بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہماری نظر میں جناب آصف علی زرداری پاکستان کی صدارت کے لیے بوجوہ مناسب امیدوار نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کے ارکان سینیٹ نے جناب سعیدالزماں صدیقی صاحب کو اپنے ووٹوں کا حق دار سمجھا۔ لیکن جب انتخابی ادارے کی اکثریت نے زرداری صاحب کو صدر منتخب کرلیا تو ہم نے کھلے دل سے اس نتیجے کو قبول کیا اور ان کو کامیابی پر روایتی مبارک باد دی۔ ہم نے کہا کہ اگر وہ دستور اور قانون کے مطابق اور ان معاہدوں اور وعدوں کے مطابق کام کرتے ہیں جو انھوں نے پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے قوم کے ساتھ کیے ہیں، خاص طور پر ناجائز طور پر معزول کیے جانے والے ججوں کی بحالی اور دستور کی اس شکل میں بحالی جو ۱۲ کتوبر۱۹۹۹ء کو تھی اور جس کا عہدوپیمان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے میثاقِ جمہوریت (مئی ۲۰۰۶ئ) میں کیا ہے، توہم ان کی غیرمشروط معاونت کریں گے اور ہمارے خیرخواہانہ جذبات ان کے لیے ہوں گے۔
جنرل مشرف کے استعفے اور زرداری صاحب کے حلفِ صدارت کے بعد پارلیمنٹ ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے مطابق مکمل ہوگئی اور ملک نے آمریت سے جمہوریت اور شخصی اقتدار سے دستور اور قانون کی حکمرانی کی طرف اپنے سفر کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ اب نئی حکومت خاص طور پر پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت، اور پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا امتحان ہے کہ وہ ۹سالہ آمرانہ دور کے طورطریقوں، روایات اور طریق حکمرانی سے کتنی جلد قوم کو نجات دلاتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے مطابق ایک حقیقی اسلامی، پارلیمانی، وفاقی اور فلاحی جمہوریت کے قیام کی طرف کس تیزی سے پیش رفت کرتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے اور اسی میں ان کا اصل امتحان ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ اس موقع پر ملک کو درپیش چیلنجوں کو دو اور دو چار کی طرح پیش کردیں دوٹوک انداز میں پیپلزپارٹی کی قیادت کے سامنے بھی رکھ دیں کہ قوم کو ان سے کیا توقعات ہیں۔ ہمارے نزدیک اصل ذمہ داری اور امتحان پیپلزپارٹی کا ہے جسے مرکز اور تین صوبوں میں مکمل اقتدار حاصل ہے، جس نے اپنے اصرار پر صدر، وزیراعظم، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، صوبوں کے گورنر اور دو صوبوں میں اپنی مرضی کے وزراے اعلیٰ منتخب کرائے ہیں اور اپنی پارلیمانی حیثیت سے بڑھ کر ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔ مخلوط حکومت صرف ایک عنوان ہے، اصل اختیار اور اصل امتحان پیپلزپارٹی کا ہے اور شریکِ اقتدار جماعتوں نے بھی پیپلزپارٹی ہی کو فیصلہ کن کردار سونپا ہے۔
۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتائج کا اگر تجزیہ کیا جائے تو تین باتیں سامنے آتی ہیں جن کو ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے۔
اوّل: عوام نے پرویز مشرف اور ان کے سیاسی حلیفوں کو یکسر مسترد کیا جس کا منطقی تقاضا تھا کہ پرویز مشرف کو اقتدار سے فی الفور فارغ کیا جائے اور اس پوری قیادت اور ٹیم سے نجات حاصل کی جائے جو ان کے دور میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھی۔ ان انتخابات میں عوام نے مستقبل میں فوج کے سیاسی کردار کو بھی دوٹوک انداز میں طے کردیا اور بظاہر فوج کی نئی قیادت نے بھی عوام کے اس فیصلے کو قبول کرتے ہوئے سول نظام کے تحت کام کرنے اور سیاسی عزائم کا راستہ ترک کرنے کا اعلان کر کے عوام کے اس مینڈیٹ کو قبول کرلیا۔
دوم: عوام نے صرف پرویز مشرف ہی کو مسترد نہیں کیا بلکہ ان کی پالیسیوں کو بھی رد کیا اور اس انتخاب میں دیے گئے عوامی مینڈیٹ کا، جس کی تائید اس دور کے راے عامہ کے تمام سروے بھی کرتے ہیں، واضح تقاضا یہ ہے کہ قوم آمریت کی جگہ جمہوریت، شخصی اقتدار کی جگہ دستور اور قانون کی حکمرانی، خارجہ پالیسی اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باب میں امریکا کی کاسہ لیسی ترک کر کے آزاد اور پاکستانی مفادات پر مبنی پالیسی اختیار کرے۔ اسی طرح کشمیر کے سلسلے میں، ملک کی نظریاتی شناخت اور کردار کے باب میں، اور معاشی اور مالیاتی میدانوں میں مشرف کی پالیسیوں کی جگہ ہم نئی پالیسیوں کے خواہش مند ہیں جو عوام کی خواہشات اور حقیقی ضروریات کے مطابق اور ملک و قوم کے مقاصد کے حصول اور مفادات کے تحفظ کا ذریعہ بنیں۔ انتخاب کا پیغام پالیسیوں میں تسلسل نہیں، تبدیلی اور بنیادی تبدیلی کا تھا اور ہے۔
سوم: ان انتخابی نتائج کا یہ پہلو بہت واضح ہے کہ عوام نے کسی ایک پارٹی کو حکمرانی کا مکمل اختیار نہیں دیا۔ پیپلزپارٹی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے ضرور سامنے آئی مگر اسے ۳۰فی صد ووٹ اور اسمبلی میں ۳۳ فی صد نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ وہ اقتدار پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے بجاے حقیقی شرکتِ اقتدار کا راستہ اختیار کرے اور اولین توجہ ان مشترک مقاصد اور اہداف کو دے جو تمام جماعتوں اور خصوصیت سے دو بڑی جماعتوں کے منشور اور عوامی وعدوں میں مرکزی اہمیت رکھتے ہیں۔
۱- دستور کی اس شکل میں بحالی جو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو تھی، جس کا مرکزی نکتہ پارلیمانی نظام کی اپنی اصل شکل میں بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی اور وزیراعظم اور کابینہ کو ان اختیارات کی منتقلی ہے جو آمرانہ دور میں صدر نے حاصل کرلیے تھے بشمول ۵۸ (۲) بی کی تنسیخ اور سربراہانِ فوج اور گورنروں کے تقرر کے اختیارات۔
۲- عدلیہ کی مکمل آزادی اور ججوں کی تقرری اور معزولی کا ایسا نظام جو شفاف ہو۔
۳- دستور کے فریم ورک میں ایک دوسرے کے لیے ’جیو اور جینے دو‘ کے اصول پر حکمرانی کے اصول و آداب کا احترم اور کسی فوجی آمر کا ساتھ نہ دینے کا عہد۔
۴- انتقام کی سیاست کا خاتمہ اور احتساب کے ایک ایسے نظام کا قیام جو بے لاگ ہو، قابلِ اعتماد ہو اور شفاف ہو۔
۵- آزاد الیکشن کمیشن کا قیام۔
۶- وزیراعظم اور وزراے اعلیٰ پر دو مدت کی تحدید کا خاتمہ۔
۷- کارگل کے سانحے کی آزاد کمیشن سے تحقیق۔
۸- قومی سلامتی کونسل کا خاتمہ اور کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا احیا۔
۱- ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے غیردستوری اور ہراعتبار سے ناجائز اقدام کی مذمت اور اس کے تحت نئے ہونے والے اقدامات کی تنسیخ___ خصوصیت سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے معزول ججوں کی ۳نومبر ۲۰۰۷ء کی پوزیشن میںبحالی۔
۲- ملک کو جس معاشی اور توانائی کے بحران میں مبتلاکردیا گیا ہے اس سے نجات کی مؤثر کوشش اور عوام کو ریلیف دینے کا اہتمام۔
۳- ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکی جنگ اور پرویز مشرف کے کردار نے جو تباہ کن صورت حال پیدا کردی ہے، اس سے نجات کی منصوبہ بندی اور پاکستان کے مفادات کی روشنی میں قوت کے استعمال کی جگہ افہام و تفہیم سے سیاسی حل کی کوشش۔
۴- بلوچستان اور ملک کے دوسرے علاقوں میں آپریشن جاری ہیں۔ ان کا حاصل تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ ان کو فی الفور بند کر کے سیاسی مسائل کا سیاسی حل اور صوبوں کی محرومیوں کے ازالے کی قرارواقعی کوشش اور اس کے لیے متفقہ لائحۂ عمل کی تشکیل اور اس پر عمل کا نظامِ کار۔
۵- کشمیر کے مسئلے پر پرویز مشرف نے جو قلابازیاں کھائی ہیں اور پاکستان کے متفقہ قومی موقف کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی تحریکِ مزاحمت سے یک جہتی۔
یہ وہ ۵ ایشوز ہیں جن کے حل کی طرف پیش رفت کی کسوٹی پر زرداری صاحب اور پیپلزپارٹی کی حکومت کو جانچا اور پرکھا جائے گا۔ یہی اصل چیلنج کے مختلف پہلو ہیں اور قوم یہ توقع رکھتی ہے کہ زبانی جمع خرچ، پروپیگنڈے اور نعرہ بازی کا راستہ ترک کر کے قومی اتفاق راے پیدا کیا جائے گا اور ان تمام امور کی طرف حقیقی پیش رفت پر ساری توجہ مرکوز کی جائے گی۔
۱- جن بنیادوں پر مخلوط حکومت قائم ہوئی تھی ان کے بارے میں قول اور عمل کا تضاد اتنا واضح اور نمایاں تھا کہ مخلوط حکومت کا چلنا پہلے دن سے مشتبہ تھا اور بالآخر یہی ہوا کہ مسلم لیگ (ن) کو ججوں کی بحالی کے مسئلے پر حکومت سے الگ ہونا پڑا۔
۲- وعدوں اور سیاسی عہدوپیمان کے بارے میں زرداری کا سہل انگاری کا رویہ اور یہ دعویٰ کہ سیاست میں کیے گئے معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے اور جب چاہیں ان سے نکلا جاسکتا ہے، ایک اخلاقی جرم ہے۔ اس نے پوری سیاست ہی کو غیرمعتبر بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں تمام تعلقات بے اعتبار ہو جاتے ہیں۔
۳- ان ۶ مہینوں میں حکومت اور خاص طور سے زرداری صاحب کی سوچ ’تبدیلی‘ سے زیادہ ’تسلسل‘ کی روش کا پتا دیتی ہے۔ یہ ۱۸ فروری کے مینڈیٹ سے بے وفائی کا راستہ ہے۔ ججوں کے معاملے کو جس طرح اس حکومت نے الجھایا ہے اس نے عدالت کو نظروں میں بے وقار کردیا ہے۔ مشرف نے عدلیہ کے ساتھ جو کچھ کیا، یہ اس سے کچھ بھی مختلف نہیں۔ اس نے باہر سے حملہ کرکے عدلیہ کے ادارے کو تباہ کیا اور زرداری صاحب کے نمایندۂ خاص وزیرقانون نے اندر سے سرنگ لگاکر رہی سہی کسر پوری کردی۔
۴- معاشی صورت حال بلاشبہہ ورثے میں ملی تھی اور توانائی کا بحران بھی۔ لیکن ان ۶ ماہ میں حکومت کسی مؤثر اور بنیادی پالیسی کو لانے میں یکسر ناکام رہی ہے۔ پالیسی پر اس کی گرفت نہیں اور کیفیت یہ ہے کہ ع
نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں
اسی ’تسلسل‘ کا نتیجہ ہے کہ عوام کی مشکلات اور خصوصیت سے زراعت اور صنعت، دونوں اہم شعبوں میں مسائل کا اضافہ ہوا ہے۔
۵- ان ۶ ماہ میں بلوچستان، وزیرستان، باجوڑ اور سوات میں فوجی آپریشن جاری ہیں بلکہ ان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ مسائل کا سیاسی حل نکالنے کے وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ ایک طرف پاکستانی فوج اپنے ہی شہریوں پر آگ اور خون کی بارش کر رہی ہے اور دوسری طرف امریکا اور بھی بے باک ہوکر ہماری سرحدوں کی کھلی خلاف ورزیاں کر رہا ہے اور شرپسندوں کے نام پر عام شہریوں کو بے دردی سے ہلاک کر رہا ہے۔ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۷ء تک مشرف کے دور میں امریکا نے ۳۴ بار ہماری سرحدات کی خلاف ورزی کی تو ان ۶ مہینوں میں ۲۳ بار امریکا نے حملے کیے اور ۳ستمبر ۲۰۰۸ء کا حملہ تو برملا اعلان جنگ کے مترادف تھا کہ امریکی ہیلی کاپٹروں نے پاکستانی سرحد پر اپنی فوجیں اتاریں اور عورتوں اور بچوں سمیت وہ درجنوں معصوم انسانوں کو شہید کرکے پورے طمطراق سے واپس چلے گئے ۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ سب صدربش کے واضح احکامات اور direct action in Pakistan territory(پاکستانی علاقے میں راست اقدام) کی پالیسی کے مطابق ہوا۔ ستم یہ ہے کہ جس دن ایڈمرل مولن اسلام آباد میں وزیراعظم کو یہ یقین دہانی کرا رہے تھے کہ پاکستانی حاکمیت کا احترام کیا جائے گا، اسی وقت احترام کا جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ ہیلی کاپٹروں اور بغیرپائلٹ کے جہاز، ڈرون (drone) سے حملہ تھاجس میں ایک ہی ہلے میں ۷معصوم انسان شہید ہوگئے۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں زرداری صاحب نے صدارت کی ذمہ داری سنبھالی ہے اور وزیراعظم صاحب اور خود زرداری صاحب کے چند دن پہلے کے اس اعلان کے بعد سنبھالی ہے کہ آیندہ صدر غیر جانب دار فرد ہوگا جو وفاق کی علامت ہوگا۔
بہرحال اب ہم ان کو حالات کی سنگینی کا احساس دلاتے ہوئے یہ درخواست کرتے ہیں کہ اگر وہ فی الحقیقت اس ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور اسے اپنی تاریخ کے سنگین ترین بحران سے نکالنے میں مخلص ہیں تو درج ذیل اقدام اور اعلانات کا اہتمام کریں تاکہ اُمید کے لیے بنیاد فراہم ہو۔
۱- سب سے پہلے اس امر کا اعلان کریں کہ زندگی کے ہر معاملے میں اور خصوصیت سے سیاست اور ریاست کے تمام امور میں عہدوپیمان کی مکمل پاسداری کی جائے گی۔ زندگی کا کاروبار اس اعتماد ہی پر چل سکتا ہے کہ قول و قرار کا پاس کیا جائے اور ہرعہد کو پورا کیا جائے۔
۲- زرداری صاحب مفاہمت کی سیاست کی باتیں تو بہت کرتے رہے ہیں لیکن ان کے اولین کارناموں میں اتحادی حکومت کے ایک بڑے فریق سے بدعہدی اور نتیجتاً اس کی حکومت سے علیحدگی ہے۔ اب پنجاب میں متعین جیالے گورنر کی قیادت میں جو سیاسی دنگل مرتب کیا جا رہا ہے وہ ’جیو اور جینے دو‘ والی سیاست کودفن کر دے گا۔ اس سے یقینا تصادم کی سیاست پروان چڑھے گی جو ملک کے لیے اور خود حکمرانوں کے لیے تباہ کن ہوگا۔ اس سے احتراز کیا جائے اور دستور اور قانون کے دائرے میں خود بھی رہا جائے اور دوسروں کو بھی ان کا حق دیا جائے۔
۳- زرداری صاحب کو پیپلزپارٹی کے تمام سیاسی اور انتظامی امور سے لاتعلق ہوکر صدارت کے عہدے کو پارٹی سیاست میں ملوث ہونے سے بچانا چاہیے۔ اس کے لیے شریک چیئرپرسن کے عہدے سے فوری طور پر مستعفی ہونا ضروری ہے۔
۴- زرداری صاحب نے جو ذمہ داری سنبھالی ہے، اس کا تقاضا ہے کہ اپنی ذات سے متعلق دو امور کے بارے میں وہ تمام حقائق قوم کے سامنے رکھیں اور اپنی پوزیشن واضح کریں۔ ہم ذاتی امور کے احترام اور نجی اور شخصی معاملات کے حق کے قائل ہیں لیکن جب کوئی شخص پبلک ذمہ داری قبول کرتا ہے تو پھر ذاتی زندگی کے مختلف پہلوئوں کی حساب داری بھی کرنا پڑتی ہے۔ اس لحاظ سے ضروری ہے کہ وہ اپنی بے گناہی کے ثبوت کے لیے کسی بدنامِ زمانہ این آر او کا سہارا نہ لیں بلکہ کھل کر شفاف انداز میں قوم کو اعتماد میں لیں اور میثاقِ جمہوریت میں طے کردہ اصولوں پر مبنی کوئی نظام قائم کر کے ان شکوک و شبہات کو دُور کریں جو ملک اور ملک کے باہر موجود ہیں۔
پہلی بات کا تعلق ان میڈیکل رپورٹوں سے ہے جو بار بار وہ عدالت میں حاضر نہ ہونے کے سبب کے طور پر اپنی ذمہ داری پر اپنے وکیلوں کے ذریعے بھجواتے رہے ہیں اور جو اَب انگلستان کے اخبار Financial Times میں شائع ہونے کے بعد پبلک پراپرٹی بن چکی ہیں۔ دو ہی امکانات ہیں۔اگر یہ رپورٹیں صحیح ہیں تو دستور کی واضح دفعات کی روشنی میں قوم کو یہ جاننے کا حق ہے کہ اب وہ ان عوارض سے نجات پاچکے ہیں جو ان رپورٹوں کی ترسیل کے زمانے میں ان کو لاحق تھے اور جو ایک شخص کو کسی بھی کلیدی مقام کے لیے نااہل بنا دیتے ہیں۔ اور اگر یہ رپورٹیں درست نہیں تھیں اور محض عدالت میں حاضری سے بچنے کے لیے دی گئیں تو یہ عدالت کے سامنے غلط بیانی اور دروغ حلفی کے زمرے میں آتی ہیں۔ جو سیاست اور قانون دونوں کی نگاہ میں بہت بڑا جرم ہے۔ امریکا کے دستور کے تحت تو صدرمملکت کی معزولی صرف دروغ حلفی کی بنیاد پر ہوسکتی ہے۔ یہ معاملہ محض ایک صحافتی افشاے راز کا نہیں، اس کے بڑے اہم دستوری، قانونی، سیاسی اور اخلاقی مضمرات ہیں اور زرداری صاحب کو اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
دوسرا مسئلہ ان پر مالی کرپشن، منی لانڈرنگ اور اختیارات کے غلط استعمال کا ہے۔ بلاشبہہ کسی عدالت میں الزامات ثابت نہیں ہوئے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ الزامات بظاہر بالکل بے بنیاد نہیں۔ سوئٹزرلینڈ کے پرازی کیوشن جج نے خود کہا ہے کہ الزامات میں بہت کچھ موجود ہے اور کیس کے واپس لیے جانے سے اسے بہت مایوسی ہوئی ہے۔ انٹرنیٹ پر جو تفصیلات موجود ہیں، ان کے عام ہوجانے کے بعد ضروری ہے کہ متعلقہ افراد اپنی پاک دامنی ثابت کریں۔ اس لیے بھی کہ مسل پر یہ تمام معلومات موجود ہیں کہ کتنی بار التوا کی درخواستیں زرداری صاحب اور ان کے وکلا کی طرف سے آئی ہیں اور عدالتی عمل کو مدعی اور مدعاعلیہ دونوں نے اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔
دو چیزیں ایسی ہیں جن کا جواب ضروری ہے___ سویزبنک میں ۶۰ ملین ڈالر کی رقم جس کو اب پاکستانی حکومت نے واگزار کرا دیا ہے اور جس کے فائدہ اٹھانے والے (beneficiary) زرداری صاحب ہیں، وہ کہاں سے آئی۔ یہ رقم تو ایک حقیقت ہے۔ زرداری صاحب نے اسمبلی اور سینیٹ کا ممبر بنتے وقت اپنے جن اثاثوں کا اعلان کیا تھا ان میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ انھیں قوم کو بتانا چاہیے کہ یہ رقم کہاں سے آئی اور کس طرح اس پر ان کا حق ثابت ہوتا ہے۔ دوسرا مسئلہ انگلستان کے سرے محل کا ہے۔ اس کے بارے میں زرداری صاحب نے پبلک اعلان کیا تھا کہ ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ محترمہ بے نظیرصاحبہ نے اسمبلی کے اندر اس سے اپنی اور اپنے خاندان کی برأت کا اعلان کیا تھا۔ اب زرداری صاحب اسی سرے محل کی نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ اگر ان کا اب کا دعویٰ صحیح ہے تو جو اعلان انھوں نے اور محترمہ بے نظیر صاحبہ نے اسمبلی اور سینیٹ میں کھلم کھلا کیا تھا اس کی حقیقت کیا ہے؟
لیکن معاملہ ماضی سے زیادہ مستقبل کا ہے۔ صدارت کا عہدہ ایک نازک عہدہ ہے۔ امریکا کے صدر کو بھی ذمہ داری سنبھالتے ہی اپنی تمام دولت کا اعلان کرنا ہوتا ہے اور صدارت کے دوران وہ اپنے کسی کاروباری اور آمدنی والے کام کو ہاتھ نہیں لگا سکتا بلکہ اس کی ساری دولت ولایت (wardship) کے تحت ہوتی ہے۔ زرداری صاحب کے لیے بھی باعزت طریقہ یہی ہے کہ وہ اپنی دولت کا اعلان کریں، جو رقوم پہلے اعلان نہیں کی گئیں، ان کے بارے میں ذریعۂ آمدنی بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ کس پر کتنا ٹیکس دیا گیا ہے۔ اور پھر اپنے دورِ صدارت کے لیے کاروباری معاملات سے قطع تعلق کریں۔ جب تک سیاست میں یہ روایت قائم نہیں ہوتی، ملک سے کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں۔
زرداری صاحب کو ان حالات کا جرأت سے سامنا کرنا چاہیے۔ ملک کے اندر بڑے پیمانے پر لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ بیرونی دنیا میں بھی ملک کی اور خودان کی عزت کی حفاظت کے لیے یہ ضروری ہے۔ دنیا بھر میں شائع ہونے والے مضامین اور اداریوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ۹۰ فی صد نے ان امور کا ذکر کیا ہے اور انھیں محض یہ کہہ کر ختم نہیں کیا جاسکتا کہ این آر او کے گنگاجل سے اشنان کے بعد سب پاک ہوگیا ہے۔ صرف دو اقتباس ٹائم میگزین اور اکانومسٹ سے ہم اس بات کی تائید میں پیش کر رہے ہیں کہ یہ اب مُردہ اور ختم شدہ مسئلہ (dead and closed issue)نہیں جیساکہ فاروق نائیک صاحب فرماتے ہیں بلکہ ملک کے اندر اور ملک سے باہر ایک تروتازہ اور زیرِبحث (live and under discussion) مسئلہ ہے۔ اس لیے اس کا سامنا کیجیے۔ ذاتی عزت اور قومی مفاد دونوں کا یہی تقاضا ہے۔ ٹائم لکھتا ہے:
پاکستان کی صدارت تک زرداری کے عروج کی کہانی سنڈریلا کی روایتی کہانی کی طرح معلوم ہوتی ہے جس میں مافیا کی سنسنی کا عنصر شامل ہوگیا ہے۔ زرداری کی ہمیشہ ایک چکرباز ہونے کی شہرت رہی ہے۔ بے نظیر کے دوسرے دور میں جب وہ وزیر سرمایہ کاری تھے کمیشنوں میں سے خفیہ وصولی کے اسیکنڈلوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے نے ان کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا لقب عطا کردیا تھا۔ نواز شریف اور پرویز مشرف نے ان کے خلاف منی لانڈرنگ اور کرپشن کے مقدمات برطانیہ، اسپین اور سوئٹزرلینڈ میں چلائے۔ گذشتہ برس پرویز مشرف کی ایک متنازع ایمنسٹی ڈیل کے بعد یہ تمام الزامات ختم کردیے گئے۔ زرداری کا موقف ہے کہ تمام الزامات کی بنیاد سیاسی تھی، تاہم ان کی ساکھ کے بارے میں شبہہ باقی ہے۔ زرداری کو اپنے ماضی کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات پر قابو پانا ہوگا۔
۹ستمبر کو جب زرداری صدر پاکستان کی حیثیت سے اپنا حلف اٹھا رہے تھے تو ان کے سر پر تین سایے منڈلا رہے تھے: ایک، معیشت ایک بحرانی کیفیت میں ہے، دوسرے مقامی طالبان کے خلاف جنگ کی صورت حال خراب ہے، اور تیسرے زرداری خود کو اپنی اس شہرت سے جدا نہیں کرسکے جو انھیں اپنی مرحومہ بیوی بے نظیر بھٹو کے دور میں مسٹر ٹین پرسنٹ کی ملی تھی: ایک ایسا آدمی جو ملک دانش مندی سے چلانے میں کم دل چسپی رکھتا ہے، بہ نسبت اس کو لالچ کے ساتھ لوٹنے میں۔ (اکانومسٹ، ۱۳ستمبر ۲۰۰۵ئ)
ہم یہ سب باتیں بادل ناخواستہ ضبط تحریر میں لارہے ہیں لیکن اب جس ذمہ داری کے مقام پر زرداری صاحب فائز ہیں، اس کا تقاضا ہے ان تمام امور کو صاف کیا جائے۔ ہم سیاسی انتقام کو ایک سنگین جرم سمجھتے ہیں اور الزام ثابت ہونے سے پہلے کسی بھی شخص کومجرم قرار دینے کو غلط سمجھتے ہیں لیکن اگر الزامات ہرکہ و مہ کی زبان پر ہوں اور اتنے تسلسل کے ساتھ ہوں، اور کسی کھلے عدالتی عمل کے ذریعے بے گناہی ثابت کیے بغیر محض سیاسی مفاہمتوں کی بنیاد پر اسے داخل دفتر کر دیا جائے، تو یہ بھی انصاف کے خلاف شہرت کی بحالی ہے۔ اس کے نتیجے میں اچھی شہرت بحال نہیں ہوسکتی۔ انتقام غلط ہے مگر پبلک شخصیات کا احتساب اور انصاف ایک ضروری عمل ہے اور اس سے فرار عزت میں اضافے کا سبب نہیں بن سکتا۔
مسلمان تو یہ احتیاط بھی کرتا ہے کہ ایسا موقع نہ دے کہ اس پر کوئی الزام لگ سکے۔ ہم اسی جذبے سے اس توقع کا اظہار کر تے ہیں کہ سیاسی معاملات، پالیسی کے امور، اداروں کی بحالی اور تقویت اور خارجہ اور داخلہ مسائل کے بارے میں صحیح اقدامات کی فکر کے ساتھ، ذاتی معاملات کے بارے میں ہرشک و شبہے کو دُور کرنا اب زرداری صاحب کی ذمہ داری ہے۔ جو پبلک لائف کا راستہ اختیار کرتا ہے اسے ذاتی وفاداری اور پاک دامنی کے چیلنج کا بھی مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔
Sir Roy Jenkins نے اپنی مشہور زمانہ کتاب Cabinet Governmentمیں لکھا ہے کہ ایک وزیر کے لیے ہر فن مولا ہونا ضروری نہیں لیکن سب سے ضروری وصف character and integrity (کردار اور دیانت) ہے۔ یہ موجود ہو تو پھر قوم اس قیادت پر پورا اعتماد کرسکتی ہے اور علم و تجربے کی کمی مشاورت اور معاونت سے پوری کی جاسکتی ہے۔لیکن اگر کردار خام ہو اور دیانت مفقود یا مشتبہ ہو تو پھر نظامِ حکومت چلانا محال ہے۔
کیا ہم توقع کریں کہ صدارت کا حلف لینے کے بعد قوم کو ایک ایسے آصف علی زرداری سے معاملہ کرنا ہوگا جو ماضی کے تصور سے مختلف ہوگا، جو مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ ایک اچھی شہرت والے انسان کے طور پر کرے گا۔ ہماری دعا ہے کہ ملک و قوم کو ایوب، یحییٰ، ضیا اور مشرف سے نجات ملے اور جو مثال باباے قوم قائداعظم محمدعلی جناح نے قائم کی، اس کا احیا ہو۔
(کتابچہ دستیاب ہے، قیمت: ۸ روپے۔ سیکڑے پر رعایت، منشورات، لاہور)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہر سال کی طرح ایک بار پھر رمضان کا مبارک مہینہ اپنی برکتیں لے کر ہم پر طلو ع ہورہاہے، جس میں ایک ایسی رات بھی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جس کے دن میں روزہ رکھنا فرض کردیاگیاہے اور جس کی راتوں میں قرآن سننا مستحب اور قربِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔ اس میں ایک فرض کی ادایگی دوسرے مہینوں کے ۷۰ فرائض جتناثواب رکھتی ہے اور جس میں ایک نفلی عبادت دوسرے مہینوں کے فرائض جتنی بزرگی کی حامل ہے۔ یہ غریب لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا مہینہ ہے۔ اس میں کسی کا روزہ افطار کرانا اللہ کی خوشنودی کا باعث ہے۔ اس مہینے کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ دوزخ سے نجات کی ضمانت فراہم کرتاہے۔
ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو رسولؐ اللہ نے ہمیں ایک خطبہ ارشاد فرمایا:اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والامہینہ سایہ فگن ہو رہاہے۔ اس مہینے کی ایک رات(شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیںاور اس کی راتوں میں بارگاہِ خداوندی میں کھڑا ہونے (نماز تراویح)کو نفل عبادت مقرر کیا ہے۔جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیرفرض عبادت(سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانے کے ۷۰فرضوں کے برابر ثواب ملے گا۔اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ۷۰فرضوں کے برابر ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے، اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میںکسی روزے دار کو افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گابغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ آپؐ سے عرض کیا گیا کہ یا رسولؐ اللہ! ہم میں سے ہر ایک کے پاس تو افطار کرانے کا سامان موجود نہیں ہوتا۔ آپؐ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی سے یا پانی کے ایک گھونٹ سے ہی کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے۔ اور جو کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض(کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس نہیں لگے گی تاآنکہ وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آتشِ دوزخ سے آزادی ہے۔ اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی دے دے گا۔
جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنات جکڑ دیے جاتے ہیں،اور دوزخ کے سارے دروازے بند کردیے جاتے ہیںاور ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھلا نہیں رہتا۔ اور جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیںاور اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیںرہتا۔ اور منادی کرنے والا پکارتا ہے کہ اے خیر اور نیکی کے طالب قدم بڑھا کے آگے آ،اور اے بدی کے شائق رک جا۔ اور اللہ کی طرف سے بہت سے(گناہ گار)بندوں کو دوزخ سے رہائی دی جاتی ہے۔اور یہ سب رمضان کی ہررات میں ہوتا رہتا ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
جس نے رمضان کے روزے ایمان اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے پہلے کے گناہ معاف کردیے جائیں گے، ایسے ہی جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں میں نوافل(تراویح و تہجد)پڑھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیںگے،اور اسی طرح جس نے شب قدر میں ایمان اور ثواب کی نیت سے نوافل پڑھے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ (متفق علیہ)
بے شک اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزوںکو فرض اور اس کے قیام کونفل قراردیاہے۔ جس نے ثواب کی نیت سے روزے رکھے اور قیامِ لیل کیا،وہ گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہوجائے گا جس دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا۔(مسند احمد)
یہی وجہ ہے کہ رمضان کا چاند طلوع ہوتے ہی عالمِ اسلام کے شب و روزتبدیل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ مسجدیں آباد ہوجاتی ہیں۔ گھروں کے اوقات بدل جاتے ہیں۔پوری دنیا کے مسلمان اپنے رب سے لو لگا لیتے ہیں، ہر دم اس سے مغفرت کے طلب گار ہوتے ہیںاور ہر لحظہ اسے راضی کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔کوئی بدبخت مسلمان ہی ایسا ہوگا جس کا گھر رات کے آخری حصے میں سحری کی برکتوں اورپھر شام کے وقت افطار کی گہماگہمی سے محروم رہے۔
رمضان المبارک کے مہینے کو اللہ تعالیٰ نے یہ فضیلت عطا فرمائی ہے کہ اس میں قرآن نازل ہوا جو لوگوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور جس میں ہدایت کی کھلی کھلی نشانیاں ہیں اور جو حق و باطل کے درمیان تمیز کرنے والی کتاب ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَ الْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ۔(البقرہ ۲:۱۸۵) رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیاگیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کے رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔
رمضان المبارک کا مہینہ سالانہ جشن قرآن کا مہینہ ہے۔ دن کے وقت روزے اور رات کے وقت تراویح میں قرآن کریم سننے کی عبادت۔ رمضان المبارک کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی تربیت کا ذریعہ بنایا ہے۔ ضبط نفس کی ایسی تربیت کہ بھوک اور پیاس کی شدت کے باوجود مجال ہے کہ بندۂ مومن کے وہم وگمان میں بھی یہ بات آئے کہ وہ افطاری سے قبل کوئی نوالہ یا کوئی گھونٹ حلق سے نیچے اتارے۔ مسلمان گھرانوں میں بچوں کی بھی ایسی تربیت ہوجاتی ہے کہ اگر ایک بار روزے کی نیت سے سحری کھالیں تو افطار کے وقت تک روز ے کی پابندیوں کا خیال رکھتے ہیں۔
روزہ تقویٰ کی صفت پیدا کرنے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ ہر وقت، ہرلمحے اور ہر گھڑی یہ احساس کہ بندے نے اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر روزہ رکھا ہے۔ بھوک اور پیاس ہر وقت اس کے دل کو اللہ سے جوڑ ے رکھتی ہے۔ تنہائی میں بھی اپنے رب کے سامنے ہونے کے احساس کی وجہ سے بندہ کھانے پینے کی ہر چیز سے پرہیز کرتاہے اور اس طرح اپنے ر ب پر ایمان کی آبیاری کرتاہے۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا کہ بنی آدم کے ہر عمل کا بدلہ اسے چند درچند دیا جائے گا لیکن روزے کی بات ہی اور ہے۔ یہ خالصتاً میرے لیے ہے،اور میں اپنے فضلِخاص سے اس کا خصوصی اجر دو ں گا۔حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں:
رسولؐ اللہ نے فرمایا: آدمی کے ہر اچھے عمل کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھایا جاتاہے مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ اس قانون سے مستثنیٰ ہے۔ وہ (بندے کی طرف سے) میرے لیے(ایک تحفہ) ہے، اور میں ہی(جس طرح چاہوں گا) اس کا اجروثواب دوں گا۔ میرا بندہ میری رضا کی خاطر اپنی خواہشِنفس اور اپنا کھاناپینا چھوڑ دیتاہے۔ روزہ دار کے لیے دومسرتیں ہیں، ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے مالک کی بارگاہ میں باریابی کے وقت۔اور قسم ہے کہ روزے دار کے منہ کی بو.ُ اللہ کی نزدیک مشک کی خوشبو سے بہترہے، اور روزہ (شیطان و نفس کے حملوںاور آتشِ دوزخ سے حفاظت کے لیے)ڈھال ہے۔(متفق علیہ)
جب تم میں سے کوئی شخص کسی دن روز ے سے ہو تونہ گالم گلوچ کرے اور نہ شور وغوغا کرے، اور اگر کوئی اسے گالی دے یا جھگڑا کرے تو وہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔(متفق علیہ)
جو آدمی روزے کی حالت میںباطل کلام اور باطل کام نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔(بخاری)
نزولِ قرآن کے اس مبارک مہینے میں مردِ مومن کااپنے رب سے تعلق مزید استوار ہوجاتا ہے اور وہ قرآن کریم سے مزید جڑ جاتاہے۔ قرآن کریم کتابِ جہاد ہے،اور قائد المجاہدین صلی اللہ علیہ وسلم پر میدانِ جہاد میں اتری ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے مقام پر سرفراز ہونے کے بعد اعلاے کلمۃ اللہ اور اظہارِ دین اور اقامتِ دین کا فریضہ ادا کرنے کے لیے میدانِ جہاد میں تھے اور جہاد فی سبیل اللہ کے کام کے ہر مرحلے میں اللہ نے ان کی راہ نمائی قرآن کریم کے ذریعے کی ۔مسلمانوں کی قیامت تک آنے والی تمام نسلوں کے لیے یہی منہج الرسو ل ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیاگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے توانھوں نے پوچھا کہ کیا تم لوگ قرآن نہیں پڑھتے ؟ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآن’’بس قرآن ہی ان کا اخلاق تھا‘‘۔
رمضان، قرآن اور جہاد باہم وابستہ و پیوستہ ہیں۔ ہر سال رمضان المبارک مسلمانوں کو اپنے رب سے تعلق جوڑنے کا ایک نیا موقع فراہم کرتاہے۔ عالمِ اسلام کی تمام مسجدیں اللہ کے ذکر سے آباد ہوجاتی ہیں۔ نئی نسل کے جواں سال فرزند لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں اپنے رب کے سامنے صف بستہ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آخری عشرے میں اعتکاف کی نیت سے لاکھوں فرزندانِ توحید شب و روز مسجدوں میں ڈیر ے ڈال کر اپنے رب کی بندگی میں مشغول ہوتے ہیں۔ اب قرآن کریم کی تلاوت اور حفظ کے ساتھ قرآن کریم کو سمجھنے کی تحریک بھی عام ہوگئی ہے۔ عام مردوزن کی یہ حالت ہے کہ صبح سویرے فجر کی نماز پڑھنے کے ساتھ ہی فہم قرآن کی ایک ایک کلاس میں ہزاروں مرداور خواتین کھلے میدانوں میں اکٹھے ہوجاتے ہیں اور بسا اوقات ہم نے یہ نظارہ دیکھاہے کہ عورتیں اور مرد بارش میں چھتریاں تھام کر کھلے آسمان کے نیچے قرآن کریم کا درس سننے کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔یہی حال سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسوں کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن کریم اور جہاد کی محبت کو ایسا پیوست کردیا ہے کہ امریکا اور اس کے حواری اپنی تمام مادی برتری اور لائو لشکر اور میڈیا کی قوت کے باوجود ان کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔
عشق و محبت کے اس خزانے کو اور زیادہ بہتر سمت دینے کی ضرورت ہے۔ قربانی کے جذبے کو اگر منزل کی طرف جانے والے صحیح راستے پر نہ ڈالاجائے تو یہ ہدف تک پہنچنے کے بجاے راستے ہی میں ضائع ہوجاتاہے۔ اس کے لیے اولین ضرورت یہ ہے کہ ہر فرد کسی ذمہ دار قیادت کے ساتھ وابستہ ہو اور خود فیصلہ کرنے کے بجاے جماعت کے فیصلے کی پابندی کرے۔ کسی جماعت کے ساتھ وابستگی اختیار کرنے سے قبل اطمینان حاصل کرے کہ کیا وہ جماعت قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں ٹھیک منہجِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عمل پیرا ہے؟ اللہ کا فرمان ہے :
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا o (الاحزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوںکے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امید وار ہواور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے حکم دیا کہ وہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلائیں ۔ انھوں نے اپنے اُمتیوں کو بھی یہی کہاکہ لوگوں کو توحید کی دعوت و تعلیم دیں،اور ایک اللہ کی بندگی کی طرف بلائیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ وَ سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o (یوسف ۱۲:۱۰۸) تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰـتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْن o (اٰل عمران۳:۱۶۴) درحقیقت اہلِ ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انھیں سناتاہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تربیت یافتہ گروہ کو دعوت الیٰ اللہ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور لوگوں کی خدمت کے کام پر لگایا، یہاں تک کہ ایک اسلامی حکومت قائم کی اور اس اسلامی حکومت کو بھی دعوت الی اللہ ، امر بالمعروف نہی عن المنکر اور نظام عدل و قسط رائج کرنے کے لیے استعمال کیا۔مومنین کی یہ خصوصیت ہے کہ اللہ جب ان کو اقتدار بخشتا ہے تو وہ یہی کام انجام دیا کرتے ہیں۔ خود اللہ ربِ ذوالجلال نے اس کی نشان دہی کرتے ہوئے فرمایا:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ o (الحج۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیںتو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرمرحلے پر نظامِ عدل و انصاف نافذ کرنے کی ترجیحات کا لحاظ کیا۔ مکہ مکرمہ کی زندگی میں زبانی دعوت پر اکتفا کیا۔ شرک سے لوگوں کو منع کیا، تو حید کی تعلیم دی لیکن کسی بت کو تو ڑنے کی اجازت نہیں دی۔ یہاں تک کہ کعبے میں سیکڑوں بت سجاے گئے تھے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بتوں کی موجودگی کے باوجود کعبے کا طواف کرتے تھے۔ بتوں کی برائی کرتے تھے اور اس گندگی سے لوگوں کو خبردار کرتے تھے لیکن کبھی کسی مسلمان نے مکی زندگی میں کسی بت کو نقصان نہیں پہنچایا۔ صلح حدیبیہ کے اگلے سال حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ ادا کرنے کے لیے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو لے کر مکہ پہنچے، عمرہ ادا کیااور کعبۃ اللہ کا طواف کیا لیکن کسی بت کو توڑے اور کسی کافر اور مشرک کے ساتھ الجھے بغیر واپس مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ العیاذ باللہ انھوںنے مشرکینِ مکہ کے ساتھ کوئی مفاہمت کر لی تھی۔ شرک اور مشرکین کے ساتھ مفاہمت تو انھوں نے اس وقت بھی نہیں کی جب مفاہمت کے بدلے میںمشرکینِ مکہ سرداری اور مال و دولت سمیت ہرطرح کے دنیاوی مفادات دینے کے لیے آمادہ تھے۔ان کی اس خواہش کا قرآن کریم میں بھی ذکر ہے:
وَدُّوْا لَوْ تُدْھِنُ فَیُدْھِنُوْنَ o (القلم ۶۸: ۹) یہ توچاہتے ہیں کہ کچھ تم مداہنت کروتو یہ بھی مداہنت کریں۔
چچا حضور! اللہ کی قسم اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند بھی رکھ دیںاور چاہیں کہ میں یہ کام چھوڑ دوں تو میں ہرگز اس سے پیچھے نہ ہٹوں گایہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو غالب کر دے یا میں اس راستے میں قربان ہوجاؤں۔(رواہ الالبانی)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت خانہ کعبہ کو بتوں سے صاف کیا جب جزیرہ نما عرب میں مشرکین کا زور مکمل طور پر ٹوٹ گیا اور اس کے بعد کسی کے اندر یہ ہمت نہ رہی کہ وہ دوبارہ بتوں کو خانہ کعبہ میں نصب کرسکے۔ توحیدکی تعلیم کو راسخ کرنا، آخرت کی جواب دہی کے احساس کو قلب و روح میں سمودینا اور اللہ کی محبت سے مومنین کو سرشار کرنا وہ بنیادی کام تھا جس کے بعد ہرحکم کی تعمیل آسان ہوگئی۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند کبیرہ گناہوں کے علاوہ عام احکام کی خلاف ورزی پر نہ کوئی حد قائم کی نہ ہی تعزیر دی، مثلاً پردے کا حکم آنے کے بعد بھی کسی روایت سے یہ ثابت نہیں ہے کہ پردہ نہ کرنے پر کسی مسلمان خاتون کو تعزیری سزا دی گئی ہو۔ داڑھی نہ رکھنے یا موسیقی سننے پر سزا دینے کی بھی کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ میرے علم میں کوئی ایسا واقعہ نہیںہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفاے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے ان برائیوںپر کوئی سزا نافذ کی ہو۔ ان تمام برائیوںکو تعلیم و تربیت ، ترغیب ، آخرت کے خوف اور اللہ کا تقویٰ پیدا کرکے مٹانے کی کوشش کی گئی۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی سیرت کی روشنی میں اس کا کوئی جواز نہیں ہے کہ بچیوں کے سکولوں کو برباد کیا جائے یا حجاموں کو نوٹس دیا جائے۔ اس طرح کے اعمال سے اس بنیادی مقصد سے توجہ ہٹ جاتی ہے جس کے لیے اللہ نے انبیا اور رسولوں کو بھیجا ہے اور جس کی واضح تصریح قرآن کریم میں موجود ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (الحدید ۵۷: ۲۵) ہم نے اپنے رسولوںکو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
نظامِ عدل اور اس کا قیام ہی وہ بنیادی مقصد ہے جس کے لیے اللہ نے رسول اور کتابیں بھیجیں۔بدامنی، فتنہ اور بھوک کو ختم کرنابھی بنیادی ترجیحات میں سے ہے اور اس کے لیے لوگوں کو ترغیب دینا اور اس کے لیے عدل و انصاف پر مبنی نظام قائم کرنا مسلمانوں کا فرض ہے ۔
رمضان المبارک کا مہینہ ہمیں یہ موقع فراہم کرتاہے کہ ہم عوام الناس کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل سنت کی طرف متوجہ کریں۔ یہ سنت اقامتِ دین کی جدوجہد ہے، یہ سنت غلبۂ اسلام اور اظہارِ دین جیسے عظیم المرتبت فریضے کی ادایگی ہے جس کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ کی بعثت کا مقصد قرار دیا گیا ہے:
ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا o (الفتح ۴۸: ۲۸) وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔
اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ھُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ o (التوبۃ ۹: ۴۰) تم نے اگر نبی ؐکی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں، اللہ اس کی مدد اس وقت کرچکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ ’غم نہ کر‘اللہ ہمارے ساتھ ہے۔اس وقت اللہ نے اس پراپنی طرف سے سکونِ قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کردیا۔ اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے، اللہ زبردست اور دانا و بیناہے۔
اعلاے کلمۃ اللہ کے کام میں مسلمانوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنالازم کردیاگیاہے۔ یہ کامیابی اور نجات کے لیے ضروری ہے ،قرآن کریم کے مطابق اب ہدایت یافتہ صرف وہی لوگ ہیں جو حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہیں:
(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے)جو اس پیغمبر،نبی امی(صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال کرتا ہے اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے،اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتاہے جو ان پر لدے ہوئے تھے،اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میںوہ جکڑے ہوئے تھے۔لہٰذاجو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریںاور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔(الاعراف ۷: ۱۵۷)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد قرآن کریم اور سیرت رسول ؐسے بالکل واضح ہے۔ اس مقصد کو لوگوں کے ذہن نشین کرنے کے لیے تکرار کے ساتھ لوگوں کے سامنے قرآن کریم اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے دلائل،واضح ہدایات اور احکامات بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ رمضان کا مہینہ اس کام کے لیے نہایت موزوں ہے۔
رمضان المبارک جو بدر،تبوک اور فتح مکہ کے غزوات کامہینہ ہے، جو قرآن کریم کے نزول کا مہینہ ہے ،جو صبر و ثبات اور ضبط ِنفس کامہینہ ہے، ہم سے تقاضا کرتاہے کہ اللہ کے ساتھ تعلق جوڑیں اور اللہ کے راستے میں ایسا جہاد کریں جیساجہاد کرنے کا حق ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اللہ کی راہ میں جہاد کروجیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ اس نے تمھیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے اور دین میں بھی تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیم ؑکی ملت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمھارا نام ’مسلم‘ رکھا تھا اور اس (قرآن)میں بھی (تمھارا یہی نام ہے)۔ تاکہ رسول ؐتم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔ پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اور اللہ سے وابستہ ہو جاؤ۔ وہ ہے تمھارا مولیٰ۔ بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار۔ (الحج ۲۲: ۷۸)
اس وقت پوری دنیا میں اُمتِ مسلمہ ایک کش مکش سے گزررہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام سے پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف امریکا کی سرکردگی میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے۔ نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس جنگ میں اکثر مسلم ممالک کے حکمران امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں۔ بظاہر یہ ایک بڑے ابتلا کا دورہے۔ سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعدسے امریکا اس زعمِ باطل میں مبتلا ہوگیاہے کہ اب انسانیت کے مستقبل کا فیصلہ اکیلا وہی اپنی مرضی سے کرے گا۔ اس کا خیال تھاکہ اب وہ دنیا کی واحد سپرپاورہے ۔ اس کی مادی اور عسکری قوت کے سامنے کسی کو پر مارنے کی جرأت نہیں ہوگی۔ پوری دنیا پر اس کاتہذیبی غلبہ ہوگا۔ تمام انسانوں کو ان کی اقدار کے مطابق پسند و نا پسند کا فیصلہ کرنا پڑے گا۔ مسلمانوں کے وسائل لوٹنے اوردنیا پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے اس نے عراق اور افغانستان پر حملہ کیااور اب ایران کو دھمکیاں دے رہاہے،اور اس کے صدارتی امیدوار اور مجالسِ دانش (think tanks) پاکستان میں گرم تعاقب کی باتیں کررہے ہیں۔
lفلسطین میں مسلمان عملاً محاصرے میں ہیں۔ ان کی زندگی اجیرن کردی گئی ہے۔ غزہ کی پٹی اور دریاے اردن کا مغربی کنارہ ان کے لیے جیل بنادیاگیاہے۔ اسرائیلی جب چاہتے ہیں اور جیسے چاہتے ہیں انھیںاپنے ظلم اورتذلیل کا نشانہ بناتے ہیں۔لیکن یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی اسرائیل کواپنے وجود کی بقا پر یقین نہیں ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ زبردستی چھینی ہوئی زمین پروہ ہمیشہ کے لیے سلامتی سے نہیں رہ سکتے۔ انھیں اس خود دار قوم کاسامناہے جس کے بچے تیغوں کے سائے میں پل کر جوان ہوئے ہیں۔ اللہ کی رضا ان کی غایت ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے قائد و رہنما ہیں، قرآن ان کا دستور ہے، جہاد ان کا طریقِزندگی ہے اور اللہ کے راستے میں موت ان کی سب سے بڑی آرزو ہے۔ ہم جب بھی مسلح اسرائیلی سپاہیوں کے سامنے بے نیازی اور وقار کے ساتھ گزرتے ہوئے فلسطینی بچوں اور محترم اور باپردہ خواتین کو دیکھتے ہیں تو ہمارا یہ یقین تازہ ہوجاتاہے کہ اس خود دار اور جذبۂ حریت سے سرشار قوم کو غلام بنایا جاسکتاہے نہ ہمیشہ اپنے گھروں سے باہر رکھا جاسکتاہے۔ انھیں ایک دن ان شاء اللہ ضرور اپنے وطن کی طرف واپس جانا ہے۔
جموں کے ہندوئوں نے اس کا بدلہ لینے کے لیے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیے اور ان کا محاصرہ کرکے ان کے پھلوں اور دیگر اشیا کو باہر جانے سے روک دیا جس سے انھیں ۲ہزار کروڑ سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ کشمیر کے تاجروں نے یومِ سیاہ کی اپیل کی اور کنٹرول لائن کی طرف ’مظفر آبادچلو‘مارچ شروع کر دیا تاکہ وہ آزاد کشمیر کے مسلمانوں کے ہاتھ اپنا تجارتی مال بیچ سکیں ۔ بھارتی فوج نے ان کے اس پُرامن مارچ پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں شیخ عبدالعزیز سمیت بیسیوں کشمیری شہیداور سیکڑوں زخمی ہو گئے ۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں کشمیری سڑکوں پر آگئے،اور بھارتی فوج کو تاریخ میں پہلی دفعہ ایک ساتھ پورے کشمیر میں کرفیو نافذ کرناپڑا۔ صرف سری نگر میں دو دفعہ تین تین لاکھ کے جلوس نکلے اور پاکستان کے حق میں نعرے لگائے گئے۔ کشمیریوں کی دو نسلیں جوانی اور بڑھاپے کی سرحد عبور کر کے اپنے خالق کے پاس پہنچ چکی ہیں لیکن بھارت کی یہ آرزو پوری نہیں ہو سکی ہے کہ کشمیری مسلمان اپنے آپ کو بھارتی شہری تسلیم کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ کشمیری مسلمان آج بھی اپنامستقبل خود منتخب کرنے کے حق کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے پر آمادہ ہیں اور انھوں نے ایک بار پھر دنیا پر واضح کردیا ہے کہ وہ بھارتی تسلط کو تسلیم نہیں کرتے اور پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے مسلمان تکمیل پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیںمگر پاکستانی حکومت کا رویہ انتہائی قابلِ افسوس وقابل مذمت ہے ۔اس نے کشمیریوں کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاہے ۔ حکومت پاکستان نہ تو حالیہ مظالم پر اقوام متحدہ میں مؤثر آواز اٹھا سکی ہے اور نہ ہی اس مسئلے پر اوآئی سی کا اجلاس طلب کیاجا سکا ہے، بلکہ کشمیریوںکے اقتصادی اور نسلی قتلِ عام کو نظر اندازکرتے ہوئے واہگہ بارڈر پراس سال حکومتی سرپرستی میںمشترکہ جشن آزادی منایاگیا ہے، اور ’رل مل روٹی کھائیے ‘ کے نعرے لگائے گئے،اور لاہور میں ’ڈراما یاترا،۱۹۴۷‘ کے بینرز لگا کراورڈرامے رچاکر تحریک آزادی کے لاکھوں شہیدوں کے خون اور مسلمانانِ برعظیم کی بے مثال قربانیوں کا مذاق اڑایاگیا۔ یہ سب ایسے وقت میں ہوا جب تخت لاہور پرقائد اعظم کی نام لیوا اور نظریہ پاکستان کی حفاظت کرنے کی دعوے دار مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو اس سوال کا جواب دینا چاہیے کہ ہماری نظریاتی و جغرافیائی سرحدیں کس کی اجازت سے پامال کی جارہی ہیں، اور نظریہ پاکستان کے خلاف سرگرم ان این جی اوز کو کیوں کھلی چھٹی دی گئی ہے۔ پاکستان کے حکمران کشمیریوں کے ساتھ بے وفائی کرسکتے ہیں مگر۱۶ کروڑ پاکستانی عوام کے دل کشمیری مسلمانوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ ان کے ساتھ کلمہ طیبہ کے رشتے کو نہیں بھلا سکتے ۔
قبائلی علاقوں اورصوبہ سرحد کی صورت حال بھی حکومت کی فوری توجہ کی متقاضی ہے۔ صوبائی چیف سیکرٹری کے اپنے بیان کے مطابق باجوڑ ایجنسی کی نصف آبادی ہوائی جہازوں کی شدید بم باری اور گولہ باری کے نتیجے میں نقل مکانی پر مجبور ہوئی ہے۔ ضلع سوات کے ایک علاقے کے لوگ شدید گولہ باری کی وجہ سے دوسرے علاقوں کی طرف کوچ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس بم باری اور گولہ باری کے نتیجے میں اب تک سیکڑوں لوگ قتل اور ہزاروں لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ نقل مکانی کرنے والوں کے لیے جماعت اسلامی نے سواریوں کا انتظام کیا ہے اور ریلیف کیمپ قائم کیے ہیں ۔ ایک ایک کیمپ میں ہزاروں لوگ پناہ گزیں ہیں۔
خیبر ایجنسی، مہمند ایجنسی اور کرم ایجنسی کا حال بھی مختلف نہیں ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں پوری فوج کی حفاظت کے لیے ہر وقت تیار ہزاروں تربیت یافتہ جاںنثار سربکف مجاہدین مہیا تھے۔ اپنے لوگوں پر امریکی مفادات کی خاطر ظلم ڈھانے والی فوج کیا اب بھی توقع رکھتی ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے کوئی نرم گوشہ باقی ہوگا۔ دشمن کی اس سے زیادہ خدمت کیا ہوسکتی ہے کہ فوج اور عوام کے درمیان نفرت کے بیج بوئے جائیں۔
پاکستان کے غریب عوام اپنی بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہیں،اور کروڑوں عوام خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں،اور ان میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ دوسری طرف غیرملکی اکاؤنٹس اورتجوریاں بھری جا رہی ہیں۔ ملک میں گندم،چینی،سیمنٹ اور اشیاے خوردونوش کے بحران اس لیے نہیں آتے کہ یہ چیزیں موجود نہیںہوتیں بلکہ انھیں ذخیرہ کرلیا جاتا ہے۔ اور سارے ذخیرہ اندوز اور مل مالکان اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں اور ان میں سے بعض مرکز اور صوبوں میں وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ایسے حکمرانوں کو بدلنے کے لیے جدوجہد کرنا فرض اور جہاد ہے ۔ یہ کام ہتھیار اٹھانے اوربم دھماکوںکے بجاے عوام کی منظم اور پُرامن جدوجہد سے ہو گا ۔
پرویز مشرف رخصت ہوچکے۔ان کے استعفے کا بڑا سبب یہ بناہے کہ فوج نے ان کا مزید ساتھ دینے سے صاف انکار کردیا ۔ اگر چیف آف آرمی سٹاف غیر جانب دار انہ رویہ اختیار نہ کرتا تو پرویز مشرف ڈھٹائی کا رویہ چھوڑنے پر کبھی آمادہ نہ ہوتا۔ سویلین حکمرانوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ملک میں اب بھی فوج اور فوج کا چیف سب سے زیادہ طاقت ور ادارے ہیں جو امریکا اور مغربی اقوام کی گرفت میں ہیں اور ان کے تہذیبی اور معاشی مفادات کے محافظ ہیں۔ اگر سویلین حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں جمہوری روایات جڑ پکڑ سکیں اور ملک کو بار بار کی فوجی مداخلت سے نجات ملے تو انھیں امریکا کے بجاے عوامی امنگوں کا ساتھ دیناہوگا۔ پرویز مشرف کی غیر مقبولیت کی بڑی وجہ ان کی امریکا نوازی اور اسلام دشمن پالیسیاں تھیں: افغان عوام کی آزادی کے خلاف امریکا اور ناٹو افواج کا ساتھ دینا، نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکا کا صفِ اول کا حلیف ہونے پر فخر کرنا، اللہ تعالیٰ اور عوام کی دوستی کے بجاے امریکی دوستی کا سہارا لینا ، کشمیر پر سودے بازی کرنا، کرپشن کا خاتمہ کرنے کے بجاے فوج او ر سیاست دانوں کے لیے مزید کرپشن کے راستے کھولنا، محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قید و بند میں ڈالنااورپوری دنیا میں انھیںرسوا کرنا۔
پرویز مشرف کا ایک بڑا جرم یہ ہے کہ اس نے ملک کو اپنی نظریاتی اساس سے ہٹانے کی کوشش کی، آئین کو دوبار پاؤں تلے روندا اور اعلیٰ عدالتوں کے معزز ججوں کو غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر جبری معطل کیا اور ان کی جگہ اپنے من پسند ججوں کو تعینات کیا۔ امریکی اشارے پر نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم میں تبدیلیاں کیں۔ سوات ،وزیرستان ، باجوڑ ، مہمند ایجنسی، خیبر ایجنسی اور بلوچستان میں فوجی آپریشن کرکے فوج اور عوام کے درمیان امریکی مفادات کی خاطرنفرت کی خلیج حائل کی اور بغاوت کے بیج بوئے۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے مسئلے پر کامیاب مذاکرات کو سبوتاژ کیا اور ہزاروں معصوم بچیوں اورطلبہ کو فاسفورس بموں اور گولیوں سے بھسم کرایا ۔ مدارس پر چھاپے مارے، اور مجاہدین ،علماے کرام اور ہزاروں لوگوں کو حقیر مالی مفادات کے عوض امریکا کے حوالے کیا جس کا اعتراف اس نے خود اپنی کتاب میں کیاہے۔
حال ہی میں ایک بہادر مسلمان خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا واقعہ دنیا کے سامنے آگیا ہے جو پاکستانی حکام کی بے ضمیری اور بے حمیتی کامنہ بولتا ثبوت ہے۔اسے مارچ ۲۰۰۳ ء میں کراچی کی سڑک سے پاکستانی ایجنسیوں نے اغوا کیاتھا۔ اس کے خاندان کے افراد کوایجنسیوں کے اہل کاروں نے ڈرا دھمکا کر خاموش کرادیاتھااور سالہا سال تک لوگوں کے سامنے اس بہادر خاتون کے بارے میںمعلوم بھی نہیں ہوسکاتھاکہ وہ کہاں ہے اورکس ظلم کا شکار ہے۔ حکومت پاکستان اس وقت تک خاموش رہی جب تک مغربی میڈیا کے ذریعے پتا چلا کہ بگرام ائیر بیس پر ایک پاکستانی خاتون قید ہے، اور اس سے انتہائی غیر انسانی سلوک روا رکھا جا رہاہے۔ اب اسے ایک سراسر جھوٹے اورلغو مقدمے میں امریکی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہے مگر اس کے تین بچوں کا ابھی تک کہیں اتا پتا نہیںہے۔ ۱۱ ستمبر کے بعد سے پاکستان کو امریکی جنگ میں جھونک دینے والے حکمرانوں سے یہ نہیں ہو سکا کہ وہ قوم کی بیٹی کی واپسی کا مطالبہ کرسکیں۔ اس طرح کی کہانی آمنہ مسعود جنجوعہ کی ہے جو دوسری ہزاروں خواتین اور بزرگوں کے ہمراہ اپنے پیاروں کی تلاش میں سرگرداں ہے جنھیں پاکستانی ایجنسیوں نے غائب کررکھاہے یا امریکا کے حوالے کردیا ہے۔
ہمارے خیال میںبظاہرمواخذے کی گرد اڑا کر اس کی آڑ میں پرویز مشرف کو محفوظ راستہ دینے کے انتظامات کیے گئے۔ اگرایک قومی مجرم کاٹرائل نہ کیاگیا توعوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ پیپلز پارٹی اس احسان کا بدلہ اتار رہی ہے جوپرویز مشرف نے این آر او کے تحت قومی خزانے سے لوٹے ہوئے اربوں ڈالر کے اندرون و بیرون ملک مقدمات واپس لے کر کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پرویز مشرف کو محفوظ راستہ دینے کا مشورہ دینے والے ملک و قوم کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں وہ امریکا کے گیم پلان پر عمل کررہے ہیںاور امریکی اشاروں کے تابع ہیں۔
یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ آج تک ملک کا آئین توڑنے والے کسی فوجی ڈکٹیٹر کا احتساب نہیں ہوا بلکہ یہاںملک توڑنے والے فوجی آمر کو مرنے کے بعد قومی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کا آئین بار بار فوجی بوٹوں تلے روندا جاتارہاہے ۔ آئین توڑنے والوں میں سے کسی ایک کو آئین میں درج سزا دے دی جاتی تو کسی اور کو آئین توڑنے کی جرأت نہ ہوتی۔ اس پس منظر میں قوم کا مطالبہ ہے کہ پرویز مشرف پرآئین کے آرٹیکل ۶کے تحت مقدمہ چلایا جائے اور اُسے قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آیندہ کوئی جرنیل آئین توڑنے کی جرأت نہ کر سکے۔
انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی بحالی کے بعد پرویز مشرف کوسپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا جائے اور اس پر آرٹیکل ۶ کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔ نام نہاد قومی مفاہمت کے آرڈی ننس (این آر او)کو بھی عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ پوری قوم کے ساتھ انصاف ہوا ور جن لوگوں نے قومی مفادات کے خلاف عمل کیا ہے یا قومی دولت کو ناجائز طریقوں سے لوٹاہے اور بیرون ملک منتقل کیا ہے ان کو قرار واقعی سزا مل سکے۔ اگر حکمران انصاف کے راستے میں حائل ہوگئے یا اپنے آپ کو انصاف سے بالا تر بنانے کی کوشش کی تو وہ نہ قوم کا کوئی بھلا کرسکیں گے اور نہ خود ہی دنیا و آخرت میں سرخ رُوئی حاصل کرسکیں گے۔
اگر حکمرانوں نے ماضی سے سبق سیکھاہے تو وقتی کامیابی پر خوشی منانے کے بجاے انھیں پرویز مشرف کی غلط پالیسیوں کو خیر باد کہنا پڑے گااور نئے سرے سے پالیسیاں تشکیل دینی ہوںگی۔پالیسیاں بنانے کی قومی خودمختار ی واپس حاصل کرنی پڑے گی اور خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی ۔اور اہم بات یہ ہے کہ ملکی معاملات کو چلانے میں دستور کی پابندی کرنی پڑے گی۔
۱- ہمارا ملک ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے ۔ اسلام کا نظریہ اس کی بنیادوں میںشامل ہے۔ یہ کہنا کہ قائد اعظم ایک سیکولر ریاست چاہتے تھے ایک لغوبات ہے کیونکہ قائد اعظم برعظیم ہندوپاک کے مسلمانوں کو سیکولرازم کا نعرہ دے کر نہ متحدکرسکتے تھے نہ انھیں کسی جدوجہد پر آمادہ کرسکتے تھے۔ پاکستان قائد اعظم نے کسی ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر نہیں بنایا بلکہ پورے برعظیم کے کروڑوں لوگوں کا تعاون حاصل کرکے بنایا ہے جن میں کروڑوں لوگوں کو یہ بھی معلوم تھاکہ وہ اس نئے وجود میں آنے والے ملک کا حصہ نہیں بنیں گے لیکن انھوں نے محض اس لیے اس جدوجہد کا ساتھ دیا کہ وہ دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اسلامی ریاست کا قیام چاہتے تھے جو امت مسلمہ کے لیے تقویت کا باعث بنے گی۔ قائداعظم کی۱۱ ستمبر۱۹۴۷ء کی تقریر کو جو لوگ سیکولرازم کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں وہ قائد اعظم پر ایک بہت بڑی تہمت باندھتے ہیں۔ ان لوگوں کی خلافِ اسلام کوششوں کے باوجود پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے قرار دادِ مقاصد پاس کی جو پاکستانی دستور کی مستقل بنیاد ہے۔ اس قرارداد میں اللہ کی حاکمیت اور قرآن و سنت کی حدود میں رہ کر زندگی بسر کرنے اور قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کرنے کا عہد کیاگیاہے۔
۲- دوسری بنیاد یہ ہے کہ عوام کے منتخب نمایندوں پر مشتمل پارلیمنٹ کو تمام دوسرے اداروں پر بالادستی حاصل ہے اور دوسرے تمام ادارے عوام کی منتخب مجلس کی اطاعت کریں گے ۔
۳- تیسر ی بنیاد یہ ہے کہ انتظامیہ اور عدلیہ علیحدہ ہیں اور عدلیہ فیصلے کرنے میں آزاد ہے۔ سپریم کورٹ کی راہ نمائی میں ملک کا عدالتی نظام ہر طرح کے سیاسی و انتظامی دبائو سے آزاد ہوگا۔
۴- دستور میں صوبائی خودمختاری کی حدود متعین کردی گئی ہیں اور صوبوں کی خودمختاری کا احترام کرنا مرکزی اداروں کا فرض ہے۔ وفاق بھی صوبائی خودمختاری کا احترام کرے گا۔
۵- افواجِ پاکستان ایک محترم ادارہ ہے جو پارلیمنٹ اور منتخب حکومت کے تابع ہے۔ ہرفوجی سیاسی معاملات میں عدمِ مداخلت کا حلف اٹھاتا ہے۔ جو حلف توڑتا ہے، غداری کا مرتکب ہوتا ہے۔
۶- دستور میں صدر اور وزیراعظم، مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت ،عدلیہ ،مقننہ اور انتظامیہ کے حدود اور باہمی تعلق کی پوری وضاحت موجود ہے۔
اگر منتخب حکومت ماضی کے تلخ تجربات کو سامنے رکھ کر دستوری حدود کے اندر رہے گی اور ہر طرح کی بدعنوانیوں کے داغ سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے گی تو فوج کو یہ ہمت نہیں ہوسکے گی کہ وہ منتخب حکومت کے خلاف اقدام کرسکے۔ لیکن اگر وہ دستور اور قانون سے تجاوز کریں گے اور اظہارِ راے ، اجتماع ، پرامن جلسے جلوس اور پریس کی آزادی کو سلب کرنے کا رویہ اختیار کریں گے تو وہ خود اپنے پائوںپر کلہاڑی ماریں گے۔
امید ہے کہ سابقہ تجربات سے سبق حاصل کرکے حکمران انصاف اور میر ٹ کا بول بالا کریں گے اور عدل و انصاف کے سامنے خود اپنے آپ کو بھی پیش کریں گے اور اپنے تعلق کی بنا پر کسی کو رعایت نہیں دیں گے اور اپنے مخالفین کو بھی سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے بجاے ان کے ساتھ بھی انصاف کریں گے۔
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o
وَ جَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ھُوَ اجْتَبٰکُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰھِیْمَ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ ھُوَ مَوْلٰکُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ o
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سید یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں قائم ہونے والی مخلوط حکومت نے اپنے پہلے ۱۰۰ دن کے پروگرام کا اعلان کر کے پاکستانی سیاست میں ایک نئی مثال قائم کی تھی۔ حکومت کے پہلے ۱۰۰ دنوں کو انقلابی تبدیلیوں کا فیصلہ کن زمانہ قرار دینے کی روایت امریکا میں صدر روز ویلٹ نے ۱۹۳۳ء میں قائم کی جب ۴سال کی تباہ کن کساد بازاری کے بعد امریکی عوام نے ان کو سرمایہ دارانہ نظام کو اس کے بدترین ابتلا سے نکالنے کا مینڈیٹ دیا اور انھوں نے جنوری ۱۹۳۳ء میں صدارت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی ۱۰۰ دن میں امریکا کی معیشت اور سیاست کا رخ بدل دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس طرح وہ تاریخی عمل شروع ہوا جسے نیوڈیل (New Deal) کے نام سے جانا جاتا ہے اور جس میں روزویلٹ کی قیادت میں معاشی اعتماد جو پارہ پارہ ہوگیا تھا، بحال ہوا۔ بنکوں نے دوبارہ کام شروع کیا۔ حکومت نے مثبت معاشی کردار ادا کیا اور قانون سازی کے ذریعے معاشی زندگی کی ازسرنو نظم بندی کرکے ملک کو تاریکیوں سے نکال کر روشن راہوں پر سرگرمِ عمل کردیا۔ ان ۱۰۰دنوں میں روزویلٹ نے ۱۵ نئے اہم اور انقلابی قوانین منظور کرائے، کانگریس کو ۱۵ پیغام بھیجے، ۱۰ پُرعزم تقاریر کیں، ہفتہ میں دو بار کابینہ کا اجلاس کیا، ایک بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا اور ملکی اور عالمی سیاست کے میدانوں میں تاریخ ساز پالیسیوں کا اعلان کر کے ایک نئی روایت قائم کی۔ روزویلٹ کے اس اقدام نے جمہوری سیاست میں ’حکومت کے پہلے ۱۰۰دن‘ کے باب کا اضافہ کیا۔
پاکستان میں اس نسخے کو پہلی بار زرداری گیلانی حکومت نے استعمال کیا اور مارچ ۲۰۰۸ء میں اقتدار سنبھالتے ہی ایک خوش کن پروگرام کا اعلان کیا جس میں آمریت کے خاتمے، عدلیہ کی بحالی، پارلیمنٹ کی بالادستی، امن و امان کے قیام، معیشت کی اصلاح، کفایت کے فروغ، مزدوروں اور طلبہ کے حقوق کی بحالی، روزگار کی فراہمی، قیمتوں کے استحکام، عوامی احتساب اور مذاکرات کے ذریعے سیاسی مسائل کے حل کی نوید سنائی گئی۔ حکومت نے خود اپنی کارکردگی کی پرکھ اور سیاست اور معیشت کے نئے رخ کی جانچ کے لیے قوم اور میڈیا کو ایک معیار اور میزان فراہم کی___ ۱۰۰ دن کا اعلان کردہ پروگرام ایک آئینہ ہے جس میں حکومت کی کارکردگی کا اصل چہرہ دیکھا جاسکتا ہے اور غالباً اس بارے میں دو آرا مشکل ہیں کہ یہ تصویر تاریک، داغ دار اور مایوس کن ہے۔
اس کا اندازہ انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام کیے جانے والے اس عوامی جائزے سے کیا جاسکتا ہے جو چاروں صوبوں کی ۵۰ تحصیلوں کے ۲۲۳ دیہی اور ۱۲۷شہری علاقوں سے متعلق ۳ہزار ۴سو ۸۴ خواتین و حضرات کے انٹرویوز پر مبنی ہے۔ اس کی رو سے آبادی کے ۸۶ فی صد افراد کا فیصلہ یہ ہے کہ پاکستان میں جاری پالیسیوں کا رخ غلط ہے۔ حکومت کی کارکردگی کو ۵۱ فی صد نے مایوس کن قرار دیا ہے۔ عوامی راے کا یہ جائزہ اس حیثیت سے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے کہ آبادی کا ۸۳ فی صد جنرل (ر) پرویز مشرف کو صدارت سے ہٹانے کے حق میں ہے اور عوامی تائید اور پسندیدگی کے اعتبار سے سب سے مقبول لیڈر نواز شریف ہیں جن کو ۸۲ فی صد لوگ پسند کرتے ہیں۔ ان کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان آتے ہیں جن کو ۷۶فی صد کرسی صدارت پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے بعد مقبول ترین شخصیت چیف جسٹس افتخار چودھری کی ہے جنھیں ۶۵ فی صد کی تائید حاصل ہے۔ زرداری صاحب کو جو اس وقت سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں ۴۵فی صد کی، جب کہ یوسف رضا گیلانی کو ۶۴ فی صد اور امین فہیم کو ۴۹ فی صد (زرداری صاحب سے ۴درجے زیادہ) کی تائید حاصل ہے۔
اس جائزے کی رو سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخصیت پرویز مشرف کی ہے۔ عوامی سوچ کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ ۱۰۰ میں سے ۸۹ افراد نے ملک کے سب سے اہم مسئلے کے طور پر معاشی مسائل کو پیش کیا ہے (۷۱ فی صد افراطِ زر اور مہنگائی، ۱۳ فی صد بے روزگاری اور ۵ فی صد غربت) اور ان کے ۷۲ فی صد کا کہنا ہے کہ ان کی معاشی حالت گذشتہ ۴ مہینوں میں خراب ہوئی ہے۔ ۷۱ فی صد کی راے میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کا حل صرف سیاسی ہے اور ۶۵ فی صد نے دہشت گردوں سے امن معاہدے کی تائید کی ہے۔ دہشت گردی کو اہم ترین مسئلہ قرار دینے والوں کی تعداد صرف ۱۲ فی صد ہے، جب کہ خودکش حملوں سے خطرہ محسوس کرنے والے افراد صرف ۲فی صد ہیں۔ رہا القاعدہ سے خطرہ محسوس کرنے کا سوال، تو ان کی تعداد ایک فی صد سے بھی کم ہے۔ (ملاحظہ ہو، روزنامہ ڈان، ۱۸ جولائی ۲۰۰۸ء اور بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، ۱۷ جولائی ۲۰۰۸ئ)
زرداری گیلانی حکومت کا بے لاگ اور معروضی جائزہ اس حقیقت کے اعادہ کے بغیر منصفانہ قرار نہیں دیا جاسکتا کہ اس حکومت کو مارچ ۲۰۰۸ء میں مشرف دور کی آٹھ سالہ غلط اور تباہ کن معاشی، سیاسی، انتظامی اور خارجہ پالیسی کے نتائج سے سابقہ تھا اور اس کے ساتھ عالمی معاشی اور سیاسی حالات بھی بڑے ناموافق تھے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ سارے حالات ۲۰۰۷ء میں کھل کر سامنے آگئے تھے اور پیپلزپارٹی نے اپنے منشور میں 5-E۱؎ کا جو پروگرام پیش کیا تھا وہ ان حالات کے پیش نظر ہی پیش کیا گیا تھا۔ پھر کسی مطالبے کے بغیر پہل کاری کرتے ہوئے ۱۰۰ دن کا جو پروگرام اس نے پیش کیا، وہ نہ کسی مجبوری کی وجہ سے تھا اور نہ آنکھیں بندکرکے مرتب کیا گیا تھا۔ توقع یہی کی جاتی ہے کہ ۱۰۰ دن کا پروگرام سوچ سمجھ کر پیش کیا گیا تھا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کا ۵ فی صد بھی ان چار مہینوں میں حاصل نہیں کیا جاسکا۔ یہ حکومت کی موجودہ ٹیم کی نااہلی اور اس پورے دروبست کی ناکامی کا ثبوت ہے جو آصف علی زرداری نے محترمہ بے نظیرکی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کو اپنی گرفت میں لے کر اپنی پسند کی ایک ٹیم کے ذریعے قوم کو دیا تھا۔ یہ ناکامی دراصل زرداری صاحب اور ان کی ٹیم کی ناکامی ہے اور ان پالیسیوں کی ناکامی ہے جو عملاً انھوں نے اختیار کیں اور ۱۰۰ دنوں کے اعلان کردہ پروگرام کو پسِ پشت ڈال کر ملک اور خود اپنی پارٹی پر مسلط کیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود پیپلزپارٹی کے ایک رکن جناب امین فہیم اور محترمہ بے نظیر کی ٹیم کے اہم افراد اس ناکامی کا کھلے بندوں اعتراف کر رہے ہیں اور زرداری صاحب اور ان کی پالیسیوں اور ان کے مقرر کردہ افراد کو ان حالات کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ امین فہیم صاحب کے ارشادات نوٹ کرنے کے لائق ہیں جن کی مزید تفصیل دی نیوزانٹرنیشنل کی ۱۶جولائی ۲۰۰۸ء کی اشاعت میں دیکھی جاسکتی ہے:
پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے صدر نے دی نیوز کو بتایا: میں تمام ممکنہ نتائج بشمول زرداری کے زیراثر قیادت کی جانب سے شوکاز نوٹس کا سامنا کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہوں۔ انھوں نے کہا: پارٹی کے موجودہ رہنمائوں نے پارٹی کو حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے اور ملک کی صورت حال خراب ہوتی جارہی ہے۔ امین فہیم یہ کہتے ہوئے کہ پارٹی کو چند نئے آنے والوں اور مفادات پرستوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے، آبدیدہ ہوگئے۔
امن و امان کی صورت حال بگڑ رہی ہے، لوگ اپنے بچوں کے ساتھ خودکشیاں کررہے ہیں، سرحدیں غیرمحفوظ ہیں، قیمتیں بے تحاشا بڑھ رہی ہیں اور ملک میں دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ امین فہیم نے تفصیل سے بتایا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی زیرقیادت حکومت اس قابلِ افسوس صورت حال کی پوری طرح ذمہ دار ہے۔ حکومت نے ۱۰۰ دن گزرنے کے باوجود ان دائروں میں بہتری کے لیے کچھ نہ کیا۔ پی پی پی پی کے صدر نے ایک سوال کے جواب میں اس سے اتفاق کیا کہ پارٹی کی مقبولیت کا گراف مسلسل گر رہا ہے اور یہ حالت اگر جاری رہی تو ہر کوئی اندازہ لگاسکتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے؟
خودکشیاں، قیمتوں میں اضافہ اور امن و امان کی صورت حال حکومت کے قابو سے بالکل باہر ہے۔ سینیر ممبر ہونے کی حیثیت سے میرایہ اولین فرض ہے کہ پارٹی کے معاملات اوراس کے ساتھ ساتھ حکومت کے معاملات میں خامیوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کی نشان دہی کروں۔ اگر پارٹی کی قیادت اس کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی سمجھتی ہے، تب بھی میں اپنے موقف پر قائم رہوں گا۔
پی پی پی کے سینیر نائب صدر مخدوم امین فہیم نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی اب بھی بیک ڈور چینل کے ذریعے صدر پرویزمشرف سے رابطے میں ہے اور قوم پیپلزپارٹی کی زیرقیادت حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔ ۱۰۰ دنوں میں کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ صرف افراطِ زر کو بڑھایا گیا ہے۔ امن و امان کی صورت حال خراب ہے اور اغوا براے تاوان اپنے عروج پر ہیں۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۰ جولائی ۲۰۰۸ئ)
صاف نظر آرہا ہے کہ ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے عوامی مینڈیٹ کو زرداری حکومت نے سوچ سمجھ کر نظرانداز کیا ہے اور عوام نے جس تبدیلی (change) کے لیے قربانیاں دی تھیں اور سیاسی جماعتوں اور نمایندوں کو مینڈیٹ دیا تھا، اس کو پسِ پشت ڈال کر مشرف کے دور کی پالیسیوں کے تسلسل کا راستہ اختیار کیا گیا۔ یہ ہے وہ اصل وجہ جس کے نتیجے میں آج تک نہ ملک کا رخ درست ہوسکا ہے، نہ جمہوریت کی طرف پیش قدمی ہوئی ہے، نہ عدلیہ بحال ہوئی ہے، نہ امن و امان میں بہتری کی کیفیت رونما ہوئی ہے، نہ معیشت میں کوئی مثبت پیش رفت ہوئی ہے، نہ عوام کی زندگی میں بہتری کی کوئی صورت پیدا ہوئی ہے، نہ امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آگ سے پاکستانی عوام اور پاکستانی فوج اپنا دامن بچا سکے ہیں، نہ اپنی آزادی اور عزت کو درپیش خطرات سے بچائو کی سرِمو بھی کوئی راہ اختیار کرسکے ہیں۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ پوری دیانت داری، لیکن جرأت اور بے باکی سے، اس امر کا تعین کیا جائے کہ کہاں غلطی ہوئی ہے، عوام کے اعتماد کو کس نے اور کس طرح ضرب لگائی ہے اور چند مہینے میں نئی قیادت نے کس تیزی سے قوم کو مایوس کیا ہے اور مسائل کو مزید الجھا دیا ہے۔ اس نشان دہی کی بھی ضرورت ہے کہ اب بھی اس دلدل سے کیسے نکلا جاسکتا ہے اور قوم کو کسی نئے طالع آزما یا پرانے شاطروں کے گھنائونے کھیل سے کس طرح بچایا جاسکتاہے۔
۲۵ مارچ ۲۰۰۸ء کو قومی اسمبلی نے قائد ایوان کا متفقہ انتخاب کر کے جمہوریت، دستور اور قانون کی حکمرانی کے احیا کی طرف صحیح قدم اٹھایا تھا۔ فروری کے انتخابات کا یہ پیغام بھی سب کے سامنے تھا کہ اب قوم کو فوری طور پر آمریت اور اس کے دست و بازو سے نجات حاصل کرنا ہے اور جمہوریت کا سفر باہمی مشاورت، تعاون اور قومی یک جہتی پیدا کرکے جاری رکھنا ہے۔ قوم نے کسی ایک پارٹی کو مکمل اکثریت نہیں دی تھی جس کا تقاضا تھا کہ کم از کم دونوں بڑی پارٹیاں یعنی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) مل جل کر سارے معاملات کو طے کریں اور باقی ان تمام جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیں جو مشرف کے آمرانہ دور میں اس کی شریک کار نہ تھیں۔ ۱۸فروری کے انتخابی نتائج سے رونما ہونے والی سیاسی صورت حال کی تشکیل میں جہاں ان جماعتوں اور سیاسی کارکنوں کا کردار تھا جن کو عوام نے اپنے اعتماد کا ووٹ دیا، وہیں ان قوتوں کا بھی بڑا اہم کردار تھا جنھوں نے انتخاب کا بائیکاٹ کیا اور سیاسی فضا کو بنیادی تبدیلی کے لیے تیار کیا۔ ان میں اے پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کے ساتھ وکلا برادری کی جان دار تحریک، برطرف ججوں کی جرأت اور استقامت، طلبہ اور سول سوسائٹی کی انقلابی جدوجہد ہر ایک کا حصہ تھا۔ ضرورت تھی کہ پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر تمام اہم سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر آگے کے مراحل کو طے کیا جاتا۔ لیکن زرداری صاحب نے بظاہر تو دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے کی حکمت عملی اختیارکی مگر فی الحقیقت یہ حکمت عملی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قومی مفاہمتی آرڈی ننس (NRO) کی چھتری تلے پناہ لینے والوں کے نیوکلیس کو مضبوط و مستحکم کرنے اور باقی سب کو اس نیوکلیس کے لیے سہارا اور مددگار بنانے پر مبنی تھی۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت بنانے کا ڈھونگ رچایا گیا مگر ساتھ ہی اے این پی اور جمعیت علماے اسلام (ف) ہی کو نہیں بلکہ ایم کیو ایم کو بھی ساتھ ملانے اور ان کوتوازن اقتدار (balancing power) کی پوزیشن میں لانے کا کھیل کھیلا گیا۔ پہلے دن ہی ججوں کی حراست کو ختم کیا گیا مگر اس کے دوسرے اور اہم تر منطقی اقدام یعنی ججوں کی بحالی کو جان بوجھ کر بلکہ بار بار دھوکا دے کر مؤخر اور معلق کیا گیا اور جو کام پہلے ہفتے میں ہوجانا چاہیے تھا اور جس کے نتیجے میں نظامِ عدل بحال ہوجاتا آج تک نہیں کیا گیا اور اس پر طرّہ یہ کہ ایک دستوری پیکج کے نام پر نہ صرف ججوں کی بحالی کو لاینحل الجھائو کا شکار کردیا گیا بلکہ عدالت کی آزادی اور اختیارات پر بھی شب خون مارا گیا تاکہ ہمیشہ کے لیے دستوری نظام کایہ ستون ریت کی دیوار بن جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ آمریت کے وار سے برطرف ججوں کی بحالی اور جنرل پرویز مشرف کی صدارت سے نجات پرچہ امتحان (test case) کی حیثیت رکھتے تھے لیکن اب یہ بات الم نشرح ہوچکی ہے کہ زرداری صاحب کا پہلے دن سے ان دونوں امور کے بارے میں مقصد اس سے بالکل مختلف تھا جس کا وہ بظاہر اعلان کر رہے تھے اور دوسری سیاسی جماعتوں کو یقین دلا رہے تھے۔ جیساکہ اب ملک اور ملک سے باہر کے بالغ نظر اور آزاد تجزیہ نگار کھل کر لکھ رہے ہیں، زرداری صاحب کی پرویز مشرف سے این آر او کی بنیاد پر مضبوط باہمی اتفاق ہے۔ این آر او کے تحت احتساب اور قانون کی گرفت سے نکلنے والے ایک ایک شخص کو انھوں نے اپنی ٹیم کا حصہ بنایا ہے اور ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کو وہ این آر او اور اس کی چھتری میں پناہ لینے والے تمام افراد کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ۳۰دن کا بھوربن کے اعلان کو بعد میں ایک سیاسی بیان کہہ کر غیراہم قرار دیا لیکن اس طرح انھوں نے خود اپنی زبان سے اپنی زبان کے غیرمعتبر ہونے کا اعلان کردیا۔ پھر ۱۲مئی کا وعدہ کیا گیالیکن وہ بھی وفا نہ ہوا اور مسلم لیگ (ن) وزارتوں سے مستعفی ہونے پر مجبور ہوئی۔ ۲۵مارچ سے وزیراعظم گیلانی اور جناب زرداری جس ’خوش خبری‘ کا اعلان کر رہے ہیں وہ خوش فہمی ہی نہیں، دھوکا دہی کی حدوں سے بھی آگے جاچکی ہے، اور جیساکہ جسٹس (ر) خلیل الرحمن رمدے نے مجبور ہوکر کہہ ہی دیا ہے وہ حقیقت اب سب کے سامنے ہے۔ جسٹس رمدے کا جیو ٹی وی پر انٹرویو شائع ہوا ہے جس کا یہ حصہ اصل حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے:
معزول جج خلیل الرحمن رمدے کو پرویز مشرف کے مقابلے میں جمہوری منتخب حکومت عدلیہ کی زیادہ مخالف نظر آتی ہے۔ رمدے نے کہا کہ آرمی چیف اور صدر پرویز مشرف مارشل لا لگانے اور کوئی ۶۰ججوں کو برطرف کرنے کے لیے صرف اس لیے مجبور ہوا کہ اپنی صدارت کو جاری رکھ سکے لیکن آج کی جمہوری طور پر منتخب حکومت اس سے آگے جاچکی ہے۔ یہ عدلیہ کے دستوری اختیارات کو کم کردینا چاہتی ہے۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۱ جولائی ۲۰۰۸ئ)
مشہور ماہر قانون ڈاکٹر فاروق حسن اپنے مضامین میں این آر او کے اس طلسماتی کردار کا مضبوط دلائل کے ساتھ ذکر کر رہے ہیں۔ ۲۹جون ۲۰۰۸ء کے دی نیشن میں وہ NRO: Musharruf's Proxy Warکے عنوان سے لکھتے ہوئے بجاطور پر کہتے ہیں کہ مشرف کرسیِ صدارت پر براجمان ہے تو اس کی وجہ این آر او ہے جو مشرف نے اس لیے جاری کیا کہ پیپلزپارٹی کی سیاسی طاقت کو قابو کرسکے۔
یہ صرف این آر او کی وجہ سے ہے کہ تمام سیاسی محاذوں پر بھاری ناکامی کا سامنا کرنے کے باوجود مشرف اس طرح برسرِاقتدار رہنے میں کامیاب ہو سکا ہے۔ حقائق پوری طرح ثابت کرتے ہیں کہ یہ اس لیے ممکن ہوا ہے کہ این آر او سے فائدہ اٹھانے والے وفاقی حکومت کے بہت سے طاقت ور افراد مشرف کی سیاسی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس لیے پاکستانی عوام یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں:
۱- اس آرڈی ننس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے کون ہیں؟
۲- ان میں سے کتنے موجودہ حکومت میں ہیں؟
۳- ان رقومات کی مقدار کتنی ہے جو وہ اجتماعی اور انفرادی طور پر حکومت کی گرفت سے بچانے میں کامیاب ہوگئے ہیں؟
میں حیرت زدہ ہوں اور بے حد افسردہ بھی، کہ پاکستان کے سیاسی اور سماجی ماحول میں شر کی قوتیں بظاہر مضبوطی سے قائم ہیں۔ اس واضح نوشتۂ دیوار کے باوجود کہ ججوں کی بحالی کے مسئلے کو حل کیے بغیر پیپلزپارٹی اور زرداری کے لیے شرمناک ناکامی مقدر ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ مشرف نے زرداری اور بی بی کے بارے میں اتنا کچھ کہنے کے بعد اچانک ان کو آنے کی اجازت دے دی، اس کے باوجود کہ امریکی اور برطانوی خارجہ عہدے داران نے اس ڈیل میں مداخلت کی، مشرف کے لیے ’اِس ہاتھ دے، اُس ہاتھ لے‘ والا معاملہ تھا جو اس وقت ہو رہا ہے۔ بدعنوانی کے کروڑوں ڈالر انھی کے پاس رہنے دیے گئے اور طویل المیعاد قیدوبند کے فیصلوں کے اندیشے ختم کردیے گئے۔ اسی طرح اس نے ان کو لفظ کے لغوی معنوں کے مطابق معلق کردیا ہے۔ ایسے رہنمائوں کی بقا کا بنیادی پاسپورٹ بدنامِ زمانہ این آر او ہے۔ صدر نے یہ کیا کہ اس این آر او کو دستور کے شیڈول میں انھی غیرقانونی ’قوانین‘ کے ساتھ رکھ دیا جو ۳نومبر کے غصب کے ساتھ نافذ کیے گئے تھے۔ اگر جج اسمبلی ریزولیوشن کے ذریعے اس بنیاد پر واپس آتے ہیں کہ مشرف نے ایک غیرقانونی کام کیا تھا تو این آر او کا تحفظ بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اس لیے پیپلزپارٹی کی قیادت کا پریشان ہونا چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ محض ججوں کی خاطر ملک کے اعلیٰ ترین مناصب سے اپنے اخراج کی منظوری کیسے دیں، جو اگر بحال ہوگئے تو این آر او کو ختم کردیں گے۔ روز کا مشاہدہ ہے کہ ہر روز سنگین کرپشن مقدمات سے بری ہونے کی درخواستیں انھی قائدین کی جانب سے آرہی ہیں جو اکتوبر تک امریکا یا برطانیہ میں عیش و آرام سے رہ رہے تھے۔ اگر این آر او ناکام ہوتا ہے تو ممکنہ طور پر انھیں سختی کا سامنا کرنا پڑے گا اور پیسہ واپس کرنا ہوگا۔ (دی نیشن، ۲۸ مئی ۲۰۰۸ئ)
ایک اور ماہر قانون دان بیرسٹر سیداقبال احمد ڈان میں NRO and Politics of Plunder کے عنوان سے ۱۹جولائی ۲۰۰۸ء کی اشاعت میں لکھتے ہیں کہ این آر او انصاف اور راست معاملہ کاری کی ضد ہے۔ (The NRO, as it stands, is a traversty of justice and fair play.)
بغیر کہے سب کو معلوم ہے کہ ریاست کے اعلیٰ عہدے دار اور سٹیک ہولڈرز پاکستان میں ایک آزاد عدلیہ نہیں چاہتے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف بلاشبہہ نہیں چاہیں گے کہ چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری اور معطل کیے ہوئے ان کے ساتھی جج ایک دفعہ پھر واپس آئیں اور ایک بار پھر ان کی قسمت کا فیصلہ کریں۔
کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ قیادت کے ہاتھ پائوں جنھوں نے این آر او کے ثمرات سمیٹے ہیں جنرل (ر) مشرف نے مضبوط دھاگوں سے باندھ دیے ہیں اور وہ انگلیاں تک نہیں اُٹھا سکتے، گو کہ ان کے منہ عوام کے سامنے لفّاظی کے لیے کھلے ہوتے ہیں۔ حزبِ اختلاف کے ایک لیڈر نے بہت صحیح کہا کہ مشرف اور زرداری ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں اور درحقیقت ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہیں۔
صدرمشرف کے خطرات اور اندیشے جن کی صدارت خطرے میں ہے، پیپلزپارٹی کے حکمران جن کے اربوں ڈالر جاسکتے ہیں، اور پی سی او عدلیہ کے سربراہ جسٹس اے ایچ ڈوگر جن کے اختیارات اور مقام غیریقینی ہیں، سب ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اپنے ذاتی مفادات کے تحت یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ افتخار چودھری اور ان کے ساتھی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں ۳نومبر کی پوزیشن پر بحال ہوجائیں۔ وہ سب کسی نہ کسی طرح خطرے کی بالکل زد میں ہیں۔ اس صورت حال میں پرویز مشرف اپنی صدارت اور پی پی پی کے لیڈر اپنے اربوں روپے چھوڑنے کو پسند نہیں کریں گے اور ایم کیو ایم کے کارکن انصاف کی خاطر عدالتوں کا سامنا کرنا پسند نہیں کریں گے۔
جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ یہ ۱۰۰ دن سب پردے اٹھانے اور طلسم ہوا کرنے کا باعث ہوئے ہیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ مشرف اور زرداری ایک ہی کھیل کھیل رہے ہیں۔
۱۰۰ دن پورے ہوچکے ہیں، وعدے وفا نہیں ہوئے بلکہ یہ احساس پرورش پارہا ہے کہ ملک کو جو بحران درپیش ہے وہ ایک ایسا نظام تشکیل دے رہا ہے جہاں ہیئت مقتدرہ کا اسٹیٹس کو جیت رہا ہے۔ یہ مشرف کو جری کردیتا ہے اور زرداری کے پہیوں کو گریس لگاکر مزید تیز کردیتا ہے اور دونوں میں ایک غیرمقدس اور ناپاک اتحاد قائم ہوتا ہے جو نظر آتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ تکمیل پذیر ہوگا۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۱۶ جولائی ۲۰۰۸ئ)
اپنے پہلے ۱۰۰ دنوں میں گیلانی حکومت نے شکاری کتوں کے ساتھ شکار کھیلنے اور خرگوش کے ساتھ بھاگنے کی سی کوشش کی ہے۔ اقتصادی اور سیاسی بحران جنھوں نے ملک کو گھیر رکھا ہے اس پر اس کی کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ کسی بھی بحران کا سامنا ہو، ایک حکومت کو متنازع ایشوز کا سامنا ہے۔ کیا چیز حکومت کو ایک سخت موقف اختیار کرنے سے روک رہی ہے؟ پیپلزپارٹی کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ مشرف بیش تر مسائل کی جڑ ہے۔ جب تک وہ باقی رہتا ہے ملک کی سیاسی زندگی بحران کا شکار رہے گی۔
اس دوران پیپلزپارٹی کو اسلامی انتہاپسندوں کی دھمکیوں کے بارے میں امریکی امداد اور مشورے کے بغیر ایک آزاد موقف خود اپنے طور پر اختیار کرنے کے لیے امریکیوں کو ’نہیں‘ کہنے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ ایک آزاد خارجہ پالیسی ایسے مضبوط عزم کا تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان اپنے موجودہ بحرانوں بالخصوص معاشی بحران سے نکل آئے اور عوام میں تحرک ہو۔
امریکا اب بھی اصرار کرر ہا ہے کہ مشرف کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی رہنمائی کرنے کے لیے سپریم (بالادست) کے طور پر رکھا جائے۔ اسے ملک میں کچھ سیاسی حمایت حاصل ہے۔ وہ کچھ ایسے لوگوں کو جمع کرسکتا ہے جو پیپلزپارٹی کے ساتھ ایک نئی حکومت کو سہارا دے سکتے ہیں۔
پی پی پی نے اپنی بیمہ پالیسی کے طور پر امریکیوں سے اپنے تعلقات برقرار رکھنے کی خاطر مشرف کو اس کی جگہ پر رکھنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔(دی نیوز انٹرنیشنل، ۹جولائی ۲۰۰۸ئ)
ہم نے صرف چند اہم تجزیہ نگاروں کی آرا یہاں پیش کی ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اب آزاد اہلِ قلم کی بڑی تعداد یہ کہنے پر مجبور ہے کہ زرداری گیلانی حکومت کی پہلے ۱۰۰دن نہایت مایوس کن ہیں۔ اصل وجوہات کا تجزیہ کیا جائے تو تصویر کے خدوخال کچھ اس طرح کے دکھائی دیتے ہیں:
۱- بظاہر مرکز اور صوبوں میں مخلوط حکومتیں ہیں لیکن فی الحقیقت مرکز میں اصل حکومت صرف پیپلزپارٹی کی ہے اور اس میں بھی آصف علی زرداری اور ان کے من پسند افراد ہیں جن میں ایک خاص تعداد ان لوگوں کی ہے جو این آر او کے سہارے اقتدار کے دروازوں پر ایک بار پھر پہنچ گئے ہیں۔ ان میں سیاسی شخصیات کے علاوہ وہ سرکاری ملازم بھی ہیں جو قانون کو مطلوب تھے، راہِ فرار اختیار کیے ہوئے تھے اور اب اس چھتری تلے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) ججوں کی بحالی کے مسئلے پر عہدشکنی کے سبب وزارتوں سے الگ ہوچکی ہے۔ اے این پی اور جمعیت علماے اسلام (ف) بار بار گلہ کر رہے ہیں کہ ان سے کوئی مشورہ نہیں ہوتا اور جناب آصف زرداری اور ان کے معتمد افراد ہر فیصلہ خود کر رہے ہیں بلکہ مشیرداخلہ رحمن ملک صاحب تو وزیراعظم کا پروٹوکول ہی نہیں رکھتے، وزیراعظم کے علم کے بغیر ہی پالیسیاں تبدیل کرڈالتے ہیں جس کی نمایاں ترین مثال ضمنی انتخابات کا التوا ہے۔ ایسے اقدام استثنائی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ ان کا طریق واردات قراردیے جاتے ہیں۔ مخلوط حکومت ایک تہمت ہے، اصل حکومت پی پی پی اور زرداری صاحب کی ہے اور باقی سب اپنے اپنے مصالح کی خاطر بطور ضمیمہ شامل ہیں۔ اصل یگانگت اور ہم آہنگی پی پی پی کے زرداری دھڑے، مشرف اور ایم کیو ایم میں ہے اوررحمن ملک صاحب اس تثلیث کے محافظ اور سہولت کار(facilitator) کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
۲- ان ۱۰۰ دنوں میں حکومت کا اپنا کوئی آزاداور منفرد رُخ سامنے نہیں آیا۔ جیساکہ ہم نے عرض کیا سارے زبانی جمع خرچ کے باوجود اصل حقیقت ماضی کی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ خارجہ پالیسی، امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارا کردار، معاشی پالیسیاں، دستور اور قانون کے تقاضوں سے بے اعتنائی، سیاسی مسائل کے حل کے لیے قوت کا بے دریغ استعمال اور اس کے لیے باقاعدہ فوج کو اختیارات کی تفویض، جب کہ مذاکرات کے حق میں زبانی جمع خرچ (lip service) اس حکومت کا وطیرہ رہا ہے۔ ملک پر امریکا کی گرفت پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوگئی ہے اور جو یلغار امریکی سول اور فوجی حکام کی اس زمانے میں ہوئی ہے اور اس کے ساتھ جس رعونت اور بے دردی سے پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزیاں اور پاکستان کی زمین پر پاکستانیوں کی ہلاکت کا سامان امریکا نے کیا ہے، اس نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ اس پر مستزاد امریکا کے سلسلے میں سخت معذرت خواہانہ رویہ ہے جس کی بدترین مثال وزیرخارجہ کی کونڈولیزارائس سے ملاقات ہے جس میں امریکی وزیرخارجہ نے ہمارے وزیرخارجہ کو اچھی خاصی جھاڑ پلائی، سرحدی خلاف ورزیوں اور اپنی مرضی سے فوج کاری کی دھمکیاں دیں اور ہمارے وزیرخارجہ نے پریس کو بیان دیتے ہوئے امریکا کی ایسی فوجی دخل اندازیوں کو غیردوستانہ اقدامات (un friendly acts) تک کہنے سے گریز فرمایا۔۲؎ گویا ع
حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے!
امریکی صدر، صدارتی امیدوار، سینیٹ اور ایوانِ نمایندگان کے ارکان کے ارشادات اور امریکی انتظامیہ اور فوجی قیادتوں کے بیانات اور انتباہات پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جو بھی دہشت گردی برپا ہے سب کا منبع اور مرجع پاکستان ہے۔ اس فضاسازی کا مقصد مشرف کو پاکستان پر مسلط رکھنا، اور سول عناصر پر مبنی حکومت کی ایسی گوشمالی کرنا ہے کہ وہ امریکی دبائو کے آگے چوں بھی نہ کرے۔ امریکی نوازشیں دو طرح کی ہیں: ان ۴ مہینوں میں ۲۰ سے زیادہ بار ہماری سرحدوں کی خلاف ورزیاں کی گئیں، پاکستانی فوجی چوکی تک کو نشانہ بنایا گیا، اور سیکڑوں عام شہریوں اور ۱۳ فوجی افسروں اور جوانوں کو بے دردی سے ہلاک کیا گیا ہے۔ اس خون آشامی کے ساتھ سیاسی دبائو اور بازو مروڑنا (arm twisting) بھی روزافزوں ہے، تاکہ سول حکومت کوئی آزاد راستہ اختیارنہ کرسکے۔ اس کے ساتھ فوجی اور معاشی امداد کی رشوت کا ذکر بھی ہوتا ہے اور اس طرح لاٹھی (stick)اور گاجر (carrot) دونوں کا بے دردی سے استعمال جاری ہے___اور ہماری حکومت ہے کہ ہر ضرب اور ہر ہلاکت کے بعد ایک ہی رٹا ہوا جملہ دہراتی رہتی ہے کہ ’’ملک کی حاکمیت اور آزادی کے خلاف کسی دست درازی کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘۔ گویا امریکا یہ سب کچھ آپ سے اجازت لے کر رہا ہے یا کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ صرف ایک زبان سمجھتا ہے اور وہ وہی زبان ہے جس کا استعمال طالبان اور افغان غیرت مندوں نے وہاں کے صوبے پکتیا میں وانات (Wanat) کے مقام پر کیا۔ امریکا اس چوکی کو چند دن بھی اپنے قبضے میں نہ رکھ سکا اور جب ۹ امریکی فوجی ہلاک اور ۱۵ زخمی ہوئے تو تین دن کے اندر امریکی افواج اس چوکی کو خالی کرگئیں اور اس پر طالبان نے دوبارہ قبضہ کرلیا جسے انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون نے The withdrawal handed a propaganda victory to the Taliban (واپسی نے طالبان کو ایسی فتح دی جس کا خوب پروپیگنڈہ ہو) قرار دیا۔ (۱۶ جولائی ۲۰۰۸ئ)
گذشتہ ۳ مہینے میں امریکا نے پاکستان کا کس طرح سفارتی گھیرائو کیا ہے اس کا اندازہ اس سے کیجیے۔
۱۸ فروری کے انتخابات کے بعد اعلیٰ امریکی سفارت کاروں اورفوجی کمانڈروں نے اسلام آباد کے دوروں اور نیچے کی سیاسی سطح تک ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کردیا جس کا مقصداین آر او کے پس منظرمیں نئی سیاسی قیادت کا جو نقشہ بنایا گیا تھا اسے عملی شکل دینا تھا۔ ان ۴ مہینوں میں اعلیٰ اختیاراتی ۱۴ مشن پاکستان آئے ہیں اور امریکی سفیرہ صاحبہ کی سفارتی یلغار اس پر مستزاد ہے۔ اس سفارتی یلغار کے تین مقاصد تھے: پہلا یہ کہ امریکا کے مفیدمطلب حکومت تشکیل پائے اور صدرمشرف اور ایم کیو ایم اس کا مرکزی حصہ ہوں۔ دوسرے، امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان جو خدمات پرویز مشرف کے بلاشرکت غیرے دور میں انجام دے رہا تھا، ان کو جاری رکھا جائے اور مسئلے کا سیاسی حل نکالنے کی حکمت عملی کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں۔
۳- تیسرا مقصد انتہاپسندی کے خلاف جنگ کے نام پر ملک کی اسلامی قوتوں کو غیر مؤثر بنانا، مدرسوں کے نظام کو قابو میں کرنا، ملک میں سیکولر تعلیم کا فروغ اور سیکولر قوتوں کو تقویت دینا ہے۔ بھارت سے پاکستان کو قریب کرکے، کشمیر کے مسئلے کو دائمی تعویق میں ڈالنے اور تجارت اور ثقافت کے رشتوں کو استوار کرکے پاکستان کی منڈیوں کو بھارتی مصنوعات کے لیے کھولنے اور پاکستانی معاشرے کو بھارتی ثقافت کی آماج گاہ بنانے کی خدمت ہوشیاری سے انجام دی جائے۔ عدلیہ کی بحالی، گمشدہ افراد کی بازیابی اور حقیقی معاشی خودانحصاری کے ایجنڈے کو پس پشت رکھا جائے اور امریکی ایجنڈے کے حصول کے لیے ’ڈنڈے اور گاجر‘ (stick and carrot)کا ہر حربہ استعمال کیا جائے۔ امریکا نے سفارت کاروں کے ساتھ ساتھ ہرقسم کے دبائو اور دھمکیوں کا راستہ بھی اختیار کیا ہے اور زرداری گیلانی حکومت امریکی دبائو کے جواب میں صرف پسپائی کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ قیادت امریکا کی فوجی کارروائیوں کا خاطرخواہ جواب دینے کی جرأت سے یکسر محروم ہے اور اطلاع ہے کہ زرداری صاحب نے نوازشریف سے کہا ہے کہ دونوں مل کر صدربش کی خدمت میں حاضری دیں اور ملک کے مسائل کے حل کے لیے ان کی آشیرباد حاصل کریں۔ ذہنی غلامی اور سیاسی محکومی کی اس سے زیادہ پست سطح اور کیا ہوسکتی ہے؟
آگے بڑھنے سے پہلے ایک نگاہ ذرا ان میں سے چند بیانات پر بھی ڈال لیں جن کی مارچ میں گیلانی صاحب کے وزیراعظم بننے کے بعد مسلسل بم باری پاکستان پر کی جارہی ہے۔
ان پر زور دیتے ہوئے کہ دہشت گردی کے خلاف اپنی کوششوں کو عراق سے ایران اور پاکستان منتقل کردیں۔
وائٹ ہائوس نے امریکی وسائل کا بہت زیادہ حصہ عراق پر صرف کیا ہے جب کہ افغانستان اور پاکستان کے دہشت گردی کے مراکز (terror homes) کو نظرانداز کیا ہے۔
۱۲ اپریل کو صدربش اے بی سی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے اس خط کی بازگشت اور پاکستان پر دبائو ڈالنے کے لیے نئی امریکی حکمت عملی کو یوں بیان فرماتے ہیں:
پاکستان، نہ کہ افغانستان یا عراق، اب وہ جگہ ہے جہاں ایسا منصوبہ بنایا جاسکتا ہے کہ امریکا میں نائن الیون جیسے حملے کیے جائیں۔
۲۲ مئی کو امریکی جرنیل ڈیوڈ پیٹرا نی یوس امریکی جاسوسی اداروں کی رپورٹوں کی بنیاد پر اسی خطرے کی اس طرح جگالی فرماتے ہیں:
میں امریکی خفیہ ایجنسیوں کے اس اندازے کی تائید کرتا ہوں کہ امریکی سرزمین پر نائن الیون قسم کا دوسرا حملہ پاکستان میں القاعدہ کے ٹھکانوں سے کیا جائے گا۔
جون کے مہینے میں افغانستان میں امریکی اور ناٹو فوجوں کی ہلاکت ریکارڈ حد تک ہوئی اور پہلی بار امریکی فوجی عراق سے زیادہ افغانستان میں ہلاک اور زخمی ہوئے۔ اس کے بعد امریکی بحری بیڑے USS Abraham Lincoln کو بحیرۂ عرب میں منتقل کردیا گیا۔ امریکی فوجی کمانڈر خصوصیت سے جناب چیف ایڈمرل مائیکل میولین نے پاکستان کو متنبہ کیا کہ:
پاکستان سرحد پار کرکے افغانستان آنے والے جنگجوؤں کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کر رہا (not doing enough)۔
اس کے ساتھ فاٹا کے علاقے میں بیرونی دہشت گردوں کے جمع ہونے، تربیت پانے اور وہاں سے کارروائیاں کیے جانے کے خطرات سے امریکی اور عالمی میڈیا اور سیاسی محاذوں پر ایک پروپیگنڈا جنگ کا آغاز ہوگیا ہے۔ ان سب کا اصل ہدف یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت کو خائف کرکے اور دیوارسے لگاکر اُوپر بیان کردہ امریکی مقاصد کے حصول کے لیے فضا سازگار کی جائے۔
این آر او کے تحت پناہ لینے والے حکمران اپنی کھال بچانے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پاکستان کی آزادی، حاکمیت، عزت اور اختیار کو دائو پر لگائے ہوئے ہیں۔ یہ اسی دبائو کا نتیجہ ہے کہ فاٹا، سوات اور اب پھر بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع کردیے گئے ہیں اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے سیاسی حل کے جو امکانات پیدا ہوئے تھے، وہ خاک میں ملتے نظر آرہے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف اپنی سات سالہ جنگ بقول نوبل لاریٹ پروفیسر جوزف سٹگلیٹ تین ٹریلین ڈالر سے بھی کہیں زیادہ کا نقصان امریکا خود اٹھانے اور دنیا کو اٹھانے پر مجبور کرنے کے باوجود شکست کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس شکست میں پاکستان کو فوج کشی کی دھمکیوں اور معاشی امداد کی زنجیروں دونوں کی مار کے ذریعے گھسیٹا جارہا ہے اور زرداری گیلانی حکومت ہے کہ صوبائی حکومتوں کے احتجاجات کے باوجود امریکا کے آگے سپر ڈالے جارہی ہے اور اپنے ہی لوگوں کے خلاف اپنی فوج کو استعمال کر کے فوج اور قوم کے تعلقات کو ہمیشہ کے لیے خراب کر رہی ہے۔
۴- چوتھا پہلو جس کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی ہے وہ معاشی حالات کا بگاڑ ہے جس کی گرفت روز بروز مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔ یہ بگاڑ اجتماعی فساد کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس پہلو سے سب سے زیادہ تکلیف دہ مسئلہ کھانے پینے کی عام اشیا کی قلت اور گرانی کا ہے جس نے ہرگھر کو متاثر کیا ہے۔ تیل، گیس، بجلی، آٹا، سبزیاں، دالیں اور خوردنی تیل کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ ان چار مہینوں میں حکومت کوئی ایسی پالیسی نافذ نہیں کرسکی جو لوگوں کی مشکلات اور مصائب میں کمی لاسکے۔ اس وقت پاکستان میں آبادی کا ایک تہائی شدید غربت کا شکار ہے اور عمومی غربت (آمدنی ۲ڈالر یومیہ) تین چوتھائی (۷۵ فی صد) آبادی کا مقدر بن گئی ہے۔ آبادی کے تازہ ترین سروے کے مطابق ۲۵ فی صد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے یعنی جسم و جان کے رشتے کو باقی رکھنے کے لیے جتنی خوراک درکار ہے وہ اس کو میسر نہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ چاروں صوبوں میں بچے اپنی عمر کی مناسبت سے جو ان کا وزن ہونا چاہیے اس سے کم وزن رکھتے ہیں۔ اس وقت ایسے بچوں کی تعداد ۲۸ فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ قیمتوں کا حال یہ ہے کہ ان چار مہینوں میں پٹرول کی قیمت میں ۴۰ فی صد اضافہ ہوا ہے یعنی ۳۰ئ۵۳ روپے فی لٹر سے بڑھ کر ۶۹ئ۷۵ روپے فی لٹرہوگئی ہے اور ۱۰ سے ۱۸ فی صد کے تازہ ترین اضافہ (۲۱ جولائی ۲۰۰۸ئ) نے تو سب کی کمر بالکل ہی توڑ دی ہے۔ اب مٹی کا تیل ۹۳ئ۵۷ روپے فی لٹر ہوگیا ہے اور ابھی بھی تیل کمپنیوں کے مطالبات میں کمی نہیں آئی ہے۔ تیل اور گیس کی اتھارٹی ’اوگرا‘ ھل من مزید پکار رہی ہے۔ ملک میں افراطِ زر کی شرح میں محیرالعقول اضافہ ہو رہا ہے اور شماریات کے فیڈرل بیورو نے جو اعداد و شمار وسط جولائی میں جاری کیے ہیں ان کی رو سے ملک میں اس وقت افراطِ زر کی شرح گذشتہ ۳۰سال میں سب سے زیادہ ہے یعنی گذشتہ سال کے مقابلے میں ۲۱ فی صد۔ اشیاے خوردنی کا اضافہ ۳۰ فی صد تک چلا گیا ہے۔
lکپڑے کی صنعت جس کا حصہ ملک کی برآمدات میں ۶۲ فی صد ہے اور جو ملک کے پورے صنعتی پیداواری نظام کا نصف حصہ ہے، سخت بحران کا شکار ہے۔ کارخانے تیزی سے بند ہورہے ہیں جس کے نتیجے میں بے روزگاری خوف ناک رفتار سے بڑھ رہی ہے۔
معیشت کے جس پہلو پر بھی نگاہ ڈالیں، حالات ابتر نظر آرہے ہیں اوراس کی بڑی وجہ حکومت کی پالیسیوںمیں شدید انتشار اور کسی سمت کا نہ ہونا ہے۔
۵- پانچواں بنیادی مسئلہ امن و امان کا فقدان اور پورے ملک میں جان، مال، آبرو کے تحفظ کی زبوں حالی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انتظامیہ کا کوئی وجود نہیں۔ بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کیا گیا ہے جس کا مقصد میرٹ کے مقابلے میں اپنی پسند کے لوگوں کو اہم مقامات پر تعینات کرنا ہے۔ اخبارات نے خود وزیراعظم کے دفتر میں سابق نیب زدہ افراد کے ذمہ داریاں سنبھالنے اور چٹ پٹ ترقیوں کی داستانیں شائع کی ہیں۔ یہ رجحان کسی بھی ملک کے لیے نہایت خطرناک ہے اور پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے ان میں تو یہ تباہی کا راستہ ہے۔ لاپتا افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور عوام حقوق کی حفاظت اور انصاف کے حصول دونوں کے بارے میں مایوس ہورہے ہیں۔ دولت کی عدم مساوات میں محیرالعقول اضافے نے حالات کو اور بھی ابتر کردیا ہے۔ لوگ اصلاح کے مقابلے میں انقلاب کی باتیں کرنے لگے ہیں۔
۶- چھٹا اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہرسطح پر اصحابِ ثروت اور ارباب اقتدار اپنے وسائل سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔ بجٹ کا خسارہ آسمان سے باتیں کر رہا ہے اور قرض کے پہاڑ ہمالہ سے بھی زیادہ بلند ہوگئے ہیں۔ کفایت شعاری اور سادگی کی صرف باتیں ہوتی ہیں، ان پر عمل کی طرف کوئی پیش رفت نہیں۔ وزیراعظم صاحب نے اپنے پہلے خطاب میں اپنے اخراجات کو ۴۰ فی صد کم کرنے کا اعلان کیا تھا جو بجٹ کے آتے آتے ۳۰ فی صد تک سکڑ گیا لیکن عملاً ٹھاٹ باٹ کا مظاہرہ جاری ہے اور دیکھا جائے تو اس میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کے حلف کے بعد اسی رات وزیراعظم صاحب کے صاحبزادے کی شادی کی جو تفصیلات اخبارات میں شائع ہوئی ہیں وہ کفایت شعاری کے دعووں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہیں۔ وزیراعظم صاحب عمرہ کے لیے گئے تو اس میں ۸۶افراد سرکاری خرچ پر ان کے شریکِ سفر نظر آئے اور سفر کے اخراجات ۱۰ کروڑ سے زائد بیان کیے جارہے ہیں۔ ملایشیا ڈی-۸ کی کانفرنس میں تشریف لے گئے تو اطلاع ہے کہ ان کے وفد میں ۴۰ سے زیادہ افراد تھے، جب کہ وفد سے پہلے سیکیورٹی کے نام پر ۵۰ افراد ملایشیا بھیجے گئے۔ پھر زرداری صاحب سے مشورے کے لیے وزیراعظم صاحب کوالالمپور سے سیدھے دبئی تشریف لے گئے اور ۴۰ کا ٹولہ ان کے ساتھ رہا ہے۔ جہاز اور قیام کے اخراجات پھر ۱۰ کروڑ سے متجاوز بتائے جارہے ہیں۔ وزیراعظم تو ایک ہے مگر اطلاع یہ ہے کہ چار افراد کو وزیراعظم کا پروٹوکول فراہم کیا جارہا ہے۔ ایک طرف عوام فاقوں کا شکار ہیں، خودکشیوں کی نوبت آرہی ہے، مائیں اپنے بچوں کو بیچنے اور ایدھی سینٹروں پر چھوڑ جانے پر مجبور ہورہی ہیں اور دوسری طرف یہ اللّے تللّے ہیں۔ کوئی سوچنے کی زحمت نہیں کرتاکہ اس کا انجام کیا ہوگا؟
وزیراعظم صاحب نے بڑے طمطراق سے جو اعلانات کیے تھے ان کی طرف پیش رفت کا کوئی ثبوت ان ۱۰۰ دنوں میں نظر نہیں آرہا۔ ارشاد ہوا تھا کہ ایف سی آر ختم کیا جارہا ہے، آج تک اس سلسلے میں کوئی متبادل قانون پارلیمنٹ کے سامنے نہیں آیا۔ اعلان کیا گیا تھا کہ ۲۰۰۲ء کا بدنامِ زمانہ انڈسٹریل ریلیشنز آرڈی ننس ختم کیا جا رہا ہے مگر وہ آج بھی کتاب قانون کا حصہ ہے اور نئے قانون کا کوئی مسودہ قوم کے اور پارلیمنٹ کے سامنے نہیں آیا۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ دو تاریخی کمیشن بنائے جارہے ہیں یعنی ایک روزگار کمیشن اور دوسرا جنوبی افریقہ کی طرز پر truth and reconciliation commission(سچائی اور مفاہمتی کمیشن)،لیکن ۱۰۰ دن گزرنے کے بعد بھی ان کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کی گئی۔
مزدوروں کی یونینوں اور طلبہ کی یونینوں سے پابندی اٹھانے کا اعلان ہوا تھا اور اس سلسلے میں کچھ آزادیاں اور مواقع مزدوروں اور طلبہ نے غالباً اپنے دست و بازو سے حاصل بھی کرلیے ہیں مگر اس سلسلے میں جو قانون سازی ہونی چاہیے تھی اور جو مثبت متبادل نظام قوم کے سامنے آنا چاہیے تھا، وہ ابھی تک پردۂ غیب ہی میں ہے۔ ۱۰۰ دن کے پروگرام کے بیش تر اعلانات حقیقت کا روپ دھارنے میں ناکام رہے اور اس کی بڑی وجہ پارلیمنٹ کی حسبِ سابق بے بسی، قانون سازی کا فقدان، عدلیہ کی عدم بحالی، خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کی تشکیلِ نو کے باب میں مجرمانہ کوتاہی، حکومت کا بے سمت ہونا اور امریکی دبائو میں بیرونی ایجنڈے کی مشرف دور کی طرح تعمیل اور تکمیل ہے۔ یہ صورت حال حکومت پر عوام کے اعتماد کو بری طرح مجروح کرنے اور امید کی جو کرن رونما ہوئی تھی اس کے تاریکیوں میں دم توڑنے کا باعث رہی ہے۔
اس پورے ناکام تجربے کی بڑی وجہ سیاسی قیادت، خصوصیت سے پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت کا کردار ہے۔ اب لوگ کھلے بندوں یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جس پارٹی میں خود اپنے دستور، ضابطوں اور جمہوری روایات کا احترام نہ ہو وہ ملک کو دستور کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کیسے دے سکتی ہے۔ جناب زرداری صاحب نے جس ڈرامائی انداز میں محترمہ کی شہادت کے بعد اقتدار سنبھالا، اس کے بارے میں چبھتے ہوئے سوالات اُٹھائے جارہے ہیں۔ جنرل اسلم بیگ نے محترمہ کی آخری کتاب اور دوسری تقاریر کے حوالوں سے وصیت کے قابلِ اعتماد ہونے کو چیلنج کیا ہے۔ زرداری صاحب نے خود سندھ ہائی کورٹ میں محترمہ کی وراثت کے سلسلے میں جو پٹیشن دائر کی ہے وہ ان کے حسابات اور دوسرے اثاثوں کے بارے میں وصیت کی عدم موجودگی کی بنیاد پر کی گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر اپنے اتنے اہم معاملات کے بارے میں وہ کوئی وصیت نہیں کرسکیں تو پارٹی کے معاملات کے بارے میں وصیت کیسے کر دی۔ وصیت کو اگر تسلیم کرلیا جائے تب بھی اس کے صحیح مفہوم کا مسئلہ بھی کم اہم نہیں۔ اس سلسلے میں جناب ارشاد احمد حقانی نے بڑے بنیادی سوالات اٹھائے ہیں اور ایک وقتی انتظام کو جس کا مقصد صرف عبوری (transition) تھا، مستقل انتظام کی شکل دینے پر بھرپور گرفت کی ہے۔ ۱۰۰ دن کی حکمرانی کے پس منظر میں پی پی پی (زرداری) کے بارے میں دی نیشن کی ایک کالم نگار نے بڑے چبھتے ہوئے سوالات اٹھائے ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا ارشاد ہے:
پیپلزپارٹی (زرداری) کے پاس، جسے قسمت کی ایک بے رحم گردش اقتدار میں لے آئی ہے، حکمرانی کے دائرے میں پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں۔ پارٹی اور اسی طرح یہ ملک ایک غیر منتخب شخص چلا رہا ہے جو بے نظیربھٹو کا سابقہ شوہر ہے، جس کا واحد مقصد یہ ہے کہ پُرفریب این آر او استعمال کرکے، جو امریکا اور صدرمشرف نے قوم پر مسلط کردیا ہے، عدالتوں سے بریت حاصل کرلے۔ آصف زرداری اپنے وکیل کے ذریعے گذشتہ ہفتے اپنی مرحومہ بیوی کے اثاثوں کے لیے وراثت کی درخواست جمع کرا رہے تھے۔ ان کادعویٰ تھا کہ بے نظیر بھٹو بلاوصیت انتقال کرگئیں اور ان کا کوئی وصیت نامہ ہرطرح کی تلاش کے باوجود نہ مل سکا۔ یہ بڑی دل چسپ بات ہے، اس لیے کہ اپنی بیوی کے مرنے کے تیسرے روز زرداری نے ہمارے سامنے کاغذ کا ایک ٹکڑا لہرایا تھا اور بتایا تھا کہ یہ ان کا وصیت نامہ ہے، اور یہ بھی بتایا تھا کہ یہ کئی صفحات پر مشتمل ہے جو عوام کے سامنے نہیں لائے جاسکتے کیوں کہ اس میں ان کے ذاتی معاملات کا ذکر ہے۔ (۱۳ جولائی ۲۰۰۸ئ)
ہمارے اور دوسرے اہلِ قلم کے تجزیوں کا حاصل یہ ہے کہ زرداری گیلانی حکومت نے یہ ۱۰۰دن ضائع کیے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ۱۸ فروری کے مینڈیٹ کی روشنی میں حقیقی اور بااختیار قومی حکومت وجود میں نہ آسکی۔ زرداری صاحب نے محترمہ کی وصیت کا سہارا لے کر پیپلزپارٹی پر قبضہ کرلیا اور رحمن ملک اور ایسے ہی دوسرے غیرنمایندہ افراد کے ذریعے زرداری صاحب اور مشرف میں جو درپردہ معاہدہ ہوا تھا اور جس کے ایک پہلو کا تعلق این آر او کے تحت خود زرداری صاحب، پی پی پی، ایم کیو ایم کے قائدین اور کارکنوں اور دوسرے سیاسی عناصر اور سول اور فوجی بیورو کریسی کے متعلقہ افراد کو احتساب اور قانونی چارہ جوئی کا سامنا تھا ان کے کرپشن کے الزامات کو کسی غیرجانب دار تحقیق و تفتیش اور عدالتی عمل کے بغیر واپس لے کر امریکا اور برطانیہ کے بنائے ہوئے منصوبے کے تحت ملک پر نئی سول قیادت مسلط کی گئی۔ اس قیادت نے، خاص طور پر ان افراد نے جن کے ہاتھوں میں اصل باگ ڈور ہے، حقیقی مسائل کو پس پشت ڈال کر صرف اپنے اقتدار اور گرفت کو مضبوط کرنے، مشرف صاحب کو نئی زندگی دینے، اور امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر ساری توجہات صرف کیں۔ پرویزمشرف اصل مسئلہ ہیں، ان سے نجات کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔عدلیہ کی بحالی کو مذاق بناکر اُلجھا دیا گیا۔ معاشی مسائل کے حل اور امن و امان کے قیام پر قرارواقعی توجہ نہ دی گئی، امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ قرار دے کر حالات کو اور بھی الجھا دیا گیا۔
جو تاریخی موقع حاصل ہوا تھا اسے بڑی بے دردی سے ضائع کردیا گیا ہے۔ یہ جمہوری عمل کی ناکامی نہیں، ایک سیاسی گروہ کی ناکامی ہے جس نے موقع سے فائدہ اُٹھا کر جمہوری عمل کو ایک طرح یرغمال بنالیا اور ۱۸ فروری کے مینڈیٹ کو پس پشت ڈال کر ایک دوسرے ہی ایجنڈے پر کام شروع کردیا۔ یہ امریکا مشرف زرداری حکمت عملی ہے جس نے ۲۰۰۷ء کی قربانیوں اور ۱۸فروری کے انتخابی نتائج کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کھیل اب بالکل کھل کر سب کے سامنے آگیا ہے۔ ملک اور ملک سے باہر حالات پر گہری نظر رکھنے والے افراد اس کھیل کا پردہ چاک کررہے ہیں اور خود پیپلزپارٹی کے وہ قائد جنھوں نے گذشتہ دس بارہ سال پارٹی کو زندہ رکھنے اور آمریت کے ہر وار کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی اب کھل کر میدان میں آرہے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ ۱۰۰ دن ایک water-shed کی صورت اختیار کرچکے ہیں اور قوم آج اپنے آپ کو ایک بہت بڑے امتحان میں پاتی ہے___ اس امر کا خطرہ ہے کہ ذاتی اور گروہی مفادات کے علَم بردار جو اصل جمہوری عمل کو ہائی جیک کرنے کا کھیل کھیل رہے ہیں، آمریت اور بیرونی قوتوں کی بالادستی کی تاریک رات مسلط کرنے کے لیے کسی حد کو بھی پارکرجائیں۔ نیز آمریت کے کارندے اور ایجنسیوں کے دست و بازو اسے جمہوریت کی ناکامی کا رنگ دے کر پرانے کھلاڑیوں یا نئے طالع آزمائوں کے لیے فضا سازگار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کراچی کی ایک خاص رنگ کی تجارتی کمیونٹی میں گورنر سندھ اور ناظم کراچی کی بیساکھیوں پر کل کے آمر پھر کسی نئے کردار کی تلاش میں ہیں۔ یہ سارے خطرات اُفق پر منڈلا رہے ہیں لیکن یہ وقت ٹھنڈے غوروخوض اور حقائق کے صحیح ادراک پر مبنی حکمت عملی کی تشکیل کا ہے۔
۲۰۰۷ء میں عدلیہ کی بحالی اور جمہوری حقوق کے حصول کے لیے جو جدوجہد وکلا برادری، سول سوسائٹی اور سیاسی کارکنوںنے شروع کی تھی آج اس تحریک کو ان نئے خطرات سے بچاکر دوبارہ حقیقی جمہوری عمل کے حصول، دستور کی بالادستی، عدلیہ کی بحالی، قانون کی حکمرانی، آمریت سے ہمیشہ کے لیے نجات، فوج کو سیاست کی آلودگیوں سے مکمل طور پر پاک رکھنے، اور ملک کی قسمت کا فیصلہ ملک کے اندر اور اس کے حقیقی خادموں کے ذریعے انجام دینے کے نظام کے استحکام کے لیے فیصلہ کن جدوجہد ہے۔ گذشتہ ۱۰۰ دن اس تحریک کا تسلسل نہیں، اس سے انحراف اور ماقبل کی پالیسیوں کے نئے روپ میں اور نئے کرداروں کے ذریعے تسلسل کا زمانہ رہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ایک بار پھر تمام جمہوری قوتیں اور حق، انصاف اور قانون کی پاسداری کے تمام علَم بردار بے لوث انداز میں منظم جدوجہد کریں اور جمہوری عمل کے ہائی جیکنگ کے اس اقدام کو ناکام بنادیں۔ وکلا برادری اور اے پی ڈی ایم نے انتخابات سے پہلے جس بالغ نظری کا مظاہرہ کیا تھا، اب ضرورت ہے کہ تمام جمہوری قوتوں کو ساتھ ملا کر اسی طرح ایک مؤثر تحریک کا اہتمام کیا جائے۔ یہ کام کسی جذباتی رو میں انجام نہیں دیا جاسکتا لیکن حالات جس مقام پر پہنچ گئے ہیں اور جو خطرات اب سامنے منڈلا رہے ہیں ان کی موجودگی میں غفلت یا کوتاہی بڑی خطرناک ہوسکتی ہے۔ ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے، تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل، کوئی اگر دفتر میں ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دستور کسی ملک کی سب سے اہم اور مقدس قانونی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ تمام اختیارات کا سرچشمہ اور ریاستی اداروں کے حدود کار، حکمرانی کے اصول و آداب اور خود قانون سازی اور پالیسی کے خطوط کار اور ان کی صورت گری کے دروبست کو متعین کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے قانون اساسی (fundamental law) کہا جاتا ہے اور اس میں ترمیم کو مشکل بنایا جاتا ہے بلکہ اب تویہ اصول بھی قبولِ عام حاصل کرچکا ہے کہ دستور کے بنیادی ڈھانچے اور ریاست کے کردار میں محض ترمیم دستور سے تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔اگر اس کی نوبت آئے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام سے استصواب کیا جائے تاکہ دستور کی تشکیل نو کے لیے وہ نئی دستورساز اسمبلی کی تشکیل کریں۔ وہ پارلیمنٹ جو ایک دستور کے تحت وجود میں آئی ہو اور خواہ اس دستور کے تحت وہ دستور میں ترمیم کا حق رکھتی ہو تب بھی وہ دستور کے مقاصد اور بنیادی ڈھانچے کے اندر رہ کر تو ترمیم کرسکتی ہے مگر خود ان بنیادوں کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ گویا ترمیم کا اختیار دو تہائی اکثریت کو بھی غیرمشروط اور لامتناہی (absolute and unlimited) نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دستور کے تحت اعلیٰ ترین عدالت اس قانون کو جو دستور سے متصادم ہو، خواہ اسے پارلیمنٹ نے منظور کیا ہو، غیردستوری (ultra vires of the constitution) قرار دے سکتی ہے اور دستور سے تصادم کی بنیاد پر ایسا قانون غیرمؤثر قرار دیا جاسکتا ہے۔
دستور کی اس اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے ان مجوزہ دستوری ترامیم کے جائزے کی ضرورت ہے جسے دستوری پیکج (constitutional package) کا نام دیا گیا ہے اور جو بظاہر عدلیہ کی آزادی اور بحالی اور دستور کے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کی شکل میں بحال کیے جانے کے لیے کی جارہی ہیں مگر فی الحقیقت دستور پر ایک نئے حملے کی شکل رکھتی ہیں۔ اگر خدانخواستہ ان کو ان کی موجودہ شکل میں منظور کرلیا جاتا ہے تو اداروں اور اشخاص کے درمیان قائم کیا جانے والا تقسیم اختیارات اور توازنِ قوت کا پورا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور اس سے بھی زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ دستور اور اعلیٰ عدالتی نظام میں مخصوص افراد کو نوازنے اور کچھ کو پابند کرنے کے لیے فرد کی ضرورت کے تحت (person-specific) ترمیمات تجویز کی جارہی ہیں جن کے نتیجے میں یہ پورا عمل بُری طرح سیاست زدہ اور شخصی (personalize) ہوجاتا ہے۔ خطرہ ہے کہ اس سے وہ پنڈورا کا صندوق (pandora's box) کھلے گا جس سے نکلنے والے عفریت کو پھر قابو میں لانا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام نہاد دستوری پیکج دستور اور قانون پر گہری نظر رکھنے والوں نے نہیں بنایا بلکہ ڈرائنگ روم کی سیاست کرنے والوں نے اپنی پسند اور ناپسند کو دستور پر مسلط کرنے کے لیے دستور کی ۸۰ دفعات میں تراش خراش کی جسارت کی ہے۔ اس کا جہاں علمی جائزہ لینے کی ضرورت ہے، وہیں اس سیاسی کھیل کے پردے کو بھی چاک کرنا ضروری ہے جو مخلوط حکومت کی سب سے بڑی پارٹی پیپلزپارٹی کی قیادت نے ملک و قوم کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی ہے۔
ان دستوری سفارشات کا جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ اس بات کا تعین کرلیا جائے کہ ۲۰۰۷ء کے عدالتی بحران اور ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے عوامی مینڈیٹ کا اصل تقاضا کیا ہے اور اس سلسلے میں نئی حکومت کی اولین ذمہ داری کیا تھی۔ کیا یہ دستوری سفارشات اس ضرورت کو پورا کرنے کا ذریعہ ہیں یا ان کے ذریعے کوئی نیا ہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
سب سے پہلا مسئلہ ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کو غیرقانونی طور پر معزول کیے جانے والے ججوں کی بحالی تھا جسے نئی حکومت کو برسرِاقتدار آتے ہی انجام دے دینا چاہیے تھا، مگر اس نے ایک متناقض موقف اختیار کرکے اصل تاریخی لمحے کو ضائع کردیا اور قوم کو ایک نئے سیاسی بحران میں مبتلا کردیا جس کے اثرات ملکی سیاست، انتظامِ حکومت، قانون کی حکمرانی اور معاشی مسائل کے مزید اُلجھ جانے کی شکل میں سامنے آرہے ہیں۔ ایک طرف تو وزیراعظم صاحب نے قائد ایوان منتخب ہوتے ہی وزارتِ عظمیٰ کے حلف تک کے لینے سے پہلے ہی معزول ججوں کی رہائی کا حکم دے دیا اور ان کو رہا کر بھی دیا گیا لیکن دوسری طرف بار بار کے اس اعلان کے باوجود کہ جنرل پرویز مشرف کا ۳نومبر ۲۰۰۷ء کا اقدام غیرقانونی اور خلافِ دستور تھا، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے ان ججوں کو آج تک بحال نہیں کیا جو جائز جج ہیں اور ایک ناجائز (illegitimate) پی سی او کے تحت حلف لینے والے جج صاحبان آج بھی بلااختیار عدالت کا کاروبار چلا رہے ہیں اور اب کوشش کی جارہی ہے کہ حق دار اور بلاحق کام کرنے والوں کو ان ناروا دستوری ترامیم کے ذریعے برابری کے مقام پر لے آیا جائے۔ یہ ملک کے نظامِ عدل کو تہ و بالا کرنے کا مجرب نسخہ ہے اور جس کے دماغ کی بھی اختراع ہے اسے ملک و قوم کا مخلص قرار دینا مشکل ہے۔
ا- ایک انتظامی حکم کے ذریعے ان ججوں کو جن کو ایک غیرقانونی حکم نامے کے ذریعے جبری طور پر معزول کیا گیا تھا ان کو اپنے اصل مقام پر بحال کیا جاتا اور جو غیرقانونی طور پر عہدوں پر فائز کرلیے گئے تھے انھیں کسی معقول طریقے سے فارغ ، یا ان کے ماقبل کے مقام پر بھیج دیا جاتا یا زیادہ سے زیادہ کچھ کو ایڈہاک ججوں کے طور پر کچھ عرصے کے لیے رکھ لیا جاتا اور بالآخر انھیں فارغ کر دیا جاتا تاکہ ایک بھونڈے کام کو بھی سلیقے ہی سے انجام دیا جائے۔
ب- پارلیمنٹ ایک قرارداد کے ذریعے ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو غیرقانونی، خلافِ دستور، ناقابلِ قبول قرار دیتی اور وزیرعظم کو ہدایت دیتی کہ وہ خوش اسلوبی سے اس کے غلط اقدامات اور اثرات سے ملک کو پاک اور محفوظ کرنے کے لیے جملہ اقدام کریں۔
ج- ۳ نومبر کے اقدام کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جاتی، البتہ جو قوانین، فیصلے اور اقدام ہوچکے ہیں ان کے صرف ناگزیر پہلوئوں کو بہ اکراہ تحفظ دیتے ہوئے آیندہ کے لیے غیرمؤثر کیا جاتا اور متبادل جائز قانونی یا انتظامی احکام کے ذریعے جن چیزوں کو باقی رکھنا ضروری ہے انھیں باقی رکھا جائے۔
اس پورے کام کے لیے کسی دستوری ترمیم کی ضرورت نہ تھی۔ ملک کے چوٹی کے قانون دانوں اور دستور کے ماہروں کی یہی راے تھی اور ہم بھی اس راے کو صائب سمجھتے ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے امریکا اور برطانیہ کی سفارت کاری کے ذریعے جو معاملات پیپلزپارٹی کی قیادت بالخصوص جناب آصف علی زرداری اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان طے ہوئے تھے اور جن کے نتیجے میں ایک آرڈی ننس کے ذریعے قومی مفاہمت کے نام پر لوٹ کھسوٹ اور سیاسی اور مالی بدعنوانیوں حتیٰ کہ فوجداری جرائم تک سے درگزر کر کے ان کے مرتکبین کو معافی اور فارغ خطی کا پروانہ دے دیا گیا تھا اور اس کا فائدہ اٹھانے والوں میں ہزاروں افراد تھے جن میں سب سے اہم پیپلزپارٹی کی قیادت کے نمایاں افراد اور ایم کیو ایم کی قیادت اور کارکن تھے۔ ان کا پلڑا بھاری رہا ہے اور ان ہی کی مرضی آگے بڑھائی جارہی ہے۔ اگر ایسا ہو تو پھر یہ احساس بھی صحیح ہی معلوم ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت نے اصل مسئلے یعنی عدلیہ کی بحالی اور پرویز مشرف سے نجات کو تو پس پشت ڈال دیا ہے اور دستوری پیکج کے نام پر این آر او (قومی مصالحتی آرڈی ننس) کے تحفظ اور عدلیہ کو ایک ایسے شکنجے میں کسنے کا کھیل شروع کردیا ہے جس کے نتیجے میں عدلیہ کبھی بھی سیاسی قیادت کی گرفت سے باہر نہ نکل سکے اور جنرل پرویز مشرف کی صدارت اور این آر او کی ضمانت کو چیلنج نہ کیا جاسکے۔
جو کام سیدھے سیدھے انتظامی حکم اور زیادہ سے زیادہ پارلیمنٹ کی قرارداد کے ذریعے ہوسکتا تھا اسے تعویق میں ڈال کر غیرمتعلقہ معاملات میں الجھا دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں پوری قوم فکری انتشار، سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران سے دوچار ہے۔ ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کو امید کی جو کرن رونما ہوئی تھی اور عوام نے نئی زندگی اور سیاست دانوں کے نئے کردار کا جو خواب دیکھا تھا وہ زرداری صاحب کی مصلحتوں کی بنا پر چکنا چور ہوتا نظر آرہا ہے۔ مشرف صاحب کی مقبولیت تو خاک میں مل چکی ہے لیکن اب زرداری صاحب کی مقبولیت کا گراف بھی تیزی سے نیچے جا رہا ہے جس کا اندازہ ہر سیاسی کارکن کو ہورہا ہے اور جس کی کچھ جھلک راے عامہ کے اس تازہ ترین جائزے میں دیکھی جاسکتی ہے جو ایک امریکی ادارے Terror Free Tomorrow نے ۲۵مئی سے یکم جون تک لیا ہے اور جس کے مطابق پاکستان کی آبادی کا ۷۳ فی صد مشرف کی اقتدار سے علیحدگی چاہتا ہے۔ اس وقت مقبول ترین قیادت وہ ہے جو ججوں کی بحالی کا مطالبہ کر رہی ہے اور اس مطالبے کو ۹۵فی صد آبادی کی تائید حاصل ہے۔ یہی وہ پہلوہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کے سرپرست نواز شریف سب سے زیادہ مقبول ہیں جب کہ پیپلزپارٹی کی حکومتی کارکردگی پر لوگ مطمئن نہیں اور اس کی مقبولیت کم ہوکر ۲۶ فی صد رہ گئی ہے، جب کہ اس کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی مقبولیت صرف ۱۳ فی صد پر آگئی ہے۔ (نواے وقت، ۲۲ جون ۲۰۰۸ئ)
ججوں کی بحالی، عدلیہ کی حقیقی آزادی، صحافت کی آزادی اور مشرف سے نجات کے سلسلے میں جو رویہ زرداری صاحب کے زیراثر پیپلزپارٹی نے اختیار کیا ہے اس نے عوام میں مایوسی پیدا کی ہے اور وہ اسے ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے عوامی مینڈیٹ سے کھلا کھلا انحراف تصور کرتے ہیں اور دستوری ترامیم کے پشتارے کا جو ڈراما رچایا جا رہا ہے اسے مسئلے کو الجھانے اور قوم کے اہداف کو غتربود کرنے کا کھیل سمجھ رہے ہیں۔ ہم ان باتوں کا اظہار بڑے دکھ سے کر رہے ہیں کہ ہماری پوری خواہش تھی کہ آمریت سے نجات اور جمہوریت کی طرف پیش قدمی کا سفر مخلوط حکومت کے ہاتھوں انجام پاتا لیکن نظرآرہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے کچھ قائدین اور اس کے ووٹروں کی شدید خواہش کے باوجود آصف علی زرداری اور ان کے زیراثر جماعتی قیادت روایتی ہیئت حاکمہ (establishment) ہی کے مقاصد پورے کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ پرویزمشرف پر نمایشی دبائو تو کبھی کبھی ڈال دیا جاتا ہے مگر نہ ان سے نجات پانے کے لیے ضروری اقدام کیے جا رہے ہیں اور نہ عدلیہ کی بحالی کی کوئی مؤثر کوشش کی گئی ہے جس سے ملک کا نظامِ عدل بحال ہوسکے اور عوام کے لیے حصولِ انصاف کے دروازے کھل سکیں۔ بلکہ دستوری ترامیم کا جو پیکج پیش کیا گیا ہے اس نے تو رہی سہی امید بھی خاک میں ملادی ہے اور اگر خدانخواستہ دستور میں یہ ترامیم ہوجاتی ہیں تو پھر جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی کا قصر چکنا چور ہوجائے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ پیپلزپارٹی کی قیادت اس میں کامیاب نہیں ہوگی اس لیے کہ عوام ان کی بھرپور اور مؤثر مخالفت کریں گے اور وکلا اور اہم سیاسی کارکنوں نے اس عزم کا اظہار بھی کردیا ہے۔ البتہ اس امر کی ضرورت ہے کہ ان ترامیم اور ان کے مضمرات کو اچھی طرح سمجھا جائے اور چند مفید چیزیں جو ان میں شامل ہیں ان سے دھوکا نہ کھاتے ہوئے جو اصل کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کا پردہ چاک کیا جائے اور ملک کو اس آفت سے محفوظ رکھا جائے۔
ان کا پہلا اور سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ان میں کھلے اور صاف الفاظ میں ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے غیرقانونی اقدام کو رد نہیں کیا گیا اور اس کے مرتکبین کو موجب سزا قرار نہیں دیا گیا، بلکہ کمال ہوشیاری سے اس اقدام کو اور اس کے تحت عدلیہ کو تباہ کرنے والوں اور ان کے شرکاے کار کو تحفظ دیا گیا ہے، عدلیہ میں ۳ نومبر کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والوں کے لیے مستقل گنجایش پیدا کی گئی ہے، ان کے ان تمام اقدامات کو جو ۳نومبر کے بعد کیے گئے ہیںتحفظ دیا گیا ہے اور صاف لفظوں میں کہے بغیر اس سب کو سندجواز دی گئی ہے جو ایک قومی جرم ہے۔ ۱۸فروری کے انتخاب کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کا تو مینڈیٹ ہی یہ ہے کہ وہ ۳نومبر کے غیرقانونی اقدامات کا قلع قمع کرے اور ہمیشہ کے لیے ملک و قوم کو ایسی طالع آزمائی اور اس کی معاونت کرنے والوں سے محفوظ کرے لیکن ان ترامیم کے ذریعے وہی ظلم کیا جا رہا ہے جو ۱۹۵۸ئ، ۱۹۶۹ئ، ۱۹۷۷ئ، ۱۹۹۹ء اور ۲۰۰۷ء کے غیرقانونی اقدامات کو تحفظ دے کر ماضی میں کیا گیا ہے۔ جو کچھ جسٹس منیر، جسٹس انوارالحق، جسٹس ارشاد اور جسٹس ڈوگر نے کیا، جناب زرداری صاحب اور فاروق نائیک صاحب وہی کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس حمودالرحمن نے اقتدار پر ناجائز قبضہ کرنے والے غاصبوں سے ڈیل کرنے کا جو مبنی برحق و انصاف راستہ دکھایا تھا اسے یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے اور ہوشیاری کے ساتھ آرٹیکل AAA۲۷۰ اور CC ۲۷۰ کے ذریعے اس پورے سیاہ دور کو تحفظ عطا فرمایا گیا ہے البتہ کمالِ عنایت سے دفعہ ۶ میں ترمیم کر کے کل کلاں ایسا کرنے والوں کو سزا کی وعید سنائی جا رہی ہے۔ حالانکہ اگر آج کے مجرموں کو سزا نہیں ملتی تو پھر گویا کبھی بھی مجرموں کو سزا نہیںمل سکے گی۔ یہ ترامیم دستور کی ۱۹۹۹ء کی شکل میں بحالی کی نوید سے یکسر خالی ہیں اور دستور کو مزید مسخ کرنے اور جو سلوک اس کے ساتھ ماضی کی ترامیم جن میں خصوصیت سے پہلی، تیسری، چوتھی، پانچویں، چھٹی، ساتویں، آٹھویں اور ۱۷ویں ترامیم قابلِ ذکر ہیں جن کے ذریعے عدلیہ کو پابند یا متاثر کرنے اور دستور کے پارلیمانی کردار کو مسخ کرنے کی خدمت انجام دی گئی اور فوجی آمریتوں کی کارگزاریوں کو تحفظ دیا گیا۔ بدقسمتی سے پیپلزپارٹی کی قیادت کی مجوزہ ترامیم اسی قبیل کی ہیں بلکہ ان کی بدترین صورت ہیں۔
ان ترامیم کا دوسرا پہلو این آر او کا تحفظ ہے جس کے لیے ایک بار نہیں دو بار آرڈی ننس کی چار ماہ کی عمر کو غیرمؤثر قرار دیتے ہوئے اس این آر او کو، جس نے بدعنوانی اور کرپشن پر سفیدی پھیردی ہے اور اس کے مرتکبین کو ہمیشہ کے لیے مکمل طور پر بری کردیا ہے، مکمل تحفظ دیا گیا ہے۔ ہم نے بار بار اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ جہاں یہ غلط اور بدترین ظلم ہے کہ کسی معصوم انسان کو محض سیاسی انتقام کا نشانہ بنا کر بدعنوانی اور کرپشن کا ملزم بنایا جائے، وہیں یہ بھی اتنا ہی غلط اور ایسا ہی ظلم ہے کہ سیاسی مصالح اور اپنی صف بندیوں کو محفوظ کرنے کی خاطر ان لوگوں کو جو بدعنوانیوں کے مرتکب ہوئے ہوں اور جنھوں نے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہو اور ملک کی دولت کو لوٹا ہو، ان کو مکمل معافی اور چھٹی دی جائے۔
این آر او ایک شرمناک قانون ہے اور اس کے تحت پاک دامنی کا دعویٰ کرنے والے کبھی پاک دامن تسلیم نہیں کیے جاسکتے۔ اس مسئلے کا واحد حل وہ ہے جسے خود پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے میثاقِ جمہوریت میں تسلیم کیا ہے مگر ان ترامیم میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ اس میثاق میں دونوں نے قوم سے عہد کیا ہے کہ جہاں سیاسی بنیادوں پر انتقامی کارروائی سے اجتناب کیا جائے گا وہیں احتساب کے لیے ایک اعلیٰ عدالتی نظام قائم کیا جائے جو بے لاگ انداز میں سیاسی قیادت اور دوسرے ان تمام افراد کا جو ذمہ داریوں کے مناصب پر فائز رہے ہوں، احتساب کرے۔
این آر او کے ’پاک بازوں‘ کے دامن کو تو اس وقت تک صاف اور بے داغ قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک وہ کسی معتبر عدالتی ادارے میں اپنی پاک دامنی ثابت نہ کرلیں، لیکن جس محنت اور غیرمعمولی اہتمام سے ان ترامیم میں این آر او کو تحفظ دیا گیا ہے وہ شکوک و شبہات کو بڑھانے والا ہے، ختم کرنے والا نہیں۔
اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ این آر او کو تحفظ ہرگز نہیں دینا چاہیے، اعلیٰ عدالت کو تمام حالات کا جائزہ لینا چاہیے اور آیندہ کے لیے اس کا مستقل انتظام ہونا چاہیے کہ کوئی بھی اختیارات کا ناجائز استعمال اور قومی وسائل کو ذاتی منفعت کے لیے استعمال کرنے کی جرأت نہ کرسکے اور جو کرے وہ قانون اور احتساب کی گرفت سے نہ بچ سکے۔ یہ عمل سیاسی دراندازیوں اور انتقامات اور شک و شبہے سے پاک اور بالکل شفاف ہو۔ یہ سب کے لیے ہو اور جو بھی اجتماعی زندگی میں سرگرم ہے اسے اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ دستوری ترامیم کے ذریعے این آر او کو دوام بخشنا ایک قومی جرم ہے اور اس کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔
ان ترامیم کا تیسرا بڑا ہی تباہ کن پہلو عدلیہ کے پورے نظام کو سیاسی مصلحتوں کے تابع کرنا ہے۔ اس کے پانچ بڑے بڑے پہلو ایسے ہیں جن کا پردہ چاک کرنا ضروری ہے تاکہ ان کا کھل کر مقابلہ کیا جاسکے۔
ا- عدلیہ کی آزادی کا انحصار جن چیزوں پر ہے ان میں عدلیہ میں نئے ججوں کی تقرری بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس عمل کو خالص میرٹ کی بنیاد پر ہونا چاہیے جس میں قانونی مہارت کے ساتھ دیانت و امانت اور اصول اور حق پرستی کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ یہ عمل سیاسی اثراندازیوں سے پاک ہونا چاہیے۔ بلاشبہہ یہ کام مشکل ہے اور دنیا کے تجربات اس ضمن میں بڑی ملی جلی تصویر پیش کرتے ہیں۔ خود ہمارے یہاں جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ ہرگز قابلِ فخر نہیں۔ ایک نہیں متعدد ججوں کی خود نوشتیں طبع ہوچکی ہیں اور وہ ایسی داستانوں سے بھری ہوئی ہیں جن پر سر شرم سے جھک جاتا ہے، لیکن جو تجویز اب جناب فاروق نائیک نے جناب زرداری صاحب کی ہدایت پر پیش کی ہے، اس کے بعد تو سیاست کا عمل دخل آسمان پر پہنچ جائے گا اور خواہی نہ خواہی یہ ادارہ بالکل تباہ ہوجائے گا۔ مرکزی اور صوبائی وزراے قانون کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔ ایک مشترک پارلیمنٹری کمیٹی آخری فیصلہ کرے گی۔ پاکستان کے حالات میں پارلیمانی کمیٹی کے سپرد اس کام کو کرنا اپنے اندر بڑے خطرات رکھتا ہے اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پر عدلیہ پر یہ ضرب ملک کو بڑی مہنگی پڑے گی۔یہ مسئلہ بڑی سنجیدہ سوچ بچار کا تقاضا کرتا ہے۔ خود امریکا میں بھی اس نظام پر شدید تنقید کی جارہی ہے اور بش کے تو ۲۰۰۰ء کے انتخاب ہی کو سیاسی عدلیہ کا فیصلہ قرار دیا جارہا ہے۔
ب- دوسرا مسئلہ ججوں کی میعاد (tenure) کی حفاظت کا ہے۔ اگر جج کو میعاد کی ضمانت نہ ہو تو یہ پورے نظامِ عدل کو متزلزل کردیتا ہے۔ دستور کی دفعہ ۲۰۹ کی جو نئی شکل تجویز کی جارہی ہے وہ خطرناک، بھونڈی اور ناقابلِ عمل ہے۔ چیف جسٹس اور اعلیٰ ججوں کی قسمت، سابق ججوں اور سیاسی عناصر کے ہاتھوں میں دی جارہی ہے اور اس جلادی تجویز کے ساتھ کہ کسی بھی جج بشمول چیف جسٹس اگر کوئی بھی شخص اس کے خلاف استغاثہ دائر کردے تو صدر فی الفور اسے جبری رخصت پر بھیج سکتا ہے۔ جبری رخصت کے سلسلے میں ۲۰جولائی کے سپریم کورٹ کے فل بنچ نے بڑا واضح فیصلہ دیا ہے مگر اسے بالکل نظرانداز کر کے ترمیم میں وہ موقف اختیار کیا گیا ہے جو جنرل پرویز مشرف کا تھا۔
مجوزہ کمیشن کے سابق ججوں کے لیے صلاحیت، دیانت، تجربہ، شہرت کی کوئی شرط نہیں۔ اگر کوئی شرط ہے تو یہ کہ وہ ’غیرسیاسی‘ ہوں مگر غیرسیاسی کی کوئی تعریف متعین نہیں کی گئی۔ کون سا جج سیاسی ہے اور کون سا غیرسیاسی___ اور حاضر سروس چیف جسٹس اور تمام اعلیٰ ججوں کی قسمت کا فیصلہ پانچ سابق ججوں اور تین دوسرے سیاسی عمل سے نامزد افراد کو سونپا گیا ہے۔ یہ بھی بڑا خطرناک کھیل ہے اور ہمیں اپنی عدلیہ کو ایسے خام تجربات کے لیے تختۂ مشق ہرگز نہیں بنانا چاہیے۔
ج- ایک بنیادی خرابی اس پوری تجویز میں پی سی او کے تحت حلف لینے والے ججوں سے عزت سے نجات حاصل کرنے کے بجاے انھیں عدالت کا حصہ بنانا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف عدالت کا وقار اور اس پر عوام کا اعتماد مجروح ہوگا بلکہ عدلیہ بھی مستقل کش مکش اور باہم تنائو کا شکار رہے گی اور اس طرح سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس اپنا دستوری کردار ادا کرنے کے لائق نہیں رہیں گے۔ ۱۹۹۰ء میں بھی عدلیہ کے بٹ جانے اور ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کا تلخ معاملہ پیش آچکاہے اور اب تو باضابطہ انداز میں عدالت پر اس کو مسلط کرنے کی کوشش ہورہی ہے جو انصاف کے نظام کو قتل کرنے کے مترادف ہوگا۔
د- ایک اور ظلم جو ان تجاویز میں کیا گیا ہے اور بڑے معصوم انداز میں کیا گیا ہے وہ سپریم کورٹ کو اس اختیار ہی سے محروم کردینا ہے جس کے تحت وہ عوام کے ساتھ کیے جانے والے مظالم اور حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں پر عوام کی داد رسی کے جواب میں یا ازخود نوٹس لے کر ان کو انصاف مہیا کرنے کے لیے کرسکتے تھے۔ دفعہ (۳) ۱۸۴ میں ایک معصوم سی ترمیم کے ذریعے ظلم اس ملک کے عوام کے ساتھ کیاجا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو قابلِ نفاذ حکم (mandatory) سے نکال کر محض اعلان (declaratory) بنانے کی جسارت کی جارہی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ عدالت بس وعظ و نصیحت اور مشورہ اور تجویز کرسکے گی اور اس کا حکم ان معاملات میں آپ سے آپ لاگو نہیں ہوسکے گا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اعلیٰ انتظامیہ کو جو سبق سکھایا تھا، غالباً یہ اس کا جواب ہے! اور وہ بھی کسی پولیس یا آرمی افسر یا بیوروکریٹ کی طرف سے نہیں عوام کے نمایندے جناب زرداری صاحب اور جناب فاروق نائیک کی طرف سے!
ر- پانچواں مسئلہ ججوں کی میعاد (tenure) کی مدت یعنی ریٹائرمنٹ کی عمر کا ہے اور چیف جسٹس صاحبان کے بحیثیت چیف جسٹس مدت کے تعین کا۔ اس وقت سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر ۶۵ سال اور ہائی کورٹس کے ججوں کی ۶۲سال ہے۔ اب اسے بڑھا کر ۶۸ اور ۶۵کرنے کی تجویز ہے۔ اس تجویز پر خالص میرٹ کی بنیاد پر غور ہوسکتا ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک میں اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے لیے لازمی ریٹائرمنٹ کی کوئی مدت مقرر نہیں بلکہ موت، استعفا یا معذوری ہی کی شکل میں وہ اپنے منصب سے فارغ ہوتے ہیں اور اس طرح انھیں میعاد کی مکمل ضمانت حاصل ہوتی ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد کسی دیگر نفع بخش کام کی فکر سے بھی آزاد رہتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں یہ مسئلہ خاص افراد کے لیے جگہ بنانے یا چیف کے درجے تک ترقی ممکن بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے جو ناقابلِ قبول ہے۔ یہی کھیل ایل ایف او میں بھی کھیلنے کی کوشش کی گئی تھی جسے ناکام بنا دیا گیا تھا۔ یہ اس کا replay ہے اور پہلے سے بھی زیادہ بھونڈے انداز میں! اسی طرح عدلیہ کی بحالی کی صورت میں ایک خاص جج کی بحالی کو ناممکن بنانا بھی فرد کے لیے مخصوص (person-specific) ترمیم کے زمرے میں آتا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال کو باہر رکھنے کے لیے یہ تجویز لائی جارہی ہے۔ چیف جسٹس کی میعاد کی تحدید تین سال ہو یا پانچ سال، یا اس سے کم زیادہ بھی اسی قبیل کی شے ہے۔ ایک خاص شخص سے نجات اورکسی خاص شخص کو اس عہدے پر لانے کے لیے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے جو دستور کے ساتھ بددیانتی بلکہ بدفعلی کے مترادف ہے۔ جوقیادت عدلیہ کے ساتھ یہ کھیل کھیل رہی ہے اور ساتھ ہی عدلیہ کی آزادی کے بلندبانگ دعوے کرتی ہے اس کی عقل کا ماتم کیا جائے یا دیانت کا نوحہ!
صدر کے اختیارات کم کرنے اور وزیراعظم کو اختیارات کا محور اور مرکز بنانے کے لیے بھی اس میں متعدد ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔ ہم خود صدر کے صواب دیدی اختیارات کے خلاف ہیں اور پارلیمانی نظام میں وزیراعظم اور وزرا، جو عوام کے بلاواسطہ منتخب کردہ ہیں، وہی اصل انتظامی اختیار کے مستحق ہیں لیکن اس سلسلے میں بھی چند باتوں کا لحاظ ضروری ہے اور علم سیاست کے جدید مباحث میں ان پر کھلے انداز میں گفتگو ہورہی ہے۔ پارلیمانی نظام میں وزیراعظم کے ڈکٹیٹر بننے کا خطرہ موجود ہے اور اس کے لیے علم سیاست میں آج کل ایک دل چسپ اصطلاح استعمال کی جارہی ہے یعنی Prime Ministerial System۔ پارلیمانی نظام کو پارلیمانی نظام ہی رہنا چاہیے، اسے وزیراعظمی نظام نہیں بن جانا چاہیے۔ تقسیم اختیارات کے معنی یہ ہیں کہ وزیراعظم اپنے سے مساوی افراد میں پہلا ہو، خود ہی سب کچھ نہ بن جائے۔
اس کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ ایک کابینہ کی اجتماعی ذمہ داری، دوسرے ہر وزیر کے اپنے اختیارات جو وہ وزیراعظم کی مداخلت کے بغیر انجام دے سکے، تیسرے وزیراعظم کی پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہی جس کے لیے خصوصی وقفہ سوالات کا نظام قائم کیا گیا ہے۔ کچھ ممالک میں وزیراعظم کو وزرا کے انتخاب کا اختیار دیا گیا ہے مگر ہروزیر اور اس کے شعبے کی پارلیمنٹ میں توثیق ضروری ہے اور جسے پارلیمنٹ اعتماد نہ دے وہ وزیر نہیں بن سکتا۔ نیز وزیراعظم پر بے اعتمادی کا ووٹ بھی اسی نوع کی ایک تدبیر ہے۔ اب جو دستوری ترامیم پیپلزپارٹی کی قیادت لائی ہے اس میں وزیراعظم کو نہ صرف یہ کہ کلّی اختیارات دے دیے گئے ہیں بلکہ ایک ایسی ترمیم بھی تجویز کی ہے جو ۱۹۷۳ء میں دستور سازی کے وقت رکھی گئی تھی اور جسے اس اسمبلی نے، جس نے دستور کو منظور کیا، رد کردیا تھا اور بڑی سخت تنقید کے بعد رد کیا تھا۔ تجویز یہ ہے کہ وزیراعظم کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک اس وقت تک نہیں لائی جاسکتی جب تک اس تحریک میں متبادل قائد ایوان کا نام نہ شامل ہو۔ گویا ایک وزیراعظم پر بے اعتمادی اور دوسرے شخص پر اعتماد کا اظہار ایک ہی قرارداد کے ساتھ ہو۔ یہ سرتاسر غیرمعقول تجویز ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسی تحریک آہی نہ سکے۔ جب ۱۹۷۳ء کے دستور میں یہ تجویز رکھی گئی تھی تو محمود علی قصوری صاحب نے اس پر بڑی سخت تنقید کی تھی اور صرف اپوزیشن ارکان نے ہی نہیں سرکاری اتحاد کے لوگوں نے بھی اسے رد کردیا تھا۔ معلوم نہیں فاروق نائیک صاحب اس مسترد تجویز کو قبر میں سے نکال کر پھر سے کیوں لے آئے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی صاحب کے تحفظ کے لیے تو یہ ہو نہیں سکتی۔ کیا زرداری صاحب اپنے آیندہ تحفظ کا ابھی سے یہ سامان کرنا چاہتے ہیں؟
ویسے تو صدر کے اختیارات کو کم کرنے کا کام انجام دیا گیا ہے اور اس کا سب سے اہم حصہ وہ صواب دیدی اختیارات ہیں جن کی وجہ سے صدر پارلیمنٹ اور انتظامیہ پر حاوی ہوگیا تھا یعنی ۵۸ (۲-بی) اور اہم تقرریوں کے بارے میں اس کے کُلی اختیارات۔ ان امور پر صدر کو وزیراعظم اور کابینہ کی ایڈوائس کا پابند کرنا ضروری ہے اور ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ البتہ اس سلسلے میں تین چیزیں ایسی ہیں جو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں:
ا- آرٹیکل ۴۵ کا تعلق معافی (amnesty ) کے معروف مسئلے سے ہے جس کے تحت صدر عدالتوں سے دی جانے والی سزائوں میں تخفیف یا معافی کا حق رکھتا ہے۔ بلاشبہہ اسلامی قانون کے تحت حدود کے معاملے میں اسے یہ اختیار نہیں لیکن باقی امور میں مروجہ قانونی روایات کی روشنی میں اس کی گنجایش ہے۔ اس دفعہ میں ایک نئی ترمیم کے ذریعے صدر کو سندجواز عطا کرنے (validation) کا ایسا لامحدود (open ended) اختیار دیا جا رہا ہے جس کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا اور جسے اگر غلط استعمال کیا جائے تو انتظامیہ اس کے سہارے پر قانون اور ضابطے کے پورے عمل کو سبوتاژ کرسکتی ہے۔ ایک تو معاملات کے دائرے کو عدالتی فیصلوںکے دائرے سے نکال کر عالم گیر وسعت دینا اور پھر ہر معاملے کو سندجواز عطا کرنے کا اختیار اس کو دیا جا رہا ہے جو انصاف، اصولِ حکمرانی اور جمہوری احتساب ہر عتبار سے غلط ہے۔ اس وقت جو دفعہ ہے وہ یہ ہے:
دفعہ ۴۵: صدر کو کسی عدالت ٹریبونل یا دیگر ہیئت مجاز کی دی ہوئی سزا کو معاف کرنے، ملتوی کرنے اور کچھ عرصے کے لیے روکنے اور اس میں تخفیف کرنے، اسے معطل یا تبدیل کرنے کا اختیار ہوگا۔
تجویز ہے کہ amnesty کے بعد اضافہ کردیا جائے۔
"or indemnify any act whatsoever".
دیکھیے اس ایک جملے سے معاملے کی نوعیت ہی بدل گئی۔ اب عدالتی عمل کے تحت دی جانے والی سزا میں جو تخفیف یا معافی کی گنجایش تھی وہ بدل کر ہر قسم کی بدعنوانی، لاقانونیت، ضابطے کی خلاف ورزی، اختیار کے غلط استعمال، استحصال گویا کسی بھی اقدام کو indemnify (قانونی ذمہ داری سے بَری) کرنے کا اختیار دیا جا رہا ہے۔ دراصل یہ حق انتظامیہ اپنے لیے لے رہی ہے۔ یہ دستور کی دفعہ ۲۷۰ کا ایک بدل ہے کہ جب اور جس عمل کو سندجواز دینا (validate) ہو، صدر کو اس کے لیے استعمال کیا جاسکتاہے۔ یہ انصاف، قانون، ضابطہ اور اخلاق ہر ایک کا خون ہے اور قانون کی خلاف ورزی کے لیے دروازے کھول دینے کے مترادف ہے۔
ب- افواج کے سربراہان (service chiefs) کے تقرر کا اختیار بھی صدر کو حاصل ہے۔ یہ بھی صواب دیدی اختیار تھا مگر اسے ۱۷ویں ترمیم میں وزیراعظم سے مشورے سے مشروط کیا گیا تھا۔ نہ معلوم کیوں اب وزیراعظم کے مشورے کے حصے کو حذف کیا جا رہا ہے۔ غالباً اس بنیاد پر کہ صدر وزیراعظم کے مشورے (advice) پر یہ کام کرے گا لیکن بات صراحت کے ساتھ واضح نہیں ہورہی۔ موجودہ سربراہوں کو تین نام اپنی ترجیح کے مطابق دینے کی شرط عائد کی جارہی ہے، جب کہ عملاً یہ پہلے سے ہو رہا ہے البتہ اس وقت صدر کو یہ اختیار ہے کہ وہ تجویز کردہ ناموں کے باہر سے بھی تقرر کرسکتا ہے اور کئی تقرریاں چھے اور سات افراد کو پھلانگ کرکے بھی کی گئی ہیں۔ نئی تجویز میں ریٹائر ہونے والے سربراہ کو فیصلہ کن پوزیشن دے دی گئی ہے جو محل نظر ہے۔ ایک تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ تقرری صدر کرے گا یا صدر وزیراعظم کے مشورے پر کرے گا جیساکہ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو تھا۔ البتہ اس نازک معاملے کے صحیح صحیح انجام پانے کے لیے کچھ دوسری احتیاطیں بھی ضروری ہیں جن پر اس وقت غور کرنا چاہیے۔ پہلی چیز یہ ہے کہ بالعموم یہ تقرری سینیارٹی کی بنیاد پر ہونی چاہیے جس کے نتیجے میں سروس میں بھی اطمینان ہوگا کہ ہرشخص کو اس کے حق اور صلاحیت کے مطابق موقع ملے گا اور تقرری کی دوڑ میں جو سیاسی یا رقابتی اثرات کارفرما ہوجاتے ہیں ان سے بچا جاسکے گا۔ البتہ اس کی گنجایش رکھی جاسکتی ہے کہ کسی غیرمعمولی صورت میں کسی اعلیٰ کمیشن کے مشورے سے اس قاعدے میں نرمی ہوسکتی ہے لیکن وجوہ ریکارڈ پر لاکر، ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر نہیں۔ لیکن ایک دوسری بات کا اہتمام بھی ضروری ہے جسے ہماری نگاہ میں دستوری ترمیم کا حصہ ہونا چاہیے کہ یہ عہدے اپنی میعاد کے ساتھ متعین ہوں گے۔ ان میں توسیع کا امکان بالکل ختم ہونا چاہیے۔ ہمارے یہاں بڑا بگاڑ اسی راستے سے آیا ہے کہ جو بھی چیف آف اسٹاف بنا ہے اس نے مدت عہدہ میں توسیع کی کوشش کی ہے۔ جنرل ایوب سے اس کا آغاز ہوا اور جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے اسے استعمالِ بد کی حد تک پہنچا دیا۔
بھارت میں گذشتہ ۶۱سالوں میں کوئی ایک بھی مثال ایسی نہیں ہے کہ کسی بھی سروس کے چیف کو اس کی مدت پوری ہونے کے بعد توسیع دی گئی ہو۔ امریکا، برطانیہ اور مغربی ممالک میں بھی یہی روش ہے۔ اگر توسیع کے دروازے کو بند کردیا جائے اور خالص میرٹ پر سینیارٹی کی بنیاد پر افواج کے سربراہان کی تقرریاں ہوں تو فوج کی پیشہ ورانہ مہارت میں اضافہ ہوگا اور سیاست پر شب خون مارنے کی راہیں بھی مسدود ہوں گی۔
ان ترامیم میں اسلام پر بھی ایک کاری ضرب لگائی گئی ہے اور بڑے معصوم انداز میں۔ وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ کار کو پہلے ہی روزاول سے محدود کیا ہوا ہے اور آرٹیکل بی-۲۰۳ کے پیراگراف (سی) کے تحت بہت سے قوانین کو اس کے دائرۂ اختیار سے باہر رکھا گیا ہے، خاص طور دستور، عائلی قانون، عدالتی ضابطے وغیرہ لیکن ملک کے مالیاتی اور محصولاتی نظام کو صرف دس سال کے لیے اس کے دائرے سے باہر رکھا گیا تھا جو ۱۹۹۵ء میں ختم ہوگیا ہے۔ اسی کی روشنی میں وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعہ بنچ نے سود کے مسئلے پر اس مدت کے ختم ہوجانے کے بعد اپنے فیصلے دیے ہیں۔ اب اس ترمیم کے ذریعے دس سال کی مدت والے جملے کو حذف کیا جا رہا ہے لیکن اس چابک دستی کے ساتھ کہ ملک کا پورا مالیاتی اور محصولاتی نظام ایک بار وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ اختیار سے باہر ہوجائے۔ اگر دلیل یہ ہے کہ دس سال کی مدت ہوچکی اور یہ حصہ اب غیر ضروری ہے تو پھر دس سال سے شروع ہونے والے جملے کو اختتام تک حذف کرنا چاہیے تھا تاکہ موجودہ قانونی پوزیشن مستقل ہوجائے۔ لیکن دراصل جس طرح یہ ترمیم تجویز کی جارہی ہے وہ سودی نظام کے تحفظ کی شرمناک اور اللہ سے بغاوت کی ایک بے باک کوشش ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک بار پھر شریعت کورٹ کے دائرۂ اختیار سے یہ تمام امور نکل جائیں گے جو دس سال کے استثنا کے بعد اب اس کے اختیار میں ہیں۔
یہ قرآن وسنت کے کھلے احکام کے خلاف قانون سازی کی ایک افسوس ناک کوشش ہے جسے کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ ایک طرف سینیٹ متفقہ طور پر تجویز کر رہا ہے کہ پورے ملک میں اسلامی فنانس اور بنکاری کو فروغ دیا جائے اور دوسری طرف ملک کے پورے مالیاتی اور محصولاتی نظام کو دوبارہ اور ہمیشہ کے لیے وفاقی شریعت کورٹ کے دائرۂ اختیار سے باہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تفو برتو چرخ گرداں تفو!
ان ترامیم میں ایک عجوبہ وہ ترمیم ہے جو بظاہر دستور توڑنے والوں کے لیے سزا اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے والے فوجیوں اور دستور میں دیے ہوئے حلف کے برعکس حلف لینے والے ججوں کو بغاوت کا مرتکب قرار دینے اور مستوجب سزا بنانے کے لیے کی جارہی ہے مگر فی الحقیقت جو زبان اور انداز اختیار کیا گیا ہے اس کے نتیجے میں سزا ایسے جج کو نہیں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو دی جائے گی اور اسی ترمیم (آرٹیکل ۲۷۶) میں "a person" کے لفظ کو اتنے ڈھیلے (loose) انداز میں استعمال کیا گیا ہے کہ اس کی زد میں پارلیمنٹ کے ارکان تک آسکتے ہیں۔ لطف یہ ہے کہ اس سزا کا اطلاق ان لوگوں پر نہیں ہوتا جنھوں نے ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء یا ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو دستور کی تخریب (subvert )کی، اور وہ جج بھی اس سے مستثنیٰ ہیں جو دستور کی اس تخریب کو سندجواز دینے والے ہیں بلکہ اس کا اطلاق صرف مستقبل پر ہوگا۔ یہ عجیب جرم ہے کہ اس کے آج کے ارتکاب کرنے والے محفوظ ہیں مگر یہ صرف آنے والوں کے لیے انتباہ ہے، چاہے آج کے مجرم دندناتے ہی کیوں نہ پھر رہے ہوں۔
عدالت کے سلسلے میں ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ججوں کی جگہ any court including a high court and the supreme court (کوئی بھی عدالت بشمول کوئی عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ عدالت کے بنچ کے ان ججوں کو بھی سزا ہوگی جنھوں نے اکثریت کے فیصلے سے اختلاف کیا ہو اور مارشل لا یا دستور کی تخریب کی تائید نہ کی ہو؟ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی سزا کی کیا شکل ہوگی؟ کیا یہ عدالتیں قانون کی نظر میں ایک فرد ہیں یا ان عدالتوں کو تباہ کردیا جائے گا___ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!
اسی طرح فوج کے ذمہ داروں کی طرف سے حلف کی خلاف ورزی کی بات بڑی مبہم ہے۔ حلف میں تو صرف سیاست میں حصہ نہ لینا ہے___ کیا ایک فوجی کا کسی سیاسی شخصیت سے ملنا، کسی سیاسی جلسے میں شرکت خواہ وہ انتخابی جلسہ ہی کیوں نہ ہو، حلف کی خلاف ورزی ہوگا؟ دستور توڑنا، اقتدار پر قبضہ اور چیز ہے اور ایک فوجی کا کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینا دوسری چیز۔ جرم اور سزا میں مطابقت بھی انصاف کا اساسی اصول ہے۔ غداری (high treason) کا تعین واضح طور پر ہونا چاہیے۔ اتنی مبہم بات کہ حلف کی پاسداری نہ کرے، یا دستور میں دیے گئے حلف کے الفاظ سے ہٹ کر حلف لے، وہ غداری کا مرتکب ہوگا، محل نظر ہے۔ ان معاملات کو زیادہ سوچ سمجھ کر اور قانون کی باریکیوں اور اس کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر طے ہونا چاہیے۔ جس طرح یہ ترامیم تیار کی گئی ہیں، اس سے بے حد جلدبازی کا اظہار ہو رہا ہے۔
ان ترامیم میں ایسی چیزیں بھی ہیں جن پر ہمدردی سے غور ہوسکتا ہے مثلاً صدر کی طرف سے نظرثانی کے لیے قانون یا ایڈوائس بھیجنے کی مدت میں کمی، سینیٹ میں بجٹ پر غور کی مدت میں اضافہ، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ادارے کو بحال اور متحرک کرنا، دستور کے بہت سے فالتو (redundant) حصوں کو حذف کردینا، مصالحتی (reconciliation) کمیٹی کے طریق کار کو ختم کردینا، صدر کی جگہ وفاقی حکومت کو اختیار دینا وغیرہ۔
بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کی حکمت اور مصلحت کے باب میں ایک سے زیادہ آرا ہیں مثلاً اقلیتوں کا مطالبہ تھا کہ جداگانہ انتخاب کا طریقہ ختم کیا جائے اور اس کے لیے ملک اور ملک سے باہر سیکولر اور لبرل لابی نے مہم چلائی جس کی بنیاد حکمت و مصلحت اور نمایندگی کے حقوق سے کہیں زیادہ نظریاتی تھی۔ لیکن جب انھیں مخلوط انتخاب مل گیا تو پھر اب جداگانہ نمایندگی کا مطالبہ چہ معنی دارد؟___ اگر مخلوط انتخاب چاہتے ہیں تو اس کے آداب اور اصولوں کا بھی احترام کیجیے اور عام سیاسی پارٹیوں کے ذریعے سب کے ووٹ سے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں تشریف لایئے۔ ہم نے تو جداگانہ انتخاب کے طریق کار کے ذریعے اقلیتوںکی نمایندگی اور موجودگی کو یقینی بنایا تھا، اسے آپ نے نظریاتی بنیادوں پر رد کردیا۔ اب مخلوط انتخاب کے ساتھ مخصوص نمایندگی کا مطالبہ انمل بے جوڑ ہے۔ اب مخلوط قومیت کا وہ نظریہ کیا ہوا؟ انگریزی محاورے میں You want to eat your cake and have it too.۔ یہ سراسر تضاد اور زیادتی بھی! نیز یہ دیانت کے اصولوں سے بھی ہم آہنگ نہیں۔
الیکشن کمیشن، قومی مالیتی کمیشن، قومی معاشی کونسل، مشترک مفادات کی کونسل وغیرہ کے سلسلے میں ترامیم میں کئی چیزیں اچھی اور مناسب ہیں اور کچھ میں مزید اصلاح کی گنجایش ہے۔ خصوصیت سے قومی اقتصادی کونسل اور قومی مالیاتی کمیشن میں سینیٹ سے نمایندگی کے مسئلے پر غور ہونا چاہیے جو وفاق کے بنیادی تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ مشترک فہرست میں سے صرف چند کو خارج کرنا اور باقی پر مرکز کی قانون سازی کے حق کو باقی رکھنا بھی صحیح نہیں۔ مشترک فہرست کو مکمل طور پر ختم ہوجانا چاہیے اور یہ صوبائی خودمختاری کا کم سے کم تقاضا ہے۔ اس کا وعدہ ۱۹۷۳ء میں کیا گیا تھا کہ دس سال میں یہ کام ہوجائے گا۔ آج ۳۵ سال کے بعد بھی پیپلزپارٹی کی قیادت اس کے لیے تیار نہیں حالانکہ بلوچستان کمیٹی میں دستوری ترامیم کی بحث کے موقعے پر پیپلزپارٹی نے مشترک فہرست کو ختم کرنے کے حق میں اظہار کیا تھا، اور غالباً میثاقِ جمہوریت میں بھی اس کا اعادہ کیا گیا تھا، آخر یہ رجعت قہقہری کیوں؟
یہ اور دوسرے متعدد امور ایسے ہیں جن پر کھلی بحث ہونی چاہیے اور افہام و تفہیم اور عوامی خواہشات کی روشنی میں دستوری اصطلاحات کا کام ہونا چاہیے۔ کچھ اور دستوری امور ایسے ہیں جن کو ان ترامیم میں شامل کرنے کی ضرورت ہے مثلاً آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی، ذیلی (subordinate) قانون سازی کے نام پر پارلیمنٹ کو قانون سازی کے ایک بڑے دائرے سے باہر کردینا اور اسے مکمل طور پر انتظامیہ کے ہاتھوں میں دے دینا حتیٰ کہ یہ قانون سازی اور ضوابط کاری پارلیمنٹ کے علم تک میں نہیں آتی ہے۔ اسی طرح بیرونی معاہدات اور مالیاتی معاہدوں کوپارلیمنٹ میں آنا چاہیے۔ ریاستی پالیسی کے رہنما اصولوں کے باب میں پارلیمنٹ کے عمل دخل کو بڑھانے اور ان میں سے کچھ کو قابلِ داد رسی (justiciable) بنانے کا مسئلہ بھی اہم ہے اور اس پر ازسرنو غور کی ضرورت ہے۔ اسلامی قانون سازی اور ملکی قوانین کو قرآن و سنت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے دستور نے سات سال کی مہلت رکھی تھی، آج اس مدت کو ختم ہوئے ۲۸سال ہورہے ہیں۔ اسی طرح قومی زبان اُردو کے نفاذ کے لیے ۱۵ سال کی مدت رکھی گئی تھی، اس مدت کو ختم ہوئے ۲۰ سال ہو گئے ہیں۔ کیا ان سب امور پر غور اور دستور کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے نئی تدابیر اختیار کرنے کا وقت نہیں آیا۔ کیا دستور میں دی ہوئی مدت میں متعین کام نہ کرنا اور مسلسل ٹال مٹول کرنا دستور کی خلاف ورزی اور تخریب (subversion) نہیں ہے اور ایسی صورت میں دفعہ ۶ کا اطلاق کس پر ہوگا؟ قومی اسمبلی کی مدت (پانچ سال یا چار سال) اور اس مدت کے خاتمے کے بعد نئے انتخابات کا انعقاد یا اس مدت کے پوری ہونے سے قبل انتخابات کا معاملہ جیساکہ ۱۷ویں ترمیم کے ذریعے تبدیلی سے پہلے تھا۔ ہمارے خیال میں اسے اصل شکل میں بحال کرنا بہتر ہوگا۔ یہ اور بہت سے دوسرے امور ہیں جن پر بھی اس موقع پر غور ہوسکتا ہے تاکہ دستوری ترامیم زیادہ سے زیادہ جامع ہوں اور باربار یہ کام انجام نہ دینا پڑے۔
دستوری ترامیم کا ہمارا یہ جائزہ اس معنی میں ہرلحاظ سے مکمل نہیں کہ اس میں تمام امور کا احاطہ کیا گیا ہو۔ ہم نے صرف چند بنیادی اور مرکزی اہمیت کے امور کو موضوع بحث بنایا ہے، جب کہ اس سلسلے میں اصل دستاویز کے شق وار مطالعہ اور اتفاق راے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام اہم ہے مگر وقت طلب بھی ہے اور اس کا حق ادا کیا جانا چاہیے۔ دستور میں روز روز ترمیم نہیں ہوتی اور آج جن ترامیم کی ضرورت ہے مناسب معلوم ہوتا ہے قومی بحث و مباحثہ اور پارلیمنٹ میں کھلے تبادلۂ خیال کے ذریعے انھیں کرلینا چاہیے۔ اس میں نہ غیرضروری تاخیر کی جائے، نہ غیرمناسب عجلت سے یہ کام انجام دیا جائے۔ اس لیے ہم ایک بار پھر اس امر کا اعادہ کرتے ہیں کہ عدلیہ کی بحالی کے مسئلے کو کسی تاخیر کے بغیر حل کیا جائے تاکہ عدالتی نظام اور اس پر اعتماد بحال ہو۔ اس وقت جواعلیٰ عدالتیں ہیں، ہمیں دکھ سے کہنا پڑتا ہے، کہ ان پر نہ قوم کو ان پر اعتماد ہے اور نہ وکلا برادری کو۔ یہ سلسلہ جلداز جلد ختم ہونا چاہیے۔ بجٹ منظور ہوگیا ہے۔ اب اولیت اس مسئلے کو دی جائے اور بجٹ کے بعد پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلا کر اس مسئلے کو حل کردیا جائے۔ رہا معاملہ دستوری ترامیم کا، تو اس پر گفتگو ساتھ ساتھ چلنی چاہیے۔ عملی تجربات کی روشنی میں ان تمام اہم امور کا احاطہ کیا جائے جن کی اصلاح وقت کا تقاضا ہے۔ یہی زندہ قوموں کا شعار ہے۔ ہمیں اپنی ترجیحات صحیح کرنی چاہییں۔ اسی کے نتیجے میں قوم کے اندر تعاون کی بہتر فضا قائم ہوسکتی ہے۔
(کتابچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ،لاہور۔ قیمت: ۷ روپے)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مشہور مقولہ ہے کہ آپ کچھ لوگوں کو بہت دیر تک اور سب لوگوں کو کچھ دیر کے لیے بے وقوف تو ضرور بنا سکتے ہیں مگر تمام لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف نہیں بنا سکتے___ جھوٹ اور فریب کا پردہ چاک ہوکر رہتا ہے۔ یہ ایک دن بلبلے کی طرح پھٹ جاتا ہے اور اندر کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔
نائن الیون کے معاً بعد سے دہشت گردی کے نام پر پوری دنیا میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا جدید تاریخ کی طویل ترین عالمی جنگ کی آماج گاہ بن گئی ہے۔ عراق جہنم زار ہے، پوری دنیا میں عدم تحفظ اور خوف و ہراس کے بادل چھائے ہوئے ہیں، اور اس سے بڑھ کر، اس کا اختتام دُور دُور نظر نہیں آرہا ہے۔
افغانستان امریکا اور ناٹو کی جدید عسکری ٹکنالوجی سے لیس ۶۰ ہزار افواج کی جولانیوں کا میدان بنا ہوا ہے۔ اس نام نہاد مقصد کا حصول، یعنی بن لادن اور القاعدہ کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنا، جس کے لیے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں فوج کشی کی گئی تھی وہ ایک قصۂ پارینہ اور زیبِ داستان کے لیے گھڑے ہوئے افسانے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ طالبان، جن کا کوئی کردار نائن الیون کے واقعے میں آج تک ثابت نہیں کیا جاسکا ہے، بظاہر جنگ کا عنوان بن گئے ہیں، جب کہ اصل مقصد افغانستان پر مسلسل قبضہ ہے جسے تبدیلیِ قیادت کے نام پر افغانستان پر ایک کٹھ پتلی حکومت مسلط کرکے اور جمہوریت کے قیام اور معاشی ترقی کے ایک نئے دور کی نوید سناکر حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ رہا معاملہ زمینی حقائق کا، تو جس معاشی اور تعلیمی ترقی اور جدیدیت کے انقلاب کا چرچا تھا اس کا کہیں وجود نہیں۔
امریکا اور ناٹو کے کرتا دھرتا اب اصل بات اس پر کر رہے ہیں کہ عراق سے تو واپسی کا سوچا جاسکتا ہے لیکن افغانستان سے نہیں۔ ستم یہ ہے کہ امریکا ہی نہیں، ناٹو اقوام جن کا اتحاد نارتھ اٹلانٹک کے دفاع کے لیے مخصوص تھا، وہ اب نارتھ اٹلانٹک سے ہزاروں میل دُور اپنے لیے نیا میدانِ جنگ متعین کرنے میں مصروف ہیں اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اب ناٹو کے مستقبل کا انحصار افغانستان میں اس کے مشن کی کامیابی پر ہے، حالانکہ امریکا کے سوا تمام ہی اتحادی ممالک کی افواج کا عمل گواہ ہے کہ وہ اُوپر سے جتنی چاہے بم باری کر رہے ہوں، زمین پر جنگ اور مقابلے کے لیے تیار نہیں۔ ان میں سے کچھ اپنی فوجیں واپس بلاچکے ہیں اور کچھ کے وزراے خارجہ علانیہ طور پر کہہ چکے ہیں کہ اگر ہمارے چند درجن مزید سپاہی افغانستان میں مارے جاتے ہیں تو ہمارے عوام افواج کی واپسی کا مطالبہ کردیں گے۔
اس سب کے باوجود امریکا اپنی فوجوں کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے اور دوسروں پر اضافے کے لیے دبائو ڈال رہا ہے۔ اس وقت ۷ ہزار مزید کمک کا منصوبہ ہے۔ امریکا کے تمام ہی صدارتی امیدوار عراق سے تو فوجوں کی واپسی کی بات کرتے ہیں مگر افغانستان میں اضافے ہی کا راگ الاپ رہے ہیں، اور ایران اور پاکستان دونوں پر مختلف انداز میں دبائو بڑھانے اور ایک (ایران) پر حملہ کرکے اس کی قوت پر ضرب لگانے اور دوسرے (پاکستان) کا ہاتھ مروڑ کر اس کی فوجوں کو اپنے ہی عوام کے خلاف خون آشام کارروائیوں میں مصروف رکھنے اور علاقے میں مذاکرات، امن اور سلامتی، استحکام اور ترقی کے ہر منصوبے کو درہم برہم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بلکہ گذشتہ تین مہینوں سے بار بار ایک نئے خطرے کا ڈھونگ پیٹا جا رہا ہے کہ اگلا نائن الیون جیساحملہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے متوقع ہے۔ نیگرو پونٹے سے لے کر خود بش بہادر تک یہ شور مچا رہے ہیں اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو بلیک میل کرکے اور گاجر اور چھڑی (carrot and stick) کی روایتی پالیسی کا استعمال کرتے ہوئے اسے جنگ کی دلدل میں مزید دھکیلنے اور امن و استحکام کے حصول کی ہرکوشش کو ناکام بنانے میں مصروف ہیں۔ یہ خاص طور پر اس لیے ہورہا ہے کہ پاکستانی عوام جن کی نگاہ میں پہلے دن سے امریکا کی افغانستان کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت، حصہ داری اور کردار پاکستان اور اُمت ِمسلمہ کے مفادات کے خلاف اور صرف امریکا کے ایجنڈے کی تکمیل کا ذریعہ تھے اور پرویز مشرف کی اس پالیسی کے خلاف تھے، اور فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے موقع پر انھوں نے پرویز مشرف کی اس امریکی جنگ میں شرکت کو یکسر رد کردیا اور اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ تسلسل نہیں، تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ امریکا کا موجودہ دبائو دراصل عوام کے اس مینڈیٹ کی نفی کرنے اور پرویز مشرف کی خون آشام اور عوام دشمن پالیسیوں کو جاری رکھنے کے لیے دبائو بڑھانے اور نئی حکومت کو اسی طرح خوف زدہ کرنے کی مہم کا حصہ ہے جس طرح نائن الیون کے بعد پرویز مشرف اور ان کے اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ کو ڈرا دھمکا کر امریکا کا آلۂ کار بنانے کا کارنامہ انجام دیا تھا۔
آج پھر ملک اور اس کی قیادت ایک ویسے ہی امتحان اور انتخاب سے دوچار ہے۔ اس لیے ضروری ہے صدر بش اور امریکا کی اس جنگ کے اصل مقاصد کا صحیح ادراک پیدا کیا جائے، سات سال میں پرویز مشرف کی امریکا کی محکومی میںاختیار کی جانے والی پالیسی کے نتائج کا پوری علمی دیانت کے اور سیاسی حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے۔ عوام کے جذبات، احساسات اور مطالبات کا بھی احترام کیا جائے اور اچھی طرح سمجھا جائے کہ فردِواحد کی بنائی جانے والی پالیسی کے مقابلے میں عوام کی منتخب سیاسی قیادت کو اپنی پالیسی کس طرح اور کن مقاصد کے لیے مرتب اور نافذ کرنی چاہیے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ایک بنیادی بات کی وضاحت ضروری ہے۔ عوام نے ۱۸ فروری کو بڑا واضح مینڈیٹ دیا ہے اور اس میں پانچ چیزیں بہت واضح ہیں:
۱- پرویز مشرف کا دور حکومت تاریک اور ناکام دور تھا اور قوم ان سے اور ان کی مسلط کردہ پالیسیوں سے نجات چاہتی ہے، ان کا تسلسل نہیں۔
۲- عدلیہ پر پرویز مشرف کا حملہ اور اعلیٰ ججوں کی برطرفی ایک قومی جرم اور دستور اور اس کے تحت قائم ہونے والے ادارتی نظام کو درہم برہم کرنے اور ایک تابع مہمل عدلیہ ملک پر مسلط کرنے کی باغیانہ کوشش تھی۔ نئی حکومت کی پہلی ذمہ داری تھی اور یہ ذمہ داری ابھی ختم نہیں ہوئی کہ ججوں کو بحال کرے اور عدلیہ کی آزادی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔
۳- ملکی سیاست میں فوج کا کردار ختم ہونا چاہیے۔ فوج کا کام ملک کا دفاع اور دستور کے تحت سول حکومت کے احکام کی پاس داری کرنا ہے۔ ملک کی قسمت کے فیصلے اور پالیسی سازی دستور، قانون اور ضابطوں کے مطابق عوام کے منتخب نمایندے کریں۔ پارلیمنٹ کو بالادستی حاصل ہو اور قیادت عوام کی مرضی کے مطابق جمہوری عمل کے ذریعے حکومت کی ذمہ داری ادا کرے، کھلے انداز میں کرے، اور ان کے سامنے جواب دہ ہو۔
۴- پاکستان کے معاملات میں امریکا کا کردار جو شکل اختیار کرگیا ہے وہ قومی حاکمیت، عزت و وقار اور مفادات کے خلاف ہے۔ اس سلسلے میں سب سے تباہ کن چیز امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت اور کردار اور اس کے نتیجے میں ملک اور پورے علاقے میں جو خون ریزی ہورہی ہے اور دہشت گردی کو جو فروغ حاصل ہوا ہے وہ ناقابلِ برداشت ہے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان، سوات، پاکستانی قانون کے زیرعمل داری (settled) علاقوں، حتیٰ کہ اسلام آباد اور لاہور میں جو حالات رونما ہوئے اور لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں ظلم اور سرکاری دہشت گردی کا جو خونیں ڈراما رچایا گیا ہے، وہ عوام کے غیظ و غضب کا سبب بنا ہے۔ نئی حکومت کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ اس جنگ میں پاکستان کی شرکت پر بنیادی نظرثانی کرے اور علاقے میں امن و سلامتی کے لیے نئی حکمت عملی پر عمل پیرا ہو۔
۵- آخری چیز پرویزی دور کی دوسری تمام پالیسیوں خصوصیت سے معاشی، تعلیمی، ثقافتی پالیسیوں سے عوام کی بے زاری، بھارت کے سلسلے میں یک رخے انداز میں پسپائی اور یک طرفہ رعایات (one way concessions) اور مسئلہ کشمیر پر اُلٹی زقند (u-turn) کا رویہ ہے جس کے بارے میں انتخابی مہم کے دوران اور اس کے بعد عوام نے اپنے جذبات کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ ملک جس طرح خوراک، مہنگائی، بدامنی، بجلی، گیس اور پانی کے بحران میں مبتلا ہے، وہ مشرف کی آٹھ سالہ غلطیوں، کوتاہیوں اور غلط ترجیحات کا مجموعی نتیجہ (cumulative result) ہے، اور ان سب کے بارے میں نئی حکومت کو پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیوں اور عوام کی مشکلات کو حل کرنے اور ان کی توقعات کو پورا کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کارروائی کی ضرورت ہے۔
یہ تو تھا عوام کا مینڈیٹ اور ان کی توقعات کا خاکہ ___ مخلوط حکومت کے قیام کو ملک کی تمام کی تمام قوتوں نے خوش آمدید کہا اور ان دینی اور سیاسی جماعتوں نے بھی جنھوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، کھلے دل سے حکومت کو موقع دیا اور اسے صحیح مشوروں سے نوازا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کچھ درپردہ اور کچھ کھلی سودے بازیوں کے پس منظر میں جو سیاسی عناصر میدان میں آئے تھے، ان کی نگاہیں عوام کے مینڈیٹ اور توقعات سے کہیں زیادہ اپنے مفادات پر تھی اور جو کام پہلے ہفتے میں ہوجانے چاہییں تھے، ان پر چھے ہفتے گزر جانے کے باوجود بھی لیت و لعل کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ حکومت کے کرتا دھرتا گومگو کا شکار ہیں، پارلیمنٹ جس کی بالادستی کے دعوے ہو رہے تھے ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کا منظر پیش کر رہی ہے اور زرداری ہائوس اور ایوانِ صدر اپنے اپنے کردار ادا کرنے میں مصروف اور ایک دوسرے کے لیے گنجایش نکالنے کا پریشان کن نقشہ بنانے میں مصروف نظر آرہے ہیں۔ وزرا گاڑیوں پر جھنڈے تو لہرا رہے ہیں اور انتقالِ اقتدار کے ڈرامے کے باوجود انتقالِ اختیارات کی صورت نظر نہیں آرہی۔ کسی بھی اہم میدان میں نئی پالیسی سازی کی کوئی جھلک دیکھنے میں نہیں آرہی بلکہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ وزیردفاع، وزیرخزانہ اور وزیرخارجہ تک پالیسیوں کے تسلسل کی بات کر رہے ہیں اور وزیرخارجہ نے تو یہاں تک فلسفہ بگھارا ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی کا انحصار اس کے اسٹرے ٹیجک مفادات (strategic interests) پر ہوتا ہے اور قیادت کی تبدیلی سے خارجہ پالیسی تبدیل نہیں کی جاتی۔ وہ بھول گئے کہ الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے معرکے میں بنیادی ایشو ہی یہ تھا کہ ملک کے اسٹرے ٹیجک مفادات کو قربان کیا جا رہا ہے اور اس ناکام پالیسی کی تبدیلی کے لیے عوام نئی قیادت کو سامنے لائے ہیں۔
وزیرخارجہ یہ بھی بھول گئے کہ پاکستان ہی کی تاریخ میں سیاسی قیادت نے ایک بار نہیں بار بار خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کی ہیں اور وہ تبدیلیاں اسٹرے ٹیجک مفادات کے ادراک ہی کی بنیاد پر کی گئی ہیں۔ حالات کی تبدیلی سے اسٹرے ٹیجک مفادات میں تبدیلی ہوتی ہے، جیسے برلن کے انقلاب کے بعد، امریکا کی ہر کوشش کے علی الرغم پاکستان کا چین کوتسلیم کرنا اور اس کے ساتھ اسٹرے ٹیجک شراکت داری کا قیام۔ واضح رہے کہ خارجہ پالیسی کی اس تبدیلی میں خود جناب ذوالفقار علی بھٹو کا ایک اہم کردار تھا لیکن آج کی پیپلزپارٹی کی قیادت کو اس کا کوئی ادراک ہی نہیں۔ اسی طرح افغانستان پر اس کی کھلی فوج کشی اور برزنیف ڈاکٹرائن کی افغانستان کے لیے توسیع نے پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات میں ایک جوہری تبدیلی کردی تھی اور اس کے نتیجے میں خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کرنا پڑیں۔ خود پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد جو یوٹرن لیا اس کے نتیجے میں خارجہ پالیسی کا رخ بالکل بدل گیا۔ آج نائن الیون کے سات سال بعد دنیا کا جو حال ہے، عراق میں جو کچھ ہو رہا ہے، یورپ، چین اور روس جس طرح کروٹیں لے رہے ہیں، تیسری دنیا کے ممالک عالم گیریت کے بوجھ تلے دبے جس طرح کراہ رہے ہیں اور اپنے لیے زندہ رہنے کی نئی راہیں تلاش کرنے کی جو جستجو کر رہے ہیں، اور امریکا کی سات سالہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جو نتائج افغانستان اور اس پورے خطے (region) بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہوئے وہ اسٹرے ٹیجک مفادات میں تبدیلیوں کی نشان دہی کر رہے ہیں اور ان مفادات اور مقاصد کے حصول کے لیے خارجہ پالیسی کے ازسرنو بنیادی جائزے کی ضرورت ہے نہ کہ ضمنی تبدیلیوں کی۔ ان حالات میں تبدیلی کی جگہ تسلسل کی بات نہایت مایوس کن بلکہ تشویش ناک ہے۔ اصلاح کی توقع اسی وقت ہوسکتی ہے جب مرض کا احساس، خرابی کا ادراک اور تبدیلی کا عزم ہو___ اور پیپلزپارٹی کی حکومت کا اقتدار کے پہلے ۵۰ دن میںریکارڈ کسی اعتبار سے بھی قابلِ فخر تو کیا تسلی بخش بھی نہیں کہا جاسکتا۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں ہم قبائلی علاقہ جات میں جاری پالیسی، اس میں تبدیلی کی ضرورت اور کوشش اور بحیثیت مجموعی امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مسئلہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اس پر پاکستان کے نظریاتی تشخص کے ساتھ قومی یک جہتی، ملک میں امن و امان کے قیام اور فوج اور قوم کے تعلقات کا انحصار ہے۔ اس کا تعلق قومی سلامتی، ملک کی آزادی اور حاکمیت اور ہماری پوری دفاعی صلاحیت کی حکمت عملی سے ہے۔ بلاشبہہ اس کا گہرا تعلق پاک امریکا تعلقات سے بھی ہے اور ایک متوازن اور حقیقت پسندانہ پالیسی کی تشکیل ان سارے پہلوئوں کو سامنے رکھ کر ہی ممکن ہے۔ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان میں امریکا اور ناٹو کی افواج کے مقاصد اور اہداف کیا ہیں اور وہ اہداف کہاں تک خود پاکستان کے مفادات اور اس خطے میں اس کے مقاصد سے مطابقت رکھتے ہیں۔ جو پالیسی وقتی حالات، بیرونی دبائو، یا خوف اور مجبوری کے تحت بنے گی وہ کبھی بھی قومی مقاصد اور مفادات کی ضامن نہیں ہوسکتی۔
ہم اس وقت اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ نائن الیون کے بعد آزاد فیصلہ سازی کے لیے کتنی گنجایش موجود تھی اور اس وقت کن حالات میں کیا فیصلہ کیا گیا۔ ہم اس پر اپنے خیالات کا اظہار بار بار کرچکے ہیں اور اس کے اعادے کی اس وقت ضرورت نہیں۔ لیکن آج کے حالات مختلف ہیں۔ خود امریکا میں بش کی پالیسیوں کو اب وہ پذیرائی حاصل نہیں اور دنیا کے عوام، حکومتیں اور دانش ور اپنے اپنے انداز میں اس سے فاصلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ برطانیہ، اسپین، اٹلی اور آسٹریلیا کے عوام اور حکومتوں نے اپنے تعاون کی مقدار (quantum) اور شکلوں پر نظرثانی کی ہے۔ جاپان، جرمنی، فرانس، پولینڈ اور دسیوں ملک نظرثانی میں مشغول ہیں۔ خود امریکا کے تھنک ٹینک عراق اور افغانستان میں امریکی پالیسیوں کی ناکامیوں پر کھل کر بحث کر رہے ہیں اور امریکی مقتدرہ سے متعلق افراد، خصوصیت سے کلیدی مقامات پر خدمات انجام دینے والے فوجی اور سول شخصیات جو ریٹائر ہوچکی ہیں پالیسی کی ناکامیوں اور تبدیلی کی ضرورت پر کھل کر کلام کر رہے ہیں۔
ان حالات میں اور بھی ضروری ہوگیا ہے کہ امریکا کے احکام اور بلیک میل کرنے والے مطالبات پر سرِتسلیم خم کرنے کی روش ترک کی جائے،دوستی اور محکومی کے فرق کو سامنے رکھاجائے، دوسروں کے مفادات اور اپنے مفادات کا صحیح صحیح ادراک کیا جائے اور عوام کی خواہشات اور ان کو اعتماد میں لے کر پوری دانش مندی سے پالیسیوں پر نظرثانی کی جائے اور پالیسی سازی کے طریق کار کو بھی درست کیا جائے تاکہ ذاتی پسندوناپسند، شخصی مفادات اور ترجیحات کا کوئی سایہ قومی پالیسیوں پر نہ پڑے اور یہ پالیسیاں مکمل طور پر قومی مقاصد، اہداف اورمفادات کے مطابق مشاورت کے اداراتی عمل کے ذریعے بنیں اور ان پر پارلیمنٹ میں کھلی بحث ہو اور ہرسطح پر عوام کی شرکت کا اہتمام کیا جائے۔ زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے جو پالیسی بنے گی وہ خام ہوگی اور نتائج کے حصول میں ناکام رہے گی۔ صوبہ سرحد کی نئی حکومت کو سیکولر قوتوں کی فتح کہا جا رہا تھا اور اے این پی کی صوبے میں کامیابی کو دینی قوتوں کی شکست سے تعبیر کیا جا رہا تھا اور امریکی حکومت نے اے این پی کی قیادت سے بلاواسطہ تعلقات قائم کرنے اور اس کے ساتھ اشتراکِ عمل کی راہیں استوار کرنے کے لیے تمام حربے بھی استعمال کرنا شروع کردیے ہیں، لیکن صوبے کی حکومت کو طالبان اور سوات کی مقتدرہ قوتوں سے بات چیت ہی کا راستہ استعمال کرنا پڑا اور شریعت محمدیؐ کے نفاذ کو معاہدے میں سرفہرست رکھنا پڑا۔ یہ زمینی حقائق اور حقائق پر مبنی سیاست کا لازمی حصہ ہے۔ سیاسی قوتوں کو سیاسی حقائق کی روشنی میں مسائل کے سیاسی حل ہی کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یہ صرف خودپسند جرنیلوں یا مفادات کی دلدل میں پھنسے ہوئے سیاست دانوں کا رویہ ہوتا ہے کہ وہ انا ولاغیری کے زعم میں من مانے فیصلے کرڈالتے ہیں اور اس کا کوئی خیال نہیں کرتے کہ قوم اس کی کیا قیمت ادا کرتی ہے؟
اب یہ بات دو اور دو چار کی طرح ثابت ہوچکی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا مقصد دہشت گردی سے انسانیت کو نجات دلانا نہیں، بلکہ دہشت گردی کے نام پر اپنے عالمی منصوبوں کی تکمیل اور اہداف کا حصول ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل نکات پر غور مناسب رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
۱- دہشت گردی کی کوئی متفق علیہ تعریف نہ موجود ہے اور نہ امریکا نے اس سلسلے میں کوئی قرارواقعی کوشش کی ہے۔ اس کے برعکس ایک مبہم بات کوایک دوسرے غیرواضح مبہم وجود، یعنی القاعدہ کے شانوں پر سجا کر ایک عالمی جنگ کا عنوان بنا دیا ہے اور عملاً دنیا کو اس جنگ کی آگ میں جھونک دیا ہے جس کا کوئی اختتام نظر نہیں آرہا۔
۲- نائن الیون سے پہلے بلکہ صدیوں سے دہشت گردی کا وجود رہا ہے اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق مختلف گروہوں نے قوت کا ایسا استعمال بار بار کیا ہے جس سے خواہ ان کے سیاسی مقاصد اور اہداف توجہ کا مرکز بن گئے ہوں مگر معصوم انسانوں کی جانوں کی قربانی بھی اس کا حصہ رہی ہے۔ اسی وجہ سے ان کے مقاصد سے ہمدردی کے باوجود ان کے اس طریق کار پر گرفت کی گئی ہے اور ریاست اور قانون کی نگاہ میں ان کے یہ اقدامِ جرم شمار کیے گئے لیکن امریکا نے اپنے سوچے سمجھے استعماری منصوبوں کی تکمیل کے لیے نائن الیون کے واقعے کے ۲۴ گھنٹے کے اندر ایک مجرمانہ کارروائی (criminal activity) کو جنگ کا نام دے دیا اور اس کے جواب میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عنوان سے ایک عالمی جنگ کا آغاز کردیا۔ یہ ایک جوہری تبدیلی تھی جس کے نتیجے میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سیاسی تدابیر اور ان کے ساتھ مجرموں سے نمٹنے کے عدالتی طور طریقوں کو ترک کر کے جنگ کے مثالیے (paradigm) کو مسئلے کے نمٹنے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا اور مسئلے کے عسکری حل (military solution) کی حکمت عملی کو ساری دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کی۔
امریکا کے اسٹرے ٹیجک مفکرین روس کے انتشار اور دیوارِ برلن کے انہدام کے بعد سے ایک ایسی عالمی حکمت عملی کا تانا بانا بُننے میں مشغول تھے جس کے ذریعے امریکا ۲۱ویں صدی کی واحد سوپر پاور رہ سکے، اس کا مقابلہ کرنے والی کوئی قوت (challenger) نہ اُبھر سکے، دنیا کے تمام اسٹرے ٹیجک پوائنٹس پر امریکا کے فوجی اڈے موجود ہوں، تیل،گیس اور خام مال کی رسد پر اس کا کنٹرول رہے، اس کی مصنوعات کے لیے عالمی منڈیاں، خصوصیت سے عرب دنیا اور تیسری دنیا کے ممالک کی منڈیاں کھلی رہیں، نیز مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کا سیاسی نقشہ اس طرح دوبارہ بنایا جائے کہ امریکا کے مفادات کو مکمل تحفظ حاصل ہو، اور اسرائیل کو نہ صرف یہ کہ کوئی حقیقی خطرہ پیش نہ آئے بلکہ اسرائیل امریکا کے نائب (surrogate) کی حیثیت سے اس پورے علاقے میں امریکی اور اسرائیلی مفادات کے حصول کے لیے ایک کلیدی کردار ادا کرتا رہے۔ اس کے لیے عراق کی کمر توڑنا، افغانستان میں اپنے قدم جمانا، ایران کو نہ صرف یہ کہ ایٹمی طاقت نہ بننے دینا بلکہ معاشی اور سیاسی اعتبار سے بھی اس کو ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھنے دینا، پاکستان پر دبائو، چین پر نگرانی اور جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر اسے ہراساں کرنے کا ہمہ گیر پروگرام اور بھارت کے ساتھ تعاون کے ذریعے اس علاقے میں اپنے اثرات کو بڑھانا، جب کہ مسلم ممالک خاص طور پر عراق، پاکستان، افغانستان کو علاقائی، فرقہ وارانہ اور اسی قسم کی دوسری عصبیتوں کی بنیاد پر ٹکڑے ٹکڑے کرکے کمزور کرنا___ وہ کلیدی اہداف تھے، جن پر ۹۰ کے عشرے سے عمل ہو رہا تھا۔ نائن الیون کے حادثے کو ایک سنہری موقع بناکر پورے بین الاقوامی قانون کو بالاے طاق رکھ کر اپنے دفاع کے نام پر دوسرے ممالک پر فوج کشی، ان کی سرحدوں کی بے دریغ خلاف ورزی کے سامراجی فلسفے کو پالیسی کا مرکز و محور بنانا، جمہوریت کے فروغ اور تبدیلیِاقتدار (regime change ) کے نام پر دوسرے ممالک میں مداخلت اور سیاسی تبدیلیوں کا کھیل، جنگ اور قومی سلامتی کا سہارا لے کر ان تمام حقوق کی پامالی جو مہذب دنیا کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں، وہ مقاصد ہیں جن کے لیے امریکا خصوصیت سے نائن الیون کے بعد سرگرم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اس کا صرف عنوان ہے اوراصل سامراجی کھیل کے لیے قائم مقام (proxy) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں امریکا کی سرکاری دستاویزات، دنیا بھر کے اہم تھنک ٹینکس کی مطبوعات اور صدربش سے لے کر ان کے سول اور فوجی ترجمانوں اورسابقہ کمانڈروں اور خفیہ اداروں کے ترجمانوں کے بیانات چشم کشا ہیں۔ کسی کو باہر سے الزام لگانے کی ضرورت نہیں۔ امریکا کا عمل اور اس کے ذمہ داروں کے بیانات سیاسی شطرنج کا پورا نقشہ پیش کردیتے ہیں۔
امریکا نے اپنے آپ کو ساری دنیا میں ’کروسیڈ‘ کے قائد کی حیثیت سے پیش کرنے اور کسی بھی جگہ، کسی بھی وقت، کسی بھی مدت کے لیے مداخلت کو جائز ثابت کرنے کے لیے کچھ عرصے سے عالمی دہشت گردی کے تصور کو استعمال کیا ہے۔ (ص ۴۴)
القاعدہ اور حکومت طالبان کے خلاف جنگ کی وجہ سے امریکا نے افغانستان میں ۱۲ ہزار، ازبکستان میں ۱۵۰۰ اور جارجیا میں کم و بیش ۱۰۰ فوجی تعینات کر دیے۔ (ص۱۳۱)
تمام ظاہری محرکات سے زیادہ، امریکا نے اپنی فوجی شان و شوکت کے مظاہرے کے لیے مسلم دنیا کو بطور ہدف اور ’عذر خصوصی‘ (priveleged pretext) اس لیے منتخب کیا ہے کہ کم خرچ پر اپنی طاقت کی ہرجگہ اسٹرے ٹیجک موجودگی کو سامنے لایا جائے۔ یہ بالکل سادہ سی بات ہے کہ ایسا عالمِ عرب کی عمومی کمزوری کی وجہ سے ہوا ہے۔ امریکا عربوں کے ساتھ بدسلوکی کرے گا اس لیے کہ وہ فوجی لحاظ سے کمزور ہیں، اس لیے کہ ان کے پاس تیل ہے اور تیل اتنا اہم ہے کہ امریکا کے ہرقسم کی اشیاے تجارت پر عالمی انحصار سے توجہ منتقل کردے گا۔ (ص ۱۴۲-۱۴۳)
ایک بنگلہ دیشی نژاد برطانوی محقق نفیض مصدق احمد نے، جو برطانیہ کے ایک تھنک ٹینک Institute of Policy & Research کے ڈائرکٹر ہیں، دو تحقیقی کتب شائع کی ہیں۔ پہلی The War on Truthاور دوسری Behind the War on Terror۔ ان کتابوں میں قابلِ اعتماد حوالوں کے ساتھ امریکا کی عالمی غلبے کی حکمت عملی کے تمام ہی پہلوئوں کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ موصوف جس نتیجے پر پہنچے ہیں،وہ مختصراً یہ ہے:
حقیقت یہ ہے کہ ۱۱ستمبر کے دہشت گردی کے حملے کے بعد امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جو نئی جنگ شروع کی، یہ انھی بنیادی اصولوں اور منصوبوں کی توسیع ہے جنھوں نے دوسری جنگ کے بعد امریکی خارجہ پالیسی کی تشکیل کی اور آگے بڑھایا۔ عالمی دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے بہانے درحقیقت امریکی حکومت اپنی عالمی برتری کو توسیع دینے اور مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ ان طویل المیعاد حکمت عملیوں کے مطابق ہے جنھیں گذشتہ کئی عشروں میں غوروفکر کرکے محنت سے تکمیل تک پہنچایا گیا۔ Behind the War on Terror: Western Secret Strategies and the Struggle for Iraq این ایس احمد، Calavian Sussex ، ۲۰۰۳ئ، ص ۳)
ایک امریکی تھنک ٹینک Project for the New American Century (PNAC) نے بڑی چشم کشا رپورٹ تیار کی ہے۔ اس کے تیار کرنے والوں میں صدر جارج بش کے چوٹی کے مشیر شامل رہے ہیں جن میں ڈک چینی (موجودہ نائب صدر) ڈونالڈ رمزفیلڈ (سابق وزیردفاع)، لیوس لبی نائب صدر کے سابق چیف آف اسٹاف وغیرہ شامل تھے۔ اس میں صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ ہمارا مقصد ایک ایسا بلیو پرنٹ تیار کرنا ہے جس کا مقصد:
عالمی سطح پر امریکا کی برتری کو برقرار رکھنا، کسی دوسری عظیم طاقت کے بطور حریف عروج کو روکنا، اور بین الاقوامی سلامتی کے نظام کو امریکی اصولوں اور مفادات کے مطابق تشکیل دینا ہے۔
یہ امریکا کی نئی قومی سلامتی کی حکمت عملی کے ذریعے اپنی آخری شکل اختیار کرے گا۔ یہ منصوبہ دنیا پر امریکا کی حکومت قائم کرنے کے لیے ہے۔ اس کا کھلا کھلا مرکزی خیال ایک ہی طاقت کا میدان میں رہنا (unilateralism) ہے لیکن یہ بالآخر غلبہ حاصل کرنے کی کہانی ہے۔ اس کا تقاضا ہے: دوستوں اور دشمنوں پر ایک جیسا غلبہ۔
امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تعلق دہشت گردی سے کم اور امریکا کے اپنے عالمی عزائم جس کا اصل ہدف دنیا پر امریکی غلبہ (Pax Americana) ہے، تیل اور انرجی کے دوسرے ذخائر پرقبضہ اور ان کی رسد کے راستوں پر حکمرانی، دنیا کے اسٹرے ٹیجک پوائنٹس پر اپنے فوجی اڈوں کا قیام اور دنیا کے اہم علاقوں خصوصیت سے مشرق وسطیٰ اور وسط افریقہ کے سیاسی نقشے کی امریکی مفادات اور اسرائیلی خواہشات کی روشنی میں تشکیلِ نو۔
سوڈان میں جو کچھ ہو رہا ہے اور عراق، افغانستان اور لبنان میں جو کچھ کیا جا رہا ہے، نیز پاکستان کے بارے میں جو نئے نئے نقشے تیار کیے جا رہے ہیں، ان سب کا تعلق اس بڑی (grand) حکمت عملی سے ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکا کی دل چسپی اس عظیم تر منصوبے کا حصہ ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ اس حکمت عملی پر عمل درآمد کا ایک پہلو ہے۔
ڈاکٹر نفیض احمد نے بڑے پتے کی بات لکھی ہے جو امریکی حکمت عملی کے سینے کے اصل راز کو فاش کرتی ہے:
اس طرح بین الاقوامی دہشت گردی امریکی بالادستی کے ماتحت ورلڈ آرڈر میں ایک عملی کردار ادا کرتی ہے۔ دہشت گرد اسامہ صدر بش کی ضرورت ہے۔ بن لادن نہ رہے، تو بش کے پاس پوری دنیا میں کوئی مستقل ہدف نہیں رہے گا اور اس طرح نئے امریکی غلبے (New Pax Americana) کے لیے جواز ختم ہوجاتا ہے۔ (ص ۱۷)
دہشت گردی کو فروغ دینے اور اسے اپنے سیاسی پروگرام میں ایک حربے کے طور پر استعمال کرنے میں امریکا کا اپنا کردار بہت زیادہ داغ دار ہے اور اس تاریخی روایت کی روشنی میں دہشت گردی کے باب میں امریکا کے حالیہ جوش و خروش کو سنجیدگی سے لینا محال ہے۔ ڈاکٹر احمد کا یہ تبصرہ لائق توجہ ہے کہ:
مشرق وسطیٰ کے کلیدی گرم محاذ عراق کے ہمارے تفصیلی تجزیے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مغربی پالیسی نے اسٹرے ٹیجک حکومتوں کے کنٹرول اور توانائی کے کلیدی وسائل پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے ان بنیادی انسانی اصولوں کی مسلسل خلاف ورزی کی ہے جن کی وہ علَم بردار ہے۔ یہ امر بہت اہم ہے کہ اس عمل میں مغربی پالیسی ریاستی دہشت گردی میں باقاعدہ ملوث رہنے کی رہی ہے، دونوں طرح سے، بالواسطہ طور پر ان حکومتوں کو جو دہشت گردی کی مرتکب تھیں اسپانسر کرکے اور بلاواسطہ طور پر ایسے فوجی آپریشن کرکے جو دہشت گردی پر مبنی تھے۔ اس سے بنیادی طور پر نائن الیون کے نتیجے کے طور پر جاری دہشت گردی کے خلاف نئی جنگ کے درست ہونے کا تصور بلاشبہہ ختم ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں مشرق وسطیٰ میں مغربی پالیسی کی بنیاد میں یہ بات شامل ہے کہ تنازعات کو پیدا کیا جائے اور/یا بڑھایا جائے تاکہ مغربی مفادات سے ہم آہنگی ہو۔ یہ استعماری دور کی روایتی لڑائو اور حکومت کرو پالیسی کی یاد دلاتا ہے۔ (ص ۲۴۳)
امریکی پالیسی کے مقاصد بہت واضح ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ محض ایک عنوان اور نعرہ ہے۔ اصل مقصد امریکا کی بالادستی، مسلمان اور دوسرے ممالک میں اپنی مفید مطلب حکومتوں کا قیام، تیل اور دوسرے وسائل پر قبضہ اور ان کا اپنے مفادات کے لیے استعمال، اسرائیل کا تحفظ اور اسے مشرق اوسط میں کھل کھیلنے کے مواقع کی فراہمی اور اس کی جارحانہ سرگرمیوں کی سرپرستی اور حفاظت، احیاے اسلام کی تحریکوں کا راستہ روکنا اور اسلامی بنیاد پرستی، اسلامی انتہا پسندی اور اسلامی دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کو اپنے ملکوں میں اسلام کو حکمران قوت بنانے سے روکنا اور اپنی سیاسی، معاشی، نظریاتی، عسکری، ثقافتی اور ذہنی غلامی میں جکڑنا ہے۔
افغانستان میں امریکا اور اس کی حلیف قوتوں کا اصل مقصد مغربی استعمار کے ان ہی اہداف کا حصول ہے، اور پرویز مشرف کا امریکا کو اس کی جنگ میں پاکستان کا تعاون فراہم کرنا اور پاکستان کی سرحدات کو امریکی جولانیوں کے لیے کھول دینا پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات سے متصادم اور امریکا کے مفادات کی خدمت رہا ہے۔ پاکستانی عوام امریکا اور مشرف کے اس کھیل پر مضطرب، سرگرداں اور متفکر رہے ہیں۔ اپنی مخالفت کا اظہار ہر میدان میں کرتے رہے ہیں اور پورے خطے میں تصادم اور خون خرابے کے اضافے کاسبب بھی مشرف حکومت کی یہی پالیسی رہی ہے۔ گیلپ، World Public Opinion Survey، The Pew Global Attitudes Projectاور خود امریکی اداروں کے زیراہتمام کیے جانے والے IRI Index ،تمام سروے راے عامہ کی مخالفت کی گواہی دیتے ہیں۔ گیلپ کے ان تمام جائزوں کے تجزیے پر مبنی کتاب Who Speaks for Islam? What A Billion Muslims Realy Think حال ہی میں گیلپ پریس نے شائع کی ہے۔ جو سروے ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۷ء تک کیے گئے ہیں، ان کا تجزیہ مشہور امریکی محقق جان ایسپوزیٹو نے کیا ہے۔ ان جائزوں کی روشنی میں مسلمان اپنے دین پر ایمان اور اعتماد رکھتے ہیں۔ وہ اپنی اجتماعی زندگی کو قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب اورمنظم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو بڑی حد تک اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کا کوئی تعلق مذہب سے نہیں، بلکہ جو بھی احتجاج امریکا کے خلاف ہو رہا ہے، اس کی بنیادی وجہ امریکا کی خارجہ پالیسیاں ہیں۔
Pew (پیو) کے گلوبل سروے کے مطابق جو جون ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا تھا اور جس میں ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۶ء تک کے سروے کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا تھا، اس کے مطابق پوری دنیا میں اور خصوصیت سے پاکستان میں امریکا کی مقبولیت کا گراف برابر گر رہا ہے۔ ۷۰ فی صد سے زیادہ پاکستانی عوام امریکا کی پالیسیوں کے مخالف تھے اور ان کا خیال تھا کہ امریکا کی اس جنگ نے دنیا کو زیادہ خطرناک جگہ بنا دیا ہے۔
اسی طرح World Public Opinion Surveyکے سروے کی روشنی میں پاکستانی عوام کے ۹۰ فی صد کی خواہش ہے کہ ان کی اجتماعی زندگی کی صورت گری اسلام کے اصولوں کے مطابق ہو، جب کہ آبادی کے ۴۶ فی صد کی راے یہ تھی کہ اس وقت زندگی کے اجتماعی معاملات اسلام کے مطابق نہیں چلائے جا رہے۔ سیکورٹی اور معیشت کے معاملات میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے بارے میں ۴۴ فی صد کا خیال تھا کہ اس کا فائدہ صرف امریکا کو پہنچ رہا ہے، جب کہ ۹فی صد کا خیال تھا کہ یہ پاکستان کے لیے مفید رہی ہیں۔ ۲۹ فی صد نے کہا کہ یہ پاکستان کے مفادات پر ضرب لگارہی ہیں۔ ۷۲ فی صد عوام کی راے یہ تھی کہ ایشیا میں امریکا کی عسکری موجودگی پاکستان کے لیے خطرہ ہے، ایک فیصلہ کن خطرہ (critical threat ) ہے، جب کہ مزید ۱۲ فی صد نے اسے خطرہ قرار دیا اور صرف ۶ فی صد کی راے میں اس سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے بارے میں پاکستانیوں کی تشویش اور بھی سوا ہے۔ ۶۸ فی صد کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ کن خطرہ ہے۔ اسامہ بن لادن کے لیے ہمدردی پائی جاتی ہے اور اس سوال کے جواب میں کہ اسامہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہو اور حکومت کو اس کا صحیح پتا بھی چل جائے تو کیا پاکستان کو اسامہ بن لادن کو گرفتار کر لینا چاہیے۔ ۳۹ فی صد نے کہا کہ نہیں کرنا چاہیے، جب کہ۲۴ فی صد نے اسے گرفتار کرنے کے حق میں راے دی۔
سب سے اہم سوال یہ تھا کہ امریکا کے عالمی کردار کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستانی عوام کی کیا راے ہے کہ امریکا کے اصل مقاصد کیا ہیں۔ ۵۳ فی صد نے کہا: عیسائیت کا فروغ ان کے مقاصد میں سے ایک ہے۔ تیل کے ذخائر پر قبضے کے باب میں ۷۸ فی صد کا خیال تھاکہ یہ ایک واضح ہدف ہے۔ لیکن سب سے چشم کشا جواب اس سوال کا تھا کہ کیا امریکا اسلامی دنیا کو تقسیم اور کمزور کرنا چاہتا ہے تو ۸۶ فی صد کا خیال تھا کہ ہاں، یہ امریکا کا ایک واضح ہدف ہے۔
اب ایک نظر اس سروے پر بھی ڈال لی جائے جو امریکا نے پاکستان میں انتخاب سے چند ہفتے قبل (۱۹-۲۹ جنوری ۲۰۰۸ئ) کروایا ہے اور جو IRI index کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔ اس سروے کی رو سے ۸۴ فی صد آبادی کی راے میں مشرف کی قیادت میں پاکستان جس رخ پر جارہا ہے وہ غلط ہے۔ پاکستانیوں کی نگاہ میں دہشت گردی سب سے اہم مسئلہ نہیں۔ سب سے اہم مسئلہ افراطِ زر کا ہے جسے ۵۵ فی صد نے نمبر ایک پر رکھا ہے۔ بے روزگاری کو ۱۵ فی صد سب سے اہم مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ دہشت گردی کو صرف ۱۲ فی صد نے اہم مسئلہ قرار دیا ہے لیکن عوام کی راے کاصحیح اندازہ دو دوسرے سوالوں کے جواب سے کیا جاسکتا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ صوبہ سرحد اور فاٹا میں انتہاپسندی کے خلاف فوجی کارروائی کے حق میں ہیں تو ۶۴ فی صد نے اس کی مخالفت کی اورجب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان کو امریکا سے دہشت گردی کے خلاف اس کی جنگ میں تعاون کرنا چاہیے تو ۸۹ فی صد نے عدمِ تعاون اور مخالفت کو اپنی ترجیح قراردیا۔
یہ ہے عوام کی اصل سوچ___ اور اسی کا اظہار ۱۸ فروری کے انتخابات میں ہوا۔ اس کا تقاضاہے کہ نومنتخب حکومت اور پارلیمنٹ مشرف کی بنائی ہوئی پالیسی کوجلد از جلد تبدیل کرے اور عوام کی خواہش اور ملک کے اسٹرے ٹیجک مفادات کی روشنی میں فوجی آپریشن کو ختم کرکے مذاکرات اور سیاسی عمل کے ذریعے معاملات کو سلجھائے، امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ایک مناسب منصوبے کے تحت دست کش ہو، افغانستان میں مکمل عدمِ مداخلت کی روش اختیار کرے اور امریکا اور مغربی اقوام کو اس زمینی حقیقت کو پڑھ لینے کی ترغیب دے کہ افغانستان میں امریکی اور ناٹو کی فوجوں کی موجودگی فساد کا اصل سبب ہیں۔ ان افواج کو افغان عوام قابض افواج شمار کرتے ہیں اور ان کا کردار بھی قابض طاقتوں ہی جیسا ہے۔یہ انتظام اور یہ حکمت عملی مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ یہ افغانستان میں بھی ناکام ہے اور عراق میں بھی۔ اسے جاری رکھنے کا نتیجہ مزید خون خرابے کے سوا کچھ نہیں۔ عقل و دانش کا تقاضا ہے کہ اس پالیسی کو بتدیل کرانے کے لیے سرتوڑ کوشش کی جائے اور اس کا آغاز پاکستان کی شرکت اور صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں امریکا کی جنگ کے سپاہی کاکردار ختم کر کے امن و امان کے قیام کا امکان پیدا کیا جائے اور اور فوج اور عوام کی یک جہتی کے ماڈل کی طرف پیش قدمی کی جائے۔
پرویز مشرف کی پالیسی کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تواس کے نتیجے میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان اور افغانستان قریب آنے کے بجاے عملاً ایک دوسرے سے دُور ہوئے ہیں۔ پاکستان کی سرحدات کی امریکی خلاف ورزیاں بڑھی ہیں اور ہمارے معاملات میں ان کی مداخلت اس حد تک پہنچ گئی ہے جو پاکستان کی آزادی، حاکمیت کے لیے خطرہ اور قومی عزت و وقار کے منافی ہے۔ فوج اور قوم میں صرف دُوری ہی نہیں ہوئی، بلکہ وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ ۱۲۰۰ سے زیادہ فوجی اپنی جان گنوا چکے ہیں اور ۳ ہزار کے قریب سویلین موت کے گھاٹ اُتارے جاچکے ہیں، کوئی علاقہ محفوظ نہیں۔ محسود قبائل کے علاقے کے بارے میں امن و امان کے قیام کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ وہاں پہلی مرتبہ پاکستانی صحافیوں کو لے جایا گیا ہے اور ان کی رپورٹ یہ ہے کہ فوج کی چوکیاں تو وہاں ہیں مگرمحسودعلاقے میں وہ کسی محسود باشندے کو نہیں دیکھ سکے۔ پورا علاقہ انسانوں سے خالی ہے اور ایک بھوتوں کے مسکن کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ ایسا امن قبرستان کا امن تو کہا جاسکتا ہے، انسانی بستیوں کا امن اسے نہیں کہا جاسکتا۔
پھر جس معاشی امداد کا چرچاہے بلکہ امریکی اس کے نام پر چرکے لگا رہے ہیں، اس کا حال یہ ہے کہ خود امریکی حکام کے بقول: اس کا ۳۰ فی صد امریکا کے مشیروں (consultants) پر صَرف ہوا ہے اور ۷۰ فی صد پاکستان پہنچا ہے۔ پھر یہاں اس کا فائدہ کس نے اٹھایا ہے اور عوام کے حصے میں کیا آیا ہے؟ اس کا تذکرہ نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ البتہ جس ۱۱ ارب ڈالر کی امداد کا دعویٰ ہے، اس میں سے ۶ ارب ڈالر توفوجی خدمات کا معاوضہ ہے، کوئی مدد نہیں ہے۔ صرف ۵ارب ڈالر سات سال میں مدد کی مد میں آئے ہیں لیکن پہلے چار سال میں جو معاشی نقصان پاکستان کو ہوا ہے اور جس کا اعتراف خود امریکی فوج کے مرکز (centcom) نے کیا ہے، وہ ۱۰ ارب ڈالر ہے۔ اگر باقی تین سال کے بارے میں بھی اندازہ کیا جائے تو قرین عقل یہ ہے کہ یہ نقصان ۱۵ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اگر نفع نقصان کا میزانیہ بنایا جائے تو بات خواہ ملک کی آزادی اور حاکمیت کی ہو، عزت اور وقار کی ہو، جانی اور مالی نقصان کی ہو، حکومت اور عوام اور فوج اور قوم کے درمیان تعلقات کی ہو___ یہ ایک خسارے اور صرف خسارے کا سودا رہا ہے جس کا اعتراف اب عالمی سطح پر بھی ہو رہا ہے۔ پاکستانی عوام تو پہلے دن سے اس پر چیخ رہے ہیں۔ Counter Punch کے تازہ شمارے میں ایک امریکی دانش ور رچرڈ ڈبلیو بی ہان لکھتا ہے:
دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک فراڈ ہے، محض ایک لیبل جو ایک ایسی انتظامیہ کی جعل سازی اور ڈھنڈورا پیٹنے کے مترادف ہے جو اپنی ’مستند‘ بددیانتی کے لیے معروف ہے۔ یہ لیبل بش انتظامیہ کے بلااشتعال فوجی حملوں کے جرائم کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ افغانستان اور عراق کی دو خودمختار مملکتوں پر جو حملے ہوئے وہ بش انتظامیہ اقتدار میں آنے کے پہلے ہی دن سے کرنا چاہتی تھی۔
یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں ہے۔ آج افغانستان اور عراق مقبوضہ ممالک ہیں جن کا انتظام کٹھ پتلی حکومتیں کر رہی ہیں اور جو فوجی چھائونیوں کی بنیاد پر اپنا کام، یعنی توانائی کے اثاثوں کی حفاظت کر رہی ہیں۔ یہ بش انتظامیہ کی جنگی کارروائی کا ضمنی نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ اس کا مقصد تھا… دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک تصدیق شدہ دھوکا (certified fraud) ہے۔ (دی نیشن، ۱۱ مئی ۲۰۰۸ئ)
اس جنگ میں پاکستان کے کردار کا حاصل کیا ہے؟ یہ بھی کرسچین سائنس مانیٹر کے نمایندے گورڈن لوبالڈ کے تازہ ترین مراسلے میں دیکھ لیجیے:
پاکستان میں انتہاپسندوں کے خلاف فوجی حملوں کو بش انتظامیہ مرکزی اہمیت دے رہی ہے۔ اس پر تجزیہ نگار تشویش ظاہر کر رہے ہیں کہ امریکا ایک ناکام پالیسی پر اپنے ایک اہم حلیف سے ایک ایسے وقت میں اصرار کر رہا ہے، جب کہ خطے میں بدلتے ہوئے حالات، یعنی پاکستان میں ایک نئی منتخب حکومت اور افغانستان میں محاذ آرائی میں اضافہ، حکمت عملی میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ (دی نیشن، ۱۳ مئی ۲۰۰۸ئ)
اس رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ امریکا پاکستان کو سابقہ پالیسی جاری رکھنے پر مجبور کر رہا ہے جب کہ سب دیکھ رہے ہیں کہ یہ پالیسی ناکام رہی ہے اور اس دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ فوجی حل کی حکمت عملی کو ترک کر کے زمینی حقائق، عوامی خواہشات، اور پاکستان کے اپنے مفادات اور مقاصد و ترجیحات کی روشنی میں سیاسی حل نکالا جائے اور خطے کو مزید عدمِ استحکام سے بچایا جائے۔
اس وقت جو جنگ قبائلی علاقوں میں ہورہی ہے اور جس سے صوبہ سرحد اور ملک کے دوسرے علاقے بھی متاثر ہو رہے ہیں، وہ نہ پاکستان کی جنگ ہے اور نہ اُمت ِمسلمہ کے مفادات کی جنگ۔ یہ صرف امریکا کے استعماری عزائم کے حصول کی جنگ۔ یہ جو خود امریکا کے عوام کے مفاد میں بھی نہیں اور اس کی وجہ سے آج امریکا کے خلاف نفرت کا لاوا ساری دنیا میں پھٹ رہا ہے اور بے چینی، بے اطمینانی اور مخالفت کی لہریں بلند تر ہورہی ہیں۔ امریکا میں عوام کی بڑی تعداد اس جنگ سے بے زار ہے اور امریکی معیشت اس کے بوجھ کو مزید برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ دنیا بھر میں امریکا جمہوریت اور انسانی حقوق اور آزادیوں کے علَم بردار کی حیثیت سے نہیں، ایک غاصب اور استعماری قوت کی حیثیت سے پہچانا جا رہا ہے اور یہ کوئی اچھی پہچان نہیں۔ امریکا کو دنیا کا امن تہہ و بالا کرنے کا ذمہ دار گردانا جا رہا ہے اور دنیا آج نائن الیون کے مقابلے میں کہیں زیادہ غیرمحفوظ اور غیرمستحکم ہے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ سیاسی قیادتیں اپنی آنکھیں کھولیں اور ہوش کے ناخن لیں۔ اور اگر امریکا تباہی کے راستے پر چلنے کے لیے مصر ہے تو ہمارے حکمرانوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ دن کی طرح روشن حقائق کو بھی دیکھنے کو تیار نہیں، عوام کی آواز کو سننے کے لیے ان کے کان بند ہیں اور وہ تبدیلی کی جگہ تسلسل کی پُرفریب وادیوں میں گم نظر آتے ہیں۔ قوم صاف الفاظ میں تبدیلی کا مطالبہ کررہی ہے۔ قوم کی راے میں دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ پاکستان، پاکستانی قوم اوراُمت مسلمہ کی جنگ نہیں___ یہ امریکا کی استعماری جنگ ہے اور اس میں آلۂ کار بنے رہنا ایک اخلاقی، سیاسی اور نظریاتی جرم ہے۔ جتنی جلد اس جنگ سے ہم نکل آئیں اتنا بہتر ہے۔
ہم یہ بھی کہہ دینا چاہتے ہیں کہ یہ تو نوشتۂ دیوار ہے کہ یہ جنگ ناکام ہے اور فساد اور بگاڑ کو بڑھانے کے سوا اس کا کوئی نتیجہ نہیں۔ اسے ختم ہونا ہی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہم کتنی تباہی کے بعد اس آگ سے نکلتے ہیں؟ اب بھی بہت نقصان ہوچکا ہے۔ ہماری دعوت ہے کہ اس ملک کی سیاسی قیادت اب بھی عقل و دانش کا راستہ اختیار کرے اور امریکا کی اس جنگ سے نکلنے اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کے مفادات کے حصول کے لیے اپنی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کا بہترین استعمال کرے۔ ارباب اقتدار کو جاننا چاہیے کہ ایک بے عقل کو بھی بالآخر وہی کرنا پڑتا ہے جس کا مشورہ اصحاب دانش و بینش پہلے قدم ہی پر دے رہے ہوتے ہیں لیکن بے عقل اس فیصلے پر بڑی خرابی اور تباہی کے بعد پہنچتے ہیں ؎
آں کہ دانا کند ، کند ناداں
لیک بعد از خرابیِ بسیار
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے ملت اسلامیہ کو درپیش جن حالات میں غلبۂ دین کی تحریک کا نقشۂ کار پیش کیا اور عملاً اس تحریک کو برپا کیا، اس دور کی دو خصوصیات خصوصی اہمیت کی حامل ہیں___ اول یہ کہ یہ نظاموں کی کش مکش کا دور تھا۔ ایک طرف مغرب کی لبرل تہذیب اور اس کا سرمایہ دارانہ نظام تھا جو اژدھے کی طرح پوری دنیا کو نگل رہا تھا اور اس نظام کی چکا چوند نے پورے عالم کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا تھا۔ دوسری طرف مشرق سے ابھرنے والا کمیونزم اور سوشلزم کا نظام تھا جو غربت کو ختم کرنے ، انسانی مساوات قائم کرنے اور سرمایہ داری کے چنگل سے لوگوں کو نجات دلانے کے خوش کن اور پرکشش نعروں اور فلسفے پر مبنی تھا لیکن یہ دراصل انسانوں کے لیے آمریت کا ایک شکنجہ تھا۔
ان دونوں نظاموں کے درمیان فکری اور نظریاتی سطح پر، اور فلسفے اور سلوگن کی سطح پر ایک آویزش تھی ،لیکن عملاً خود مغربی دنیا کی بعض اکائیاں بھی سوشلزم کی کسی نہ کسی شکل کی دلدادہ بن گئی تھیں۔ مزدور اور کسان، طالب علم اور جوان ،دانش وراور اہل قلم اور صحافی، نیز مظلوم و محروم طبقات کے دبے اور پسے ہوئے افراد ذہناً اشتراکیت کے اسیر ہو چکے تھے اور مغرب کے سرمایہ دارانہ معاشروں میں رہنے کے باوجود سوشلزم کا راگ الاپتے اور اسی کی مالا جپتے تھے۔
اس پس منظر میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے اسلام کو ایک مکمل اور مبنی برحق اور منصفانہ نظام کی حیثیت سے از سرنو پیش کیا، جو ایک طرف فرد کی سطح پر اس کو آسودگی ، سکون اور سکینت فراہم کرتا ہے، اسے انشراح صدر کی دولت سے مالا مال کرتا ہے اور ذہنی اور فکری کجی کو ہروسوسے اور شک سے پاک کرتا ہے۔ دوسری طرف افراد پر مشتمل معاشرے کو اپنے اداراتی نظام سے امن و سکون اور عدل و انصاف کی دولت سے بھی مالا مال کرتا ہے ، ضروریات زندگی بھی فراہم کرتا ہے اور بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب سے جوڑ کر انسانی مساوات، آزادی، اخوت اور انصاف پر مبنی نظام قائم کرتا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے کیپٹلزم ، نیشنل ازم ، کمیونزم اور سوشلزم کی خرابیوں اور کمزوریوں کو بھی بے نقاب کیا۔ ان کے نعروں اور دعوئوں کو کھوکھلا اور بے وقعت ثابت کیا اور انسانی ضروریات کو انسانوں کے رب ، وحیِ الٰہی اور نبوت کی کرشمہ سازیوں سے بھی متعارف کرایا۔ اس لیے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ نظری طور پر تمام نظاموں کے مقابلے میں اسلام بحیثیت نظام زندگی کے قابل قبول ، قابل عمل اور ایک ایمانی اور اخلاقی پیکج کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب ہو گیا۔
اس دور کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ وہ عقلیت (rationalism)کا دور تھا جو چیزوں کو عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر قبول کرتا، یا رد کرتا ہے۔ اس دور کا یہ دعوٰی تھاکہ عقل ہی معراج انسانیت ہے اور اسی کو زندگی کے تمام دائروں میں فیصلہ کن حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ مولانا مودودی ؒ نے اسلامی تعلیمات ، اسلامی معاشرے اور اسلامی ریاست کے حوالے سے جس بحث کو چھیڑا اس نے عقل کو بھی دنگ کر دیا اور اسلام بحیثیت نظام کے عقل اور استدلال ، فلسفہ اور نظریہ اور انسانی ذہن میں اٹھنے والے سارے سوالات و اعتراضات کا مسکت جواب فراہم کرتا چلا گیا۔ ا س طرح سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے اس دور کے انسان کو عقلی طور پر بھی اپیل کیا اور قرآن و سنت کی تعلیم میں جو فطری کشش اور جذب و انجذاب کی خوبیاں ہیں، ان سے بھی متاثر کیا۔ مولانا مودودیؒ کی اس تحریک نے بالآخر جماعت اسلامی کا روپ دھارا اور اب اسے قائم ہوئے ۷۰ سال ہونے کو آئے ہیں۔ وقت بدلا ہے ، حالات بدلے ہیں ، کمیونزم اپنی جولانیاں دکھا کر اور چار دانگ عالم میں اپنا چرچا کرکے اور بظاہر ایک عالم کو اپنے حق میںاستوار اور متحیر کر کے ہوائوں میں تحلیل اور فضائوں میں گم ہوچکاہے، اس کی ریاست منتشر ہو چکی ہے ، اس کا فلسفہ بکھر چکاہے اور اس کا نظریاتی تار و پود ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا، اور وہ جو بیچتے تھے ۷۰ سال سے دواے دل وہ دکان اپنی بڑھا چکے ہیں۔
اس عرصے میں دنیا نے نیشنلزم کے حوالے سے بھی ان گنت تجربات کیے مگرمنہ کی کھائی ، خود اپنے پیر پر کلہاڑی ماری، اور پوری کی پوری انسانیت کو آگ اور خون کے دریا سے گزارا، اور اب نیشنلزم میں وہ اپیل ہے نہ جاذبیت اور کشش ، اور ایک نظام زندگی کی حیثیت سے ہرچند کہیں کہ ہے پر نہیں ہے والی صورت سے دوچار ہے۔ مغرب کا تہذیبی اور سرمایہ دارانہ نظام ، بلندیوں اور عروج کی ان گنت منازل سے گزرنے کے بعد اب کسی حقیقی پیغام اور مستقبل کی رفعتوں اور اُمنگوں سے عاری ہونے کا اعتراف کر رہاہے۔ اس نظام اور تہذیب کا امام امریکا اپنی اور اپنے اتحادیوں کی اور ناٹو کی فوجوں سے انسانیت پر حملہ آور ہے۔ ڈیزی کٹر اور کلسٹر بموں کی بارش ہے۔ انسانوں کی تباہی کا ہر عنوان دور تک سجا ہواہے لیکن اس نظام کے پاس انسانیت کے لیے ظلم اور بربادی کے علاوہ کوئی پیغام نہیں۔
گذشتہ کم و بیش آٹھ عشروں میں دنیا بھر میں متعدد اسلامی تحریکیں اٹھی ہیں۔ رجوع الی اللہ کے عنوان سے اٹھی ہیں ، بندوں کو بندوں کے رب کی طرف لے جانے کے پیغام کے ساتھ اٹھی ہیں، ففروا الی اللّٰہ کا مصداق بننے والوں کی تحریکیں اٹھی ہیں، اوردنیا بھر میں امریکی استعمار اور سرمایہ دارانہ تہذیب کے مظالم کے مقابلے میں دعوت، جدوجہد اور قربانی کے کلچر نے فروغ پایا ہے۔ تاریخ کے لمحۂ موجود میں ؎
سالارِ کارواں ہے میرِحجازؐ اپنا
اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا
جماعت اسلامی کو اپنی ہم عصر تحریکوں میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے پہلے دن سے تنظیم جماعت کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ دی۔ مولانا مودودی ؒ نے ابتدا ہی میں یہ بات بار بار دہرائی تھی کہ بدی ہر دائرے کے اندر منظم ہے، جب کہ نیکی منتشر ، اکیلی اور تنہا ہے لہٰذا نیکی اور بدی کے مقابلے میں ناگزیر ہے کہ نیکی اور خیر کی تمام قوتوں کو بھی منظم کیا جائے۔ انھیں پلیٹ فارم فراہم کیا جائے اور ایک سوچی سمجھی حکمت عملی سے آراستہ و پیراستہ کر کے ایک لمبی اور صبر آزما جنگ کے لیے انھیں تیار کیا جائے۔ اہداف اور مقاصد کو کھول کر بیان کیا جائے۔ منزل کا شعور اور نشاناتِ منزل سے آگاہ کیا جائے اور قرآن و سنت کی تعلیم کو لے کر اٹھنے اور دنیا پر چھا جانے کا نقشہ اور فلسفہ دو اور دو چار کی طرح ذہنوں میں اتارا جائے۔
جماعت اسلامی نے روز اول ہی سے جہاں کرنے کے کام متعین کیے تھے، وہیں انھیں ایک منصوبے ، پروگرام اور نظام الاوقات کا آہنگ بھی دیا۔ ۲۰۰۸ء کو مرکزی مجلس شوریٰ نے دعوت کا سال قرار دیا ہے۔ شوریٰ کا اصل ہدف یہ ہے کہ کارکن کو رابطہ عوام کی طرف خصوصیت سے متوجہ کیا جائے۔ دعوت الی اللہ کی طرف لوگوں کو بلانا، فرداً فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی، ان کی ضروریات اور مسائل سے ہم آہنگ ہو کر بھی اور اس سے ماورا آخرت کی جواب دہی، اللہ کی رضا اور حصول جنت کے لیے بھی۔
جماعت اسلامی ایمان کی تازگی، ذہنوں کی آبیاری ، قلب و نظر کی تبدیلی ، سوچ وفکر اور زاویۂ نگاہ کی پاکیزگی کو انقلاب اور اسلامی نظام کے برپا ہونے کا پہلا قدم سمجھتی ہے۔ جس معاشرے میں تعلق باللہ کی وافر مقدار موجود نہ ہو اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق خاطر اور عشق میں ڈوبا ہوا اتباع اور پیروی کا جذبہ مفقود ہو، اس معاشرے میں اٹھنے والی انقلاب کی لہریں کسی پاکیزہ ، بابرکت اور پایدار اسلامی انقلاب کی دستک ثابت نہیں ہوتیں۔ اس اعتبار سے جماعت کی پوری تنظیم کے لیے ناگزیر ہے کہ دعوتی مہمات کو شیڈول کے مطابق مرتب کیا جائے ، ضلعوں کی سطح پر یہ مہمات چلیں ، عوامی رابطے اور ممبر سازی کاکام کریں ، صوبائی نظم ا ن کی نگرانی کریں ، صوبے کی سطح پر بننے والی دعوتی کمیٹیاں ، دعوتی مہمات کے لٹریچر اور سرگرمیوں کو قریب سے دیکھیں اور پوری جماعت اس مہم کو اوڑھنا بچھونا بنائے ، دعوت کو اپنے لیے اول و آخر قرار دے اور اس کے نتیجے میں لاکھوں بندگانِ خدا تک پہنچے ، انھیں اپنا ہم نوا بنائے اور اسلامی نظام کو برپا کرکے معاشرے کے اندر ظلم کی جتنی شکلیں ، مہنگائی ، بے روزگاری ، لاقانونیت ، بد امنی ، فحاشی اور عریانی کی صورت میں موجود ہیں، ان سب سے نجات دلائے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ بنیادی طور پر خدا کا خوف رکھنے والا ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ڈوبا ہوا اور آخرت کی جواب دہی کے احساس سے معمور معاشرہ ہے۔ حالات کے جبر اور ظلم و استحصال کی ان گنت شکلوں نے ان ایمانی اور اخلاقی احساسات کو جا بجا مضمحل کیا ہے، انھیں ضعف پہنچایا ہے اور معاشرے پر غفلت کی ایک چادر تان دی ہے۔ دعوت الی اللہ، یعنی لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا ، بندگی کی جوت جگانا ، دامن مصطفی ؐ میں پناہ لینا اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنانا، ان کی شریعت مطہرہ کو لے کر اٹھنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو جدوجہد اور کش مکش ہمارے درمیان چھوڑ گئے ہیں، انھیں اس کا خوگر بنانا، اس دعوتی مہم کا مقصود ہے۔
جماعت اسلامی کے کارکن کو اپنے ہم نوائوں اور ساتھیوں سے مل کر معاشرے میں بسنے والے تمام انسانوں تک خیر خواہی اور اپنائیت کا یہ پیغام پہنچانا چاہیے کہ پاکستان کی بھلائی بھی اس دعوت اور نظریے کے ساتھ مربوط ہے اور خود پاکستان کا وجود بھی اسلام اور نظریۂ پاکستان کے ساتھ وابستہ ہے۔ کارکن ، ناظم اور ہر سطح کے ذمہ دارانِ جماعت دعوت الی اللہ کو اگر موضوعِ گفتگو بنائیں گے اور اس کے لیے مولانا مودودی ؒ کی تحریروں اور آج کے اسلامی اور تحریکی لٹریچر سے استفادہ کریں گے تو معاشرے کی فضا بدل سکتی ہے ، اس کا رخ تبدیل کیا جاسکتاہے اور سوچ اور فکر کے تمام دھاروں کو اسلامی انقلاب اور تبدیلی کے عنوانات سے سجایا جاسکتاہے۔
ہم جس تبدیلی کے خواہاں ہیں اس کی جڑ اور بنیاد دعوت الی اللہ ہے۔ ذہن و فکر کی تبدیلی کے بغیر جسم و جاں کا قبلہ و کعبہ درست نہیں کیا جاسکتا۔ پایدار اور دیرپا انقلاب اس بات کا متقاضی ہے کہ دلوں پر دستک دی جائے، ذہنوں کو جھنجھوڑا جائے، کچھ کرنے اور کر گزرنے کے لیے آمادگی پیدا کی جائے، ایثار و قربانی کی شمع فروزاں کی جائے اور ایک بدلے ہوئے انسان کو دریافت کیا جائے۔ یہ کام قرآن و سنت کی دعوت ہی سے ممکن ہے۔ انسانی فطرت کو اپیل کرنے والا پیغام ہی دلوں کی دنیا کو بدل سکتاہے، ان میں انقلاب برپا کر سکتاہے۔
۲۰۰۸ء کا منصوبہ، تحریک سے وابستہ ہر فرد کو متحرک کرنے کا منصوبہ ہے اور یہ منصوبہ دعوت کی ہمہ گیریت ، تربیت اور تزکیے کے بھی تمام اہداف اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ منصوبے نے اس بات کو واضح کیاہے کہ فکری اور نظری اعتبار سے دعوتی جدوجہد کو تقویت پہنچانے کے لیے جماعت کے تمام تحقیقی و اشاعتی اداروں کو بھی ٹاسک دیا جائے۔ یہ ادارے مختصر کتابچوں کی تیاری ، دو ورقوں اور ہینڈ بلوں کی اشاعت اور ان کی مسلسل فراہمی کی منصوبہ بندی کریں اور اس لٹریچر کو مناسب قیمت پر فراہم کرنے کا اہتمام کریں۔
یوم نظریۂ پاکستان ۱۴ ؍اگست ، یوم تاسیس جماعت ۲۶ ؍اگست، یوم اقبال ۹ نومبر ، یوم یک جہتی کشمیر ۵ فروری اور ان سب کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر افطار پارٹیاں ، شب بیداریاں اور عیدملن کے اجتماعات منعقد کیے جائیں ، ان سب پروگراموں کی اصل اکائی ضلعی جماعتیں ہیں۔ ضلعی نظم ہی ان پروگراموں کی تفصیلات طے کر ے اور ہر یونٹ کو مؤثر بنانے کی تدابیر سوچے اور اختیار کرے۔ اسی دعوت بالقرآن کا موضوع رفتہ رفتہ کارکنوں سے اتر کر عوام میں سرایت کرجائے۔ پورے ملک میں سیکڑوں مقامات پر لاکھوں افراد نے فہم دین اور دعوت بالقرآن کے اجتماعات کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور مرد و خواتین کی بہت بڑی تعداد کو ان پروگرامات میں دل چسپی لیتے اور ؎
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلمان
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار
کا مصداق اور عملی نمونہ بنتے دیکھاہے۔ ایسے تمام اجتماعات میں حدیث نبوی ؐ اور اسوۂ صحابہؓ پر تعلیمی نوعیت کے نصاب ترتیب دے کر پروگرام منعقد کیے جائیں تاکہ فہم دین اور اسلام کا حقیقی انقلابی تصور اجاگر ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں موثر افراد، کلیدی شخصیات ، سربرآوردہ لوگ اور راے عامہ پر اثرانداز ہونے والوں سے خصوصی رابطے ، انھیں لٹریچر کی فراہمی ، ان کے ساتھ الگ نشستوں کا اہتمام دعوت کے فروغ میں فیصلہ کن کردار اداکر سکتے ہیں۔ برادر تنظیمات ہمارے دست و بازو ہیں۔ جہاں جہاںنظم جماعت ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ، ان کی سرپرستی کرتا اور ان کی ضروریات فراہم کرتا ہے، وہاں یہ برادر تنظیمات اپنی کارکردگی کے جوہر بکھیرتی ہیں، اپنی صلاحیت کا لوہا منواتی ہیں اور دعوت کے فروغ میں جماعت کے ہم رکاب نظر آتی ہیں۔
گذشتہ کئی برسوں سے منصوبۂ عمل میں لائبریری کے قیام اور فروغ پر زور دیا گیاہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ لائبریری کے کردار کو توسیع دی جائے۔ ان کو اور زیادہ مؤثر بنایا جائے۔کتب اور رسائل کے ساتھ ساتھ دینی ، علمی اور دعوتی سی ڈیز بھی فراہم کی جائیں۔ہرضلعی صدر مقام پر اور جس مقام پر بھی ممکن ہو ایک ماڈل لائبریری قائم کی جائے جہاں بیٹھ کر پڑھنے کی جگہ بھی اور رسائل و جرائد بھی باقاعدگی سے آتے ہوں، اور حسن انتظام لوگوں کو متوجہ کرے تو امید ہے کہ علاقے کے ممتاز افراد اور علم دوست شخصیات، نیز طلبہ اور نوجوانوں کی بڑی تعداد ان لائبریریوں سے استفادہ کرسکے گی۔
بچوں اور نوجوانوں کا تناسب پاکستان کی آبادی میں نصف سے زائد ہے۔ مستقبل کا کوئی پروگرام اور کوئی منصوبہ بندی اس حقیقت کو نظر انداز کر کے ترتیب نہیں دی جاسکتی۔ صوبائی سطح پر نوجوانوں میں کام کے لیے خصوصی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ انھیں دین سے وابستہ کرنے کی شعوری کوشش درکار ہے۔ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافے کے لیے تربیتی ورکشاپوں کا اہتمام ضروری ہے، اور ان کی مجموعی قوت کو تنظیم کی مضبوطی کے لیے استعمال کرنے کا نقشۂ کار بنانا ضروری ہے۔
نوجوانوں میں تحرک اور سرگرمی پیدا کرنے اور انھیں بے مقصدیت کے اندھیروں سے نکال کر بامقصد زندگی کی طرف لانے کے لیے نظم جماعت کو زیادہ سنجیدہ کوششیں کرنی چاہییں۔ ایک طرف نوجوانوں کی سوچ و فکر ،ان کے مسائل اور ضروریات اور معاشرے کی بے راہروی کا احاطہ کرنا ہوگا، تو دوسری طرف مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کاایسا جال بچھانا ہو گا جو معاشرے پر اثرانداز ہو سکے اور نوجوانوں کی سیماب صفت شخصیت کو کردار کے سانچے میں ڈھال سکے۔ ہمیں اس سوال کا بھی سامنا کرنا چاہیے کہ نوجوانوں میں کام کے نتیجے میں بالآخر جماعت اسلامی کی عددی قوت میں بھی اضافہ ہو اور وقت گزرنے کے ساتھ نظریاتی کارکن اور پتّا ماری سے کام کرنے والے، نیز مکمل سپردگی اور کامل حوالگی کا نمونہ بننے والے جماعت کی صفوں میں ذمہ داریوں کے مناصب پر اور نظام اسلامی کی جدوجہد میں پیش پیش نظر آئیں۔
رابطہ عوام کی دعوتی مہم کا لازمی تقاضا ممبر سازی ہے۔ اب سے کچھ پہلے کم و بیش ۵۰ لاکھ پاکستانیوں نے ممبر سازی کے گوشوارے پُر کیے تھے اور جماعت اسلامی کے مقصد اور کام سے اتفاق کا اظہار کیا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر سطح کا نظمِ جماعت ممبرسازی کے بعد کے تقاضوں کو تنظیمی سانچے میں ڈھالے۔ ممبر حضرات سے رابطے، جماعت کی پالیسیوں سے انھیں باخبر رکھنے ، مختلف سرگرمیوں میں انھیں شریک کرنے اور ان کی قوت کو جماعت کے حق میں استوار کرنے کی منصوبہ بندی، دو اور دو چار کی طرح کی جانی چاہیے۔ صوبائی جماعتیں اور ان کی صوبائی نگران کمیٹیاں ضلعی سطحوں پر اس کام کی نگرانی کریں تو فی الحقیقت معاشرے میں دعوت الی اللہ کا چلن عام ہو سکے گا اور ان گنت برائیوں کے سدّباب کے لیے اور منکرات کے استیصال کے لیے ممبر حضرات سے بڑا کام لیا جاسکے گا۔
میں یہ یاد دلاتا چلوں کہ اب سے ۳۰، ۳۵ سال پہلے تک مرکزی مجلس شوریٰ اپنے سالانہ اجلاس میں جو منصوبۂ عمل ترتیب دیتی تھی، اس میں جماعتوں کے ذمے کیے جانے والے کاموں کے اہداف اور اعداد و شمار بھی طے کیے جاتے تھے لیکن تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر شوریٰ میں اس راے کو تقویت حاصل ہوئی کہ مرکزی منصوبہ محض عمومی اور اصولی طور پر کام اور اس کی جہتوں کا تعین کرے، جب کہ نظم کی نچلی سطح پر اعداد و شمار اور سال بھر میں کی جانے والی سرگرمیاں ، ان کے اہداف وہی لوگ طے کریں جنھیں یہ منصوبہ لے کر چلناہے۔ اس لیے یہ ضروری قرار پایا کہ ہر سطح پر منصوبۂ عمل کا جائزہ لیا جاتا رہے، اور کم از کم ہر سہ ماہی یہ کام ضرورکیاجائے تاکہ جائزے کے نتیجے میں مقامی سطح پر منصوبے کے اہداف میں کمی بیش کی جاسکے۔
بطور یاد دہانی یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ جماعت اسلامی عملاً ایک تحریک ہے اور ایک تنظیم بھی۔ ماحول اور معاشرے میں ہونے والے مدو جزر اور اچانک درپیش آنے والے مسائل سے نہ ہم لاتعلق رہ سکتے ہیں، اور نہ کسی ’منصوبے‘ کے ہی اسیر ہو کر نئے اٹھنے والے طوفان کو نظر انداز کرسکتے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی رونما ہونے والی تبدیلیاں ، اسلامی تحریکوں کو پیش آنے والے واقعات اور خود اسلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر پروپیگنڈے کی دنیا میں اُچھالا جانے والا کیچڑ اور اس بارے میں امت کا جو حقیقی موقف ہوسکتا ہے، اس کا احاطہ کرنا ، اس پر احتجاجی لہر اٹھانا، اپنے حکمرانوں اور دنیا بھر کی دریدہ دہن قوتوں کو للکارنا، یہ سب ہمارے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ ہمارے ایمان کا تقاضا اور ہماری تحریکیت کا امتحان ہے۔ لہٰذا سال کے مختلف حصوں میں منصوبۂ عمل کے ساتھ ساتھ ہنگامی نوعیت کی منکرات کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوششیں بھی جاری رہیں گی۔
جن حالات سے اس وقت ملک گزر رہاہے ، اس میں باہم مل جل کر چلنے کی ایک عمومی فضا پیدا کرنے اور اتفاقِ راے کی حکومت قائم کر کے ایجنڈے کے کم سے کم نکات پر عمل درآمد کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ قومی مفاہمت کے نام پر جہاں یہ ضروری ہے کہ کم سے کم قومی ایجنڈے کا تعین کر کے عوام کو اعتماد میں لیا جائے اور انھیں سنہرے مستقبل کی تعمیر کی دعوت میں شریک کیا جائے وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ پارٹیوں کا ٹریک ریکارڈ، ان کا ماضی اور ان کے عمومی کردار کو ہرگز نظرانداز نہ کیا جائے ، بصورت دیگر قومی مفاہمت کے نام پر اسے سبوتاژ کرنے اور آپ ہی اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کا اسلوب بھی آپ سے آپ اس میں شامل ہو جائے گا۔ کسی بھی سطح پر جماعتوں کا اتحاد یا مل جل کر چلنے کا اعلان عملاً اپنے اپنے ضعف کا اعلان بھی ہوتا ہے جو کام اکیلے اور تنہا پارٹیاں اور پلیٹ فارم انجام نہ دے سکیں، ان کے لیے مل جل کر کوشش کی جاتی ہے۔ اس لیے اتحادوں اور مفاہمت کا ایجنڈا مختصراور کم سے کم ہوتا ہے، جب کہ مفصل اور زیادہ سے زیادہ ایجنڈا ہرپارٹی کا اپنا منشور ہوتاہے۔
آنے والے دنوں میں چیف جسٹس اور ان کے ۶۰سے زائد ساتھیوں کی بحالی آزاد عدلیہ کی طرف پہلا قدم قرار پائے گا۔ اس بارے میں جتنی افواہیں اور سازشیں جنم لے رہی ہیں وہ عوام کے عزم کو شکست نہ دے سکیں گی۔ کم و بیش ۶۰ ہفتوں پر مشتمل وکلا کی تحریک، بنچ اور بار کا اتحاد، سول سوسائٹی ، میڈیا اور سیاسی کارکنوں کی جدوجہد کو بے معنی اور بے مقصد بنانے اور انھیں غیراہم قرار دے کر، ان کو پٹڑی سے اتارنے کی جو کوششیں بھی اِدھر اُدھر سے کی جارہی ہیں بالآخر لوگوں کے عزمِ صمیم کے سامنے وہ دم توڑ دیں گی۔ وزیراعظم نے ابتدائی ۱۰۰ دن کے لیے جس پروگرام اور ترجیحات کا اعلان کیا ہے یقینی طور پر وہ نہایت خوش کن ہے، زخموں پہ پھایا اورد کھوں کے مداوے کے مترادف ہے لیکن ابھی تک ان اعلانات کو عملی جامہ پہنانے کی کوئی مؤثر کوشش دیکھنے کو نہیں ملی۔ صوبائی حکومتوں کو ہدایات جاری ہونی چاہییں۔ طلبہ یونینز کے بارے میں بھی، ٹریڈ یونین سرگرمیوں کے حوالے سے بھی اور ایف سی آر کو ختم کرنے کے بارے میں بھی مرکزی حکومت کو ایک اچھے ہوم ورک کا ثبوت فراہم کرنا چاہیے۔
یہ بات بھی خوش آیند ہے کہ عوام نے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی تک اپنے حقیقی معاشی مسائل کے حل کو ملتوی کر رکھا ہے۔ عوام اس بات کو رفتہ رفتہ پا گئے ہیں کہ جس معاشرے میں قانون کی فرماں روائی نہ ہو اور محمود و ایاز ایک صف میں کھڑے نظر نہ آئیں ، وہاں مہنگائی ، بے روزگاری ، لاقانونیت اور محرومیوں کا مداوا نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ مرکز میں بننے والی اتفاقِ راے کی حکومت عوام کے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے ایک ریلیف پیکج کا بھی فوری اعلان کرے اور یہ کام اچھی تیاری اور لائحہ عمل کی مشکلات کو عبور کر کے کیا جائے۔اس سلسلے میں یہ بھی ناگزیر ہے کہ معاشیات کو جاننے والے غریب اور پسے ہوئے عوام کا درد رکھنے والے اور بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی مایوسی اور ناامیدی کو شکست دینے کا عزم رکھنے والے مل بیٹھیں اور کم سے کم وقت میں ایک ریلیف پیکج کا اعلان کریں جس پر عمل ہوتا ہوا نظر آئے اور جو کسی نہ کسی درجے میں لوگوں کے لیے واقعی سُکھ کا باعث بن سکے۔
قبائلی علاقوں اور بلوچستان سے فوج کو واپس بلانا اب دیوار پر لکھی تحریر کے مانند ہے۔ فوج کی واپسی کے ساتھ ہی مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مسائل حل کرنا ناگزیر ہے۔ جرگوں کا انعقاد ہونا چاہیے اور ہر جرگے کے فیصلے کو عمل کا روپ دینا چاہیے۔ امریکی ڈکٹیشن سے آزاد ہو کر اپنے مسائل اپنے ہی دائرے میں رہ کر اور اپنے ہی لوگوں کو اعتماد میں لے کر حل کیے جانے چاہییں۔ جتنے بڑے پیمانے پر بلوچستان اور صوبہ سرحد میں جانی اور مالی نقصان ہو چکا ہے، اس نے باہمی اعتماد کا بھی شدید بحران پیدا کیا ہے۔ مل بیٹھنے اور حسن نیت اور ارادے کی مضبوطی کے اظہار سے اور پھر فیصلے پر عمل درآمد سے اعتماد کے بحران کو شکست دی جاسکتی ہے اور اعتماد سازی اس کی جگہ لے سکتی ہے۔
صوبہ سندھ بقیہ صوبوں کے مقابلے میں جتنے بڑے پیمانے پر دہشت گردی کا سامنا کرتا رہاہے، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اس لیے اس بات کو دہرانا ضروری ہے کہ ۱۲ ربیع الاول ، نشترپارک کراچی میں ہونے والے علما کے قتل کی از سر نو تحقیقات کرائی جائیں۔ ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء کو شہر کراچی میں جس طرح ۵۰ سے زائد لوگ ہلاک کیے گئے، اس پو رے واقعے کی بھی تحقیقات کی جائیں۔ نیز ۱۲مئی ۲۰۰۴ء کو کراچی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں جس بڑے پیمانے پر دہشت گردی ہوئی اور سیاسی کارکنوں کو شہید کیا گیا، اس کا بھی نوٹس لیا جائے اور اب تازہ ترین واقعہ جو ۹ اپریل ۲۰۰۸ء کو ہوا ہے اور شہر کراچی کو آگ اور خون کے دریا میں دھکیل دیا گیاہے، اس کی بھی مکمل تحقیقات کی جائیں۔ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ بلیک میلنگ کی سیاست کو ختم کیا جائے اور بھتہ خوری اور بوری بند لاش کلچر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے۔ ناگزیر ہے کہ اس کام کو کرنے کے لیے سندھ کی صوبائی حکومت پر عزم ہو، مرکزی حکومت کی مکمل آشیر باد اسے حاصل ہو اور دبائو میں آکر، بلیک میل ہو کر، خواہ یہ دبائو عالمی اور بین الاقوامی ہویا مقامی اور خفیہ اداروں کی طرف سے ہو،ایسے دہشت گردوں کو ہر گز ہر گز اقتدار میں شریک نہ کیا جائے جو ہزاروں جانوں کے اتلاف اور اربوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔
سیاسی جماعتوں سے اتفاق بھی کیا جاسکتاہے اور اختلاف بھی۔ ان کے ساتھ مل کر بھی کوئی حکمت عملی بنائی جاسکتی ہے اور کبھی ان سے ہٹ کر بھی، لیکن ایک فسطائی گروہ کو سیاسی جماعت سمجھنے کا جو خمیازہ اہل کراچی اور سندھ نے پچھلے بیس برسوں میں بھگتا ہے، اس کی اب تلافی ہونی چاہیے۔ بہت ہو چکا۔ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا اور پانی سر سے بھی اونچا ہو چکا۔ عوام کی بڑی تعداد قومی اور صوبائی سطح پر بننے والی حکومتوں سے خوش گمان ہے اور حکومتی رویوں کو اعتماد بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔ جو اپنے ایجنڈے اور اس کی ترجیحات کا بار بار اعلان کر رہی ہیں۔ لہٰذا سید یوسف رضاگیلانی کی حکومت کو ایک بڑا امتحان درپیش ہے۔ ہماری دعائیں اور نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں، لیکن وعدوں اور اعلانات کے پورا نہ ہونے اور امیدوں کے بر نہ آنے کے جو خوفناک نتائج ہو سکتے ہیں اور جتنے بڑے پیمانے پر بپھرے ہوئے لوگوں کا غیظ و غضب اپنے آپ کو منوانے کے لیے جو کچھ کرسکتاہے، اس سے بھی بے خبر نہ رہنا چاہیے۔
موجودہ حکومت نے کشمیر کے بارے میں ابتدائی چند بیانات کچھ عجلت میں دے دیے تھے، ہمیں اپنے اصولی موقف پر قائم رہنا چاہیے۔ اہل کشمیر کی جدوجہد کو تسلیم کرنا چاہیے۔ بین الاقوامی برادری نے ان سے جو وعدے کیے ہیں، ان کے مطابق انھیں حقِراے دہی ملنا چاہیے اور پاکستان کو اپنی اخلاقی ،سفارتی اور سیاسی تائید بڑھ چڑھ کر جاری رکھنی چاہیے۔ کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور دشمن کے ہاتھ میں اپنی شہ رگ دے دینے والے بالآخر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس خود کشی سے قومی سطح پر بچنے کا واحد نسخہ یہی ہے کہ کشمیریوں کو تنہا نہ چھوڑا جائے۔ بھارت کے عزائم کو ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے اور اس خطے میں امریکی عمل دخل کو شکست سے دوچار کیا جائے۔
اس پورے پس منظر میں جماعت اسلامی کا کارکن بھی ایک بڑی آزمایش سے دوچار ہے۔ ۲۰۰۸ء کے منصوبۂ عمل پر اس کی روح کے ساتھ عمل بھی کرنا ہے اور چاروںطرف کے حالات سے باخبر رہ کر تحریکوں ، مہمات اور عوام کی آواز بن کر بھی اٹھنا ہے۔ ہم نے ہمیشہ قانون کے دائرے میں رہ کر بڑی بڑی تحریکیں اٹھائی ہیں۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو اپنے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا ہے۔ آیندہ بھی ہمارا ہتھیار اللہ پر ایک جیتا جاگتا ایمان ، اس کی قدرت کاملہ پر بھروسا اور اسی کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے رہنے کا عزم ہے اور یہ سب کام اس کی رضا اور آخرت کی فلاح کے لیے کیا جانا ہے، اور کس سے یہ بات مخفی ہے کہ اللہ تک جانے کے تمام راستے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوکر گزرتے ہیں اور سنت ثابتہ کو اپنانے سے ہموار ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہرکارکن کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ کمر ہمت کس.َ لے ، تعلق باللہ کی استواری میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے۔ سنت نبویؐ کو اپنائے ، شریعت مطہرہ کو لے کر اٹھے اور جو جدوجہد اور کش مکش نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان چھوڑ گئے ہیں، اس کا خوگر بنے اور اس بارے میں کسی لیت و لعل سے کام نہ لے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ وہ ہمارے حالات کو سدھار ے گا ، ہمیں اپنی تائید سے نوازے گا ، ہماری ٹوٹی پھوٹی جدوجہد کو قبول کرے گا اور جن آرزوئوں اور تمنائوں کے ساتھ قربانیاں دے کر اسے باقی رکھا گیاہے، اس کو نتیجہ خیز بنائے گا اور ہم اپنے سر کی آنکھوں سے پاک سرزمین پر قرآن و سنت کا پاکیزہ نظام روبہ عمل دیکھ سکیں گے۔ ان شاء اللہ!
جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ نے ۲۰۰۸ء کو دعوت کا سال قرار دیا ہے اور اس کے لیے ایک جامع منصوبہ اور لائحہ عمل بھی مرتب کیا ہے۔ پوری جماعت اس منصوبے کے مطابق اپنی سرگرمیاں ترتیب دے رہی ہے، اسی مناسبت سے اس ماہ کے اشارات میں محترم قیم جماعت نے منصوبے کے اصل مقاصد و اہداف اور ان احوال ومسائل پر کلام کیا ہے جو آج ملک اور تحریک کو درپیش ہیں۔ (مدیر)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ویسے تو زندگی کا ہر لمحہ لمحۂ امتحان ہے اور زندگی اور موت کا پورا سلسلہ انسان کی آزمایش کے لیے ہے (الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ط جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوںکو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ الملک۶۷:۲)، لیکن افراد اور قوموں کی زندگی میں کچھ مواقع ایسے آتے ہیں جنھیں بجا طور پر تاریخی اور سنہری موقع قرار دیا جاسکتا ہے اور جن پر صحیح اقدام تاریخ کے رخ کو موڑنے کا ذریعہ بن سکتاہے۔ آج پاکستانی قوم کو ایک ایسا ہی سنہری موقع حاصل ہے۔ ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتیجے میں جو قومی اسمبلی وجود میں آئی، اس نے ۱۷ مارچ سے اپنی زندگی کا آغاز اور ۲۴ مارچ کو قائد ایوان کا انتخاب کر کے مخلوط حکومت کے قیام کی راہ کھول دی ہے۔ توقع ہے مارچ کے آخر تک نئی حکومت اپنی ذمہ داری سنبھال لے گی۔
ہم پیپلزپارٹی کے نامزد وزیراعظم مخدوم یوسف رضا گیلانی کی مخلوط حکومت کا کھلے دل سے خیرمقدم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ملک و قوم کو اس دلدل سے نکالیں جس میں پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں (خصوصاً مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم) نے پھنسا دیا ہے۔ ہم پورے اخلاص اور دردمندی کے ساتھ ان کی توجہ ملک کو درپیش اصل چیلنج کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں اور ان مسائل اور ترجیحات کی نشان دہی کر رہے ہیں جو ان کا فوری ہدف ہونا چاہییں۔ آج پاکستان کی آزادی، حاکمیت، دستور اور نظامِ زندگی کے تحفظ کے لیے حقیقی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ہم صحیح معنوں میں عرصۂ محشر میں ہیں اور یہ وقت ذاتی یا سیاسی مفادات کے حصول کا نہیں بلکہ ملک و قوم کو بچانے اور زندگی اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کا ہے۔
پہلا اور سب سے اہم مسئلہ گاڑی کو پٹڑی پر ڈالنے کا ہے۔ گاڑی اپنا مطلوب سفر اسی وقت شروع کر سکے گی جب وہ پٹڑی پر ہو۔اس لیے پٹڑی پر ڈالے بغیر تیزرفتاری کی باتیں کرنا اپنے کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ اس غرض کے لیے مندرجہ ذیل اقدام ضروری ہیں:
۱- نظامِ عدل کی بحالی کہ عدل کی فراہمی کے مؤثر انتظام کے بغیر کوئی قوم اور ملک زندہ نہیں رہ سکتا۔ کفر کی نائو چل سکتی ہے مگر ظلم کی حکمرانی اور عدل سے محرومی تباہی کا راستہ ہے۔
۲- دستور اور قانون کی حکمرانی کہ مہذب معاشرے کا وجود دستوری نظام کی بالادستی اور قانون کی اطاعت پر منحصر ہے۔ جب اور جہاں دستور، قانون اور نظامِ زندگی فردِواحد کا تابع مہمل بن جائے، وہاں تباہی کے سوا کوئی اور نتیجہ رونما نہیں ہوسکتا۔ استحکام فرد سے نہیں اداروں، قانون اور ضابطے کی عمل داری سے حاصل ہوتا ہے۔ صحیح پالیسیاں مشورے اور افہام و تفہیم سے وجود میں آتی ہیں اور انصاف، استحکام و ترقی اور توازنِ قوت(balance of power) کا مرہونِ منت ہے، ارتکازِ قوت (concentration of power) کا نہیں۔ اس لیے اختیارات کی تقسیم اور تعین اور ہر ایک کا اپنے اپنے دائرۂ اختیار کا احترام ہی امن کے قیام اور ترقی کے مواقع کی فراہمی کا ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طرزِ حکمرانی، پالیسی سازی کے اسلوب اور طور طریقوں کی اصلاح اور نظامِ احتساب کو مضبوط کیے بغیر کوئی ملک ترقی اور استحکام کی منزلیں طے نہیں کرسکتا۔
یہ دو وہ بنیادی چیزیں ہیں جن کی اصلاح کے بغیر ہماری گاڑی اپنی پٹڑی پر نہیں آسکتی لیکن اس کے ساتھ ایک تیسری چیز بھی ازبس ضروری ہے اور وہ یہ کہ ٹرین کا ڈرائیور ہمارا اپنا ہو اور اس کی باگ ڈور کسی بیرونی قوت کے ہاتھوں میں نہ ہو۔ جب تک یہ تینوں چیزیں ٹھیک نہ ہوجائیں ملک اور قوم اپنی منزل کی طرف سفر نہیں کرسکتے۔ اس لیے نومنتخب اسمبلی اور مخلوط حکومت کو اولین ترجیح ان تینوں امور کو دینا چاہیے۔ بلاشبہہ معاشی معاملات بھی بے حد اہم ہیں اور اس وقت ہمارے معاشی مسائل بڑے گمبھیر اور پریشان کن ہیں ۔ امن و امان کا مسئلہ بھی اہم ہے لیکن ہم پوری دردمندی سے عرض کریں گے کہ الاول فالاول کے اصول پر فوری طور پر اولین ضرورتوں کو پورا کیا جائے اور اس کے ساتھ باقی تمام مسائل کے حل کے لیے مؤثر اقدامات کا اہتمام ہو۔
سب سے پہلی ضرورت اس بگاڑ اور فساد کی اصلاح ہے جس کا آغاز ۹مارچ ۲۰۰۷ء کو ہوا اور جو ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے خلافِ دستور اقدام کے نتیجے میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ اس کے کم از کم تین پہلو ایسے ہیں جن کو سمجھنا اور ان کی اصلاح اور آیندہ کے لیے ملک و ملت کو ایسے حالات سے بچانے کے لیے مؤثر تدابیر کرنا وقت کی اولین ضرورت ہے۔
اولاً، فردِ واحد کی طرف سے دستور، قانون، اسلامی اقدار اور مہذب معاشرے کی روایات کے خلاف پہلے صرف چیف جسٹس کو اور پھر عملاً عدالت عالیہ کے ۶۳ ججوں کو برطرف کر دینا، ان کے ساتھ ناروا سلوک اختیار کرنا، اپنی مرضی کے ججوں کا تعین اور اپنے مفیدمطلب فیصلے حاصل کرنے کے لیے آزادعدلیہ کا قتل۔
ثانیاً، فردِ واحد کا یہ دعویٰ کہ بندوق کی قوت سے وہ جب چاہے دستور کو معطل کرسکتا ہے، اس میں من مانی ترامیم کرسکتا ہے، ایمرجنسی نافذ کرسکتا اور اٹھا سکتا ہے، اور ملک کے پورے نظامِ حکمرانی کو موم کی ناک کی طرح جدھر چاہے موڑ سکتا ہے۔
ثالثاً، نام نہاد عدلیہ کا فردِ واحد کو درج بالا دونوں ’حقوق‘ دے دینا، اس کے حکم پر نیا حلف لے لینا، اس کے غیرقانونی اقدام کو جائز قرار دینا اور اسے دستوری ترمیم کا وہ حق بھی دے دینا جو صرف پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کو حاصل ہے، خود سپریم کورٹ کو بھی حاصل نہیں۔
یہ تینوں جرم پوری ڈھٹائی سے کھلے بندوں ۹ مارچ اور ۳ نومبر کو ہوئے، اور پرویز مشرف کی خودساختہ عدالت عالیہ نے ان پر مہرتصدیق ثبت کرکے پرویز مشرف کے جرم میں برابر کی شریک ہونے کی سعادت حاصل کرلی۔ بلاشبہہ ماضی میں بھی یہ کھیل کھیلا گیا ہے اور غلام محمد اور اس کے شریک کار جسٹس منیر سے لے کر پرویز مشرف اور موجودہ عدالت عالیہ نے ایک ہی جرم کا بار بار ارتکاب کیا ہے، اور پارلیمنٹ نے بھی مصالح کا شکار ہوکر دفعہ ۲۷۰، ۲۷۰ اے اور ۲۷۰ اے اے کی شکل میں اس سیاسی جرم کو دستور کا حصہ بنانے کی غلطی کی ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمدچودھری اور ۶۳ دوسرے ججوں نے اس کی مزاحمت کی، پوری وکلا برادری، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے ایک سال تک اس اقدام کے خلاف علَم بغاوت بلندکیا بالآخر فروری ۲۰۰۸ء میں عوام نے اس پورے کھیل کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا حتمی فیصلہ دے دیا۔ اب اسمبلی اور نئی حکومت کی اولیں ذمہ داری ہے کہ اس بنیادی خرابی کا ہمیشہ کے لیے ازالہ کردے۔اس کی مناسب ترین شکل یہ ہے:
۱- ایک واضح قرارداد کے ذریعے ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو غیردستوری، غیر قانونی، غیراخلاقی اور بدنیتی پر مبنی (malafide) قراردیا جائے اور اسے اس کے نفاذ کے وقت سے کالعدم قرار دیا جائے جس کا واضح نتیجہ یہ ہوگا کہ
ا - چیف جسٹس اور تمام جج اسی حالت میں بحال ہوجائیں گے جس میں وہ ۳نومبر کی صبح تک تھے اور سات ججوں کا وہ فیصلہ جس نے ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو غیر دستوری قرار دیا تھا، بحال ہوجائے گا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے قانون کی گرفت میں آجائیں گے۔
ب- ۳ نومبر کے بعد کے تمام اقدامات بشمول دستوری ترامیم اور انتظامی احکامات اصلاً غیرقانونی قرار پائیں گے، اِلا .ّیہ کہ پارلیمنٹ حقیقی ضرورت کے تحت ان میں سے کسی یا کچھ کو دفعِ فساد کی بنیاد پر محدود زندگی دے دے۔
اوّل: ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کی نفی اوراس کے تحت کیے ہوئے تمام اقدامات کو قانونی جواز سے محروم کرنا۔
دوم: سابقہ صورتِ حال (status quo) کی بحالی۔
سوم: اس اصول کا برملا اعلان و تصدیق کہ دستور میں ترمیم کا اختیار نہ چیف آف اسٹاف کو ہے، نہ صدر کو اور نہ سپریم کورٹ کو، بلکہ دستور میں ترمیم کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ دفعہ ۲۳۸- ۲۳۹ میں لکھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ اس لیے پی سی او کے تحت حلف لینے والی سپریم کورٹ کے ۳ نومبر والے اقدام کو جواز دینے کی نفی، اور آیندہ کے لیے تنبیہہ کہ کوئی عدالت اس نوعیت کا اقدام کرنے کی مجاز نہیں۔
۱- جو جج پہلے سے عدلیہ میں موجود تھے، وہ بھی معزول کردہ ججوں کی طرح اپنے ماضی کے مقام پر بحال رہیں گے۔ اصولی طور پر جو نئے جج مقرر کیے گئے ہیں، وہ دستور کی دفعہ ۲۰۹ کی میزان پر احتساب کے سزاوار ہوسکتے ہیں۔ ان کو عہدوں سے فارغ کر دیے جانے کے بعد سپریم کورٹ دستور اور الجہاد ٹرسٹ کے ججوں کے فیصلے کے مطابق فوری کارروائی کر کے اور خالص میرٹ کی بنیاد پر دستور اور ضابطے کی روشنی میں عدلیہ کی بحالی کے ایک ماہ کے اندر اندر فیصلے کرکے نافذ کردے۔
۲- ۳ نومبر والی ایمرجنسی کے تحت حاصل کردہ اختیارات کے تحت جو بھی اقدام ہوئے ہیں وہ سب قرارداد کے منظور ہونے کے تین ماہ کے اندر کالعدم ہوجائیں، بجز ان کے جن کے جاری رکھنے کا فیصلہ ایک پارلیمانی کمیٹی ان تین ماہ کے اندر کرے۔ اگر یہ کمیٹی فیصلہ نہیں کرتی تو وہ اقدام آیندہ کے لیے ختم ہوجائیں گے، خواہ اس کے اثرات کچھ بھی ہوں، البتہ جن چیزوں پر عمل ہوچکا ہے، ان کو کم تر برائی کے اصول پر گوارا (condone)کیا جاسکتا ہے۔
۳- اس قرارداد کے آخر میں یہ بھی واضح کردیا جائے کہ نظریۂ ضرورت کے تحت عدالتوں کا جواز دینا (validation )اور پھر پارلیمنٹ کا توثیق کرنا (ratification) ایک غلط سلسلہ ہے جسے ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاتا ہے۔ یہ بھی مفید ہوگا کہ پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی دستور میں دفعہ ۲۷۰، ۲۷۰ اے، ۲۷۰ اے اے کے تحت ماضی میں جو جواز مہیا (validate) کیے گئے ہیں ان کے بارے میں بھی طے کرے۔ یہ پارلیمانی کمیٹی تمام قوانین اور اقدامات کا جائزہ لے اور دوسال کے اندر ان قوانین، حکم ناموں اور اقدامات کا تعین کردے جن کو جواز حاصل رہے اور باقی سب کو منسوخ کردیا جائے گا تاکہ ماضی کے اس پشتارے کی بھی تطہیر ہوجائے۔
۴- اس قرارداد کے منظور ہوتے ہی اس پر عمل شروع کردیا جائے اور انتظامی حکم کے ذریعے تمام سابقہ ججوں کو بحال کرکے عدل وا نصاف کے دستوری عمل کو متحرک کردیا جائے۔ اس قرارداد کو ۲۷۰ اے اے اے کے طور پر دستور کا حصہ بنا دیا جائے تاکہ ماضی میں ۲۷۰ کے تحت جواز (validation) دینے کا جو دروازہ چوپٹ کھول دیا گیا تھا، وہ بھی آیندہ اس دفعہ کے ذریعے ہی بند کردیا جائے۔ اس طرح ہمیشہ کے لیے دستور میں قانونِ ضرورت کے دروازے کو بند کرنے کا کام بھی انجام دیا جاسکتا ہے۔
۵- اس کے ساتھ دستور کی دفعہ ۶ میں ترمیم کر کے یہ اضافہ کرنا بھی مفید ہوگا کہ دستور کو معطل کرنا یا غیرمؤثر (in abeyance) کرنا بھی دستور کی تخریب (subvert) کرنے کی طرح جرم ہے، اور ایسے اقدامات کو جوازفراہم کرنا بھی ایک مساوی جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔
۶- اگر ضروری محسوس کیا جائے تو ایک ترمیم دفعہ ۲۳۸/۲۳۹ میں بھی ہوسکتی ہے جو بطور وضاحت (explanation )آسکتی ہے کہ دستور میں ترمیم کا ان دفعات میں بیان شدہ طریقے کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ معتبر نہیںاور اس کی کوئی گنجایش نہیں کہ کسی ماوراے دستور (extra constitutional) طریقے سے کوئی بھی دستوری ترمیم کرے ،اور نہ کسی کو ایسی کوئی ترمیم کرنے کا اختیار کسی کو دینے کا حق ہے۔ اگر کوئی دستور میں اس طرح ترمیم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ دستور کی دفعہ ۶ کی زد میں آئے گا۔
’اعلانِ مری‘ کے تقاضے مندرجہ بالا اقدام کے ذریعے پورے ہوسکتے ہیں۔ ججوں کی رہائی ایک اچھا اقدام ہے لیکن اصل مسئلہ ججوں کی بحالی اور ۳نومبر کے اقدام کی مکمل نفی کرکے ملک کے دستور اور نظامِ عدل کو تحفظ دینا ہے۔یہ اصول تسلیم کیا جانا چاہیے کہ دستور کی دفعہ ۲۰۹ کے سوا کسی اور طریقے سے ججوں کی برطرفی غیرقانونی ہے، البتہ اس بات کا اظہار بھی ضروری ہے کہ جہاں ۶۳ججوں نے ایک روشن مثال قائم کی ہے اور کچھ دوسرے ججوں نے پی سی او کے تحت حلف لے کر اور اہلِ اقتدار سے تعاون کرکے بڑی بُری مثال قائم کی ہے، وہیں اس بات کی ضرورت ہے کہ نظامِ عدل کو دوبارہ معزز و محترم بنانے کے لیے سب اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ جہاں اصلاح کی ضرورت ہے، وہ ضرور کی جائے مگر صفوں کو پاٹ کر عدلیہ کی عزت اور کارفرمائی کی بحالی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ عدلیہ کے احتساب کے طریقے پر بھی ازسرنو غور کیا جائے اور عدلیہ اور انتظامیہ کے تعلقات خصوصیت سے ایک دوسرے سے ربط اور اثرانگیزی اور اثرپذیری کے نازک معاملات پر صدق دل سے غور کرکے نئے ضابطے اور قواعد بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عدلیہ حقیقت میں آزاد عدلیہ بن سکے اور اس سے انصاف کے چشمے پھوٹیں اور ہر کسی کو اس پر اعتماد ہو۔ قانونی اور انتظامی اصلاحات کے ساتھ اس پہلو کی فکر بھی ازبس ضروری ہے۔
ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ پارلیمنٹ ۳نومبر کے اقدام کی نفی کس قانونی ذریعے سے کرسکتی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک انتظامی حکم جو خودغیرقانونی تھااور قانون کی نگاہ میں اس کا آئینی (de Jure) وجود ہے ہی نہیں، صرف امرِواقع (de facto) ہے، ایک دوسرے انتظامی حکم نامے سے کالعدم کیوں نہیں جاسکتا۔ دنیا بھر کے ماہرین قانون نے اس اقدام کو دستور، قانون اور معروف جمہوری قواعد کے خلاف قرار دیا ہے۔ امریکی حکومت اپنے مفادات میں اندھی ہوکر خواہ کچھ بھی کہتی رہی ہو مگر امریکا کے ماہرین قانون نے اس اقدام کو غلط قرار دیا اور خود امریکی کانگرس نے تلافیِمافات کرتے ہوئے ۱۷ مارچ کی قرارداد کے ذریعے عدلیہ کی برخاستگی کو غلط اور بحالی کو اصل ضرورت قرار دیا ہے۔ نیویارک بار ایسوسی ایشن نے، جس کے ۲۲ ہزار ممبر ہیں، اسے غلط قرار دیا ہے اور خود ہمارے ملک کے چوٹی کے ماہرین قانون نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اصل اقدام غلط اور غیرقانونی تھا۔ ۳ نومبر کو سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ نے ۳ نومبر کے ایمرجنسی کے اقدام کو غلط اور بدنیتی پر مبنی (malafide ) قرار دے دیا تھا اور عدالت عالیہ کا وہی حکم آج بھی لاگو ہے۔ ۳نومبر کے غیرقانونی اعلان کے تحت حلف لینے والی عدلیہ کاکوئی فیصلہ قانون کا مقام نہیں رکھتا۔ سابق چیف جسٹس صاحبان میں سے جسٹس اجمل میاں، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس سعید الزماں صدیقی نے کہا ہے کہ: ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کو نافذ کی جانے والی ایمرجنسی کے تحت ججوں کی معطلی غیر دستوری تھی اور ان کی بحالی کے لیے قومی اسمبلی سے منظور کردہ قرارداد ہی کافی ہوگی۔ یہی موقف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے ۳ درجن سے زائد ججوں کا ہے۔ اس کے بعد کسی اور قانونی موشگافی کے لیے کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی۔
عدلیہ کی بحالی کے ساتھ دوسرا بنیادی مسئلہ دستور کی بحالی، پارلیمنٹ کی بالادستی، دستوری اداروں کے درمیان تقسیم اختیارات اور پارلیمنٹ کی کارکردگی کو بہتر اور مؤثر بنانے کا ہے۔
دستور کی بحالی کے سلسلے میں ایک اصولی بات تو یہ کہی جاسکتی ہے کہ جلد از جلد ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کی صورت حال کو بحال کیا جائے۔ ’میثاقِ جمہوریت‘ اور ’اعلانِ لندن‘ میں اس مسئلے پر ایک موقف اختیار کیاگیا ہے، جزوی اختلاف کے ساتھ ہم نے بھی اس کی تائید کی ہے لیکن چند دوسری بڑی اہم ترمیمات دستور میں ہونی چاہییں تاکہ صرف ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء والی صورت حال ہی بحال نہ ہو بلکہ دستور کے اسلامی، پارلیمانی، وفاقی اور فلاحی کردار کے تمام تقاضے پورے ہوسکیں۔ اس کے لیے کم سے کم مندرجہ ذیل امور کے بارے میں مناسب دستوری ترامیم افہام و تفہیم اور مؤثر مشاورت کے ذریعے کرنے کی ضرورت ہے:
۱- پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف صدر کے ان اختیارات کو ختم کیا جائے جن کے نتیجے میں صدر اور پارلیمنٹ کے درمیان توازن ختم ہوگیا اور پارلیمانی نظام ایک قسم کا صدارتی نظام بن گیا ہے، بلکہ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ پر انتظامیہ کی بالادستی کو بھی لگام دی جائے اور پارلیمنٹ ہی اصل فیصلہ کن فورم ہو۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل ترامیم ضروری ہیں:
ا- ریاست کے رہنما اصول جو پالیسی سازی کی بنیاد ہونے چاہییں، ان کی روشنی میں تمام خارجی اور داخلی امور پر پارلیمنٹ میں بحث ہو اور بحث کے بعد پالیسی ہدایات (directives) کی شکل میں پارلیمنٹ کی ہدایات مرتب کی جائیں، اور ان کے نفاذ کی رپورٹ پارلیمنٹ میں آئے جس پر بحث ہو۔ ضروری ہے کہ اسے ایک دستوری ذمہ داری قرار دیا جائے۔
ب- بجٹ سازی کا طریقۂ کار یکسر تبدیل کیا جائے۔ بجٹ سے چار مہینے پہلے دونوں ایوانوں میں بجٹ گائیڈلائن پر بحث ہو جس کی روشنی میں بجٹ کی تجاویز مرتب کی جائیں جو ایک ماہ کے اندر دونوں ایوانوں کی متعلقہ کمیٹیوں میں زیربحث آئیں اور یہ کمیٹیاں اپنی تجاویز وزارتِ خزانہ کو دیں۔ اصل بجٹ سال کے اختتام سے تین ماہ پہلے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔ سینیٹ میں کم از کم تین ہفتے بحث کے لیے دیے جائیں اور اسمبلی میں آٹھ ہفتے۔ اس طرح دو ماہ میں پارلیمنٹ بجٹ منظور کرے۔ دفاع کا بجٹ بھی بجٹ کے حصے کے طور پر پارلیمنٹ میں زیربحث آئے اور منظوری لی جائے۔
ج- پارلیمنٹ کو غیرمؤثر بنا دینے والی چیزوں میں سے ایک آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی ہے۔ دنیا کے بیش تر جمہوری ممالک میں ایسی کوئی گنجایش موجود نہیں ہے اور جہاں عارضی قانون سازی (temporary legislation)کی گنجایش ہے وہاں بھی بڑی سخت تحدیدات ہیں جن میں ایک ہی قانون کے بار بار آرڈی ننس کے ذریعے نافذ کیے جانے کا دروازہ بند کیا جانا بھی ہے۔ اس طرح حقیقی ضرورت کو بھی واضح (define) کرنے بلکہ قانونی احتساب کے دائرۂ اختیار میں لانے کی ضرورت ہے۔ ہماری حکومت اور پارلیمنٹ کا ریکارڈ اس سلسلے میں بڑا پریشان کن ہے۔ موجودہ اسمبلی نے پانچ سال میں صرف ۵۰قوانین براے نام بحث کے بعد قبول کیے، جب کہ ان پانچ سالوں میں ۷۳ قوانین بذریعہ آرڈی ننس نافذ ہوئے، یعنی انتظامیہ نے پارلیمنٹ کے مشورے اور بحث کے بغیر ان کو نافذ کیا۔ دوسرے الفاظ میں عام قانون سازی کے مقابلے میں آرڈی ننس سے قانون سازی ۱۵۰ فی صد زیادہ تھی۔ بھارت میں بھی آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی کا دروازہ کھلا ہے مگر وہاں پانچ سال میں ’لوک سبھا‘ نے ۲۴۸ قوانین حقیقی بحث و گفتگو کے بعد منظور کیے، جب کہ صدارتی آرڈی ننسوں کی تعداد پانچ سال میں صرف ۳۴ تھی، یعنی پارلیمنٹ میں پاس ہونے والے قوانین کا صرف ۱۴فی صد۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بڑے اہم بل پاکستان کی اسمبلی اور سینیٹ میں زیرغور رہے مگر ان پر بحث اور منظوری کی نوبت نہیں آسکی۔
حقیقت یہ ہے کہ آرڈی ننس سے قانون سازی کا دروازہ بند ہونا چاہیے۔ لیکن اگر اسے ضروری تصور ہی کیا جائے تو یہ شرط ہونی چاہیے کہ اسمبلی کے انعقاد سے ۱۵ دن پہلے اور اس کے التوا کے ۱۵ روز بعد تک کوئی آرڈی ننس جاری نہیں ہوسکتا۔ دو اجلاسوں کے دوران اگر غیرمعمولی حالات میں آرڈی ننس جاری کرنا پڑے تو اس کی وجوہ بھی آنی چاہییں۔ محض یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ ایسی وجوہ پائی جاتی ہیں۔ ان کو متعین کرنا ضروری ہے تاکہ پارلیمنٹ اور اگر ضرورت ہو تو خود عدالت اس کا جائزہ لے سکے۔ پھر یہ واضح ہونا چاہیے کہ ایک آرڈی ننس لفظی ترمیم کے بعد بار بار نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ انتظامیہ جان بوجھ کر پارلیمنٹ کو نظرانداز (by pass) کرنا چاہتی ہے۔ نیز یہ بھی طے ہونا چاہیے کہ سال میں ایک خاص تعداد سے زیادہ آرڈی ننس جاری نہیں کیے جاسکتے، مثلاً ایک سال میں پانچ سے زیادہ آرڈی ننس جاری نہ ہوں۔ اس طرح پارلیمنٹ میں قانون سازی اور پالیسی سازی بڑھ سکے گی۔
د- پارلیمنٹ کو نظرانداز کرنے اور اس کے کردار کو غیر مؤثر بنانے میں مزید دو عوامل بھی اہم ہیں۔ ایک بین الاقوامی معاہدات کا پارلیمنٹ سے بالا ہی بالا منظور ہوجانا۔ برطانوی دور سے یہ کام کابینہ کر رہی ہے جو جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ سامراجی دور میں اس کا ’جواز‘ ہوگا، جمہوریت میں اس کی کوئی گنجایش نہیں۔ اس لیے تمام معاہدات کا پارلیمنٹ میں پیش ہونا اور ان میں سے اہم کا دونوں ایوانوں میں یا کم از کم سینیٹ میں توثیق (ratification ) ضروری ہونا چاہیے۔
دوسرا مسئلہ اہم تقرریوں (appointments )کا ہے۔ جو تقرریاں پبلک سروس کمیشن سے ہوتی ہیں، وہ ایک معقول طریقہ ہے لیکن جو سفارتی اور انتظامی تقرریاں انتظامیہ اپنی صواب دید پر کرتی ہے ان کی جواب دہی بھی ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹیوں یا دونوں ایوانوں کی مشترک کمیٹیوں کا کردار ہونا چاہیے۔ امریکا میں انتظامیہ کو حدود میں رکھنے اور اہم تقرریاں ذاتی رجحانات کے مقابلے میں اصول اور میرٹ پر کرانے کے لیے تقرری سے پہلے کمیٹی میں پیش ہونے کا طریقہ بڑا مؤثر ہے۔ اگر ہمارے ملک میں بھی اس سلسلے کو شروع کیا جائے تو یہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام کے لیے بڑا اہم اقدام ہوگا۔
ہ- اس سلسلے میں پارلیمنٹ کے ایامِ کار (working days) کا مسئلہ بھی اہم ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسمبلی کے لیے ۱۶۰ دن ایامِ کار قرار دیے گئے تھے جنھیں کم کر کے ۱۳۰ دن کر دیاگیا۔ پھر ایک تعبیر کے ذریعے اگر دو دن کی چھٹی درمیان میں آجائے تو وہ بھی ایامِ کار میں شمار ہونے لگی۔ بالعموم ہفتے میں تین دن اسمبلی یا سینیٹ کے سیشن ہوتے ہیں اور اسے سات دن شمار کیا جاتا ہے۔ پھر اوسطاً اڑھائی گھنٹے فی یوم کی کارکردگی رہی، جب کہ دنیا کے دوسرے ممالک میں پارلیمنٹ پورے سال سیشن میں رہتی ہے بجز دو یاتین چھٹی کے وقفوں کے۔ ہرروز بحث چھے سات گھنٹے ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کی کارکردگی کو مؤثر بنانے کے لیے اس کی بھی ضرورت ہے کہ ارکان اسمبلی و سینیٹ کو ضروری معلومات فراہم کی جائیں، ان کو مطالعے، تحقیق اور قانون سازی کے لیے معاونت ملے۔ عوام کو پارلیمنٹ کی کمیٹی میں پیش ہونے کا موقع دیا جائے۔ پارلیمانی کمیٹیوں کی کارروائی کھلی ہو،پارلیمنٹ کی کارکردگی بھی براہِ راست عوام تک پہنچے۔ وزرا کی شرکت لازمی ہو۔ وزیراعظم کم از کم ہفتے میں ایک بار نہ صرف پارلیمنٹ میں آئیں بلکہ ان کے لیے کم از کم نصف گھنٹہ سوالات کے جوابات دینے کے لیے مختص کیا جائے۔ یہ وہ اقدام ہیں جن سے پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہوگی اور کارکردگی میں اضافہ ہوسکے گا۔
۲- پارلیمنٹ کی بالادستی کے ساتھ دستور میں اور بھی ایسی ضروری ترامیم درکار ہیں جو گذشتہ ۳۵ سال کے تجربات کی روشنی میں دستور کے اسلامی، اور وفاقی کردار کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔ جب ہم دستوری ترامیم کے مسئلے پر غور کر رہے ہیں تو ان امور پر بحث اور تجاویز مرتب کرناضروری ہے جس کے لیے ایک کُل جماعتی پارلیمانی کمیٹی دونوں ایوانوں کے ان ارکان پر مشتمل قائم کی جائے جو قانون پر نگاہ رکھتے ہوں اور وقت کے تقاضے بھی جن کے سامنے ہوں۔
عدلیہ کی بحالی، دستوری نظام کی اصلاح اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام کے ساتھ ایک اور بنیادی مسئلہ سیاست میں فوج کے کردار اور خود پرویز مشرف کے مستقبل کا ہے، جو اس ناٹک کے اصل ایکٹر رہے ہیں۔ اصولی طور پر فوج کے چیف آف اسٹاف کا یہ اعلان لائق تحسین اور صحیح سمت میں قدم ہے کہ فوج صرف ایک دستوری اور دفاعی کردار ادا کرے اور سول انتظامیہ اور معاشی میدان میں جو کردار اس نے اختیار کر لیا ہے، وہ ختم کیا جائے۔
مخلوط حکومت کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ اپنے معاملات کو درست کرنے کے ساتھ ساتھ پرویز مشرف کے مستقبل کے معاملے کو بھی دو ٹوک انداز میں طے کرے۔ پرویز مشرف نے دستور کا تیاپانچا کیا، پارلیمنٹ کو غیرمؤثر بنایا، فوج کو سیاست اور انتظامیہ میں ملوث کیا۔ پرویز مشرف اور دستوری اور جمہوری نظام ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ انھوں نے باعزت رخصت ہونے کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اب اس کے سواکوئی راستہ نہیں کہ دستوری ترامیم کے بعد ان کے مواخذے کی تیاری کی جائے۔ ان کے تاریک دور کا دروازہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا جب تک خود ان کا مؤثر احتساب نہ ہو، تاکہ قوم اور دنیا کے سامنے یہ حقیقت آسکے کہ جو فرد بھی دستور کا خون کرے گا اور اختیارات کا غلط استعمال کرے گا، اس کا احتساب ہوگا اور ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا نظام نہیں چل سکتا۔
انتخابات سے پہلے امریکا کی من پسند قیادت کو بروے کار لانے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے گئے۔ کیسے کیسے مفاہمت کے ڈرامے اسٹیج کیے گئے۔ اس کھیل میں پرویز مشرف اور ایم کیو ایم کا بڑا کلیدی کردار ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ قوم کو اس سلسلے میں ایک بالکل واضح راستہ اختیار کرنا ہے۔
جس طرح پرویز مشرف کا صدارت پر قابض رہنا ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ ہے، اسی طرح ایم کیو ایم کا کردار بہت مخدوش ہے جس کی حیثیت پرویز مشرف کے ایک مسلّح بازو (armed wing) کی ہے اور جس کے ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء کے خونی کھیل کو انھوں نے اسلام آباد میں مسلم لیگ (ق) کے ایک مظاہرے میں اپنا کارنامہ اور اپنی طاقت کا مظہر قرار دیا تھا۔ پانچ سال پرویز مشرف اور ایم کیو ایم کا گٹھ جوڑ رہا ہے اور اس کے باوجود رہا ہے کہ اقتدار میں آکر انھوں نے اسلام آباد میں چند چوٹی کے صحافیوں کی موجودگی میں الطاف حسین کے بارے میں کہا تھا کہ: He is a traitor, period ، وہ ایک غدار ہے___ اور بس!
الطاف حسین نے خود بھارت کی سرزمین پر بار بار کہا ہے کہ پاکستان کا قیام ایک غلطی تھا اور برطانیہ کی شہریت لے کر تاجِ برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہے جو ریکارڈ پر موجود ہے۔ ایم کیو ایم نے قوت کے استعمال سے جس طرح کراچی اور حیدرآباد پر قبضہ کر رکھا ہے اور جس طرح اس کے سزایافتہ کارکنوں کو شریکِ اقتدار کیا گیا ہے اور اس کی خاطر قومی مفاہمتی آرڈی ننس (NRO ) میں ۱۹۸۶ء سے جرائم کرنے والوں کو بری کیا گیا، وہ کھلی کتاب ہے۔ ایم کیو ایم کو امریکا اور برطانیہ کی تائید حاصل ہے اور وہ پرویز مشرف کے ٹروجن ہارس کی حیثیت رکھتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا موقف بالکل درست ہے کہ اس ریکارڈ کی موجودگی کے باوجود ان کے ساتھ اقتدار میں شرکت پرویز مشرف کو تقویت دینے اور مشرف اور امریکا کے کھیل کی سرپرستی کے مترادف ہوگی۔
اس لیے اسمبلی اور نئی حکومت کو،جن بنیادی امور کو طے کرنا ہے ان میں سے ایک پرویز مشرف کے قانونی جوازسے محروم صدارتی تسلط سے نجات بھی ہے تاکہ اس کی دہشت گردی کی جنگ سے بھی ہم نکل سکیں اور اپنے معاملات کو اپنے مفادات کی روشنی میں اور اپنے طریقے سے حل کرسکیں۔
ملک اور قوم کو پٹڑی پر لانے کے لیے چوتھا بڑا مسئلہ پاکستان کی پالیسیوں اور معاملات میںامریکا کی مداخلت کو لگام دینا ہے، جسے امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دے کر پوری دنیا میں خوف کی فضا قائم کر کے مسلمان ملکوں خصوصیت سے افغانستان، عراق، لبنان، ایران اور خود پاکستان کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہا ہے، وہ مسلمان اُمت اور پاکستانی قوم کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ پاکستانی قوم اسے اسلام، مسلمانوں اور خود پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک کے خلاف جنگ تصور کرتی ہے اور پرویز مشرف نے امریکا کے اس خطرناک کھیل میں پاکستان اور اس کی افواج کو جھونک کر جو ظلم کیا ہے اور جس کے نتیجے میں پاکستان دہشت گردی اور خودکش حملوں کی زد میں آگیا ہے، اس صورت حال کو ہرگز برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا نے پاکستان کی فضائی اور جغرافیائی حدود کی کھلے عام خلاف ورزی کی ہے، اور کر رہا ہے۔ اس کے جہاز ہماری بستیوں میں بم باری کر رہے ہیں اور بغیر پائلٹ کے جہاز لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ امریکا کے حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ سب کچھ پرویز مشرف سے کسی معاہدے کے تحت کر رہے ہیں۔ امریکی ترجمان بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کو یہ حق حاصل ہے اور پاکستان کی افواج اور حکومت، امریکا کے ان تمام جارحانہ اقدامات پر نہ صرف خاموش ہے، بلکہ غیرت کا جنازہ نکال کر اس کے ترجمان یہاں تک کہنے کی جسارت کرچکے ہیں کہ کچھ حملے امریکا نے نہیں خود ہم نے کیے ہیں۔ اب ان حملوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ گذشتہ چھے ماہ میں امریکا نے سیکڑوں افراد کو ہلاک کردیا ہے اور پاکستانی ترجمان اپنا نام چھپا کر یہ کہنے لگے ہیں کہ حملے امریکا اور ناٹو کی طرف سے ہو رہے ہیں۔ امریکا ہم پر اپنی پالیسیاں اس حد تک مسلّط کر رہا ہے کہ علاقے میں مصالحت کی ہرکوشش کو وہ مسترد (ویٹو ) کردیتا ہے۔ صرف فوجی حل مسلط کر رہا ہے اور ہمیں مسلط کرنے پر مجبور کر رہا ہے اور ہماری فوج کی ٹریننگ اور نیوکلیر اثاثوں کی حفاظت کے نام پر ہمارے دفاعی نظام میں گھسنے اور اسے اندر سے سبوتاژ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ بات اب اس سے بھی آگے بڑھ گئی ہے اور کھل کر مطالبے کیے جارہے ہیں کہ جس طرح ۲۰۰۱ء میں ہمارے سات مطالبات مانے تھے، اب گیارہ نکات تسلیم کرو۔ ان مطالبات کی فہرست دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا کسی آزاد اور خودمختار مملکت سے اس نوعیت کے شرم ناک مطالبات بھی کیے جاسکتے ہیں (۷ مارچ ۲۰۰۸ئ)۔ اس کے ساتھ کوشش ہے کہ ملک کی حکومت سازی میں بھی کردار ادا کرے اور اپنی پسند کے لوگوں کو برسرِاقتدار لانے کا کھیل کھیلے اور یہ سب کچھ ’اعتدال پسند‘ اور لبرل قوتوں کی فتح کے نام پر ہو۔
ہمیں احساس ہے کہ ان چار امور کے علاوہ بھی بڑے مسائل ہیں جن میں معاشی مسائل، کرپشن، امن و امان کا مسئلہ، بے روزگاری، بجلی اور پانی کا بحران، ہوش ربا مہنگائی اور بلوچستان اور وزیرستان میں فوج کشی سرفہرست ہیں۔ ان میںسے ہر مسئلہ حل کا تقاضا کررہا ہے اور حکومت کو اس کی طرف توجہ دینا ہوگی، البتہ گاڑی کو پٹڑی پر لانا ترجیح اول ہونا چاہیے۔
___ جہاں تک وزیرستان اور بلوچستان کا تعلق ہے، حکومت کو فوج کشی ترک کر کے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ ہمیں یقین ہے کہ تمام معاملات سیاسی طریقۂ کار سے بحسن و خوبی حل ہوجائیں گے۔ امریکا سے صاف کہنے کی ضرورت ہے کہ بہت ہوچکی (enough is enough)۔ موجودہ قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ امریکا کو ہماری ضرورت ہے، ہمیں امریکا کی اتنی ضرورت نہیں۔ اس لیے نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
اس کی بنیادی وجہ غزہ کی آبادی اور وہاں کی قیادت اور متمول افراد کا یہ کردار ہے کہ جو کچھ ان کے پاس ہے اس میں تمام شہریوں کو شامل کر رہے ہیں، مسجدوں میں اجتماعی کھانے کا اہتمام ہوتا ہے اور جو جس کے پاس ہے، لے آتا ہے اور سب اس میں شریک ہوجاتے ہیں۔ غربت ہے مگر عزائم بلند ہیں اور اجتماعی کفالت کی بنیاد پر اسرائیل جیسے طاقت ور دشمن کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اگر غزہ کے مسلمان یہ مثال قائم کرسکتے ہیں تو ہم پاکستانی اس سمت میں کیوں پیش قدمی نہیں کرسکتے؟ معاشی مسائل اور مشکلات حقیقی ہیں لیکن ان کا حل ممکن ہے بشرطیکہ ہم خود غرض، نفس پرست اور ہوس کے پجاری نہ بنیں، بلکہ اسلام کی دی ہوئی ہدایات کی روشنی میں اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔
نومنتخب اسمبلی اور مخلوط حکومت تاریخی دوراہے پر ہے۔ صحیح فیصلہ اور صحیح اقدام کرکے وہ ملک کو ایک تابناک مستقبل کی طرف لے جاسکتی ہے۔ کیا مخلوط حکومت اس چیلنج کا مقابلہ ایمان، غیرت اور حکمت سے کرنے کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابی نتائج پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ملک کی قیادت، خصوصیت سے نومنتخب قیادت، عوام کی واضح راے اور ان کے جذبات، احساسات اور توقعات کے مطابق اپنا کردار ادا کرتی ہے اور ملک کو اس دلدل سے نکالنے کی مؤثر کوشش کرتی ہے، جس میں شخصِ واحد کی حکمرانی کے آٹھ برسوں نے اسے پھنسا دیا ہے تو یہ دن ایک تاریخی موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔
اس لیے سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ عوام کی راے اور سوچ دراصل ہے کیا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان کی سوچ اور رجحان کا صحیح صحیح تعین کیا جائے اور ان انتخائی نتائج کا گہری نظر سے تجزیہ کرکے اس پیغام کا ٹھیک ٹھیک ادراک کیا جائے جو عوام نے دیا ہے۔ ایک اور پہلو آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے، اور وہ یہ کہ انسانی معاملات میں مشیت الٰہی کے بنیادی قوانین کی کارفرمائی ہے۔ انسان اپنی سی کوشش کرتا ہے مگر: ’’اللہ تعالیٰ کی اپنی تدبیر ہوتی ہے اور بالآخر اللہ کی تدبیر ہی غالب رہتی ہے‘‘ (اٰل عمرٰن ۳:۵۴)۔ حکمرانوں اور ان کے بیرونی آقائوں نے کیا نقشہ بنایا تھا اور اللہ تعالیٰ نے کس طرح اس نقشے کو درہم برہم کردیا اور ایک دوسرا ہی نقشہ سب کے سامنے آگیا___ اگر اب بھی یہ قوم اور اس کی قیادت غیبی اشاروں کی روشنی میں نئے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھاتی، ماضی کی غلطیوں کی اصلاح نہیں کرتی اور واضح امکانات کے حصول میں کوتاہی کرتی ہے تو یہ ناقابلِ معافی جرم ہوگا۔
اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ پورا انتخابی عمل (process) پہلے دن سے خاص نتائج حاصل کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا اور اس کا اعتراف اور ادراک بھی بڑے پیمانے پر ہوچلا تھا۔ عالمی مبصرین ہوں یا حقوقِ انسانی کی ملکی اور غیرملکی تنظیمیں، سب نے اعتراف کیا ہے کہ عدلیہ کی برخاستگی، میڈیا پر پابندیاں، الیکشن کمیشن کا جانب دارانہ کردار، من پسند عبوری حکومت کی تشکیل، ووٹوں کی فہرستوں میں گڑبڑ، انتظامی عملے کا تعین اور تبادلے، مقامی حکومتوں کی کارگزاریاں، غرض ہرپہلو سے کچھ خاص نتائج حاصل کرنے کے لیے سارے انتظامات کیے گئے تھے۔ الیکشن کے دن بڑے پیمانے پر کُھل کھیلنے کا پورا پورا اہتمام تھا، مگر مختلف وجوہ سے اس کھیل کے آخری مرحلے میں بازی پلٹ گئی اور چند مقامات (خصوصیت سے کراچی اور بلوچستان وغیرہ میں مخصوص نشستیں) کے سوا نقشہ بدل گیا اور عوام نے اس انداز میں اپنی راے کا اظہار کیا کہ ’سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا‘ والی کیفیت پیدا ہوگئی۔ لیکن ناسپاسی ہوگی اگر ریکارڈ کی خاطر ان اسباب اور عوامل کا تذکرہ نہ کیا جائے جو کھیل کو اُلٹ پلٹ کرنے کا ذریعہ بنے۔
ا- کُل جماعتی جمہوری اتحاد نے جس اصولی موقف کو اختیار کیا اور انتخابی عمل کے ناقابلِ قبول ہونے کی وجہ سے انتخابات کا بائیکاٹ کیا، اس کی وجہ سے انتخابات میں دھاندلی کا ایشو مرکزی حیثیت اختیار کرگیا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے بھی اس مسئلے کو اس حد تک اٹھایا کہ دھاندلی کی صورت میں ۱۹فروری سے احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔ اس دبائو کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔
ب- بیرونی مبصرین اور صحافیوں کی موجودگی اور میڈیا کا فوکس جس میں یہ دبائو روز بہ روز بڑھتا رہا کہ انتخابات کے دن بڑے پیمانے پر دھاندلی ناقابلِ برداشت ہوگی۔ حکومتی، صحافتی اور عوامی سطح پر اس عالمی دبائو نے بھی اپنا اثر ڈالا۔
ج- فوج کے چیف آف اسٹاف کا یہ اعلان کہ انتخابات میں فوج کا کوئی کردار نہیں اور فوج صرف امن و امان میں مدد کے لیے موجود رہے گی۔
د- قواعد میں یہ تبدیلی کہ انتخابی نتائج ریٹرنگ افسر سیاسی نمایندوں کی موجودگی میں مرتب کریں گے اور ان کی تصدیق شدہ کاپی پولنگ اسٹیشن پر ہی امیدوار کے نمایندوں کو دے دی جائے گی، تاکہ انتخابی نتائج کو تبدیل نہ کیا جاسکے۔
ان چاروں عوامل کا مجموعی اثر یہ ہوا کہ ’انتخابی انجینیری‘ (engineering)اور ’قبل از انتخاب دھاندلی‘ کے باب میں جو کچھ ہونا تھا وہ تو ہوگیا، لیکن انتخابات کے روز دھاندلی میں بیش تر مقامات پر نمایاں فرق پڑا۔
دوسرا بنیادی اور اہم سوال یہ ہے کہ عوام نے جس راے کا اظہار کیا ہے اور جس شدت سے کیا ہے، وہ کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں، اس پر ہم ذرا تفصیل سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
ملک اور ملک سے باہر اس امر کا اعتراف توسب کر رہے ہیں کہ یہ انتخاب عملاً پرویز مشرف، ان کی حکومت (اعوان و انصار) اور ان کی پالیسیوں کے خلاف ایک ریفرنڈم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ملک کے تمام ہی اخبارات اور نیوز چینلوں نے بالاتفاق اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ قوم کی جس راے کا اظہار گذشتہ ایک سال سے راے عامہ کے جائزوں کی صورت میں ہورہا تھا، انتخابات کے ذریعے عوام نے اس پر مہرتصدیق ثبت کردی اور ثابت ہوگیا کہ ملک کے ۸۲ فی صد عوام نے پرویز مشرف کی صدارت اور ان کا ساتھ دینے والی پارٹیوں کو رد کردیا ہے اور تمام بے قاعدگیوں، سرکاری سرپرستی اور جزوی دھاندلیوں کے باوجود صرف ۱۸ فی صد آبادی نے ان لوگوں کی تائید کی ہے جو مشرف صاحب کے ساتھ تھے۔ نیز صدرمشرف کی کابینہ کے ۲۳ وزرا اورمسلم لیگ (ق) کے صدر سمیت سب کے تاج زمیں بوس کردیے۔ یہ وہ کیفیت ہے جسے حتمی طور پر مسترد کرنا کہتے ہیں۔
یہی وہ کیفیت ہے جس کا اعتراف نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے الیکشن کے بعد اپنے نمایندوں کی رپورٹوں کے علاوہ اپنے ادارتی کالموں میں بھی کیا ہے کہ یہ عوام کا فیصلہ (verdict )ہے اور مشرف کو نوشتۂ دیوار کو پڑھنے کامشورہ دیا ہے کہ پاکستانی عوام نے ان کے صدارتی مینڈیٹ کو غیرآئینی (illegitmate) قرار دیا ہے: ’’انھوں نے سابق جرنیل کو بھاری اکثریت سے مسترد کرنے کا پیغام دیا ہے‘‘۔
یہی بات انگلستان کے اخبارات خصوصیت سے دی ٹائمز، دی گارجین اور دی انڈی پنڈنٹ نے لکھی۔ ان سب کا پیغام ایک ہی ہے، جسے دی انڈی پنڈنٹ نے ۲۱فروری کے اداریے کے الفاظ میں بیان کیا ہے:
پاکستان کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ کثیرجماعتی جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی طرف واپسی ہے۔ پاکستان کے گذشتہ عشرے نے اگر کوئی سبق سکھایا ہے تو وہ یہ ہے کہ آمریت انتہاپسندی کو ختم نہیں کرتی بلکہ اس کونشوونما دیتی ہے۔ فوجی حکومت استحکام کا صرف ایک فریب فراہم کرتی ہے۔ ہمارے مفاد میں ہے کہ یہ پاکستان میں واپس نہ آئے۔ (دی انڈی پنڈنٹ، ۲۱ فروری ۲۰۰۸ئ)
پاکستان میں ووٹرز نے اس ہفتے صدر پرویز مشرف کو ایک سراسیمہ کردینے والی شکست سے دوچار کردیا، اور اس طرح اس خطرناک ملک میں جمہوری حکومت کو بحال کرنا ممکن بنا دیا ہے۔ درحقیقت پیر کے پاکستان کے انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے صدر جارج بش تھے۔ (نیوزڈے، ۲۲فروری ۲۰۰۸ئ)
امریکا اور یورپ کے اخبارات اور سیاسی مبصرین نے اپنے اپنے نقطۂ نظر سے بات کی ہے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے نئی چالیں تجویز کی ہیں جو اس تحریر میں زیربحث نہیں، البتہ جو بات ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ الیکشن کے نتائج کو ملک اور ملک سے باہر پرویزمشرف، ان کے سیاسی طرف داروں اور ان کے بین الاقوامی پشتی بانوں اور ان کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں سے پاکستانی عوام کی عظیم اکثریت کی طرف سے مکمل برأت کا اظہار سمجھا گیا ہے۔ اس نوشتۂ دیوار کے سوا کوئی اور نتیجہ نکالنا عقل و انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ چودھری شجاعت حسین، مشاہد حسین سید، چودھری امیرحسین، شیخ رشیداحمد، اعجازالحق بھی کھلے بندوں کہہ رہے ہیں کہ ہمیں پرویزمشرف کی پالیسیاں خصوصیت سے لال مسجد کا خونی المیہ، امریکا کی اندھی اطاعت، بلوچستان اور وزیرستان کی فوج کشی، آٹے، چینی اور بجلی کا بحران لے ڈوبے۔
پرویز مشرف حقائق کو تسلیم نہ کرنے کی روش پر قائم ہیں اور جس نفسیاتی کیفیت کا مظاہرہ کررہے ہیں،وہ انتہائی خطرناک ہے۔ شاید یہ ان کی شخصیت کا خاصّہ ہے اس لیے کہ اپنی خودنوشت میں اپنے بچپن کا جو نقشہ خود انھوں نے کھینچا ہے، اس میں وہ ایک ’داداگیر‘ کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ انھیں قوت کے جا وبے جا استعمال کا شوق ہے اور اس کھیل کو وہ اپنی حکمت عملی سمجھتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے دوسروں کی تحقیر و تضحیک میں ان کو لطف آتا ہے۔ ان کے اس ذہن کی عکاسی اس انٹرویو تک میں دیکھی جاسکتی ہے جو الیکشن سے صرف تین دن پہلے انھوں نے جمائما خان کو دیا ہے اور جنرل (ر) پرویز مشرف کی اصل شخصیت کو سمجھنے میں مددگار ہے۔ اس انٹرویو میں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ جن سیاسی لیڈروں کو وہ کرپٹ اور قوم کو لوٹنے والا کہتے تھے اور جن پر گرفت اور ان کو کیفرکردار تک پہنچانے کا دعویٰ کرکے وہ اقتدار پر قابض ہوئے تھے، ان کو معافی دینے، ان سے سمجھوتہ کرنے اور ان کے ساتھ اشتراکِ اقتدار کے لیے وہ آمادہ ہوئے تھے اور یہ صرف انھوں نے امریکا اور برطانیہ کے دبائو میں اور صرف اپنی کرسی کو بچانے کے لیے کیا ہے۔
اس انٹرویو میں انھوں نے مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے بارے میں اس اعتماد کا اظہار کیا تھا کہ اگلی حکومت وہ بنائیں گے اور ساتھ ہی انھوں نے راے عامہ کے سارے جائزوں کا مذاق اڑایا تھا اور پورے میڈیا کی راے پر عدمِ اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ یہ بھی فرمایا کہ یہ سب میرے مخالف ہیں۔ اگر کوئی ان کا دوست ہے اور ان کے خلاف نہیں وہ مغربی اقوام کے لیڈر ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے، جمائما لکھتی ہیں:
درحقیقت ان کے مطابق جو لوگ ان کے مخالف نہیں ہیں، وہ صرف مغربی لیڈر ہیں جو مکمل طور پر ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
یہ بات بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ انتخابی نتائج کے سامنے آنے کے بعد بھی پرویزمشرف کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں اور نہ انھیں اپنی ناکامی کا کوئی احساس ہے۔ اب بھی وہ امریکا کی بیساکھیوں کی تلاش میں ہیں، جس کا بین ثبوت وہ مضمون ہے جو موصوف نے امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا ہے۔ اس مختصر مضمون کو پڑھ کر سرپیٹ لینے کو جی چاہتا ہے کہ اس مظلوم ملک کے حکمرانوں کی سوچ کی سطح کس قدر پست ہے۔
مضمون کا عنوان ہے: A Milestone on The Road to Democracy لیکن اس مضمون میں انتخابات کا جو پیغام خود حضرت کے لیے ہے اس کا کوئی شعور اور احساس ہی نہیں بلکہ اس ہٹ دھرمی کا اظہار ہے کہ وہ صدر رہیں گے اور اپنے تین مقاصد، یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ، جمہوریت کے استحکام اورمعاشی ترقی کے تحفظ کا پھر اعادہ کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
میں ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے نئی منتخب حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔
اس مضمون کا اصل مقصد امریکا کی تائید حاصل کرنا اور اپنے اور امریکا کے مقاصد کی ہم آہنگی کا اظہار ہے:’’لیکن ہماری کامیابی کے لیے ضروری ہوگا کہ امریکا کی مسلسل حمایت حاصل رہے‘‘۔
نہ کوئی خود احتسابی ہے، نہ عوام کے فیصلے کا کوئی احساس یا شعور ہے، نہ اپنی ناکامیوں کا کوئی ادراک ہے اور جس بیرونی مداخلت، قومی حاکمیت اور غیرت کی قربانی کے خلاف قوم اُٹھ کھڑی ہوئی اسی غلامی کو مستحکم کرنے اور اس میں امریکا کی مدد حاصل کرنے کی بھیک اس مضمون میں مانگی گئی ہے۔ خود فوج کے بارے میں ایک جملہ ایسا ہے جو ان کے ذہن کا غماض ہے:
ہماری مسلح افواج پُرعزم ہیں، پیشہ ور ہیں اور ملک میں امن و امان قائم رکھنے اور سیاسی نظام کو برقرار رکھنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔
افواجِ پاکستان کی ذمہ داری، وطن کا دفاع اور امن عامہ کے قیام میں اس وقت معاونت ہے کہ جب دستور کے تحت سیاسی قیادت اس کو طلب کرے۔ سیاسی نظام کا تحفظ نہ فوج کی ذمہ داری ہے اور نہ فوج اس کی اہل ہے، بلکہ وہ تو سیاست میں کسی صورت میں مداخلت نہ کرنے کا عہد کرتی ہے، اس کی محافظ کیسے ہوسکتی ہے لیکن پرویز مشرف آج بھی اسے سیاسی نظام کا ضامن قرار دے رہے ہیں۔
اس مضمون کا مرکزی موضوع بھی وہی ہے جو امریکی صدر بش کا پسندیدہ مضمون ہے، یعنی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ۔ حالانکہ پاکستان کا اصل مسئلہ فوج کی بے جا مداخلت، شخصی حکمرانی کا عفریت، انصاف کا فقدان، عدالت پر جرنیلی یلغار، معاشی ناانصافی، غربت، بے روزگاری اور مہنگائی ہے۔ علاقائی ناہمواریاں اور مرکز اور صوبوں میں تصادم کی کیفیت اور فوجی قوت کا اپنی ہی آبادی کے خلاف استعمال ہے۔ الیکشن کا اصل ایشو اور حاصل مشرف بش کے ایجنڈے کو مسترد کرنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نیوزڈے نے ادارتی کالم میں اعتراف کیا ہے کہ ۱۸فروری کے انتخابات میں صدر پرویز مشرف ہی نہیں جارج بش بھی شکست کھا گئے ہیں۔
اس پوری بحث کا حاصل یہ ہے اور انتخابات کے نتائج کا تقاضا ہے کہ پرویز مشرف اپنی شکست تسلیم کریں اور سیدھے سیدھے استعفا دیں۔ نیز ان کی جن پالیسیوں کے خلاف عوام نے اپنے فیصلے کا اظہار کر دیا ہے ان پر بھی بنیادی طور پر نظرثانی ہو، جس میں اہم ترین یہ ہیں:
۱- پاکستانی عوام شخصی آمریت اور سیاست میں فوج کی مداخلت کے خلاف ہیں اور وہ حقیقی جمہوری نظام کے قیام کے داعی اور طرف دار ہیں۔ پرویز مشرف نے جو طرزِ حکمرانی اختیار کیا وہ ناقابلِ قبول ہے۔ مشرف کے ساتھ ان کا دیا ہوا نظام، پالیسیاں اور ان کا اندازِ کار عوام نے رد کردیا ہے۔آئی آر آئی اور گیلپ دونوں کے سروے بھی عوام کے اس رجحان کے عکاس ہیں، یعنی ۶۹ فی صد نے کہا کہ سیاست میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے اور ۷۵ فی صد نے کہا کہ مشرف استعفا دے دیں۔
۲- الیکشن میں بنیادی ایشو چیف جسٹس اور عدالت عالیہ کی بحالی اور نظامِ عدل کو اس کی اصل دستوری بنیادوں پر مرتب اور مستحکم کرنا ہے۔ یہ تحریک ۹مارچ ۲۰۰۷ء کو شروع ہوئی ہے اور ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کو قوم نے اس تحریک کی تائید کرکے اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ ہمیں یہ بات کہنے میں ذرا بھی باک نہیں کہ جن جماعتوں کو عوام نے جتنا بھی مینڈیٹ دیا ہے، وہ بنیادی طور پر عدلیہ کی آزادی اور بحالی کے حق میں اور پرویز مشرف کے خلاف ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے حق میں تائیدی لہر کی اصل کارساز قوت یہی ہے ___ ایک مغربی صحافی نے درست لکھا ہے کہ: ’’اصل ووٹنگ تو دو ناموں پر ہوئی ہے، حالانکہ وہ بیلٹ پیپر پر لکھے ہوئے نہیں تھے۔ لیکن اصل انتخاب انھی کے درمیان تھا، یعنی ’چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری‘ اور ’صدر پرویز مشرف‘۔ عوام کی بھاری اکثریت نے جسٹس افتخارمحمد چودھری کی تائید کی اور پرویزمشرف کا پتا. ّ کاٹ دیا‘‘۔ یوں عدالت کی بحالی اور آزادی ہی اس بحث کا اصل عنوان ہے اور دستور کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی اس کا اصل مقصد اور محور ہے۔
۳- تیسرا بنیادی ایشو جو ان انتخابات میں زیربحث آیا ہے اس کا تعلق اس شرمناک صورتِ حال سے ہے جو امریکا کی بالادستی اور ملک پر کھلی اور خفی مداخلت سے پیدا ہوئی ہے اور جس کی وجہ سے اب ہماری آزادی اور حاکمیت ہی خطرے میں ہے۔ چند بلین ڈالروں کے عوض پاکستانی افواج کو عملاً امریکا کے لیے کرائے کا لشکر (mercenary) بنانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی نام نہاد جنگ میں ہم نے اپنے کو آلودہ کرلیا ہے اور اس کے نتیجے میں ہمارے اپنے ملک میں دہشت گردی کو فروغ مل رہا ہے حالانکہ اس جنگ میں شرکت سے پہلے یہ کوئی مسئلہ نہ تھا۔ راے عامہ کے ایک عالمی ادارے کے جائزے کی رو سے عوام کی نگاہ میں اہم ترین مسئلہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔ ۵۵ فی صد افراد مہنگائی کو اور ۱۵ فی صد بے روزگاری کو اصل مسئلہ قرار دیتے ہیں، جب کہ تمام زوردار پروپیگنڈے کے باوجود دہشت گردی کو صرف ۱۲ فی صد نے اہم ترین مسئلہ قرار دیا ہے۔
تفصیل میں جائے بغیر ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اب امریکا کا عمل دخل ہماری پالیسی سازی، ہماری سرحدوں کی بے حرمتی، ہماری سرزمین کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے اور پاکستان کی قیادت کی تلاش اور سیاسی جوڑ توڑ کی سرگرمیوں تک میں ہے۔ ان انتخابی نتائج نے پرویز مشرف کے اس غلامانہ رویے، خوف اور دبائو کے تحت رونما ہونے والے دروبست کو تبدیل کرنے اور پوری خارجہ پالیسی کو درست سمت دینے کا پیغام دیا ہے۔ اس انتخاب کے ذریعے عوام نے پوری قوت کے ساتھ پاکستانی قوم کے امریکی جنگ کا حصہ بننے سے اپنی براء ت کا اعلان کردیا ہے۔ پاکستانی عوام یہ چاہتے ہیں کہ اپنے مسائل کو اپنی اقدار اور روایات کے مطابق حل کریں اور دوسروں کی جنگ میں حرام موت مرنے کا راستہ اختیار نہ کریں۔
۴- قوم پرویز مشرف اور ان کی معاشی ٹیم کی مسلط کردہ معاشی پالیسیوں سے بھی نالاں ہے۔ نمایشی ترقی اور اس کے ڈھول پیٹنے سے کچھ عرصے تک تو عوام کو دھوکا دیا جاسکتا ہے، لیکن جب مغرب کے سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کے تصورات اور مفادات پر مبنی پالیسیوں کے تلخ نتائج لوگوں کے سامنے آتے ہیں تو پھر پروپیگنڈے کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے۔ توانائی کا میدان ہو یا زرعی پیداوار کا، صنعت و حرفت کا مسئلہ ہو یا تجارتی اور ادایگی کے توازن کا، ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کا مسئلہ ہو یا اشیاے ضرورت کی قیمتوں کا، قرضوں کا بوجھ ہو یا افراطِ زر کے مسائل، دولت کی عدمِ مساوات کی بات ہو یا صوبوں اور علاقوں کے درمیان تفاوت کی کش مکش___ غرض ہر پہلو سے عام آدمی کی معاشی مشکلات بڑھ گئی ہیں، کم نہیں ہوئیں اور جن ’کارناموں‘ کا شور تھا وہ سب ایک ایک کر کے پادر ہوا ہو رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اب ملک پر بیرونی اور اندرونی قرضوں کا بار ۱۹۹۹ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ مہنگائی کئی گنا بڑھ گئی ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور غربت کم ہونے کو نہیں آرہی۔ تجارتی خسارہ اب ۱۸ ارب ڈالر سالانہ کی حدوں کو چھو رہا ہے اور جن بیرونی ذخائر کی دھوم تھی اب ان کے لالے پڑگئے ہیں۔
۵- بھارت کے تعلقات کا ڈھول تو بہت پیٹا گیا مگر حاصل کچھ نہیں ہوا، البتہ قیمت بہت بڑی ادا کی گئی ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر اصولی موقف کی تبدیلی کے نتیجے میں کشمیری عوام مایوس ہوئے ہیں اور تحریکِ مزاحمت کمزور پڑگئی ہے۔ مشرف کی افغانستان کی پالیسی بھی بری طرح ناکام رہی ہے۔ اسرائیل سے دوستی کے اشارے اور اُمت مسلمہ کے مسائل سے بے توجہی اس دور کا شعار رہی ہے۔ جس طرح امریکا سے تعلقات کے مسئلے اور خارجہ پالیسی پر قوم نے نظرثانی اور بنیادی تبدیلیوں کی خواہش کا اظہار کیا ہے اسی طرح خارجہ سیاست کے دوسرے پہلو بھی نظرثانی کا تقاضا کرتے ہیں۔ اُمت مسلمہ کی وحدت ہی پاکستان اور تمام مسلم ممالک کی قوت ہے۔
۶- نام نہاد روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر ایک طرف قوم میں نظریاتی کش مکش اور تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو دوسری طرف دینی احکام، اقدار اور آداب سے روگردانی، سیکولرزم کے فروغ کی کوشش اور مغربی تہذیب و ثقافت اور ہندوکلچر کو عام کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے، جس سے معاشرے میں تہذیبی انتشار رونما ہوا ہے۔
۷- صوبائی حقوق کی پامالی، صوبوں کو ان وسائل سے محروم رکھنا جو ان کا حق اور ان میں پائے جانے والے معاشی ذخائر کا حاصل ہیں، نیز علاقائی، لسانی اور فرقہ وارانہ جماعتوں اور گروہوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے جن کا سب سے بڑا نقصان ملک میں مرکز اور صوبوں کے درمیان فاصلوں کا بڑھنا ہے۔
یہ وہ سات بڑے بڑے پالیسی ایشوز ہیں، جن پر انتخابات میں قوم نے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کیا ہے اور اب سیاسی قیادت کے سامنے اصل سوال یہ ہے کہ پرویز مشرف کی دی ہوئی پالیسیوں کو کس طرح تبدیل کریں، تاکہ ملک و قوم ان مقاصد کی طرف پیش رفت کرسکیں جن کے قیام کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا۔
انتخابی نتائج کا بنیادی پیغام تو یہی ہے البتہ ان بنیادی پہلوئوں کے ساتھ ایک اور پہلو بھی قابلِ غور ہے اور وہ یہ کہ جہاں عوام نے پرویزمشرف، ان کے ساتھیوں، ان کے بیرونی سرپرستوں اور ان کی ملکی پالیسیوں کو رد کیا ہے ، وہاں انھوں نے کسی ایک سیاسی جماعت کو حکمرانی کا مکمل اختیار (مینڈیٹ) نہیں دیا، بلکہ دو بڑی جماعتوں کو اس طرح کامیاب کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کے بغیر مستحکم سیاسی دروبست قائم نہیں کرسکتیں۔ ہماری نگاہ میں اس کی حکمت یہ ہے کہ عوام نے ان جماعتوں کے منشور کی اس طرح تائید نہیں کی جس طرح عام سیاسی ماحول میں کسی ایک رخ کو متعین کیا جاتا ہے۔ اس منقسم اختیار (split mandate) کا تقاضا یہ ہے کہ تمام جماعتیں مل کر پہلے اس بگاڑ کی اصلاح کریں، جو پچھلے آٹھ برسوں میں واقع ہوا ہے۔اس کے ساتھ منشوروں کے مشترک نکات پر کام ہو، تاکہ بنیادی آئینی اصلاحات کے بعد پھر قوم کی طرف رجوع ممکن ہو تاکہ وہ سیاسی پارٹیوں کو ان کی پالیسیوں کی روشنی میں حکمرانی کا نیا مینڈیٹ دے سکیں۔
یہ ایک عبوری دور ہے، اور اس دور میں زیادہ سے زیادہ قومی مفاہمت پیدا کرنے اور مشترکات کے حصول کو اصل ہدف بنانے کی کوشش کی جائے۔ اس منقسم حق حکمرانی سے عوام کی راے کا یہی رخ ظاہر ہوتا ہے۔ مشرف دور کی بدانتظامی، بے اعتدالی اور لاقانونیت کی اصلاح اور مستقبل میں منصفانہ اور غیرجانب دارانہ انتخابات کے نظام کا قیام اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ اسی طرح دستور کی روشنی میں فوج کے صرف دفاعی کردار کو مستحکم بنانا اور خارجہ پالیسی کی ملّی اُمنگوں کے مطابق تشکیل نو ہے۔اس ایجنڈے پر عمل کرنے میں نئی اسمبلیوں اور سیاسی قیادت کا اصل امتحان ہے۔ ہماری توقع اور دعا ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے دونوں بڑی پارٹیاں اصل توجہ ان ترجیحات پر دیں گی جو عوام کے اس مینڈیٹ کا حاصل ہیں۔ خود ان کو بھی اس کا کچھ ادراک ہے جس کا اظہار میثاقِ جمہوریت کی متعدد دفعات سے ہوتا ہے۔ نئی قیادت کی اصل ذمہ داری ملک میں عدلیہ کی بحالی، دستوری نظام کے قیام، آزادیوں کے تحفظ اور فیصلہ سازی میں پارلیمنٹ اور عوام کی شرکت کو یقینی بنانا ہے۔ اسی میں ان کا امتحان ہے اور جو وقت ان کو حاصل ہے وہ بھی کم ہے۔
ان انتخابی نتائج کے حصول میں عوام، تمام سیاسی جماعتوں اور میڈیا نے جو کردار ادا کیا ہے اس کا اعتراف اور ادراک ضروری ہے۔ اس سلسلے میں کُل جماعتی جمہوری اتحاد (APDM) نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان جماعتوں نے اصولی بنیادوں پر انتخابات کا بائیکاٹ کرکے اور اسمبلیوں میں اپنی نشستوں کی قربانی دے کر جو قومی خدمت انجام دی ہے اس کا اظہار اور اعتراف ضروری ہے۔
ہم نے جو طرز فغاں کی تھی قفس میں ایجاد
فیض، گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھیری ہے
ملک کی سیاست میں اصولوں کی بنیاد پر سیاسی جدوجہد اور اشتراکِ عمل کی یہ ایک زریں مثال قائم ہوئی ہے، جس سے ہماری سیاست پر مستقل اور دُور رس اثرات مرتب ہوںگے۔
یہاں ہم ایک مسئلے پر مزید کلام کرنا چاہتے ہیں، جس کا تعلق اس سطحی بحث سے ہے جو ملک کے نام نہاد، لبرل اہلِ قلم اور خصوصیت سے بیرون ملک صحافی اور تھنک ٹینک کر رہے ہیں، اور وہ یہ کہ: ’’ان انتخابات میں دینی قوتوں کو شکست ہوئی ہے اور لبرل اور سیکولر جماعتیں نئی طاقت کے ساتھ اُبھری ہیں‘‘۔ یہ ساری بحث ایک خاص سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی جارہی ہے اور زمینی حقائق کو یکسرنظرانداز کرکے مفیدمطلب نتائج نکالے جارہے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی جماعت نے سیکولرزم کواپنے منشور میں بطور ہدف کے پیش نہیں کیا۔ سب نے پاکستان کے دستور پر حلف لیا ہے اور اس دستور کی بالادستی قائم کرنے کو اپنا اولین ہدف قرار دیا ہے اور یہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور ہے۔ قرارداد مقاصد اس کا دیباچہ ہی نہیں، ایک قابلِ نفاذ (operational ) حصہ ہے۔ دستور میں اس ریاست کا ہدف قرآن وسنت کی بالادستی اور اسلام کے دیے ہوئے احکام و اقدار کے مطابق نظامِ حکومت کو چلانا قرار دیا گیا ہے اور یہی ریاست کے بنیادی اصولِ حکمرانی قرار پائے ہیں۔ بلاشبہہ ہرجماعت کا حق ہے کہ اس اسلامی فریم ورک میں اپنی سوچ کے مطابق اپنی ترجیحات اوران کے حصول کے لیے پروگرام کا اعلان کرے۔ لیکن اسے سیکولرزم اور لبرلزم اور اسلام کے درمیان انتخاب کی شکل دینا صرف خلط مبحث ہے۔ پیپلزپارٹی کے منشور کا بھی پہلا نکتہ یہی ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی اسلامی نظریۂ حیات ہی کو اپنا مقصد قرار دیا ہے۔ پھر یہ کہنا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو ووٹ ملنے سے محض لبرلزم اور سیکولرزم کی فتح اور دینی قوتوں کی شکست ہے، کیسے درست ہوسکتا ہے۔
دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ اگر کوئی چیز مسترد ہوئی ہے تو وہ پرویز مشرف اور ان کی جماعت مسلم لیگ (ق) ہے، جو روشن خیالی اور نام نہاد ’جدیدیت‘ کی خودساختہ علَم بردار تھی۔ یہ عجیب دعویٰ ہے کہ پرویزمشرف کو تو قوم نے ردکردیا مگر ان کے لبرلزم اور روشن خیالی کو رد نہیں کیا، یہ تضاد نہیں تو کیا ہے؟
تیسری بات یہ ہے کہ دین اور دنیا اور مذہب اور سیاست کے رشتے کے اسلامی تصور اور مغربی تصور کو گڈمڈ کیا جا رہا ہے۔ مغرب کے لبرلزم میں الہامی ہدایت اور مذہبی اقدار واحکام کا تعلق فرد کی ذاتی زندگی سے ہے اور اجتماعی زندگی میں اس کا کوئی رول نہیں، جب کہ اسلام انسان کی پوری زندگی کو الہامی ہدایت کی روشنی سے منور کرتا ہے۔ شریعت کے معنی محض مغربی اصطلاح میں قانون کے نہیں، جس کے نفاذ کا انحصار ریاست کی قوت قاہرہ پر ہوتا ہے، بلکہ وہ پوری زندگی کے لیے ہدایت پر مشتمل ہے۔ وہ شریعت جو عقیدہ اور عبادات کے ساتھ انفرادی، خاندانی، اجتماعی، سیاسی، معاشی اور بین الاقوامی زندگی کے لیے بھی رہنمائی دیتی ہے۔ اس رہنمائی کے بڑے حصے پر عمل فرد اور معاشرہ کسی ریاستی قوت کے استعمال کے بغیر کرتا ہے، تاہم اس شریعت کا ایک حصہ وہ بھی ہے جس کے لیے ریاستی قوت اور عدالت کا نظام کام کرتا ہے۔ مسلمان پوری دنیا میں اپنے مذہب اور دین کو زندگی میں مرکزی اہمیت دیتے ہیں اور اپنی اجتماعی زندگی کو بھی شریعت کے نور سے منور کرنا چاہتے ہیں۔
راے عامہ کے وہی جائزے جو سیاسی پسند و ناپسند کے بارے میں ہوا کے رخ کو ظاہر کرتے ہیں، وہی زندگی کے اس پہلو پر بھی روشنی ڈالتے ہیں جن کا خلاصہ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک کتاب Voice of the People 2006 میں دیا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں میں ۸۴ فی صد اپنے کو مذہبی قرار دیتے ہیں۔ گیلپ ہی نے اپنے ایک دوسرے سروے میں Gallup World Poll: Special Report on Muslim World کی سیریز میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ان کے سروے کے مطابق آبادی کے ۴۱ فی صد نے یہ کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ شریعت ملکی قانون کا واحد سرچشمہ(only source) ہو، جب کہ مزید ۲۷فی صد نے کہا ہے کہ شریعت کو ایک سرچشمہ (one of the sources) ہونا چاہیے، اور شریعت کو قانونی ماخذ کے طور پر ضروری نہ سمجھنے والوں کی تعداد صرف ۶فی صد ہے۔ سروے کے مصنف لکھتے ہیں:
ہمارے مطالعے سے ظاہر ہونے والا ایک سب سے زیادہ واضح امر وہ غیرمعمولی اہمیت ہے جو مسلمان اپنے دین کو دیتے ہیں۔ اپنی ذاتی رہنمائی کے لیے بھی اور بحیثیت مجموعی معاشرے کی ترقی کے لیے بھی۔ اس سے بھی زیادہ (ہمارے لیے تعجب انگیز بات یہ تھی کہ) مسلمان خواتین اس بات سے متفق نظرآتی ہیں کہ پبلک پالیسی اسلامی اصولوں کی رہنمائی میں طے ہونا چاہیے۔
یہ ہیں اصل زمینی حقائق___ اور اس بات کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ مذہبی ووٹ اور مذہبی جماعتوں کا ووٹ ایک چیز نہیں۔ مسلمانوں کی عظیم اکثریت زندگی کے اجتماعی معاملات بشمول قانون، دین کی رہنمائی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اس حقیقت پر انتخابی نتائج کی سیاسی تقسیم سے پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔
چوتھی بنیادی بات یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کے ووٹ کے بارے میں بھی جو دعوے کیے جاتے ہیں، وہ مناسب تحقیق کے بغیر اور تمام ضروری معلومات کو حاصل کیے بغیر کیے جاتے ہیں۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ ماضی میں دینی جماعتوں کو ۲ سے ۵ فی صد تک ووٹ ملتا تھا حالانکہ یہ صریحاً غلط بیانی ہے۔ مثلاً ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں تین دینی جماعتوں کو ملنے والے ووٹ کُل ووٹوں کا تقریباً ۱۵ فی صد تھے۔ کراچی میں ۱۹۷۰ء میں مذہبی جماعتوں کا کُل ووٹ ۴۵ فی صد تھا۔ صوبہ سرحد میں دینی جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب ۱۹۷۰ء میں ۳۳ فی صد تھا۔ ۱۹۸۸ء ۱۹۹۰ء میں صرف جمعیت علماے اسلام نے شرکت کی تھی، جب کہ جماعت اسلامی آئی جے آئی کا حصہ تھے۔ تب صرف جمعیت علماے اسلام کے ووٹ ۱۹۸۸ء میں ۱۱ فی صد اور ۱۹۹۰ء میں ۲۰ فی صد تھے۔ ۱۹۹۳ء میں کُل ووٹ جو دینی جماعتوں نے حاصل کیے ۲۴ فی صد تھے، جو ۲۰۰۲ء میں متحدہ مجلس عمل کی صورت میں کُل صوبے کے ووٹوں کا ۴۵ فی صد تھا۔ (ملاحظہ ہو، گیلپ پاکستان کی رپورٹ، The Story of 8 Elections and the Calculus of Electoral Politics in Pakistan During 1970-2008)
کُل پاکستانی سطح پر یہ تناسب نکالنے میں مختلف دقتیں ہیں، جن میں سے ایک کا تعلق اس حقیقت سے بھی ہے، کہ دوسری بڑی جماعتیں پاکستان کی بیش تر نشستوں پر امیدوار کھڑے کرتی ہیں، جب کہ دینی جماعتوںنے بالعموم ایک محدود تعداد میں امیدوار کھڑے کیے ہیں اور اس طرح پورے ملک میں ان کا ووٹ اس انتخابی گنتی میں شامل نہیں ہوپاتا۔
پانچویں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے شرکت نہیں کی۔ اس لیے یہ کہنا بے بنیاد ہے کہ عوام نے اس کو ووٹ نہیں دیے۔ عملاً متحدہ مجلس عمل کی صرف ایک جماعت، یعنی جمعیت علماے اسلام (ف)نے حصہ لیا، اور بلاشبہہ اسے ۲۰۰۲ء بلکہ اس سے پہلے کے ادوار کے مقابلے میں بھی کم ووٹ ملے۔ مگر اس کی بڑی وجہ من جملہ دوسری وجوہ کے یہ ہے کہ راے دہندگان نے جے یو آئی (ف) کو مشرف انتظامیہ سے منسلک سمجھا اور اسے مشرف کے بلوچستان آپریشن اور اکبربگٹی کے قتل پر اس کی طرف سے کسی بڑے عملی اقدام سے احتراز، نیز اسمبلیوں سے استعفے، سرحداسمبلی کے تحلیل کرنے میں تاخیر، بلوچستان میں ق لیگ کے ساتھ شرکت اقتدار وغیرہ کی وجہ سے پرویز مشرف سے قرب کی قیمت اداکرنا پڑی۔ بلاشبہہ اس نے بائیکاٹ میں شرکت نہ کرکے یہ نقصان اٹھایا، اور اس کی الیکشن میں شرکت کا رشتہ برسرِاقتدار قوتوں (establishment) سے اس کے تعلق سے جوڑا گیا۔ حقیقت جو بھی ہو لیکن عملاً دوسری وجوہ کے ساتھ اسے زیادہ نقصان اس مسخ شدہ تصور کے باعث ہوا۔ تمام اہم سیاسی تجزیہ نگار اس پہلو کا کھلے بندوں اظہار کر رہے ہیں۔ مثلاً معروف تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی، ایم ایم اے کی حکومت کی ناکامی کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
ایم ایم اے کی صفوں میں غیرمعمولی انتشار کی وجہ سے بھی بہت سے لوگوں میں مایوسی کی کیفیت تھی۔ راے دہندگان صدر جنرل مشرف کے تمام اتحادیوں کو سزا دینا چاہتے تھے اور ایم ایم اے کو بھی کچھ سبق سکھایا، کیونکہ انھوں نے ان دستوری ترامیم کو آسان بنانے میں کردار ادا کیا جن سے فوجی آمر کو نجات ملی اور اس کے تمام افعال کو تحفظ ملا۔ اس کے ایک حصے جماعت اسلامی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ (دی نیوز ، ’نیوفرنٹیئر‘ رحیم اللہ یوسف زئی، ۲۴ فروری ۲۰۰۸ئ، اسپیشل رپورٹ، ص ۳۳)
رحیم اللہ یوسف زئی دی نیوز میں اپنے ایک دوسرے مضمون میں اس بات کا دوٹوک انداز میں یوں اظہار کرتے ہیں:
ایم ایم اے جو درحقیقت جماعت اسلامی کے انتخابات سے بائیکاٹ کے بعد صرف مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی (ف) ہوکر رہ گئی تھی، اسے مشرف کا ساتھ دینے اور اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں وعدوں کو پورا نہ کرنے پر سزا دی گئی ہے۔ (دی نیوز، ۲۳ فروری ۲۰۰۸ئ)
جے یو آئی (ف) کو مشرف کی بالواسطہ تائید کی وجہ سے عوامی راے دہندگان کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا فضل الرحمن کے متنازع کردار اور صدارتی انتخاب سے پہلے ۶اکتوبر ۲۰۰۷ء کو سرحداسمبلی کی تحلیل کے مسئلے کی وجہ سے اسے ووٹوں اور عوام میں اپنے مقام کے حوالے سے مہنگی قیمت ادا کرنا پڑی۔ (ڈان، ۲۴ فروری ۲۰۰۸ئ)
یہ صرف چند تبصرہ نگاروں کی راے نہیں، عام تاثر اور ووٹروں کی بڑی تعداد کا یہی احساس تھا اور لفظی تاویلوں اورقانونی موشگافیوں سے اسے فرو نہیں کیا جاسکتا۔
ان حالات میں جے یو آئی (ف) کے ووٹوں اور سیٹوں کی کمی کو دینی جماعتوں سے نااُمیدی، اور ان کے صفایا کے دعوے کرنا، حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ویسے بھی انتخابی سیاست میں مختلف انتخابات میں ووٹوں میں زیادتی اور کمی سے ہرجماعت کو گزرنا پڑتا ہے اور کسی ایک انتخاب کی بنیاد پر ایسا فتویٰ دینے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں ہے کہ خود پی پی پی اور اس کے اتحادیوں کا ووٹ بنک ۱۹۷۰ء میں ۳۹ فی صد تھا جو ۱۹۹۷ء میں ۲۲ فی صد رہ گیا تھا۔ اسی طرح تمام مسلم لیگوں کا مجموعی ووٹ بنک ۱۹۷۰ء میں صرف ۲۳ فی صد تھا جو ۱۹۹۷ء میں ۴۶ فی صد تک پہنچ گیا تھا۔ اے این پی ہر انتخاب میں ایسے ہی نشیب و فراز کا تجربہ کرتی رہی ہے۔دنیا کے دوسرے ممالک کے تجربات بھی اس سے مختلف نہیں۔ اس لیے کسی ایک انتخاب کی بنیاد پر اس طرح کے فتوے دینا علمی اعتبار سے بہت کمزور بات ہے۔
بات صرف جے یو آئی (ف) کے اس امیج اور اس کے نقصانات ہی کی نہیں۔ جہاں بھی ووٹرز نے عدلیہ کے معاملے میں اور پرویز مشرف کے لیے نرم گوشے کا احساس پایا ہے ضرور سزا دی ہے۔ مشہور قانون دان بابر ستار دی نیوز میں اپنے ایک مضمون میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ وکلا کے بائیکاٹ کا احترام نہ کرنے والے وکلا کا کیا انجام ہوا،لکھتے ہیں کہ جب خود پی پی پی کے ایم این اے زمردخاں نے جو چیف جسٹس کی تحریک میں پیش پیش تھے اور اعتزاز احسن کے ساتھ چیف جسٹس کی گاڑی کے ڈرائیور تک کی خدمت انجام دے رہے تھے وکلا کے فیصلے کے خلاف انتخاب میں شرکت کی تو وہ قومی اسمبلی پر اپنی سیٹ باقی نہ رکھ سکے (دی نیوز، ۲۳ فروری ۲۰۰۸ئ)۔ اس عوامی رو کو جو نہ سمجھ سکا اسے اس کی قیمت ادا کرنا پڑی۔
آخر میں ہم یہ صاف لفظوں میں کہنا چاہتے ہیں کہ اس وقت ملک کی پوری سیاسی قیادت کا امتحان ہے اور اے پی ڈی ایم کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح اس نے قربانی دے کر ملک کی سیاست کو صحیح ایشوز سے روشناس کرایا ہے، اسی طرح نئے حالات میں ان اہداف و مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مناسب حکمت عملی اختیار کرے۔ اگر نومنتخب جماعتیں ان مقاصد کے لیے کام کرنے کی نیت اور جذبہ دکھاتی ہیں تو تمام دینی اور سیاسی قوتوں کو ان سے تعاون اور ان مقاصد کے حصول کو آسان بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اگر مناسب موقع دینے کے بعد بھی یہ اس سلسلے میں پس و پیش دکھاتی ہیں تو پھر ان کی ذمہ داری ہے کہ پُرامن جمہوری اور عوامی دبائو کے ذریعے انھیں عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرنے پر مجبور کریں۔ ججوں، وکلا، سول سوسائٹی اور سیاسی کارکن سب کا ہدف اور منزل ایک ہے اور وہ حقیقی جمہوریت کا قیام ہے جس کے مقاصد یہ ہونے چاہییں:
۱۸ فروری کے انتخابات میں قوم نے ایک لڑائی میں فتح پائی ہے، مگر یہ جدوجہد ابھی جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک جمہوریت کی مکمل بحالی اور دستور کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے مؤثر پیش رفت نہیں ہوتی۔ ۱۸فروری کے نتائج نے ایک نئی صبح کے طلوع کے امکانات کو روشن کردیا ہے لیکن یہ صبح اسی وقت ہماری قومی زندگی کو روشن کرسکے گی جب اس کے استقبال کے لیے قوم اس طرح کوشش نہ کرے جس طرح ۹مارچ ۲۰۰۷ء سے رات کی تاریکی کو ختم کرنے کے لیے کرر ہی ہے۔ ابھی منزل کی طرف صرف ایک قدم اٹھایا گیا ہے۔ منزل ابھی دُور ہے اور مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کی دعوت دے رہی ہے۔ فرد ہو یا قوم جدوجہد اور سعی مسلسل کے بغیر وہ اپنی منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکتے۔
وَاَنْ لَّـیْسَ لِلْاِِنْسَانِ اِِلَّا مَـا سَعٰیo وَاَنَّ سَـعْیَہُ سَوْفَ یُـرٰیo (النجم ۵۳: ۳۹-۴۰) اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اُس نے سعی کی ہے، اور یہ کہ اُس کی سعی عنقریب دیکھی جائے گی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا فوجی عہدہ چھوڑنے اور فوجی وردی اتارنے کے بعد بھی پرویز مشرف صاحب حسب سابق اسی طرح مطلق العنان حکمران رہیں گے اور انھوںنے فوج کی پشتی بانی سے آئین کا حلیہ بگاڑ کر فردِواحد کی شخصی حکمرانی کا جونظام قائم کیا ہے، کیا وہ مستقبل میں برقرار رہ سکتاہے ؟ یہ وہ اہم ترین سوال ہے جس کے درست تجزیے اور جواب پر پاکستان کے مستقبل کا دارومدار ہے ۔
پاکستانی افواج کے نئے چیف آف سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی طرف سے فوجی افسران کے نام ایک خط لکھا گیا ہے ۔ اس خط کے جو مندرجات عام لوگوں کے لیے افشاکیے گئے ہیں ان سے یہ خوش آیند تاثر ملتاہے کہ نئے چیف کو واقعی فوج کا امیج درست کرنے کی فکر ہے ۔ انھوںنے فوجی افسران کو سیاست سے کنارہ کش رہنے، سیاست دانوں سے تعلق نہ رکھنے اور تجارتی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی ہدایت کی ہے ،اوراعلیٰ سول عہدوںپر حاضرسروس فوجی افسران کی تعیناتی کو بھی ناپسند کیا ہے ۔اگر یہ محض دل خوش کن باتیں نہیں ہیں اورآرمی چیف واقعی ان پر عمل درآمد کرناچاہتے ہیں تو یہ نہ صرف افواج پاکستان بلکہ پوری قومی زندگی کے لیے ایک نئے دور کی نویدہے۔ اگر جنرل کیانی واقعی ان باتوں پر عمل درآمد کرنے میں سنجیدہ ہیں تو جلدجنرل (ر) پرویز مشرف کے ساتھ ان کا اختلاف سامنے آجائے گا کیونکہ پرویز مشرف نیشنل سکیورٹی کونسل: صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف پر مشتمل ’تکون‘ کے ذریعے اپنے نظام کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ انھوںنے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ تکون مل جل کر نظام چلائے گی ۔ یہ غیر دستوری تکون اسی وقت چل سکتی ہے جب آرمی چیف کو سیاست کرنے اور قومی زندگی میں غیر دستوری طور پر مداخلت کرنے کا شوق ہو ۔ لیکن اگر آرمی چیف اپنے قول کے سچے اور اپنے دستوری عہد (oath) کے پکّے ہیں تو بجاطورپر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ حالات بہتر رخ اختیار کریںگے، پرویز مشرف کا غیر آئینی صدارتی نظام بھی نہیں چلے گا اور اقتدار بالآخر عوامی نمایندوں کی طرف واپس آجائے گا۔
یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی راہ ہموار کی جائے گی۔ اس طرح کے انتخابات کے لیے ضروری ہے کہ پرویز مشرف کا قائم کردہ آمرانہ نظام ختم ہو اور وہ مستعفی ہوجائیں ۔ملک، غیر آئینی ایمرجنسی (۳نومبر۲۰۰۷ئ) سے پہلے والی صورت حال کی طرف واپس لوٹ جائے ۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جن ججوں کو غیر آئینی اقدامات کے ذریعے سبک دوش کردیا گیاہے، وہ بدستور اپنے عہدوں پربحال ہوجائیں ۔ اتفاقِ راے سے ایک عبوری سول حکومت اقتدار سنبھال لے اور الیکشن کمیشن کی تشکیلِ نو تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے مشورے سے ہو۔ان اقدامات کے بعد جو انتخابات ہو ں گے ان پر قوم کا اعتماد ہوگا اور اس کے نتیجے میں آزاد پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آئے گا جو پرویز مشرف کے خود ساختہ نظام کا خاتمہ کرکے ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء سے پہلے والا آئین بحال کردے گی اور آئین اپنی بنیادی خصوصیتوں کے ساتھ نافذ ہوجائے گا ۔ اسلامی نظامِ حیات، جمہوریت اور تمام اداروں پر منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی ،صوبائی خود مختاری اور عوام کی فلاح و بہبوداس دستور کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ دستور جب ان بنیادی خصوصیتوں کے ساتھ نافذ ہوگا تو ملک کو سیاسی استحکام نصیب ہوگا، عدلیہ منصفانہ فیصلے کرنے میں آزاد ہوگی، امن وامان بحال ہوگا، عوام کو چین و سکون ملے گا اور تمام صوبو ں کو آزادی اور اقتدار میں شرکت کا احساس ہوگا جس سے ملک خوش حال اور معاشی ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہوگا۔
اس پس منظر میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ ملک و قوم پرجب تک دستور کے بجاے سول اور ملٹری انتظامیہ کی بالادستی قائم رہے گی، عوامی نمایندے ان کے رحم وکرم پر ہوں گے اور عدالتوں کو حقیقی آزادی حاصل نہیںہوگی، اس وقت تک موجودہ انتشار کی کیفیت نہ صرف برقرار رہے گی، بلکہ اور زیادہ بڑھے گی جس سے ملک کی سالمیت کو حقیقی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ خود موجودہ آرمی چیف نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ عوام کی تائیداور تعاون کے بغیر فوج کے لیے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونا اور ملکی سلامتی کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرناممکن نہیںہے، اور فوج کا اصل کام ملکی دفاع ہے ۔ اگر آرمی چیف ملک کی سلامتی اور دفاع کے لیے عوام کا تعاون واقعی ضروری سمجھتے ہیں تو انھیں جان لینا چاہیے کہ یہ تعاون اسی وقت حاصل ہوسکتاہے جب ملکی پالیسیاں عوام کی مرضی کے تابع ہوںگی۔
اس وقت ملک کی غالب اکثریت پاکستان ، افغانستان اور فلسطین وعراق سمیت پوری دنیا میں امریکی پالیسیوں کے خلاف ہے اور پاکستانی عوام امریکا کوایک دوست کے بجاے استعماری اور استحصالی طاقت کی نظر سے دیکھتے ہیں، جب کہ پرویز مشرف نے پاکستان کو امریکا کا فرنٹ لائن اتحادی قرار دیاہواہے اور افواج پاکستان امریکی مفادات کے لیے خود اپنے قبائلی علاقوں ، سوات اور ملک کے دوسرے علاقوں میں استعمال کی جارہی ہیں۔ اگر جنرل کیانی واقعی چاہتے ہیں کہ فوج اور عوام ایک ہوجائیں تو عوام کی مرضی کے مطابق خارجہ پالیسی تشکیل دینی ہوگی اور وہ تبھی ممکن ہے جب عوام کے حقیقی منتخب نمایندوں کی پارلیمنٹ کی تشکیل ہو اور ملک کے تمام ادارے منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی قبول کرلیں ۔ اس کے لیے نیشنل سکیورٹی کونسل کو ختم کرنا پڑے گا اور صدر،وزیراعظم اورآرمی چیف پرمشتمل تکون کے بجاے پارلیمنٹ کو تمام پالیسیوں کی تشکیل کا منبع تسلیم کرنا پڑے گا۔ لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ پرویز مشرف نے بڑی دیدہ دلیری سے یہ بیان دیا ہے کہ وہ نئی حکومت کو پالیسیاں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیںگے ۔ اسی وجہ سے جماعت اسلامی اور اے پی ڈی ایم نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کردیا ہے کہ پرویز مشرف کی موجودگی میں انتخاب محض ڈھونگ اور فریب ہیں۔نواز شریف صاحب بھی گو یہی بات کہہ رہے ہیںلیکن الیکشن میں پھر بھی شریک ہونے کا شوق پورا کرنا چاہتے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کی صورت حال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد حقیقی قیادت سے محروم ہوچکی ہے ۔ پارٹی کو اکٹھا رکھنے کے لیے مرحومہ کی وصیت کا سہارا لیا گیا لیکن جمہوری معاشروں میں سیاسی جماعتیں وصیتوں کی بنیاد پر زیادہ دیر تک نہیں چل سکتیں ۔ جب تک پارٹی کے اندر جمہوریت اور جمہوری روایات مستحکم نہیں ہوں گی، پارٹی کے باہر ملکی معاملات بھی جمہوری انداز میں نہیں چلائے جاسکتے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے بارے میں یہ حقیقت اب چھپی ہوئی نہیں ہے کہ وہ امریکا اور پرویز مشرف کے ساتھ افہام و تفہیم کے نتیجے میں خود ساختہ جلاوطنی چھوڑ کر پاکستان تشریف لائی تھیں اور اس باہمی مفاہمت کا ایک لازمی جزو یہ تھاکہ وہ آیندہ کی وزیراعظم ہوںگی ۔ ظاہر ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اس طرح وزیراعظم بننے پر اکتفا ہرگز نہ کرتیں جس طرح کے وزیراعظم شوکت عزیز تھے یا ان سے قبل چودھری شجاعت حسین اور میرظفراللہ خان جمالی تھے۔ پرویز مشرف کے لیے ظفراللہ جمالی جیسا کمزور سیاسی وزیراعظم بھی قابل قبول نہیں تھا تو وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیسے گزارا کرسکتے جن کے ساتھ خود ان کی اپنی پارٹی کے فاروق احمد خان لغاری صاحب بھی مطمئن نہیں رہ سکے تھے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے مظلومانہ قتل کے گرد اسی وجہ سے شکوک وشبہات کی ایک دھند چھائی ہوئی ہے ۔ پیپلز پارٹی کو اگر انتخابات میں کوئی کامیابی حاصل بھی ہوئی تو وہ محترمہ کے بعد جمہوری اداروں کی بحالی کے سلسلے میں کوئی مضبوط کردار ادا نہیں کرسکے گی اور فوج اوراس کے ادارے پرویز مشرف کے دور میں جس مطلق العنان اقتدار کے عادی ہوچکے ہیں، پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کے لیے یہ امر محال ہے کہ وہ انھیں آئین ،قانون اور جمہوری اداروں کے تابع کرنے میں کامیاب ہوسکے۔
دوسری اپوزیشن پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن)اگرچہ میاں محمدنواز شریف کی قیادت میں متحد ہے۔ میاںبرادران کو انتخاب لڑنے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا ہے، اس کے باوجود وہ انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں اور انھیں امید ہے کہ وہ انتخاب جیت کر حالات پر اثر انداز ہوسکیں گے۔ حالانکہ جو شخص اپنے شخصی اقتدار کی خاطر ’آخری مُکا‘چلا کر دستور کو معطل کرسکتاہے ، چیف جسٹس کو مع ۶۰ ججوں کے گھر بٹھا سکتاہے اور ملک کے پورے آئینی ڈھانچے کو متزلز ل کرسکتاہے، اس سے یہ توقع رکھنا کہ اپنے ’دست آموز الیکشن کمیشن ‘ اوراپنی خود ساختہ عبوری حکومتوں کے ذریعے ایسے الیکشن کروائے گا جن سے اس کا اپنا اقتدار خطرے میںپڑ جائے خودفریبی کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ میاں نواز شریف کو یہ غلط فہمی تھی کہ وہ انتخابی مہم کے ذریعے عوام میںبڑا تحرک پیدا کرکے انتخابات کو ریفرنڈم میں تبدیل کردیں گے لیکن تقریباً ایک ماہ تک کوشش کے باوجود وہ کوئی بڑاتحرک پیدا نہ کرسکے۔ بلاشبہہ لوگ پرویز مشرف کے خلاف ہیں اورملک کے مستقبل کو ان کے ہاتھ میں محفوظ نہیں سمجھتے۔ بلاشبہہ عوام متبادل قیادت کی تلاش میں ہیں لیکن بم دھماکو ں اور پولیس گردی کے ذریعے خوف و ہراس کی جوفضا بنادی گئی ہے اس میں عوام میں تحرک پیدا کرنا اور انھیں بڑی تعداد میں سڑکوں پر لانا دشوار ہوگیا ہے۔ سیاسی کارکن تو جان پر کھیل کر بھی باہر نکلنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں لیکن عوام الناس سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ چاروں طرف پولیس اور پیرا ملٹری فورسز بندوقیں تانے کھڑی ہوں،بڑے مجمعوں میںبم بلاسٹ کے ذریعے سیکڑوں لوگوں کو قتل کیا جارہاہو، ملک میں دہشت گردی، پولیس گردی ، آٹے گھی کی قلت اوربجلی و گیس کے بحران کے ذریعے پریشانی کی ایک فضا پیدا کردی گئی ہو، اور اس کے باوجود وہ کسی سیاسی لیڈر کی قیادت میں جان پر کھیل کر باہر نکل آئیں گے۔
عوام کے بڑے پیمانے پرمتحرک نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو قیادت میدان میں ہے، وہ ا ن کی آزمودہ ہے ۔ عوام الناس کو اس قیادت سے قطعاً یہ امید نہیں ہے کہ وہ ان کی حالت زار کو تبدیل کرنے کے لیے کوئی بڑے اقدامات اٹھا سکے گی۔ چنانچہ بڑے پیمانے پر عوام کو متحرک کرنے سے مایو س ہو کراب میا ں برادران قومی حکومت کی بات کرنے لگے ہیں۔
قومی حکومت سے کیا مراد ہے؟اس کی وضاحت میاں صاحبان نے اپنے قریبی حلقوں میں بھی نہیں کی۔ میاں نواز شریف کو ایک اچھا موقع ملا تھا کہ ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے ان کی دعوت پرلندن کانفرنس میں شرکت کی۔ پھر آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم) کی بنیاد پڑی جس میں وہ پارٹیاں بھی شامل ہوئیں جو اس سے قبل نئے دستور کا مطالبہ کررہی تھیں ۔ آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کے فورم پر فیصلہ کیا گیا کہ فوجی آمریت کے خاتمے اور پرویزمشرف کومستعفی ہونے پر مجبور کرنے کے لیے تحریک چلائی جائے گی۔ معزول ججوں کی بحالی تمام پارٹیو ںکا ایک بنیادی مطالبہ بن گیا اور وکلا تحریک کے ساتھ ہم آہنگی کا اعلان کیاگیا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ باہر کے دبائو اور پارٹی میں انتخابی امیدواروں کے اصرار کے نتیجے میں میاں نوازشریف نے قومی قیادت سنبھالنے کے اس اہم موقعے کو ضائع کردیا اور اپنی پارٹی کی انتخابی مہم سے توقعات وابستہ کرلیں۔ اب اگر وہ اپنی انتخابی مہم سے مایوس ہوگئے ہیں تو قومی حکومت کا مطالبہ کرنے سے پہلے انھیں دوبارہ آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ سے مشورہ کرنا چاہیے تھا۔ پیپلز پارٹی کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش میں انھیں کئی باراپنا موقف تبدیل کرناپڑا جس سے ان کے امیج کو نقصان پہنچا ہے۔
بنگلہ دیش کی صورت حال کے پیش نظر قومی حکومت کی تجویز کو لوگ شک و شبہے کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔ بنگلہ دیش میں ایک غیر جانب دار حکومت فوج کی پشتی بانی سے برسراقتدار ہے جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ ملک میں آزادانہ الیکشن منعقد کرکے اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کردے۔ لیکن یہ حکومت دونوں بڑی جماعتوں کے خلاف مقدمات قائم کرنے اور ان کی مبینّہ بدعنوانیوں کی تحقیق میں لگ گئی ہے ۔ تیسری بڑی پارٹی جماعت اسلامی تھی جس پر بد عنوانی کا کوئی الزام نہیں تھا تو اس پر ۱۹۷۰ء میں پاکستانی فوج کے ساتھ تعاون کا الزام لگا کر اس کی قیادت کے خلاف تحقیقات کرنے کی کوشش کی گئی۔اس ساری کاوش کامقصد یہ تھا کہ فوج ایک نام نہاد قومی حکومت کے نام سے اپنااقتدار قائم کرے۔لیکن عوامی ردعمل اس انتظام کے حق میں نہیں اورعلما اور سیاسی کارکن عبوری انتظام کو اس طرح طول دینے کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں اور فضا میں نئے سیاسی ارتعاش کے آثار دیکھے جاسکتے ہیں۔
۱- پرویز مشرف فوری طور پرمستعفی ہوں۔
۲- سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ان ججوں کو بحال کیا جائے جنھوںنے پرویز مشرف کی غیر آئینی نام نہاد ایمرجنسی پلس کو ماننے سے انکار کردیاتھا، اور اسے غیر آئینی قرار دیاتھا۔
۳- دستور۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء کی صورت میں بحال کیا جائے۔
۴- اتفاقِ راے سے ایک عبوری حکومت اور آزاد الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے جو شفاف الیکشن کروائے، اور مختصر ترین وقت میں اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کردیا جائے ۔
یہ مطالبات ہم کس سے کررہے ہیں؟یہ ایک بڑا سوال ہے ۔ ظاہرہے کہ پرویز مشرف تو یہ مطالبات تسلیم نہیں کریں گے۔ موجودہ عدلیہ سے بھی یہ توقع نہیںہے۔ سابقہ سپریم کورٹ سے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ ملک کو دوبارہ آئینی راستے پر ڈالنے کے لیے وہ اہم اور بنیادی آئینی فیصلے کردے لیکن اس خطرے کو بھانپ کر پرویز مشرف نے اسے راستے سے ہٹا دیا۔موجودہ سپریم کورٹ سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ اس حوالے سے انقلابی اقدامات اٹھائے۔ واحد راستہ یہ ہے کہ عوام کو ان مطالبات کے لیے متحرک کیا جائے۔ بڑے پیمانے پر عوامی تحریک ہی اس وقت تمام مسائل کا حل ہے۔
ادھرسوات میں فوجی مداخلت کرکے سردی کے موسم میں لاکھوں لوگوں کو اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا گیاہے ۔ لوگ بھوک اور خوف کی دُہری مصیبت میں گرفتار ہیں ۔ بظاہر امن وامان برقرار رکھنے کے لیے فوج بھیجی گئی ہے لیکن خودفوج کے ۲۰، ۲۵ ہزار جوان ایک مشکل صورت حال میں محصور ہوگئے ہیں اور عوام کو بھی مشکل سے نکالنے کے بجاے مزید مشکلات میں گرفتار کردیا گیاہے ۔ اشیاے ضرورت کی قلت ہے اور جماعت اسلامی کی امدادی سرگرمیوں میں بھی کرفیو کے نفاذ اور راستوں کی بندش کی وجہ سے مشکلات ہیں ۔قبائلی علاقوں میں بھی امن و امان کی صورت حال ایک عرصے سے خراب ہے، اور اب محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری بیت اللہ محسود پر ڈال کر وہاں نیا آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔ گورنر سرحد علی محمد جان اورکزئی کی تبدیلی کو بھی اسی پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
اس وقت ملک کے ۵۰ فی صد سے زیادہ لوگ بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ شہری علاقوں میں روٹی کی قیمت دُگنی ہوگئی ہے۔ دوروپے کی روٹی چار روپے میں اور چار روپے کی روٹی آٹھ روپے میں ملتی ہے۔ آٹے کی قلت کی وجہ سے تنور بند ہوگئے ہیں ۔ پہاڑی علاقوں میں برف باری ہے اور ایندھن کی کمی ہے ۔ حکمران بیانات دینے کے علاوہ کچھ نہیں کررہے۔ چودھری برادران نے اس صورت حال کی ذمہ داری شوکت عزیز پر ڈال دی ہے جس سے پرویز مشرف ناراض ہوگئے ہیں کیونکہ شوکت عزیز کے بجاے اصل ذمہ داری انھی پرعائدہوتی ہے، جنھیں فساد کی جڑ قرار دیا جارہاہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد فوری طور پر جو ہنگامے شروع ہوئے تھے،ان کے پیچھے ایک منظم گروہ کا ہاتھ نظر آرہاہے۔ یہ منظم تخریبی گروہ جو فوری طور پر ریل کی پٹڑیاں اکھاڑنے، ریل کے انجن جلانے،بڑے پیمانے پر اموال اور ٹرانسپورٹ کو تباہ کرنے میں لگ گیا ہے، ملک کے ہر حصے، خاص طور پر کراچی اور سندھ میں موجود ہے اور ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے کسی موقع کی تلاش میں ہے۔ کراچی کی صورت حال خاص طور پر مخدوش ہے اور وہاں بڑے پیمانے پر اسلحہ جمع کیاگیا ہے ۔ کراچی پہلے بھی لسانی فسادات کی زد میں آ چکاہے،اس باراگرپھر لسانی فسادات کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی تو تباہ کن اسلحے کی وجہ سے اس کی تباہی وبربادی عام اندازوں سے زیادہ ہوگی۔ ان حالات کامقابلہ عوام کو مل جل کر کرناہے ۔ عوام کے پاس منظم جدوجہد کے سوا کوئی دوسراہتھیار نہیں ہے جس سے ملکی سالمیت کی حفاظت کی جاسکے۔ اگر موجودہ آرمی چیف جنرل کیانی اپنے بیانات پر عمل کرنا چاہتے ہیں توانھیں فوج کو آئینی حدود کا پابند کردینا چاہیے۔ اس طرح پرویز مشرف مجبور ہوں گے کہ وہ آئین کا احترام کرکے فوری طور پر مستعفی ہوجائیں اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے معزول ججوں کو بحال کردیا جائے۔ آئین کا احترام ملک کو موجودہ خطرناک بحران سے بچا سکتاہے۔ اور یہ اس وقت ہوسکتا ہے کہ عوام وکلا اور ججوں کی پشت پر کھڑے ہوجائیں، فوج غیر جانب دار ہوجائے اور سویلین حکومت کو پولیس گردی اور عوام کے خلاف طاقت کے استعمال سے روک دیاجائے۔
اس وقت تمام شواہد اس پر دلالت کرتے ہیں کہ پرویزمشرف اور اس کا نظام مکمل طور پرناکام ہوچکاہے۔اس کی ناکامی پر ساری دنیا گواہ ہے۔یورپ کے دورے کے موقع پر یورپین لیڈروں نے بھرے اجتماعات میں پرویز مشرف کے سامنے پاکستان میں جمہوریت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جس پر پرویز مشرف جھنجھلاہٹ کا شکار ہوئے۔ حقیقت یہی ہے کہ بزعم خویش جمہوریت کی طرف پرویز مشرف کا سفر کامیابی کی منزلیں طے کرنے کے بجاے مسلسل حادثات کاشکار ہو رہا ہے اور ا ن کی موجودگی میں قومی حکومت سمیت کوئی بھی نسخہ کامیاب ہوتا نظر نہیں آتا۔ انتخاب ہوبھی جائیں تو خود پرویزمشرف کو اس کے بعد ایک عام بے چینی نظر آرہی ہے اور خود انھوںنے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کریں گی۔ اگر انھیں معلوم ہے کہ انتخابات کے بعد بھی سکون اور اطمینا ن کے بجاے سیاسی اضطراب اور بے چینی ہی میں اضافہ ہوگا تو عقل کی بات یہی ہے کہ وہ نوشتۂ دیوار پڑھ کر خود اقتدار سے الگ ہوجائیں اور سپریم کورٹ کو اپنی اصل شکل میں بحال ہونے دیں تاکہ ملک کو آئین کے مطابق چلا کر سیاسی استحکام کی تدابیر اختیار کی جاسکیں ۔
پاکستان کو موجودہ بحران سے نکالنے اور اس پیچیدہ صورت حال کے سدھار کے لیے بعض وکلانے نئے آرمی چیف کو مشورہ دیا ہے کہ جس طرح پرویز مشرف نے آرمی چیف کی حیثیت سے ایمرجنسی نافذ کی اور اس کے تحت غیر آئینی کارروائیاں کرکے انھیں آئین کا حصہ قرا ر دے دیا، اور پھروردی اتارنے سے پہلے ایمرجنسی اٹھانے کا اختیار صدر کو منتقل کردیا، جب کہ خود ہی ملک کے صدرا ور چیف آف آرمی سٹاف تھے۔اسی طرح موجودہ آرمی چیف صدر سے اپنا ایمرجنسی اٹھانے کا اختیار واپس لے لیں اور اس ایمرجنسی کے تحت غیر آئینی اقدامات کو کالعدم قرار دے کر ججوں کو بحال کردیں اور باقی سارے اقدامات بحال شدہ سپریم کورٹ پر چھوڑ دیں تاکہ وہ آئین اور قانون کے مطابق ملک کو واپس آئینی پٹڑی پر ڈال دے ۔اس کے حق میں ایک سینئر وکیل نے دلیل دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ایک چیف آف آرمی سٹاف کے لیے آئین کو معطل کرکے غیرآئینی اقدامات کرنے کا جواز پیدا کیاجاسکتاہے تو دوسرے چیف آف آرمی سٹاف کے لیے آئین کو بحال کرنے کے لیے کسی اقدام کا جواز کیوں نہیں بنتا۔
یہ اور اسی نوعیت کی جو آوازیں اُٹھ رہی ہیں، وہ اس بے چینی اور اضطراب کا مظہر ہیں جس کی گرفت میں پوری قوم اور اس کا سوچنے سمجھنے والا طبقہ اپنے کو محسوس کر رہا ہے اور جس کی اصل وجہ پرویز مشرف کے بار بار کے غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام ہیں۔ ہم وکلا کے اس طبقے کی پریشانی خاطر کو تو محسوس کرتے ہیں لیکن اس راے سے اتفاق نہیں کرسکتے کہ فوج کے سربراہ کو کسی ایسے اقدام کا مشورہ دیا جائے جس کا اسے دستور کے تحت اختیار نہیں۔ اگر نظریۂ ضرورت کے تحت سپریم کورٹ ماضی میں فوجی حکمرانوں کو دستور میں ترمیم کا وہ اختیار دینے کی غلطی نہ کرتی جو خود اسے بھی حاصل نہیںتھا تو ملک بہت سی تباہی سے بچ جاتا۔ اس لیے فوج کے سربراہ کو جواب خود فوج کے سیاست سے باہر رہنے کی بات کر رہا ہے، اس قسم کا مشورہ دینا صحیح نہیں۔ البتہ قومی مشاورت کے ذریعے عدالتوں اور دستور کے لیے اولین طور پر۲نومبر ۲۰۰۷ء والی اور بالآخر ۱۲اکتوبر۱۹۹۹ء والی پوزیشن کو بحال کرنے کے لیے صرف ایک بار مؤثر ہونے والا کوئی راستہ نکالا جاسکتا ہے ۔ اس قومی مشاورت میں تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے ساتھ سپریم کورٹ کے تمام ریٹائرڈ ججوں کو شریک کیا جاسکتا ہے اور اس طرح معزز بزرگوں کی مجلس (Council of Elders ) کے مشورے سے ایک راستہ نکالا جاسکتا ہے جسے بالآخر نئی اسمبلی دستور کے تحت قانونی جواز فراہم کرسکتی ہے۔
ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ کردار سینیٹ ادا کرے جو اس وقت واحد منتخب ادارہ ہے اور جو دستور کے تحت فیڈریشن کا نمایندہ اور ترمیم دستور کے اختیارات میں شریک ہے۔ اس کے علاوہ بھی راستے ہوسکتے ہیں۔ جب کوئی ماوراے دستور اقدام ناگزیر ہی ہو تو ضروری نہیں کہ اس اقدام کے لیے فوج کے سربراہوں کو ملوث کیا جائے، یہ کام سینیٹ اور اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے بھی انجام دیا جاسکتا ہے جن کا ایک رول خود دستور میں موجود ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ پاکستان ، اس کے دستور اور اس کے مفادات کے تحفظ کی آخری ذمہ داری عوام پر آتی ہے اور اب اس سلسلے میں سب سے فیصلہ کن کردار عوام ہی کو ادا کرنا ہوگا۔ فوجی حکمرانوں اور ان کے عدالتی مشیروں اور سیاسی گماشتوں نے پاکستان کے آئین کو بازیچۂ اطفال بنادیا ہے اور قانون اور روایات سب پامال ہیں۔ ایک غلط کام پر پردہ ڈالنے کے لیے دوسرا غلط کام کرنا کب تک جاری رہے گا۔ اب اصل ضرورت عوام کی بیداری اور ۱۹۹۹ء سے اب تک دستور اور دستوری اداروں پر جو بھی شب خون مارے گئے ہیں ان کو ختم کرکے دستورکواس کی اس شکل میں بحال کرنے کی ضرورت ہے جس پر قوم کا اتفاق تھا، اور ہے۔ یہی وہ دستور ہے جسے ایک میثاقِ ملّی (National Covenant) کا مقام حاصل ہے، اور اب یہ اسی وقت ممکن ہے جب پرویز مشرف اور ان کے بنائے ہوئے نظام سے نجات پائی جائے اور قومی اتفاق کی عبوری حکومت کے ذریعے نئے الیکشن کمیشن کے توسط سے آزاد، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے ذریعے عوام اپنے نمایندے منتخب کریں اور وہ دستور اور قانون کے تمام تقاضے پورے کریں۔ نیز یہ نمایندے قوم کا اعتماد لے کر اپنے فرائض اداکریں اور خود بھی قوم کے سامنے جواب دہ ہوں تاکہ کوئی بھی اب اس قوم کی قسمت سے نہ کھیل سکے۔ اس لیے اب ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے قوم کی بیداری، اس کے تحرک اور ان کے ذریعے دستوری عمل کو پٹڑی پر چڑھانے کی مؤثر جدوجہد___ اس ملک کو حقیقی جمہوری اور دستوری نظامِ حکمرانی پر عامل ہونے، اور استعماری قوتوں کی آلۂ کار سول اور فوجی انتظامیہ کی دست بُرد سے نکالنے کے لیے عوام الناس کے پرامن اور پرجوش تحرک کے سوا کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے۔ اگر عوام متحرک نہیں ہوئے تو ملک کی بڑی بدقسمتی ہوگی کیونکہ اس درد کا درمان صرف اور صرف ملک کے عوام کے پاس ہے۔ مخلص سیاسی کارکنوں کا فرض ہے کہ مایوس ہونے کے بجاے متحرک ہوں اور یاس وقنوطیت کے بجاے ہر شہری کے دل میں امید کی شمع روشن کریں ۔
ہماری دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس ملک کی حفاظت اور استحکام کی خاطر ہرطرح کی قربانی دینے کے لیے خودبھی تیار ہوں اور عوام الناس کو بھی اس کے لیے تیار کرسکیں ۔
ترجمان القرآن ایک پیغام کا علَم بردار رسالہ ہے۔ اس پیغام کی زیادہ سے زیادہ وسیع تر حلقے میں اشاعت ہمارے قارئین کے تعاون سے ہوتی ہے۔ آیندہ سال کے لیے ۲۵ فی صد اضافے کا ہدف طے کیا ہے۔ ہر ۱۰۰ پرچوں پر ہر ماہ ۲ کااضافہ کیا جاتا رہے تو یہ ہدف حاصل ہوجائے گا۔
کیا یہ مشکل ہے؟ ناممکن ہے؟ غالباً نہیں___ تھوڑی سی توجہ اور کوشش سے یہ کیا جاسکتا ہے اور نتیجہ؟ اشاعت میں ۱۰ ہزار کا اضافہ! یعنی ۱۰ ہزار نئے افراد بلکہ گھرانوں تک دین کی دعوت اور آج کے دور میں اس کے تقاضے پورا کرنے کا پیغام پہنچے گا۔
مجھے یقین ہے کہ اگر ہمارے قارئین واقعی اس طرف توجہ دیں تو ہم ہدف سے بہت زیادہ بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
ہم نیک نیتی اور اخلاص کے کوشش کریں، اللہ ہمارا ساتھ دے گا اور ہمیں حوصلہ افزا نتائج ملیں گے، ان شاء اللّٰہ تعالٰی!
___ مدیر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دورِ جدید کی سیاسی تاریخ اور تجربات کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو جمہوریت اور آمریت کا بنیادی فرق سمجھنے میں ذرا بھی مشکل پیش نہیں آتی۔ تاہم اصطلاحات، الفاظ اور اداروں کی ظاہری شکل و صورت قدم قدم پر دھوکے اور الجھائو میں جکڑ لیتی ہے۔ اس کے باوصف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آمریت، بار بار جمہوری لبادے میں خود کو قابلِ قبول بنانے کے لیے طرح طرح کے کرتب دکھاتی رہتی ہے۔
اس سلسلے کی ایک اہم مثال تو خود انتخابات کا ادارہ ہے۔ بظاہر انتخاب کا عمل جمہوریت اور آمریت دونوں میں مشترک نظر آتا ہے۔ ہٹلر کے دور کا جرمنی ہو، یا مسولینی کی گرفت میں پھڑپھڑاتا اٹلی، اسٹالن کا روس ہو یا مارشل ٹیٹو کا یوگوسلاویہ، فرانکو کا اسپین ہو یا پنوشے کا چلی، حسنی مبارک کا مصر ہو یا موگابے کا زمبابوے___ انتخابات تو ان سب ممالک میں ہوتے رہے ہیں اور بڑے بلندبانگ دعووں اور زور و شور کے ساتھ ہوتے رہے ہیں۔ بلکہ ان ممالک میں راے دہی کا اوسط (turn-out) مغرب کے بہت سے جمہوری ممالک بشمول امریکا اور برطانیہ سے کہیں زیادہ رہا ہے مگر اس کے باوجود، ان انتخابات نے ان ممالک کو نہ جمہوری بنایا اور نہ ایسے انتخابات کو کسی نے بھی عوام کی آزادانہ مرضی کے اظہار کا ذریعہ تسلیم کیا۔
ا دستور اور قانون کو بالادستی حاصل ہوتی ہے اور کوئی بھی فرد نہ دستور اور قانون سے بالا ہوتا ہے، اور نہ اسے دستور اور قانون میں دراندازی اور ترمیم و تبدیلی یا تحریف کا کسی درجے میں بھی کوئی اختیار یا موقع حاصل ہوتا ہے۔
ب ملک میں اظہار راے، تنظیم سازی، اجتماع اور بحث و اختلاف کی آزادی ہوتی ہے، سیاسی جماعتیں برابری کی بنیاد پر سیاسی عمل میں حصہ لیتی ہیں اور عوام کے سامنے اپنا پروگرام اور اپنی کارکردگی کا میزانیہ پیش کرتی ہیں۔ ذرائع ابلاغ آزادی کے ساتھ تمام نقطہ ہاے نظر کااظہار کرتے ہیں اور قوم کے ضمیر کی حیثیت سے معلومات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ محتسب کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔
ج عدلیہ آزاد اور دستوری اختیارات سے مسلح ہوتی ہے، جو پوری مستعدی اور غیرجانب داری سے دستور کی حفاظت اور نفاذ کے ساتھ بنیادی حقوق کے باب میں ہرشہری اور ہرمظلوم انسان کی داد رسی کی ذمہ داری ادا کرتی ہے، جس کے نتیجے میں کسی کے لیے بھی فرعون بننے کا خطرہ باقی نہیں رہتا۔
د الیکشن کمیشن، انتظامیہ کی گرفت سے آزاد ہوتا ہے اور دستور کے تحت پوری آزادی اور غیر جانب داری کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے۔ الیکشن کے قواعد و ضوابط اور انتظامِ کار بھی شفاف اور ہر شک و شبہے سے بالا ہوتے ہیں اور یہ ادارہ اس کا پورا عمل برسرِاقتدار جماعت اور حزبِ اختلاف دونوں کی نگاہ میں معتبر ہوتا ہے۔
ہ جہاں اس بات کا خطرہ ہو کہ حکومت انتخابی عمل میں مداخلت کرسکتی ہے، وہاں انتخاب کے دوران غیر جانب دار عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔
اس پانچ نکاتی نقشۂ کار میں منعقد ہونے والے انتخابات کو ملک اور بیرون ملک اعتماد کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، سب اسے قابلِ بھروسہ اور قانونی و اخلاقی اعتبار سے درست تسلیم کرتے ہیں۔ اگر یہ نقشۂ کار موجود نہ ہو تو پھر انتخابات ایک ڈھونگ اور تماشے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور اس کے نتیجہ میں حکومتوں کے بننے اور بدلنے کے اس عمل میں عوام کا کردار محض ایک تماشائی کا سا بن کر رہ جاتا ہے اور خود بیلٹ بکس کا تقدس ختم اور سیاسی تبدیلی کے لیے اس کا کردار دم توڑ دیتا ہے۔
بلاشبہہ جمہوری نظام میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور پورا سیاسی عمل اسی محور کے گرد گھومتا ہے۔ نیز یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے انتقالِ اقتدار ہوتا ہے، اور عوام کی آزاد مرضی سے قیادت کا چنائو عمل میں آتاہے۔ متعین وقفوں پر ایسے ہی آزاد اور شفاف انتخابات جمہوری نظام کی پہچان ہیں۔
جماعت اسلامی پاکستان نے مارچ ۱۹۴۹ء میں دستورساز اسمبلی میں ’قرارداد مقاصد‘ کے منظور کیے جانے کے بعد سے سیاسی تبدیلی کے لیے جمہوری ذرائع اور انتخابی راستے کو اختیار کیا ہے اور وہ اس پر سختی سے قائم ہے لیکن جماعت اسلامی نے پہلے دن سے انتخابی عمل کے دستور اور قانون کے مطابق اور اس پورے عمل کو قواعد و ضوابط اور انتظامِ کار کے اعتبار سے غیر جانب دار اور شفاف ہونے کو ضروری قرار دیا ہے۔ پنجاب میں ۱۹۵۱ء سے صوبائی انتخابات سے لے کر آج تک انتخابات کی ضرورت بلکہ ان کے ناگزیر ہونے کے ساتھ ان کے صحیح ماحول میں اور صحیح طریقے سے انعقاد کو بھی لازمی قرار دیا ہے اور انتخابات کے یہ دونوں پہلوباہم مربوط اور ناقابل تفریق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں میں فرق وامتیاز اور انہیں ایک دوسرے سے بھی کاٹ دینے (de-link) کی بھرپور مزاحمت کی ہے۔
آج بھی قوم کو جو امتحان درپیش ہے، اس کا تعلق نفسِ انتخاب سے نہیں، انتخاب کے پورے نظام اور انتظامِ کار سے ہے، جس کی اصلاح کے بغیر انتخابات بے معنی ہوجاتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وقت کا آمر اور اس کے حواری انتخابی ڈھونگ رچا کر ایک فسطائی نظام کے لیے سندِجواز (legitimacy) حاصل کر لیتے ہیں، جو دستور کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے پیغامِ موت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسا عمل ملک اور قوم کو شخصی آمریت، سیاسی غلامی اور ننگے استبداد کے نظام کی جہنم میں جھونکنے کے مترادف ہوتا ہے۔ اس نظام کو چیلنج کیے بغیر اور دستوری، قانونی و انتظامی نقشۂ کار کی اصلاح کے بغیر انتخابات میں شرکت کا منطقی نتیجہ نہ صرف جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے اصول کی نفی ہے، بلکہ خود اپنے ہاتھوں سے آمریت کی زنجیروں کو مستحکم کرنا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس ناپاک اور خطرناک کھیل کا پردہ چاک کرنے کے لیے مؤثر احتجاج کی ضرورت ہے اور موجودہ حالات میں اس کا بہترین ذریعہ انتخابات میں شرکت نہیں بلکہ ان کا بائیکاٹ ہے___ واضح رہے کہ بائیکاٹ خود مطلوب نہیں، وہ احتجاج کا ایک ذریعہ ہے، تاکہ اقتدار پر قابض عناصر کے اصل عزائم کو بے نقاب کیا جاسکے اور قابل قبول انتخابات کا اہتمام ہوسکے۔
قانون کی مستند کتاب Black's Law Dictionary میں اصطلاح ’بائیکاٹ‘ کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
کسی خاص فرد یا کاروبار سے اتفاقِ راے سے معاملہ یا تجارت کرنے سے انکار تاکہ رعایتیں حاصل کی جائیں یا اُن اقدامات یا طرزِعمل سے اظہارِ ناپسندیدگی کیا جائے جو معاملات میں مستعمل ہوں۔ (ص ۱۸۹)
پینگوین کی شائع کردہ Dictionary of International Relations میں ’بائیکاٹ‘ کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے: ’’اس سے کسی ریاست یا ریاستوں کا سماجی، اقتصادی، سیاسی اور عسکری تعلقات سے منظم انکار ہے، تاکہ انہیں سزا دی جاسکے یارویے کو مطلوبہ صورت کی طرف لایا جاسکے‘‘، جب کہ اوکسفرڈ لغت براے علم سیاست اسے یوں بیان کرتی ہے: ’’ناپسندیدگی کے اظہار کے لیے وضع کردہ ایک طریقہ، مثلاً کسی اجلاس میں شریک نہ ہونا، یا کسی ملک یا کمپنی کی مصنوعات نہ خریدنا، تاکہ اُسے سزا دی جاسکے یا اُس پر پالیسی، موقف یا رویہ تبدیل کرنے کے لیے دبائو ڈالا جاسکے۔ (۱۹۹۶ئ،ص ۴۲)
تجارت ہو یا سیاست، بین الاقوامی تعلقات ہوں، یا سماجی روابط و معاملات، بائیکاٹ اظہارِ احتجاج اور مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے پُرامن ذرائع سے سیاسی قوت کے استعمال کا ایک معتبر راستہ ہے۔ نیز شدید نکتہ چینی (strictures)، پابندیاں اور بائیکاٹ سب ہی اس ترکش کے مختلف تیر ہیں۔ اسرائیل اور شمالی افریقہ کی نسل پرست اور غاصب حکومتوں کے خلاف برسوں اسے استعمال کیا گیا ہے اور اس کے قرارواقعی اثرات رونما ہوئے ہیں۔ ایران اور عراق کے خلاف بھی یہ ہتھیار استعمال ہواہے اور ہم بھی اس کا نشانہ بنے ہیں۔ خود برعظیم کی سیاسی جدوجہد میں برطانوی اقتدار کے خلاف بائیکاٹ کے ہتھیار کو بار بار استعمال کیا گیا ہے اور مکمل بائیکاٹ یا جزوی بائیکاٹ کی بحثوں میں پڑے بغیردونوں ہی شکلوں میں اس کا استعمال کیا گیا ہے، جس نے بالآخر سامراجی اقتدار کی چولیں ہلا دیں۔ اس عمل کا آغاز ۱۹۲۰ء میں ناگ پور کانگریس سے ہوا، اور اس حکمت عملی کے چار ستون تھے:
وکلا اور سیاسی جماعتیں، آج کے حالات میں ان سیاسی ہتھیاروں کو استعمال کر رہی ہیں، عدالتوں کے میدان میں بھی اور اب انتخابات کے میدان میں بھی۔ انھیں کسی اعتبار سے بھی جذباتی یا منفی اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ یہ اور دوسرے پُرامن سیاسی ہتھیار جب بھی ٹھیک طرح اور استقلال کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں، ان کے اثرات لازماً نکلے ہیں۔
البتہ جو بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے، وہ یہ ہے کہ بائیکاٹ فی نفسہٖ نہ کوئی سیاسی مقصد اور ہدف ہے اور نہ اسے مستقل حکمت عملی ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہ تو موجودہ آمرانہ نظام اور ایک غاصب گروہ کے ہاتھوں قوم کو بے دست و پا کرنے جیسے اقدامات کو قانونی تحفظ دلانے کے مذموم منصوبوں کے خلاف احتجاج کا ایک ذریعہ اور سیاسی دبائو کا وہ حربہ ہے، جس سے اس نظام کی خباثت اور اس کے ناقابلِ قبول ہونے کو ظاہر و باہر کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح ملک کو لاقانونیت، فردِ واحد کی حکمرانی اور من مانی سے نجات دلانے اور اس کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے آلۂ کار بننے کے بجاے، اس ایجنڈے کو تبدیل کر کے ایک حقیقی جمہوری اور دستوری نظام کی طرف ملک کو لانے کی کوشش ہے، تاکہ بالآخر صحیح معنوں میں آزاد، غیرجانب دار، منصفانہ اور شفاف انتخابات منعقد ہوسکیں اور ملک اور قوم جمہوریت کی طرف صحیح معنی میں پیش قدمی کرسکیں۔
ایک طرف ملک کے پورے نظامِ حکومت، دستوری انتظام، بنیادی قانون اور اداروں کو پامال کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف ستم یہ ہے کہ جمہوریت کے بڑے بڑے علَم بردار اور جمہوریت کی دعوے دار سیاسی جماعتیں صرف ’میدان دوسروں کے لیے نہ چھوڑنے‘ کا سہارا لے کر ایسے انتخابات میں شرکت کر رہی ہیں۔ یہ سب اسی ’نظریۂ ضرورت‘ کا ایک نیا اڈیشن ہے جس کی تباہ کاریاں ملک اور قوم ۱۹۵۴ء سے دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی دروبست کا حلیہ بگاڑنے کے اس عمل کا آغاز ۱۹۵۴ء میں پہلی دستورسازاسمبلی کی تحلیل اور پھر پہلے قومی انتخابات سے چند ماہ قبل اکتوبر ۱۹۵۸ء میں مارشل لا کے نفاذ سے شروع ہوا۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے نظریۂ ضرورت کے نام پر دستور کے توڑنے اور لاقانونیت کو قابل قبول قرار دے کر انہیں قانونی سندجواز دینے کے جرم کا ارتکاب کیا، اور سیاسی جماعتوں نے کمزوری دکھا کر مزاحمت کے بجاے مصالحت کا راستہ اختیار کیا۔ یہی وہ پہلی ٹیڑھی اینٹ تھی جس نے پورے قومی و قانونی ڈھانچے کو اس کی بنیادوں سے ہلاکر رکھ دیا اور پھر سیاسی نظام کی دیوار ٹیڑھی ہی اٹھتی چلی گئی۔
اسی نظریۂ ضرورت کی نئی شکل کو، پرویزی آمریت کے ایک ناقابلِ اعتبار الیکشن کمیشن اور ایک ناقابلِ قبول عبوری حکومت کے ذریعے انتخابات میں شرکت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک قوم اس ’نظریۂ ضرورت‘ سے نجات نہیں پاتی، نہ وہ اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتی ہے اور نہ جمہوریت کی روشن صبح یہاں کبھی طلوع ہوسکے گی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کے اکھاڑے میں اترنے والے بڑے بڑے پہلوان ان انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہونے کا واویلا بھی کر رہے ہیں اور اس نظام کو چیلنج کرنے کے بجاے اس میں شریک بھی ہو رہے ہیں۔ آج ہم سب امتحان کی کسوٹی پر پرکھے جا رہے ہیں۔ وقتی، ذاتی اورجماعتی مصلحتیں ایک طرف ہیں۔ دوسری طرف اصول، دستور اور نظام کی اصلاح اور خرابی کے اس عمل کو ہمیشہ کے لیے روک دینے کی خواہش اور کوشش ہے۔
جنوری ۲۰۰۸ء کے انتخابات دراصل پرویزی آمریت کے آٹھ سالہ دور کو ایک نئی شکل میں، آیندہ پانچ سالوں کے لیے وسعت دینے کا ایک منصوبہ ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس نظام کے خدوخال کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے، تاکہ قوم اور تمام سوچنے سمجھنے والے اچھی طرح جان لیں کہ اس وقت ملک و قوم کے سامنے اصل ایشو کیا ہیں؟
۱- شخصی حکومت کو دوام: اس نظام کا سب سے نمایاں پہلو عملاً ایک فرد کی شخصی حکومت کو دوام بخشنا ہے، خواہ اس پر کیسا ہی لبادہ کیوں نہ اوڑھایا جائے اور وردی زیب تن ہویا شیروانی!
پرویز مشرف کے پورے دور حکومت کا مرکزی نکتہ صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ قومی مفاد وہ ہے جسے پرویز مشرف ’قومی مفاد‘ کہیں۔ انھوں نے بار بار کہا ہے کہ نہ دستور اہم ہے اور نہ جمہوریت۔ جسے وہ ’پاکستان‘ اور ’سب سے پہلے پاکستان‘ کہتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ ’سب سے پہلے میں___ یعنی صرف پرویز مشرف! ‘
جمہوریت میں ’قومی مفاد‘ کا سب سے بڑا ترجمان قومی دستور ہوتا ہے جس پر پوری قوم کا اجماع (consensus) ہوتا ہے اور جسے بنیادی قانون کہا جاتا ہے۔ اس دستور کے فریم ورک میں قومی مفاد وہ ہے، جس کا اظہار خود قوم اپنے منتخب نمایندوںکے ذریعے کرے اور اس قومی مفاد کی کچھ لہریں عوامی جلسوں، سیاسی جماعتوں کے اظہارِ خیال، میڈیا کے ذریعے عوام کی ترجمانی اور پبلک کی راے عامہ کے دوسرے معتبر مظاہر ہیں۔ لیکن پرویز مشرف کا فلسفہ یہ ہے کہ قومی مفاد کا تعین کرنا صرف ان کا استحقاق (prerogative) ہے۔ ان کی راے اور ان کی ذات ہی دستور، قانون، ملک، جمہوریت، عدلیہ ہر چیز پر حاوی ہے۔ یہ وہی مطعون و مذموم فلسفہ ہے جس کا دعویٰ فرانس کے بادشاہ لوئی ہفتم نے کیا تھا: ’’میں قانون ہوں‘‘۔ہٹلر، مسولینی، اسٹالین، شاہ ایران، حسنی مبارک، صدام حسین سب کی ذہنیت یہی تھی۔ اور آج پرویز مشرف انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں جس کا ثبوت وہ کچھ ہے جو پرویز مشرف نے پہلے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء میں کیا اور پھر ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو جو اقدام کیا اور جس کا تازہ ترین اظہار۱۵دسمبر کے روز فردِواحد کے ہاتھوں دستور کا حلیہ بگاڑنے کے سارے عمل کو نہ صرف دستور کا حصہ قرار دے کر کیا گیا بلکہ اپنے ہی قلم سے اپنے ان تمام اقدامات کو نام نہاد ’قانونی تحفظ و جواز‘ بھی دے دیا جنھیں بین الاقوامی میڈیا کے سامنے ’غیرقانونی (illegal) اور ماوراے دستور (extra-constitutional) ہونے کا خود ہی اعتراف کیا تھا۔
گیلپ پاکستان نے ۵ اور ۶ نومبر ۲۰۰۷ء (ایمرجنسی کے لبادے میں مارشل لا ) کے دو اور تین دن بعد جو سروے کیا، وہ قوم کے جذبات کا حقیقی ترجمان ہے:
انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام کیے جانے والے راے عامہ کے جائزے کے مطابق، جو ۱۹سے ۲۸ نومبر ۲۰۰۷ء کے درمیان ہوا، یہ بتایا گیا ہے کہ بحیثیت مجموعی، ۶۶ فی صد سے لے کر ۷۵ فی صد تک آبادی مشرف ، ان کی پالیسیوں اور اقدامات کے مخالف ہے، جب کہ ان کی تائید آبادی کے صرف ایک چوتھائی تک سکڑ گئی ہے۔ ایمرجنسی کے نفاذ کے لیے مشرف کے موقف کو آبادی کے ۶۶ فی صد نے رد کیا ہے اور ان کا خیال ہے کہ یہ سارا اقدام عدلیہ کو اس خدشہ سے میدان سے ہٹانے کے لیے کیا گیا تھا کہ وہ پرویز مشرف کو صدارت کے لیے نااہل قرار دے دے گی۔ ہوا کے رخ کا اندازہ عوام کی اس راے سے کیا جاسکتا ہے جس میں انھوں نے ’ہاں‘ میں جواب دیا ہے:
’’اگرچہ اُنھوں نے باضابطہ طور پر اُس حالت کو ختم کردیا ہے جو اُنھوں نے ۶ہفتے قبل نافذ کی تھی، مگر اس کے باوجود پرویز مشرف پر تنقید کرنے کا مطلب جیل جانا ہے۔ عدالتی نظام وکلا کے بائیکاٹ کی وجہ سے مفلوج ہوچکا ہے کیونکہ مشرف نے سپریم کورٹ کے اُن ججوں کو بحال کرنے سے انکار کردیا ہے جن کو اُنھوں نے غیرقانونی طور پر برطرف کردیا تھا۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہ بارہا انتباہ کرچکے ہیں کہ صدر کا منصوبہ ہے کہ اگلے ماہ پارلیمانی انتخابات میں جعل سازی کی جائے تاکہ اُن کی اپنی پارٹی، جوبے انتہا غیرمقبول ہوچکی ہے، برسرِاقتدار رہے۔
حقیقت میں اُن کی واحد کامیابی یہ ہے کہ اُنھوں نے سپریم کورٹ کے ہاتھوں اپنی برخاستگی سے اپنے آپ کو بچایا ہے۔ اس کی قیمت یہ ادا کی گئی ہے کہ ملک کو مزید غیرمستحکم کردیا گیا ہے‘‘۔
کلدیپ نیر، مشرف صاحب کے مداح رہے ہیں، وہ اپنے مضمون میں واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے انٹرویو کی روشنی میں موصوف کی خودپسندی اور خودآرائی پر یوں اظہار کرتے ہیں:
بدقسمتی سے مارشل لا انتظامیہ کی طرف سے دستور میں بار بار ترامیم کی گئی ہیں، لیکن جس انداز سے مشرف نے اِسے مسخکیا ہے وہ سب پر بازی لے گئے ہیں۔ اُنھوں نے ایسے وقت میں عدلیہ کو برباد کردیا کہ جب اس کی آزادی کی طرف جمہوری ممالک بشمول بھارت میں رشک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا تھا۔ عدلیہ کے علاوہ مشرف نے میڈیا کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے باوجود بھی مشرف نڈر بنے ہوئے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو سے اُن کے مستقبل کے عزائم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جب اُن سے سوال کیا گیا کہ وہ وردی اُتار دینے کے بعد فرق محسوس کریں گے تو مشرف نے جواب دیا: ’’فوج کا انتظام چیف آف اسٹاف کے حوالے ہے جو اپنے کام سے انہماک رکھتا ہے اور میں پاکستان کا صدر بن جائوں گا۔ اگر دونوں ہم آہنگ رہیں تو صورت حال بہتر رہے گی‘‘۔ پھر ایک اور سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ ’’میں چیف آف اسٹاف کو مقرر کروں گا‘‘۔ اس میں وزیراعظم کا کوئی ذکر نہیں جو عوام کا منتخب نمایندہ ہے۔ ایمرجنسی کا نفاذ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ سپریم کورٹ سے اپنے آپ کو بچایا جاسکے۔ (ہندستان ایکسپریس، ۱۳ نومبر ۲۰۰۷ئ)
پاکستان میں نہ جمہوریت ہے اور نہ استحکام۔ جنرل پرویز مشرف کی یہ اُلٹی منطق ہے کہ: آرمی ڈکٹیٹر نے پاکستان کو جمہوریت عطا کی ہے اور مارشل لا کا سایہ بھی موجود ہے تاکہ دستور کی حفاظت کی جائے۔ عدلیہ پر اُنھوں نے جو تازہ ترین حملہ کیا ہے، وہ اُن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سپریم کورٹ کے انتہائی مؤثر ۱۷ میں سے ۱۲ ججوں کو یک قلم برخاست کرنا ہے۔ ان میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری گرفتار ہیں۔ ان کی جگہ فوج کے منتخب کردہ خوشامدی لگا دیے گئے ہیں۔ اسی وجہ سے جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ جمایا۔
یہ ہے شخصی حکمرانی کا وہ آہنگ، جو پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دورِ حکومت کا حاصل ہے۔ دستور مملکت جس کی پابندی کا حلف اس نے اٹھایا ہے، اس کوبار بار تارتار کرنے کا یہ انداز! مشرف صاحب جب چاہیں تلوار کی نوک سے دستور کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالیں۔جس ادارے کو چاہیں تباہ و برباد کرڈالیں، جس کی آزادی چاہیں سلب کرلیں، بیرونی حکومتوں سے جو چاہیں عہدوپیماں کرلیں، اپنی ملازمت میں جب چاہیں اور جن مراعات کے ساتھ چاہیں توسیع کرلیں، عدالتِ عالیہ کے جس جج کو چاہیں گردن دبوچ کر باہر نکال دیں، میڈیا پر جب چاہیں من پسند قدغنیں عائد کردیں اور دستور کا حلیہ بگاڑ کر اپنے اقدامات کو خود ہی تحفظ بھی دے ڈالیں___ یہ ہے اس شخص کا طرزِ حکمرانی۔ کیا اس طرزِ حکمرانی میں جمہوریت، قانون کی بالادستی اور اداروں کے استحکام اور انتخابات کے ذریعے سیاسی قیادت کی تبدیلی کا کوئی تصور کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بالغ نظر سیاسی رہنما ہوں یا بار اور بنچ (Bar & Bench)کے سوچنے سمجھنے والے عناصر___ سب یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ پرویزمشرف کسی بھی صورت میں منظور نہیں، خواہ وردی میں ہو یا وردی کے بغیر۔ اور عدالتِ عالیہ کو اسی فیصلہ سے روکنے اور اپنی ذات کو ملک پر مسلط کرنے کے لیے ایمرجنسی اور عبوری دستور جو دراصل پرویزی دستور ی آرڈر (PCO) تھا، اس کا راستہ اختیار کیا گیا۔ اسی پی سی او کو اب پوری عیاری سے دستور کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور انتخابات کا ڈراما اسی کے تحت اسٹیج کیا جارہا ہے۔
۲- ملکی آزادی اور خودمختاری پر زد: پرویزی تلوار کی دوسری زد ملک کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری پر پڑی ہے۔ دوسرے ممالک، خصوصیت سے امریکا اور اس کے زیراثر ممالک، جس درجے میں اور جس نوعیت کی مداخلت کا نشانہ آج پاکستان کو بنا رہے ہیں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ قائداعظم نے تو لارڈ مائونٹ بیٹن تک کو عارضی طور پر گورنر جنرل ماننے سے انکار کردیا تھا۔ جب اس وقت کی پاکستانی فوج کے برطانوی کمانڈر نے سربراہ ِ مملکت کے احکام ماننے میں تردّد کا راستہ اختیار کیا تو ان سے بھی خلاصی حاصل کرلی گئی، لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ امریکا کے سفارت کار وائسراے کا سا مقام حاصل کرچکے ہیں۔ ان کے تیسرے درجے کا افسر بھی صدرِ مملکت، فوج کے سربراہ، آئی ایس آئی کے چیف اور جس سطح کے حکام سے چاہیں ملاقات کرتے ہیں اور احکام جاری کرتے ہیں۔ صدر بش سے لے جارج گیٹس تک کھلے الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ: ہم جب ضرورت سمجھیں گے پاکستان کی سرزمین پر اپنے اہداف کے حصول کے لیے بلاواسطہ فوجی کارروائی کریں گے___ اور وہ صرف یہ دعویٰ ہی نہیں کر رہے، بلکہ عملاً متعدد بار افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج پاکستان کی حدود میں کارروائیاں کرچکی ہیں اور پرویزمشرف کی حکومت کو احتجاج کی توفیق بھی نہیں ہوئی بلکہ چند مواقع پر تو غیرت و حمیت کو دفن کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا گیا:’’ وہ کارروائی امریکا نے نہیں خود ہم نے کی تھی‘‘۔
بات صرف دہشت گردی کے خلاف امریکا کی نام نہاد جنگ اور اس میں پاکستان کے کردار تک محدود نہیں، معاشی پالیسیوں سے لے کر تعلیمی پالیسی تک اور اس سے بھی بڑھ کر اب پاکستان کے لیے مستقبل کی قیادت کا اصل انتخاب اور ان کی ’رسم تاج پوشی‘ تک واشنگٹن کے دستِ شفقت کے ذریعہ ہو رہی ہے۔ پرویز مشرف کو کن کن کے ساتھ اشتراکِ اقتدار کرنا چاہیے اور امریکا کے چہیتوں کو ملک میں لانے اور اقتدار کے منصب تک پہنچانے کے لیے ان کے کن کن جرائم کو معاف کرنا اور قومی مصالحت کے نام پر کرپشن کے کن کن داغوں کو دھونے اور ملک اور ملک سے باہر مقدمات کو واپس لینا ہے؟ یہ بھی امریکا اور اس کے گماشتوں کے اشاروں پر طے ہو رہا ہے۔ امریکا ہی نہیں اب تو یورپ اور شرق اوسط کے سفرا بھی ملکی سیاست کے دروبست کو اپنے ڈھب میں ڈھالنے میں مصروف ہیں۔ امریکا نے ۲۰۰۷ء میں ایک نہیں بلکہ دو ایسے قوانین دونوں ایوانوں سے پاس کرالیے ہیں، جن کے تحت پاکستان کو دی جانے والی امداد کو صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ ہی نہیں، بلکہ ملک کی اندرونی سیاست، تعلیم اور سب سے بڑھ کر ملک میں سیکولرزم اور امریکا کی دل پسند ’روشن خیالی‘ کے فروغ سے مشروط کردیا گیا ہے۔ پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کی غیرت نے اس ظلم یا بہ الفاظ صحیح تر غلامی کو بھی گوارا کرلیا ہے اور اس لیے کرلیا ہے کہ تاکہ ہرسال چند سوملین ڈالر حاصل ہوتے رہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ بڑے ہی اہم امور پر اب ہماری خارجہ سیاست کی صورت گری امریکا اور بیرونی قرضے اور امداد دینے والے ادارے کر رہے ہیں۔ بھارت سے دوستی، کشمیر کے مسئلے پر یو ٹرن اور کشمیر کی تحریک مزاحمت سے بے وفائی، اسرائیل سے پینگیں بڑھانے کا خطرناک اور شرمناک کھیل بھی اسی قوم فروشی کے مظاہر اوراس میں پرویز مشرف اور خورشید محمود قصوری کے ساتھ بے نظیر بھٹو بھی اپنے اپنے انداز میں اور ’حسب توفیق‘ امریکا اور اسرائیل کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے شریک ہیں۔
یہ صرف پرویز مشرف کے دور میں ہوا ہے کہ پاکستان کے وزیرخارجہ نے اسرائیل کے وزیرخارجہ سے ملاقات کی ہے۔ پرویز مشرف نے امریکن جیوش کانگرس سے نہ صرف خطاب کیا ہے، بلکہ اسرائیل سے سلسلۂ کلام شروع کرنے اور اسرائیل اور فلسطینی قیادت کے درمیان کردار اداکرنے کی باتیں کی ہیں۔ پاکستان نے ۶۰سال میں پہلی بار اقوام متحدہ میں اسرائیل کے پیش کردہ ریزولیوشن کے حق میں ووٹ دیا ہے، جب کہ ان عرب ممالک نے بھی، جو ضمیر کا سودا کرکے اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں، اس راے شماری کے دوران غیرحاضر رہنے کو ترجیح دی ہے۔ پاکستانی اخبارات میں یہ خبر شائع ہونے نہیں دی گئی کہ نومبر ۲۰۰۷ء میں جان نیگروپونٹے کے دورۂ پاکستان اور پرویز مشرف سے ملاقات سے چند دن پہلے امریکی جیوش کانگرس کی ورلڈ جیوری کے چیئرمین جیک روزن نے خاموشی اور رازداری سے پاکستان کا سفر کیا اور وہ پرویز مشرف صاحب کے علاوہ اس وقت کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف جنرل کیانی اور کئی مرکزی وزرا اور اعلیٰ سرکاری حکام سے ملا۔ اس نے امریکا جاکر امریکی لابی کو پرویز مشرف کے حق میں متحرک کرنے کی کوشش کی۔ اس کی تفصیلی رپورٹ یہودی روزنامے Foreward میں شائع ہوئی ہے، جو ۲۱ نومبر ۲۰۰۷ء کے شمارے میں دیکھی جاسکتی ہے۔ (www.foreward.com/articles/12080)
بے نظیر صاحبہ بھی اسرائیلی صدر شیمون پیریس سے اور اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر سے بنفس نفیس ملی ہیں اور اقتدار میں آکر اسرائیل کوتسلیم کرنے کے اشارے بھی دے رہی ہے اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو ’ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی‘ (IAEA) کے حوالے کرنے کے عزائم کا بھی اظہار کر رہی ہیں۔
پرویز مشرف اور ان کے حالیہ اور مستقبل کے شریک اقتدار کس کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں اور امریکا کی خوش نودی کے لیے ملک کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری پرسمجھوتوں کو کہاں تک لے گئے ہیں، اس کا پورا اندازہ شاید ان کے اقتدار سے رخصت ہوجانے کے بعد ہی ہوسکے!
۳- نظریاتی اور دینی تشخص کا مجروح ھونا: پرویزی دور کا تیسرا تحفہ ملک کے نظریاتی، دینی اور اخلاقی تشخص کا بری طرح مجروح ہونا ہے۔ مغربی تہذیب و تمدن سے شیفتگی، تعلیم میں سیکولر ازم کا فروغ اور پوری اجتماعی زندگی میں عریانی اور فحاشی کی کھلی چھوٹ کی جو کیفیت آج ہے،پہلے کبھی نہ تھی۔ زندگی کے ہرشعبے کی سیکولر بنیادوں پر تشکیل کی جارہی ہے۔ رواداری اور معروضیت کے نام پر دینی تعلیمات، تہذیبی اقدار، اُمت کے جداگانہ تشخص، اپنے اخلاقی نظام اور رسم و رواج سب کو پامال کیا جا رہا ہے۔ جس قوم کی نئی نسلیں اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ سے واقف نہیں ہوںگی اور ان پر فخر نہیں کریں گی، وہ اپنی آزادی کو کیسے برقرار رکھ سکیں گی اور دنیا پر اپنا نقش کیسے قائم کرسکیں گی۔
بات صرف اس تہذیبی انتشار تک محدود نہیں۔ قوم جو پہلے ہی فرقوں میں بٹی ہوئی تھی، اس میں فرقہ واریت بلکہ فرقہ وارانہ تصادم کو فروغ دینے کا کھیل بھی کھیلا جا رہا ہے۔ اس میں بیرونی ممالک اور ان کے گماشتے (افراد اور این جی اوز) اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ تو قوم کی دینی بصیرت اور دینی جماعتوں اور خصوصیت سے متحدہ مجلس عمل کا کارنامہ ہے کہ فرقہ واریت کی آگ نہ پھیل سکی، ورنہ امریکی پالیسی سازوں اور ملکی ایجنسیوں نے اس آگ کو بھڑکانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی تھی۔
پرویز مشرف نے قوم کو انتہا پسندوں اور روشن خیالوں میں تقسیم کرکے اور ان کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے کی بھی بہت کوشش کی ہے، اور اس طرح ملک میں نظریاتی کش مکش کو فروغ دینے کی امریکی حکمت عملی کو آگے بڑھانے میں بڑا خطرناک کردار اداکیا ہے۔ اختلاف راے خواہ سیاسی ہو یا مذہبی اور نظریاتی، ہر معاشرے کا حصہ ہے اور افہام و تفہیم اور بحث و مذاکرے کے ذریعے ہی فکرانسانی کی ترویج ہوتی ہے۔ مہذب معاشرے کی بنیاد فکرونظر کے تنوع پر ہے اور اسی سے زندگی میں حُسن اور ترقی کے راستے پھوٹتے ہیں ؎
گل ہاے رنگ رنگ سے ہے زینتِ چمن
اے ذوق، اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
ہاں یہ ضروری ہے کہ اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش نہ ہو، تشدد اور قوت کا استعمال نہ کیا جائے ( لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن)۔ لیکن حدود کے اندر اختلاف اور تنوع کو انتہاپسندی اور روشن خیالی کانام دے کر، لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنا تباہی کا راستہ ہے۔ کسی کی نگاہ میں کیا انتہاپسندی ہے اور کیا روشن خیالی___ یہ حکمران طے نہیں کریںگے، قوم کا ضمیر ہی اس کا فیصلہ کرے گا۔ رواداری ضروری ہے مگر امریکا کے ایجنڈے کے مطابق مسلمان معاشرے اور قوم کو انتہاپسندی اور روشن خیالی کے نام پر تقسیم کرنا اور تصادم کی فضا بنانا، اپنی قوم کے ساتھ ظلم ہے اور یہ بھی پرویزی دور کا ایک تباہ کن تحفہ ہے اور خود انتہاپسندی اور جبر کی قوت سے اپنی بات دوسروں پر مسلط کرنے کی بدترین مثال ہے۔
۴- اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش: چوتھا کارنامہ اس دور کا یہ ہے کہ ایک ایک کر کے ملک کے تمام اداروں کو کمزور، مضمحل بلکہ تباہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور صرف اپنی ذات کو استحکام کا ذریعہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا نشانہ دستور بنا، پھر سیاسی جماعتوں کی باری آئی۔ الیکشن کے نظام کو صدارتی ریفرنڈم اور پھر ۲۰۰۲ء کے قومی اور صوبائی انتخابات کے موقع پر من مانی اور ایجنسیوں کی دراندازی کی آماج گاہ بنا دیا گیا۔
ہم نے دل کڑا کر کے یہ صورت حال بیان کی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پرویزی دور میں ریاست کے تمام ہی ادارے مجروح اور متزلزل ہوچکے ہیں گویا ؎
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
۵- وفاق کا کمزور ھونا: اس دور کا پانچواں تحفہ فیڈریشن کی کمزوری ہے۔ اولین دومارشل لا، وہ تاریک ادوار ہیں، جب مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں بے اعتمادی اور مغائرت واقع ہوئی اور بالآخر بھارت نے اپنی پاکستان دشمنی میں اس کا فائدہ اٹھایا اور قائداعظم کا پاکستان دولخت ہوگیا۔ مشرف کے مارشل لا میں مرکز اور صوبوں کے درمیان بے اعتمادی اور دُوری کی نئی لہر اُبھری ہے اور خصوصیت سے بلوچستان اور سرحد کے صوبوں میں مرکز گریز رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ اکبربگٹی جو اپنی قوم کا سردار ہی نہیں تھا بلکہ بلوچستان میں فیڈریشن کا نمایندہ بھی تھا، فوج کے ہاتھوں قتل ہوکر مرکز کے خلاف نفرت کا عنوان بن گیا ہے۔ اصلاحِ احوال کی ہرکوشش کو حکمران ٹولے نے سبوتاژ کیا اور بلوچستان اور صوبائی مفاہمت کے لیے پارلیمانی کمیٹی نے جو محنت کی، وہ سب رائیگاں گئی۔ صوبوں کو ان کے وسائل پر اختیار حاصل نہیں ہے اور دستور کے مطابق جو رائلٹی اور ملازمتوں میں حصہ انہیں ملنا چاہیے، وہ نہیں مل رہا، اور سارے دعووں کے باوجود حالات میں سرِمو فرق واقع نہیں ہو رہا۔ مرکز کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ وزیراعظم اور صوبائی حکومت کے باہم اتفاق راے سے بجلی کے نفع میں صوبہ سرحد کے حق کے تعین کے لیے جو ثالثی ٹربیونل بنا تھا اور جس کا متفقہ اوارڈ آیا، اس تک پر عمل نہیں کیا گیا۔
۶- حقیقی معاشی ترقی سے محرومی: اس دور کا چھٹا تحفہ یہ ہے کہ معاشی اور مالیاتی وسائل کا جو سیلاب آیا اور کسی محنت اور پالیسی کے نتیجے کے بغیر ۶۵ ارب ڈالر کی جو مالی کشادگی حاصل ہوئی، اسے حقیقی معاشی ترقی اور عوام کی خوش حالی کے حصول کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔ معاشی ترقی کا سارا رخ آبادی کے ۱۰سے ۱۲فی صدطبقات کے لیے مخصوص کردیا گیا۔ باقی ملک کی عظیم اکثریت کے حصہ میں جو کچھ آیا ہے وہ بے روزگاری، افراطِ زر، اشیاے ضرورت کی کمیابی، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کا فقدان، زراعت کی ضرورتوں سے اغماض، تجارتی اور ادایگیوں کے عدم توازن میں ناقابلِ برداشت اضافہ، بیرونی دنیا پر انحصار کی محتاجی، ملکی اور بیرونی قرضوں میں بڑھوتری اور معیشت اور زندگی کی ہر سطح پر کرپشن میں محیرالعقول اضافہ___ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے اور ۸۰فی صد آبادی کے لیے حالات میں کوئی تغیر نہیں ہوا یا مزید خراب ہوگئے۔
پلاننگ کمیشن کا وہ سروے جس کی بنیاد پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ غربت میں کمی ہوئی ہے اس میں یہ صورت حال سامنے آئی ہے کہ آبادی کے ۵۰ فی صد کا دعویٰ ہے کہ اس کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ ۲۸ فی صد آبادی کہتی ہے کہ ہمارے حالات بدتر ہوگئے ہیں اور جن کی حالت کسی درجے میں بہتر ہوئی ہے، وہ بمشکل ۲۰ سے ۲۳ فی صد ہے۔اس میں بھی اوپرکے ۱۰ فی صد ہی اصل فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ یہی بات عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کے سروے سے معلوم ہوتی ہے۔گویا معاشی ترقی کے سارے دعووں کے باوجود اس دور کا اصل تحفہ غریبوں کا غریب تر ہونا اور امیروں کا امیر تر بن جانا ہے۔
۷- فوجی مداخلت کا دائرہ اثر بڑہانا: پرویزی دور کا ساتواں تحفہ سیاست میں فوج کی مداخلت اور فوج کو سیاست، معیشت، انتظامیہ غرض ہر اہم شعبے میں ایک باقاعدہ رول اداکرنے کی کوشش ہے، جس نے دستور میں طے کردہ نظامِ کار کو درہم برہم کردیا ہے، اور فوج کے بارے میں جو تاثر عام ہے وہ سابق خارجہ سیکرٹری ڈاکٹر تنویراحمد خان کے ایک حالیہ مضمون میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:
مسلح افواج پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ۲۰ ارب ڈالر کے برابر اثاثوں اور ایک کروڑ ۲۰لاکھ ایکڑ اراضی کی مالک بن چکی ہے۔ چنانچہ وہ بدعنوانی کے معاملات میں سب سے زیادہ نمایاں ہوچکی ہے۔
اس جلتی پر تیل کا کام پرویزمشرف کے اس فلسفے نے کیا ہے کہ ملک میں اقتدار کے تین سرچشمے ہیں: صدارت، فوج کا سربراہ اور وزیراعظم جسے وہ Troika (تکونی حکمرانی) کہتے ہیں۔ وہ ان کے درمیان یک رنگی کو استحکام کی شرط قرار دیتے ہیں۔ اپنے اس فلسفے کا اظہار وہ بار بار کرتے رہے ہیں، لیکن اس کا تازہ ترین اعلان واشنگٹن پوسٹ اور بی بی سی کو انٹرویو میں کیا ہے۔ حالانکہ پارلیمانی جمہوریت میں اقتدار کا مرکز اور محور پارلیمنٹ اور ان کا منتخب کردہ وزیراعظم ہوتا ہے۔ دستور کے تحت صدر کو غیرمتنازع شخصیت کا حامل ہونا چاہیے اور وہ فیڈریشن کی علامت ہے کسی حکمرانی کی تکون کا حصہ نہیں۔
رہی فوج تو دستور کے تحت وہ سول حکومت کے ماتحت ہے، خود مرکز اقتدار نہیں۔ بلاشبہہ ’نگرانی اور توازن‘ (checks and balances )کا نظام دستوری حکومت کا خاصہ ہے، لیکن ’نگرانی اور توازن‘ کا یہ نظام مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات کے ذریعے کارفرما ہوتا ہے۔ اس میں صدر اور فوج کا کوئی آزادکردار نہیں۔ پرویز مشرف کے ’تکونی حکمرانی‘ کے تصور نے دستور کے طے کردہ نظام کو جس پر قوم کا اتفاق راے ہے اور جو ایک معاہدۂ عمرانی کی حیثیت رکھتا ہے، درہم برہم کردیا ہے اور دراصل انتشار کی یہی اصل وجہ ہے۔ پرویز مشرف کی موجودگی میں دستور اپنی اصل شان میں کارفرما ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لیے اصل مسئلہ دستور کی بحالی، عدلیہ کی ۲نومبر ۲۰۰۷ء کی حیثیت میں بحالی اور فوج کو دفاع تک محدود کرنا ہے جس کے لیے پرویز مشرف کے تصور حکمرانی کو مکمل طور پر رد کرنا اور جو بھی اس کا داعی ہو اس کو اقتدار سے فارغ کرنا ضروری ہے۔
ا- دستور میں ایسی تبدیلیاں، جن کے نتیجے میں یہ دستور پارلیمانی جمہوریت کے بجاے صدارتی اور شخصی حکمرانی کی راہ ہموار کرسکے اور کوئی ان پر گرفت کرنے والا نہ ہو۔ خصوصیت سے آزاد عدلیہ کو تباہ کرکے اپنے نامزد ججوں پر مشتمل ایسی عدلیہ کو وجود میں لانا، جو موم کی ناک ہو اور ان کے ہراقدام پر مہرتصدیق ثبت کرنے والی ہو۔
ب- عبوری حکومت اور تابع فرمان الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کے ذریعے ایسی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب جو ان کے احکام کے مطابق خدمت انجام دے سکیں۔آج خود پرویز مشرف کے اپنے سیاسی وجود کا انحصار ان کی مفید مطلب پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے وجود میں آنے پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گئی ہے۔
ج- امریکا اور مغربی اقوام سے اپنے لیے ’نئی زندگی اور ہنگامی غذا‘ کا حصول۔ اس سلسلے میں صدربش اور کونڈولیزارائس نے بالکل کھل کر تائید کردی ہے۔ بش نے ایک بار پھر پرویز مشرف کو جمہوریت پسندی کا سرٹیفیکیٹ جاری کیا ہے۔ امریکی نائب وزیرخارجہ بائوچر نے صاف کہا کہ انتخابات بے عیب نہیں ہوں گے، لیکن اس کے باوجود امریکا کے لیے قابلِ قبول ہوں گے (flawed but acceptable)۔ برطانوی ہائی کمشنر نے صراحت سے کہہ دیا ہے کہ عدلیہ کا مسئلہ پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے اور گویا عدلیہ کی آزادی اور عدلیہ کی ۲نومبر کی پوزیشن میں بحالی دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ دراصل مشرف صاحب کی شخصی آمریت کے جاری رہنے کی راہ میں سب سے بڑا خطرہ ایک تو عوامی غیظ و غضب ہے اور اس کے بعد عدلیہ کی اس شکل میں بحالی ہے جو ۲نومبر ۲۰۰۷ء کو وجود تھی اور جس عدلیہ نے دستور سے ماورا اقدامات پر احتساب کا عمل شروع کردیا تھا۔ نیز انتخابات میں دھاندلی (رگنگ) کے ذریعے من پسند (انجینیرڈ) نتائج حاصل کرنے کی راہ میں بھی سب سے بڑا خطرہ وہی عدلیہ تھی، جس نے اپنی آزادی کے مقام کو پہچان لیا تھا۔شخصی حاکمیت کے لیے دستور کی ایک محافظ عدلیہ ناقابلِ برداشت تھی، اور ہے۔ اس کا بڑا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے امریکا اور مغرب کے حکمران محض اپنے اپنے مفادات کے کھیل میں عدلیہ کی بحالی کے باب میں خاموش ہیں، اور ملک کی وہ تمام سیاسی قوتیں جو یا پرویز مشرف کے ساتھ شریکِ اقتدار رہی ہیں یا شرکت کی توقع رکھتی ہیں وہ بھی خاموش ہیں، یا کہہ مکرنیوں سے کام لے رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کا معاملہ اس سلسلے میں سب سے زیادہ مخدوش ہے ۔ ایک طرف بے نظیرصاحبہ سے ۷نومبر کو جب مشرف کی اہلیت اور نئے آرڈی ننس جیسے اہم مسائل کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’’میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ گرفتار شدہ عدلیہ اس مسئلے کا فیصلہ کرے اورجو فیصلہ بھی وہ کرے وہ اسے قبول کرلیں گی‘‘۔
پھر ۱۱نومبر کو بے نظیر صاحبہ ، سپریم کورٹ کے ججوں کے رہایشی علاقے میں گئیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے نہ مل سکیں، مگر برملا کہا:
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور وہ تمام جج حضرات جنھوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا ہے، ان کو بحال کردیا جائے اور اُن کی نظربندی کے احکامات واپس لیے جائیں۔
مگر پانچ چھے روز بعد ۱۶ نومبر ۲۰۰۷ء کو ایک سیاسی زلزلہ آیا۔ جان نیگرو پونٹے پاکستان پر نازل ہوئے۔ ۱۷ نومبر کو انھوں نے بے نظیر صاحبہ سے ٹیلی فون پر بات کی اور پھر عدلیہ کی بحالی پر ان کا موقف تبدیل ہوگیا، بلکہ چارٹر آف ڈیمانڈ کے لیے بھی سب سے اہم اختلافی نکتہ یہی بن گیا کہ پیپلزپارٹی عدلیہ کی آزادی کی بات تو کرتی ہے مگر بحالی کو قبول نہیں کرسکتی اور بالآخر ۱۳ دسمبر کو انھوں نے کراچی میں برملا کہہ دیا:
جج حضرات آتے جاتے رہتے ہیں___جسٹس سلیم الزمان صدیقی اور ناصراسلم زاہد کی طرح جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا۔ اگر کوئی جج سیاست کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی جماعت بنا لے۔
یہ ہے وہ دل خراش داستان، جسے سمجھے بغیر انتخابات میں شرکت اور بائیکاٹ کے درمیان انتخاب کے فیصلہ کن رویہ کے بہت سے پہلو واضح نہیں ہوتے۔ پرویز مشرف کا ایجنڈا اور سیاسی جماعتوں میں سے کچھ کے بدلتے ہوئے موقف، اپنے اندر غوروفکر کے بہت سے گوشے رکھتے ہیں۔
پرویز مشرف کے اقتدار کے بچائو اور تسلسل کے عزائم کی تکمیل کا انحصار صرف ان تین چیزوں پر ہے، جس کا ہم بار بار ذکر کر رہے ہیں:
۱- عدلیہ ان کی تابع مہمل رہے، جو اسی وقت ممکن ہے جب ۲ نومبر کی عدلیہ بحال نہ ہو اور پرویز مشرف کے بنائے ہوئے دستوری عفریت (constitional monstocity)کو تحفظ حاصل رہے۔
۲- انتخابات کی منصوبہ بند دھاندلی (انجینیرڈ رگنگ) کے ذریعے ان کے مفیدمطلب پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں وجود میں آجائیں۔
۳- امریکا اور مغربی اقدام کی تائید انھیں حاصل رہے۔
اس تجزیے کا ناقابلِ انکار منطقی تقاضا یہ ہے کہ ایسے انتخابات کے جال میں نہ پھنسا جائے، جو اس ایجنڈے کی تکمیل میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اور ساری توجہ اس پر مرکوز کی جائے کہ:
۸ جنوری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے بارے میں ملک کی ہر جماعت ماسواے مشرف حکومت کے سابقہ شرکا برملا اظہار کر رہی ہے کہ انتخابات کے آزاد اور منصفانہ ہونے کا کوئی امکان دُور دُور تک نہیں۔ حد یہ ہے کہ پرویزی جماعتوں میں سے بھی کچھ چیخ اُٹھی ہیں، جیساکہ مسلم لیگ فنکشنل پنجاب کے صوبائی صدر احمدمحمود کا بیان ہے جس میں انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی اس وقت بھی عملاً وزیراعلیٰ کے طور پر کام کر رہے ہیں اور پوری انتظامی مشینری ان کے زیرتصرف ہے۔ اس پر دی نیشن نے اپنے ادارتی کالم میں یوں اظہار کیا ہے:’’احمد محمود کے بیان کا خصوصی وزن ہے کیونکہ اُن کی پارٹی صدر مشرف کی حمایت کر رہی ہے‘‘۔
تقریباً تمام عوامی سروے یہی صورت حال پیش کرتے ہیں، انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہوسکتے، اور بائیکاٹ ہی وہ راستہ ہے جس سے بالآخر انتخابات کو آزاد اور شفاف بنانے کا کوئی امکان ہوسکتا ہے۔
آئی آر آئی کے سروے کے مطابق ۶۶ فی صد عوام کی راے میں ایمرجنسی کے نظام تلے انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہوسکتے۔ گیلپ پول کے مطابق ۵۶ فی صد لوگ ۸ جنوری کے انتخابات کے بائیکاٹ کے حق میں ہیں، جب کہ ۴۱ فی صد کا خیال ہے کہ الیکشن میں حصہ لینا چاہیے۔ آئی آر آئی کے سروے کے مطابق ۶۲ فی صد افراد نے بائیکاٹ کے حق میں راے دی جب کہ ۳۷ فی صد نے اس کے خلاف راے دی۔ لطف کی بات ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ ن دونوں کے حامیوں میں بائیکاٹ کے حق میں راے دینے والوں کی تعداد ۷۴ فی صد تھی۔ آئی آر آئی کے سروے میں ۷۲ فی صد نے پرویز مشرف کے خلاف ووٹ دینے کا عندیہ ظاہر کیا ہے کہ ان میں سے بھی ۶۱ فی صد بہت سختی سے پرویز مشرف کے دوبارہ منتخب ہونے کی مخالف ہیں جبکہ ۶۷فی صد کی خواہش ہے کہ مشرف فوری طور پر مستعفی ہوجائیں۔ عوام پرویز مشرف اور بے نظیر صاحبہ کے اشتراک اقتدار کے بھی خلاف ہیں اور اس سروے میں۶۰ فی صد نے مشرف اور بے نظیر کی مفاہمت کی مخالفت کی ہے۔
جوں جوں ۸جنوری قریب آرہی ہے دھاندلی کے الزامات میں قوت آتی جارہی ہے۔ بدھ کے روز نیویارک میں قائم حقوق گروپ نے کہا کہ آزاد اور شفاف انتخابات ممکن نہیںہوں گے، کیونکہ حکومت نے ججوں اور وکیلوں پر کریک ڈائون کیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ایمرجنسی کے اُٹھا لیے جانے کے بعد کئی جج اور وکیل ابھی تک گرفتار ہیں۔ یہ تو ایک غیرملکی گروپ کے خیالات ہیں لیکن سیاسی جماعتیں بھی ہر روز اس خوف کا اظہار کر رہی ہیں کہ ۸جنوری کے انتخابات میں دھاندلی ہوگی۔(روزنامہ ڈان، ایڈیٹوریل ۲۱ دسمبر ۲۰۰۷ئ)
سیاسیات کے پروفیسر محمد وسیم نے لکھا: ’’اس پر کم و بیش اتفاق راے پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں ۸ جنوری ۲۰۰۸ء کو ہونے والے انتخابات اپنی نوعیت کے لحاظ سے ’مذاق‘ ہوں گے‘‘۔(روزنامہ ڈان، ۱۲ دسمبر ۲۰۰۷ئ)
واشنگٹن پوسٹ ۱۲ دسمبر ۲۰۰۷ء میں گریفے ود ھ(Griffe Withe) نے لکھا ہے کہ: ’’آزاد ماہرین کا خیال ہے کہ اس کے بہت کم امکانات ہیں کہ انتخابات آزادانہ یا منصفانہ ہوں، نیز یہ کہ انتخابی نتائج کو تبدیل بھی کیا جاسکے گا اور ان کو عدالتوں میں چیلنج بھی نہ کیا جاسکے گا‘‘۔
تمام اہم اخبارات و رسائل بشمول وال اسٹریٹ جرنل، دی گارڈین، بوسٹن گلوب، دی اکانومسٹ، فارن پالیسی بیک زبان انتخابات کے دھاندلی زدہ اور ناقابلِ اعتماد ہونے کی بات کر رہے ہیں اور یہی بات بے نظیر بھٹوصاحبہ اور نواز شریف صاحب بھی کہہ رہے ہیں۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی واضح بات کے باوجود انھوں نے اپنی ہی قائم کردہ کمیٹی کے مرتب کردہ چارٹر آف ڈیمانڈ کو کیوں نظرانداز کردیا جو انتخابات کو منصفانہ اور شفاف بنانے کے لیے تقریباً متفقہ طورپر تیار کیا گیاتھا ، اور آنکھیں بند کرکے انتخابات میں کود پڑے، اور اس تاریخی موقع کو ضائع کردیا جو بائیکاٹ کی شکل میں پرویز مشرف کے پورے کھیل کا پردہ چاک کرنے کا ان کو حاصل تھا۔
ہماری بحث کا حاصل یہ ہے کہ غلط نظام کے تحت دھاندلی زدہ انتخابات میں شرکت سے یا اس کے بعد بننے والی اسمبلی کے ذریعہ نظامِ کار کی درستی کا کوئی امکان نہیں، انتخابات کے بعد تبدیلی کا خیال محض ایک واہمہ ہے، کہ بار بار کے تجربوں کے بعد بھی ہماری سیاسی جماعتوں کی آنکھیں ابھی تک نہیں کھلیں، اور ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جانے کے لیے وہ بے چین ہیں۔ معیاری صورت صرف بائیکاٹ کی ہے، لیکن اس زریں موقع کو بیش تر سیاسی جماعتوں نے اقتدار میں شرکت کے خواب، یا اپنے جوشیلے کارکنوں کے دبائو میں ضائع کردیا۔ حالانکہ اے پی ڈی ایم،ججوں کی بڑی تعداد، پوری لیگل کمیونٹی اور سول سوسائٹی کے ذمہ داروں کے علاوہ آزاد سیاسی تجزیہ نگاروں نے بھی بروقت متنبہ کردیا تھا کہ یہ الیکشن دھوکہ ہوں گے اورصرف تماشے (fair) کے معنی میں فیئر ہوسکتے ہیں! اس لیے کہ اب آزاد عدلیہ کے بغیر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے منعقد ہونے یا انتخابی بے ضابطگیوں اور غلط کاریوں کے سدباب کی کوئی سبیل نہیں ہوسکتی۔
ہمیں اعتراف ہے کہ یہ بڑا نازک اور مشکل مرحلہ تھا اور بلاشبہہ دونوں طرف کچھ نہ کچھ دلائل اور سیاسی مصالح موجود ہیں۔ لیکن اس تاریخی لمحہ میں اصل انتخاب تو اصول اور مصلحت کے درمیان ہے۔ قوم کے سامنے مسئلہ ان دونوں میں سے کسی ایک راستے کو منتخب کرنے کا ہے۔، ہمیں خوشی ہے کہ اے پی ڈی ایم کی بیش تر جماعتوں نے اصول کی سیاست کو، مفاد کی سیاست پر ترجیح دے کر قوم کے سامنے ایک ایسی متبادل سیاست کی راہ کو روشن کردیاہے، جس کی تمنا تو ۶۰سال سے کی جارہی تھی، مگر اس طرف مؤثر اور قابلِ لحاظ قوت کے ساتھ پیش قدمی نہیں ہو پارہی تھی۔ نظریۂ ضرورت کی گرفت سے نکلنا آسان نہیں تھا اور انتخابی حلقے کے دبائو (pressure) سے بالا ہوکر ملک اور قوم کی قسمت اور مستقبل کے ایک اصولی نقشے کے مطابق تعمیر کے جاں گسل راستے کی طرف پیش رفت کا فیصلہ بھی آسان نہیں تھا ___ لیکن وقت کی اصل ضرورت یہی تھی کہ وقتی فوائد کے مقابلے میں قوم کو اس کام اور جدوجہد کے لیے تیار کیا جائے جس کے بغیر اصول، انصاف اور حق پرستی پر مبنی نظامِ سیاست وجود میں نہیں آسکتا یہ فیصلہ انشاء اللہ ملکی سیاست میںایک بالکل نئے باب کے اضافے کا موجب ہوگا۔
جن جماعتوں نے بائیکاٹ کا راستہ اختیار کیا ہے، ان کے عوام میں اثرات ہیں اور انھیں علم ہے کہ ان کے لیے ایک معتدبہ تعداد میں مرکزی اور صوبائی نشستیں جیتنا ممکن تھا، لیکن ان کی نظر صرف ۸ جنوری پر نہیں، بلکہ ملک کے مستقبل کے نظام اور عوام کے حقیقی مسائل اور ان کو حل کرنے والی قیادت اور جدوجہد پر ہے، فوری اقتدار یا اقتدار میں شرکت پر نہیں۔محض اقتدار مطلوب نہیں، اقتدار وہی مطلوب ہے اور وہی ذریعہ خیر بن سکتا ہے جو ایک حقیقی اسلامی، جمہوری، وفاقی اور فلاحی معاشرے اور ریاست کے قیام کو آسان اور ممکن بنائے۔ اس کے لیے صحیح ایشوز کا تعین، صحیح موقف کا اختیار، صحیح خطوط پر عوام کی تنظیم اور ان مقاصد کے حصول کے لیے مؤثر سیاسی جدوجہد برپا کرنا ضروری ہے۔ کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ جو لوگ نظریاتی کارکن ہیں اور برسوں سے دعوتی اور سیاسی میدان میں کام کر رہے ہیں اور جو بائیکاٹ کے باوجود عوام میں ہیں اور عوام کو اپنے ساتھ لے کر چل رہے ہیں، انھیں وقتی اور ہنگامی قوتیں میدان سے باہر کرسکتی ہیں۔ ایسی قوتیں خودرو پودوں کی طرح اُبھرتی ہیں اور مرجھا جاتی ہیں، لیکن نظریاتی بنیادوں پر کام کرنے والوں کے کام کو الحمدللہ دوام حاصل ہے، اور بالآخر وہی کامیاب ہوں گے۔
دوسری قوت پی پی پی، اے این پی، جمعیت علماے اسلام (ف) وغیرہم ہیں جو اپنے نظریاتی، سیاسی اور علاقائی اختلافات کے باوجود اشتراکِ اقتدارہی کی راہ پر گامزن ہیں۔ یہ ایک طرح پرویز مشرف کے ساتھ بھی ہیں اور اس کی مخالفت کا بھی دم بھر رہے ہیں۔مشرف کے دام سیاست میں داخل بھی ہوگئے ہیں اور اس کو توڑنے کی بھڑک کا بھی سہارا لے رہے ہیں۔ نیتوں کا حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن عملی سیاست کے نقطۂ نظر سے یہ مشرف ہی کے ایجنڈے پر اپنے اپنے انداز میں کام کررہے ہیں اور اسی کے دیے ہوئے نقشے میں اپنا مقام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان میں سے کچھ وہ بھی ہیں جو اپنی قیمت بڑھا کر اقتدار میں اپنا حصہ حاصل کرنے ہی کو اپنا اصل ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ یہ سارے تضادات ان کا اوڑھنا بچھونا ہیں۔یہ بظاہر ’اینٹی مشرف‘ ہیں لیکن فی الحقیقت ’پرو مشرف‘ کردار ادا کر رہے ہیں___ کل یہ مشرف کی ٹیم کا حصہ بھی بن سکتے ہیں اور اس سے الگ بھی راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔گویا ع
جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی
تیسرا گروہ وہ ہے جس کا مرکزی کردار مسلم لیگ (ن) ہے۔ اس نے اپنا اینٹی مشرف موقف برقرار رکھا ہے اور عدلیہ کی بحالی کو بھی اپنے ایجنڈے میں سرفہرست رکھا ہے۔ لیکن نظام باطل سے مزاحمت کے بجاے اس کے اندر جاکر تبدیلی کا راستہ چنا ہے، جس نے ان کو بھی تضادات کی دلدل میں جھونک دیا ہے اور ان کے لیے امکانات کی دنیا کو بھی محدود کردیا ہے۔ ان کا یہ رویہ فکری اور عملی یکسوئی سے بھی محرومی کا باعث ہے۔ لیکن اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ۸جنوری کے بعد یا شاید اس کے بھی پہلے یہ اپنے لیے ایک دوسرے کردار کی تلاش پر مجبور ہوجائیں ۔
رہا چوتھا گروہ تو وہ پوری یکسوئی کے ساتھ مشرف کے بنائے ہوئے نظام کو چیلنج کر رہا ہے اور دستور کی بحالی، عدلیہ کی آزادی اور ۲نومبر کی حیثیت میں عدلیہ کی بحالی اور غیرجانب دار قومی حکومت کے ذریعے نئے انتخابات اور سیاسی دروبست کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ کُل جماعتی جمہوری تحریک (اے پی ڈی ایم) اس سیاسی جدوجہد کی مرکزی قوت ہے، لیکن اس تحریک کی روحِ رواں طبقۂ وکلا، جج، طلباء صحافی اور سول سوسائٹی کے وہ تمام عناصر بھی ہیں جو ۹مارچ سے سرگرم عمل ہیں اور سب مل کر دستور کی بحالی اور حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے ایک اصولی اور تاریخی جنگ لڑرہے ہیں۔ یہ سب ایک ہی کارواں کا حصہ ہیں اور مشترکہ مقاصد کے لیے انھیں پوری ہمت اور حکمت سے اس جدوجہد کو اس وقت تک جاری رکھنا ہے، جب تک یہ مقاصد حاصل نہ ہوجائیں ۔ مجھے یقین ہے کہ کامیابی ان شاء اللہ اسی گروہ کا مقدر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم میں صحیح شعور اور بیداری پیدا کی جائے اور مسلسل جدوجہد کا اہتمام کیا جائے تاکہ عوام کو وقتی سیاسی مصالح اور مفادات کے مقابلے میں ملک کے اصل ایشوز کا ادراک حاصل ہو۔
اس کام کو انجام دینے کے لیے فوری جدوجہد کے ساتھ لمبے عرصے کی منصوبہ بندی، تنظیم اور ہمہ گیر تحریک کا لائحہ عمل تیار کرنے اور اپنی صفوں کو مضبوط رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ لوگوں، جماعتوں اور گروہوں کو شریکِ جدوجہد کرنا ضروری ہے۔ پرویز مشرف نے ۹ مارچ کو اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے جو اقدام کیا تھا، اللہ تعالیٰ کی مشیت نے اسی اقدام کو اس کے تنزل اور پسپائی کا نقشِ اوّل بنا دیا۔ پھر ۳نومبر کو جو کچھ کیا گیا، اس نے عالمی سطح پر پرویزمشرف کے پائوں تلے سے زمین کھسکا دی۔ اب ۸جنوری اور اس کے بعد جاری رہنے والی تحریک، مشرف سے نجات کے ساتھ ساتھ مفاد پرست سیاست سے بھی ملک اور قوم کی نجات کا ذریعہ بنے گی اور اصول پر مبنی سیاست کے دور کا آغاز ہو گا اوریہی وہ جوہری فرق ہے جو اشتراکِ اقتدار کے لیے کام کرنے والوں اور اصول اور نظامِ حیات کی اصلاح کے لیے جدوجہد کرنے اور قربانیاں دینے والوں میں ہے۔ بائیکاٹ اس منزل کی طرف لے جانے والا پہلا قدم ہے اور ہماری دعا ہے کہ جو قدم اس حیات بخش منزل کے حصول کے لیے اُٹھ گیا ہے، اب اپنی اسی منزل کی طرف اس کی پیش قدمی پوری مستعدی کے ساتھ جاری رہنی چاہیے اس لیے کہ جدوجہد اور قربانی کے ذریعہ ہی قومیں عزت کا مقام حاصل کرتی ہیں۔ آج کا پیغام صرف ایک ہے ___ رفتار تیز کرو اور مزید تیز کرو کہ منزل دُور نہیں! ع
تیز ترک گام زن منزل ما دُور نیست
(کتابچہ دستیاب ہے۔ منشورات، منصورہ، لاہور)
۲ نومبر ۲۰۰۷ء کو جماعت اسلامی کا کُل پاکستان اجتماع ارکان شروع ہوا تو ہمیں قطعاً یہ اندیشہ نہیں تھا کہ اگلے ہی روز ہمیں نام نہاد ایمرجنسی، بالفاظِ دیگر مارشل لا کے نفاذ کی مکروہ خبر سننی پڑے گی۔ ہمارا اندازہ تھاکہ فوج ،بحیثیت مجموعی اپنی کمزوریوں کے باوجود، پرویز مشرف کو ملک میں دوبارہ مارشل لا‘ یا ماوراے آئین اقدامات کی اجازت اور مشورہ نہیں دے گی اور انھیں اس طرح کاکوئی اقدام کرنے سے باز رکھے گی لیکن افسوس کہ ہمارے اندازے غلط ثابت ہوئے۔
پرویز مشرف کو چونکہ اصل تشویش آئین کی بالادستی اور سپریم کورٹ کے ججوں کے آزادانہ فیصلوں کے بارے میں تھی، اس لیے انھوں نے صدر کے بجاے چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے اقدام کرکے آئین کو معطل کردیا ،چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو گھر بھیج دیا‘ اور کچھ من پسند ججوں سے عبوری آئینی حکم نامے (PCO)کے تحت حلف اٹھوا کر ایک ایسی سپریم کورٹ بنالی جسے تمام دنیا کے سیاسی اور قانونی تجزیہ کار ایک بوگس اور جعلی ادارہ قرار دے رہے ہیں اور جس کا قیام دستور اور قانونی حکمرانی کے ہر ضابطے کے خلاف ہے۔ ملک میں اس وقت عملی طور پر عدالت عظمیٰ اور چاروں صوبوں کی عدالت ہاے عالیہ معطل ہیں۔ ماتحت عدالتوں میں بھی وکلا تحریک کی وجہ سے کماحقہ کام نہیں ہورہا۔ اس صورت حال میں یہ سوال شدت سے سر اٹھائے ہمارے سامنے کھڑا ہے کہ ایسا ملک کیسے چل سکتا ہے جہاں عدالتیں کام کرنا چھوڑ دیں،اور تمام قوانین فرد واحد کی خواہشات کے تابع بن کر رہ جائیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں اصل اقتدار ابتدا ہی سے سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ہاتھ میں رہاہے۔ دورِ غلامی میں برطانوی حکومت بھی غیرمنقسم ہندستان میں بیوروکریسی پر نظر رکھتی تھی،تاہم وہ غلاموں کے ساتھ سلوک میں قواعد و ضوابط کی پابندی کرتی تھی لیکن آزادی کے بعد پاکستان میں بیوروکریسی ہر طرح کی بندشوں سے آزاد ہوگئی‘ اور اس کے رویے کو حدود کا پابند رکھنے کا کوئی ادارہ نہیں بن سکا جس سے مطلق العنان سول اور ملٹری بیوروکریسی خودسر ہوتی گئی۔
سپریم کورٹ اورچیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ انھوںنے اکڑی ہوئی گردنوں والے ان افسروں کو قانون اور آئین کے سامنے جھکانے اور انھیں ضابطے کا پابند بنانے کی کوشش کی۔ انھوںنے مفقود الخبرافراد( missing persons)کے بارے میں فوج کی خفیہ ایجنسیوں کو حکم دیا کہ انھیں عدالت میں پیش کریں۔ سپریم کورٹ نے وفاقی سیکرٹریوں اور جرنیلوں میں اسلام آباد کے پلاٹو ں کی بند ر بانٹ کے بارے میں بھی سوال اٹھایا کہ کس قاعدے اور ضابطے کے مطابق یہ لوگ کروڑو ں روپے کی جایدادیں اونے پونے داموں سے اپنی ملکیت میں لے رہے ہیں؟
پاکستان میں بار بار کے مارشل لا کے ذریعے جمہوریت کی جو درگت بنی ہے اور آئینی ضابطوں کو جس طرح پامال کیا جاتار ہاہے‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ اس پر کچھ زیادہ کہنے یا لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ فوجی جرنیل تو کیا‘ فوج کا کوئی معمولی افسر بھی اپنے آپ کو ہر قانون اور ضابطے سے بالا تر سمجھنے لگا ہے۔ پرویز مشرف نے اپنی پریس کانفرنس میں ’ایمرجنسی پلس‘ یا مارشل لا لگانے کی بڑی وجہ یہی بتائی ہے کہ سپریم کورٹ کے بعض ججوں کا رویہ ناقابل قبول تھااور وہ اعلیٰ افسران کی توہین کے مرتکب ہو رہے تھے۔ بقول ا ن کے انھوں نے ماوراے قانون و دستور ’اختیارات‘ استعمال کیے، اور ان کی نگاہ میں معاملات کو درست کرنے کے لیے ایمرجنسی لگانا ضروری تھا۔
مگر حقیقی صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے۔آئین میں صدرِ پاکستان کو وزیراعظم کے مشورے پر مشکل صورت حال میں ایمرجنسی لگانے کا اختیار دیا گیا ہے لیکن پرویز مشرف نے یہ قدم چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے اٹھایا ہے ،اور ملک میں ’ایمرجنسی پلس‘کے نام سے مارشل لا نافذ کردیا ہے۔یاد رہے کہ وہ پاکستان کے پہلے حکمران ہیں جنھوں نے دوسری دفعہ دستور کو معطل کرنے کے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ ستم یہ ہے کہ وہ پہلے قابض حکمران ہیں جنھوں نے خود اپنے آٹھ سالہ دور اقتدار کے خلاف مارشل لا لگایا ہے اور صرف اپنی کرسی کو بچانے کے لیے یہ کھیل کھیلا ہے۔ واضح رہے کہ آئین کے تحت ایمرجنسی کے نفاذ سے اگرچہ شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کرلیے جاتے ہیں لیکن حکومت کو چیف جسٹس کو برطرف کرنے کا اختیار پھر بھی نہیں ملتا۔ پرویز مشرف کو بتانا چاہیے تھا کہ آئین کی وہ کون سی دفعہ ہے جو چیف آف آرمی سٹاف کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ سپریم کور ٹ کے رویے کو درست کرنے کے لیے مارشل لا لگادے ،اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے تقریباً ۶۰ ججوں کو خودساختہ عبوری آئین کے تحت حلف نہ اٹھانے کے جرم میں عدلیہ سے نکال باہر کرے۔ دستور تو بہ صراحت حکومت کے تمام اداروں اور کارندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ عدالت کے فیصلوں کی بے چون و چرا تعمیل کریں۔ پرویز مشرف کا یہ اقدام وہی ماوراے آئین آخر ی مکّا(final punch)ہے جس کی دھمکی وہ سپریم کورٹ کو دے رہے تھے کہ اگر فیصلہ ان کے حق میں نہیں ہوا تووہ آخری مکّا رسید کردیں گے۔
حیرت ہے کہ پرویز مشرف نے اپنی پریس کانفرنس میں مقامی اور غیر ملکی میڈیا کے سامنے بڑی ڈھٹائی سے کہہ دیا کہ یہ کارروائی انھوںنے آئین اور قانون کے مطابق کی ہے‘ حالانکہ یہ سب کچھ انھوں نے چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے کیااور آئین معطل کرکے چیف جسٹس کو ان کے منصب سے ہٹا دیا۔ نیز ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ کے ججوں کو پی سی او کے تحت حلف لینے کا پابند کردیا‘ اور حلف نہ لینے والوں کو گھروں میں نظر بند کردیا گیا۔ یہ پوری کارروائی ہرقانون اور آئین سے بالاتر بلکہ ان سے متصادم ہے،اور آئین کی دفعہ ۶کے تحت High Treason ‘یعنی بغاوت اور غداری سمجھی جائے گی۔
سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس پوری کارروائی میں فوج بحیثیت ادارہ شریک کرڈالی گئی ہے۔فوج جیسے اہم ادارے کا آئین کے خلاف کارروائی میں شریک ہونا‘ پوری قوم کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ جس ادارے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے غریب قوم اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر قربانی دیتی رہی ہے اورجسے عوام کی روٹی ،کپڑے ،مکان اور تعلیم اور علاج جیسی بنیادی ضروریات پر فوقیت دی گئی ہے، اس ادارے کے نام پر اس کا سربراہ اب اپنی قوم کے حقوق چھیننے پر تل گیا ہے۔ ان حالات میں ملک ہی نہیں‘ بیرونِ ملک کے سیاسی تجزیہ نگار بھی انگشت نمائی کررہے ہیں کہ فوج کے اعلیٰ افسروں نے ایک استحصالی طبقے کی شکل اختیار کرلی ہے جس کا ہر فرد کروڑوں روپے کی جایداد کا مالک ہے۔ اس طبقے نے پوری قوم کو غربت اور جہالت کے گہرے غار میں دھکیل کر اسے غلامی اور دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس طبقے کا غرور اور تکبر اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی بنچ ان سے باز پرس کرنے کی ہمت کرے تو یہ اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ چنانچہ پرویز مشرف نے اپنی پریس کانفرنس میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور کچھ دوسرے ججوں پر الزام لگایا ہے کہ مفقود الخبرافراد کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے سپریم کورٹ نے بعض اعلیٰ افسروں کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے کر ان کی توہین کی ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سندھ کے چیف سیکرٹری کا ذکر کیا جیسے کسی اعلیٰ افسر کو عدالت میں بلانا ہی کافی جرم ہے جس کی بنیاد پر عدالت عظمیٰ کے ججوں کو برطرف کیا جاسکتاہے ،اور یہ کام چیف آف آرمی سٹاف کرسکتا ہے حالانکہ آئین کے مطابق اس کا درجہ کسی صورت میںچیف جسٹس کے برابر نہیں ہوسکتا۔
ایک اورخطرناک پہلو یہ ہے کہ مارشل لا کے نفاذ کے ساتھ ہی آرمی ایکٹ میں ترمیمی آرڈی ننس جاری کردیا گیا جس کے مطابق کسی سویلین کوبھی آرمی ایکٹ کے مطابق سزا دی جاسکتی ہے۔ اس طرح کسی بھی شہری پر دہشت گردی کا الزام لگا کر اس کا کورٹ مارشل کرنے کا راستہ کھول دیا گیاہے۔ اٹارنی جنرل نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے یہ ضروری تھالیکن دہشت گردی کا الزام تو اس ملک میں ہر سیاسی کارکن پر بہت آسانی سے لگادیا جاتاہے۔ موجودہ حالات میں سیاسی کارکنوں کو دبائو میں رکھنے کے لیے سب سے آسان حربہ یہی ہے۔
اس وقت قومی وبین الاقوامی دبائو بڑھ رہا ہے اور پرویز مشرف سے ’ایمرجنسی پلس‘ یا مارشل لا ہٹانے کا مطالبہ کیا جارہاہے لیکن پرویز مشرف نے اپنی مرضی کا ایک اور قدم اٹھا کر سینیٹ کے چیئرمین محمد میاں سومرو کو عبوری وزیراعظم مقرر کردیا ہے۔ ایک طرف وہ سینیٹ کے چیئرمین ہیں جو صدر کی عارضی یا مستقل غیر حاضری کی صورت میں دستور کے مطابق قائم مقام صدر کی حیثیت سے چارج سنبھال سکتے ہیں‘ اور دوسری طرف انھی کو عبوری وزیراعظم بنا کر ایک دستوری سوال پیدا کردیاگیا ہے کہ ایک شخص بیک وقت سینیٹ کا چیئرمین اور وزیراعظم کیسے بن سکتاہے۔ حکومت کے نمایندے اٹارنی جنرل ملک قیوم کا کہنا ہے کہ چونکہ دستور معطل ہے اس لیے وہ عبوری وزیراعظم بن سکتے ہیں اور ساتھ ہی سینیٹ کے چیئرمین کے عہدے پر بھی برقرار رہ سکتے ہیں۔یہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ پرویز مشرف کے عہد میں نہ کوئی دستور ہے اور نہ کوئی ضابطہ اور قانون۔
اگر مغربی ممالک کے اس مطالبے کو تسلیم کرلیا جاتاہے کہ ایمرجنسی کو ہٹا دیاجائے اور دستور بحال کرکے انتخابات کرادیے جائیں تو یہ سوال پیدا ہوگا کہ اس دوران جو آرڈر اور ضابطے جاری کیے گئے ہیں‘ ان کا کیا بنے گا؟ کیونکہ اس وقت تو قومی اسمبلی بھی نہیں ہے کہ آٹھویں یا سترھویں ترمیم کی طرح کے کسی دستوری حیلے کے ذریعے مارشل لا کے ضابطوں کو سند جواز مل سکے اور غیرآئینی فعل کو جو دستور کے آرٹیکل ۶کے مطابق غداری اور بغاوت ہے‘ تحفظ (indemnity) فراہم کرسکے۔ یہ صورت حال عملاً جان بوجھ کر پیدا کی گئی ہے تاکہ جمہوری سویلین حکومت قائم کرنے کے دستوری راستے بند کردیے جائیں اور ایک نئے تازہ دم جرنیل کے لیے راستہ ہموار کیا جائے‘ یا دستور سے بالا تر ایک سویلین حکومت قائم کی جائے جس طرح یحییٰ خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنادیا تھا۔
پرویز مشرف نے ۱۵نومبر کو قومی اسمبلی اور۲۰نومبر کو صوبائی اسمبلی کو برخاست کرنے اور ۸جنوری ۲۰۰۸ء سے پہلے انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا ہے لیکن انھوںنے آئین کی بحالی کی تاریخ نہیں دی اور ججوں کو بحال کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔
اس وقت ایک اہم سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں جب کہ ملک میں مارشل لا ہے، دستور معطل ہے، اعلیٰ عدالتوں کو مفلوج کردیا گیاہے اور ملک میں عدل و انصاف کے ادارے اور انتخابات کا انتظام فوجی آمر کی مرضی کے تابع ہیں ، کیا انتخابات میں حصہ لینا چاہیے؟ اس کا فیصلہ تو سیاسی و دینی جماعتوں کی مجالس مشاورت کو گہرے غور و خوض کے بعدباہمی مشورے سے کرنا ہے لیکن اگر اپوزیشن کی تمام جماعتیں، بشمول پیپلز پارٹی اور جمعیت علماے اسلام (ف) جعلی الیکشن میں حصہ لینے کے بجاے عدلیہ کی بحالی کے لیے مشترک جدوجہد کے کسی لائحہ عمل پر متفق ہوجائیں تو اس میں ملک و قوم کی بہتری ہے۔ حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں کو متفق کرنے کے لیے متحدہ مجلس عمل نے ایک قومی مجلس مشاورت بلانے کا فیصلہ کیا جس میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے لیڈروں اور وکلا کی تنظیموں کے نمایندوں کو بھی دعوت دینے کا ارادہ تھا۔ لیکن میاں محمد نواز شریف کی خواہش کے احترام میںکہ یہ کانفرنس آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کی دعوت پر ہو، مولانا فضل الرحمن صاحب اور ایم ایم اے کی دوسری جماعتوں کے مشورے کے بعد اسے ملتوی کردیاگیا۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کی دعوت پر لوگ ان کے گھر پر کراچی میں جمع ہوں تو انھیں بھی ہم نے مل کر یہ مشورہ دیا کہ مناسب ہوگا کہ کسی غیر جانب دار شخصیت کے ہاں غیررسمی طور پر ہم سب مشورے کے لیے جمع ہوجائیں۔ اس کے لیے جسٹس (ر) وجیہہ الدین صاحب کا نام بھی ہم نے اور نواز شریف صاحب نے تجویز کیا ہے لیکن تاحال اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔
اس پریشان کن منظر میں ایک خوش آیند بات یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ اورہائی کورٹ کے ججوں کی ایک بڑی تعداد(۶۰ کے قریب) نے چیف آف آرمی سٹاف کی غیر آئینی مداخلت کو ناجائز قرار دیا ہے اور مارشل لا کے نفاذ کو چیلنج کرکے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کیا ہے۔اس وقت قوم کا فرض ہے کہ ان بہادر اور زندہ ضمیر رکھنے والے ججوں کی پشت پر کھڑے ہوکر ان کی بحالی کی تحریک چلائیں کہ ان کی بحالی ہی آئین کی بالادستی اور حقیقی عدل و انصاف کو فراہم کرنے کا ذریعہ بنے گی۔ ایک آزاد عدلیہ کی بحالی تمام اداروں کی بحالی کا راستہ ہے اور عدلیہ کی آزادی کے لیے ضروری ہے کہ چیف جسٹس سمیت تمام جج زندہ ضمیر کے مالک ہوں۔
ہمارے خیال میںوطن عزیز کوان حالات سے نکالنے کے لیے صرف عوامی تحریک ہی کافی نہیں ہے‘ بلکہ ایک متفقہ متبادل پر اتفاق بھی ضروری ہے۔ کیا موجودہ سیاسی اور مذہبی زعما اس غیرمعمولی صورت حال کا ادراک کرکے ایک ہی فارمولے پر جمع ہوسکتے ہیں؟ ہمارے خیال میں چیف جسٹس افتخار محمدچودھری سمیت ان تمام ججوں کو جنھوںنے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کرکے ایک روشن مثال قائم کی ہے ، بحال کرکے دستوری راستہ تلاش کیا جاسکتاہے۔ لیکن اس حل پر متفق ہو کر اس کی خاطر عوام کو ساتھ لے کر پُرامن جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ پُرامن جدوجہد کے لیے ایسے طریقے اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ فوج اور پولیس سے تصاد م کی نوبت نہ آئے اور پرامن عوامی احتجاج بھی مسلسل جاری رہے۔ جیسے گھروں پر سیاہ جھنڈے لہرانا اور متعین اوقات میں گھروں اور دکانوں سے نکل کر ایک گھنٹے کے لیے سامنے کی گلی اور سڑک پر پُرامن دھرنا دینا‘ یا بینر لے کر خاموش مظاہرے کرنا اور ان سرگرمیوں کے لیے محلے اور بازار میں انفرادی رابطے کے ذریعے لوگوں کو تیار کرنا۔ خطبوں اور تقریروں میں حالات پر تبصرہ کرکے لوگوں کو ملک و قوم کی اجتماعی بہتری کے لیے انفرادی آرام کو نظرانداز کرکے تھوڑی بہت مشقت اُٹھا کر کام کے لیے تیار کرنا، اور امت کے معاملات میں دل چسپی لینے کی شرعی ضرورت کا احساس دلانا، مساجد کے باہر بینرلے کر خاموش مظاہروں کے لیے کھڑے ہوجانا،وہ چند پُرامن طریقے ہیں جنھیں عام کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی مرحلے پر گرفتاریاں پیش کرنا اور جیل بھرو تحریک بھی کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے رضاکاروں کو تیار کرنا اورجیل جانے والے ساتھیوں کے گھر والوں اور ان کے بچوں کی نگہداشت کا مناسب نظام بنانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے آئین کو اپنی روح اور الفاظ کے ساتھ پوری طرح سے بحال کرنے کے لیے اس کی چار بنیادی خصوصیتوں کو سامنے رکھنا چاہیے :
۱- پاکستان کے آئین کا پہلا اصول اسلامی نظریۂ حیات کی پابندی ہے۔ قرار داد مقاصد میں جو پاکستان کے آئین کی بنیاد ہے، اللہ رب العالمین کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اورمقننہ اور عدلیہ اور انتظامیہ سمیت ریاست کے تمام اداروں کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ قرآن و سنت کی حدود میں رہ کر کاروبار حکومت چلائیں گے اور قانون ساز ی کریں گے۔
۲- پاکستان کا آئین جمہوری اور پارلیمانی طرزِ حکومت قائم کرتا ہے۔ عوام کے منتخب نمایندوں کو ریاستی نظام چلانے کا حق دیا گیا ہے اور تمام معاملات میں پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کی گئی ہے۔ آئین میں ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں کی دوتہائی اکثریت حاصل کرنا ضروری ہے۔
۳- پاکستان کا آئین وفاقی ہے اور ایوان بالا میں وفاق کی چار اکائیوں کو برابر کی نمایندگی حاصل ہے۔ قانون سازی میں صوبائی اسمبلیاں اپنے دائرۂ کار میں آزاد ہیں۔ دستور وفاق کی چار اکائیوں کو یہ اطمینان دلاتاہے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں خود مختار ہیں، اور ان کے اختیارات کے بارے میں انھیں مطمئن کرنااور حسب ضرورت ان میں اضافہ کرنا وفاق کے لیے ضروری ہے۔
۴- پاکستان کا آئین فلاحی ہے، اور عوام کے تمام طبقات کو بنیادی ضروریات روٹی کپڑا، مکان ، تعلیم اور علاج کی سہولتیں اور مواقع فراہم کرنا ریاست اور معاشرے کا فرض ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کی کوئی حکومت اس آئین کو اس کی اصل روح کے ساتھ نافذ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس کے اسلامی اصولوں کو ہمیشہ پامال کیاگیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات عرصۂ دراز تک صیغۂ راز میں رکھی گئیں اور جب ضیاء الحق کے زمانے میں پارلیمنٹ میں مطالبہ کیاگیا کہ آئین کے تقاضے کے طور پر اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کردیا جائے تو مجبوراً بند الماریوں سے انھیں نکالنا پڑا‘ لیکن ان سفارشات پر عمل درآمد کی کوئی سبیل نکالنے کے بجاے اسے محض گفتگو کا موضوع بنا کر دوبارہ طاق نسیاں پر رکھ دیا گیا۔ ایک بار جنرل ضیاء الحق صاحب نے علماے کرام کا کنونشن منعقد کرکے اسلامی نظام کے نفاذ کے بارے میں سفارشات طلب کیں تو جسٹس تنزیل الرحمن صاحب نے ہمت کرکے اسلامی نظریاتی کونسل کی ۲۸ جلدوں پر مشتمل سفارشات کا پلنداان کے سامنے رکھ دیا کہ آپ پہلے ان سفارشات کو عملی جامہ پہنا دیں‘ پھر مزید سفارشات طلب کریں تو ضیاء الحق صاحب بدمزہ ہوگئے۔
صوبائی خود مختاری و اختیارا ت نچلی سطح تک تقسیم کرنے (devolution of power) کے بہانے صوبو ں سے اختیارات واپس لے لیے گئے اور بلدیاتی اداروں کو براہ راست مرکز سے کنٹرول کیا جانے لگا۔ صوبوں میں چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کی تقرری کا قاعدہ یہ ہے کہ ان دونوں عہدوں کے لیے صوبائی حکومت سے تین تین نام طلب کرکے ان میں سے ایک کی تقرری مرکزی حکومت کردیتی ہے لیکن صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کے تجویز کردہ تینوں ناموں کو چھوڑ کر اپنی پسند کے لوگوں کی تقرر ی کی گئی اور جب چاہاپرویز مشرف نے چیف سیکرٹری اور آئی جی کو براہ راست بلا کر احکامات صادر کیے اور جسے چاہا بیک بینی و دوگوش تبدیل کردیا۔ سرحداسمبلی کے منظور کیے ہوئے شریعت ایکٹ کو مسترد کروادیا گیا اور انھیں کوئی ضابطہ نافذ کرنے نہیں دیا گیا جس سے صوبہ سرحد میں دوسرے صوبوں کی نسبت اسلام کے نفاذ کے سلسلے میں کوئی امتیازی علامت ظاہر ہوسکے۔ بجلی کی رائلٹی کے سلسلے میں صوبہ سرحد کو کھلم کھلا اپنے حق سے محروم رکھا گیا ہے اور اس سلسلے میں ٹربیونل کے فیصلے کو بھی نظر انداز کردیاگیا۔ بلوچستان کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا گیا‘ بلکہ تین سال سے اسے کھلی فوج کشی کی آماج گاہ تک بنا دیا گیا ہے اور بے دردی سے عام انسانوں کو قتل کیا جا رہا ہے‘ یا نقل مکانی پر مجبور کردیا گیا ہے حالانکہ صوبے کی اسمبلی نے متفقہ طور پر فوجی ایکشن بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس طرح آئین کو نظراندا ز کرکے صوبو ں کی حق تلفی کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں میں بے چینی اور بے اطمینانی بڑھتی جار ہی ہے اور لوگ قوت کے استعمال کے ذریعے شریعت کے نفاذ اور ظلم و ناانصافی کا تدارک کرنے کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
آئین میں حکومت پاکستان کو ایک فلاحی ریاست (welfare state)قرار دیا گیا ہے جہاں تمام شہریوں کو بنیادی ضروریا ت فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میںجو معاشی پالیسیاں آج تک نافذ رہی ہیں ان کے نتیجے میں یہاں ایک بد ترین قسم کا استحصالی معاشرہ وجود میں آگیا ہے جہاں مسلسل غریب‘ غریب تر اور امیر‘ امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ ترقی اور خوش حالی کے بلند بانگ دعووں کے باوجود عام شہری بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ آبادی کا ایک تہائی غربت کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مہنگائی کا عفریت پوری آبادی اور خصوصیت سے غریب اور متوسط طبقات کو مسلسل ڈس رہا ہے اور آٹا، دال، سبزیاں اور گھی جیسی بنیادی اشیا بھی لوگوں کی پہنچ سے باہر ہورہی ہیں۔ ایک اوسط درجے کے خاندان کا صرف آٹے اور دال کا خرچ ماہانہ ایک ہزار روپے سے بڑھ جاتاہے۔ جس نے ہفتے میں ایک دن بھی گوشت کھانا ہو اور اوسطاً دوبچے زیر تعلیم ہوں اور مکان،بجلی، گیس کے بل بھی ادا کرنے ہوں اور کپڑے اورجوتے بھی استعمال کرنے ہو ں تو حساب لگالیجیے کہ کیا ۱۵ہزار روپے میں بھی یہ ضروریات پوری ہوسکتی ہیں، اور کیا اوسط درجے کا خاندان مہینے میں۱۵ ہزار روپیہ کمابھی سکتاہے۔
پاکستان کو ایک حقیقی فلاحی ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے جن انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے‘ ان کی توقع موجودہ استحصالی حکمران طبقے سے قطعاً نہیں ہے۔ پاکستان کے موجودہ مسائل کا حل عوامی بیداری کے ذریعے ایک ایسی حکومت کا قیام ہے جو آئین اور قانون کی بالادستی کو خوش دلی سے تسلیم کرے، اور قانونی حدود کے اندر رہ کر اختیارات استعمال کرنے کو بنیادی اصول کے طور پر اختیار کرے جو اقتدار اور وسائل دونوں کو امانت سمجھ کر حکمرانی کے فرائض انجام دے اور قانون‘ عوام اور خدا کے سامنے جواب دہ ہو۔
آئین اور قانون کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کا خواب اسی وقت شرمندہ تعبیر ہوسکتاہے جب ججوں کی تقرری میں بنیادی وصف جج کی امانت و دیانت ہو۔ جج کو صاحب ضمیر اور جرأت مند ہونا چاہیے۔ بزدل آدمی کبھی بھی انصاف فراہم نہیں کرسکتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں جرأت و بہادری اور امانت و دیانت کے بجاے جج کا معیار یہ قرار پایا ہے کہ وہ حکمرانوں کے مفادات کا محافظ اور حکمرانوں کا وفادار ہو۔ اسی لیے ایک ہردلعزیز اور بہادر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ہٹاکر ایسے لوگوں کو جج بنا دیا گیا ہے جنھوںنے آئین کی بالا دستی اور حفاظت کے حلف کو توڑ کر ایک غاصب فرد کی وفاداری کا حلف اٹھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔
اس وقت تمام اپوزیشن جماعتوں کے پاس ایک ہی سیدھا اور انصاف کا راستہ موجود ہے کہ پیپلز پارٹی سمیت اے پی ڈی ایم میں شامل تمام پارٹیاں مل کر پرویز مشرف کے انتخابی ڈھونگ کا پردہ چاک کریں۔ اس جال میں پھنسنے اور جمہوریت کو مزید پانچ سال کے لیے آمرمطلق کی لونڈی بننے سے روکنے کا بروقت اقدام کریں اور انتخابات میں اسی وقت حصہ لیں جب سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کا وہ نظام بحال ہو جو ۳نومبر سے پہلے موجود تھا۔ منصفانہ انتخابات اور جمہوری عمل کے برسرکار آنے کی پہلی صورت یہ ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے کے بجاے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے دیانت دار اور باضمیر ججوں کی بحالی اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والی عدالتوں کے خاتمے کے لیے ملک گیر عوامی مہم چلائی جائے۔ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی موجودہ بحران کو ختم کرنے کی شہ کلید ہے۔ وہی سپریم کورٹ یہ فیصلہ کرے کہ مارشل لا پی سی او، جس کو ’ایمرجنسی پلس‘ کا نام دیاگیاہے‘ کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ پرویز مشرف کیا آرمی چیف آف سٹاف اور صدر بن سکتے ہیں یا نہیں؟ عبوری حکومت کی آئینی شکل کیا بن سکتی ہے‘؟اورآزاد الیکشن کمیشن کی تشکیل کیسے ہو سکتی ہے؟ اگر تمام اپوزیشن جماعتیں اس پر متفق ہوجائیں تو اس پروگرام کو بین الاقوامی تائید بھی حاصل ہوسکتی ہے ،اور ملک کے اندر لاقانونیت اور آمریت کی لہر کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے۔
(یہ تحریر ۱۸نومبر کو لکھی گئی)
آج پاکستانی قوم سوگوار ہے اور ایک گونہ سکتے کے سے عالم میں ہے___ کراچی میں ۱۲مئی کے بعد ۱۸ اکتوبر کا کشت و خون‘ بلوچستان اور وزیرستان میں گذشتہ تین سال سے فوج کشی اور اس کے نتیجے میں ہزاروں افراد کی ہلاکت‘ جولائی میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا خونیں حادثہ اور معصوم بچوں‘ بچیوں‘ اساتذہ اور طالبان علم کے خون کی ارزانی‘ ۲۷ رمضان المبارک کو لیلۃ القدر کے موقع پر ڈھائی تین سو کلمہ گوؤں کا قتل اور وہ بھی ’ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ‘ کا موٹو رکھنے والی فوج اور جہاد کا علَم بلند کرنے والے قبائل کے باہم تصادم کے نتیجے میں ___ یہ سب کیا ہے؟
سوچتے سوچتے ذہن ماؤف ہونے لگتا ہے۔یہ قوم کن خطرناک وادیوں میں گم ہوگئی ہے؟ جن کے ہاتھوں میں ملک کی زمامِ کار ہے وہ ہمیں کہاں لیے جارہے ہیں اور کس کا کھیل کھیل رہے ہیں؟ انتہاپسند کون ہے؟دہشت گردی کا مرتکب کون ہو رہا ہے؟ جمہوریت کی بحالی کے نام پر جو ڈراما رچایا جا رہا ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟___ اور حقیقی جمہوریت کی طرف یہ قوم کیسے گامزن ہوسکتی ہے۔ یہ سوالات محض نظری اور علمی موضوع نہیں۔ پاکستانی قوم کے لیے زندگی اور موت کا ایشو بن چکے ہیں جسے انتہاپسندی اور اعتدال پسند روشن خیالی کی کش مکش بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ جنرل مشرف نے قوم کو تصادم‘ تشدد اور تباہی کی جنگ میں جھونک دیا ہے۔ اس کا اصل مقصد آمریت اور اپنے شخصی اقتدار کا تحفظ ہے اور عالمِ اسلام پر مسلط کی جانے والی امریکا اور مغربی اقوام کی دم توڑتی ہوئی جنگ کو سہارا دینا ہے۔ پاکستان ایک امانت ہے اور اس کے اصل امین پاکستان کے ۱۶ کروڑ عوام ہیں۔ ہر ادارہ خواہ اس کا تعلق پارلیمنٹ سے ہو یا عدالت سے‘ فوج سے ہو یا سول نظام سے‘ سیاسی جماعتیں ہوں یا دینی ادارے اور قوتیں___ ان سب کی اس وقت اصل ذمہ داری یہ ہے کہ پاکستان کو اس تباہی سے بچائیں جس کی آگ میں عالمی ایجنڈے کے تحت اسے جھونکا جارہا ہے___ پاکستان کی آزادی اور حاکمیت‘ اس کی سلامتی اور استحکام‘ اس کا تشخص اور وجود ہرچیز دائو پر لگی ہوئی ہے۔ اگلے چند مہینے بڑے فیصلہ کن ہیں اور اگر عوام اور تمام سیاسی‘ دینی اور اداراتی قوتوں نے جن میں فوج‘ عدلیہ اور میڈیا مرکزی اہمیت کی حامل ہیں‘ نے اپنا اپنا فرض ادا نہ کیا تو ہمیں ڈر ہے کہ ایک لحظہ کی غفلت صدیوں کی منزلوں کو کھوٹا کرسکتی ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے اور ملک کے ہر ادارے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے جس خطرناک کھیل کا آغاز ۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو چیف جسٹس آف پاکستان کی برطرفی (دراصل عدالت عالیہ پر حملہ) سے کیا تھا‘ ۱۲ مئی کا خونیں ڈراما‘ ۲۹ستمبر کا شاہراہِ دستور پر پولیس ایکشن‘ ۵ اکتوبر اور پھر ۱۸ اکتوبر کو ایک اور سابق وزیراعظم کی بش-مشرف ’مفاہمت‘ کی چھتری تلے ملک میں آمد‘ ملک بھر سے ایک سیاسی جماعت کو استقبال کے لیے ہر موقع اور سہولت کی فراہمی۔ پھر اس استقبالی ریلی میں دہشت گردی کے ایک ایسے واقعہ کا ظہور جس سے سیاست کا نقشہ اور انتخابات کے طریق واردات ہی کو تبدیل کیا جاسکے، یہ سب ایک ہی سنگین کھیل کی کڑیاں اور ایک ہی ڈرامے کے مختلف ایکٹ معلوم ہوتے ہیں جو تمام سیاسی قوتوں کو بشمول پیپلزپارٹی حالات کا ازسرنو جائزہ لینے کی دعوت دے رہے ہیں۔ ہم قومی زندگی کے اس فیصلہ کن اور نازک ترین موقع پر پوری دل سوزی کے ساتھ تمام اہلِ وطن کو چند بنیادی امور کی طرف متوجہ کرنا اپنا دینی اور قومی فرض سمجھتے ہیں اور زمین و آسمان کے مالک سے اس دعا کے ساتھ یہ گزارشات پیش کررہے ہیں کہ اگر یہ حق ہیں تو سب کے دل ان کے لیے کھول دے۔
سب سے پہلے ہم اس اصولی بات کا اعلان اور اعادہ کرنا چاہتے ہیں کہ اجتماعی معاملات کے حل کا اصل راستہ صرف ایک ہے اور وہ ہے شوریٰ اور دلیل کے ذریعے سیاسی مسائل اور اختلافات کا حل۔ انسانی زندگی اور سیاسی نظام میں قوت کے استعمال کا ایک متعین مقام ہے اوروہ ملکی دفاع‘ شر اور فساد سے معاشرے کو پاک کرنے‘ قانون کی بالادستی اور انصاف کے قیام کے لیے ہے اور قانون اور ضابطے کے مطابق ہے۔ کسی کو یہ اختیار نہیں کہ قانون اپنے ہاتھ میں لے یا سیاسی مسائل و معاملات کو قوت‘ جبر اور گولی کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرے۔ ریاست‘ حکومت‘ جماعتیں‘ گروہ‘افراد سب قانون اور ضابطے کے تابع ہیں اور شریعت نے ظلم کی تعریف بھی یہ کی ہے کہ وَضْعُ شَیْ ئِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ ___ یعنی جہاد اور دہشت گردی میں فرق ہی یہ ہے کہ جہاد ایک واضح مقابلے اور قانون کا پابند ہے جب کہ دہشت گردی قوت کے ناحق اور غلط استعمال سے وجود میں آتی ہے۔ بقول اقبال ؎
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضامیں
کرگس کا جہاں اور ہے‘ شاہیں کا جہاں اور
اس اصولی بات کی روشنی میں ہم یہ بات بالکل صاف الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں کہ ۱۸اکتوبر کو جو کچھ کراچی میں ہوا‘ جس میں ۱۴۰ جانیں تلف ہوئیں اور کئی سو زخمی ہوئے‘ دہشت گردی کی بدترین مثال ہے۔ یہ انسانیت‘ سیاست اور شرافت اور تہذیب پر حملہ تھا اور اسلام اور مہذب معاشرے کی ہر قدر کی نفی ہے‘ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ سیاسی سرگرمی ایک جمہوری معاشرے کی جان ہے اور تہذیبی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ اختلاف راے اور سیاسی اور دینی مسالک کا تنوع انسانی معاشرے کے لیے رحمت ہے‘ اور سیاسی یا مذہبی اختلاف کو قوت اور تشدد کے ذریعے سے مٹانے کی کوشش فساد اور فتنے کا راستہ کھولنے کے مترادف ہے جو شوریٰ کی ضد اور لَااِکراہَ فِی الدّین کے قرآنی حکم سے بغاوت اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت کی توہین ہے کہ میری امت میں اختلاف راے ایک رحمت ہے۔
جہاں ہم ۱۸ اکتوبر کی دہشت گردی کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور تمام ہی جاں بحق ہونے والوں کے لیے دعاے مغفرت کرتے ہیں‘ زخمیوں کے لیے صحت و زندگی کی دعاگو ہیں اور تمام ہی متاثرین اور خصوصیت سے پیپلزپارٹی کی قیادت اور کارکنوں سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں‘ وہیں اس امر کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس واقعے کی آخری ذمہ داری جنرل پرویز مشرف کی حکومت اور ان کی سیاسی پالیسیوں اور حکمت عملی پر عائد ہوتی ہے جس کی پوری پوری جواب دہی ایک نہ ایک دن انھیں قوم کے سامنے کرنی ہوگی۔ تمام واقعات کی اعلیٰ ترین سطح پر آزاد اور غیرجانب دار تحقیقات ضروری ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کے قتل پر پردہ ڈالنے سے جو روایت شروع ہوئی ہے‘ وہ آج تک جاری ہے اور جنرل پرویز مشرف کے دورمیں تو ڈھٹائی کا عالم یہ ہوگیا ہے کہ ۱۲ مئی کی کھلی کھلی دہشت گردی اور ۴۰ سے زیادہ جانوں کے اتلاف کے بارے میں نہ صرف آزاد تحقیقات سے صاف انکار کیا گیا بلکہ اسے اپنی قوت کے اظہار تک کا نام دیا گیا۔ جولائی کے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے کربلاے ثانی کے بارے میں بھی یہی رویہ اختیار کیا گیا۔ بلوچستان اور وزیرستان میں خون آشامی کے باب میں بھی کسی آزاد تحقیق تو کیا آزاد رپورٹنگ تک کا راستہ بند کیا ہوا ہے۔ اور اب کراچی کے واقعے کی بھی آزاد تحقیق کے مطالبات کو پوری رعونت کے ساتھ نظرانداز کیا جا رہا ہے‘ حالانکہ خود پیپلزپارٹی کی قیادت نے اس کا مطالبہ کیا ہے اور پولیس کی تفتیشی ٹیم پر عدمِ اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ملکی اور غیرملکی میڈیانے بڑے سنگین سوال اٹھائے ہیں کہ ۲۰ہزار پولیس اور رینجرز کی موجودگی میں جن کے بارے میں دعویٰ تھا کہ سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کر لیے گئے ہیں‘ اتنا بڑا حادثہ کیسے ہوگیا؟ سڑکوں کی بجلیاں کیوں بند ہوگئیں؟ ’خودکش حملے‘ کے مجرب نسخے کا پروپیگنڈا پہلے ہی لمحے سے کیوں کیا جانے لگا جب کہ ابھی تک کوئی واضح ثبوت اس کا نہیں ملا ہے بلکہ عینی شاہدوں اور ملکی اور بین الاقوامی صحافیوں کے مطابق پہلا دھماکا ایک شعلے کی شکل میں دیکھا گیا‘ دو گاڑیوں سے آگ نکلی‘ اور جو ایک سر ملا ہے اس کے بارے میں بی بی سی نے اپنی ۲۳ اکتوبر کے سیربین پروگرام میں پولیس ذرائع سے اس شبہہ کا اظہار کیا ہے کہ یہ سر ایک پولیس اہل کار کا ہے اور ایسا ہی ایک واقعہ کراچی ہی میں اس سے پہلے سندھ مدرسے میں بھی ہوچکا ہے کہ جسے خودکش حملہ کہا گیا تھا وہاںسر پولیس اہل کار کا نکلا۔ اس صورت حال کو اس سے تقویت ملتی ہے کہ خود پیپلزپارٹی کی قیادت نے خصوصیت سے محترمہ بے نظیرصاحبہ اور ان سے زیادہ ان کے شوہر جناب آصف زرداری نے صاف کہا ہے کہ ہمارا شبہہ طالبان یا کسی جہادی گروپ پر نہیں بلکہ حکومت میں شامل کچھ عناصر پر ہے۔
ایک اور بڑا سنگین سوال وہ ہے جو خود محترمہ نے اٹھایا ہے اور جسے عالمی پریس نے نمایاں شائع کیا ہے حالانکہ پاکستان میں اسے دبا دیا گیا ہے۔ لندن کے اخبار دی انڈی پنڈنٹ نے اپنے رپورٹر Andrew Buneombeکے حوالے سے جو محترمہ کے ساتھ تھا‘ لکھا ہے کہ:
انھوں نے یہ بھی کہا کہ حملے کے دوران ان کی گاڑی پر کئی گولیاں چلائی گئیں‘ جب کہ ایک آدمی جو پستول سے مسلح تھا اور دوسرا جس نے خودکش بیلٹ باندھ رکھی تھی‘ اس سے پہلے گرفتار کیے گئے تھے۔
سوال یہ ہے کہ ان دونوں افراد سے کیا معلومات ملیں‘ یہ کہاں ہیں اور ان کا تعلق کس سے تھا؟ اس سلسلے میں یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ اصل واقعہ کے چند گھنٹے کے اندر موقع واردات سے تمام شہادتوں کو ختم کردیا گیا اور راستہ کھول دیا گیا حالانکہ دنیابھر میں یہ ایک مسلّمہ اصول مانا جاتا ہے کہ موقع واردات کو تحقیقات مکمل ہونے تک محفوظ رکھا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں تو جہاں ایسا حادثہ ہو اسے فوری طور پر گھیر دیا جاتا ہے اور کئی دن تحقیق کرنے والوں کے سوا کسی کو ان مقامات کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا جاتا۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اتنے بڑے حادثے کے سارے آثار و کوائف کو چند گھنٹے میں رفع دفع کردیا گیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح کراچی اسٹاک ایکسچینج کے ۲۰۰۵ء کے اسیکنڈل کے سارے کوائف حتیٰ کہ کمپیوٹر ریکارڈ تک تلف کردیے گئے اور دیگر کے لیے تمام شہادتوں کو تباہ کرنے کے بعد ایک امریکی کمیشن کو بلایا گیا جس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ شہادتوں کے تلف ہوجانے کے بعد ہم اسباب کی نشان دہی نہیں کرسکتے۔ نیویارک کے جڑواں ٹاوروں کے سلسلے میں بھی یہی حکمت عملی اختیار کی گئی جس پر آزاد تحقیق کرنے والے آج تک واویلا کر رہے ہیں۔
اس پورے معاملے میں انٹیلی جنس کی ناکامی کے پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور خصوصیت سے اس پس منظر میں کہ ایک طرف بڑے یقین کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ اتنے خودکش بمبار بھیجے گئے ہیں اور دوسری طرف ایک نہیں‘ سیکورٹی کے تین تین حصاروں کے باوجود یہ واقعہ ہوجاتا ہے۔ حالانکہ بتایا گیا تھا کہ پہلا حصار پیپلزپارٹی کے ۲ سے ۵ ہزار جاں نثاروں کا ہے۔ اس کے بعد ۱۰سے ۲۰ہزار پولیس اور رینجرز کا ہے۔ پولیس کی گاڑیاں ہر چارسمت میں موجود ہیں جو اعلیٰ ترین ٹکنالوجی سے لیس ہیں۔
حکومت اور خصوصیت سے سیکولر اور امریکی لابی کے سرخیل آنکھیں بند کرکے الزام جہادی تنظیموں اور طالبان پر تھوپ رہے ہیں۔ اس کے لیے ۱۸ اکتوبر سے قبل ہی ایک فضا بنائی جارہی تھی اور طرح طرح کی جھوٹی گمراہ کن اطلاعات (dis-information) سے ذہنوں کو آلودہ کیا جا رہا تھا‘ حالانکہ طالبان کے ذرائع اس کی بار بار تردید کرچکے ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ ان کو اس میں ملوث کیا جائے‘ البتہ امریکا اور یورپ حتیٰ کہ آسٹریلیا کے سرکاری حلقوں نے بھی اس واقعے کے فوراً بعد حسبِ عادت طالبان کو اس کا ذمہ دار ٹھیرانے میں بڑی مستعدی دکھائی ہے۔ پاکستان میں امریکی اور سیکولر لابی کے سرخیل ڈیلی ٹائمز نے پوری تحدی کے ساتھ ادارتی کالم میں فتویٰ صادر کردیا تھا کہ:
القاعدہ نے کراچی میں ۱۳۸ معصوم لوگوں کو قتل کیا ہے اور ۵۰۰ سے زیادہ کو زخمی کیا ہے۔ (ڈیلی ٹائمز‘ ۲۰ اکتوبر ۲۰۰۷ء)
اداریہ نویس کو شکایت ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت کیوں اس سلسلے میں پس و پیش کا مظاہرہ کر رہی ہے اور وزارتِ داخلہ کے سیکرٹری نے یہ کیوں کہہ دیا کہ اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کے کیمپ پر حملے کا ہدف پیپلزپارٹی نہیں‘ پولیس تھی۔ اسے یہ بھی دکھ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کو امریکی جنگ اور اس میں معاونت سے کیوں مربوط کیا جا رہا ہے اور اس پورے معاملے کو جمہوریت کے فقدان کا نتیجہ کیوں قرار دیا جا رہا ہے۔ اصل مسئلہ جمہوریت نہیں‘ مذہبی دہشت گردی ہے۔ امریکی سیکولرلابی کے ذہن اور عزائم کو سمجھنا بے حد ضروری ہے اور یہی مشرف کی تباہ کن پالیسیوں کی مدافعت کرنے والے عناصر ہیں۔
حزبِ اختلاف یہ نتیجہ نکالتی رہی ہے کہ حکومت ایک دفعہ امریکی ڈیزائن ترک کرنے کا اعلان کردے تو ساری دہشت گردی فی الفور ختم ہوجائے گی۔ یہ بھی کہنا چاہیے کہ پیپلزپارٹی کے بعض رہنما بھی سینیٹ میںاپنے امریکا دشمن جذبے میں یہی بات کہتے رہے ہیں… پاکستان میں یہ فرض کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں مقابلہ اور مزاحمت جمہوریت کی خدمت ہے جس کی غیرموجودگی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ غلط ہے‘ غلط ہے‘ غلط ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ جمہوریت نہیں‘ بلکہ دہشت گردی اور ریاست کی داخلی خودمختاری کا ختم ہوجانا‘ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
یہ ہے وہ سیکولر ذہن جو اپنے سوچے سمجھے کھیل کے مطابق حالات کو ایک خاص رخ دینا چاہتا ہے۔ اسی اداریے کے آخری جملے کو غور سے پڑھیے کہ کس طرح خود پیپلزپارٹی کو سبق پڑھایا جارہا ہے___ ہم محترمہ کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت کے ان افراد کو جو آزاد سوچ رکھتے ہیں اور اس کے کارکنوں اور ہمدردوں کو اس اقتباس پر غوروفکر کی خصوصی دعوت دیتے ہیں:
آخری بات یہ کہ پیپلزپارٹی نے ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے ’بدمعاش (rogue) عناصر‘ پر مسزبھٹو کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا ہے اور آئی بی کے ڈی جی کی معطلی کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ غلط موقع پر متعین بات کہنا ہے۔ ان اداروں کی ماضی کی بدمعاشی کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے ریاستی اداروں میں بدمعاش عناصر کی موجودگی کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن آئی بی کے ڈی جی کو نشانہ بنانا‘ ایک واہیات بات ہے۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے خود جنرل مشرف پر الزام لگایا جائے۔ آئی بی کے ڈی جی پر جو بھروسا اور اعتماد مشرف رکھتے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے اور اس بات کے پیش نظر کہ وہ ان کے ایک اچھے ذاتی دوست بھی ہیں‘ زیادہ مناسب ہوتا اگر صاف صاف القاعدہ کے عناصر کوالزام دیا جاتا جنھوں نے کھلے عام جنرل مشرف اور مسزبھٹو دونوں کو ختم کر دینے کا اعلان کیا ہے۔ آخری بات جو جنرل مشرف اور مسزبھٹو چاہ سکتے ہیں وہ اُن لوگوں کے ہاتھوں میں کھیل جانا ہے جو ان دونوں کے درمیان خلیج پیدا کردینا چاہتے ہیں اور جو لبرل جمہوری اتحاد زیرتشکیل ہے‘ اس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
ہم نے کراچی کے سانحے کے ان پہلوؤں کی طرف اس لیے قدرے تفصیل سے توجہ دلائی ہے کہ قوم‘ ملک کی سیاسی اور دینی جماعتیں اور خود فوج‘ انتظامیہ اور میڈیا کے سوچنے سمجھنے والے عناصر اس حقیقت کو جان لیں کہ اصل مسئلہ وہ نہیں ہے جسے سیکولر اورامریکی لابی اور آمریت اور سیاست میں فوجی مداخلت کے ہم نوا پیش کر رہے ہیں یعنی اصل مسئلہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کا ہے۔ جمہوریت‘ دستور کی بحالی‘ قانون کی حکمرانی‘ فوج کے سیاسی کردار کی مکمل نفی اور سیاسی مسائل کا سیاسی عمل کے ذریعے حل کا نہیں۔ انتہاپسندی اور دہشت گردی دونوں اپنی اپنی جگہ ناپسندیدہ ہیں اور اسلام اور ہرمہذب معاشرے کو ان سے پاک ہونا چاہیے لیکن استعماری تسلط اور سامراجی ثقافت‘ تہذیب اور مداخلت پر گرفت اور تنقید کو انتہاپسندی قرار دینا اور بیرونی قبضے اور تسلط کے خلاف مزاحمت کو دہشت گردی قرار دے کر استعماری عزائم کو تحفظ بلکہ تقویت دینا ایک مجرمانہ فعل ہے۔ ہمارے سارے سیاسی خلفشار کی جڑ ہے اور جب تک ان اسباب کا سدباب نہیں ہوتا اور ان پالیسیوں کو قوت اور جبر کے ذریعے بیرونی ایجنڈے کو قوم پر مسلط کرنے کا کھیل ختم نہیں ہوتا‘ حالات کی اصلاح ممکن نہیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب تمام سیاسی اور دینی قوتیں اور ریاست کے تمام اداروں کے ذمہ دار افراد ٹھنڈے دل سے حالات کا تجزیہ کرکے آمریت اور ملک پر بیرونی عناصر کی گرفت کے مقابلے کے لیے سینہ سپر نہیں ہوتے‘ ملک تباہی سے نہ بچ سکے گا۔
دنیا کے وہ اہلِ نظر اور اصحابِ تحقیق جنھوں نے امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بے لاگ تجزیہ کیا ہے‘ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جسے انتہاپسندی اور دہشت گردی کہاجارہا ہے‘ وہ نتیجہ ہے امریکا اور مغربی اقوام کی سامراجی‘ ظالمانہ اور نوآبادیاتی پالیسیوں اور تیسری دنیا کے خودساختہ اور امریکا کے پروردہ حکمرانوں کا‘ جو ان ممالک میں امریکی ایجنڈے پر عمل درآمد کرکے ان کے آلۂ کار کا کردار ادا کر رہے ہیں‘ پاکستان کی اس کیفیت کی منظرکشی ایک سابق سفیر شمشاداحمد نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں اس طرح کیا ہے:
ایک فوجی حکومت کے لیے اس وقت مقابلے کے لیے کھڑے ہونا آخری بات تھی جو وہ کرسکتی تھی۔ نائن الیون کے بعد پاکستان کی پالیسی میں تیزی سے آنے والی تبدیلی نے اسے دہشت گردی کے خلاف امریکا کی عالمی جنگ میں اہم کھلاڑی بنادیا اور اسے عالمی برادری میں اہمیت دے دی جس نے فوجی حکومت کو اپنے جواز کی تلاش میں مدد دی۔ جنرل مشرف کے لیے یہ ایک فرد کا اسٹرے ٹیجک اتحاد تھا لیکن پاکستان کے لیے یہ اس کی تلاطم خیز تاریخ کا ایک نیا تکلیف دہ باب تھا۔ پلک جھپکتے میں پاکستان نے اپنی آزادی اور خودمختاری چھوڑ دی۔ ایک پراکسی وار میں ایک تابع دار فریق بن گیا جس میںاس کا فیصلہ سازی میں کوئی کردار نہ تھا۔ اس نے اپنے آپ کو ایک کرایے کی (mercenary) ریاست کے طور پر بھرتی ہونے کی اجازت دی جس کی ہم نے خوشی خوشی قیمت قبول کی۔ لیکن اب پاکستان کے عوام اس اسٹرے ٹیجک تعلق کی بڑی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ ہم امریکا کی افغانستان کی طالبان کے خلاف جنگ کو پاکستان میں لے آئے ہیں۔ وزیرخارجہ قصوری نے کھلے عام قبول کیا کہ ہم یہ جنگ امریکی قیادت میں ۳۷ رکنی طالبان دشمن اتحاد کی طرف سے افغانستان میں لڑ رہے ہیں۔ ان کا مطلب یہ تھاکہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے پھر بھی ہم اپنے لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ اس جاری مہم میں بہت بڑے پیمانے پر ضمنی نقصان کے طور پر ہمارے شہری اورفوجی ہلاک ہو رہے ہیں۔ سب سے بڑا نقصان پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کا خاتمہ ہے۔
اس پالیسی کا نتیجہ کیا ہے؟ آج ہم ہر طرف سے معتوب ہیں اور جنرل پرویز مشرف ان لوگوں کو شریکِ اقتدار کرنے کے لیے مجبور کردیے گئے ہیں جن کو کل تک وہ خود چور‘ ڈاکو‘ خزانہ لوٹنے والے اور سیکورٹی رسک قرار دے رہے تھے۔ رہی بین الاقوامی اہمیت تو اس کا حال سابق سفیر شمشاد احمد کے الفاظ میں یہ ہے:
ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان نے اس پراکسی وار میں سب کچھ دائو پر لگادیا ہے اور اپنے ہزاروں افراد کو قتل کردیا ہے‘ اور پھر بھی اس پر الزام لگ رہا ہے کہ اس نے کافی نہیں کیا۔ قوم کو یہ صدمہ بھی ہے کہ خطے میں اپنے کردار اور اہمیت کے حوالے سے اب ہم بھارت نہیں بلکہ افغانستان کے ساتھ بریکٹ کیے جاتے ہیں۔ اکتوبر ۹۹ء سے پہلے ایسا ہرگز نہ تھا جب ایک سویلین قیادت کے تحت پاکستان بھارت کے برابر ایک ایٹمی طاقت بن گیا اور ایک ذمہ دار علاقائی اور عالمی طاقت کے طور پر آگے بڑھ رہا تھا۔ اب ہم کو ایک ذمہ دار علاقائی طاقت نہیں سمجھا جاتا۔ جنرل مشرف کو پاکستان کے مسائل اور چیلنجوں کے بہت زیادہ ہونے کا ادراک ہونا چاہیے اور غور کرنا چاہیے کہ یہ حالات لانے میں خود ان کا کردار کیا ہے۔ آٹھ سال قبل انتہاپسندی‘ تشدد‘ جرائم اور کرپشن اس پیمانے کی اتنی سنگین ہرگز نہ تھی۔ آج دنیا پاکستان کو صرف امریکا کی دہشت گردی کی جنگ کا گرائونڈ زیرو اور مذہبی انتہاپسندی اور تشدد کا واحد مقام سمجھتی ہے جہاں یہ پرورش پاتی ہے___ یہ کس کا ورثہ ہے!
انتہاپسندی اور دہشت گردی کے بارے میں پاکستان اور امریکا کے ہم نوا مسلم ممالک ہی نہیں خود امریکا کی پالیسی حالات کے غلط تجزیے پر مبنی ہے اور اس پالیسی کی ناکامی کا اعتراف حکمران تو کھل کر نہیں کر رہے لیکن تمام عوامی جائزے خواہ وہ امریکا اور یورپ کے ممالک میں کیے جارہے ہوں یا پاکستان اور مسلم دنیا میں کھلے الفاظ میں کر رہے ہیں۔ امریکا میں اب ۷۹ فی صد آبادی بش کی پالیسیوں سے غیرمطمئن ہے۔ یورپ میں بھی بے اطمینانی کی یہ کیفیت ۷۰‘ ۸۰ فی صد آبادی کی ہے‘ جب کہ اسلامی دنیا میں یہ ۸۰ اور ۹۰ فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی ہے‘ یا مفادات کا کھیل کہ جنرل پرویز مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو ابھی تک یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ اصل مسئلہ انتہاپسندی اور دہشت گردی ہے‘ اور اصل کش مکش آمریت اور جمہوریت اور فوجی حکمرانی اور عوامی حکمرانی میں نہیں‘ انتہاپسندی اور روشن خیالی ہی ہے۔ ’خودکش حملے‘ انسانیت کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہیں‘ لیکن یہ اسی وقت ختم ہوسکتے ہیں جب ان حالات پر قابو پایا جائے جو ریاستی ظلم اور تشدد کے ستم زدہ انسانوں کو جان سے کھیل جانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ مغرب کے آزاد محقق اس بات کو محسوس کر رہے ہیں اور پکار پکار کر اپنی اندھی قیادتوں کو ان حقائق کو دیکھنے اور ان پر غور کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں اور سیاسی اور عسکری قیادت کو اس سے ہوش کے ناخن لینے چاہییں۔
دہشت گردی اور خودکش حملوں کے اسباب و عوامل کے بارے میں متعدد تحقیقی کتب گذشتہ چند برسوں میں شائع ہوئی ہیں۔ ان میں کرسٹوف ریوٹر کی کتاب My Life is a Weapon: A Modern History of Suicide Bombing ،پرنسٹن یونی ورسٹی‘ ۲۰۰۴ء بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس میں وہ لکھتا ہے:
مغربی میڈیا میں خودکش حملوں کی جو سادہ وجوہات بیان کی جاتی ہیں‘ ان سے نئے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ان حملوں کو انقلابی اسلام سے جوڑ دیا جائے تو پھر یہ پچھلے ۲۰سال ہی میں کیوں ہوئے ہیں؟ اگر غربت‘بدحالی ہی فیصلہ کن عوامل ہیں تو ہم اس حقیقت کی کیا توجیہہ کریں گے کہ ۱۱ستمبر کے تمام حملہ آور جہاں تک ہم جانتے ہیں پُرآسایش اور متوسط طبقے کے خاندانوں سے آئے‘ اور اگر مسلم حملہ آور اپنے آپ کو اس لیے اڑا دیتے ہیں کہ ۷۲دوشیزائیں ان کو جنت میں ملیں گی تو ہم اس کی کیا وجہ بتائیں گے کہ یہی اقدام غیرمسلم بھی کرتے ہیں‘ عورتیں بھی کرتی ہیں یا کوئی بھی جسے جنسی فوبیا ہو؟ یہ اسباب مخصوص حالات میں ان حملوں کی کثرت کی وجہ نہیں بتاپاتے۔ شاید سب سے پریشان کن سوال یہ ہے کہ ایک معاشرہ کس طرح ایک ایسے عمل کو برداشت کرسکتا ہے بلکہ مریضانہ حد تک بڑھا سکتا ہے جو بقا کی حِس کے مخالف ہو۔ ہم ان ماؤں اور باپوں کے بارے میں کیا کہیں گے جو اپنے اس بیٹے یا بیٹی پر فخر کرتے ہیں جس نے دوسروں کو مارنے کے لیے اپنے آپ کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ کس چیز نے ایک ایرانی ماں کو ۱۹۸۰ء کی ایران عراق جنگ کے ابتدائی دنوں میں یہ اعلان کرنے پر آمادہ کیا کہ وہ خوش ہے کہ اس کے پانچ بیٹے شہید ہوئے اور بس یہ افسوس ہے کہ اس کے پاس پیش کرنے کے لیے اور بیٹے نہیں ہیں۔ آج ۲۰سال بعد وہ کیا کہتی ہوگی۔(ص ۱۱)
دوسرا محقق جس کی کتاب نے امریکا اور یورپ میں تہلکہ مچا دیا ہے‘ وہ شکاگو یونی ورسٹی کے پروفیسر رابرٹ پاپ کی Dying To Winہے۔ مصنف کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ:
بہرکیف خودکش دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی کے درمیان مفروضہ تعلق گمراہ کن ہے‘ اور اس سے ان داخلی اور خارجی پالیسیوں کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے جو امریکا کے حالات خراب کر رہی ہیں اور خواہ مخواہ بہت سے مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔
رابرٹ پاپ اپنے طریق کار اور نتائج تحقیقی کو یوں بیان کرتا ہے:
میں نے ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۳ء تک پوری دنیا میں ہونے والے خودکش بمباریوں کے‘ جن کی تعداد ۳۱۵ ہے‘ ہر ایک کے اعدادو شمار جمع کیے ہیں۔ اس میں ہر وہ حملہ شامل ہے جس میں کسی مرد یا خاتون دہشت گرد نے دوسروں کو مارنے کی کوشش میں اپنے آپ کو مار لیا۔ اس میں وہ حملے شامل نہیں کیے گئے جن کی کسی قومی حکومت نے اجازت دی‘ مثلاً شمالی کوریا کے خلاف جنوبی کوریا کے۔ یہ ڈیٹابیس دنیا بھر میں خودکش حملوں کی پہلی مکمل تفصیل ہے جو میں نے جمع کی ہے اور تمام متعلقہ معلومات کی تصدیق کی ہے جو انگریزی‘ عربی‘ روسی یا تامل زبانوں میں بذریعہ انٹرنیٹ یا مطبوعہ ملتی ہیں۔ یہ معلومات خودکش دہشت گرد گروہوں سے حاصل کی گئی ہیں‘ یا ان بڑی تنظیموں سے جو متعلقہ ملک میں ایسی معلومات جمع کرتی ہیں‘ اور پوری دنیا کے نیوزمیڈیا سے۔ یہ ڈیٹابیس خودکش حملوں کا ایک فہرست سے زیادہ جامع ترین اور قابلِ اعتماد سروے ہے جو اس وقت دستیاب ہے۔ یہ ڈیٹا بتاتاہے کہ خودکش دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی یا دنیا کے کسی مذہب کے درمیان بہت کم تعلق ہے۔ خودکش حملوں کے سب سے بڑے ذمہ دار سری لنکا کے تامل ٹائیگر ہیں جو ایک مارکس نواز گروپ ہیں جس کے ارکان اگرچہ ہندو خاندانوں سے ہیں لیکن وہ مذہب کے سخت مخالف ہیں۔ اس گروپ نے ۳۱۵ میں سے ۷۶ حملے کیے‘ حماس سے بھی زیادہ۔ تقریباً تمام خودکش دہشت گرد حملوں میں جو چیز مشترک ہے وہ ایک مخصوص سیکولر اور اسٹرے ٹیجک ہدف ہے: جدید جمہوری طاقتوں کو مجبور کرنا کہ وہ اس علاقے سے اپنی افواج واپس بلائیں جن کو دہشت گرد اپنا وطن سمجھتے ہیں۔ مذہب شاذ ہی اصل وجہ ہوتا ہے‘ گو کہ اسے اکثر دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے بھرتی کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر اور وسیع تر اسٹرے ٹیجک مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ (ص ۳-۴)
رابرٹ پاپ کا کہنا ہے کہ ۱۹۸۰ء سے لے کر ۲۰۰۳ء تک جن حملوں کا انھوں نے مطالعہ کیا ہے‘ اس میں مسلمانوں کا تناسب ۵۰ فی صد ہے‘ یعنی یہ محض مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ تمام ہی مذاہب اور سیکولر عناصر اس میں کارفرما نظر آتے ہیں۔ نیز یہ کسی خاص تعلیمی پس منظر یا سماجی اور معاشی حالت کی پیداوار نہیں۔ ان کا کہنا ہے:
مسلمانوں میں بھی خودکش حملے ایک تہائی سیکولر گروپوں نے کیے ہیں۔ کردوں کی تنظیم ’پی کے کے‘ جس نے خودکش حملہ آوروں کو کرد خودمختاری حاصل کرنے کے لیے حکمت عملی کے ایک جزو کے طور پر استعمال کیا ہے‘ اسلام کے بجاے اپنے لیڈر عبداللہ ادکلان کے سیکولر مارکس لینن کے نظریے کو مانتی ہے۔ ان تنازعات میں بھی جن پر اسلامی بنیاد پرستی کی چھاپ ہے‘ خودکش حملوں کی ایک بڑی تعداد سیکولر نظریوں کے حامل گروپوں کی طرف سے ہوتے ہیں۔ فلسطین کی آزادی کے لیے پاپولرفرنٹ (مارکس لینن گروپ)‘ اور الاقصیٰ شہدا بریگیڈ جس کا تعلق یاسرعرفات کی سوشلسٹ الفتح موومنٹ سے ہے‘ دونوں مل کر اسرائیل کے خلاف کیے جانے والے ۹۲ حملوں میں سے ۳۱ کے ذمہ دار ہیں‘ جب کہ کمیونسٹ اور سوشلسٹ گروپ جیسے لبنانی قومی مزاحمتی فرنٹ‘ لبنانی کمیونسٹ پارٹی اور شام کی قومی سوشلسٹ پارٹی ۸۰ کے عشرے میں ہوئے ۳۶ حملوں میں سے ۲۷ کے ذمہ دار ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ نفسیاتی اسباب اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے کہ خودکش حملے صرف چند مخصوص معاشروں میں صرف مخصوص مواقع پر کیوں ہوتے ہیں۔ خودکش حملوں کی تعداد میں ایک معاشرے سے دوسرے معاشرے میں فرق ہوتا ہے لیکن یہ اتنا زیادہ نہیں ہوتا کہ یہ معلوم ہوسکے کہ کیوں معاشروں کی اکثریت میں___ حالانکہ ان میں سے بہت سے معاشرے سیاسی تشدد سے گزر رہے ہیں___ کسی خودکش دہشت گردی کا مظاہرہ نہیں ہوتا۔ لیکن معاشروں کی ایک تعداد میں‘ ہر ایک میں درجنوں ہوجاتے ہیں۔ اس سوال کا سیاسی یا عمرانی جواب چاہیے۔ اسی طرح خودکش حملے کرنے والے افراد کی فراہمی میں ایک خاص مدت میں کچھ فرق پڑسکتا ہے۔ اس کا کوئی نفسیاتی سبب نہیں معلوم ہوتا کہ کیوں خودکش حملوں کے ۹۵ فی صد منظم مہموں میں ہوتے ہیں جو ایک خاص وقت میں مرکوز ہوتے ہیں۔ پھر یہ کہ خودکش حملہ آوروں کی شخصیت خودکشی کرنے والوں کے ساتھ نہیں ملتی۔ ابھی تک خودکش حملہ آوروں کی نفسیاتی شخصیت کے بارے میں ماہرین کا کہنا تھا کہ غیرتعلیم یافتہ‘ بے روزگار‘ معاشرے میں تنہا‘ غیرشادی شدہ‘ ۱۷/ ۱۸ سے ۲۲/۲۳ برس کی عمر کے ہوتے ہیں۔ اس مطالعے میں خودکش حملہ آوروں کی شخصیت کے بارے میں جامع ڈیٹا جمع کیا گیا ہے (دیکھیے‘ باب ۱۰) جو بتاتا ہے کہ وہ کالج کے تعلیم یافتہ اور غیرتعلیم یافتہ‘ شادی شدہ غیرشادی شدہ‘ مرداور عورت‘ معاشرے سے تنہا اور معاشرے میں مربوط‘ ۱۵ سے ۵۲ برس کی عمر تک کے رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں‘ لائف اسٹائل کے ایک وسیع پس منظر سے آتے ہیں۔
اسی طرح موصوف ثابت کرتے ہیں کہ غربت اس کا اصل سبب نہیں جیساکہ کچھ حلقوں میں دعویٰ کیا جاتا ہے (ص ۱۸-۱۹)۔ پروفیسر پاپ کی تحقیق جس طرف اشارہ کرتی ہے وہ بڑی بنیادی حقیقت ہے یعنی سیاسی ظلم و استبداد اس کا اہم ترین سبب ہے:
خودکش دہشت گردی کی حکمت عملی کا مقصد سیاسی دبائو ہے۔ خودکش حملوں کی بڑی اکثریت چند جنونیوں کے اتفاقی یا غیرمربوط افعال نہیں ہے بلکہ ایک منظم گروہ کی طرف سے کسی مخصوص سیاسی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ایک بڑی مہم کے حصے کے طور پر کئی کئی ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں خودکش دہشت گرد گروپوں کے بنیادی مقاصد عموعی طور پر اسی دنیا سے متعلق ہوتے ہیں۔ یہ مہمیں بنیادی طور پر قوم پرست ہوتی ہیں‘ مذہبی نہیں ہوتیں اور خاص طور پر نہ اسلامی ہی۔
گذشتہ دو عشروں میں‘ جس گروپ نے بھی خودکش مہم چلائی‘ لبنان میں حزب اللہ سے لے کر مغربی کنارے میں حماس تک‘ اور سری لنکا میں تامل ٹائیگرز تک‘ ہر ایک کا ایک مرکزی مقصد رہا ہے: ایک بیرونی ریاست کو مجبور کرنا کہ وہ اپنی فوجیں وہاں سے نکالیں جسے یہ گروپ اپنا وطن سمجھتے ہیں۔
پروفیسر پاپ امریکی پالیسی کے یک رخے پن کا نوحہ کرتا ہے‘ اور ایک ایسی حکمت عملی کی بات کرتا ہے جو محض عسکری قوت پر انحصار نہ کرے‘ بلکہ اصل اسباب اور پالیسی کے پہلوؤں کو توجہ کا مرکز بنائے۔
آخری نتیجہ یہ ہے کہ خودکش دہشت گردی دراصل غیرملکی قبضے کے خلاف ردعمل ہے۔ دیگر حالات میں متفرق واقعات ہوئے ہیں‘ مذہب کا بھی ایک کردار ہے لیکن جدید خودکش دہشت گردی کو قومی آزادی کے لیے ایک انتہاپسند حکمت عملی کے طور پر بہتر سمجھا جاسکتا ہے۔ قومی آزادی ان جمہوریتوں سے جن کی افواج ان علاقوں کے کنٹرول کے لیے ایک فوری خطرہ ہیں جن کو دہشت گرد اپنا وطن سمجھتے ہیں۔
خودکش دہشت گردی کے اسٹرے ٹیجک‘ سوشل اور انفرادی اسباب کو سمجھنے کے امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے اہم مضمرات ہیں۔ ہمارا پالیسی پر حالیہ بحث و مباحثہ صحیح سمت میں نہیں ہے۔ فوجی طاقت سے حملے اور محض رعایتیں طویل مدت تک کام نہ آئیں گی۔ (ص ۲۳)
اس لیے جس نئی حکمت عملی کی طرف وہ امریکی قیادت کو متوجہ کرتا ہے‘ وہ دوسرے ذرائع سے امریکا کے تیل کی ضرورت پر توجہ مرکوز کرنے سے عبارت ہے‘ نہ کہ قبضہ (occupation) اور عسکری قوت کے ذریعے مسلم دنیا کو اپنے زیرتسلط رکھنا۔
یہ سمجھنے کے کہ خودکش دہشت گردی اسلامی بنیاد پرستی کا نتیجہ نہیں بلکہ غیرملکی قبضے کا ردعمل ہے‘ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے اہم مضمرات ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کس طرح کریں کیونکہ خودکش دہشت گردی کا اصل سبب مسلمانوں میں بھی کسی نظریے میں نہیں ہے۔بحیرۂ فارس میں جمہوریت کو پھیلانا امرت دھارا ثابت نہیں ہوگا جب تک کہ غیرملکی افواج جزیرہ نما عرب میں موجود ہیں۔
خلیج فارس کے تیل میں دنیا کی دل چسپی کو ایک طرف رکھ دیں تو واضح حل‘ جیساکہ رونالڈ ریگن کے لیے تھا جب امریکا کو لبنان میں خودکش دہشت گردی کا سامنا تھا‘ یہ ہوسکتا ہے کہ علاقے کو بالکلیہ چھوڑ دیں۔ یہ بہرحال ممکن نہیں ہے‘ یقینا مستقبل قریب میں بھی نہیں۔ اس طرح اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم خودکش دہشت گردی کا کوئی ایسا مستقل حل تلاش کرسکتے ہیں جو ہمارے بنیادی مفاد‘ یعنی دنیا کے تیل پیدا کرنے والے بڑے علاقوں میں سے ایک پر ہماری رسائی کو متاثر نہ کرے۔ اس کا جواب ایک مشروط ہاں میں ہے۔ گو کہ اِکا دکا خودکش حملے ہوتے ہیں‘ امریکا اور اس کے اتحادی فتح کے لیے ایک ایسی حکمت عملی اختیار کرسکتے ہیں جو ہماری عالمی سلامتی کو قربان کیے بغیر خودکش دہشت گردی کی مہموں کو کم کردیں۔ یہ کرنے کے لیے ہمیں فوجی حملوں اور رعایتوں دونوں کی حدود کو پہچاننا ہوگا اور ساتھ ہی اپنے ملک میں سلامتی کی بڑھتی ہوئی کوششوں کی حدود کو بھی۔ ہمیں اپنی خلیج فارس میں آف شور بیلنسنگ (off shore balancing)کی روایتی پالیسی خوبیوں کو یاد کرنا چاہیے اور اسی حکمت عملی کی طرف واپس آنا چاہیے۔ یہی حکمت عملی دنیا کے تیل پیدا کرنے والے علاقوں میں دہشت گردی کو مزید اُبھارے بغیر ہمارے مفادات کے تحفظ کے لیے بہترین راستہ ہے۔(ص ۲۳۵-۲۳۶)
اسی ماہ پرنسٹن یونی ورسٹی کے عالمی شہرت کے ماہرمعاشیات پروفیسر ایلان کروٹیگر کی کتاب What Makes a Terroristشائع ہوئی ہے جس میں وہ برسوں کی تحقیق کے بعد یہ ثابت کرتا ہے کہ دہشت گردی کا تعلق نہ غربت سے ہے اور نہ مذہبی تعلیم یا تعلیم کی کمی سے اور صاف کہتا ہے کہ:
مجھے یقین ہے کہ مغرب کی غلطی یہ ہے کہ وہ یہ سمجھنے میں ناکام ہے کہ ہماری پالیسیاں منفی یا تشدد آمیز نتائج کی طرف لے جاسکتی ہیں۔ (ص ۵۱)
اسی طرح مذہب کے عنصر کو بھی اس نے غیر اہم قرار دیا ہے:
ہماری تحقیق کے نتائج نے دنیا کے بڑے مذاہب کے درمیان کوئی اہم فرق ظاہر نہیں کیا۔ ان نتائج کی میری تعبیر یہ ہے کہ مذہبی اختلافات ان بہت سے امکانی ذرائع میں سے ہیں جن سے دہشت گردی بڑھتی ہے۔ یہ اس طرح کی شکایات کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے‘ اور کسی ایک مذہب سے وابستہ نہیں ہے۔ اگرچہ آج کل دنیا کی توجہ اسلامی دہشت گرد تنظیموں کی طرف ہے‘ یہ کسی بھی طرح دہشت گردی کا منبع نہیں ہیں۔ دہشت گردی پر کسی مذہب کی اجارہ داری نہیں ہے۔
پروفیسر کروٹیگر نے انھی خطبات کے بعد سوال جواب کے موقع پر ایک بڑی عجیب بات کہی ہے جس سے جسے دہشت گردی کہا جاتا ہے اس کے عقلی جواز پر روشنی پڑتی ہے۔ سوال اور جواب ملاحظہ ہو:
سوال: آپ نے اپنے لیکچر کے آغاز میں کہا کہ دہشت گردی ایک حکمت عملی ہے‘ ایک مقصد حاصل کرنے کا ذریعہ۔ آپ نے اس بات پر اختتام کیا کہ دہشت گردی کے مقاصد حاصل نہیں ہوئے۔ کیا آپ ہمیں ذرائع اور مقاصد کی معاشی اصطلاحات میں دہشت گردی کے طریقے اور اس کے نتائج کا شروع سے آخر تک کا ایک قیمت اور نفع کا تجزیہ (cost benefit analysis) دے سکتے ہیں؟
جواب: میں آپ کو ایک مکمل طور پر معاشی تخمینہ نہیں دے سکتا لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں یقین رکھتا ہوں کہ اکثر دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے دہشت گردی ایک عقل میں آنے والا اقدام ہوتا ہے۔ قیمت اور نفع کے جو حساب وہ لگا رہے ہوتے ہیں غالباً درست ہوتے ہیں۔ یہ ہمیشہ ٹھیک نہیں ہوتا۔ اس لیے دہشت گردی بعض اوقات بے وقت اور مقاصد کے برعکس کام کرتی ہے۔ دہشت گرد تنظیموں کی اہلیت کو سامنے رکھا جائے تو میرے خیال میں وہ بہترین طریقے استعمال کرتے ہیں جو انھیں دستیاب ہوتے ہیں۔ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ تنظیمیں جس انداز سے صنعتوں کو نشانہ بناتی ہیں یا دہشت گردوں کے کام سپرد کرتی ہیں وہ سوچا سمجھا ہوتا ہے۔ مجھے یہ بھی نظر آتا ہے کہ ان حملوں کے اوقات بھی اکثر سوچے سمجھے ہوتے ہیں اس لحاظ سے کہ یہ اپنے ہدف کو بہ نسبت اپنی قربانی کے بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔(ص ۱۶۱)
بات لمبی ہو رہی ہے لیکن دنیا میں جو آزاد تحقیق ہو رہی ہے‘ وہ بڑی اہمیت کی حامل ہے اور ہمارے یہاں جو بے سروپا دعوے کیے جا رہے ہیں اور جس طرح مذہبی جنونیت اور جہادی کلچر کی بات کر کے اصل مسائل کو الجھایا جا رہا ہے‘ وہ افسوس ناک تو ہے ہی مگر خطرناک‘ نتائج کے اعتبار سے مہلک اور اپنے مقصد کو آپ شکست دینے والا (self defeating) ہے۔ مشرف صاحب اور بے نظیر صاحبہ دونوں ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سلسلے میں ایک چوٹی کے مؤرخ اور محقق Eric Hobsbawm کی تازہ ترین کتاب Globalisation, Democracy and Terrorism جو ان کے مضامین کے انتخاب پر مشتمل ہے‘ بڑی دل چسپ رہنمائی کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ۲۱ویں صدی میں عالمی سطح پر قوت کے استعمال کو فروغ امریکا کی پالیسیوں کی وجہ سے ہوا ہے اور یہ کہ دہشت گردی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے والے پڑھے لکھے لوگ ہیں‘ مذہبی جنونی یا فاقہ زدہ عوام نہیں۔
تیسرے مرحلے میں جسے موجودہ صدی کے آغاز پر غلبہ حاصل ہے‘ سیاسی تشدد جارج بش کے تحت امریکا کی پالیسیوں اور اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے منظم طور پر عالمی ہوگیا ہے‘ ۱۹ویں صدی کی انارکیت کے بعد شاید پہلی مرتبہ۔
دو باتیں ان نئی تحریکوں کی خاصیت ہیں۔ یہ چھوٹی اقلیتوں پر مشتمل ہیں گو کہ ان اقلیتوں کو عام لوگوں کی خاموش ہمدردی حاصل ہے جن کی خاطر یہ عمل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کا مخصوص طریقۂ کار چھوٹے گروپ ایکشن کا طریقۂ کار ہے۔
پرویژنل آئی آر اے کی نام نہاد سرگرم یونٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک وقت میں اس میں دو یا تین سو سے زیادہ لوگ نہیں ہوتے تھے اور میرا خیال ہے کہ اٹلی کی ریڈبریگیڈ اور باسک ای ٹی اے میں بھی اس سے زیادہ نہیں تھے۔ عالمی دہشت گرد تنظیموں اور تحریکوں میں سب سے بڑی القاعدہ میں افغانستان کے دنوں میں بھی ۴ہزار سے زیادہ لوگ نہیں تھے۔ ان کی دوسری خاصیت یہ تھی کہ عام طور پر وہ بہ نسبت اپنی برادری کے دوسرے لوگوں کے زیادہ تعلیم یافتہ تھے‘ اور اعلیٰ سماجی پس منظر سے تعلق رکھتے تھے۔ افغانستان میں جن لوگوں نے القاعدہ سے تربیت حاصل کی وہ متوسط اور اعلیٰ طبقوں کے لوگ تھے جو مستحکم خاندانوں سے آئے تھے‘ زیادہ تر کالج کے تعلیم یافتہ تھے اور سائنس اور انجینیرنگ کے طالب علم تھے‘ جب کہ دینی مدارس سے بہت کم آئے تھے۔ فلسطین میں بھی خودکش حملہ آوروں میں سے ۵۷ فی صد ہائی اسکول سے زیادہ تعلیم یافتہ تھے‘ جب کہ آبادی میں یہ تناسب ۱۵ فی صد سے کم تھا۔ (ص ۱۳۲-۱۳۳)
Eric Hobsbawm جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ بہت اہم ہے اور اس میں ہمارے لیے بڑا سبق ہے:
ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی عالمیت اور ایک فوجی طاقت کی جانب سے مسلح بیرونی مداخلت کے احیا نے‘ جس نے ۲۰۰۲ء میں‘ بین الاقوامی تنازعات کے اب تک کے تسلیم شدہ ضوابط کو سرکاری طور پر مسترد کیا ہے‘ حالات کو بدتر کردیا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں مستحکم ریاستوں کی حکومتوں کو اور ایشیا میں بھی‘ نئی عالمی دہشت گرد تنظیموں کا حقیقی خطرہ ناقابلِ ذکر ہے۔ لندن یا میڈرڈ میں شہری ٹرانسپورٹ میں چند درجن یا چند سو زخمی بمشکل ایک بڑے شہر کی کارکردگی میں چند گھنٹوں کا تعطل ڈالتے ہیں۔ نائن الیون کا حادثہ کتنا ہی ہولناک سہی‘ یہ امریکا کی عالمی طاقت اور اس کے اندرونی نظام کے حوالے سے بالکل بے اثر رہا۔ اگر حالات بدتر ہوئے ہیں تو یہ دہشت گردوں کی کارروائی سے نہیں‘ بلکہ حکومتِ امریکا کی کارروائی سے ہوئے ہیں۔ (ص ۱۳۵)
ہماری معروضات کا حاصل یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں خاص طور پر اور عالمِ اسلام بلکہ پوری دنیا میں بالعموم انتشار‘ تصادم اور خون ریزی کا اصل سبب وہ ظلم و تشدد‘ وہ ریاستی جبر اور تسلط‘ اور حکمرانوں کا قانون اور انصاف سے بالا ہونا ہے جس کے نتیجے میں مزاحمت رونما ہوئی ہے اور مزاحمت کے سوا کوئی اور ردعمل نہیں ہوسکتا۔ اسے انتہاپسندی کا نام دینا غلط ہے‘ اور اسے دہشت گردی قرار دے کر عسکری قوت سے دبانا مسئلے کو بگاڑنے اور تشدد اور خون خرابے کو وسیع کرنے کا نسخہ ہے۔ عالمی صف بندی میں ایک طرف امریکا اور اس کے حلیف ہیں جو ظلم اور استبداد کے مرتکب ہیں‘ اور دوسری طرف عوام ہیں جو اپنے حقوق‘ اپنی آزادی اور اپنے تہذیبی تشخص کے لیے جمہوری جدوجہد کرنا چاہتے ہیں اور جب اس کے دروازے بند پاتے ہیں تو بم کا جواب پتھر سے دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ قوت کا بے محابا استعمال اس صورت حال کو اور بگاڑ رہا ہے اور اب دونوں ہی طرف سے کیے جانے والے اقدامات بگاڑ کو بڑھانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔
پاکستان میں اصل مسئلہ جنرل پرویز مشرف کا آمرانہ نظام‘ فوج کی قیادت اور فوج کا سیاسی استعمال‘ جمہوری عمل اور دستور اور قانون کی بالادستی کو درہم برہم کرنا اور نظامِ حکومت کو ایک اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے غلط طور پر استعمال کرنا ہے‘ اور گرتی ہوئی دیوار کو سہارا دینے کے لیے امریکا اور برطانیہ کے تعاون سے ایک سیاسی پارٹی کو شریکِ اقتدار کرنا اور حزبِ اختلاف کو بانٹنے اور ان کے درمیان تفریق اور بے اعتمادی پیدا کرنا ہے اور ان ہتھکنڈوں کے استعمال میں اس حد تک چلے جانا ہے‘ وہ جو قتل‘ لُوٹ مار‘ قومی دولت کے خردبرد‘ بھتہ خوری اور کرپشن کے ذریعے جسے اپنے نام نہاد صدارتی انتخاب سے چند گھنٹے پہلے بڑی بول تول اور بیرونی قوتوں کی مداخلت کے بعد مرتب کیا گیا تھا‘ عام معافی تک دینے کے گھنائونے جرم تک کا کاروبار کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی۔ اصل مسئلہ یہ غاصب قیادت‘ اور ان کا بنایا ہوا یہ نظام اور سیاسی کھیل ہے جسے دوست دشمن سب دیکھ رہے ہیں‘ مگر مفاد کے پجاری ملک میں بھی اور باہر بھی اس کھیل کو جاری رکھنا اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اسے کامیاب بنانا چاہتے ہیں‘ حالانکہ مجرم ضمیر ’جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا‘ کے مصدق اپنی کوئی نہ کوئی جھلک دکھا دیتا ہے۔ نیویارک ٹائمز اور گارڈین دونوں نے جنرل مشرف اور محترمہ بے نظیربھٹو کی پیٹھ ٹھونکی ہے‘ مگر یہ کہے بغیر بھی نہیں رہ سکے کہ یہ کھیل کتنا گھنائونا ہے۔
نیویارک ٹائمز نے مشرف-بے نظیر معاہدے کو جسے امریکا نے ممکن بنایا dubious dealقرار دیا ہے اور لکھا ہے:
بے نظیر کی واپسی کو جمہوریت کی فتح سمجھنا مشکل ہے‘ خاص طورپر اس لیے کہ یہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ایک مشکوک ڈیل کا نتیجہ ہے جو اس کو مزید پانچ سال کے لیے صدارت دیتی ہے۔ نہ یہ قانون کی حکمرانی کے لیے کوئی بڑی فتح ہے کیونکہ جنرل کے ساتھ بال کھیلنے کے بدلے میں مسزبھٹو کو ایک مناسب معافی دی گئی ہے جو ان کی وزارتِ عظمیٰ کے دور کے سنگین کرپشن کے الزامات سے ان کو بری کردیتی ہے۔
جنرل صاحب کی عزت امریکا میں کیا ہے اور ہمارے داخلی معاملات اور اپنے مطلب کی سیاسی قیادت کو بروے کار لانے میں امریکا کیا کردار ادا کررہا ہے‘ وہ بھی نیویارک ٹائمز ہی کے الفاظ میں یہ ہے:
ایک طویل عرصے تک اس نے جنرل مشرف کو اس کی مفروضہ طور پر طالبان اور القاعدہ کے خلاف پالیسیوں کی وجہ سے اپنی تائید سے نوازا۔ لیکن اب حال ہی میں وہ پالیسیاں اس کے جمہوریت اور قانون قبول کرنے یا شفاف انتخابات کرانے کے اس کے ایک کھوکھلے وعدے سے زیادہ قابلِ اعتماد نہیں رہیں۔ تاخیر سے یہ احساس ہونے کے بعد کہ جنرل کی پالیسیاں خطرناک طور پر انتہاپسندقوتوں کو کمزور نہیں مضبوط کر رہی ہیں۔ واشنگٹن نے اس ڈیل کے ہونے میں مدد دی جس سے مسزبھٹو کی واپسی ممکن ہوئی۔ اس سے پاکستان اور اسے جمہوریت کی طرف واقعی پیش قدمی کرنے میں مدد ملنا چاہیے۔
گارڈین کا تبصرہ بھی قابلِ غور ہے۔ سارا کھیل مفادات کی سیاست کا ہے‘ ورنہ جنرل مشرف اور محترمہ بے نظیر دونوں کی پارسائی کا حال سب کو معلوم ہے:
مسزبھٹو نے نہ حکومت پر اور نہ جنرل پرویز مشرف پر کراچی کے سانحے میں جس میں ۱۴۰افراد ہلاک ہوگئے‘ ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ انھوں نے پاکستان کے سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق‘ جنھوں نے ان کے والد کی حکومت کو ختم کیا اور ان کے باپ کو پھانسی چڑھایا‘ ان کے حامیوں کی طرف اشارہ کیا۔
ان میں سے کوئی بات بھی اسے خارج از امکان نہیں کرتی کہ آئی ایس آئی کے اندر بدمعاش عناصر یا اس کے سابقہ ممبروں نے اسلامی عسکریت پسندوں کے فراہم کیے ہوئے خودکش حملہ آور مسزبھٹو سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرنے کے لیے استعمال کیے ہوں۔ اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ ایک حقیقی معنوں میں سویلین مقبول سیاسی رہنما پاکستان کے ارب پتی جنرلوں کی طاقت کے لیے خطرہ ہے۔ مسزبھٹو اور ان کے شوہر پر جو بھی کرپشن کے الزامات ہوں (انھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا) لیکن ان کی غیرحاضری میں سینیر آرمی جرنیلوں نے جو مال اور جایداد جمع کی ہے اس کے مقابلے میں وہ ایک ہلکا سا عکس ہے۔ وہ پاکستانی جو ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پرآئے بھٹوؤں کے سروں پر کرپشن کے چھائے ہوئے بادلوں سے آگاہ تھے لیکن حکومت کا آٹھ سالہ پروپیگنڈا اور متعدد عدالتی اقدامات سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ان کی اپنی پارٹی میں ان کے مقام کو جو نقصان پہنچا ہے وہ مشرف سے آٹھ ہفتے کی پس پردہ ڈیلنگ سے ہوا ہے۔ اسی کے نتیجے میں واپسی ہوئی اور ان کی واپسی کا راستہ صاف ہوا۔ اس سے ہی معلوم ہوجانا چاہیے کہ عوام کی ہمدردیاں کہاں ہیں۔ ایک سیاسی لیڈر کی حیثیت سے جنرل مشرف کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ ان کے لیے اب واحد قابلِ عمل راستہ یہ ہے کہ وہ ایک براے نام صدر بن جائیں اور وزیراعظم اور فوج کے درمیان رابطہ کاری کریں۔ (گارڈین‘ ۲۰ اکتوبر ۲۰۰۷ء)
یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ کچھ جرنیل اور سیاست دان اس ناپاک کھیل میں شریک ہیں اور ملک کو مزید تباہی کی طرف لے جارہے ہیں‘ لیکن یہ ملک ۱۶کروڑ عوام کا ہے‘ کسی جرنیل یا کسی خاندان کی جاگیر نہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اصل مسائل کو سمجھا جائے اور جو کچھ معرضِ خطر میں ہے‘ اس کے حقیقی ادراک کے ساتھ ملک کو بچانے اور اصل دستور کے مطابق حقیقی جمہوری نظام قائم کرنے کی جدوجہد کی جائے۔ اس سلسلے میں عدالت‘سیاسی اور دینی جماعتیں‘ عام فوجی‘ انتظامیہ‘ میڈیا‘ وکلا برادری‘ دانش ور اور عوام اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ نظریۂ ضرورت کو اس کی ہرشکل میں اور روح اور جسد دونوں کے ساتھ ہمیشہ کے لیے دفن کردیا جائے اور اتنا گہرا گاڑا جائے کہ پھر اس سے باہر آنے کا خطرہ باقی نہ رہے۔ ملک عزیز کو جتنا نقصان نظریۂ ضرورت نے پہنچایا ہے کسی اور نظریے‘ حکمت عملی یا پالیسی نے نہیں پہنچایا‘ اور اس میں ساری ذمہ داری کسی ایک ادارے پر نہیں۔ عدالتیں‘ سیاسی جماعتیں‘ پارلیمنٹ‘ میڈیا سب ہی کسی نہ کسی درجے میں اس ذمہ داری میں شریک رہے ہیں اور اس سے نجات کی جدوجہد میں بھی ہر ایک کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہم اپنی تاریخ کے اس نازک لمحے پر جب ایک طرف عدالت بہت ہی اہم دستوری‘ سیاسی اور اخلاقی امور پر غور کر رہی ہے اور ایسے فیصلے کرنے جارہی ہے جن کے دُوررس اثرات ہوںگے‘ اور دوسری طرف ملک نئے انتخابات کے دروازے پر کھڑا ہے اور ایک طرف یہ امکان ہے کہ عدالت‘ دستور اور قانون کی بالادستی کو اولیت دے اور عوام‘ سیاسی اور دینی جماعتیں اور میڈیا جمہوریت کی بحالی کے لیے سیاست میں فوج کی بلاواسطہ اور بالواسطہ مداخلت کا ہردروازہ بند کرنے اور آزاد‘ غیر جانب دار اور شفاف انتخابات کے ذریعے عوام کے حقیقی نمایندوں کو زمامِ کار سونپنے کی خدمت انجام دیں‘ اور دوسری طرف یہ خطرہ ہے کہ ایک بار پھر نظریۂ ضرورت کا سہارا لے کر خدانخواستہ غلام محمد ‘ جنرل ایوب خان‘ جسٹس منیر‘ جسٹس انوارالحق‘ ضیاء الحق اور جسٹس ارشاد کے دکھائے ہوئے تباہی کے راستے کی طرف رجعت قہقہری کا ارتکاب کیا جائے‘ یا ایمرجنسی اور مارشل لا کے جہنم میں ملک کو جھونکنے کی خودکشی کی راہ اختیار کی جائے۔
یہ سب تباہی کے راستے ہیںاور ہمیں یقین ہے کہ باربار دھوکا کھانے والے عوام اب اس سنگین مذاق کو گوارا نہیں کریں گے۔ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اب ملک کو نظریۂ ضرورت کے نام پر آمروں اور مفاد پرستوں کی گرفت سے نکالنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ آخر یہ ملک کب تک اس ظالمانہ تصور کی کسی نہ کسی شکل کی زنجیروں میں پابہ جولاں رہے گا۔ غاصبوں کو اس کے ذریعے تحفظ ملا ہے۔ بیرونی دبائو اور مداخلت کو اس کے نام پر قبول کیا گیاہے۔ نائن الیون کے بعد یو ٹرن کو اس نظریۂ ضرورت کے سہارے جواز فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وزیرستان میں فوج کشی کے لیے بھی یہی بھونڈا جواز دیا جا رہا ہے کہ اگر ہم نہیں کرتے تو امریکا خود کرڈالے گا۔ یہ سب نظریۂ ضرورت ہی کے مختلف مظاہر ہیں جن کے نتیجے میں ملک کا ہر ادارہ اور اب ملک کی آزادی خطرے میں ہے۔ نظریۂ ضرورت ہی کا ایک مظہر یہ دلیل ہے کہ اگر جنرل پرویز مشرف کو صدر نہیں بنایا جاتا تو ایمرجنسی یا مارشل لا آسکتا ہے۔ عارضی دور (transition) اور تدریجی عمل کے ذریعے فوج کے تسلط اور مداخلت سے نجات کا فلسفہ بھی اسی کا شاخسانہ ہے‘ اس لیے اب اسے پورے شرح صدر کے ساتھ ختم ہونا چاہیے۔
۱- ہمیں عدالت عالیہ سے توقع ہے کہ وہ دستور‘ قانون‘ انصاف اور میرٹ پر فیصلے کرے گی اور نظریۂ ضرورت کا کسی شکل میں سہارا نہیں لے گی۔
۲- فوج سے توقع ہے کہ وہ اپنے دستوری فرائض پر قانع ہوگی اور سول نظام کی بالادستی کو کھلے دل سے قبول کرے گی‘ اور کسی نظریۂ ضرورت کا سہارا لے کر کسی غیردستوری اور ماوراے دستور انتظام کا خواب نہیں دیکھے گی۔
۳- سیاسی جماعتیں سمجھوتے کے راستے کو ترک کریں گی اور ڈیل اور شراکت اقتدار کے گرداب سے نکلیں گی۔ نیز فوج کی مداخلت کو مکمل طور پر ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا راستہ اختیار کریں گی۔ ماضی میں خواہ آٹھویں ترمیم ہو یا سترھویں ترمیم‘ فوج کو راستہ دینے اور فوجی حکمرانوں کو جواب دہ کرنے کی کوششیں تھیں اور یہ حکمت عملی ناکام رہی ہے۔ اب دوٹوک انداز میں پوری قوم کو یک زبان ہوکر اعلان کردینا چاہیے کہ دستوری‘ پارلیمانی اور وفاقی نظام کی بحالی کے سوا کوئی راستہ نہیں اور اس کا نقطۂ آغاز ۱۹۷۳ء کا دستور ہے جیساکہ وہ ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء کو تھا۔ یہ عمل ضروری ہے اور اس کے تحت حقیقی آزاد‘ شفاف انتخاب ہی تبدیلی کا صحت مند راستہ ہیں۔ باقی سب نظریۂ ضرورت کے شاخسانے ہیں جن کے لیے اب کوئی گنجایش نہیں۔
اس لیے وقت کی سب سے اہم ضرورت نظریۂ ضرورت سے نجات ہے اور اس کے لیے عدالت‘ سیاسی جماعتوں‘ میڈیا اور خود فوج کو یک سو ہوجانا چاہیے‘ اور ان چاروں کو ایک ہی ہدف کے حصول کے لیے کارفرما ہونا چاہیے۔ نیز جنرل پرویز مشرف کے کسی بھی حیثیت سے صدر ہوتے ہوئے آزاد اور غیر جانب دار انتخاب ممکن نہیں‘ اس لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی قوتیں مل کر طے کریں کہ ایک غیرجانب دار اور حقیقی عبوری نظام قائم ہو جس کے تحت ایک آزاد‘ خودمختار اور باہم مشورے سے قائم کیا جانے والا الیکشن کمیشن جلداز جلد نئے انتخابات کا انعقاد کرے جس میں تمام سیاسی قوتوں اور شخصیات کو برابر کے مواقع حاصل ہوں۔
یہی وہ راستہ ہے جس سے ملک اس دلدل سے نکل سکتا ہے جس میں جرنیلی آمریت نے اسے پھنسا دیا ہے۔ یہ مقصد مؤثر سیاسی جدوجہد اور بنیادی نکات پر حقیقی قومی اتفاق راے پیدا کیے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ وقت کم ہے اور چیلنج بہت عظیم۔
زندہ قوموں کا شیوہ یہی ہے کہ وہ بڑے سے بڑے چیلنج کا مردانہ وار مقابلہ کرتی ہیں اور اپنی آزادی‘ اپنی حاکمیت‘ اپنی شناخت اور اپنی قسمت پر حرف نہیں آنے دیتیں۔ آج پھر ملّت پاکستان کو ایک ایسا ہی معرکہ درپیش ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس امانت کی حفاظت کی توفیق بخشے جو پاکستان کی شکل میں ہمارے پاس ہے۔