویٰ سراسر غلط ہے۔ سوات میں فوج کی کارروائی میں طالبان نہیں، بلکہ عام شہری نشانہ بن رہے ہیں۔ سوات کے ایک رہایشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سوات کی حقیقی صورت حال سے آگاہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا: میں سوات میں رہتا ہوں، سوات میں طالبان ابھی تک موجود ہیں۔ حکومت میڈیا کو اجازت کیوں نہیں دیتی کہ وہ یہاں کی صورت حال سامنے لائے؟ انھوں نے کہا: حکومت کا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے کہ فوج نے کچھ علاقوں کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور آپریشن میں کامیابی ہورہی ہے اور دورانِ آپریشن کئی عسکریت پسند بھی ہلاک کردیے ہیں۔ یہ دعویٰ سراسر غلط ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہاں پر نہ تو کوئی فوج ہے اور نہ سرکاری اہل کار نظر آرہے ہیں۔ اگر کارروائی ہو بھی رہی ہے تو وہ معصوم لوگوں کے خلاف ہو رہی ہے۔ اس کارروائی میں طالبان کے بجاے عام شہریوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے۔ طالبان کے علاقے پر کنٹرول کے حوالے سے اس شخص کا کہنا تھا کہ ۱۰۰ فی صد علاقوں پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ میں اس بات کا یہاں پر کئی دنوں سے مشاہدہ کر رہا ہوں۔ فوج کی شیلنگ [گولہ باری] کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ فوج رات کے وقت آکر بم باری کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ علاقے سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ ٹیلی فون کے تاروں کو کاٹ دیا گیا ہے۔ یہاں نہ تو بجلی ہے اور نہ پانی۔
یہ صورت حال ۲۰، ۲۲ مئی کی ہے۔ بعد میں حالات جو بھی ہوں، ان تمام سوالات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، کہ جو خصوصیت سے گذشتہ ۵،۶ سال پر پھیلے ہوئے فوجی آپریشنوں کے تسلسل میں سامنے آئے ہیں اور جن کی مطابقت آج کی کارروائیوں سے گہری ہے۔ ہم ان تمام شبہات اور سوالیہ نشانات کی نہ توثیق کرسکتے ہیں اور نہ تردید۔ لیکن ان کا شفاف انداز میں سامنا کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں!
امریکی قیادت جن میں پہلے صدر بش اور اب صدر اوباما سب سے نمایاں ہیں۔ یہاں پاکستانی حکمران جن میں جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری سب سے پیش پیش ہیں۔ اب ان آوازوں میں وزیراعظم یوسف رضاگیلانی اور مسلم لیگ ن کے قائد جناب میاں محمد نواز شریف بھی اپنی آواز ملا رہے ہیں، پورے دعوے کے ساتھ دو باتیںکہہ رہے ہیں: ایک یہ کہ پاکستان، امریکا بلکہ پوری دنیا کو اصل خطرہ انتہاپرستی اور ’دہشت گردی‘ سے ہے۔ دوسرا یہ کہ ان کو پوری قوت، خصوصیت سے فوجی قوت سے ختم کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔ اس سلسلے میں القاعدہ اور طالبان کو خصوصی ہدف قرار دیا جا رہا ہے۔
ہم سب سے پہلے تحریکِ اسلامی کے اس اصولی اور تاریخی موقف کا اعادہ ضروری سمجھتے ہیں، کہ جہاں اسلام وہ دین ہے جو انسانیت کے لیے اللہ کی آخری ہدایت، اور جو زندگی کے ہرشعبے کے لیے واضح احکام اور رہنمائی فراہم کرتا ہے، وہیں تحریکِ اسلامی پہلے دن سے اس بنیادی حکمت عملی کی داعی ہے کہ زندگی کے پورے نظام میں اسلام کی مطلوبہ تبدیلی قوت اور جبر سے نہیں لائی جاسکتی۔ اس کے لیے قلب ونظر اور اخلاق و کردار کی تبدیلی سب سے بنیادی چیز ہے۔ اجتماعی زندگی میں قانون کا بھی ایک مقام ہے اور اس کے نفاذ کے لیے، ریاست کی قوت ناگزیر ہے۔ لیکن یہ سارا عمل الہامی ہدایت اور قانون کے فریم ورک میں انجام دیا جانا دین کا تقاضا ہے۔ پاکستان اور پوری دنیا میں اسلامی انقلاب دعوت و تبلیغ اور جمہوری، آئینی اور اخلاقی ذرائع ہی سے برپا کیا جاسکتا ہے۔ اسلامی تحریک اسی جدوجہد میں مصروف ہے جسے وہ اصول اور عملی حکمت عملی دونوں اعتبار سے ضروری سمجھتی ہے۔ جہاد، اسلام کا ایک بنیادی اصول ہے جس پر کوئی سمجھوتا ممکن نہیں۔ البتہ جہاد کا مقصد، طریق کار اور آداب، خود اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے طے کردیے ہیں، جن کا مکمل احترام ہرحال میں اور ہردور میں ضروری ہے۔
اس اصولی وضاحت کے ساتھ ہم یہ بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کو ایک ہی حقیقت کے دو روپ قرار دینا اور دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا ایک اسٹرے ٹیجک فاش غلطی ہے، جو حالات کو بگاڑنے کا بڑا سبب رہی ہے۔ انتہاپسندی ایک فکری عمل ہے، جس کا مقابلہ ڈنڈے اور گولی سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس چیلنج کا مقابلہ دلیل، تعلیم، مذاکرے اور مجادلے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہ ایک تاریخی عمل ہے، جو ہر دور میں اور ہرتہذیب و تمدن کے درمیان رونما ہوتا رہا ہے۔ پوری انسانی تاریخ دو انتہائوں کے درمیان کش مکش، مبادلہ اور رد و قبول کے عمل سے عبارت ہے اور درمیان کا راستہ بھی اسی فکری اور تمدنی لین دین، سمجھوتے اور مفاہمت سے روپذیر ہوتا ہے۔
انتہاپسندی مختلف شکلوں میں آج بھی دنیا کے ہر معاشرے میں موجود ہے۔ کیا امریکا میں نیوکونز اور فنڈامنٹلسٹ ایک جیتی جاگتی حقیقت نہیں؟ کیا برطانیہ اور یورپ میں انتہاپسندی کی تحریکیں موجود نہیں ہیں؟ بلکہ تیزی سے غالب نظریے کو چیلنج کر رہی ہیں۔ یورپ کے کتنے ممالک ہیں جن میں انتہاپسند جماعتیں، سیاست میں کردار ادا کر رہی ہیں اور شریکِ اقتدار بھی ہیں یا شریکِ اقتدار رہی ہیں۔ کیا نازی اور فسطائی جماعتیں آج امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، یونان میں موجود نہیں ہیں اور کیا خود اسرائیل میں جسے جمہوری ملک کہتے ہوئے یورپ اور امریکا کے دانش وروں اور سیاست کاروں کی زبان نہیں تھکتی، ایک نہیں، نصف درجن ایک سے ایک انتہاپسند اور متعصب جماعت موجود نہیں ہے؟ اور اس وقت بھی وہاں کی حکومت میں شریک نہیں؟ کیا دنیا میں انتہاپسندی کو کبھی قوت سے ختم کیا جاسکا ہے؟ انتہاپسندی اور دہشت گردی اگر ایک دوسرے کو متاثر کر بھی رہی ہوں، تب بھی ان کا مقابلہ، صرف ایک حکمت عملی سے نہیں کیا جاسکتا، چہ جائیکہ ڈنڈے اور گولی سے اس کا قلع قمع کرنے کو واحد طریقہ سمجھ لیا جائے۔ یہ دونوں الگ الگ حقیقتیں ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے الگ الگ حکمت عملیوں کی تشکیل اور ان پر عمل ضروری ہے۔
رہا معاملہ دہشت گردی کا تو اس سلسلے میں بھی ہم دو باتوں کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں: ایک یہ کہ حقیقی دہشت گردی کا توڑ اسی وقت ممکن ہے، جب اس کے اسباب کا صحیح صحیح تعین کرلیا جائے، اور ان اسباب کو دُور کیے بغیر دہشت گردی سے نجات ناممکن ہے۔ دوسرے یہ کہ دہشت گردی پر گرفت دستور اور قانون کے دائرے میں ہونی چاہیے۔ جنگ کے نام پر دستور، قانون، اخلاق اور مہذب معاشرے کی تمام اقدار کو پامال کرتے ہوئے، محض قوت کے ذریعے سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ دہشت گردی کو پروان چڑھانے اور فروغ دینے کا نسخہ ہے، اسے ختم کرنے کا نہیں۔ ان حربوں کے نتیجے میں سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ایک دہشت گرد مارا جاتا ہے تو ۱۰ نئے دہشت گرد پیدا کردیے جاتے ہیں۔ اس لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی کے بغیر کسی بھی معاشرے میں اور خاص طور پر پاکستان میں موجود دہشت گردی سے نجات ناممکن ہے۔
جہاں تک القاعدہ اور طالبان کا تعلق ہے، ان کے بارے میں بھی جذبات اور مفادات سے بالا ہوکر تمام امور کے معروضی مطالعے کی ضرورت ہے۔ القاعدہ اور طالبان دو الگ الگ حقیقتیں ہیں، اور ان کو گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔ پھر افغانستان کے طالبان اور شے ہیں اور گذشتہ چند سال میں پاکستان میں طالبان کے نام پر جو تحریک وجود میں آئی ہے، وہ ایک دوسری حقیقت ہے۔ طالبان کی حقیقت سے انکار ہمالہ سے بڑی غلطی ہوگی۔ البتہ اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ افغانستان میں طالبان ایک خاص تاریخی پس منظر میں اور حالات کی ایک خاص صورت اختیار کرلینے کی وجہ سے رونما ہوئے۔ پھر ان کا ایک کردار ہے جو اَب ۲ عشروں پر پھیلا ہوا ہے۔ ان کا ایک دور وہ تھا، جب وہ افغانستان میں مجاہدین کی جماعتوں کی باہم آویزش، خانہ جنگی اور لاقانونیت کے تناظر میں وجود میں آئے، اور کچھ ممالک اور قوتوں نے اس میں ایک خاص کردار اداکیا۔ پھر ان کا ۷،۸ سال کا وہ دورِ اقتدار ہے جس کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ طالبان نے افغانستان کے ۹۰ فی صد علاقے پر طاقت کے ذریعے نہیں بلکہ ایک سیاسی عمل کے ذریعے اقتدار حاصل کیا تھا۔ ان کے دور میں امن و امان قائم ہوا اور لوگوں کو انصاف، حتیٰ کہ کچھ طالبان کی غلطیوں یا زیادتیوں کے خلاف بھی انصاف میسر آیا۔ علاقائی سطح پر جنگ جُو لیڈروں کی تباہ کاریوں سے عوام کو نجات ملی اور افغانستان کی تاریخ میں ایک مدت کے بعد ان عناصر کو اسلحے سے پاک (de-weaponize) کیا گیا۔ جرائم میں بے پناہ کمی واقع ہوئی اور خصوصیت سے پوست کی کاشت جسے کوئی قابو نہیں کرسکا تھا، اس کا کسی تشدد کے بغیر قلع قمع کردیا گیا۔ اقوام متحدہ کے منشیات کے خاتمے سے متعلق محکمے کو اعتراف کرنا پڑا کہ افغانستان کی تاریخ میں سن ۲۰۰۰-۲۰۰۱ء وہ سال ہے، جس میں پوست کی کاشت تقریباً ختم ہوئی اور ’منشیات کی تجارت‘ نے دم توڑ دیا۔
ان مثبت پہلوئوں کے ساتھ طالبان کے دور کے منفی پہلو بھی ہیں، جن میں ان کے تصورِ اسلام کی تنگی اور اسلام اور پختون قبائلی روایات کا آپس میں گڈمڈ ہو جانا نمایاں ہیں۔ تعلیم اور خصوصیت سے لڑکیوں کی تعلیم اور مسلم معاشرے میں عورت کے کردار کے بارے میں ان کے خیالات اُمت مسلمہ کے معروف مسلک سے ہٹ کر تھے۔ اسی طرح عصرِحاضر کے تقاضوں اور ان کی روشنی میں ملک کی تعلیم،صحت، معیشت و صنعت، انتظامی و سیاسی ڈھانچے کی ترقی کے باب میں ان کے تصورات، اپنے حالات سے مخصوص تھے۔ دنیا کی اسلامی تحریکات کے خیالات سے ہم آہنگ نہ تھے۔ ان کے دورِ حکومت کا ایک اور پریشان کن پہلو افغانستان کی دوسری قومیتوں کے بارے میں ان کا رویہ بھی تھا، جس کی وجہ سے افغانستان کے تمام علاقوں اور جملہ قومیتوں میں ہم آہنگی اور اتفاق و اتحاد رونما نہ ہوسکا۔
ان تمام پہلوئوں کے علی الرغم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طالبان، افغانستان کی ایک اہم قوت تھے اور ہیں۔ ان کو نظرانداز کر کے یا ان کو تباہ کرکے اور مٹادینے کے منصوبوں کے ساتھ افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ صرف افغانستان ہی میں نہیں، بلکہ اس پورے خطے میں امن کا قیام ان سے معاملہ کیے بغیر ممکن نہیں۔ اس وقت افغانستان کا اصل مسئلہ ملک پر امریکی اور ناٹو افواج کا قبضہ ہے، اور افغانستان میں طالبان اس بیرونی قبضے کے خلاف مزاحمت اور آزادی کی تحریک کی علامت ہیں۔ یہ ایک قومی مزاحمت ہے، جس میں طالبان کے نام اور جھنڈے تلے تمام مزاحمتی قوتیں جمع ہوگئی ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک معاملات کے سیاسی حل کے لیے ضروری ہے۔
جہاں تک پاکستان کے پشتون علاقوں میں طالبان کے مختلف گروہوں کا تعلق ہے یہ ایک نیا حوالہ ہے، اور اس کو وجود میں لانے کا اصل سبب جنرل مشرف کی وہ ظالمانہ پالیسیاں ہیں، جن میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکی فوجوں کا حلیف بننا، پاکستان کی سرزمین کو افغانستان پر امریکی فوج کشی کے لیے استعمال کرنا اور پھر خود فاٹا، مالاکنڈ، سوات اور دیر میں پہلے امریکا کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے القاعدہ اور اس کے معاونین کے خلاف فوج کشی۔ آخرکار القاعدہ تو محض عنوان بن کر رہ گئی ہے، لیکن اب یہ جنگ پاکستانی فوج اور پاکستانیوں اور خصوصیت سے دینی قوتوں کے خلاف جنگ بن گئی ہے، جس آگ میں اس وقت ہم سب جھلس رہے ہیں۔
ان حالات سے فائدہ اُٹھاکر متعدد قوتوں نے اس جنگ میں اپنا اپنا کردار تلاش کرلیا۔ عنوان تو طالبان کا ہے، لیکن اس میں حقیقی طالبان کے علاوہ مختلف مقامی اور بیرونی گروہ شریک ہوگئے ہیں، جن میں مختلف ممالک اور قوتیں اپنا اپنا کھیل کھیل رہی ہیں۔ معاشرے کے وہ مجرم عناصر جو اس علاقے کو اپنی مذموم کارروائیوں کے لیے ایک مدت سے استعمال کر رہے تھے، وہ بھی اسی چھتری تلے اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان دشمن قوتیں، خصوصیت سے بھارت، اسرائیل اور افغانستان کے وہ عناصر جو اپنی پاکستان دشمنی کے لیے جانے پہچانے جاتے ہیں، سب اس خونیں کھیل میں شریک ہیں۔ جب تک ان میں سے ہرعنصر کا الگ الگ تعین، اس کے مقاصد و اہداف، طریق کار اور کارگزاریوں کا ادراک نہ ہو، کوئی جامع حکمت عملی تیار نہیں کی جاسکتی۔
دو امور نے اس پیچیدہ صورت حال کو اور بھی پیچیدہ اور گمبھیر بنا دیا ہے۔ ایک وہ قوتیں اور عناصر جو ایک مدت سے ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلا رہے ہیں۔ انھوں نے بھی اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر اپنا کھیل کھیلنا شروع کر دیا، اور کرم ایجنسی میں خاص طور پر اور پورے علاقے بلکہ پورے ملک میں اس فتنے کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دوسرا پہلو زیادہ گہرا اور زیادہ اہم ہے۔ وہ یہ کہ طالبان کے طریق کار میں جو بھی غلطیاں اور سقم ہوں، اس علاقے میں جو سیاسی اور انتظامی خلا مختلف حکومتوں کی غلطیوں اور غفلتوں کی وجہ سے رونما ہوا تھا اس کی وجہ سے جو روایتی نظام وہاں قائم تھا، یعنی پولیٹیکل ایجنٹ، ملک اور جرگہ سسٹم وغیرہ وہ درہم برہم ہوگیا ہے۔ سول انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے کا روایتی نظام جو پولیس، اسکائوٹ اور فرنٹیر کانسٹیبلری سے عبارت تھا، غیرمؤثر ہوگیا ہے۔
جنرل مشرف کے دور میں یہ خلا اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ اسے دستور اور علاقے کی ضرورت کی روشنی میں پُر کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی۔ مذکورہ طالبان نے نہ صرف اس صورت حال کو ہوا دی، بلکہ مقامی قوانین اور بااثر طبقات کی جو گرفت تھی اور عوام کا جو استحصال وہ کر رہے تھے، اسے اپنے تصورات کے مطابق طبقاتی ہم آہنگی، مظلوم کی دادرسی، اجتماعی انصاف کی فراہمی کے ایک متبادل نظام کے تحت دُور کر کے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا۔ بلاشبہہ اس میں انھوں نے قوت کا استعمال بھی کیا، اور اپنی دانست میں جن روایات کو صحیح سمجھتے تھے ان کو اختیار کرنے کے لیے لوگوں کو مجبور بھی کیا۔ لیکن اس پورے عمل کے جلو میں جو سماجی تبدیلی، مظلوم طبقات کی بحالی اور اجتماعی عدل کی پیاس رونما ہوئی اس کے سماجی اور سیاسی مضمرات نے ہر اعتبار سے اس علاقے کے پورے تناظر کو متاثر کیا ہے۔ اندریں حالات پہلے والی جوں کی توں کیفیت (status quo) کی بحالی ناممکن ہوگئی ہے۔
آج جب طالبان کا لفظ حکومت، میڈیا اور امریکا کی عنایت سے ایک گالی بنادیا گیا ہے، اور ان کے لیے کلمۂ خیر کہنے والے کو نکّو بنایا جا رہا ہے، اس اعتراف کی ضرورت ہے کہ طالبان کی اس علاقے میں مداخلت سے جہاں قوت کے بے جا استعمال کی ایک غلط روایت قائم ہوئی ہے، کہ جس کی اصلاح کی ضرورت ہے، وہیں سماجی، اخلاقی اور معاشی اعتبار سے جو نیا ایجنڈا لوگوں کے سامنے آیا ہے، اس کا ادراک کیے بغیر حالات کی اصلاح اور امن و استحکام کا حصول ناممکن ہے___ ہم چاہتے ہیں کہ اس نکتے کی وضاحت کے لیے طالبان کے مخالفین کی تحریروں سے کچھ حقائق پیش کریں، تاکہ مسئلے کو اس کے اصل تناظر میں سمجھا جاسکے۔ طالبان کو گردن زدنی قرار دینے کی جو مہم واشنگٹن سے کراچی اور اسلام آباد سے لندن تک چلائی جارہی ہے، اس کے تباہ کن ہونے اور پورے مسئلے کو قطعی طور پر ایک غیرحقیقی انداز میں پیش کرنے کی بھیانک غلطی کی اصلاح ہوسکے۔
مرتضیٰ بھٹو کی صاحبزادی فاطمہ بھٹو صاحبہ پر تو طالبان پسندی کا شبہہ بھی نہیں کیا جاسکتا، وہ تو لبرلزم اور جدیدیت کی علَم بردار ہیں۔ دیکھیے وہ مسئلے کے اس پہلو کے بارے میں کیا کہتی ہیں:
مسئلے کا حل زیادہ رقوم فراہم کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تسلیم کرنے میں ہے کہ طالبان سوات کے رہنے والوں کا انتخاب نہیں ہیں۔ طالبان وہاں اس لیے ہیں کہ انھوں نے وہ سڑکیں بنائیں جو کئی عشروں سے نہیں بنائی گئی تھیں۔ انھوں نے کم سے کم لڑکوں کے لیے تعلیم فراہم کی، جب کہ سرکاری اسکولوں میں لاکھوں مقامی طلبہ ناکام ہوئے۔ انھوں نے میڈیکل سنٹر کھولے، جب کہ سرکاری ہسپتال وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بند تھے۔ انھوں نے انصاف فراہم کیا، جب کہ عدالتوں نے بجاے عوام کے حکومت کا تحفظ کرنا شروع کر دیا۔ (Obama is Part of the Problem، نیو سٹیٹس مین، لندن، ۱۴ مئی ۲۰۰۹ء)
شیریں رحمن، پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیراطلاعات ہیں۔ ان پر بھی طالبان نوازی کا ’الزام‘ نہیں لگ سکتا۔ لیکن دیکھیے وہ بھی کیا کہہ رہی ہیں۔ دی نیوز (۲۱ مئی ۲۰۰۹ء) میں اپنے مضمون Why the IDPS Matter میں کہتی ہیں:
کسی کو یہ امید نہیں کرنا چاہیے کہ جو خاندان پاپیادہ یا کرایے کی ٹرانسپورٹ میں بونیر، سوات اور دیر سے صدمے کی کیفیت میں آرہے ہیں وہ طالبان کی، جنھوں نے ان کو قید میں رکھا، کھل کر مذمت کریں گے۔ بہت سے نجی طور پر اس خوف کی کیفیت کا ذکر کرتے ہیں جس میں وہ رہے۔ لیکن ساتھ ہی بہت سے طالبان کے ماتحت سماجی انصاف کے امکان کی بات بھی کرتے ہیں۔
دی نیوز ہی کی ایک اور لبرل مضمون نگار کاملہ حیات اپنے مضمون میں رقم طراز ہیں:
ملکی سلامتی کی صورت حال نے عسکریت اور جہادی گروپوں اور سرکاری طاقتوں کے روابط میں اضافہ کیا ہے۔ اس کا مطلب ریاست کے لیے کچھ مخصوص ترجیحات کا تعین بھی تھا۔ عوام کو ضروری سہولتیں فراہم نہ کرنے میں ناکامی طالبان کے بڑھنے کا کلیدی سبب ہے۔ مہاجر کیمپوں میں جو اسکول قائم کیے گئے ہیں ان میں ۴۰ سے ۵۰ فی صد بچوں نے کہا ہے کہ ان کے خاندان طالبان کے حامی ہیں خاص طور پر اس وجہ سے کہ انھوں نے انفراسٹرکچر اور سہولتوں کو بہتر بنایا ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ محرومیاں اور مایوسیاں دوسری جگہوں پر بھی پائی جاتی ہیں۔ اگر ہمیں اپنی بقا مطلوب ہے تو ان احساسات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ضرورت ہے کہ ریاست نئے کردار میں سامنے آئے اور عوام کی ضروریات کو اوّلیت دے۔ (The Whole Picture، کاملہ حیات، دی نیوز، ۲۱ مئی ۲۰۰۹ء)
پاکستان کے سابق سفیر آصف ایزدی اپنے مضمون Drawing the Right Lesson from Swat میں مسئلے کے ان پہلوئوں پر بڑی جرأت سے اظہارِ خیال کرتے ہیں، جن پر مفادپرست اور تعصب کے پجاری پردہ ڈالتے ہیں اور سارے معاملے کو صرف ’انتہاپسندی اور دہشت گردی‘ کے عنوان سے پیش کرتے ہیں:
زرداری حکومت کے زیادہ تر فیصلوں کی طرح سوات میں فوجی آپریشن کا فیصلہ بھی دبائو کے تحت کیا گیا۔ خارجی دبائو اوباما انتظامیہ کی طرف سے آیا جسے پریشانی تھی کہ سوات دوسرے قبائلی علاقوں کی طرح القاعدہ کے لیے محفوظ جنت نہ بن جائے۔ لیکن داخلی دبائو بھی تھا۔ یہ دبائو روشن خیال اعتدال پسندوں کا اتنا نہیں تھا جو ایک لڑکی کے کوڑے لگانے پر نالاں تھے، اور نہ ان کا تھا جو فوری اور کڑے انصاف کے نظام کو من مانا سمجھتے تھے۔ فوجی ایکشن کے لیے حقیقی دبائو دراصل ان زمین داروں اور ان لوگوں کی طرف سے آیا جن کو خطرہ ہوا کہ ان کی جایدادیں طالبان کے ہاتھوں محفوظ نہ رہیں گی۔
ان کی نگاہ میں جنگ جوؤں کا اصل جرم یہ نہیں تھا کہ وہ شریعت کی تبلیغ کر رہے تھے بلکہ اسلامی مساوات کی بات بھی کر رہے تھے جو کچھ لوگوں کو طبقاتی جنگ سے مختلف نہیں لگ رہا تھا۔ طالبان نے اپنے نئے نظام کا پیشگی اندازہ اس وقت کروایا جب انھوں نے چند بڑے زمین داروں کو سوات چھوڑنے اور اپنی زمین بے زمین لوگوں کو دینے پر مجبور کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ زمرد کی کانوں پر قبضہ کیا گیا اور آمدنی کا بڑا حصہ مزدوروں کو دیا گیا۔ جنگلات کا منافع جو اس سے پہلے لکڑی مافیا اپنی جیبوں میں بھرتے تھے تقسیم کیا گیا۔ پولیس اور حکومت کے وہ اہل کار جو جاگیرداری نظام کا سہارا تھے ان کو نشانہ بنایا گیا۔ ان اقدامات سے خطرے کی گھنٹیاں نہ صرف صوبہ سرحد بلکہ پورے پاکستان میں بجنے لگیں۔ چند صاحب ِدولت کی زمینوں کی ملکیت پر حملہ کر کے جو ہمارے موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کا کلیدی پتھر ہے، خطرے کی سرخ لکیر عبور کرلی گئی۔ پورے نظام کو خطرے میں ڈالے بغیر اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی تھی۔ اس لیے تعجب کی بات نہیں کہ ریاست نے پلٹ کر اس طرح حملہ کیا جس طرح اس نے کیا ہے۔
فوجی اقدام ان خرابیوں کا جن کی جڑیں سماجی معاشی ناانصافی میں ہیں، کوئی حل فراہم نہیں کرتا۔ موجودہ بے چینی و اضطراب کی بنیادی وجہ وہ جاگیرداری نظام ہے جو عام آدمی کو اس کی حالت ِ زار سے نجات کی کوئی اُمید نہیں دلاتا، جب کہ چند مراعات یافتہ لوگ ہی ساری دولت سمیٹ لیتے ہیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا، وہ غلطی پر ہیں کیونکہ وقت بدل چکا ہے، چاہے انھیں معلوم نہ ہو۔
اگر فوجی آپریشن طالبان کو ختم کرنے کا اپنا مقصد حاصل بھی کرلے تب بھی یہ بے چینی اور اضطراب ختم نہیں ہوگا۔ جب تک ریاست سنجیدگی سے سماجی انصاف کے مسائل کو حل نہیں کرتی، سیاسی استحکام حاصل نہیں ہوگا۔ (دی نیوز، ۲۱ مئی ۲۰۰۹ء)
ان حقائق کا کوئی ذکر امریکا اور پاکستان کی سیاسی و فوجی مقتدرہ قوتوں اور ان کے ہم نوا میڈیا کے واویلا میں نہیں ملے گا۔ وہاں تو صرف دہشت گردوں کو مارنے اور ان کو تباہ و برباد کرنے کی گھن گرج کی تکرار ہوتی ہے۔ لیکن اب چند مغربی صحافی بھی، ان حقائق کا تذکرہ کرنے پر مجبور ہیں___ واشنگٹن پوسٹ کی نامہ نگار پامیلا کانسٹیبل ۱۰ مئی ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں لکھتی ہے:
سوات میں شرعی عدالتوں کا مطالبہ طالبان کا فسانہ نہیں تھا بلکہ یہ سیکولر ریاست کے عدالتی نظام سے عوام کی شدید بے اطمینانی کا نتیجہ تھا۔ پورے ملک میں اس پر سست رو اور بدعنوان ہونے کی بنیاد پر تنقید کی جاتی ہے۔ جہاں مقدمے کئی عشروں تک چلتے ہیں اور بااثر لوگ اکثر پولیس کو خرید لیتے ہیں اور اپنے غریب فریقوں کے مقابلے میں مقدمات جیت لیتے ہیں۔ اسلامی عدالتیں عمومی طور پر چھوٹی، تیزرفتار اور کم خرچ ہیں۔
جگہ کی قلت کے باوجود ہم نے ان افراد کی زبان میں حقائق کے اس پہلو پر توجہ مرکوز کی ہے، جو حقیقی ہیں لیکن طالبان دشمنی اور اسلام بے زاری کے جذبات سے مغلوب ہوکر، ہمارا لبرل اور روشن خیال طبقہ اور امریکی و یورپی دانش ور اور سیاسی رہنما تو ذکر نہیں کرتے یا پھر اظہارِ حق کو اپنے مفاد سے متصادم پاتے ہیں۔ لیکن کم از کم پاکستانی قوم اور اس کی پارلیمنٹ کو تو تعصبات سے بالاہوکر تمام عوامل کا گہری نظر سے مطالعہ کرکے ایسی حکمتِ عملی بنانی چاہیے، جو پاکستان اور اس کے اپنے عوام کے مفاد میں ہو۔
پس چہ باید کرد
ہم نے جو معروضات ان صفحات میں پیش کی ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ:
۱- پاکستان کی اولین ترجیح دنیا پر اور خود اپنے علاقے اور ملک پر مسلط کردہ امریکا کی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ سے کنارہ کشی اور ایک حقیقی آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل و تنفیذ ہونی چاہیے۔ اس کے بغیر مسئلے کا کوئی حل نہیں۔
۲- سوات، مالاکنڈ، فاٹا اور بلوچستان میں فوجی آپریشن جلد از جلد بند ہونا چاہیے، اور ہردو علاقوں کے مسائل کا حقیقی سیاسی حل مذاکرات، افہام و تفہیم اور باہمی مشاورت سے نکالنے پر ساری توجہ، صلاحیت اور قوت کا استعمال ہونا چاہیے۔ اس میں نہ وقت کی کوئی قید ہے اور نہ مذاکرات کے بننے اور بگڑنے کی تعداد کی۔ مسئلہ سیاسی اور انسانی ہے اور اس کا حل بھی سیاسی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہی ہوسکتا ہے۔
۳- جہاں تک نفاذِ عدل ریگولیشن کا تعلق ہے، وہ اس پوری صورت حال کا حصہ نہیں۔ اس کا اپنا ایک مستقل وجود اور دائمی ضرورت بھی ہے۔ ان قواعد کو اپنے الفاظ اور روح کے ساتھ پورے علاقے میں نافذ ہونا چاہیے۔ جو تلخی یا تصادم پیدا ہوا ہے، اس کا اس عمل پر کوئی اثر نہیں ہونا چاہیے۔
۴- اس سیاسی عمل میں ان علاقوں کے تمام عناصر کی شرکت ضروری ہے، اور بیرونی مداخلت کا مکمل خاتمہ ناگزیر ہے۔
۵- امریکا سے برابری کی بنیاد پر اپنی آزادی، نظریاتی شناخت اور قومی اور ملّی مفادات کے فریم ورک میں دوستانہ تعلقات ضرور استوار کیے جائیں، مگر افغانستان میں امریکی فوجی کارروائی سے مکمل برأت کا اعلان ہو، ڈرون حملوں کا بھرپور جواب دیا جائے۔ جو مراعات اور سہولتیں امریکا اور ناٹو افواج کو پاکستان کی سرزمین پر حاصل ہیں، انھیں ایک واضح طریق کار اور ٹائم ٹیبل کے مطابق ختم کیا جائے۔
۶- پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد اور اس کی روشنی میں پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی کی سفارشات کی بنیاد پر ایک جامع اور مربوط حکمت عملی بنائی جائے۔ مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے ۵۸ (۲-بی) اور دوسری متعلقہ دستوری ترمیمات کرکے دستور اور پارلیمنٹ کو اس حیثیت میں بحال کیا جائے جو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء سے قبل تھی۔
۷- نقل مکانی کرکے مہاجرت اور بے سروسامانی کی زندگی بسر کرنے والے اہلِ وطن کے لیے جنگی بنیادوں پر، شفاف انداز میں زندگی کی تمام ضروری سہولتیں فراہم کی جائیں، اور جلداز جلد گھروں کو واپسی کا انتظام کیا جائے، نیز ان کے نقصانات کی مکمل تلافی کی جائے۔
۸- ملک میں قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور عدل کی فراہمی کا جلد از جلد اہتمام کیا جائے۔ اس سلسلے میں لاپتا افراد کی فوری بازیابی اور رہائی کو اوّلیت دی جائے۔ جو ادارے اور افراد اس لاقانونیت اور ظلم کے ذمہ دار ہیں، ان پر قانون کے مطابق گرفت کی جائے تاکہ یہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوسکے۔
۹- قوم بجلی، پانی اور گیس کی عدم فراہمی، بے روزگاری اور غربت و ناداری اور اشیاے صرف کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے سے سخت تنگ ہے۔ فوری طور پر معاشی حکمت عملی کو تبدیل کیا جائے، عوام کے لیے نت نئی مشکلات پیدا کرنے کے بجاے انھیں حقیقی سہولت اور فوری سہولت دینے کا اہتمام کیا جائے۔ مفاد پرست طبقات بشمول سیاسی اور انتظامی اشرافیہ کے طرزِ زندگی کو ان حدود کا پابند کیا جائے، جو اجتماعی انصاف کے قیام کے لیے ضروری ہیں۔
۱۰- عوام کو تعلیم، صحت اور رہایش کی سہولتیں فراہم کرنے کا انتظام کیا جائے، اور قومی پالیسی کے ہرپہلو کو اسلام اور مسلم تمدن کی روایات سے ہم آہنگ کیا جائے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے عوامی بیداری اور مؤثر سیاسی جدوجہد وقت کی اولیں ضرورت ہے۔
۱۱- سوات، دیر، بونیر اور فاٹا کے حالات میں گھرے ہونے کے باوجود بلوچستان کے مسئلے کو قرارواقعی اہمیت دی جائے اور حالات کی نزاکت کے بھرپور احساس کے ساتھ وہاں کے تمام عناصر کو مذاکرات میں شریک کر کے متفقہ لائحہ عمل تیار کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ بلوچستان کے اصل مسئلے کی تشخیص کوئی مشکل بات نہیں۔ اس پر خود پارلیمنٹ کی کمیٹی تفصیل سے غورکرچکی اور سفارشات دے چکی ہے۔ اصل مسئلہ مفاد پرست عناصر کا کردار، حکومت کی بے عملی اور بیرونی قوتوں کے تاخیری حربے اورسازشیں ہیں۔ کُل جماعتی کانفرنسیں مسئلے کا حل نہیں، مسئلے کا حل علاقے کے لوگوں کے ساتھ انصاف، فوجی ایکشن اور قوت کے استعمال کی حکمت عملی کو یکسر ختم کرنا اور سیاسی حل کی تلاش اور اس سے بھی زیادہ اس کے لیے فوری عملی اقدام ہے۔ دستوری ترامیم بھی اس پیکج کا حصہ ہیں۔ اس سلسلے میں تاخیر تباہ کن ہوسکتی ہے۔ لہٰذا دونوں میدانوں، یعنی صوبہ سرحد اور قبائلی علاقے اور بلوچستان میں فوری سیاسی حل اور نئے بندوبست کے اہتمام کو اولیت دینا ضروری ہے۔
چشم فلک نے یہ منظر بار بار دیکھا ہے کہ اسلام دشمن قوتیں بڑی چابک دستی سے اہلِ ایمان کے خلاف ایک چال چلتی ہیں اور مطمئن ہوتی ہیں کہ اپنے اہداف حاصل کرنے والی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ایک دوسری ہی تدبیر کا اہتمام فرماتا ہے اور باطل قوتوں کے سارے اندازے اور منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ ان کے شر کے بطن سے خیر کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں اور جو چیز کسی کے خواب و خیال میں نہ تھی، وہ اہلِ حق کے لیے رونما ہوجاتی ہے۔ قرآن پاک میں تاریخ کے اس معجزاتی عمل کا بار بار ذکر فرمایا گیا ہے تاکہ ہر دور میں اہلِ ایمان کی ہمتوں کو مضبوط اور تاریکی سے روشنی کے نمودار ہو جانے کی امیدوں کے چراغ روشن کیے جاسکیں۔ بنی اسرائیل کی چال بازیوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ربانی ہے :
وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ o(اٰل عمرٰن ۳:۵۴) پھر بنی اسرائیل (مسیحؑ کے خلاف) خفیہ تدبیریں کرنے لگے۔ جواب میں اللہ نے اپنی تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے۔
سورئہ انفال میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے:
وَ اِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَط وَیَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَo (الانفال ۸:۳۰) وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے کہ جب منکرین حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کردیں یا قتل کرڈالیں یا جلاوطن کردیں۔ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔
ان تاریخی حقائق کی روشنی میں ذرا ان حالات پر غور کیجیے جو امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خونی یلغار سے دنیا بھر میں اور خصوصیت سے افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اس جنگ میں جنرل پرویز مشرف کی شرکت اور خود پاکستان کی فوج کو پاکستان کے عوام کے خلاف صف آرا کر دینے سے رونما ہوئے۔ ۴ سال کی مسلسل فوج کشی اور امریکا کے ۱۰۰ سے زائدڈرون حملوں کے باوجود کسی ایک علاقے میں بھی فوجی ایکشن کامیاب نہ ہوسکا اور بالآخر مذاکرات اور سیاسی حل کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ سوات کا علاقہ گذشتہ دو ڈھائی سالوں میں میدانِ کارزار بنا رہا۔ سیکڑوں افراد شہید ہوئے، ہزاروں زخمی ہوئے اور لاکھوں دربدر کی ٹھوکریں کھانے اور مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔
کسے خیال تھا کہ اس علاقے میں امن کی تلاش میں بالآخر شریعت کے نفاذ کا راستہ اختیار کیا جائے گا اور بش اور مشرف کی برپا کردہ جنگ کا اختتام اور آیندہ کا دروبست ایک ایسی جماعت کے توسط سے ہوگا جو سیکولرزم کی دعوے دار ہے اور ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں جس کی کامیابی کو ملک ہی کے نہیں دنیا بھر کے آزاد خیال اور سیکولرزم کے حامی عناصر نے دینی قوتوں کی پسپائی اور سیکولرزم اور آزاد خیالی کی فتح قرار دیا تھا۔ جس قانونی تبدیلی کا مطالبہ علاقے کے عوام ۱۹۶۹ء سے کر رہے تھے اورجس کے لیے کم از کم دو بار قانون سازی آخری مراحل تک پہنچ گئی تھی، اس کی تکمیل اور تنفیذ پیپلزپارٹی اے این پی کی صوبائی حکومت اور تحریک نفاذِ شریعت محمدی کی قیادت کی مشترک مساعی سے اور زرداری صاحب کی ۲ ماہ تک ٹال مٹول کے بعد، قومی اسمبلی کی متفقہ سفارش سے ہونا تھی۔ سارا سیکولر طبقہ آتش زیرپا ہے اور امریکا اور مغربی ممالک واویلا کر رہے ہیں لیکن جو قانون سیدھے سیدھے عوامی مطالبے اور لوگوں کی خواہش کے نتیجے میں نافذ نہ ہوسکا تھا وہ اس معجزاتی انداز میں اسمبلی کی تائید سے نافذ ہو رہا ہے ۔
سوات کی ریاست برطانوی دور میں پہلی جنگ ِ عظیم کے فوراً بعد معرضِ وجود میں آئی اور وہاں کا قانون بڑی حد تک شریعت پر مبنی تھا اور اسلامی اصولوں کے مطابق نظامِ قضا کے ذریعے نافذ تھا۔ یہ سلسلہ ۱۹۶۹ء تک چلتا رہا جب ریاست کو پاکستان میں مدغم کیا گیا اور عوام سے وعدہ کیا گیا کہ شرعی قانون کو جاری رکھا جائے گا مگر ملک کی سیکولر قیادت نے اس وعدے کے ایفا کے لیے کوئی قابلِ ذکر کوشش نہ کی جس کے نتیجے میں شریعت محمدیؐ کے قیام کا مطالبہ در و دیوار سے برابر کیا جاتا رہا اور بالآخر وہ حالات پیدا ہوئے جن میں ۱۹۹۴ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی حکومت میں (جب سیکولرزم کے علَم بردار وکیل جناب اقبال حیدر وزیر قانون تھے اور آفتاب احمد شیرپائو سرحد کے وزیراعلیٰ تھے) ایک مسودہ شرعی نظامِ عدل کے نفاذ کے لیے تیار کیا گیا مگر اس کے نفاذ کی نوبت نہ آئی۔ مطالبہ برابر جاری رہا اور پھر ۹۹-۱۹۹۸ء میں جناب نواز شریف کے دورِاقتدار میں سرحد کے وزیراعلیٰ جناب سردار مہتاب عباسی کی ذاتی دل چسپی سے اس مسودے پر نظرثانی کی گئی اور دینی قوتوں کی مشاورت سے قانون کو ایک واضح شکل دی گئی مگر مشرف صاحب کے انقلاب نے اس سلسلے کو درہم برہم کر دیا۔
یہ صرف قدرت کا کرشمہ ہے کہ ۲۰۰۹ء میں زرداری گیلانی حکومت کے دور میں سرحد کی اے این پی کی حکومت کی مسلسل کوشش اور اس کی اپنی ذمہ داری پر ایک معاہدۂ امن ہوا جس کا مرکزی نکتہ سوات اور مالاکنڈ کے تقریباً تمام علاقوں میں شریعت پر مبنی نظامِ عدل کے قیام کا قانون حکومت اور علاقے کی دینی قوتوں کے اتفاق راے سے تیار ہوا اور زرداری صاحب کے سارے تحفظات اور امریکا کی ساری ریشہ دوانیوں کے باوجود بالآخر ۱۳ اپریل ۲۰۰۹ء کو قومی اسمبلی کی تائید سے اس کا نفاذ عمل میں آیا___ یہ تو ابھی دیکھنا ہے کہ فی الحقیقت اس پر کتنی دیانت اور اخلاصِ نیت سے عمل ہوتا ہے لیکن اس قانون پر اتفاق راے کا رونما ہونا اور پھر دستوری عمل کے مطابق اس کا منظور اور نافذ ہوجانا ایک بہت مبارک اور تاریخی اقدام ہے۔ ہم اس پر ان تمام حضرات کو کھلے دل سے مبارک باد پیش کرتے ہیں جن کا اس سلسلے میں کوئی بھی کردار رہا ہے اور اس توقع کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر اس پر نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ پوری طرح عمل ہوتا ہے تو یہ نہ صرف اس علاقے کی قسمت کو بدلنے اور امن و انصاف کے قیام کا ذریعہ ہوگا بلکہ پورے ملک کے لیے ایک روشن مثال بھی بن سکے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ پہلے یہ دیکھا جائے کہ اس قانون کے ذریعے کیا تبدیلی تجویز کی جارہی ہے اور ملک میں شریعت کے نفاذ کے سلسلے میں اس میں کون سی نئی راہ اختیار کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ان خطرات کا ادراک بھی ضروری ہے جو اس تجربے کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ہوسکتے ہیں، نیز اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس تجربے کو کامیاب کرنے کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہم انھی پہلوؤں کی طرف ضروری اشارات کرنے کی کوشش کریں گے۔
سیکولر لابی جو بھی گل افشانی کرے ، یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ پاکستان کے قیام کا مقصد صرف ایک آزاد ملک کا حصول نہیں تھا بلکہ یہ بھی تھا کہ وہ آزاد ملک اسلام کی تجربہ گاہ بنے اور اس کے پورے نظامِ زندگی کو قرآن و سنت کی رہنمائی کے مطابق مرتب و منظم کیا جائے۔ اقبال اور قائداعظم نے برعظیم کے مسلمانوں کو نجات کی جس راہ کی طرف دعوت دی تھی، اس کا مرکزی نکتہ یہی نظریہ تھا اور ہندستان کے ان مسلمانوں نے جن کا تعلق مسلم اقلیتی صوبوں سے تھا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ پاکستان کا حصہ نہیں ہوں گے، صرف اپنے ایمان اور دین کے تقاضوں کے تحت اس تحریک کی دل و جان سے تائید کی تھی اور اس کی کامیابی کے لیے عظیم قربانیاں پیش کی تھیں۔ پاکستان اور اسلام توام ہیں جنھیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ نفاذِ شریعت کا مطالبہ آج نہیں کیا جارہا۔ یہ تحریک پاکستان کی روح تھا اور آج بھی یہی چیز پاکستان کی بقا اور ترقی کی ضامن ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ اقبال، قائداعظم اور قائد کے دستِ راست لیاقت علی خاں کے ان اعترافات اور وعدوں کو ذہن میں تازہ کرلیں جو پاکستان کے مقصد اور اس کی اصل حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں۔
علامہ اقبال نے اپنے ۱۹۳۰ء کے خطبۂ صدارت میں اپنے پورے تجزیے کی بنیاد ہی اس اصول پر رکھی تھی کہ: ’’اسلام کے پیش نظر ایک ایسا عالم گیر نظامِ سیاست ہے جس کی اساس وحی اور تنزیل پر ہے‘‘۔
اس خطبے میں اقبال نے صاف الفاظ میں کہا تھا:
اسلام میں خدا اور کائنات، روح اور مادہ، چرچ اور ریاست ایک دوسرے کی فطری تکمیل کرتے ہیں۔
ان کا ارشاد تھا:
اسلام کا مذہبی نصب العین اُس اجتماعی نظام سے نامیاتی تعلق رکھتا ہے جو وہ قائم کرتا ہے۔ ایک کے مسترد کرنے سے لامحالہ دوسرا بھی مسترد ہوجائے گا۔ اس لیے کسی پالیسی کی قومی سطح پر اس طرح تشکیل کہ اس سے اسلام کے یک جہتی کے اصول اپنی جگہ نہ رہیں، کسی مسلمان کے لیے بالکل ناقابلِ قبول ہے۔
یہی وجہ ہے کہ برعظیم میں اسلام کی بقا اور فروغ کے لیے ان کی نگاہ میں ایک آزاد مسلم مملکت کا قیام ناگزیر تھا۔
ملک میں ایک تہذیبی طاقت کی حیثیت سے اسلام کی زندگی بڑی حد تک ایک مخصوص علاقے میں اس کی مرکزیت پر منحصر ہے۔
چنانچہ ان کا مطالبہ تھا:
اس لیے میں ہندستان اور اسلام کے بہترین مفاد میں ایک متحدہ مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتا ہوں۔
اصل مسئلہ ہی اسلام کا تحفظ اور فروغ تھا۔ اسی لیے علامہ اقبال نے سید غلام بھیک نیرنگ کے نام اپنے ایک خط میں آزادی کے مقصد کو ان الفاظ میں واضح فرمایا:
اگر ہندستان میں مسلمانوں کا مقصد سیاسیات سے محض آزادی اور اقتصادی بہبود ہے اور حفاظت ِ اسلام اس کا عنصر نہیں تو مسلمان اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔
قائداعظم نے مسلمانوں کے ایک قوم ہونے کا دعویٰ اسی بنیاد پر کیا:
ہم ایک علیحدہ قوم ہیں، جس کے پاس اپنا خاص تمدن و تہذیب، زبان اور ادب، فنونِ لطیفہ اور فنِ تعمیر، نام اور اصطلاحات ، اقدار کا تخیل اور تناسب کا تصور، عدالتی قانون اور اخلاق کا ضابطہ، رواج اور سنہ تاریخ اور روایات، رجحانات اور تمنائیں موجود ہیں۔ مختصر یہ کہ زندگی کے متعلق ہم ایک خاص تصور رکھتے ہیں اور بین الاقوامی قانون کے تمام اصولوں کے مطابق ہم ایک علیحدہ قوم ہیں۔ (گاندھی جناح مراسلت)
اگست ۱۹۴۱ء میں قائداعظم نے حیدرآباد دکن میں نوجوان طلبہ کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اسلامی ریاست کو سیکولر ریاست سے ان الفاظ میں ممتاز و ممیز قرار دیا:
اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے، نہ کسی پارلیمان کی، نہ کسی اور شخص یا ادارے کی، قرآن حکیم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی کی حدود متعین کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول و احکام کی حکمرانی ہے اور حکمرانی کے لیے بہرحال آپ کو علاقے اور سلطنت کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ کی تنظیم، اس کی جدوجہد، اس کا رُخ اور اس کی راہ___ سب اس کے جواب ہیں۔
۲۱ نومبر ۱۹۴۵ء کو صوبہ سرحد میں منعقدہ مسلم لیگ کانفرنس میں آپ نے واضح الفاظ میں فرمایا:
مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں، جہاں وہ خود اپنے ضابطۂ حیات، اپنے تہذیبی ارتقا، اپنی روایات اور اسلامی قانون کے مطابق حکمرانی کرسکیں۔
اور اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
لیگ ہندستان کے ان حصوں میں آزاد ریاستوں کے قیام کی علَم بردار ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے تاکہ مسلمان وہاں اسلامی قانون کے مطابق حکومت کر سکیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد سرحد اور قلات دونوں جگہ قائداعظم نے واضح الفاظ میں ان لوگوں کے الزامات کی تردید کی جو کہہ رہے تھے کہ پاکستان میں قانون سازی شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی احکام کے مطابق نہیں ہو گی۔ ان کا ارشاد تھا کہ ’’یہ بات قطعی طور پر غلط ہے‘‘۔
لیاقت علی خاں نے قرارداد مقاصد کی شکل میں پاکستان کے قیام کے اصل مقاصد کو مرتب اور محفوظ کردیا۔ ۵ اپریل ۱۹۴۸ء کو انھوں نے راولپنڈی میں اعلان کیا تھا کہ قائداعظم اور ان کے رفقا کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کی نشووا رتقا ایک ایسی مضبوط اور مثالی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ہو جو اپنے باشندوں کو عدل و انصاف کی ضمانت دے سکے۔ پھر دسمبر ۱۹۴۹ء میں کوہاٹ میں مسلم لیگ کے زیراہتمام ایک جلسۂ عام میں لیاقت علی خاں نے کہا:
جہاں تک لوگوں کی اس اُمنگ کا تعلق ہے کہ پاکستان میں اسلامی اصولوں کے مطابق حکومت ہونی چاہیے، دستور ساز اسمبلی کی منظور کردہ قرارداد مقاصد ان کی کافی ضمانت ہے۔ میرا ایمان ہے کہ اگر ہم نے پاکستان میں اسلامی حکومت قائم نہ کی تو پاکستان زندہ نہیں رہ سکے گا۔
عوام کی اس خواہش کا مظہر پاکستان کا دستور ہے جس میں قرارداد مقاصد نہ صرف اس کا دیباچہ ہے بلکہ دفعہ ۲ الف کی شکل میں اس کا ایک قابلِ تنفیذ حصہ ہے۔ دستور میں مرقوم ریاست کی حکمرانی کے بنیادی اصول زندگی کے ہرشعبے میں اسلام کے قیام کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور دستور کی دفعات ۲۰۳ اور ۲۲۷ پورے قانونی نظام کو شریعت کے تابع اور اس سے ہم آہنگ کرنے کا تقاضا کرتی ہیں۔
سوات اور مالاکنڈ کے عوام قیامِ پاکستان کے مقاصد اور دستورِ پاکستان کے انھی تقاضوں کو پورا کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے جس کی طرف ایک مؤثر قدم ’’عدالتوں کے ذریعے نفاذِ شریعت کے لیے قانون وضع کرنے کا ریگولیشن‘‘ ہے۔ یہ ریگولیشن ایک مثبت اقدام ہے اور اس کے اہم نکات کو سمجھنا اس کی اہمیت کے ادراک کے لیے ضروری ہے۔
اس قانون کی غرض و غایت ہی یہ بتائی گئی ہے کہ ’’قبائلی علاقوں اور سابق ریاست امب کے سوا شمال مغربی سرحدی صوبہ کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں عدالتوں کے ذریعے نفاذِ شریعت کے لیے قانون وضع کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا عنوان ’’شریعۃ نظام عدل ریگولیشن ۲۰۰۹ء‘‘ ہے۔
اس قانون کی اصل اہمیت اور منفرد خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اس طریقے کے علاوہ جو اَب تک پاکستان میں نفاذِ اسلام کے لیے اختیار کیا گیا ہے یعنی ’نفاذ اسلام بذریعہ قانون سازی‘ اب اس کے ساتھ ساتھ ’نفاذِ اسلام بذریعہ نظامِ قضا‘ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت پانچ سطحوں پر مشتمل جس نظامِ قضا کو قائم کیا جا رہا ہے وہ ملکی قانون کے طور پر نفاذ کے ساتھ ان تمام امور پر بھی حاوی ہے جو شریعت کے دائرے میں آتے ہیں لیکن ان کے لیے کوئی متعین قانون موجود نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پوری اسلامی تاریخ میں فقہ کی تدوین کے علی الرغم نفاذِ اسلام کا ایک اہم ترین ذریعہ نظامِ قضا ہی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی روایت کا اہم سرمایہ ججوں کے بنائے ہوئے قوانین پر مشتمل ہے۔ ریاستی قانون سازی کے ذریعے نفاذِ اسلام کا تجربہ ایک نیا تجربہ تھا اور کم از کم پاکستان کی حد تک اس کے اثرات اور نتائج بہت زیادہ قابلِ فخر نہیں۔ اس پس منظر میں سوات اور مالاکنڈ کے لیے بنایا جانے والا حالیہ قانون ایک اہم تجربے کی طرف پہلا قدم ہے۔ ہمیں تعجب ہے کہ زرداری صاحب اور خود اے این پی کی قیادت نفاذِ شریعت کے پہلوئوں پر پردہ ڈالنے اور نظامِ عدل اور قیامِ امن کے پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو یا ان کی کم علمی کا مظہر ہے یا اس سے بھی زیادہ سنجیدہ اور تباہ کن چیز،یعنی علمی بددیانتی کا۔ اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس قانون کے چند اہم پہلوئوں کو قوم کے سامنے بلاکم و کاست لایا جائے:
۱- نفاذِ شریعت اور قیامِ امن کے لیے ایک مربوط اور خود مکتفی نظام وضع کیا گیا ہے جس کی پانچ سطحیں ہیں اور اپیل کے لیے دو ادارے بنائے گئے ہیں:
۲- شریعت کی تعریف ماقبل کی تمام مساعی کے مقابلے میں زیادہ متعین طور پر کی گئی ہے، یعنی شریعت سے اسلام کے احکام مراد ہیں جیساکہ قرآن اور سنت نبویؐ، اجماع اور قیاس میں بیان کی گئے ہیں۔ ہمارے علم کی حد تک اجماع اور قیاس کا واضح اضافہ پہلی مرتبہ کیا گیا ہے۔ دستور میں صرف قرآن و سنت کا ذکر ہے اور یہی صورت ۱۹۹۱ء کے نفاذِ شریعہ ایکٹ میں ہے۔ نیز ہماری نگاہ سے اس علاقے کے بارے میں جو مسوداتِ قانون گزرے ہیں یعنی ۱۹۹۴ء سے ۱۹۹۹ء کے مسودے، ان میں اجماع اور قیاس کا ذکر نہیں تھا۔ علماے کرام دلائلِ شریعہ سے استنباط احکام کی وضاحت کی ضرورت کو بیان کرتے رہے ہیں لیکن یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اجماع اور قیاس کو بھی تعریف میں شامل کیا گیا ہے۔
۳- اس قانون میں خلافِ قرآن و سنت قوانین کی خود بخود منسوخی کے بارے میں ایک بہت واضح اعلان ہے جو بہت اہم اقدام ہے۔ اس کی دفعہ چار میں وضاحت موجود ہے کہ اس ریگولیشن کے نفاذ سے پہلے اس مذکورہ علاقے میں قرآن مجید اور سنت ِ رسولؐ سے متصادم کوئی بھی نافذالعمل قانون، دستاویز، رواج یا دستور یا کوئی بھی ایسی صورت، اس ریگولیشن کے آغازِ نفاذ سے کالعدم متصور ہوگی۔
۴- شریعت کو بالاتر قانون تسلیم کیا گیا ہے۔ عدالتوں کو واضح ہدایت دی گئی ہے کہ فیصلے صرف شریعت کے مطابق کیے جائیں گے۔ ملاحظہ ہو، دفعہ ۹ جس میں واضح کیا گیا ہے کہ:
قاضی یا انتظامی مجسٹریٹ مقدمات چلانے اور ان کے تصفیے کے لیے طریق کار اور کارروائی کی غرض سے قرآن مجید، سنت نبویؐ، اجماع اور قیاس سے رہنمائی حاصل کرے گا اور ان کا فیصلہ شریعت کے مطابق کرے گا۔ قاضی اور انتظامی مجسٹریٹ قرآن مجید اور سنت رسولؐ کے بیان اور تشریح کے مسلّمہ اصولوں کی پیروی کرے گا اور اس مقصد کے لیے اسلام کے مستند فقہا کے بیانات اور آرا کو بھی مدنظر رکھے گا۔
انتظامی مجسٹریٹ بھی دفعہ ۷ کے تحت ’اپنے فرائض اور ذمہ داریاں‘ شریعت کے مسلّمہ اصولوں اور مذکورہ علاقے میں فی الوقت نافذالعمل دیگر قوانین کے مطابق انجام دیں گے۔
۵- مصالحت کا ایک نظام تجویز کیا گیا ہے جو بڑا مفید اضافہ ہے اور مقدمات اور تنازعات کو جلد نمٹانے کے لیے ایک کارگر نسخہ ہے جسے آج مغربی دنیا میں بھی’متبادل انصاف‘ کے عنوان سے اپنایا جا رہا ہے۔ اس میدان میں بھی شریعت سے مطابقت کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ نیز اعلیٰ عدالت کو شریعت سے عدمِ مطابقت کی صورت میں مصلح یا مصلحین کے تصفیے پر نظرثانی یا تنسیخ کا اختیار دیا گیا ہے۔
۶- اس قانون میں دستور کی دفعہ ۲۲۷ کی طرح شخصی معاملات کے سلسلے میں ہر مکتب فکر کے پیروکاروں کے لیے ان کے اپنے مسلک کے مطابق معاملات کے طے کیے جانے کے اصول کو تسلیم کیا گیا ہے اور اس طرح جو تنوع مسلم معاشرے میں پایا جاتا ہے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
۷- غیرمسلموں کو ان کے شخصی قانون کے سلسلے میں یہ حق دیا گیا ہے کہ ان کے مقدمات ان کے اپنے متعلقہ پرسنل لا کے مطابق چلائے جائیں گے اور ان کا فیصلہ اس کے مطابق کیا جائے گا۔ شریعت نے جو آزادی غیرمسلموں کو دی ہے، اس کا اس قانون میں پورا اہتمام کیا گیا ہے۔
۸- وکلا اور معاونین عدالت کے سلسلے میں واضح بیان اس قانون میں نہیں لیکن اس کے خلاف بھی کوئی بندش موجود نہیں۔ بلکہ دفعہ ۱۵ میں عدالتوں کی امداد و تعاون کا جس طرح ذکر کیا گیا ہے اس میں مقدمات میں وکلا یا دوسرے معاونین کی خدمات کے لیے گنجایش موجود ہے۔
۹- عدالت کی زبان کے باب میں بھی پہلی مرتبہ اُردو اور انگریزی کے ساتھ پشتو کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ بھی ۱۹۹۹ء کے مسودے پر ایک اضافہ ہے۔
۱۰- مقدمات کے جلدی فیصلے کے لیے متعدد دفعات میں ضروری قواعد و ضوابط اور ہدایات موجود ہیں اور تاخیری حربے استعمال کرنے پر تعزیرات بھی لاگو کی گئی ہیں۔ نیز دیوانی مقدمات کے لیے زیادہ سے زیادہ ۶ ماہ اور فوجداری کے لیے ۴ ماہ کی مدت متعین کی گئی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو جلد انصاف میسر آسکے گا۔
۱۱- اس قانون کا ایک اور بڑا اہم پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعے پاکستان کے ۹۴ قوانین کا اطلاق اس علاقے پر کیا گیا ہے اور اس طرح جہاں اس علاقے میں شریعت کے نفاذ کا اہتمام کیا گیا ہے وہیں ان قوانین کی توسیع کے ذریعے اس علاقے کے قانون اور معاملات کو پاکستان کے باقی نظام سے ایک حد تک ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان قوانین میں بہت سے وہ قوانین بھی شامل ہیں جن کے ذریعے اس علاقے میں باقاعدہ سیاسی سرگرمیاں شروع ہوسکیں گی اور سیاسی پارٹیوں کا ایکٹ نافذ العمل ہوجائے گا۔
یہ متذکرہ بالا گیارہ پہلو ایسے ہیں جو اس قانون کو غیر معمولی اہمیت کا حامل بنا دیتے ہیں۔
اس قانون پر جو اعتراضات کیے جا رہے ہیں ان کے تین پہلو ہیں:
اعتراضات کی ایک قسم وہ ہے جو ان حضرات، اداروں اور حکومتوں کی طرف سے آرہے ہیں جو شریعت ہی کے خلاف ہیں اور شریعت کے نفاذ کو اپنے زعم میں حقوقِ انسانی کے خلاف اور جنس کی بنیاد پر امتیاز (gender discrimination) کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ یہاں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ ان کی مخالفت اس قانون سے نہیں، خود شریعت سے ہے۔ ان کو ہمارا جواب یہ ہے شریعت مسلمانوں کے لیے کوئی بیرونی شے یا باہر سے، یا جبر سے مسلط کی جانے والی چیز نہیں ہے بلکہ ہمارے ایمان کا تقاضا اور ہماری آرزوئوں اور اُمنگوں کی تکمیل ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے بارے میں کیے گئے راے عامہ کے سروے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ساری خرابیوں کے باوجود ۹۰ فی صد سے زیادہ مسلمان اسلام ہی کو اپنی شناخت قرار دیتے ہیں اور مسلمان مرد اور خواتین، بوڑھے اور جوان بلاتفریق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی صورت گری اسلام کے اصولوں اور احکام کے مطابق چاہتے ہیں۔ پاکستان کے اور مسلم دنیا کے ۷۲ ممالک کے مسلمانوں کی اکثریت شریعت کو قانون کا واحد سرچشمہ (only source of law) قرار دیتی ہے۔ اگر اس میں ان افراد کو شامل کرلیا جائے جو شریعت کو ’ایک سرچشمۂ قانون‘ (one source of law) کہتے ہیں تو یہ تعداد ۸۰ سے ۹۰فی صد تک پہنچ جاتی ہے۔۱؎ جوحضرات اپنے کو آزادی کا پرستار اور جمہوریت پسند کہتے ہیں ان کو اتنا تو تسلیم کرنا چاہیے کہ اگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت اپنی آزاد مرضی اور قلبی اطمینان کے ساتھ اپنے معاملات کو شریعت کے مطابق دیکھنا چاہتی ہے تو اس ۱۰ فی صد لبرل اقلیت کو کیا حق ہے کہ ان پر اپنی راے مسلط کرے اور مغرب کی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی حکومتوں کو کیا حق ہے کہ وہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کی خواہشات اور عزائم کو یک طرفہ طور پر رد (ویٹو) کریں۔ یہ فسطائی ذہنیت ہے، اس کا جمہوریت سے دُور کا بھی تعلق نہیں۔
بلاشبہہ جمہور مسلمین کے دل کی آواز شریعت کا نفاذ ہے۔ جو جمہوریت کے دعوے دار ہیں انھیں صرف جمہور کی خواہش اور ارادے کا احترام کرنا چاہیے لیکن جہاں تک معاملہ مسلمانوں کا ہے، تو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ مسلمان نام ہی اس مرد یا عورت کا ہے جو اپنی مرضی اور ارادے کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے تابع کرتا ہے اور اپنی زندگی کو اس قانون کے مطابق ڈھالتا ہے جو اللہ نے نازل کیا ہے۔ قرآن کا فیصلہ بہت صاف اور واضح ہے:
وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ… بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ… فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (المائدہ ۵:۴۴-۴۵ و ۴۷) جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی کافر ہیں… وہی ظالم ہیں… وہی فاسق ہیں۔
اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی ہدایت ہے جو پوری اُمت کے لیے سنت ِ رسولؐ ہے کہ وَ اَنِ احْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ (المائدہ ۵:۴۹) پس اے نبیؐ، تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔
اور یہ بات بھی اچھی طرح ذہن میں رہنی چاہیے کہ شریعت اور انصاف ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ شریعت کے بغیر انصاف ممکن نہیں اور انصاف کا حق اسی وقت ادا ہو سکتا ہے جب شریعت حَکم ہو۔ شریعت اور انصاف کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَیْبِ ط اِِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ o (الحدید ۵۷:۲۵) ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوںاور ہدایت کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں اور لوہا اُتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں۔ یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کو معلوم ہوجائے کون اس کو دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ یقینا اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔
نبی پاکؐ کو مخاطب کرتے ہوئے (اُن کی وساطت سے) اللہ تعالیٰ نے پوری اُمت کے سامنے اپنے قانون اور عدل کے رشتے کو اس طرح واضح فرمایا:
فَلِذٰلِکَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَلاَ تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنْ کِتٰبٍ وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمُ ط (الشوریٰ ۴۲:۱۵) اس لیے اے محمدؐ! اب تم اسی دین کی طرف دعوت دو اور جس طرح تمھیں حکم دیا گیا ہے اسی پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجائو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو اور ان سے کہہ دو کہ اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے میں اس پر ایمان لایا، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان انصاف کروں۔
قرآن اس مضمون سے بھرا پڑا ہے اور اس سلسلے میں کسی مسلمان کو ایک لمحے کے لیے بھی یہ اشتباہ نہیں ہوسکتا کہ حقیقی اسلامی زندگی اور دنیا و آخرت کی کامیابی کا انحصار شریعت کے مطابق اور شریعت کے ذریعے انصاف کے قیام پر ہے۔ اس سلسلے میں چھوٹا ہو یا بڑا، جو اقدام بھی کیا جائے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کو پورا کرنے اور دینِ حق کے تقاضوں کو پورا کرنے کا ذریعہ ہو۔
اعتراضات کی دوسری کھیپ کا تعلق اس مفروضے سے ہے کہ ایک ملک میں ایک سے زیادہ قانونی نظام نہیں چل سکتے۔ یہ قانون ایک متوازی نظام قانون مسلط کرنے کی کوشش ہے جو قابلِ قبول نہیں۔
ہم اس اعتراض کو اس لیے قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے کہ جس مفروضے پر اس کی بنیاد ہے وہ صحیح نہیں۔ پاکستان میں ایک دستور ہے جو پورے ملک پر حاوی ہے۔ اس دستور میں اس علاقے کے لیے قانون اور قانون سازی کا ایک مختلف طریقہ موجود ہے۔ انگریز کے زمانے میں یہاں کا قانون، باقی ملک سے مختلف تھا اور اس پر کسی کو تناقض اور دو نظاموں کے ٹکرائو کا خیال نہیں آیا۔ شریعت پر مبنی نظامِ قضا خواہ جزوی شکل ہی میں تھا مگر برطانوی دور میں ایک نہیں متعدد ریاستوں اور علاقوں میں موجود تھا اور اسے معتبر تصور کیا گیا۔ خود پاکستان بننے کے بعد سوات اور قلات میں ایک عرصے تک قضا کا نظام شرعی بنیادوں پر کام کرتا رہا اور کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا بلکہ لوگ خوش اور مطمئن تھے۔ آج بھی آزاد کشمیر میں قاضیوں کا نظام موجود ہے اور وہ عدالتی نظام کے حصے کے طور پر کام کر رہے ہیں اور کہیں کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ حد تو یہ ہے کہ آج تک قبائلی علاقے میں FCR جیسا جنگل کا قانون موجود رہا اور دُہرے نظامِ عدل کا واویلا نہیں کیا گیا۔ پھر اب یہ آہ و بکا کیوں ہے؟ کیا صرف شریعت کی وجہ سے یہ آوازیں اٹھائی جارہی ہیں؟
برطانیہ کے عدالتی نظام کی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو وہاں کئی سو سال تک common law courts اور equity courts شانہ بشانہ کام کرتی رہی ہیں۔ امریکا ایک فیڈریشن ہے اور اس کی مختلف ریاستوں میں آج بھی دیوانی اور فوج داری دونوں دائروں میں مختلف قوانین کی عمل داری ہے اور علاقائی حالات، رسم و رواج اور تہذیبی اور ثقافتی فرق کی بنیاد پر قوانین میں فرق بلکہ تضاد تک ہے، حتیٰ کہ امریکا کی نصف ریاستوں میں سزاے موت رائج ہے، جب کہ بقیہ نصف میں اسے ختم کردیا گیاہے۔
یہ تو صرف قانون میں تنوع کا مسئلہ ہے۔ چین نے تو ایک ملک اور دو نظاموں کی کامیاب مثال قائم کی ہے اور چین اور ہانگ کانگ میں دو طرح کے نظام اور دو قسم کے قوانین لاگو ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ان اعتراضات کی وجہ قانون میں تنوع نہیں، شریعت سے مخاصمت ہے۔ اگر ان حضرات کو ایک نظامِ قانون کی اتنی ہی فکر ہے تو اس پر غور کیوں نہ کیا جائے کہ پورے ملک میں شریعت کے قانون کو یکساں طور پر نافذ کیا جائے۔ آخر دستور تو پاکستان کو اسلامی ری پبلک قرار دیتا ہے، اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیتا ہے اور دفعہ ۲۲۷ کے تحت پورے قانونی نظام کو شریعت سے ہم آہنگ کرنے کا تصور دیتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ملک کے ۴ ہزار سے زیادہ قوانین کا جائزہ لے کر ان کو شریعت سے ہم آہنگ کرنے کی سفارشات مرتب کر لی ہیں۔ پھر انتظار کس بات کا ہے؟ ہم بجاطور پر توقع رکھتے ہیں کہ عوام کے جذبات اور مطالبات کا احترام کرتے ہوئے پورے ملک میں شریعت کی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ سوات میں اس نظام کی کامیابی سے پورے ملک کو اس تجربے سے فائدہ اٹھانے کا موقع اور تحریک ملے گی۔
تحفظات کا تیسرا حصہ ان امور سے متعلق ہے جو اس قانون کے کامیابی سے نافذ ہونے کی راہ کی مشکلات کی نشان دہی پر مشتمل ہے۔ اس سلسلے میں ہم چند ضروری گزارشات کرنا چاہتے ہیں:
پہلی چیز کا تعلق نیت اور ارادے سے ہے، بلاشبہہ ان علاقوں کے عوام دل کی گہرائیوں سے اس نظام کو چاہتے ہیں اور اس سے بڑی توقعات رکھتے ہیں لیکن ہمیں بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ مرکزی حکومت کے ذمہ دار ترین افراد نہ صرف بددلی کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ بددیانتی کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں۔ شریعت کے پہلو کو یا تو دبایا جاتا ہے یا اسے کم کر کے بتایا جا رہا ہے، جب کہ وہاں کے عوام کی نگاہ میں اگر کسی چیز میں کشش ہے تو وہ شریعت میں ہے۔ جناب زرداری صاحب اور جناب اسفندیارولی علی الاعلان بار بار کہہ چکے ہیں کہ یہ نظام عدل سے متعلق ہے حالانکہ اس قانون کی امتیازی حیثیت ہی یہ ہے کہ یہ شریعت پر مبنی نظامِ عدل کا قیام چاہتا ہے، محض عدل کا نہیں۔ پھر امن کے قیام کے پہلو کو شرط بتایا جا رہا ہے، جب کہ اس قانون کی روح کے مطابق اس کے نفاذ کا فطری نتیجہ ’امن‘ ہوگا۔ اس لیے یہ مشروط نہیں ہے۔
دوسری چیز بیرونی دبائو اور سازشیں ہیں جو پورے زور و شور سے کارفرما ہیں۔ یہ ہمارے معاملات میں مداخلت ہے اور ہمیں خطرہ ہے کہ جس طرح ہماری حکومتیں سیاسی اور معاشی معاملات میں بیرونی دبائو کا شکار ہوکر بڑی طاقتوں کی بلیک میلنگ کے آگے سپر ڈال رہی ہیں، اسی طرح شریعت کے معاملے میں بھی ریت کی دیوار ثابت ہوتی نظر آرہی ہیں۔ ہمیں خطرہ ہے کہ اگر یہ ریشہ دوانیاں راہ پاتی ہیں تو اس قانون پر عمل درآمد متاثر ہوگا جس کے بڑے خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کسی دبائو میں نہ آئے اور اس قانون اور اس کے پیچھے کیے جانے والے معاہدے پر دیانت اور خلوص سے عمل کرے۔
اگر قومی اسمبلی نے اس قانون کی متفقہ طور پر سفارش کی ہے تو حکومت کو پارلیمنٹ کی اس ہدایت پر عمل کرنا چاہیے۔ ایم کیو ایم نے اس سلسلے میں جو ڈراما رچایا ہے وہ ناقابلِ فہم ہے۔ پارلیمنٹ کی کمیٹی براے قومی سلامتی نے بھی اس مسئلے پر اپنی متفقہ راے دی ہے اور ایم کیو ایم کے نمایندے نے ان متفقہ سفارشات کی تائید کی ہے۔ ہم اس سلسلے میں کمیٹی کی سفارشات کو پیش کرنا چاہتے ہیں تاکہ عوام ان لوگوں کی سیاسی بازی گری کو بے حجاب دیکھ سکیں۔ کمیٹی نے پارلیمنٹ کی قرارداد کے نکتہ نمبر ۱۱ پر اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا ہے:
حکومت کو سوات میں امن حاصل کرنے کے لیے این ڈبلیو ایف پی (پختون خواہ) کی صوبائی حکومت کے ذریعے درج ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے:
ا- فوج کو قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں سے تبدیل کردیا جائے اور جدید ترین رسل و رسائل اور دیگر آلات کی ضروریات پوری کر کے ان کی صلاحیت کو بڑھایا جائے۔
ج- حالیہ امن معاہدے کے مطابق وفاقی حکومت/ صدر، دونوں کو مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذِ عدل ضوابط کو اپنے مفہوم اور روح کے مطابق فی الفور منظوری دینا اور نافذ کرنا چاہیے۔ اس کے بعد حکومت کو سوات میں دیرپا امن حاصل کرنے کے لیے پیش قدمی کرتے ہوئے ایک مکالمے پر عمل شروع کرنا چاہیے۔
سیاسی قیادت کے صحیح رویے اور مخلصانہ تعاون اور بیرونی دبائو اور مخصوص مفادات کے لیے کام کرنے والے عناصر کی کارگزاریوں کے مقابلے کے ساتھ جو کام حکومت اور تمام دینی اور سیاسی قوتوں کو کرنا چاہیے وہ ایسے قاضی حضرات کا تقرر ہے جو علم و تقویٰ کے لحاظ سے اعلیٰ معیار کے حامل ہوں اور ہرقسم کے دبائو کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس قانون کی کامیابی کا انحصار اس قانون پر عمل کرنے اور کرانے والے افراد کے خلوص، دیانت اور صلاحیت پر ہوگا اور یہ بڑا کٹھن اور فیصلہ کن امر ہے۔ اس لیے جزوی اور غیرمتعلقہ بحثوں اور کارروائیوں سے بچتے ہوئے اس نظام کی صحیح بنیادوں پر تشکیل اور اس کی تقویت کو اولین اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔
ہماری نگاہ میں ایک مبہم امر اس نظام کی اپیل کی اعلیٰ عدالتیں ہیں۔ جس شکل میں دارالقضا اور دارالدار القضا کو اس قانون میں رکھا گیا ہے وہ نظام کی کامیابی کے لیے ضروری ہے لیکن اس کے لیے دستور کے تقاضوں کا گہری نظر سے مطالعہ کرنا ہوگا۔ ۱۹۹۹ء کے قانون میں وفاقی شرعی عدالت کو اپیل سننے کا اختیار دینے کی تجویز تھی جسے اب تبدیل کردیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے اختیارات ان نئی عدالتوں کو دینے کے لیے کیا اس قانون سے زیادہ کسی مزید دفعہ کی ضرورت ہے۔ کیا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے قوانین میں اس کے لیے ترامیم کرنا ہوں گی یا اس کے لیے دستوری ترمیم کی ضرورت ہوگی۔
اس پہلو پر ہمدردانہ غور کرنے اور راہ نکالنے کی ضرورت ہے۔ پھر ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ شریعت کے نفاذ کا عمل صرف قضا کے ذریعے مکمل نہیں ہوسکتا۔ قضا کا حصہ بڑا اہم ہے لیکن وہ ایک حصہ ہے، پورا عمل نہیں۔اس کے لیے تعلیم، ذرائع ابلاغ، حکومت، انتظامیہ، سیاسی جماعتوں اور دینی قوتوں سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور سب مل کر ہی شریعت کے قیام کی راہ استوار کرسکتے ہیں۔ شریعت کا تعلق نظامِ عقائد و عبادات سے ہی نہیں، زندگی کے ہر شعبے سے ہے۔
شریعت کا ایک بڑا حصہ خود عمل کرنے کے لیے ہے۔دوسرے حصے کے نفاذ کا انحصار خاندان، تعلیم اور معاشرے پر ہے۔ ایک تیسرے حصے کا تعلق حکومت کی پالیسیوں سے ہے، اور پھر ایک اہم حصے کا تعلق قانون اور نظامِ قضا سے ہے۔ شریعت کا نفاذ ان سب پہلوؤں پر بہ یک وقت کام اور ان کے درمیان ربط اور ہم آہنگی سے ممکن ہے۔ ان میں سے کوئی بھی تنہا مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتا۔ اس کے لیے کلّی اور ضمنیات پر مبنی جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
ہماری خواہش اور دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی دعا ہے کہ حکومت، عوام، انتظامیہ اور سیاسی اور دینی قوتیں سب شریعت کے نفاذ کی کوشش میں اپنا اپنا کردار ادا کریں اور اس تجربے کی کامیابی کے لیے دل و جان سے مصروف ہوجائیں۔ پھر اللہ کی تائید بھی حاصل ہوگی اور تمام مساعی میں برکت کی کیفیت بھی رونما ہوگی۔
ذاتی اور گروہی مفادات اور سیاسی اور جماعتی مصالح سے بالا ہوکر اس قانون اور اس پروگرام کو کامیاب کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں عوام کی شرکت اورتعاون بھی ازبس ضروری ہے۔ اس قانون کے نافذ ہونے کے بعد ہم سب ایک بہت بڑے امتحان میں داخل ہوگئے ہیں اور اگر ہم اِس امتحان میں پورے اُترتے ہیں تو دنیا میں بھی اس کے دُور رس اثرات ہوں گے اور آخرت میں بھی نجات ہمارا مقدر بنے گی۔ کامیابی کے حصول کے سوا ہمارے لیے کوئی راستہ نہیں۔ اس لیے ہم سب کی کوشش ہونی چاہیے کہ ایک دوسرے پر الزامات کی لعنت سے نجات پاکر پُرخلوص جدوجہد اور افہام و تفہیم کے ذریعے شریعت کے سایے میں حقیقی عدل و انصاف کے قیام کے لیے سرگرم ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
مارچ کا مہینہ پاکستان کی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء وہ تاریخی دن ہے جب برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں نے قرارداد پاکستان کی شکل میں اپنی سیاسی منزل کا تعین کیا اور قائداعظمؒ کی قیادت میں ۷سالہ جدوجہد کے نتیجے میں ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کی آزاد ریاست وجود میں آئی۔ دستور ساز اسمبلی نے ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو قرارداد مقاصد کی شکل میں اس ریاست کا نظریاتی اور سیاسی کردارطے کردیا جو اَب پاکستان کے دستور کا صرف دیباچہ ہی نہیں بلکہ اس کی ایک قابلِ عمل (operational ) شق (دفعہ ۲-الف) کی حیثیت رکھتی ہے۔
قیامِ پاکستان کے فوراً ہی بعد مفاد پرست طبقات نے وطنِ عزیز کو ایک ایسی جاں گسل کش مکش میں مبتلا کردیا جس کے نتیجے میں پہلے دستور کے بننے میں ۹ سال لگ گئے۔ پھر دستوروں کے بننے اور بگڑنے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا جس کی گرفت سے ملک آج تک نہیں نکل سکا۔ ۱۹۵۴ء میں ایک سول سرونٹ غلام محمد نے فوج کے سربراہ کی مدد سے ملک کی جمہوری بساط کو لپیٹ دیا اور اس وقت کی عدالتِ عظمیٰ کے ذریعے، جس کے سربراہ جسٹس محمدمنیر تھے، جمہوری عمل کو درہم برہم کر کے اسے حکمرانوں کے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے کا راستہ کھول دیا اور ملک کو قانون کی حکمرانی سے محروم کردیا۔
۱۹۵۳ء میں منتخب وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو معزول کیا گیا، ۱۹۵۴ء میں دستور ساز اسمبلی ہی کو ختم کردیا گیا، پھر ۱۹۵۶ء کے دستور کو اکتوبر ۱۹۵۸ء میں پارہ پارہ کردیا گیا اور یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں ۱۹۵۴ء سے لے کر نومبر ۲۰۰۷ء تک جاری رہا۔ سیاسی شاطر، فوجی طالع آزما اور نظریۂ ضرورت کے علَم بردار ججوں کے ایک ٹولے کی ملی بھگت سے بار بار دستوری نظام کی بساط کو لپیٹنے اور اداروں کی تباہی کا خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ۱۹۶۹ء-۱۹۶۸ء اور ۱۹۷۷ء میں آمرانہ نظام کے خلاف عوامی تحریکات چلیں لیکن وہ اپنی منزل تک نہ پہنچ سکیں اور جرنیلوں اور ججوں کے گٹھ جوڑ سے ہربار جمہوری عمل کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ اگر کچھ ججوں نے جرنیلوں کے نافذ کردہ پی سی او (Provisional Constitution Order) سے اختلاف کیا تو انھیں زبردستی عدالتوں سے فارغ کردیا گیا اور کچھ دوسرے ججوں نے فوجی آمروں کے اقدام کو نہ صرف سندِجواز عطا کی بلکہ ان کو دستور میں من مانی ترامیم کرنے کے حق تک سے سرفراز فرما دیا۔
۶۰ سال پر پھیلا ہوا یہ خطرناک کھیل ۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو ایک نئے دور میں داخل ہوا جب اس وقت کے چیف جسٹس نے فوجی حکمران کے عدلیہ پر شب خون مارنے کے اقدام کو چیلنج کیا اور وکلا برادری، سول سوسائٹی اور سیاسی کارکنوں کی معتدبہ تعداد نے ان کا ساتھ دیا اور ایک ایسی اصولی عوامی جمہوری تحریک وجود میں آئی جس نے قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور دستور کی بالادستی کو اپنا ہدف بنایا۔ ۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو شروع ہونے والی یہ تحریک دو سال کی جاں گسل کش مکش کے بعد ۱۶مارچ ۲۰۰۹ء کو کامیابی کی پہلی منزل سے ہم کنار ہوئی اور اس اعتبار سے مارچ کی ۱۶تاریخ، ملک کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس تحریک اور اس کی اولیں کامیابی کی اصل حقیقت اور اہمیت کو سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ جمہوریت کے فروغ اور پاکستان کے حقیقی تصور کے حصول کا انحصار، اس تحریک کے اگلے مراحل کی کامیابی پر ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ نظام کے خلاف عوامی جذبات کا لاوا تو اُسی وقت سے پک رہا تھا جب اس نے قوم سے وعدے کے باوجود، صریح وعدہ شکنی کرتے ہوئے یکم جنوری ۲۰۰۴ء کو فوجی عہدہ چھوڑنے سے انکار کر دیا اور جو جمہوری عمل ۲۰۰۲ء کے انتخابات سے شروع ہوا تھا، وہ یک دم پٹڑی سے اُتر گیا۔ چونکہ جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کو عوام کے جذبات و احساسات کے خلاف نائن الیون کے بعد امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جھونک دیا تھا اسی لیے اسے امریکا اور مغربی اقوام کی مکمل تائید حاصل رہی اور امریکا، فوجی حکمران اور اس کے ساتھیوں کی ملی بھگت سے ملک میں جمہوری عمل کو ناکام کردیا گیا۔ اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے جنرل پرویز مشرف نے عدلیہ کو موم کی ناک بنا دیا تھا اور اپنے حسبِ منشا جدھر چاہتا تھا، اسے موڑ دیتا تھا۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے سپریم کورٹ اور اس وقت کے چیف جسٹس کو، جو ماضی میں کوئی بڑا کارنامہ انجام نہ دے سکے تھے، یہ توفیق بخشی کہ انھوں نے پاکستان کے مفادات کے تحفظ اور عوام کے حقوق کی حفاظت کے لیے آمرِوقت کے اقدامات پر گرفت شروع کی۔ اسٹیل مِل کی نج کاری اور لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے عدالت کی کوششوں نے فوجی آمر کو زچ کر دیا اور اس نے ۹ مارچ کو چیف جسٹس کی معزولی کی شکل میں نظامِ عدل پر ایک کاری ضرب لگائی۔ اسے یقین تھا کہ اس کے اِس اقدام سے سرتابی کی جرأت کوئی بھی نہیں کرسکے گا لیکن چیف جسٹس نے طاقت کے نشے میں دھت جرنیل کا حکم ماننے سے انکار کردیا اور پوری وکلا برادری اور عوامی قوتوں نے اس کا ساتھ دیا۔ وکلا کی تحریک نے جلد ایک حقیقی اور ملک گیر عوامی تحریک کی شکل اختیار کر کے حکمرانوں کے استبدادی ہتھکنڈوں کا بھرپور مقابلہ کیا۔
جماعت اسلامی نے ۱۲ مارچ ۲۰۰۷ء کو اسلام آباد میں کُل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا اور جنرل پرویز مشرف کی مٹھی میں بند پارٹیوں کو چھوڑ کر سب سیاسی اور دینی قوتوں کو جمع کرکے انھیں وکلا کی تحریک میں شرکت کی دعوت دی۔ معاشرے کی ان تین قوتوں___ وکلا برادری ، سول سوسائٹی اور سیاسی و دینی جماعتوں کے اشتراک سے، وکلا کی قیادت میں برپا ہونے والی اس تحریک کے نتیجے میں ۲۰ جولائی ۲۰۰۷ء کو عدالتِ عالیہ کے فیصلے کے ذریعے چیف جسٹس بحال ہوئے مگر ان کی بحالی حکمرانوں کی آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹکنے لگی۔ پرویز مشرف نے جب یہ محسوس کرلیا کہ عدالت اس کے فوجی وردی میں دوبارہ صدارتی انتخاب کا ڈھونگ رچانے کی راہ میں حائل ہوگی تو اس نے ایک آخری وار ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو کیا اور ایمرجنسی کے نام پر ایک نیا مارشل لا مسلط کردیا۔ یہ بڑا نازک مرحلہ تھا لیکن پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اعلیٰ عدالتوں کے ۶۰ ججوں نے اس اقدام کو جائز تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ سپریم کورٹ کے ۱۸ میں سے ۱۳ ججوں نے حلف لینے سے انکار کردیا اور ۷ججوں پر مشتمل فل کورٹ نے ۳ نومبر کے اقدام کو خلافِ دستور قرار دے کر اس کو قانونی جواز سے محروم کر دیا۔ نیز عدلیہ کے تمام ججوں کو ہدایت کی کہ اس غیرقانونی اقدام کو تسلیم نہ کریں۔ اس فیصلے پر دستور کی دفعہ ۱۹۰ کے تحت تمام سرکاری اداروں اور عمال کو بھی یہ ہدایت دی گئی کہ وہ اس پر عمل درآمد نہ کریں اور سپریم کورٹ کے حکم کی اطاعت کریں۔
یہ ایک ایسا تاریخی فیصلہ تھا جس کی کوئی نظیر اس سے پہلے موجود نہ تھی۔ جرنیلی صدر نے طیش میں آکر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ۶۰ ججوں کو معزول کر دیا اور اپنی پسند کے نئے ججوں کا تقرر کر کے ان سے اپنے غیرقانونی اقدام کے لیے جواز حاصل کرنے کا ڈھونگ رچایا جسے قوم نے ایک لمحے کے لیے بھی قبول نہیں کیا۔ اس طرح اصولی، نظریاتی اور اخلاقی بنیادوں پر استوار ایک عوامی تحریک نے جنم لیا۔ جماعت اسلامی اور اے پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے اس اصولی موقف کی بنیاد پر فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جب کہ انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں نے بھی جس مسئلے کو انتخابات کے لیے مرکزی سیاسی مسئلہ بنایا وہ عدلیہ اور دستور کی اپنی اصل شکل میں بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی تھا۔
عوام نے ۱۸ فروری کے انتخابات میں ان جماعتوں کو رد کر دیا جو پرویز مشرف کی ہم نوا تھیں اور اسے وردی سمیت ایک بار نہیں دس بار تک منتخب کرنے کے لیے میدان میں اُتری تھیں۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) بڑی پارٹیوں کی حیثیت سے کامیاب ہوئیں اور دونوں نے مل کر اس مشترک ایجنڈے پر عمل کرنے کا عہد کیا جسے عوام نے منظور کیا تھا۔ مگر جلد ہی پیپلزپارٹی کی قیادت نے اس عہدوپیمان سے انحراف شروع کر دیا اور بالآخر بے وفائی کی راہ اختیار کرلی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے تقریباً ہر میدان میں عملاً جنرل مشرف ہی کی پالیسیوں کو جاری رکھا بلکہ زرداری صاحب نے تو کھل کر عدلیہ کی بحالی کے وعدے سے انحراف کیا اور وکیلوں کی تحریک کو سبوتاژ کرنے، ججوں کو تقسیم کرنے اور جن کو توڑنے میں کامیاب ہوئے ان کو نئی تقرری (re-instate) کے نام پر پی سی او عدلیہ کا حصہ بنانے کا وطیرہ اپنا لیا۔ ۶۰ میں سے ۴۵ ججوں کو نئی تقرری کے ذریعے رام کرلیا گیا۔ معزول ججوں میں سے ۴ ریٹائر ہوگئے۔ تاہم ۱۱ ججوں نے بشمول چیف جسٹس قابلِ تحسین استقامت سے کام لیا اور آخری وقت تک اپنے اصولی اور اخلاقی موقف پر ڈٹے رہے جن کی پشت پر (پیپلزپارٹی کے ہم نوا وکیلوں کی ایک تعداد کے سوا) وکلا برادری کی اکثریت، سول سوسائٹی کے تمام عناصر اور حزبِ اختلاف کی تمام ہی جماعتیں خصوصیت سے جماعت اسلامی، تحریکِ انصاف، مسلم لیگ (ن) اور اے پی ڈی ایم کی دوسری جماعتیں سرگرم رہیں۔ بالآخر یہ جدوجہد ۱۲ مارچ ۲۰۰۹ء سے لانگ مارچ اور ۱۶مارچ کے دھرنے کے لیے ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی۔
۱۶ مارچ کی صبح اس طرح طلوع ہوئی کہ وزیراعظم کو ججوںکی بحالی کا اعلان کرنا پڑا، دفعہ ۱۴۴ واپس لی گئی، تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کے احکام جاری کیے گئے اور شریف برادران کی نااہلی کے عدالتی فیصلے پر حکومت کی طرف سے نظرثانی کی درخواست کا اعلان کیا گیا۔ اس طرح عدلیہ کی بحالی کی تاریخی جدوجہد اپنی پہلی کامیابی سے ہم کنار ہوئی، الحمدللّٰہ علٰی ذٰلِکَ۔
اب اس امر کی ضرورت ہے کہ اس تحریک کی نوعیت، اس کے حقیقی اہداف اور اس کی قوت کے اصل عوامل کا ٹھیک ٹھیک ادراک کیا جائے اور جو کچھ حاصل ہوا ہے اس کے پورے اعتراف کے ساتھ ان تقاضوں پر توجہ مرکوز کرائی جائے جن کے حصول کی جدوجہد جاری رہنا چاہیے۔ جس انقلابی منزل کی طرف یہ پہلا قیمتی قدم بڑھایا گیا ہے، اس سمت میں اس قوم کا سفر جاری رہے تاکہ یہ جدوجہد اپنے تمام اہداف کو حاصل کرسکے اور مطلوبہ نتائج رونما ہوں۔
سب سے پہلے اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ تحریک کسی فرد کی بحالی، کچھ لوگوں کی ملازمت کو پکا کرنے، یا کچھ وقتی مفادات کے حصول کی جدوجہد نہیں تھی بلکہ یہ ایک اصولی تحریک تھی جو واضح اخلاقی اہداف کے حصول کے لیے برپاکی گئی تھی۔ یہ جدوجہد ایک اصولی جدوجہد تھی اور اس کی طاقت کا راز اس کے نظریاتی اور اخلاقی مقاصد میں مضمر ہے۔ اس تحریک میں ملک کے ہر طبقے اور ہر مکتب فکر کے لوگوں نے شرکت کی اوریہ پوری قوم کو متحرک کرنے، ایک اصول کی خاطر منظم کرنے اور مشترک اہداف کے لیے اجتماعی جدوجہد میں مربوط کرنے کا ذریعہ بنی۔ اور وہ اصول یہ ہے کہ ظلم کے آگے سپر ڈالنا، جرم میں شریک ہونے کے مترادف ہے اور ظلم اور استبداد کی مزاحمت ایک اخلاقی قدر ہی نہیں، اجتماعی زندگی کو ظلم اور ناانصافی سے پاک کرنے کا واحد راستہ ہے۔ بلاشبہہ چیف جسٹس افتخار چودھری اور عدلیہ کی بحالی اس تحریک کا عنوان تھے لیکن اس کی حقیقت اور اس کی قوت اس کا اصولی موقف تھا جس نے قوم کو متحد اور متحرک کیا۔ جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ اسی اصولی موقف کی بنا پر ہوا ہے اور اس کی حیثیت اس منزل کی طرف صرف پہلے قدم کی ہے۔ ہماری جدوجہد ختم نہیں ہوئی، ایک دوسرے مرحلے میں داخل ہوئی ہے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خود چیف جسٹس کے الفاظ میں اس مقصد اور منزل کا اظہار اور تجدید کی جائے۔ موصوف نے ۳۰ جنوری ۲۰۰۸ء کو دنیا کے اہم قائدین سے خطاب کرتے ہوئے اپنے ایک خط میں اس جدوجہد کے مرکزی نکتے اور اصل ہدف کو اس طرح پیش کیا ہے:
میں پاکستان کا دستوری چیف جسٹس ہوں اور فیصلہ دے چکا ہوں کہ مشرف کے ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدامات غیردستوری تھے۔
اور پھر اصل ہدف کو صاف الفاظ میں اس طرح بیان کیا:
آزاد عدلیہ کے بغیر کوئی جمہوریت نہیں ہوسکتی، اور جب تک ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو کالعدم نہ کیا جائے، پاکستان میں کوئی آزاد جج نہیں ہوسکتا۔ کچھ شکست خوردہ لوگوں کی مرضی کچھ بھی ہو، بہادر وکلا اور پاکستان کی سول سوسائٹی کی جدوجہد نتیجہ خیز ہوگی، وہ جدوجہد ترک نہیں کریں گے۔
اس خط کے ۷ مہینے کے بعد ۳ نومبر ۲۰۰۸ء کو راولپنڈی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کو خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے اعادہ کیا کہ:
سپریم کورٹ کے ۷ رکنی بنچ کا ۳ نومبر کا یہ فیصلہ کہ جنرل مشرف کے ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدامات غیردستوری اور غیرقانونی ہیں، اب بھی قائم ہے۔
اس خطاب میں چیف جسٹس نے کھل کر کہا کہ اس وقت عدالت عالیہ پر قابض ’چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر‘ کی حقیقت یہ ہے کہ وہ:
ایک خودساختہ فیصلہ کرنے والا شخص ہے جس نے مشرف کے ۳ نومبر کے ہنگامی حالت کے اعلان اور عارضی دستوری بل (پی سی او) کو جائز قرار دیا۔
واضح رہے کہ ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو سپریم کورٹ کے ۷ رکنی بنچ نے ۳ نومبر کے اس اقدام کو خلافِ آئین قرار دیا تھا اور عدالت نے آرمی چیف ’کورکمانڈر‘ تمام فوجی اور سول افسران کو ہدایت دی تھی کہ ۳نومبر کے خلاف آئین احکام کی پابندی نہ کریں، اصل دستور پر عمل کریںاور پروویژنل دستور کی پروا نہ کریں نیز کوئی جج اس ناجائز فرمان کے تحت حلف نہ لے۔
عدالت عالیہ کے ججوں کی بحالی کا مسئلہ عدالت کی آزادی ، دستور کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے غیرقانونی اقدام کی تنسیخ اور اس کو مسلط کرنے والوں پر گرفت اور دستور اور قانون کے مطابق ان کے اس جرم کی قرارواقعی سزا پر محیط ہے۔
عدلیہ کی آزادی اور بحالی کی تحریک اپنی اس اصولی اور اخلاقی نوعیت کے ساتھ ساتھ کئی اور پہلوئوں سے بھی اہم ہے۔ ہم ان میں سے چند پہلوئوں کی طرف صرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
۱- یہ صحیح معنی میں ایک عوامی تحریک تھی۔ اس کی قیادت وکلا برادری کر رہی تھی۔ اس کی تائید سول سوسائٹی کے تمام ہی اداروں نے کی۔ اس کی تقویت کا باعث سیاسی کارکنان اور ان کی قیادت کی شرکت تھی، لیکن اس کا سب سے نمایاں پہلو عوام کی بیداری اور علاقے، زبان اور سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر عوام کے سب ہی طبقات کی والہانہ شرکت ہے۔ اس تحریک نے ایک بار پھر یہ بات ثابت کر دی کہ محض مفادات کے حصول کے لیے ہی نہیں بلکہ ایک اصولی اور اخلاقی مقصد کے حصول کے لیے بھی عوامی تحریک برپا کی جاسکتی ہے اور وہ عوام کی قوت سے اپنے اہداف حاصل کرسکتی ہے۔
۲- دوسری خصوصیت اس تحریک کا تسلسل اور اس میں غیرمعمولی جان اور توانائی ہونے کی ہے۔ سیاسی تحریکیں چشم زدن میں اپنے اہداف حاصل نہیں کرلیتیں بلکہ اس کے لیے صبر اور استقامت سے جدوجہد کرنا ہوتی ہے۔ دبائو کا مقابلہ کیا جاتا ہے، اور ہمت نہیں ہاری جاتی۔ اس تحریک میں وکلابرادری، تاجروں، طالب علموں، سیاسی کارکنوں کا کردار قابلِ تعریف ہے۔ دو سال تک تحریک کو جاری و ساری رکھنا ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ حقوق کی جدوجہد اس وقت کامیاب ہوتی ہے جب نظریاتی شعور کے ساتھ اَن تھک محنت اور استقامت سے جدوجہد کو جاری رکھا جائے۔
۳- اس تحریک کا تیسرا پہلو اس کا ہر دور اور ہر حال میں، حتیٰ کہ ریاستی تشدد کے علی الرغم پُرامن رہنا ہے۔ جوش کے ساتھ ہوش بھی ضروری ہے اور ذرا سی غلطی پوری تحریک کو پٹڑی سے اتار سکتی ہے۔
۴- تحریک میں نوجوانوں کی شرکت، نوجوان وکلا کی قربانیاں، اور اس کے ساتھ میڈیا کا بے مثال تعاون بھی اس کی کامیابی کا ایک اہم سبب ہے۔ سیاسی جماعتوں اور حکومت دونوں کو عوام اور میڈیا کی قوت کے صحیح ادراک کی ضرورت ہے۔
۵- اس تحریک کا ایک اور پہلو بڑا اہم ہے اور وہ یہ کہ آمریت کے جبر کے نظام میں جو خاموشی ہوتی ہے اور عوام میں جو بددلی اور مایوسی گھر کر لیتی ہے وہ عارضی اور پُرفریب ہوتی ہے۔ ۹مارچ ۲۰۰۷ء سے پہلے کسے توقع تھی کہ مزاحمت کی ایک چنگاری سے آمریت کے استبدادی نظام کو خاکستر بنانے والی تحریک جنم لے سکتی ہے۔ پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دینے والے یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ ایک اصول کی خاطر عوام اس طرح بیدار اور متحرک ہوجائیں گے۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اسی مایوس قوم کے بطن سے ایک ملک گیر تحریک جنم لیتی ہے اور آمریت کی چولیں ہلادیتی ہے۔ مشرف کا سورج غروب ہوجاتا ہے اور زرداری بھی اپنے سارے کرّوفر اور حیلوں اور سازشوں کے باوجود گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ آمریت اور مایوسیوں کی تاریکیوں میں ایسی تحریک کا رونما ہونا اور کامیاب ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ ع
ایسی بھی کوئی شب ہے کہ جس کی سحر نہ ہو!
اس تحریک کو ناکام کرنے اور اس کو کچل دینے کے لیے جو ہتھکنڈے پرویز مشرف کے آمرانہ نظام اور زرداری صاحب کے جمہوری تماشے نے کیے ان کا ذکر اور بالآخر ان کی ناکامی اور بے مایگی کا اظہارو اعتراف بھی ضروری ہے۔ مشرف کے اقتدار کا زوال ۹ مارچ ۲۰۰۷ء سے شروع ہوگیا اور ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء کو کراچی کی خونیں ہولی اور وکلا، عوام، سیاسی کارکنوں اور خود میڈیا کو جبرواستبداد کے ہتھکنڈوں سے زیر کرنے کی ساری کوششوں کے باوجود ۱۸ فروری کو عوام نے پوری قوت سے آمرانہ نظام کو رد کردیا اور زرداری صاحب کی ساری وعدہ خلافیوں اور کہہ مکرنیوں، پنجاب کی عوامی مینڈیٹ کے بل پر وجود میں آنے والی حکومت کی معطلی، گورنرراج، قیدوبند، تشدد اور جبر، راستوں کی بندش اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو قانون کی حکمرانی کی تحریک چلانے والوں پر لاٹھی چارج اور گیس کے شیلوں کی بارش کے لیے استعمال کرنے کے علی الرغم اور ۱۵ مارچ کی دوپہر تک مطالبات تسلیم کرنے سے انکار اور قوت اور جبر سے تحریک کو ختم کردینے کے دعووں کے باوجود تحریک کے مرکزی مطالبے کو تسلیم کرلینا، جہاں عوامی تحریک کی قوت کا ثبوت ہے،وہیں جمہوریت کے دعوے داروںکے اصل چہرے سے نقاب اُٹھانے کا بھی ذریعہ ہے۔
جو زبان زرداری صاحب نے استعمال کی، ان کی وزارتِ داخلہ کے مشیر نے جس طرح بغاوت کا ڈھول پیٹا اور جس طرح حاکمانہ قوت سے تحریک کو دبانے کے لیے مذموم ہتھکنڈوں کا استعمال کیا، اس نے پیپلزپارٹی کے جمہوری دعوئوں کی قلعی کھول دی۔ بلاشبہہ پیپلزپارٹی میں ایسے افراد بھی تھے جنھوں نے اس پالیسی کو ناپسند کیا، کچھ نے استعفے تک دیے اور بہت سوں نے عوامی تحریک کا ساتھ دیا لیکن ایک بڑی تعداد نے زرداری صاحب کے مقاصد کی خدمت کر کے اپنا اصل چہرہ قوم کے سامنے بے نقاب کردیا اور اس کی قیمت انھیں آیندہ ادا کرنا ہوگی۔ وزیراعظم نے آخری وقت میں حالات کو سنبھالنے اور زرداری صاحب سے کچھ فاصلہ اختیار کرنے کا رویہ اختیار کیا اور مسئلے کا کچھ حل نکالنے کی کوشش کی، تاہم بحیثیت مجموعی پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت نے قوم کو بری طرح مایوس کیا اور اس تحریک کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ ع
لیکن اتنا تو ہوا، کچھ لوگ پہچانے گئے
اس سلسلے میں پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت کے ساتھ ایم کیو ایم اور خود اے این پی اور جے یو آئی کی بھی جو تصویر قوم کے سامنے آئی ہے وہ کسی حیثیت سے بھی قابلِ رشک نہیں۔ رہے مشرف اور زرداری صاحب تو ان کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ؎
خودی کا نشہ چڑھا ، آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ ، مگر بنا نہ گیا
تحریک کے نتیجے میں چیف جسٹس سمیت ۱۱ ججوں کی ۲ نومبر ۲۰۰۷ء کی پوزیشن میں بحالی ایک اہم کامیابی ہے اور اسے صحیح سمت میں ایک مناسب اور خوش آیند قدم قرار دیا جاسکتا ہے۔یہ بلاشبہہ ایک بڑی کامیابی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ایک بہت بڑی آزمایش ہے کہ عوام نے جن مقاصد کے لیے تحریک چلائی، قربانیاں دیں اور نتیجتاً اُن کی جو توقعات عدلیہ سے وابستہ ہیں، وہ کہاں تک پوری ہوتی ہیں۔ وزیراعظم صاحب نے جو انتظامی حکم نامہ جاری کیا ہے وہ کئی لحاظ سے بڑا اہم ہے، جب کہ کچھ دیگر حیثیتوں سے مبہم اور غیرتسلی بخش بھی ہے۔ جس عجلت میں وکلا کی قیادت اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین نے مارچ اور دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کیا اس کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ اعلان کا یہ حصہ اہم ہے:
جیساکہ وزیراعظم پاکستان نے ۱۶ مارچ ۲۰۰۹ء کو اعلان کیا کہ عدالتِ عظمیٰ اور مختلف عدالت ہاے عدلیہ کے معزول شدہ جج صاحبان بشمول مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری، معزول چیف جسٹس آف پاکستان کو اسی پوزیشن پر بحال کیا جائے گا جو کہ ۳ نومبر ۲۰۰۷ء سے پہلے انھیں حاصل تھی۔
لہٰذا صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے جسٹس افتخارمحمد چودھری، معزول چیف جسٹس آف پاکستان کو ان کو اسی پوزیشن پر بحال کردیا ہے جس پر وہ ۳ نومبر ۲۰۰۷ء سے پہلے تھے۔ مسٹر جسٹس افتخارمحمد چودھری، مسٹر جسٹس عبدالحمید ڈوگر چیف جسٹس آف پاکستان کی ۲۱ مارچ ۲۰۰۹ء کو ریٹائرمنٹ کے بعد ۲۲ مارچ ۲۰۰۹ء سے چیف جسٹس آف پاکستان کا اختیار سنبھال لیں گے۔
ججوں کی ۲ نومبر ۲۰۰۷ء کی پوزیشن پر بحالی کے معنی یہ ہیں کہ ان کی ۳ نومبر کی معطلی ایک غلط اقدام تھا لیکن ۳ نومبر کے پرویز مشرف کے اعلان کی تنسیخ کا کوئی ذکر اس اعلامیے میں نہیں ہے۔ نیز دوسرے تمام ججوں کو فوری طور پر بحال کردیا گیا ہے لیکن چیف جسٹس افتخار چودھری کو جسٹس ڈوگر کی میعادِ ملازمت کے ختم ہونے کے بعد بحال کیا جا رہا ہے جس سے بجاطور پر یہ شبہہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈوگرصاحب کے چیف جسٹس ہونے کو جواز دیا جا رہا ہے حالانکہ ان کے چیف جسٹس ہونے کا پورا دور قانون کی نگاہ میں جائز نہیں۔ وہ بالفعل (de facto) تو چیف جسٹس تھے لیکن ان کے دور کو de jure یعنی قانون کے تحت جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہی وہ ابہام ہے جس کا دُور کیا جانا ضروری تھا اور ہے۔ اب اس کے دو راستے ہیں اور ان دونوں پر فی الفور عمل ہونا چاہیے۔ وکلا برادری اور سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ کمر کھول کر آرام کا تصور بھی نہ کریں بلکہ تحریک کو اس کے منطقی نتائج تک پہنچانے کے لیے نئے عزم سے سرگرم ہوجائیں۔
ایک کام اب پارلیمنٹ کے کرنے کا ہے کہ وہ ۳ نومبر کے اقدام کے بارے میں کھل کر یہ اعلان کرے کہ وہ اقدام خلافِ آئین تھا جسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر نظریۂ ضرورت کی عفریت سے نجات ناممکن ہے۔ جس طرح پرویز مشرف نے دستور کی پابندی کا حلف لینے کے باوجود، چیف آف اسٹاف کی حیثیت سے پی سی او نافذ کیا، اگر اس کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند نہیں کیا جاتا تو خدانخواستہ کل کوئی دوسرا طالع آزما بھی یہ کھیل کھیل سکتا ہے اور اسے بھی تحفظ کی توقع ہوسکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ پارلیمنٹ نے آج تک ۳نومبر کے اقدام کو جائز (validate) قرار نہیں دیا اور AAA۲۷۰ کا دستور میں اندراج غیرقانونی ہے لیکن چونکہ ڈوگر عدالت نے اسے تحفظ دینے کی جسارت کی ہے اس لیے اس دروازے کو بند کرنے کے لیے ضروری ہے کہ:
۱- ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو صاف لفظوں میں خلافِ آئین اقدام قرار دے کر منسوخ کیا جائے۔
۲- اس اقدام کا ارتکاب کرنے والے شخص پر قانون کے تحت مقدمہ چلایا جائے اور اسے دستور کی دفعہ ۶ کے تحت سزا دی جائے۔
۳- اس کے ساتھ تعاون کرنے والے چیدہ چیدہ افراد کو ان کے جرم کی مناسبت سے سزا دی جائے یا مذمت کی جائے۔
۴- جسٹس حمود الرحمن کے جنرل یحییٰ کے خلاف تاریخی فیصلے کی روشنی میں جن اقدامات کو past and closed transaction(قصۂ ماضی)قرار دینا ضروری ہے، ان کو قبول کرلیا جائے اور جن کی تنسیخ ضروری ہے ان کو منسوخ کیا جائے۔ اس طرح ان تمام دستوری ترامیم پر نظرثانی کر لی جائے جو ایک آمر نے دستور اور ملک پر مسلط کی تھیں۔ مشرف نے بی بی سی کو ۱۷ اکتوبر ۲۰۰۷ء کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اپنے احکامات کو ماوراے آئین (beyond constitution) تسلیم کر کے ان کے غیرقانونی ہونے کا اعتراف بھی کرلیا تھا۔
نظریۂ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے ختم کیے بغیر اس ملک میں دستور اور قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور انتظامیہ کی قانون کے سامنے جواب دہی کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
دوسرا کام خود چیف جسٹس اور عدالت عظمیٰ کے کرنے کا ہے۔ ۳نومبر کے اقدام کے نتیجے میں اعلیٰ عدالتوں کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے اور ان میں پی سی او ججوں اور پھر زرداری صاحب کے جیالوں کی غیرقانونی تقرری ہوئی ہے، اولین موقع پر ان سب کا ، ۱۹۹۶ء کے الجہاد ٹرسٹ کے کیس میں سپریم کورٹ کے اُس فیصلے کی روشنی میں جسے Judges Case کہا جاتا ہے، ازسرِنو بے لاگ جائزہ لیا جائے۔ جو حضرات اہلیت، دیانت اور حسنِ کردار کے معیار پر پورے اُترتے ہوں ان کا ضابطے کے مطابق تقرر کیا جائے اور باقی سب کو فارغ کردیا جائے۔ آیندہ دستور اور ججز کیس میں طے شدہ ضابطے کے تحت ججوں کا تقرر کیا جائے۔ نیز میثاقِ جمہوریت میں جو نیا طریقہ تجویز کیا گیا ہے، اسے سنجیدہ مشورے کے بعد دستوری ترمیم کے ذریعے مزید بہتر بناکر اختیار کیا جائے تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے اور عدلیہ میں دراندازی کا دروازہ بند ہوجائے۔
یہ دونوں اصلاحات عدلیہ کی ۲ نومبر ۲۰۰۷ء کی پوزیشن میں بحالی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہیں اور ان پر فوری عمل ہونا چاہیے۔ اس کے لیے مؤثر عوامی اور پارلیمانی دبائو کی ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ہم تین امور کی طرف مزید توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ پہلے کا تعلق تحریک کے ذمہ داروں سے ہے کہ جہاں عوام نے اس تحریک میں اپنا حق ادا کر دیا وہاں تحریک کے ذمہ داروں نے اپنے فرض کی ادایگی میں بڑی کوتاہیاں کی ہیں اور ان کا احتساب اور آیندہ کے لیے اصلاح ضروری ہے۔
پہلی چیز تحریک کے اہداف کے واضح تعین اور تمام اہداف کے حصول کو مساوی اہمیت دینے کے بارے میں ہے۔ ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی بحالی مترادف نہیں۔ عدلیہ کی آزادی اس سے بھی وسیع تصور ہے۔ ججوں کی ناجائز برطرفی کا عمل خود اپنی جگہ ایک ایسا مذموم کام ہے جس پر مؤثر گرفت کیے بغیر عدلیہ کی آزادی کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ قیادت نے صرف ایک مطالبے کے جزوی حصول کے اعلان پر پوری تحریک کو ختم کردیا جسے دانش مندی نہیں کہا جاسکتا۔ تحریک ایک فیصلہ کن مرحلے میں تھی اور جس طرح چند ماہ قبل ریلی کے بعد دھرنے کی کال واپس لے لی گئی، اس طرح اس بار بھی پورے اہداف حاصل کیے بغیر عجلت میں تحریک کو ختم کردیا گیا جس میں بڑے خطرات مضمر ہیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں اور عوام نے قیادت کے فیصلے کو تسلیم کرلیا، جب کہ قیادت اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرسکی اور اس کی ایک اہم وجہ تمام شرکا کی معتبر قیادتوں کا آپس میں مشورے کے ذریعے فیصلہ کرنے کے نظام کا نہ ہونا ہے۔ جتنی عظیم یہ تحریک تھی، قیادت نے اس کے مطابق فیصلہ کرنے اور مشاورت کے نظام کو مؤثر بنانے کی کوشش نہیں کی۔ اپنے موجودہ مرحلے میں یہ صرف وکیلوں کی یا کسی ایک جماعت کی تحریک نہیں تھی۔ سب کا اپنا اپنا کردار تھا اور سب کی مشاورت ہی سے معاملات کو طے کیا جانا چاہیے تھا۔
دوسری بات سیاسی تحریک میں فوجی قیادت کے کردار سے متعلق ہے۔ زرداری صاحب نے فوج کو استعمال کرنے کے راستے (option) کو ٹٹولا اور شکر ہے کہ انھیں اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ لیکن آخری ایام میں چیف آف اسٹاف کی جو سرگرمیاں رہیں، ان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ شکر ہے کہ انھوں نے نہ خود کسی سیاسی کردار کا راستہ اختیار کیا اور نہ کسی دوسرے کو اسے سیاسی طور پر استعمال کرنے کا موقع دیا لیکن ہمارا مطمحِ نظر یہ ہونا چاہیے کہ فوج اپنے کو صرف دفاعی ذمہ داریوں تک محدود رکھے۔ نہ تو سیاسی قیادت اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرے اورنہ فوج خود ہی کسی سیاسی کردار میں ملوث ہو۔ امریکی جوائنٹ چیف ایڈمرل مولن نے ہمارے چیف آف اسٹاف سے جن دس ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے اور بین السطور جن راستوں (options) کی بات کی ہے وہ اصولی طور پر قابلِ قبول نہیں ہیں۔ سیاسی مسائل کا حل بھی سیاسی ہی ہونا چاہیے اور اس میں فیصلے کا مرکز و محور پارلیمنٹ اور سیاسی قوتوں کو ہونا چاہیے۔ کسی فریق کی طرف سے بھی فوج کو ملوث کرنا، دستور، قانون، سیاسی آداب اور اجتماعی اخلاقیات کے منافی ہے۔
تیسرا مسئلہ اس پورے معاملے میں بیرونی حکومتوں کے کردار سے متعلق ہے۔ ہماری سیاسی زندگی میں امریکی مداخلت کی تاریخ خاصی پرانی اور بڑی تشویش ناک ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں اس میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ محترمہ بے نظیرصاحبہ سے مصالحت کے سلسلے میں پرویز مشرف نے برطانیہ اور امریکا کو بلاواسطہ شریک کیا اور خود این آر او، اس بین الاقوامی کھیل کا ثمرہ ہے۔
زرداری صاحب نے اس کھیل کو اور آگے بڑھا دیا ہے اور حالیہ تحریک کے دوران جس طرح برطانوی وزیرخارجہ، امریکا کی سیکرٹری آف اسٹیٹ اور صدر کے نمایندے ہال بروک، ملک میں برطانوی، امریکی، سعودی اور امارات کے سفیروں کی بھاگ دوڑ دیکھنے میں آتی رہی وہ نہایت افسوس ناک ہے، بلکہ دی وال اسٹریٹ جنرل نے تو صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ:
غضب ناک احتجاج کرنے والوں کے مقابلے میں پولیس کی پسپائی اور امریکا کے دبائو کے بعد مسٹر زرداری نے تسلیم کیا۔ (۱۷ مارچ ۲۰۰۹ء)
یہ سب عوامل ہمارے داخلی معاملات میں بیرونی حکومتوں کے ملوث ہونے کی جو تصویر پیش کر رہے ہیں وہ بڑی تشویش ناک ہے اور ہماری آزادی اور حاکمیت کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ ایک طرف امریکا قوم کے احتجاج کے باوجود پوری بے باکی سے ڈرون حملوں میں مصروف ہے اور دوسری طرف مصالحت کے نام پر سیاسی اور سفارتی ڈرون بھی داغے جارہے ہیں۔ قوم اس صورت حال میں دل گرفتہ اور اپنی آزادی اور حاکمیت کی بردگی (erosion) پر سخت تشویش کا اظہار کر رہی ہے۔ پہلے بیرونی اثرات بڑے معاملات تک محدود تھے مگر اب یہ معمولی امور میں بھی مداخلت کی صورت اختیار کرتے جارہے ہیں اور جس نئی غلامی کی طرف قوم کو دھکیلا جا رہا ہے، وہ ناقابلِ برداشت ہے۔
ہم مجبور ہیں کہ قوم کے اس اضطراب اور تشویش کا بھی اظہار کریں کہ کیا بات صرف ان اعلانات تک محدود ہے جو وزیراعظم نے کیے ہیں یا ان کے پیچھے کوئی اور ڈیل بھی چھپی ہوئی ہے جو تحریک کے کچھ عناصر، حکومت اور بیرونی کھلاڑیوں کے درمیان ہوئی ہے اور ابھی تک پردہ خِفا میں ہے۔ اس تشویش کا اظہار مختلف حلقوں سے ہو رہا ہے اور اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ دی نیوز اخبار اپنے ادارتی کالموں میں اس خدشے کا اظہار یوں کرتا ہے:
ہمیں نہیں معلوم کہ بند دروازوں کے پیچھے اس پر کوئی ڈیل ہوئی ہے یا نہیں۔ ججوں کو بحال کرنے کے ڈرامائی اعلان کے پس منظر میں کسی راضی نامے کی تفصیلات ابھی تک معلوم نہیں ۔ (اداریہ، دی نیوز، ۱۷ مارچ ۲۰۰۷ء)
بلاشبہہ عدلیہ کی بحالی کی تحریک اپنے مرکزی ہدف کی حد تک کامیاب رہی لیکن جیساکہ ہم نے عرض کیا: عدلیہ، پارلیمنٹ اور تحریک کے شرکا سب کا امتحان اب شروع ہوا ہے۔ سیاسی ہدف کے حصول کے لیے عوامی تحریک چلانا ضروری نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر سیاسی اہداف معروف سیاسی عمل کے ذریعے حاصل نہیں ہوتے تو عوام کو مزاحمت اور عوامی دبائو کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے، اس لیے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ عدلیہ، پارلیمنٹ اور خصوصیت سے حکومت، حزبِ اختلاف اور میڈیا کو اس طرف متوجہ کریں کہ جس تبدیلی کا آغاز ۱۶ مارچ کو حکومت کی طرف سے عوامی مطالبات کے احترام کے عندیے کے اظہار سے ہوا ہے، اسے اس کے فطری انجام تک پہنچانے کی جدوجہد کریں۔ اس وقت جو بڑے بڑے چیلنج قوم کے سامنے ہیں وہ سب مثبت ردعمل کا تقاضا کرتے ہیں۔ ہم چند نکات کی طرف اشارہ ضروری سمجھتے ہیں:
۱- ججوں کی بحالی ہو گئی لیکن ابھی عدلیہ کی ۲ نومبر ۲۰۰۷ء والی صورت میں مکمل بحالی اور ۳نومبر کے تباہ کن اقدام کی تنسیخ اور اس کے تحت رونما ہونے والے بگاڑ کی اصلاح ہونا باقی ہے۔ یہ کام، جیساکہ ہم نے اُوپر عرض کیا ہے، بلاتاخیر ہونا چاہیے لیکن عدلیہ اور وکلا کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ عوام عدل کے قیام اور قانون کی بالادستی اور قانون کی نگاہ میں سب کی برابری کے نظام کے متمنی ہیں۔ اس ہدف کے حصول کے بغیر وہ اپنی تحریک کو کامیاب نہیں سمجھیں گے۔ اس کے لیے عدلیہ کی تنظیم نو کے ساتھ اس بات کی ضرورت ہے کہ عدلیہ عدالتی فعالیت (judicial activism) اور عدالتی ضبط (judicial restraint) کی بحثوں میں پڑے بغیر کم از کم مندرجہ ذیل امور کا اہتمام کرے:
ا- عدلیہ سے بدعنوانی کا خاتمہ، خصوصیت سے نیچے کی سطح پر جہاں عوام کو نظامِ عدل کے کارپردازوں سے روزمرہ سابقہ پیش آتا ہے اور وہ بے انصافی، بدعنوانی، تاخیر اور تعویق کے چکروں سے بے زار ہیں۔ عوام کو انصاف چاہیے، انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے،انصاف تاخیر کے بغیر حاصل ہو اور عوام کی دہلیز پر آسکے۔ اس کے لیے اعلیٰ عدالتوں کو بڑا مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔
ب- عدالتیں دستور اور قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کے لیے کمربستہ ہوجائیں اور سیاسی اور دوسرے اثرورسوخ کے سایے سے بھی اپنے کو محفوظ رکھیں۔ اس سلسلے میں جو بُری روایات گذشتہ ادوار میں راہ پا گئی ہیں ان کو شعوری جدوجہد کے ذریعے ختم کرنا اور انصاف فراہم کرنے والے افراد اور اداروں پر عوام کے اعتماد کو بحال کرنا وقت کی بہت اہم ضرورت ہے۔
ج- عدالت عالیہ کے ازخود (suo moto) اختیارات پر قینچی چلانے کی ہرکوشش کو سختی سے ناکام بنانا ہم سب کا فرض ہے لیکن عدالت کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ دستور کی حفاظت اور عوام کے حقوق کی پاسداری کے لیے تو سرگرم ہو مگر دستور میں جو تقسیمِ اختیارات اور توازن (check & balance) کا نظام ہے اس کا احترام کرے۔
د- چند بنیادی ایشو ایسے ہیں جن کا اعلیٰ عدالتوں کو جرأت اور دیانت کے ساتھ سامنا کرنا پڑے گا۔ ان میں پی سی او کا مسئلہ، این آر او کا جواز (legitimacy) اور اس کی معقولیت (propriety) اِسی طرح ہزاروں لاپتا افراد کی بازیافت کے مسائل کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اور عدالت کی آزادی کا امتحان بھی ان امور پر اس کے کردار سے ہو گا۔
ھ- وکلا کی تحریک نے وکیلوں پر عوام کے اعتماد کو ایک نئی زندگی دی ہے۔ لیکن اس کا تقاضا ہے کہ وکلا بھی محض پیسہ کمانے اور اپنے موکلوں کے استحصال کا راستہ اختیار نہ کریں بلکہ خدمت اور مظلوم کی مدد اور انصاف کے حصول میں ان کی معاونت کو اپنا شعار بنائیں اور جو کاروباری رنگ اس معزز پیشے نے اختیار کرلیا ہے، اس سے نجات کی فکر کریں۔ کسب حلال آپ کا حق ہے لیکن یہ بھی آپ کا فرض ہے کہ محنت اور دیانت سے اپنے موکل کی خدمت کریں اور اس کا حق ادا کریں۔ انصاف سے محرومی آج ایک عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور تھانے کچہری کے کلچر نے اس کی زندگی کو عذاب بنا دیا ہے۔ عدلیہ سے متعلق تمام افراد کا خواہ ان کا تعلق بار سے ہو یا بنچ سے، ایک ہی ہدف ہونا چاہیے اور وہ عوام کو پورا پورا انصاف فراہم کرانا ہے جو دیانت، حق و صداقت اور عام آدمی کی دسترس کے اندر حاصل ہوسکے۔ اس لیے انصاف، جلد انصاف اور سستا انصاف ہمارا شعار (موٹو) ہونا چاہیے۔
۲- دوسرا مسئلہ دستور کی بحالی کا ہے۔ اس سلسلے میں بھی سارے دعوئوں کے باوجود برسرِاقتدار جماعتوں نے مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا ہے۔ دستور کو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کی حالت میں بحال کرنے کا ہر ایک نے وعدہ کیا ہے۔ میثاق جمہوریت (۲۰۰۶ء) کا یہ مرکزی نکتہ ہے اور جولائی ۲۰۰۷ء میں لندن میں منعقدہ کُل جماعتی کانفرنس نے اس کا عہد کیا تھا لیکن اس طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ زرداری صاحب نے صدارت سنبھالنے کے بعد اختیارات پارلیمنٹ کو تحفہ میں دینے کا عہد کیا تھا مگر اپنے دوسرے تمام عہدوپیمان کی طرح اسے بھی وہ بھول گئے ہیں۔ دستور کی اصل شکل میں بحالی کے بغیر، نہ پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہوسکتی ہے اور نہ جمہوریت اور ملک کے تمام ادارے تقویت حاصل کرسکتے ہیں، اس لیے تمام جماعتوں کو اس کی طرف بلاتاخیر متوجہ ہونا چاہیے اور پارلیمنٹ کا اجلاس خواہ اسے کتنے ہی دن چلانا پڑے بلایا جائے اور جلد از جلد دستور کو، جس پر ضربیں لگا کر اس کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے، بگاڑ اور خرابیوں سے پاک کیا جائے تاکہ آمریت کے دور میں اس کے جسم پر لگے زخم مندمل ہوسکیں۔
۳- تیسرا بنیادی مسئلہ ملک میں امن و امان کے قیام کا ہے جس کا گہرا تعلق ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کی شمولیت اور اس کے نتیجے میں صرف فاٹا اور قبائلی علاقوں ہی میں نہیں، پورے ملک میں حکومت، فوج اور عوام کے درمیان شدید کش مکش اور پیکار کی کیفیت ہے۔ ہزاروں افراد اس آگ میں لقمۂ اجل بن گئے ہیں، لاکھوں بے گھر ہوئے ہیں، دہشت گردی، اور جرائم میں اضافہ ہوا ہے، معیشت پر اس کے اثرات تباہ کن ہوئے ہیں اور محتاط اندازوں کے مطابق گذشتہ ۸ سال میں معیشت ۳ کھرب روپے (۳۵ بلین ڈالر) سے زیادہ کا خسارہ برداشت کرچکی ہے۔ اس دلدل سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ سب سے بڑھ کریہ کہ ملک کی آزادی خطرے میں پڑ گئی ہے، اور حاکمیت مجروح ہوئی ہے اور قومی عزت و وقار خاک میں مل گیا ہے۔
۴- چوتھے مسئلے کا تعلق مرکز اور صوبوں کے تعلقات کو انصاف اور وفاق کے مسلّمہ اصولوں کی بنیاد پر استوار کرنے اور صوبوں کو ان کے سیاسی اور معاشی حقوق پورے کے پورے ادا کرنے کا ہے۔ اس سلسلے میں دستور میں بھی ضروری ترامیم کی ضرورت ہے اور اس سے زیادہ عملی طور پر صوبوں کے معاملات میں مرکز کی مداخلت اور صوبوں کے وسائل پر مرکز کی گرفت دونوں کی فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے حالات خصوصی توجہ کے مستحق ہیں لیکن بات صرف بلوچستان کی نہیں بلکہ تمام صوبوں کی ہے۔ ستم ہے زرداری صاحب نے پنجاب تک کو اپنے معاملات خود نمٹانے کے حق سے محروم کر دیا ہے اور گورنر راج کی لعنت اس پر مسلط کردی ہے۔ صوبائی خودمختاری اور صوبے کے اپنے وسائل پر تصرف کے اختیارات کا احترام وقت کی بڑی ضرورت ہے۔
۵- پانچواں مسئلہ ملک کی بگڑی ہوئی معیشت اور خصوصیت سے پیداواری نظام کا جھول، بے روزگاری میںاضافہ، غربت اور افلاس میں اضافہ، قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ، پانی کی قلت اور تعلیم اور علاج کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ قوم، اشرافیہ اور مفلوک الحال طبقوں میں بٹ گئی ہے اور عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوگیا ہے۔ موجودہ حکومت ایک سال میں بھی کوئی مربوط اور حقیقت پسندانہ معاشی پالیسی تشکیل دینے میں ناکام رہی ہے اور ملک ایک فلاحی اور خوش حال معاشرے کی جگہ ایک استحصالی نظام کی گرفت میں آگیا ہے جس کے نتیجے میں معاشی بگاڑ کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور معاشرتی خلفشار بھی بڑھ رہا ہے۔ معاشی مسائل روز بروز بگڑ رہے ہیں اور اربابِ اقتدار کا حال یہ ہے کہ انھیں اپنی عیش پرستیوں کے سوا کسی بات میں دل چسپی نہیں۔ یہ حالات انقلاب کی طرف لے جانے والے ہیں اور فوری توجہ کا تقاضا کر رہے ہیں۔
۶- چھٹی اور آخری چیز قوم میں مقصدیت کا فقدان اور قومی مقاصد کے باب میں ذہنی انتشار اور خلفشار کو ہوا دینے کی تباہ کن پالیسی ہے جس پر حکام اور بااثر طبقات کاربند ہیں۔ وہی قومیںترقی کرتی ہیں جن کے سامنے کوئی مقصد ہو، جو اپنی شناخت کی حفاظت کر سکیں، جن کا تعلیمی نظام فکری اور نظریاتی یکسوئی کے ساتھ اعلیٰ صلاحیتوں سے نئی نسلوں کو آراستہ کرے، جن کے سامنے اعلیٰ مقاصد کا حصول اور صرف ذات کی پوجا کے مقابلے میں قومی زندگی کے استحکام و ترقی اور انسانیت کے لیے کسی اعلیٰ آدرش کے حصول کا جذبہ اور صلاحیت ہو۔ اسلام نے ہمیں زندگی کا اعلیٰ ترین تصور دیا ہے جو ہمارے لیے ہی نہیں پوری انسانیت کے لیے رحمت اور نعمت ہے لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنے مقصد حیات اور تہذیبی اہداف کو بھولے ہوئے ہیں اور جاہلانہ عصبیتوں کا شکار ہیں اور ہمارا حال یہ ہے کہ ؎
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیرِ پاک و خیالِ بلند و ذوقِ لطیف
حالانکہ زندگی نام ہے تخلیق کے مقاصد کے حصول کی جدوجہد کا اور آرزو کو زندہ و بیدار رکھنے کا۔ بقول اقبال ؎
ما ز تخلیقِ مقاصد زندہ ایم
از شعاع آرزو تابندہ ایم
(حالات کیسے ہی دگرگوں ہوں، اگر دلوں میں حصولِ منزل کی آرزو ہے اور ہم تخلیقِ مقاصد سے دست کش نہیں ہوئے تو ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ سرنگ کے اُس پار نظر آنے والی روشنی، ہمارا استقبال کرنے کے لیے بے تاب ہے۔)
بقول عرفی ؎
کسیکہ محرم بادِ صباست ، مے داند
کہ باوجودِ خزاں، بوئے یاسمن باقیست
(جو شخص بھی بادِ صبا کے لطف و خوش بو سے واقف ہے، خوب جانتا ہے، کہ موسمِ خزاں کے باوجود، یاسمین کی خوش بو اور مہک (کہیں نہ کہیں) موجود ہے۔)
۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات، اپنی تمام کمزوریوں اور بے قاعدگیوں کے باوجود قوم کے اس عزمِ صمیم کے مظہر تھے کہ جنرل پرویز مشرف کا ۸ سالہ دورِ اقتدار پاکستان کی تاریخ کا تاریک ترین باب تھا اور عوام جنرل مشرف کے ساتھ اس کی ان پالیسیوں سے بھی مکمل نجات چاہتے ہیں جن کے نتیجے میں ملک کی آزادی اور حاکمیت پر ضربِ کاری لگی ہے۔ پاکستان کی نظریاتی شناخت بری طرح مجروح ہوئی ہے اور ملک امن و امان اور عدل و انصاف سے یکسر محروم ہوگیا ہے۔ عدلیہ، پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے ادارے غیرمؤثر اور آمریت کے آلۂ کار بن گئے ہیں جس کے نتیجے میں دستور عملاً معطل ہوگیا ہے اور عوام اپنے حقوق سے یکسر محروم ہوگئے ہیں۔ ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکی جنگ میں آلۂ کار بننے سے ملک کی فوج اپنے ہی عوام کے خلاف صف آرا ہوگئی ہے اور فوج اور قوم کے درمیان جو اعتماد اور ہم آہنگی کا رشتہ تھا وہ ٹوٹ گیا ہے۔ فوج عوام کی بے زاری، بے اعتمادی اور نفرت کا نشانہ بنتی جارہی ہے۔ فاٹا، شمالی علاقہ جات اور بلوچستان ہی نہیں، پورا ملک امن و امان سے محروم ہوگیا ہے اوردہشت پسندی، لاقانونیت اور راے عامہ کے ذریعے تبدیلی پر عوام کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن سیاسی قیادت کا آلۂ کار بن گیا ہے اور عدالت کو انتظامیہ نے اپنا تابع مہمل بنالیا ہے۔ معاشی حالات، خوش کن وعدوں کے باوجود روز بروز خراب ہورہے ہیں۔ غربت بڑھ رہی ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پیداوار میں جمود ہے، قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، قرضے بڑھ رہے ہیں، اِسی طرح بجٹ، تجارت اور بین الاقوامی ادایگیاں پاکستان کی تاریخ کے بدترین خسارے کی مظہر ہیں۔
ان حالات میں عوام نے تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا اور کسی ایک جماعت کو نہیں بلکہ دونوں بڑی جماعتوں، یعنی پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کو یہ ذمہ داری سونپی کہ ملک کو اس دلدل سے نکالیں اور دستور، قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی، پارلیمنٹ کی بالادستی، امن و امان کے قیام اور معاشی عدل اور استحکام کی طرف پیش قدمی کریں۔ نئے سفر کا آغاز پی پی پی اور نواز لیگ کے اشتراک سے ہوا اور امید بندھی کہ شاید قومی مفاہمت کے ذریعے ملک حقیقی جمہوریت کی طرف رواں دواں ہوسکے گا۔ مگر افسوس کہ سیاسی قیادت نے قوم کو بری طرح مایوس کیا اور ذاتی مفاد، جماعتی عصبیت، مفاد پرست طبقات سے گٹھ جوڑ اور امریکا کی کاسہ لیسی کی پرانی ڈگر کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس میں کچھ اور بھی اضافہ کردیا۔ عدلیہ کی بحالی اور آزادی پر ایک اور بھرپور ضرب لگائی۔ دستور کے ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء کی صورت میں بحالی کے وعدے کو پامال کیا اور ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے صریح غداری (high treason) کے اقدام کو سینے سے لگاکر مشرف کے چھوڑے ہوئے جمہوریت کُش نقشے میں مزید رنگ بھرنے کا کام اپنے سر لے لیا۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے راستے الگ ہوگئے مگر درپردہ معاملہ بندی کا سلسلہ جاری رہا جس سے نہ حکومت کی اصلاح ہوسکی اور نہ حزبِ اختلاف اپنا حقیقی کردار ادا کرسکی۔ حکومت پر عوام کا اعتماد بری طرح مجروح ہوا اور آج حکومت کے بارے میں عوام کی بے زاری کا گراف اس سے بھی کچھ اُوپر جاچکا ہے جو الیکشن کے وقت مشرف حکومت کے بارے میں تھا۔ اس ایک سال کا جائزہ لیا جائے تو بڑی تکلیف دہ اور تشویش ناک صورت حال سامنے آتی ہے جس کا ادراک ضروری ہے۔
امریکا ’اور مارو اور مارو‘ (do more) کے مطالبات کر رہا ہے۔ امریکی نمایندے ہالبروک نے نہ صرف امریکی دبائو کو بڑھایا ہے بلکہ اس کی موجودگی میں دو مرتبہ ڈرون حملے ہوئے۔ ممبئی کے واقعے کے بارے میں بھی زرداری کے دست ِ راست مشیر داخلہ نے پریس کانفرنس کرکے جس جوش و خروش سے بھارت کے الزامات کو اپنے سر لیا ہے، اس نے امریکا اور بھارت کے اس خطرناک کھیل کو اور بھی گمبھیر کردیا ہے۔ آج پاکستان اس قیادت سے محروم ہے جو پاکستان کے مفاد کے لیے سر اُٹھاکر اور خم ٹھونک کر کھڑی ہوسکے اور امریکا کے ایجنڈے سے براء.ت کا اعلان کرسکے۔ امریکی تحقیقی ادارے اعتراف کر رہے ہیں کہ افغانستان میں ۷۲ فی صد علاقے پر طالبان کا قبضہ ہے اور ۲۰۰۸ء کا سال افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج کے لیے اور خود وہاں کے عوام کے لیے سخت ترین رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے نمایندے نے سرکاری طور پر اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں غیرحربی (non-combatant) سویلین شہریوں کی ہلاکت میں ۴۰ فی صد اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں ۲۰۰۸ء میں ۲۱۱۸ معصوم شہری لقمۂ اجل بنے ہیں اور ان میں سے ۵۵۲ افراد ہوائی حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے شہریوں کی تحفظ کی سالانہ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ: ’’امریکا، ناٹو اور افغان افواج نے اقوام متحدہ کے مطابق ۲۰۰۷ء میں ان فورسز نے ۶۲۹ سویلین ہلاک کیے۔ ۲۰۰۸ء میں پچھلے برس کے مقابلے میں ۳۱ فی صد زیادہ سویلین ہلاک کیے‘‘۔
یہی صورت حال فاٹا اور سوات کی ہے جہاں پاکستانی افواج کے اقدام کے نتیجے میں صرف گذشتہ ۱۷ ماہ میں ۵ ہزار معصوم انسان شہید ہوچکے ہیں اور باجوڑ سے ۴ لاکھ اور سوات سے ۶لاکھ لوگ بے گھر ہوکر اپنے ہی ملک میں مہاجر بن گئے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کے لیے ۲۰۰۸ء کا سال دہشت گردی کے حوالے سے بدترین سال رہا ہے۔ پاک ادارہ براے مطالعات امن (Pak Institute for Peace Studies) کی تازہ رپورٹ (بی بی سی، ۱۹ جنوری ۲۰۰۹ء) کی رُو سے ایک سال میں جس میں اقتدار پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں بشمول اے این پی، ایم کیو ایم اور جمعیت علماے اسلام (ف) کے پاس تھا، ملک میں دہشت گردی (بشمول حکومتی دہشت گردی) کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۸ہزار تک پہنچ گئی ہے اور زخمیوں کی تعداد ۹۵۰۰ سے زائد ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ: ’’دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں ۷۰۰ فی صد اضافہ نوٹ کیا گیا ہے‘‘۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات سب سے زیادہ صوبہ سرحد میں ہوئے ہیں جن کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد بلوچستان کا نمبر ہے جہاں گذشتہ سال ۶۴۲، قبائلی علاقے میں ۳۸۵، پنجاب میں ۳۵، سند ھ میں ۲۵، اسلام آباد میں ۷، آزاد کشمیر میں ۴ اور شمالی علاقہ جات میں ایک واقعہ ہوا ہے۔
یہ خونچکاں داستان صرف اس دہشت گردی کی ہے، جسے قوت کے ذریعے ختم کرنے کے دعوے سے کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ قتل، چوری، ڈاکے، عصمت دری، خودکشی اور دوسرے جرائم اس کے سوا ہیں۔ انسانی حقوق کے کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جو اوسطاً ہر ماہ ایک سو سے متجاوز ہیں۔
یہ ہے ملک میں امن و امان کی اصل صورت حال اور زرداری گیلانی حکومت اس ناکام پالیسی پر اور بھی مستعدی کے ساتھ کاربند ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار پیس کی متذکرہ بالا رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۳ء سے (جب حکومت نے اس پالیسی کا آغاز کیا۔) ۲۰۰۸ء تک مجموعی طور پر ۱۳ ہزار افراد جانیں کھوچکے ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ دل خراش دعویٰ بھی کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان عراق اور افغانستان میں دہشت گردی سے ہونے والی ہلاکتوں میں دونوں سے آگے ہے‘‘___ اناللّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔
عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ۱۳ فروری ۲۰۰۹ء کی رپورٹ میں کہا ہے کہ صرف سوات میں ۱۲۰۰ افراد ہلاک اور ۵ لاکھ بے گھر ہوچکے ہیں۔ اس رپورٹ کے یہ الفاظ کس قدر شرم ناک ہیں:
طالبان نے لوگوں کی جان اور حقوق کی توہین کی ہے، جب کہ دوسری طرف پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے ان بنیادی حقوق کو پامال کیا ہے جن کی وہ بظاہر حفاظت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ (بی بی سی، ۱۳ فروری ۲۰۰۹ء)
ان حالات میں جب بھی حکومت نے اپنے عوام سے مذاکرات کرنے اور امن بحال کرنے کے لیے کسی معاہدے کی کوشش کی ہے تو اس پر امریکا برافروختہ ہوا ہے اور اس نے براہِ راست ڈرون حملوں میں اضافہ کر کے ان معاہدات کو سبوتاژ کرنے کی ’خدمت‘ انجام دی ہے۔ یہ ہے دہشت گردی کے خلاف اس کے ’تعاون‘ کی ایک شکل___
اس وقت بھی (وسط ِ فروری میں) جو معاہدہ سوات میں شرعی قوانین کے نفاذ اور امن کی بحالی کے لیے ہوا ہے اس پر امریکا، ناٹو، بھارت تینوں نے مخالف ردعمل کا اظہار کیا ہے اور زرداری صاحب دستخط کرنے میں لیت و لعل کر رہے ہیں۔ نیز ان کے ترجمان مسئلے کو اُلجھانے میں لگے ہوئے ہیں، حتیٰ کہ خود اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی تک بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ شریعت کے نفاذ کا کوئی مسئلہ نہیں، یہ تو صرف ۱۹۹۹ء کے ایک قانون میں کچھ ترمیم کی گئی ہے۔ حالانکہ اے این پی کی باقی قیادت خصوصیت سے اس کے سیکرٹری جنرل زاہد خان بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم نے شریعت کے نفاذ کا معاہدہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت پر عوام کا اعتماد ختم ہوچکا ہے اور وعدوں اور معاہدات کی تقدیس باقی نہیں رہی ہے۔ اس کی بدترین مثال عدلیہ بشمول چیف جسٹس کی بحالی کے سلسلے میں ایک نہیں، دو دو معاہدوں کا زرداری صاحب کا توڑنا ہے۔ اس کے بعد حکومت کے کسی قول و قرار کا اعتبار باقی نہیں رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نے شریعت کے نفاذ کے اصولی مسئلے کی بھرپور تائید کے باوجود، اس کھیل کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے جو ایک ناقابلِ اعتبار حکومت سرحد میں کھیل کر رہی ہے۔ دراصل یہ کھیل پرویز مشرف کے سابقہ دور سے زرداری گیلانی دور تک اُسی یکساں انداز میں کھیلا جارہا ہے۔
اس وقت سب سے بڑا مسئلہ حالات کے صحیح ادراک کا فقدان اور کسی ہمہ جہت اور مربوط معاشی پالیسی کا عدم وجود ہے۔ نج کاری، بدعنوانی اور قومی اثاثہ جات کو کوڑیوں کے مول غیرملکیوں کی طرف منتقل کرنے کا ذریعہ بن گئی ہے مگر اس پر دوبارہ عمل شروع ہوگیا ہے جس کے معیشت پر دُوررس منفی اثرات پڑیں گے۔ اس عرصے میں روپے کی بین الاقوامی قیمت میں ۲۵ فی صد کمی واقع ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں بیرونی قرضوں کا بار ۷۰۰ ارب روپے بڑھ گیا ہے۔ درآمدات مہنگی ہوگئی ہیں اور برآمدات میں طلب پوری کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی اضافہ نہیں ہو پا رہا۔ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی گرفت معیشت پر موجود ہی نہیں ہے۔ خارجہ سیاست ہو یا داخلی معاملات ہوں، کیفیت یہ ہے کہ ع
تن ہمہ داغ داغ شد ، پنبہ کجا کجا نہم
(سارا بدن زخموں سے داغ داغ ہوگیا ، پھایا کہاں کہاں رکھوں؟)
ممبئی کا واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اور پاکستان پر امریکا کے مسلسل حملے حالات کو ایک ایسے رُخ پر لے جانے کے لیے ہیں کہ ایک طرف اقوامِ عالم خاکم بدہن پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دے کر یو این کے کسی پروانے کے سہارے ہمارے ایٹمی اثاثہ جات پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنائیں۔ دوسری طرف پاکستان کے تصور (image) کو میڈیا کے ذریعے اتنا خراب کردیا جائے کہ ملک تنہا ہوکر رہ جائے۔ کسی مذموم بین الاقوامی کارروائی کے لیے فضا سازگار ہوجائے۔ فوج کو ملک کے دفاع کی جگہ مغربی سرحدات پر ایک نہ جیتنے والی جنگ میں جھونک دیاگیا ہے اور اس دلدل سے فوج کے نکلنے کی ہرکوشش کو ناکام بنانے کی سعی کی جارہی ہے۔ قوم اور فوج کے درمیان اعتماد اور تعاون کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔ اب اگر اسے دوبارہ بحال کرنے میں کوئی کوتاہی کی جاتی ہے تو یہ خودکشی سے کم نہیں ہوگا۔ فوج کی قیادت کو بھی آنکھیں کھولنی چاہییں۔ ایک طرف فوج کو اپنی ہی قوم کے خلاف ایک گندے کھیل میں جھونک دیا گیا ہے تو دوسری طرف فوج اور آئی ایس آئی کو بڑے منظم طریقے سے ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں تازہ ترین کوشش وہ اہم کتاب ہے جو امریکا کے سی آئی اے کے سابق کارندوں کی روایات پر نیویارک ٹائمز کے ایک صحافی ڈیوڈ ای سنگر (David E. Sanger) نے The Inheritance: The World Obama Confronts کے نام سے شائع کی ہے۔ اس کا اصل ہدف پاکستانی فوج اور خصوصیت سے آئی ایس آئی ہے۔ دوسری طرف بھارت کی قیادت بھی ممبئی کے واقعے کے سلسلے میں کھل کر آئی ایس آئی کو ہدف بنائے ہوئے ہے۔
ان حالات میں پاکستانی عوام، سیاسی قیادت اور فوجی قیادت کو بڑی دانش مندی اور سمجھ داری سے معاملات کو طے کرنا ہوگا۔ اس کے بنیادی دائرے تین ہونے چاہییں:
۱- پاکستانی فوج کو دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں شرکت سے نکالنا اور اسے ان اصل اور حقیقی خطرات کے مقابلے کے لیے تیار اور مستعد رکھنا جو ملک کو درپیش ہیں۔
۲- بنگلہ دیش کے ماڈل پر فوج کے کسی ایسے کردار کے خلاف پیش بندی جس میں سیاسی حالات کے بگاڑ کا سہارا لے کر اسے دوبارہ سیاست میں ڈالنے کا کھیل کھیلا جائے۔ فوج کے سیاسی کردار نے فوج کے مزاج، تصور (image) اور کردار سب کو بُری طرح مجروح کیا ہے۔ یہ ملک اور فوج دونوں کے لیے تباہی کا راستہ ہے، اس لیے یہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہونا چاہیے۔
۳- ملک کے سلامتی کے لیے مثالی نمونے (paradigm) کی ازسرنو تشکیل کی جائے جس میں فوج کو حقیقی خطرات کا بھرپور مقابلہ کرنے کے لائق بنایا جائے اور اس کی تربیت اور پوری پلاننگ صرف اور صرف دفاعی ضرورتوں کے تحت ہو۔ فوج کو امریکا کی دخل اندازیوں سے بھی محفوظ کیا جائے۔ٹریننگ کے نام پر امریکا نے فوج میں اپنی لابی اور شراکت داری کا جو منصوبہ بنایا ہے، اسے بروقت روکا جائے۔
ا- ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے مجرمانہ اقدام کو فی الفور کالعدم قرار دیا جائے اور عدلیہ کو اس کی ۳نومبروالی شکل میں اور اصل عدلیہ کے ۳ نومبر والے ۷ ججوں کے متفقہ فیصلے کی روشنی میں بحال کیا جائے۔
ب- جنرل پرویز مشرف کا احتساب ہو اور اسے دفاع کا پورا موقع دے کر دستور کی خلاف ورزیوں اور سیاسی جرائم کی قرار واقعی سزا دی جائے۔
ج- کُل جماعتی مشاورت کے ذریعے ایک حقیقی قومی مفاہمت کی فضا پیدا کی جائے اور تمام قومی عناصر کو ۱۹۷۳ء کے اصل دستور کی بنیاد پر ایک نئے قومی عمرانی معاہدے پر متفق کیا جائے جس میں دستور کی بحالی، پارلیمنٹ کی بالادستی اور اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم پر اتفاق راے پیدا کیا جائے۔
د- امریکا کی ’دہشت گردی کی جنگ‘ سے اپنے کو الگ کیا جائے اور ملک کے لیے صحیح خطوط پر سلامتی کے مثالی نمونے کی تشکیل نو ہو۔
ر- ایک متعین مدت کے لیے قومی سطح پر عبوری انتظام ہو تاکہ اصل دستور اور اس قومی میثاق کی روشنی میں نئے انتخاب کے ذریعے عوام کو اپنی قیادت منتخب کرنے کا موقع دیا جائے۔
ھ- ملک کی معیشت کو خودانحصاری کی بنیاد پر ایک ہمہ جہت، حقیقت پسند اور مربوط معاشی پالیسی کے ذریعے مرتب اور منظم کرنے کا منصوبہ بنایا جائے۔ ملک کے اہل ترین ماہرینِ معاشیات کے مشوروں سے ایک ایسا معاشی پروگرام بنایا جائے جو قومی وسائل کو قومی مقاصد اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بروے کار لاسکے۔
و- تمام سیاسی مسائل کو افہام و تفہیم، مذاکرات اور سیاسی طریق کار کے اصول کے مطابق سلجھانے کی کوشش کی جائے۔
ز- میڈیا کی آزادی کے ساتھ عوام کے حقوق کی پاس داری کو ریاستی پالیسی کا مرکزو محور بنایا جائے۔ عوام کو اعتماد میں لیا جائے اور مکمل شفافیت کے ساتھ ان کو پاکستان کے دفاع، تحفظ اور نظریاتی تشخص کی حفاظت کے لیے منظم کیا جائے۔
ک- ۱۲ اور ۱۶ مارچ کے پروگرام کو پُرامن جمہوری انقلاب کا نقطۂ آغاز بنایا جائے تاکہ پاکستان کی سیاست کو صحیح رُخ پر ڈالا جاسکے اور ملک و قوم اس وقت جس بحران میں مبتلا ہیں، اس سے نجات حاصل کی جاسکے۔
یہ وقت قیادت ہی نہیں پوری قوم کے لیے امتحان کا وقت ہے۔ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ بحیثیت قوم اس چیلنج سے نبردآزما ہونے کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔
اُمت مسلمہ کے حال اور مستقبل کے بارے میں جب کبھی گفتگو کی جاتی ہے تو ایک سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ ہم کس اُمت مسلمہ کی بات کر رہے ہیں؟ کیا اُس اُمت مسلمہ کی جس کے جسم سے گذشتہ ۶۰ سالوں سے کشمیر اور فلسطین میں مسلسل خون بہہ رہا ہے مگر اپنے زخموں کی کسک اور درد اسے ابھی تک بیدار نہیں کرسکی، نہ زخموں کے علاج کے لیے وہ اُٹھ کر پیش قدمی کرنے پر آمادہ ہوسکی ہے۔ کیا اس اُمت مسلمہ کی بات کی جا رہی ہے جو ۵۷ نام نہاد آزاد ممالک کے ہونے کے باوجود اسلامی تنظیم او آئی سی نامی کاغذی ادارے میں کوئی متحدہ و مشترکہ حکمت عملی وضع نہ کرسکی، یا اُس اُمت مسلمہ کی بات کی جا رہی ہے جسے قرآن کریم نے ’خیراُمت‘ قرار دیتے ہوئے عالمی مشن اور ذمہ داری کے ساتھ برپا کیا اور جس نے تاریخ کے مختلف ادوار میں انسانی تہذیب و ثقافت میں ایسے گراںقدر اضافے کیے جن کے اثرات آج تک پائے جاتے ہیں۔
اسلامی فکر یاس و مایوسی کو کفر قرار دیتی ہے اور حالات کے نامساعد ہونے کے باوجود ہرمسلمان سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ پُرامید رہے اور مثبت طرزِفکر کے ساتھ اپنا اور گردوپیش کا جائزہ لے کر اپنی جدوجہد اللہ کے بھروسے پر جاری رکھے اور مایوسی کو اپنے پاس بھی پھٹکنے نہ دے۔
اس پہلو سے اگر دیکھا جائے تو جس شدت اور تسلسل کے ساتھ اُمت مسلمہ کے دشمن اس پر ہر زاویے سے یلغار کر رہے ہیں وہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ اُمت مسلمہ نہ مُردہ ہے، نہ ایک غیرمحسوس وجود (non-entity) ہے بلکہ ان جابر اور ظالم قوتوں کے لیے جو بہ زعمِ خود یک قطبی طاقت ہونے کے دعوے کرتی ہیں، ایک لپکتا ہوا شعلہ ہے جس کی تپش اور خطرناکی نے طاغوت کی نیند حرام کردی ہے۔ مزید غور کیا جائے تواپنے شکست خوردگی کے احساس کے باوجود، آج جو اُمت مسلمہ ہمارے اردگرد پائی جاتی ہے اس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ یک قطبی طاقت کے لاڈلے اسرائیل کو۳۳ دن تک لبنان کے سرحدی علاقے میں مقابلے کے بعد پسپا کردے۔ یہ وہی اُمت مسلمہ ہے جو ۷۰ سال تک ترکی میں لادینیت کو سرکاری مذہب کے طور پر بہ اکراہ برداشت کرنے کے بعد پُرامن اور جمہوری ذرائع سے ملک کی سمت اور ملکی پالیسی کے رُخ کو دین کی طرف موڑ سکی ہے۔ جہاں ۷۰سال پہلے نقاب اور حجاب کو ممنوع قرار دیا گیا تھا، آج وہاں اُمت کی لاکھوں بیٹیاں بازاروں میں، جامعات میں اور صنعتی اداروں میں فخر کے ساتھ اسکارف کو اپنی پہچان کے طور پر استعمال کررہی ہیں۔ یہ وہی اُمت مسلمہ ہے جسے اس کے دشمن بھی مجبوراً نیوکلیر قوت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ چند لمحات کے لیے اُمت کے بارے میں اپنے ذہنوں میں بنائے ہوئے نقشوں کو محو کر کے معروضی طور پر اور تنقیدی نگاہ کے ساتھ جائزہ لے کر دیکھا جائے کہ اصل زمینی حقائق کیا ہیں، اور اُمت مسلمہ کی اصل قوت کس چیز میں ہے۔ اس کی کون سی کمزوریاں ایسی ہیں جو خود پیدا کردہ ہیں اور کون سی ایسی ہیں جو اس پر مسلط ہوگئی ہیں۔ اس کے سامنے کون سے خطرات سر اُٹھائے کھڑے ہیں اور ان خطرات و مطالبات کے علی الرغم، اس میں ان کے مقابلے اور ایک روشن مستقبل تعمیر کرنے کی صلاحیت کہاں پائی جاتی ہے۔ جدید ادارتی علوم (Management Sciences) میں اس قسم کے جائزے کے لیے SWOT کی اصطلاح عرصۂ دراز سے استعمال کی جاتی ہے جس میں قوتوں(strengths)، کمزوریوں (weaknesses)، مواقع (opportunities) اور خطرات (threats) کے تفصیلی جائزے کے بعد کوئی ادارہ اپنے لیے حکمت عملی وضع کرتا ہے۔مسلمان اہلِ علم کو بھی وقتاً فوقتاً نہ صرف اسلامی تحریکات بلکہ اُمت مسلمہ کے حوالے سے اس قسم کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ ہم تجزیے اور تحلیل و تنقید کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل طے کرسکیں اور مروجہ حکمت عملی میں مناسب اضافے اور تبدیلیاں کی جاسکیں۔ زندہ تحریکات کی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ دن بھر کی مشقت کے بعد استراحت سے قبل احتسابِ نفس کر کے دیکھیں کہ آج کیا پایا اور کیا کھویا؟ دین اسلام نے جس جائزے، تجزیے اور تحلیل کو احتساب کی اصطلاح سے متعارف کرایا تھا، اسی قسم کا ایک تجربہ SWOT کی جدید اصطلاح کے سہارے بہت سے دانش وَر دنیا میں کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انھوں نے پہیہ ایجاد کیا ہے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ پہیہ کس نے ایجاد کیا، تجزیاتی اور تحلیلی عمل تحریکاتِ اسلامی اور اُمت مسلمہ کے لیے بہت مفید ہے۔ آج جو بات اُمت مسلمہ کے حوالے سے کی جارہی ہے، ضرورت یہ ہے کہ خصوصاً تحریک اسلامی ہر ۱۰سال کے بعد اس قسم کا تجزیہ کرے، چاہے اس کے نتیجے میں اپنی حکمت عملی پر اس کے اعتماد میں اضافہ ہو یا وہ اس پر نظرثانی کرے۔
اُمت مسلمہ آج بادی النظر میں جس انتشار کا شکار نظر آتی ہے اسے دُور کرنے اور اس میں فکری اتحاد اور نظری و عملی یگانگت پیدا کرنے کے لیے لازمی ہے کہ پہلے تجزیہ کرکے دیکھا جائے کہ اس میں کون سے پہلو اس کی قوت کا مظہر ہیں، کمزوری کہاں پائی جاتی ہے، اسے کون سے چیلنج درپیش ہیں اور کون سے مواقع ایسے ہیں جن کے لیے مناسب حکمت عملی وضع کرنے کے نتیجے میں اُمت مسلمہ دوبارہ قائدانہ منصب پر فائز ہوسکتی ہے۔
ہماری راے میں حسب ذیل سات خوبیاں، اُمت کی قوت کا مظہر ہیں:
۱- قوتِ ایمانی: حقیقت یہ ہے کہ اُمت مسلمہ کی اصل قوت اس کی قوتِ ایمانی ہے جس سے وہ خود کم آگاہ ہے اور جس سے دشمن لرزاں رہتا ہے۔ یہی اس کی وحدت کا راز ہے اور اسی بنا پر اس قوت کو زائل کرنے کے لیے ابلیس اور اس کی ذُریت تخلیق انسان سے آج تک برسرِپیکار ہے۔ دورِ جدید کے بے شمار نظریات ہوں، منصوبے اور حکمت عملی ہوں، ان سب کا اصل ہدف اُمت کا ایمان ہے۔ جس وقت تک مسلمان اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو اپنا حامی و ناصر، محافظ و حاکم سمجھتا ہے، بڑی سے بڑی فرعونی اور طاغوتی قوت اسے سر جھکانے پر آمادہ نہیں کرسکتی لیکن جس لمحے وہ صرف مادی اور انسانی ذرائع کو اپنی کامیابی کا ضامن سمجھتا ہے، وہ طاغوت اور باطل کے لیے ایک نرم نوالہ بن جاتا ہے۔ اسی ایمانی قوت کو سورئہ انفال میں رب کریم نے یوں بیان فرمایا ہے: ’’اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے ۲۰ افراد صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر ۱۰۰ آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری ہوں گے‘‘۔ (الانفال ۸:۶۴)
یہ قوتِ ایمانی روزِ اول سے اُمت مسلمہ کا اثاثہ ہے اور آج بھی یہی وہ قوت ہے جو یک قطبی طاقت کے دل و دماغ، اسرائیل کو اس سے خائف رکھتی ہے اور ان شاء اللہ کفروظلم کو شکست دینے کے لیے سب سے مؤثر اسلحے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس قوت کے ہوتے ہوئے اُمت مسلمہ کو کسی سے خائف اور لرزہ براندام ہونے کی ضرورت نہیں۔
۲- عالمی بیداری کی لھر: اُمت مسلمہ کی قوت کا دوسرا مظہر دورِ جدید میں پائی جانے والی عالمی بیداری کی لہر ہے۔ مغربی سامراج سے سیاسی آزادی کے حصول کے ساتھ اُمت مسلمہ میں انڈونیشیا، ترکی، پاکستان، شمالی افریقہ، وسط ایشیا، غرض ہر اُس خطے میں جہاں مسلمان پائے جاتے ہیں، دوسری عالمی جنگ کے فوری بعد عالمی بیداری کی ایک لہر تیزی کے ساتھ ظہور میں آئی اور ۷۰ کے عشرے تک یہ عالمی بیداری یورپ، امریکا، جنوب مشرقی ایشیا اور آسٹریلیا تک پہنچ گئی۔ نوجوان مسلم دانش وَر ہوں یا انجینیر،طبیب ہوں یا علومِ عمرانی کے ماہر (سوشل سائنٹسٹ)، اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں شامل ہوگئے۔ یہ عالمی بیداری بعض اوقات اپنی انتہا پر رہی اور بعض اوقات غیرمحسوس طور پر اُمت مسلمہ کے اندر سرایت کرتی رہی۔ آج اس کی جھلک مغرب و مشرق میں، نہ صرف مسلم اداروں کی شکل میں بلکہ مغربی سرمایہ داروں کے اداروں میں غیر سودی کھڑکیوں کی شکل میں نظر آتی ہے۔ یہ عالمی بیداری اُمت مسلمہ کا ایک قوی پہلو پیش کرتی ہے کہ اُمت مسلمہ نہ بے جان ہے نہ مُردہ بلکہ ایک قابلِ لحاظ قوت رکھنے والی اُمت ہے۔
اُمت مسلمہ کی اس بیداری کو اسلام دشمن قوتیں اپنا اصل حریف سمجھتی ہیں اور انھیں قدامت پرست، بنیاد پرست، انتہا پسند غرض مختلف ناموں سے یاد کرتی ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کا حرکاتِ اسلامی سے خوف اور ان کے راستے مسدود کرنے اور انھیں برسرِ اقتدار نہ آنے دینے کی کوشش اُمت مسلمہ کے ایک قوت ہونے کی مزید تصدیق کرتی ہیں۔ اگر واقعی اُمت مسلمہ ایک بے جان شے ہوتی تو کفروظلم کی قوتیں اپنی تمام طاقت اس کے خلاف صرف نہ کرتیں۔ اُمت کی اس قوت کا خوف ہرلمحہ طاغوت کو وسوسوں اور خدشوں میں غلطاں و پیچاں رکھے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ حق کو، چاہے وہ عددی لحاظ سے کم ہو، اس کے خلوص اور صبر کی بنا پر طاغوت کے عظیم لشکروں کے باوجود فتح دیتا ہے۔ تعداد میں کم ہونے کے باوجود آج اُمت مسلمہ کے نوجوان دنیا کے ہر گوشے میں اسلامی نظامِ حیات کے قیام کے لیے سرگرم اور کوشاں ہیں۔ وہ سرمایہ دارانہ معیشت اور آمرانہ سیاست کی جگہ ایک عادلانہ نظام لانا چاہتے ہیں۔
۳- دین کا جامع تصور : اُمت مسلمہ کی تیسری بڑی قوت اور پہچان ۲۰ویںصدی میں دین کی جامع تعبیر ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام کی تاریخ کے مختلف ادوار میں اللہ تعالیٰ نے ایسے افراد پیدا کیے جو دین کی جامع تعلیمات کے ذریعے احیائی تحریکات کے قیام کا سبب بنے۔ ان افراد میں علامہ اقبال، سید مودودی، حسن البنا شہید، سید قطب شہید وغیرہ شامل ہیں۔ ۲۰ویں صدی میں مصر میں حسن البنا شہید نے اور برعظیم میں سید مودودیؒ نے جن تحریکوں کا آغاز کیا ان کے اثرات یورپ و امریکا، جنوب مشرقی ایشیا، وسط ایشیا اور افریقہ و آسٹریلیا تک پہنچے اور اسلام کی رسمی تعبیر کی جگہ اسلام کی جامع تعبیر، بطور ایک مکمل اور قابلِ عمل نظامِ حیات کے وقت کی زبان بن گئی۔ یہ تحریک تعمیر ِقیادت اور تبدیلی ٔ قیادت کو ہدف بناتے ہوئے آگے بڑھیں اور آج مسلم دنیا میں ان کے مخالفین بھی انھیں ایک اہم قوت ماننے پر مجبور ہیں۔ آج یہ تحریکیں اُمت مسلمہ کے جسم میں تازہ خون بن کر گردش کر رہی ہیں اوردشمنانِ اسلام کے لیے ایک مسلسل چیلنج کی حیثیت اختیار کرگئی ہیں۔ نتیجتاً ایک طویل عمل کی شکل میں ان تحریکوں کے زیراثر ایک ایسی تعمیری افرادی قوت وجود میں آرہی ہے جو نہ صرف ان کی فکری قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ مناسب وقت پر سیاسی، معاشی، تعلیمی اور معاشرتی محاذ پر اسلامی متبادل کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے نشوونما پا رہی ہے۔
۴- جوھری قوت کی استعداد : مندرجہ بالا تین قوی پہلوئوں کے ساتھ اُمت مسلمہ کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ اسے ایک نیوکلیر قوت کی حیثیت سے بادل نخواستہ اس کے دشمن بھی ماننے پر مجبور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ طویل المیعاد اور قلیل المیعاد منصوبوں کے ذریعے پاکستان کو متزلزل کرنے اور طالبان کے خوف کے نام پر پاکستان کے نیوکلیر اثاثوں کو کسی نہ کسی طرح ناکارہ بنا دینے کی سازش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی سازش تو ایک منطقی عمل ہے، دشمن کو یہ کرنا ہی چاہیے لیکن بیرونی دشمن سے زیادہ خطرناک وہ اندرونی دشمن ہیں جو اس گھنائونے کھیل میں دشمن کی مرضی کے مطابق ملک کو کمزور کرنے اور دشمن کے لیے موقع فراہم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف قرآن کریم نے واضح اشارہ کیا ہے کہ اہلِ ایمان کے دشمن کی منصوبہ بندی اور چال کو اللہ تعالیٰ ناکام کردے گا، اس کی حکمت عملی سب سے کارگر حکمت عملی ہے۔ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (۳:۵۴)
۵- وسائل کی فراوانی: اُمت مسلمہ کا پانچواں قوی پہلو ، جس کی اہمیت سے وہ شاید خود بھی آگاہ نہیں ہے، اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کی طرف سے اس کی زمینوں اور فضائوں میں ان قدرتی وسائل کی دولت کا فراہم کردینا ہے جس کے حصول اور اس پر قوت کے ذریعے قبضہ کرنے کے لیے، تمام مسلمان دشمن طاقتیں اپنی اپنی سازشوں میں لگی ہوئی ہیں۔ افغانستان اور عراق پر امریکی جارحیت کا بنیادی مقصد ان ذخائر پر قابض ہونا تھا جن کے بغیر اس کی معیشت تباہ ہوجائے گی لیکن یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ دشمن کو تو ملت اسلامیہ کے وسائل کی اہمیت کا پورا اندازہ ہے اور وہ اسی بنا پر ان وسائل پر قوت کے ذریعے قابض ہونے میں لگا ہوا ہے لیکن مسلم ممالک کے سربراہان خود اس قوت کے صحیح استعمال سے ناآشنا ہیں اور بغیر کسی تامل کے دشمن کی سازش میں ساجھی بننے میں فخر محسوس کر رہے ہیں۔
۶- افرادی قوت کی بالادستی: اُمت مسلمہ کی چھٹی قوت اس کا انسانی اثاثہ (Human Resource) ہے جس کے بغیر جدید ٹکنالوجی بھی اپنے آپ کو بے بس پاتی ہے۔ یورپ اور امریکا کے معاشرتی جائزے یہ بتاتے ہیں کہ ۲۰۱۰ء تک یورپ اور امریکا میں ۴۵ فی صد افراد عمر کے اس مرحلے میں ہوں گے جب انھیں معاشی طور پر عضو معطل سمجھا جاتا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں وہ معیشت پر ایک بوجھ (liability ) بن جاتے ہیں۔ اس فطری خلا کو کون پُر کرے گا؟ اُمت مسلمہ میں اس وقت ۱۸، ۲۰ سال کے نوجوانوں کا تناسب ۳۳ فی صد ہے، اگر اُمت ان نوجوانوں کی صحیح تعلیم و تربیت کرتی ہے تو یہی افرادی قوت اس کی دولت بن کر دنیا میں انقلاب برپا کرسکتی ہے۔ اس راز سے آگاہ ہونے کے سبب یورپ و امریکا مختلف عالمی اداروں کے ذریعے کثیر رقم خرچ کر کے یہ چاہتے ہیں کہ اُمت مسلمہ میں آبادی پر قابو رہے اور ۲۰۱۰ء میں ہونے والا فطری آبادی کا وہ سفر (population movment) جو تاریخ کے ہر دور میں کارفرما رہا ہے، منجمد ہوجائے اور یورپ و امریکا میں نسلی بنیادوں پر آبادی کے تناسب میں بڑی تبدیلی نہ ہو۔ اسی بنا پر امیگریشن قوانین کو مسلسل تبدیل کیا جا رہا ہے تاکہ وہ نسلی فوقیت جو یورپی اور امریکی تہذیب کا خاصا ہے، غیرسفیدفام افراد کے آنے سے تبدیل نہ ہو۔
اس سب کے باوجود افرادی قوت ایک ناقابلِ انکار قوت ہے اور اگر انتقالِ آبادی نہ بھی ہو جب بھی یہ افرادی قوت اپنے ملک میں بیٹھ کر ٹکنالوجی کی مدد سے ایسے بے شمار کام انجام دے سکتی ہے جس کے لیے یورپ اور امریکا دوسروں کی مدد کے محتاج ہوں گے۔ اس افرادی قوت کو صحیح منصوبہ بندی کے ذریعے مؤثر اور فنی طور پر اعلیٰ و ارفع بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اُمت مسلمہ اپنا مثبت کردار مستقبل میں ادا کرسکے۔
۷- اُمت کا عالمی تصور: اُمت مسلمہ کا ساتواں قوی پہلو اس کا جغرافیائی قیود و حدود سے نکل کر دنیا کے ہر خطے میں اپنی پہچان کے ساتھ پایا جانا ہے۔ اب مسلمان کا مطلب یہ نہیں لیا جاسکتا کہ وہ بغداد یا قاہرہ، استنبول یا دمشق کا باشندہ ہے۔ آج اُمت مسلمہ مغرب و مشرق میں اس طرح پھیل چکی ہے کہ صحیح معنی میں اگر کوئی اُمت بین الاقوامی انٹرنیشنل کہی جاسکتی ہے تووہ صرف اُمت مسلمہ ہے۔ اس طرح چپے چپے پر اپنے قدم جما دینے کے بعد اب اُمت مسلمہ کو نشانہ بنانا دشمنانِ اسلام کے لیے ناممکن ہوگیا ہے۔ اُمت کے افراد کسی ایک مسلک یا خطے میں مرتکز نہیں ہیں۔ ان کا یہ پھیلائو ان کی قوت ہے۔ ایک سیاہ فام امریکی ہو یا سفیدفام فرانسیسی، جب دولت ِ اسلام سے فیض یاب ہوتا ہے تو وہ اُمت مسلمہ کے جسم کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس کی پسند ناپسند، اس کا مرنا، اس کا جینا، اس کی عبادت، اس کی قربانی پر ہر چیز صرف اور صرف ایک رب العالمین کے لیے ہوجاتی ہے۔ وہ نہ نسل کا بندہ رہتا ہے نہ رنگ کا، نہ زبان کا نہ رسوم و رواج کا، نہ سیاسی مفادات اور معاشی مقاصد کا، بلکہ صرف اور صرف اللہ کا بندہ بن کر اُمت کی عالمی برادری میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس انقلابی قوت کو اگر صحیح طور پر متحرک (mobilize) کیا جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے زیر نہیں کرسکتی۔
ان ۷ نکات سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ یہ قنوطیت پسند رویہ کہ اُمت مسلمہ صفروں کا مجموعہ ہے، زمینی حقائق کی روشنی میں درست نہیں۔ یہ بات بھی بے بنیاد ہے کہ اُمت مسلمہ میں کوئی قوت نہیں ہے، یہ لاچار و بے بس ہے، اس کی ناک کو جو چاہے جب چاہے اور جہاں چاہے گھما سکتا ہے۔ الحمدللہ اُمت مسلمہ ایک ناقابلِ انکار قوت ہے اور یہ قوت آج تاریخ کی روشنی میں موجود ہے۔ یہ کسی فلسفیانہ بحث اور تصوراتی شاکلہ (ہیئت)کا نام نہیں ہے۔ اس کا ٹھوس ناقابلِ تردید وجود پایا جاتا ہے۔
پھر کیا وجہ ہے کہ تین ہفتوں میں ۱۳۰۰ سے زیادہ بے گناہ بچے، عورتیں، جوان اور بوڑھے فلسطین میں شہید کردیے جائیں اور ۵ہزار سے زیادہ زخموں سے چور طبّی خدمات سے محروم رہیں، اور اس پر مستزاد یہ کہ اسلام آباد، استنبول، قاہرہ، ریاض، جکارتا اور کوالالمپور کے اقتدار کے ایوانوں میں پائے جانے والے حکمران خوابِ خرگوش میں مست ہوں؟ پھر کیا وجہ ہے کہ جس دوم درجے کے امریکی سرکاری ملازم کے حکم اور تعاون سے افغانستان سے امریکی ہوائی جہاز پاکستان کی حدود میں آکر یہاں کے بے گناہ شہریوں اور مدرسے کے ۲۰۰ بچوں کو نشانہ بنا کر بہ خیریت واپس چلے جائیں، اسی دشمنِ پاکستان کو ہلالِ قائداعظم دیا جائے؟ ایسا کیوں ہے؟ ہم اتنے کمزور کیوں ہیں؟
اگر جائزہ لیا جائے تو اُمت کی کمزوریوں کو بھی سات نکات کے تحت اختصار سے بیان کیا جاسکتا ہے:
۱- علاقائی، نسلی اور لسانی تقسیم: پہلی کمزوری اُمت مسلمہ کے بعض گروہوں کا خود اپنے بارے میں یہ تصور ہے کہ ان کے تشخص کی بنیاد نسلی، علاقائی اور لسانی خصوصیات پر ہے۔ چنانچہ وہ اپنے آپ کو بنگلہ دیشی، افغانی، عراقی، مصری، شامی، انڈونیشی، ملیشن کہنے میں فخر محسوس کرتی ہے، اسے اپنی قومی زبان سے زیادہ علاقائی زبان پر ناز ہوتا ہے حتیٰ کہ بعض ناعاقبت اندیش اور دشمنانِ عقل و خرد اُردو جیسی اسلامی روایات کی علَم بردار زبان کو اس کے اعلیٰ و ارفع مقام سے گراکر ایک غیرمحسوس اور محدود افراد کے گروہ کی زبان بناکر پیش کرتے ہیں کہ اُردو بولنے والے ان افراد کے پوتے اور نواسے ہیں جوتقسیم ملک سے قبل اُردو بولا کرتے تھے۔
یہ نسلی، لسانی اور علاقائی تصور جو سامراجی طاقتوں کے دیے ہوئے نظامِ تعلیم اور ہندوازم اور دیگر نظاموں سے مستعار لیے گئے تصورات کے نتیجے میں اُمت مسلمہ میں سرایت کرگیا ہے، اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے جسے دشمن بہ کمالِ فن اُمت میں مزید انتشار اور فرقے پیدا کرنے کے لیے دن کی روشنی میں استعمال کر رہا ہے اور اُمت مسلمہ اس کے جال میں پھنس جانے کے باوجود اپنے محبوس کیے جانے سے لاعلم ہے۔ اس کمزوری کے سبب عراق ہو یا ایران، ترکی ہو یا پاکستان یا افغانستان، ایک مسلک کو دوسرے کے ساتھ اور ایک لسانی گروہ کو دوسرے کے ساتھ لڑاکر اپنا اُلو سیدھا کرنے کا عمل جاری ہے۔ بیرونی سامراج کے اس شاطرانہ عمل میں بہت سے مقامی افراد بھی ان کے شریکِ کار ہیں۔
۲- استحصالی معاشی قوتوں پر انحصار: اُمت مسلمہ کی دوسری کمزوری اس کا استحصالی معاشی قوتوں پر انحصار ہے۔ وہی معاشی قوتیں جو اُمت مسلمہ کے عضوعضو پر چوٹ لگا کر قرضوں کے ذرعیے اسے معاشی طور پر اپنا غلام بنانے میں لگی ہوئی ہیں، اُمت مسلمہ انھی پر انحصارواعتماد کو اپنے لیے ذریعۂ نجات سمجھتی ہے۔ عقل کے اس طرح مارے جانے کی ذمہ داری استحصالی طاقتوں پر نہیں رکھی جاسکتی۔ یہ صریحاً اُمت مسلمہ کی اپنی حماقت، عاقبت نااندیشی ہے اور جہالت ہے کہ وہ اپنے مفادات دوسروں کے حوالے کرنے کے بعد ان سے بھلائی کی اُمید رکھے۔
دوسروں بلکہ دشمنوں پر معاشی انحصار کے چنگل سے نکلے بغیر اُمت مسلمہ مستقبل میں اپنا کوئی کردار ادا نہیں کرسکتی۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ جو ممالک معاشی طور پر محکوم ہوں، وہ سیاسی اور عسکری طور پر بھی آزاد نہیں رہ سکتے۔ اس لیے اس کمزوری کو دُور کیے بغیر اُمت مسلمہ کی نشاتِ ثانیہ آسان نہیں ہوگی۔
۳- عسکری قوت کے لیے دشمن پر انحصار: اُمت مسلمہ کی تیسری کمزوری اس کا عسکری میدان میں اپنے دشمن کی امداد پر انحصار کرنا ہے۔ بلاشبہہ جدید ٹکنالوجی غیرمعمولی طور پر مہنگی ہے لیکن جب تک اُمت مسلمہ عسکری میدان میں اپنے وسائل پر بھروسا نہیں کرے گی، وہ سامراجی طاقتوں کی محتاج و محکوم رہے گی۔ آج مسلم ممالک کے بارے میں مطبوعہ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ اگر کسی بنا پر وہ جنگ کرنے پر مجبور ہوجائیں تو دس بارہ دن سے زیادہ کا اسلحہ ان کے پاس نہیں ہے۔ جنگی اسلحے کے پرزے عموماً مغربی ممالک سے حاصل کیے جاتے ہیں اور ان کے حصول کے بغیر جدید آلاتِ حرب کام نہیں کرسکتے۔ عسکری طاقت ہونے کے باوجود غیروں پر اس طرح کا انحصار اُمت کی عسکری طاقت اور ایٹمی قوت ہونے کی حیثیت کو ختم یا معطل کردیتا ہے۔ اس کمزوری کو دُور کیے بغیرترقی کا سفر ناہموار ہی رہے گا۔
۴- حکمرانوں کی ذھنی غلامی: چوتھی اور ایک اہم کمزوری اُمت مسلمہ میں برسرِاقتدار طبقے کی ذہنی، فکری اور روحانی غلامی ہے۔ فرماں روا طبقات نہ صرف فکری طور پر مغربی طاقتوں اور مغربی فکر کی برتری پر ایمان بالغیب لاچکے ہیں بلکہ ان کے خیال میں جو ان کی روش سے اختلاف کرتا ہے، وہ اس دنیا کا باشندہ نہیں ہے اور نہ اسے اس دنیا میں رہنا چاہیے۔ ان کی یہ غلامی محض فکر اور نظام کی حد تک نہیں ہے بلکہ وہ مغرب کے تصورِ مذہب اور روحانیت پر بھی ایمان لاکر اس کی تصدیق اپنے عمل سے کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ مخصوص دنوں میں بعض تہوار منانے اور عیدین یا جمعے کے موقع پر دو رکعتیں ادا کرنے کے بعدوہ سمجھتے ہیں کہ بے چارہ اسلام آزاد ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کا دائرۂ کار مسجد ہے۔ حتیٰ کہ مسجد سے وابستہ مدرسہ کو بھی مغربی خواہش اور حکم کی تعمیل میں لادین بنانا (سیکولرائز) کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہاں سے بھی پریشان خیال افراد نکلیں اور اس طرح نہ سرکاری تعلیم کے ذریعے اور نہ دینی تعلیم کے واسطے سے، باہمت، باوقار، خوددار اور ایمان دار افرادی قوت پیدا ہوسکے۔
یہ ذہنی غلامی محض سیاسی وفاداری تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ فکر کے ہر ہرشعبے میں پائی جاتی ہے چاہے وہ معیشت ہو، معاشرت و ثقافت ہو یا تعلیم اور ابلاغِ عامہ۔ ہرشعبۂ حیات میں جب تک مغرب کی مکمل نقالی نہ کرلی جائے، ان کے خیال میں ترقی نہیں ہوسکتی۔ ترقی دراصل مکمل نقالی کے مترادف سمجھ لی گئی ہے۔ چنانچہ جب تک (ممالکِ اسلامیہ کی) ایک نیوزکاسٹر خاتون، بی بی سی یا سی این این کی نیوزکاسٹر کے سے چہرے، بال، لباس اور آواز کے ساتھ ایک نوپاکستانی برطانوی یا امریکی نژاد کے سے لہجے میں خبریں نہ پڑھے انھیں تسکین نہیں ہوتی۔
اس ذہنی و فکری اور روحانی غلامی سے نجات اور اپنی اقدارِ حیات،اپنی ثقافت اور اپنی فکر کا احیا کیے بغیر اُمت مسلمہ ایک انچ بھی ترقی نہیں کرسکتی۔ اس کمزوری سے آگاہی اور اس کا سدباب اور اس کے اثرات کو جڑ بنیاد سے اکھاڑے بغیر نجات ناممکن ہے۔
۵- مفاد پرست طبقے کا تسلط: اُمت مسلمہ کی پانچویں کمزوری نااہل اور مفادپرست سیاسی شاطروں کا اس پر بالجبر تسلط ہے۔ اسلام کے سیاسی نظام کی بنیادی خصوصیت اس کا انتخابی، شورائی، اہلیت کی بنیاد پر آزادیِ راے کے ساتھ عوامی انتخاب کے ذریعے امانت دار، تفقہ فی الدین رکھنے والے، متقی افراد کا انتخاب ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اُمت مسلمہ کے کسی ایک ملک میں بھی، الا ماشاء اللہ، قیادت ایسے افراد کے ہاتھوں میں نہیں ہے جو اسلامی اصولوں پر پورے اترتے ہوں، (ترکی اور ایران ایسی مثالیں ہیں جہاں ایک حد تک بے لوث اور ملک کی خیرخواہ قیادت پائی جاتی ہے)۔
اس کمزوری کا بڑا سبب خود ہمارے عوام کی بے خبری، جہالت، سادہ لوحی یا بے حسی، مفاد پرستی، اور نااہل افراد کو ووٹ دے کر، یا کسی اور طریقے سے اس عمل میں حصہ بن کر اقتدار حاصل کرنے دینا ہے۔ بلاشبہہ ووٹ کے لیے دولت اور دھوکے کا استعمال ایک حرام ذریعہ ہے اور اقتدار کے طالب عناصر اس جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں لیکن عوام بھی بری الذمہ نہیں۔ اس لیے کہ اس حرام ذریعے سے جو لوگ برسرِاقتدار آئے ہیں آخر عوام نے ان کو دولت کے عوض ووٹ دیا ہے، دھاندلی میں برابر کی شرکت کی ہے، یا وقتی مفادات اور تعلقات کی وجہ سے ووٹ کی اپنی قوت کو غلط استعمال کیا ہے اور نتیجتاً اپنے اُوپر جان بوجھ کر فقروفاقہ، ذلت اور محکومی کو مسلط کیا ہے، بلاشبہہ بڑے ملزم تو سیاسی شاطر ہی ہیں مگر سو فی صد انھی کو موردِ الزام نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔
ایک طویل صبرآزما عمل کے ذریعے اس کمزوری کو دُور کرنا ہوگا اور ووٹ کی قوت کو چند سکّوں کے عوض فروخت کرنے کے کلچر کو تبدیل کرنے کے بعد ایسے افراد کو قیادت میں لانا ہوگا جو اللہ کا خوف رکھتے ہوں، بکائو مال نہ ہوں،جنھیں اُمت کا مفاد عزیز ہو، جو صلاحیت رکھتے ہوں، جو امین ہوں، جن کا کردار ماضی کی مالی، اخلاقی اور سیاسی بے ضابطگیوں اور جرائم سے پاک ہو۔ ہرکمزوری دُور کی جاسکتی ہے لیکن اسے دُور کرنے کے لیے عزم کے ساتھ ساتھ قربانی اور مسلسل جدوجہد بھی ناگزیر ہے۔
۶- تعلیمی انحطاط: اُمت کی چھٹی کمزوری اس کا تعلیمی اضمحلال ہے۔ دنیا کے ممالک کا جائزہ لیا جائے تو تعلیم کے میدان میں اُمت مسلمہ بہت پیچھے نظر آتی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کو ایک طرف رکھتے ہوئے حقیقت ِ واقعہ یہ ہے کہ نہ صرف اعلیٰ تعلیم بلکہ بنیادی تعلیم میں بھی اُمت مسلمہ تمام اقوامِ عالم سے پیچھے ہے۔ اس کمزوری کو فوری طور پر دُور کرنے کی ضرورت ہے اور حل بہت آسان ہے۔ کُل قومی پیداوار کا ۷ یا ۸ فی صد اگر تعلیم کے لیے مختص کردیا جائے، اسے ایمان داری سے استعمال کیا جائے تو دس سال میں اُمت مسلمہ تعلیم کے میدان میں دنیا کی قیادت کرسکتی ہے۔
اس تعلیمی پس ماندگی میں بڑا دخل یکساں تعلیمی نظام کا نہ ہونا بھی ہے۔ اس وقت کئی متوازی نظامِ تعلیم مسلم دنیا میں چل رہے ہیں۔ خود پاکستان میں کم از کم تین نظامِ تعلیم ہر گلی میں رائج ہیں۔ ایک طرف سرکاری تعلیم کا نظام ہے جو ناکافی ہے، ناقص ہے، اور ملک و قوم کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کی اہلیت سے عاری ہے۔ دوسری طرف روایتی مذہبی تعلیمی نظام ہے جو غریب طبقہ کی کچھ ضرورتیں اور معاشرے کی روایتی مذہبی خدمات کے لیے مردان کار جیسے تیسے تیار کردیتا ہے مگر ملک و قوم کی ہمہ جہتی ضروریات کی فراہمی اور اُمت کو نئی قیادت فراہم کرنے میں بے بس اور ناکام ہے۔
ایک تیسری مصیبت وہ نجی تعلیمی نظام ہے جس کے تحت بیرونی تعلیمی ادارے ایک ایسی نئی نسل تیار کر رہے ہیں جس کی سوچ اور کردار اُمت کے جذبات و عزائم کی آئینہ دار نہیں اور جس کے نتیجے میں معاشرے کی قیادت اور زندگی کے مختلف شعبوں میں زمامِ کار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آرہی ہے جو مغربی تہذیب کے گماشتے ہیں۔ اس پورے نظام میں اسلامی شخصیت اور اسلامی تہذیب و ثقافت کا رنگ غائب ہے۔یہ ایک ایسی کمزوری ہے جسے دور کیے بغیر اور صحیح اسلامی نظام کو نافذ کیے بغیر اُمت مسلمہ ترقی کا سفر طے نہیں کرسکتی۔
۷- اداراتی زوال: اُمت مسلمہ کی ساتویں کمزوری اس کا ادارتی زوال ہے۔ ہمارے وہ ادارے جو پندرہ سو سال سے اُمت مسلمہ کے وجود کو برقرار رکھنے اور اسے آگے سفر کرنے میں آسانی فراہم کرتے رہے ہیں، ہم نے ان میں سے ہر ایک کو یکے بعد دیگرے کمزور کرنے کے بعد معاشرہ بدر کردیا۔ قانون، قضا اور ریاست تو سب سے پہلے نشانہ بنائے گئے لیکن بات وہاں رُکی نہیں۔ سول سوسائٹی کے دوسرے اداروں کی حالت بھی دگرگوں ہے۔ وہ ادارہ اوقاف کا ہو یا مدرسہ کا، جو ریاست کی ذمہ داریوں کے ساتھ عوامی بہبود اور فلاح کے کاموں میں اپنا کردار ادا کرتا تھا یا خاندان کا ادارہ ہو، ہم نے کسی کو بھی تحفظ دینے میں دل چسپی نہیں لی۔ آج خاندان جس طرح منتشر ہو رہا ہے اور خواتین کے حقوق کے نام پر جس طرح اسلامی تعلیمات کے بجاے مغربی تصورات کو اپناتا جا رہا ہے، وہ اداروں کے زوال کی واضح مثال ہے۔ ہم نے حسبہ اور عدلیہ کے ادارے کو اپنے معاشرے سے بے دخل کردیا اور اس طرح ہراخلاقی قید سے آزاد ہوکر بے راہ روی کا شکار ہوگئے۔ مسجد کا ادارہ ہو یا شوریٰ،قضا اور فقہ کا ادارہ، ہرہراسلامی ادارے کو نظرانداز کرتے ہوئے ہم سول سوسائٹی کے نام پر ایک مغرب زدہ سیکولر معاشرے کی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کمزوری کو دُور کیے بغیر ترقی کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔
ان ۷ نمایاں کمزوریوں کے علاوہ اور بہت سے پہلو ایسے ہیں جن پر بات کرنے کی ضرورت ہے لیکن فی الوقت ہم صرف متذکرہ بالا نکات ہی پر اکتفا کرتے ہوئے یہ دیکھتے ہیں کہ قوتوں اور کمزوریوں کے بعد وہ مواقع کون سے ہیں جن کے صحیح استعمال سے اُمت مسلمہ عالمی طور پر ایک تعمیری کردار ادا کرسکتی ہے۔
۱- عالمی معاشی منظرنامہ: مواقع کے سلسلے میں سرفہرست عالمی معاشی منظرنامہ ہے۔ آج دنیا جس معاشی اور مالی انتشار کا شکار ہے اُس نے سرمایہ دارانہ نظام کے کھوکھلے ہونے اور اس کے دعووں کے باطل ہونے کو بزبانِ خود ثابت کردیا ہے۔ سود کی بنیاد پر کاروبار کرنے والے بنک بھی اسلامی بنک کاری اور اسلامی فنانس کو مجبوراً تسلیم کرتے ہوئے اپنے اداروں میں ’اسلامی کھڑکیاں‘ کھولنے پر آمادہ ہیں۔ مسلمان اہلِ علم و دانش کے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ اسلامی نظامِ معیشت کو بطور ایک قابلِ عمل متبادل کے مسلم دنیا میں متعارف کرائیں اور اس کے لیے ایک مہم کے ذریعے فضا کو ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ مسلم کاروباری افراد کے تعاون سے ایسے ادارے قائم کریں جو سودی لعنت سے نجات اور اسلام کے عادلانہ معاشی اصولوں کو عملاً نافذ کرکے دنیا کے سامنے ایک عملی مثال پیش کریں۔ اگر معروف معاشی اصول یعنی طلب (demand) میں کوئی صداقت ہے تو آج سرمایہ دارانہ نظام کی منڈیاں بھی اس تلاش میں ہیں کہ کس طرح ایک نئے معاشی نظام کے ذریعے اپنا تحفظ کرسکیں۔ اُمت مسلمہ کے لیے یہ قیمتی موقع ہے کہ وہ خود اپنے گھر میں اصلاح کر کے اپنے عمل کو دوسروں کے لیے رہنما بناکر پیش کرسکے۔
۲- ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی: ٹکنالوجی کی ترقی کی بنا پر اُمت مسلمہ اپنے علمی اور عملی وسائل کو نیٹ ورکنگ (net working) کے ذریعے یک جا کرکے ایسے بہت سے کام کرسکتی ہے جو تنہا کسی ایک ملک کے لیے ممکن نہیں ہوسکتے۔ آج بڑی سے بڑی تحقیق اور ایجادات کے لیے جو وسائل درکار ہیں وہ چاہے انفرادی طور پر سب کے پاس موجود نہ ہوں لیکن نیٹ ورکنگ کے ذریعے اس مقصد کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس موقع کو ضائع کرنا اُمت مسلمہ کے ساتھ بے وفائی ہے۔
۳- ذرائع ابلاغ کے دُور رس اثرات: تیسرا اہم پہلو مواقع کے لحاظ سے دورِ حاضر میں جدید ذرائع ابلاغ کا غیرمعمولی اسٹرے ٹیجک اہمیت حاصل کرلینا ہے جس کی بنا پر اُمت مسلمہ جب چاہے چند لمحات میں دنیا کے کروڑوں افراد تک اپنا پیغام، اپنی دعوت اور فکر پہنچاسکتی ہے۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب اُمت ابلاغ عامہ کی طاقت اور مناہج سے آگاہ ہونے کے ساتھ انسانی وسائل کو تربیت دے کر فنی مہارت کے ساتھ اپنی دعوت و پیغام کو دل چسپ انداز میں پیش کرسکے۔ ’اسلامی ٹی وی‘ کے نام پر لمبے لمبے خطابات، مناظرے اور جھاڑ پھونک کے عمل اور فوری استخاروں سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ تحریکاتِ اسلامی کے لیے خصوصاً یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ اپنی تمام نیک خواہشوں کے باوجود اور اپنے قائدین کی بعض تقاریر کی سی ڈی پیش کرنے کے علاوہ کیا وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہیں؟ کیا شخصیات کو پیش کرنا ہی دعوت ہے؟ یا دعوتی مقاصد کے پیش نظر انسانی قوت کی تیاری اور اس کا صحیح استعمال وقت کا تقاضا ہے۔ ابلاغِ عامہ اس صدی کا ایک انتہائی اہم شعبہ ہے۔ اس کا فنی طور پر فہم اور پھر اس کا ایک حکمت عملی کے ذریعے مہارت کے ساتھ استعمال حالات میں انقلاب برپا کرسکتا ہے۔
۴- نوجوان اور افرادی قوت: اُمت مسلمہ کو دستیاب مواقع میں اس کی افرادی قوت کو اہم مقام حاصل ہے جس کی اکثریت نوجوانوں پر مبنی ہے۔ ان نوجوانوں کو ان کی زبان میں اسلام کی دعوت سمجھانے اور قوت کے اس سرچشمہ کا تعمیری استعمال کرنے سے تحریکاتِ اسلامی کو غیرمعمولی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ یہ نوجوان نہ صرف سیاسی، بلکہ معاشی اور معاشرتی میدانوں میں اہم اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تحریکِ اسلامی کے انسانی وسائل کا تنقیدی جائزہ لے کر یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مستقبل کے مطالبوں کے پیش نظر کیا وہ قیادت جو ۵۰سال کی عمر سے تجاوز کرچکی ہو، واقعتا آیندہ ۲۰ سال کے لیے ایک قوتِ محرکہ (motivating force) ہوسکتی ہے یا اسے ہرہرسطح پر ایسے افراد کو آگے لانا ہوگا جو نہ صرف فکروفہم کے لحاظ سے بلکہ اپنی قوتِ کار کی بنا پر معاشرے میں قائدانہ کردار ادا کرسکیں۔ افرادی سرمایے کی صحیح نشوونما، اس کی صحیح تربیت اور اس کا صحیح استعمال ہی مستقبل میں کامیابی کی کلید ہے۔ جو تحریکات ان زمینی حقائق کو اپنی سادہ لوحی کی بنا پر نظرانداز کریں گی، وہ اپنی نیک خواہشات کے باوجود اپنے اہداف کے حصول میں پیچھے رہیں گی اور جو اس کا صحیح استعمال کریں گی وہ بادِ مخالف کے باوجود کامیابی کے سفر میں آگے بڑھتی جائیں گی۔
۵- ایٹمی استعداد: عالمی تناظر میں اُمت مسلمہ کے لیے اپنی نیوکلیر صلاحیت کا صحیح استعمال بھی ایک اہم موقعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان اور ایران کے ساتھ ساتھ اس عمل میں ترکی کو بھی شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہاں کے سائنس دانوں کے تعاون سے نیوکلیر قوت کے پُرامن اور عسکری استعمال کے نئے نئے محاذوں پر اُمت مسلمہ آگے بڑھ سکے اور یک قطبی طاقت یایورپی یونین کے دبائو سے اپنے آپ کو آزاد کرسکے۔ اس سلسلے میں بعض غیرمسلم ممالک سے بھی تعاون پر غور کرنے کی ضرورت ہے خصوصاً چین جو اس خطہ میں ایک اہم مرکز قوت ہے، اُس کے ساتھ تعاون کی راہوں پر غور ہونا چاہیے۔
دنیا کے تیل اور گیس کے ذخائر کا نصف سے زیادہ اُمت مسلمہ کے ہاتھوں میں ہے۔ صرف اس ایک قدرتی وسیلے کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی پوری مسلم اُمت کی معاشی ترقی کے لیے کافی ہے لیکن یہ وسائل اُمت کی ترقی کے بجاے، مغربی اقوام اور مغربی مالیاتی نظام کی چاکری میں لگے ہوئے ہیں۔ فقط اسی ایک وسیلے کے صحیح استعمال سے مسلم دنیا کا نقشہ بدلا جاسکتا ہے اور عالمی سطح پر اُمت کے کردار کو ایک نیا آہنگ دیا جاسکتا ہے۔
اس مختصر جائزے کا اگلا حصہ اختصار کے ساتھ ان اندرونی اور بیرونی خدشات و خطرات پر ایک نظر ڈالنا بھی ہے جو نہ صرف دعوتِ مقابلہ دیتے ہیں بلکہ ایسے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں جن کا مناسب اور صحیح استعمال اُمت مسلمہ کے مستقبل کی تعمیر میںاہمیت کا حامل ہے۔ اس سلسلے میں اندرونی طور پر جو خدشات و خطرات پائے جاتے ہیں ان میں اولاً وہ فکری چیلنج ہے جسے ہم صرف ایک اصطلاح یعنی فہم دین کی لغزش سے تعبیر کرسکتے ہیں، جو صدیوں کے دورِ غلامی اور سیاسی آزادی کے بعد بھی ماضی کی روایت سے وابستگی کے نتیجے میں ہمارے حلقوں میں پائی جاتی ہے۔
۱- دین دنیا کی تفریق: اس میں اولاً ذہنی طور پر دین اور دنیا کی تفریق کا تصور ہے جو ہماری سرگرمیوں اور معمولات کو دو اقسام میں بانٹ دیتا ہے اور ان میں سے ہر ایک اپنے دائرۂ کار میں بڑی حد تک آزادی کے ساتھ مصروفِ عمل ہوجاتا ہے۔ ’دین‘ کا دائرہ عملاً مذہب بن جاتا ہے اور عبادات اور چند رسومات ادا کرنے کے بعد ایک شخص حتیٰ کہ ایسے افراد بھی جو فکری طور پر خود کوتحریکِ اسلامی سے وابستہ سمجھتے ہوں ’دنیا‘ کے پیش نظر شادی بیاہ کی تقریبات ہوں یا دیگر معاشرتی معاملات، ان میں جو کچھ ’دنیاداری‘ کے تقاضے ہیں، وہ پورے کرتے ہیں اور ساتھ میں نماز روزے کی پابندی کے ذریعے اپنے خیال میں دونوں کے مطالبات کو پورا کرلیتے ہیں۔
اس میں مزید غور کیا جائے تو ایک واضح تفریق ذاتی اور معاشرتی مطالبات کی پائی جاتی ہے۔ ایک شخص ذاتی طور پر ممکن ہے کہ نہ صرف عبادات پر عامل ہو بلکہ اپنی بیوی کے ساتھ بھلے انداز میں پیش آتا ہو لیکن معاشرتی معاملات میں جب اسے اپنی بیٹی یا بیٹے کے لیے رشتہ درکار ہوتا ہے تواس کی ذاتی عبادات اور تحریکیت ان معاملات پر کوئی بڑا اثر نہیں ڈالتی اور وہ معاشرتی رواجوں کا غلام بن کر اور ان پر عمل کرکے بہت خوش ہوتا ہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی اپنی بیٹی تو جس گھر میں جائے، وہاں اپنے شوہر کے ساتھ آزادانہ طور پر رہے لیکن جو لڑکی اس کے گھر میں آئے، وہ سارے گھر کی ’خادمہ‘ بن کر رہے اور اپنے ساتھ وہ سب سازوسامان لے کر آئے جس کے خلاف وہ عوامی سطح پر خطابات کرتا رہا ہے۔ یہ تفریق اور دوعملی ایک مرض ہے اور اس کا جتنا جلد سدباب ہوسکے ،اتنا ہی اُمت مسلمہ کے لیے مفید ہوگا۔
اُمت کو ایک اور تفریق کا بھی سامنا ہے جس کا تعلق معاشی معاملات سے ہے۔ وہ افراد بھی جو اپنی عبادات اور ’مذہبی‘ معاملات میں قرآن و سنت کی پیروی کا اہتمام کرتے ہیں، جب تجارت اور لین دین کا معاملہ ہوتا ہے، عملاً غیر ذمہ داری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ عموماً شراکت کے کام مالی بدمعاملگی کے سبب غیرعادلانہ نتائج تک پہنچ جاتے ہیں اور وہی شخص جو ذاتی طور پر بہت دین دار تھا، اجتماعی تجارت و شراکت میں غیرذمہ دار ثابت ہوتا ہے۔ یہ اندرونی مرض اُمت کی معاشی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ قرآن نے جو ہدایات تجارت و شراکت کے بارے میں دی ہیں، انھیں سمجھ کر اور مکمل طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس تفریقی عمل کو آگے بڑھایا جائے تو یہ تفریق سیاست، ثقافت اور مسالک میں بھی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ ایک بظاہر مذہبی فرد سیاست میں ایسے افراد کے ساتھ اتحاد کرنے میں کوئی تکلف محسوس نہیں کرتا جو اپنے کردار و عمل کے لیے دھوکا،دھاندلی اور بدکرداری کے لیے معروف ہوں۔ ایسے تمام مواقع پر اپنے عمل کو یہ کہہ کر پاک صاف کرلیا جاتا ہے کہ سیاست میں تو یہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہی معاملہ ثقافت کے بارے میں پایا جاتا ہے۔ اسلام کے تمام دعووں کے باوجود ایسی تقریبات میں شرکت اور ان کا انعقاد جو اسلامی اصولوں کے منافی ہوں، اس تفریق کا ثبوت ہیں۔
دین و دنیا میں تفریق کے تصور کے نتیجے میں نہ صرف بیرونی سامراج کے دورِ غلامی میں بلکہ سیاسی آزادی کے بعد بھی اُمت میں ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی پائی جاتی ہے جو سیاست میں حصہ لینے کو دین کے منافی سمجھتے ہیں اور اس طرح سیاسی معاملات کو ان افراد کے حوالے کرنے میں کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتے جو اسلامی نظامِ حیات کے قیام اور ملک میں اللہ کی حاکمیت کے قیام کی کھلم کھلا مخالفت کرتے ہیں۔ اس کا بنیادی مفروضہ یہ ہوتا ہے کہ چونکہ ’جمہوریت‘ ایک غیر اسلامی تصور ہے اس لیے جمہوری اداروں سے عدمِ تعلق اور انھیں لادین افراد کے حوالے کر دینا ہی مدعاے شریعت ہے، اُمت کا ایک باشعور طبقہ اس کے برعکس یہ سمجھتا ہے کہ جمہوریت کو وقتی طور پر وسیلہ بناکر افرادی قوت کے ذریعے بتدریج اسلامی نظام کو نافذ کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے مکمل اسلامی نظام کے قیام کا ہدف سامنے رکھتے ہوئے ضرورت کی حد تک جمہوری سیاسی عمل میں شرکت دین کے مقاصد کے منافی نہیں ہے۔
بظاہر اسلام دوستی رکھنے کے باوجود اس اندرونی تقسیم کا تمام تر فائدہ سیکولر اور اسلام دشمن قوتوں کو پہنچتا ہے اور ملکی عوام کی اکثریت کے اسلام سے وابستگی کے باوجود اس تقسیم کی بنا پر وہ انتخابات میں اسلام پسندوں پر سبقت لے جاتے ہیں اس خطرے کا حل خود اسلام پسند افراد کو نکالنا ہوگا۔
۲- احساس لاچاری وضعف: ایک متعدی اور مہلک مرض جو اُمت مسلمہ نے اپنے اُوپر نفسیاتی طور پر طاری کرلیا ہے، وہ اس کا احساسِ لاچاری اور ضعف ہے۔ قیادت پر فائز افراد ہوں یا عام انسان، یہی بات کہتا ہے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں؟ جب تک ’چچا سام‘ اجازت نہیں دے گا فلاں کام کیسے ہوگا۔ یا یہ بات بار بار کہی جاتی ہے کہ پاکستان یا مصر یا ترکی میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صہیونی سازش ہے اور اس میں ہم کیا کرسکتے ہیں۔ نتیجتاً ایک احساسِ لاچاری، بے بسی اور سپردگی اُمت کی نفسیات پر مسلط ہے۔ گویا دراصل دشمن کا جو اصل مقصد تھا یعنی اُمت مسلمہ کو مسحور کردینا وہ اسے حاصل ہوجاتا ہے اور اُمت کے قائدین خود زور شور سے ’غیرملی یا صہیونی و امریکی سازشوں‘ کی تصدیق کر کے اپنے آپ کو بے بسی، ضعف اور لاچاری کی کیفیت میں مبتلا کرلیتے ہیں۔ اس احساسِ شکست اور پسپائی سے نکلے بغیر اُمت مسلمہ آگے نہیں بڑھ سکتی۔
۳- فکری یلغار: ان چند اندرونی خطرات کے ساتھ بعض بیرونی خطرات بھی غور طلب ہیں۔ ان میں سب سے اول وہ فکری یلغار ہے جو ایک طویل عرصہ سے اُمت مسلمہ پر اثرانداز ہوتی رہی ہے اور اس وقت اپنے عروج پر ہے۔ اس فکری یلغار کے لیے جو حربہ استعمال کیا گیا، وہ تعلیم کا بھی ہے اور ابلاغِ عامہ کا ہے۔ دونوں کا مشترک نکتہ یہ ہے کہ مغرب کی ترقی کا راز مذہب سے آزادی اور مادی، تجرباتی، سیکولر علم کی بنیاد پر فکر کی تدوین و تعمیر ہے، اس لیے مسلم دنیا کو بھی ترقی کے حصول کے لیے سیکولرازم کا راستہ اختیار کرنا ہوگا، چنانچہ اس غرض کے لیے نصاب میں تبدیلی، ایسی کتب کا لکھا جانا جو ایک سیکولر ذہن پیدا کریں، اسلامیات کو دس مختصر قرآنی سورتوں اور دس احادیث کے سرسری طور پر پڑھنے تک محدود کردینا اور ابلاغ عامہ خصوصاً برقی ابلاغ عامہ میں مذہب کا مذاق یا اسے تضادات اور انتشار اور الجھائو پیدا کرنے والا دکھانا یہاں تک کہ ایک دیکھنے والا یہ کہنے پر آمادہ ہوجائے کہ واقعی مذہب مسائل کا گھر ہے، اور اس سے نجات حاصل کیے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے۔ یہ وہ فتنہ ہے جو آیا تو باہر سے ہے لیکن اب یہ مقامی طور پر قدم جما رہا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک واضح اور جامع حکمت کی ضرورت ہے۔
۴- ثقافتی یلغار: دوسرا بڑا بیرونی خطرہ ثقافتی یلغار ہے جس کے تحت اُمت مسلمہ کی اپنی اقدارِ حیات، اخلاقی اصولوں اور ان کی روشنی میں زبان، لباس، طعام اور تفریح ہرچیز کو نشانہ بناتے ہوئے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ اُمت مسلمہ مغربی اور ہندوانہ ثقافت کی بصری اور سمعی طور پر عادی ہوجائے۔ آج عرب دنیا خصوصاً خلیج کے علاقے میں لباس ہو، کھاناہو، گانا ہو، یا فلم، ہندو ثقافت مغربی ثقافت کے دوش بدوش اپنے اثرات گہرے کررہی ہے۔
پاکستان میں اکثر نجی ٹی وی چینل مغربی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ہندوانہ ثقافت کو پاکستان میں رائج کرنے میں مصروفِ عمل ہیں اور مسلسل یہ بات باور کرانا چاہتے ہیں کہ پاکستانی اور بھارتی ثقافت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس سے زیادہ غلط بیانی شاید ہی کوئی ہو لیکن اسے سچ بناکر پیش کیا جا رہا ہے۔ ۹۰ فی صد کھانے پکانے کے پروگرام ان کھانوں کی ترکیب بتاتے ہیں جن کا نام بھی ایک عام پاکستانی شہری نے نہ سنا ہو اور تھائی لینڈ، چین اور امریکا میں مرغوب کھانے سمجھے جاتے ہیں لیکن جو ایک عام شہری خواب میں بھی نہ پکا سکتا ہے نہ کھا سکتا ہے۔ یہی شکل لباس کی ہے کہ فیشن شو کے نام پر ہر وہ لباس جو حیا کو تار تار کرنے والا ہو بہت پُرکشش انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ثقافتی یلغار محض استغفار پڑھنے اور بددعا کرنے سے نہیں رُکے گی، اس کے لیے متبادل ثقافتی مہم اور عوامی سطح پر راے عامہ کی تیاری کی ضرورت ہے۔
۵- معاشی یلغار: تیسرا اہم بیرونی خطرہ وہ معاشی یلغار ہے جس میں اُمت مسلمہ کی قیادت کو خصوصاً یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ ترقی کا راستہ صرف اور صرف ورلڈبنک اور آئی ایم ایف سے ہوکر گزرتا ہے۔ اگر اُمت مسلمہ نے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کیا تو وہ تباہ ہوجائے گی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ورلڈبنک ہو یا آئی ایم ایف، دونوں کے زیراثر آنے والے کسی ملک نے آج تک خودانحصاری کا مزہ نہیں چکھا۔
اس کے اثرات دینی حلقوں میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں اور بعض حضرات اپنی سادہ لوحی یا گروہی عصبیت کے زیراثر اسلامی بنکاری اور تجارت و تکافل کے اداروں پر یہ کہہ کر تنقید کر رہے ہیں کہ ان میں اور سودی اداروں میں محض نام کا فرق ہے۔ گویا عوام الناس کے لیے بہتر ہے کہ سودی نظام ہی میں پھنسے رہیں اور ان اداروں کی طرف نہ جائیں۔ اس سادہ لوحی کی اصلاح کی فوری ضرورت ہے تاکہ جلد یا بہ دیر اسلامی معاشی ادارے سودی اداروں کے متبادل کے طور پر اپنے وجود کوتسلیم کراسکیں۔
۵- خواتین کو صاحبِ اختیار بنانے کا فتنہ: کچھ عرصہ سے ایک پانچواں خطرہ بلکہ فتنہ، خواتین کو بااختیار بنانے (empowerment) کے نام سے بیرونی اداروں کی طرف سے امت پر مسلط کیا جارہا ہے۔ اس امر کو ’حقوقِ انسانی‘ کے ساتھ منسلک کر کے یہ کہا جا رہا ہے کہ اب خواتین کو یکساں انسانی حقوق کی بنا پر فوج اور انتظامیہ میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملنا چاہیے تاکہ ملک ترقی کرسکے۔ مغرب اور خصوصاً امریکا اور یورپی ممالک اس مہم کی پشت پناہی میں سب سے آگے ہیں۔ ابھی حال ہی میں امریکی جریدے نیوزویک نے اپنی خصوصی اشاعت براے دسمبر ۲۰۰۸-فروری ۲۰۰۹ء میں ایک مضمون شائع کیا ہے جو مغرب کے اس منصوبے کو واضح اور واشگاف الفاظ میں پیش کرتا ہے:
مسلمانوں کے بارے میں امریکی پالیسی کامحرک صرف دہشت گردی کی مخالفت نہ ہو بلکہ حقوقِ انسانی کی عالمی تحریک کو اس کی تکمیل کرنا چاہیے۔ اس طرح ایک باہمی تعاون کی حکمت عملی تشکیل پاجائے جو یہ تسلیم کرے کہ عام مسلمان، خاص طور پر مسلمان خواتین، جہادی تحریکوں کا ہدف ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف لڑائی میں لازمی شریکِ کار ہیں۔ (ص ۴۳)
اس مقدمے کے بعد یہ حل پیش کیا جا رہا ہے کہ امریکی صدر خواتین کے انسانی حقوق کے بہانے انھیں معاشی دوڑ میں مرد سے آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرے۔
تجارت پیشہ مسلم خواتین اپنے اہلِ خاندان اور ہمسایوں سے آگے بڑھ کر وسیع تر حلقے میں خدمات انجام دے سکتی ہیں۔ کاروباری صلاحیت رکھنے والی مائیں اپنے بچوں کے لیے تجارت___ اور مستقبل کے منصوبوں___ کے لیے مواقع فراہم کرسکتی ہیں___ اس لیے مسلم خواتین کے لیے کم رقم کے قرضوں کی فراہمی، ایک ایسی خارجہ پالیسی کا جزو بن جائے گا جو دہشت گردی کے مخالف اقدامات اور انسانی حقوق میں توازن رکھتی ہو۔ (ص ۴۴)
اس حکمت عملی میں جو بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان عورت کی اولیں دل چسپی اور کارکردگی کا مرکز گھر اور خاندان نہ رہے اور وہ بجاے گھر کے مرد کو معاشی استحکام دینے کے، خود محنت کشی میں لگ جائے جس کا مقصد عورت کو معاشی خودمختاری فراہم کرنا ہے جس کے لیے اسے آسان شرط پر قرضہ دیا جائے۔ یہ تجربہ بنگلہ دیش میں گرامن بنک کرچکا ہے اور معاشی ماہرین نے اس کا جو تجزیہ کیا ہے وہ یہ بتاتا ہے کہ ان کم رقوم کے قرضوں (micro-credit) کے نتیجے میں بحیثیت مجموعی خواتین کو معاشی استحکام تو نہیں مل سکا البتہ وہ قرضوں کے بوجھ میں پہلے سے زیادہ دب گئیں۔ نتیجتاً گھریلو جھگڑے اور طلاق کی کثرت سے معاشرتی نظام شدت سے متاثر ہوا۔ رپورٹیں یہ بتاتی ہیں کہ آسان شرط پر قرضہ کی شرح سود ۳۰ فی صد ہونے کے سبب عموماً ایک خاتون کو قرضے کی ادایگی کے لیے کسی دوسری این جی او سے قرض لینا پڑا اور اس عمل میں مردوں کے ساتھ اختلاط کے نتیجے میںخاندانی نظام اور اس کے استحکام کو شدید جھٹکا لگا۔
اس جملہ معترضہ سے قطع نظر ’جنسی مساوات‘ کا مغربی تصور ایک ناسور بن کر اُمت مسلمہ کے جسم کو زخم آلود اور خون خون کر رہا ہے۔ اس کی بروقت اصلاح کی ضرورت ہے۔ اسلام جنسی مساوات کی جگہ عدل اور تمام اصناف میں حقوق و فرائض کی عادلانہ تقسیم کا قائل ہے۔ اس پہلو پر علمی اور عوامی سطح پر راے عامہ کو ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔
جن خطرات اور خدشات کا ذکر اختصار کے ساتھ کیا گیا ان میں سے اکثر اُمت مسلمہ کے لیے دعوتِ عمل اور چیلنج کی حیثیت بھی رکھتے ہیں لیکن گفتگو کو آگے بڑھانے سے قبل مناسب ہوگا کہ گذشتہ پانچ دہائیوں میں پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، مصر، ایران، سوڈان ، الجزائر ، ترکی اور خود یورپ و امریکا میں جس سُرعت کے ساتھ اسلامی فکروثقافت کا احیا ہوا ہے اور خصوصاً سید مودودی اور امام حسن البنا شہید کی برپا کردہ اسلامی تحریکات کے زیراثر نئی نسل نے اعتماد و یقین کے ساتھ اسلام کے مطالعہ اور اپنی زندگی میں اس کے نفاذ پر توجہ دی ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا جائے کہ آج اسلامی حرکات سے متاثر افراد زندگی کے ہر شعبے میں قائدانہ صلاحیت کے ساتھ سرگرمِ عمل ہیں۔ اسلامی مالی اداروں کا قیام، اسلامی تکافل کمپنیاں اور بنک، اسلامی جامعات میں معاشرتی اور طبی و دیگر علوم کی تدوین جدید کی کوششیں اور اس غرض سے اداروں کا قیام اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلامی معاشی، معاشرتی اور ثقافتی نظام اکیسویں صدی میں بھی قابلِ عمل ہے۔
اس عرصے میں اسلامی تحریکات نے تحریکاتِ حریت کی کھل کر حمایت کی ہے۔ لیکن مغرب اور مغرب زدہ افراد اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود تحریکاتِ اسلامی کو دہشت گردی میں ملوث ثابت نہیں کرسکے۔ امریکا اور برطانیہ میں تحقیقاتی اداروں نے پوری چھان بین کی لیکن ان تحریکات پر کوئی قابلِ اعتراض سرگرمی ثابت نہ کی جاسکی لیکن اس قسم کی کارروائیوں نے تحریکاتِ اسلامی کے فروغ کی رفتار کو متاثر کیا ہے اور یہ تحریکاتِ اسلامی کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
ان حالات میں جب کہ اُمت مسلمہ کے اندر غیرمعمولی قوی پہلو موجود ہیں، بعض کمزوریاں بھی ہیں اور ساتھ ہی مختلف خطرات و مطالبات کا سامنا بھی ہے، اہلِ دانش اور کارکنوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور وہ کس طرح ان حالات کو بہتر بنا سکتے ہیں؟ ایک تفصیل طلب موضوع ہے۔ اختصار کے پیشِ نظر سات نکات پر غور کیا جاسکتا ہے۔
۱- دین کا صحیح فھم: اوّلین کرنے کا کام دین کے صحیح فہم کا حصول ہے یعنی قرآن و سنت سے براہِ راست تعلق اور غوروفکر اور تفقہ کے بعد اسلام کے نظامِ حیات اور اس کے عملاً نافذ کرنے کے ذرائع و حکمت عملی کو براہِ راست قرآن و سنت سے اخذ کر کے نہ صرف خود سمجھنا بلکہ جدید ذرائع کے استعمال کے ذریعے انسانیت کو اس سے متعارف کرانا۔ یہ ایک صبرآزما اور طویل عمل ہے جو مغرب و مشرق میں پائی جانے والی مسلمانوں کی تصویر (image)کی اصلاح کے لیے ایک شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔
۲- مغربی فکر کا تنقیدی مطالعہ: دوسرا اہم کام مغربی فکر کا تنقیدی مطالعہ، جائزہ اور تجزیہ ہے تاکہ یہ بات سمجھی جاسکے کہ کیا مغربی فکر کی تقلید ہی ترقی کا زینہ ہے یا مغربی فکر خود اپنی ناکامی کی نشان دہی کرتی ہے اور ظاہر ہے جو خود گمراہ ہو وہ کسی اور کو کیا راستہ دکھائے گا۔ اس جائزے میں جذبات سے بلندہوکر معروضیت کے ساتھ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مغرب میںوہ کون سی خوبیاں ہیں جو اس کی ترقی کا راز ہیں اور وہ کون سی خامیاں ہیں جن سے ہوشیار ہونے اور دامن بچانے کی ضرورت ہے۔ مغرب کے ذہن اور فکر کو سمجھے بغیر ہم مغرب کو اسلام کی دعوت نہیں دے سکتے۔
۳- تحقیقی کلچر: تیسرا اہم کرنے کا کام پیشہ ورانہ تنظیموں اور اداروں میں تحقیقی کلچر کا پیدا کرنا ہے۔ وہ طبیبوں کی اسلامی تنظیم ہو یا انجینیروں اور علومِ عمرانی کے ماہرین کی، ہر خصوصی شعبے میں تحقیق کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ایسی فضا پیدا کرنا ہوگی کہ لوگ جدید ترین علوم میں مہارت کے ساتھ اسلامی اصولوں کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کرسکیں۔
۴- گہر کا محاذ: چوتھی اہم توجہ طلب چیز گھر کے محاذکا صحیح طور پر مرتب کرنا ہے۔ تہذیبوں کا ارتقا اور زوال براہِ راست گھروں کے تحفظ سے وابستہ ہے۔ اگر گھر میں انتشار ہوگا، تضاد ہوگا، یک جہتی نہ ہوگی تو تمام سائنسی ترقی کے باوجود تہذیب و تمدن پر زوال آکر رہے گا۔ اس لیے گھر کے ادارے کوصحیح اسلامی خطوط پر قائم رکھنے کے لیے غیرمعمولی اقدامات کی ضرورت ہوگی۔
۵- افراد کا تعمیر کردار: پانچویں اہم چیز اُمت مسلمہ میں افراد کار کی تعمیر و تربیت اور نئے خون کو شامل کرنے کے لیے ایک ایسی حکمت عملی وضع کرنی ہوگی جو اندرونی طور پر افراد سازی اور بیرونی طور پر اسلام اور مسلمانوں کے تصور کے لحاظ سے یکساں طور پر نتائج پیدا کرسکے۔ اس میں ایک انتہائی سادہ حکمت عملی اندرونی طور پر انسانی وسائل کی تیاری کے لیے یہ ہے کہ ہر وہ فرد جو تحریک سے وابستہ ہو وہ ایک ذاتی ہدف یہ بنائے کہ ۶ ماہ کے عرصے میں اپنے اردگرد سے تین ایسے افراد کو جو خواہ اسلام کا مذاق اڑاتے ہوں اور تحریکاتِ اسلامی پر تنقید ہی کرتے ہوں، منتخب کرکے ان سے روابط بڑھائے گا اور اس عرصے میں ان کی غلط فہمیاں دُور کرکے، اپنے طرزِعمل کی قوت سے انھیں مخالف نہ رہنے دے گا۔ اپنے اردگرد کے ایسے ہی تین افراد کو منتخب کر کے جو بظاہر نہ مخالف ہوں نہ مواقف، انھیں اپنی فکر کا ہمدرد بنا لے گا۔ اور اسی طرح اپنے اردگرد سے ۳افراد کا انتخاب کرکے جو بظاہر اس کی فکر سے ہمدردی رکھتے ہوں انھیں اپنے اندرونی حلقے میں شامل ہونے پر آمادہ کرلے گا۔ اس طرح ایک فرد ۶ ماہ میں ۹ افراد پر کام کر کے انسانی وسائل کی تعمیر میں لگ جائے گا۔ اُمت مسلمہ کو محض ایک فرد کی مخلصانہ جدوجہد سے ۹ گناقوت اور نیا سرچشمہ قوت (resource) میسر آسکے گا۔
۶- عالمی سطح پر افھام و تفھیم کے عمل کا آغاز: چھٹی چیز عالمی سطح پر بھی یہ ہدف طے کیا جائے کہ چند منتخب ممالک یا اداروں کو جو اسلام دشمن ہیں تبادلۂ خیال سے ان کی جانب داری کو ختم (neutralize) کیا جائے، تین ایسے ممالک یا اداروں کو جو دشمن نہ ہوں، دوست بنایا جائے اور کچھ ایسے ممالک یا اداروں کو جو ہمدردی رکھتے ہوں اپنے منصوبوں میں شامل کرکے ان سے استفادے اور مشترک کوششوں سے دونوں ممالک کے افراد میں قربت پیدا کی جائے۔
ظاہر ہے یہ کام اصلاً کو مسلمان حکومتوں کا ہے لیکن جس قسم کے افراد حکومتوں پر قابض اور مسلط ہیں ان سے اس کی امید کم ہی رکھی جاسکتی ہے۔ ان حالات میں مسلم NGO اداروں کا کردار بہت اہم ہوجاتا ہے جہاں جہاں فکری ادارے پائے جاتے ہیں، مثلاً انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلامک فائونڈیشن وغیرہ علمی سیمی نار، مکالمے، اہلِ علم کے دوروں اور معلومات کے تبادلے کے ذریعے ان ممالک کے اداروں کے ساتھ قریبی رابطے پید کرسکتے ہیں جو کھل کر اسلام دشمنی کا اظہار نہیں کرتے۔ عالمی تناظر میں ایسے ممالک کے علمی ادارے خود بھی چاہتے ہیں کہ مسلمانوں سے رابطے کے ذریعے ان کے مسائل کو سمجھیں۔ یہ صورت حال دعوتی اور اصلاحی عمل کے لیے بہت سازگار ماحول فراہم کررہی ہے اور اسلامی تحقیقی اداروں کو آگے بڑھ کر عوام اور دانش وروں کی سطح پر اسلام کے مثبت اور قرآن وسنت پر مبنی تصور کو بغیر کسی مداہنت کے پیش کر کے باہمی اعتماد کی فضا پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
۷- تبدیلیِ قیادت:ساتویں چیز ان تمام وسائل کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے ذریعے اجتماعی تبدیلی کے لیے استعمال کرنا ہے جس میں کلیدی کردار اجتماعی قیادت کی تبدیلی کا ہے جو انقلابِ نو کا پیامبر بن سکے۔ انقلابِ قیادت میں سرفہرست سیاسی قیادت کی تبدیلی اور اُمت کے وسائل کو اُمت اور انسانیت کی بھلائی کے لیے استعمال کرنے کی راہ پر ڈالنا ہے۔ تبدیلیِ قیادت کا یہ عمل صرف سیاسی قیادت تک محدود نہیں، یہ کہیں زیادہ وسیع اور ہمہ جہتی ہے۔ اس کے لیے فکری قیادت، معاشی قیادت، سماجی ادارے اور سول سوسائٹی کی قیادت، طلبہ اور مزدوروں کی قیادت، غرض زندگی کے ہرہرشعبے میں ایسے افراد کوقیادت کے مقام پر لانا ہے جو اپنے اپنے دائرے میں زندگی کا رخ اسلام اور اسلام پر مبنی حیاتِ نو کی طرف پھیر سکیں اور قوم کو اس منزل کی طرف آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
تبدیلیِ قیادت کی قرآنی اور نبوی حکمت عملی میں فرد، معاشرہ اور اداروں میں اصلاحی عمل کے ذریعے زمامِ اقتدار میں تبدیلی ایک معروف چیز ہے لیکن اس غرض کے لیے تحریکاتِ اسلامی کو ایسے ادارے قائم کرنے ہوںگے جو نوجوان قیادت کو قرآن و سنت کے جہنم کے ساتھ قائدانہ صلاحیت، ابلاغی طریقوں اور صورت حال کو قابو میں لانے کے ذریعے سے مکمل آگاہی اور عملی تجربہ رکھتے ہوں۔ تحریکِ اسلامی کی اصل دولت اس کی وہ افرادی قوت ہے جو متحرک، بالیقین اور باوقار ہوچکا ہے جس کا ہرعمل دوسروں کو دعوتِ عمل وفکر دینے والا ہو۔ جو پہلے سے موجود فکر کے استعمال کے ساتھ جدید مسائل کے حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور فکر کی نئی راہیں دکھانے پر قادر ہوں وہ فکر کو محض استعمال (consume) نہ کریں بلکہ فکر کو پیدا (produce) کریں۔
ان تمام سرگرمیوں کی بنیاد جس چیز پر ہے وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا احساس اور اس دنیا میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے دیے ہوئے دین پر عمل کے ذریعے نجاتِ اخروی ہے۔ اس لیے احتسابِ نفس اور خوفِ آخرت ہی وہ قوتِ محرکہ ہے جو اُمت مسلمہ کو دوبارہ اس کی کھوئی ہوئی عظمت دلا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت میں غیرمعمولی طور پر برکات، وسائل اور قوتیں رکھ دی ہیں، صرف انھیں جگانے، جلابخشنے اور میدانِ عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔ اللہ کی توفیق اور ہدایت اگر ساتھ ہے تو راہ کی ہرمشکل راحت بن جائے گی اور ہر رکاوٹ آسانی میں تبدیل ہوجائے گی،وما توفیقی الا باللّٰہ۔
۲۶نومبر سے ۲۹ نومبر تک ممبئی کے پانچ مقامات پر جو قتل عام ہوا، اس نے پوری دنیا کی توجہ ایک بار پھر دہشت گردی کے مسئلے پر مرتکز کردی ۔ بھارتی میڈیا نے اس موقعے کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ دہشت گردی کے اس واقعے میں تقریباً ۲۰۰بے گناہ لوگ قتل ہوئے ،جن میں صوبہ مہاراشٹر کے اینٹی ٹیررسکواڈ (ATS)کے سربراہ ہیمنت کراکرے بھی شامل ہیں۔ اس واقعے سے ایک ہفتہ قبل خود بھارت کے تحقیقاتی اداروں نے یہ انکشافِ (حقیقت) کر دیا تھا کہ بھارت میں ہونے والی دہشت گردی کے سنگین واقعات میں بھارت کی انتہاپسند ہندو تنظیمیں اور بھارتی فوج کے سینئر افسر ملوث ہیں۔
فی الحقیقت بھارت میں دہشت گردی کے متعدد واقعات (بشمول سمجھوتا ایکسپریس کے دھماکے اور مالیگائوں کے دھماکوں) کے پیچھے بھارتی انتہا پسند ہندوتنظیم بجرنگ دل کے ملوث ہونے کے واضح شواہد موجود ہیں۔ مگر ان تنظیموں کے بے پناہ اثر ورسوخ کی وجہ سے ان کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی ناممکن ہے اور جب بھی ان کی نشان دہی کی جاتی ہے تو ان کو بچانے کے لیے خفیہ ہاتھ سرگرم عمل ہوجاتے ہیں۔
ممبئی میں کارروائی کرنے والے آٹھ دس نوجوان انتہائی پختہ کار کمانڈو تھے ۔ ان کے بارے میں خود بھارت کے ماہرین کی رائے ہے کہ ان کی کارروائی جرأت و دلیری، پیشہ وارانہ مہارت اور اہداف کے حصول کے لحاظ سے بے مثال تھی۔ جن مقامات کو نشانہ بنایا گیا وہاں عموماً امریکا ،اسرائیل، برطانیہ اور یورپ کے دوسرے ممالک کے اہم ترین افراد ٹھیرتے ہیں۔ اس کارروائی کے ذریعے یورپ، امریکا اور اسرائیل کو بھارت کی پشت پر کھڑا کردیاگیاہے۔ یہ کارروائی ایک ایسے موقعے پر کی گئی کہ بھارت میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ انتہاپسند ہندوتنظیمیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی انتخابات جیتنے کے لیے عین اس موقعے پر اس طرح کی کارروائیاں کرنے میں مہارت رکھتی ہیں۔ صوبہ گجرات میں بڑے پیمانے پر مسلم کش فسادات کروانے کے بعد جو انتخابات ہوئے، ان میں مذکورہ پارٹی کو واضح اکثریت مل گئی ۔ ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کو منہدم کرنے کے بعد بھی جنتا پارٹی پورے ملک میں انتخابات جیت گئی تھی، تب سے اس پارٹی کو انتخابات میں کامیابی کی کلید مل گئی اور وہ یہ ہے کہ انتخابات کے موقعے پر مسلم دشمن اور پاکستان دشمن فضا پیدا کردی جائے ۔ اس طرح ووٹروں کی اکثریت کو اپنے حق میں ہموار کیا جاسکتا ہے۔
حکومت پاکستان کی طرف سے ممبئی کے واقعے پر افسوس کااظہار کرنے اور اس کی مذمت کرنے اور بھارتی حکمرانوں کے دھمکی آمیزلہجے کے جواب میں خوشامدانہ طرز عمل اختیار کرنے کے باوجود، بھارتی حکومت نے پاکستان کو ذمہ دار ٹھیرایا اور کچھ پاکستانی تنظیموں اور چند پاکستانی شہریوں کو نامزد بھی کردیا۔ ساتھ ہی پاکستان کے خلاف جنگ کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے عوام اور حکومت کو جنگ کا حقیقی خدشہ محسوس ہوا اور وزیراعظم نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے پوری قومی قیادت کو ایک مجلس مشاورت میں شرکت کی دعوت دی۔ سب ہی جماعتوں نے وزیراعظم ہائوس میں منعقدہ اس مشاورت میں شامل ہوکر قومی یک جہتی اور اتحاد کا بھرپور ثبوت دیا۔ اس مجلس میں شرکا کی اکثریت نے حکومت کو مشورہ دیا کہ سنگین خطرات کامقابلہ کرنے کے لیے حکومتی پالیسی میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
پاک افغان سرحد قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک ہماری ایک محفوظ سرحد رہی ہے جس پر ہمیں کبھی بھی کسی مشکل کا سامنا نہیں کرناپڑا۔ یہاں تک کہ ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی جنگوں میں افغانستان میں ظاہر شاہ کی حکومت کی طرف سے بھی، جو عموماً پختونستان کا ڈھنڈورا پیٹنے کی عادی تھی حکومت پاکستان کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ وہ اپنی مغربی سرحد سے بے فکر رہیں۔ اس کی بڑی وجہ خود قبائلی عوام اور افغان عوام کی اسلام دوستی تھی اور وہ پا ک بھارت جنگوں کے دوران پاکستان کے لیے کوئی مشکل پیدا کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ لیکن جب سے نیٹو کی افواج نے افغانستان پر قبضہ جمایا ہے انھوںنے بھارت کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ پاک افغان سرحد پر قونصل خانوں کے نام سے اپنے جاسوسی اور تخریب کاری کے مراکز قائم کرکے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں ریشہ دوانیوں کا جال پھیلا دے۔ پاکستان میں ہونے والے دھماکوں میں یہ بھارتی ایجنٹ ملوث ہوتے ہیں اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان دہشت گردی کو عدالتوں سے سزا ملنے کے باوجود حکومتِ پاکستان ان کی رہائی کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ کشمیرسنگھ پرویز مشرف دور میںرہا کیا گیا۔ اب سربجیت سنگھ کے لیے فضا ہموار کی جارہی ہے۔
پرویز مشرف کی یہ پالیسی کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے صف اول کے حلیف ہیںاور امریکا کواپنے اڈے استعمال کرنے ، اپنی فضا کو ان کے ہوائی جہازوں اور ان کے میزائلوں کے لیے کھولنے، انھیں رسد پہنچانے اوران کو اپنے خفیہ اور جاسوسی اداروں کی معلومات فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں، ملک و قوم کے مفاد کی بجاے امریکا کے مفاد میں تھی۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت بھی اسی پالیسی پر گامزن ہے ۔ اس پالیسی کے نتیجے میں حکومت نہ صرف افغانستان اور قبائلی علاقوں میں بلکہ اپنے ملک کے ہر حصے اور ہر طبقے میں میں عوام کی تائید سے محروم ہوگئی ہے۔
پاکستان جو روسی تسلط کے خلاف افغان عوام اور مجاہدین کا حلیف تھا طویل عرصے تک لاکھوں افغانوں کی پاکستان کی سرزمین پر موجودگی کے باوجود، داخلی طور پر بدامنی سے محفوظ رہا کیونکہ روس کے خلاف مجاہدین کی مدد کرنے میں پاکستان کے عوام حکومت کی تائید کررہے تھے ۔ لیکن جب روس کے بجاے امریکا اور نیٹو افغانستان پر قابض ہوگئے تو پاکستانی حکومت نے یوٹرن لیا اور مجاہدین اور افغان عوام کے خلاف امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ پالیسی افغان، پاکستانی اور قبائلی عوام کی دینی امنگوں کے خلاف ہے۔ افغان مجاہدین روس کے خلاف جو ایک طویل صبر آزماجنگ لڑرہے تھے اور پاکستانی عوام میں جو عناصر ان کے پشتیبان تھے، وہ افغانستان کو اسلام کا قلعہ سمجھتے تھے اور اس تاریخی آزاداسلامی خطے کو کمیونزم کے چنگل میں جانے سے بچا کر اس کو ایک مکمل اسلامی ریاست میں تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ ان کے لیے امریکی تسلط اسی طرح نامنظور ہے جس طرح روسی تسلط نامقبول تھا۔ لیکن پاکستانی حکومتوں نے کبھی عوامی اُمنگوں کا احترام نہیں کیا۔ اس لیے روسیوں کے نکلنے کے بعد یہ امریکا کے آلۂ کار بن گئے۔ یوں دشمن کو خود پاکستان کے اندر بدامنی پھیلانے کا موقع مل گیا ۔ اگر ہمارے حکمران امریکا کی مخالفت کی سکت نہیں رکھتے تو کم ازکم انھیں امریکا سے معذرت کرلینی چاہیے کہ افغانستان میں امریکی قبضہ برقرار رکھنے میں مدد دینے سے ہم قاصر ہیں کیونکہ یہ پالیسی ہمارے عوام کے لیے قابل قبول نہیںہے اور ہم اگر امریکا سے لڑنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں تو اپنے ملک کے عوام سے لڑنے اور انھیںزیر کرنے کے بھی قابل نہیںہیں۔ پچھلے مہینے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی قرار داد میں بھی حکومت کو مشورہ دیاگیاتھا کہ قبائلی عوام کے خلاف فوجی طاقت کا استعمال بند کردیا جائے اور گفت و شنیداور ترقیاتی کاموں کے ذریعے قبائل کا دل جیتنے کی کوشش کی جائے۔ اس وقت سوات ، باجوڑ ،مہمند ایجنسی ،درہ آدم خیل ،کرم ایجنسی اور وزیرستان کے لاکھوں عوام اپنے ملک کے اندر بے گھر ہوچکے ہیں۔ ان کے خلاف امریکا کی ایماء پر آپریشن جاری ہے ۔ یہ قبائل ہمیشہ پاکستان کے وفادار رہے ہیں اور یہ پاکستان کی فوج کے لیے ایک ریزروفورس اور بازوئے شمشیر زن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خطرے کے اس موقع پر انھیں اعتماد میں لینا ناگزیر ہے۔ دینی جماعتوں کی طرف سے حکومت پاکستان کو یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ اگر قبائل کے خلاف فوجی کارروائی روک دی جائے تو قبائل کو جو محب ِ وطن ہیں، قائل کیا جاسکتا ہے کہ وہ پاکستان کو کمزور کرنے کی کسی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔
قومی جماعتوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ بھارت کے دبائو میں آکر اپنے شہریوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنا خود بھارت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس کے بجاے انھیں بھارت اور بین الاقوامی برادری کے سامنے شواہد پیش کرنے چاہییں کہ کس طرح بھارت ہماری مغربی سرحد پر قونصل خانے قائم کرکے انتشار اور بد امنی پھیلانے کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔
حکومت کو یہ مشورہ بھی دیا گیاہے کہ ہندستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری کو کشمیر اور پانی کا مسئلہ حل کروانے میں مدد کرنے پر آمادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور بھارت دو ایٹمی طاقتیں ہیں۔ دونوں ایٹمی طاقتوں میں جنگ انسانیت کی تباہی ہے۔ بھارت اور پاکستان میں کوئی بھی ایسا احمق نہیں ہوگا جوکروڑوں انسانوں کی تباہی اور دونوں ممالک کو بھسم کرنے کے لیے آمادہ ہو۔ اس خطرے کے پیش نظردونوں ممالک مکمل جنگ سے توپرہیز کریں گے لیکن بھارت اپنی عددی اور مادی برتری کے سہارے دوسرے طریقوں سے پاکستان کو مرعوب کرنے کی کوشش کرے گا۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے بہانے عالمی جنگ میں بھارت ،امریکا اور اسرائیل کا حلیف ہے ، بھارت ایک ارب کی آبادی کا ملک ہونے کی وجہ سے تجارتی لحاظ سے بھی بڑی منڈی ہے اور اس مادی دنیا میں اصولوں کی بجاے مادی منفعت ہی کو اہمیت حاصل ہے اس لیے عالمی طاقتیں عموماً ان کی موید ہیں لیکن اگر ہم امریکا اور بھارت کی دھمکیوں میں آکر شکست اور پسپائی اختیار کریں گے تو ہمیں اپنے آزادانہ وجود کو برقرار رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ اس لیے اپنی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے اپنی قوم کو ساتھ لے کر چلنا اور متحد کرنا ضروری ہے ۔وزیراعظم ہائوس میں قومی اتحاد کا مظاہرہ باتوں کی حد تک تو بہت کامیاب رہا لیکن عمل کے میدان میں حکومت نے اب تک کوئی ایک قدم بھی ایسا نہیں اٹھایا جس سے قوم کے اندر کوئی حوصلہ پیدا ہویا جس سے بین الاقوامی برادری کے سامنے ہمارا حقیقی موقف واضح ہوسکے ۔
اس کے برعکس سلامتی کونسل کی ایک کمیٹی نے پاکستان کی دینی جماعت اور خدمت خلق کے ایک بڑے ادارے ’جماعۃ الدعوۃ‘ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب حسین ہارون کا کہناہے کہ اس سلسلے میں ہمیں اپنا موقف پیش کرنے کا موقع نہیں ملا۔ تعجب ہے کہ جب پاکستانی حکومت کو سلامتی کونسل میں اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا تو واضح طور پر سلامتی کونسل کی کمیٹی کے یک طرفہ اور ایک نہایت غیرمنصفانہ فیصلے پر عمل درآمد کرنے میں کیوں اتنی بے تابی دکھائی گئی۔ جماعۃ الدعوۃ کے امیر پروفیسرحافظ محمد سعید اور ان کے چوٹی کے دس ذمہ داران کو فوراً ہی نظربند کرنے کے احکامات کیوں جاری کیے گئے اور جماعۃ الدعوۃ کے تمام دفاتر کو سربمہر کر کے اس کے اثاثوں کو کیوں منجمد کردیا گیا ہے ۔ یہ اس کے باوجود کیا گیا کہ حکومت کا کہناہے کہ انھیں بھارت کی حکومت کی طرف سے کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے، جن سے جماعۃ الدعوۃ یا لشکر طیبہ کے ممبئی کے واقعات میںملوث ہونے کا ثبوت مل سکتاہو۔ حکومت امریکا کا ایک نمایندہ نیگروپونٹے اسلام آباد میں بیٹھ کر سلامتی کونسل کی نامزد کردہ تنظیموں اور ان کے افراد کے خلاف کارروائی کی نگرانی کررہا تھا۔ ساتھ ہی برطانیہ کاوزیرخارجہ بھی اس مقصد کے لیے پاکستان پہنچ گیا۔ برطانوی وزیر خارجہ کی رعونت کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں اس نے مطالبہ کردیا کہ عسکریت پسندوں سے پوچھ گچھ کرنے کا اختیار برطانوی پولیس کو دیا جائے۔اس دوران بھارتی ائیرفورس نے نہایت دیدہ دلیری سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرکے حکومت کومرعوب کرنے کی کوشش کی ہے لیکن جو حکومت مغربی سرحد پر امریکا کے میزائل حملوں اور ان کے ڈرون طیاروں کے بلاروک ٹوک حملوں پر زبانی احتجاج کرنے سے بھی قاصر ہے اس سے کوئی کیوں گلہ کرے کہ انھوںنے بھارت کے فوجی طیاروں کی پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کو ’تکنیکی غلطی‘ قرار دے کر بھارت کو اس جارحانہ کارروائی سے بری کردیا ہے۔
موجودہ عالمی اور علاقائی تناظر اور سلسلہ وار وقوع پذیر ہونے والے واقعات پر گہری نظر ڈالیں تو یوں لگتا ہے، اور اس کے کافی شواہد موجود ہیں کہ بین الاقوامی طاقتوں نے امریکا کی سرکردگی میں پاکستان کے بارے میںیہ فیصلہ کرلیا ہے کہ یہ ملک اپنے اسلامی نظریے اور ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے ناقابلِ قبول ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ دستور اور موجودہ شکل میں پاکستان کا قائم رہنا امریکا اور اسلام دشمن طاقتوں کے مفاد میں نہیں ہے، لہٰذا:
(i) اس کے حصے بخرے کیے جائیں۔
(ii) اسے اسلامی ریاست کی بجاے سیکولر سٹیٹ بنا دیا جائے ۔
(iii) اس کی ایٹمی طاقت کو نیست و نابود کردیا جائے یا کم از کم اپنے کنٹرول میں لے لیا جائے۔
ملک کے موقر اخبارات میں ایسے مضامین اور رپورٹیں شائع ہو رہی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ بین الاقوامی سازشی طاقتوں کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر ایسی قوتیں موجود ہیں جو مشرقی پاکستان کے سانحے کو دہرانا چاہتی ہیں اور سالمیتِ پاکستان کے خلاف سازش میں شریک ہیں۔ پاکستانی قوم اس امریکی ایجنڈے کامقابلہ کرنے کی سکت رکھتی ہے لیکن پاکستان کی موجودہ انتظامیہ اس کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کے اندر اتنی صلاحیت ہے نہ جرأت و ہمت کہ امریکا کے مذموم عزائم سے نمٹنے کے لیے مناسب حکمت عملی طے کرے اور قوم کو آنے والے اس خطرے سے خبردار کرے بلکہ موجودہ صاحبانِ اقتدار توتذبذب اور بے یقینی کا شکار ہیں ۔ یہ تذبذب، بے یقینی، بزدلی اور ایمان کی کمزوری ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہی ہے ۔ تباہی سے بچنے کے لیے اللہ کی مدد اور قومی بیداری کی ضرورت ہے۔
اِن تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ o (محمد۴۷:۷) اگر مدد کرو گے تم اللہ کی تو وہ بھی تمھاری مدد کرے گا اور جما دے گا مضبوطی سے تمھارے قدم ۔
اللہ کی مد د کے لیے لازم ہے کہ ہم ابھی سے وہ کلمہ پڑھ کر اپنی قوم کو پکاریں جو عین جنگ کے وقت ایوب خان کو یاد آگیا تو پوری قوم اس کے ساتھ کھڑی ہوگئی تھی ۔ اس وقت کا انتظار کرنے کی بجاے سب لوگ سچے دل سے لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کا ورد کرتے ہوئے میدان میں نکلیں تو شکست خوردگی کی فضا اچانک یقین اور اعتماد کی فضامیں بدل جائے گی ، اللہ کی مدد آئے گی ، لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنی فوج کو یاد دلائیں کہ وہ اپنے شعار (motto) ’ایمان ،تقویٰ اورجہاد فی سبیل اللہ‘ کو صرف لکھا ہوا کافی نہ سمجھے، بلکہ اس پر عمل پیرا ہو اور پھر ہم فوج کو اپنی قوم کے خلاف امریکی جنگ لڑنے سے واپس بلالیں۔
فوج کو قبائل سے لڑا کر، جامعہ حفصہ اور لال مسجد پر چڑھائی اور وہاں مسلمان بچیوں کے قتلِ عام کے ذریعے دینی جماعتوں کی تائید سے محروم کرکے اور اب کشمیر ی تحریک مزاحمت میں سرگرم جہاد کے جذبے اور شہادت کے شوق سے سرشار مجاہدین کی حمایت سے دستبردار ہونے پر مجبور کرکے یکہ و تنہا کردیاگیا ہے۔ اس موجودہ حالت میں ہماری فوج ملک کے اندر سیکورٹی بحال کرنے پر قادر نہیں ہے۔ ملک کی حفاظت کے لیے فوج اور قوم کی یک جہتی لازم ہے ۔ سیکولر اور لادین عناصر کو پاکستان کی بقا سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ وہ ایک سیکولر ہندستان میں رہتے ہوئے زیادہ آرام محسوس کریں گے اور امریکا اور بھارت کے زیر سایہ رہنے میں بھی انھیں کوئی عار نہیں ہوگا۔ اس ملک کا استحکام اور اس کی بقا انھی لوگوں کو عزیز ہے جو اسے اسلام کا قلعہ اور مسلم امت کے اتحاد کی علامت سمجھتے ہیں۔ انھی کے نزدیک اس ملک کے لیے جان و مال کی قربانی دینا سعادت دارین ہے۔ ان شاء اللہ یہ ملک قائم رہے گا اور اسلام کا مضبوط قلعہ بنے گا۔ مایوسیوں کے اندھیروں میں امیدوں کے چراغ روشن کرنے کی ضرورت ہے۔ دین سے وابستگی اور اللہ و رسولؐ سے وفاداری ہی سے زندگی کی حقیقی حرارت ملتی ہے۔ مفکرِپاکستان علامہ محمد اقبال نے اس نکتے کی یوں تشریح کی ہے:
ایں نکتہ کشایندہ اسرار نہان است
ملک است تن خاکی و دیں روح روان است
تن زندہ و جاں زندہ ز ربط تن و جان است
باخرقہ و سجادہ و شمشیر و سناں خیز
ازخواب گراں خواب گراں خواب گراں خیز
از خواب گران خیز!
(یہ نکتہ پوشیدہ رازوں کو کھولنے والا ہے کہ تن خاکی ملک ہے اور دین اس کی روح ہے۔ جسم و جان ایک دوسرے کے ربط کے نتیجے میں زندہ رہتے ہیں۔اس ربط کو قائم رکھنے کے لیے سجادہ اور خرقہ (اسلامی تہذیب کی علامتیں)اور شمشیر و سنان (سامانِ جہاد) لے کر اٹھ کھڑے ہوں اور گہری نیند سے بیدار ہوجائیں۔)
ایسے خطرات اور چیلنج جب کسی زندہ قوم کو پیش آتے ہیں تو وہ ان کی خوابیدہ طاقتوں کو بیدار کرنے، انھیں جھنجھوڑنے اور انھیں قربانیوں پر آمادہ کرنے کے لیے مہمیز کاکام دیتی ہیں۔ اس لیے فارسی کی ایک ضرب المثل ہے کہ ع
عدو شرے برانگیزد کہ خیر ما دراں باشد
(خدا کرے کہ دشمن ایک ایسا شر برپا کردے کہ اس میں ہماری خیر ہو)۔
اس وقت جو خطرات ہمیں درپیش ہیں، وہ ہمیں اپنے طرز عمل کو یکسر تبدیل کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہم نے اپنی قوم کے نصف حصے کو غربت اور جہالت کے غار میں پھینک رکھاہے۔ ہمارے امرا اورسرمایہ دار اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرکے اپنی قوم کو محروم کررہے ہیں۔ ہماری فوج کے اعلیٰ افسر آسایشوں کی زندگی گزارنے کے عادی ہوچکے ہیں اور وہ عام لوگوں سے الگ تھلگ ایک دوسری دنیا میں رہتے ہیں۔ ہمارے قومی وسائل پر ایک مراعات یافتہ طبقے کا مکمل قبضہ ہے۔ ہم اپنی قومی زبان سے محروم ہیں۔
ملک و قوم کے دگرگوں حالات اور ملک میں موجود بادشاہ گروں کے خود غرض طبقے کا تجزیہ کرنے کے بعد انگریزی معاصر ڈان میں ایک تجزیہ نگار اس کا حل پیش کرتے ہوئے گوہرافشانی کرتی ہیں :
اس وقت ریاست کا ڈھانچا موجود ہ سسٹم کے وزن کے نیچے دب کر بیٹھ رہاہے۔ ریاست کے انہدام کا یہ عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک موجودہ سیاسی نقشے اور اقتدار کے سرچشموں کی نئی صورت گری نہیں کی جاتی۔ ریاست کو بھی نئی شکل میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاست کو مکمل ناکامی سے بچانے کی یہ واحد صورت ہے ۔ نکتہ آغاز کے طور پر یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ وفاق مزید نہیں چل سکتا۔ (روزنامہ ڈان، ۲۸نومبر ۲۰۰۸ء)
یہ سوچ ایک تجزیہ نگار کی آزادانہ سوچ نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کے سیکولر طبقے کی بارے میں امریکی دانش وروں کی سوچ کی عکاس ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنے رب کی طرف رجوع کریں ۔ہماری سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم اپنے خالق و مالک، اپنے رب اور اپنے پالنہارسے دُور ہو گئے ہیں۔ قرآن ہمیں پکارتا ہے :
اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ o (الحدید ۵۷:۱۶) کیا مومنین کے لیے وہ وقت نہیں آپہنچا ہے کہ ان کے دل اللہ کی یاد کے لیے نرم ہوجائیں۔
امریکی دانش وروں کے زیر اثر سیکولر تجزیہ نگار ہمیں بتاتے ہیں کہ فیڈریشن مزید نہیں چل سکتی۔ نئے سرے سے ریاست کی تشکیل کی ضرورت ہے۔ اسلامی نظریے کی بجاے سیکولرزم کے نظریے کے تحت پاکستان کو مختلف ریاستوں کے کنفیڈریشن میں تبدیل کیا جائے جنھیں الگ ہونے کا حق حاصل ہو۔ جس طرح یہ طبقہ، (سرخ و سفید سامراجیوں کی خواہشات کے مطابق) اسلامی ممالک کو لسانی بنیادوں پر ’نئے مشرق وسطیٰ‘ کے نام سے مزید تقسیم کرکے چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم کردینے کا متمنی ہے۔ اس کامقابلہ کرنے کے لیے اُمت ِ واحدہ اور ع
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
کے تصور کو ایک عملی حقیقت میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ امت مسلمہ ایک حقیقت ہے۔ اسلام ایک عالمگیر قوت ہے جو مشرق و مغرب میں اپنی حقانیت کے بل بوتے پر تیزی سے پھیل رہاہے۔ یہ اپنے ماننے والوں کو بڑی سے بڑی قربانی پر آمادہ کرنے کی قوت رکھتاہے۔ اس کے ماننے والے کروڑوں انسان جو دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں، اپنے آپ کو ایک قوم سمجھتے ہیں جو ’وحدت آدم‘ کے قرآنی نظریے پر ایمان رکھتے ہیں اور جو توحید کے عقیدے سے سرشار ہیں۔ جنھیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات دنیا کی ہردوسری شے سے زیادہ محبوب ہے۔ یہ امت موجودہ عالمی فساد کو واقعتا ایک عالمی نظام میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اس امت کے اسی تعمیری جذبے کو ابھارنے اور عالم انسانیت کو اس سے متعارف کرانا اس دور اور اس عہد کی ضرورت ہے:
فریادِ افرنگ و دل آویزیِ افرنگ
فریاد ز شیرینی و پرویزیِ افرنگ
عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزیِ افرنگ
معمارِ حرم! باز بہ تعمیرِ جہاں خیز
از خوابِ گراں ، خوابِ گراں ، خوابِ گراں خیز!
از خوابِ گراں خیز!
(افرنگ اور اس کی دلآویزی سے فریاد! افرنگ کی دلربائی اور حیلہ گری سے فریاد! ساری دنیا افرنگ کی چنگیزی سے ویران ہوچکی ہے، معمارِ حرم! جہان کی ازسرِنو تعمیر کے لیے اُٹھ۔ اس خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں سے بیدار ہو، خوابِ گراں سے بیدار ہو۔)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جماعت اسلامی کے کُل پاکستان اجتماعات کا اپنا ایک مزاج اور کردار ہے۔ جماعت کا ہراجتماع ابتدا ہی سے ملک و ملّت دونوں کے لیے ایک مخصوص پیغام دینے اور ہدایاتِ کار فراہم کرنے کی روشن روایت رکھتا ہے لیکن ۲۴ تا ۲۶ اکتوبر ۲۰۰۸ء کو مینارِ پاکستان کے زیرسایہ اقبال پارک لاہور میں منعقد ہونے والے اجتماع کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان اور ملّتِ اسلامیہ کی تاریخ کے بڑے نازک اور فیصلہ کن مرحلے پر اس اجتماع نے پاکستان اور عالمی اسلامی تحریکوں کے لیے مستقبل کی جس روشن راہ کی نشان دہی کی ہے وہ ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے گوشے گوشے سے جمع ہونے والے لاکھوں تحریکی کارکنوں، دنیا بھر کی اسلامی تحریکات کی قیادت، کینیڈا اور امریکا سے لے کر جاپان اور ملایشیا تک سے شریک ہونے والے مندوبین نے کامل یکسوئی کے ساتھ اُمت مسلمہ کو درپیش مسائل و حالات کا جس دقتِ نظر سے تجزیہ کیا اور عمومی مایوسی کے ماحول میں اعتماد اور فراست کے ساتھ مستقبل کے لیے جس طرح ایک روشن شاہ راہ کی نشان دہی کی ہے، اس کے ساتھ ساتھ خوف، بدامنی اور عدم تحفظ کی ملک گیر فضا میں لاکھوں افراد کے اس شہر میں تین روز تک علمی اور دعوتی اجتماع کی شکل میں جس سکون، اطمینان اور عزم و استقلال کا نمونہ پیش کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
افغانستان میں یہ جنگ ہزاروں افراد کی جانیں لے چکی ہے، لاکھوں زخمی اور بے گھر ہیں اور جنگ کی آگ اب پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بڑھ کر آباد علاقوں (settled areas) کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ ۱۵ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، ہزاروں زخمی ہیں اور بے گھر افراد کی تعداد ۸لاکھ سے متجاوز ہے۔۱؎ عراق میں تباہی سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر ہے۔ وہاں ہلاک ہونے والوں کی تعداد محتاط اندازوں کے مطابق ۶ لاکھ سے متجاوز ہے اور ملک کا چپہ چپہ معصوموں کے خون سے رنگین ہے اور تباہی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ساری دنیا بے چینی اور عدم تحفظ کی گرفت میں ہے اور اسرائیل اور بھارت کو چھوڑ کر دنیا کے ہر ملک میں امریکا سے بے زاری اور نفرت کی لہریں اُٹھ رہی ہیں اور آبادی کی عظیم اکثریت (۶۰ سے ۹۰ فی صد تک) امریکی پالیسیوں سے اپنے اختلاف کا برملا اظہار کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود امریکی قیادت، میڈیا اور اہلِ قلم کی ایک بڑی تعداد اسلام اور مسلمانوں کو ہدف بنائے ہوئے ہیں اور اس سلسلے میں ان کی خاص عنایت اسلامی تحریکات پر ہے جن کا اصل ’جرم‘ یہ ہے کہ وہ اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات سمجھتی ہیں اور اپنی اجتماعی زندگی کی اسلام کی تعلیمات اور قوانین کی روشنی میں تشکیلِ نو کرنا چاہتی ہیں۔ اسے پہلے Radical Islam (انقلابی اسلام) اور Fundamentalism (بنیاد پرستی) کا نام دیا گیا اور اب اسے Islamic Terrorism (اسلامی دہشت گردی) اور Islamo-fascism (اسلامی فاشزم) کا منبع قرار دیا جارہا ہے۔
اس پس منظر میں ۴۰ مسلم ممالک کے اسلامی قائدین کی جماعت کے اجتماع میں شرکت اور اسلام کے عالمی پیغام اور اُمت کی وحدت کی ضرورت پر مکمل یک جہتی کا اظہار روشنی کے سفر کی ایک تابناک علامت ہے۔
سیاسی تبدیلی کا یہ عمل ایک عظیم تحریکِ مزاحمت سے شروع ہوا تھا جس کی قیادت ملک کی وکلا برادری کر رہی تھی اور جس کی علامت چیف جسٹس افتخار چودھری تھے۔ اس تحریک میں پوری سول سوسائٹی اور اہم سیاسی کارکن اور جماعتیں شریک ہوئیں اور ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں عوام نے مشرف اور اس کی پالیسیوں کے خلاف اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور کسی ایک پارٹی کو اکثریت نہ دے کر یہ پیغام بھی صاف لفظوں میں دے دیا کہ سب سیاسی قوتوں کو، خصوصیت سے پی پی پی اور نواز مسلم لیگ کو مل کر، قومی مفاہمت کے ذریعے پرویزی دور کی زیادتیوں اور انحرافات (deviations ) کی اصلاح کر کے دستور کی اس شکل میں جو ۱۹۹۹ء میں تھی بحالی، عدلیہ کی حقیقی آزادی اور غیرقانونی طور پر معزول کیے جانے والے ججوں کی باعزت بحالی، نیز قومی آزادی، خودمختاری اور عزت کی قیمت پر امریکا کی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت کی پالیسی کی تبدیلی اور خارجہ پالیسی کی اس قلبِ ماہیت کی تصحیح کا مینڈیٹ دیا جو امریکا، بھارت اور اسرائیل کے دیے ہوئے ایجنڈے کے تحت پرویز مشرف نے آمرانہ اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کی تھی۔ معاشی پالیسی کے دروبست کی تبدیلی بھی عوام کے مینڈیٹ کا حصہ تھی کہ پرویزی دور کی پالیسیوں کے نتیجے میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہے تھے اور ملک کو نمایشی ترقی کے سراب کے نشے سے مسحور کیا جا رہا تھا، جب کہ فی الحقیقت زرعی اور صنعتی شعبوں میں حقیقی پیداواری ترقی مفقود تھی اور ملک بجٹ، تجارت اور توازن ادایگی کے خساروں سے دوچار، اور ملکی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا جا رہا تھا۔
قوم کو نئی مخلوط حکومت سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ زرداری صاحب نے ایک طرف ساری توجہ اپنے ذاتی اقتدار کو مستحکم کرنے پر دی تو دوسری طرف ایک ایک کر کے ان تمام وعدوں کی خلاف ورزی کی راہ اختیار کی جو میثاقِ جمہوریت، جولائی ۲۰۰۷ء کے اعلانِ لندن، اور فروری مارچ ۲۰۰۸ء کے اعلانِ بھوربن اور اعلانِ دوبئی میں کیے گئے تھے۔ اس کا پہلا نتیجہ مسلم لیگ نواز کی حکومت سے علیحدگی اور اس کے بعد زندگی کے ہر شعبے میں عملاً پرویز مشرف کی پالیسیوں کا تسلسل اور بالآخر معیشت کے میدان میں آئی ایم ایف کے جال میں دوبارہ گرفتاری، بھارت کے مقابلے میں مسلسل پسپائی، کشمیر کے مسئلے پر پریشان کن ژولیدہ بیانی، اور امریکا کے پنجے میں اس حد تک گرفتاری کہ ۳ستمبر کو امریکی افواج نے پاکستان کی سرزمین پر زمینی حملہ بھی کردیا اور مارچ ۲۰۰۸ء میں موجودہ حکومت کے قیام کے بعد سے ۴۰ سے زیادہ فضائی حملے پاکستان کی سرزمین پر ہوچکے ہیں جن میں ۴۰۰ سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔
اس سب کچھ پر مستزاد امریکا اور یورپ کی مجالس دانش (think tanks)کی وہ فکری اور نفسیاتی جنگ ہے جو روز افزوں ہے۔ ان تمام جائزوں اور رپورٹوں کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ پاکستان ایک ناکام ہوتی ہوئی (failing ) ریاست ہے، ’دہشت گردی‘ کا اصل مرکز پاکستان کے علاقوں میں ہے، پاکستان کے لیے اپنے جغرافیائی وجود کو باقی رکھنا ممکن نہیں رہا ہے اور پاکستان خدانخواستہ اگلے ۱۰،۱۵ سال میں صفحۂ ہستی سے معدوم ہوجائے گا یا اس کے ایسے حصے بخرے ہوجائیں گے کہ وہ سیاسی بساط پر ایک اہم کردار ادا کرنے کے لائق نہیں رہے گا۔ یوں نہ صرف پاکستان کی معیشت کو استعماری شکنجوں میں کسا جا رہا ہے بلکہ ملک کے مستقبل ہی کو مخدوش اور مشکوک بناکر پیش کیا جارہا ہے۔
موجودہ حکومت کے ۹ مہینوں پر پھیلے ہوئے دورِ اقتدار میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے اور امن و امان کی زبوں حالی کے ساتھ معاشی افراتفری، معاشرتی اضمحلال، سیاسی انتشار اور داخلی عدم استحکام میں پریشان کن حد تک اضافہ ہوا ہے اس کے ساتھ نظریاتی خلفشار اور ثقافتی اور تہذیبی بگاڑ بھی بلوہ عموم کی سی کیفیت اختیار کر رہے ہیں۔ فکری اور اخلاقی ہردو اعتبار سے حالات مخدوش تر ہوتے جا رہے ہیں اور نوجوانوں میں بے راہ روی اور قوم میں ہرسطح پر ڈسپلن کی کمی ایک وبا کی صورت اختیار کر رہے ہیں۔
ان حالات میں قوم کو جھنجھوڑنے اور وقت کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے بیدار، متحرک اور منظم کرنے کی ضرورت تھی۔ اس پس منظر میں جماعت اسلامی نے مینارِ پاکستان پر یہ ولولہ انگیز اعلان کے ساتھ کیا ؎
صنم کدہ ہے جہاں ، لا الٰہ الا اللہ
اور : ع
مجھے ہے حکمِ اذاں ، لا الٰہ الا اللہ
اجتماع کے کامیاب انعقاد کے اس پہلو کو سب نے محسوس کیا اور سراہا کہ مایوسی کی فضا میں جماعت کا لاکھوں افراد پر مشتمل یہ اجتماع روشنی کی ایک تازہ کرن ہے۔ اس طرح اس پہلو پر بھی ہرحلقے نے اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا ہے کہ ملک پر خوف اور عدمِ تحفظ کے جو بادل چھائے ہوئے تھے اور جن کی وجہ سے سرکاری حکام ہی نہیں بہت سے دانش ور بھی احتیاط کا مشورہ دے رہے تھے اور لاہور کے قلب میں اتنے بڑے اجتماع کے بارے میں طرح طرح کے خدشات کا اظہار کر رہے تھے، الحمدللہ وہ سب پادَرِ ہوا ثابت ہوئے اور جماعت کے شان دار روایتی نظم و نسق کے ساتھ یہ سہ روزہ اجتماع بڑی خوش اسلوبی سے انجام پذیر ہوا اور قوم میں اُمید اور اعتماد کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔
یہ دونوں پہلو اپنی جگہ اہم ہیں اور ہم ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں لیکن ہماری نگاہ میں اس اجتماع کی اصل اہمیت ان سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا تعلق اس پیغام سے ہے جو اس اجتماع نے پوری قوم کو دیا ہے اور مستقبل کے لیے ملک اور عالمی سطح پر نظریاتی، سیاسی اور تہذیبی جدوجہد کے جو خدوخال اس میں پیش کیے گئے ہیں، وہ وقت کی ضرورت اور مستقبل کی تعمیر کے لیے راہِ عمل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان پہلوئوں پر سب کو غوروفکر کی دعوت دیں۔
جماعت اسلامی کے اس اجتماع کا اولین مقصد تذکیر تھا تاکہ جماعت کے کارکنوں اور معاونین کے سامنے خاص طور پر، اور پوری قوم اور اُمت مسلمہ کے سامنے بالعموم، ایک بار پھر وہ مقصد آسکے جس کے لیے تحریکِ اسلامی پاکستان میں، اور دیگر اسلامی تحریکیں دنیا کے گوشے گوشے میں اپنے اپنے حالات کے مطابق اپنے انداز میں جدوجہد کر رہی ہیں۔
تحریکِ اسلامی کی نگاہ میں زندگی کے تمام مسائل کا حل اللہ کی ہدایت کو قبول کرنے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل وفاداری کے ساتھ اطاعت، اور آخرت کی زندگی میں کامیابی کے حصول کے لیے دنیا میں قرآن وسنت کے مطابق عدل و انصاف کا نظام قائم کرنے میں ہے۔ سارے مسائل کے حل کی کلید اخلاق کی اصلاح اور پوری زندگی کو خیروشر اور حلال اور حرام کے اس ضابطے کے مطابق گزارنے میں ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پوری انسانیت کو دیا ہے اور اُمت ِمسلمہ جس کی امین ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سردارانِ عرب کو مخاطب کر کے فرمایا تھا: ایک کلمہ لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کو اختیار کرلو تو عرب و عجم پر تمھارا جھنڈا لہرائے گا۔ یہی وہ پیغام ہے جسے اقبال نے اپنی اس خوب صورت غزل میں پیش کیا ہے جو ۲۰۰۸ء کے اجتماع کی علامت تھی :
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں ، لا الٰہ الا اللہ
یہ نغمہ فصلِ گُل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں ، لا الٰہ الا اللہ
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں ، لا الٰہ الا اللہ
جماعت اسلامی پاکستان کابنیادی عقیدہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہوگا،یعنی یہ کہ صرف اللہ ہی ایک الٰہ ہے اور اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ (دفعہ ۳)
اس عقیدے کو دل کی گہرائیوں اور عقل کی سپردگیوں کے ساتھ قبول کرنے کے معنی یہ ہیں:
اس کلمے کے ماننے والے ایک امت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو استخلاف کی جو ذمہ داری اور سعادت سونپی ہے وہ اس کے امین ہیں۔ استخلاف کا تقاضا زمین پر اپنے مالک کی مرضی کو پورا کرنا اور زندگی کے پورے نظام کو رب السَّمٰوٰت والارض کی ہدایت کے مطابق مرتب و منظم کرنا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے تحریکِ اسلامی اپنا نصب العین قرار دیتی ہے، جو دراصل اُمت مسلمہ اور پوری انسانیت کا حقیقی نصب العین ہے یعنی اقامت ِ دین۔
جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصد عملاً اقامتِ دین (حکومتِ الٰہیہ یا اسلامی نظامِ زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضاے الٰہی اور فلاحِ اخروی کا حصول ہوگا۔ (دفعہ ۴)
جو چیز جماعت اسلامی کی منفرد حیثیت کو نمایاں کرتی ہے وہ اس کا یہی نظریاتی ، اخلاقی، تہذیبی اور انقلابی کردار ہے۔ یہ جماعت کسی وقتی ضرورت اور محدود سیاسی ہدف کے حصول کے لیے قائم نہیں ہوئی بلکہ انسان کی پوری زندگی کو اسلام کے انقلابی پیغامِ ہدایت کے مطابق ڈھالنے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے پورے نظام کو اللہ کی شریعت کی روشنی میں مرتب و منظم کرنے کے لیے قائم ہوئی ہے۔
اقامت دین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے بلکہ پورے دین کی اقامت ہے، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے، نماز، روزہ اور حج و زکوٰۃ سے ہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیرضروری نہیں ہے۔ پورے کا پورا اسلام ضروری ہے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیہ و تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہر مومن کو اسے بطور خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اہلِ ایمان کو مل کر اس کے لیے جماعتی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اگرچہ مومن کا اصل مقصدِ زندگی رضاے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں خدا کے دین کوقائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے مومن کا عملی نصب العین اقامت ِ دین اور حقیقی نصب العین وہ رضاے الٰہی ہے جو اقامت ِ دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔ (ص ۱۴-۱۵)
جماعت اسلامی سیاسی نظام کی اصلاح اور اسلامی بنیادوں پر انقلابِ قیادت کی داعی ہے اور اس پہلو سے وہ ایک سیاسی جماعت ہے جو زمامِ کار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں سونپنا چاہتی ہے جو اللہ کے وفادار اور شریعت ِ اسلامی کے نفاذ کے داعی ہوں اور جن کا اپنا کردار سیاسی تبدیلی کے اس پروگرام سے مطابقت رکھتا ہو۔ اس معنی میں وہ ایک سیاسی جماعت ہے لیکن جماعت اسلامی محض ایک سیاسی جماعت ہی نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر نظریاتی تحریک بھی ہے جو سیاست سمیت زندگی کے تمام نظام کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق منظم اور مرتب کرنا چاہتی ہے۔ اس کے پروگرام کے چار عناصر ِترکیبی ہیں جو مساوی طور پر اہم ہیں اور ایک دوسرے سے مربوط اور ناقابلِ تقسیم ہیں۔
۱- وہ کسی امر کا فیصلہ کرنے یا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ دیکھے گی کہ خدا اور رسولؐ کی ہدایت کیا ہے۔ دوسری ساری باتوں کو ثانوی حیثیت سے صرف اُس حد تک پیشِ نظر رکھے گی جہاں تک اسلام میں اس کی گنجایش ہوگی۔
۲- اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے جماعت کبھی ایسے ذرائع اور طریقوں کو استعمال نہیں کرے گی جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔
۳- جماعت اپنے پیشِ نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی یعنی یہ کہ تبلیغ و تلقین اور اشاعت ِ افکار کے ذریعے سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے اور راے عامہ کو اُن تغیرات کے لیے ہموار کیا جائے جو جماعت کے پیشِ نظر ہیں۔
۴- جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی۔
جماعت اسلامی کی انفرادیت اس کے مندرجہ بالا نظریاتی، اخلاقی، تہذیبی اور انقلابی خصوصیات کی رہینِ منت ہے۔ بلاشبہہ اس کی تنظیمی سرگرمیوں کا محور پاکستان ہے لیکن اس کی نظریاتی دعوت پوری انسانیت کے لیے ہے اور وہ ان عالمی اصلاحی تحریکوں کا حصہ ہے جو اپنے اپنے دستور، اپنی اپنی تنظیم اور اپنی اپنی قیادت کے تحت چل رہی ہیں اور عالمی سطح پر ایک نظریاتی اور تہذیبی رَو کا حصہ اور رنگ رنگ کے پھولوں کا ایک حسین گلدستہ ہیں۔
اکتوبر ۲۰۰۸ء کا اجتماع جماعت کے کارکنوں کی تذکیر ہی کا نہیں بلکہ پوری قوم اور عالمی برادری کے سامنے اپنے اس ہمہ گیر اور منفرد کردار کو اُجاگر کرنے کا ذریعہ بنا ہے۔
اللہ کے فضل وکرم سے پاکستان میں جماعت اسلامی ایک اہم نظریاتی، سیاسی، تعلیمی اور سماجی قوت ہے۔ اجتماع اکتوبر میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق اس وقت جماعت کے تقریباً ۲۳ہزار ارکان اور رکنیت کے ۱۷ ہزار امیدوار ہیں (خواتین ارکان کی تعداد ۲۳۹۹ اور رکنیت کی امیدوار خواتین ۱۴۳۷ ہیں)۔ ملک بھر میں جماعت کے کارکنوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ اور اس کے عام ممبروں کی تعداد ۵۰ لاکھ سے متجاوز ہے۔ تنظیمی اعتبار سے مرکز، صوبوں اور اضلاع کی سطح پر جماعت کی کارروائیاں جاری و ساری ہیں اور ۴ہزار سے زائد یونین کونسلوں میں تنظیم قائم ہے۔ ملک میں درسِ قرآن کے ۸ہزار حلقے اور تعلیم القرآن کے ۳۳۱۷ مراکز کام کر رہے ہیں۔ فہم دین کے پروگرام کے تحت تقریباً ۹۰۰ پروگرام ایک سال میں منعقد ہو رہے ہیں جو دس روزہ اور سہ روزہ قرآن فہمی کے اجتماعات سے عبارت ہیں اور ایک ایک پروگرام میں کئی کئی ہزار افراد باقاعدگی سے شرکت کر کے قرآن کے پیغام کو سمجھنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ خواتین کے حلقے میں فہم قرآن کے ۱۳۶ ادارے قائم ہیںاور درسِ قرآن کا سلسلہ ۴۲۱۱ حلقوں میں انجام دیا جا رہا ہے۔ دعوتی کیمپ سالِ گذشتہ میں ۲۸۳۰ لگائے گئے اور کُل دعوتی وفود کی تعداد ۶۰ ہزار کے قریب رہی۔ جماعت کے نظم کے تحت اس وقت ملک میں چھوٹی بڑی ۷۵۵۸ لائبریریاں کام کر رہی ہیں۔
جماعت کی برادر تنظیموں کا کام اس کے علاوہ ہے جو زندگی کے مختلف میدانوں میں اپنے اپنے دائرۂ کار میں سرگرمِ عمل ہیں اور الحمدللہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں جماعت اور اس کے کارکن متحرک نہ ہوں۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ۔
ہم نے یہ مختصر جائزہ تحدیث ِ نعمت کے احساسات کے ساتھ پیش کیا ہے اور مقصد اس امر کا اظہار بھی ہے کہ دعوت، تربیت، اصلاحِ معاشرہ، خدمتِ عوام، تعلیم اور سیاسی تبدیلی کا وہ پروگرام جس پر جماعت اسلامی کام کر رہی ہے ایک ہمہ جہتی پروگرام ہے۔ اس کے کام کا تعلق محض سیاسی موسم سے نہیں، یہ جماعت ایک تحریک کا مرکز و محور ہے اور اس کی دعوتی اور اصلاحی سرگرمیاں سال کے بارہ مہینے اور ہرمہینے کے تیس دن جاری ہیں ع
بہار ہو کہ خزاں ، لا الٰہ الا اللہ
درپیش چیلنج اور تحریک اسلامی
اجتماع کا ایک اور مقصد جماعت کے پیغام کو جماعت کے اپنے کارکنوں کے سامنے، ان میں مکمل یکسوئی پیدا کرنے کے لیے، پوری قوم کے سامنے، ملک کو درپیش ایشوز پر اپنے موقف کو بیان کرنے کے لیے، اور پوری دنیا خصوصیت سے عالمی قوتوں کے سامنے، انھیں یہ موقع فراہم کرنے کے لیے تھا کہ وہ تحریکِ اسلامی کو اس کے اپنے الفاظ اور بیان کے مطابق سمجھنے کی کوشش کریں اور اُسے ویسے تعصب اور عناد کی عینک سے نہ دیکھیں، جس طرح میڈیا کے بعض عناصر حقیقت کو مسخ کرکے پیش کر رہے ہیں۔
عالمی سطح پر اس اجتماع کے ذریعے جماعت اسلامی نے امریکا اور مغربی دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو ان خانوں میں رکھ کر نہ دیکھیں جو ان کے تنگ نظر سیاسی اور فکری قائدین نے وضع کیے ہیں۔ اسلام ایک عالم گیر پیغام کا علَم بردار ہے لیکن یہ پیغام کوئی نیا پیغام نہیں بلکہ وہی پیغام ہے جو خالقِ کائنات نے اپنے تمام انبیا کے ذریعے انسان کی ہدایت کے لیے بھیجا اور جس کی آخری اور مکمل شکل وہ ہے جو نبی آخرالزماں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کی شکل میں نازل ہوئی اور جس کی عملی تعبیرو تشکیل پیغمبرؐاسلام کی سنت اور زندہ روایت میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ پیغام اللہ کی بندگی کا، اللہ کے تمام بندوں کی اخلاقی ترقی اور تزکیے کا، تمام انسانوں کے درمیان انصاف کے قیام اور حقوق العباد کی ادایگی کے ذریعے ہرسطح پر انسانی زندگی کو امن اور عدل اور بھائی چارے کا گہوارہ بنانے کا ہے۔ یہ جنگ، خون ریزی اور دہشت گردی کا پیغام نہیں۔ بلکہ یہ تو انسان کی پوری زندگی کو اخلاقی اصولوں اور اقدار کی روشنی سے منور کرنا چاہتا ہے اور زندگی کو خانوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ یہ پیغام ابدی ہے مگر اس میں بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں کا لحاظ رکھنے کی پوری پوری گنجایش موجود ہے۔ اس پیغام کو اس کی اصل شکل میں پرکھنے کا سب کو پورا پورا حق ہے لیکن یہ رویہ مبنی برحق و انصاف نہیں کہ اس دین کی تعلیمات کو مسخ کیا جائے اور سیاق و سباق سے علیحدہ (out of content ) چیزوںکو لے کر اسلام کو تنقید وتنقیص کا ہدف بنایا جائے یا کچھ خاص افراد کے سیاسی اقدامات کو ان کے سیاسی پس منظر سے کاٹ کر اسلام کے سر تھوپ دیا جائے اور دنیا کو ایک نظریاتی تصادم اور جنگ و جدال میں جھونک دیا جائے۔ اُمت مسلمہ امن و انصاف کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہے اور دوسروں کے ساتھ بھی عزت اور انصاف سے معاملہ کرنے کی خواہش مند ہے لیکن اگر اس پر محض قوت کے بل پر کچھ نظریات مسلط کرنے کی کوشش کی جائے گی اور محض طاقت کے ذریعے اُمت کے وسائل پر قبضہ کرنے اور اس کی ریاستوں کو اپنا تابع مہمل بنانے کی سعی کی جائے گی تو یہ تصادم کا راستہ ہے اور اسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔
آج اُمت مسلمہ امریکی، صہیونی، یورپی اور بھارتی استعمار کا نشانہ ہے۔ اگر ظلم اور سامراجی تسلط کے خلاف اُمت کے کچھ حصے یا عناصر صف آرا ہیں تو ان مسائل کا بے لاگ انصاف کے ساتھ حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سیاسی مسائل کا حل قوت کے استعمال سے نہیں بلکہ حق و انصاف کے مسلّمہ اصولوں کی روشنی میں تلاش کرنا چاہیے۔ اگر یہ راستہ اختیار کیا جائے تو سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ خرابی کی جڑ استعماری ذہنیت اور قوت کے ذریعے مبنی برحق تحریکوں اور مزاحمتوں کو ختم کرنے کی ظالمانہ پالیسیاں ہیں۔ نیز طاقت ور ممالک کا یہ ادّعا ہے کہ ان کو دوسروں کے وسائل پر قبضے کا حق ہے اور محض اپنی خواہشات بلکہ ہوس (greed) کو پورا کرنے کے لیے دوسروں کے منہ سے ان کا نوالہ چھین لینا بھی ان کا حق ہے۔ اگر طاقت ور اپنے مفاد کی خاطر دوسروں پر ایسی دست درازیاں کریں گے تو دوسرے بھی کمزور ہونے کے باوجود مزاحمت اور اپنے مفادات کے تحفظ کا راستہ نکالنے پر مجبور ہوں گے۔
’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکا کی برپا کردہ یہ جنگ ہر میدان میں ناکام رہی ہے۔ عراق ہو یا افغانستان، پاکستان ہو یا کوئی اور علاقہ___ نہ صرف یہ کہ یہ جنگ ناکام رہی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں امریکا کے خلاف نفرت کے جذبات کا طوفان اُمنڈ آیا ہے اور آج امریکا دنیا میں جتنا بدنام ہے اور اسے جتنی بڑی تعداد میں راے عامہ کی ہرسطح کے لوگ امن وانصاف کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں، تاریخ کے کسی دور میں نہیں ہوا۔
اس اجتماع میں عالم اسلام پر امریکا کی دست درازیوں کی مذمت کے ساتھ یہ واضح کیا گیا ہے کہ امریکا محض قوت سے اپنے نظریات اور تصورات دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، دوسروں کے وسائل پر قبضہ کر رہا ہے، ان کے استحصال (exploitation) کا مرتکب ہو رہا ہے اور مسلم ممالک میں جبروقوت کے ذریعے قابض اپنے مفید مطلب حکمرانوں کی سرپرستی کر رہا ہے اور اب اس سے بڑھ کر مسلم دنیا میں انتہاپسندی اور میانہ روی کے نام پر اپنے ایجنٹوں کو آگے بڑھا کر ان کے ذریعے اپنے مطلب کے ’اسلام‘ کو فروغ دینے کی مذموم کوشش کر رہا ہے۔ یہ راستہ تصادم اور بگاڑ کا راستہ ہے___ مسلم دنیا امریکا اور مغربی ممالک سے اور مغربی تہذیب کے علَم برداروں سے مذاکرات اور افہام و تفہیم کے لیے ہرلمحہ تیار ہے لیکن مسلمان اپنے دین میں مداخلت، اپنی تہذیب کی پامالی، اپنی معیشت و سیاست پر غیروں کے تسلط اور اپنے درمیان دوسروں کے ایجنٹوں کے اقتدار کو برداشت نہیں کرسکتے۔ ہم حقیقی کثیریت (pluralism) کے قائل ہیں لیکن کسی ایک ملک کا غلبہ اور بالادستی ہرگزقبول نہیں کی جاسکتی۔
اجتماع میں برطانوی صحافی خاتون اے وان رڈلی کی تقریر مدتوں یاد رکھی جائے گی۔ اس میں مغرب کے لیے بھی پیغام ہے اور مسلمانوں کے لیے بھی۔ نوحہ صرف ایک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نہیں ___ تمام مظلوم انسانوں کا اور ظلم کے نظام کے خلاف نفرت اور بغاوت کا ہے۔
اجتماع کے مقررین اور خصوصیت سے بین الاقوامی اجلاس نے یہ پیغام بڑے بھرپور مگر باوقار انداز میں دیا ہے اور اسی جذبے سے دیا ہے کہ ع
مجھے ہے حکمِ اذاں ، لا الٰہ الا اللہ
اجتماع میں پاکستان نے موجودہ حالات کا بھی دقتِ نظر سے تجزیہ کیا گیا اور جماعت اسلامی کے موقف کو مسکت دلائل کے ساتھ پیش کیا گیا۔
ٹک ٹک دیدم ، دم نہ کشیدم
پارلیمنٹ نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی ہے جس میں جنگ اور فوجی کارروائی کے راستے کو رد کیا گیا ہے اور مذاکرات، جنگ بندی، فوجوں کی واپسی اور پوری سیکورٹی اور خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو کا مطالبہ کیا گیا۔ مگر پارلیمنٹ کی قرارداد نوحہ کناں ہے اور حکومت اور امریکا دونوں اپنی من مانی کررہے ہیں اور بات ملک کی آزادی، حاکمیت، خودمختاری اور عزت و وقار کی پامالی تک پہنچ چکی ہے۔ صدر، وزیراعظم اور وزیردفاع ایسے بیانات دے رہے ہیں جو ملک وقوم کے لیے شرمناک ہیں لیکن حکمران اتحاد کے بڑے بڑے سورما ہیں کہ پھر بھی لیلاے اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں۔ یہ کیسی حکومت ہے کہ جس کے شرکا اپنی ہی حکومت کی پالیسی کی مذمت بھی کرتے ہیں اور کرسی چھوڑنے کا باعزت راستہ بھی اختیار نہیں کرتے۔
پچھلے ایک سال میں بنکوں کے نظام میں قرض کے نادہندوں (Non Performing Loans) کی مالیت ستمبر ۲۰۰۸ء کے آخیر میں ۳۷ئ۲۸۸ ارب روپے تھی، جب کہ ستمبر ۲۰۰۷ء میں یہ رقم ۱۱ئ۲۵۱ بلین تھی۔ گویا اس ایک سال میں ۳۷ ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔
جماعت اسلامی کی نگاہ میں مسئلے کی اصل جڑ اخلاقی فساد اور اجتماعی اور اداراتی بگاڑ ہے۔ قیادت کی ناکامی اور جمہوری عمل کو دستور یا قانون اور ضابطے کے مطابق چلانے سے مکمل بے اعتنائی ہے۔ اور یہ بگاڑ اس وقت تک دُور نہیں ہوسکتا جب تک ایسی قیادت برسرِکار نہ آئے جو اخلاقی اعتبار سے اعلیٰ کردار کی حامل ہو، جو نظریاتی اعتبار سے پاکستان اور نظریۂ پاکستان کی وفادار ہو، جو قوم ہی سے ہو اور قوم کے سامنے جواب دہ ہو، جو امریکا اور بیرونی طاقتوں کے زیربار نہ ہو اور ان سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خوداری سے معاملہ کرسکے، جو ملک کی آزادی اور عزت کا سودا کرنے والی نہ ہو اور قومی خودمختاری اور وقار کی خاطر جان کی بازی لگانے کا داعیہ اور صلاحیت رکھتی ہو۔
جماعت اسلامی کا اجتماع انقلابِ قیادت کے اس آہنگ کا برملا اظہار ہے۔
اجتماع میں جماعت کی قیادت نے آیندہ کے لیے جو پروگرام جماعت کے کارکنوں اور پوری قوم کو دیا ہے وہ تجدید عہد، وقت کی قربانی اور مسلسل جدوجہد کا پیغام ہے۔ اس میں پہلی اور سب سے اہم چیز رجوع الی اللہ ہے کہ ہماری ساری دعوت اور پروگرام کی بنیاد اللہ سے تعلق، اللہ سے مدد اور استعانت کی طلب، اللہ کے دین کی سربلندی کا جذبہ اور کوشش، اور اللہ کی خوش نودی کا حصول ہے۔ تحریک کے کارکنوں کے لیے اجتماع کا دوسرا پیغام جماعتی استحکام ہے۔ اپنی صفوں کو مضبوط کرنا، اپنے تربیتی نظام کو مؤثر بنانا، اپنی تنظیم کو زیادہ مستحکم کرنا، جہاں تنظیم نہیںہے یا کمزور ہے اس کی تقویت کی فکر کرنا، جماعت میں ڈسپلن، وقت کی پابندی، ذمہ داریوںکی صحیح ادایگی، ایک دوسرے کی معاونت اور تقویت کا باعث ہونا___ ان سب پہلوئوں سے جماعت کو مضبوط کرنا تاکہ آگے کے مراحل میں چیلنجوں کا مؤثر مقابلہ کیا جاسکے۔
تیسرا پیغام دعوت کا ہے۔ جماعت کی نگاہ میں ہمارا سب سے اہم کام عوام تک پہنچنا اور ہرممکن طریقے سے ان تک اسلام کی دعوت اور جماعت کے پروگرام کو پہنچانا ہے۔ ہمارا اصل ہدف انسان سازی ہے___ ووٹ اس کا نتیجہ ہے، اولین ہدف نہیں۔ جتنا ہم اپنا پیغام لوگوں تک پہنچائیں گے، ان کے سوالات کا تشفی بخش جواب دیں گے، اپنے سیرت و کردار اور اپنی خدمت سے ان کے دلوں کو اسلام اور جماعت کے لیے جیتیں گے اتنا ہی ہمارا وزن بڑھے گا اور بالآخر انتخابات میں بھی اس کے ثمرات سے جماعت اور ملک فیض یاب ہوسکیں گے۔ ۲۰۰۸ء بھی دعوت کا سال تھا اور ۲۰۰۹ء بھی دعوت کا سال ہے تاکہ ساری سرگرمیوں میں اولیت دعوتی کاموں کو دی جائے۔ امیرجماعت نے کارکنوں سے متعین طور پر وقت دینے کی خصوصی اپیل کی ہے اور ہرسطح پر تمام جماعتیں اب اس کا اہتمام کریں گی کہ ایک متعین پروگرام کے تحت ہرکارکن سے وقت کا مطالبہ کریں اور جو جتنا وقت دینے کا وعدہ کرے اسے مناسب ترجیح کے ساتھ دعوتی سرگرمیوں میں شامل اور متحرک کیا جائے۔
دعوت کے ساتھ ساتھ تمام اچھے لوگوں کو جماعت میں سمونے اور شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جماعت میں وسعت پیدا کرنا ضروری ہے۔ ایک طرف اپنے اخلاقی اور نظریاتی معیار کی حفاظت کیجیے تو دوسری طرف فراخ قلبی اور کھلے بازوئوں کے ساتھ تمام اچھے انسانوں کو جماعت میں لانے کی کوشش کیجیے اور انھیں ان کے مقام کے مطابق جگہ دیجیے تاکہ وہ جماعت کا حصہ بن جائیں اور اس دعوت کی تقویت کا باعث ہوں۔ یہ کام اس انداز میں کیا جائے کہ ہرعلاقے کے بااثر افراد تک دعوت پہنچائی جائے اور انھیں جماعت کے ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کی جائے۔
اللہ کا فضل ہے کہ جماعت اسلامی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ انسانی مساوات اور اہلیت کی بنیاد پر قیادت کے اصول پر قائم ہے۔ جماعت میں پہلے دن سے قانون اور ضابطے کی پابندی کی روایت ہے۔ قیادت نہ موروثی ہے، نہ خاندانی اور نہ وصیت کے ذریعے قیادت کی ٹوپی سر کی زینت بنائی جاتی ہے۔ دستور کے مطابق متعین وقت پر انتخابات ہوتے ہیں اور ہرسطح پر ہوتے ہیں۔ ہرشخص کے لیے ذمہ داری کے مقامات تک رسائی ممکن ہے بشرطیکہ اس میں وہ صلاحیت اور اہلیت موجود ہو جو دستور نے مقرر کی ہے۔ نہ کوئی سونے کا چمچہ منہ میں لے کر آتا ہے اور نہ کسی کے لیے دروازہ بند ہے۔ پھر جماعت کے اندر مشورے کا نظام رائج ہے، بلاشبہہ اطاعت امیر ہماری قوت کا ذریعہ ہے لیکن امیر کی طاقت کا انحصارمشاورت کے اس نظام پر ہے جو ہرسطح پر قائم کیا گیا ہے۔ جماعت میں نئے خون کی آمد کا سلسلہ الحمدللہ پہلے دن سے جاری ہے اور آج مرکزی شوریٰ میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو اسلامی جمعیت طلبہ، جمعیت طلبہ عربیہ اور دوسری برادر تنظیموں میں سرگرم تھے۔ زندہ اور ترقی کرنے والی تحریکوں کا یہ خاصا ہے۔ ان میں بزرگوں کا احترام اور ان سے استفادے کے ساتھ نئے باصلاحیت افراد کی قدر اور ان کو ذمہ داریاں سونپنے کا اہتمام ہوتا ہے۔ البتہ خدا کا خوف، دین کا فہم، اعلیٰ کردار اور حسنِ کارکردگی وہ صفات ہیں جو ترقی کازینہ اور کامیابی کی ضمانت ہیں۔
جماعت کے اس اجتماع میں حسنِ انتظام کے ساتھ بڑی اہم چیز اجتماع کے پورے پروگرام کو انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچانے کی بڑی کامیاب کوشش تھی۔ جدید ٹکنالوجی کا استعمال ہمارے پیغام کے ابلاغ کے لیے ضروری ہے۔ الحمدللہ اس اجتماع میں اس کا بڑا کامیاب استعمال ہوا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے اب ہر میدان میں نوجوانوں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق مناسب کام پر لگایا جائے اور جدید ٹکنالوجی کا استعمال صرف انٹرنیٹ پر اجتماع کے پروگرام تک محدود نہ ہو بلکہ جہاں بھی انتظامی، تربیتی، دعوتی کاموں کو خوب تر بنانے کے لیے جدید اسلوب اورجدید سہولتوں کا استعمال ممکن ہو، اس کا اہتمام کیا جائے۔ ملک کی آبادی کا نصف اب نوجوانوں پر مشتمل ہے جو تعلیم اور مہارت کے جدید تجربات سے روشناس ہیں۔ دعوت کی وسعت اور تنظیم کے استحکام دونوں کے لیے ان مردانِ کار اور جدید فنی اختراعات کا بھرپور استعمال وقت کی ضرورت ہے۔ وسعت اور صف بندی دونوں کے لیے ان شاء اللہ یہ مفید ہوں گے۔
اجتماع کے پیغام کا ایک اورپہلو، اور شاید سب سے اہم پہلو، نئی اُمید، نیا عزم اور حالات کو صحیح سمت میں تبدیل کرنے کا عزم اور داعیہ ہے۔ ہرفرد اس اجتماع سے ایک نیاجذبہ لے کر رخصت ہوا ہے۔ بڑے عرصے کے بعد اس وسیع پیمانے پر اُمید اور روشنی کے احساسات اور جذبات کا ہم سب نے تجربہ کیا ہے۔ یہ امر، تحریک اور ملک کے لیے بڑا نیک شگون ہے۔ جس ملک میں ہرطرف مایوسی اور اضطراب کی لہریں اُبھر رہی ہوں وہاں ایک ایسے اجتماع کا انعقاد جہاں لاکھوں افراد نے اجتماع کے ہرلمحے کا لطف لیا ہو اور اجتماع سے ایک نیا جذبہ اور ولولہ لے کر اپنے اپنے دائرہ کار میں شریکِ جدوجہد ہورہے ہیں، ایک بڑا ہی مبارک واقعہ ہے۔ اقبال کی روح جس ابراہیم کی تلاش میں بے چین اور بے قرار تھی آج تحریکِ اسلامی براہمیت کے اس جوہر کی امین ہے۔ جس طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام ایک عظیم فکری سفر کے بعد اپنے رب تک پہنچے، اسی طرح باطل افکار کے ایک جنگل سے گزر کر تحریک کے کارکن اسلام کی شاہ راہ تک پہنچے ہیں۔ جس طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جاہلیت کے ہر صنم پر ضرب لگائی، اسی طرح تحریکِ اسلامی اپنے دور کے ہرصنم سے نبردآزما ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وقت کے طاغوت کو چیلنج کیا اور طاقت کے مرکز کو نشانہ بنایا اسی طرح تحریکِ اسلامی آج ملک اور عالمی سطح پر طاغوت کے تمام مظاہر سے برسرِکش مکش ہے۔
یہ سب صحیح لیکن چیلنجوں کی اس مماثلت اور ردعمل کی مشابہت کے باوجود سنت ابراہیمی سے مطابقت کوئی آسان کام نہیں۔ البتہ شوق، جدوجہد، خلوص اور استعانت باللہ ہرمرحلے کو آسان بنا سکتے ہیں۔ شرط ایمان، توفیق اور کوشش ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ کی رحمت اور نصرت اور اپنے رب سے بہتری کی اُمید ؎
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امریکا کی بش انتظامیہ نے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے ایک قابلِ مذمت واقعے کو جس طرح ایک نئی عالمی جنگ (Global War) کی شکل دی اور نظامِ انصاف و قانون کے تحت واقعے کے اصل مجرموں کے تعین اور سزا کو پسِ پشت ڈال کر افغانستان اور عراق پر فوج کشی کرکے قبضہ کیا اور پھر ساری دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ایک خونی یلغار کا راستہ اختیار کیا، اس نے پوری دنیا خصوصیت سے مسلم دنیا کو، ایک نہایت تباہ کن صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔
پاکستان کے اُس وقت کے حکمران جنرل پرویز مشرف نے قوم کی سوچ اور احساسات و عزائم کے برعکس، بلکہ خود اپنی فوج کی قیادت کے ایک معتدبہ حصے کے مشورے کے خلاف جس طرح واشنگٹن کے ایک ٹیلی فون پر گھٹنے ٹیک دیے اور تمام سیاسی اصولوں اور سفارتی آداب کو بالاے طاق رکھ کر افغانستان کی دوست حکومت کے خلاف امریکا کی فوج کشی کے لیے اپنا کندھا پیش کردیا، اس نے پاکستان اور افغانستان دونوں کو جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں دے دیا۔ اس سات سالہ جنگ میں اس کا اعلان شدہ کوئی ایک بھی ہدف پورا نہیں ہوا بلکہ پوری دنیا میں فتنہ و فساد اور قتل و غارت گری میں بہت زیادہ اضافہ ہوا، افغانستان اور عراق جیسے دو عظیم ملک بالکل تباہ ہوگئے، ساری دنیا میں عدمِ تحفظ میں اضافہ ہوا، آزادیوں پر نت نئی پابندیاں عاید کی گئیں، بین الاقوامی قانون اور معروف اصولِ انصاف پامال ہوئے، لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے اور لاکھوں زخمی ہوئے۔ مالی اعتبار سے آج کی دنیا میں غربت، افلاس، بے روزگاری، بھوک اور بیماری کا دور دورہ ہے اور ۷۰ فی صد انسانیت ۲ڈالر یومیہ سے کم پر گزر بسر کر رہی ہے۔نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات پروفیسر جوزف اسٹگ لِٹز (Joseph Stiglitz) کے مطابق اس عالمی جنگ کے نتیجے میں ۲۰۰۶ء تک آج کی دنیا ۳کھرب ڈالر کا خسارہ برداشت کرچکی ہے،(۱) جب کہ اس رقم کا دسواں حصہ بھی دنیا سے غربت کو دُور کرنے کے لیے استعمال ہوتا تو۲ ارب انسان غربت و افلاس کے پنجے سے آزاد ہوسکتے تھے۔
دنیا کے دانش وروں کی ایک بڑی تعداد ان سات برسوں میں جاری رہنے والی اس امریکی پالیسی کا جائزہ لے کر کھلے لفظوں میں کہہ رہی ہے کہ یہ پالیسی ناکام رہی ہے اور خسارے اور بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ امریکا کے مشہور مجلہ فارن اَفیرز کے تازہ ترین شمارے (ستمبر،اکتوبر ۲۰۰۸ئ) میں امریکا کے چار چوٹی کے مفکرین بیک زبان کہتے ہیں (اور ان میں اقوامِ متحدہ میں امریکا کا سفیر ہال بروک بھی شامل ہے) کہ امریکا کی جنگی حکمت عملی دونوں ممالک میں، یعنی عراق اور افغانستان میں ناکام رہی ہے اور ہمیں اپنی پالیسیوں پر ازسرِنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تقریباً یہی نتیجہ اس سروے سے بھی حاصل ہوتا ہے جو امریکا کے ایک اور بڑے اور موقر جریدے فارن پالیسی کے تازہ شمارے (ستمبر، اکتوبر ۲۰۰۸ئ) میں شائع ہوا ہے یعنی Terrorism Index۔
اس سروے کی رُو سے امریکا کے اُمور خارجہ کے اولین صف کے ۱۰۰ مفکرین اور تجزیہ نگار اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ امریکا کی ان پالیسیوں کے نتیجے میں دنیا ۷۰ فی صد زیادہ خطرناک جگہ بن گئی ہے۔ ۹۰ فی صد کی راے یہ ہے کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ ہار رہا ہے۔
ان حالات میں اب امریکا، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور ناٹو کے فوجی کمانڈر بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ فوجی قوت کا استعمال مسائل کا حل نہیں بلکہ سیاسی حل کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں افغانستان میں خود طالبان سے مذاکرات کا آغاز کرنے کی بات ہو رہی ہے۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں اس ماہ (اکتوبر ۲۰۰۸ئ) پاکستان کی پارلیمنٹ کا مشترک اجلاس اس امر پر غور کرنے کے لیے ہوا ہے کہ ملک کی سیکورٹی پالیسی کہاں تک درست ہے اور کیا اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے؟ سب سے تعجب کی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور اس کی وہ شریکِ اقتدار سیاسی جماعتیں جو سابق صدر مشرف کے دور میں ان کی دہشت گردی کے خلاف پالیسی پر تنقید کرتی تھیں، مارچ ۲۰۰۸ء میں اقتدار میں آنے کے بعد سے اس پالیسی پر نہ صرف گامزن ہیں بلکہ زیادہ سختی اور کشت و خون میں ہوش ربا اضافے کے ساتھ اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ زرداری صاحب تو شب وروز یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہ میری جنگ ہے، پاکستان کی جنگ ہے، اور وہ آخری دم تک اس میں مصروف رہیں گے۔(۱)
اس موقعے پر ہم چاہتے ہیں کہ نام نہاد دہشت گردی کے سلسلے میں پرویز مشرف اور صدر زرداری کی امریکی پالیسی کو پاکستان کی پالیسی بنا لینے کے طرزِعمل کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لیں اور قوم اور پارلیمنٹ کو اس طرف متوجہ کریں کہ وقت کی اصل ضرورت اس ناکام پالیسی کو کسی دوسرے عنوان سے جاری رکھنا نہیں بلکہ اسے یکسر تبدیل کرنا ہے۔ اس جائزے میں ہمارا اصل موضوع امریکا کی پالیسی سے زیادہ پاکستان کی پالیسی ہوگا اور اسے نظرانداز کرتے ہوئے کہ آیندہ نومبر کے صدارتی انتخابات کے بعد امریکا کیا پالیسی اختیار کرتا ہے، ہم یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ پاکستان کو اپنے ملکی مفاد اور قومی مقاصد اور اُمنگوں کی روشنی میں اپنی پالیسی بنانی چاہیے۔ ہم جس طرح امریکا کی پالیسی کے خادم اور آلۂ کار بن گئے ہیں، وہ پاکستان اور اُمت مسلمہ کے مفادات کے خلاف ہے۔ اس لیے اس پالیسی کو جتنی جلدی تبدیل کرلیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔
جنرل مشرف نے جن حالات میں اور جن وجوہ سے ستمبر ۲۰۰۱ء میں پالیسی کا یوٹرن لیا اس پر ان صفحات میں ہم کئی بار گفتگو کرچکے ہیں اور اس کے اعادے کی ضرورت نہیں، البتہ جو بات سامنے رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ پاکستان پر جو پالیسی مسلط کی گئی وہ کسی قومی مشاورت کے نتیجے میں نہیں بنائی گئی تھی اور نہ اس کا انحصار کسی اداراتی فیصلے پر تھا۔
Pew Global Attitude Project کی رپورٹ What the World Thinks in 2002 کی رُو سے ۲۰۰۲ء میں پاکستان کی آبادی کے ۴۵ فی صد نے امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مخالفت کی، جب کہ ۲۰ فی صد نے (جو ۲۰۰۴ء میں کم ہوکر ۱۶ فی صد رہ گئی تھی) اس کی تائید کی۔ بحیثیت مجموعی امریکا کا مقام و مرتبہ (US image) جو پاکستان میں ۲۰۰۰/۱۹۹۹ء میں ۲۳ فی صد کی نگاہ میں مثبت تھا، وہ نائن الیون اور اس کے ردعمل کی روشنی میں تبدیل ہوا اور ۲۰۰۲ء کے سروے کے مطابق صرف ۱۰ فی صد کے ذہن میں امریکا کا مثبت تصور تھا۔
ایک دوسرے عالمی سروے World Public Opinion Org کے مطابق اس سوال کے جواب میں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت کا فائدہ کس کو پہنچا؟ ۵۶ فی صد نے کہا کہ امریکا کو۔ صرف ۶ فی صد کی راے تھی کہ پاکستان کو فائدہ پہنچا ہے، جب کہ ۲۹ فی صد کی راے یہ تھی کہ پاکستان کو اس کا نقصان ہوا ہے۔ ستمبر۲۰۰۷ء میں منعقد کیے جانے والے اس سروے کے مطابق پاکستان کی آبادی کے ۷۲ فی صد کی نگاہ میں ایشیا میں امریکی فوجیوں کی موجودگی پاکستان کے لیے سنگین خطرہ ہے، جب کہ مزید ۱۲ فی صد کی نگاہ میں خطرہ تو ہے اور اہم ہے مگر اس کی سنگینی اتنی اہم نہیں۔ صرف ۶ فی صد کی نگاہ میں امریکا کوئی خطرہ نہیں۔ جنوری ۲۰۰۸ء میں منعقد کیے جانے والے ایک سروے کی روشنی میں پاکستان کی آبادی کے ۶۴ فی صد کی نگاہ میں دہشت گردی کے خلاف فوج کی جنگ غلط ہے اور ۸۹ فی صد نے کہا کہ پاکستان کو امریکا کی عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ اسی طرح ۸۳ فی صد کی نگاہ میں افغانستان میں امریکا کی فوج کشی پاکستان کے لیے خطرہ ہے۔ راے عامہ کے ایک اور جائزے کی رُو سے، جو امریکی ادارے New America Foundation نے مئی جون ۲۰۰۸ء میں منعقد کیا اور جو Terror Free Tomorrow کے عنوان سے شائع کیا ہے، آج بھی ۷۴ فی صد پاکستانی القاعدہ اور طالبان کے خلاف امریکی جنگ کو برحق نہیں سمجھتے۔ نیز آبادی کے ۵۷ فی صد کی راے میں پاکستان کو امریکا کے مقابلے میں اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے، جب کہ ۵۲فی صد امریکا کو ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔
مشرف اور زرداری صاحب کی پالیسیوں کو عوامی تائید حاصل نہیں۔ دیکھتے ہیں منتخب پارلیمنٹ کہاں تک عوام کے جذبات و توقعات کی ترجمانی کرتی ہے۔
اول توقوت کا ہر استعمال دہشت گردی نہیں۔ دہشت گردی کا اطلاق صرف قوت اور تشدد کے ہتھکنڈوں کے اس استعمال پر ہوتا ہے جس میں کچھ خاص، بالعموم سیاسی اہداف کے حصول کے لیے اور اپنے مقاصد کی طرف توجہ مرکوز کرانے کے لیے دوسروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس میں مخالف قوت کو بھی ہدف بنایا جاتا ہے اور بالعموم فوری ہدف (victim) اور اصل مقصد (target) الگ الگ ہوتے ہیں۔
اس تعریف کی روشنی میں دہشت گردی کے بہت سے واقعات جرم ہوتے ہوئے بھی دہشت گردی قرار نہیں دیے جائیں گے، مثلاً تاوان کے لیے اغوا، محض دماغی انتشار اورفتور کی وجہ سے لوگوں کی جانوں کے اتلاف کے واقعات یا دوسرے مافیا اور مجرم عناصر کی سرگرمیاں۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کی جو اہم شکلیں پاکستان میں پائی جاتی ہیں ان میں فرقہ وارانہ تشدد، لسانی بنیادوں پر دہشت گردی اور علاقائی تحریکوں یا نیم قومی بغاوتیں (sub-national insurgencies) نمایاں ہیں۔ لیکن سب سے اہم شکل وہ دہشت گردی ہے جو خالص سیاسی بنیادوں پر، امریکا کی پالیسیوں اور خونی کارگزاریوں کے ردعمل میں رونما ہوئی ہے اور جس کی لپیٹ میں آج تمام ہی قبائلی ایجنسیاں آچکی ہیں اور آباد علاقوں میں سے سوات، ڈیرہ اسماعیل خان، مردان، پشاور، راولپنڈی اور اسلام آباد بھی اس کی زد میں ہیں۔ اس کی اصل بنیاد اور محرک افغانستان پر امریکا کی فوج کشی اور دنیا بھر میں مسلمانوں اور مسلمان ایشوز کے سلسلے میں امریکا کی پالیسیاں ہیں جن کے نتیجے میں مسلمان علاقے غیروں کے قبضے میں ہیں اور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے۔ نیز اُن کو ریاست کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد اس نوعیت کی دہشت گردی میں کمیت اور کیفیت ہردو اعتبار سے بے محابا اضافہ ہوا ہے اور اس وقت دہشت گردی کی یہی وہ شکل ہے جس سے فاٹا، باجوڑ اور سوات وغیرہ میں فوج کو سابقہ درپیش ہے۔ بلاشبہہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں، خصوصیت سے کرم ایجنسی میں۔ بلوچستان میں بالخصوص علاقائی اور نیم قومی بنیادوں پر تصادم نے دہشت گردی کی شکل اختیار کرلی ہے، جہاں حکومت نے فوج کشی کر کے شہری آبادیوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور محبِ وطن عناصر کو تشدد اور علیحدگی پسندی کی آگ میں جھونک دیا ہے۔
ہم اس بحث سے جو نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں وہ حکمت عملی کا یہ سقم ہے کہ ہرہرنوعیت کی دہشت گردی کا صحیح صحیح تعین کر کے ہر ایک کے لیے اس کے مزاج، نوعیت، مسائل اور اصلاحِ احوال کے حوالے سے واضح حکمت عملی تیار نہیں کی گئی بلکہ سب کو ایک عمومی عنوان کے تحت گڈمڈ کردیا گیا ہے۔ اس کا علاج فوج کشی اور حکومت کی نام نہاد عمل داری (writ) کے قیام کے لیے قوت کے بے محابا استعمال کو قرار دے دیا گیا ہے جس کے تباہ کن نتائج رونما ہو رہے ہیں۔
اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ نہ مرض کی صحیح تشخیص کی گئی، نہ مختلف امراض کا الگ الگ تعین ہوا، نہ مریض کے مزاج اور کیفیت کا مطالعہ کیا گیا۔ بس امریکا کے ایک حکم پر اس علاقے کے امن کو تباہ کیا گیا، اسامہ بن لادن اور مُلا عمر تو صرف عنوان تھے، اصل مقصد افغانستان اور عراق پر قبضہ اور اس پورے علاقے کے سیاسی نقشے کی تشکیلِ نو تھی اور جنرل مشرف اور ان کے ساتھیوں نے ایک ایسی جنگ میں اپنے ملک کو جھونک دیا جس کا ہم سے کوئی تعلق نہ تھا حتیٰ کہ نائن الیون کے کرداروں میں کسی سے دُور و نزدیک کسی پاکستانی کا کوئی ہاتھ نہ تھا۔ مگر اس پرائی جنگ کو پہلے ہم نے اپنی جنگ بنایا اور پھر ملک کی فوجوں کو اپنی ہی قوم کے خلاف صف آرا کردیا۔ ۲۰۰۴ء سے پہلے کوئی ایک حملہ پاکستانی فوج یا کسی پاکستانی قومی اثاثے پر نہیں ہوا مگر جب ہماری فوجوں نے اپنے ہی شہریوں پر بم باری اور معصوم جانوں کے اتلاف، علاقوں کی مسماری، سیکڑوں افراد کے جبری اغوا اور ہزاروں کی گرفتاری کا راستہ اختیار کیا تو دوسری طرف سے بھی دہشت گردی کا طوفان اُٹھا اور دونوں کے ٹکرائو کے نتیجے میں جان و مال کا مزید نقصان ہوا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اور عجیب و غریب عنصر طالبانائزیشن کے نام سے شامل کرلیا گیا اور اس کا حل بھی طالبان کا مکمل خاتمہ سمجھ لیا گیا۔ طالبان کے نقطۂ نظر سے اختلاف ہوسکتا ہے اور ہم نے بار بار کہا ہے، اس کے طریق کار یعنی جبر اور قوت کے ذریعے سے خیالات کو مسلط کرنا بھی اسلام اور حکمت عملی دونوں اعتبار سے غلط اور نقصان دہ ہے مگر طالبان کی پوری تحریک کو دہشت گرد قرار دے کر صفحۂ ہستی سے مٹانے اور بلاامتیاز ہر اس شخص اور گروہ کو ختم کرنے کی کوشش جس پر طالبان کا شبہہ ہو، صریح ظلم ہے اور دہشت گردی کی بدترین مثال ہے۔ لیکن بش اور مشرف دونوں کی پالیسیاں اسی مفروضے پر مبنی تھیں کہ طالبان، اور ان کی پیداکردہ دہشت گردی کو نیست و نابود کرنا ان کی پالیسی کا اصل ہدف ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ فطری طور پر یہ نکلا کہ طالبان کی تحریکِ مزاحمت (جس کا اصل مقصد بیرونی تسلط سے نجات تھا) اور بھی قوی ہوئی۔ ۲۰۰۳ء میں بش نے اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں مکمل امن قائم کردیا ہے اور طالبان مفقود ہوگئے ہیں (have been eliminated)۔ اس ’کامیابی‘ کے بعد بش صاحب نے عراق پر یلغار کی مگر حقیقت یہ ہے کہ ۲۰۰۴ء کے بعد طالبان کی قوت میں مسلسل اضافہ ہوا اور آج برطانیہ، ناٹو بلکہ خود امریکا ان سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہو رہا ہے مگر پاکستان پر یہی دبائو ہے کہ کسی نام نہاد دہشت پسند گروہ سے بات چیت نہ کرو اور مذاکرات کی جب کوشش کی گئی اسے امریکا نے سیاسی یا عسکری مداخلت کر کے سبوتاژ کردیا۔ اب امریکی نائب وزیرخارجہ بائوچر صاحب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر اسلام آباد آکر یہی فرمان جاری کرگئے ہیں کہ مذاکرات کی گنجایش نہیں۔
پھر اس سلسلے میں ایک اسٹرے ٹیجک حماقت یہ کی گئی ہے کہ القاعدہ، افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کو ایک وحدت سمجھ کر تینوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے فلسفے کے تحت دشمن خیال کر کے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور بش صاحب کے ساتھ زرداری صاحب اور رحمن ملک یہی فتویٰ دے رہے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تینوں الگ ہیں اور ان کے مقاصد، طریق کار، اہداف، زیرمعاملہ مسائل (bargaining issues) مختلف ہیں۔ اول تو یہ ایک نہیں، اور اگر ایک ہوتے ہیں جب بھی حکمت عملی کا تقاضا یہی تھا کہ ان میں فاصلہ رکھا جاتا، پیدا کیا جاتا، اور الگ الگ معاملہ کرنے کی کوشش ہوتی مگر ایسی سفارت کاری اور سیاسی حکمت عملی کی توقع نہ بش سے تھی اور نہ مشرف نے اس کا کوئی عندیہ دیا اور نہ زرداری اور رحمن ملک اس کا کوئی اشارہ دے رہے ہیں۔
اس پوری پالیسی کا ایک بڑا ہی سنگین پہلو یہ ہے کہ اس میں اصل مسئلہ، یعنی امریکا کی اس علاقے میں فوج کشی اور ایک خیالی دشمن کے خلاف جنگ کو نظرانداز کرکے طرح طرح کے ’قربانی کے بکرے‘ (scape goats) تراشے گئے ہیں۔ کبھی دینی مدارس کا ہوّا دکھایا جاتا ہے، کبھی جہاد کو خطرہ بناکر پیش کیا جاتا ہے، کبھی ’انقلابی اسلام‘، کبھی ’سیاسی اسلام‘ اور کبھی ’اسلامی فاشزم‘ کی بات کی جاتی ہے۔ کبھی غربت، افلاس، بے روزگاری اور جہالت کو ساری دہشت پسندی کی وجہ بتایا جاتا ہے۔ لیکن اصل سبب، یعنی امریکا اور مغربی ممالک کی پالیسیاں، دوسروں کے حقوق اور وسائل پر غاصبانہ قبضے اور اپنے مقاصد اور مفادات کے لیے عسکری، سیاسی اور معاشی قوت کے بے دریغ استعمال پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔ حالانکہ اب تو ان تمام مغالطوں کا پردہ خود مغربی محققین اور تجزیہ نگار کھلے بندوںچاک کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم صرف ایک مشہور امریکی ماہر اقتصادیات پروفیسر کرَگر (Kruggar) کی تازہ ترین کتاب سے اس کی کئی برسوں پر پھیلی ہوئی اعدادوشمار پر مبنی تحقیق کے نتائج پیش کرتے ہیں اور جو صاف اشارہ کر رہے ہیں کہ جب تک امریکا اور مغربی اقوام کی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی نہیں آتی، ظلم کے اس نظام کی مزاحمت کی تحریکوں سے نجات ممکن نہیں، یہ قوت سے نہیں دبائی جاسکتیں۔ مسئلے کا حل سیاسی اور معاشی ہے اور عدل وا نصاف کی روش کو اختیار کیے بغیر ظلم کے خلاف مسلح مزاحمت ختم نہیں ہوسکتی:
دہشت گردی کے اقدامات کا الزام معاشی حالات یا تعلیم کی کمی پر ڈالنے میں ایک مخصوص سطحی اپیل ہونے کے باوجود اس امر کے لیے متفقہ شہادت موجود ہے کہ مادی آسایشوں سے محرومی یا ناکافی تعلیم کو دہشت گردی کی حمایت یا دہشت گردانہ سرگرمیوں میں شرکت کی ایک اہم وجہ کی حیثیت سے مسترد کردیا جائے۔ دہشت گردی کے مقبول عام اسباب ___ غربت، تعلیم کی کمی، یا یہ نعرہ کہ ’’وہ ہمارے طرزِحیات یا آزادی سے نفرت کرتے ہیں‘‘___ کی سرے سے کوئی باقاعدہ، عملی یا تجرباتی (empirical) بنیاد نہیں ہے۔ (ص ۲)
متعدد اداراتی اور سرکاری مطالعوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گرد غریبوں کی صفوں میں سے آنے کے بجاے اعلیٰ تعلیم یافتہ، متوسط طبقے، یا زیادہ آمدنی والے طبقے سے آرہے ہیں۔ جن لوگوں نے مشاہداتی اور تجرباتی بنیادوں پر سنجیدگی سے اس مسئلے کا مطالعہ کیا ہے، ان کے درمیان اس پر کوئی بحث نہیں ہے کہ غربت کا دہشت گردی سے کوئی تعلق ہے۔ (ص ۳)
زیادہ تر دہشت گردوں کے لیے ذاتی مادی مفاد محرک نہیں ہوتا۔ اگر ایسی صورت ہو تو آپ خودکش مشنوں کے لیے رضاکاروں کی کثرت کا کیا سبب بیان کریں گے؟ اس کے بجاے، دہشت گردوں کا اصل محرک وہ سیاسی مقاصد ہوتے ہیں جن کے بارے میں انھیں یقین ہوتا ہے کہ ان کی کارروائیوں سے ان مقاصد کو تقویت ملتی ہے۔ (ص ۴)
دہشت گرد اس لیے نہیں بڑھ بڑھ کر وار کر رہے ہیں کہ وہ بے حد غریب ہیں۔ وہ تو علاقے کے سیاسی(geopolitical) مسائل پر اپنا ردعمل دے رہے ہیں۔ دہشت گردوں کے محرکات کا غلط تصور ہمیں مسئلے کے حقیقی اسباب سے نمٹنے سے روک سکتا ہے۔ (ص۴)
میں یقین رکھتا ہوں کہ مغرب کے لیے یہ اندازہ نہ کرنا کہ ہماری پالیسیاں منفی یا پُرتشدد نتائج تک لے جاسکتی ہیں غلط ہوگا۔(ص ۵)
(What Makes a Terrorist: Economics and The Roots of Terrorism, by Alan B. Kruggar, (Professor of Economics and Public Policy, Princeton University), Princeton University Press, 2007, pp 2)
ان حالات میں صدر زرداری نے جس طرح بش اور مشرف کی پالیسیوں کو بدستور جاری رکھا ہے وہ پاکستان کی سلامتی، اس کے استحکام بلکہ اس کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ جب امریکا اور یورپ کے دانش ور اور تجزیہ نگار پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ افغانستان، عراق اور ساری دنیا میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ ناکام ہوچکی ہے اور مسئلے کے سیاسی حل کے لیے، تصادم میں مصروف تمام قوتوں سے مذاکرات کے سوا کوئی راستہ نہیں، بش اور زرداری صاحب وہی پرانی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ پاکستانی فوج روزانہ معصوم انسانوں کا خون بہا رہی ہے اور امریکی اور ناٹو افواج افغانستان تک ہی نہیں خود پاکستان کی سرزمین میں آگ اور خون کی بارش برسا رہی ہیں اور حکومت کا یہ حال ہے کہ ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم!
اس سات سالہ جنگ کا اگر جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ پوری دنیا میں تشدد، دہشت گردی اور عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ہے اور مہذب دنیا نے اجتماعی زندگی کے لیے جو اصول صدیوں کی محنت اور قربانی سے وضع کیے تھے، وہ پامال ہو رہے ہیں۔ چنانچہ ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے اس جنگ میں شرکت سے جو نقصانات اٹھائے ہیں ان کا مختصراً ذکر کردیں:
۱- ملک بھر میں امن و امان اور جان و مال کے تحفظ کی پامالی اور ہر طرف عدمِ تحفظ کا سماں ہے۔ جو شخص بھی صبح گھر سے نکلتا ہے اس کے صحیح سلامت شام کو گھر واپس آنے کا اطمینان باقی نہیں رہا ہے۔ جو شمالی علاقہ جات کبھی امن کا گہوارا تھے، وہ جنگ و جدال اور بدامنی اور عدمِ تحفظ کی بدترین تصویر پیش کر رہے ہیں۔ جہاں کبھی پاکستان کی افواج کا عزت و احترام سے استقبال کیا جاتا تھا، وہاں ان کے بالمقابل صف آرا افواج اور قبائلی سلسلے ایک دوسرے کو نشانہ بنارہے ہیں اور تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق صرف ان علاقوں میں ۱۴۰۰ سے زیادہ فوجی جوان اور افسر جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں اور ۳۵۰۰ سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں، جب کہ قبائل کے بارے میں اندازہ ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۲ہزار سے زیادہ ہے اور زخمیوں کی تعداد بھی ۲ہزار کے لگ بھگ ہے۔ اسی طرح مختلف اندازوں کے مطابق ۵ سے ۱۰ہزار عام شہری زندگی سے محروم ہوچکے ہیں۔ جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اب تک اس علاقے کے ۴لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ وہ سب دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ نہ ان کے رہنے کا انتظام ہے نہ خوراک کا بندوبست ہے اور نہ دوا دارو کی سہولت ہی میسر ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ جو حقیقی معاشی نقصان ملک کی آبادی کو ہوا ہے جس میں جنگ کے اخراجات کے علاوہ مادی نقصانات اور معیشت پر بلاواسطہ اور بالواسطہ اثرات شامل ہیں۔ نقصان کی یہ رقم سرکاری اندازوں کے مطابق ۱ئ۲ کھرب روپے ہے جو تقریباً دو سال کے مجموعی بجٹ کے برابر ہے۔ اس کے برعکس امریکا نے جو نام نہاد مدد دی ہے وہ ۱۱ بلین ڈالر ہے۔ اور اس کا ایک حصہ خود اس کے اپنے افراد اور اداروں پر خرچ ہوا ہے۔ گویا اس سے تین گنا زیادہ نقصان ملک کی معیشت کو ہوچکا ہے___ رہا انسانی جانوں کا نقصان تو اس کی قیمت تو لگائی ہی نہیں جاسکتی۔
۲- اس جسمانی، مادی اور معاشی نقصان کے ساتھ سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ملک کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری دائو پر لگ گئی ہے۔ ملک کی قیادت کو خود اپنی پالیسیوں پر کوئی اختیار نہیں۔ امریکا ہماری سیاست اور معیشت کی اس طرح صورت گری کر رہا ہے جس طرح برطانوی دور میں برطانیہ کا وائسرائے کیا کرتا تھا۔ امریکا کی سیاسی اور فوجی قیادت نچلی سطح تک حکمرانی اور مداخلت کا ارتکاب کر رہی ہے، حتیٰ کہ سیاسی قیادت کا انتخاب بھی واشنگٹن میں ہوتا ہے۔ دوسری طرف ہماری سرحدات غیرمحفوظ ہیں۔ امریکی اور ناٹو افواج روزو شب ہماری ہوائی اور زمینی حدود کی خلاف ورزی کر رہی ہیں اور ان کا ہاتھ روکنے اور جوابی کارروائی کرنے کی کسی میں ہمت نہیں۔
گذشتہ تین سال میں ۶۷ بار امریکی ناٹو افواج نے پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرکے سیکڑوں افراد کو ہلاک کیا ہے۔ ان ۶۷ میں سے ۳۶ واقعات مشرف کے دور میں ۲۰۰۶ء سے ۲۰۰۸ء تک ہوئے، جب کہ موجودہ حکومت کے دور میں مارچ ۲۰۰۸ء سے اکتوبر۲۰۰۸ء تک ۳۱ واقعات ہوچکے ہیں اور ہماری آنکھیں اب بھی نہیں کھل رہیں۔
۳- ۲۰۰۱ء سے پہلے افغانستان میں ایک ایسی حکومت تھی جو پاکستان کی بہترین دوست تھی۔ کوئی شکایت پاکستان کو ان سے اور ان کو پاکستان سے نہیں تھی بلکہ گذشتہ ۶۱سال میں افغانستان کی مختلف حکومتوں کا رویّہ پاکستان سے دوستانہ نہیں رہا۔ صرف ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۱ء تک ایسے تعلقات تھے کہ کسی کو کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس جب امریکا نے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں فوج کشی کی ہے اور مشرف صاحب نے علانیہ طور پر کہا تھا کہ ہمیں ضمانت دی گئی ہے کہ یہ فوجی ایکشن بہت کم وقت کے لیے ہوگا اور ہدف بھی بہت متعین ہوگا (short and targeted)۔ نیز یہ ضمانت بھی دی گئی ہے کہ شمالی افغانستان کے پاکستان مخالف عناصر کو کوئی کردار نہیں دیا جائے گا___ مگر ہوا کیا؟ شمالی افغانستان کے عناصر کی طرف سے جتنی پاکستان مخالفت اس دور میں ہوئی ہے اور پاکستان کے خلاف جو شعلہ بیانی اور عملی اقدامات اس دور میں کیے جارہے ہیں اور پھر اسی زمانے میں بھارت کو افغانستان میں جو پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور جس طرح وہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے، اس کی کوئی نظیر ماضی میں نہیں ملتی___ یہ ہے مشرف کی افغان پالیسی کا ماحصل!
۴- کہا گیا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ رہیں گے اور انھیں کوئی خطرہ نہیں ہوگا اور پاکستان کی کشمیر پالیسی کی نہ صرف حفاظت ہوگی بلکہ اس مسئلے کا نہ صرف حل بہت جلد سامنے آجائے گا بلکہ امریکا اس میں اہم کردار ادا کرے گا۔ لیکن ہوا کیا؟ اس زمانے میں نہ صرف ایٹمی اثاثوں کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہوئے ہیں اور ہیں اور پاکستان کو ایٹمی پھیلائو کے حوالے سے بلیک میل کرنے کی جو عالمی مہم چلی، اس نے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ نیز کشمیر پر صاف لال جھنڈی دکھا دی گئی اور مشرف اور زرداری دونوں اس سطح تک گر گئے کہ کشمیریوں کے جہاد کو بھی ’دہشت گردی‘ قرار دینے لگے اور جو عظیم تحریکِ مزاحمت اور آزادی وہاں برپا ہے، اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کا کام اس قیادت نے انجام دے کر وہاں کے عوام کو پاکستان کی طرف سے مایوسی کی دلدل میں دھکیل کر پاکستان کے اہم ترین اسٹرے ٹیجک مفادات پر ضربِ کاری لگائی___ یہ ہیں اس پالیسی کے چند منفی اور تباہ کن اثرات۔
بات بہت واضح ہے۔ دہشت گردی کے خلاف یہ ساری جنگ ایک گھنائونا سامراجی کھیل ہے اور جب تک ہم اس جنگ کے دست کش ہوکر اپنا راستہ الگ نہیں نکالتے، ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکتے۔ اس کے لیے آزاد خارجہ پالیسی اور سلامتی کے ایک مختلف مثالیے کی ضرورت ہے۔ پالیسیوں میں تسلسل نہیں، تبدیلی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور اس ادراک کے ساتھ کہ ہماری منزل، ہمارے مقاصد اور اہداف کیا ہیں اور کس طرح وہ امریکا اور سامراجی طاقتوں کے مقاصد اور اہداف سے مختلف ہیں۔ رخ کی تبدیلی پہلی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان کی آزادی، حاکمیت، سلامتی، عزت و وقار اور مفادات کا تحفظ اصل مقصود ہے۔ امریکا کی جنگ سے قطعی علیحدگی (de-linkage) اس کا فوری تقاضا ہے۔ ہم اپنے اندرونی مسائل کا حل نکال سکتے ہیں لیکن جب تک افغانستان پر امریکی قبضہ رہے گا، پورے علاقے میں شورش اور عدم استحکام باقی رہے گا۔ اس جنگ کا حصہ بن کر ہم کبھی بھی اس دلدل سے نہیں نکل سکتے، اس لیے پہلی ضرورت قطعی علیحدگی، خود اپنی سلامتی کی حکمت عملی کا ادراک اور آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل ہے۔
دوسری ضرورت قوم کو اعتماد میں لینے کی ہے۔ تمام حقائق قوم اور پارلیمنٹ کے سامنے آنے چاہییں۔ جو معاہدات امریکا سے ہوئے ہیں وہ سامنے آنے چاہییں اور ان پر فوری نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ ہم امریکا کی گرفت سے نکل کر خودانحصاری کی بنیاد پر اپنی پالیسی بناسکیں اور ملک کو قوم کی تمنائوں اور آرزوئوں کے مطابق ترقی و استحکام کی راہ پر گامزن کرسکیں۔ دھوکے اور کہہ مکرنیوں سے کچھ حاصل نہیں۔ سچ اور حقائق کی بنیاد پر پالیسی سازی میں ہی قوم کی نجات ہے۔
تیسری بنیادی بات یہ ہے کہ جو بھی اندرونی مسائل ہیں، خصوصیت سے دہشت گردی اور تصادم کی وہ کیفیت جو اس وقت شمالی علاقہ جات میں پائی جاتی ہے اور سارے ملک کو متاثر کر رہی ہے، اس کا حل محض طاقت کا استعمال نہیں۔ فوجی حل ایک خام خیالی اور تباہی کا راستہ ہے۔ برطانیہ، روس، امریکا کوئی بھی اس علاقے میں فوجی قوت سے مسائل کو حل نہیں کرسکا۔ اس کا واحد راستہ سیاسی گفت و شنید، مفاہمت کے روایتی طریقوں کا استعمال اور مذاکرات کے ذریعے انصاف اور دستور و قانون کی بالادستی کے حصول کے لیے سیاسی حل ہے۔ اس کے لیے معاملے کے سب فریقوں کو شریک کرنا اور افہام و تفہیم کے ذریعے اعتدال کی راہ کا حصول اور سیاسی معاہدہ اور انتظامی دروبست ضروری ہے۔ اس کے سوا کوئی راستہ امن و آشتی، صلح و صفائی اور اچھی حکمرانی اور خوش حالی کا راستہ نہیں۔
یہ وہ تین بنیادیں ہیں جن سے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور پارلیمنٹ کی یہ ذمہ داری ہے کہ حکومت کو مجبور کرے کہ اس فریم ورک میں مسائل کا حل تلاش کرے۔
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ۸ اکتوبر کو شروع ہوا اور ۲۲ کو ختم ہوا۔ ایک ۱۶ رکنی کمیٹی نے ۹گھنٹے کے بحث و مباحثے کے بعد ایک متفقہ قرارداد منظور کی جو ایک تاریخی اقدام ہے۔ پارلیمنٹ نے ۱۹۷۴ء میں قادیانی مسئلے پر ایک تاریخی فیصلہ کیا تھا اور اب ۲۰۰۸ء میں قومی سلامتی کے مسئلے پر ایک مثبت اقدام کیا ہے۔ یہ صرف ایک آغاز ہے لیکن اس میں یہ امکانات مضمر ہیں کہ سلامتی اور خارجہ پالیسی کا رخ تبدیل ہوجائے___اور امریکا اور مشرف کی پالیسیوں کے چنگل سے ملک و قوم نکل سکیں۔ اس قرارداد کی قوت یہ ہے کہ یہ متفق علیہ ہے اور اس کا رخ درست ہے، لیکن اس کی کمزوری یہ ہے کہ بڑے اہم معاملات اشاروں میں بیان کیے گئے ہیں اور الفاظ کے انتخاب میں بھی بہت سی نزاکتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
اس کے درج ذیل پہلو اہم ہیں اور تبدیلی کے رخ کی نشان دہی کرتے ہیں لیکن اس قرارداد، اس میں طے کردہ اصول اور بیان کردہ نقشۂ راہ کا اصل امتحان اس پر عمل درآمد ہے۔ اگر حکومت دیانت داری سے اس پر عمل کرتی ہے تو ایک روشن مستقبل کے امکانات موجود ہیں۔
۱- اس اعلامیے میں یہ پیغام واضح طور پر موجود ہے کہ پارلیمنٹ اور قوم مشرف کی پالیسیوں کو جاری رکھنے کے حق میں نہیں ہے۔ اس پالیسی کو تبدیل کرنا ناگزیر ہے اور یہ حکومت اور پارلیمنٹ کا امتحان ہے کہ وہ متفقہ قرارداد میں دیے گئے اصولوں اور لائحہ عمل کے مطابق بنیادی تبدیلی لانے کے لیے اقدامات کو یقینی بنائے۔
۲- پارلیمنٹ نے ایک آزاد خارجہ پالیسی کی خواہش ظاہر کی ہے اور ملکی سلامتی سے متعلق حکمت عملی پر فوری نظرثانی اور دہشت گردی کے خلاف جاری امریکی جنگ میں پاکستان کی شمولیت کو نئے تناظر میں دیکھنے اور اسے تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ درحقیقت پارلیمنٹ نے مستقبل کی پالیسی کی سمت متعین کردی ہے۔ اب یہ حکومت کا فرض ہے کہ عوامی نمایندوں کی تجاویز کو عملی جامہ پہنائے اور ملک کو اس تباہ کن صورت حال سے نکالے جن کا سبب پرویز مشرف کی اختیار کردہ پالیسیاں اور ان کا تسلسل ہے۔
۳- پارلیمنٹ نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ طاقت کا استعمال اور مذاکرات بیک وقت نہیں ہوسکتے۔ قرارداد میں زور دے کر یہ بات کہی گئی ہے کہ اس وقت مذاکرات ہی مسائل کے حل کی اصل راہ ہیں اور تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ دیرپا امن، افہام و تفہیم اور مذاکرات سے ہی حاصل کیاجاسکتا ہے۔ فوجی کارروائی، مذاکرات اور ترقی کی تین نکاتی حکمت عملی کو پارلیمان نے دو نکات یعنی ترقی اور مذاکرات تک محدود کردیا ہے۔ فوجی کارروائی کو چودہ نکاتی لائحہ عمل سے یکسر خارج کردیا گیا ہے، تاہم قانون کی بالادستی، دستور اور انصاف کے اصولوں کے احترام کو یقینی بناکر حکومتی عمل داری ضرور قائم کی جانی چاہیے۔
۴- قرارداد میں نہایت واضح انداز میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ مسلح افواج کو متاثرہ علاقوں سے واپس بلا لیا جائے اور جس قدر جلد ممکن ہو جرگے اور ایف سی کے ذریعے امن کی بحالی کا روایتی طریقہ اپنایا جائے۔
۵- پارلیمنٹ نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ دہشت گردی کو اس کی وجوہات ختم کیے بغیر کم نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے پارلیمنٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام متعلقہ فریقوں کو امن کے عمل میں شامل کر کے دہشت گردی کی اصل وجوہات کو ختم کرنے کی طرف توجہ دی جائے۔
۶- متفقہ قرارداد میں صرف تجاویز پیش کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اعلامیے میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایک پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے متفقہ قرارداد میں بیان کردہ اصولوں اور پالیسی کے رہنما خطوط کے مطابق عمل درآمد کا جائزہ لیا جائے۔
اس قرارداد میں امریکا اور دیگر یورپی ممالک کے لیے بھی ایک کھلا پیغام ہے کہ پاکستانی قوم اپنے ملک اور خطے میں امن و آشتی کی خواہاں ہے، تاہم غیرملکی فوجوں کی طرف سے ملکی سرحدات کی پامالی کو ہرگز برداشت نہیں کرے گی اور نہ قوم سابقہ حکومت کی شروع کردہ پسپائی اور بزدلی پر مبنی پالیسی کو جاری رکھنے پر تیار ہے۔ یہ جنگ ہماری جنگ نہیں ہے، بلکہ یہ ہم پر مسلط کی گئی ہے۔ بلاشبہہ ہمیں جنگ جیسی صورت حال کا سامنا ہے اور قوم اس صورت حال کو اپنی تیار کردہ حکمت عملی کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے نہ کہ دبائو، جبر اور معاشی بلیک میلنگ کے ذریعے مسلط کردہ بیرونی پالیسی کے ذریعے۔
متفقہ قرارداد یہ بھی واضح کرتی ہے کہ فاٹا، باجوڑ اور سوات میں پیدا ہونے والی صورت حال افغانستان پر امریکی قبضے کا شاخسانہ ہے، تاہم فرقہ وارانہ اور علاقائی تعصب کی بنا پر جاری دہشت گردی کو ان کی نوعیت کے مطابق حل کیا جانا ضروری ہے۔ اسی طرح موجودہ صورت حال سے فائدہ اٹھا کر جرائم میں ملوث عناصر سے بھی سختی سے اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق نبٹا جائے اور پھر سیاسی مسائل کو سیاسی عمل کے ذریعے حل کیا جائے اور عوام کے اصل مسائل کو انصاف اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے دُور کیا جائے۔
اس قرارداد میں جناب آصف علی زرداری کے لیے بھی ایک کھلا پیغام ہے۔ اب پارلیمنٹ نے پالیسی کا رخ متعین کردیا ہے اور وہ بھی اس کے پابند ہیں۔ وہ جو گل افشانیاں فرماتے رہے ہیں، اب ان کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ پارلیمنٹ نے قوم کی آواز کو پالیسی کے خطوطِ کار اور ایک نقشۂ کار کی شکل میں متفقہ طور پر طے کردیا ہے۔ صدر اور فوج اس پالیسی کے تابع ہیں اور کسی کو بھی خواہ وہ ایوانِ صدر میں مقیم ہو یا سرحدپار سے مداخلت کی صلاحیت رکھتا ہو، اسے سبوتاژ کرنے کا اختیار نہیں۔ لفظی و معنوی دونوں اعتبار سے اس پالیسی کے نفاذ کو یقینی بنانا ناگزیر ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر نیک نیتی سے قوم کو اعتماد میں لیا جائے اور اس کی تائید و عملی شراکت سے اس سمت میں پیشِ رفت کی جائے تو حالات جلد تبدیل ہوسکتے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہماری نظر میں جناب آصف علی زرداری پاکستان کی صدارت کے لیے بوجوہ مناسب امیدوار نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کے ارکان سینیٹ نے جناب سعیدالزماں صدیقی صاحب کو اپنے ووٹوں کا حق دار سمجھا۔ لیکن جب انتخابی ادارے کی اکثریت نے زرداری صاحب کو صدر منتخب کرلیا تو ہم نے کھلے دل سے اس نتیجے کو قبول کیا اور ان کو کامیابی پر روایتی مبارک باد دی۔ ہم نے کہا کہ اگر وہ دستور اور قانون کے مطابق اور ان معاہدوں اور وعدوں کے مطابق کام کرتے ہیں جو انھوں نے پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے قوم کے ساتھ کیے ہیں، خاص طور پر ناجائز طور پر معزول کیے جانے والے ججوں کی بحالی اور دستور کی اس شکل میں بحالی جو ۱۲ کتوبر۱۹۹۹ء کو تھی اور جس کا عہدوپیمان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے میثاقِ جمہوریت (مئی ۲۰۰۶ئ) میں کیا ہے، توہم ان کی غیرمشروط معاونت کریں گے اور ہمارے خیرخواہانہ جذبات ان کے لیے ہوں گے۔
جنرل مشرف کے استعفے اور زرداری صاحب کے حلفِ صدارت کے بعد پارلیمنٹ ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے مطابق مکمل ہوگئی اور ملک نے آمریت سے جمہوریت اور شخصی اقتدار سے دستور اور قانون کی حکمرانی کی طرف اپنے سفر کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ اب نئی حکومت خاص طور پر پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت، اور پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا امتحان ہے کہ وہ ۹سالہ آمرانہ دور کے طورطریقوں، روایات اور طریق حکمرانی سے کتنی جلد قوم کو نجات دلاتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے مطابق ایک حقیقی اسلامی، پارلیمانی، وفاقی اور فلاحی جمہوریت کے قیام کی طرف کس تیزی سے پیش رفت کرتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے اور اسی میں ان کا اصل امتحان ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ اس موقع پر ملک کو درپیش چیلنجوں کو دو اور دو چار کی طرح پیش کردیں دوٹوک انداز میں پیپلزپارٹی کی قیادت کے سامنے بھی رکھ دیں کہ قوم کو ان سے کیا توقعات ہیں۔ ہمارے نزدیک اصل ذمہ داری اور امتحان پیپلزپارٹی کا ہے جسے مرکز اور تین صوبوں میں مکمل اقتدار حاصل ہے، جس نے اپنے اصرار پر صدر، وزیراعظم، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، صوبوں کے گورنر اور دو صوبوں میں اپنی مرضی کے وزراے اعلیٰ منتخب کرائے ہیں اور اپنی پارلیمانی حیثیت سے بڑھ کر ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔ مخلوط حکومت صرف ایک عنوان ہے، اصل اختیار اور اصل امتحان پیپلزپارٹی کا ہے اور شریکِ اقتدار جماعتوں نے بھی پیپلزپارٹی ہی کو فیصلہ کن کردار سونپا ہے۔
۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتائج کا اگر تجزیہ کیا جائے تو تین باتیں سامنے آتی ہیں جن کو ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے۔
اوّل: عوام نے پرویز مشرف اور ان کے سیاسی حلیفوں کو یکسر مسترد کیا جس کا منطقی تقاضا تھا کہ پرویز مشرف کو اقتدار سے فی الفور فارغ کیا جائے اور اس پوری قیادت اور ٹیم سے نجات حاصل کی جائے جو ان کے دور میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھی۔ ان انتخابات میں عوام نے مستقبل میں فوج کے سیاسی کردار کو بھی دوٹوک انداز میں طے کردیا اور بظاہر فوج کی نئی قیادت نے بھی عوام کے اس فیصلے کو قبول کرتے ہوئے سول نظام کے تحت کام کرنے اور سیاسی عزائم کا راستہ ترک کرنے کا اعلان کر کے عوام کے اس مینڈیٹ کو قبول کرلیا۔
دوم: عوام نے صرف پرویز مشرف ہی کو مسترد نہیں کیا بلکہ ان کی پالیسیوں کو بھی رد کیا اور اس انتخاب میں دیے گئے عوامی مینڈیٹ کا، جس کی تائید اس دور کے راے عامہ کے تمام سروے بھی کرتے ہیں، واضح تقاضا یہ ہے کہ قوم آمریت کی جگہ جمہوریت، شخصی اقتدار کی جگہ دستور اور قانون کی حکمرانی، خارجہ پالیسی اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باب میں امریکا کی کاسہ لیسی ترک کر کے آزاد اور پاکستانی مفادات پر مبنی پالیسی اختیار کرے۔ اسی طرح کشمیر کے سلسلے میں، ملک کی نظریاتی شناخت اور کردار کے باب میں، اور معاشی اور مالیاتی میدانوں میں مشرف کی پالیسیوں کی جگہ ہم نئی پالیسیوں کے خواہش مند ہیں جو عوام کی خواہشات اور حقیقی ضروریات کے مطابق اور ملک و قوم کے مقاصد کے حصول اور مفادات کے تحفظ کا ذریعہ بنیں۔ انتخاب کا پیغام پالیسیوں میں تسلسل نہیں، تبدیلی اور بنیادی تبدیلی کا تھا اور ہے۔
سوم: ان انتخابی نتائج کا یہ پہلو بہت واضح ہے کہ عوام نے کسی ایک پارٹی کو حکمرانی کا مکمل اختیار نہیں دیا۔ پیپلزپارٹی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے ضرور سامنے آئی مگر اسے ۳۰فی صد ووٹ اور اسمبلی میں ۳۳ فی صد نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ وہ اقتدار پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے بجاے حقیقی شرکتِ اقتدار کا راستہ اختیار کرے اور اولین توجہ ان مشترک مقاصد اور اہداف کو دے جو تمام جماعتوں اور خصوصیت سے دو بڑی جماعتوں کے منشور اور عوامی وعدوں میں مرکزی اہمیت رکھتے ہیں۔
۱- دستور کی اس شکل میں بحالی جو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو تھی، جس کا مرکزی نکتہ پارلیمانی نظام کی اپنی اصل شکل میں بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی اور وزیراعظم اور کابینہ کو ان اختیارات کی منتقلی ہے جو آمرانہ دور میں صدر نے حاصل کرلیے تھے بشمول ۵۸ (۲) بی کی تنسیخ اور سربراہانِ فوج اور گورنروں کے تقرر کے اختیارات۔
۲- عدلیہ کی مکمل آزادی اور ججوں کی تقرری اور معزولی کا ایسا نظام جو شفاف ہو۔
۳- دستور کے فریم ورک میں ایک دوسرے کے لیے ’جیو اور جینے دو‘ کے اصول پر حکمرانی کے اصول و آداب کا احترم اور کسی فوجی آمر کا ساتھ نہ دینے کا عہد۔
۴- انتقام کی سیاست کا خاتمہ اور احتساب کے ایک ایسے نظام کا قیام جو بے لاگ ہو، قابلِ اعتماد ہو اور شفاف ہو۔
۵- آزاد الیکشن کمیشن کا قیام۔
۶- وزیراعظم اور وزراے اعلیٰ پر دو مدت کی تحدید کا خاتمہ۔
۷- کارگل کے سانحے کی آزاد کمیشن سے تحقیق۔
۸- قومی سلامتی کونسل کا خاتمہ اور کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا احیا۔
۱- ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے غیردستوری اور ہراعتبار سے ناجائز اقدام کی مذمت اور اس کے تحت نئے ہونے والے اقدامات کی تنسیخ___ خصوصیت سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے معزول ججوں کی ۳نومبر ۲۰۰۷ء کی پوزیشن میںبحالی۔
۲- ملک کو جس معاشی اور توانائی کے بحران میں مبتلاکردیا گیا ہے اس سے نجات کی مؤثر کوشش اور عوام کو ریلیف دینے کا اہتمام۔
۳- ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکی جنگ اور پرویز مشرف کے کردار نے جو تباہ کن صورت حال پیدا کردی ہے، اس سے نجات کی منصوبہ بندی اور پاکستان کے مفادات کی روشنی میں قوت کے استعمال کی جگہ افہام و تفہیم سے سیاسی حل کی کوشش۔
۴- بلوچستان اور ملک کے دوسرے علاقوں میں آپریشن جاری ہیں۔ ان کا حاصل تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ ان کو فی الفور بند کر کے سیاسی مسائل کا سیاسی حل اور صوبوں کی محرومیوں کے ازالے کی قرارواقعی کوشش اور اس کے لیے متفقہ لائحۂ عمل کی تشکیل اور اس پر عمل کا نظامِ کار۔
۵- کشمیر کے مسئلے پر پرویز مشرف نے جو قلابازیاں کھائی ہیں اور پاکستان کے متفقہ قومی موقف کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی تحریکِ مزاحمت سے یک جہتی۔
یہ وہ ۵ ایشوز ہیں جن کے حل کی طرف پیش رفت کی کسوٹی پر زرداری صاحب اور پیپلزپارٹی کی حکومت کو جانچا اور پرکھا جائے گا۔ یہی اصل چیلنج کے مختلف پہلو ہیں اور قوم یہ توقع رکھتی ہے کہ زبانی جمع خرچ، پروپیگنڈے اور نعرہ بازی کا راستہ ترک کر کے قومی اتفاق راے پیدا کیا جائے گا اور ان تمام امور کی طرف حقیقی پیش رفت پر ساری توجہ مرکوز کی جائے گی۔
۱- جن بنیادوں پر مخلوط حکومت قائم ہوئی تھی ان کے بارے میں قول اور عمل کا تضاد اتنا واضح اور نمایاں تھا کہ مخلوط حکومت کا چلنا پہلے دن سے مشتبہ تھا اور بالآخر یہی ہوا کہ مسلم لیگ (ن) کو ججوں کی بحالی کے مسئلے پر حکومت سے الگ ہونا پڑا۔
۲- وعدوں اور سیاسی عہدوپیمان کے بارے میں زرداری کا سہل انگاری کا رویہ اور یہ دعویٰ کہ سیاست میں کیے گئے معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے اور جب چاہیں ان سے نکلا جاسکتا ہے، ایک اخلاقی جرم ہے۔ اس نے پوری سیاست ہی کو غیرمعتبر بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں تمام تعلقات بے اعتبار ہو جاتے ہیں۔
۳- ان ۶ مہینوں میں حکومت اور خاص طور سے زرداری صاحب کی سوچ ’تبدیلی‘ سے زیادہ ’تسلسل‘ کی روش کا پتا دیتی ہے۔ یہ ۱۸ فروری کے مینڈیٹ سے بے وفائی کا راستہ ہے۔ ججوں کے معاملے کو جس طرح اس حکومت نے الجھایا ہے اس نے عدالت کو نظروں میں بے وقار کردیا ہے۔ مشرف نے عدلیہ کے ساتھ جو کچھ کیا، یہ اس سے کچھ بھی مختلف نہیں۔ اس نے باہر سے حملہ کرکے عدلیہ کے ادارے کو تباہ کیا اور زرداری صاحب کے نمایندۂ خاص وزیرقانون نے اندر سے سرنگ لگاکر رہی سہی کسر پوری کردی۔
۴- معاشی صورت حال بلاشبہہ ورثے میں ملی تھی اور توانائی کا بحران بھی۔ لیکن ان ۶ ماہ میں حکومت کسی مؤثر اور بنیادی پالیسی کو لانے میں یکسر ناکام رہی ہے۔ پالیسی پر اس کی گرفت نہیں اور کیفیت یہ ہے کہ ع
نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں
اسی ’تسلسل‘ کا نتیجہ ہے کہ عوام کی مشکلات اور خصوصیت سے زراعت اور صنعت، دونوں اہم شعبوں میں مسائل کا اضافہ ہوا ہے۔
۵- ان ۶ ماہ میں بلوچستان، وزیرستان، باجوڑ اور سوات میں فوجی آپریشن جاری ہیں بلکہ ان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ مسائل کا سیاسی حل نکالنے کے وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ ایک طرف پاکستانی فوج اپنے ہی شہریوں پر آگ اور خون کی بارش کر رہی ہے اور دوسری طرف امریکا اور بھی بے باک ہوکر ہماری سرحدوں کی کھلی خلاف ورزیاں کر رہا ہے اور شرپسندوں کے نام پر عام شہریوں کو بے دردی سے ہلاک کر رہا ہے۔ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۷ء تک مشرف کے دور میں امریکا نے ۳۴ بار ہماری سرحدات کی خلاف ورزی کی تو ان ۶ مہینوں میں ۲۳ بار امریکا نے حملے کیے اور ۳ستمبر ۲۰۰۸ء کا حملہ تو برملا اعلان جنگ کے مترادف تھا کہ امریکی ہیلی کاپٹروں نے پاکستانی سرحد پر اپنی فوجیں اتاریں اور عورتوں اور بچوں سمیت وہ درجنوں معصوم انسانوں کو شہید کرکے پورے طمطراق سے واپس چلے گئے ۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ سب صدربش کے واضح احکامات اور direct action in Pakistan territory(پاکستانی علاقے میں راست اقدام) کی پالیسی کے مطابق ہوا۔ ستم یہ ہے کہ جس دن ایڈمرل مولن اسلام آباد میں وزیراعظم کو یہ یقین دہانی کرا رہے تھے کہ پاکستانی حاکمیت کا احترام کیا جائے گا، اسی وقت احترام کا جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ ہیلی کاپٹروں اور بغیرپائلٹ کے جہاز، ڈرون (drone) سے حملہ تھاجس میں ایک ہی ہلے میں ۷معصوم انسان شہید ہوگئے۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں زرداری صاحب نے صدارت کی ذمہ داری سنبھالی ہے اور وزیراعظم صاحب اور خود زرداری صاحب کے چند دن پہلے کے اس اعلان کے بعد سنبھالی ہے کہ آیندہ صدر غیر جانب دار فرد ہوگا جو وفاق کی علامت ہوگا۔
بہرحال اب ہم ان کو حالات کی سنگینی کا احساس دلاتے ہوئے یہ درخواست کرتے ہیں کہ اگر وہ فی الحقیقت اس ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور اسے اپنی تاریخ کے سنگین ترین بحران سے نکالنے میں مخلص ہیں تو درج ذیل اقدام اور اعلانات کا اہتمام کریں تاکہ اُمید کے لیے بنیاد فراہم ہو۔
۱- سب سے پہلے اس امر کا اعلان کریں کہ زندگی کے ہر معاملے میں اور خصوصیت سے سیاست اور ریاست کے تمام امور میں عہدوپیمان کی مکمل پاسداری کی جائے گی۔ زندگی کا کاروبار اس اعتماد ہی پر چل سکتا ہے کہ قول و قرار کا پاس کیا جائے اور ہرعہد کو پورا کیا جائے۔
۲- زرداری صاحب مفاہمت کی سیاست کی باتیں تو بہت کرتے رہے ہیں لیکن ان کے اولین کارناموں میں اتحادی حکومت کے ایک بڑے فریق سے بدعہدی اور نتیجتاً اس کی حکومت سے علیحدگی ہے۔ اب پنجاب میں متعین جیالے گورنر کی قیادت میں جو سیاسی دنگل مرتب کیا جا رہا ہے وہ ’جیو اور جینے دو‘ والی سیاست کودفن کر دے گا۔ اس سے یقینا تصادم کی سیاست پروان چڑھے گی جو ملک کے لیے اور خود حکمرانوں کے لیے تباہ کن ہوگا۔ اس سے احتراز کیا جائے اور دستور اور قانون کے دائرے میں خود بھی رہا جائے اور دوسروں کو بھی ان کا حق دیا جائے۔
۳- زرداری صاحب کو پیپلزپارٹی کے تمام سیاسی اور انتظامی امور سے لاتعلق ہوکر صدارت کے عہدے کو پارٹی سیاست میں ملوث ہونے سے بچانا چاہیے۔ اس کے لیے شریک چیئرپرسن کے عہدے سے فوری طور پر مستعفی ہونا ضروری ہے۔
۴- زرداری صاحب نے جو ذمہ داری سنبھالی ہے، اس کا تقاضا ہے کہ اپنی ذات سے متعلق دو امور کے بارے میں وہ تمام حقائق قوم کے سامنے رکھیں اور اپنی پوزیشن واضح کریں۔ ہم ذاتی امور کے احترام اور نجی اور شخصی معاملات کے حق کے قائل ہیں لیکن جب کوئی شخص پبلک ذمہ داری قبول کرتا ہے تو پھر ذاتی زندگی کے مختلف پہلوئوں کی حساب داری بھی کرنا پڑتی ہے۔ اس لحاظ سے ضروری ہے کہ وہ اپنی بے گناہی کے ثبوت کے لیے کسی بدنامِ زمانہ این آر او کا سہارا نہ لیں بلکہ کھل کر شفاف انداز میں قوم کو اعتماد میں لیں اور میثاقِ جمہوریت میں طے کردہ اصولوں پر مبنی کوئی نظام قائم کر کے ان شکوک و شبہات کو دُور کریں جو ملک اور ملک کے باہر موجود ہیں۔
پہلی بات کا تعلق ان میڈیکل رپورٹوں سے ہے جو بار بار وہ عدالت میں حاضر نہ ہونے کے سبب کے طور پر اپنی ذمہ داری پر اپنے وکیلوں کے ذریعے بھجواتے رہے ہیں اور جو اَب انگلستان کے اخبار Financial Times میں شائع ہونے کے بعد پبلک پراپرٹی بن چکی ہیں۔ دو ہی امکانات ہیں۔اگر یہ رپورٹیں صحیح ہیں تو دستور کی واضح دفعات کی روشنی میں قوم کو یہ جاننے کا حق ہے کہ اب وہ ان عوارض سے نجات پاچکے ہیں جو ان رپورٹوں کی ترسیل کے زمانے میں ان کو لاحق تھے اور جو ایک شخص کو کسی بھی کلیدی مقام کے لیے نااہل بنا دیتے ہیں۔ اور اگر یہ رپورٹیں درست نہیں تھیں اور محض عدالت میں حاضری سے بچنے کے لیے دی گئیں تو یہ عدالت کے سامنے غلط بیانی اور دروغ حلفی کے زمرے میں آتی ہیں۔ جو سیاست اور قانون دونوں کی نگاہ میں بہت بڑا جرم ہے۔ امریکا کے دستور کے تحت تو صدرمملکت کی معزولی صرف دروغ حلفی کی بنیاد پر ہوسکتی ہے۔ یہ معاملہ محض ایک صحافتی افشاے راز کا نہیں، اس کے بڑے اہم دستوری، قانونی، سیاسی اور اخلاقی مضمرات ہیں اور زرداری صاحب کو اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
دوسرا مسئلہ ان پر مالی کرپشن، منی لانڈرنگ اور اختیارات کے غلط استعمال کا ہے۔ بلاشبہہ کسی عدالت میں الزامات ثابت نہیں ہوئے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ الزامات بظاہر بالکل بے بنیاد نہیں۔ سوئٹزرلینڈ کے پرازی کیوشن جج نے خود کہا ہے کہ الزامات میں بہت کچھ موجود ہے اور کیس کے واپس لیے جانے سے اسے بہت مایوسی ہوئی ہے۔ انٹرنیٹ پر جو تفصیلات موجود ہیں، ان کے عام ہوجانے کے بعد ضروری ہے کہ متعلقہ افراد اپنی پاک دامنی ثابت کریں۔ اس لیے بھی کہ مسل پر یہ تمام معلومات موجود ہیں کہ کتنی بار التوا کی درخواستیں زرداری صاحب اور ان کے وکلا کی طرف سے آئی ہیں اور عدالتی عمل کو مدعی اور مدعاعلیہ دونوں نے اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔
دو چیزیں ایسی ہیں جن کا جواب ضروری ہے___ سویزبنک میں ۶۰ ملین ڈالر کی رقم جس کو اب پاکستانی حکومت نے واگزار کرا دیا ہے اور جس کے فائدہ اٹھانے والے (beneficiary) زرداری صاحب ہیں، وہ کہاں سے آئی۔ یہ رقم تو ایک حقیقت ہے۔ زرداری صاحب نے اسمبلی اور سینیٹ کا ممبر بنتے وقت اپنے جن اثاثوں کا اعلان کیا تھا ان میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ انھیں قوم کو بتانا چاہیے کہ یہ رقم کہاں سے آئی اور کس طرح اس پر ان کا حق ثابت ہوتا ہے۔ دوسرا مسئلہ انگلستان کے سرے محل کا ہے۔ اس کے بارے میں زرداری صاحب نے پبلک اعلان کیا تھا کہ ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ محترمہ بے نظیرصاحبہ نے اسمبلی کے اندر اس سے اپنی اور اپنے خاندان کی برأت کا اعلان کیا تھا۔ اب زرداری صاحب اسی سرے محل کی نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ اگر ان کا اب کا دعویٰ صحیح ہے تو جو اعلان انھوں نے اور محترمہ بے نظیر صاحبہ نے اسمبلی اور سینیٹ میں کھلم کھلا کیا تھا اس کی حقیقت کیا ہے؟
لیکن معاملہ ماضی سے زیادہ مستقبل کا ہے۔ صدارت کا عہدہ ایک نازک عہدہ ہے۔ امریکا کے صدر کو بھی ذمہ داری سنبھالتے ہی اپنی تمام دولت کا اعلان کرنا ہوتا ہے اور صدارت کے دوران وہ اپنے کسی کاروباری اور آمدنی والے کام کو ہاتھ نہیں لگا سکتا بلکہ اس کی ساری دولت ولایت (wardship) کے تحت ہوتی ہے۔ زرداری صاحب کے لیے بھی باعزت طریقہ یہی ہے کہ وہ اپنی دولت کا اعلان کریں، جو رقوم پہلے اعلان نہیں کی گئیں، ان کے بارے میں ذریعۂ آمدنی بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ کس پر کتنا ٹیکس دیا گیا ہے۔ اور پھر اپنے دورِ صدارت کے لیے کاروباری معاملات سے قطع تعلق کریں۔ جب تک سیاست میں یہ روایت قائم نہیں ہوتی، ملک سے کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں۔
زرداری صاحب کو ان حالات کا جرأت سے سامنا کرنا چاہیے۔ ملک کے اندر بڑے پیمانے پر لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ بیرونی دنیا میں بھی ملک کی اور خودان کی عزت کی حفاظت کے لیے یہ ضروری ہے۔ دنیا بھر میں شائع ہونے والے مضامین اور اداریوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ۹۰ فی صد نے ان امور کا ذکر کیا ہے اور انھیں محض یہ کہہ کر ختم نہیں کیا جاسکتا کہ این آر او کے گنگاجل سے اشنان کے بعد سب پاک ہوگیا ہے۔ صرف دو اقتباس ٹائم میگزین اور اکانومسٹ سے ہم اس بات کی تائید میں پیش کر رہے ہیں کہ یہ اب مُردہ اور ختم شدہ مسئلہ (dead and closed issue)نہیں جیساکہ فاروق نائیک صاحب فرماتے ہیں بلکہ ملک کے اندر اور ملک سے باہر ایک تروتازہ اور زیرِبحث (live and under discussion) مسئلہ ہے۔ اس لیے اس کا سامنا کیجیے۔ ذاتی عزت اور قومی مفاد دونوں کا یہی تقاضا ہے۔ ٹائم لکھتا ہے:
پاکستان کی صدارت تک زرداری کے عروج کی کہانی سنڈریلا کی روایتی کہانی کی طرح معلوم ہوتی ہے جس میں مافیا کی سنسنی کا عنصر شامل ہوگیا ہے۔ زرداری کی ہمیشہ ایک چکرباز ہونے کی شہرت رہی ہے۔ بے نظیر کے دوسرے دور میں جب وہ وزیر سرمایہ کاری تھے کمیشنوں میں سے خفیہ وصولی کے اسیکنڈلوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے نے ان کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا لقب عطا کردیا تھا۔ نواز شریف اور پرویز مشرف نے ان کے خلاف منی لانڈرنگ اور کرپشن کے مقدمات برطانیہ، اسپین اور سوئٹزرلینڈ میں چلائے۔ گذشتہ برس پرویز مشرف کی ایک متنازع ایمنسٹی ڈیل کے بعد یہ تمام الزامات ختم کردیے گئے۔ زرداری کا موقف ہے کہ تمام الزامات کی بنیاد سیاسی تھی، تاہم ان کی ساکھ کے بارے میں شبہہ باقی ہے۔ زرداری کو اپنے ماضی کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات پر قابو پانا ہوگا۔
۹ستمبر کو جب زرداری صدر پاکستان کی حیثیت سے اپنا حلف اٹھا رہے تھے تو ان کے سر پر تین سایے منڈلا رہے تھے: ایک، معیشت ایک بحرانی کیفیت میں ہے، دوسرے مقامی طالبان کے خلاف جنگ کی صورت حال خراب ہے، اور تیسرے زرداری خود کو اپنی اس شہرت سے جدا نہیں کرسکے جو انھیں اپنی مرحومہ بیوی بے نظیر بھٹو کے دور میں مسٹر ٹین پرسنٹ کی ملی تھی: ایک ایسا آدمی جو ملک دانش مندی سے چلانے میں کم دل چسپی رکھتا ہے، بہ نسبت اس کو لالچ کے ساتھ لوٹنے میں۔ (اکانومسٹ، ۱۳ستمبر ۲۰۰۵ئ)
ہم یہ سب باتیں بادل ناخواستہ ضبط تحریر میں لارہے ہیں لیکن اب جس ذمہ داری کے مقام پر زرداری صاحب فائز ہیں، اس کا تقاضا ہے ان تمام امور کو صاف کیا جائے۔ ہم سیاسی انتقام کو ایک سنگین جرم سمجھتے ہیں اور الزام ثابت ہونے سے پہلے کسی بھی شخص کومجرم قرار دینے کو غلط سمجھتے ہیں لیکن اگر الزامات ہرکہ و مہ کی زبان پر ہوں اور اتنے تسلسل کے ساتھ ہوں، اور کسی کھلے عدالتی عمل کے ذریعے بے گناہی ثابت کیے بغیر محض سیاسی مفاہمتوں کی بنیاد پر اسے داخل دفتر کر دیا جائے، تو یہ بھی انصاف کے خلاف شہرت کی بحالی ہے۔ اس کے نتیجے میں اچھی شہرت بحال نہیں ہوسکتی۔ انتقام غلط ہے مگر پبلک شخصیات کا احتساب اور انصاف ایک ضروری عمل ہے اور اس سے فرار عزت میں اضافے کا سبب نہیں بن سکتا۔
مسلمان تو یہ احتیاط بھی کرتا ہے کہ ایسا موقع نہ دے کہ اس پر کوئی الزام لگ سکے۔ ہم اسی جذبے سے اس توقع کا اظہار کر تے ہیں کہ سیاسی معاملات، پالیسی کے امور، اداروں کی بحالی اور تقویت اور خارجہ اور داخلہ مسائل کے بارے میں صحیح اقدامات کی فکر کے ساتھ، ذاتی معاملات کے بارے میں ہرشک و شبہے کو دُور کرنا اب زرداری صاحب کی ذمہ داری ہے۔ جو پبلک لائف کا راستہ اختیار کرتا ہے اسے ذاتی وفاداری اور پاک دامنی کے چیلنج کا بھی مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔
Sir Roy Jenkins نے اپنی مشہور زمانہ کتاب Cabinet Governmentمیں لکھا ہے کہ ایک وزیر کے لیے ہر فن مولا ہونا ضروری نہیں لیکن سب سے ضروری وصف character and integrity (کردار اور دیانت) ہے۔ یہ موجود ہو تو پھر قوم اس قیادت پر پورا اعتماد کرسکتی ہے اور علم و تجربے کی کمی مشاورت اور معاونت سے پوری کی جاسکتی ہے۔لیکن اگر کردار خام ہو اور دیانت مفقود یا مشتبہ ہو تو پھر نظامِ حکومت چلانا محال ہے۔
کیا ہم توقع کریں کہ صدارت کا حلف لینے کے بعد قوم کو ایک ایسے آصف علی زرداری سے معاملہ کرنا ہوگا جو ماضی کے تصور سے مختلف ہوگا، جو مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ ایک اچھی شہرت والے انسان کے طور پر کرے گا۔ ہماری دعا ہے کہ ملک و قوم کو ایوب، یحییٰ، ضیا اور مشرف سے نجات ملے اور جو مثال باباے قوم قائداعظم محمدعلی جناح نے قائم کی، اس کا احیا ہو۔
(کتابچہ دستیاب ہے، قیمت: ۸ روپے۔ سیکڑے پر رعایت، منشورات، لاہور)