مضامین کی فہرست


اکتوبر ۲۰۱۰

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خوش قسمتی سے آج مجھے یہ موقع مل رہا ہے کہ مرکز اسلام میں حج کے عالم گیر اجتماع کے لیے دنیاے اسلام کے مختلف حصوں سے جو بندگانِ حق آئے ہوئے ہیں ان سے خطاب کروں اور ان کو یہ بتائوں کہ اس زمانے میں مومنین و صادقین اور خصوصاً ان کے نوجوان تعلیم یافتہ لوگوں کے کرنے کا اصل کام کیا ہے۔ میں اس قیمتی اور نادر موقع سے پورا فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں اور یہ سمجھتے ہوئے کہ شاید ایسا موقع مجھے پھر نہ مل سکے گا، اپنا دل کھول کر آپ کے سامنے رکھ دینا چاہتا ہوں، تاکہ آپ لوگ اس وقت کی حقیقی صورتِ حال کو اور اس کے واقعی اسباب کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لیں اور اس کی اصلاح کے لیے حکمت اور جرأت کے ساتھ وہ تدبیر اختیار کریں جو میرے نزدیک موزوں ترین تدابیر ہیں۔

دنیاے اسلام کے دو حصے

سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیجیے کہ دنیاے اسلام اس وقت دو بڑے حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک حصہ وہ جہاںمسلمان اقلیت میں ہیں اور سیاسی اقتدار غیرمسلموں کے ہاتھ میں ہے۔ دوسرا حصہ وہ جہاں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے اور سیاسی اقتدار بھی انھی کے ہاتھ میں ہے۔ ان دونوں حصوں میں سے فطری طور پر زیادہ اہمیت دوسرے حصے کو حاصل ہے اور ملّت اسلامیہ کا مستقبل بہت بڑی حد تک اُس روش پر منحصر ہے جو آزاد مسلم مملکتیں اختیار کر رہی ہیں اور آگے اختیار کرنے والی ہیں۔ اگرچہ پہلا حصہ بھی کچھ کم وزن نہیں رکھتا۔ اپنی جگہ اس کو بھی بڑا اہم مقام حاصل ہے، کیونکہ کسی نظریۂ حیات اور عقیدہ و مسلک کے پیرووں کا دنیا کے ہر خطے اور ہرگوشے میں پہلے ہی سے موجود ہونا، اور قلیل تعداد میں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں موجود ہونا، ان لوگوں کے لیے بڑی تقویت کا موجب ہوسکتا ہے جو اُس نظریے اور عقیدہ ومسلک کی علَم برداری کے لیے اُٹھیں۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ اگر وہ نظریہ اور عقیدہ و مسلک خود اپنے ہی گھر میں مغلوب ہوجائے تو روے زمین پر پھیلے ہوئے اس کے یہ پیرو،جو پہلے ہی سے مغلوب ہیں، زیادہ دیر تک اپنے مقام پر ٹھیرے نہیں رہ سکتے۔ اس بنا پر یہ کہنا صحیح ہے کہ اس وقت نظر بظاہر دنیاے اسلام کے مستقبل کا انحصار اُن مسلم ممالک ہی کے مستقبل پر ہے جو انڈونیشیا اورملایا سے لے کر مراکو اور نائیجیریا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت وحکمت کوئی اور کرشمہ دکھا دے جس کا ہم ظاہری اسباب کو دیکھتے ہوئے کوئی اندازہ نہ کرسکتے ہوں۔ وہ چاہے تو چٹانوں میں سے چشمے پھوڑ کر نکال سکتا ہے اور ریگستانوں کو اپنے ایک اشارے سے گلستانوں میں تبدیل کرسکتا ہے۔

آزاد مسلم ممالک کی حالت

اب اسی مفروضے پر کہ دنیاے اسلام کا مستقبل مسلم ممالک کے ساتھ وابستہ ہے، ذرا اس امر کا جائزہ لیجیے کہ یہ ملک اس وقت کس حالت میں ہیں، اور جس حال میں یہ ہیں، اس کے اسباب کیا ہیں۔

آپ لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ ایک طویل مدت تک ذہنی جمود، عقلی انحطاط، اخلاقی زوال اور مادی اضمحلال میں مبتلا رہنے کے بعد آخرکار اکثروبیشتر مسلمان ملک مغربی استعمار کے شکار ہوتے چلے گئے تھے۔ اٹھارھویں صدی مسیحی سے یہ عمل شروع ہوا تھا اور موجودہ صدی کے اوائل میں یہ اپنے انتہائی کمال کو پہنچ گیاتھا۔ اس زمانے میں گنتی کے صرف دو چار مسلمان ملک   باقی رہ گئے تھے جو براہِ راست مغربی مستعمرین کی سیاسی غلامی میں مبتلا ہونے سے بچ گئے تھے۔ مگر   پے درپے شکستیں کھاکھا کر اُن کا حال غلام ملکوں سے بھی بدتر ہوگیا اور اُن کی مرعوبیت اور دہشت زدگی اُن لوگوں سے بھی کچھ زیادہ بڑھ گئی جواپنی سیاسی آزادی پوری طرح کھو بیٹھے تھے۔

مغربی استعمار کے ثمرات

مغربی استعمار کے اس غلبے کا سب سے زیادہ تباہ کن نتیجہ وہ تھا جو ہماری ذہنی شکست اور ہمارے اخلاقی بگاڑ کی شکل میں رونما ہوا۔ اگر یہ مستعمرین ہمیں لوٹ کر بالکل غارت کر دیتے اور قتلِ عام کرکے ہماری نسلوں کو مٹا دیتے تب بھی یہ اتنا بڑا ظلم نہ ہوتا جتنا بڑا ظلم انھوں نے اپنی تعلیم اور اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنے اخلاقی مفاسد پھیلاکر ہم پر ڈھایا۔ جن جن مسلمان ملکوں پر اُن کا تسلط ہوا وہاں ان سب کی مشترک پالیسی یہ رہی کہ ہمارے آزاد نظامِ تعلیم کو ختم کر دیں، یا اگر وہ پوری طرح ختم نہ ہوسکے تو اس سے فارغ ہوکر نکلنے والوں کے لیے حیات اجتماعی میں کوئی مصرف باقی نہ رہنے دیں۔ اسی طرح یہ بھی ان کی پالیسی کا ایک لازمی جز رہا کہ مفتوح قوموں کی اپنی زبان کو ذریعۂ تعلیم اور سرکاری زبان کی حیثیت سے باقی نہ رہنے دیںاور ان کی جگہ فاتحین کی زبانوں کو ذریعۂ تعلیم بھی بنائیں اور سرکاری زبان بھی قرار دیں۔

مشرق سے مغرب تک تمام مغربی فاتحین نے بالاتفاق یہی عمل تمام مسلم ممالک میں کیا، خواہ وہ ڈچ ہوں یا انگریز یا فرانسیسی یااطالوی یا کوئی اور۔ اس طریقے سے ان مستعمرین نے ہمارے ہاں ایک ایسی نسل تیار کر دی جو ایک طرف تو اسلام اور اس کی تعلیمات سے ناواقف، اس کے عقیدہ و مسلک سے بیگانہ، اور اس کی تاریخ اور روایات سے نابلد تھی، اور دوسری طرف اس کا ذہن اور اندازِ فکر اور زاویۂ نظر مغربی سانچے میں ڈھل چکا تھا۔ پھر اس نسل کے بعد پے درپے دوسری نسلیں ایسی اُٹھتی چلی گئیں جو اسلام سے اور زیادہ دُور اور مغربی فلسفۂ حیات اور تہذیب وتمدن میں زیادہ سے زیادہ غرق ہوچکی تھیں۔ ان کے لیے اپنی زبان میں بات کرنا موجب ننگ و عار اور فاتحین کی زبان میں بولنا موجبِ افتخار بن گیا۔ مغربی فاتح نصرانیت کے لیے خواہ کتنے ہی متعصب ہوں، ان فرنگیت مآب غلاموں کو مسلمان ہونے پر شرم آنے لگی اور اسلام کے خلاف بغاوت کا یہ فخریہ اظہار کرنے لگے۔ مغربی فاتح اپنی فرسودہ اور بوسیدہ قومی روایات کا کتنا ہی احترام کرتے ہوں، یہ غلام لوگ اپنی روایات کی تحقیر کرنا ہی اپنے لیے ذریعۂ عزت سمجھنے لگے۔ مغربی فاتحین نے مدت العمرمسلمان ملکوں میں رہنے کے باوجود کبھی مسلمانوں کے لباس اور طرزِ زندگی اختیار نہ کیے، مگر یہ غلام لوگ اپنے ہی ملکوں میں رہتے ہوئے ان فاتحین کے لباس، اُن کے رہن سہن کے طریقے، ان کے کھانے پینے کے ڈھنگ، ان کی ثقافت کے اطوار، حتیٰ کہ ان کی حرکات و سکنات تک کی نقل اُتارنے لگے اور اپنی قوم کی ہر چیز ان کی نگاہوں میں حقیر ہوکر رہ گئی۔ پھر مغربی فاتحین کی تقلید میں ان لوگوں نے مادہ پرستی، الحاد، عصبیتِ جاہلیہ، قوم پرستی، اخلاقی بے قیدی اور فسق وفجور کا پور زہر اپنے اندر جذب کرلیا، اور ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جو کچھ مغرب کی طرف سے آتا ہے وہ سراسر حق ہے، اسے اختیار کرنا ہی ترقی پسندی ہے اور اس سے منہ موڑنے کے معنی رجعت کے سوا کچھ نہیں ہیں۔

مغربی مستعمرین کی مستقل پالیسی یہ تھی کہ جولوگ اس رنگ میں جتنے زیادہ رنگ جائیں اور اسلام کے اثرات سے جس قدر زیادہ عاری ہوں، اُن کو زندگی کے ہر شعبے میں اتنا ہی زیادہ بلند مرتبہ دیا جائے۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا، اور اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا چاہیے تھا کہ سلطنتوں میں اُونچے سے اُونچے عہدے ان ہی کوملے۔ مستعمرین کی فوجی اور سول ملازمتوں میں یہی کلیدی مناصب پر پہنچے۔ سیاست میں انھی کو اہم حیثیت حاصل ہوئی۔ سیاسی تحریکوں کے یہی لیڈر بنے۔ پارلیمنٹوں میں یہی نمایندے بن کر پہنچے اور مسلمان ملکوں کی معاشی زندگی پر بھی یہی چھا گئے۔

اس کے بعد جب مسلمان ملکوں میں آزادی کی تحریکیں اُٹھنی شروع ہوئیں تو ناگزیر تھا کہ ان تحریکوں کی قیادت یہی لوگ کریں، کیونکہ یہی حکمرانوں کی زبان میں بات کرسکتے تھے، یہی ان کے مزاج کو سمجھتے تھے، اور یہی اُن سے قریب تر تھے۔ اسی طرح جب یہ ممالک آزاد ہونے شروع ہوئے تو آزادی کے بعد اقتدار بھی انھی کے ہاتھوں میں منتقل ہوا اور مستعمرین کی خلافت انھی کو نصیب ہوئی، کیونکہ مستعمرین کے ماتحت سیاسی نفوذ و اثر انھی کو حاصل تھا، سول حکومت کا نظم و نسق یہی چلارہے تھے اور فوجوں میں بھی قیادت کے مناصب پر یہی فائز تھے۔

عالم اسلام : بنیادی حقائق

استعمار کے آغاز سے لے کر اس کے اختتام اور آزادی کی ابتدا تک کی اس تاریخ کے چند نمایاں پہلو ایسے ہیں جنھیں نگاہ میںرکھنا ضروری ہے، کیونکہ انھیں نظرانداز کرکے اس وقت کی پوری صورتِ حال کوٹھیک ٹھیک نہیں سمجھا جاسکتا۔

  • اسلام سے انحراف کی کوشش: اوّل یہ کہ مغربی مستعمرین اپنی پوری مدتِ استعمار میں کسی جگہ بھی اس بات پر قادر نہیں ہوسکے کہ عام مسلمانوں کو اسلام سے منحرف کرسکیں۔ انھوں نے جہالت ضرور پھیلائی اور عوام کے اخلاق بھی بہت کچھ بگاڑے، اور اسلامی قوانین کی جگہ اپنے قوانین رائج کر کے مسلمانوں کو غیرمسلمانہ زندگی بسر کرنے کا خوگر بھی بنا دیا، لیکن اس کے باوجوددنیا کی کوئی مسلمان قوم بھی من حیث القوم ان کے زیراثر رہ کر اسلام سے باغی نہ ہوسکی۔ آج دنیا کے ہر ملک میں عام لوگ اسلام کے ویسے ہی معتقد ہیں جیسے تھے۔ وہ چاہے اسلام کو جانتے نہ ہوں مگر اسے مانتے ہیں اور اس کے ساتھ گہرا عشق رکھتے ہیں اور اس کے سوا کسی اور چیز پر راضی نہیں ہیں۔ اُن کے اخلاق بری طرح بگڑ چکے ہیں اور ان کی عادتیں بہت خراب ہوچکی ہیں لیکن ان کی قدریں نہیں بدلیں اور ان کے معیار جوں کے توں قائم ہیں۔ وہ سود اور زنا اور شراب نوشی میں مبتلا ہوسکتے ہیں اور ہو رہے ہیں، مگر چھوٹی سی فرنگیت زدہ اقلیت کو چھوڑ کر عام مسلمانوں میں آپ کو ایسا کوئی شخص نہ ملے گا جو ان چیزوں کو حرام نہ مانتا ہو۔ وہ رقص و سرود اور دوسرے فواحش کی لذتوں کو چاہے چھوڑ نہ سکتے ہوں، مگر چھوٹی سی مغرب زدہ اقلیت کے سوا عامۃ المسلمین کسی طرح بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ یہی اصل ثقافت ہے۔ اسی طرح مغربی قوانین کے تحت زندگی بسرکرتے ہوئے ان کی پشتیں گزر چکی ہیں، مگر ان کے دماغ میں آج تک یہ بات نہیں اُتر سکی ہے کہ یہی قوانین برحق ہیں اور اسلام کا قانون فرسودہ ہوچکا ہے۔ مغرب زدہ اقلیت ان مغربی قوانین پر چاہے کتناہی ایمان لاچکی ہو، عام مسلمان اکثریت ہمیشہ کی طرح آج بھی اسلام ہی کے قانون کو برحق مانتی ہے اور اس کا نفاذ چاہتی ہے۔
  • علما کے اثرورسوخ میں کمی: دوسری بات یہ ہے کہ علماے دین ہرجگہ عوام کے قریب ہیں، کیونکہ وہ انھی کی زبان میں بولتے ہیں اور اسی عقیدہ و مسلک کی نمایندگی کرتے ہیں جس کے عوام معتقد ہیں۔ لیکن زمامِ اقتدار سے وہ کلّی طور پر بے دخل ہیں، اور ایک مدت دراز تک دنیوی معاملات سے بے تعلق رہنے کے باعث اُن میں یہ صلاحیت بھی باقی نہیں رہی ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کرسکیں اور زمامِ اقتدار ہاتھ میں لے کر کسی ملک کا نظام چلا سکیں۔ اسی وجہ سے کسی مسلمان ملک میں بھی وہ آزادی کی تحریک کے قائد نہ بن سکے اور کہیں بھی آزادی کے بعد اقتدار میں وہ شریک نہ ہوسکے۔ ہماری اجتماعی زندگی میں ایک مدت سے اُن کا کام بس وہ ہے جو ایک موٹر میں بریک کا ہوتا ہے۔ ڈرائیور مغربیت زدہ طبقہ ہے اور یہ بریک گاڑی کی رفتار کو تیز ہونے سے کچھ نہ کچھ روک رہا ہے۔ مگر بعض ملکوں میں بریک ٹوٹ چکا ہے اور گاڑی پوری سرعت کے ساتھ نشیب کی طرف جارہی ہے، اگرچہ اس کے چلانے والے اس غلط فہمی میں ہیں کہ وہ فراز پر چڑھ رہے ہیں۔
  • مذھبی اپیل اور اس سے انحراف:تیسری بات یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی کسی ملک میں آزادی کی تحریک اُٹھی، اس کے قائدین اگرچہ وہی مغربیت زدہ لوگ تھے، لیکن کسی جگہ بھی وہ عام مسلمانوں کو مذہبی اپیل کے بغیر نہ حرکت میں لاسکے اور نہ قربانیاں دینے پر آمادہ کرسکے۔ بلااستثنا ہر جگہ انھیں اسلام کے نام پر لوگوں کو پکارنا پڑا۔ ہر جگہ اُن کو خدا اور رسولؐ اور قرآن ہی کے نام پر اپیل کرنی پڑی۔ ہر جگہ انھیں آزادی کی تحریک کو اسلام اور کفر کی جنگ قرار دینا پڑا۔ اس کے بغیر وہ کہیں بھی اپنی قوم کو اپنے پیچھے نہ لگا سکتے تھے۔ اب یہ تاریخ عالم کی عظیم ترین غداریوں میں سے ایک بے نظیر غداری ہے کہ ہرجگہ آزادی حاصل کرنے کے بعد فوراً ہی یہ لوگ اپنے تمام وعدوں سے پھر گئے اور ان کا پہلا شکار وہی اسلام ہوا جس کے نام پر انھوں نے آزادی کا معرکہ جیتا تھا۔
  • حقیقی آزادی سے محرومی: چوتھی اور آخری بات قابلِ ذکر یہ ہے کہ ان لوگوں کی قیادت میں مسلمان ملکوں کو جو آزادی حاصل ہوئی ہے وہ صرف سیاسی آزادی ہے۔ پچھلی غلامی اور اِس آزادی میں فرق صرف یہ ہے کہ پہلے جو زمامِ اقتدار باہر والوں کے ہاتھ میں تھی، اب وہ گھر والوں کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑا ہے کہ جس ذہن کے آدمی جن نظریات اور اصولوں کے ساتھ پہلے حکومت کر رہے تھے اُسی ذہن کے آدمی انھی نظریات کے ساتھ آج بھی حکومت کر رہے ہیں۔ وہی نظامِ تعلیم جو مستعمرین نے قائم کیا تھا، اب بھی چل رہا ہے۔ انھی کے رائج کردہ قوانین نافذ ہیں اور آگے مزید قانون سازی اُنھی خطوط پر ہورہی ہے، بلکہ مغربی مستعمرین نے مسلمانوں کے قانون احوال شخصیہ (پرسنل لا) پر جو دست درازیاں کرنے کی کبھی ہمت نہ کی تھی، وہ آج آزاد مسلم مملکتوں میں کی جارہی ہے۔ تہذیب وثقافت اوراخلاق و تمدن کے جو نظریات مستعمرین دے گئے ہیں، ان میں سے کسی چیز کوبدلنا تو درکنار، آج یہ لوگ اپنی قوموں کو اُن سے بھی زیادہ اُس تہذیب میں غرق اور اُن اخلاقی نظریات کے مطابق مسخ کررہے ہیں۔ وہ قومیت کے مغربی نظریات کے سوا اجتماعی زندگی کا کوئی دوسرا نقشہ نہیں سوچ سکتے۔ اسی نقشے پر وہ مسلم مملکتوں کے نظام چلا رہے ہیں اور اس کی وجہ سے انھوں نے مسلمان قوموں کو ایک دوسرے سے پھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ان کے ذہنوں میں الحاد بس گیا ہے اور جہاں جہاں بھی انھیں اثر ڈالنے کا موقع ملتا ہے وہاں وہ مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اس حد تک خراب کرتے چلے جارہے ہیں کہ وہ خدا اور رسول اور آخرت کا مذاق اڑاتی ہیں۔ وہ اباحیت میں خود تو مستغرق ہیں اور ان کی قیادت ہر جگہ مسلمانوں کے اندر فسق و فجور اور بے حیائی پھیلاتی چلی جارہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ مغربی استعمار کے چاہے کتنے ہی دشمن ہوں، مغربی مستعمرین اُن کو دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ ان کی ہر ادا پر یہ مرے مٹتے ہیں۔ ان کی ہر بات کو یہ معیارِ حق سمجھتے ہیں۔ ان کے ہرکام کی یہ نقل اُتارتے ہیں۔ اُن میں اور اِن میں فرق صرف یہ ہے کہ وہ مجتہد ہیں اور یہ محض اندھے مقلّد۔ یہ اُن کی پٹی ہوئی راہوں سے ہٹ کر ایک انچ بھی کوئی نیا راستہ نہیں نکال سکتے۔

یہ چار حقائق جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیے ہیں، ان کو نگاہ میں رکھ کر آپ دنیا کی آزاد مسلمان قوموں کی موجودہ حالت کا جائزہ لیںتو اس وقت کی پوری صورت حال آپ پر واضح ہوجائے گی۔ دنیا کی تمام آزاد مسلم حکومتیں اس وقت بالکل کھوکھلی ہورہی ہیں۔ کیونکہ ہر جگہ وہ اپنی اپنی قوموں کے ضمیر سے لڑرہی ہیں۔ ان کی قومیں اسلام کی طرف پلٹنا چاہتی ہیں اور یہ اُن کو زبردستی مغربیت کی راہ پر گھسیٹ رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کہیں بھی مسلمان قوموں کے دل اپنی حکومتوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ حکومتیں اس وقت مضبوط ہوتی ہیں جب حکمرانوں کے ہاتھ اور قوموں کے دل پوری طرح متفق ہوکر تعمیرحیات کے لیے سعی کریں۔ اس کے بجاے جہاں دل اور ہاتھ ایک دوسرے سے نزاع و کش مکش میں مشغول ہوں وہاں ساری قوتیں آپس ہی کی لڑائی میں کھپ جاتی ہیں اور تعمیروترقی کی راہ میں کوئی پیش قدمی نہیں ہوتی۔

حکمرانوں اور عوام کی کش مکش کا نتیجہ

اسی صورتِ حال کا ایک فطری نتیجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان ملکوں میں پے درپے آمریتیں قائم ہورہی ہیں۔ مغربیت زدہ طبقے کی وہ چھوٹی سی اقلیت، جس کو مستعمرین کی خلافت حاصل ہوئی ہے، اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر نظامِ حکومت عوام کے ووٹوں پر مبنی ہو تو اقتدار ان کے ہاتھ میں نہیں رہ سکتا بلکہ جلدی یا دیر سے وہ لازماً ان لوگوں کی طرف منتقل ہوجائے گا جو عوام کے جذبات اور اعتقادات کے مطابق حکومت کا نظام چلانے والے ہوں۔ اس لیے وہ کسی جگہ بھی جمہوریت کو چلنے نہیں دے رہے ہیں اور آمرانہ نظام قائم کرتے جارہے ہیں۔ اگرچہ فریب دینے کے لیے انھوں نے آمریت کا نام جمہوریت رکھ دیا ہے۔

ابتداً کچھ مدت تک قیادت اس گروہ کے سیاسی لیڈروں کے ہاتھ میں رہی اور سول حکام مسلمان ملکوں کے نظم و نسق چلاتے رہے۔ لیکن یہ بھی اسی صورتِ حال کا ایک فطری نتیجہ تھا کہ مسلمان ملکوں کی فوجوں میں بہت جلدی یہ احساس پیدا ہوگیا کہ آمریت کا اصل انحصار انھی کی طاقت پر ہے۔ یہ احساس بہت جلدی فوجی افسروں کو میدانِ سیاست میں لے آیا اور انھوں نے خفیہ سازشوں کے ذریعے سے حکومتوں کے تختے اُلٹنے اور خود اپنی آمریتیںقائم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اب مسلمان ملکوں کے لیے ان کی فوجیں ایک مصیبت بن چکی ہیں۔ اُن کا کام باہر کے دشمنوں سے لڑنا اور ملک کی حفاظت کرنا نہیں رہا بلکہ اب اُن کاکام یہ ہے کہ اپنے ہی ملکوں کو فتح کریں اور جو ہتھیار اُن کی قوموں نے ان کو مدافعت کے لیے دیے تھے انھی سے کام لے کر وہ اپنی قوموں کو اپنا غلام بنالیں۔ اب مسلمان ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے انتخابات یا پارلیمنٹوں میں نہیں بلکہ فوجی بیرکوں میں ہو رہے ہیں۔ اور یہ فوجیں بھی کسی ایک قیادت پر متفق نہیں ہیں بلکہ ہر فوجی افسر اس تاک میں لگا ہوا ہے کہ کب اسے کوئی سازش کرنے کا موقع ملے اور وہ دوسرے کو مار کر خود اس کی جگہ لے لے۔ ان میں سے ہر ایک جب آتا ہے تو زعیم انقلاب بن کر آتا ہے اور جب رخصت ہوتا ہے تو خائن و غدار قرار پاتا ہے۔ مشرق سے مغرب تک بیش تر مسلمان قومیں اب محض تماشائی ہیں۔ ان کے معاملات چلانے میں اب ان کی راے اور مرضی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ان کے علم کے بغیر اندھیرے میں انقلاب کی کھچڑی پکتی ہے اور کسی روز یکایک ان کے سروں پر اُلٹ پڑتی ہے۔ البتہ ایک چیز میں یہ سب متحارف انقلابی لیڈر متفق ہیں اور وہ یہ ہے کہ ان میں سے جو بھی اُبھر کر اُوپر آتاہے وہ اپنے پیش رو ہی کی طرح مغرب کا ذہنی غلام اور الحاد و فسق کا علَم بردار ہوتا ہے۔

اُمید کی کرن

ان تاریک حالات میں ایک روشنی موجود ہے جس کے اندر دو حقیقتیں مجھے صاف نظر آرہی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے الحاد و فسق کے ان علَم برداروں کو ایک دوسرے سے لڑا دیا ہے اور یہ خود ہی ایک دوسرے کی جڑ کاٹ رہے ہیں۔ خدانخواستہ اگر یہ متحد ہوتے تو ناقابلِ علاج مصیبت بن جاتے۔ مگر ان کا رہنما شیطان ہے اور شیطان کا کید ہمیشہ ضعیف ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ دوسری اہم حقیقت جو مَیں دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ مسلمان قوموں کے دل بالکل محفوظ ہیں، وہ ہرگز ان  نام نہاد انقلابی لیڈروں سے راضی نہیں ہیں اور اس امر کے پورے امکانات موجود ہیں کہ اگر کوئی صالح گروہ فکر کے اعتبار سے مسلمان اور ذہنی قابلیتوں کے لحاظ سے قیادت کا اہل ہوتو آخرکار وہی غالب آئے گا اور مسلمان قومیں اس الحاد و فسق کی قیادت سے نجات پاجائیں گی۔

کام کا اصل موقع اور طریقۂ کار

اس وقت کام کا اصل موقع اُن لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے ایک طرف مغربی طرز کی تعلیم پائی ہے اور دوسری طرف جن کے دلوں میں خدا اور رسولؐ اور قرآن اور آخرت پر ایمان محفوظ ہے۔ قدیم طرز کی دینی تعلیم پائے ہوئے لوگ، اخلاقی اور روحانی اعتبار سے اور علم دین کے لحاظ سے ان کے بہترین مددگار بن سکتے ہیں، مگر بدقسمتی سے وہ اُن صلاحیتوں کے حامل نہیں ہیں جو قیادت اور زمامِ کار سنبھالنے کے لیے درکار ہیں۔ یہ صلاحیتیں فی الحال صرف مقدم الذکر گروہ ہی میں پائی جاتی ہیں اور ضرورت ہے کہ اس وقت یہی گروہ آگے بڑھ کر کام کرے۔ ان لوگوں کو جو مشورے میں دے سکتا ہوں وہ مختصراً یہ ہیں:

۱- اسلام کا صحیح فھم: ان کو اسلام کا صحیح علم حاصل کرنا چاہیے تاکہ ان کے دل جس طرح مسلمان ہیں اسی طرح ان کے دماغ بھی مسلمان ہوجائیں، اور یہ اجتماعی معاملات کو اسلامی احکام اور اصولوں کے مطابق چلانے کے قابل بن جائیں۔

۲- ذاتی اخلاقی اصلاح: ان کو اپنی اخلاقی اصلاح کرنی چاہیے تاکہ ان کی اخلاقی زندگیاں عملاً بھی اُسی اسلام کے مطابق ہوجائیں جس کو وہ اعتقاداً برحق مانتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ قول اور عمل کا تضاد آدمی کے اندر نفاق پیدا کرتاہے اور باہر کی دنیا میں اس کا اعتبار ختم کردیتا ہے۔ آپ کی کامیابی کا سارا انحصار اخلاص اور راست بازی پر ہے، اور کوئی ایسا شخص نہ مخلص ہوسکتا ہے، نہ مخلص مانا جاسکتا ہے، جو کہے کچھ اور کرے کچھ۔ آپ کی اپنی زندگی میں اگر تناقض ہوگا تو نہ دوسرے آپ پر اعتمادکریں گے اور نہ خود آپ کے دل میں اپنے اُوپر وثوق پیدا ہوسکے گا۔ اس لیے دعوتِ اسلامی کے لیے کام کرنے والے تمام لوگوں کو میری مخلصانہ نصیحت یہ ہے کہ جن جن امور کے متعلق انھیں یہ علم حاصل ہوتا جائے کہ اسلام نے ان کا حکم دیا ہے اُن پر عامل ہونے کی اور جن کے متعلق انھیں معلوم ہوتا جائے کہ اسلام نے انھیں منع کیا ہے، ان سے اجتناب کرنے کی پوری کوشش کریں۔

۳- مغربی تھذیب و فلسفہ پر تنقید: اُن کو اپنی تمام ذہنی صلاحیتیں اور تحریر و تقریر کی قوتیں اس کام پر صرف کر دینی چاہییں کہ مغربی تہذیب و ثقافت اور فلسفۂ حیات پر تنقید کر کے اُس بت کو پاش پاش کردیں جن کی آج دنیا میں پرستش کی جارہی ہے اور اُس کے مقابلے میں اسلام کے عقائد اور اصول و مبادی اور قوانینِ حیات کی تشریح و تدوین ایسے معقول طریقوں سے کریں جو نسلِ جدید کے ذہن کو ان کی صحت کا یقین دلاسکے اور اُن کے اندر یہ اعتماد پیدا کرسکے کہ دورِحاضر میں ایک قوم ان عقائد اور اصول و قوانین کو اختیار کر کے نہ صرف ترقی کرسکتی ہے بلکہ دوسروں سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ یہ کام جتنے صحیح خطوط پر جتنے بڑے پیمانے پر ہوگا، اتنے ہی دعوت اسلامی کے لیے آپ کو سپاہی ملتے چلے جائیںگے، اور یہ سپاہی ہرشعبۂ حیات سے نکل نکل کر آئیں گے۔ اس عمل کا سلسلہ ایک طویل مدت تک جاری رہنا چاہیے، تاکہ ایک کثیرتعداداُن لوگوں کی پیدا ہوجائے جو ایک ملک کے نظام کو اسلامی اصولوں پر چلانے کے لیے درکار ہیں۔ یہ عمل جب تک بتدریج  اپنی انتہا کو نہ پہنچ جائے آپ کسی اسلامی انقلاب کے برپا ہونے کی توقع نہیں کرسکتے، اور اگر کسی مصنوعی طریقے سے وہ برپا ہو بھی جائے تو وہ مستحکم نہیں ہوسکتا۔

۴- تنظیم : دعوتِ اسلامی سے جتنے لوگ متاثر ہوتے جائیں ان کو منظم ہونا چاہیے اور ان کی تنظیم کو ڈھیلا اور سُست نہ ہونا چاہیے۔ نظم و ضبط اور سمع و طاعت کے بغیر محض ہم خیال لوگوں کا ایک بکھرا ہوا گروہ فراہم کر دینے سے کوئی کارگر طاقت پیدا نہیں ہوسکتی۔

۵- عمومی دعوت : اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو عوام میں اپنی دعوت پھیلانی چاہیے تاکہ عام لوگوں کی جہالت دُور ہو اور وہ اسلام سے واقف ہوں اور اسلام و جاہلیت کا فرق جان لیں۔ اس کے ساتھ انھیں عوام کی اخلاقی اصلاح کی بھی کوشش کرنی چاہیے اور فسق و فجور کے اس سیلاب کو روکنے کے لیے اپنا پورا زور لگا دینا چاہیے جو فاسق قیادت کے اثر سے مسلمان قوموں میں روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک قوم فاسق ہوجانے کے بعد ایک اسلامی حکومت کی رعایا بننے کے قابل نہیں رہتی۔ عامۃ الناس میں فسق جتنا بڑھے گا اُن کے معاشرے میں اسلامی نظام کا چلنا اتنا ہی مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ جھوٹے، بددیانت اور بدکار لوگ نظامِ کفر کے لیے جتنے موزوں ہیں، نظامِ اسلامی کے لیے اتنے ہی غیرموزوں ہیں۔

۶- صبر و حِکمت : انھیں بے صبر ہوکر خام بنیادوں پر جلدی سے کوئی اسلامی انقلاب برپا کردینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ جو مقصود ہمارے پیش نظر ہے اس کے لیے بڑا صبر درکار ہے۔ حکمت کے ساتھ جانچ تول کر ایک ایک قدم اٹھایئے اور دوسرا قدم اٹھانے سے پہلے خوب اطمینان کرلیجیے کہ پہلے قدم میں جو نتائج آپ نے حاصل کیے ہیں وہ مستحکم ہوچکے ہیں۔ جلدبازی میں جو پیش قدمی بھی ہوگی اس میں فائدے کی بہ نسبت نقصان کا خطرہ زیادہ ہوگا۔ مثال کے طور پر فاسق قیادت کے ساتھ شریک ہوکر یہ اُمید کی جاتی ہے کہ شاید اس طرح منزلِ مقصود تک پہنچنے کا راستہ آسان ہوجائے گا اور کچھ نہ کچھ اپنے مقصد کے لیے مفید کام بھی ہوسکے گا۔لیکن عملی تجربہ    یہ بتاتا ہے کہ اس لالچ سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا، کیونکہ دراصل زمامِ امر جن لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ اپنی ہی پالیسی چلاتے ہیں اور ان کے ساتھ لگنے والوں کو ہر قدم پر ان سے مصالحتیں کرنی پڑتی ہیں، یہاں تک کہ وہ آخرکار بس ان کے آلۂ کار بن کر رہ جاتے ہیں۔

۷- مسلح اور خفیہ تحریکوں سے اجتناب: اس سلسلے میں اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے، بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے۔ اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلدبازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا اسی راستے سے وہ مٹایا بھی جاسکے گا۔

یہ چند کلمات نصیحت ہیں جو دعوتِ اسلامی کے لیے کام کرنے والوں کے سامنے میں پیش کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی رہنمائی فرمائے اور ہمیں دین حق کی سربلندی کے لیے صحیح طریقے سے جدوجہد کرنے کی توفیق بخشے۔ (تفہیمات، حصہ سوم، ص ۳۵۰-۳۶۳)

مدیر ترجمان القرآن پروفیسر خورشیداحمد ناسازی طبع کی وجہ سے ’اشارات‘ نہیں لکھ سکے ہیں۔   قارئین سے ان کی صحت کے لیے دعا کی درخواست ہے۔ (ادارہ)

 

حضرت زید بن سلّام سے روایت ہے کہ ان سے ابوسلّام نے کہا کہ حضرت حارث اشعریؓ نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو پانچ باتوں کے متعلق حکم دیا کہ ان پر وہ خود بھی عمل کریں اور بنی اسرائیل سے بھی ان پر عمل کرنے کا کہہ دیں۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل سے کہنے میں کچھ تاخیر ہونے لگی تو حضرت عیسٰی علیہ السلام نے حضرت یحییٰ علیہ السلام سے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ باتوں کے متعلق حکم دیا تھا کہ آپ خود بھی ان پر عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا فرما دیں، لہٰذا یا تو آپ خود ان سے کہہ دیجیے یا میں ان سے کہہ دوں۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ (حکم مجھے ہوا ہے اس لیے   اس حکم کی تعمیل میں تاخیر کرنے کے سبب) کہیں زمین میں نہ دھنسا دیا جائوں یا کسی اور عذاب میں گرفتار نہ ہوجائوں۔ اس کے بعد انھوں نے فوراً بنی اسرائیل کو بیت المقدس میں جمع کیا۔ جب وہ اچھی طرح بھر گیا، حتیٰ کہ لوگ گیلریوں تک میں بیٹھ گئے تو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ باتوں کا حکم دیا ہے کہ میں خود بھی ان پر عمل کروں اور تم کو بھی ان پر عمل کرنے کی تاکید کروں۔

  • پہلی بات تو یہ ہے کہ تم اللہ ہی کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائو کیونکہ جو شخص کسی کو اللہ کا شریک بنائے تواس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے ایک غلام اپنے سونے چاندی سے خالص اپنے لیے بلاشرکت غیرے خریدا اور اس کو بتا دیا کہ یہ میرا گھر ہے اور یہ میرا کام ہے، تو مزدوری کر اور اس کی آمدنی مجھے لاکر دینا۔ یہ غلام مزدوری تو کرے لیکن اس کی آمدنی اپنے مالک کو لاکر دینے کے بجاے کسی دوسرے شخص کو لاکر دے دے، بھلا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اس کا غلام ایسا ہو؟ (انسان تو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا مملوک نہیں کہ اسے اللہ تعالیٰ نے خریدا ہو بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اس کا معاملہ یہ ہے کہ اسے تو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا۔ اس کی تمام صلاحیتیں اس کی عطا کردہ ہیں۔ وہ جس زمین میں رہتا ہے وہ اسی کی بنائی ہوئی ہے اور جس آسمان کی چھت کے نیچے رہتا ہے وہ بھی اللہ کا بنایا ہوا ہے۔ اسے روزی بھی وہی دیتا ہے اور اس کی جملہ ضروریات کو زندگی کے مختلف مراحل کے تقاضوں کے مطابق وہی پورا کرتا ہے۔ تب اس کے لیے اس بات کا کیا جواز ہے کہ وہ اسے چھوڑ کر دوسروں کی بندگی کرے یا دوسروں کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی میں شریک کرے)۔
  • دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے، لہٰذا جب تک نماز میں رہو تو دائیں بائیں توجہ نہ کرو بلکہ صرف اسی کی طرف توجہ کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نماز میں بندے کی طرف متوجہ ہوتا ہے جب تک بندہ اس کی طرف متوجہ ہو اور اِدھر اُدھر نہ دیکھے۔
  • تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو روزے کا حکم دیا ہے۔ روزے کی مثال ایسی ہے جیسے انسانوں کی ایک جماعت ہو اور اس میں ایک انسان کے پاس ایک تھیلی ہو جس میں مشک (کستوری) ہو۔ ہرشخص کو اس کی خوشبو اچھی معلوم ہوگی۔ روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک سے بھی زیادہ پیاری ہوتی ہے۔
  • چوتھی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو صدقے کا حکم دیا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص کو دشمن نے قید کرلیا ہو اور اس کے ہاتھ اس کی گردن سے باندھ دیے ہوں اور اس کی گردن مارنے کے لیے اسے قتل گاہ کی طرف لے جایا جا رہا ہو۔ یہ شخص اپنی جان بچانے کے لیے اپنا سارا مال اپنی جان کے بدلے میں دے دے اور اس طرح اپنی جان چھڑا لے۔
  • پانچویں بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنے ذکر کا حکم دیا ہے۔ ذکر کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص کا تعاقب کرتے ہوئے دشمن اس کی طرف تیزی سے آرہا ہو اور یہ شخص اس سے بچائو کی خاطر اس سے دُور بھاگ رہا ہو، اور بھاگتے بھاگتے ایک مضبوط قلعے کے اندر داخل ہوجائے اور دشمن سے اپنی جان بچا لے۔ اسی طرح بندہ شیطان سے اپنے آپ کو ذکراللہ کے بغیر کسی دوسری چیز کے ذریعے نہیں بچاسکتا۔
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان پانچ باتوں کو بیان کرنے کے بعد) فرمایا: میں بھی  تم کو پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں جن کا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے:
  •  اللہ اور اس کے رسولؐ اور اپنے صاحب ِ امر لوگوں کی بات سننے اور اطاعت کا
  • جہاد ہجرت کرنے اور lجماعت کے ساتھ وابستہ رہنے کا۔ کیونکہ جو شخص جماعت سے بالشت برابر علیحدہ رہا اس نے گویا اسلام کا طوق اپنی گردن سے اُتار پھینکا مگر اس صورت میں کہ جماعت میں واپس آجائے اور پوری طرح امیر کی اطاعت کرے (جو شخص اسلامی نظام جماعت سے کُلی یا جزوی طور پر نکل کر کسی دوسرے نظام کا کُلی  یا جزوی طور پر علَم بردار بن گیا وہ اس جماعت سے نکل گیا جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وابستہ رہنے کا حکم فرمایا)
  •  پانچویں بات یہ کہ جس نے اسلام کے زمانے میں جاہلی دور کے نعرے لگانے شروع کردیے (لسانی، قومی اور نسلی بنیاد پر جتھہ بندی کرنا اور ان کے نعرے لگانا) تو وہ دوزخ میں ڈالے جانے والے خس و خاشاک میں شامل ہوگیا۔

ایک شخص نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اگرچہ وہ نماز پڑھے اور روزے رکھے۔ آپؐ نے فرمایا: اگرچہ وہ نماز پڑھے اور روزے رکھے۔ پس تم ایسے نعرے لگائو جن کی اللہ نے اجازت دی ہے۔ اس نے پہلے سے تمھارا نام مسلم اور مومن رکھا ہے (لہٰذا اسلام اور ایمان سے ہم آہنگ نعرے لگائو)۔ (ترمذی، ابواب الامثال، حدیث ۲۸۵۹)

ان ۱۰ باتوں میں تزکیۂ نفس، تعلق باللہ، اصلاحِ معاشرہ ، اصلاحِ حکومت، اقامت دین، حکومت الٰہیہ کے قیام، ظلم و زیادتی کے خاتمے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرنے کے جامع پروگرام اور لائحہ عمل کی طرف راہنمائی ہے۔ پہلی پانچ باتیں تو اہلِ ایمان کے لیے انفرادی پروگرام پر مشتمل ہیں اور دوسری پانچ باتیں اجتماعی پروگرام کی بنیاد ہیں۔

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن خطاب فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپؐ نے مالِ غنیمت میں خیانت کا تذکرہ فرمایا اور اسے بہت بڑا جرم قرار دیا۔ آپؐ نے فرمایا: قیامت کے روز میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پائوں کہ اس کی گردن پر بکری سوار ہو اور منمنا رہی ہو، اس کی گردن پر گھوڑا سوار ہو جو ہنہنا رہا ہو اور وہ مجھ سے فریاد کرے اور پکارے: ’’اے اللہ کے رسول! میری فریاد رسی فرمایئے‘‘۔ میں کہوں گا کہ میں اللہ تعالیٰ سے تجھے بچانے کے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے تو تمھیں حکم پہنچا دیا تھا۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی گردن پر اُونٹ سوار ہو اور بڑبڑا رہا ہو اوروہ مجھے پکارے کہ اے اللہ کے رسولؐ! میری فریاد رسی فرمایئے تو میں کہوں گا کہ میں تجھے اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے چھڑانے کے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے تو تمھیں بات پہنچا دی تھی۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی گردن پر سونا چاندی سوار ہو اور وہ مجھے پکارے کہ اے اللہ کے رسولؐ! میری مدد فرمایئے تو میں کہوں گا: میں اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچانے کے لیے تیری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی گردن پر کپڑے ہوں، جو لہرا رہے ہوں اور وہ مجھے مددکے لیے پکارے اور کہے: اے اللہ کے رسولؐ! میری فریاد رسی فرمایئے تو میں کہوں گا: میں تیری کسی بھی قسم کی مدد نہیں کرسکتا۔ میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ (بخاری، باب الضلول، حدیث ۳۰۷۳)

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان کی نگرانی پر ایک شخص مقرر تھا جس کا نام کَرکَرہ تھا۔ وہ فوت ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ دوزخ میں ہے۔ صحابہ کرامؓ اس کی طرف گئے تاکہ اس کے دوزخی ہونے کا سبب معلوم کریں، تو پتا چلا کہ مالِ غنیمت سے ایک چادر اس نے چرائی تھی۔ (بخاری، حدیث ۳۰۷۴)

مالِ غنیمت یا سرکاری اور قومی اموال میں کسی بھی سطح پر خیانت اتنا بڑا جرم ہے کہ ایک معمولی چادر بھی آدمی کو دوزخ میں داخل کردینے کا سبب بن جاتی ہے۔ پھر جو بھی چیز خیانت کا شکار ہوگی وہ آدمی کی گردن پر سوار ہوگی۔ خیانت کے بارے میں جو سزا ذکر کی گئی ہے زکوٰۃ نہ دینے کی بھی یہی سزا آتی ہے (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، حدیث ۱۴۰۲-۱۴۰۳)۔ نیز سونے چاندی کے بارے میں یہ بھی آیا ہے کہ وہ زکوٰۃ نہ دینے والے کے لیے سانپ بن کر، اس کی گردن کا طوق بن جائے گا اور اس کی باچھوں کو دونوں طرف سے ڈسے گا اور کہے گا: ’’میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں‘‘۔

آج کل خیانت عام ہے۔ حکمران بھی ہرسطح پر کرپشن میں مبتلا ہیں۔ بڑے پیمانے پر سرکاری خزانوں کو ہضم کرلینے کے جواز پر باہمی مفاہمتیں ہوتی ہیں۔ کرپشن کے خلاف مقدمات چلانے کی مخالفت کی جاتی ہے اور مقتدر حلقے سرکاری اموال کی لُوٹ مار میں مددگار بن جاتے ہیں ۔ لوٹے ہوئے مال کی واپسی میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک زمانہ آئے گا لوگ پروا  نہ کریں گے کہ جو مال ان کے پاس آیا ہے یہ حلال کا ہے یا حرام کا‘‘۔ (بخاری، حدیث ۲۰۵۹،۲۰۸۳)

 

حضرت ابوسعید خدریؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسرا اور معراج کی رات میں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ بڑے گھر جتنے بڑے ہیں اور ان کے سامنے پڑے ہیں۔ وہ اُٹھنے کی کوشش کرتے ہیں تو گر جاتے ہیں۔ اُٹھتے ہیں تو پیٹ انھیں پھر گرا دیتے ہیں۔ میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں۔ انھوں نے جواب دیا: یہ سودخور ہیں۔ قیامت کے روز یہ ان لوگوں کی طرح کھڑے ہوں گے جن کو شیطان مس کر کے خبطی بنادیتا ہے۔ (الترغیب والترہیب، لابی القاسم اصبہانی، حدیث ۱۳۷۳)

سود خوروں کی اخروی سزا مذکورہ حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ ان کی دنیاوی سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سود کو مٹا دیتا ہے اور صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔ (البقرہ۲:۲۷۶)

سودی نظام کی وجہ سے معیشت تباہ ہوجاتی ہے لیکن سود خوروں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ وہ سودی نظام کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً اس کے نشانات ظاہر کرتے رہتے ہیں، کبھی زلزلہ آجاتا ہے، کبھی قحط سالی اور کبھی سیلاب ان آفات کے ذریعہ اتنا بڑا نقصان ہوجاتا ہے کہ اربوں کھربوں خرچ کرنے سے بھی تلافی نہیں ہوسکتی۔ سودخور پھر بھی سودی قرضوں کا لین دین جاری رکھتے ہیں اور معاشرے کو معاشی لحاظ سے کھڑا ہونے کے قابل نہیں چھوڑتے۔ سودی نظام کی وجہ سے ملکی آزادی اور خودمختاری بھی دائو پر لگ جاتی ہے اور قتل و غارت گری کا وبال امن و امان کا جنازہ نکال دیتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو بلکہ خود اپنے آپ کو اپنے ماں باپ اور اپنی اولاد تک کو قتل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپؐ نے ایک آدمی کے متعلق جو اسلام کا دعوے دار تھا، فرمایا کہ یہ جہنمی ہے۔ جب جنگ شروع ہوئی تو اس آدمی نے جنگ میں زور و شور سے حصہ لیا اور بھرپور اور زبردست حملے کیے، اسے گہرے زخم لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا گیا کہ جس آدمی کے متعلق آپؐ نے فرمایا کہ وہ جہنمی ہے ، اس نے تو آج سخت لڑائی لڑی اور وہ مر گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جہنم کی طرف چلا گیا۔ قریب تھا کہ کچھ لوگ آپؐ کے ارشاد کے متعلق شک و شبہہ میں مبتلاہوجاتے کہ اطلاع آئی کہ وہ مرا نہیں زندہ ہے لیکن اسے سخت گہرے زخم آئے ہیں۔ جب رات آئی تو وہ زخموں کی تکلیف برداشت نہ کرسکا تو اس نے خودکشی کرلی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی تو آپ نے اللہ اکبر کا کلمہ بلند کیا اور فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، پھر بلال کو حکم دیا کہ وہ اعلان کریں کہ جنت میں نہیں داخل ہوگا مگر مسلمان آدمی، اللہ تعالیٰ بعض اوقات اس دین کی تائید و تقویت بدکار انسان کے ذریعے بھی فرماتا ہے۔ (بخاری، حدیث ۳۰۶۲، کتاب الجہاد، ۴۲۰۱، ۶۶۰۶، طبع دارالسلام)

جس شخص کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں، کتابوں اور آخرت پر ایمان ہو وہ کبھی بھی خودکشی نہیں کرسکتا۔ وہ دنیا کی بڑی سے بڑی تکلیف کو تھوڑا اور معمولی سمجھتا ہے اور آخرت کی تکلیف کو بہت سخت سمجھتا ہے۔ وہ دنیا کی تکلیف کو برداشت کرلیتا ہے اور آخرت کی تکلیف کو برداشت کرنے سے ڈرتا اور اپنے آپ کو بچاتا ہے۔ صحابہ کرام کو طرح طرح کی تکالیف سے گزرنا پڑا لیکن انھوں نے کبھی بھی حوصلہ نہیں ہارا۔ آج کافر معاشروں میں خودکشیاں بڑے پیمانے پر ہو رہی ہیں افسوس کہ مسلمان معاشرے بھی ان سے متاثر ہوکر خودکشیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان خودکشیوں کو روکنے کا طریقہ مال و دولت کی فراوانی نہیں بلکہ بڑے پیمانے پر عقیدے اور فکر کی اصلاح ہے۔ ایمان اور اسلام کو دلوں میں زندہ کرنے، اس کا شعور پیدا کرنے اور فکرِ آخرت کی آبیاری ہے۔ دعوت و تبلیغ اور اقامت دین کی علَم بردار تحریکوں کو اپنے کام کی رفتار کو تیز اور وسیع کرنے اور بڑے پیمانے پر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اور اس کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا خودکشیوں کے جرائم کو پھیلانے میں مصروف ہیں جس کے نتیجے میں خودکشیوں کی وارداتیں مزید بڑھ رہی ہیں۔ ذرائع ابلاغ کو بھی اس گناہ کی اشاعت سے روکا جائے۔

_ _ _ پھلا وہ گہر خدا کا

مسجدِ حرام میں قدم رکھا تو ایک عجیب سی طمانیت کا احساس ہوا۔ راستہ ڈھلواں ہے، دونوں طرف فرشِ مسجد پر قیمتی قالین بچھے ہیں۔ سامنے کعبہ کی مختصر سی عمارت ہے--- حرم شریف نشیب میں واقع ہے۔ ایک پیالہ ساکہ جس کے کناروں پر مسجدالحرام کی دومنزلہ عمارت ہے۔ حرم کے مینار اتنے اُونچے نہیں کہ پگڑی سنبھالنی پڑے۔ اس لمحے میں نے صرف اتنا کچھ دیکھا یا دیکھ سکا۔ میں حرمِ کعبہ کے پہلے نظارے میں یوں کھو گیا تھا کہ ماحول کی ہرتفصیل نگاہوں سے اوجھل ہوگئی تھی۔  یہ لمحہ بہت عظیم تھا اور اب بھی ہے۔ (ارضِ تمنّا، ص۱۴۲-۱۴۳)

o

میں باب السلام کے سامنے کھڑا تھا۔ حرم میں داخل ہوا اور کعبہ کی کشش کو دل میں محسوس کرتے ہوئے، بیرونی ہال سے گزرتے ہوئے ان سیڑھیوں کے پاس جا پہنچا جو کھلے آسمان تلے موجود اُس وسیع احاطے تک جاتی ہیں جس کے بیچوں بیچ، سیاہ غلاف میں ملفوف، وہ مکعب عمارت ہے جسے کوئی چار ہزار سال قبل ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی مدد سے تعمیر کیا تھا اور جو سیکڑوں سال سے اربوں انسانوں کی روحانی زندگی کا مرکز رہی ہے۔

آنکھیں سیاہ پوش عمارت پر مرتکز اور دل ایک عجب سرور سے سرشار، پائوں سرد سنگِ مرمر پر یوں جیسے اس سحرانگیز لمحے میں جسم کے وزن سے آزاد ہوچکے ہوں۔ نہ جانے کتنا وقت گزر گیا، بالآخر دل میں کوئی چیز پگھلی، آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جیسے کوئی چشمہ خاموشی سے جاری ہوگیا ہو۔

ہزاروں مرد، عورتیں، اور بچے صحن میں موجود تھے۔ ان میں طواف کرنے والے بھی تھے اور وہ بھی جو رات کے اس اوّل پہر میں کعبہ کے گرد عبادت میں مصروف تھے۔ طواف کرنے والوں میں احرام میں ملبوس زائر بھی تھے اور عام کپڑوں میں ملفوف مکین بھی، سب کعبہ سے نکلنے والی پُراسرار جذبی شعاعوں کی غیرمرئی کشش میں محصور، متحرک بچے، عورتیں، مرد اور فرشتے جو اس رات بیت اللہ کی زیارت کے لیے بلائے گئے تھے۔

نظر درِ کعبہ پر مرتکز کیے، صحن کی طرف اُترنے والی سیڑھیوں پر کھڑا ایک حاجت مند فقیر جس کا دل ربِ کعبہ کی بڑھتی ہوئی کشش سے یوں دھڑک رہا تھا جیسے ابھی پھٹ جائے گا اور اپنے قفس کو توڑ کر کسی پرندے کی طرح پھڑک کر ڈھیر ہوجائے گا۔ (سحرِمدینہ،ص ۲۰-۲۱)

o

دنیا کے بتکدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا

ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا

یہ سیاہ پتھروں سے بنا ہوا چوکور کمرہ حرم شریف کی عالی شان دومنزلہ عمارت کے درمیان اس طرح مسند نشیں ہے جیسے کسی قیمتی انگوٹھی میں کوئی بیش قیمت سیاہ پتھر آویزاں ہو جس سے بے شمار کرنیں پھوٹ رہی ہوں۔ میں اور میری اہلیہ عجب عالمِ استغراق میں تھے۔ دعا کے لیے ہاتھ بلند تھے۔ سارے اعزا و اقربا، احباب جو دنیا میں تھے یا دنیا سے جاچکے تھے ایک ایک کرکے یاد آرہے تھے۔ بیت اللہ کے سنہرے دروازے پر نگاہ ٹکی ہوئی تھی کہ کاش! یہ کھل جاتا اور کاش! ہم اندر کا منظر بھی دیکھ لیتے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اللہ کا گھر تو بالکل ایک عام انسان کے گھر سے بھی معمولی ہے،  مگر اس کے اردگرد بقعۂ نور بنی ہوئی بلندوبالا عمارتیں حقیر محسوس ہورہی تھیں۔ اللہ کے گھر میں کوئی چمک دمک نہ تھی مگر مسجدحرام کی پُرشکوہ محرابیں، سلیٹی دھاریوں والے سنگِ مرمر کی بلندوبالا دیواریں، پُروقار و چمک دار ستون جن کو بڑے بڑے روشن فانوس اپنی شعاعوں سے جگمگا رہے تھے لیکن کسی زائر کی نگاہیں اللہ کے گھر کے سامنے ان عمارات پر نہیں ٹکتی تھیں۔ سب کی نگاہوں کا محور وہ سیاہ غلاف سے ڈھکا ہوا چوکور کمرہ تھا جو ہر طرح کی زیبایش سے بے نیاز تھا۔ اس گھر کے جاں نثار اگر اجازت ہوتی تو اسے سونے کی چادروں سے ڈھک دیتے مگر اس گھر کے مالک کی یہی مرضی تھی کہ اس کا گھر بھی ایک عام انسانوں کے گھر جیسا نظر آئے اور اسی صورت میں برقرار رہے جس شکل میں اسے معمارِ اوّل حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کیا تھا۔ (جلوے ہیں بے شمار،ص ۱۵)

o

تم اس گھر پہنچ گئے ہو جس کو حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کیا اور ان کے رب نے اس شہر کو   ایسا امن کا مسکن بنایا کہ جو اس میں داخل ہوتا ہے اس کے جان و مال محفوظ و مامون ہوجاتے ہیں۔ یہی گھر اُس ہدایت کا مرکز بھی ہے جس میں انسان پورے کے پورے داخل ہوجائیں تو ان کے قلب و روح، فکروسوچ، اخلاق و کردار، شخصی زندگی اور حیاتِ اجتماعی، سب محفوظ و مامون ہوجاتے ہیں۔ انسان اگر کہیں خوف و حزن، ظلم و فساد اور دنیا و آخرت کے بگاڑ اور تباہی سے امن حاصل کرسکتا ہے تو اس بناے ہدایت میں داخل ہوکر جو عالمِ معنوی میں خانہ کعبہ کی مثال ہے، وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا (اٰل عمرٰن ۳:۹۷)۔ (حاجی کے نام، ص ۲۰)

o

حرم کا صحن بقعۂ نور بنا ہوا ہے۔ برآمدوں میں فروزاں ہزاروں یا شاید لاکھوں برقی قمقموں اور فانوسوں کی روشنی خانۂ خدا کی طرف لپک رہی ہے۔ برآمدوں کی چھت پر نصب ۱۴۴ انتہائی طاقت ور سرچ لائٹس، ۱۴۴ ننھے منھے سورجوں کی طرح دہک رہی ہیں۔ قطار اندر قطار بیٹھے ان ہزاروں لاکھوں زائرین میں سے کچھ اللہ کے ایسے پُراسرار بندے بھی ہیں جن کے زمانے عجیب اور جن کے فسانے غریب ہیں- -- اگلے دن مغرب کی نماز سے ذرا پہلے ایک ایرانی نوجوان میرے پہلو میں بیٹھا تھا۔ اذان کی آواز بلند ہوتے ہی اُس نے جھٹ سے کوئی نمبر ملایا، لمحہ بھر کو بات کی اور پھر فون بند کیے بغیر ہاتھ میں پکڑے رکھا۔ اذان ختم ہوئی تو اُس نے فون بند کر دیا اور میری طرف دیکھ کر بولا: ’’میری ماں نے کہا تھا کہ مجھے حرم شریف کی اذان ضرور سنانا‘‘۔

میں مسلسل کعبہ کے غلاف کو دیکھ رہا ہوں۔ حجراسود کے عین اُوپر، چھت کے قریب سنہری ریشے سے بنے الفاظ یاحیی یاقیوم، میری نگاہوں کے سامنے ہیں۔ شام رات میں تحلیل ہورہی ہے لیکن ہزاروں لاکھوں برقی قمقموں کی روشنی نے حرم کے دالان کو نور میں نہلا دیا ہے۔ ایک دو دن بعد جب میں یہاں سے چلا جائوں گا تو بھی یہ دالان، یہ روشنیاں، یہ بیت اللہ اسی طرح موجود ہوں گے۔ یاحیی یاقیوم ، میں تو شاید پھر سے دنیا کے جھمیلوں میں تجھے بھول جائوں، لیکن تو مجھے یاد رکھنا۔ تو نے بھلا دیا تو میں کہاں جائوں گا؟ (مکہ مدینہ، ص ۴۶-۴۷)

o

اللہ کے گھر کے سامنے ہم نہ جانے کتنی دیر دست بدعا رہے، یاد نہیں۔ سفر کی تکان غائب ہوچکی تھی اور ہم مطاف میں داخل ہوکر عشاق کے اُس سیلِ رواں کا ایک حصہ بن گئے تھے جو مصروفِ طواف تھا۔ کبھی نگاہ ملتزم پر جاکر رُک جاتی تھی، کبھی حجراسود کو دُور سے بوسہ دیتی، کبھی  رکنِ ایمانی پر دل اٹک جاتا اور کبھی حطیم کے اندر داخل ہوکر نماز ادا کرنے کی اُمنگ دل پر چھا جاتی۔ طواف تھا کہ جاری تھا۔ میری اہلیہ اپنے گھٹنوں کے درد کو بھول کر اس طرح چل رہی تھی گویا جنت کی کسی کیاری میں گلگشت کر رہی ہوں۔ ہمارے آگے پیچھے دائیں بائیں کبھی ایرانی، کبھی ترکی، کبھی مصری، کبھی شامی، کبھی امریکی و یورپین، کبھی پستہ قد انڈونیشیائی، کبھی درازقد اور بھاری بھرکم صافوں اور لبادوں میں ملبوس افغانی، کبھی وسط ایشیا و چین کے مخصوص رنگ و بناوٹ کے مرد عورت اس طرح چل رہے تھے جیسے سمندر میں بے شمار موجیں اُٹھ رہی ہوں، مگر ہرشخص اسی فکر میں غلطاں کہ اس کی وجہ سے دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے۔ سب کی زبان پر دعائیں، کوئی بآواز بلند اور کوئی دھیرے دھیرے اللہ کے کلام اور مسنون دعائوں کے ورد میں مصروف مگر کچھ ایسے بے تاب و مضطرب لوگ بھی تھے جو مطاف میں سب سے آگے نکلنے کی دُھن میں یوں چھلانگ لگاتے گویا سامنے جنت کا دروازہ ہے اور وہ سب سے پہلے داخل ہونا چاہتے ہیں۔(جلوے ہیں بے شمار، ص۱۶)

o

اس گھر کے گرد جتنے طواف کرو، کم ہیں، بلکہ میں تو یہی کہوں گا کہ جتنا وقت بھی تمھیں اس کے جوار میں گزارنے کے لیے ملے، اور جتنی محبت و استطاعت اللہ تمھیں دے، سب طواف کرنے میں لگا دینا۔ نماز، رکوع، سجدہ، تلاوت، سب عبادات ہر جگہ ہوسکتی ہیں، اگرچہ مسجدالحرام میں ان عبادات کا ثواب لاکھوں گنا زیادہ ہے، لیکن طواف کی نعمت تو اور کہیں بھی میسر نہیں آسکتی۔ طواف میں جو والہیت ہے، وارفتگی ہے، عشق و محبت ہے، وہ اور کسی عبادت میں نہیں۔ طواف کی ہمت نہ ہو، تو اس محبوب اور حُسن و جمال میں یکتا گھر کو جی بھر کے دیکھنا، اس کے گرد نثار ہوتے ہوئے پروانوں کو دیکھنا۔ دل کے لیے کیف و لذت کا یہ سرمایہ بھی اور کہیں میسر نہ آئے گا۔ (حاجی کے نام، ص۲۱)

o

رکنِ یمانی کے پاس سے گزرتے ہوئے میں کعبہ کی دیوار سے متصل اس قطار میں جاکھڑا ہوا جو حجرِاسود کی طرف بڑھ رہی تھی--- قطار زیاہ طویل نہ تھی اور اس وقت قطار کے باہر سے حجراسود کی طرف آنے والوں پر سخت پہرہ تھا۔ اس لیے لوگ تیزی سے سیاہ پتھر تک پہنچ رہے تھے۔ وہ آگے بڑھتے، ہونٹوں کو حجراسود پر رکھتے اور دو تین ثانیوں میں پہرے دار ان کے سر کو پیچھے دھکیل دیتا۔ ایک شخص پیچھے ہٹایا جاتا تو فوراً دوسرا اس کی جگہ لے لیتا۔ میری باری آئی، میں نے سر جھکا کر چاندی کے طاقچے میں رکھے ہوئے پتھر پر ہونٹ رکھے، پتھر چمکا، اس کے اندر ہزارہا سفید اور   سبز لکیریں پل بھر کو جگمگائیں، پھر ایک سخت اور کھردرے ہاتھ نے میرے سر کو پیچھے دھکیل دیا، اور ایک ہجوم مجھے اپنے ساتھ لیتا ہوا ملتزم کی طرف بڑھا۔

درِ کعبہ اور حجرِاسود کے درمیان واقع دیوار کے قریب کھڑے پندرہ بیس آدمی، کچھ گریہ کناں، کچھ خاموش، کچھ ذرا بلندآواز میں رحمت ِ خداوندی کے خواستگار، اور ان میں شامل ایک فقیر جو طواف کے بعد کعبہ کے رب کی خوشنودی اور اعانت کا طالب تھا۔ کچھ دیر کے بعد وہ ادھیڑ عمر آدمی جس کے پیچھے کھڑا میں دیوارِ کعبہ کو چھونے کا منتظر تھا، آہستگی سے پیچھے ہٹا، ایک نظر مجھ پر ڈالی اور اپنی آنسوئوں سے تر داڑھی اور چہرے کے نقوش کی اَنمٹ یاد چھوڑتے ہوئے ہجوم میں اوجھل ہوگیا۔

میں آگے بڑھا، کعبہ کے غلاف کو چھوا اور پھر غلاف کے نیچے موجود پتھروں کو۔ جیسے ہی ہاتھ پتھروں سے مَس ہوئے، سارے وجود میں ایک غیرمرئی طاقت ور لہر دوڑ گئی، جسم کپکپایا اور دل نے التجا کی:

یااللہ! اے اس قدیم گھر کے رب! آزاد فرما ہماری اور ہمارے آبا کی گردنوں کو،     اور ہماری مائوں اور بھائیوں کی اولاد کی گردنوں کو، اے صاحب ِ جُود و کرم و فضل و عطا! اے احسان کرنے والے! اے اللہ! ہمارے تمام کاموں کا انجام اچھا فرما اور ہمیں بچالے دنیا کی رسوائی سے اور آخرت کے عذاب سے۔

اے اللہ! تجھ سے التجا ہے کہ ---

اے اللہ! میں تیرے در سے لپٹا گریہ کناں ہوں ---

اے اللہ! اے اللہ!  ---

وہ ایک نرم ہاتھ تھا لیکن اس کے اندر نہ جانے کیا پکار تھی کہ جیسے ہی میں نے اسے اپنے شانے پر محسوس کیا، میں دیوار سے پیچھے ہٹ آیا اور احرام میں ملبوس ادھیڑعمر آدمی، جس نے مجھ سے کامل خاموشی کے ساتھ دیوارِ کعبہ کے قرب میں کھڑے ہونے کی فہمایش کی تھی، میری جگہ پر  جاکھڑا ہوا۔ اس خاموش تبادلے میں ایک خوبی تھی، ایک بہائو تھا، ایک باہمی رشتے کی خوشبو تھی، ایک نسبت تھی جو دین حنیف سے منسلک انسانوں کو ایک دوسرے کا مونس بناتی ہے۔ (سحرِمدینہ،ص ۲۷-۲۹)

m

اللہ کا گھر ہر لمحے، ہرثانیے، ہر پَل یونہی آباد رہتا ہے۔ کعبۃ اللہ کے گرد، دن رات اور دھوپ چھائوں کی تمیز کے بغیر خلقِ خدا کا دائرہ پیہم حرکت میں رہتا ہے--- قافلۂ شوق صدیوں سے رواں دواں ہے---

لبیک اللّٰھم لبیک کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ چہرے عقیدت کی آنچ سے تمتما رہے ہیں۔ آنکھوں سے آنسوئوں کے سیلاب جاری ہیں۔ آہیں اور سسکیاں تھمنے میں نہیں آرہیں۔ مرد بھی، عورتیں بھی، بچے بھی، بڑے بھی، جوان بھی اور لب ِ گور پہنچ جانے والے بھی۔ کچھ طواف کر رہے ہیں، کچھ نوافل ادا کر رہے ہیں اور کچھ سعی میں مصروف ہیں۔ کچھ تسبیح پر اوراد و وظائف پڑھ رہے ہیں۔ کچھ قرآن کریم کی تلاوت کر رہے ہیں اور کچھ گردوپیش سے بے نیاز خانۂ کعبہ پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ ان سب کے دل عبودیت اور بندگی کے احساس سے لبالب بھرے ہیں۔ سب اپنی خطائوں پر نادم ہیں۔ سب خداے رحیم و کریم سے عفو و درگزر کے خواستگار ہیں۔ سب کی گردنیں عجزوانکسار سے جھکی جارہی ہیں--- انڈونیشیا سے مراکش تک پھیلی مسلم ریاستوں میں بسنے والے، غیر مسلم ممالک میں اقلیتوں کی زندگی گزارنے والے، سب کھنچے چلے آرہے ہیں۔ ۱۴ سو سال سے صحن حرم یونہی آباد ہے۔ فجر کی اذان کے ساتھ ہی ابابیلوں کے جھنڈ اسی طرح اُمنڈ اُمنڈ کر آرہے ہیں اور حرم کا معطر دالان سرمئی کبوتروں سے لبالب بھرا ہے۔ (مکّہ مدینہ،ص ۲۲-۲۳)

o

تمھاری نظروں کے سامنے جو گھر ہے، وہ گھر والے کی تجلیات گاہ ہے۔ انھوں نے اسے زمین کا مرکز بنایا ہے، کنویں کے گھاٹ کی طرح لوگ پلٹ پلٹ کر اس کی طرف آتے ہیں اور کسی طرح سیراب ہونے میں نہیں آتے۔ لوگوں کے قیام و بقا کا سامان بھی اسی گھر کے دم سے ہے۔ جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قَیَامًا لِلّنَّاسِ (المائدہ ۵:۹۷) مَثَابَۃً لِلَّنَّاسِ وَاَمْنًا (البقرہ ۲:۱۲۵)۔ (حاجی کے نام، ص ۲۱)

o

ایسا کیوں ہے کہ ہم لوگ جو حرم میں داخل ہوتے ہی اپنے اندر ایک جہاں نو کروٹیں لیتا محسوس کرتے ہیں اور ہمارے احساس و خیال کی دنیا میں زلزلہ سا بپا ہوجاتا ہے، حرم سے نکلتے اور اپنے آشیانوں کو لوٹتے ہی، سارے لطیف احساسات اور ساری منور سوچوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔

مسلم ممالک مسلسل گردابِ بلا کے تھپیڑے کھا رہے ہیں۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے افغانستان آگ اور خون میں نہاگیا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے بصرہ و بغداد پر قیامت ٹوٹ گئی۔ فلسطین، کشمیر اور چیچنیا میں درندہ صفت سامراجیوں کی بھوک مٹنے میں نہیں آرہی۔ ہم کہ سوا ارب سے زائد سر اور اس سے دُگنے ہاتھ رکھتے ہیں، بے چارگی اور بے بسی کی تصویر بنے تماشا دیکھ رہے ہیں--- سوال پیدا ہوتا ہے کہ سوا ارب انسان کیا کرر ہے ہیں؟ اگر اتنی چنگاریاں بھی بہم ہوجائیں تو جانے کتنے سامراج بھسم ہوجائیں لیکن ایسا کیوں نہیں ہو رہا؟ ممکن ہے اس سیاہ بختی کا ایک سبب سائنس اور ٹکنالوجی سے محرومی بھی ہو۔ لیکن بلاشبہہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عشق کی آگ بجھ چکی ہے اور مسلمان راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گیا ہے۔ ہماری صفیں کج، دل پریشاں اور سجدے بے ذوق ہیں۔ ہمارے دلوں میں ایمان کی حرارت سرد پڑتی جارہی ہے اور ہمارا کردار و عمل ان تعلیمات سے دُور ہوتا جا رہا ہے جو اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولؐ نے ہم تک پہنچائیں---

میں حجراسود کے عین سامنے بیٹھا، غلافِ کعبہ پر نظریں جمائے سوچتا رہا کہ ایسی ہریالی ، ایسی زرخیزی اور ایسی شادابی کے بعد بھی ہمارے دل و نگاہ کا شجر یکایک ٹنڈ منڈ کیوں ہوجاتا ہے؟ حج اور عمرے، طواف اور سعی، اوراد اور وظائف، عبادتیں اور زیارتیں، سب کچھ پُربہار موسم کی خوشبو بھری پھوار کی طرح آتے اور گزر جاتے ہیں اور ہم ایک بار پھر دنیاداری کے لق و دق صحرا میں  غرق ہوجاتے ہیں--- جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے وقت ہمارے ایک ہاتھ میں آبِ زم زم کا کنستر اور دوسرے ہاتھ میں کھجوروں کی پوٹلی ہوتی ہے اور صحن حرم میںعطا ہونے والے جذب و کیف اور روح و فکر میں بپا ہونے والے انقلاب کی گٹھڑی ہم اُسی میقات پر چھوڑ آتے ہیں، جہاں سے احرام باندھ کر حدودِ حرم میں داخل ہوتے ہیں۔(مکہ مدینہ، ص ۲۳-۲۴)

آں خنک شھرے _ _ _

مدینہ کی فضا کافی خوش گوار تھی۔ بادل آسمان پر آتے تھے اور گاہے گاہے بارش ہوتی تھی۔ مکّہ کی فضا میں عجب جاہ و جلال تھا۔ چٹانوں اور پہاڑوں، وادیوں اور گھاٹیوں کے بیچ میں کھردرے سیاہ پتھروں کے نہایت سادہ سُودہ گھر کے سامنے سارے انسان حقیر نظر آتے ہیں جو والہانہ اس گھر کا طواف کرتے ہیں--- مدینہ میں انسان خود کو ہر طرح کے بوجھ (tension) سے آزاد اور ایک عجیب دوستانہ ماحول میں خود کو محسوس کرتا ہے۔ ہر شے سے اُنس و محبت کی خوشبو آتی ہے۔ ہرطرف لطافت اور خوش گواری کے منظر نظر آتے ہیں۔ حرمِ نبویؐ کے ساتھ ہی مدینہ شہر اور اس کے مضافات کا گوشہ گوشہ اپنی حیات افروز تاریخ چھپائے ہوئے ہے۔ (جلوے ہیں بے شمار،ص ۴۹)

o

مسجدنبویؐ کے اس حصے میں جو روضۂ اطہر سے ملحق ہے اور جہاں حجرۂ عائشہ صدیقہؓ اور  حضور اکرمؐ کا مصلیٰ و منبر تھا، قدم رکھتے ہوئے احساس ہو تاکہ کہیں ہمارے ناپاک وجود ناپاک قدم اس مقام کے تقدس کو مجروح تو نہیں کر رہے ہیں۔ مسجد نبویؐ اور روضۂ اطہر ایک دوسرے سے جدا نہیں۔ مسجد کی عمارت بے حد وسیع و شان دار ہے۔ بے حد کشادگی ہے۔ سب کو نماز ادا کرنے کی جگہ آسانی سے حاصل ہوجاتی ہے۔ بقول مولانا عبدالماجد دریابادی حُسن و جمال کے لحاظ سے، خوبی و محبوبی کے لحاظ سے، زیبائی و دل کشی کے لحاظ سے پردئہ زمین پر اس مسجد کا جواب نہیں۔ بس یہ جی چاہتا ہے کہ ہروقت صحن میں بیٹھے ہوں اور عمارتِ مسجد کی طرف ٹکٹکی لگی رہے۔ تصور میں ۱۴سوسال کی تاریخ پھر جاتی ہے۔ دورِصحابہ، تابعین و تبع تابعین اور اہل اللہ و اہلِ حق کی ایک طویل قطار سامنے آتی ہے جنھوں نے تاریخ میں اس مسجد کے صحن و محراب میں آکر خدا کے حضور رکوع و سجود کیا ہوگا۔ روضۂ اطہر پر درود و سلام کا نذرانہ پیش کیا ہوگا--- اللہ اللہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم خود   دورِ نبویؐ میں آگئے ہیں۔ (جلوے ہیں بے شمار،ص ۴۸-۴۹)

o

روضۂ رسولؐ کے سامنے کھڑا فرد عجیب کیفیتوں سے دوچار ہوتا ہے۔ وہ ہیبت، خوف اور تلاطم جو کعبہ کے قرب سے دل میں پیدا ہوتا ہے، نبیؐ کی قبر کے پاس محبت، نرمی اور سکون سے بدل جاتا ہے۔ کوئی دومیٹر چوڑا راستہ، جو زائرین کو سبز جالیوں کے پیچھے موجود ان تین قبروں کے قریب لاتا ہے جن میں حضوؐر اور ان کے دو اصحابؓ مدفون ہیں، نسبتاً خالی ہوا تو میں اس قطار میں جاکھڑا ہوا جو آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی اور جس میں شامل لوگ اس عظیم تجربے کے منتظر تھے جو     روضۂ رسولؐ کے قرب سے دلوں میں تغیر پیدا کرتا ہے۔

روضے کے قریب پہنچ کر میں قطار سے نکل کر اس چھوٹے سے ہجوم میں شامل ہوگیا جو رواں قطار کے پیچھے کھڑا تھا۔ اس ساکت گروہ میں موجود لوگ نبیؐ پر درود و سلام بھیج رہے تھے، دعاگو تھے اور اپنی اپنی کیفیت و حالت و مقام کے مطابق اس مبارک مقام سے فیض حاصل کر رہے تھے۔ ان میں سے اکثر کے لبوں سے سلام و درود کی صدائیں اُبھر رہی تھیں۔(سحرِمدینہ،ص ۷۴-۷۵)

o

سامنے رسولؐ خدا سو رہے ہیں۔ کوئی لمحہ درود و سلام اور سجدہ و تکبیر سے خالی نہیں۔ یہ تسبیح و تہلیل، قرآن و حدیث، ذکر و اذکار، نوافل و وظائف اور دعا و صفا کی دنیا ہے۔ اس کی بنیادیں وہی ہیں جو رسولؐ اللہ نے اٹھائی تھیں۔ اس کی روح رسولؐ اللہ کی روح ہے۔ اُمہات المومنینؓ کی حیا چاروں طرف محیط ہے۔ صحابہؓ کی آوازیں گندھی ہوئی ہیں اور اہلِ بیت بولتے چالتے ہیں۔ صرف محسوس کرنے کی ضرورت ہے اور احساس کسی کسی کو ملتا ہے۔(شب جاے کہ من بودم، ص ۱۴۰)

o

اس حجرے سے متصل چبوترے پر بیٹھ کر میں نے قرآن شریف کا ربع پڑھا۔ یہ جگہ وہ ہے جو مسجدنبویؐ کے صحن میں اصحابِ صفہ کے لیے مخصوص تھی۔ قرآن شریف میں نے ریک میں رکھ دیا اور سر جھکا کر بیٹھ گیا۔ میں یہ دعویٰ نہیں کروں گا کہ مجھ پر استغراق کی حالت طاری ہوئی اور میں ۱۴سو سال پیچھے چلا گیا، البتہ یہ ضرور ہوا کہ حضوؐر کی سیرت و سوانح پر میں نے بچپن سے بڑھاپے تک جو کچھ پڑھا تھا، وہ ایک فلیش [جھلک] کی صورت میں میری نگاہوں کے سامنے سے گزر گیا۔ اس کی تفصیل میں بیان نہیں کرسکتا۔

تاہم میں نے ایک انقلاب کو مدینے میں مکمل ہوتے ہوئے دیکھا، جس کا آغاز مکّے میں ہوا تھا۔ آغاز اور انجام کے درمیان صرف ۲۳ سال کا زمانہ حائل تھا۔ یہ ایک مکمل و اکمل انقلاب تھا جس میں انسانیت کے ہرپہلو کی تنقیح و تہذیب ہوگئی تھی۔ معاشرت انسانی کی ایک نئی تعبیر وجود میں آئی تھی۔ دین و دنیا میں ہم آہنگی کی ایک نئی تصویر اُبھری تھی اور ایک نہایت خوب صورت متوازن، مہذب اور متمدن معاشرہ قیام پذیر ہوگیا تھا۔ (ارضِ تمنّا، ص۸۷)

o

رات مسجد اور غسل خانوں کے درمیان صحن سے گزرتے ہوئے آسمان نے مجھے روک لیا۔ اس کی گہرائیوں میں ایسا سکون تھا جو میں نے آج سے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا۔ ستاروں سے مزین گہرے نیلے رنگ کے شفاف آسمان میں ایک نور تھا جو اس کی بسیط وسعتوں میں موجزن تھا۔ نہایت دھیما، ٹھنڈا نور جو اس کے نیلے رنگ کے اندر سے اُمڈ رہا تھا۔ کیا یہ لیلۃ القدر تھی؟

تراویح کے دوران قرآن حکیم کی آخری سورتوں کے اثر سے دل کانپتا رہا، آنکھوں سے آنسو بہتے رہے اور دل کے اندر کوئی شے یوں پگھلتی رہی جیسے موم بتی پگھلتی ہے۔ (سحرِمدینہ، ص ۱۲۷)

o

مدینہ منورہ، چمنستان ہستی کا ایک سدا بہار پھول ہے جس کی لطافت سب سے جدا، جس کے رنگ سب سے منفرد اور جس کی خوشبو سب سے مسحورکن ہے۔ اس کی ہوائوں میں کچھ ایسا جادو اور فضائوں میں کچھ ایسا حسن ہے کہ کسی بھی خطۂ ارضی سے آنے والا انسان اپنے جذبات و احساسات پر قابو نہیں رکھ سکتا۔ مکہ مکرمہ کے پُرشکوہ جلال کے دائرے سے نکل کر مسجدنبویؐ کے احاطۂ جمال میں داخل ہوتے ہی قلب و نظر ایک سراسر مختلف کیفیت سے ہم کنار ہوجاتے ہیں۔ اس کیفیت کی سرشاری اور سرمستی کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو برسوں کوچۂ جاناں تک پہنچنے کی آرزو میں سلگتا رہا ہو۔ جس کی زندگی کا ہرلمحہ حضوری و حاضری کی تمناے بے تاب سے مہکتا رہا ہو۔ جس نے انتظار کی لمبی راتیں اور آتشیں دن گزارے ہوں۔ جو صرف اس لیے جیتا رہا ہو کہ مرنے سے قبل اپنی آنکھوں کو گنبد خضریٰ کے عکس جمیل سے منور کرلے۔(مکہ مدینہ، ص ۲۵)

o

اب سکون قلب، طبعی اہتزاز و انبساط، احساس فرحت و مسرت سے طبیعت چمن چمن ہوتی محسوس ہوئی، شاید حضوؐر اپنے غلاموں کو رخصت کرتے ہوئے اُن کے اضمحلال و نقاہت کو ان کی رگوں سے نکال کر ایک جذبۂ توانا بھر دیتے ہیں۔ انعاماتِ بارگاہ رسالت کا یہ جرعۂ اولیں سیر ہوکر اپنی نَس نَس میں اُتارتا ہوں۔ یہ آس بندھ جاتی ہے کہ حضوؐر اپنے حوضِ کوثر سے اپنے غلام ابن غلام کو ایک جامِ لب ریز سے ضرور نوازیں گے۔ اس یقین کے ساتھ واپس اپنے ہوٹل آجاتا ہوں۔(حرمین شریفین میں،ص ۱۴۶)

o

حج کے اس سفر سے بڑا سکون بڑی طمانیت حاصل ہوئی۔ دل میں یہ خواہش بار بار کروٹ لیتی رہی کہ کاش! اسی طرح بار بار جوارِ حرم اور دیارِ حبیب کی حاضری کا شرف حاصل ہوتا رہے، مگر پھر یہ خیال آتا کہ اس حرم کے مالک اور اسی دیار کے حبیب نے یہ بھی ہدایت کی ہے کہ ہر مومن کو اپنے گردوپیش سے باخبر رہنے اور اسے صالحیت کی طرف موڑنے کی ہرآن فکرکرنی چاہیے۔ حج اگر فرض کی ادایگی کے بجاے سیاحی و تفریح بن جائے تو یہ پسندیدہ بات نہیں۔ افسوس کہ کتنے اہلِ ثروت اپنی ملّت کے غریب و پس ماندہ لوگوں کی ضرورتوں کی طرف توجہ نہیں کرتے اور کرتے بھی ہیں    تو اس طرح کہ اپنے وسائل کے سمندر سے چند قطرے ملّت کے پریشان لوگوں کی طرف بھی    ٹپکا دیتے ہیں۔ چنانچہ اسلامی معاشرے میں عدم توازن اور اسلام کی قوت و شوکت کے فقدان کے مظاہر ہروقت سامنے آتے رہتے ہیں۔ کاش! حج ہر انسان کو ایک انقلابی انسان ایک مردِ مجاہد اور ایک دین کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینے والا حوصلہ مند انسان بنائے۔ کاش! یہ ملّت کے مقدر کو تبدیل کرنے کا ایک ذریعہ بن سکے۔ کاش! یہ بھی ہماری دیگر عبادتوں کی طرح ایک بے روح عبادت بن کر نہ رہ جائے۔ (جلوے ہیں بے شمار،ص ۵۸)

o

ہم حج بھی کریں، عمروں کے لیے بھی جائیں، منہ کعبہ شریف کی طرف کر کے نمازیں بھی پڑھیں، مگر ہم پر وہ رنگ نہ چڑھے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا رنگ تھا، تو اس سے بڑھ کر ہماری حرماں نصیبی اور کیا ہوسکتی ہے، اور جو حرماں نصیبی ہمارا مقدر بن گئی ہے، اس کا سبب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ ہم سے دنیا میں جو وعدے ہیں___  استخلاف فی الارض کا وعدہ ہے،  غلبۂ دین کا وعدہ ہے، خوف سے نجات اور امن سے ہم کنار کرنے کا وعدہ ہے___  وہ سب وعدے اس شرط کے ساتھ مشرط ہیں کہ ہم اللہ کے ایسے بندے بن جائیں کہ بندگی اور کسی کے لیے نہ ہو: یَعْبُدُوْنِی لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَئْـیًا (النور ۲۴:۵۵)۔(حج کا پیغام، ص ۹)

کتابیات

۱-            ارضِ تمنّا، غلام الثقلین نقوی، فیروز سنز، لاہور، ۱۹۸۸ء

۲-            پھر نظر میں پھول مہکے، محمد اکرم طاہر، ادارہ معارف اسلامی، لاہور، ۲۰۰۹ء

۳-            جلوے ہیں بے شمار، ڈاکٹر سید عبدالباری، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، ۲۰۰۷ء

۴-            حاجی کے نام، خرم مراد، منشورات، لاہور، ۲۰۰۱ء

۵-            حج کا پیغام، خرم مراد، منشورات، لاہور، ۲۰۰۵ء

۶-            حرمین شریفین میں، محمد رفیق وڑائچ، منشورات، لاہور، ۲۰۰۸ء

۷-            سحرِمدینہ، مظفراقبال، دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد، ۲۰۰۹ء

۸-            شب جاے کہ من بودم، شورش کاشمیری، مکتبہ چٹان، لاہور، ۱۹۷۱ء

۹-            مکّہ مدینہ، عرفان صدیقی، جہانگیر بکس، لاہور، ۲۰۱۰ء

تاریخ انسانی میں دعوتِ فکروعمل دینے والی ہر تحریک جب تک اپنے مقصد اور ہدف کے بارے میں واضح تصور نہ رکھتی ہو، اپنی منزل کی طرف اعتماد سے سفر نہیں کرسکتی۔ مقصد اور منزل کے تعین کے ساتھ حکمت عملی اور نقشۂ عمل بھی یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ اگر منزل واضح ہو لیکن اُس تک پہنچنے کے ذرائع مناسبت نہ رکھتے ہوں تو خلوصِ نیت اور دعائوں کے باوجود وہ تحریک اپنی مراد کو نہیں پہنچ سکتی۔

قرآن کی دعوت پر جو تحریک روزِ اوّل میں برپا ہوئی اس میں داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مقصد و منزل، حکمت عملی اور مدارجِ دعوت، ہر چیز واضح تھی اور آپؐ کے رفقاے کار  صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپؐ  کے ساتھ مکمل ذہنی، قلبی اور عملی یگانگت رکھتے تھے۔ یہ  قرآن کریم کی زبان میں سیسہ پلائی ہوئی ایک دیوار اور کلامِ الٰہی کو تھامے ہوئے ایک ایسی جماعت تھی جس میں جذباتِ اتفاق و محبت و اخوت ہر ہرشریکِ سفر کے خون میں گردش کر رہے تھے۔

ایک لمحے کے لیے دیگر تحریکات پر نظر ڈالی جائے تو وہ تحریکات بھی جو اسلام مخالف ہوں جب تک ان میں بھی اپنے مقصد کا شعور، منزل کا تعین، حکمت عملی پر اتفاق نہ پایا جائے کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں۔ معروف مثال اشتراکی تحریک کی ہے جس نے مادیت کو اپنا ایمان قراردیتے ہوئے اشتراکی معاشرے کے تصور کو سامنے رکھتے ہوئے ایثار و قربانی اور اخلاص کے ساتھ مادی اور الحادی تحریک کے لیے اپنا سب کچھ لگایا اور کچھ عرصے کے لیے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکی۔

اقامت ِ دین کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے لیے مقصد و منزل کا نگاہوں کے سامنے بالکل واقع ہونا اور پھر اس کی مناسبت سے حکمت عملی پر وثوق ہونا کامیابی کی بنیادی شرائط میں سے ہے۔ تحریک اسلامی کا مقصد و منزل خود قرآن کریم نے وضاحت سے مختصرترین الفاظ میں بیان کردیا اور صرف ایک لفظ میں تمام فکر کے خلاصے کو عبودیۃ کی اصطلاح میں سمو دیا ہے، یعنی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے عبد اور بندے کی حیثیت سے بندگی اور عبودیت کے ذریعے اس بندگی اور عبدیت کو اللہ کی زمین پر قائم کرنا، اسی کا نام اقامت ِ دین ہے۔ سورئہ حج میں اس مقصد کو چار نکات کی شکل میں تعلیم کیا گیا ہے:

اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ o (الحج ۲۲:۴۱) یہ  وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار  اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

یہاں اقامت دین کے حوالے سے جن چار امور کا ذکر کیا گیا ہے وہ ایک جامع نظام کے اجزاے ترکیبی ہیں۔ یہاں اقامت ِ دین کے پہلے جزو، یعنی اقامت ِ صلوٰۃ سے بات کا آغاز کیا گیا کہ جب تبدیلیِ اقتدار کے ذریعے اللہ کے بندوں کو اختیار و حکومت حاصل ہو تو پہلا کام نظامِ صلوٰۃ کا قائم کرنا ہے۔ یہ محض نماز پڑھ لینے کا نام نہیں ہے۔ اقامت صلوٰۃ کے لیے اوّلاً اللہ کی عظمت و کبریائی کے لیے اذان کے ذریعے جہاں تک انسان کی قدرت ہو، آواز بلند کر کے اللہ کے بندوں کو یہ دعوت دینا مقصود ہے کہ جو کائنات اور انسان کا خالق و حاکم ہے اس کے انعام و اکرام کا شکر ادا کرنے کے لیے اس کے گھر کی طرف آئو، اور قطار اندر قطار کھڑے ہوکر اس کے سامنے عاجزی کے ساتھ سرنگوں اور سربسجود ہوکر اپنی بندگی اور اس کی حاکمیت کا اقرار کرو کہ یہی نفس کی گمراہی، فحاشی و برائی سے بچنے کا بہترین طریقہ ہے۔ نماز محض مسجد میں صف بندی کے بعد رب کے حضور اظہاربندگی نہیں ہے بلکہ یہ اجتماعیت، اخوت، اتحاد، غیرطبقاتی معاشرے کے قیام کی حکمت عملی اور ذریعہ ہے۔ اس لیے پہلی بات یہ سمجھائی گئی کہ حصولِ اقتدار کے ساتھ ہی اللہ کے شکرواحسان اور اپنی اطاعت و فرماں برداری کے اظہار کے لیے نظامِ صلوٰۃ کو اس کے تمام لوازمات کے ساتھ نافذ کیا جائے۔ یہ اقامت دین کا پہلا مطالبہ ہے۔

اس کے ساتھ مالی عبادت کو بھی لازم کر دیا گیا کہ اگر ایک بندہ واقعی اللہ کے لیے مخلص ہوجائے تو پھر اس کی عبادت نماز کی حد تک محددو نہیں رہ سکتی۔ اس کی معیشت اور مالی معاملات کو بھی بندگیِ رب کے اظہار کا ذریعہ بننا ہوگا۔ چنانچہ ادایگی زکوٰۃ کے نظام کے قیام کو دوسری ذمہ داری قرار دیا گیا۔ ظاہر ہے جس طرح قیامِ صلوٰۃ کے لیے ایک باصلاحیت فرد کا انتخاب و تعین بطور قائد و امام ضروری ہے، ایسے ہی زکوٰۃ کے جمع کرنے کے لیے محصولین زکوٰۃ کا تقرر اور پھر زکوٰۃ کی تقسیم کے لیے نظام بیت المال کا قیام لازم کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بات بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ زکوٰۃ جس مال پر لی جائے گی اس کا خود حلال ہونا اور حلال ذریعے سے حاصل کیا جانا اولین شرط ہے۔ گویا زکوٰۃ محض ایک مقررہ شرح سے رقوم و اجناس کی وصولی کا نام نہیں بلکہ پورے معاشی نظام کے اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے احکاماتِ حلال و حرام کے تابع ہونے کا نام ہے۔

اقامت دین کے ان دو بنیادی کاموں کے ساتھ دعوت کا تیسرا اور چوتھا نکتہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا ہے، یعنی ہاتھ، زبان اور قلب تینوں کو بہ یک وقت استعمال کرتے ہوئے اچھائی اور بھلائی کو پھیلانے اور قائم کرنے اور برائی، بغاوت اور گمراہی کو مٹانا۔ قرآن کریم اور سنت ِ مطہرہ نے اِس سلسلے میں جو اصول دیا ہے وہ بہت سادہ سا ہے، یعنی بھلائی، اچھائی اور نیکی کے ذریعے برائی، گمراہی اور بدی کا مٹانا۔ نیکی، برحق اور صداقت کی اشاعت جوں جوں ہوگی گمراہی، برائی اور بغاوت کم سے کم تر ہوتی چلی جائے گی، کیوں کہ حق کے آنے کے بعد باطل کو جانا ہی پڑتا ہے اور باطل جانے کے لیے ہی بنا ہے۔

قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ کی روشنی میں یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اقامت دین اُس نظام کے قیام کا نام ہے جس میں نہ صرف مراسمِ عبودیت بلکہ مال و دولت، معاشرت و سیاست اور زندگی کی ہر سرگرمی کو صرف اور صرف اللہ رب العالمین کی خوشی اور رضا کا تابع کر دیا جائے۔ یہی اقامت دین کا مقصود ہے۔

  • اخلاص نیت کی اھمیت: اقامت دین کی بنیاد بلکہ پہلی شرط اخلاصِ نیت ہے۔ اخلاص نیت کی اصطلاح کا مفہوم وہی ہے جو قرآن کریم کی سورۃ الاخلاص کا مرکزی مضمون ہے، یعنی توحید ذات و صفات کا تسلیم کرنا اور اپنی زندگی میں نافذ کرنا۔ اس کا اظہار اوّلاً یہ کہہ کر کیا جاتا ہے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ احد ہے، یعنی وہ محض عددی طور پر ’ایک‘ نہیں ہے بلکہ وہ اپنی ذات میں صرف اور صرف ایک ہے۔ وہی اوّل و آخر ہے، نہ کوئی اس سے پہلے ہے نہ کوئی اس کے بعد ہے۔

دوسری بات جو سورئہ اخلاص میں سمجھائی جارہی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا الصمد ہونا ہے نہ کہ کسی کا محتاج ہونا، جب کہ ہر ایک اس کا محتاج ہے اور اس کے حکم کے بغیر کوئی کام سرانجام نہیں دے سکتا۔ تیسری بات جو انسان کو تعلیم کی گئی ہے، یہ ہے کہ رب کریم وہ ہے جو اپنے وجود کے لیے کسی کا  مرہونِ منت نہیں ہے۔ چوتھی بات یہ کہی جارہی ہے کہ نہ وہ کسی اور کو اپنی ذات میں شریک کرتا ہے اور آخری بات یہ کہ وہ اپنی اس انفرادیت کی بنا پر ہرلحاظ اور ہرپیمانے سے یکتا (احد) ہے۔

اس سورئہ مبارکہ کا نام ’الاخلاص‘ یہ ظاہر کرتا ہے کہ توحید خالص (اللہ کی ذات و صفات کے حوالے سے) کو زندگی میں نافذ کرنا اس کا علم حاصل کرنا اوراس کے مطالبات پر عمل کرنا گویا دین کا ایک تہائی اثاثہ ہے، جب کہ بقیہ دو تہائی کا تعلق نبوت اور آخرت کے ساتھ ہے۔ اس سورئہ مبارکہ کے مضمون پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے تمام معاملات کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے خالص کر دینا ہی توحید کی روح ہے۔

اخلاص کو سمجھنے کے لیے نہ صرف قرآن کی اس مختصر لیکن جامع سورت کے مضامین پر غور کرنا ضروری ہے بلکہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ دیگر مقامات پر قرآن کریم اخلاص پر آمادہ کرنے اور اخلاص کے اختیار کرنے کا تذکرہ کس طرح کرتا ہے، مثلاً قرآن کا یہ کہنا کہ: ’’(اے نبیؐ) کہو میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں۔ ابراہیم کا طریقہ جسے یکسو ہوکر اُس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِاطاعت جھکانے والا میں ہوں‘‘۔ (الانعام ۶: ۱۶۱-۱۶۲)

یہاں بھی قرآن کریم اپنے تمام اعمال کو اللہ رب العالمین جل جلالہ کے لیے خالص کردینے کو اخلاص کا ثبوت قرار دیا ہے۔ یہی اخلاصِ عمل ہے جو انسان کو آخرکار دنیا اور آخرت میں کامیابی سے ہم کنار کرتا ہے۔ اخلاص نیت میں یہ بات بھی شامل ہے، جو کام بھی کیا جارہا ہے اس کا محرک اور سبب کیا ہے۔ مشہور حدیث جس کے راوی حصرت عمر بن خطابؓ ہیں اور جو اکثر افراد کی زبانوں پر رہتی ہے، اس بات کو دو مثالوں کی مدد سے واضح کرتی ہے۔

  • حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اعمال کا دارومدار صرف نیت پر ہے اور آدمی کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی تو (مثلاً) جس نے اللہ و رسولؐ کے لیے ہجرت کی ہوگی واقعی ہجرت اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف ہوگی۔ اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہوگی تو اس کی ہجرت دنیا کے لیے یا عورت کے لیے ہی شمار ہوگی‘‘۔ (متفق علیہ)

یہاں یہ بات واضح طور پر سمجھا دی گئی کہ اگر ایک شخص ہجرت جیسے عظیم کام کو کرتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے آبائی گھر کو، اپنے دوستوں اور اعزہ کو، اپنے کاروبارِ حیات کو، اپنی    جاے پیدایش کو، ان تمام یادوں کو جو اس کی زندگی سے وابستہ ہیں، ترک کر کے ایک دوسرے مقام پر نقل مکانی کرتا ہے اور اس کا مقصد اللہ کے دین کی سربلندی، اس کی اور صرف اس کی بندگی اور اس کے دین پر مکمل آزادی سے عمل کرنا ہے، تو یہ ہجرت اللہ کے لیے ہے اور اس کا بڑااجر ہے۔ لیکن اگر بظاہر تو وہ ایسی ہجرت کر رہا ہو لیکن دل میں نیت یہ ہو کہ اس طرح اسے کسی مومنہ سے شادی کا موقع بھی مل جائیگا تو پھر یہ ہجرت اس خاتون کے لیے ہے، اللہ کے لیے نہیں ہے۔ اخلاص نیت سے ہجرت وہی ہوگی جس میں صرف رضاے الٰہی مقصود ہو، چاہے ہجرت کے بعد اللہ کی طرف سے ایک فضل و انعام کے طور پر اسے کسی مومنہ سے شادی کا موقع مل جائے۔

ایک دوسری حدیث میں اسی بات کو چار ایسے نیک کاموں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے جن میں سے ہر ایک بجاے خود ایک نیکی کا کام ہے، عظمت کا کام ہے لیکن اگر اس کام کی نیت جو سب سے مخفی ہے لیکن عالم الغیب والشہادہ سے مخفی نہیں کچھ اور ہو تو پھر بعض قابلِ تعریف عظیم کام بھی نہ صرف اپنا اجر کھو بیٹھتے ہیں بلکہ شدید سزا کی جانب لے جاتے ہیں۔

  • حضرت ابوہریرہؓ نے کہا، میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ: ’’قیامت کے دن سب سے پہلے ایک ایسے شخص کے خلاف فیصلہ سنایا جائے گا جس نے شہادت پائی ہوگی۔ اُسے خدا کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا۔ پھر خدا اُسے اپنی سب نعمتیں یاد دلائے گا اور وہ انھیں تسلیم کرلے گا۔ تب پوچھے گا کہ ’’تو نے میری نعمتیں پاکر کیا کام کیے؟‘‘ وہ عرض کرے گا کہ ’’میں نے تیری خوش نودی کی خاطر (تیرے دین سے لڑنے والوں کے خلاف) جنگ کی، یہاں تک کہ مَیں نے اپنی جان دے دی۔

خدا اس سے کہے گا: ’’تو نے یہ بات غلط کہی کہ میری خاطر جنگ کی، تو نے تو صرف اس لیے جنگ کی (اور جاں بازی دکھائی) کہ لوگ تجھے جری اور بہادر کہیں۔ سو دُنیا میں تجھے اس کا صلہ مل گیا۔ پھر حکم ہوگا کہ اس کو منہ کے بَل گھسیٹتے لے جائو اور جہنم میں ڈال دو‘‘۔ چنانچہ اُسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

پھر ایک دوسرا شخص خدا کی عدالت میں پیش کیا جائے گا جو دین کا عالم و معلّم ہوگا۔ اُسے خدا اپنی نعمتیں یاد دلائے گا اور وہ انھیں تسلیم کرے گا۔ تب اس سے کہے گا: ’’ان نعمتوں کو پاکر تو نے کیا عمل کیے؟‘‘ وہ عرض کرے گا: ’’خدایا میں نے تیری خاطر تیرا دین سیکھا اور تیری خاطر دوسروں کو اس کی تعلیم دی، اور تیری خاطر قرآن مجید پڑھا‘‘۔

اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’تم نے جھوٹ کہا، تم نے تو اس لیے علم سیکھا تھا کہ لوگ تمھیں عالم کہیں، اور قرآن اس غرض سے تم نے پڑھا تھا کہ لوگ تمھیں قرآن کا جاننے والا کہیں، سو تمھیں دنیا میں اس کا صلہ مل گیا۔پھر حکم ہوگا کہ اس کو چہرے کے بل گھسیٹتے ہوئے لے جائو اور جہنم میں پھینک دو۔ چنانچہ اسے گھسیٹتے ہوئے لے جاکر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

تیسرا آدمی وہ ہوگا جس کو اللہ نے دنیا میں کشادگی بخشی تھی اور ہرقسم کی دولت سے نوازا تھا۔ ایسے شخص کو خدا کی جانب میں پیش کیا جائے گا اور وہ اسے اپنی سب نعمتیں بتائے گا اور وہ ساری نعمتوں کا اقرار کرے گا کہ ہاں، یہ سب نعمتیں اسے دی گئی تھیں۔ تب اس سے اس کا رب پوچھے گا: ’’میری نعمتوں کو پاکر تو نے کیا کام کیے؟‘‘ وہ جواب میں عرض کرے گا: ’’جن جن راستوں میں خرچ کرنا تیرے نزدیک پسندیدہ تھا، ان سب راستوں میں مَیں نے تیری خوشنودی کے لیے خرچ کیا‘‘۔

اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’جھوٹ کہا، تو نے یہ سارا مال اس لیے لٹایا تھا کہ لوگ تجھے سخی کہیں، سو یہ لقب دُنیا میں مل گیا۔ پھر حکم ہوگا کہ اس کو چہرے کے بَل گھسیٹتے ہوئے لے جائو اور آگ میں ڈال دو‘‘۔ چنانچہ اسے لے جاکر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ (مسلم)

ہجرت اور جہاد کا تحریکِ اسلامی کی دعوت کے ساتھ ایک اندرونی اور قلبی تعلق ہے۔ اقامت ِ دین کی دعوت انفرادی اور اجتماعی معاملات میں جاہلی رسم و رواج سے اسلام کی آفاقی تعلیمات کی طرف ہجرت کی دعوت ہے۔ یہ وطنیت، لسانیت، علاقائیت، نفس پرستی کی برائیوں سے اخوت اسلامی، یک جہتی اور مکمل طور پر بندگیِ رب کی طرف ہجرت کی دعوت ہے۔ ایک کارکن کے ذاتی معاملات ہوں یا معاشرتی اور معاشی معاملات، اسے ہرہرعمل کو یہ دیکھ کر جانچنا ہوتا ہے کہ اس کام میں مقصود اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی رضا ہے یا کسی فرد کی خوشی کا دخل ہے۔ کیا اطاعتِ الٰہی مقصود ہے یا کسی ذمہ دار کو اپنی وفاداری کا یقین دلانا مقصود ہے۔ گویا یہ ایک مسلسل ہجرت کی دعوت ہے جس میں فکری طور پر اور عملی طور پر ہرعمل کے لیے رضاے الٰہی کو معیار بناکر یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ جو کام بھی کیا جا رہا ہے اس کا رُخ اور سمت کس طرف ہے، جاہلی روایات کی طرف یا اسلام کی تعلیمات کی طرف۔

وہ عمل جو ہجرت کے طور پر کیا جاتا ہے بیک وقت ایک جہادی عمل بھی ہے۔ یہ جہاد فکری ہے، شعوری ہے، عملی ہے اور ہرلمحہ واقع ہوتا ہے۔ یہاں معمولی سے معمولی بات ہو یا بڑے سے بڑا مسئلہ، نفس، مفاد اور تعلقات سے بلند ہوکر یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ رب کو خوش کرنے کے لیے ایک کام کو کس طرح کیا جائے۔ اس عمل میں اگر رفقاے کار اور ذمہ داران سے اختلاف کرنا ہو تو اس میں بغیر کسی مداہنت کے قرآن و سنت کے اصولوں کی بنیاد پر ایک موقف اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یہ   جہاد تنگ نظری کے خلاف، خود رائی کے خلاف اور ان تمام تصورات کے خلاف عمل میں آتا ہے جو تحریک کے مقابلے میں فرد کو اپنے فائدے کی طرف بلاتے ہیں۔

ان احادیث کی روشنی میں اخلاص نیت کا مفہوم یہ نظر آتا ہے کہ ایک کارکن اپنے تمام رشتوں، تعلقات اور معاملات کو جب صرف اور صرف رب العالمین کے لیے خالص کرلے، صرف اُس سے جڑ جائے تووہ اللہ کا مخلص بندہ ہے جسے قرآن مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ (البینہ ۹۸:۵) سے تعبیر کرتا ہے، اور جن کے بارے میں یہ وعدہ کرتا ہے کہ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔

  • تحریک کے لیے اھمیت:تحریک کے حوالے سے یہاں یہ بات خاص طور پر قابلِ غور ہے۔ تحریک اسلامی انسانوں کی ایک تحریک ہے اور اس بنا پر ہماری محدود عقل، محدود تجربہ اور بعض اوقات برس ہا برس کی عادتیں اور طبیعت کی افتاد یہ احساس دلاتی ہے کہ اگر میں نے یہ  ذمہ داری احسن طور پر ادا کی تو مجھے تعریف کی نگاہ سے دیکھا جائے گا، اگر کسی مظاہرے میں سب سے آگے رہا تو میرے جوش و جذبے اور قربانی کی بنا پر مجھ پر زیادہ اعتماد کیا جائے گا، میں قائدین کی نگاہ میں زیادہ مقرب ہوجائوں گا وغیرہ۔ یہ سب انسانی جذبات ہیں اور وہ نفس جو پلٹ پلٹ کر ہمیں گمراہ کرنا چاہتا ہے، اس کے مقابلے میں نفس امارہ سے بچتے ہوئے (یوسف ۱۲:۵۳)، اور نفس لوامہ (قیامہ ۷۵:۲۰) کی تاکید کو محسوس کرتے ہوئے، ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے آپ کو صرف اور صرف ربِ کریم کی پناہ میں دے کر سکون و اطمینان، اور نفس مطمئنہ (الفجر ۸۹:۲۷-۳۰) کا حصول ہی اخلاصِ نیت ہے۔

جس نے یہ اخلاص نیت اختیار کیا اس کی وضع قطع اور شکل جیسی بھی ہو، اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کے قلب اور خلوص کو دیکھ کر بہترین اجر سے نوازتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے انھوں نے کہا: فرمایا رسولؐ اللہ نے: ’’اللہ تمھاری شکل و صورت اور تمھارے مال کو نہ دیکھے گا بلکہ تمھارے دلوں کو اور تمھارے اعمال کو دیکھے گا، (مسلم، کتاب البر والصلہ والادب باب ۱۰، حدیث ۲۵۶۴)۔ اخلاص نیت کے حوالے سے ایک اور حدیث یہ واضح کرتی ہے کہ اگر ایک کام صرف اللہ کے لیے  کیا گیا اور اس میں کہیں آس پاس بھی یہ خیال ذہن میں نہ تھا کہ اس کا کوئی فائدہ کام کرنے والے کے کسی عزیز کو پہنچے اور اتفاقاً اس عمل کے نتیجے میں اس کے اپنے کسی عزیز حتیٰ کہ اپنی اولاد کو اس کا فائدہ پہنچ جائے، جب بھی اس عمل کی صداقت، قبولیت اور خلوص میں فرق واقع نہ ہوگا کیونکہ  صدقِ دل سے کیا گیا عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں مطلوب و مقصود ہے۔

حضرت معنؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد ابی زید نے صدقے کے لیے چند دینار نکالے اور انھیں مسجد میں بیٹھے ایک فرد کے پاس رکھ دیا۔ میں نے آکر ان دیناروں کو اُٹھا لیا،   لے کر (گھر) کے پاس آیا تو انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے تجھے دینے کا ارادہ کیا تو نہیں تھا۔ میں اس باہمی چپقلش کا مقدمہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا تو فرمایا: اے یزید جس کی تو نے نیت کی تجھے اس کا اجر مل گیا اور اے معن! تو نے لیا وہ تیرا ہوگیا۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب ۱۵، حدیث ۱۴۲۲، عن معن)

یہ حدیث قرآن کریم کی اُس آیت کی تصدیق کرتی ہے جس میں قربانی کے گوشت کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اللہ کو نیت پہنچتی ہے نہ کہ گوشت۔ اخلاصِ نیت کا اجر نہ صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہاں محفوظ ہے بلکہ بعض اوقات اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ اخلاصِ نیت کے اجر سے نواز دیتا ہے۔ بخاری میں کتاب الجہاد میں ایک حدیث (۲۸۳۹) میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ایک غزوہ کے موقع پر بعض ایسے اصحاب جو خلوصِ نیت سے جہاد میں شامل ہونا چاہتے تھے کسی بنا پر شریک نہ ہوسکے تو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ہم نے جو بھی گھاٹی یا وادی عبور کی ہے اس میں وہ بھی ہمارے ساتھ ہیں، یعنی انھیں بھی جہاد کا اجر ملے گا‘‘۔

ان احادیث میں غور کرنے اور اپنا احتساب کرنے کے لیے انتہائی قیمتی رہنمائی ہے۔ ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا تنظیمی کاموں میں شامل ہونا کیا اللہ، اس کے رسولؐ اور ان دونوں کی پیروی کرنے والے اولی الامر کی اطاعت کے جذبے کی بنا پر ہے، یا اس میں دیگر جذبات شامل ہیں؟ اگر ہمارا کسی ریلی میں آنا، کسی اجتماع میں شرکت کرنا، کسی کام کی ذمہ داری کو  ادا کرنا محض نمود ونمایش کی غرض سے ہوا تو پھر اس سے زیادہ گھاٹے کا سودا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ ہاں، اگر ہماری نماز، ہماری قربانی، ہمارا وقت، ہماری صلاحیت، ہماری تمام قوتوں کا استعمال صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خالص ہے اور اسی کی رضا اسی کے دین کی اقامت کے لیے ہے تو پھر اس کا وعدہ ازل سے ابد تک صرف سچائی کے سوا اور کچھ نہیں۔ وہ اپنا وعدہ ہمیشہ پورا کرتا ہے اور جب بھی کوئی اللہ کا بندہ یہ کہتا ہے کہ اللہ اس کا رب ہے اور پھر وہ اس پر استقامت اختیار کرلیتا ہے تو رب کریم اَن دیکھی غیبی قوتوں سے اس کی تائید و توثیق کرتا ہے اور اس کے لیے اجرونجات کو لازم کردیتا ہے۔ وہ بلاشبہہ دلوں کے حال کو جاننے والا، دلوں پر گرفت رکھنے والا اور دلوں کے اخلاص کی بنا پر اپنے بندوں کو اپنی وسیع رحمت میں لے لینے والا ہے۔

اسلام نے فرد کو فکرونظر کی پوری آزادی عطا کی۔ اس نے انسان کو جبری غلامی،     معاشی استحصال، سیاسی جبر اور مذہبی اکراہ کی بندشوں سے پوری طرح آزاد کیا۔ آج جدید دور میں فکری آزادی کا سہرا فرانسیسی مفکر و فلسفی جان جاک روسو (۱۷۷۸ئ-۱۷۱۲ئ) کے سر باندھا جاتا ہے، جس نے کہا تھا: انسان آزاد پیدا ہوا تھا مگر آج وہ ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ درحقیقت یہ اُس فرمان کی صداے بازگشت ہے، جو امیرالمومنین حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنے گورنر مصر حضرت عمرو بن العاصؓ کو تنبیہہ کرتے ہوئے جاری کیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایاتھا: ’’تم نے   کب سے لوگوں کو غلام بنانا شروع کر دیا حالانکہ اُن کی مائوں نے انھیں آزاد جنا تھا؟‘‘

اسلام نے آزادیِ ضمیر کی خاطر انسان کے شعور احساس کو بیدار کیا اور قانون سازی کے ذریعے خارجی حالات کو بھی سازگار بنایا۔ اللہ پر ایمان، اُمت مسلمہ کی وحدت، افراد کے اندر   ذمہ داریوں کے اشتراک کا تصور، ساری انسانیت کی وحدت اوراس میں باہمی کفالت کا اصول،  یہ وہ بنیادی قدریں ہیں جن پر زور دے کر اسلام کامل آزادیِ ضمیر کا نعرہ بلند کرتا ہے۔

عقیدۂ توحید کے ذریعے قرآن انسانی ضمیر کو غیراللہ کی عبادت و اطاعت سے آزاد کرتا ہے۔ وہ اس فکر کو ذہن نشین کراتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو انسان پر اقتدار حاصل نہیں ہے۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو اسے مارتا جِلاتا ہو۔ کوئی دوسرا نفع یا نقصان پہنچانے کی قدرت نہیں رکھتا۔ اس کائنات میں بس وہی ایک ہستی ہے جو رزق عطا کرتی ہے اس کے سوا سب اس کے بندے ہیں مجبور اور بے بس۔

اسلام نے نبیوں کو بھی یہ حق نہیں دیا کہ ان کی پرستش کی جائے یا اُن کے تئیں مراسمِ عبودیت بجا لائے جائیں۔ اللہ رب العزت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنی پوزیشن   خلقِ خدا کے سامنے واضح کردیں اور اپنا درست موقف علانیہ پیش کر دیں:

اے نبیؐ! کہو کہ میں تو اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ کہو میں تم لوگوں کے لیے نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں نہ کسی بھلائی کا۔ کہو مجھے اللہ کی گرفت سے کوئی بچا نہیں سکتا اور نہ میں اس کے دامن کے سوا کوئی جاے پناہ پاسکتا ہوں۔ (الجن ۷۲:۲۰-۲۲)

قرآن ہر طرح کے تقدس اور اُلوہیت پر ضربِ کاری لگاتا ہے تاکہ انسان شرک سے پوری طرح محفوظ رہے۔ شرک کا عقیدہ انسان کے ضمیر کو کچل دیتا اور اس کے وجدان کو دبا دیتا ہے اور آخرکار اسے اللہ کے بندوں ہی میں سے کسی کا بندہ بناکر رکھ دیتا ہے۔ اسلام کا پورا زور اس بات پر ہے کہ بندے اور اللہ کے درمیان براہِ راست تعلق مستحکم ہو۔

انسانی ضمیر بندوں کی غلامی سے آزاد ہوکر اور خدا سے براہِ راست رابطہ قائم کر کے، ہرقسم کے اندیشوں، خطرات، وسوسوں سے بلند ہوجاتا ہے۔ جان و مال اور شرف و کرامت کو لاحق خطرے انسان کی خودداری اوراس کی عزتِ نفس کو مجروح کر دیتے ہیں، اِسے ذلت کو انگیز کرنے اور اپنے جائز حقوق سے دست بردار ہوجانے پر مجبور کردیتے ہیں اور رفتہ رفتہ اس کی انسانیت کو بھی چھین لیتے ہیں۔ اسلام ہرقیمت پر عزتِ نفس اور خودداری کی حفاظت کرنے کی تلقین کرتا ہے اور انسانوں کے عزوشرف کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ وہ یہ عقیدہ انسان کے ذہن نشین کرتا ہے کہ زندگی خدا کے ہاتھ میں ہے۔

تاریخ کی شھادت

اسلام کی اِن تعلیمات اور اقدار کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرہ نمودار ہوا جس کا ہر فرد آزادیِ ضمیر کا نمونہ تھا۔ کیا حکمراں، کیا رعایا، سب خوددار، عزتِ نفس سے مالا مال، اظہارِ حق     میں جری و بے باک تھے۔ انھیں کوئی لالچ یا خوف بزدل نہیں بناسکتا تھا۔ امام ابویوسف نے   کتاب الخراج میں حضرت عمر فاروقؓ کا یہ واقعہ نقل کیا ہے:

  • حضرت عمرؓ نے اپنے گورنروں کو فرمان بھیجا کہ وہ حج کے موقع پر مکّہ میں اُن سے آکر ملیں۔ جب سب جمع ہوگئے تو حضرت عمرؓ نے تقریر کی: ’’لوگو! میں ان عُمَّال کو اس لیے مقرر کرتا ہوں کہ راست رَوی کے ساتھ تمھاری سرپرستی اور حفاظت کریں۔ میں نے انھیں اس لیے ہرگز مقرر نہیں کیا ہے کہ تمھاری جان و مال اور عزت و آبرو پر دست درازی کریں۔ لہٰذا اگر تم میں سے کسی کو کسی عامل کے خلاف ظلم و زیادتی کی شکایت ہو تو کھڑا ہو جائے‘‘۔

لوگوں کے درمیان سے ایک شخص آگے نکل کر آیا اور اس نے کہا: امیرالمومنین! آپ کے گورنر نے مجھے ناحق ۱۰۰ کوڑے مارے ہیں۔

حضرت عمرؓ نے فرمایا: کیا تم اسے ۱۰۰ کوڑے مارنا چاہتے ہو؟ آئو اور اس سے انتقام لو۔

اس پر حضرت عمرو بن العاصؓ کھڑے ہوگئے۔ انھوں نے احتجاج کیا: امیرالمومنین! اگر آپ نے اپنے گورنروں کے ساتھ یہ عمل شروع کر دیا تو انھیں سخت گراں گزرے گا۔ یہ ایک مستقل طریقہ بن جائے گا جس پر آپ کے بعد بھی لوگ عمل کریں گے۔

حضرت عمرؓ نے فرمایا: پھر کیا میں اِس آدمی کو بدلہ نہ دلوائوں، جب کہ میں نے اللہ کے رسولؐ کو خود اپنی ذات سے بدلہ دلواتے دیکھا ہے۔ پھر اُس آدمی کو خطاب کر کے حکم دیا: آئو اور اس گورنر سے بدلہ لو۔ عمرو بن العاصؓ نے درخواست کی کہ ہمیں اجازت دیجیے کہ اس آدمی کو راضی کرلیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا: تمھیں اجازت ہے۔ ان لوگوں نے مظلوم کو ۲۰۰ دینار کے بدلے میں راضی کرلیا۔

  • حضرت عمرؓ ہی کا دوسرا واقعہ ہے۔ آپ مسجد میں خطاب فرما رہے تھے۔ دورانِ تقریر آپ نے فرمایا کہ لوگو، اگر میرے اندر کوئی کجی دیکھو تو مجھے سیدھا کردینا۔ نمازیوں کے درمیان سے ایک شخص کھڑا ہوا، اس نے کہا: عمر! اگر ہم نے تیرے اندر کوئی کجی دیکھی تو اپنی تلوار کی دھار سے تجھے سیدھا کردیںگے۔ حضرت عمرؓ نے صرف اتنا فرمایا: اللہ کا شکر ہے جس نے عمر کی رعایا میں ایسے افراد بھی پیدا کیے ہیں جو اُسے اپنی تلوار کی دھار سے سیدھا کرسکتے ہیں۔
  • عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور (م ۱۵۸ھ/۱۷۷۵ئ) کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مشہور محدث سفیان ثوریؒ اس کے دربار میں جاکر اسے نصیحت کرتے ہیں: امیرالمومنین! آپ نے اللہ اور اُمت محمدیہ کا مال اُن کی مرضی و اجازت کے بغیر خرچ کیا ہے۔ آپ اس کی کیا توجیہہ کرسکتے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے ایک بار حج کیا جس میں اُن پر اور ان کے ساتھیوں پر ۱۶ دینار خرچ ہوئے۔ انھوں نے محاسبہ کیا اور فرمایا: میرا خیال ہے کہ ہم نے بیت المال پر زیادہ بار ڈال دیا ہے۔ امیرالمومنین! آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ منصور ابن عمار نے ہم کو کیا حدیث سنائی ہے کیونکہ آپ اس مجلس میں موجود تھے اور سب سے پہلے آپ ہی نے اسے قلم بند کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اور اس کے رسول کے مال میں اپنی خواہش کے مطابق تصرفات کرنے والے کچھ لوگ ہیں جن کے لیے کل کو نارِ جہنم مقدر ہے‘‘۔

یہ سن کر ابوعبید نامی ایک کاتب جو خلیفہ کا مقرب خاص تھا، بول اُٹھا: امیرالمومنین سے اس انداز میں گفتگو؟ سفیان ثوری نے ڈانٹ کر کہا: ’’خاموش، فرعون نے ہامان کو ہلاک کیا اور ہامان نے فرعون کو‘‘۔ اور پھر سفیان ثوری غصے میں اُٹھ کر باہر چلے آئے۔

جابر بادشاہ کتنا ہی خودمختار ہو، کسی ایسے شخص پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا جو دنیا اور متاعِ دنیا کو اپنی ٹھوکروں میں رکھتا ہو اور ضروریات سے بلند ہوکر اللہ کے لیے فارغ ہو۔

مذھبی جبر کی مخالفت

بلاشبہہ اسلام اللہ کا بھیجا ہوا آخری دین ہے جو انسانوں کے تمام مسائل کا حل پیش کرتاہے۔ یہ وہی دین ہے جسے تاریخِ انسانی کے ہر دور میں مختلف انبیا مختلف قوموں اور تہذیبوں میں انسانوں کی اصلاح و ہدایت کے لیے پیش کرتے رہے۔ ان شریعتوں کو ماننے والوں کے درمیان قوانین میں اختلاف ہوا کہ ہردور کے حالات اور تقاضے مختلف تھے، مگر دین اپنی روح کے اعتبار سے اور اپنی مجموعی حیثیت میں ایک ہی رہا۔ اُسی دین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے حضرت آدم ؑ تشریف لائے۔ حضرت نوحؑ مبعوث ہوئے۔ حضرت ابراہیم ؑ، حضرت موسٰی ؑ، حضرت عیسٰی ؑغرض یہ کہ سارے نبی ایک ایک کرکے اپنی قوم میں آتے رہے اور وحدانیت کا پیغام دیتے رہے۔

سورئہ مائدہ میں قرآن کی دو صفات بیان ہوئی ہیں: یہ کتاب تصدیق کرنے والی ہے اُن تعلیمات کی جو اس سے پہلے الکتاب میں سے موجود ہیں، اور اس کی محافظ اور نگہبان ہے۔ (۵:۴۸)

قرآن پچھلی آسمانی کتابوں کی تصدیق بھی کرتا ہے اور جو تحریفات اور تبدیلیاں اُن کے پیروکاروں نے ان کے اندر کر دی تھیں اُن کی نشان دہی کرتا اور اُن سے نوعِ انسانی کو بچاتا ہے۔ مگر قرآن کا امتیاز یہ ہے کہ وہ کسی شخص پر اپنے عقیدے کو مسلط نہیں کرتا۔ وہ افہام و تفہیم اور تعلیم و تلقین کا قائل ہے اور جبر و اِکراہ، تشدد اور دھونس دھاندلی کو بالکل مسترد کردیتا ہے۔ اپنی صداقت اور حقانیت پر پوری طرح مطمئن ہونے کے باوجود وہ اعلان کرتا ہے کہ: ’’دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۵۶)

اسلام نے دنیا میں پہلی بار ہرشخص کو یہ آزادی عطا کی کہ کفروایمان میں سے جو راہ وہ چاہے اختیار کرے۔ مکہ کے ۱۳ سالہ دور میں مسلمانوں نے ہر ظلم و جبر کو برداشت کیا، اِسی مذہبی آزادی کے حق کو حاصل کرنے کے لیے اور بالآخر یہ حق حاصل ہوکر رہا۔ مسلمانوں نے یہ حق جس طرح اپنے لیے حاصل کیا، اسی طرح دوسروں کے لیے بھی اس کا پورا پورا اعتراف کیا۔

وسق رومی کا واقعہ

یہاں خلیفۂ ثانی حضرت عمرؓ کے دور کا ایک واقعہ نقل کرنا مفید ہوگا۔ یہ واقعہ اُس شخص کا ہے جو دنیا کی ایک بہت بڑی مملکت کا سربراہ تھا۔ جس کے جلال و جبروت کا یہ عالم تھا کہ روم و فارس کی دوعظیم طاقتیں اس کے ذکر سے لرزتی تھیں۔ ملوک و سلاطین اس کے سامنے ہانپتے کانپتے حاضر ہوتے تھے، مگر وہ مقتدر اور باجبروت شخص اپنے غلام کا مذہب اپنی مرضی کے مطابق تبدیل نہ کرسکا۔ علامہ ابوبکر جصاص احکام القرآن میں اس واقعے کو بیان کرتے ہیں: ہلال الکائی روایت کرتے ہیں وسق الرومی سے، وہ بیان کرتے ہیں کہ: میں عمرؓ کا غلام تھا۔ انھوں نے مجھ سے فہمایش کی کہ اسلام قبول کرلے۔ اگر تو مسلمان ہوجائے تو مسلمانوں کی امانت کے سلسلے میں تو میرا مددگار ہوجائے گا، کیونکہ جو شخص مسلمان نہ ہو اُس سے یہ کام لینا مناسب نہیں ہے۔ مگر میں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ آپ نے فرمایا: لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (دین میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے)۔ جب آپ کا وقتِ مرگ قریب آیا تو آپ نے مجھے آزاد کر دیا اور فرمایا: ’’تیرا جہاں جی چاہے چلا جا‘‘۔

اسلام کے نظریۂ رواداری کی بہترین ترجمانی قرآن پاک کی یہ آیت کرتی ہے:

لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْتَّبَیَّنَ الرُّشْدُمِنَ الْغَیِّ (البقرہ ۲:۲۵۶) دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔

یہاں دین سے مراد وہ عقیدہ ہے جس کی بنیاد خالصتاً توحید پر رکھی گئی ہے اور وہ نظامِ زندگی ہے جو اس عقیدے پر بنتا ہے۔ اللہ کا واضح فرمان ہے کہ اسلام کا یہ عقیدہ اور اس کا اعتقادی، اخلاقی اور عملی نظام کسی پر زبردستی نہیں ٹھونسا جاسکتا۔ یہ ایسی چیز ہی نہیں ہے جو کسی کے سر جبراً منڈھی جاسکے۔

قرآن کی وسیع المشربی

عقیدہ و مذہب کی آزادی، دوسرے مذاب، تہذیبوں اور روایات کے تئیں وسیع المشربی و رواداری اسلام کی ایک اہم ترین قدر ہے جس پر قرآن کریم نے مختلف انداز میں اور متنوع پیرایے میں زور دیا ہے۔ قرآن اعلان کرتا ہے:

ہم نے تم انسانوں میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہِ عمل مقرر کی ہے۔ اگر تمھارا خدا چاہتا تو تم سب کو ایک اُمت بھی بنا سکتا تھا، لیکن اُس نے یہ اس لیے کیا کہ جو کچھ اُس نے تم لوگوں کو دیا ہے اس میں تمھاری آزمایش کرے۔(المائدہ ۵:۴۸)

ہر اُمت کے لیے ہم نے ایک طریق عبادت مقرر کیا ہے جس کی وہ پیروی کرتی ہے، پس اے نبیؐ، وہ اِس معاملے میں تم سے جھگڑا نہ کریں تم اپنے رب کی طرف دعوت دو۔(الحج ۲۲:۶۷)

قرآن کریم نے یہ صراحت بھی کر دی کہ اگر اللہ کی خواہش یہ ہوتی کہ اس کی زمین میں کفرونافرمانی کا سرے سے وجود ہی نہ ہو تو اس کے لیے کچھ مشکل نہ تھا کہ تکوینی جبر سے کام لے کر سب کو صاحب ِ ایمان بنا دے۔ مگر وہ ایمان لانے یا نہ لانے کے معاملے میں سارے انسانوں کو آزاد رکھنا چاہتا ہے اور اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے اللہ نے وضاحت فرما دی کہ نبی کی ذمہ داری کسی کو زبردستی مسلمان بنانے کی نہیں ہے اور نہ اللہ کو جبری ایمان مطلوب ہے۔ فرمایا:

اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہوجائیں؟(یونس ۱۰:۹۹)

اسلام نے صرف نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے ہی کو واجب قرار نہیں دیا، بلکہ ایک مسلمان کے لیے لازم قرار دیا کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے تمام نبیوں اور پیغمبروں پر ایمان لائے اور ان کی صداقت و حقانیت کو تسلیم کرے اور اُن کے درمیان اس لحاظ سے کوئی تفریق نہ کرے کہ فلاں نبی حق پر تھا اور فلاں حق پر نہ تھا، یا یہ کہ وہ فلاں کو مانتا ہے اور فلاں کو نہیں مانتا۔ خدا کی طرف سے جتنے پیغمبر بھی آئے، سب کے سب ایک ہی صداقت اور ایک ہی راہِ راست کی طرف بلانے آئے۔ اب جو شخص حق پرست ہے اُس کے لیے تمام پیغمبروں کو برحق تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔ جو لوگ کسی پیغمبر کو مانتے اور کسی کا انکار کرتے ہیں وہ حقیقت میں کسی پیغمبر کو نہیں مانتے۔ انھوں نے اُس عالم گیر صراطِ مستقیم کو نہیں پایا جسے حضرت موسٰی ؑیا حضرت عیسٰی ؑ یا کسی دوسرے پیغمبرؐ نے پیش کیا تھا، بلکہ وہ محض باپ دادا کی تقلید میں ایک پیغمبر کو مان رہے ہیں۔ اُن کا اصل مذہب نسل پرستی کا تعصب اور آبا و اجداد کی اندھی تقلید ہے، نہ کہ کسی پیغمبر کی پیروی۔ قرآن کہتا ہے:

مسلمانو! کہو کہ ’’ہم ایمان لائے اللہ پر اور اُس ہدایت پر جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور جو ابراہیم ؑ، اسماعیل ؑ، اسحق ؑ، یعقوب ؑ اور اولادِ یعقوب ؑ کی طرف نازل ہوئی تھی اور جو موسٰی ؑاور عیسٰی ؑ اور دوسرے تمام پیغمبروں کو اُن کے رب کی طرف سے دی گئی تھی۔ ہم اُن کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے مسلم ہیں‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۳۶)

قرآن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے مسلمانوں کے ذہن میں اس تعلیم کو راسخ کرنا چاہتا ہے کہ وہ اس دنیا میں داعی اور مبلّغ بنا کر بھیجے گئے ہیں اور کوتوال اور داروغہ بناکر نہیں بھیجے گئے۔ اُن کا کام لوگوں کو روشنی دکھانا ہے زبردستی ہاتھ پکڑ کر خواہی نخواہی کسی کو راہِ راست پر لانا اُن کا مشن نہیں ہے:

اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو (وہ خود ایسا بندوبست کرسکتا تھا کہ) یہ لوگ شرک نہ کرتے۔ تم کو ہم نے ان پر پاسبان نہیں مقرر کیا ہے اور نہ تم ان پر حوالہ دار ہو۔ اور (اے مسلمانو!) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انھیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کوگالیاں دینے لگیں۔ ہم نے تو اسی طرح ہر گروہ کے لیے اس کے عمل کو خوش نما بنا دیا ہے۔ پھر انھیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹ کر آنا ہے، اُس وقت وہ انھیں بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں۔(الانعام ۶:۱۰۷-۱۰۸)

رواداری کی نبویؐ مثال

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ، خلفاے راشدین کا عہدمسعود اور تاریخِ اسلام ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں، حتیٰ کہ دشمنوں سے بھی رواداری کا سلوک کیا گیا اور یہی اسلامی رواداری، تبلیغ و دعوتِ دین کا اہم عنصر بن گئی۔

مسلم کی حدیث ہے اور امام بخاری نے بھی انھی الفاظ اور اسی مفہوم کے ساتھ ذرا مختصراً اسے بیان کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر نجد کی طرف بھیجا۔ اہلِ لشکر بنوحنیفہ کے ایک شخص کو جس کا نام ثمامہ بن اثال تھا اور جو اہلِ یمامہ کا سردار تھا، پکڑ کر لائے۔ لشکروالوں نے اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُدھر سے گزر ہوا تو اس سے پوچھا: تیرے پاس کیا ہے؟ ثمامہ نے جواب دیا: اے محمدؐ، میرے پاس بھلائی ہے۔ اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جو قتل کیے جانے کا مستحق ہے، اور اگر انعام کریں گے تو ایک ایسے شخص پر انعام کریں گے جو شکرگزاری جانتا ہے، اور اگر آپ مال کے طلب گار ہیں تو حکم دیجیے جو کچھ مانگیں آپ کو ملے گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسی حالت میں چھوڑ دیا اور آگے بڑھ گئے۔

دوسرا دن آیا تو آپؐ نے پھر وہی سوال کیا: اے ثمامہ! تیرے پاس کیا ہے؟

ثمامہ نے کہا: وہی جو میں کہہ چکا ہوں۔ اگر آپ انعام کریں گے تو ایک شکرگزار شخص پر انعام کریں گے، اور اگر قتل کا حکم دیںگے تو میں مستحقِ قتل ہوں، اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جو حکم ہوگا ادا کیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کوئی کارروائی نہ کی اور آگے بڑھ گئے۔ تیسرا دن آیا تو پھر یہی مکالمہ دہرایا گیا۔ آخرکار رسولؐ اللہ نے اہلِ لشکر سے کہا: ثمامہ کو چھوڑ دو۔

رہائی کے بعد ثمامہ مسجد کے قریب ایک کھجور کے درخت کے پاس گیا۔ وہاں اس نے غسل کیا۔ پھر مسجد میں داخل ہوا اور اعلان کیا: اَشْھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں‘‘۔

پھر ثمامہ نے رسولؐ اللہ کو مخاطب کر کے کہا: اے محمدؐ! خدا کی قسم! اس زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرے سے زیادہ قابلِ نفرت نہ تھا اور اب آپ کا چہرہ دنیا کے تمام چہروں سے زیادہ مجھے محبوب ہے۔ خدا کی قسم! آپ کے دین سے زیادہ کوئی دین بھی میرے لیے قابلِ نفرت نہ تھا اور اب آپ کا دین دنیا کے تمام ادیان سے زیادہ میرے لیے محبوب ہے۔ خدا کی قسم! آپ کے شہر سے زیادہ کوئی شہر بھی میرے لیے نفرت انگیز نہیں تھا، اور اب آپ کا شہر دنیا کے تمام شہروں سے زیادہ مجھے محبوب ہے۔ آپ کے لشکر نے مجھے اس حالت میں آلیا کہ میں عمرہ کا ارادہ کر رہا تھا۔ اب آپؐ  کا کیا حکم ہے؟

رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے اسے خوش خبری دی اور اجازت دی کہ وہ عمرہ کرلے۔ جب وہ مکہ واپس آیا تو اس کے مشرک ساتھیوں نے کہا: کیا تو صابی (بے دین) ہوگیا ہے؟ اس نے جواب دیا: نہیں، بلکہ میں رسولؐ اللہ پر ایمان لے آیا اور مسلمان ہوگیا ہوں۔

امن و سلامتی کا قیام

اسلام کے تصورِ امن پر گفتگو کے لیے ناگزیر ہے کہ قرآن کریم کی اُن آیات پر پہلے بحث کی جائے جو جنگ و جدال کو موضوع بناتی ہیں اور جنھیں مغربی مصنفین نے آیاتِ سیف (sword verses) کا نام دیا ہے۔ اِن آیات میں سے بہترین انتخاب سورئہ انفال کی ۵۵ تا ۶۱ آیتیں ہیں کیونکہ یہ موضوع کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہیں:

یقینا اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جنھوں نے حق کو ماننے سے انکار کر دیا، پھر کسی طرح وہ اسے قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ان میں سے وہ لوگ جن کے ساتھ تو نے معاہدہ کیا پھر وہ ہر موقع پر اس کو توڑتے ہیں اور ذرا خدا کا خوف نہیں کرتے۔ پس یہ لوگ اگر تمھیں لڑائی میں مل جائیں تو ان کی ایسی خبر لو کہ ان کے بعد دوسرے جو لوگ ایسی روش اختیار کرنے والے ہوں اُن کے حواس باختہ ہوجائیں۔ توقع ہے کہ بدعہدوں کے اس انجام سے وہ سبق لیں گے۔ اور اگر کبھی تمھیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو، یقینا اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا۔ منکرین حق اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے۔ یقینا وہ ہم کو ہرا نہیں سکتے اور تم لوگ، جہاں تک تمھارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور اُن دوسرے دشمنوں کو خوف زدہ کردو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمھاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمھارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا۔ اور اے نبیؐ! اگر دشمن صلح وسلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہوجائو اور اللہ پر بھروسا کرو۔ یقینا وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ (انفال ۸:۵۵-۶۱)

علما نے صراحت کی ہے کہ قرآن میں جہاں قتال و جہاد کا حکم دیا گیا ہے اور مخالفوں کو سختی سے کچلنے کی تاکید کی گئی ہے: اس سے مراد وہ کفار و مشرکین ہیں جنھوں نے آغازِ اسلام سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ  پر ایمان لانے والے صحابہ کرامؓ کی بھرپور مخالفت کی۔ انھیں مکہ میں تمام بنیادی حقوق سے محروم رکھا اور اپنی ریشہ دوانیوں سے اسلام کو کچلنے کی سازش کی۔ اپنے مسلسل ظالمانہ اقدامات سے مسلمانوں کو مجبور کر دیا کہ وہ ۶۱۵ئ-۶۱۶ء میں حبشہ کی طرف ہجرت کریں اور ۶۲۲ء میں اپنا وطن ترک کر کے مستقل طور سے مدینہ منورہ کو اپنا مستقر بنائیں۔ انھوں نے مسلمانوں کو ایک اندازے کے مطابق ۹۰ جنگی مہموں میں پھنسایا جن میں سے ۲۷ جنگوں کی قیادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خود کرنا پڑی۔ اگرچہ ان جنگی مہموں میں دشمنوں کے کُل ۲۱۶ افراد مارے گئے اور ۱۳۸مسلمان شہید ہوئے۔ اعلانِ جنگ کی یہ مسلسل کیفیت کفار و مشرکین کی جانب سے تھوپی ہوئی تھی اور مسلمانوں کو اپنے دفاع پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود مکّہ کے ۱۳ سالہ دور میں انھیں سخت تاکید تھی کہ ظلم کے جواب میں ہتھیار نہ اُٹھائیں:

اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ قِیْلَ لَھُمْ کُفُّوْٓا اَیْدِیَکُمْ وَاَقِیْمُواالصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ (النساء ۴:۷۷) تم نے اُن لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔

اور دعوت و تبلیغ، وعظ و نصیحت اور تفہیم و تلقین کے راستوں سے اس قرآن کے ذریعے جہاد کریں:

فَلاَ تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَجَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًاo (الفرقان ۲۵:۵۲)     اے نبیؐ! کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ زبردست جہاد کرو۔

ہجرتِ مدینہ کے بعد جب اسلامی ریاست قائم ہوگئی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو میثاقِ مدینہ کے مطابق اُس ریاست کا بلانزاع حاکمِ مطلق اور مقتدرِ اعلیٰ تسلیم کر لیا گیا تب ذی الحجہ یکم ہجری میں انھیں ظلم کے جواب میں مدافعانہ جہاد کی اجازت مل سکی:

اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا  وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْر (الحج ۲۲:۳۹) اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں، اور اللہ یقینا اُن کی مدد پر قادر ہے۔

سورئہ انفال کی آیات ۵۵-۶۱ میں جن منکرین حق کے خلاف اعلانِ جنگ کیا گیا ہے اور انھیں سبق سکھانے کا حکم دیا گیا ہے اُن سے مراد مفسرین کرام کی تصریحات کے مطابق یہودِ مدینہ ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تشریف آوری کے بعد سب سے پہلے اُنھی کے ساتھ باہمی تعاون کا معاہدہ کیا تھا اور یہ کوشش کی تھی کہ ان سے تعلقات خوش گوار رہیں۔ دینی و مذہبی حیثیت سے ویسے بھی یہودی اور عیسائی مشرکین کے مقابلے میں قابلِ ترجیح قرار دیے گئے تھے مگر مدینہ کے یہودیوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک اور مشن کو کبھی کھلے دل سے قبول نہ کیا اور انھوں نے اسلام کے بڑھتے ہوئے اثرات و نتائج کو روکنے کے لیے ہمیشہ خفیہ وعلانیہ سازشیں کیں۔ منافقوں کے ساتھ مل کر اہلِ ایمان کے خلاف سازباز کی۔ اوس و خزرج کے انصاری قبیلوں کے درمیان پرانی عداوتوں کو ہوا دی۔ جنگ ِ بدر کے بعد جب مسلمانوں کی پوزیشن مزید مضبوط ہوگئی تو اُن کے سینوں میں حسد کی جو آگ پہلے سے موجود تھی وہ بھڑک اُٹھی۔ یہودیوں کا لیڈر کعب بن اشرف خود مکّہ گیا اور اس نے اشتعال انگیز مرثیے کہہ کر قریش کے جذبۂ انتقام کو ہوا دی اور آخر میں   قبیلۂ بنوقینقاع نے مسلمان خواتین سے اپنی بستیوں اور بازاروں میں چھیڑچھاڑ کرنا شروع کر دیا اور جب انھیں لعنت ملامت کی گئی تو انھوں نے جنگ کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ ایسے بدعہد اور سازشی دشمنوں کے خلاف اسلامی حکومت کو کارروائی کرنے اور میدانِ جنگ میں انھیں سزا دینے کا فیصلہ ہوا۔

غیرمسلموں کے ساتھ حُسنِ سلوک

مجرد کفر اور شرک کسی کے خلاف اعلانِ جنگ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ کسی شخص کے خلاف پُرتشدد کارروائی اور طاقت کا استعمال اِس بنا پر نہیں کیا جاسکتا کہ وہ مسلمان نہیں ہے اور کفروشرک پر اُس کا اعتقاد ہے۔ پوری اسلامی تاریخ میں اس پر علماے کرام، محدثین اور فقہا کا اتفاق رہا ہے۔ اسی طرح کسی شخص کو بزور یا طاقت کے استعمال سے دین اسلام میں داخل نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ قرآن تو یہاں تک کہتا ہے کہ جو غیرمسلم اہلِ ایمان کے ساتھ عداوت نہیں رکھتا اور اُن پر ظلم کرنے والوں میں وہ شامل نہیں ہے اُس کے ساتھ اچھا برتائو کیا جائے، اور عام انسانی حقوق کی ادایگی کے معاملے میں مسلمان اور غیرمسلم میں فرق نہ کیا جائے۔ ایسے لوگ مسلمانوں کے حسنِ سلوک کے مستحق ہیں:

اللہ تمھیں اِس بات سے نہیں روکتا کہ تم اُن لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔(الممتحنہ ۶۰:۸)

محبّتوں کی بستی

اسلام افراد کے ضمیر میں، خاندانی نظام میں، ملکی قانون میں، بین الاقوامی تعلقات و روابط میں، ہر جگہ زندگی کے ہر شعبے میں امن و سلامتی اور محبت و اخوت کے پھول کھلانا چاہتا ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے باہمی معاملات کی استواری اور ان کے درمیان اُلفت اور بھائی چارے کے فروغ کی مثال دیتے ہوئے فرمایا: ’’تم دیکھو گے کہ مسلمانوں کے درمیان محبت، ایک دوسرے پر رحم اور شفقت کی مثال ایک جسم کی مانند ہے۔ جب اس کے کسی حصے کو تکلیف ہو تو سارا جسم بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے‘‘۔ (بخاری، کتاب الادب، حدیث ۲۷)

رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’اے مسلمانو! ایک دوسرے سے بُغض نہ رکھو، آپس میں حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو۔ اے اللہ کے بندو، بھائی بھائی بن کررہو‘‘۔ (بخاری)

اللہ اپنی صفت رحمن، رحیم، سلام، مومن اور مہیمن بتاتا ہے اور بار بار قرآن کریم میں تکرار کے ساتھ ان اسماے حسنیٰ کا تذکرہ کرتا ہے تاکہ اس کے بندوں میں اس کا عکس دکھائی دے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ اپنے اس احسانِ خصوصی کا ذکر کرتا ہے کہ وہ رحیم، نرم خو، شفیق اور مہربان ہیں:

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ( اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹) اے پیغمبرؐ! یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تُندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔

لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ o (التوبہ ۹:۱۲۸) دیکھو، تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمھارا نقصان میں پڑنا اُس پر شاق ہے، تمھاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔

یہ رحمت و مہربانی اور شفقت صرف اہلِ اسلام کے لیے مطلوب نہیں ہے،اس کے مخاطب سارے انسان ہیں خواہ وہ کسی مذہب کے ماننے والے ہوں اور کسی بھی ملک کے باشندے ہوں۔ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا: ’’زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا‘‘۔ (ترمذی)

دیگر مذاھب کا احترام

کسی انسان کے اندر رحمت و شفقت اور مہربانی کے جذبات کو اُبھارنے کی اِس سے آخری حد کیا ہوسکتی ہے؟ یہ کارنامہ اُسی عقیدہ کا ہوسکتا ہے جو خالق کی وحدانیت اور مخلوق کی وحدت پر ایمان رکھتا ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے اعلان فرمایا ہے: ’’ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کا خاندان ہے۔ تمام لوگوں میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو اُس کے خاندان کے ساتھ حُسنِ سلوک کرے‘‘۔ (رواہ ابویعلٰی، والبزاز باسناد ضعیف)

حضرت جابر عبداللہؓ کہتے ہیں کہ ہمارے قریب سے ایک جنازہ گزرا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور ہم بھی کھڑے ہوگئے۔ پھر ہم نے گزارش کی: یارسولؐ اللہ! یہ تو ایک یہودی کا جنازہ تھا۔ حضوؐر نے ارشاد فرمایا: کیا یہ ایک انسانی جان نہ تھی؟ جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجائو۔ (بخاری)

حقوقِ نسواں کا تحفظ

قرآن کریم نے چھٹی صدی عیسوی میں مرد اور عورت کے درمیان فرق و امتیاز کو ختم کر کے انھیں یکساں عزت و احترام اور وقار و تمکنت سے ہم کنار کرنے کا جو قدم اٹھایا وہ اتنا انقلاب آفریں تھا کہ اس کے نتیجے میں فکرونظر کی دنیا ہی بدل گئی۔ عورت کی حیثیت اور مقام و مرتبہ کے تعین میں اسلام نے تمام مذاہب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اسلام کے سایے میں عورت کے بارے میں مردوں کا پورا نقطۂ نظر اور عملی رویہ بدل گیا، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد خواتین نے ایک نئی تاریخ رقم کی جس کی مثال پہلے بھی موجود نہ تھی اور آج کے نام نہاد ترقی یافتہ دور میں بھی ناپید ہے۔ قرآن نے پورے زورو شور سے اعلان کیا:

لوگو، اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور اُن دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔(النساء ۴:۱)

قرآن نے صراحت کر دی کہ مرد اور عورت دونوں ایک جان سے پیدا کیے گئے ہیں اس لیے اُن میں سے کوئی برتر یا کم تر نہیں ہے۔ نہ مرد افضل ہے اور نہ عورت حقیر اور ذلیل ہے۔ دونوں کی اہمیت اور مقام و مرتبہ ایک ہے۔ قرآن دوسرے مذاہب کے اِس خیال کی تائید نہیں کرتا کہ مرد کی  بہ نسبت عورت کو ایک حقیر مادے سے پیدا کیا گیا ہے اور عورت کو کم تر مقام اور طفیلی کا درجہ دیا گیا ہے۔

عورت کے خلاف ایک اور زہر بھرا تصور ماضی میں موجود رہا ہے اور اس کی نشانیاں آج بھی کلاسیکی ادب میں موجود ہیں، وہ یہ کہ عورت گناہ کی جڑ ہے۔ اس تصور کے مطابق مردہر گناہ سے محفوظ اور پاک ہے۔ یہ عورت ہے جو اس کو گناہ کے راستے پر ڈال دیتی ہے۔ ان حضرات کے مطابق شیطان براہِ راست مرد کو گمراہ نہیں کرسکتا۔ وہ عورت کو واسطہ بناکر مرد کو ورغلاتا ہے۔ شیطان پہلے عورت کو پھسلاتا ہے اور پھر عورت مرد کو دعوتِ گناہ دیتی ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ آدم کو شیطان نے ورغلایا تھا اور نتیجے کے طور پر انھیں جنت سے نکلنا پڑا تھا۔ اس میں بھی حوا ہی واسطہ بنی تھیں۔

قرآن نے ان تمام نظریات کی تردید کی اور اعلان کیا کہ سارے انسان ایک جان سے پیدا ہوئے ہیں۔ ان سب کی اصل ایک ہے۔ پیدایشی طور پر نہ کوئی شریف ہے نہ رذیل، نہ اُونچی ذات کا ہے نہ نیچی ذات کا، نہ برتر ہے نہ کم تر۔ سارے انسان برابر ہیں۔ خاندان، قبیلہ، رنگ و نسل، ملک و قوم، زبان، پیشہ اور صنف کی بنیاد پر اُن کے درمیان کوئی تفریق کرنا غلط ہے۔

قرآن جب حضرت آدم ؑ کے قصے کا تذکرہ کرتا ہے تو یہ تسلیم نہیں کرتا کہ شیطان نے یا سانپ نے حواؑ کو گمراہ کیا اور حواؑ آدم ؑ کی گمراہی کا سبب بنیں۔ وہ ایک الگ ہی منظر کا نقشہ پیش کرتا ہے جس میں آدم ؑ و حواؑ دونوں برابر کی ذمہ دار شخصیت ہیں۔ شیطان نے دونوں کو دھوکا دیا اور دونوں اس سے دھوکا کھا گئے اور انھوں نے ممنوعہ درخت کا پھل چکھ لیا۔ اللہ کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے دونوں سے خدا کی حفاظت اُٹھا لی گئی، اُن کا پردہ کھول دیا گیا اور اُنھیں خود اپنے نفس کے حوالے کردیا گیا کہ اپنی پردہ پوشی کا انتظام خود کریں۔ جب اُن دونوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انھوں نے فوراً کسی تاخیر کے بغیر توبہ و ندامت کی راہ اپنا لی۔ اللہ کے حضور دونوں معافی کے خواست گار ہوئے۔ اللہ نے دونوں کی توبہ قبول کی اور انھیں معاف کر دیا۔ پھر خلافتِ ارضی کے خدائی منصوبے میں رنگ بھرنے کے لیے دونوں کو جنت سے اُتار کر اس زمین پر بھیجا گیا اور دونوں نے مل کر اس کائنات کی بزم سجائی۔

صنفی تفریق کا خاتمہ

قرآن نے اس جاہلانہ تصور کی بھی بیخ کنی کی کہ عورت خدا کا قرب حاصل نہیں کرسکتی، اور یہ کہ عورت ہونے کا مطلب نصف شیطان ہونا ہے، اور یہ کہ وہ برائی کی جڑ ہے۔ قرآن نے پوری قوت کے ساتھ باورکرایا کہ خدا کا قرب اور جنت میں داخلہ کسی مخصوص جنس کے لیے نہیں ہے۔ اس کی بنیاد تو عملِ صالح ہے خواہ مرد نے کیا ہو یا عورت نے۔ قرآن کہتاہے:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo (النحل ۱۶:۹۷) جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیںگے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو اُن کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔

یہاں قرآن کریم نے اس غلط فہمی کو رفع کیا ہے کہ دیانت اور پرہیزگاری کی زندگی گزارنے والوں کی دنیا ضرور بگڑتی ہے، بھلے ہی اُن کی آخرت سنور جاتی ہو مگر دنیا میں وہ ناکام و نامراد  رہتے ہیں۔ حیاتِ طیبہ کی یہ قابلِ فخر زندگی اور آخرت میں ملنے والے بہتر سے بہتر اجر اور اُونچے سے اُونچا مرتبہ ہر شخص کو ملے گا جو اِس دنیا میں حسنِ ایمان اور حسنِ عمل سے آراستہ ہوگا۔ اس میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ہے۔

قرآن عورت کو بیٹی، بہن، بیوی اور ماں بناکر اس کا مرتبہ اس طرح بلند کرتا ہے کہ ان حیثیتوں میں اس کو تمام سماجی، معاشی، مذہبی اور تعلیمی حقوق حاصل ہوجاتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رویے اور عمل سے تمام شعبوں میں عورت کو تمام حقوق اس طرح عطا کیے جس طرح مرد کو عطا کیے گئے تھے تاکہ وہ بھی مرد کی طرح اپنے فرائض کی ادایگی میں ہمہ وقت کوشاں رہے۔

فرائض کی فطری تقسیم

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مرد اور عورت کے فرائص یکساں ہیں۔ زندگی کے دو بازو اور شریکِ کار ہونے کے سبب دونوں کے بطور انسان یکساں حقوق و اختیارات ہیں، لیکن عملی میدان میں دونوں کے کام کی نوعیت اور ہیئت میں واضح فرق ہے، اور اس فرق کا سبب دونوں جنسوں کے جسمانی، نفسیاتی، طبی اور فطری عوامل میں پوشیدہ ہے۔ یہاں یہ نکتہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ ان دونوں کے اختلافِ کار کا مقصد کسی ایک جنس کا برتر اور دوسری جنس کا کم تر ہونا نہیں ہے۔ یہ تو دونوں کی الگ الگ قدرتی صلاحیتوں، رجحانات،میلانات، جذبات و محرکات، استعداد اور فضیلتوں کی بدولت تقسیم کار ہے۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں قرآن نے خاندان کی معاشی کفالت کی ذمہ داری کا بوجھ مرد کے مضبوط کندھوں پر رکھا ہے اور اسے نگراں اور قوّام بنایا ہے:

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّ بِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ ط (النساء ۴:۳۴) مرد عورتوں پر قوّام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال  خرچ کرتے ہیں۔

ورنہ قرآن مردوں اور عورتوں کو یکساں سمجھتا ہے۔ وہ دونوں کو بنی نوع انسان تسلیم کرتا ہے اور دونوں کو یکساں حقوق و مراعات عطا کرتا ہے۔ بطور مثال چند آیات یہاں نقل کی جارہی ہیں، جن میں مردوں اور عورتوں کی ذمہ داری واضح کی گئی ہے:

مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور بُرائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں، اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی۔ یقینا اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔ (التوبہ ۹:۷۱)

بالیقیں جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیع فرمان ہیں، راست باز ہیں، صابر ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ دینے والے ہیں، روزے رکھنے والے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور اللہ کو کثرت سے  یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے۔(احزاب۳۳:۳۵)

سماجی زندگی میں شرکت

اسلام نے عورتوں کی سرگرمیوں کو گھر میں امن و سکون کی افزایش اور بچوں کی دینی تعلیم و تربیت نیز علمی و فکری خدمات تک محدود نہیں رکھا بلکہ انھیں ایک وسیع میدان فراہم کیا تاکہ وہ عملی جدوجہد میں برابر کی شرکت کرسکیں۔ خواتین جس طرح شعروادب اور علم و فن کے ذریعے ترقی کرسکتی ہیں اسی طرح وہ زراعت، تجارت اور دوسرے میدانوں میں بھی معاشرے کی ضرورت اور وقت کی پکار کے مطابق اپنا حصہ ادا کرسکتی ہیں۔

اسلام میں انسانی حقوق کے اس تصور سے یہ حقیقت اُجاگر ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ آج کے جدید دور میں بھی انسانی حقوق کا اگر کوئی ضامن ہے تو وہ اسلام ہی ہے، نہ کہ جدید مغرب کہ جہاں حجاب پر پابندی عائد کی جارہی ہے، اور مساجد کو دہشت گردی کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جو ہرشخص کو آزادی عطا کرتا ہے کہ وہ کفرواسلام میں سے جس راہ کو چاہے منتخب کرسکتا ہے اور اس کے لیے اس پر کوئی جبر نہیں۔ کیا مغرب اپنے تمام تر جدید افکار کے ساتھ اس رواداری کا مظاہرہ کرسکتا ہے؟

ترجمہ: محمد ایوب منیر

برِّاعظم یورپ اور شرقِ اوسط کے باہمی تعلقات کی وسیع تاریخ ہے۔ عقیدۂ مسیحیت جس نے یورپی ذہن اور جغرافیے کی تشکیل میں بلاشبہہ غیرمعمولی کردار ادا کیا ہے، بنیادی طور پر اس کا تعلق شرقِ اوسط سے ہے۔ مسیحیت کے بارے میں گمان کیا جاتا تھا کہ یہ بھی محض ایک فرقے کا نام ہے جسے مشرقی بحیرئہ روم کے علاقے سے، افلاطونی فکر، مانویت (Manichaeism)، زردشتی فکر، یہودیت اور نو افلاطونی فکر کی طرح درآمد کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عیسائیت کے چند مخصوص عقائد، مثلاً تثلیث کا عقیدہ، پوپ کا منصب اور کرسمس کی تقریب، سب شرقِ اوسط کے مذاہب سے مشتق ہیں۔ مختصراً کہہ لیجیے کہ مسیحیت کا بیج یہیں بویا گیا اور اسے نشوونما بھی شرقِ اوسط کی مذہبی آب و ہوا ہی میں ملی۔

تاریخی پس منظر

یہ کہنا مشکل ہے کہ اہلِ یورپ اس حقیقت سے خوب آگاہ ہیں، تاہم کیتھولک گرجاگھروں کی نسبت، پروٹسٹنٹ گرجا گھروں میں یورپی عیسائیوں کو مسلسل یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ اُن کے مذہب کے بانی نے شرقِ اوسط کے یہودی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی اور اُن کی مقدس مذہبی کتاب، بائبل میں خطاب بنی اسرائیل ہی کو کیا گیا ہے۔ کتاب پیدایش اور کتاب الحمد کے حصے اب تک زیادہ تر مسیحی عبادت کے دوران پڑھے جاتے ہیں، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بائبل کے یہودی، کیتھولک، آرتھوڈوکس اور پروٹسٹنٹ نسخوں کے متن میں فرق پایا جاتا ہے۔ ان سب کے باوجود بھی بائبل ایک مربوط و مستحکم رابطہ ہے جو یورپ کے مسیحیوں کو ان مقامات کی یاد دلاتی رہتی ہے کہ جہاں مسیح علیہ السلام سرگرم رہے اور جہاں اُنھوں نے [مسیحی عقیدے کے مطابق] وفات پائی۔ بیت المقدس (Jerusalem) مسیح علیہ السلام کی نسبت سے آج تک یورپ کے کئی مسیحیوں کے لیے احترام کا مقام رکھتا ہے۔

قرونِ وسطیٰ میں یہ جذبہ اس قدر زورآور تھا کہ نہ صرف ہزاروں مسیحی بلکہ اُن کے بچے بھی شدید تمنا رکھتے تھے کہ فلسطین سے مسلم اقتدار ختم ہوجائے اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ اپنی جانیں دینے کے لیے بھی تیار رہتے تھے۔ مسیحی روحانی پیشوا، جنھیں پوپ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ۲۰۰ برس (۱۰۹۵-۱۲۹۱ئ) تک اس کی تلقین و یاد دہانی کراتے رہے اور اس اشتعال کے نتیجے میں نو صلیبی جنگیں ہوئیں جن کے دوران یورپی جانباز سردار، حتیٰ کہ لوئیس نہم (۵۰-۱۲۴۸ئ)،   شاہِ فرانس (۱۲۷۰ئ) اور انگلستان کے شاہ رچرڈ اوّل جو شیردل کے نام سے مشہور ہیں، شرقِ اوسط (۹۲-۱۱۸۹ئ) آئے اور اُنھوں نے صلیبی ریاستیں بھی قائم کر دیں۔ یہاں تک کہ صلاح الدین ایوبیؒ نے اُنھیں نکال باہر کیا۔ دوسرے ممالک کو اپنے تسلط میں لانے کے حالیہ دور اور اس سرزمین پر اسرائیل کے قبضے نے صلاح الدین ایوبیؒ کی فتح کو شکست میں تبدیل کر دیا۔

یورپی تہذیب و تمدن کے مشرق کے ساتھ فوجی ٹکرائو کے نتیجے میں جو اثرات اُن پر مرتب ہوئے ان کا پوری طرح اندازہ لگانا مشکل ہے۔یہاں تک کہ طرفین کو اقتصادی طور پر بھی معقول فوائد حاصل ہوئے۔ متصادم تہذیبیں ایک دوسرے پر اثرانداز ہوئیں اور اسے عالم گیریت کا اوّلین دور کہا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد مغرب کبھی بھی مسلم تہذیب و تمدن سے الگ نہ رہ سکا۔

اُنیسویں صدی، اپنے ظاہر کے لحاظ سے ’الحادی‘ صدی (یعنی لُڈوگ، فرورباخ، کارل مارکس، چارلس ڈارون اور فریڈرک نٹشے کی صدی) تھی۔ استعمار نے بطور پالیسی یہ طے کر رکھا تھا کہ   شرقِ اوسط کے ممالک پر بہرصورت قبضہ کرنا ہے۔ جمعیت اقوام کی جانب سے ملنے والی اجازت کی بدولت، استعماری طاقتوں فرانس اور برطانیہ نے اس علاقے کو اپنے درمیان تقسیم کرلیا اور اقتصادی طور پر اس کا بھرپور استحصال کیا۔ یورپ کی ’مشرق شناسی‘ نے اس علاقے کو بالادست سفید قوم کی بلندی سے اِس طرح دیکھا گویا کہ عرب ایسے بچے ہیں جنھیں قابض و مسلط حکمرانوں کے طور طریقے سکھانا ضروری ہیں۔

اس عمل کے دوران، یورپ کے سیاست دان، سائنس دان، تاجر، سپاہی اور مبلّغین نے شرقِ اوسط کے بارے میں بہت کچھ جانا لیکن بہت کم سمجھا۔ بذاتِ خود مادہ پرست ہونے اور خدا کے بارے میں تشکیک میں مبتلا ہونے کے سبب،اہلِ یورپ اس علاقے میں مذہب کی اہمیت اور اسلام کے اہم ترین کردار کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ اسی کی بدولت وہ اس ناقابلِ یقین حد تک غلط فیصلے پر پہنچے کہ فلسطین ایک ایسی بے قوم سرزمین ہے جو بے زمین قوم (یعنی یہود) کے لیے ہے۔

شرقِ اوسط کے بارے میں اہلِ یورپ کے نقطۂ نظر میں تبدیلی، فلسطینی تحریکِ مزاحمت اور یورپ کے مختلف ممالک میں شرقِ اوسط سے آکر بسنے والے پناہ گزینوں کی موجودگی سے آئی۔ اہلِ یورپ درست طور پر یہ فیصلہ بھی نہ کرسکے کہ وہ کسی فریق کا ساتھ دیں: صہیونی ریاست اسرائیل کا یا فلسطینی تحریکِ مزاحمت کا۔ آخرکار اکثر ممالک میں حکومتیں اپنی آبادیوں سے بالکل الگ ہوکر   رہ گئیں، حکومتوں کا ایک رویہ اور عوام کا دوسرا۔

یورپی حکومتیں بالعموم اور جرمن حکومت بالخصوص تاریخی اسباب کی بنا پر اسرائیل کا ساتھ دینا چاہتی تھیں۔ یورپی عوام، صہیونیوں کے مظالم سے نفرت کرتے اور فلسطینی جانبازوں کا ساتھ دیتے۔ اس سلسلے میں اہلِ یورپ کا رویہ امریکا سے بالکل مختلف ہے جہاں اسرائیل کی بلالحاظ حمایت کے بارے میں کوئی سوال اٹھایا ہی نہیں جاتا۔

’درست ہے یا غلط، وہ میرا بھائی ہے‘ کے نظریے کی بدولت امریکا، اسرائیل کا اقتصادی، سیاسی اور عسکری حلیف بن چکا ہے۔ یہ پالیسی اختیار کرنے اور اس پالیسی کا مسلسل دفاع کرنے میں طاقت ور یہودی لابی کا کردار روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ ذرائع ابلاغ کا کردار بھی ہمہ پہلو ہے اور نئی وجود میں آنے والی جنونی الٹرا مسیحی سوچ کی تاثیر بھی سرچڑھ کر بول رہی ہے۔ اس سوچ اور نظریے کے پیروکار بائبل کے مطالعے سے یہ بے معنی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ مسیح موعود کا ظہورِ ثانی اُسی وقت ممکن ہوگا جب فلسطین کی سرزمین پر (عیسائیوں کے بغیر) یہودی ریاست اسرائیل مستحکم ہوجائے۔

اس کے نتیجے میں اہلِ یورپ اور امریکیوں نے نائن الیون کی الگ الگ توضیح کی۔ امریکیوں نے اس واقعے کے تجزیے سے انکار کر دیا اور اسے بُرائی قرار دیا۔ وہ چلّانے لگے: ’’لوگ ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟‘‘ حالانکہ اُنھیں اس سوال کے جواب کی اُمید نہیں تھی (بلکہ جواب معلوم تھا)۔

اس کے برعکس، اہلِ یورپ نے ۱۱ ستمبر کے نقصانات پر امریکیوں سے اظہارِ افسوس کیا۔ وہ اس حقیقت کو سمجھ چکے تھے کہ امریکا کو اس لیے نشانہ بنایا گیا کہ وہ شرقِ اوسط کے معاملات میں متحرک فریق بن چکا تھا اور فاصلے سے بیٹھ کر اسرائیل کے حق میں پراکسی جنگ لڑ رہا تھا۔ امریکا نے شرقِ اوسط میں فوجی قوت کے استعمال کی جو پالیسی اختیار کی ہے، اُس کے مقابلے میں یورپ کی پالیسی زیادہ سیاسی گہرائی کی حامل معلوم ہوتی ہے۔ اُس پر یہودی عمل دخل بھی کم، نیز بہتر اور براہِ راست معلومات پر مبنی محسوس ہوتا ہے۔ یورپ کے بڑے شہروں میں مشکل ہی سے کوئی کالج یا گریجویٹ سکول ہوگا جہاں فلسطینی پروفیسر موجود نہ ہوں اور وہ مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے سرگرم نہ ہوں اور مسئلۂ فلسطین کی وضاحت نہ کرتے ہوں۔

جب یہودیوں کے ساتھ ظلم ہُوا تھا تو وہ دُنیا میں پھیل گئے تھے اور اسی وجہ سے تعلیم کے میدان میں یہودی آج تک ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ اسی طرح اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ تعذیب و تشدد کا رویہ اختیار کیا اور اس کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینیوں کو منتشر ہونا پڑا، اور آج دُنیا میں جگہ جگہ فلسطینی ہمیں ملتے ہیں جو تعلیم کے میدان میں اپنے وجود کو منوا رہے ہیں۔

یورپ کے مختلف حصوں میں محنت کش طبقہ مختلف اسلامی ممالک سے آکر قیام پذیر ہوا ہے۔ بنیادی طور پر ان کا تعلق البانیہ، الجزائر، افغانستان، بوسنیا، مصر، بھارت، ایران، عراق، کوسووا، مراکش، نائیجیریا، پاکستان، سینیگال، صومالیہ اور تیونس سے ہے۔ فطری طور پر وہ سب سے پہلے اپنے وطن اور اُس کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اُن میں سے ہر شخص مختلف حالات کا شکار ہوگا لیکن یہ بھی درست ہے کہ یورپ میں پائے جانے والے مسلمان، فلسطین میں پائے جانے والے حالات پر بے چین ہوجاتے ہیں۔ اس لحاظ سے مسلم اُمت کا تصور ابھی زندہ حقیقت ہے۔ فلسطینیوں کے مقدر کا فیصلہ نہیں ہوسکا، تاہم یہ امر تکلیف دہ ہے۔

موجودہ کردار

یورپ کے کئی ملک اب یورپی یونین میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔شرقِ اوسط کے ممالک کے ساتھ بہتر اقتصادی تعلق کے نتیجے میں یورپی یونین کو علاقے میں امریکا، روس اور     ہر روز آگے بڑھنے والے چین کی مسابقت کا سامنا ہے۔ دوسری جانب خارجہ پالیسی کے خطوط،  نیز سیاسی، فوجی اور تہذیبی امور ایسے معاملات ہیں جن کا تعین دوطرفہ طور پر کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ مناسب نہ ہوگا کہ صرف یورپی نقطۂ نظر اور ترجیحات کی بات کی جائے۔ چند مثالوں کے ذریعے یورپی ترجیحات کو سمجھنا آسان ہوگا۔

  • عراق: کویت پر عراقی حملے اور صدام حسین کی جارحیت کے خلاف اتحادی افواج کی کارروائی کے سبب یورپی ممالک اور امریکا کے درمیان قریبی فوجی تعاون موجود رہا ہے۔ ۱۱ستمبر کے بعد اس تعاون نے ایک عسکری و سیاسی اتحاد کی شکل اختیار کرلی اور امریکا نے طالبان کے خلاف اعلانِ جنگ کرڈالا۔ پھر جب امریکا کی جانب سے عراق پر بھی فوجی حملے کے عزائم سامنے آئے تو یہ اتحاد کمزور ہونا شروع ہوگیا۔ اس خاص مسئلے پر، یورپ کی دو انتہائی اہم اور مؤثر ریاستوں فرانس اور جرمنی نے نہ صرف اتحاد سے باہر نکلنے کا اعلان کر دیا بلکہ امریکی یلغار کی شدید انداز میں مزاحمت بھی کی۔ لیکن اب، جب کہ عراق خانہ جنگی کے بعد سنبھلنا شروع ہوا ہے، نیز انسانی وسائل کی ترقی (human resource development)، سیکورٹی تعاون اور توانائی کے میدانوں میں نئے مواقع پیدا رہے ہیں، اُس سے یورپی یونین نے بھی فائدہ اٹھانے کا منصوبہ بنانا شروع کر دیا۔

۲۰۰۹ء میں فرانس کے صدر نکولس سرکوزی، جرمنی کے وزیرخارجہ فرینک والسٹر اسٹائن ملر اور برطانیہ کے وزیر تجارت پیٹر مینڈلسن، تجارتی وفود لے کر بغداد پہنچے۔ عراق میں معدنی وسائل کے انبار اور مزید دولت کے وسیع تر امکانات کے بارے میں کسی مبالغہ آرائی کی ضرورت نہیں ہے۔ یورپی یونین کے نائب صدر نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا: ’’یورپی یونین ۲۰۰۳ء تک عراق کو ایک بلین یورو کی رقم امداد کی صورت میں دے چکا ہے۔ بنیادی خدمات، انسانی ترقی، مہاجرین، گڈگورننس، سیاسی عمل اور استعداد میں اضافے میں تعاون، عراق کی ترجیحات کو مدنظر رکھ کر کیا گیا۔ چونکہ جنوبی راہداری کے لیے عراق قدرتی گیس وسیع پیمانے پر فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے یورپی یونین نے عراق کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت ’اسٹرے ٹیجک توانائی شراکت‘ (strategic energy partnership) پر دستخط کیے ہیں۔ یادداشت کے مندرجات سے پتا چلتا ہے کہ یورپی یونین، مستقبل میں عراق میں کردار ادا کرتا رہے گا۔ ان میں عراق کے لیے توانائی پالیسی کی تشکیل، انرجی ایکشن پروگرام، گیس ترقیاتی پروگرام کی جدید خطوط پر استواری، پائپ لائنوں کی حفاظت اور اُن کو قابلِ اعتماد بنانا، توانائی پالیسی کے لیے ضروری قانونی اور آئینی فریم ورک تیار کرنا اور عراق کے لیے توانائی کے طویل المدت جامع منصوبوں کی تیاری شامل ہے۔

عراق میں یورپی یونین کے روز افزوں اثرات کی بدولت عراق میں یورپی یونین کے مفادات میں نہ صرف اضافہ ہوگا بلکہ دیگر بڑی طاقتوں، مثلاً امریکا، برطانیہ، روس اور چین کے مفادات بھی چیلنج کی زد میں آجائیں گے۔

  • ایران: ۱۹۷۹ء کے ایران انقلاب سے پہلے، یورپی ممالک دوطرفہ سطح پر ایران سے متوازن سیاسی، سفارتی اور اقتصادی تعلقات رکھتے تھے لیکن اُن کے تعلقات کی استواری و پایداری میں اہم ترین عنصر تیل اور گیس ہی تھے۔ ایرانی انقلاب کے بعد ایرانی نعرے ’مشرق نہ مغرب سب سے متوازن تعلقات‘ کی وجہ سے یورپ ایران سیاسی تعلقات سردمہری اور ایران گریز پالیسی میں تبدیل ہوگئے۔ عراق نے کویت میں مہم جوئی کی تو مغربی ممالک کے اتحاد نے عراق کے مخالف ایران پر پابندیوں میں کچھ کمی کر دی جس کی وجہ سے ۱۹۹۰ء اور ۲۰۰۰ء کی دہائی میں یورپی یونین اور ایران کے تعلقات میں کچھ بہتری محسوس ہونے لگی۔ بش انتظامیہ نے ناسمجھی سے ایران کو موردِ الزام ٹھیرانے کا راستہ اختیار کر لیا تھا۔ اس سب نرم گرم کے باوجود ایران ایک جوہری قوت کی حیثیت سے یورپی ممالک کو کبھی بھی قبول نہیں رہا، نہ انفرادی طور پر اور نہ یورپی یونین کے پلیٹ فارم ہی سے۔ اجتماعی طور پر جوہری توانائی کے عالمی ادارے (IAEA) کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ ایران کو ڈھب پر لانے کے لیے قابلِ عمل راستہ تلاش کرے۔ اگرچہ ہمیں مذاکرات اور پابندیوں، پھر مذاکرات اور پھر پابندیوں کا بار بار تذکرہ ملتا ہے لیکن اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں یورپی یونین نے جو پالیسی بھی اختیار کی، اُسے بار بار امریکی مخالفت اور دبائو کا سامنا کرنا پڑا۔

موجودہ حالات میں یورپی یونین جو معقول اقدامات کرسکتی ہے، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ حالات کا خود تجزیہ کریں، صورت حال کا سنجیدگی سے جائزہ لیں۔ خفیہ ایجنسیوں کی تیار کردہ رپورٹوں پر توجہ نہ دیں کیونکہ انھی خفیہ اداروں نے بار بار اطلاع دی تھی کہ صدام حسین نے وسیع پیمانے پر   تباہ کاری کے ہتھیار اکٹھے کرلیے ہیں۔ یورپی یونین کے لیے ضروری ہے کہ امریکی پالیسی اور مقاصد کی اندھی تقلید نہ کرے بلکہ ایک حقیقی اور معقول متبادل قیادت کے لیے اپنے آپ کو تیار کرے۔

امریکا اور برطانیہ نے عراق پر جنگ مسلط کی تھی۔ اسی وجہ سے بحیرئہ روم سے پار ممالک کے ساتھ یورپی یونین کے تعلقات بھی کشیدہ رہے، تاہم یورپی یونین نے ایران کے بارے میں ٹھوس راے اختیار کی تاکہ اُسے خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک اہم کردار کے طور پر یاد رکھا جاسکے۔ برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے، جو تین مختلف راستوں پر چل نکلے تھے، مذاکرات اور پُرامن ذرائع کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی اور طاقت کے استعمال کا راستہ اختیار نہ کیا۔

اسرائیل اور فلسطین کا تنازعہ

اسرائیلیوں کا دعویٰ رہا ہے کہ اُنھیں ’واپسی کا حق‘ حاصل ہے اور وہ فلسطین میں وسیع پیمانے پر دوبارہ آباد ہونے کا حق رکھتے ہیں (لیکن فلسطینیوں کو وہ واپسی کا یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں جنھیں گذشتہ صدی میں ان کے گھروں سے نکال دیا گیا)۔ صورت حال یہ ہے کہ اہلِ یورپ کے نزدیک بین الاقوامی قانون بھی ایسے دعووں کو تسلیم نہیں کرتا۔ موجودہ قوموں میں سے شاید ہی کوئی قوم اُس جگہ رہ رہی ہو جہاں اُن کے آباواجداد رہ چکے ہوں۔

اگر چند ’گروہوں اور آبادیوں‘ کو واپسی کا حق دے دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اینگلوسیکسن جو آج کے ڈنمارک سے آئے تھے، اُنھیں برطانیہ خالی کرنا پڑے گا۔ آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے امریکی مجبور ہوں گے کہ وہ گرین لینڈ واپس چلے جائیں۔ سارے کا سارا لاطینی امریکا ریڈانڈین قبائل کو واپس کرنا پڑے گا۔ اسی طرح سے آسٹریلیا سے بھی آبادی کے بڑے حصے کو  نکلنا پڑے گا۔

اس لحاظ سے اہلِ یورپ کے نزدیک ’واپسی کا حق‘ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جو قوم کسی علاقے کو چھوڑ جائے، اُس کا اُس سے کوئی حقیقی تعلق نہیں، چاہے علاقہ اُنھوں نے جبر کی وجہ سے چھوڑا ہو یا اپنی رضامندی سے چھوڑا ہو، ۷۰ قبل مسیح میں چھوڑا ہو یا اس سے دو ہزار سال قبل چھوڑا ہو۔    اسی طرح اُن فلسطینی مسلمانوں کو نکال باہر کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے جنھوں نے ۶۳۸ء میں  (۱۳۷۱ برس قبل) حضرت عمرؓ کے زمانے میں اس علاقے کو مسلمان کرلیا تھا۔

۱۸۹۷ء میں یہودیوں کا ایک اہم اجلاس باسِل میں ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت  تھیوڈور ہرزل نے کی تھی جس کی خواہش تھی کہ یہودیوں کے لیے ایک مستقل الگ وطن ہو، اور یہ ضروری نہیں تھا کہ وہ فلسطین ہی میں ہو۔ قبل ازیں فلسطین کے بارے میں یہ طے کرلیا گیا تھا کہ یہ ایک ایسا خطہ ہے کہ جہاں کوئی قوم نہیں بستی۔ یہودیوں نے اس خطے کو حاصل کرنے کی کوشش کی اور ساتھ ساتھ یہ تیاری بھی کرلی کہ اس سرزمین میں لوگ لاکر بسائے جائیں اور اسے ’بغیر قوم‘ سرزمین قرار دیا جائے تاکہ وہ زمین حاصل کرسکیں اور یہاں کی پہلے سے موجود آبادیوں کو نکال باہر کریں۔

اسرائیل کے حامی یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے برطانیہ نے اُنھیں ایک تہائی سرزمین پہلے ہی دے دی تھی۔ اس طرح فلسطین کو نشان زد کر دیا گیا تھا کہ یہاں یہودی ریاست وجود میں لائی جائے گی۔ ضروری تھا کہ فلسطینی مسلمان اور عیسائی بھی یہیں رہتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

قومی قانون اور بین الاقوامی قانون کی اہم شق یہ بھی ہے کہ جس کے پاس خود کوئی     حق ملکیت نہ ہو، وہ ان حقوق کو آگے منتقل نہیں کرسکتا۔ برطانیہ، فلسطین کا حقیقی مالک نہیں تھا، فلسطین کا علاقہ اُن کو بطور انتداب (trusteeship) مختصر مدت کے لیے دیا گیا تھا۔ برطانیہ، اہلِ فلسطین کے ساتھ ۱۹۲۳ء سے ۱۹۴۸ء تک دھوکے بازی کرتا رہا اور ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو برطانیہ نے فلسطینی مملکت کو اسرائیل کے حوالے کر دیا جس کا اُسے حق ہی حاصل نہیں تھا۔ اس لحاظ سے مذکورہ معاہدہ وجود ہی میں نہیں آیا۔

آیئے اب اس کا جائزہ لیتے ہیں کہ ارضِ فلسطین پر کیا گزری؟

  • ۶ جون ۱۹۶۷ء کے دوران اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی، القدس کے مشرقی علاقے، صحراے سینا اور گولان کی پہاڑیوں پر بھی قبضہ جما لیا۔ فلسطینیوں کے لیے یہ قبضہ بہت بڑی تباہی ثابت ہوا۔ یہی نکتہ نسلی امتیاز، نسل پرستی اور ظلم و ستم کے طویل باب کا نقطۂ آغاز بنا۔
  • ۲۲ نومبر ۱۹۶۷ء کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر۲۴۲ منظور کی جس میں اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ اُس نے اب تک جتنے فلسطینی علاقوں پر قبضہ کیا ہے، اُنھیں خالی کردے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ مہاجرین کی آبادکاری کے لیے بھی اقدامات کرے۔ قرارداد ۲۴۲ کو غیرمعمولی شہرت حاصل رہی، لیکن اس پر کبھی بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔
  •  ۱۷ ستمبر ۱۹۷۸ء کو کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط ہوئے لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ اس کے بعد صدر انورالسادات، ۱۹ نومبر کو اسرائیلی پارلیمان کنیسٹ میں گئے۔
  •  ۱۹۸۷ء میں انتفاضہ اوّل کا آغاز ہوا۔ ۱۹۸۹ء تک ۶۰۰ فلسطینی شہید اور ۲۱ اسرائیلی جاں بحق ہوچکے تھے۔ ۱۹۸۸ء میں امریکی وزیرخارجہ جارج شُلز نے فلسطینیوں کی خودمختاری کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا۔ ایسا منصوبہ ۱۹۴۷ء میں بھی تیار کیا گیا تھا جس میں دو ریاستی حل (اسرائیل اور فلسطین) پیش کیا گیا تھا۔
  • ۱۳ ستمبر ۱۹۹۳ء کو اوسلو معاہدے پر یاسرعرفات اور اسحاق رابن نے دستخط کیے (بعدازاں اُسے قتل کردیا گیا)۔
  • اوسلو امن معاہدے کی ناکامی اور اریل شیرون کے اشتعال انگیز اقدامات کی وجہ سے الاقصیٰ انتفاضہ ثانی شروع ہوا۔ ۲۸ مارچ ۲۰۰۲ء کو مسئلے کے حل کے لیے سعودی عرب کے ولی عہد عبداللہ نے یہ تجویز پیش کی کہ:

۱- اسرائیل ۱۹۶۷ء سے پہلے کی سرحدوں میں چلا جائے۔

۲- فلسطینی مہاجرین کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر ۱۹۴ کے مطابق حل کیا جائے۔

۳- آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جائے جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو۔

۴- اس سارے عمل کی توثیق کے لیے اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان امن کا معاہدہ ہو۔

اس حوالے سے دو پہلو بہت اہم ہیں۔ جتنے بھی اقدامات کیے گئے ان میں سے ایک پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب سفارت کار اس مسئلے کے حل کی کوششیں کر رہے تھے اسرائیل نے نئی نئی نوآبادیوں (settlements) کے قیام کے ذریعے دو ریاستی حل کا راستہ عملاً روک دیا۔ صورت حال یہ ہے کہ فلسطینی اپنی ہی سرزمین پر چھوٹے چھوٹے ڈربوں میں رہنے پر مجبور ہیں اور اُنھیں اس کے علاوہ کوئی آزادی حاصل نہیں ہے کہ اپنی غربت پر تڑپتے رہیں۔ اس صورت حال میں اسرائیل، فلسطینی ریاست کے قیام پر رضامندی کا اظہار ہوسکتا ہے کیونکہ اس نے یہ امر یقینی بنا لیا ہے کہ ایسی ریاست بن ہی نہ سکے۔ اس صورت حال کو کولمبیا انسائیکلوپیڈیا میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: ’’اسرائیلی آبادی کی اکثریت یہودی ہے اور یہاں مسلم اقلیت بھی موجود ہے‘‘۔

اس سلسلے میں ایک نمایاں بات یہ ہے کہ اس سارے تنازعے میں یورپ بالکل غائب  نظر آتا ہے۔ یہ درست ہے کہ عرب ممالک بھی اس سلسلے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکے ہیں۔  عرب ممالک اور عرب حکومتیں اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتے تو بہتر ہوتا۔ امریکا اور یورپ کے درمیان فاصلوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بش انتظامیہ کے دور میں یورپ اس مسئلے میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا اور یورپ آزادانہ طور پر شرقِ اوسط میں من پسند پالیسی پر عمل درآمد بھی نہ کرا سکا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ یورپ اگرچہ اقتصادی طور پر ایک جِن کی مانند ہے، لیکن سیاسی معاملے میں اُس کی حیثیت بونے کی سی ہے۔

نیا منظرنامہ

شرقِ اوسط میں اہلِ یورپ کے لیے کیا راستہ ہو، اس کے بارے میں دوٹوک کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ہر بات غیریقینی ہے۔ یہ امکان بھی ہے کہ مزید مشکلات اور تشدد ہی تشدد ہو، اور اس کا بھی امکان موجود ہے کہ اسرائیل کو مسلسل جنگی صورت حال کا سامنا رہے اور اُس کو ملنے والی امداد میں کمی آتی جائے۔ اسرائیل کا وجود مسلسل خطرے میں رہے گا جب تک کہ وہ فلسطینیوں کو جبروتشدد کے ذریعے دبائے رکھنے کی کوشش جاری رکھتا ہے، قتل و غارت کے ذریعے اسرائیل کو تحفظ دینا چاہتا ہے اور فلسطینیوں سے تیسرے درجے کے شہریوں کا رویہ برقرار رکھتا ہے جسے جمہوریت کم اور  نسل پرست حکومت کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل کی عدالت نے ایک فلسطینی کو بلاجواز قتل کرنے کی سزا ایک یہودی کو یہ دی کہ وہ تین سینٹ جرمانہ ادا کرے۔ اس مثال سے یہ سمجھنا آسان ہے کہ فلسطینیوں کو قتل کرنا، فوجی و غیرفوجی اسرائیلیوں کے لیے کیوں آسان ہے۔ ایسی ریاستیں  جن میں نصف آبادی آزاد اور نصف غلام ہو، زیادہ دیر تک نہیں چل سکتیں۔ اگر اسرائیل نے یہی طرزِعمل جاری رکھا تو وہ بھی اسی طرح ختم ہوجائے گا جس طرح ۸۰۰ برس قبل کی صلیبی ریاستیں  نقشۂ ارض سے مٹ گئیں۔

اہلِ یورپ ان معاملات کو مایوسی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ خصوصاً جرمنوں کا یہی معاملہ ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینیوں کو نازیوں کے جرائم کی سزا بھگتنا پڑر ہی ہے جو اُنھوں نے کیے ہی نہیں تھے۔ ہولوکاسٹ کے بعد بچ جانے والے یہودیوں کو جرمنی ہی میں رکھا جانا قرینِ انصاف تھا بجاے اس کے اُنھیں فلسطین بھیج دیا گیا۔ جرمنوں نے آش وز کے مقام پر جن جرائم کا ارتکاب  کیا تھا اس کے بدلے میں فیڈرل ری پبلک نے اسرائیل کو کئی بلین ڈالر کی رقم بطور تاوان دی تھی، اُسے جدید ترین اسلحہ فراہم کیا تھا۔ اس طرح صہیونیوں کو یہ موقع مل گیا کہ وہ فلسطینیوں کو اس طرح دبائیں اور تشدد کا نشانہ بنائیں اور زمین کے نقشے سے مٹا دیں جس طرح نازیوں اور جرمنوں نے اُن کے ساتھ کیا تھا۔

شرقِ اوسط کے حوالے سے مشاہدات درج ذیل ہیں:

۱- جہاں تک مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے مؤثر کردار کا تعلق ہے، عرب دنیا کا کردار مایوس کن رہا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عربوں کے درمیان اتحاد و اتفاق نہیں پایا جاتا۔ ایک راے کے مطابق الفتح اور حماس کے درمیان پایا جانے والا موجود تنازع اُٹھنا ہی تھا۔ ایسے مزید واقعات بھی رونما ہوتے رہیں گے۔ دونوں جماعتوں کے درمیان اختلاف کے بڑھتے چلے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ الفتح، اسرائیل اور امریکا کے اشاروں پر چل رہی ہے۔

۲- یورپی نقطۂ نظر بھی اس سے مختلف نہیں۔ بازاروں میں عام لوگ مسئلۂ فلسطین سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا تو یہ بھی خیال ہے کہ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم نے نازیوں کے مظالم کی یاد بھلا دی ہے، حالانکہ یورپ کے لوگ ٹی وی اسکرینوں پر وہ تمام مظالم نہیں دیکھتے جو اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کے خلاف کرتی ہے۔ اُن کی حکومتوں کا مفاد بھی اِسی میں ہے۔

تاہم، الجزیرہ، قطر کے انگریزی یا عربی پروگرام دیکھیں تو اسرائیلی مظالم کی صورت حال سامنے آتی ہے۔ مقامِ افسوس ہے کہ اہلِ یورپ اس جرمن محاورے کے مصداق بنے ہوئے ہیں: ’’جس چیز کو میں جانتا نہیں ہوں وہ مجھے پریشان بھی نہیں کرتی‘‘۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا    آسان ہے کہ اہلِ یورپ کی فلسطینیوں سے ہمدردی عملی تعاون میں تبدیل نہ ہوسکے گی۔ (بہ شکریہ پالیسی پریسپیکٹو، اشاعت خاص: شرقِ اوسط، جنوری- جون ۲۰۱۰ئ)


ڈاکٹر مراد وِلفریڈ ہوف مین، نومسلم اور معروف دانش ور ہیں، سابق سفیر جرمنی۔

امام حسن البنا شہید کے رفیق کار نے اپنے جھریوں بھرے رعشہ زدہ ہاتھوں سے سیلاب فنڈ میں رقم دیتے ہوئے کہا: ’’اس کی رسید کا انتظار کروں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ اسے اپنے کفن میں ساتھ لے جائوں۔ پاکستان اسلام کی خاطر وجود میں آنے والا ہمارا برادر ملک ہے اور آج وہاں سیلاب کی تباہ کاریوں نے ہم سب کو تڑپا کر رکھ دیا ہے۔ میں نے اپنے بچوں سے یہ رقم جمع کی ہے تاکہ ہم بھی سیلاب زدگان کی معاونت میں جماعت اسلامی کی کوششوں میں حصہ ڈال سکیں‘‘۔ ایک نہیں، ایسے سیکڑوں واقعات ہیں۔ بڑی بڑی رقوم سے لے کر بچوں کے جمع کردہ جیب خرچ تک، جس کو جتنی توفیق نصیب ہوئی اس نے پاکستان میں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے بھجوانے کی سعی کی۔

  • اھل پاکستان کے لیے جذبۂ انفاق: سیلاب کی تباہ کاریوں سے آگاہ کرنے کے لیے رمضان المبارک میں سعودیہ جانے کا اتفاق ہوا تو ہرجگہ لوگوں میں ایک ہی موضوع زیربحث تھا:  سیلاب زدگان کی مدد کیسے کی جاسکتی ہے؟ حکومت ہی نہیں، عوامی سطح پر بھی ہرشخص پاکستان پر ٹوٹنے والی اس قیامت پر دل گرفتہ تھا۔ دیگر خلیجی ریاستوں سے بھی یہی اطلاعات موصول ہورہی تھیں۔ مثلاً: یہ نوجوانوں کی ایک مجلس تھی۔ ۲۰سے ۳۰، ۳۵ سال تک عمر کے ۱۵ نوجوان۔ نمازِ تراویح کے بعد اپنے ایک ساتھی کے گھر جمع تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے بزرگوں کی روایتی ’پنچایت‘ بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس پنچایت کو ’مجلس‘ ہی کہا جاتا تھا۔ ہم چند ساتھی ہرہفتے اسی مجلس میں جمع ہوتے ہیں۔ کسی نہ کسی موضوعِ پر گفتگو کا اہتمام کرتے ہیں اور پھر اس پر سب کو تبادلۂ خیال کی دعوت دیتے ہیں۔ گذشتہ دو ہفتے سے پاکستانی سیلاب ہی موضوع گفتگو ہے۔ ہم نے گذشتہ مجلس میں مشورہ کیا تھا کہ ہمیں بھی امدادی کاموں میں حصہ ڈالنا چاہیے۔ ہم میں سے کوئی بھی بہت زیادہ مال دار نہیں ہے، لیکن ہم نے طے کیا کہ جس سے بھی جتنا کچھ ہوسکتا ہے، اپنا اپنا حصہ ڈالے۔ اب آج دوبارہ ملیں گے تو دیکھتے ہیں کہ ہماری کوشش کہاں تک پہنچتی ہے۔ گفتگو کا آغاز ہوا۔ تباہ کاریوں کی تفصیل سے لے کر حکومتی کارکردگی اور عین سیلاب کے دنوں میں پاکستانی صدر آصف زرداری کے نجی یورپی دوروں تک ہرموضوع پر سوالات پوچھے گئے اور پھر سب نے اپنی اپنی کاوش جمع کی۔

ایک اور جگہ اسکول کے مدرس اور مسجد کے امام صاحب نے سیلاب زدگان کے لیے اپیل کی۔ ایک بچے نے بھی مٹھی میں دبا نصف ریال (تقریباً ۱۱ روپے) سیلاب زدگان کے لیے پیش کردیا۔ امام عبداللہ سمیت سب حاضرین کو اس پر بہت پیار آیا۔ امام صاحب نے وہ نصف ریال اُٹھایا اور کہا: یہ بہت قیمتی ہے۔ نہ جانے مالکِ کائنات کو کتنا پسند آیا ہوگا۔  کوئی ہے جو اس کو اپنے لیے پسند کرتے ہوئے خود رکھ لے اور جتنی توفیق ہے وہ پیش کردے…؟ ایک صاحب نے کہا: اس کے ۱۰ ریال دیتا ہوں، بڑھتے بڑھتے وہ ۲۰۰ ریال میں لے لیا گیا اور معصوم بچے سمیت سب کا اجر کئی گنا بڑھ گیا۔ ایک دو نہیں لاتعداد واقعات ہیں جو اُمت میں موجود خیرکثیر کی خبر دیتے ہیں۔

جذبۂ انفاق کے ساتھ ساتھ لوگوں کو یہ تشویش اور افسوس بھی تھا کہ محدود امریکی طوفانوں اور کتوں، بلیوں کے لیے اربوں ڈالر کے انبار لگا دینے والی عالمی برادری اس قیامت ِصغریٰ پر لاتعلق بنی بیٹھی ہے۔ ایک صاحب نے اس پریشانی کا اظہار بھی کیا کہ کئی اہلِ خیر مصیبت کے ان لمحات میں امداد دینا چاہتے ہیں لیکن انھیں یہ اعتماد نہیں ہے کہ ان کے صدقات و عطیات واقعی مستحقین تک پہنچ جائیں گے۔ انھوں نے بتایا کہ ایک مجلس میں نوجوان نے پوچھا: میں نے عمرے کے لیے ایک رقم جمع کررکھی ہے لیکن سیلاب آیا ہے تو سوچ رہا ہوں کہ عمرے پر جائوں یا یہ رقم متاثرین سیلاب کے لیے بھجوا دوں؟ مجلس میں بیٹھے بزرگ نے فتویٰ دیا: عمرے پر چلے جائو۔ حاضرین نے اس جواب پر حیرت کا اظہار کیا تو بزرگ نے کہا: ’’سیلاب کے لیے دے بھی دو گے تو مستحقین تک پہنچنے کی اُمید نہیں ہے‘‘۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس بے اعتمادی کے باوجود مجموعی طور پر عالمِ عرب نے سیلاب زدگان کی معاونت میں بھرپور حصہ لیا ہے۔ اس سلسلے میں  عرب ذرائع ابلاغ نے بھی بہت مؤثر، مثبت اور بھرپور کردار ادا کیا۔ بالخصوص الجزیرہ چینل کی ٹیم نے بیک وقت تین مختلف مقامات سے بہت جاں فشانی سے رپورٹنگ کی، جس کے نتیجے میں اُن حکومتوں اور اداروں کو بھی متحرک ہونا پڑا جو اس قیامت سے لاتعلق بیٹھے تھے۔ غیرجانب داری سے کی جانے والی رپورٹنگ میں حکومت، فوج، دینی جذبے سے کام کرنے والی امدادی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی کارکردگی کے مطابق حصہ ملا۔ کاش! یہ اَنمول خدمت کسی ابلاغیاتی ادارے کے بجاے خود حکومت کی ترجیحات میں شامل ہوتی، لیکن یہاں تو معاملہ اُلٹ تھا۔ ذرائع ابلاغ رپورٹنگ کرنا چاہتے تھے اور حکومت رکاوٹیں ڈال رہی تھی۔ الجزیرہ کے ذمہ داران نے بتایا کہ چینل نے فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان میں موجود اپنے بیورو کے علاوہ ۱۵ مزید افراد کو تمام جدید آلات و سہولیات دے کر سیلاب سے تباہ علاقوں میں بھیجا جائے اور وہاں سے براہِ راست رپورٹنگ کا اہتمام کیا جائے۔ لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت ِ پاکستان نے ان افراد کو ویزے نہیں دیے۔ یہ امریقینی ہے کہ اگر انھیں ویزے دے دیے جاتے تو سیلاب زدگان کے لیے امدادی سرگرمیوں اور وسائل میں کئی سو گنا اضافہ ہوجاتا۔

اپنے اور اپنے حبیبؐ کے حرم کو اللہ تعالیٰ نے بے حدوحساب برکات عطا کی ہیں۔ ہرلمحے مغفرت اور رحمتوں کی ہمہ پہلو بہاریں جلوہ افروز رہتی ہیں۔ رحمتوں کے اسی پرتو میں اجتماع و اتحاد اُمت کے بے مثال مناظر و مواقع بھی نصیب ہوتے ہیں۔ حالیہ سفر میں ایسے ایسے احباب سے ملاقات ہوئی جن کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا۔

  • اھلِ غزہ کا عزم اور نصرتِ خداوندی: غزہ سے آنے والا ایک فلسطینی عجیب جذبے سے سرشار تھا۔ بتا رہا تھا آپ لوگ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں۔ ہم ہر کام میں قرآن کے ذریعے اللہ کی مدد حاصل کرتے ہیں۔ گذشتہ تقریباً چار برس سے ہم مکمل حصار میں مقید کردیے گئے ہیں۔ جینے کی تمام راہیں مسدود کردی گئی ہیں۔ ہم نے قرآن سے رجوع کیا، اس نے بتایا: وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا o وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ ط (الطلاق ۶۵:۲-۳) ’’جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لیے ہرمشکل سے راہِ نجات عطا کرے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق فراہم کرے گا کہ جو اس کے گمان میں بھی نہ ہوگی‘‘۔ ہم خود کو اور اپنی نسلوں کو قرآن کریم کے زیرسایہ لے آئے۔ دانہ پانی، دوا، سازوسامان، سب ناپید ہونے لگے۔ قرآن کریم سے پوچھا تو اس نے بتایا: لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط (الزمر ۳۹:۵۳) ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں‘‘۔ وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا (ھود ۱۱:۶) ’’زمین و آسمان میں چلنے والی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا رزق خود اللہ کے ذمے نہ ہو‘‘۔ اور یہ کہ وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِِنْسَانِ اِِلَّا مَا سَعٰی (النجم ۵۳:۳۹) ’’انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی وہ سعی و کوشش کرے گا‘‘۔

ہم نے زیرزمین سرنگوں کے ذریعے سانس کی ڈوری برقرار رکھنے کی سعی شروع کردی۔ میلوں لمبی سرنگوں کا پورا جال بچھ گیا۔ تھوڑی سی کوشش میں اللہ کی اتنی نصرت شامل ہوگئی کہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود روزمرہ کی کئی اشیا ایسی ہیں کہ جو غزہ میں تقریباً آدھی قیمت میں مل رہی ہیں، جب کہ مصر میں جہاں سے یہ اشیا لائی جارہی ہیں وہی چیزیں دگنی قیمت میں ملتی ہیں مثلاً چھوٹا گوشت یا تو ملتا ہی نہیں، ملے تو غزہ میں ۳۰ مصری پونڈ (۴۳۰ روپے) کلو ملتا ہے، جب کہ مصر میں ۶۰پونڈ میں، غزہ میں کوئی یہ نہیں سوچتا کہ کیونکہ نایاب ہے تو قیمت بڑھا دو۔ غزہ میں ایک خدا خوف اور ہر دم بیدار قیادت آنے سے ہم فلسطین کی تاریخ میں پہلی بار وہ امن و امان قائم ہوا کہ جس کا ذکر ہم صرف تاریخ میں پڑھتے ہیں۔

میں نے سوال کیا لیکن اس ۹۰ فٹ گہری زیرزمین فولادی دیوار کا کیا بنا جو ان سرنگوں کو بند کرنے کے لیے مصر اور غزہ کی سرحد پر تعمیر کی گئی ہے، اور اس کے لیے امریکا سے ایسی آہنی چادریں بھجوائی گئی تھیں کہ بم بھی جن پر اثر نہ کرسکے؟ کہنے لگا: یہاں ہم نے پھر قرآن کریم سے استفسار کیا۔ قرآن نے جواب دیا: وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ(انفال ۸:۶۰) ’’ان سے مقابلے کے لیے ہر وہ طاقت فراہم کرو جو تمھارے بس میں ہے‘‘۔ ہم نے ان فولادی دیواروں کو کاٹنے کے لیے جو کچھ بھی انسانی ذہن میں تدبیر آسکتی تھی، اختیار کی۔ ساتھ ہی ساتھ اس آیت کا ورد اور اللہ سے مدد بھی طلب کرتے رہے۔ یقین کیجیے کہ بموں سے بھی نہ کٹ سکنے والی ان چادروں میں بھی ہم اتنے بڑے بڑے شگاف ڈالنے میں کامیاب ہوگئے کہ اب وہاں سے گاڑیاں تک گزر سکتی ہیں۔ یہی نہیں قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا: عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ(البقرہ ۲:۲۱۶) ’’ہوسکتا ہے کوئی چیز تمھیں ناپسندیدہ لگ رہی ہو اور وہی تمھارے لیے بہتر اور باعثِ خیر ہو‘‘۔ اس آہنی دیوار سے پہلے ہمارا ایک مسئلہ یہ تھا کہ طویل ہونے کی وجہ سے سرنگیں درمیان سے بیٹھ جایا کرتی تھیں۔ اب ان آہنی اور کنکریٹ کی دیواروں سے انھیں درمیان میں ایک مضبوط سہارا مل گیا ہے۔

۹۰ روز میں مکمل حفظ قرآن کے معجزے کے بارے میں دریافت کیا تو کہنے لگا: زیادہ بڑی تعداد اب ۹۰ نہیں ۶۰روز میں پورا قرآن حفظ کرنے لگی ہے۔ اب بچوں کے علاوہ بچیوں اور خواتین کے لیے بھی حفظ قرآن کیمپ لگائے جارہے ہیں۔

انھی دنوں غزہ کی ایک ۵۹سالہ داعیہ صُبْحِیَّہ علی کا انٹرویو دیکھا تھا۔ وہ کہہ رہی تھیں: ’’ہمارا یقین ہے کہ ہماری نصرت کے تین مطلوبہ ستون ہیں: مسجد، قرآن اور ثابت قدمی‘‘۔ ہماری خواتین صرف رمضان یا جمعہ ہی کو مساجد نہیں جاتیں بلکہ ہفتے میں تین روز عصر سے عشاء تک مسجدیں آباد رکھتی ہیں۔ صرف نمازوں کی ادایگی ہی نہیں کرتیں، ایک مسلسل اور جامع تربیتی پروگرام میں شریک ہوتی ہیں۔ اس دوران دروس بھی ہوتے ہیں۔ مختلف کورسز بھی اور تربیتی ثقافتی اور تفریحی مقابلے بھی۔ ہماری تربیتی سرگرمیوں میں ہر عمر کی بچیاں اور خواتین شریک ہوتی ہیں، لیکن ۱۰ سے ۱۴سال کی بچیاں ہماری خصوصی توجہ کا مرکز بنتی ہیں۔

صُبْحِیَّہ کا کہنا تھا: ’’ہمارا یقین ہے کہ ہم جب تک قرآنی اخلاق سے آراستہ نہیں ہوں گے، آزادی کی نعمت حاصل نہیں کرسکتے۔ دشمن نے بھی اس حقیقت کو بخوبی سمجھ لیا ہے۔ وہ اخلاقی        بے راہ روی پھیلانے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے اور ہم قرآن کے سہارے اپنی اخلاقی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ۲۰۰۷ء میں غزہ میں دارالقرآن والسنۃ نے ۶۰روز کے اندر اندر قرآن کریم حفظ کروانے کا آغاز کیا۔ ۴۰۰ بچوں اور بچیوں نے حفظ کیا۔ اگلے سال گرمیوں کی چھٹیوں میں پھر تباشیرالنصر (فتح و نصرت کی علامات) کے عنوان سے کیمپ لگائے گئے۔ اس سال ۳ہزار طلبہ و طالبات نے قرآن حفظ کیا۔ پھر تو غزہ میں جگہ جگہ حفظ قرآن کیمپ لگنے لگے۔حدیث کے مطابق حافظ قرآن کے والدین کو حشر میں وقار و مرتبت کا تاج پہنایا جائے گا۔ سورج کی روشنی اس کے سامنے ماند ہوگی۔ اب مخیمات تاج الوقار (تاج الوقار کیمپ) کے عنوان سے جگہ جگہ سرگرمی ہوتی ہے۔ بینر دکھائی دیتے ہیں: ھذا ھو جیل النصر ’’یہ ہے وہ نسل جسے اللہ کی نصرت ملنا ہے‘‘۔ تاج الوقار، للاقصٰی انتصار ’’تاجِ وقار، اقصیٰ کی نصرت ہے‘‘۔ صُبْحِیَّہ نے کہا تھا: میں نے حفظ قرآن کیمپ کی ایک تقریب تقسیم اسناد میں شرکت کی، ۱۶ہزار حفاظ جمع تھے، سب کے چہرے قرآنی نور سے دمک رہے تھے۔ غزہ سے آنے والا مسافر بتا رہا تھا۔ اس وقت غزہ میں ان نئے حفاظ کی تعداد ۹۰ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ اب ہم قرآن اور بندوق، دونوں سے آراستہ ہورہے ہیں۔ اسی روز عالمی ذرائع ابلاغ نے خبر شائع کی: غزہ میں نئے راکٹ کا کامیاب تجربہ، رینج دگنی ہوگئی۔ تل ابیب زد میں آگیا، امریکا اور اسرائیل کا اظہارِ تشویش!

یہی نہیں غزہ کی حکومت اور حماس کی قیادت نے عالمی روابط اور سفارت کاری میں بھی کئی منزلیں کامیابی سے طے کی ہیں۔ اس ضمن میں آخری اہم پیش رفت ماسکو کے ساتھ مضبوط تعلقات کے قیام کی ہے۔ حماس کے سربراہ خالدمشعل اپنے اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ روس کا دورہ کرچکے ہیں اور روسی وزیراعظم نے بھی دمشق آمد پر ان کے ساتھ خصوصی ملاقات کی ہے۔ اللہ کے وجود سے انکاری ملحد روس اور بنیاد پرست حماس…؟ بظاہر نہ سمجھ میں آنے والا فارمولا ہے، لیکن اب یہ ایک اہم زمینی حقیقت ہے۔ یہی نہیں روس میں اور بھی کئی اہم تبدیلیاں روپذیر ہورہی ہیں۔

  • روس میں احیاے اسلام : دورانِ رمضان سرزمین حرمین آنے والے کروڑوں افراد میں روس سے محمد صلاح الدینوف اور ان کے ساتھی بھی تھے۔یہ ’روسی مجلس اسلامی‘ کے سربراہ ہیں اور گذشتہ کئی سال سے عالمِ اسلام کے ساتھ روس کے روابط مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ روسی حکمرانوں سے بھی تعلقات رکھتے ہیں۔ دین کو اقوام کی افیون قرار دینے والا روس، امام بخاری اور امام مسلم کے دیس میں قرآن کریم کو سب سے خطرناک ہتھیار قرار دینے والا روس، مساجد کو اصطبل اور قحبہ گری کے اڈوں میں بدل دینے والا روس، اب خود دینی مدارس، دینی جامعات و مدارس اور دینی کتب کی ترویج و حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ مسلم ممالک ہی نہیں اسلامی تحریکوں سے بھی روابط استوار کررہا ہے۔ فرض کیجیے کہ سب کچھ صرف دکھاوے اور عالمِ اسلامی سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے تب بھی یہ اہم حقیقت ذہن میں رہے کہ دین سے کسی کا ربط استوار و مستحکم ہوجائے تو پھر اسے توڑنا کسی کے لیے آسان نہیں رہتا۔

’روسی مجلس اسلامی‘ کے صدر صلاح الدینوف بتارہے تھے کہ اس وقت روس میں ۹۶دینی ادارے اسلام کی تعلیم دے رہے ہیں۔ موجودہ صدر ڈیمٹری میڈیفڈیف نے مسلح افواج میں بھی دینی تعلیمات دینے اور دینی شعائر پر عمل کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ اجازت ۲۱جولائی ۲۰۰۹ء کو دی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اب سرکاری طبقوں میں اس حقیقت کا اعتراف کیا جارہا ہے کہ روحانی خلا انسان کی قوتِ کار میں کمی اور شخصیت کے عدم توازن کا باعث بنتا ہے۔

صلاح الدینوف کا کہنا تھا روس میں کبھی یہ فلسفہ پیش کیا جاتا تھا کہ ’’دین الگ، ریاست الگ‘‘۔ اب اس میں یہ ذومعنی ترمیم کی گئی ہے کہ ’’دین ریاست سے الگ، لیکن معاشرے سے نہیں‘‘۔ ساتھ ہی یہ بات بھی عام ہورہی ہے کہ ’’لوگوں کو دینی اور روحانی آزادی فراہم کرنے سے ریاست کے مفادات بھی وابستہ ہیں‘‘۔

صلاح الدینوف نے عربی زبان میں شائع کردہ جریدہ الاسلام فی روسیا (روس میں اسلام) کا ایک نسخہ بھی دیا۔ اس میں شائع شدہ ایک سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روسی فوجی چھائونیوں میں دینی مراکز کی تعداد ۵۳۰ ہوچکی ہے۔ خود کو مومن (believer) کہلانے والے فوجی افسران اور سپاہیوں کی تعداد ۷۰ فی صد ہوگئی ہے۔ان میں سے ۸۰ فی صد عیسائی ہیں،    ۱۳فی صد مسلمان، ۳ فی صد بدھ مت کے پیروکار اور ۴ فی صد دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ اس سے قبل ایک کانفرنس میں صلاح الدینوف کے ہمراہ کئی روسی پارلیمنٹیرین اور اس وقت کے صدر فلامر ڈین پوٹن کے قریبی ساتھیوں سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی تھی۔ وہ سب حضرات افغانستان میں امریکی مستقبل کے بارے میں گہری دل چسپی سے سوالات کر رہے تھے۔ روس نے ایران اور شام کے ساتھ مذاکرات و معاہدوں میں بھی کسی حد تک اپنی الگ شناخت قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔

اگرچہ مذکورہ بالا تمام تر اشارات بہت اہم ہیں لیکن فی الحال روس کسی بڑی تبدیلی سے قدرے فاصلے پر ہے۔ آزاد ہوجانے والی ریاستوں پر بھی اس کی گرفت ڈھیلی تو ہوئی ہے لیکن وہاں اس کے نفوذ سے بھی کوئی غافل نہیں رہ سکتا۔ البتہ آج سے ۲۰ برس پہلے اور آج کے روس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مزید تبدیل ہوتے ہوئے روس اور عالمِ اسلام کے مابین، اپنے اپنے قومی و نظریاتی مفادات کو عزیز تر رکھتے ہوئے، دوستی کے بہت سے در وا ہورہے ہیں۔

  • اخوان المسلمون مصر کے خلاف پروپیگنڈا جنگ: ایک طرف ملحد روس اپنی مسلمان آبادیوں اور عالمِ اسلام کے عوامی و سرکاری حلقوں سے روابط استوار کر رہا ہے، حماس تک کو گلے لگا رہا ہے، اور دوسری جانب طویل اسلامی تاریخ رکھنے والے کئی مسلمان ممالک دین پسند حلقوں کو ’دہشت گرد‘ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف ہمہ پہلو جنگ لڑ رہے ہیں۔ حماس کے زیرانتظام غزہ ہی کو دیکھ لیجیے، ۱۵لاکھ بے نوا انسانوں پر اتنا ظلم شاید فلسطین پر قابض صہیونی نہیں ڈھا رہے، جتنا مصری حکومت ڈھا رہی ہے۔ مصر کے حالیہ فرعون علی الاعلان کہتے ہیں: غزہ سے حماس اور اسلامی تحریک کا خاتمہ نہ کیا گیا تو فلسطین بالآخر ’حماسستان‘ بن جائے گا۔ فلسطین میں اسلامی تحریک مضبوط ہوئی تو مصر میں الاخوان المسلمون کو حکومت بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ لندن سے آئے ہوئے اخوان کے ایک ذمہ دار بتا رہے تھے کہ مصری صدر کی طرف سے مغربی ممالک کو پیغام دیا گیا ہے کہ ہمیں ہماری مرضی کے مطابق انتخابات کروانے دیں وگرنہ نتائج ۲۰۰۶ء میں غزہ کے انتخاب سے مختلف نہ ہوں گے۔ عمرے کے لیے آئے ہوئے  اخوانی ذمہ داران نے مزید بتایا کہ اخوان کے نئے مرشدعام ڈاکٹر محمدالبدیع سمیت کئی بزرگ عمرے کے لیے آنا چاہتے تھے لیکن مصری حکومت انھیں سفر کی اجازت نہیں دیتی۔ اخوانی ذمہ داران و کارکنان کی گرفتاریاں بھی مسلسل جاری ہیں۔ گذشتہ پانچ سال کے دوران کم از کم ۳۰ہزار کارکنان کو گرفتاری کے عمل سے گزارا گیا ہے۔ بہت سے ذمہ داران چارچارسال سے جیلوں میں ہیں۔

مصری ساتھی بتا رہا تھا کہ اخوان کے خلاف پروپیگنڈا جنگ بھی عروج پر ہے۔ رمضان میں سرکاری ٹی وی پر اخوان کی تاریخ مسخ کرنے اور امام حسن البنا پر الزامات کے طومار باندھنے کے لیے ایک ڈراما سیریز چلائی جارہی ہے۔ روزانہ دکھائی جانے والی الجماعہ نامی اس سیریز میں اخوان کو ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ امام البنا کے اہلِ خانہ کی طرف سے اس سیریز کے خلاف عدالت کے دروازے بھی کھٹکھٹائے جارہے ہیں لیکن ظاہر ہے سیدقطب کو پھانسی پر لٹکا دینے والی عدالتوں سے کس خیر کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اخوان کے ایک رکن پارلیمنٹ   محسن راضی کا کہنا تھا کہ ’’میں نے مصری وزیر اطلاعات و نشریات سے سوال کیا کہ حکومت نے اخوان کے خلاف ایک گھٹیا ڈراما خریدنے کے لیے اڑھائی کروڑ مصری پائونڈ (۱۳ کروڑ ۷۵لاکھ روپے) کی خطیر رقم کیوں ضائع کی۔ خود مصری ٹی وی کے پروڈکشن ہائوس میں اس سے کہیں کم قیمت پر کوئی بھی ڈراما تیار کروایا جاسکتا تھا۔ وزیرموصوف نے اپنے تئیں میری معلومات درست کرتے ہوئے کہا: نہیں ہم نے یہ ڈراما سیریز اڑھائی کروڑ نہیں دو کروڑ ۲۰ لاکھ پائونڈ (۱۲کروڑ ۱۰لاکھ روپے) میں خریدی ہے۔ بعد میں جب ڈرامے کے پروڈیوسر وحید حامد سے پوچھا گیا کہ تم نے سرکاری خزانے سے اتنی خطیر رقم کیوں ضائع کی تو اس کا کہنا تھا کہ نہیں ہم نے تو صرف دو کروڑ پائونڈ میں ڈراما فروخت کیا ہے۔ محسن راضی کا کہنا تھا کہ حکومت نے یہ ڈراما کافی عرصے سے تیار کروایا ہوا ہے لیکن اسے خاص طور پر اس رمضان میں اس لیے پیش کیا گیا تاکہ رمضان کے بعد ہونے والے  عام انتخابات پر اثرانداز ہوا جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح کی ایک اور سیریز تین سال بعد ہونے والے سینیٹ اور بلدیاتی انتخابات کے موقع پر بھی چلائی جائے گی۔ اخوان نے حالیہ انتخابات کے لیے بھی گذشتہ کی طرح ۱۵۰ اُمیدواروں کو انتخاب لڑوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن  انتخابی عمل کو منصفانہ بنانے کے لیے IAEA کے سابق صدر محمد البرادعی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر سات نکاتی سفارشات بھی تیار کی ہیں۔ ان جماعتوں نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ اگر یہ مطالبات تسلیم نہیں ہوتے تو وہ ان ڈھکوسلا انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ بھی کرسکتی ہیں۔ اس وقت یہ ساری جماعتیں ان مطالبات کے حق میں عوامی دستخط مہم چلا رہی ہیں۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق یہ دستخطی مہم ہزاروں تک جاپہنچی تھی، لیکن پھر جب اخوان نے بھی اس میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا تو یہ مہم اچانک لاکھوں سے تجاوز کرگئی۔

  • ترکی میں ایک نئے دور کا آغاز: عالمِ عرب بالخصوص مصر سے آنے والے زائرین حرم وہاں کے حالات بتا رہے تھے کہ ترکی سے آنے والے معتمرین مل گئے۔ انھوں نے خوش خبری دی کہ ترکی میں عید کے بعد ہونے والے دستوری ترامیم ریفرنڈم میں عوام کی اکثریت ہاں میں ووٹ دے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ سروے رپورٹوں سے یہ بات تقریباً حتمی ہوگئی ہے کہ باہم ایک دوسرے کی دشمن سیکولر پارٹیوں کے یک جا ہونے کے باوجود تقریباً ۶۰ فی صد لوگ ان ترامیم کے حق میں ووٹ دیں گے۔

ترکی کے گذشتہ تقریباً سو برس کی تاریخ بھی عجیب ہے۔ ۱۹۲۳ء میں کمال اتاترک کے انقلاب کے بعد تک۔ اسلام اور اسلامی شناخت کو جڑ سے اُکھاڑ دینے کے تمام ہتھکنڈے آزمائے گئے۔ اذان، نماز اور قرآن تک عربی زبان میں پڑھنے کو جرم قرار دے دیا گیا۔ عدنان مندریس نے عربی زبان اور کئی بنیادی دینی سرگرمیاں تو بحال کر دیں لیکن مجموعی طور پر سیکولر جرنیلوں اور  سیکولر ججوں کا قبضہ ہی مستحکم رہا۔ بدیع الزمان سعید نورسی کی اصلاحی تحریک نے روحِ ایمانی کو جلابخشی، تعلیم و تربیت پر توجہ مرکوز کی اور سیکولرزم کے سامنے سد سکندری کی بنیاد مستحکم کی۔ ۱۹۷۰ء میں پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان نے ’ملّی نظام پارٹی‘ کے نام اسلامی تحریک قائم کی، کچھ ہی عرصے بعد اس پر پابندی لگا دی گئی۔ ۱۹۷۲ء میں انھوں نے ملّی سلامت پارٹی کے نئے نام سے کام کا آغاز کردیا، وہ ایک سیاسی اتحاد کے ذریعے نائب وزیراعظم بھی بن گئے لیکن ۱۹۸۰ء میں فوجی انقلاب کے ذریعے سیاسی جماعت کی بساط لپیٹ دی گئی۔ ۱۹۸۳ء میں انھوں نے رفاہ پارٹی بنانے کا اعلان کردیا اور ۱۹۹۶ء میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے تک جاپہنچے۔ تب عبداللہ گل ان کے دست راست اور پارٹی کے امورخارجہ کے ذمہ دار تھے اور طیب اردوگان استنبول کے لارڈ میئر۔ ۱۹۸۸ء میں رفاہ پارٹی اور اربکان کی وزارتِ عظمیٰ ختم کر دی گئی۔ میئر اردوگان کو بھی جیل بھجوا دیا گیا۔ ۲۰۰۰ء میں اربکان نے خود پر پابندی کے باعث اپنے ایک اور ساتھی رجائی قوطان کی سربراہی میں فضیلت پارٹی قائم کر دی۔ کچھ ہی عرصے بعد اس پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ شکست خوردگی، مایوسی یا کسی جھنجھلاہٹ کا شکار ہوئے بغیر اربکان نے ۲۰۰۳ء میں سعادت پارٹی قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ عبداللہ گل اور طیب اردوگان کو خدشہ تھا کہ بالآخر سعادت پارٹی کو بھی غیرقانونی قرار دے دیا جائے گا۔ انھوں نے ’جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ‘ کے نام سے الگ پارٹی بنا لی اور پارٹی کی رکنیت کا دروازہ سب کے سامنے کھول دیا۔

اس پورے عرصے میں اصل طاقت اور اختیار سیکولرزم کے محافظ فوجی جرنیلوں اور دستوری عدالت (constitutional court) کے ہاتھ میں رہا۔ فوجی دبائو اور جرنیلی تلوار نے ہی دستوری عدالت کے ذریعے ہر بار پابندیاں لگوائیں اور سزائیں دلوائیں۔ سابق صدر ڈیمرل، سیکولر جرنیلوں اور سیکولر ججوں کی یہی تثلیث تھی جس نے عبداللہ گل اور طیب اردوگان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ لیکن ہمیشہ کی طرح اللہ کا فیصلہ ہی غالب آیا۔ اس نے اپنے بندوں کی    محنت و ثابت قدمی قبول کی اور ایک کے بعد ایک رکاوٹ ختم ہوتی گئی۔ ایوانِ صدر میں اسلامی شعائر کی بہاریں دیکھی جانے لگیں اور اب ان دستوری ترامیم کے ذریعے ترکی اپنی تاریخ کے ایک   نئے اور روشن تر باب کا آغاز کر رہا ہے۔

ترکی میں اب تک ۱۹۸۲ء کا دستور نافذ ہے۔ جسٹس پارٹی نے مئی ۲۰۱۰ء میں ۲۶ ترامیم کا ایک پیکج اسمبلی میں پیش کیا۔ سیکولرپارٹیوں کی مخالفت کے باوجود یہ ترامیم سادہ اکثریت سے منظور تو کروا لی گئیں لیکن دستور میں ترمیم کے لیے اسمبلی میں دوتہائی اکثریت درکار ہے اور اگر ایسا نہ ہوسکے تو عوامی ریفرنڈم کے ذریعے ۵۰ فی صد سے زیادہ ووٹوں کے ذریعے ترمیم ہوسکتی ہے۔ صدر عبداللہ گل نے سادہ اکثریت کو تسلیم کرتے ہوئے ریفرنڈم کا اعلان کردیا اور اس کے لیے ۱۲ستمبر تاریخ طے پائی۔

ان ترامیم کی اصل روح قانون کی بالادستی یقینی بنانا، کسی بھی ایک ادارے کی دوسروں پر بالادستی ختم کرنا اور فوج و عدالتوں کا قانون و احتساب سے بالاتر ہونا ختم کرنا تھا۔ ان ترامیم کے ذریعے فوجی جرنیلوں کو بھی عدالت کے کٹہرے میں لایا جاسکے گا۔ کسی عام شہری کو فوجی عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکے گا، کسی سیاسی پارٹی کو کالعدم قرار دیے جانے پر ان کے ارکان پارلیمنٹ کی رکنیت ختم نہیں ہوگی۔ پارلیمنٹ کو بھی یہ اختیار مل گیا ہے کہ وہ دستوری عدالت میں ججوں کی ایک تعداد متعین کرسکے گی۔ کوئی عام شہری بھی دستوری عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکے گا۔ دستور کی شق۱۵ کو   ختم کرتے ہوئے فوجی انقلاب لانے والے جرنیلوں پر مقدمہ چلایا جا سکے گا۔

عید کے اگلے روز ۱۲ستمبر کو ریفرنڈم ہوگیا۔ ترک زائرین حرم کی اطلاع درست ثابت ہوئی۔ رجسٹرڈ ووٹروں کی ۷۸ فی صد نے ریفرنڈم میں حصہ لیا اور ان میں سے ۵۸ فی صد نے دستوری ترامیم کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ تناسب صرف ترامیم ہی کے لیے نہیں جسٹس پارٹی کے لیے بھی تائید میں اضافے کا اعلان ہے۔ گذشتہ عام انتخابات میں اردوگان کو ۳۷ فی صد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ ریفرنڈم میں تمام اسلام پسند طاقتوں نے بھرپور حصہ لیا۔ اربکان کی سرپرستی اور ڈاکٹر نعمان کور تلموش کی صدارت میں سعادت پارٹی نے بھی اور نورسی تحریک کے وارث فتح اللہ گولان نے بھی۔ گولان نے تو اپنے پیغام میں ترک عوام سے کہا: ’’ہرشخص ریفرنڈم کے حق میں ووٹ ڈالے، اس کے لیے اگر قبروں سے مُردوں کو بھی جگاکر لایا جاسکے تو لایا جائے‘‘۔ ۱۳ستمبر ۱۹۸۰ء کو اربکان اور حلیفوں کی حکومت کے خلاف فوجی انقلاب آیا تھا تو ’ترکیا‘ نامی اخبار نے سرخی لگائی  تھی: ’’فوج نے اقتدار سنبھال لیا‘‘۔ ۱۲ستمبر کے حالیہ ریفرنڈم کے بعد ’سٹار‘ اخبار نے سرخی جمائی: ’’عوام نے اقتدار سنبھال لیا‘‘۔

اس عوامی انقلاب سے ترک تاریخ کا ایک نیا مرحلہ شروع ہونے جا رہا ہے۔ یہ ریفرنڈم اور ترامیم بہت بنیادی اصلاحات کا نقطۂ آغاز ثابت ہوں گی۔ اردوگان کے الفاظ میں: ’’یہ ترامیم ایک کنجی ہیں۔ اس سے ترکی اپنے مکمل نئے دستور کا تالا کھولے گا‘‘۔ انھوں نے ریفرنڈم کے نتائج کے بعد تقریر میں کہا: ’’ہم کل سے نئے دستور کا مسودہ تیار کرنے کا کام شروع کر رہے ہیں‘‘۔

ترکی کے حالیہ ریفرنڈم اور سیاسی تبدیلیوں میں پوری دنیا کے لیے بہت سے اسباق پوشیدہ ہیں۔ ہر اسلام دشمن کے لیے پیغام یہ ہے کہ جب تک کرپشن سے پاک اور خدا خوف قیادت ملک کی باگ ڈور نہیں سنبھالتی ترقی و استحکام ممکن نہیں ہے۔ ترکی نے گذشتہ آٹھ سال میں جو اقتصادی ترقی کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ۲۰۰۲ء میں اس کی مجموعی سالانہ آمدن ۳۵۰ ارب ڈالر تھی۔ ۲۰۰۸ء میں ۷۵۰ ارب ہوگئی۔ ۲۰۰۲ء میں فی کس سالانہ آمدن ۳۳۰۰ ڈالر تھی، ۲۰۰۹ء میں فی کس آمدن ۱۰ ہزار ڈالر ہوگئی۔ ۲۰۰۲ء میں ترکی کی برآمدات ۳۳ ارب ڈالر تھیں، ۲۰۰۸ء میں یہ برآمدات ۱۳۰ ارب ڈالر ہوگئیں۔ اس ضمن میں اور بھی بہت سے پیمانے ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں ہے۔

ترکی ہر اسلام پسند کو بھی یہ پیغام دے رہا ہے کہ بڑھتی ہوئی خرابی یا انتخابی نتائج سے  مایوس ہوکر اِدھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں مارنا، شکست خوردہ ہوکر بیٹھ جانا یا بندوق اور بارود اُٹھا کر اپنے ہی ملک میں خون ریزی شروع کر دینا کامیابی کا راستہ نہیں، اصل راستہ جدوجہد، محنت اور ہر ہم وطن کا دل جیتنے کی کوشش کرنا ہے۔ حالیہ ریفرنڈم میں ۵۸ فی صد ووٹروں کا اردوگان کے ساتھ کھڑے ہونا سب کو بتارہا ہے کہ آیندہ انتخابات بھی جسٹس پارٹی کے ہیں۔

یہ عہد ظلم اور ظلم کی طرف داری کا عہد ہے۔ اس عہد میں سیکولر دہشت گردی اپنے عالمی سرپرستوں اور مقامی سطح پر ذہنی افلاس کی شکار دانش وری کے زور پر سیاہ کو سفید قرار دینے پر مُصر ہے۔

تاریخ کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سابق مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے پہلے تو ۱۹۶۸ء میں اگر تلہ سازش کے ذریعے پاکستان توڑنے کے لیے بھارت سے سازباز کی، مگر چند اقتدار پرستوں اور سیاست کے زور پر وہ مقدمہ رفت گزشت ہوا۔ پھر ۱۹۶۹ء میں تعلیمی اداروں میں   عوامی لیگ اور اس کی طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس لیگ (چھاترو لیگ) نے اسلامی اور پاکستانی سوچ کے حامل طلبہ پر کھلم کھلا حملے شروع کیے، مگر حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ ۱۹۷۰ء کو اسی عوامی لیگ نے پورے مشرقی پاکستان میں کسی بھی مدمقابل سیاسی جماعت کو اپنی انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی اور ان کے جلسوں پر حملے کر کے الٹا دینے اور سامعین کو  قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ تب اس کی پشت پر بھارت نواز سیکولر، روس نواز کمیونسٹ اور صاحب ِ ثروت ہندو موجود تھے۔ سیاسی حریفوں کا کھلے سیاسی عمل اور دلیل کے میدان میں مقابلہ کرنے کے بجاے عوامی لیگ نے بدترین فسطائیت کا راستہ چُنا اور اس طرح یک طرفہ انتخابی نتائج حاصل کیے۔

پھر اسی سیکولر قوم پرستی کا بدترین ناگ اس وقت آگ اُگلنے لگا۔ یوں یکم مارچ سے ۲۵مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران میں پورے مشرقی پاکستان میں اُردو، پنجابی اور پشتو بولنے والے     ہم وطنوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس المیے کا دستاویزی ثبوت مارچ ۱۹۷۱ء کے عالمی اخبارات اور قرطاس ابیض میں موجود ہے کہ عوامی لیگ، مسلح غنڈوں اور مکتی باہنی کے درندوں نے صرف ۲۵یوم میں ۳لاکھ پاکستانیوں کو ذبح کرنے کے لیے باقاعدہ مذبح خانے بنائے، ان کی بہوبیٹیوں کی عزت و ناموس کو پامال کرنے کا اذنِ عام دیا، مگر افسوس کہ ان مظلوم انسانوں کا خون، عزت، ناموس اور جانیں بس رزقِ خاک بن کر رہ گئیں۔ پاکستان کے یہ ایسے مظلوم و مقتول ہیں کہ    جن کے قتل کا دعویٰ کرنے کے لیے اس دنیا میں نہ کوئی حکومت ہے اور نہ کوئی تنظیم۔

یہی وجہ ہے کہ جب مارچ ۱۹۷۱ء کے بعد بھارت کی فوجی مدد سے عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کا عمل شروع کیا تو اُس وقت بھی ہمارے ہاں ساری سیکولر دانش مکمل طور پر خاموش رہی، بلکہ ان قاتلوں اور غداری کا ارتکاب کرنے والے عوامی لیگیوں اور مکتی باہنی کے غنڈوں کو ’ضمیر کے سپاہی‘ قرار دیتی رہی۔

ازاں بعد مکتی باہنی نے اپنے ہاتھوں قتل کیے جانے والے ۳ لاکھ مظلوم پاکستانیوں کے الزام کا داغ دھونے کے لیے، پہلے تو دسمبر ۱۹۷۱ء میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس جنگ میں ۳لاکھ بنگالی عورتوں کی بے حُرمتی ہوئی ہے اور ۱۰لاکھ کو قتل، مگر ۲۰ روز بعد شیخ مجیب الرحمن نے رہا ہوتے ہی   بے حرمتی کی تعداد کو ۱۰لاکھ بنا دیا اور بھارت کی مسلط کردہ جنگ میں مارے جانے والے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کی تعداد کو ۳۰ لاکھ تک بڑھا دیا۔ دنیابھر نے لفظوں کی یہ حیرت انگیز جادوگری دیکھی، مگر کسی نے اس بدترین جھوٹ کا جواب دینے کی کوشش نہ کی۔ اِدھر مغربی پاکستان میں نہایت منظم یونی ورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کی بڑے پیمانے پر موجودگی کے باوجود کسی نے جواب دینے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ کیا زندوں کی کوئی بستی ایسے صریح ظلم پر خاموش رہ سکتی ہے؟ پاکستان کے تعلیمی اداروں کے نصاب اس تخریب اور جارحیت کے حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔دوسری جانب صورت یہ ہے کہ عریاں جھوٹ پر مبنی اعداد و شمار بنگلہ دیش کی نئی نسل کے ذہنوں میں راسخ، دنیا کی دستاویزات کا حصہ اور پاکستانی سیکولر لابی کا ہتھیار بن چکے ہیں۔

اب دیکھیے اس تصویر کا دوسرا پہلو___ گذشتہ تین برسوں کے دوران میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو جس سیاسی،ابلاغی اور پُرتشدد یلغار کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس پر خود یہاں پاکستان کی سیکولر لابی کے فعال کارندے شاداں و فرحاں نظر آتے ہیں، اور بنگلہ دیش میں تو اسی سیکولر بنگلہ قومیت کی کوکھ سے جنم لینے والی عوامی لیگی حکومت کے نزدیک سب سے بڑا ہدف ہی یہ ہے کہ وہ کسی طرح جماعت اسلامی کو ختم کردے، اس کی قیادت کو پھانسی پر لٹکا دے اور اسلامی لٹریچر کو نیست و نابود کردے۔ ان شاء اللہ یہ دیوانگی اپنی موت آپ مرے گی۔

اس سیکولر لابی کا یہ نامۂ اعمال کس درجے میں آتا ہے؟ مثال ملاحظہ کیجیے: بیرسٹر عبدالرزاق، بنگلہ دیش سپریم کورٹ کے ایک نہایت سینیر قانون دان ہیں۔ انھوں نے ۱۹۸۰ء میں بیرسٹری کی ڈگری لندن کی لنکن اِن سے، جب کہ سرمائیکل ہاورز چیمبرز اور لارڈ پیٹر رالنسن چیمبرز سے قانونی مہارت حاصل کی۔ انھوں نے اپنے وطن بنگلہ دیش واپسی پر، ملک کی تاریخ کا ایک مشہور مقدمہ لڑا بنگلہ دیش بنام پروفیسر غلام اعظم (46 DLR)۔ جماعت اسلامی کے قائد پروفیسر غلام اعظم کی شہریت کا یہ مقدمہ انھوں نے جیتا۔ اسی طرح انھوں نے چٹاگانگ پہاڑی سلسلے پر ’علاقائی کونسل ایکٹ‘ کو عدالتِ عظمیٰ میں قانونی طور پر ختم کرایا۔ پھر اخبار اماردیش پر پابندی کا خاتمہ کرایا۔ اس اعتبار سے قومی سطح پر دیگر بہت سے مقدمات میں کامیابی نے انھیں مرکزی حیثیت دلا دی۔ یہی نہیں بلکہ ناداروں کو مفت قانونی و عدالتی مدد فراہم کرنے کے لیے وہ ہردم مستعد رہتے ہیں۔

بیرسٹر عبدالرزاق جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل بھی ہیں، اور گذشتہ مہینوں میں عوامی لیگی حکومت نے جماعت اسلامی کے پانچ مرکزی رہنمائوں کو فی الحقیقت پھانسی دینے کے لیے جس گھنائونے ڈرامے کا آغاز کیا ہے، اس ڈرامے کو ناکام بنانے کے لیے، سپریم کورٹ میں عبدالرزاق مذکورہ پانچ لیڈروں کے وکیلِ دفاع ہیں۔ لیکن دیکھیے اس قابلِ احترام قانون دان کے ساتھ بھارت نواز فسطائی حکومت کا کیا رویہ ہے؟ دی ڈیلی اسٹار ڈھاکا لکھتا ہے: ’’۵جولائی ۲۰۱۰ء کو جس وقت بیرسٹر عبدالرزاق سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑ رہے تھے، اسی وقت ان کے چیمبر میں سادہ پوش پولیس اہل کار آن دھمکے، اور ان کے معاون کوثر حمید ایڈووکیٹ کو زدوکوب کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’تمھارے دفتر میں بم بنائے جاتے ہیں، ہم تلاشی لیں گے‘‘۔ کوثرحمید نے جواب دیا: ’’بھائی، یہاں صرف قانون کی کتابیں ہیں، آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ لیکن پولیس والے توہین آمیز رویہ اختیار کرنے کے ساتھ دفتر میں اتھل پتھل کرکے چلے گئے۔ کوثرحمید نے قریبی پولیس اسٹیشن میں فوجداری رپورٹ درج کرانا چاہی مگر تھانے کے سربراہ نے رپورٹ درج کرنے سے انکار کر دیا‘‘ (اخبار مذکور، ۶ جولائی ۲۰۱۰ئ)۔ پولیس کے اس رویے پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور سیکرٹری نے احتجاج کیا اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اپنے ہنگامی اجلاس میں اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ (ایضاً، ۷جولائی ۲۰۱۰ئ)

۲۶ جولائی ۲۰۱۰ء کو بیرسٹر عبدالرزاق نے اُس نام نہاد ’جنگی جرائم کے ٹربیونل‘ کی حیثیت اور اہلیت کو چیلنج کرتے ہوئے رٹ پیٹشن (۵۳۹۱، ۲۰۱۰ئ) دائر کی۔ اگلے روز ۲۷جولائی جب عبدالرزاق سپریم کورٹ سے اپنے چیمبر ۶۷ نیاپلٹن آرہے تھے کہ پولیس والے پھر ان کے دفتر آن دھمکے اور ان کی آمدورفت کے اوقات کا شیڈول نوٹ کرکے لے گئے۔ ۱۲؍اگست کو دو پولیس افسران پوری گارد کے ساتھ بیرسٹر عبدالرزاق کے گائوں بیانی بازار، سلہٹ جاپہنچے اور خاندان کے ایک ایک فرد کے کوائف اکٹھا کرنے کی کارروائی کے دوران علاقے بھر میں دہشت پھیلائے رکھی۔ اس نوعیت کی یہ پے درپے کارروائیاں دراصل ملک کے اس مایہ ناز قانون دان کو اعصابی طور پر ہراساں کرنے اور اپنی منصبی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے، جماعت اسلامی کے مرکزی رہنمائوں کے دفاعی اور عدالتی امور میں رکاوٹ ڈالنے کا حربہ ہیں۔ اس امر پر ڈھاکا سپریم کورٹ کے وکلا میں گہری تشویش پائی جاتی ہے کہ ممکن ہے بیرسٹر عبدالرزاق کو کسی جھوٹے مقدمے میں پھانس کر چندماہ کے لیے منظر سے ہٹا دیا جائے، یا پھر فسطائیت کا نشانہ بناکر ویسے ہی ختم کر دیا جائے۔

اس شرم ناک صورتِ حال کو بے نقاب کرنے کے لیے بنگلہ دیش کے بہت سے منصف مزاج حضرات تو یک زبان ہیں، لیکن سیکولر، قوم پرست، عوامی لیگی حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی، اور جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاں کی سیکولر صحافی لابی، اس ظلم و زیادتی میں عوامی لیگ کی ہم نوا ہے۔ وہ جنھوں نے ۱۹۷۱ء میں تین لاکھ غیربنگالی پاکستانیوں کے خون کی ہولی کھیلی تھی، اور ان کے دستاویزی اور تصویری ثبوت تک موجود ہیں، وہ اس وقت حکومت اور پارٹی کی  اہم مسندوں پر براجمان ہیں، اور جنھوں نے کوئی جرم نہیں کیا، انھیں یک طرفہ طور پر ملزم و مجرم  قرار دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔ کیا تہذیب و شائستگی اور عدل و انصاف کے الفاظ یوں ہی بے توقیر ہوتے رہیں گے؟

کوئی بھی پاکستانی خواہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو قومی مسائل سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ اس لیے کہ خوش بختی سب کی خوش بختی ہے، بدبختی سب کی بدبختی ہے۔ سارے   اہلِ قوم اس ملک کی بنا و تعمیر کے ذمہ دار تھے اور بقا و توقیر کے ذمہ دار ہیں۔ افراد کے عزائم کا اتحاد اجتماعی قوت کی اساس ہے   ع

ہر فرد ہے ملّت کے مقدر کا ستارا

اس اعتبار سے اجتماعی فلاح و بہبود اور استقلال و خلود کے معاملے میں سیاست دان اور غیرسیاست دان کی تفریق ایک ’فرقہ وارانہ‘ بات ہوگی۔

حصولِ پاکستان کی جدوجہد کی روح باعزت بقا کا جذبہ تھا۔ یہ وہی جذبہ تھا جس کے تحت حضرت عالم گیر نے اکبری روایات میں یک سر تبدیلی پیدا کردینی چاہی تھی اور خاصے کامیاب بھی رہے تھے۔ یہ وہی جذبہ تھا جس نے سراج الدولہ، حیدر علی اور بطور خاص ابوالفتح ٹیپو کو انگریزوں سے متصادم کر دیا تھا، اوریہ وہی جذبہ تھا جس کی تسکین کی خاطر اللہ والے سروں سے کفن باندھے بنگال، بہار، اڑیسہ، یوپی، مدراس اور دکن سے کبھی پیدل، کبھی سوار نکلتے تھے جن کا زادِ راہ تقویٰ تھا، جن کا مقصود اعلاے کلمۃ الحق یا شہادت تھا۔ وہ مجاہدین اسلام برعظیم پاک و ہند کے شمال مغربی کونے میں پہنچتے تھے۔ کبھی سندھ کی راہ سے، کبھی کشمیر کے راستے سے، تاکہ پنجاب و سرحد کے علاقوں کو غیروں کے پنجۂ استبداد سے چھڑا کے اس کے نواح میں مضبوط اسلامی مرکز باقاعدہ قائم کریں اور پھر باقی برعظیم کی بازیابی کا پروگرام بنائیں۔ روح ایک تھی، بدن جدا جدا تھے۔ زبانیں جدا جدا تھیں، نسلیں اور علاقے جدا جدا تھے۔ وہ بظاہر ناکام ہیں مگر ہر معنوں میں ناکام نہیں رہے، روحانی اعتبار سے   ان کا جہاد جاری رہا۔ مسلمانوں نے آزادی کے تصور کو کبھی پسِ پشت نہ ڈالا۔

داستانِ مجاہدین لکھنے اور بیان کرنے والے جانتے ہیں کہ پاکستان انھی مجاہدین کے ارادوں کی تکمیل کا مظہر ہے۔ وہ تلوار سے لڑے تھے، جنوبی اور مشرقی ہونے کے باوصف شمالی اور مغربی بھائیوں کی خاطر قربان ہوگئے تھے۔ ان کے اخلاف نے بھی شمالی، مغربی اور مشرقی اقطاع کے لیے اپنے آپ کو قربان کر دیا۔ جنگ کا انداز بدل گیا تھا، روح وہی تھی۔ بزرگ تلوار سے لڑے، عزیزوں نے آئینی جنگ لڑی، مگر باضابطہ مرنے مارنے کے جذبے کو آئینی جنگ کے پسِ پشت رکھ کر۔ یہ جذبہ بے اختیار اسلامی حمیت کا جذبہ تھا، آزادی واستقلال کا جذبہ تھا۔ مجاہدین کے جہاد کو کسی نے غیروں کے خوف کا نتیجہ نہ کہا، اسے دیوانگی و جنون تو کہا جاسکتا تھا۔ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے دیوانے لوگ تھے۔ وہ سر کٹا سکتے تھے سر جھکا نہ سکتے تھے۔ اسی جذبے نے ہمیں ہمارے زمانے میں سرشار کیا، بیدار کیا اور ہم سرگرم پیکار ہوگئے۔ مگر بعض حقیقت فراموش ’اہلِ اخلاص‘ نے کہا: اے مسلمانو! تم ہندو کے ڈر سے پاکستان مانگ رہے ہو۔ پاکستان کا مطالبہ بزدلی کی نشانی ہے اور مسلمان بزدل نہیں ہے۔ دُکھ تو اس بات کا ہے کہ آج بھی اس طرح کی آواز کبھی کبھی سننے   میں آجاتی ہے کہ پاکستان کی تخلیق ہندو کے خوف کی وجہ سے عمل میں آئی تھی۔ یہ عجیب و غریب  اُلٹی منطق ہے۔

بھائیو! اگر ہم بزدل ہوتے تو اپنے طاقت ور رفقا کی مرضی کے خلاف کیوں کر آواز اُٹھاتے؟ مجاہدین نے آزادی کے لیے علَم اُٹھایا تو وہ بزدل نہ قرار دیے گئے اور ہم نے آزادی کے لیے علَم اُٹھایا تو بزدلی کا طعنہ دیا جانے لگا۔ یہ طعنہ دینے والے بزرگ کس غفلت، یا مروت، یا ضد کا شکار ہوگئے؟ کسی قوت کے خلاف آواز بلند کرنا بزدلی ہے یا اس قوت کے خوف سے اس کی منشا کے خلاف لب نہ کھول سکنا بزدلی ہے ؟ اگر ہم ہندو کی عددی کثرت اور مالی وسائل کی وسعت کو دیکھ کر دبک جاتے اور اس کی مرضی کے خلاف لب کھولنے کی جرأت نہ کرتے تو یہ بزدلی ہوتی، مگر ہم نے تو طاقت ور اکثریت کی مرضی ٹھکرا دی___ ہم نے یہ اقدام جس خوف کے باعث کیا تھا وہ ہندو کا خوف نہ تھا وہ غلامی کا خوف تھا۔ وہ آزادی سے محرومی کا خوف تھا، وہ غیرت و حمیت کی موت کا خوف تھا، وہ اپنی قومی انفرادیت کے فنا کا خوف تھا۔ یہ بات اتنی باریک نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے، ہاں نیت کا پیچ نظر کی ڈوری کو اُلجھا دے تو جدا معاملہ ہے۔

اس کے باوصف آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ مسلمانوں نے برعظیم پاک و ہند کے معاملات میں کسی مرحلے پر اکثریت کو لائق اعتماد نہیں جانا۔ ہم نے اعتماد بھی کیا، اس انداز میں کہ آزادی ملے تو دونوں قوموں کو ملے، دونوں آزادی کے نتائج سے برابر نفع اندوز ہوں، دونوں جملہ کاروبار آزادی میں ایک دوسرے کے شریک و سہیم ہوں، مگر اکثریت نے دل شکنی کی، بار بار دل شکنی کی۔ اکثریت کو ہماراوجود ہی گوارا نہ تھا۔ وہ گروہ یہ چاہتا تھا کہ انگریز کے نکلنے تک مسلمانوں کو بھی نڈھال کر دیا جائے اور برابر کا ساتھی اور رفیق بنانے کی جگہ خادم و غلام کے درجے پر پہنچا دیا جائے۔ مسلمانوں نے اس بات کو بھانپ لیا، احتجاج کیا، جواباً مہاتمائی کلمات ملے جو ’اگرچہ‘ تاہم ’بہرحال‘، ’چنانچہ‘، ’چونکہ‘، ’البتہ‘ میں ملفوف تھے۔ جب احتجاج کا لہجہ سخت ہوا تو الزام لگا تم تنگ دل ہو، فرقہ پرست ہو۔ جو قوم ہمراہی قوم سے اپنے جائز حقوق کا تعین چاہے وہ فرقہ پرست اور جو قوم اپنے ہمراہی مخلص رفقا کا خون پیتی چلی جائے اور ان کی تباہی کے درپے رہے، وہ ’عالی ظرف‘۔  ہم ساتھیوں کی نیت دیکھ کر چونکے۔ حضرت قائداعظم یا دیگر زعما نے علیحدگی کا نعرہ آناً فاناً نہیں  بلکہ باقی ہر طریق عمل کی کامرانی سے مایوس ہوکر بلند کیا تھا۔ ہم ہندو اور انگریز کی مرضی کے خلاف     کا مگار ہوئے تھے، اور ان علاقوں کے مسلمانوں نے جو پاکستان کا حصہ نہ بن سکتے تھے سوچ سمجھ کر پاکستان کے قیام کی جدوجہد کی تھی۔ انھوں نے سیداحمد شہید کے متبعین کی طرح مسلم اکثریت کے علاقوں کی خاطر قربانی دی تھی، نہ انھوں نے دھوکا کھایا تھا، اور نہ اکثریت کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے انھیں دھوکا دیا تھا۔

یہاں پھر یہ بات دہرائوں گاکہ یہ کام محض سیاست دانوں کا نہ تھا، پوری قوم کا تھا۔ سیاست دان اور غیرسیاست دان بے معنی تفریق ہے۔ امتیاز فقط قائدین کو حاصل ہے۔ ورنہ سیاست دان تو قوم کا ہر فرد تھا اور آج بھی ہے، نہیں تو ہونا چاہیے۔ آپ کو یاد ہے کہ اس طوفان تمنا میں جہاں وکلا شریک تھے وہاں سول افسر، پولیس افسر، تاجر اور اساتذہ بھی شامل تھے، فوجی سپاہی بھی مضطرب تھے اور پولیس کے سپاہی بھی، کلرک بھی سرگرم تھے اور طلبہ بھی۔ قائدین نے متنبہ کیا، قوم متنبہ ہوگئی، اور منزل پر پہنچ گئی مگر جہاد ختم نہیں ہوا۔ ابھی کمر کھولنے کا وقت نہیں آیا، بلکہ زندہ قوموں کے لیے ایسا وقت کبھی آیا ہی نہیں۔

اگر اس وقت آزادی و استقلال کی تمنا نے پوری قوم کو ہوشیار و مستعد کر دیا تھا تو آج قوم کیوں سُست پڑ رہی ہے؟ آج کیوں قوم بقاے پاکستان کی ذمہ داری محض لیڈروں کے سر تھوپ کر سو رہی ہے؟ جن مخالف قوتوں نے پاکستان کے وجود میں آنے کی مخالفت کی تھی وہ تو بدستور برسرِ عداوت ہیں بلکہ مقابلے اور رقابت کی تلخی پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ پھر آج قوم کا فرد فرد کیوں حالات کی نزاکت کے مطابق چوکس نہیں؟ پہلے مقابلہ فقط برعظیم کی حدود کے اندر تھا۔ اب مقابلہ بین الاقوامی حیثیت اختیار کرگیا ہے، لہٰذا آج پہلے سے بھی زیادہ بیداری اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ قائدین کا فرض ہے کہ قوم کو غافل نہ ہونے دیں اور قوم کا فرض ہے کہ اپنے قائدین کو جھنجھوڑتی رہے۔

اسلام اور کفر دو الگ ملتیں ہیں۔ ان میں سمجھوتہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ظلمت نور کے درپے رہے گی، باطل حق کے گریباں گیر رہے گا، اس لیے ہمیں ہندوئوں سے کوئی شکایت نہیں۔ وہ اگر آسام، بھوپال، جبل پور، میرٹھ، ممبئی، کلکتہ وغیرہ میں مسلمانوں کو پامال کریں تو وہ فطرت سے مجبور ہیں۔ اگر واہگہ کی راہ سے پاکستان پر چڑھ دوڑیں اور یہاں پہنچ کر مسلم معاشرے کو کچل دینے کا تہیہ کریں تو جب بھی وہ مجبور ہیں۔ ان کے ڈنک کو کند کرنے یا توڑ دینے کا بندوبست ہمارا کام ہے۔ ہم بھی اسی صورت میں چین سے جی سکیں گے اور بھارت میں بسنے والے مسلمان بھی!

پاکستان بننے کے ساتھ ہی ہندوئوں نے اس کو تباہ کرنے کے منصوبے بھی بنانے شروع کردیے تھے۔ مگر شاید وہ نہ جانتے تھے کہ حضرت قائداعظم کے بقول ’’پاکستان مرضی مولا‘‘ ہے، وہ بن کر رہا اور تن کر رہ رہا ہے، وہ مٹنے کے لیے وجود میں نہیں آیا۔ آپ کو یاد ہے کہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے فوراً بعد جسٹس مہرچند مہاجن کا بیان ہندستانی اخبارات میں چھپا تھا جس میں مذکور تھا کہ پاکستان بنتے ہی ہم نے ایک اہم اجتماع منعقد کیا، جس میں سردار پٹیل، مہاراجا پٹیالہ، مہرچند خود، بخشی غلام محمد (یادش بخیر) جنرل تھمایا وغیرہ شامل ہوئے تھے اور طے پایا تھا کہ اس نوزائیدہ مملکت کو کاری ضرب لگا دی جائے، مگر حکومت نے ساتھ نہ دیا۔ آج وہ فتنہ یوں آنکھیں دکھا رہا ہے‘‘___ اس امر کی تصدیق اپنی کتاب میں جنرل کول نے بھی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ تجویز پنڈت نہرو کی خدمت میں پیش کی تو وہ بولے: پاکستان وہ ڈھانچا ہے جو خود ہی گرنے کو ہے، اسے ہم  گرا کے دنیا کی نگاہوں میں کیوں بُرے بنیں‘‘۔

پاکستان کو ڈھا دینے یا اس کے خود بخود ڈھے جانے کی تمنا ہندو کا ایک خوش آیند خواب تھا اور ہے۔ اگرچہ انگریز نے ہندو کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے ہمیں کمزور سے کمزور تر پاکستان مہیا کرنے کی کوشش کی تھی، اس کے باوصف یہ ڈھانچا روز بروز مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ بھارت نے بارہا ٹھوکر لگائی اور ہمیشہ منہ کی کھائی۔ ۱۹۶۵ء میں جو کچھ ہوا وہ ساری دنیا کے سامنے ہے۔ مگر ایک غلط نتیجہ یہ نکلا کہ ہم اس جنگ کے بعد غافل سے ہوگئے، خوداعتمادی نے دشمن کو ہماری نظروں میں حقیر بنا دیا، یہ رویہ بڑا خطرناک ہے۔ اس لیے کہ دشمن برسرِ انتقام ہے، وہ دیکھ چکا ہے کہ پاکستان نہ خودبخود ختم  ہوا اور نہ اس کے ضرب لگانے پر اسے کوئی نقصان پہنچا، لہٰذا اب وہ آخری بھرپور وار کرنے کا خواہاںہے۔ وہ زخمی سانپ کی طرح بل کھا رہا ہے۔ اس نے بین الاقوامی سطح پر ہمارے خلاف    محاذ در محاذ کھول رکھے ہیں، شب و روز سازش اور پروپیگنڈا جاری ہے تاکہ وہ ہمارے دوستوں کو ہم سے بدگماں کرے اور بدخواہوں کو مزید بدخواہ بنائے۔ وہ ہرلحظہ طاقت بڑھانے میں مصروف ہے۔ وہ اقتصادی طاقت ہو خواہ عسکری، امریکا اور روس کھلے بندوں اس کی مدد کر رہے ہیں۔ اندریں حالات ہم کیا فیصلہ کریں؟ کیا ہم ہندستان کی لیڈرشپ قبول کرلیں؟ یا کیا ہم کشمیر کو ہضم ہوجانے دیں؟ یا کیا ہم اپنے وجود کو ختم کرلیں؟ ہرگز نہیں۔

یہ بات تو صاف ہے کہ ہندو نے برعظیم کی تقسیم کو گئوماتا کی تقسیم قرار دیا تھا۔ وہ پاکستان کے وجود میں آنے اور اس کے باقی رہنے کو ہرگز برداشت نہیں کرسکتا، تاوقتیکہ پاکستان اتنا مضبوط ہوجائے کہ وہ اس چٹان سے ٹکرا ٹکرا کر آخر مایوس ہوکر بیٹھ جائے۔ یہ قوت پاکستان کے اندر   اتحادِ عمل اور اتحادِ خیال کے بغیر بیدار نہ ہوگی۔ ہر میدان میں ترقی کا قدم آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ لازم ہے کہ قوم کا بچہ بچہ سپاہی بھی ہو اور اسلامی حمیت کے جذبے سے سرشار بھی۔ اسی جذبے نے پاکستان کو جنم دیا تھا، وہی جذبہ اس کی مدافعت بھی کرے گا۔ کوئی بھی متبادل قدر اسلامی حمیت کی قائم مقام نہیں ہوسکتی۔ موٹی سی بات ہے کہ ہم نے آزادی اسلام کی خاطر اور اسلام کے نام سے حاصل کی تھی۔ یہ کہنا کہ یہ فقط اقتصادی ضرورت تھی بے بنیاد خیال ہے۔ ویسے میں اتنا    پوچھتا ہوں کہ یہ اقتصادی ضرورت کس گروہ کی تھی جس نے مجبور کیا کہ الگ گھر بنائو؟ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے گروہ کی، تو یہ گروہ کیوں توجہ طلب تھا؟ اس لیے توجہ طلب تھا کہ یہ اسلام کا نام لیوا تھا۔ گویا نام و بنیاد مخاصمت تو پھر بھی اسلام ہی رہا۔ بہرحال اسلامی حمیت کی تقویت اور پرورش لازم ہے ۔ ایسے جملہ عناصر اور جملہ اعمال کی سرکوبی ناگزیر ہے جو ملّت پاکستان کے دل میں اس حمیت کو کمزور کردینے کا باعث بنیں۔ حضرت قائداعظمؒ نے اگر قوم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ پاکستان اسلام کا گھر اور وطن ہوگا جہاں شریعت ِ محمدیؐ کارفرما ہوگی، تو وہ وعدہ سرتاسر مبنی براخلاص تھا۔ اخلاص کی نصرت اسی خلوصِ پیمان کے باعث تھی۔ اگر ہم خدا کو بھلا دیں گے اور عہدشکنی کریں گے تو مکافاتِ عمل کی اجتماعی سزا کا سدِباب مشکل ہوگا۔ (انتخاب: پاکستان، حصارِ اسلام، ص ۱۳۴-۱۳۹)

سپریم کورٹ میں آئین کی اٹھارھویں ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت دو مہینے سے جاری ہے۔ اس دوران فاضل جج ترمیم کی بعض شقوں کے مضمرات کے متعلق دونوں جانب کے وکلا کو وضاحت کی دعوت دیتے رہے ہیں۔ ۱۶؍اگست ۲۰۱۰ء کو حکومت کے وکیل افتخار احمد میاں نے اٹھارھویں ترمیم کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ لامحدود اختیارات کی حامل ہے اور عوام نے پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی دیا ہے۔ فاضل ججوں نے اس پر کئی سوالات اُٹھائے۔ ان سوالات کا لب ِلباب چیف جسٹس افتخاراحمد چودھری کے اس ریمارک میں موجود ہے کہ پارلیمنٹ کی حاکمیت کا یہ مطلب نہیں کہ اس کو آئین میں کوئی بھی ترمیم کرنے کا بے قید اختیار حاصل ہے: ’’اگر کل کلاں پارلیمنٹ یہ اعلان کردے کہ ریاست کی پالیسی اسلام نہیں، بلکہ سیکولرزم ہے تو کیا ہم اس کو قبول کرلیں گے؟‘‘

مسٹر جسٹس طارق پرویز نے یہی بات ان الفاظ میں کہی: ’’اگر پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل۲ میں ترمیم کردے، جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام ریاست کا مذہب ہے تو کیا یہ اختیارات کا جائز استعمال ہوگا؟‘‘

سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کی یہ باتیں روزنامہ ڈان (Daily Dawn)کو بہت شاق گزری ہیں۔ دو دن بعد اداریے میں ججوں کے موقف کو پریشان کن قرار دیتے ہوئے سوال کیا، آیا سپریم کورٹ نے ازخود یہ فیصلہ کرنے کا ذمہ لے لیا ہے کہ پاکستانی عوام کس سسٹم کے تحت رہنا چاہتے ہیں؟ سپریم کورٹ آئین کی نگہبان ہے یا پاکستانی ریاست کا بنیادی ڈھانچا متعین کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے؟

اداریہ نویس نے آگے چل کر اشارے اشارے میں سپریم کورٹ کے ارکان کو ہدف بنانے سے بھی گریز نہیں کیا، لکھتا ہے: The original meaning, and perhaps for reasonable people the only applicable meaning, of the term 'secularism' has been lost here in Pakistan.، یعنی یہاں پاکستان میں سیکولرزم کا اصل مفہوم جو معقول لوگوں کے نزدیک شاید واحد قابلِ فہم مفہوم ہے، گم ہوکر رہ گیا ہے۔ موصوف اپنے آپ کو ان ’معقول لوگوں‘ کی صف میں رکھتے ہوئے لکھتے ہیں: سیکولرزم کا مطلب لادینیت یا مذہب دشمنی نہیں ہے، لیکن قدامت پسند لوگ ۶۰ برس سے اس جھوٹ کی تکرار کرتے آرہے ہیں کہ سیکولرزم لادینیت ہے۔ سیاسی پارٹیوں تک تو یہ جھوٹ چل گیا، لیکن ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے بھی اسی مفہوم کو اپنا لیا ہے۔ یہاں ڈان کے اداریہ نویس نے قدامت پسندوں اور     اعلیٰ ترین عدلیہ کے علم میں اضافے کی غرض سے لیکچر دیا ہے کہ سیکولرزم تو مذہب کے معاملے میں غیرجانب داری کا نام ہے، یعنی ریاست کی مذہب سے جدائی کا محدود تصور!

کسی اخبار کا اداریہ اس کے مدیر کی راے کا اظہار ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ مدیرمحترم سیکولرزم کی وکالت کرتے کرتے دین اور مذہب کے فرق سے اپنی بے خبری کا راز فاش کر گئے۔ کسی عقیدے اور اس پر مبنی چند عبادات و رسوم کو مذہب کہتے ہیں۔ انگریزی زبان میں اظہار خیال کے عادی مدیر صاحب کو یقینا معلوم ہوگا کہ اوکسفرڈ ڈکشنری نے بھی ریلیجن کے یہی معنی بیان کیے ہیں، لیکن مثال میں اسلام کو بھی عیسائیت اور بدھ مت جیسے مذاہب کے زمرے میں شامل کردیا، حالانکہ اسلام ایک دین ہے، مذہب نہیں ہے۔ دین ایک خالص قرآنی اصطلاح ہے۔ انگریزی زبان میں اس کا متبادل کوئی لفظ نہیں، اس لیے انگریزی داں حضرات دین کو بھی ریلیجن کا ہم معنی لیتے ہیں۔

علماے اسلام اس فرق کو خوب سمجھتے ہیں۔ جب وہ عبادات اور ان کے لوازمات کے بارے میں مختلف فقہا کی تحقیق کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں تو کہتے ہیں: یہ امام ابوحنیفہؒ کا مذہب ہے اور یہ امام شافعیؒ یا امام مالکؒ یا اسی پاے کے دوسرے فقہا کا مذہب ہے۔ یہ تمام مذاہب دین اسلام کے دائرے ہی میں بیان کیے جاتے ہیں۔ مذہب عربی زبان ہی کا لفظ ہے، لیکن قرآن مجید میں یہ لفظ کہیں استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ اسلام کو دین ہی کہا گیا ہے، کیونکہ یہ محض چند رسوم و عبادات کا نام نہیں، بلکہ ضابطۂ حیات کا نام ہے جو انسان کی انفرادی زندگی کے علاوہ اجتماعی زندگی کی راہیں متعین کرتا ہے۔ وہ راہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں اور اللہ کے رسولؐ نے اپنے قول و فعل میں کھول کھول کر بیان کردی ہیں۔

ڈان کے زیرنظر اداریے میں سیکولرزم کی یہ بالکل صحیح تعریف بیان کی گئی ہے کہ یہ نظام ریاست کی مذہب سے جدائی کے تصور پر مبنی ہے۔ اگر یہاں مذہب سے مراد وہ دین ہے جو انسانی معاشرے کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتا ہے تو علامہ اقبال نے اسی کے بارے میں فرمایا تھا:  ع

جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

سیکولرزم کے مبلغوں کا کہنا ہے کہ قائداعظم محمدعلی جناح پاکستان کی ریاست کو اسی دین پر چلانا چاہتے تھے۔ ثبوت کے لیے قائداعظم کی اس تقریر کا ایک جملہ پکڑ رکھا ہے جو انھوں نے ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو دستورساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی تھی۔ اداریہ نویس کے بقول جملہ یہ ہے: ’’ریاست کو مذہب سے کوئی سروکار نہیں‘‘ (religion is not business of the state)۔

اسلام سے پاکستان کا رشتہ توڑنے کے خواہاں دانش مند گذشتہ ۶۳برس سے اسی ایک جملے کی گردان کرتے چلے آرہے ہیں۔ وہ یہ جملہ نہ صرف اس کے سیاق و سباق سے الگ کرکے بلکہ اس میں تحریف کر کے بیان کرتے ہیں۔ اس حقیقت کو فراموش کرتے ہیں کہ قائداعظم جس اسمبلی سے خطاب کر رہے تھے، اس کے ۷۹ ارکان میں ۱۶ کانگریسی ہندو شامل تھے، جو مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے ہندو ارکان میں سے منتخب کیے گئے تھے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران میں قائداعظم سمیت مسلم لیگ کے رہنما تسلسل کے ساتھ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کرتے رہے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد غیرمسلم اقلیتوں کو یہ اطمینان دلانا ضروری تھا کہ اسلامی ریاست میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔

قائداعظم کی تقریباً نصف تقریر اسی یقین دہانی پر مشتمل تھی۔ فرمایا: You may belong to any religion or cast or creed-that has nothing to do with the business of the state' (آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا رنگ و نسل سے ہوسکتا ہے، اس بات کا امورِ سلطنت سے کوئی تعلق نہیں)۔ یہ گویا امورِ مملکت، یعنی قانون کی نظر میں تمام شہریوں کے مساوی حقوق کا اعلان تھا، لیکن ڈان کے اداریہ نویس کا اصرار ہے کہ نہیں، یہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کی clarion call(صداے نفیر) تھی۔ اس کے نزدیک یہ ایک مسخ شدہ جملہ قرآن کو پاکستان کا آئین قرار دینے اور قائداعظم کے اسی مفہوم کے سابقہ بیانات کو منسوخ کرتا ہے۔ برسوں پہلے سردار شوکت حیات اور ممتاز محمد خان دولتانہ کے بیانات نظر سے گزرے تھے کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا نعرہ تو لوگوں کو تحریک میں شامل ہونے پر آمادہ کرنے کے لیے لگایا جاتا تھا۔ لیکن پاکستان بن جانے کے بعد قائداعظم نے اس قسم کی تقریریں کیں کہ ’’ہماری نجات اس اسوئہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبرؐاسلام نے ہمارے لیے بنایا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں‘‘۔ تو کیا یہ باتیں بھی انھوں نے عوام کو ورغلانے کے لیے کی تھیں؟ ڈان کہتا ہے: اصل مقصد تو سیکولر ریاست کا قیام ہی تھا۔

خدا کی شان ہے، جس اخبار نے ۷۰برس قبل قائداعظم کی سرپرستی میں اشاعت کا آغاز کیا تھا، وہ بھی آج اپنے مربی کی کردارکشی کرنے والوں کی صف میں کھڑا ہے۔ زیرنظر اداریے کا لبِ لباب یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کی راے کے برعکس پارلیمنٹ کو آئین کے اسلامی مزاج میں ترمیم کر کے نظامِ مملکت کو سیکولرزم کی بنیادوں پر استوار کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ کوئی فرد اگر اسلام سے منحرف ہوجائے تو اسے کیا کہتے ہیں؟

؎ میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو، ان نے تو

 قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترکِ اسلام کیا

(بہ شکریہ روزنامہ اُمت، کراچی، ۲۷؍اگست ۲۰۱۰ئ)

سُنن عادیہ اور سُنن ترغیبی

سوال: سنن عادیہ اور ترغیبی سنت سے کیا مراد ہے؟ نبی کریمؐ عرب رسم و رواج کے مطابق عمل کیا کرتے تھے۔ آپؐ اُونٹ یا گھوڑے پر سفر کرتے تھے لیکن آج ہم گاڑی، ریل یا ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہیں۔ آپؐ  نے تیروتلوار سے جنگ کی، جب کہ موجودہ زمانہ بندوق اور میزائل وغیرہ کا ہے۔ آپؐ  کا ایک مخصوص لباس اور رہن سہن تھا لیکن ہمارا طرزِعمل اس سے مختلف ہے۔ کیا سُنن عادیہ کا تقاضا نبی کریمؐ کے اسوہ کی پیروی نہیں؟

جواب: سنن عادیہ جن کو سنن زوائد بھی کہا جاتا ہے وہ سنتیں ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے عرف و رواج پر مبنی تھیں۔ ان کو قائم کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ یہ دین کا حصہ نہیں ہیں۔  سنن ترغیبی یا سنن ہدیٰ ان سنتوں کو کہا جاتا ہے جو دین کا حصہ ہیں اور ہمیں ان کے قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پگڑی باندھنا، تہ بند باندھنا اور تیر وتلوار کا استعمال کرنا سنتِ رسولؐ اور سنت اصحابِ رسولؐ ہے، لیکن یہ چیزیں ان سنتوں میں شامل نہیں ہیں جو سنن ہدیٰ ہیں اور جن کو قائم کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اور جن کو ترک کرنا بُرائی اور کراہیت کا سبب ہو بلکہ یہ سنن عادیہ ہیں۔ یہ آپؐ  کے دور کے رواج اور عرف پر مبنی تھے۔ تیروتلوار کا استعمال آپؐ  کے دور کے ذرائع تھے اور آج کے دور کے ذرائع راکٹ، میزائل اور جہاز وغیرہ جدید ذرائع ہیں۔ آج ہم تیروتلوار کو استعمال کرکے ثواب نہیں حاصل کرسکتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نشست و برخاست، آپؐ  کی چال ڈھال، آپؐ  کا لباس محبت کی بنیاد پر اختیار کرنا اور آپؐ  کے لباس، اور عاداتِ شریفہ، کھانے پینے کی چیزوں میں آپؐ  کی پسند و ناپسند کو اپنانا،  ان کا احترام کرنا قابلِ قدر ہے لیکن یہ سنن ہدیٰ میں شامل نہیں ہے بلکہ سنن عادیہ یا سنن زوائد ہیں۔ لباس اور کھانے پینے کے بارے میں عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا: ’’جو چاہو کھائو اور جو چاہو پہنو بشرطیکہ اسراف اور تکبر سے بچتے رہو‘‘ (بخاری، کتاب اللباس)۔ مراد یہ ہے کہ لباس اور کھانے پینے کے بارے میں شریعت نے حلال و حرام کی جو ہدایات دی ہیں، ان کی پابندی کرنا تو ضروری ہے اور یہ شرعی حکم ہے کہ لباس حلال ہو، حرام نہ ہو، ٹخنوں سے نیچے نہ ہو، بدن کو ڈھانپنے والا ہو اور موجب تکبر نہ ہو۔ آج مختلف ملکوں کے علما اور نیک لوگوں کے لباس اپنے اپنے ملکوں کے رواج کے مطابق ہیں۔ ان سب کے لباس اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کی تیاری اور ذائقوں میں فرق ہے۔ یہ سب اسلامی لباس اور اسلامی کھانے ہیں۔ عرب گوشت تیار کرتے ہیں، اس میں مرچ مسالہ نہیں ہوتا، پاکستانی کھانے، مرچ مسالے والے اور چٹ پٹے ہوتے ہیں۔ بعض ممالک میں صرف ڈبل روٹی ہوتی ہے۔ پاکستانی اور عرب ممالک کی روٹی کی طرح روٹی نہیں ہوتی۔ یہ سب سنن زوائد اور سنن عادیہ ہیں۔

یہ بات یاد رکھیں کہ کوئی شخص محبت رسولؐ کی بنا پر اسی طرز کا لباس پہنتا ہو جس طرز کا رسولؐ اللہ پہنتے تھے، مثلاً سر پر عمامہ باندھتا ہو، تہ بند باندھتا ہو، پائوں میں اسی قسم کے نعلین پہنتا ہو، مٹی کے برتنوں میں فرش پر بیٹھ کر کھاتا ہو، اسے آپؐ  کی محبت کا اجر مل جائے گا لیکن یہ کوئی حکمِ شرعی نہیں ہے۔ اسی لیے پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک کے علما کو آپ دیکھتے ہیں کہ ان کے لباس آپؐ  کے لباس اور ان کے جوتے آپؐ  کے جوتوں اور ان کے کھانے رسولؐ اللہ کے کھانوں کی طرح نہیں ہیں۔ اس لیے کہ آپؐ  نے یہ لباس اور کھانے اور تیروتلوار کا استعمال اپنے دور کے عرف و عادت کے مطابق کیا تھا، ثواب اور حکمِ الٰہی کی بنیاد پر نہیں کیا تھا۔(مولانا عبدالمالک)


سود پر قرض کے لیے تصدیق کرنا

س: ایک شخص کو سود پر قرض حاصل کرنا ہے۔ قرض لینے کے لیے اسے زمین کی فرد تقسیم یا سونا طلائی زیور بنک میں جمع کروانا ہوتے ہیں۔ کیا فرد تقسیم فراہم کرنے اور اس کی تصدیق کرنے والا اس گناہ میں شریک ہیں؟ کیا طلائی زیور کا وزن کرنے اور سونے کے کھرا ہونے کی تصدیق کرنے والا سنار مذکورہ گناہ میں شریک ہوں گے یا نہیں؟

ج: سود کا عمل زمین کی فرد نکالنے اور اس کی تصدیق کے بعد اور سونے کے زیور کے کھرا ہونے کی تصدیق کے بعد شروع ہوتا ہے۔ فرد کی تصدیق اور سونے کے کھرا ہونے کی تصدیق کے بعد مالکِ زمین اور مالکِ زیور کو اختیار ہے کہ اسے بنک میں جمع کرا کر قرض حاصل کرے یا دونوں چیزوں کی تصدیق کروانے کے بعد انھیں اپنے پاس رکھے اور قرض حاصل کرنے کے لیے بنک میں جمع نہ کرائے۔ جب ایسی صورت حال ہو تو تصدیق سودی قرض لینے میں تعاون شمار نہیں ہوتی۔ اس لیے تصدیق کرنے والے گنہگار نہیں ہوں گے۔ البتہ تصدیق کرنے والے کو سودی قرض لینے کی نیت سے تصدیق کرانے والے کو تنبیہہ کرنی چاہیے کہ ہماری تصدیق کو سودی قرض کے حصول کے لیے استعمال نہ کریں۔ اس کے باوجود،وہ باز نہ آئے تو وہ خود مجرم ہوگا۔ تصدیق کرنے والے کو اس کا گناہ نہ ہوگا۔ اس لیے قرض لینا اور سود دینا دونوں کام تصدیق کے بعد قرض خواہ کا انفرادی اور خود اختیاری عمل ہے(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، جواہر الفقہ،  مفتی محمد شفیعؒ مفتی اعظم پاکستان)۔ (ع - م)


سورج یا چاند گرہن کے موقع پر عبادت

س: سورج گرہن اور چاند گرہن کے موقع پر ایک مسلمان کو کیا کرنا چاہیے؟ اس موقع کی مخصوص کوئی دعا اور نماز ہو تو اس کی بھی وضاحت کردیں؟

ج: سورج اور چاند دونوں اللہ تعالیٰ کی عظمت کی نشانیوں میں سے ہیں۔ دونوں ایک خاص ضابطے کے پابند ہیں۔ سورج اور چاند دونوں پر زمین کا سایہ پڑنے کے خاص مواقع ہوتے ہیں جو باقاعدہ ایک قانون اور ضابطے کی پابندی کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں سورج یا چاند گرہن لگتا ہے۔ جب سورج پر زمین کا سایہ پڑتا ہے تو اس حالت کو کسوف، یعنی سورج گرہن کہا جاتا ہے، اور جب چاند پر زمین کا سایہ پڑتا ہے تو اس کو خسوف، یعنی چاند گرہن سے تعبیر کیا جاتاہے۔ رسولؐ اللہ کا فرمان ہے: سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ یہ کسی کی موت یا زندگی نہیں گہناتے ہیں۔ اگر تم انھیں گہناتا دیکھو، تو نماز پڑھو اور دعا مانگو یہاں تک کہ یہ کیفیت دُور، یعنی ختم ہوجائے (مسلم)۔ رسولؐ اللہ کے اس فرمان میں اُس وقت کے عامۃ الناس میں پھیلی ہوئی اس غلط سوچ کی تردید کی گئی ہے کہ سورج اور چاند شاید کسی کی موت یا زندگی پر گہناتے ہیں، یا کسی کے غم میں یہ سیاہ ہوجاتے ہیں، یا ان کی روشنی کسی مصیبت اور پریشانی کی وجہ سے ماند پڑتی ہے۔

اس حدیث سے یہ بات لوگوں پر واضح کردی گئی ہے کہ دراصل سورج اور چاند دونوں  اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں میں سے ہیں۔ دونوں عظیم نعمتیں ہیں جن پر مخلوقات کی زندگی کا دارومدار ہے۔ گرہن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ نعمتیں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، اوراتنی بڑی دو نشانیاں بھی اللہ کے قبضۂ قدرت سے باہر نہیں ہیں۔ وہی عطا کرنے والا ہے،و ہی سلب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بڑی سے بڑی چیز اجرامِ فلکی، ستارے اور سیارے بھی اُس کی گرفت سے آزاد نہیں ہیں، انسان تو بہت معمولی مخلوق ہے۔ اس کو اپنے پروردگار کے سامنے عاجزی، بے بسی اور بندگی کا اظہار کرنا چاہیے اور ان کیفیات کا اظہار نماز، سجدے اور رکوع کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔

سورج گرہن کے موقع پر رسولؐ اللہ سے دو رکعت نماز پڑھنا ثابت ہے۔ یہ نماز عام طور پر ادا کی جانے والی دورکعت نماز کے طرز پر ہوتی ہے۔ چار رکعت پڑھنا بھی جائز ہے۔ قراء ت کرنا سنت ہے۔ رکوع اور سجدے بھی طویل ہونے چاہییں اور اپنے گناہوں پر ندامت، توبہ تائب ہونے کے جذبے کے ساتھ خوب رو رو کر گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کی جانی چاہییں۔ سورج گرہن کی نماز کے لیے اذان و اقامت نہیں، صرف الصلٰوۃ جامعۃ ، یعنی نماز تیار ہے، کا اعلان کیا جاتا ہے اور جماعت کھڑی کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کے سیاسی اور انتظامی ذمہ داروں کی امامت میں نماز کا ہونا زیادہ پسندیدہ اور مستحسن ہے۔ یہ نماز مسجد میں بھی پڑھی جاسکتی ہے، اور باجماعت انتظام نہ ہونے کی صورت میں تنہائی میں انفرادی طور پر بھی ادا کی جاسکتی ہے۔ سورج گرہن کی نماز کے لیے ممنوعہ اوقات کا لحاظ رکھا جائے۔ ان اوقات میں نماز کے بجاے صرف دعا پر اکتفا کیا جائے۔

سورج گرہن اور چاند گرہن دونوں موقعوں پر گرہن کی نماز ادا کی جاتی ہے، البتہ چاند گرہن کے موقع پر گھروں میں انفرادی نماز کو ترجیح دی جائے گی۔ ان دونوں نمازوں کی کوئی قضا نہیں ہے۔ اگر بروقت یہ نماز نہ پڑھی گئی تو بعد میں اس کی ادایگی نہیں ہے، البتہ نوافل پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس طرح سورج گرہن اور چاند گرہن دونوں مواقع پر اللہ تعالیٰ کے حضور دو چار رکعت نماز ادا کرنا چاہیے۔گرہن کو کسی کی موت و پیدایش یا حادثے اور المیے کے ساتھ منسلک نہیں سمجھنا چاہیے۔ (مصباح الرحمٰن یوسفی)

حیات النسائ: (مناکحات)، میاں مسعود احمد بھٹہ ۔ ناشر: آہن ادارہ اشاعت و تحقیق، لاہور۔ ملنے کا پتا: ۳-انجمن اسلامیہ بلڈنگ، ۳۹-لوئرمال، لاہور۔ صفحات: ۷۸۱۔ قیمت (مجلد): ۸۰۰ روپے۔

دورِ جدید کے مسائل میں جہاں معیشت بنیادی اہمیت اختیار کرگئی ہے وہاں معاشرتی مسائل بالخصوص اسلامی نظامِ حیات سے مناسب واقفیت نہ ہونے کے سبب ازدواجی زندگی افراط و تفریط کا شکار ہوگئی ہے۔ وہ گھرانے بھی جو بظاہر دین دار شمار کیے جاتے ہیں، بہت سی ایسی رسومات و رواج کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں جو اسلام کی روح کے منافی ہیں۔ ایک جانب ایمان و تقویٰ پر   درس ہوتا ہے تو دوسری جانب ’برادری کی عزت‘ کے نام پر ان جاہلی رسوم پر عمل بھی ہوتا ہے جنھیں دور کرنے کے لیے اسلام آیا تھا۔

اسلام سے عمومی ناواقفیت کی بنا پر آج بھی عالمِ اسلام بشمول پاکستان میں خاندانی زندگی اور معاملات میں بے شمار غیراسلامی روایات پر عمل کیا جا رہا ہے۔ اس لیے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ سرکاری اور غیرسرکاری نظامِ تعلیم میں خاندان کی اہمیت، مرکزیت اور اس کے قیام و بقا کے حوالے سے مفصل ابواب شامل کیے جائیں، تاکہ آنے والی نسلیں وہ غلطیاں اور حماقتیں نہ کریں جو ان کے بزرگ عرصے سے کرتے چلے آرہے ہیں۔

میاں مسعود احمد بھٹہ صاحب کی تالیف حیات النساء (مناکحات) اس حیثیت سے ایک بروقت تالیف ہے جس میں آدابِ زوجیت، نکاح، حق مہر، طلاق و عدت اور شوہر اور بیوی کے باہمی حقوق پر بہت مفید مواد جمع کر دیا گیا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب حیات النساء کے زیرعنوان مجوزہ تین جلدوں پر مبنی تالیف کی جلد دوم ہے جسے جلد اوّل اور سوم سے قبل طبع کر دیا گیا ہے۔

کتاب سلیس زبان میں لکھی گئی ہے اور مناکحات کے باب میں پیش آنے والے اکثر مسائل و معاملات پر قیمتی مواد یک جا کر دیا گیا ہے۔ گو قرآن و حدیث کے حوالے مکمل دیے گئے ہیں لیکن دیگر ذرائع سے اخذ کردہ معلومات کے حوالوں میں علمی تحقیق کے رویے کو بنیاد نہیں بنایا گیا ہے۔ اگر ہر حوالہ مکمل ہوتا تو پڑھنے والوں کو مزید لوازمے تک پہنچنے میں آسانی ہوتی اور کتاب کی تحقیقی قدرو قیمت میں اضافہ ہوجاتا۔ بعض مقامات پر غیرضروری معلومات بھی دے دی گئی ہیں جنھیں باآسانی حذف کیا جاسکتا تھا۔

بعض مقامات پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ کتاب کے آغاز میں زوجیت اور مقاصدِ حیات کے زیرعنوان شوہر اور بیوی کے درمیان ’مساویانہ‘ رویے پر زور دیا گیا ہے (ص ۴) جو بادی النظر میں بالکل درست ہے، لیکن اس کا یہ مدعا لینا غلط ہوگا کہ اسلام مغربی تہذیب کی طرح عورت اور مرد کی مساوات کا قائل ہے۔ بلاشبہہ، انسانی بنیاد پر سورئہ نساء نے بات کو واضح کر دیا کہ چونکہ دونوں کو ایک نفس سے پیدا کیا گیا ہے اس لیے ان میں خون، رنگ، نسل وغیرہ کی تفریق نہیں کی جاسکتی اور دونوں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی مخلوق ہیں جن سے وہ یکساں محبت کرتا ہے لیکن یہ کہنے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت بھی دیتا ہے اور ’فرائض‘ میں واضح طور پر فرق کرتا ہے۔ دراصل اس موضوع اور اس جیسے دیگر موضوعات پر مغربی اور مشرقی اقوام کے اعتراضات سے بلند ہوکر صرف اور صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر ان مسائل کا حل اور تعبیر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کسی قسم کے سمجھوتے کی ضرورت نہیں۔

آغاز ہی میں ایک راے کا اظہار کیا گیا ہے: ’’ہمیں جدید زوجیت کی ابتدا میں آدم و حوا کی صورت میں انسانی جوڑے کی خوب صورت پہچان ملتی ہے جس میں (عورت) حوا نے جنت سے نکالے جانے کے بعد زمین میں ایک طویل عرصے تک اپنے ساتھی ’زوج‘، یعنی آدم ؑ کا انتظار کیا۔ اس طرح عورت میں مرد کے ساتھ وفاداری کے جذبے کی شناخت ہوئی اور عورت (حوا) کے اس انتظار نے اپنے جوڑے سے تعلق اور محبت کا عملی ثبوت فراہم کیا، اور آج بھی حوا کی بیٹیاں اپنے جوڑے، یعنی مرد کے لیے صبر اور شکر اور محبت کے حقیقی جذبات لیے انتظار کرتی رہتی ہیں۔ آدم ؑ و حواؑ کا جوڑا زوجیت کی اوّلین بہترین مثال ہے‘‘۔ (ص ۵)

مؤلف نے بغیر کسی قرآنی آیت اور حدیث یا آثار کے حوالے کے یہ کہنا چاہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا: قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًا (البقرہ۲:۳۸) ،یعنی تم سب یہاں سے اُتر جائو تو یہ کام قسطوں میں ہوا۔ پہلے سیدہ حواؑ کو بھجا گیا چنانچہ وہ عرصے تک حضرت آدمؑ کی منتظر رہیں اور پھر حضرت آدمؑ کو نیچے اُتارا گیا۔ حالانکہ بات واضح ہے کوئی وجہ نہیں کہ پہلے سیدہ حواؑ کو دنیا میں بھیجا جاتا اور اس کے کچھ عرصے بعد حضرت آدمؑ کو، جب کہ دونوں کو بیک وقت عفو و درگزر کے بعد جس مقصد کے لیے پیدا کیا گیا تھا اس کی تکمیل، یعنی زمین پر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی خلافت اور     امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے کی ادایگی کے لیے ایک مقررہ مدت کے لیے اُتارا گیا۔

کتاب بحیثیت مجموعی مفید ہے۔ اگر اختصار کا پہلو اختیار کیا جاتا تو یہ قیمتی مواد کم صفحات میں بھی آسکتا تھا اور زیادہ آسانی سے مطالعہ کیا جاتا۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


رُک جایئے(منہیات کا انسائی کلوپیڈیا) الشیخ ابوذر محمد عثمان۔ ناشر: مکتبہ اسلامیہ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۴۴۹۷۳-۰۴۲۔ صفحات: ۲۴۸۔ قیمت: درج نہیں۔

دین کی اصل تعلیم احکامات ہیں جن کی دو صورتیں ہیں: امر اور نہی، یعنی ایسے کام جن کے انجام دینے کا حکم دیا گیا ہے اور ایسے کام جن کے کرنے سے روکا گیا ہے۔ ان احکامات کی بجاآوری کے پیش نظر علماے دین نے ان کی درجہ بندی بھی کی ہے، مثلاً: حرام، مکروہ، مکروہِ تحریمی، مکروہِ تنزیہی اور حلال، جائز، مباح وغیرہ۔ اس موضوع پر اُردو میں شائع ہونے والی مفصل کتاب علامہ یوسف القرضاوی کی الحلال والحرام فی الاسلام کا ترجمہ ہے (حلال و حرام، مطبوعہ اسلامک پبلی کیشنز)۔ اب کئی کاوشیں سامنے آئی ہیں۔ ان میں سے ایک رُک جایئے بھی ہے جس کا ذیلی عنوان ہے: ’’اللہ اور اس کے رسولؐ نے منع کیا ہے‘‘، اور اسے ’منہیات کا انسائی کلوپیڈیا‘ قرار دیا گیا ہے۔ مصنف نے قرآنِ مجید اور احادیث نبویؐ میں وارد اوامر و نواہی کو فقہی ترتیب اور عنوانات کے تحت اختصار کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ طہارت، نماز، جنازہ، زکوٰۃ، روزہ، حج، تجارت، نکاح و طلاق، جہاد، کھانے پینے، قسموں، نذروں، طب، لباس اور آداب کے مسائل سے متعلق ممنوعات کو بیان  کیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ کتاب اُن بڑے بڑے امور کی نشان دہی کرتی ہے جن سے ایک مسلمان کو اجتناب کرنا چاہیے۔

کتاب وسنت کی منہیات سے آگاہی یقینا ہر مسلمان کو ہونا چاہیے۔ اس اعتبار سے یہ مختصر ضخامت کی کتاب بہت سے مسائل کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ مصنف نے جہاں ضروری سمجھا ہے آیت یا حدیث کی وضاحت بھی کردی ہے۔ اطاعتِ رسولؐ پر بہت مؤثر مقدمہ شامل کتاب ہے۔ بیرونی اور اندرونی بہت سی خوبیوں کی حامل یہ کتاب کچھ عربی طرزِ تصنیف کا رنگ لیے ہوئے ہے۔  بعض مسائل کی ممانعت درج کرنے کے ساتھ ہی اُن کا جواز بھی درج کردیا گیا ہے۔ یوں عمل کا فیصلہ قاری کے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔ کئی جگہوں پر حدیث کے مدعا کی تفہیم میں ابہام موجود ہے۔ کچھ مسائل کی تکرار بھی ہے، تاہم دیدہ زیب سرورق، عمدہ کاغذ، بہترین طباعت اور مضبوط جلد     و ڈسٹ کور سے مزین یہ کتاب ناشر کے حسنِ ذوق کی آئینہ دار ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)


یہودی مذہب، مہد سے لحد تک، رضی الدین سیّد۔ ناشر: بیت السلام، شان پلازہ، نزد مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۲۰۳۸۱۶۳- صفحات: ۲۷۲۔ قیمت: درج نہیں۔

ہم اُردو قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایٹمی قوت اور نام اسرائیل و صہیونیت کی ہٹ لسٹ پر، سب سے اُوپر ہے اور یہ کہ آشوبِ عراق و افغانستان (اور اب پاکستان) کے پس پردہ یہود کی مسلم دشمنی ہی کام کر رہی ہے۔ چنانچہ بقول مصنف: ’’معاملاتِ عالم کو تباہی و بربادی کی جانب دھکیلنے میں اصل ہاتھ صہیونیوں کا ہے‘‘۔

لیکن خود یہودی کون ہیں؟ ان کے عقائد، ان کا مذہب اور روز مرہ معاشرتی طور طریقے کیا ہیں؟ اس بارے میں ہماری معلومات درجۂ سوم کے طلبہ کے برابر بھی نہیں ہیں۔ جناب رضی الدین سیّد نے مقدس صحیفوں (زبور و تورات) کے ساتھ یہودیوں کی بعض قدیم اور مستند کتابوں کو کھنگال کر ایسی معلومات فراہم کی ہیں جو آج تک اُردو میں، اتنی عمدگی اور خوبی کے ساتھ کسی نے پیش نہیں کیں۔

یہود و یہودیت کے اس تعارف میں، مصنف نے ان کے عقیدۂ توحید، تصورِ خدا، قربانی، نمازوں، یومِ سبت، مختلف تہواروں، روزوں، شادی بیاہ، طلاق، تبدیلی مذہب، میت کے کفن دفن وغیرہ، یعنی یہودی شریعت اور یہودی فقہ کی جزئیات اور تفصیل مہیا کردی گئی ہے۔

موسوی شریعت میں ان کی تحریفوں اور محمدی شریعت سے مماثلتوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ بتایا ہے کہ مسلمانوں اور یہودیوں میں مماثلت کے پہلو موجود ہیں۔ مثلاً: یہودی بھی مسلمانوں کی طرح خدا اور بندے کے درمیان کسی واسطے کے قائل نہیں ہیں۔ یہودی مذہب بھی ایک مکمل نظامِ زندگی ہے۔ نماز، روزہ لازمی ہے (تفصیل میں اختلاف ہے۔ مردوں کے لیے دن میں تین نمازیں اور عورتوں کے لیے صرف دو نمازیں فرض ہیں۔ نماز باجماعت کو ترجیح حاصل ہے۔ لازمی روزے سال بھر میں صرف چھے ہیں)۔بچوں کا ختنہ ضروری ہے۔ وہ ذبیحے کے قائل ہیں۔ سود کو حرام سمجھتے ہیں۔ ہدایت ہے کہ میت کی تدفین میں جلدی کی جائے۔ کفن سفید ہو۔ مرنے والے کی طرف سے صدقہ و خیرات کریں۔ یہودی بچوں کو صبح بیداری اور سوتے وقت کی جو دعائیں سکھاتے ہیں، وہ مسلم دعائوں سے بڑی حد تک مماثل ہیں وغیرہ۔ ان وجوہ سے یہودی کی ’بہت سی خوبیاں‘ انھیں ’اسلام سے قریب تر‘ کردیتی ہیں (ص ۱۳)۔ اور ’اس لحاظ سے یہودیوں کو فی الاصل مسلمانوں ہی کا دوست اور خیرخواہ ہونا چاہیے لیکن تین ہزار سالہ ہٹ دھرمی اور اپنی نسل کے اعلیٰ و ارفع ہونے کے تصور نے انھیں مسلمانوں کا دشمن بنا دیا ہے‘‘ (ص ۱۳)۔ تمام غیر یہودیوں کو ’جاہل اور وحشی‘ سمجھتے ہیں۔ پس خدائی چہیتے اوراعلیٰ ترین نسل ہونے کے خبط ہی نے انھیں ’دوسری قوم سے برتر‘ بنا کر گمراہی کے راستے پر ڈالا۔ اس گمراہی کے کئی پہلو ہیں، مثلاً: یہودی اپنی تقریبات بلکہ عبادات تک میں، شراب کا استعمال ضروری سمجھتے ہیں۔ سودی کاروبار پھیلانے میں انھی کا ہاتھ ہے۔ اِسی طرح ’تقیّہ‘ کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔ اور اسی تقیّے کے تحت غیریہودیوں کو نقصان پہنچانے کے لیے اپنے شرعی احکام سے تجاوز اور نتیجتاً اُن پر ظلم و زیادتی بھی اُن کے نزدیک بالکل جائز ہے (ص ۱۱۱)۔ جس کی ایک واضح مثال، فلسطینیوں سے ان کا نفرت انگیز رویّہ ہے۔

مصنف نے کتاب کے آخری حصے میں یہودیوں کی تاریخ اور اسرائیل کے قیام کے بارے میں ضروری کوائف شامل کیے ہیں۔ مزیدبرآں عبرانی زبان، یہودی کیلنڈر، یومِ سبت، ہولوکاسٹ، اسرائیل کا قومی ترانہ، قومی پرچم، دیوار گریہ کی وضاحت کی گئی ہے (یومِ سبت کو حسب ِ ہدایت ’منانا‘ اچھا خاصا گورکھ دھندا معلوم ہوتا ہے)۔

مصنف کہتے ہیں کہ ’’بہت سے مسلمانوں کی طرح، یہودیوں میں بھی مذہب پر عمل پیرا (practicing) یہودی کم ہیں اور اُن میں بھی دورِ جدید کی وبا کی طرح سیکولرزم اور لبرل ازم در آیا ہے جس کی بنیاد پر، وہ بڑی حد تک مذہب سے بیزار نظر آتے ہیں، تاہم یہ بات طے ہے کہ یہودی چاہے لبرل ہوں، قدامت پرست ہوں یا دہریہ، وہ بہرحال یہودی رہتے ہیں‘‘۔ (ص ۲۶۴)۔ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر اور مفتی ابولبابہ شاہ منصور نے تقریظات میں جناب رضی الدین سیّد کی زیرنظر کاوش کو بجا طور پر مستحسن قرار دیا ہے۔ معیارِ اشاعت بھی اطمینان بخش ہے البتہ آیاتِ قرآنی پر اعراب کا اہتمام ضرور کرنا چاہیے، نیز: ’زکریا‘ درست ہے نہ کہ ’ذکریا‘ (ص ۲۰)۔ (رفیع الدین ہاشمی)


عزیمت کے راہی، دوم، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۳۲۰۔ قیمت (مجلد): ۲۳۵ روپے

برعظیم پاک و ہند میں تحریکِ اسلامی کا موجودہ قافلہ سیدابوالاعلیٰ مودودی علیہ الرحمہ کا صدقۂ جاریہ ہے، جس نے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو ایمان کی دولت سے مالا مال اور عمل کی لذت سے سرشار کیا ہے۔ اس تحریک کے بے شمار وابستگان کی زندگیاں کئی حوالوں سے شان دار مثالوں کا عنوان ہیں۔ اس دنیا میں آنے والے ہر فرد نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے، اسی قانونِ قدرت کے تحت اس قافلے کے رفتگان بھی اپنی یادوں کا سرمایہ چھوڑ کر آخرت کو سدھارتے ہیں۔

حافظ محمد ادریس کے رواں قلم نے ان افراد کی زندگیوں کی یادوں کو قلم بند کرنے کے لیے مقدور بھر کاوش کی ہے۔ ان کی یہ یادداشتیں اور تاثرات ہفت روزہ ایشیا لاہور میں اشاعت پذیر ہوتے رہے ہیں۔ اب نظرثانی اور اضافوں کے بعد انھیں کتابی شکل دی گئی ہے۔ مصنف ان مرحومین کے ساتھ اپنے کسی نہ کسی ذاتی تعارف یا شخصی ربط کے حوالے سے تذکرے کا باب کھولتے ہیں، پھر شخصیت کی دینی خدمات، پُرکشش کردار اور وسیع اثرات کو موضوعِ تحریر بناتے ہیں۔ اس طرح یہ مختصر اور درمیانی ضخامت پر پھیلے ہوئے تذکرے درحقیقت دین سے وابستگی کی بنیاد پر متشکل ہوتے ہیں۔ جن کو روشن مثالوں اور زندہ جذبوں کے آئینے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ان تذکار کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مذکورہ مرحومین کے اہلِ خاندان، برادریاں اور علاقے کے لوگ بھی ان سے نسلی یا علاقائی وابستگی کے باعث ایک ذاتی کشش، زندہ کسک اور عمل کی دعوت کو محسوس کرسکتے ہیں۔

کتاب میں حسب ذیل حضرات کا تذکرہ ہے: مولانا جان محمد عباسی، محمد مامون الہضیبی،   ملک غلام علی، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا فتح محمد، مولا محمد سلطان، میاں فیض الدین، طالب الہاشمی، آسی ضیائی، زیلم خان شہید، حافظ محمد سرور، ملک ظفراللہ خان، چودھری سلطان احمد، مختار حسن، خالد بزمی، ڈاکٹر محمد سعید، ڈاکٹر جمیل الرحمن، مولانا شمس الدین، ضیاء الرحمن، عبیدالرحمن مدنی، شیخ عبدالرشید، سوہنے خاں، جب کہ خواتین میں ساجدہ زبیری، عطیہ راحت، زیب النسائ۔ بنیادی طور پر یہ تذکرہ  مولانا مودودی علیہ الرحمہ کی برپا کردہ تحریکِ اسلامی سے وابستہ شخصیات کا ہے، تاہم اس میں بعض ایسی شخصیات کا ذکر بھی آگیا ہے، جن کا شخصی تعلق اگرچہ مولانا مودودی سے، یا جماعت اسلامی سے نہ تھا،  مگر بالواسطہ ان کا تعلق قافلۂ احیاے اسلامی ہی سے ہے۔(سلیم منصور خالد)


تعارف کتب

  • حج و عمرہ کی قبولیت ___ مگر کیسے؟ ڈاکٹر رحمت الٰہی۔ الفوزاکیڈمی، سٹریٹ ۱۵، E-4/11، اسلام آباد۔ فون: ۲۵۱۸۸۲۹- ۲۲۲۲۴۱۸-۰۵۱۔ صفحات: ۱۲۲۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔ [مصنف نے اپنے ۲۰۰۸ء کے سفرِحجاز کے تجربات و مشاہدات کی مدد سے زائرین حج و عمرہ کے لیے ایک مفید کتاب تیار کی ہے جس میں بقول مصنف: ’’کوشش کی گئی ہے کہ دعائوں اور اس کی روح کے ساتھ حج پر لکھی گئی تمام کتب کا نچوڑ آجائے‘‘۔ کتاب میں ضروری مسائل، زائرین کے لیے ہدایات اور دعائیں بھی شامل ہیں۔ تیسرا باب (حج کا حاصل) اہم اور  توجہ طلب ہے۔ مصنف کا موقف یہ ہے کہ زائرین، مناسکِ حج و عمرہ ’’ان کی اصل روح کے ساتھ ادا کریں تاکہ وہ گوہرمقصود ہاتھ آئے، جس کے لیے بہت بڑے پیمانے پر لگایا جانے والا سرمایہ، گھر اور بچوں سے دور اُٹھائی جانے والی پُرمشقت قربانیاں، رائیگاں نہ جائیں‘‘ (ص ۱۱)۔ یہی ’’قبولیت کیسے؟‘‘ کا جواب ہے۔]

اقامت ِدین کا تصور

’دین حق‘ اور ’اقامت ِ دین‘ کے تصور میں بھی ہمارے اور بعض دوسرے لوگوں کے درمیان اختلاف ہے۔ ہم دین کو محض پوجا پاٹ اور چند مخصوص مذہبی عقائد و رسوم کا مجموعہ نہیں سمجھتے بلکہ ہمارے نزدیک یہ لفظ طریق زندگی اور نظامِ حیات کا ہم معنی ہے، اور اس کا دائرہ انسانی زندگی کے سارے پہلوئوں اور تمام شعبوں پر حاوی ہے۔ ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ زندگی کو الگ الگ حصوں میں بانٹ کر الگ الگ نظریات اور الگ الگ اسکیموں کے ماتحت چلایا جاسکتا ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ اس طرح کی تقسیم اگر کی بھی جائے تو وہ قائم نہیں رہ سکتی، کیونکہ انسانی زندگی کے مختلف پہلو، انسانی جسم کے اعضا کی طرح ایک دوسرے سے ممیز ہونے کے باوجود آپس میں اس طرح پیوستہ ہیں کہ وہ سب مل کر ایک کُل بن جاتے ہیں اور ان کے اندر ایک ہی روح جاری و ساری ہوتی ہے۔ یہ روح اگر خدا اور آخرت سے بے نیازی اور تعلیمِ انبیا ؑ سے بے تعلقی کی روح ہو تو پوری زندگی کا نظام ایک دینِ باطل بن کر رہتا ہے اور اس کے ساتھ خدا پرستانہ مذہب کا ضمیمہ اگر لگا کر رکھا بھی جائے تو مجموعی نظام کی فطرت بتدریج اس کو مضمحل کرتے کرتے آخرکار بالکل محو کردیتی ہے۔ اور اگر یہ روح خدا و آخرت پر ایمان اور تعلیمِ انبیا ؑ کے اتباع کی روح ہو تو اس سے زندگی کا پورا نظام ایک دینِ حق بن جاتا ہے جس کے حدود عمل میں ناخدا شناسی کا فتنہ اگر کہیں رہ بھی جائے تو زیادہ دیر تک پنپ نہیں سکتا۔

اس لیے ہم جب ’اقامت ِ دین‘ کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ہمارا مطلب محض مسجدوں میں  دین قائم کرنا، یا چند مذہبی عقائد اور اخلاقی احکام کی تبلیغ کر دینا نہیں ہوتا، بلکہ اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ گھر اور مسجد، کالج اور منڈی، تھانے اور چھائونی، ہائی کورٹ اور پارلیمنٹ، ایوانِ وزارت اور سفارت خانے، سب پر اُسی ایک خدا کا دین قائم کیا جائے جس کو ہم نے اپنا رب اور معبود تسلیم کیا ہے، اور سب کا انتظام اُسی ایک رسولؐ کی تعلیم کے مطابق چلایا جائے جسے ہم اپنا ہادیِ برحق مان چکے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہماری ہر چیز کو مسلمان ہونا چاہیے۔ اپنی زندگی کے کسی پہلو کو بھی ہم شیطان کے حوالے نہیں کرسکتے۔ ہمارے ہاں سب کچھ خدا کا ہے شیطان یا قیصر کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ (’اشارات‘  سید ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۳۴، عدد۶، ذی الحجہ ۱۳۶۹ھ، اکتوبر ۱۹۵۰ئ، ص۴-۵)