مضامین کی فہرست


جون ۲۰۰۱

خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔زمین و آسمان کے مالک کو انسان کا جو رویہّ سب سے زیادہ ناپسند ہے‘  وہ غرور‘ تکبّراور نخوت ہے۔ یہی وہ مرض ہے جس نے ابلیس کو شیطان بنایا۔ یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں ہر شیطانی کھیل میں ان صفاتِ بد کا کلیدی کردار رہا ہے۔ معاملہ افراد کا ہویا قوموں کا‘ اگر عجز و انکسار اور حقیقت پسندی ترقی کا زینہ ہیں تو غرور و تکبّر بالآخر تصادم اور تباہی کی طرف لے جانے والے ہیں۔ اللہ کی سنت ہے کہ جلد یا بدیر غرور کا سر ضرور نیچا ہوتا ہے--- یہ اور بات ہے کہ جن میں خیراور صلاح موجود ہو وہ چوٹ پڑنے پر اصلاح اور سدھار کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں‘ اور جن کی سرشت میں بدی غالب ہو اور جن کے مقدر میں ہزیمت اور بالآخر تباہی لکھی ہو وہ ہر انتباہ پرمزیدسرکش ہو جاتے ہیں۔ان کا معاملہ قوم نوح علیہ السلام سے مختلف نہیں ہوتا کہ اللہ کی طرف سے ان کو تنبیہ پر تنبیہ کی جاتی ہے مگر ہر تنبیہ

ان کی سرکشی میں اضافے کا ذریعہ بن جاتی ہے (وَنُخَوِّفُھُمْ لا فَمَا یَزِیْدُھُمْ اِلاَّ طُغْیَانًا کَبِیْرًا o

بنی اسرائیل ۱۷:۶۰)

امریکہ کے لیے دو انتباہ

مئی ۲۰۰۱ء کے پہلے ہفتے میں اقوام متحدہ کے ایوانوں میں مغرب اور مشرق کے سبھی ممالک کی طرف سے امریکہ کو ایسی ہی دو تنبیہات کا مخاطب بنایا گیا۔ یہ عالمی راے عامہ کے حقیقی رجحان کی مظہر ہیں اور امریکہ کے لیے ہوش میں آجانے کی دعوت کی حیثیت رکھتی ہیں‘ بشرطیکہ وہ ہوا کے رُخ کو سمجھنے کی کوشش کرے اور تاریخ سے کوئی سبق لینے کو تیار ہو۔

امریکہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں تو دوسری عالمی جنگ کے بعد ہی سے مبتلا ہے اور اس رجحان میں برابر اضافہ ہوتا رہا ہے لیکن افغانستان سے روس کی پسپائی‘ اشتراکیت کے زوال اور دیوار برلن کے انہدام کے بعد سے اس کا غرور اور غرّہ آسمان سے باتیں کرنے لگا۔ ان ۱۲‘ ۱۳ برسوں میں نئے عالمی نظام کی لَے کچھ زیادہ ہی بلند ہوئی ہے اور امریکی صدی کے آغاز کے دعوے عالمی فضا کو معمور کرنے لگے ہیں۔ امریکہ کی قیادت کو یہ زعم ہو گیا کہ اب وہ ناقابل تسخیر ہے‘اسے عقلِ کل کا مقام حاصل ہے اور وہ ’شہنشاہ عالم‘ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

نئے امریکی صدر جارج بش جونیر اور ان کی ٹیم نے ذمہ داری سنبھالنے کے بعد تنہا پرواز کے اشارے دینا شروع کر دیے اور گلوبلائزیشن پر امریکیت کی چھاپ لگانے میں مصروف ہوگئے۔ امریکی بالادستی کی

ننگی جارحیت پر اقوام متحدہ‘ عالمی اداروں اور دوست ممالک سے مشاورت کا جو پردہ موجود تھا ‘ وہ اس سے بھی نجات پانے میں لگ گئے۔معاملہ میزائل کے مقابلے کے لیے قومی دفاعی ڈھال کا ہو یا ماحول کے تحفظ (global warming)کا‘ کروڑوں کی تعداد میں بارودی سرنگوںسے درپیش خطرات کا ہو یا ایڈز اور دوسرے مہلک وبائی امراض کے خلاف انسانیت کی مشترک جنگ کا‘ نیوکلیرپالیسی کے مسائل کا ہو یا توانائی پالیسی اور اس کے اثرات کا‘ سابقہ عالمی معاہدات کی پاسداری کا مسئلہ ہو یا نئے معاہدات کے لیے عالمی برادری میں مفاہمت اور اتفاق رائے پیدا کرنے کا‘ معاملہ تجارتی پابندیوں کا ہو یا دوسرے ممالک کی حدود میں دخل اندازی اور جاسوسی کا‘ پرانے دوستوں سے وفاداری کی بات ہو یا نئے دوستوں کی تلاش کی--- سب ہی معاملات میں

بش انتظامیہ نے اپنے اقتدار کے پہلے ہی چار مہینوں میں اپنی خود پسندی اور یک طرفہ کارروائی کا ایسا آہنگ اختیار کیا کہ مشرق و مغرب ہر سمت اقوام و ممالک میں اضطراب کی لہریں اٹھنے لگیں۔ احساس کی اسی نئی جہت کا اظہار نیویارک میں اقوام متحدہ کے دو اہم کمیشنوں کے انتخاب کے موقع پر ہوا۔ مئی ۲۰۰۱ء کا پہلا ہفتہ تاریخ کی نئی کروٹ کا عنوان بن گیا۔

اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا کمیشن (U.N. Human Rights Commission)ایک متحرک اور باوقارادارہ ہے‘ جو ۱۹۴۷ء میں امریکہ کی تحریک پر سابق صدر روز ویلٹ کی اہلیہ کی قیادت میں قائم ہوا تھا۔ یہ ادارہ نہ صرف حقوق انسانی کا اہم ترین پلیٹ فارم ہے بلکہ اقوام متحدہ کے ان چند اداروں میں سے ہے جن کا کام صرف قراردادیں پاس کرنا نہیں‘بلکہ عملاً شکایات کی تحقیق کرنا اور پالیسی اقدام تجویز کرنا بھی ہے۔ یہ ۵۳ ممالک کے نمایندوں پر مشتمل ہے۔ امریکہ گذشتہ ۵۴ سال سے اس میں کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اس پر امریکہ ہی چھایا رہا ہے۔ انگریزی محاورے میں اسے America used to call shots کہا جا سکتا ہے۔ ایسے ادارے میں بالکل غیر متوقع طور پر نئے انتخاب کے دوران (جس میں ۱۴ ارکان کا نیا انتخاب ہوا جن میں تین عمومی نشستیں بھی تھیں جو مغربی ممالک کے لیے مخصوص ہیں ۔یہ انتخاب خفیہ راے دہی کی بنیاد پر ہوئے) امریکہ کو نصف صدی میں پہلی مرتبہ شکست ہوئی۔ انتخابی ادارہ اقوام متحدہ کی سوشل اینڈ اکنامک کونسل تھی ۔ اس مقابلے میں فرانس سب سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہوا (۵۴ میں سے ۵۲ووٹ)‘ آسٹریا دوسرے نمبر پر (۴۱ ووٹ)‘ اور سویڈن تیسرے نمبر پر (۳۲ ووٹ)۔ ان کامیاب ممالک کے مقابلے میں امریکہ کو صرف ۲۹ ووٹ ملے اور وہ یہ انتخاب ہار گیا۔ اقوام متحدہ کے ان اداروں میں نصف صدی کے دوران یہ امریکہ کی پہلی شکست ہے ‘جس نے امریکہ سمیت سب کو متحیر کر دیا۔

۴ مئی ۲۰۰۱ء کی اس چوٹ سے ابھی امریکہ سنبھلے بھی نہیں پایا تھا کہ تین ہی دن کے بعد ایک اور شکست کا زخم لگ گیا۔ اقوام متحدہ کے ایک دوسرے اہم ادارے International Narcotics Control Board (عالمی ادارہ تحدید منشیات) میں بھی امریکہ اپنی نشست سے محروم ہو گیا۔ اقوام عالم کی طرف سے ایسے دو عالمی اداروں سے جو بظاہر امریکہ کی خارجہ پالیسی کے سب سے اہم ستونوں یعنی ’حقوق انسانی‘ اور ’منشیات کی روک تھام‘ کے لیے سب سے کلیدی ادارے تھے اس کا بیک بینی و دوگوش اس طرح رخصت ہو جانا امریکہ کی عالمی ساکھ کے لیے بڑی شرم ناک شکست‘ اہل بصیرت کے نزدیک قدرت کا سنگین انتقام اور خود امریکی قیادت کے لیے بڑا چشم کشا انتباہ ہے    ؎

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن

بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے

امریکہ کا ردّعمل

ان واقعات پر امریکہ کی قیادت‘ پریس اور کارفرما عناصر کا ردعمل وہ آئینہ ہے جس میں بحیثیت

سوپر پاور امریکہ کی مختلف تصویریں دیکھی جا سکتی ہیں۔

فطری طور پر سب سے پہلا ردّعمل صدمہ‘ تعجب‘ حیرانی اور تحیر کا تھا۔ امریکی قیادت ششدر تھی کہ یہ ناقابل یقین واقعہ کیسے رونما ہو گیا۔ صدمے کے بعد شکوہ و شکایت اور غصہ بلکہ غیظ و غضب کا اظہار شروع ہوا۔سب سے زیادہ غم و غصہ اس بات پر تھا کہ خود مغربی ممالک نے امریکہ کا ساتھ نہیں دیا اور جن پہ تکیہ تھا انھی کے ووٹوں سے یومِ شکست دیکھنے کی نوبت آئی! سویڈن اور آسٹریا پر بہت دبائو ڈالا گیا مگر وہ میدان سے

نہ ہٹے۔ ۴۳ ممالک نے ووٹ کا وعدہ کیا تھا اس لیے فتح کا یقین تھا مگر خفیہ رائے میں صرف ۲۹ ووٹ ملے۔ ستم بالاے ستم یہ کہ اپنے اپنے علاقائی حلقوں سے جو ممالک اس انتخاب میں کامیاب ہو کر کمیشن کے رکن بنے ہیں ان میں سوڈان‘ بحرین‘ جنوبی کوریا‘ چلی‘ میکسیکو‘ پاکستان اور یوگنڈا شامل ہیں۔ امریکہ کے ساتھ دوسرے ہارنے والوں میں سعودی عرب اور ایران بھی شامل ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ جس کی شکست پر کہرام مچا ہے وہ صرف امریکہ ہے۔ دنیا بھر کے اخبارات‘ رسائل اور الیکٹرانک میڈیا میں ایک طوفان سا برپا ہے کہ ایک انہونی بات کیسے حقیقت کا رُوپ اختیار کر گئی اور ایک ہی ہفتے میں امریکہ جیسی سوپر پاور‘ جسے فرانس کے نمایندے نے فیاضی سے کام لیتے ہوئے hyper powerکا لقب دیا ہے‘ کس طرح دو سیاسی شکستوں کا نشانہ بن گئی۔ اس شکست کے آئینے میں امریکہ کے پورے سیاسی کردار اور عالمی رول پربحث و گفتگوہو رہی ہے اورتجزیہ نگار اس میں آنے والے دَور کی تصویر تلاش کر رہے ہیں۔ ایک آزاد معاشرے کی یہ خوبی ہے کہ اس میں ایسے اہم معاملات پر کھل کر بحث و گفتگو ہوتی ہے اور محض ایک سرکاری نقطۂ نظر ذہنی افق پر مسلّط نہیں ہو جاتا!

امریکی اور عالمی سیاسی اور صحافتی حلقوں میں ہونے والے مباحث کا تجزیہ کیا جائے تو اس شکست پر چار واضح ردّعمل سامنے آتے ہیں:

غم و غصہ : پہلا اور فوری ردّعمل استخفاف اور استہزا کا ہے۔ امریکہ کے کچھ بااثر حلقے‘ اور حکومت کے چندذمہ دار افراد اور ان کے ہم نوا عناصر بظاہر بڑی بے اعتنائی اور یک گونہ رعونت کے ساتھ کہہ رہے ہیں:

پھر کیا (so what?)۔ اقوام متحدہ کے ایک یا دو کمیشنوں کی اوقات ہی کیا ہے؟ خود  اقوام متحدہ ہی کون سی اہم ہے؟ محض نشستند و گفتند کی ایک محفل‘ ایک چوپال۔ اگر اس میں امریکہ جیسا اہم ملک نہ بھی آیا تو کون سا آسمان گر جائے گا۔ ان کے خیال میں اس سے اقوام متحدہ ہی بے وقار ہوگی۔ امریکہ کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچے گی۔

اقوام متحدہ کی سوشل اینڈ اکنامک کونسل (انتخاب کرنے والے ادارے) میں امریکی نمایندے جیمزکننگم نے کہا : بلاشبہ ہم بہت مایوس ہوئے ہیں۔ صدر امریکہ اور کانگریس کے ارکان کی جانب سے مایوسی کے ساتھ غم و غصّے کااظہار بھی کیا گیا۔ کانگریس کے ترجمان نے کہا: کانگریس کی نگاہ میں یہ اقوام متحدہ کے وقار اور اعتماد کو مجروح کرنے والی بات ہے۔

صدر کی قومی سلامتی کی مشیر کون ڈولیزا رائس کی نگاہ میں یہ سخت توہین آمیزہی نہیں ‘بلکہ خود اقوام متحدہ کے مقام کو مجروح کرنے والا اقدام ہے۔ ڈیفنس سیکرٹری ڈونالڈ رمس فیلڈ نے اسے ایک ’’نہایت غیر دانش مندانہ اقدام‘‘ (notably unwise)قرار دیا۔سرکاری ترجمانوں ہی نے نہیں بڑی تعداد میں اخبارات اور سیاسی تبصرہ نگاروں نے بھی اس پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ کو تو کمیشن سے ۵۴ سال کے بعد نکال دیا گیا اور چین‘ کیوبا‘ لیبیا اور سوڈان ’’جیسے‘‘وہاں موجود ہیں!

امریکہ کے ایوان نمایندگان کے اکثریتی قائد ڈک آرمی نے اسے مضحکہ خیز قرار دیا ہے ۔ کانگریس بحیثیت مجموعی اس تاثر کا اظہار کر رہی ہے کہ خود اقوام متحدہ کو اب کون ایک سنجیدہ ادارہ سمجھے گا؟ ارکان کانگریس نے اسے ایک ہتک (insult)قرار دیا ہے۔ (ٹائم ‘ ۲۱ مئی ۲۰۰۱ء)

فلوریڈا کے ایوان نمایندگان کی رکن الیانا راس کا کہنا ہے: یہ ایک ایسی مضحکہ خیز بات ہے جواقوام متحدہ کے نظام کی سالمیت اور جواز کی بنیاد ختم کر دیتی ہے۔

انتقامی ردّعمل: مایوسی اور غم و غصے کے ساتھ دوسرا ردّعمل انتقامی نوعیت کا ہے۔ اقوام متحدہ اور اتحادی ممالک سے صرف شکایت ہی کا اظہار نہیں کیا جا رہا بلکہ کہا جا رہا ہے کہ اقوام متحدہ کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے اور اس کا طریقہ اقوام متحدہ کے مالی واجبات کی ادایگی کو روک دینا ہے۔ پہلے ہی امریکہ اقوام متحدہ کے ایک ارب ۷۰ کروڑ ڈالر کا نادہندہ ہے۔ کئی برس سے جھگڑا چل رہا تھابالآخر صدرکلنٹن کے دَور میں بڑے ردّ و کد کے بعد طے ہو گیا تھا کہ اقوام متحدہ کے کل بجٹ کے ۲۵ فی صد کے بجائے (جو امریکہ کی اصل ذمہ داری اور وعدہ تھا) اسے ۲۲فی صد کر دیا جائے اور اس طرح امریکہ واجبات کی مد میں ۲ ارب نہیں صرف ایک ارب ۷۰ کروڑ ڈالر ادا کرے گا جس میں سے ۵۸ کروڑ ۲۰ لاکھ ڈالر اس سال ادا کرنا تھے ۔لیکن اس شکست کے بعد امریکی کانگریس نے فوری طور پر انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ۲۵ کروڑ ۴۰لاکھ ڈالرکی وہ ادایگی روک دی ہے جو اسی مہینے اقوام متحدہ کو دینا طے تھی۔کانگریس نے یہ بھی کہا ہے کہ جب تک انسانی حقوق کے کمیشن پر امریکہ کی نشست بحال نہیں ہوتی (جس کا امکان اگلے سال نئے انتخاب ہی میں ہو سکتا ہے) اس وقت تک اقوام متحدہ کو کوئی ادایگی نہ کی جائے۔ امریکی انتظامیہ نے کانگریس کی بڑی خوشامد کی تھی کہ اس شکست کے باوجود یہ انتقامی کارروائی نہ کی جائے ‘لیکن کانگریس نے ایک نہ سنی اور اپنے اس غضب ناک ردّعمل کا اظہار ضروری سمجھا۔

الزامی ردّعمل : تیسرا ردّعمل الزامی ہے۔ اس میں امریکہ اور اسرائیل پیش پیش ہیں۔ جو کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ امریکہ حقوق انسانی کے معاملات کو اٹھا رہا تھا اور دوسرے اس پر چیں بجبیں تھے۔ ان کی جانب سے چین اور فرانس کو خصوصیت سے ہدف بنایا جا رہا ہے۔ سرکاری ترجمان اور امریکی اخبارات یہی لَے آگے بڑھا رہے ہیں اور اس طرح شکست پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزارت خارجہ کا اعلان ہے کہ یہ سب حقوق انسانی کے بارے میں امریکی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ اخبار فنانشل ٹائمز ‘ لندنلکھتا ہے:

اس نتیجے کو واشنگٹن اور اقوام متحدہ میں انسانی حقوق‘ خصوصاً چین اور کیوبا کے بارے میں امریکہ کے سخت موقف کے جواب میں جھڑکی کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے۔ (۵ مئی ‘ ۲۰۰۱ء)

خاتون رکن کابینہ کونڈولیزا رائس کا موقف ہے:

یہ دھچکا اس لیے لگا کہ امریکی قیادت حقوق کے مسئلے پر بعض ممالک کے لیے کچھ زیادہ ہی سخت تھی۔ میری دانست میں یہ ان قوتوں کی طرف سے شدید ردّعمل تھا جو نہیں چاہتی ہیں کہ ان پر تنقید کی جائے۔ شاید امریکہ انسانی حقوق کے کمیشن میں کچھ زیادہ ہی سرگرم تھا۔

واشنگٹن پوسٹ‘ نیویارک ٹائمز‘ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے مقالہ نگار دوسرے ممالک پر برس رہے ہیں کہ وہ حقوق انسانی کے باب میں سمجھوتے کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں‘ جب کہ امریکہ ڈٹا رہتا ہے اور اسی لیے اسے کمیشن سے نکال دیا گیا ہے۔ فرانس پر تجارتی مفادات کی پھبتی کسَی جا رہی ہے۔ چین‘ کیوبا اور دوسرے ممالک کو حقوق انسانی کے باب میں ’’مجرم‘‘ ثابت کرنے کے لیے دلائل کے انبار لگائے جا رہے ہیں۔ اسرائیلی لابی تلملا تلملا کر کہہ رہی ہے کہ چونکہ امریکہ نے ہمارا ساتھ دیا ہے اور اسرائیل کے خلاف تادیبی کارروائیاں روکنے کے لیے سدِّسکندری بن گیا ہے ‘اس لیے اسے سزا دی گئی ہے۔ حالانکہ حقیقت جیسا کہ خود جریدہ  اکانومسٹ کے ادارتی کالموں میں اعتراف کیا گیا ہے ‘یہ ہے کہ سویڈن اور آسٹریا جو اس انتخاب میں امریکہ کے مقابلے میں کامیاب رہے ہیں حقوق انسانی کے بارے میں نہایت مضبوط موقف اختیار کرنے والوں میں سے ہیں۔ اگر مسئلہ حقوق انسانی کے بارے میں مضبوط موقف کا ہے تو سویڈن کا ریکارڈ امریکہ کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے ۔لیکن وہ منتخب ہو گیا اور امریکہ رہ گیا!

الزامی ردّعمل کا ہدف صرف تیسری دنیا کے ممالک ہی کو نہیں بنایا جا رہا‘ بلکہ خود یورپ کے دوست ممالک پر بھی تیرونشترکی بارش ہے۔ اور ایک اسرائیل نواز کالم نگارولیم سافائز نے تو انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں یہاں تک کہہ دیا ہے:

کمیونسٹ چین اور کمیونسٹ کیوبا کی قیادت میں‘ فرانسیسی سفارت کاروں کی حمایت سے‘ جن کے پیچھے افریقی اور عرب آمر تھے‘ اقوام متحدہ نے امریکہ کو انسانی حقوق کمیشن سے نکال باہر کیا۔ (۸ مئی‘ ۲۰۰۱ء)

جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی شکست میں فیصلہ کن کردار خود یورپی ممالک کا تھا ۔ خود اسی کالم نگار نے اپنے مضمون میں اعتراف کیا ہے کہ ’’۱۴ ممالک جنھوں نے امریکہ کو ووٹ دینے کا وعدہ کیا تھا وقت پر دغا دے گئے‘‘۔ اس نے مطالبہ کیا ہے کہ ’’خفیہ رائے دہی کے سارے آداب کو خیرباد کہہ کر ان ممالک کا پتا چلایا جائے اور انھیں سامنے لایا جائے خواہ اس کے لیے سی آئی اے کی مدد لینی پڑے یا صحافتی آداب کو بالاے طاق رکھ کر تفتیشی(investigative)  صحافت سے کام لیا جائے! گویا ایک ہی سانس میں حقوق انسانی کے بارے میں اصول پرستی کے سارے دعوے اور مسلمہ جمہوری آداب کو پارہ پارہ کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے!

خود احتسابی: ردّعمل کی ان تین جہتوں کے ساتھ ایک جہت وہ بھی ہے جس میں اس شکست کو ایک تازیانہ عبرت قرار دیا جا رہا ہے اور امریکہ کو خود احتسابی کی اور ساری دنیا کو امریکہ کی پالیسیوں کے بے لاگ جائزے اور تجزیے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ اس شکست کو امریکہ کے بارے میں عالمی راے عامہ کی بے اطمینانی کا مظہر قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکی سینٹیر جان کیری نے اپنے ۶ مئی کے خطاب میں کہا ہے کہ دنیا میںامریکہ سے بے زاری (anti-Americanism)کی یہ ایک لہر ہے جو امریکی حکومت میں احساسِ دیانت   میں کمی (lack of a sense of honesty) کی غماز ہے۔ ییل یونی ورسٹی کے بین الاقوامی قانون کے پروفیسر ہیرالڈہونگ جوکوہ نے انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں اپنے مضمون America Gets a Wake-up Call on Human Rights میں بڑے معتدل اور مدلل انداز میں امریکہ کو اپنے احتساب اور جائزے کی دعوت دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

گذشتہ ہفتے دنیا بھونچکا کر رہ گئی جب پہلی دفعہ یہ ہوا کہ امریکہ کو اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن کے لیے ووٹ حاصل نہ ہو سکے۔ یہ ایک واضح سی بات ہے کہ دنیا امریکہ کو سبق سکھانا چاہ رہی ہے۔ لیکن کیا امریکی صحیح سبق سیکھ لیں گے؟ آیئے سب سے پہلے ہم امریکہ کے دو متوقع ردّعمل کا جائزہ لیں:

پہلا یہ کہ یہ ذلت آمیز سفارتی شکست کوئی خاص معنی نہیں رکھتی۔ اس لیے کہ کمیشن ایک بے معنی گفت و شنید کی جگہ ہے۔ دوسرا زیادہ سنگین ردّعمل یہ ہو سکتا ہے کہ امریکہ اپنے ذمے واجبات کی ادایگی روک کر یا اقوام متحدہ کے خلاف دوسرے تعزیری اقدامات کر کے اسے سبق سکھائے--- گذشتہ ہفتے کا ووٹ ایک بیدارکرنے والی آواز ہے کہ حقوق انسانی کے مسئلے پر امریکی قیادت کو جو عالمی احترام حاصل تھا اس کا دَور ختم ہو گیا ہے۔ (۹ مئی‘ ۲۰۰۱ء)

اس کے بعد انھوں نے بہت سے عالمی مسائل کا ذکر کیا ہے‘ جن کے بارے میں ان کے خیال میں امریکہ نے عالمی برادری کے جذبات کا لحاظ نہیں کیا۔ جن میں خصوصیت سے ایڈز کے مریضوں کی مدد‘

غریب ممالک کو خوراک کی فراہمی‘ بین الاقوامی معاہدات کی توثیق‘ بین الاقوامی فوج داری عدالت

 کے بارے میں امریکہ کے تحفظات وغیرہ شامل ہیں۔ پروفیسر ہیرالڈ نے مشورہ دیا ہے کہ امریکہ ‘ بے اعتنائی (indifference) یا غصہ و انتقام (anger)کا راستہ اختیار نہ کرے بلکہ دوسرے ممالک سے تعاون اور

اعتماد باہمی کا راستہ اختیار کرے۔ موصوف نے اپنے مضمون کا خاتمہ ان الفاظ پر کیا ہے:

گذشتہ ہفتے کی شکست کے باوجود دنیا انسانی حقوق کے میدان میں امریکی قیادت کی خواہاں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکی بھی یہ قیادت فراہم کرنے کا حوصلہ اور وژن رکھتے ہیں؟

فنانشل ٹائمز کا نمایندہ بھی واشنگٹن کے سیاسی اور سفارتی حلقوں کی بحث کا خلاصہ اور پیغام کچھ یوں بیان کرتا ہے:

یہ واقعہ بش انتظامیہ کو بیدار کرنے والی آواز ہے تاکہ وہ آج کی دنیا کے ساتھ زیادہ متعلق ہو جائے (مئی ۵‘ ۶‘ ۲۰۰۱ء)۔

نیویارک ٹائمز کے ایک مضمون نگار لیونارڈ گارمنٹ نے جسے قانون اور سفارت کاری دونوں میدانوں کا تجربہ ہے‘ لکھاہے:

ہمیں نہیں معلوم کہ یہ ووٹ کس بڑے عمل کا عکاس ہے۔ کیا یہ صرف محض ایک انتخابی شکست ہے؟ کیا امریکہ کے حلیفوں نے حقوق انسانی پر غیر یقینی موقف کا اظہار کرتے ہوئے روسیوں کے بجائے چینیوں کو خوش کرنا پسند کیا؟ کیا یہ ووٹ عالم گیریت کے خلاف احتجاج تھا یا ایک اجتماعی نارضامندی کا اظہار؟ کیا ہم ایک ایسے ردّعمل کا آغاز دیکھ رہے ہیں‘ جس کے نتیجے میں‘ چاہے یہ مقصود نہ ہو‘ امریکہ میں لاتعلقی کی سیاست کو فروغ ملے؟ ( انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘۱۶ مئی‘ ۲۰۰۱ء)

اقوام متحدہ میں امریکہ کی سابق سفیر جین کرک پیٹرک مستقبل کے بارے میں چند اہم سوال اٹھاتی ہیں:

انسانی حقوق کمیشن پر ووٹ سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جمہوری ممالک میں امریکہ کے

قابل اعتماد دوست اور حلیف ہیں بھی؟ یہ طے ہے کہ گذشتہ عشرے میں امریکہ اور اس کے معاہدہ شمالی اوقیانوس (NATO)کے حلیفوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ یورپی پریس میں ناراضی کا اظہار ان تحریروں کے مستقل سلسلے سے ہوتا ہے جو امریکہ اور امریکی طریقوں پر سخت تنقید کرتے ہیں (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ ۹ مئی ۲۰۰۱ء)

نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں اعتراف کیاہے:

بغاوت کا آغاز ہوتے ہی پتا چلانے اور اسے فرو کرنے میں انتظامیہ کی ناکامی پریشان کن شکست کا ایک پہلو ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات اقوام متحدہ کے لیے امریکہ کے سرپرستانہ رویے کے خلاف بڑھتا ہوا غصہ ہے‘ جوماحولیات سے لے کر بارودی سرنگوں تک جیسے مسائل پر عالمی معاہدوں کے بارے میں واشنگٹن کی بے حسّی کی دلیل ہیں۔ ( انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ ۷مئی‘ ۲۰۰۱ء)

ایک اور کالم نگار ڈیوڈ اگناشیس نے اپنے اضطراب کا اس طرح اظہار کیاہے:

۹۰ کے عشرے میں امریکہ عالمی معیشت کو اپنی مٹھی میں سمجھنے کا عادی ہو گیا۔ امریکہ کے پا س پیسہ بھی ہے اور نظریات بھی‘ اور دوسری اقوام کوبس امریکہ کی ہدایات کے مطابق کھیلنا ہے۔ لیکن

امریکی بالادستی کے یہ آسان دن اب ختم ہو رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی میں بھی یہ جوابی کارروائی کا وقت ہے۔ اس کی ایک واضح اور قابل ذکر مثال امریکہ کو حقوق انسانی کمیشن سے باہر نکالنے کا عمل تھا۔ بعض مبصرین نے کہا کہ یہ ووٹ اس حقیقت کا اظہار تھا کہ دنیا کے ممالک میزائل دفاع کے حق میں اور موسموں کی تبدیلی کے کویوٹو معاہدے کے خلاف امریکہ کے یک طرفہ موقف سے تنگ آگئے ہیں۔ یہ دو واضح حالیہ مثالیں ہیں۔ ... امریکہ کے لیے اس میں یہ سبق ہے کہ عالم گیریت دو طرفہ راستہ ہے اور جیسا کہ پرانا مقولہ ہے کہ آپ اوپر جاتے ہوئے لوگوں سے اچھا سلوک کیجیے۔ اس لیے کہ واپسی میں بھی ان سے ملاقات ہو سکتی ہے۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ ۷مئی ۲۰۰۱ء)

فرانس کے سفیر نے اپنی کامیابی کا سہرا اس بات کو قرار دیا کہ ہماری پالیسی کی بنیاد مکالمہ اور

باہمی احترام ہے۔برطانیہ کے سفیر سر جرمی گرین اسٹاک نے اپنے مخصوص انداز میں کہا: حالیہ ووٹ باقی دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات پر ایک تبصرہ تھا۔ (ٹائم‘ ۲۱ مئی ۲۰۰۱ء) ۔ چین نے زیادہ ہی کھل کر کہا : اس ووٹ کے ذریعے امریکہ کی اس کوشش کو کہ نام نہاد انسانی حقوق کے مسائل کو اپنی طاقت کی سیاست اور دنیا پر غلبے کے لیے دبائو کے آلے کے طور پر استعمال کرے‘ سختی سے مسترد کر دیا گیا ہے۔

امریکہ کے عالمی کردار کی اہمیت

امریکہ اوردوسرے ممالک کے دانش وروں اور سفارت کاروں کے اس نوعیت کے ردّعمل کی روشنی میں یہ کہنا درست ہوگا کہ اقوام متحدہ میں امریکہ کی ان شکستوں کو سرسری طور پر نہیں لینا چاہیے۔ خود پسندی اور محض دفاعی انداز میں بات کو ٹالا جا سکتا ہے مگر زمینی حقائق کو اس طرح نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ کا

عالمی کردار صرف امریکہ ہی کے لیے اہم نہیں ہے۔ یہ آج کی دنیا کے لوگوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ استخفاف‘ استہزا‘ انتقام اور الزام کا ردّعمل قابل فہم ہے لیکن یہ خود امریکہ کے لیے ایک سانحہ ہوگا کہ وہ اپنا دفاع کرنے کا اسیر ہو جائے اور گہرائی میں جا کر عالمی برادری کے جذبات و احساسات کا تجزیہ کرنے سے گریز کرے۔ یہ خود فریبی کا راستہ ہوگا جس کا خمیازہ دوسروں کے ساتھ اسے بھی بھگتنا پڑے گا۔ اقوام متحدہ کے اہم اداروں کے یہ ووٹ صرف ہوا کے رخ ہی کا پتا نہیں دیتے ‘بلکہ عالمی سطح پر پائی جانے والی خرابیوں اور چیلنجوں کی بھی نشان دہی کرتے ہیں۔ توجیہ اور لیپاپوتی سے حالات صرف بگڑ سکتے ہیں‘ بنائو کی کوئی صورت پیدا نہیں ہو سکتی۔

کئی اعتبار سے یہ ایک اہم موقع ہے‘ جب باقی دنیا کے اہل دانش کو آگے بڑھنا اور امریکہ اور روس کی قیادت کو صاف صاف بتانا چاہیے کہ اصل خرابی کیا ہے اور کہاں ہے؟ امریکہ محض امریکی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کا نام نہیں۔ امریکہ ایک اہم عالمی قوت اور ۳۰ کروڑ انسانوں کا ملک ہے‘ جو مادی وسائل سے مالا مال اور سائنس اور ٹکنالوجی کی اعلیٰ ترین مہارتوں کی آماجگاہ ہے۔ بلاشبہ امریکہ میں اقتدار کی کنجیاں جن کے ہاتھ میں ہیں وہ ایک خاص ذہن کے علم بردار اور مخصوص مفادات کے محافظ ہیں۔ دنیا بھر میں لوگوں کی شکایات کا اصل منبع یہی اسٹیبلشمنٹ ہے ۔اس کی گرفت خود امریکہ کی آبادی پر بھی ہے اور جس نے پوری دنیا میں اپنے مفادات کے لیے تباہی مچا رکھی ہے۔ خود امریکہ کے عوام کی ایک بڑی تعداد بھی مظلوم ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ایک دن دنیا کے دوسرے مظلوموں کے ساتھ وہ بھی ہم آواز ہو کر ظلم کے خلاف نہ اٹھ کھڑی ہو۔ آخر ویت نام کی جنگ کے خلاف امریکی قوم کی خاموش اکثریت اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔اب امریکہ میں خود مسلمانوں کی تعداد روز افزوں ہے اور ۷۰‘۰ ۸لاکھ مسلمان‘ قوم کے ضمیر کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آج میڈیا اتنا طاقت ور ہے کہ دنیا کے کسی بھی گوشے سے ساری انسانیت کو مخاطب کیا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں یہ خود امریکہ کے مفاد میں ہے کہ وہ خود پسندی کے خول سے نکلے اور ان اسباب و عوامل کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لے جو امریکہ کو دنیا کے تمام لوگوں سے کاٹ رہے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ اسی طرح پورے عالم انسانی کا مفاد بھی اس میں ہے کہ تلخی‘ صف آرائی اور جنگ جوئی کے بجائے افہام و تفہیم اور مکالمے کا راستہ اختیار کرے اور دلیل اور شہادتوں کے ساتھ ان اسباب کی نشان دہی کرے جو بگاڑ کا ذریعہ ہیں۔

امریکہ کا استعماری کردار

بلاشبہ امریکہ نے جمہوریت‘ آزاد ی اور حقوق انسانی کے لیے آواز بلند کی ہے مگر کیا وجہ ہے کہ

عالمی برادری کی اکثریت ان باتوں کو اخلاص‘ دیانت اور شفافیت کے رنگ و بو سے محروم پاتی ہے۔ امریکہ خود برطانوی اور فرانسیسی استعمار کا دَور دیکھ چکا ہے۔اس نے استعماری شکنجوں کو توڑ کر آزادی حاصل کی تھی اور

اس وجہ سے دنیا کی مظلوم اقوام اسے اپنا ہم سفر سمجھنے لگی تھیں۔ آخر کیوں وہی اقوام اب خود امریکہ کو ایک استعماری قوت سمجھ کر اس سے فاصلہ پیدا کر رہی ہیں۔ امریکہ کبھی قوموں کے حق خود ارادیت کا علم بردار سمجھا جاتا تھا‘ اب اسے کیوں انسانی حقوق کی پاس داری کے بارے میں اعتماد سے محروم کیا جا رہا ہے؟ بات صرف  بارودی سرنگوں (land mines)کے بارے میں سردمہری‘ماحولیات کے خطرات کے باب میں تساہل اور بین الاقوامی معاہدات سے گلوخلاصی کی کوشش تک محدود نہیں۔ جن اہل علم نے مخالفت کے اسباب کی تان ان مسائل پر توڑی ہے انھوں نے بہت سہل انگاری کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عالم اسلام اور اس کی سیاسی اور فکری قیادتوں کو اس نازک تاریخی موقع پر کسی مدا ہنت سے کام نہیں لینا چاہیے اور حالات کا بے لاگ تجزیہ کر کے امریکہ کی قیادت کو اور پوری دنیا کے سوچنے سمجھنے والے لوگوں کو ان اسباب و عوامل کا احساس دلانا چاہیے جو عالمی سیاست میں بگاڑکا باعث اور انسانی معاشرے میں ظلم و استحصال کا ذریعہ ہیں۔

بنیادی تبدیلی کی ضرورت

بلاشبہ امریکہ آج سیاسی‘ معاشی اور عسکری اعتبار سے دنیا کا سب سے طاقت ور ملک ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس قوت و سطوت کے باوجود امریکہ دنیا کا محبوب اور پسندیدہ ترین ملک نہیں۔ مادّی خوش حالی میں اس کا درجہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو‘ لیکن انسانیت کی میزان میں اس کا وزن بڑا ہلکا ہے۔ اچھے انسان دنیا کے ہر ملک اور ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں‘ لیکن بحیثیت مجموعی جو امیج امریکہ کا دنیا میں ہے وہ اجڈ امریکیوں (The Ugly American)کی تصویر سے قریب تر ہے۔جمہوریت‘ آزادی اور حقوق انسانی کے تمام دعوے اپنی جگہ‘ اور امریکہ کی سرزمین پر ان کے تجربات کے کچھ مثبت پہلوئوں کے اعتراف کے ساتھ‘ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ دنیا کے جن جن ممالک پر امریکی اثرات پڑے ہیں یا پڑ رہے ہیں ان کے دامن میں پھول کم اور کانٹے زیادہ ہیں۔ ماضی کی سامراجی قوتیں جس ننگی جارحیت‘ جبر‘ غلامی اور لوٹ کھسوٹ کی تھیں‘ آج وہی کھیل امریکہ خوش نما نظریات اور دل فریب وعدوں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ ظلم کی شکلیں بدل گئی ہیں‘ اس کی حقیقت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ اس لیے ضروری ہے کہ حقائق کو بے نقاب کیا جائے اور امریکہ کے عالمی کردار کے اصل خدوخال کو بلاکم و کاست پیش کیا جائے‘ تاکہ آج کے انسان کے اصل مسائل اور اس کی روح کے حقیقی اضطراب کو سمجھا جا سکے۔ امریکہ کو سمجھنا چاہیے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ محض انتقامی سیاست کے مظاہرنہیں ہیںبلکہ اس کی اپنی پالیسیوں اور کارکردگی کے خلاف اعلانِ بغاوت ہے۔ اگر وہ

فی الحقیقت دنیا کے تمام انسانوں کے ساتھ دوستی اور تعاون کا رشتہ استوار کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنی فکر اور اپنے نظامِ کار میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ مسئلہ محض بڑے اور چھوٹے اور طاقت ور اور کمزور کانہیں بلکہ ان اصولوں‘ قوموں اور ملکوں کے درمیان تعلق کی بنیادوں کا ہے جن کے نتیجے میں دنیا میں حقیقی امن اور انصاف قائم ہو سکے اور دنیا کے وسائل تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہو سکیں۔ کوئی کسی کا محتاج نہ ہو‘ سب عزت اور وقار سے زندگی گزاریں  ع

کس نہ گردد در جہاں محتاج کس

یہی وہ کسوٹی ہے جس پرکامیاب اور ناکام نظام‘ صحت مند اور مریض معاشرہ‘ صالح اور ظالم تہذیب کو پرکھا جاسکتا ہے۔

بے اعتمادی کیوں؟

امریکہ پر بے اعتمادی اور اس سے بے زاری کی پہلی اور سب سے اہم وجہ امریکہ کا عالمی بالادستی کا عزم اور ہدف ہے۔نظریات کی دنیا میں آزاد مسابقت‘ معیشت میں تجارت اور تعاون‘ سیاسی معاملات میں اشتراک اور مشترک مقاصد کے لیے معاونت اور مفاہمت دنیا کے تمام انسانوں کے لیے مفید اور ضروری ہیں۔ لیکن اگر ایک قوم یا ملک محض اپنی قوت کے بل پر دوسروں کو اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش کرے اور محض اپنے مفاد کے لیے دوسروں کو دائو پر لگا دے تو یہ عالمی برادری کے لیے سّمِ قاتل اور سامراج کی ایک مکروہ شکل ہے۔

امریکہ آج ایک سامراجی قوت ہے اور اس کی تمام سیاسی‘ معاشی‘ ثقافتی اور عسکری پالیسیاں سامراجی مقاصد کا آلہ کار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت‘ آزادی‘ انسانی حقوق اور معاشرتی ترقی کے نعرے نہ دلوں کو مسخر کر پاتے ہیںاور نہ قوموں کی زندگی میں کسی خیر اور فلاح کا پیغام لاتے ہیں۔ ایک قوم کی طرف سے دوسروں پر بالادستی کے قیام کی کوشش تو تصادم اور کش مکش ہی کو جنم دے سکتی ہے اور دے رہی ہے۔ کاروبارِ حیات کو بدلے بغیر محض کردار بدلنے سے حالات کیسے بدل سکتے ہیں۔ ہسپانوی‘ پرتگالی اور ولندیزی سامراج کا دَور ہو یا برطانوی اور فرانسیسی سامراج کا‘ روسی استعمار ہو یا امریکی استعمار‘ جرمنی وجاپان بالادستی کے قیام کے لیے برسرِجنگ ہوں یا اسرائیل اور بھارت ملک گیری میں مصروف--- اصل ایشو ایک ہی ہے: دوسروں کو اپنا محکوم بنانا اور انسانوں پرقوت کے ذریعے حکمرانی اور بالادستی کا قیام۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ آزادی اور حقوق انسانی کے تمام دعووں کے باوجود دنیا کے دوسرے ممالک اور اقوام پراپنے مفادات کے تحفظ اور حصول کے لیے بالادستی قائم کرنے کے لیے سرگرم ہے ۔جب تک یہ صورت حال تبدیل نہیں ہوتی‘ خوش نما الفاظ اور

دل کش وعدوں سے غلامی کی زنجیریں پھولوں کی لڑیاں نہیں بن سکتیں۔

امریکی تہذیب اور سیاست جن تضادات کا شکار رہی ہے‘ ان پر اس وقت گفتگو پیش نظر نہیں۔ اس وقت ہمارا موضوع امریکہ کی سرزمین پر یورپی اقوام کا قبضہ‘ وہاں کی اصل مقامی آبادی (ریڈ انڈین) سے سلوک‘ افریقہ سے غلاموں کی تجارت اور نسل اور رنگ پر مبنی معاشرے کا قیام نہیں ہے۔ ہمارے زیر بحث ان کی جنگ آزادی‘ دستور پر مبنی جمہوریت اور آزاد معیشت کا قیام یا منروڈاکٹرائن بھی نہیں ہے۔ ہم بات کا آغاز بیسویں صدی میں پہلی جنگ عظیم (۱۸-۱۹۱۴ء) کے بعد سے کر رہے ہیں۔ اس وقت امریکہ‘ دنیا کے سامنے کچھ اصولوں کے علم بردار اور خصوصیت سے محکوم اقوام کی آزادی اورعالمی برادری کے لیے بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی اداروں کے ذریعے آزادی اور امن کے داعی کی حیثیت سے آیا تھا۔ صدر ووڈرو ولسن کے اصول سیاست اور لیگ آف نیشنز کا قیام ایک اچھا آغاز تھا۔ لیکن دوسری جنگ عظیم (۴۵-۱۹۳۹ء)کے بعد سے جو دَور شروع ہوا وہ شفاف نہیں۔

جمہوریت‘ آزادی‘ حقوق انسانی اور اقوام متحدہ کے ذریعے ایک عالمی سلامتی کے نظام کا قیام‘ اس دَور کے اعلان شدہ مقاصد رہے مگر عملاً سردجنگ کی سیاست نے دنیا کو صرف نظریات ہی نہیں ‘سیاسی اور معاشی مفادات کا اکھاڑہ بنا دیا۔ امریکہ ایک کالونی کی تنگنائے سے نکل کر ایک عالمی طاقت بن گیا اور اس کے ساتھ اس کی سیاست نے بھی وہی سامراجی رنگ و روپ اختیار کر لیے جو ماضی کی استعماری قوتوں کا وطیرہ رہے ہیں۔ بظاہر یہ جنگ اشتراکیت کی ظلمتوں سے دنیا کو بچانے اور آزادی کی روشنیوں سے روشناس کرانے کے لیے تھی لیکن اس جمہوری قبا میں چنگیزیت ہی چھپی ہوئی تھی۔ گذشتہ ۶۰ سال کی سیاست جن تضادات‘ تناقضات اور تباہ کاریوں سے عبارت ہے اس کی جڑیں سرد جنگ کے اس خمیر میں پیوست ہیں۔ گویا    ؎

میری تعمیر میں مضمر ہے ایک صورت خرابی کی

دوسری جنگ کے بعد حکمت عملی

دوسری جنگ کے بعد جو حکمت عملی نئے عالمی نظام کے لیے وضع کی گئی‘ اس میں ایک طرف اقوام متحدہ کا قیام‘ انسانی حقوق کے اعلان کا اجرا‘ عالمی عدالت انصاف کا قیام‘ نئے عالمی مالیاتی اداروں کا قیام تھا تو دوسری طرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جو اصل بااختیار ادارہ تھا‘ پانچ ملکوں کا ویٹو اور امریکہ اور روس کی عالمی بالادستی کے لیے اپنی اپنی منصوبہ بندی اہم ہے۔ امریکہ کی خارجہ سیاست کی فکری بنیادیں جارج کینان نے مرتب کیں ‘جس کے تین ستون تھے:

۱- عالمی قوت کی حیثیت: امریکہ کو اصل مسئلہ یہ درپیش ہے کہ وہ ایک متحارب دنیا میں ایک عالمی قوت کی حیثیت سے کس طرح اپنے کو مستحکم کرے۔ کینان نے صاف الفاظ میں کہا کہ حقیقی خارجہ پالیسی کا تعلق سیدھے سیدھے قوت کے حصول و استحکام سے ہے۔ امریکہ کی سلامتی اس میں ہے کہ قوت کے حصول کو مرکزیت دے اور ’’حقوق انسانی‘ معیارِ زندگی کی بلندی اور فروغ جمہوریت کے غیر حقیقی اور غیر واضح تصورات کی بات چھوڑ دے‘‘۔

۲- معاشی اور سیاسی بالادستی: معاشی اور سیاسی طاقت میں عدم توازن ایک حقیقت ہے۔ دوسری جنگ کے بعد امریکہ میں دنیا کی آبادی کا صرف ۳.۶ فی صد تھا ‘جب کہ دنیا کی دولت کے ۶۰ فی صد پر اسے قبضہ حاصل تھا۔ جارج کینان کے الفاظ میں: دنیا کے نئے اُبھرتے ہوئے نظام میں امریکہ کا اصل ہدف تعلّقات کار کا ایک ایسا نظام وضع کرنا ہے جن کے نتیجے میں قوت کا یہ عدم توازن اس طرح برقرار اور محفوظ رکھا جا سکے کہ امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے کوئی خطرہ اور رکاوٹ رونما نہ ہو۔

اس کے لیے امریکہ کو ان وسائل تک رسائی حاصل ہونی چاہیے جو اس کے معاشی اور سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہیں۔

کینان نے دنیا کا جو نیا سیاسی نقشہ تجویز کیا اس میں اپنے وسائل کے تحفظ (the protection of our resources) کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ بین الاقوامی راستے محفوظ ہوں‘ تجارت اور فوجی نقل و حمل کی راہیں کھلی رہیں‘ جن ممالک سے خام مال اور انرجی درکار ہے وہاں ایسی حکومتیں ہوں جو تعاون کریں اور سپلائی لائن برقرار رہنے کی ضمانت حاصل ہو۔اس سلسلے میں قومی تحریکوں سے خطرہ ہو سکتا ہے جو قومی اور ملکی مفاد کی بات کریں۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ ان ملکوں کو اشتراکی عناصر سے محفوظ رکھا جائے اور اگر ایسی حکومتیں ہمارے مفید مطلب ہوں جو چاہے سخت گیر ہوں مگر ہمارے مفادات محفوظ ہوں تو ہمیں ایسی ناخوش گوار

صورت حال کو ضمیر کی کس خلش کے بغیر ترجیحاً قبول کرنا چاہیے۔ البتہ نجی سرمایہ کاری‘ بیرونی سرمائے کی آمدورفت اور منڈی کی معیشت کو فروغ دینا چاہیے۔  (بحوالہ: Deterring Democracy‘از نوئم چومسکی‘ ص ۴۹ اور Brave New World Order از جیک نلسن‘ ص ۴۳)

۳- عسکری حصار: اشتراکی ممالک کے گرد ایسا سیاسی اور عسکری حصارتعمیر کر دیا جائے جس کے نتیجے میں اشتراکی انقلاب دوسرے ممالک تک نہ پہنچ سکے۔ یہ کام دفاعی اور معاشی معاہدات کے جال بچھا کر انجام دیا جا سکتا ہے۔ اسے حصار بندی کی حکمت عملی (strategy of containment)کہا جاتا ہے۔ جس کے تحت ناٹو (NATO)‘ سیٹو (SEATO)  ‘ سینٹو (CENTO) ‘ بغداد پیکٹ  اور ایسے ہی دوسرے عسکری بلاک تشکیل دیے گئے۔ (جاری)

 

]ترجمہ[ اے ایمان والو‘ اپنے اسلحہ سنبھالو اور جہاد کے لیے نکلو‘ ٹکڑیوں کی صورت میں یا جماعتی شکل میں۔ اور تم میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ڈھیلے پڑ جاتے ہیں‘ پس اگر تم کو کوئی گزند پہنچ جائے تو کہتے ہیں کہ مجھ پر اللہ نے فضل کیا کہ میں ان کے ساتھ شریک نہ ہوا ۔ ]النساء ۴:۷۱-۷۲[

’حذر‘ کے اصل معنی کسی خطرہ اور آفت سے بچنے کے ہیں۔ اپنے اسی مفہوم سے ترقی کر کے یہ لفظ ان چیزوں کے لیے استعمال ہوا جو جنگ میں دشمن کے حملوں سے بچنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ مثلاً زرہ بکتر‘ سپر‘ خود وغیرہ۔اس کا خاص استعمال تو دفاعی آلات ہی کے لیے ہے‘ لیکن اپنے عام استعمال میں یہ ان اسلحہ پر بھی بولا جاتا ہے جو حملے کے کام آتے ہیں مثلاً تیر‘ تفنگ‘ تلوار وغیرہ۔ یہاں یہ لفظ اپنے عام مفہوم ہی میں معلوم ہوتا ہے۔ ... ’ثبات، ثُبَۃٌ‘ کی جمع ہے۔ ثُبَۃٌ،کے معنی سواروں کی جماعت‘ٹکڑی اور دستے کے ہیں۔

عرب میں جنگ کے دو طریقے معروف تھے۔ ایک منظم فوج کی شکل میں لشکر آرائی‘ دوسرا وہ طریقہ جو گوریلا جنگ [guerilla warfare]میں اختیار کیا جاتا ہے یعنی ٹکڑیوںاور دستوں کی صورت میں دشمن پر چھاپہ مارنا۔ یہاں ’ثبات‘ کے لفظ سے اسی طریقے کی طرف اشارہ ہے۔ مسلمانوں نے یہ دونوں طریقے استعمال کیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منظم فوج کشی بھی فرمائی اور وقتاً فوقتاً سریّے بھی بھیجے۔

’بَطّا یُبَطّیُ‘ کے معنی ڈھیلے پڑنے‘ سست پڑنے اور پیچھے رہ جانے کے بھی ہیں اور دوسروں کو سست کرنے کے بھی۔ ...  ایک حدیث میں ہے کہ مَنْ اَبَطَأ بِہٖ عَمَلُہٗ لَمْ یُسْرِعْ بِہٖ لَسَبُہٗ ]مسند احمد‘ ج۲‘ ص ۲۵۲[ جس کا عمل اس کو پیچھے کر دے گا اس کا نسب اس کو آگے نہ بڑھا سکے گا۔

]ترجمہ[پس چاہیے کہ اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے وہ لوگ اٹھیں جو دُنیا کی زندگی آخرت کے لیے تج چکے ہیں اور جو اللہ کی راہ میں جنگ کرے گا تو خواہ مارا جائے یا غالب ہو ہم اس کو اجر عظیم دیں گے۔ ]النساء ۴:۷۴[

یہ مسلمانوں کو من حیث الجماعت خطاب کر کے مسلح ہونے اور جنگ کے لیے اُٹھنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا کہ اگر دستوں اور ٹولیوں کی صورت میں دشمن پر چھاپے مارنے کی نوبت آئے تو اس کے لیے بھی نکلو‘ اور اگر منظم ہو کر جماعتی شکل میں فوج کشی کی ضرورت پیش آئے تو اس سے بھی دریغ نہ کرو۔

پھر فرمایا کہ تم میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو جنگ سے خود بھی جی چراتے ہیں اور دوسروں کو بھی پست ہمت کرتے ہیں۔ ان کا حال یہ ہے کہ اگر تمھیں کسی مہم میںکوئی گزند پہنچ جائے تو خوش ہوتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں خوب بچایا کہ ہم اس مہم میں ان کے ساتھ شریک نہیں ہوئے اور اگر تمھیں کامیابی حاصل ہوتی ہے تو حاسدانہ کہتے ہیں کہ کاش ہم بھی اس میں شامل ہوتے تاکہ خوب مالِ غنیمت حاصل کرسکتے۔ اس دوسری بات کے ساتھ کَاَنْ لَّمْ تَکُنْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہٗ مَوَدَّۃ کے الفاظ اس بات کے کہنے والوں کے باطن پر عکس ڈال رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ اپنی شامت ِاعمال سے کسی مہم میں شامل نہیں ہوتے تو ایمانی و اسلامی اخوت کا کم از کم تقاضا یہ ہے کہ مسلمانوں کی کامیابی پر خوش ہوں کہ اللہ نے ان کے دینی بھائیوں کو سرخرو کیا۔لیکن انھیں اس بات کی کوئی خوشی نہیں ہوتی‘ بلکہ جس طرح حریف کی کسی کامیابی پر آدمی کا دل جلتا ہے کہ وہ اس میں حصہ دار نہ ہو سکا‘ اسی طرح یہ لوگ اس کو اپنی کامیابی نہیں بلکہ حریف کی کامیابی سمجھتے ہیں اور اپنی محرومی پر سر پیٹتے ہیں۔ گویا اسلام اور مسلمانوں سے ان کا کوئی رشتہ ہی نہیں۔...

آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ منافقین تو صرف اس جنگ کے غازی بننا چاہتے ہیں جس میں نکسیر بھی نہ پھوٹے اورمالِ غنیمت بھی بھرپور ہاتھ آئے۔ خدا کے دین کو ایسے نام نہاد غازیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ خدا کی راہ میں جہاد کے لیے وہ اٹھیں جو آخرت کے لیے اپنی دنیا تج چکے ہوں۔ جو لوگ دنیا کو تج کر صرف آخرت کی کامیابی کے لیے جہاد کریں گے وہ مارے جائیں یا فتح مند ہوں‘ دونوں ہی صورتوں میں ان کے لیے اجر ِعظیم ہے۔ رہے یہ لوگ جو صرف اس وقت تک کے لیے مجنوں بنے ہیں‘ جب تک لیلیٰ کی طرف سے ان کو دودھ کا پیالہ ملتا رہے‘ خونِ جگرکا مطالبہ نہ ہو‘ تو ایسے مجنوں یہاں درکار نہیں ہیں۔

دعوت جہاد

]ترجمہ[ اور تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے لیے جنگ نہیں کرتے جو دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ‘ہمیں اس ظالم باشندوں کی بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنے پاس سے ہمدرد پیدا کر اور ہمارے لیے اپنے پاس سے مددگار کھڑے کر۔ ]النساء ۴:۷۵[

تمھیں کیا ہو گیا ہے کا اسلوب کسی کام پر اُبھارنے اور شوق دلانے کے لیے ہے--- مُسْتَضْعَفسے مرادمظلوم‘ مجبور اور بے بس کے ہیں۔ مُسْتَضْعِفین کا عطف ’فی سبیل اللہ‘پر اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ جو لوگ دین کی وجہ سے ستائے جا رہے ہوں ان کی آزادی کے لیے جنگ ’قتال فی سبیل اللہ‘ میں سب سے اول درجہ رکھتی ہے۔ ... اسلامی جہاد کا اصلی مقصد دنیا سے فتنہ (persecution)کو مٹانا ہے۔ ’قریہ‘ کو یہاں صرف مکّہ کے لیے خاص کر دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ان آیات کے نزول کے زمانے میں مکّہ کے علاوہ اور بھی بستیاں تھیں جن میں بہت سے مرد‘ عورتیں اور بچے مسلمان ہو چکے تھے اور وہ اپنے کافر سرپرستوں یا اپنے قبیلے کے کافر زبردستوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ ’مِنْ لَّدُنْکَ‘ کا موقع استعمال اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ظاہر حالات تو بالکل خلاف ہیں‘ کسی طرف سے امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی لیکن اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور اپنی عنایت سے کوئی راہ کھول دے تو کچھ بعید نہیں۔

تم ان مردوں‘ عورتوں اور بچوں کو کفار کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے کیوں نہیں اُٹھتے جو کفار کے اندر بے بسی کی حالت میں گھرے ہوئے اور ان سے چھوٹ کر مسلمانوں سے آملنے کی کوئی راہ نہیں پا رہے ہیں؟ جن کا حال یہ ہے کہ رات دن نہایت بے قراری کے ساتھ یہ دُعا کر رہے ہیں کہ: اے پروردگار ہمیں ان ظالم باشندوں کی بستی سے نکال اور غیب سے ہمارے ہمدرد پیدا کر اور غیب سے ہمارے مددگار کھڑے کر۔

بندہ مومن کی ذمّہ داری

اس آیت ]النساء:۷۵[ سے کئی باتیں ظاہر ہو رہی ہیں:

  •  ایک یہ کہ ظالم کفار نے کمزور مسلمانوں پر خود ان کے وطن کی زمین اس طرح تنگ کر دی تھی کہ وہ وطن ان کو کاٹے کھا رہا تھا‘ اور باوجودیکہ وطن کی محبت ایک فطری چیز ہے لیکن وہ اس سے اس قدر بیزار تھے کہ اس کو ظالم باشندوں کی بستی کہتے ہیں۔ اس کی طرف کسی قسم کا انتساب اپنے لیے گوارا کرنے پر تیار نہیں ہیں۔
  •  دوسری یہ کہ کوئی وطن اسی وقت تک اہل ایمان کے لیے وطن کی حیثیت رکھتا ہے جب تک اس کے اندر ان کے دین و ایمان کے لیے امن ہو۔ اگر دین و ایمان کو اس میں امن حاصل نہ ہو تو وہ وطن نہیں بلکہ وہ خوں خوار درندوں کا بھٹ‘ سانپوں اور اژدہوں کا مسکن اور شیطانوں کا مرکز ہے۔
  •  تیسری یہ کہ اس زمانے میں حالات اس قدر مایوس کن تھے کہ مظلوم مسلمانوں کو ظاہر میں نجات کی کوئی راہ بھی سجھائی نہیں دے رہی تھی۔ سارا بھروسا بس اللہ کی مدد پر تھا کہ وہی غیب سے ان کے لیے کوئی راہ کھولے تو کھولے۔ اس کے باوجودیہ مسلمان اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے۔ اللہ اکبر! کیا شان تھی ان کی استقامت کی! پہاڑ بھی اس استقامت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
  •  چوتھی یہ کہ اگر کہیں مسلمان اس طرح کی مظلومیت کی حالت میں گھر جائیں تو ان تمام مسلمانوں پر جو ان کی مدد کرنے کی پوزیشن میں ہوں جہاد فرض ہو جاتا ہے۔ اگر وہ ان کی مدد کے لیے نہ اٹھیں تو یہ صریح نفاق ہے۔

]ترجمہ[جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جنھوں نے کفر کیا وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں۔ تو تم شیطان کے حامیوں سے لڑو‘ شیطان کی چال تو بالکل بودی ہوتی ہے۔ ]النساء۴:۷۶[

یہ آیت اہل ایمان کی حوصلہ افزائی کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کی جنگ خدا کی راہ میں ہوتی ہے اور خدا ان کے سر پر ہوتا ہے۔ برعکس اس کے اہل کفر کی جنگ شیطان کی راہ میں ہوتی ہے اور شیطان ان کے سر پر ہوتا ہے۔ گویا مقابلہ اصلاً رحمن اور شیطان کے درمیان ہوتا ہے۔ چونکہ خدا نے شیطان کو بھی ایک محدود دائرے کے اندر مہلت دی ہے‘ اس وجہ سے وہ اپنے حامیوں کو کچھ چالیں بتاتا اور سکھاتا ہے لیکن آخر خدا کے کیدمتین کا مقابلہ وہ اور اس کے اولیا کیا کر سکتے ہیں؟ اس وجہ سے اہل ایمان کو ان سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ اگر انھوں نے خدا کی وفاداری میں کوئی کمزوری نہیں دکھائی تو بہرحال کامیابی انھی کی ہے۔

...کسی کام کی کوئی مضبوط بنیاد اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک وہ بنیاد حق پر نہ ہو۔ شیطان کے ہر کام کی بنیاد چونکہ باطل پر ہوتی ہے‘ اس وجہ سے اس کے مستحکم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

منافقین کی شر انگیزیاں

آگے انھی منافقین کی مزید کمزوریاں اور شرارتیں واضح کی جا رہی ہیں‘ تاکہ مسلمان ان کے فتنوں سے آگاہ ہو جائیں اور ان کی وسوسہ اندازیوں سے مسلمانوں کے اندر جو غلط اور منافی ء توحید و اسلام رجحانات اُبھر سکتے ہیں ان کا اچھی طرح ازالہ ہو جائے:

پہلے ان منافقین کے اس رویے پر توجہ دلائی کہ اب تک تو یہ اپنے ایمان و اخلاص کی دھونس جمانے کے لیے بہت بڑھ چڑھ کر جہاد کے لیے مطالبہ کر رہے تھے‘ معلوم ہوتا تھا کہ ان میں سے ایک ایک شخص جہاد کے عشق سے سرشار ہے لیکن پیغمبرؐ کی طرف سے ان کو صبر و انتظار کی ہدایت کی جاتی تھی کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا ہے‘ ابھی نماز اور زکوٰۃ کے اہتمام کے ذریعے سے اپنے آپ کو مضبوط اور منظم کرو‘ تاکہ وقت آنے پر پوری مومنانہ شانِ استقامت کے ساتھ خدا کی راہ میں لڑ سکو۔ لیکن جب جنگ کا حکم دے دیا گیا ہے تو چھپتے پھرتے ہیں اور خدا سے زیادہ انسانوں سے ڈرتے ہیں اور شاکی ہیں کہ اتنی جلدی جہاد کا حکم کیوں دے دیا گیا ہے۔

اس کے بعد ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ فرائض سے فرار موت سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔موت اپنے وقت ہی پر آئے گی اور جب اس کا وقت آجائے گا تو وہ ہر شخص کو ڈھونڈ نکالے گی خواہ وہ کتنے ہی مضبوط قلعوں کے اندر چھپا بیٹھا ہو۔

اس کے بعد منافقین کی ایک شرارت کا ذکر فرمایا کہ یہ لوگ مسلمانوں سے متعلق امن یا خطرے کی کوئی بات سنتے ہیں تو اس کو لے اُڑتے ہیں اور لوگوں کے اندر سنسنی پیدا کرنے کے لیے اس کو پھیلادیتے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ملت کے بدخواہ اور اس کے اندر انتشار کے خواہاں ہیں۔ اگر یہ خیرخواہ ہوتے تو اس طرح کی کوئی بات اگر ان کے علم میں آتی تو پہلے اس کو رسولؐ اور امت کے ارباب حل و عقد کے سامنے لاتے تاکہ وہ اس کے تمام پہلوئوں پر غور کر کے فیصلہ کر سکتے کہ اس صورت میں کیا قدم اٹھانا چاہیے۔

فرمایا کہ جنگ کا جو حکم تمھیں دیا جا رہا ہے اس میں تم پر اصل ذمہ داری تمھارے اپنے ہی نفس کی ہے‘ تم خود اٹھو اور مومنین مخلصین کو اٹھنے کی ترغیب دو۔ اللہ چاہے گا تو تمھارے ہی ذریعے سے وہ ان کفار کا زور توڑ دے گا۔ اللہ بڑی زبردست طاقت والا ہے۔ رہے یہ منافقین تو ان کو ان کے حال پر چھوڑو۔ جو کسی کارِخیر میں تعاون کرتا اور اس کے حق میں لوگوں کو اُبھارتا ہے‘ وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو کسی کارِخیر سے خود رکتا ہے اور دوسروں کو روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنے اس عمل سے حصہ پائے گا۔

]ترجمہ[  تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا جاتا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز کا اہتمام رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو‘ تو جب ان پر جنگ فرض کر دی گئی تو ان میں سے ایک گروہ لوگوں سے اس طرح ڈرتا ہے جس طرح اللہ سے ڈرا جاتا ہے‘ یا اس سے بھی زیادہ۔ وہ کہتے ہیں‘ اے ہمارے ربّ‘ تو نے ہم پر جنگ کیوں فرض کر دی‘ کچھ اور مہلت کیوں نہ دی۔ کہہ دو‘ اس دنیا کی متاع بہت قلیل ہے اور جو لوگ تقویٰ اختیار کریں گے ان کے لیے آخرت اس سے کہیں بڑھ کر ہے‘ اور تمھارے ساتھ ذرا بھی حق تلفی نہ ہوگی۔ ]النساء ۴: ۷۷[

اس دور میں کفار کے علاقوں میں مسلمانوں کی مظلومیت اور بے بسی... ]کے[ ان حالات سے مدینہ کے مسلمانوں کے اندر جنگ کا احساس پیدا ہونا ناگزیر تھا۔ مسلمان اپنے اس احساس کا ذکر نبیؐ سے کرتے تو منافقین بھی پورے جوش و خروش سے جذبۂ جنگ کا اظہار کرتے ‘بلکہ اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کچھ زیادہ ہی جوش و خروش کا اظہار کرتے۔ قاعدہ یہ ہے کہ جس کا عمل کمزور ہو وہ ایک قسم کے احساسِ کہتری میں مبتلا ہو جاتا ہے‘ جس کے سبب سے اسے لاف زنی کا سہارا لینا پڑتا ہے‘ تاکہ اس کی بزدلی کا راز دوسروں پر کھلنے نہ پائے۔ چنانچہ منافقین بھی زبان سے بڑے ولولے کا اظہار کرتے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں روکتے کہ ابھی انتظار کرو اور نماز کے اہتمام اور زکوٰۃ کے ذریعے سے اپنے تعلق باللہ‘ اپنی تنظیم اور اپنے جذبۂ انفاق کو ترقی دو۔ لیکن جب اس کا وقت آگیا اور جنگ کا حکم دیا گیا تو زبان کے ان غازیوں کا سارا جوش سرد پڑ گیا‘ اب یہ چھپنے کی کوشش کرتے اور دل میں جو رُعب اور خشیت خدا کے لیے ہونی چاہیے اس سے زیادہ دہشت ان کے دلوں پر انسانوںکے لیے طاری تھی۔ ...فرمایا ‘ ان سے کہہ دو کہ اس دنیا کی زندگی اور اس کا عیش و آرام تو چند روزہ ہے۔ اس کے لیے اتنی بے قراری کیوں ہے۔ عیشِ دوام تو آخرت میں ہے‘ جو لوگوں سے ڈرنے والوں کے بجائے اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہے۔ اس کے لیے کمر باندھیں اور اطمینان رکھیں کہ جو کریں گے اس میں سے رتی رتی کا صلہ پائیں گے۔ ذرا بھی ان کے ساتھ کمی نہیں کی جائے گی۔

جہاد اور نماز

اس آیت سے یہ بات نکلتی ہے کہ اسلامی جنگ کی روح اور نماز و زکوٰۃ میں نہایت گہری مناسبت ہے۔ جو لوگ خدا کی راہ میں لڑنے کے لیے تیار ہو رہے ہوں‘ ان کے لیے اسلحہ کی ٹریننگ سے زیادہ ضروری اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ ہے۔ جہاد میں جو للہیت‘ اخلاص اور نظم و طاعت کی جو پابندی مطلوب ہے ‘اس کی بہترین تربیت نماز سے ہوتی ہے ۔ اس کے لیے انفاق فی سبیل اللہ کا جو جذبہ درکار ہے‘ وہ ایتائے زکوٰۃ کی پختہ عادت سے نشوونما پاتا ہے۔ ان صفات کے بغیر اگر کوئی گروہ جنگ کے لیے اٹھ کھڑا ہو تو اس جنگ سے کوئی اصلاح وجود میں نہیں آ سکتی‘ اس سے صرف فساد فی الارض میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہی حکمت ہے کہ اسلامی جنگ کے سخت سے سخت حالات میں بھی نماز کے اہتمام و التزام کی تاکید ہوئی۔

منافقین کی بزدلی

]ترجمہ [ اورموت تم کو پالے گی تم جہاں کہیں بھی ہو گے‘ اگرچہ مضبوط قلعوں کے اندر ہی ہو۔ اور اگر ان کو کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو کہتے ہیں‘ یہ خدا کی طرف سے ہے‘ اور اگر کوئی گزند پہنچ جائے تو کہتے ہیں‘ یہ تمھارے سبب سے ہے۔ کہہ دو‘ ان میں سے ہر ایک اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ ]النساء ۴:۷۸[

منافقین کے خوفِ موت کی علّت بھی واضح فرمائی ہے اور اس عقیدے کو بھی بیان فرمایا ہے‘ جو اس خوف کا واحد علاج ہے۔ فرمایا کہ موت سے کسی کے لیے مفر نہیں ہے‘ جس کی موت جس گھڑی‘ جس مقام اور جس شکل میں لکھی ہے وہ آکے رہے گی‘ آدمی مضبوط سے مضبوط قلعوں کے اندر چھپ کے بیٹھے وہاں بھی موت اس کو ڈھونڈ لے گی‘ اس وجہ سے اس سے ڈرنا اور بھاگنا بے سود ہے۔ آدمی پر جو فرض جس وقت عائد ہوتا ہے‘ اس کو عزم و ہمت سے ادا کرے اور موت کے مسئلے کو خدا پر چھوڑے۔ آدمی کے لیے یہ بات تو جائز نہیں ہے کہ وہ تدابیر اور احتیاطوں سے گریز اختیار کرے‘ اس لیے کہ اس کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ خداکو آزمائے ۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی جائز نہیں ہے کہ وہ یہ گمان رکھے کہ وہ اپنی تدابیر سے اپنے آپ کو موت سے بچا سکتا ہے۔

پھر منافقین کی ایک اور حماقت کی طرف بھی اشارہ فرمایا جس کو ان کی اس بزدلی کی پرورش میں بڑادخل تھا وہ یہ کہ حق و باطل کی اس کش مکش کے دوران میں جو نرم و گرم حالات پیش آرہے تھے وہ ان سب کو خدا کی طرف سے نہیں سمجھتے تھے‘ بلکہ کامیابیوں کو تو خدا کی طرف سے سمجھتے‘ لیکن کوئی مشکل یا کوئی آزمایش پیش آجائے تو اسے پیغمبر کی بے تدبیری پر محمول کرتے ۔

افواہ سازی

]ترجمہ[ جب ان کو کوئی بات امن یا خطرے کی پہنچتی ہے تو وہ اسے پھیلا دیتے ہیں... پس اللہ کی راہ میں جنگ کرو۔ تم پر اپنی جان کے سوا کسی کی ذمہ داری نہیں ہے اور مومنوں کو اس کے لیے اُبھارو۔توقع ہے کہ اللہ کافروں کے دبائو کو روک دے ...  اور اللہ ہر چیز کی طاقت رکھنے والا ہے ]النساء ۴:۸۴-۸۵[

منافقین چونکہ ملّت کے خیرخواہ نہیں تھے‘ اس وجہ سے افواہیں پھیلانے کے معاملے میں بڑے چابک دست تھے۔ امن یا خطرے کی جو بات بھی ان کو پہنچتی آن کی آن میں جنگل کی آگ کی طرح ان کے ذریعے سے لوگوں میں پھیل جاتی۔ جماعتی زندگی میں افواہیںعام حالات میں بھی بڑے خطرناک نتائج پیدا کر سکتی ہیں اور جب حالات جنگ کے ہوں‘ تب تو ان کی خطرناکی دوچند ہو جاتی ہے۔ منافقین ان افواہوں سے یوں تو مختلف فائدے اُٹھانے کی کوشش کرتے لیکن خاص طور پر مسلمانوں‘ بالخصوص کمزور مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کے لیے یہ ان کا خاص حربہ تھا۔ بعض مرتبہ وہ اس طرح کی افواہوں سے مسلمانوں کے اندر غلط قسم کا اطمینان بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتے اور ظاہر ہے کہ بے جا تشویش کی طرح غلط اطمینان بھی ایک خطرناک چیز ہے۔

منافقین‘ قرآن کی دعوتِ جہاد کے لیے لوگوں کو اُبھارنے کے بجائے لوگوں کا حوصلہ پست کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس وجہ سے قرآن نے ان کی اس کوشش کو شفاعت سیئہ سے تعبیر کیا۔

اس مجموعۂ آیات کا آغاز اس مضمون سے ہوا تھا کہ پہلے تو منافقین بہت بڑھ بڑھ کر جنگ و جہاد کی باتیں بناتے تھے‘ لیکن اب جب کہ جنگ کا حکم دے دیا گیا ہے تو چھپتے پھرتے ہیں اور دوسروں کا حوصلہ بھی پست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔... یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ ؐ پر ذمّہ داری صرف اپنے نفس کی ہے‘ آپؐ خود جنگ کے لیے اُٹھیے اور مسلمانوں کو اٹھنے کے لیے اُبھاریے‘ جس کو توفیق ہوگی‘ وہ اُٹھے گا‘ جو نہیں اُٹھے گا اس کی ذمہ داری آپ ؐپر نہیں ہے۔ ... وہ آپؐ کے اور آپؐ کے مخلص ساتھیوں ہی کے اندر اتنی قوت پیدا کر دے گا کہ اسی سے کفار کا زور ٹوٹ جائے گا۔

اس کے بعد فرمایا کہ منافقین جو ریشہ دوانیاں اور افواہ بازیاں مسلمانوں کا حوصلہ پست کرنے اور جہاد سے روکنے کے لیے کر رہے ہیں‘ اس کی پروا نہ کیجیے۔ جو آج حق کی تائید و حمایت میں اپنی زبان کھولیں گے  وہ اس کا اجر پائیں گے اور جو اس کے خلاف کہیں گے وہ اس کی سزا بھگتیں گے۔ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے۔ (تدبر قرآن‘ ج ۲‘ ص ۳۳۳-۳۴۹۔ ترتیب: سلیم منصور خالد)

 

ترجمہ:  محمد ظہیر الدین بھٹی

امام حسن البناشہید ؒاتنی عظیم الشان‘ مضبوط بنیادوں والی عمارت بنانے میں کیسے کامیاب ہوئے جس کے نتیجے میں ایمان و عمل سے معمور نسلیں پے درپے چلی آرہی ہیں؟ کیا ان کے پاس جادو کی چھڑی تھی جس سے وہ دلوں پر قبضہ کر لیتے تھے اور لوگوں کو مسخر کرلیتے تھے؟ کیا ان کے پاس کوئی ایسی طاقت تھی کہ لوگ ان کے نظریے کو مان لینے پر مجبور ہو جاتے ‘ ان کی جماعت کی تائید کرنے لگتے‘ اور دعوت کی خاطر جان و مال کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے؟ امام شہیدؒ اپنی دعوت میں اور اپنے ساتھیوں کی تربیت میں کیوںکر اس طرح کامیاب ہوئے کہ وہ ہمارے لیے بے شمار منفرد نمونے اور عظیم مثالیںچھوڑ گئے۔

آیئے ان سوالات کے جواب تلاش کریں۔

آج بہت سے نوجوان‘ اپنے دَور کی مختلف قسم کی نفسیاتی اور سماجی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ وہ حبِّ جاہ اور حبِّ دنیا کے مرض میں گرفتار ہیں۔ وہ زندگی کے دبائو کا شکار ہیں‘ اور لامتناہی اغراض کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنے حقیقی فریضہ --- دعوت الی اللہ--- کو بھول چکے ہیں۔ وہ شیطانِ لعین کا آسان شکار بن چکے ہیں اور اس کی وسوسہ کاری کا نشانہ بن کر بے کارمحض بن گئے ہیں۔ ان نوجوانوں کے قریب جایئے‘ ان سے بات چیت کیجیے تو وہ اپنے آپ کو مورد الزام ٹھیراتے ہیں۔ یہ نوجوان کامیاب گروہ کے ساتھ چلنے کی حقیقی خواہش کا اظہار کرتے ہیں‘ وہ نجات کی کشتی میں سوار ہونا چاہتے ہیں‘ وہ پاک دائرے میں داخل ہونے کے متمنی ہیں‘ ایمان سے معمور لشکر کی ہم رکابی کی سعادت حاصل کرنے کی تڑپ رکھتے ہیں مگر زندگی کی سختیوں اور شیطان کی مسلسل انگیخت کے سامنے سرنگوں ہو کر‘ جلد ہی ان کی یہ خواہش دم توڑ دیتی ہے اور ان کا یہ جذبہ ماند پڑ جاتا ہے۔

نوجوانوں کی مدد کرنے کے لیے اور ان کو درپیش اس مشکل سے نجات دلانے کے لیے کسی ایسے ذریعے کی تلاش بہت اہم ہے جس کے نتائج یقینی ہوں۔ اس کے لیے نوجوانوں کی حالت کے حقیقی اسباب کا کھوج لگانا ضروری ہے۔ تجزیے و مطالعے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس کا بنیادی اور براہِ راست سبب ایمان کی کمی اور اللہ کے ساتھ رابطے میں کمزوری ہے۔ اگر ہم نوجوانوں کی اصلاح اور ان کے مرض کا درست علاج کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایمان میں اضافے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں مضبوطی کے لیے کام کرنا ہوگا۔ اس مقصد کی خاطر ہمیں ایک بار پھر ’’روحانی تربیت کے مدارس‘‘ کی طرف رجوع کرنا ہے تاکہ ہم شروع ہی سے درست راستے پر چلنے لگیں اور بالآخر اپنا نصب العین پا لیں۔

اس سلسلے میں حسن البنا  ؒہمارے لیے ایک عملی نمونہ تھے جو اپنے دور کے بگاڑ و فساد کے باوجود مشکلات پر غالب آئے۔ آپ نے قرآن و سنت کی روشنی میں تربیت کے نئے اسلوب اختیار کیے اور ان کے مطابق نوجوانوں کی تربیت کی۔ اس تربیت سے آپ نے اپنی جماعت میں وہ حقیقی روح پھونک دی جس سے وہ اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکی۔ آپ کے زیرتربیت نوجوانوں نے ان تربیتی گہواروں سے روحانی و فکری بالیدگی پائی۔ ان تربیتی گہواروں نے سب سے پہلے‘ ایمان اور پروردگار کے ساتھ رابطہ بہتر بنانے پر توجہ کی۔ یہی اس عظیم جماعت کی ترقی کا راز ہے جس نے دشمنوں کے کاری وار سہے‘ پھر بھی اُس کی مضبوطی و بلندی میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ اس کے صبر کے سامنے جابر وسرکش حکمرانوں نے بھی ہار مان لی۔ یہ تربیتی گہوارے‘ افراد کی تربیت کتاب اللہ اور منہج نبویؐ کے مطابق کرتے تھے۔

امام البنا ؒ تربیت کے تین ارکان تعارف‘ تفاہم اور تکافل کی وضاحت کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

جب آپ نے یہ انفرادی‘ اجتماعی اور مالی ذمّہ داریاں پوری کر دیں تو بلاشبہ اس نظام کے ارکان حاصل ہو جائیں گے اور اگر آپ نے اس میں کوتاہی کی تو یہ نظام مرجھائے گا‘ سکڑے گا ‘ حتیٰ کہ مر جائے گا اور اس کی موت اس دعوت کے لیے سب سے بڑا خسارہ ہے۔ یہ دعوت تو اسلام اور مسلمانوں کی امید ہے۔

امام شہیدؒ تربیت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے‘ چنانچہ فرماتے ہیں:

ہم اپنے نفسوں کی تربیت کریں گے تاکہ ہم مسلم بنیں۔ اپنے گھروں کی تربیت کریں گے تاکہ مسلم گھرانے وجود میں آئیں۔ ہم اپنی قوم کی تربیت کریں گے تاکہ ہم ایک مسلم قوم بنیں۔

اس تربیت کے لیے سازوسامان کیا تھا؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:

ہم نے اس کے لیے تیار کیا ہے: نہ ڈگمگانے والا ایمان‘ نہ رکنے والا یعنی مسلسل عمل‘ اور وہ روحیں جو اپنے لیے سب سے بہترین دن وہ سمجھتی ہیں جب وہ اللہ کے راستے میں شہادت پا کر‘ اس کی بارگاہ میں حاضر ہوں۔

ہمیں سخت ضرورت ہے کہ اپنے خالق سے دلوں کو مربوط کرنے والے ان اقوال پر غور کریں اور پھر اپنا جائزہ لیں۔ بہت سے لوگ کسی دعوت کے حقائق اور اس کی بنیادوں کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس دعوت کی بنیادوں اور اس کے مظاہر کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔ امام حسن البنا ؒ فرماتے ہیں:

لوگ دعوتوں کے صرف عملی مظاہر اور شکل و صورت کو دیکھتے ہیں مگر ان نفسیاتی محرکات اور روحانی الہامات کو اکثروبیشتر نظرانداز کر دیتے ہیں جو فی الحقیقت ان دعوتوں کا اصل سرمایہ اور ان کی غذا ہے‘ اور جن پر ان کی ترقی اور غلبہ موقوف ہے۔

امام البنا ؒنے اسلام کی عظمت و وقار اور شان و شوکت کی ازسرنو بازیابی کی تمام تر امیدیں اور توقعات‘ سچّے ایمان اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھے رابطے و تعلّق کے ذریعے دلوں کو زندہ کرنے سے وابستہ کر رکھی تھیں۔ آپ اس سلسلے میں فرماتے ہیں:

...لہٰذا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ سب سے پہلے ہم اپنی دعوت میں جس چیز کا اہتمام کرتے ہیں‘ اپنی دعوت کی ترقی اور غلبے میں جس بات پر انحصار کرتے ہیں‘ وہ ہے: روحانی بیداری۔ ہم سب سے پہلے روحانی بیداری‘ دلوں کی زندگی اور وجدان و احساسات کی حقیقی بیداری چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں: زندہ‘ مضبوط اور مستحکم نفوس‘ دھڑکنے والے نئے دل‘ اور غیور و اعلیٰ جذبات!

اللہ اکبر‘ کتنے سچّے ہیں یہ کلمات‘ یہ زندہ معانی‘ اور ازدل خیزد بردل ریزد‘ کے مصداق یہ عبارات! ان کلمات نے اعضا و جوارح پر وہ اثر ڈالا کہ الفاظ نے افعال کی صورت اختیار کر لی‘ کلمات نے زندگی کا روپ دھار لیا۔

امام مربی ؒ نے قلب کی بیداری‘ ایمان کی ضرورت و احساسات و وجدان کی حاضری پر زور دیا ہے کیوں کہ اسی سے مسلمان اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے قابل ہوتا ہے اوراس عظیم مہم کو سر کرنے کا اہل بنتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

اس سے پہلے کہ ہم آپ کو اس دعوت کے حوالے سے نماز و روزے کے بارے میں بتائیں‘ قضا و حکم‘ عادات و عبادات‘ اور نظم و معاملات کے متعلق بات کریں‘ ہم آپ سے زندہ دل‘ زندہ روح ‘ بیدار وجدان‘ حسّاس نفس اور گہرے ایمان کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں۔ دل و روح کی یہ بیداری انسان پر اثرانداز ہوتی ہے اور وہ اسلام کا مطلوب نمونہ بن جاتا ہے۔ اسلام انسان کو ایسا فرد بنا دینا چاہتا ہے جو حسّاس وجدان کا مالک ہو‘ حسن و قبح میں تمیز کر سکتا ہو‘ صواب و خطا کا درست ادراک کر سکتا ہو‘ ایسا مضبوط ارادہ رکھتا ہو جو حق کی خاطر کمزور پڑے نہ نرم۔ اسی لیے ہم ہر مسلمان بھائی سے کہتے ہیں کہ وہ احکامِ الٰہی کے مطابق عبادت کرے تاکہ اس کا وجدان ترقی کر سکے۔

یہ ہے ایمانی تربیت‘ اسلام کی وہ مضبوط بنیاد جس پر نبی ؐنے اپنی دعوت اور اسلامی مملکت کی تشکیل کی۔ امام شہید ؒ فرماتے ہیں:

حضور نبی کریم ؐنے اپنی دعوت کو راسخ کرنے کے لیے لوگوں کو ایمان کی طرف بلایا‘ پھر محبت و اخوت پر ان کے دلوں کو یک جا کیا۔ چنانچہ عقیدے کی قوت‘ وحدت و اتحاد کی قوت میں بدل گئی۔ آپؐ کی جماعت ایک ایسی جماعت بن گئی جس کے کلمے و دعوت کو ضرور غالب آکے رہنا تھا۔

ایمانی تربیت کا جذبہ امام شہیدؒ پر ہمیشہ غالب رہتا تھا۔ چنانچہ آپ اس مقصد کے لیے ہفتہ وار شبینہ مجالس منعقد کرنے پر زور دیتے تھے۔ ایک بار آپ نے فرمایا:

اخوان المسلمون کا طریقہ ہے کہ وہ ہفتے میں ایک رات تعارف‘ اخوت اور ذکر و دعا کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ میں نے چاہا کہ قیام اللیل‘ دعا اور استغفار کے بارے میں کچھ باتیں مختصراً عرض کر دوں۔

برادر عزیز! سب سے پاکیزہ مناجات یہ ہے کہ آپ اپنے رب سے اس وقت خلوت میں ہوں جب لوگ سوئے ہوئے ہوں‘ ماحول پرسکون ہو‘ رات نے اپنے پردے ڈال دیے ہوں۔ اس وقت آپ اپنے دل کو حاضر کریں‘ اپنے پروردگار کو یاد کریں‘ اپنی کمزوریوں کو سامنے رکھیں‘ اپنے مولا کی عظمت کا تصور کریں‘ اپنے آپ کو اس کے حضور پا کر آپ پرسکون ہوں۔ اس کی یاد سے آپ کا دل مطمئن ہو‘ اس کے فضل پر خوش ہوں اور اس کے خوف سے روئیں۔ اس کی نگرانی کا احساس کریں‘ دعا میں الحاح و اصرار کریں‘ استغفار میں محنت کریں‘ اور پھر اس ذات کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کریں جسے کوئی عاجز کر سکتا ہے نہ غافل۔

لہٰذا ہمیں سب سے پہلے تزکیہ قلوب اور تہذیب نفوس پر توجہ دینا چاہیے تاکہ ہم اطاعت کے عادی ہوجائیں‘ اللہ تعالیٰ ایمان کو ہمارا محبوب بنا دے‘ اور ہمارے دلوں کو اس سے مزین کر دے‘ کفر و فسق اور نافرمانی سے ہمیں نفرت ہو جائے۔ اس ایمانی بیداری کی بنا پر ہی ہم ان شا ء اللہ اُن ایمان والوں میں شامل ہو جائیں گے جو گہرے ایمان کی دولت سے مالا مال کیے جاتے ہیں۔

شہید حسن البنا  ؒکے مکتب فکر میں‘ فرد کے اپنے ربّ سے تعلق کو مضبوط کرنے پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے وہ درج ذیل طریقہ اختیار کرتے ہیں:

روزانہ تلاوتِ قرآن مجید‘ ماثور دعائوں کا ورد‘ ۱۰۰ مرتبہ استغفراللّٰہ‘ ۱۰۰ مرتبہ اَللّٰھُمَّ صل علٰی سیدنا محمد وعلٰی آلہ وصحبہٖ وسلّم‘ ۱۰۰ مرتبہ لا الٰہ الا اللّٰہ۔ اس کے بعد‘ دعوت کی کامیابی اور دعوت کے لیے کام کرنے والوں اور اخوان کے لیے دعا۔ بعدازاں اپنے لیے اور اپنے گھر والوں کے لیے دعا۔ اس کے بعد جتنی دعائیں ممکن ہوں‘ کی جائیں۔ یہ وظیفہ صبح کی نماز کے بعد اور مغرب یا عشا کی نماز کے بعد خشوع کے ساتھ کیا جائے۔ اس ورد میں مجبوری کے سوا‘ دنیوی بات نہ کی جائے۔

اگر ہم واقعی نجات کے طالب ہیں‘ دنیا و آخرت میں اللہ کی رضا اور فوز و فلاح چاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم دلوں میں خفتہ ایمان کو جگانے کی کوشش کریں۔ اگر ہم اپنی دعوت میں کامیابی چاہتے ہیں‘ اپنے ذرائع میں کامرانی کے متمنی ہیں‘ اپنے اہداف تک پہنچنا چاہتے ہیں تو ایمان کی بیداری ہی اس کا واحد حل ہے--- ایمان جو ایک مضبوط ہتھیار ہے‘ جو ہمارا سب سے بڑا خزانہ ہے!

امام شہیدؒ فرماتے ہیں:

ایمان قوت کے بھیدوں میں سے ایک بھید ہے‘ جس کا ادراک سچّے اور مخلص مومن ہی کرسکتے ہیں۔ آج سے پہلے اگر کارکنوں نے جہاد کیا ہے تو ایمان کے ذریعے ہی کیا ہے‘ اور آج کے بعد بھی وہ ایمان ہی کے ذریعے جہاد کریں گے۔ ایمان نہ رہے تو مادی اسلحہ کتنا بھی ہو‘ لوگوں کے لیے کسی کام کا نہیں۔ ایمان موجود ہے تو مقصد تک پہنچنے کا راستہ بھی موجود ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:

وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا  نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ o (الروم ۳۰:۴۷)

اور ہم پر یہ حق ہے کہ مومنوں کی مدد کریں۔

(  ہفت روزہ المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۴۳۹ ‘ ۲۰ فروری ۲۰۰۱ء سے ماخوذ)

 

مکّہ میں اسلام کی دعوتِ عام شروع ہوئے ابھی دو ہی سال گزرے تھے کہ فضائوں میں ارتعاش پیدا ہو گیا‘ ایک ہلچل سی مچ گئی اور دعوت کو جاری رکھنا دشوار سے دشوار تر ہوتا چلا گیا۔ جو اصحابؓ اسلام قبول کر رہے تھے‘ ان کے لیے زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تنگ ہونے لگی۔ ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اہم اور دُور رس اقدامات کیے ان میں ایک اہم قدم یہ تھا کہ آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو حبشہ ہجرت کر جانے کا مشورہ دیا۔ یہ بعثت کے پانچویں سال کا واقعہ ہے۔

ہجرت حبشہ اسلام کی دعوت کی راہ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے‘ اس لیے اسے کسی قدر تفصیل سے پیش کیا جا رہا ہے۔

ملکِ حبشہ: حبشہ ایک بڑی سلطنت تھی۔ اس کے حدود دُور تک پھیلے ہوئے تھے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ملکِ حبشہ یمن کے مغربی جانب واقع ہے۔ اس کی مسافت کافی طویل ہے۔ یہ کئی اجناس (قوموں) پر مشتمل ہے۔ سوڈان کے تمام فرقے حبشہ کے بادشاہ کی اطاعت کرتے ہیں۔ قدیم زمانہ میں وہاں کے بادشاہ کو نجاشی کہا جاتا تھا۔ اب اسے حَطِی کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حبش بن کوش بن حام کی اولاد ہیں۔(فتح الباری: ۷/۵۸۷)

ہجرت حبشہ کا پس منظر

ہجرت حبشہ جن حالات میں ہوئی اس کی تصویر کشی امام زہری نے اس طرح کی ہے: ’’جب مسلمانوں کی تعداد بڑھنے لگی‘ ایمان کا برملا اظہار ہونے لگا‘ اس پر بحث و گفتگو کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تو قریش نے سخت رویہ اختیار کیا۔ قبائل قریش میں سے جس قبیلے کے بھی افراد ایمان لاتے‘ ان پر (بالعموم) پورا قبیلہ ٹوٹ پڑتا‘ انھیں شدید اذیتیں پہنچائی جاتیں‘ قیدوبند میں رکھا جاتا اور انھیں اسلام سے پھیرنے کی کوشش کی جاتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حالات میں صحابہ کرامؓ سے کہا کہ وہ مکہ سے کسی دوسری جگہ چلے جائیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم کہاں جائیں؟‘‘ آپؐ نے حبشہ کی طرف اشارہ فرمایا۔ ہجرت کے لیے آپؐ دوسرے ملکوں کے مقابلے میں اسے زیادہ پسند فرماتے تھے۔ اس کے بعد بہت سے مسلمانوں نے حبشہ ہجرت کی۔ (ابن سعد‘ الطبقات الکبریٰ: ۱/۲۰۳-۲۰۴)

مزید تفصیل ابن اسحٰق کے ہاں ملتی ہے۔ کہتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ آپ ؐ کے اصحاب سخت مصائب اور مشکلات میں گرفتار ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپؐ کو جو مرتبہ و مقام حاصل تھا اس کے باعث اور آپ ؐکے چچا ابوطالب کو آپؐ سے جو قلبی تعلق تھا اور آپؐ کو جس عزت و احترام سے وہ دیکھ رہے تھے‘ اس کی وجہ سے آپؐ ان مشکلات سے (کسی قدر)محفوظ ہیں۔ آپؐ کے صحابہ جن حالات سے گزر رہے ہیں اور جس طرح کی شدید تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں‘ ان میں آپؐان کی مدد بھی نہیں کر پا رہے ہیں تو آپؐنے ان سے کہا کہ وہ حبشہ ہجرت کر جائیں۔ اس لیے کہ وہاں کا بادشاہ عدل پسند ہے‘ اس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ حبشہ ’ارض صدق‘ (سچائی کی زمین) ہے۔ وہ وہاں اس وقت تک رہیں جب تک اللہ تعالیٰ کو ئی سبیل نہ نکال دے۔ اس کے بعد مسلمان حبشہ ہجرت کرنے لگے۔یہ ہجرت‘ دین کی راہ میں فتنے کے خوف سے تھی‘ یہ اپنے دین کی خاطر اللہ کی طرف ہجرت تھی۔ یہ اسلام کے لیے سب سے پہلی ہجرت تھی‘‘۔ (ابن ہشام‘ السیرۃ النبویہ: ۱ /۳۵۸-۳۵۹)

مہاجرینِ حبشہ کا پہلا قافلہ

ابن اسحٰق کا بیان ہے کہ حبشہ کے مہاجرین کا پہلا قافلہ دس افراد پر مشمل تھا۔ ان کے نام بھی اس نے دیے ہیں۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ یہ کل ۱۱ مرد اور ۴ خواتین تھیں۔(۱)

بیہقی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مبارک سفر پر سب سے پہلے حضرت عثمان ؓ اپنی اہلیہ حضرت رقیہؓ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی) کے ساتھ روانہ ہوئے۔ ان کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملی تو آپؐ کو تشویش ہوئی۔ پھر قریش کی ایک عورت نے جو اس طرف سے آرہی تھی‘ آپؐسے کہا کہ میں نے آپؐ کے داماد کو دیکھا کہ وہ اپنی بیوی کو ایک کم زور سے گدھے پر بٹھا کر خود اسے ہانکتے چلے جا رہے تھے۔ آپؐنے دعا کی‘ اللہ ان کے ساتھ ہو۔ فرمایا: حضرت لوط ؑ کے بعد عثمان پہلے شخص ہیں جنھوں نے اپنی بیوی کے ساتھ خدا کی راہ میں ہجرت کی ہے۔(۲)

اس سفر پر لوگ خاموشی سے (غالباً یکے بعد دیگرے) نکلے تاکہ کسی کو خبر نہ ہو۔(۳) ان میں سے بعض تنہا تھے‘ بعض کے ساتھ ان کی بیویاں تھیں۔ زیادہ تر پیدل تھے۔ شعیبہ (یمن کے راستے میں ساحل پر واقع ایک وادی) کے پاس پہنچے۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس وقت تاجروں کی دو کشتیاں لنگرانداز ہوئیں۔ نصف دینار کرایہ طے کر کے یہ ان میں سوار ہو گئے۔ قریش کو ان کے سفر کی اطلاع ملی تو انھوں نے اپنے آدمیوں کو دوڑایا‘ لیکن کشتیاں روانہ ہو چکی تھیں۔ (ابن سعد‘ طبقات: ۱/۲۰۴)

اس کے بعد حضرت جعفرؓ اور دوسرے اصحاب نے ہجرت کی۔ حبشہ ہجرت کرنے والوں کی کل تعداد ابن اسحٰق نے ۸۳ بتائی ہے۔ کہتے ہیں کہ اس تعداد میںحضرت عمار بن یاسرؓ بھی شامل ہیںلیکن ان کے بارے میں شبہ ہے کہ انھوں نے حبشہ ہجرت کی تھی یا نہیں؟ اس میں کم سن اور گود کے بچوں کا اور ان بچوں کا جو حبشہ میں پیدا ہوئے‘ شمار نہیں کیا گیا ہے (ابن ہشام‘ السیرۃ النبویہ: ۱/۳۶۷)۔ ان کے علاوہ خواتین تھیں جن کی تعداد اٹھارہ بتائی جاتی ہے۔(۴)

واقدی کا بیان ہے کہ جب حبشہ یہ خبر پہنچی کہ اہل مکّہ نے سجدہ کیا ہے اور وہ سب اسلا م لے آئے ہیں تو مہاجرین نے سوچا کہ اب مکّہ میں ان کا مخالف کون رہ گیا ہے؟ چنانچہ یہ مکّہ واپس لوٹنے لگے۔ یہ غلط فہمی کیسے ہوئی یا یہ افواہ کیسے پھیلی تو مورخین نے لکھا ہے کہ مشرکین کے سجدے کے واقعے کو جس کسی نے نقل کیا اس نے جب دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں مشرکین نے سجدہ کیا ہے تو اس نے سمجھا کہ وہ اسلام لے آئے ہیں اور آپؐ کے ساتھ ان کی صلح ہو گئی ہے اور کوئی نزاع باقی نہیں رہی۔

مہاجرین حبشہ کو جب یہ خبر پہنچی تو انھوں نے اسے صحیح سمجھ لیا‘ کچھ لوگ مکّہ واپس ہو گئے اور کچھ لوگ وہیں رہے۔ جو لوگ حبشہ سے مکّہ واپس ہوئے ان کی تعداد ۳۳ تھی۔ ابن ہشام نے فرداً فرداً اُن کا ذکر کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ اُن میں سے کس کا کس قبیلے سے تعلق تھا۔ (السیرۃ النبویہ: ۱/۴۰۷)

دوسری ہجرتِ حبشہ اور کفّارِ مکّہ کا تعاقب

حبشہ سے جو اصحاب مکّہ واپس ہوئے قریش نے ان کے ساتھ پہلے سے زیادہ سختی شروع کر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیںدوبارہ حبشہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔(۵) جو اصحاب حبشہ سے واپس ہوئے اُن میں سے بیشتر پھر حبشہ روانہ ہو گئے‘ اُن کے ساتھ کچھ نئے اصحاب بھی تھے۔(۶)

مہاجرین حبشہ جن حالات سے گزرے‘ اس کی روداد ہمیں حضرت ام سلمہؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت جعفرؓ  اور حضرت عمرو بن العاصؓ کی روایتوں میں ملتی ہے۔ یہ وہ اصحاب ہیں جن کا براہِ راست اس ہجرت سے تعلق تھا۔ پہلے تین اصحاب مہاجرین حبشہ میں سے ہیں اور حضرت عمرو بن العاصؓ مشرکین کی طرف سے سفیر کی حیثیت سے نجاشی کے پاس گئے تھے۔

حبشہ ان مہاجرین کے لیے اچھی پناہ گاہ ثابت ہوا اور وہ وہاں اطمینان اور سکون سے رہنے لگے۔ حضرت ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جب حبشہ پہنچے تو ہمارے ساتھ نجاشی کا سلوک بہت اچھا رہا‘ وہ ہمارے لیے بہترین پڑوسی تھے۔ دین کے معاملے میں ہم محفوظ و مامون ہو گئے۔ کوئی ہمیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچاتا تھا اور کوئی ناپسندیدہ بات ہمیں سننی نہیں پڑتی تھی۔

قریش کے علم میں جب یہ بات آئی تو ان کی عصبیتِ جاہلیہ بھڑک اٹھی‘ انھوں نے مشورہ کیا کہ اب کیا کیا جائے؟ طے پایا کہ نجاشی کے پاس سفیر بھیج کر درخواست کی جائے کہ وہ ان لوگوں کو اپنے ملک سے نکال باہر کرے اور ہمارے حوالے کر دے۔ سفارت کے لیے دو خوب مضبوط اور توانا افراد کا انتخاب کیا جائے۔ نجاشی کو مکّہ کی سب سے قیمتی چیزیں بطور تحفہ بھیجی جائیں۔ اس کے ایک ایک مذہبی رہنما کے لیے بھی تحائف کا انتظام کیا جائے۔ اہل حبشہ کو یہاں کے چمڑے بہت پسند تھے۔ عمدہ چمڑے جمع کیے گئے۔ اس کے ساتھ نجاشی کے لیے ایک گھوڑا اور ریشمی عبا (کرتا) بھی تھی۔ حبشہ کے مذہبی رہنمائوں کے لیے بھی تحفوں کا انتظام کیا گیا۔ ان تحائف کے ساتھ عبداللہ بن ابوربیعہ اور عمرو بن العاص کو سفارتی مہم پر روانہ کیا گیا ۔(۷)ان سفیروں نے حسب فیصلہ ہرسردار تک اس کا تحفہ پہنچایا اور اس سے کہا کہ ہمارے کچھ ناسمجھ نوجوان بادشاہ کی مملکت میں بھاگ آئے ہیں‘ اپنا دین چھوڑ دیا ہے‘ آپ کا دین (عیسائیت) بھی قبول نہیں کیا ہے‘ بلکہ ایک نیا ہی دین ایجاد کر رکھا ہے جس سے نہ ہم واقف ہیں نہ آپ حضرات۔ ہمارے اشراف اور سرداروں نے ہمیں بادشاہ کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ وہ انھیں واپس کر دیں۔ جب بادشاہ سے ہماری بات ہو تو آپ حضرات بادشاہ کو مشورہ دیں کہ وہ انھیں ہمارے حوالے کر دیں اور اُن سے اس سلسلے میں کوئی بات نہ کریں‘ اس لیے کہ اُن کے سردار اور ان کے بزرگ ان کے حالات سے زیادہ باخبر ہیں۔ ان پر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ حبشہ کے مذہبی سرداروں نے اس سے اتفاق کیا۔

اب دونوں سفیروں نے براہِ راست نجاشی سے ملاقات کی اور تحفے تحائف پیش کیے۔ نجاشی نے تحفے قبول کیے۔ اپنی نشست کے دائیں بائیں دونوں سفیروں کو جگہ دی۔ آمد کا مقصد دریافت کیا۔ انھوں نے وہی باتیں دہرائیں جو کہ پادریوں سے کی تھیں کہ ہمارے کچھ ناسمجھ نوجوان آپ کی مملکت میں بھاگ آئے ہیں‘ اپنی قوم کے دین کو ترک کر دیا ہے اور آپ کے دین کو بھی قبول نہیں کیا ہے‘ ایک نیا ہی دین اختیار کر رکھا ہے۔ ان کی قوم کے سرداروں نے‘ اُن کے خاندانوں کے بزرگوں نے‘ ان کے باپوں اور چچائوںنے‘ ان کا جن قبائل سے تعلق ہے‘ ان کے نمایاں افراد نے ہمیں آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ آپ انھیں ان کے وطن لوٹا دیں۔ سفیروں نے نجاشی کو بھی یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اس مسئلے میں وہ ان مہاجرین سے کوئی بات نہ کرے‘ اس لیے کہ ان کی قوم ان کے غلط فکروعمل سے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ واقف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں سفیروں کو یہ سخت ناگوار تھا کہ نجاشی سے مہاجرین کی گفتگو ہو۔ انھیں اندیشہ تھا کہ اس سے نجاشی متاثر ہو سکتا ہے۔ مجلس میں جو سردار اور مذہبی رہنما موجود تھے انھوں نے بھی سفیروں کے اس خیال کی تائید کی کہ مہاجرین سے گفتگو کی چنداں حاجت نہیں ہے۔ نجاشی نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور کہا:‘قسم خدا کی‘ میں  تحقیق حال کے بغیر انھیں اس طرح ان کے حوالے نہیں کروں گا۔ یہ بات سراسرناانصافی کی ہوگی کہ کچھ لوگوں نے میری ہم سائیگی اختیار کی‘ میرے ملک میں آئے‘ دوسروں کے مقابلے میں مجھے پسند کیا‘ میں ان سے بات چیت کیے بغیر ہی انھیں نکال باہر کروں۔ میں اُن سے معلومات حاصل کروں گا۔ اگر سفیروں کی بات درست نکلی تو انھیں ان کے حوالے کر دوں گا اور انھیں ان کی قوم کے پاس پہنچا دوں گا۔ لیکن اگر بات دوسری ہو تو میں انھیں ان سفیروں کے حوالے نہیں کروں گا۔ جب تک وہ میرے پاس ہیں ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے گا۔

مہاجرین سے گفتگو سے پہلے نجاشی نے مذہبی رہنمائوں (نصاریٰ کے علما و پادریوں) کو طلب کیا۔ وہ حاضر ہوئے تو اُن سے کہا کہ وہ اپنے صحیفے کھول لیں (غالباً اس خیال سے کہ دیکھیں ان مہاجرین کی باتوں کی ان صحیفوں سے تصدیق ہوتی ہے یا نہیں؟)۔

جعفرؓ بن طیّار کا کلمۂ حق

اب اس نے مہاجرین کو طلب کیا۔ قاصد اُن کے پاس پہنچا تو انھوں نے باہم مشورے سے طے کیا کہ بادشاہ کے سامنے وہی بات رکھی جائے جس کی تعلیم ہمارے پیغمبرحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے‘ چاہے اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے۔ حضرت جعفرؓ نے کہا ‘نجاشی کے سامنے میں تم سب کی نمایندگی کروں گا۔ سب نے اس سے اتفاق کیا۔

مہاجرین روانہ ہوئے۔ دربار میں پہنچنے سے پہلے حضرت جعفرؓ نے باہر سے آواز دی کہ جعفر دروازے پر ہے۔ اس کے ساتھ حزب اللہ ہے‘ کیا حاضری کی اجازت ہے؟ نجاشی نے کہا: ہاں۔ تمھیں اللہ کی امان اور اس کی پناہ حاصل ہے‘ اندر آسکتے ہو۔ حضرت جعفرؓ داخل ہوئے۔ ان کے پیچھے ان کے رفقا تھے‘ سلام کیا۔ دربار میں جو علما اور راہب موجود تھے‘ انھوں نے ان سے کہا کہ بادشاہ کو سجدہ کرو۔ حضرت جعفرؓ نے انکار کر دیا۔ (ابن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ: ۲/۱۲)

عمرو بن العاص نے کہا کہ یہ بڑے متکبر اور نخوت بھرے لوگ ہیں۔ خود کو حزب اللہ کہتے ہیں۔ جس طرح دوسرے لوگ آپ کی تعظیم بجا لاتے ہیںاس طرح انھوں نے تعظیم نہیں کی اور سجدئہ تعظیمی بھی نہیں کیا۔ نجاشی نے اُن سے اس کی وجہ دریافت کی تو حضرت جعفرؓ نے کہا کہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں‘ اس کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتے۔ ہمارے پیغمبر نے ہمیں بتایا ہے کہ اہل جنت آپس میں سلام کریں گے۔ ہم بھی ایک دوسرے کو سلام ہی کرتے ہیں۔ چونکہ انجیل میں یہ بات موجود ہے‘ اس لیے نجاشی سمجھ گیا کہ یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ (حلبی‘ السیرۃ الحلبیہ: ۲/۲۸)

نجاشی اورحضرت جعفرؓ کے درمیان حسب ذیل گفتگو ہوئی:

نجاشی: تمھارا دین کیا ہے؟ کیا تم نصاریٰ ہو؟

حضرت جعفرؓ: نہیں۔

نجاشی: کیا تم یہود ہو؟

حضرت جعفرؓ: نہیں‘ ہم یہود نہیں ہیں۔

نجاشی: کیا تمھارا دین وہی ہے جو تمھاری قوم کا ہے؟

حضرت جعفرؓ: نہیں۔

نجاشی: آخر تمھارا دین کیا ہے اور اس کا لانے والا کون ہے؟

اس پر حضرت جعفرؓ نے ایک طویل تقریر کی:

’’اے بادشاہ ! ہم ایسے لوگ تھے جو جاہلیت میں گرفتار تھے۔ بتوں کی پرستش کرتے تھے‘ بے حیائی کے کاموں میں ملوث تھے۔ قطع رحم کا ارتکاب کرتے تھے‘ رشتوں کے حقوق نہیں ادا کرتے تھے‘ پڑوسیوںکے ساتھ برا سلوک کرتے تھے‘ ہم میں جو قوی تھا وہ کم زور کو کھائے جا رہا تھا۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے ہم ہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا۔ ان کے حسب نسب‘ صداقت‘ امانت‘ عفت و عصمت سے ہم واقف تھے۔ انھوں نے ہمیں اللہ کی طرف دعوت دی کہ ہم اسے ایک مانیں‘ اسی کی عبادت کریں۔ ہمارے باپ دادا اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی اور پتھروں کی جو پوجا پرستش کرتے ہیں‘ اسے ترک کر دیں۔ انھوں نے ہمیں راست گفتاری‘ امانت کی ادایگی‘ صلۂ رحمی اور پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی۔ حرام چیزوں سے رک جانے کا حکم دیا‘ قتل و خوں ریزی سے‘ فواحش اور منکرات سے‘ دروغ گوئی سے‘ یتیم کا مال کھانے سے اور پاک باز عورتوں پر تہمت لگانے سے منع کیا‘ نماز‘ زکوٰۃ (صدقہ و خیرات) اور روزے کا حکم دیا‘‘۔

حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت جعفرؓ نے اس طرح اسلام کی بہت سی تعلیمات کی وضاحت کی۔ اس کے بعد کہا: ’’ہم نے اللہ کے رسولؐ کی ان باتوں کی تصدیق کی‘ آپؐ پر ایمان لے آئے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ جو تعلیمات لائے ہیں‘ انھیں ہم برحق مانتے ہیں۔ اللہ واحد کی عبادت کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے۔ اللہ کے رسولؐ نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے‘ انھیں حرام اور جن چیزوں کو حلال کہا‘ انھیں حلال سمجھ کر عمل کرتے ہیں۔ اس پر ہماری قوم نے ہمارے ساتھ ظلم و زیادتی کی روش اختیار کر رکھی ہے۔ اس نے ہمیں سخت سزائیں دیں‘ ہمیں اپنے دین سے پھیرنے کی کوشش کی تاکہ ہمیں اللہ واحد کی عبادت سے پھیر کر بت پرستی کی طرف لے جائیں۔ ہم جن خبیث حرکتوں کا ارتکاب کرتے تھے‘ پھر ان کا ارتکاب کرنے لگیں۔ جب انھوں نے ہم پر قہر و غضب ڈھایا‘ ظلم کیا‘ زندگی ہمارے لیے تنگ کر دی‘ ہمارے اور ہمارے دین کے درمیان رکاوٹ بن کر کھڑے ہو گئے‘ تو ہم نے دوسروں کے مقابلے میں آپ کے ملک کو ترجیح دی‘ آپ کے جوار میں رہنا پسند کیا‘ اس توقع پر کہ آپ کے ہاں‘ اے بادشاہ! ہم پر ظلم نہ ہوگا اور ہم زیادتیوں سے محفوظ رہیں گے‘‘۔

یہ بے مثال اور دل دہلا دینے والی تقریر سننے کے بعد نجاشی نے حضرت جعفرؓ سے دریافت کیا کہ تمھارے پیغمبر جو کلام خدا کی طرف سے پیش کرتے ہیں کیا اس کا کوئی حصہ تمھارے پاس ہے؟ حضرت جعفرؓ نے کہا: ہاں! نجاشی نے کہا: وہ مجھے سنائو۔ حضرت جعفرؓ نے سورہ مریم کا ابتدائی حصہ پڑھا۔ نجاشی کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ یہاں تک کہ اس کی داڑھی تر ہوگئی۔ جو علما دربار میں موجود تھے ان کی آنکھیں بھی اشک بار ہو گئیں۔ ایک روایت میں ہے کہ نجاشی نے مزید کچھ سنانے کی درخواست کی تو حضرت جعفرؓ نے سورہ کہف سنائی۔ نجاشی نے کہا: یہ کلام اور حضرت عیسٰی ؑجو کلام لائے تھے دونوں ایک ہی چراغ سے نکلے ہیں۔ پھر عبداللہ بن ربیعہ اور عمرو بن العاص سے کہا: آپ لوگ یہاں سے جائیں۔ میں انھیں تمھارے حوالے نہیں کروں گا۔ (ابن ہشام ‘  السیرۃ النبویۃ :  ۱ / ۳۷۳-۳۷۴۔ ابن اثیر‘  الکامل فی التاریخ: ۱/۵۹۹-۶۰۰)

عمرو بن عاص اور عبداللہ بن ربیعہ دربار سے باہر نکلے تو عمرو بن عاص نے کہا :کل ایک ایسی بات میں بادشاہ سے کہوں گا کہ وہ انھیںجڑ پیڑ سے اکھاڑ پھینکے گا۔ ان دونوں میں عبداللہ بن ربیعہ نسبتاً نرم تھے۔ انھوں نے کہا: ایسی کوئی بات نہ کرو۔ یہ لوگ چاہے ہمارے دین کے خلاف ہوں لیکن ان سے ہمارا خونی رشتہ ہے۔ عمرو بن عاص اس کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ چنانچہ وہ دوسرے دن بادشاہ کے پاس پہنچے اور کہا : اے بادشاہ! یہ لوگ عیسٰی ؑ بن مریم کے بارے میں بہت سخت بات کہتے ہیں۔ آپ ان سے اس سلسلے میں دریافت کریں۔ دوسرے دن اس نے پھر مہاجرین کو طلب کیا۔ حضرت ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ یہ ہمارے لیے بڑا نازک معاملہ تھا۔ لوگ جمع ہوئے اور مشورہ کیا کہ ہمیں اس سوال کا کیا جواب دینا چاہیے؟ پھر یہی طے پایا کہ ہم وہی کہیں گے جو اللہ اور اس کے رسول ؐنے کہا ہے‘ چاہے اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے۔ چنانچہ یہ لوگ دربار میں پہنچے تو نجاشی نے سوال کیا کہ تم لوگ عیسٰی ؑبن مریم کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ حضرت جعفرؓ نے جواب دیا: ہم ان کے بارے میں وہی کہتے ہیں جو ہمارے پیغمبر نے ہمیں خدا کی طرف سے بتایا ہے۔ وہ اللہ کے بندے‘ اس کے رسول‘ اس کی روح اور کلمہ تھے جو مریم عذرا بتول سے بغیر باپ کے اللہ کے کلمہ سے پیدا ہوئے۔

نجاشی پر اثر

نجاشی نے حضرت جعفر ؓکے اس بیان کو سننے کے بعد زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا: عیسٰی ؑبن مریم اس بیان سے اس تنکے کے برابر بھی زیادہ نہ تھے۔ (ابن ہشام‘ السیرۃ النبویۃ: ۱/۳۷۰-۳۷۵)

بعض روایات میں اس کی کچھ اور تفصیل ملتی ہے۔ حضرت جعفرؓ کی گفتگو کے ختم ہونے پر نجاشی نے دربار میں موجود عالموں اور راہبوں سے دریافت کیا کہ یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کے بارے میں تمھاری کیا رائے ہے؟ اس پر تم کیا اضافہ کرنا چاہتے ہو؟ انھوں نے جواب دیا: آپ ہی فرمائیں‘ آپ کا علمی مرتبہ اور مقام ہم سے اونچا ہے۔(۸)

نجاشی نے کہا : میں شہادت دیتا ہوں کہ حضرت محمدؐ اللہ کے پیغمبر ہیں۔ یہ وہی پیغمبر ہیں جن کی بشارت حضرت عیسٰی ؑ نے انجیل میں دی ہے۔

ایک اور روایت میں ہے کہ نجاشی نے علما اور راہبوں سے کہا کہ خداے تعالیٰ‘ جس نے حضرت عیسٰیؑ پر انجیل نازل کی‘ میں اس کی قسم دے کر تم سے پوچھتا ہوں کہ حضرت عیسٰی ؑ کے بعد قیامت کے آنے سے پہلے کسی نبی کا ذکر تمھیں انجیل میں ملتا ہے یا نہیں؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں‘ ملتا ہے۔ حضرت عیسٰی ؑ نے اس کی بشارت دی ہے اور کہا ہے کہ جو اس پر ایمان لاتا ہے وہ مجھ پر ایمان لاتا ہے‘ اور جو اس کی رسالت کا انکار کرتا ہے وہ میرا انکار کرتا ہے۔ اس پر نجاشی نے کہا :اگر سلطنت کی ذمہ داری مجھ پر نہ ہوتی تو میں بذاتِ خود اس کی جوتیاں اٹھاتا اور اس کے ہاتھ پیر دھلاتا۔ (حلبی‘ السیرۃ الحلبیۃ: ۲/۲۹)

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نجاشی سے گفتگو کے دوران میں حضرت جعفرؓ نے نجاشی سے کہا کہ آپ ان سفیروں سے دریافت فرمائیں کہ ہم غلام ہیں یا آزاد؟ اگر غلام ہیں تو بے شک ہم نے اپنے مالکوں سے فرار کی راہ اختیار کی ہے‘ آپ ہمیں لوٹا دیں۔ عمرو بن عاص نے کہا: نہیں! یہ آزاد لوگ ہیں۔ حضرت جعفرؓ نے فرمایا: ان سے پوچھیں کہ کیا ہم نے ناحق کسی کا خون بہایا ہے کہ ہم سے قصاص کا مطالبہ کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے ناروا کسی کا مال لے رکھا ہے اور اس کا ادا کرنا ہم پر ضروری ہو گیا ہے؟ عمرو بن عاص نے جواب دیا: ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ نجاشی نے سفیروں سے کہا: آپ حضرات واپس جائیں۔ میں کبھی انھیں آپ کے حوالے نہیں کروں گا۔ (حلبی‘ السیرۃ الحلبیۃ: ۲/۳۲۔ ابن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ: ۲/۱۵)

اس طرح نجاشی کو یقین ہو گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم واقعتا اللہ کے رسول ہیں۔ یہ مہاجرین ان کے اصحاب اور پیروکار ہیں۔ یہ کسی کے زرخرید غلام نہیں ہیں ‘بلکہ آزاد بندے ہیں۔ انھوں نے کسی کا حق نہیں مارا ہے‘ کسی کا مال نہیں کھایا ہے‘ بلکہ ان کے ساتھ سراسر زیادتی ہوئی ہے اور وہ یہاں پناہ کے طالب ہیں۔ اس یقین نے اس کے جذبۂ ہمدردی کو بڑھا دیا۔ اس نے مہاجرین سے کہا: جائو تم لوگ میری سلطنت میں مامون اور محفوظ ہو۔ جو کوئی تمھیں برا بھلا کہے گا اس پر جرمانہ عائد ہوگا۔ تم میں سے کسی کو تکلیف پہنچا کر مجھے سونے کاپہاڑ بھی مل جائے تو میں اسے پسند نہ کروں گا۔ درباریوں سے کہا: ان سفیروں کے تحفے واپس کر دیے جائیں۔ مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بعد مہاجرین حبشہ میں سکون سے رہنے لگے۔ (ابن ہشام‘  السیرۃ  النبویۃ: ۱/۳۷۰)

نجاشی نے مہاجرین سے پوچھا کہ کیا کوئی تمھیں تکلیف پہنچاتا ہے۔ انھوں نے جواب دیا: ہاں! (قریش کے سفیروں کے ورغلانے سے ہو سکتا ہے کچھ لوگوں نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہو) اس پر نجاشی کے حکم سے منادی نے اعلان کیا کہ جو کوئی انھیں تکلیف پہنچائے گا اس پر چار دینارجرمانہ ہوگا۔ مہاجرین سے دریافت کیا کہ کیا یہ کافی ہے؟ انھوں نے اسے ناکافی بتایا تو نجاشی نے اسے دگنا کر دیا۔ (ابن کثیر‘  السیرۃ  النبویۃ: ۲/۱۶۔ حلبی‘ السیرۃ الحلبیۃ: ۲/۲۹)

نجاشی نے بڑے نازک وقت میں مسلمانوں کو پناہ دی تھی۔ انھیں سکون اور اطمینان کے ساتھ دین پر عمل کے مواقع حاصل تھے۔ اس لیے اس کی سلطنت اور اقتدار کا باقی رہنا ان کے لیے فائدہ مند تھا۔ اس کے زوال اور خاتمے سے انھیں نقصان کا خطرہ تھا۔ چنانچہ اسی ہجرت کے دوران میں نجاشی کا ایک حریف سلطنت اٹھ کھڑا ہوا۔ دونوں کے درمیان جنگ کی نوبت آگئی۔ اس موقع پر مسلمانوں کی فطری خواہش تھی کہ نجاشی اس میں کامیاب ہو اور اس کا اقتدار قائم رہے۔

جنگ خیبر ۶ ہجری کے آخر میں یا بقول ابن اسحٰق محرم ۷ ہجری میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن امیہ ضمریؓ کو نجاشی کے پاس بھیجا کہ جو اصحاب حبشہ میں رہ گئے ہیں انھیں مدینہ بھیج دے۔ نجاشی نے دو کشتیوں میں انھیںروانہ کیا۔ یہ حضرات فتح خیبر کے دن پہنچے۔ ان میں حضرت جعفرؓ بھی تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے چمٹ گئے اور پیشانی کو بوسہ دیا۔ فرمایا: مجھے نہیں معلوم کہ آج فتح خیبر کی زیادہ خوشی ہے یا جعفر کی آمد کی! اس قافلہ میں ۱۶ آدمی تھے۔ بعض کے ساتھ ان کی بیویاں اور چھوٹے بچے بھی تھے۔(۹)  (جاری)

حوالے

۱-  اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ ابن سعد نے جن اصحاب کے اسماے گرامی دیے ہیں ان میں ابوسبرہ اور ابو حاطب بن عمرو بن عبدشمس بھی ہیں‘ لیکن ابن اسحٰق کہتے ہیں کہ ابوسبرہ اس سفر میں تھے‘ ان کی جگہ ابوحاطب کا بھی نام لیا گیا ہے۔ ان دونوں کا تعلق بنوعامر سے تھا۔ اس طرح ابن اسحٰق نے دونوں میں سے ایک کو شمار کیا ہے اور ابن سعد نے دونوں کو اس فہرست میں رکھا ہے۔ اسی طرح ابن ہشام نے خواتین کا الگ سے تذکرہ نہیں کیا ہے بلکہ جن مردوں کے ساتھ ان کا سفر ہوا تھا ان کے ذیل میں ان کا ذکر کر دیا ہے۔ ابن سعد نے ان کا الگ سے شمار کیا ہے۔ ابن ہشام ۱۰/۳۵۹-۳۶۰‘ ابن سعد‘ طبقات: ۱/۲۰۴‘ نیز ملاحظہ ہو ابن جریر طبری‘ تاریخ الطبری: ۱/۵۴۶۔

۲- ابن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ: ۲/۴-۵۔ذہبی‘ السیرۃ النبویۃ: ۱/۱۸۳۔ ابن حجر‘ فتح الباری: ۷/۵۸۴۔ابن اسحٰق کہتے ہیں کہ بعض حضرات کے بقول ابوحاطب سب سے پہلے حبشہ پہنچے تھے۔ اس سلسلے میں بعض اور اقوال بھی ملتے ہیں۔ ملاحظہ ہو‘ زرقانی علی المواہب: ۱/۵۰۵۔ ہو سکتا ہے حضرت عثمانؓ کو اپنی اہلیہ کے ساتھ سب سے پہلے ہجرت کا شرف حاصل ہوا ہو اور دوسرے اصحاب تنہا رہے ہوں‘ السیرۃ الحلبیہ: ۲/۳-۴۔

۳- یہ ایک عمومی بات ہے ورنہ حضرت عمرؓ کے اسلام کے ذیل میں ذکر آچکا ہے کہ عامر بن ربیعہؓ کی بیوی لیلیٰ نے انھیں بتایا کہ ہم لوگ تم لوگوں کے ظلم و زیادتی کی وجہ سے مکّہ چھوڑ رہے ہیں۔ ان دونوں نے حبشہ ہجرت کی۔ غالباً یہ وہ افراد تھے جن کو اس بات کا خدشہ نہیں تھا کہ وہ سفر سے روک دیے جائیں گے۔ ملاحظہ ہو: تحقیقات اسلامی‘ جنوری‘ مارچ ۲۰۰۰ء‘ ص۱۶-۱۷۔

۴-  ابن حجر‘ فتح الباری: ۷/۵۸۵۔ مورخین اور سیرت نگاروں کے درمیان یہ بحث رہی ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ ‘ جن کا تعلق یمن سے تھا‘ مہاجرین حبشہ میں ہیں یا نہیں۔ حافظ ابن حجر نے ان دونوں طرح کی روایات میں تطبیق دینے کی کوشش کی ہے۔ کہتے ہیں ہو سکتا ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا علم ہوا ہو اور وہ مکّہ پہنچ کر اسلام لے آئے ہوں۔ آپؐ نے انھیں مکہ سے حبشہ چلے جانے کا مشورہ دیا ہو۔ یمن حبشہ کے سامنے ہی پڑتا ہے اس لیے وہ اپنی قوم کے پاس چلے گئے ہوں۔ پھر جب مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مملکت قائم کر دی تو وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ (جو پچاس کے قریب تھے) ہجرت کے ارادے سے نکلے ہوں‘ لیکن ناموافق ہوائوں نے ان کی کشتی کو حبشہ پہنچا دیا ہو۔ یہاں ان کی ملاقات حضرت جعفر سے ہوئی ہوگی۔ ان سب کی مدینہ واپسی خیبر کے بعد ہوئی۔فتح الباری: ۷/۵۸۵۔ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ بعثت کے ابتدائی دَور میں مکّہ پہنچے اور اسلام لے آئے۔ پھر وہ یمن واپس ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد وہ وہاں سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مدینہ روانہ ہوئے لیکن ہوا کا رخ مختلف ہونے کی وجہ سے حبشہ پہنچ گئے۔حضرت جعفرؓ نے انھیں وہیں روک لیا۔ انھوں نے حضرت جعفرؓ ہی کے ساتھ فتح خیبر کے بعد مدینہ ہجرت کی۔ دونوں کی کشتیاں ایک ساتھ پہنچیں۔ حضرت ابوموسٰیؓ کے سفر کے لیے ملاحظہ ہو‘ الاستیعاب: ۴/۳۲۷۔ اسد الغابہ: ۳/۳۶۴-۳۶۶۔ نیز: ۶/۲۹۹-۳۰۰۔ ابن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ: ۲/۱۴۔

۵- سیرت حلبیہ میں ہے کہ حبشہ کی دوبارہ ہجرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شعب ابی طالب میں محصور ہونے کے بعد شروع ہوئی  (السیرۃ الحلبیہ: ۲/۹)۔ مزید لکھتے ہیں ‘بعثت کے نویں سال محرم میں بنوہاشم شعب ابی طالب میں محصور ہوئے‘ اس وقت جو مسلمان مکّہ میں رہ رہے تھے انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ ہجرت کر جانے کا حکم دیا (السیرۃ الحلبیہ: ۲/۲۶)۔ لیکن واقدی کا بیان ہے کہ جو  اصحاب حبشہ سے مکّہ واپس ہوئے اُن کے قبائل ان پر ٹوٹ پڑے اور ان کو سخت قسم کی اذیتیںدینے لگے‘ تو انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ حبشہ ہجرت کر جانے کی اجازت دے دی۔ (ابن سعد‘ الطبقات الکبریٰ: ۱/۲۰۷)

۶-  واقدی کا بیان ہے کہ اس بار ہجرت کرنے والوں میں مردوں کی کل تعداد ۸۳ تھی‘ عورتوں میں گیارہ قریشی اور سات غیرقریشی تھیں (ابن سعد‘ الطبقات الکبریٰ: ۱/۲۰۷)۔ اس طرح حبشہ ہجرت کرنے والے کل ۱۰۲ تھے۔ (زرقانی‘ شرح المواہب اللدنیۃ: ۲/۳۱-۳۲)۔ اس طرح مورخین کے نزدیک حبشہ ہجرت کرنے والوں اور واپس ہونے والوں کی تعداد متعین ہے۔ لیکن کس ترتیب سے یہ واقعہ پیش آیا‘ واضح نہیں ہے۔ تمام تفصیلات کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی ہجرتِ حبشہ کے بعد کچھ لوگ مکّہ واپس ہوئے۔ مکّہ کی صورتِ حال دیکھنے کے بعد اُن میں سے بیشتر نے دوبارہ ہجرت کی اور بعض افراد مکّہ ہی میں رہ گئے‘ کچھ نئے افراد بھی دوسری ہجرت میں روانہ ہوئے۔ بنوہاشم کے شعب ابوطالب میں محصور ہونے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد ہجرتِ مدینہ کا واقعہ پیش آیا۔ کچھ لوگ براہِ راست مدینہ منورہ پہنچے اور کچھ نے مکّہ کا راستہ اختیار کیا۔ مکّہ والوں نے بعض کو مدینہ ہجرت کرنے نہیں دی۔ زیادہ تر نے مدینہ ہجرت کی اور جنگِ بدر میں شریک ہوئے۔

۷-            بعض روایات میں عبداللہ بن ربیعہ کی جگہ عمارہ بن ولید کا ذکر ہے اور اس سفر میں دونوں کے کردار سے متعلق بعض تفصیلات بھی ملتی ہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ قریش نے دو مرتبہ سفارتی کوشش کی تھی۔ پہلے سفر میں عمرو بن العاص کے ساتھ عمارہ بن ولید تھا اور دوسرے میں عمرو بن العاص کے ساتھ عبداللہ بن ابی ربیعہ تھے۔ (تفصیل کے لیے‘ حلبی‘ السیرۃ الحلبیہ: ۲/۳۲-۳۳)

۸-  نجاشی کے بارے میں آتا ہے: کان النجاشی اعلم النصاریٰ بما انزل علٰی عیسٰی وکان قیصر یرسل الیہ علماء النصارٰی لتاخذ عنہ‘ حلبی‘ السیرۃ الحلبیہ: ۲/۲۹ (حضرت عیسٰی ؑ پر جو تعلیمات نازل ہوئیں‘ نجاشی ان کے سب سے بڑے عالم تھے۔ قیصر روم ان کے پاس علما نصاریٰ کو بھیجتا تھا تاکہ وہ ان سے علم حاصل کریں)۔

۹-  مہاجرین حبشہ میں سے جو افراد بدر میں شریک نہیں ہو سکے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیامِ مکّہ کے زمانہ میں مکّہ واپس نہیں آئے اور ہجرتِ مدینہ کے بعد مدینہ پہنچے ان کی تعداد ابن اسحٰق نے ان ۱۶ کے علاوہ ۳۴ بتائی ہے۔ خواتین خالص عرب کی ۱۳ اور باہر کی ۵ تھیں۔ (ابن ہشام‘ ۴/۵-۱۵)

ڈاکٹر نذیرشہیدؒ کی زندگی میں تحریک اسلامی کے کارکنوں کے لیے بہت سے نمونے ہیں۔ اپنے ذاتی مفاد کو راہِ حق میں ایک دفعہ نہیں بلکہ مسلسل قربان کرتے چلے جانا‘ اس راہ میں کام کرنے کی لگن بلکہ دھن‘ کام کے مواقع خود تلاش کرنا اور موقع ہاتھ آتے ہی آگے بڑھ کر اس سے کام لینا‘ عوام کے دلوں میں اپنے اخلاق‘ اپنی ہمدردی ‘ اپنے جذبہ خدمت‘ اور اپنی عملی سرگرمی سے جگہ پیدا کرنا‘ مخالف طاقتوں کے مقابلے میں نڈر اور بے خوف ہو کر کام کرنا‘ پے درپے چوٹیں کھا کر بھی جہاد سے منہ نہ موڑنا۔ یہ ان کی چند نمایاں خوبیاں ہیں جو اس تحریک کے ہر کارکن میں ہونی چاہییں۔

(سیدابوالاعلٰی مودودیؒ)


کامیابی کی شرائط: ’’دُنیا کی ہر تحریک خواہ وہ غلط نظریات کی آبیاری کے لیے اُٹھے یا صحیح نظریات کی نمایندگی کرے‘ جب تک اس میں عوام کے دل کی دھڑکنیں اور عوامی جذبات کی گرمی شامل نہ ہوگی‘ مخصوص کارکنان کے خلوص اور قربانی کے باوجود وہ تحریک کوئی محسوس انقلاب برپا نہیں کر سکتی۔ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل و کرم سے آزمایش کے بعد کوئی راہ کھول دے تو وہ قادرِ مطلق ہے۔ لیکن یہ بات اس کی عمومی سنّت کے خلاف ہے۔

خود حضور پاکؐ کی اٹھائی ہوئی اوّلین تحریک اسلامی اس وقت کامیابی کے مراحل میں داخل ہوئی جب آپؐ کی نبوت اور رسالت اور آپؐ کا پیغام مدینہ کی معصوم بچیوں کی زبان پر جاری ہوگیا‘ اور عوامی جذبات تحریک سے ہم آہنگ ہو گئے۔ لیکن یہ کام کچھ یونہی نہیں ہو گیا تھا بلکہ حضور پاکؐ اور آپؐ کے صحابہؓ کو عوامی زبان پر اپنا پیغام لانے کے لیے کئی زبانیں کٹوانا پڑیں۔ اسلامی نظریات کو سربلند کرنے کے لیے کتنے سر دشمن کی تلوار سے نِگوں ہوئے۔ تحریک اسلامی کا پیغام عوامی دل کی دھڑکن اور جذبات کی گرمی اس وقت بنا جب کئی دل سینوں سے نکال لیے گئے اور چبا لیے گئے۔

علمی کاموں سے علمی تحریک ہوگی اور عملی کاموں سے عملی تحریک ہو گی۔ جہاں علم اور عمل میں مطابقت ہو جائے گی‘ کارکنان میں صبر و استقلال‘ ایثار و قربانی‘ اور پھر آخر میں خدا کا فضل و کرم ہوگا تو تحریک عوامی اور انقلابی بن جائے گی اور خدا تعالیٰ اس تحریک کے ذریعے ساری دنیا کو آزمایش میں ڈال دے گا۔ پھر لوگ اس تحریک کا ساتھ دے کر فلاح پائیں گے اور مخالفت کر کے سزا پائیں گے۔

اور پھر تحریک کا انجام خدا کے ہاتھ میں ہے‘ چاہے تو دنیا میں اس کے ذریعے انقلاب مکمل کر دے اور حالات کو یکسر بدل دے‘ چاہے تو تحریک کے سرفروشوں کو درمیان سے اُٹھا لے اور قوم کو ذلّت و رسوائی کے لیے جابر و ظالم حاکموں کے سپرد کر دے‘‘۔

صاحبانِ عزیمت کا کردار:  ’’کل تاریخ دعوت و عزیمت کا باب لکھ رہا تھا‘ بار بار خیال آتا کہ تاریخ اسلامی کا جو ورق پلٹ کر دیکھو‘ اصحابِ علم و فضل کی قطاریں لگی ہیں۔ رشد و ہدایت کے سلسلے چل رہے ہیں۔ دعوت اور سلوک کی منزلیں طے ہو رہی ہیں لیکن دوسری طرف قوت و اقتدار کے جلو میں ظلم و طاغوت‘ جور و عصیاں کا سیلاب ہے کہ اُمنڈتا چلا جاتا ہے‘یا تو کوئی روکنے والا نہیں اُٹھا‘ یا پھر کسی کے روکے نہیں رُکتا۔

بڑوں بڑوں کا عذر ہوتا ہے کہ وقت ساتھ نہیں دیتا۔ اور سروسامان اور اسباب کار فراہم نہیں۔ لیکن وقت کا عازم و فاتح صاحب عزیمت اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر وقت ساتھ نہیں دیتا تو میں اسے ساتھ لوں گا۔ اگر سروسامان نہیں تو اپنے ہاتھ سے تیار کر لوں گا۔ اگر زمین موافق نہیں تو آسمان کو اُترنا چاہیے۔ اگر ساتھ دینے والے آدمی نہیں ملتے تو فرشتوں کو بلاتا ہوں۔ اگر انسانوں کی زبانیں گنگ ہو گئی ہیں تو پتھروں کو بولنا چاہیے۔ اگر ساتھ چلنے والے نہیں تو کیا ہوا‘ درختوں کو ساتھ دوڑنا چاہیے‘ اگر دشمن بے شمار ہیں تو آسمان کی بجلیوں کا بھی کوئی شمار نہیں۔ اگر رکاوٹیں اور مشکلات بہت ہیں تو پہاڑوں اور طوفانوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اُٹھیں اور راستہ صاف کریں کہ ایک صاحب عزیمت جادہ پیما ہے۔ وہ زمانہ کی مخلوق نہیں ہوتا کہ زمانہ اس سے اپنی چاکری کرائے‘ وہ وقت کا خالق اور عہد کا پالنے والا ہوتا ہے۔ زمانے کے حکموں پر نہیں چلتا بلکہ زمانہ اس کی جنبشِ لب کا منتظر رہتا ہے۔ وہ زمانے پر اس لیے نظر نہیں ڈالتا کہ یہاں کیا کیا ہے جس سے دامن بھر لوں‘ وہ یہ دیکھنے کے لیے آتا ہے کہ کیا کیا نہیں ہے کہ پورا کر دوں۔ یہ ان بزرگوں کا فیض ہے جن کے ذکر سے زبان لذّت لیتی ہے اور قلم باوجود بیماری کے صفحۂ قرطاس پر الفاظ بن کر بولتا ہے اور ذہن ان کی یادوں سے معمور ہے۔ یہ اصحاب عزیمت صرف اسلامی تاریخ ہی میں نہیں بلکہ تاریخ انسانی میں روشنی کے مینار ہیں۔ بھولے بھٹکے انسانی قافلوں کو راہ دکھاتے ہیں۔ آج کل طبیعت کا رنگ ہی کچھ اور ہے۔ دل چاہتا ہے‘ قدم اٹھتے رہیں اور

بازو حرکت کرتے رہیں کہ اُڑ کر ان نفوس قدسیہ کے قافلے میں شریک ہوجائوں۔ مجھ بدنصیب کو اگر ساتھ نہ بھی لے چلیں تو مجھے اس مقدس کارواں کی گرد راہ کا ایک ذرئہ حقیر بننا سوجان سے عزیز ہے‘‘۔

آزمایش اور نمود و نمایش: ’’راہِ حق میں بیٹھنا‘ کھڑے ہونا‘ چلنا اور بھاگنا‘ یہ سب ایک ہی حال کی مختلف کیفیتیں ہیں۔ راہِ حق کے مظاہرے جہاں جان لیوا ہوتے ہیں‘ وہاں اپنے اندر نمود و نمایش کی ایک خطرناک آزمایش بھی رکھتے ہیں۔ بڑے بڑوں کے قدم اس راہ پر ڈگمگا گئے۔ راہِ حق میں مار کھانا اور جسم و جان اور مال و منال کی بازی لگانا بہت مشکل ہے۔ لیکن اس سے بھی سخت مرحلہ اس کے بعد آتا ہے۔ وہ مرحلہ نمود و نمایش‘ نعرہ و تحسین‘ تعریف‘ توصیف‘ شہرت اور ناموری کا ہوتا ہے۔ اس لیے جہاں پہلے مرحلے میں حالات و مشکلات‘ مصائب و شدائد کا مقابلہ کرنے کے لیے صبر و حوصلہ‘ عزم وہمّت‘ جوش و استقلال‘ ثبات و استقامت کی ضرورت ہے وہاں دوسرے مرحلے میں صفاے قلب و نظر‘ صبر و استغنا‘ بے نیازی اور سیرچشمی‘ وسعت قلب و نظر اور وسیع الظرفی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ ایسے مجاہد جو راہِ حق کے پہلے مرحلے سے ہنستے کھیلتے گزر گئے۔ کوڑے کھائے‘ بازو تڑوائے‘ قیدوبند کی صعوبتیں جھیلیں--- لیکن جب اس آزمایش میں ثابت قدم رہنے کی وجہ سے شہرت و ناموری ملی‘ تحسین و آفرین کے ڈونگرے برسے اور شاہانِ وقت کی طرف سے انعام و اکرام کی بارش ہوئی تو فضاے بسیط اور آسمان کی بلندیوں پر اڑنے والا شاہین دانے کے لالچ میں اندھا ہو کر گرا اور ہم رنگ زمین دام کو بھی نہ دیکھ سکا اور ہمیشہ کے لیے اسیرِدام ہوگیا۔ جو لوگ راہِ حق میں جان پر کھیل جانے کا عزم لے کر اٹھے اور وقت آنے پر چٹان کی طرح ڈٹ بھی گئے لیکن وہی لوگ نفس کی معمولی سی تحریک کے سامنے ہتھیار ڈال گئے‘‘۔

آخری نماز: ’’حضور پاکؐ فرمایا کرتے تھے: ’’تم نماز اس طرح پڑھو کہ زندگی کی آخری نماز ہے‘‘۔ کہنے کو تو یہ فرمان واعظوں سے سنتے ہیں اور خود لوگوں کو سناتے ہیں۔

ذرا اس نماز کا تصور تو کر کے دیکھو کہ فرشتہ اجل باہر دروازے میں دستک دے--- تمھارے پوچھنے پر وہ کہے کہ میں تمھاری روح قبض کرنے آیا ہوں اور تمھیں آخری نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ جتنا وقت چاہو اپنے ربّ کے حضور توبہ و استغفارکر لو۔ فرشتۂ اجل کا حکم سن کر تم اٹھتے ہو--- کیسے اٹھتے ہو--- پھر وضو کرتے ہو‘ کیسے وضو کرتے ہو۔ اور پھر اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہو جاتے ہو۔ قیام‘ قعود‘ رکوع و سجود کی کیا کیفیت ہوگی--- میرا خیال ہے اوّل تو قیام ہی طویل ہوگا اور اگر اس نماز میں سجدہ نصیب ہو گیا تو پھر سجدے سے سر‘ حشر کے دن بلاوے پر ہی اٹھے گا۔ یہ تو نماز کا ظاہر ہوا۔ اور اس کے باطن کا حال اللہ ہی کو معلوم ہوگا‘‘۔

(سوانح ڈاکٹر نذیر احمد شہیدؒ  از ایم خالد فاروق چودھری)

 

علی الصبح پرندوں کا چہچہانا اور اپنی سریلی آواز سے فضائے عالم کومعمور کر دینا کسی کو بھی متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ گویا پرندوں کے یہ نغمے کائنات کی ہر شے کو دعوت نظارہ دیتے ہیں کہ اٹھیں اور افق مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج اور اس کی فرحت بخش روشنی کا استقبال کریں‘ اور خالق کائنات کا شکر ادا کریں جس نے رات کی تاریکی کو دُور کر دیا اور خورشیدمنور کی روشنی اور حرارت سے زمین کی تمام مخلوقات کے لیے خزانۂ رزق کے دروازے کھول دیے۔

اسی طرح سرشام پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ اپنے آشیانوں کی طرف دل نواز گیتوں کو آلاپتے ہوئے واپس ہوتے ہیں۔ خاص طور سے کسی بھی جھیل‘ تالاب‘ یا دریا کے کنارے پر آبی پرندوں کا ایک ازدہام ہوتا ہے جو اپنے پروں کو کمال خوبی اور خوش اسلوبی سے پھیلائے ہوئے‘ اپنی گردنوں کو اونچا کیے ہوئے ‘اور اپنے پنجوں کو بریک کی مانند استعمال کرتے ہوئے سطح آب پر جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ مرغ آبیاں‘ بطخیں‘ قاز ‘ راج ہنس اور کئی اقسام کے پرندے سب مل کر ایک ناقابل فراموش سماں باندھتے ہیں۔ یہ دل فریب مناظر اکثر ہی ہمارے مشاہدے میں آتے ہیں۔

پرندے دوسرے جانوروں سے مختلف ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پر ہوتے ہیں۔ اس طرح نمایاں طور پر وہ دودھ پلانے والے جانوروں (mammals) اور رینگنے والے جانوروں (reptiles) سے الگ نوع ہیں۔چند اونس یا چند پونڈ کے وزن پر مشتمل گوشت پوست‘ پروں اور ہڈیوں کا ڈھانچا اپنے اندر بڑے ذخائر رکھتا ہے۔ اس میں اڑنے کے لیے جو قوت درکار ہوتی ہے‘ موجود ہوتی ہے۔ اس میں اڑنے کی صلاحیت اور

اس کو پوری طرح کنٹرول میں رکھنے کے ذرائع موجود ہوتے ہیں جو کسی طرح بھی موجودہ اعلیٰ معیار کے ہوائی جہاز سے کم تر نہیں ہوتے۔ ہوائی جہاز کی طرح پرندے بھی اپنی پرواز کے لیے ہمیشہ مستعد رہتے ہیں۔ اگرچہ محاورتاً ’’پرندوں کی طرح آزاد‘‘ ہمارے زبان زد رہتا ہے لیکن وہ اتنے آزاد بھی نہیں ہوتے۔ ان کی زندگی دانہ پانی کی تلاش میں صرف ہوتی ہے۔ اپنی پرواز سے لطف اندوز ہونے کے لیے ان کو خاصی مشقت بھی برداشت کرنا ہوتی ہے۔ اس کے باوجود ان کی بعض انواع کا ناپید نہ ہونا بھی ایک معجزہ ہے۔ اس لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بیش تر مقامات پر پرندوں کے اڑنے اور ہوا میں اپنے آپ کو برقرار رکھنے کو بطور نشانی بتایا ہے:

اَلَمْ یَرَوْا اِلَی الطَّیْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِیْ جَوِّ السَّمَآئِ  ط  مَا یُمْسِکُھُنَّ اِلاَّ اللّٰہُ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ o (النحل ۱۶:۷۹) کیا ان لوگوں نے کبھی پرندوں کو نہیں دیکھا کہ فضائے آسمانی میں کس طرح مسخر ہیں؟ اللہ کے سوا کس نے ان کو تھام رکھا ہے؟ اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔

اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلَی الطَّیْرِ فَوْقَھُمْ صٰٓفّٰتٍ وَّیَقْبِضْنَ ط  مَا یُمْسِکُھُنَّ اِلاَّ الرَّحْمٰنُ ط اِنَّہٗ بِکُلِّ شَیْ ئٍ م بَصِیْرٌ (الملک ۶۷:۱۹) کیا یہ لوگ اپنے اوپر اڑنے والے پرندوں کو پر پھیلائے اور سکیڑتے نہیں دیکھتے؟ رحمن کے سوا کوئی نہیں جو انھیں تھامے ہو۔ وہی ہر چیز کا نگہبان ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں فرمایا ہے:

یعنی ایک ایک پرندہ جو ہوا میں اڑ رہا ہے ‘ خداے رحمن کی حفاظت میں اڑ رہا ہے۔ اس نے ہر پرندے کو وہ ساخت عطا فرمائی جس سے وہ اڑنے کے قابل ہوا۔ اس نے ہر پرندے کو اڑنے کا طریقہ سکھایا۔ اس نے ہوا کو ان قوانین کا پابند کیا جن کی بدولت ہوا سے زیادہ بھاری جسم رکھنے والی چیزوں کا اس میں اڑنا ممکن ہوا۔ اور وہی ہر اڑنے والے کو فضا میں تھامے ہوئے ہے ورنہ جس وقت بھی اللہ اپنی حفاظت ان سے ہٹا لے وہ زمین پر آ رہتے ہیں۔ (جلد ششم‘ ص ۵۰)

پرندوں کی کئی اقسام ہیں۔ بعض پرندوں میں اڑنے کی صلاحیت نہیں ہوتی‘ جیسے کہ شترمرغ یا پنگوین  (Penguin)۔ لیکن ان کی اس معذوری کا ازالہ شترمرغ کی تیزرفتاری اور پنگوین کی ماہرانہ تیراکی سے ہو جاتا ہے۔ بعض پرندے نہایت خوب صورت گھونسلے بناتے ہیں‘ جیسے بیا‘ جس کا گھونسلا صنعت کاری کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ بعض محض پتھریلی زمین پر تنکوں کو جمع کر کے انڈے دیتے ہیں۔ لیکن ان کی حفاظت میں شب و روز بعض اوقات بلاکھائے پیے مصروف رہتے ہیں۔ اور جب انڈوں سے چوزے نکلتے ہیں تو ان کی نگہبانی میں ہمیشہ مستعد رہتے ہیں‘ اور ان کو ہر طرح کے خطرات سے محفوظ رکھتے ہیں‘ اور ان کے لیے غذا فراہم کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اڑنا سیکھ جائیں ‘ اپنی مدافعت آپ کر سکیں‘ اور خود ہی دانہ پانی تلاش کر سکیں۔ اس سے زیادہ حیرت انگیز کارنامہ پنگوین انجام دیتے ہیں۔ جب وہ ہزاروں پنگوین اور ان کے بچوں کے درمیان اپنے چوزوں کو محض ان کی آواز سے شناخت کر لیتے ہیں۔

پرندوں کی دنیا کا مطالعہ کیا جائے تو ایک محیرالعقول امر ان کی نقل مکانی ہے۔ ان کا ہزارہا میل کے سفر کو طے کرنا اور پھر واپس اپنے مقام پر پہنچ جانا قدرت الٰہی کا ایک عجیب کرشمہ ہے۔ صدیوں سے یہ مسئلہ انسانوں کے لیے باعث حیرت اور استعجاب رہا ہے۔ زمانۂ قدیم میں جب انسان کی معلومات کا دائرہ محدود تھا‘ لوگوں نے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کیں‘ لیکن یہ کسی طرح بھی عقل انسانی کو مطمئن نہ کر سکیں۔ پچھلی دو صدیوں میں سائنس دانوں نے اس نقل مکانی اور پرندوں کے راستے تلاش کرنے کی صلاحیت کا تحقیقی مطالعہ کیا۔ پرندوں کے پنجوں میں ایمونیم کے چھلے ڈالے تاکہ جس ملک میں یہ پرندے پہنچیں وہاں کے لوگوں کو پتا چل سکے کہ یہ پرندہ کہاں سے آیا ہے۔ اس طرح پرندوں کی نقل مکانی کے نقشے مرتب کیے گئے۔ یہ تحقیقات اب بھی جاری ہیں۔

قابل غور بات یہ ہے کہ پرندے جن کے پاس نہ نقشے ہوتے ہیں‘ نہ عمدہ آلات‘ نہ ان کے تصرف میں ریڈار(Radar)ہوتا ہے‘ نہ ریڈیو‘ اور نہ دیگر افراد ہی جو ہوائی اڈوں پر پائلٹ کی رہنمائی کے لیے موجود ہوتے ہیں‘ نہ ٹریفک کنٹرول والے ان کو ہدایات دیتے ہیں کہ موسم کیسا ہے اور اترنا ممکن ہے یا نہیں--- اس کے باوجود لاکھوں پرندے ہزارہا میل کے سفرکے دوران سمندروں‘ صحرائوں اور پہاڑوں کی بلندیوں کو سر کرتے ہوئے ایک براعظم سے دوسرے براعظم میں جا پہنچتے ہیں۔ راہ میں ہرطرح کے موسموں‘ طوفانوں اور تیزوتند ہوائوں کو سہتے ہوئے بخیر و خوبی ایک ملک سے دوسرے ملک میں باقاعدگی سے منتقل ہو جاتے ہیں اور پھر اسی جگہ واپس آجاتے ہیں اور اگلے سال پھر محو پرواز ہوتے ہیں۔ ان کی یہ حیرت انگیز نقل مکانی کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔

یہ سب کس طرح ممکن ہوتا ہے؟ پرندوں کے ماہرین نے مختلف قیاسات اور نظریات قائم کیے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ پرندے زمین کی مقناطیسی قوت سے اندازہ لگاتے ہیں اور اپنا راستہ تلاش کرتے ہیں‘ بعض موسموں کی تبدیلی ‘ سورج کی شعاعوں کے زاویے بدل جانے سے مدد لیتے ہیں۔ ممکن ہے ان کی قوت شامّہ بہت حسّاس ہو اور وہ ہوا کے درجۂ حرارت اور اس کے رخ سے اندازہ کرتے ہوں۔ شاید ان کے چھوٹے سے دماغ میں اللہ تعالیٰ نے وہ قوت رکھی ہو جو زمین کے نشیب و فراز سے انھیں راہ ڈھونڈنے میں مدد دیتی ہو۔

۸۰ کے عشرے میں دو جرمن سائنس دانوں (P.Berthold and U.Querner) نے اس پر کافی مشاہدات اور تحقیق کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ پرندوں میں پیدایشی طور پر یہ داخلی نظام موجود ہوتا ہے کہ وہ دنوں کے بدلتے ہوئے اوقات اور درجۂ حرارت کے باوجود اپنا راستہ خود تلاش کرسکتے ہیں۔

یقینا یہ صرف قدرتِ الٰہی کا کمال ہے کہ یہ پرندے ہزاروں میل کے سفر کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ وہ لوگ جو خدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں‘ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی کائنات کی ہر شے کا خالق و مالک ہے اور اسی نے ہر ذی حیات کو ایسی صلاحیتیں اور قوتیں عطا کی ہیں کہ وہ اس دنیا میں اپنے رزق کو پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ وہ ان کی رہنمائی جبلت کے ذریعے کرتا ہے۔

سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی o الَّذِیْ خَلَقَ فَسوّٰی o  وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَھَدٰی o (الاعلٰی ۸۷: ۱-۳) اپنے رب برتر کے نام کی تسبیح کرو جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا اور جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی۔

اس آیت کی تفسیر میں سید قطب شہیدؒ نے اپنی تفسیر فی ظلال القرآن میں نیویارک کی سائنسی علوم کی اکیڈمی کے صدر کریس موریسن (Chris Morrison) کی کتاب ’’انسان اکیلا نہیں کھڑا‘‘ سے یہ اقتباس نقل کیا ہے:

پرندوں میں وطن لوٹنے کا ایک ملکہ ہوتا ہے۔ ایک خاص چڑیا جو دروازوں پر گھونسلے بناتی ہے‘ خزاں کے موسم میں جنوب کی طرف ہجرت کر جاتی ہے اور اگلے سال بہار میں اپنے اس مقام کی طرف لوٹ آتی ہے۔ ستمبر کے مہینے میں امریکہ کے اکثر پرندے جنوب کی طرف جاتے ہیں اور وہ سمندروں اور صحرائوں پر سے پرواز کرتے ہوئے ہزاروں میل سفر کرتے ہیں اور کبھی اپنا راستہ نہیں بھولتے۔ اور پیغام رساں کبوتر پنجرے میں طویل سفر کرتے ہیں اور جب ان کو پیغام دے کر چھوڑا جاتا ہے تو وہ کچھ دیر کے لیے حیران ہو کر چکر لگاتے ہیںاور اس کے بعد سیدھے اپنے وطن کی طرف پرواز کرتے ہیں اور کبھی راہ سے نہیں بھٹکتے۔ (ترجمہ: سید معروف شاہ شیرازی‘ جلد ششم‘ ص۹۳۸)

اس پر سید قطب شہیدؒ کا یہ تبصرہ بھی بڑا ہی جامع ہے کہ ’’یہ ایک عظیم حقیقت ہے‘ اور اس کائنات کی جس چیز کا تجزیہ کیا جائے اس کے اندر یہ حقیقت موجود ہے۔ اس وسیع و عریض کائنات کی ہر چیز‘ خواہ بڑی ہو یا چھوٹی ہو‘ اہم ہو یا حقیر ہو‘ ہر چیز کی تخلیق میں تسویہ اور تناسب موجود ہے۔ ہر چیز کامل الخلقت ہے اور ہر چیز کی تخلیق کا ایک مقصد ہے اور وہ مقصد اس کی تقدیر ہے۔ اللہ نے ہر چیز کو اپنا مقصدِ وجود پورا کرنے کے لیے نہایت ہی آسان طریقہ کار فراہم کر دیا ہے۔ غرض اللہ کی ہر مخلوق مکمل اور متناسب ہے اور ہر چیز اپنا انفرادی فریضہ ادا کرتی ہے‘‘۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جس خالق کائنات نے پرندوں اور تمام ہی چیزوں کو رہنمائی عطا فرمائی ہے‘ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس نے انسان کو‘ جو اشرف المخلوقات ہے‘ بغیر کسی رہنمائی کے چھوڑ دیا ہو؟ بھلا وہ ذات رحیم و کریم جو ایک چھوٹی سی چڑیا کو فضا میں یونہی بھٹکنے کے لیے نہیں چھوڑ دیتی‘ وہ کس طرح ہم کو گمراہی کی تاریکی میں نور ہدایت کے بغیر چھوڑ سکتی ہے؟ یہی بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تمثیلی انداز میں یوں سمجھائی: ’’ہوا کے پرندوں کو دیکھو‘ نہ یہ فصل بوتے ہیں نہ کاٹتے ہیں اور نہ کوٹھوں ہی میں غلہ جمع کرتے ہیں‘ لیکن ان کا رب انھیں کھلاتا ہے‘ تو کیا تم ان سے زیادہ قیمتی نہیں ہو؟‘‘ (متی ۶:۲۶)۔ اور ایک اور موقع پر یوں فرمایا: ’’صرف معمولی قیمت میں تم دو چڑیاں خرید سکتے ہو لیکن ایک چڑیا بھی زمین پر نہیں گرتی الا یہ کہ اللہ کی مرضی ہو۔ جہاں تک تمھارا معاملہ ہے تمھارے سر کے بال تک گنے ہوئے ہیں‘ تو خوف نہ کھائو تمھاری قیمت تو کئی چڑیوں سے کہیں زیادہ ہے‘‘۔ (متی ۱۰:۲۹-۳۱)

یہ بات تو ظاہر ہے‘ کہ تمام ہی پرندے ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کرتے ہیں۔ جہاں بھی دانہ پانی دستیاب ہو وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ اسی طرح بعض صرف چند میل کے دائرے میں گھومتے ہیں۔ بعض زیادہ سے زیادہ پڑوسی ملک کا چکر لگا لیتے ہیں۔ لیکن پرندوں کی بعض انواع باقاعدگی سے ہزارہا میل کی مسافت طے کر کے نصف دنیا کا سفر طے کر لیتی ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ حیرت انگیز ریکارڈ تو بحرمنجمد شمالی کے ایک آبی پرندے نے جسے Antic Tern کہتے ہیں‘ قائم کیا ہے۔ ان کی رہایش بحرمنجمد شمالی میں ہوتی ہے لیکن وہاں جب موسم سرما کا آغاز ہوتا ہے تو یہ جنوب کی طرف پرواز کرتے ہیں۔ گرین لینڈ سے ہوتے ہوئے شمالی بحراوقیانوس سے گزرتے ہوئے برطانیہ اور اسپین‘ اور وہاں سے ساحل افریقہ سے ہوتے ہوئے بحرمنجمد جنوبی جا پہنچتے ہیں۔ جہاں اس وقت موسم گرما ہوتا ہے۔ یہاں یہ موسم گرما گزار کر موسم سرما کی آمد سے پہلے دوبارہ ۲۶ ہزار میل کا واپسی سفر مکمل کر کے بحرمنجمد شمالی میں اپنے گھونسلوں میں واپس پہنچ جاتے ہیں۔ یہ ایک بے مثال طویل سفر کی داستان ہے‘ لیکن لاکھوں پرندے آئس لینڈ اور سائیبریا سے انگلستان اور شمالی یورپ میں موسم سرما گزارنے کے لیے آتے ہیں اور یہاں کے پرندے جنوبی یورپ اور شمالی افریقہ کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سال بہ سال یہ پرندے اپنے منتخب کردہ مخصوص تالاب‘ جھیل‘ درخت یا چمنی (chimney) میں آکر بسیرا کرتے ہیں۔ اس طرح یہ دو تین ہزار میل کا سفر جیسے ایک طے شدہ نظام الاوقات کے مطابق سرانجام دیتے ہیں۔

پرندوں کے لمبے سفر واقعی کرشمہ ہیں۔ اس سلسلے میں ایک جرمن مصنف Dr. Werner Gitt جنھوں نے تخلیق کے عجائبات پر کافی کتابیں شائع کی ہیں‘ پرندوں کی پرواز کا تکنیکی طور پر تجزیہ کیا ہے۔ انھوں نے اس بات کا باقاعدہ حساب لگایا کہ پرندوں کو اپنی لمبی پرواز مکمل کرنے میں کتنی قوت درکار ہوتی ہے‘ اور آیا ان کے پاس اتنا زادراہ ہوتا ہے کہ وہ یہ طویل سفر مکمل کر سکیں؟ انھوں نے اپنی کتاب "Am Anfang war die Information", [In the beginning there was Information]  میں‘ مثال کے طور پر‘ مشرقی سائیبریا کے ایک پرندے پلووَر (Plover) ‘جو الاسکا (Alaska) میں پایا جاتا ہے‘ کی پرواز پر تحقیق کی۔ یہ زمینی پرندہ ہے جس کی ٹانگیں لمبی ہوتی ہیں اور انڈے زمین پر دیتا ہے۔ یہ پرندے الاسکا سے موسم سرما میں جنوب کی طرف جزائر ہوائی (Hewaii) کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں۔ چونکہ راستے میں کوئی اور جزیرہ یا خشکی کا کنارہ موجود نہیں ہے اس لیے ان کا تمام سفر بلاتوقف بحرالکاہل پر پرواز کر کے ہوتا ہے۔ اس پر مزید مسئلہ یہ بھی ہے کہ زمینی پرندہ ہونے کی وجہ سے تیرنا نہیں جانتے۔ چنانچہ یہ ڈھائی ہزار میل (ساڑھے ۴ ہزار کلومیٹر) کا لمبا سفر مسلسل ایک اڑان میں مکمل کرتے ہیں۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ اس دوران ۲لاکھ ۵۰ ہزار مرتبہ اپنے پروں کو پھیلاتے اور سکیڑتے ہیں اور اس طرح یہ پرواز ۸۸ گھنٹوں میں پوری کرتے ہیں۔

جب یہ پرندے سفر کا آغاز کرتے ہیں اس وقت ایک پرندے کا وزن ۲۰۰ گرام ہوتا ہے۔ جس میں ۷۰ گرام چربی ہوتی ہے جو قوت فراہم کرنے کا ذخیرہ ہوتی ہے۔ یہ معلوم رہے کہ پلووَر اپنے وزن کے اعشاریہ چھ فی صد (۶%.) کو حرکت مجردہ (Kinetic Energy) اور حرارت پیدا کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ مناسب رفتار سے پرواز کرتے ہیں تاکہ کم از کم قوت خرچ ہو لیکن ان کے لیے ہوائی تک سفر مکمل کرنے کے لیے مطلوبہ مقدار میں قوت کا حصول ممکن نہیں ہے۔ اپنی توانائی کے ذخیرے سے وہ صرف ۸۱ فی صد سفر مکمل کر سکتے ہیں اور وہ اب بھی تقریباً ۵۰۰ میل (۸۰۰ کلومیٹر) اپنی منزل مقصود سے دُور ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ کس طرح ہوائی پہنچ جاتے ہیں؟ کیا ہم نے اپنے حساب میں کوئی غلطی کی ہے؟ نہیں‘ ہمارا حساب تو درست ہے۔ خالق کائنات نے اس کا اہتمام بڑے ہی پراسرار انداز میں کیا ہے۔ اس نے پرندوں کو انتہائی اہم معلومات مزید بہم پہنچائی ہیں۔ وہ یہ کہ تنہا کبھی بھی سفر نہ کرنا اور پرواز کے دوران انگریزی کے حرف ’’وی‘‘ (v)کی شکل میں اڑنا۔ اس طرح اڑنے سے وہ پرواز میں ۳۳ فی صد قوت بچا سکتے ہیں اور اپنی منزل مقصود تک بخیریت پہنچ جاتے ہیں۔

۸۸ گھنٹوں کے سفر کے بعد پرندوں کے پاس عام طور سے ۸.۶ فی صد قوت ابھی مزید باقی رہتی ہے۔ خالق کائنات نے اس کو بھی اپنے حساب میں ملحوظ رکھا ہے تاکہ کہیں پرندوں کو مخالف ہوا کا سامنا درپیش ہو تو یہ قوت کام آسکے۔

جو لوگ اللہ تعالیٰ کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اور یہ انتہائی صحیح اندازے خالق کی قدرت کا نتیجہ نہیں قرار دیتے‘ تو وہ ان سوالات کا کیا جواب پیش کرسکتے ہیں؟ پرندوں کو کس طرح یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو سفر کے لیے کتنی قوت درکار ہے؟ کس طرح وہ مناسب چربی جمع کر پاتے ہیں کہ وہ دوران سفر ان کے کام آسکے؟ پرندوں کو کس طرح سفر کی مسافت اور اس کے لیے زادراہ کا اندازہ ہوتا ہے؟ وہ کس طرح اپنی سمت سفر اور راستے کی رہنمائی حاصل کرتے ہیں؟ وہ کس طرح جھنڈ کے جھنڈ ایک ساتھ اڑتے ہیں اور صحیح طور پر اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں؟

پرندوں کے یہ ہوائی سفر کسی قسم کے پیچیدہ آلات‘ قطب نما اور نقشوں کے بغیر ہوتے ہیں‘ حالانکہ اس دوران ہمیشہ سورج کا مقام‘ ہوا کا رخ‘ بادلوں کی گردش اور روز و شب کے تفاوت سے منظر اور صورت حال بدلتے رہتے ہیں۔ یقینا یہ اللہ تعالیٰ کا کرشمہ ہے‘ وہی ان پرندوں کی رہنمائی کرتا ہے اور اس طرح وہ اپنے سفر کامیابی سے سرانجام دیتے ہیں۔ زمینی پرندوں کا بحری سفر جو پلووَر کرتے ہیں اگر ان میں ذرہ برابر بھی تفاوت ہو جائے تو ان کی ہلاکت یقینی ہے۔ دوران سفر بالکل صحیح سمت برقرار رکھنا کوئی تجرباتی عمل تو نہیں ہوتا۔ اگر خدا ان کی رہنمائی نہ کرے تو یہ پرندے کبھی بھی اتنا لمبا سفر اپنے تئیں طے نہیں کر سکتے۔

کینیڈا میں قاز کی نقل مکانی کے مشاہدات سے چند اور حقائق سامنے آئے ہیں جو یقینا ہمارے لیے قابل غور ہیں۔

پہلی بات تو وہی ہے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے کہ قازیں بھی اپنی نقل مکانی اور طویل سفر میں "v" کی شکل میں اڑتی ہیں۔ دوسری بات یہ مشاہدے میں آئی کہ اگر کسی وجہ سے ایک قاز اپنی جگہ سے ہٹ جائے‘ یا پیچھے رہ جائے تو وہ ہوا کا دبائو محسوس کرتی ہے‘ اس لیے وہ جلد ہی واپس اپنے مقام پر آجاتی ہے۔ تیسری بات یہ کہ جو قاز لیڈر کے طور پر سب سے آگے اڑ رہی ہوتی ہے وہ ہوا کے دبائو کو سب سے زیادہ برداشت کرتی ہے۔ جب وہ تھک جاتی ہے تو پیچھے ہٹ کر اپنی جگہ بناتی ہے اور دوسری قاز آگے بڑھ کر رہنمائی کا کام انجام دیتی ہے۔ چوتھی بات جو اکثریتی مشاہدے میں آئی ہے کہ جو قازیں پیچھے ہوتی ہیں وہ مسلسل آوازیں نکالتی رہتی ہیں تاکہ وہ رفتار برقرار رکھ سکیں۔ آخری مشاہدہ یہ ہے کہ اگر کوئی قاز دوران سفر بیمار ہو جائے‘ یا زخمی ہو جائے‘ یا کسی کی گولی کا نشانہ بن جائے اور زمین کی طرف گرنے لگے‘ تو دو قازیں اس کے ساتھ زمین کی طرف اڑتی ہیں تاکہ اس کی مدد کر سکیں اور اس کی حفاظت کر سکیں۔ یہ مجروح قاز کے ساتھ رہتی ہیں تاآنکہ وہ صحت یاب ہو جائے اور اڑنے کے قابل ہو جائے‘ یا پھر مر جائے۔ اس کے بعد قازیں دوبارہ اپنے سفر کا آغاز کرتی ہیں اور کسی دوسرے جھنڈ کے ساتھ مل کر واپس اپنے ساتھیوں سے جا ملتی ہیں۔

ان حقائق میں انسانوں کے لیے انتہائی سبق آموز نصیحتیں ہیں‘ اگر ہم ان پر غوروفکرکریں۔ وہ لوگ جن کی منزل ایک ہے اگر مل جل کر اپنی منزل کی طرف پیش رفت کریں تو وہ سفر آسانی سے اور جلد طے کر سکیں گے۔ اجتماعیت سے قوت حاصل ہوتی ہے اور لوگ باہم ایک دوسرے کے لیے باعث تقویت ہوتے ہیں۔ رہنمائی اور قیادت کا کام انتہائی مشکل اور صبر آزما ہوتا ہے۔ اس لیے دوسروں کو مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔ پیرووں کو اپنے لیڈر کی ہمت افزائی کے لیے مسلسل کوشش کرنا چاہیے۔ اپنے ساتھیوں اور رفقا کے لیے ایثار اور ہمدردی لازمی ہے۔ مصیبت کے وقت ان کی اعانت اور مدد فرض ہے۔ بچھڑے ہوئے لوگوں کو دوبارہ اپنے ساتھ ملا کر سفر کا آغاز کرنا بھی حکمت کا متقاضی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے کارخانۂ قدرت میں ہمارے لیے بہت سی نشانیاں رکھی ہیں۔ اگر ہم قدرت کے عجائبات پر غوروفکر کریں تو ان سے عبرت اور سبق حاصل کر سکتے ہیں:

نہیں مصلحت سے خالی یہ جہان مرغ و ماہی

(اقبال)


کتابیات

Baker, R. Robin: Bird navigation: the solution of a mystery. London: Hodder & Stoughton, 1984.

1

Berthold, P. and Querner, U.: Genetic basis of migratory behaviour in European warbles. Science. Vol. 212, 1981, pp 77-79

2

Mathews, G.V.T.: Bird navigation. 2nd ed. Cambridge University Press, 1968.

3

Werner, Gitt: Am Anfang war die Information [In the beginning there was information] Stuttgart: Hanssler-Verlag, 1994. (Translation quoted from: "How do birds do it?" Published in The Plain Truth, March-April, 1996, pp. 10-13.

4

"There's a lot we can learn from these geese" The Vancouver Sun, 1st August 1998, p-18.

5

ترجمہ:  رئیس احمد مغل

سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور مغرب میں غروب ہو جاتا ہے۔ یہ ضرب المثل صدیوں سے مسافروں اور بھٹکے ہوئوں کو سمت کا پتا دیتی آئی ہے لیکن آج یہ ضرب المثل امریکہ کے لیے مستقبل کے استعارے کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اس وقت امریکی حکومت کا اوّلین مسئلہ نہ دہشت گردی کا خاتمہ ہے اور نہ ہی ٹیکسوں کی عدم وصولی یا عالمی تجارت میں خسارہ۔ پورے مغرب اور امریکہ کے اعصاب پر سوار‘ اوّلین مسئلہ پچھلی ایک صدی میں آبادی میں مسلسل کمی اور اب معیشت‘ دفاع اور عالمی تعلّقات پر پڑنے والے اس کے نمایاں اثرات ہیں۔

واشنگٹن میں قائم ’’مرکز براے دفاعی و عالمی مطالعات‘‘ (سی ایس آئی ایس) (Center for Strategic and International Studies) وسائل اور کارکردگی کے لحاظ سے ایک موقر تحقیقی ادارہ ہے۔ آبادی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے سی ایس آئی ایس نے ایک علیحدہ مستقل منصوبہ ’’اقدام براے عالمی عمررسیدگی‘‘ (جی اے آئی) (Global Aging Initiative) جاری کیا ہے۔ اس ادارے کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے تعارفی کلمات میں درج ہے، ’’اگلے تین عشروں میں جاپان‘ مغربی یورپ اور امریکہ آبادی کے لحاظ سے تاریخ کی بے مثال تبدیلی سے گزریں گے‘ جس میں معمر افراد کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی اور کام کرنے کے قابل افراد کی تعداد جوں کی توں رہے گی یا اکثر جگہوں پر گھٹتی چلی جائے گی‘‘۔ رپورٹ میں اس صورت حال کے اثرات بہت ہی محتاط الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں کہ ’’آج کی تمام بڑی طاقتوں کو ساختیاتی تبدیلی‘ قومی بچت میں کمی اور معاشی ترقی میں سست رَوی کے خطرات لاحق ہیں‘‘ اور یہ کہ ’’یہ سب عناصر اہم دفاعی مضمرات کا باعث بنیں گے‘‘۔

مغرب میں آبادی کی کمی کا مسئلہ کیا ہے اور اس کے کیا اثرات متوقع ہیں؟ اس کی تفصیل جاننے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہاں ’’مغرب‘‘ سے مراد دُنیا کے نقشے پر موجود مغرب نہیں۔ مثال کے طور پر‘ امریکی ریاست سائوتھ فلوریڈا سے صرف ۹۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع کیوبا‘ اس مغرب میں شامل نہیں۔ یہی حال ہیٹی‘ جنوبی امریکہ کے تمام ممالک اور وسطی امریکہ کے ممالک کا ہے۔ اسی طرح نافٹا (Nafta) کے رکن ممالک بھی اگرچہ دنیا کے نقشے پر مغرب کا حصہ ہیں لیکن یہ ذکر اس ’’مغرب‘‘ کا نہیں۔ یہاں ’’مغرب‘‘ سے مراد وہ سیاسی اور عالمی اتحاد ہے جس میں شامل ہر ملک میں چند خصوصیات مشترک ہیں۔ یعنی اتحاد میں شامل تمام ممالک ترقی یافتہ ہیں یا مابعد ترقی کے دَور سے گزر رہے ہیں۔ یہ سب سرمایہ دار‘ سیکولر ریاستیں ہیں اور ان سب کی ایک بنیادی خصوصیت امریکہ کا حلیف ہونا ہے۔ یوں جاپان‘ جو نقشہ میں ایشیا کا حصہ ہے‘ اس تعریف کی رُو سے ہر طرح اس ’’مغرب‘‘ میں شامل ہے۔

یہ ہے وہ مغرب جو آبادی کی کمی کے مسئلے کا شکار ہے‘ جب کہ دنیا کے دیگر حصوںمثلاً مشرق وسطیٰ‘ افریقہ کے اکثر ممالک اور جنوبی ایشیا کی آبادی کم از کم اگلے ۲۰ سے ۵۰ سال تک مسلسل بڑھتے رہنے کا امکان ہے۔

اس صورت حال پر مغرب کا ردعمل بجا طور پر گھبراہٹ اور پریشانی پر مشتمل ہے۔ ۱۹۹۳ء میں پیرے لیلاچے نے‘ جو اس وقت یاک شیراک کے مشیر تھے‘ اپنے ایک بیان میں کہا: ’’جنوبی ایشیا اور عرب ریاستیں اگلے ۳۰ سال میں ۴ ارب افراد پر مشتمل ہوں گی‘ جب کہ مغرب میں آبادی کی کمی کے تمام تر دبائو کے علاوہ ۵۰ لاکھ معمر افراد کا بوجھ بھی سر پر ہے‘‘۔ یوں دیکھا جائے تو سورج واقعی مغرب میں غروب ہو رہا ہے اور مشرق سے طلوع ہونے والا ہے۔ امریکی صدر جارج بش کا اعلان کردہ نیو ورلڈ آرڈر‘ یوں محسوس ہوتا ہے گویا اپنے بچپن ہی میں موت کا شکار ہو چکا ہے۔ اب اس کی جگہ وہ نیا نظام لے رہا ہے جس میں نئی توانا اقوام‘ جن کی آبادی کا اکثر حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے‘ آیندہ اپنے مفادات کے پیش نظر نئے اتحاد بنائیں گی‘ جس سے مغرب کے سوا پوری دنیا کو فائدہ ہوگا۔

جاپان میگزین میں حال ہی میں ایک مقالہ شائع ہوا ہے۔ اس میں جاپان کی معیشت پر آبادی  کی کمی کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مقالے میں کہا گیا ہے کہ چڑھتے سورج کی سرزمین جاپان کے تمام تجارتی مفادات اور تعلقات مغرب سے وابستہ ہیں۔ اس لیے مستقبل میں‘ مشرق کی ترقی کی صورت میں‘ جاپان اس میں حصہ دار نہ بن پائے گا۔ اس مقالے میں جس کا عنوان، ’’لرزتے سورج کی سرزمین: گھٹتی ہوئی آبادی والے جاپان میں تجارت‘‘ ہے‘ لکھا ہے: ’’جاپان جہاں ۲۰۰۱ء سے انسانی وسائل (کارکنوں) اور ۲۰۰۷ء سے آبادی میں مسلسل کمی آنا شروع ہو گی ‘ معیشت کو موجودہ رفتار سے آگے بڑھانے کی تمام پالیسیاں ناکام ثابت ہوں گی۔ یہ صورت حال کس حد تک جائے گی اس کا درست اندازہ‘ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی نہیں لگا سکتا۔ لیکن کئی پیشانیاں ابھی سے عرق آلود دیکھی جا سکتی ہیں‘‘۔

آبادی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے صرف جاپان ہی پسینہ نہیں بہا رہا۔ اقوام متحدہ کا شعبہ آبادی‘ جو درحقیقت امریکہ اور برطانیہ کے اصرار پر اس لیے قائم کیا گیا کہ ’’محکوم‘‘ اقوام کی بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کے سیاسی مضمرات پر نظر رکھی جا سکے‘ اس کوشش میں جاپان کا شریک ہے۔ ۱۹۹۰ء کے پورے عشرے میں اس ادارے کی توجہ کا مرکز و محور ایک ہی موضوع رہا: مغرب میں گھٹتی ہوئی آبادی اور اس کے عالمی معیشت پرپڑنے والے اثرات۔

اس مسئلے کا ایک انتہائی توجہ طلب پہلو اس موضوع پر مغرب کی سنجیدگی اور توجہ ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے حکومتیں‘ تحقیقی ادارے‘ درجنوں تھنک ٹینک اور مالی ادارے سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں فرانس کے قومی مرکز براے مطالعہ آبادی کے سربراہ ژاں کلاڈچیسفائر کا بیان قابل توجہ ہے کہ ’’پہلے کوئی حکومت نہ اس قدر خوف زدہ تھی اور نہ ہی اس قدر عوامی سطح پر اس مسئلے کے اثرات کو زیربحث لایا گیا‘‘۔ اس انٹرویو میں آگے چل کر وہ کہتے ہیں’’دنیا بچوں کے بغیر قائم ہی نہیں رہ سکتی‘‘ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہ ’’چین‘ بنگلہ دیش اور افریقہ کے اکثر ممالک… یہاں آبادی کم کرنے کا عمل ہر لحاظ سے ناکام ثابت ہوا ہے‘‘۔ اکثر افراد کی کوشش ہوتی ہے کہ اس مسئلے پر نسلی تعصب ظاہر نہ ہونے پائے‘ تاہم یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مغرب کے قائدین اس وقت مغرب کی آبادی میں اضافہ اور ترقی پذیر ممالک میں اس کی کمی کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔

ایک منصوبہ: اقدام براے عالمی عمر رسیدگی (جی اے آئی) کا ذکر ابتدائی سطور میں گزر چکا ہے۔ صرف یہی ایک منصوبہ مغرب کی سنجیدگی اور پریشانی ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ سی ایس آئی ایس کا دو سالہ منصوبہ ہے جس کا مقصد یہ طے کیا گیا ہے کہ مغرب میں آبادی کی قلّت کی وجوہات معلوم کی جائیں اور اس کے ممکنہ حل تجویز کیے جائیں۔ اس کی سربراہی سابق نائب صدر امریکہ والٹروان ڈیل‘ جاپان کے سابق وزیراعظم ہاشی موتو اور جرمنی کے بنڈس بنک کے سابق صدر اوٹویومیل کر رہے ہیں۔ اس کمیشن میں امریکی حکومت کے کئی سابق قانون ساز‘ دنیا کے مختلف ممالک کے ماہرین‘ عالمی مالیاتی اداروں کے سربراہ اور درجنوں فلاحی ادارے شامل ہیں۔ اس ادارے کے تحت منعقد ہونے والے پروگراموں اور سیمیناروں میں فرانس کا ادارہ او ای سی ڈی ‘ ورلڈ بنک‘ آئی ایم ایف اور اسی درجے کے دیگر عالمی اداروں کے نمایندے شریک رہے ہیں۔ اس منصوبے کا باقاعدہ آغاز اپریل ۱۹۹۹ء میں کیا گیا۔ پالیسی کانفرنس کا اجلاس پچھلے سال جنوری میں ہوا۔ ستمبر میں مزید اظہار خیال کیا گیا۔ اب بنیادی سمٹ کانفرنس ۲۰۰۱ء کے ابتداء میں زیورخ اور واشنگٹن میں ہوئی جس میں مغربی ممالک کے نمایندہ ماہرین نے شرکت کی جو بعد میں امریکی قانون ساز نمایندوں کو قانون سازی کے حوالے سے مشاورت مہیا کریں گے۔ اب ایک اہم اجلاس اگست ۲۰۰۱ء میں ٹوکیو میں منعقد ہونا ہے۔

دیگر ادارے: لیکن یہ ادارہ اس کوشش میں تنہا نہیں۔ او ای سی ڈی نے ۳۰ ممالک سے اس حوالے سے پالیسی اور اس کے ممکنہ اثرات پر معلومات اکٹھی کی ہیں۔ ان ممالک میں مغرب کے ساتھ ساتھ ترکی اورمیکسیکو جیسے ترقی پذیر ممالک بھی شامل تھے۔ امریکی افواج سے وابستہ ادارہ رینڈکارپوریشن آبادی میں تبدیلی کا بڑی توجہ سے مطالعہ کر رہا ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی آبادی میں فرق کا مطالعہ اس کے بنیادی موضوعات میں شامل ہے۔ حتیٰ کہ حال ہی میں امریکی سی آئی اے نے ایک تفصیلی غیر خفیہ دستاویز جاری کی ہے جس میں مغرب کی گھٹتی ہوئی آبادی اور اس کے اثرات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی موقر ادارے اس موضوع کے مختلف حصوں پر کام کر رہے ہیں۔ مثلاً ہارورڈ یونی ورسٹی میں قائم ’’مرکز مطالعہ آبادی و ترقی‘‘۔ اس مرکز نے ۱۹۹۶ء میں ایک رپورٹ جاری کی جس کا ذیلی عنوان تھا ’’عالمی قلّت آبادی- قیاسات‘‘۔ اس رپورٹ میں ایک ایسی دُنیا کا نقشہ کھینچا گیا ہے جہاں بچے ’’بہن بھائی سے محروم ہوں گے۔ ان کے کوئی چچازاد‘ خالہ زاد نہ ہوں گے‘ چچا خالہ بھی نہیں۔صرف والدین ‘ ان کے والدین اور غالباً ان کے والدین‘‘۔ واشنگٹن میں قائم ووڈرو ولسن مرکز براے اہل علم ایک ایسا ادارہ ہے جو صرف عالمی آبادی اور مغربی مفادات کے موضوع پر تحقیق میں مصروف ہے۔ اس کی توجہ ’’بڑھاپے‘‘ کے مطالعہ پر بھی ہے اور ترقی پذیر ممالک میں شرح آبادی پر بھی۔

اثرات و خطرات:  سی ایس آئی ایس کی اب تک کی مطبوعہ تحقیق کا بنیادی محور شرح آبادی میں کمی اور اس کے معاشی اثرات ہیں۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ مغربی ممالک میں جہاں شرح آبادی دو بچے فی گھرانہ یا اس سے قدرے زیادہ ہے وہاں بہ مشکل ’’متبادل آبادی‘‘ فراہم ہو پاتی ہے۔ یوں ہر نسل پچھلی نسل سے تعداد میں کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ یہ عمل اگر زیادہ عرصے جاری رہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آبادی میں بڑی عمر کے افراد بڑھتے چلے جاتے ہیں اور نوجوان‘ جو کسی بھی قوم کے حقیقی انسانی وسائل ہوتے ہیں‘ اور وہی تمام کام کرنے اور ٹیکس ادا کرنے والے افراد ہوتے ہیں‘ کم پڑتے جاتے ہیں۔ یوں حکومت جس کے اخراجات ٹیکس پر منحصر ہوتے ہیں‘ کمزور ہوتی جاتی ہے۔ سی ایس آئی ایس کی رپورٹ کے مطابق اس وقت مغرب میں ۱۵فی صد آبادی کی عمر ۶۵ سال یا اس سے زائد ہے۔ اگلے دو عشروں میں یہ شرح ۲۰ فی صد ہو جائے گی۔ ۲۰۳۰ء تک معمر افراد کل آبادی کا ایک چوتھائی جب کہ بعض ممالک میں ایک تہائی ہوں گے۔ گویا ۲۵ فی صد سے ۳۵فی صد۔

یقینا شرح پیدایش میں کمی اس ساری صورت حال کی واحد وجہ نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اوسط عمر میں اضافے کی وجہ سے ان افراد کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے جو پنشن وصول کرتے ہیں اور زیادہ عرصے تک وصول کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اگر آبادی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا تو افراد کی طویل العمری ’’مصیبت‘‘ نہ شمار ہوتی۔ کیونکہ معمرافرادکے اضافے کا مسئلہ صرف پنشن کی ادایگی تک محدود نہیں۔ یہ مسئلہ اس سے کہیں زیادہ گھمبیر اور پیچیدہ ہے۔ طبّی اخراجات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ پنشن کی موجودہ پالیسیاں مرتب کرتے وقت اوسط عمر کے تخمینے مختلف تھے۔ اب اوسط عمر میں اضافے سے یہ تمام پالیسیاں ناکافی ثابت ہو رہی ہیں۔ دوسری جانب یہ تمام اضافی اخراجات پہلے سے کم نوجوانوں کو اٹھانے پڑ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ چونکہ انھی نوجوانوں نے اگلی نسل کی افزایش کرنی ہے اس لیے اس اضافی معاشی دبائو کے باعث اگلی نسل مزید کم افراد پر مشتمل ہوگی۔ اور یوں آبادی میں کمی سے ہر فرد پر ٹیکس کا بوجھ ناقابل برداشت ہوتا چلا جائے گا۔

آبادی کی کمی سے صرف فرد ہی متاثر نہیں ہوگا‘ صنعت و تجارت بھی براہِ راست اس کی زد میں ہیں۔ سی ایس آئی ایس کے مطابق’’بڑھاپے کی بڑھتی ہوئی شرح مستقبل کے معاشی چیلنج کی بنیاد بنے گی‘‘۔ جوں جوں آبادی گھٹتی چلی جائے گی اشیا کے خریدار بھی کم ہوتے جائیں گے۔ مثال کے طور پر ۲۰۲۰ء میں یورپی ممالک میں ۲۰ سے ۳۹ سال کی عمر کی آبادی میں ۱۳ فی صد کمی ہوگی۔ یہ افراد کا وہ گروہ ہے جو نیا گھر بساتا ہے اور گھریلو اشیا کا سب سے زیادہ استعمال کرتا ہے۔ جب اس عمر کی آبادی کم ہوگی تو صنعت و تجارت کے بہت بنیادی گوشے مثلاً تعمیرات‘ جایداد اور گھریلو استعمال کی اشیا سے متعلق تجارت بری طرح متاثر ہوگی۔

دفاع کے حوالہ سے سی ایس آئی ایس کی ایک رپورٹ،’’عالمی بڑھاپا: نئے ہزاریے کا چیلنج‘‘ میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ فوج اور بیرون ملک دفاعی آپریشنز کے اخراجات بھی’’شدید مالی دبائو کا شکار ہوں گے۔ یہ مالی دبائو پنشن اور حفظانِ صحت پر اٹھنے والے اخراجات کے باعث ہوگا‘‘ اور نتیجتاً ’’ایک بوڑھی‘ ترقی یافتہ دنیا کے لیے اپنی دفاعی ضروریات پوری کرنا مشکل ثابت ہوگا‘‘۔

تیسری دنیا کا ردّعمل:  اس ساری صورت حال پر تیسری دنیا کا ردّعمل غیر واضح ہے۔ اسی سال ۲۴ جنوری کو اندر کمار گجرال ‘ سابق وزیراعظم بھارت نے سی ایس آئی ایس کے ایک اجلاس میں صدارتی خطبہ میں اس وقت کے نائب صدر امریکہ الگور کے وہ الفاظ دہرائے جو انھوں نے ۱۹۹۴ء میں قاہرہ کانفرنس میں کہے تھے،’’ہم سب آج یہاں جمع نہ ہوتے اگر ہمیں یہ احساس نہ ہوتا کہ آبادی کا مسئلہ اہم مسئلہ ہے‘‘۔ اس کے بعد گجرال نے کہا:’’یہ صرف سات سال کی بات ہے۔ اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ تیسری دنیا کی آبادی کے توازن کو اصل خطرہ مخالف سمت سے ہے‘‘۔ خود بھارت میں بڑھاپا ایک مسئلے کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے‘ گو شرح پیدایش ہنوز ’’متبادل نسل‘‘ کی حد سے اُوپر ہے۔

موجودہ صورت حال:  اس وقت دنیا کی ۶۰ فی صد آبادی ایسے ممالک میں رہایش پذیر ہے جہاں آبادی میں اضافے کی شرح صفر فی صد یا اس سے کم ہے۔ یعنی ہر نسل پچھلی نسل سے یا تو برابر ہے یا تعداد میں کم۔واشنگٹن میں قائم پاپولیشن ریفرنس بیورو کے مطابق‘ مزید ۳۵ فی صد آبادی ایسے علاقوں میں رہایش پذیر ہے جہاں فی گھرانہ اوسط تین بچوں کا ہے۔ تاہم ان تمام اقوام کی شرح آبادی میں بھی پچھلے دوعشروں میں واضح کمی آئی ہے اور آبادی کو کم کرنے کے لیے مانع حمل اشیا کے استعمال کے لیے انھیں مسلسل دبائو کا سامنا ہے۔ گویا یہ اقوام بھی اگلی ایک نسل تک آبادی میں صفر فی صد اضافہ کی حد تک پہنچ جائیںگی۔

مغرب کے اقدامات:  مغرب میں اس سلسلے میں جاری تحقیق اور دیگر مباحث اپنی جگہ‘ اس حوالے سے کیے گئے عملی اقدامات تاحال مشکوک نتائج کے حامل ہیں۔ بچوں میں اضافے کے لیے والدین کو معاشی تحریصات بعض علاقوں میں جزوی طور پر کامیاب رہی ہیں۔ اسی طرح جاپان میں اس حوالے سے ایک نئی اصطلاح ’’طفیلی کنوارا‘‘ وضع کی گئی ہے۔ طفیلی کنواروں سے مراد آبادی کا وہ حصہ ہے جو ۲۰ سے ۳۰ سال کی عمر تک پہنچنے کے باوجود اپنا گھر بسانے کے بجائے والدین کے ساتھ رہتے ہیں۔ معروف جاپانی ماہر عمرانیات ماسیدو مچارا نے یہ تجویز تک پیش کی ہے کہ ماسوائے ان جوانوںکے جن کے والدین حقیقی ضرورت مند ہیں باقی تمام طفیلی کنواروں پر الگ سے ٹیکس عائد کر دیا جائے۔

ایک اور حل اقوام متحدہ کے ماہرین تجویز کرتے ہیں جسے وہ ’’متبادل بذریعہ ہجرت‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ وہ حل یہ ہے کہ کم ترقی یافتہ ممالک سے افراد کو شہریت دے کر ’’کمائوپوت‘‘ کی کمی پوری کی جائے۔ اس حوالے سے اب تک کے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ باہر کے ممالک سے زیادہ تعداد میں افراد کے آنے سے کلچر اور معاشرتی اقدار پر حرف آتا ہے۔ بعض صورتوں میں مقامی افراد کی طرف سے نسلی ردّعمل بھی سامنے آیا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ مقامی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے درکار مہاجروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ سٹوانگلینڈ کے مطابق: ’’جرمنی میں محض آبادی کی کمی کو روکنے کے لیے اگلے پچاس سالوں میں ایک کروڑ ۷۲ لاکھ افراد کی ضرورت ہوگی۔ بوڑھے افراد کی زیادتی سے پیدا ہونے والا عدم توازن سہارنے کے لیے ہمیں کل ۱۸ کروڑ مہاجروں کی ضرورت ہوگی گویا تین لاکھ چھ ہزار افراد سالانہ!!‘‘

لینے کے باٹ: اس مسئلے کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جسے عام طور پر اس حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹوں اور سیمیناروں وغیرہ میں زیربحث لانے سے گریز کیا جاتا ہے‘ وہ ہے تیسری دنیا میں آبادی سے متعلق جاری پالیسی۔ وہی پالیسیاں جو مغرب میں ایسے بھیانک نتائج کا باعث بنی ہیں‘ تیسری دنیا میں روک کیوں نہیں دی جاتیں۔

مثال کے طور پر کینیا میں آبادی کا مسئلہ ان تمام ممالک سے گھمبیر ثابت ہوگا جو آج مغرب میں اس کا شکار ہیں۔ جرمنی اور انگلینڈ میں آبادی کی کمی کا تناسب مسلسل تھا۔ یعنی معمر افراد کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھتی گئی اور آبادی کی شرح میں کمی بھی پوری صدی پر محیط ہے۔ جب کہ کینیا میں ۱۹۸۰ء تک اوسط آٹھ بچے فی گھرانہ تھی۔ وہاں آبادی کے حوالے سے مصروف کار تمام تنظیموں کا ہدف شرح آبادی میں صفر فی صد اضافہ ہے‘ یعنی فی گھرانہ دو بچّے۔ اس صورت میں اس ملک میں معمر افراد اور نئی نسل کا تناسب کیا ہوگا؟ جب کہ دیگر عناصر جیسے ایڈز اور ایڈز سے ملتی جلتی بیماریوں سے اگلی ایک نسل میں ایک تہائی کارکن آبادی کے مر جانے کا بھی تخمینہ ہے۔ اگر آبادی کی یہ ساری کمی مدنظر رکھی جائے تو دنیا کے نقشے سے کینیا کا مٹ جانا یقینی ہے۔

حاصل کلام:  مغرب میں آبادی کا مسئلہ کئی وجوہات سے پیدا ہوا: بڑی عمر میں شادی‘ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح‘ طلاق کے بعد نکاح سے گریز‘ گھر بسانے سے ہی گریز اور کم بچوں کی خواہش۔ لیکن بنیادی وجہ خاندانی منصوبہ بندی ہی ہے۔ترقی پذیر ممالک ‘ جن پر آبادی کی کمی کے لیے مسلسل دبائو ڈالا جا رہا ہے‘ بہتر ہوگا کہ وہ اس ساری صورت حال کو مدنظر رکھیں۔ غریب ترین ممالک کو بھی‘ زیادہ آبادی سے فائدہ ہی پہنچے گا۔ جیسا کہ سی ایس آئی ایس کے تعارفی کتابچہ میں درج ہے کہ دنیا بھر میں شرح آبادی کی تبدیلی کا عمل’’اب محض قیاس نہیں رہا۔ یہ ایک ایسا انقلاب ہے جسے ہر حال میں آنا ہے۔ اور جب یہ انقلاب آئے گا تو کوئی چیز بھی سابقہ حالت میں نہیں رہے گی‘‘۔ (بہ شکریہ امپیکٹ انٹرنیشنل‘ لندن‘ مارچ ۲۰۰۱ء)

 

ڈاکٹر عطاء الرحمن کا مقالہ: مرنے کا قانونی حق (مئی ۲۰۰۱ء) اُردو میں اس نوعیت کی پہلی مفصّل تحریر ہے‘ جس میں قرآن‘ احادیث اور مسلم فقہ کی روشنی میں استدلال کر کے ’’قتلِ خیرخواہی‘‘ کو (حسب ِتوقع) ’’قتلِ عمد‘‘ یا ’’خودکشی‘‘ کے زمرے میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خودکشی کی ممانعت پر اب تک اجماع ہے‘ اور کسی انسان کی زندگی کو اس کی یا اس کے عزیزوں کی رضا سے ختم کر دینا‘ یا اس میں مدد دینا بھی عموماً ’’قتلِ نفس‘‘ ہی کے دائرے میں شامل کیا جاتا ہے‘ لیکن چند تامّلات پر غور کر لینا نامناسب نہ ہوگا۔

  • حضرت ایوب ؑ کا سخت تکلیف اور بیماری کو برداشت کر لینا (اور اپنی سخت اذیت کی زندگی کو ختم نہ کرنا‘ بے شک عزیمت کی راہ ہے‘ اور ایک پیغمبرکا یہی امتیاز ہے‘ لیکن جیسا کہ صاحب ِ مقالہ (بجا طور پر) تفہیم القرآنکے حوالے سے حضرت عمار بن یاسرؓ کے بارے میں اس روایت کا ذکر کرتے ہیں‘ جس کے مطابق ناقا بلِ برداشت اذیت میں انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا بھی کہہ دیا اور کفّار کے جھوٹے معبودوں کا ذکرِ خیر بھی کیا‘ جب کہ اُن کا دل ایمان پر پوری طرح مطمئن تھا‘ تو رسولؐ اللہ نے اس طرزِعمل پر صاد کیا‘ اور فرمایا: اگر پھر یہی صورت پیش آئے تو یہی کرنا۔ یہ امر ایک استثنائی رخصت کے استحسان پر دلالت کرتا ہے۔

توجہّ کے لائق یہ بات ہے کہ شدید اذیت اور تکلیف پر ایک طرزِعمل حضرت ایوب ؑکا ہے‘ ایک رویہّ خود حضرت عمارؓ کے والد حضرت یاسرؓ کا ہے (جو مصائب کو برداشت کرتے ہیں‘ حق پر قائم رہتے ہیں‘ اس کا اعلان کرتے ہیں‘ اور اس پر جان‘ جانِ آفریں کے سپرد کر دیتے ہیں) اور دوسرا ان کے صاحب زادے اور نہایت لائقِ احترام صحابی--- حضرت عمارؓ --- کا‘ اور نبی ؐ ان کے اس فعل کو بھی غلط نہیں--- بلکہ درست قرار دیتے ہیں‘ اور فرماتے ہیں کہ یہ صورت حال ہو‘ تو پھر یہی کرنا۔ اگر اس واقعے اور حکم کو انسانی جان بچانے کے لیے ایک حکم تصور کیا جائے‘ تو پھر حضرت یاسرؓ کا جان بچانے کی کوشش نہ کرنا کیا شمار ہوگا؟ کیا نبیؐ کے حکم کو دفعِ اذیت کا حکم تصور نہیں کیا جا سکتا؟ ایسا حکم جو عام حالات میں ممنوع فعل کی بھی اجازت دے دیتا ہے۔

  •  شدید بھوک پیاس کی حالت میں زندگی بچانے کے لیے حرام کھا لینا ہمارے سبھی فقہا کے نزدیک جائز (بلکہ واجب!) ہے۔ لیکن کیا بھوک کا اضطرار اور اذیت‘ سرطان اور دوسری بیماریوں کی اذیت اور تکلیف سے زیادہ ہیں؟ جب کہ بھوک کی اذیت کو رفع کرنے کے لیے ’’حرام‘‘ کی اجازت دے دی گئی ہے؟
  •  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قتلِ نفس اور خودکشی کو جو فعلِ قبیح قرار دیا ہے‘ وہ عمومی طور پر درست تسلیم کر لینے کے باوجود‘ کیا اس میں کوئی استثنائی صورتیں نہیں ہو سکتیں!
  •  مغربی فکری مغا لطوں میں سے ایک یہ بھی ہے (اور اس کی ابتدا ایمینول کانٹ سے ہوتی ہے) کہ انسانی جان غائی طور پر قا بلِ قدرہے- حُرمتِ نفس انسانی میں اور اس کے قا بلِ قدرہونے میں شک نہیں‘ جن کا مقالے میں مذکورہ آیات سے حوالہ دیا گیا ہے‘ مگر کیا ہر محل اور ہر صورت میں‘ بہرحال ا س کا تحفّظ مطلوب اور راجح ہے؟ اگر یوں ہے‘ تو کسی معرکہء جہاد میں یقینی موت کی طرف پیش قدمی اور بالارادہ جامِ شہادت نوش کرلینا--- ’’مردود خودکشی‘‘ کے زمرے میں آئیں گے؟شاید ایسا نہیں ہے‘ کیوں کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جان دے دینا‘ خودکشی نہیں ہے۔
  •  اس میں شک نہیں کہ حتی الامکان انسانی جان بچانے کی کوشش کرنی چاہیے‘ لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ آیا اس کی کوئی حدُود ہیں یا نہیں‘ اور اس قاعدئہ کلیہ میں کچھ استثنیٰ بھی ہو سکتے ہیں یا نہیں۔
  • کسی انسان کی شدید اذیت‘ اور پھر آخرکار یقینی موت کو آسان کرنے کی کوشش جس میں ماہر معالجین کی آرا اوراس کے اعزا کا ایما بھی شامل ہوں‘ کیا قتلِ عمدشمار ہوگی؟ کیا زندگی برقرار رکھنے والے آلات کا کسی مرحلے پر سلسلہ منقطع کر دینا کہ بے ہوش مریض کئی ماہ یا کئی سال سے اس حال میں ہے‘ یا جب کہ ’’طبّی موت‘‘ واقع ہو چکی ہے--- انسانی جان کے تلف کر دینے کے مترادف ہوگا؟

یہ اور اس طرح کے بہت سے سوال غوروفکر کے متقاضی ہیں‘ جن پر میری کوئی حتمی رائے نہیں۔ مصائب اور اذیتوں پر جزع و فزع اور موت کی آرزو‘ بے شک ہمّت اور حوصلے کی کمی کے مظہر ہیں اور خودکشی کو (غالباً رومیوں کے علاوہ) کسی نے بھی بہ نظرِ استحسان نہیں دیکھا ہے‘ لیکن کیا پیش آمدہ مسئلے پر اور زیادہ گہرائی سے نظر ڈالنے اور بحث کی گنجایش نہیں ہے؟ کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ کوئی تحقیقی ادارہ‘ روایتی اور غیر روایتی علما‘ ماہرین‘ اور اصحابِ فکر کو جمع کرے اور کھلے دل سے بحث و تمحیص کے بعد کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کی جائے؟ ]نہ ہوئے کوئی ابوحنیفہؒ![۔ میرے خیال میں قطعیات کے علاوہ (جن کی نص میں وضاحت ہے‘ اور ایسے احکام بہت کم ہیں)ہر قانون سازی‘ زمان و مکان کی اسیر اور حالات و ظروف سے داغ دار ہے:

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

 

مراکش میں موروثی شاہی نظام قائم ہے۔ دستور کی رُو سے بادشاہ ایک مقدس ہستی ہے۔ اُسے ایسے مطلق العنان اختیارات حاصل ہیں جو مقننہ ‘ عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات سے بالاتر ہیں۔ اس کی طرف سے صادر ہونے والے کسی فیصلے‘ حکم یا رہنمائی پر تنقید کی جا سکتی ہے نہ اعتراض اور نہ اُسے منسوخ اور کالعدم کیا جا سکتا ہے۔ یہ صورت حال تو ہے تحریری قانون کی رُو سے۔ غیر تحریری مروجہ قوانین کے مطابق بادشاہ کے اختیارات لامحدود ہیں۔ شاہ حسن ثانی کی رحلت اور نوجوان بادشاہ محمد ششم کی تخت نشینی کے بعد حالات میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔

نئے شاہ نے تخت نشینی کے بعد اپنے پہلے خطاب (۳۰ جولائی ۱۹۹۹ء) میں سابقہ پالیسی جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ کچھ نعرے تبدیل ہوئے مگر پرانے دَور کی بنیادیں قائم ہیں اور گذشتہ کئی ادوار سے مراکش کی سیاسی زندگی پر مسلط ’’حفاظت و تحفظ‘‘ کی ذہنیت‘ اپنی اصل رُوح کے ساتھ برقرار ہے۔ ویسے تو ایک نمایندہ حکومت موجود ہے مگر یہ نمایندگی کے معروف سیاسی اصطلاحی مفہوم سے بالکل ہٹی ہوئی ہے۔عبدالرحمن یوسفی کی موجودہ حکومت بھی شاہی احکام کے نفاذ کی آلہ کار ہے۔ مراکش کے تحریری اور مروجہ قوانین کی رُو سے ‘  وزارتوں کا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ بادشاہ کے احکام و ہدایات پر عمل درآمد کرائیں‘ بالخصوص حسّاس سیاسی امور کے وزرا تو براہِ راست بادشاہ کے ماتحت ہوتے ہیں جنھیں ’’وزرا ے سیادت‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ وزیر اول (وزیراعظم) کے ماتحت نہیں ہوتے‘ جیسے داخلہ‘ خارجہ‘ عدل‘ اوقاف اور قومی دفاع کے وزرا۔ مرحوم شاہ حسن ثانی کے بقول یہ بادشاہ کے مددگار ہوتے ہیں۔ اب ایک بے چارہ مددگار وزیر‘ شاہی احکام و ہدایات نافذ کرنے کے سوا اور کیا کر سکتا ہے!

مراکش میں حقیقی نمایندہ حکومت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ اس لیے کہ یہ دستوری اصولوں اور جمہوری سیاسی قواعد کی رُو سے تشکیل نہیں پاتی‘ نہ ہی یہ شفاف حقیقی انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوتی ہے۔ یوسفی کی موجودہ حکومت‘ مرحوم شاہ کے ارادے‘ تصور اور شرائط کے مطابق قائم ہوئی۔ یہ گذشتہ حکومتوں کے پیدا کردہ انحطاط ہی کی جانب رواں دواں ہے۔ مراکش کی معیشت سخت بحران کا شکار ہے اور موجودہ سیاسی حالات میں اس کی اصلاح ناممکن ہے۔ تمام امور کا باریک بینی سے جائزہ لے کر جرأت مندانہ فیصلے اور اقدامات کرنے کا اختیار وزارتی حکومت کے پاس نہیں۔

مراکش میں کسی بھی اسلامی سیاسی جماعت کو عملاً کام کرنے کی اجازت نہیں ہے‘ البتہ سیکولر پارٹیوں کو کھلی آزادی ہے۔ ڈاکٹر عبدالکریم الخطیب نے ۱۹۶۷ء میں الحرکۃ الشعبیۃ الدستوریۃ الدیمقراطیۃ کے نام سے پارٹی بنائی تھی۔ حکام نے جب ۱۹۹۲ء میں حرکۃ الاصلاح والتجدید کو کام کرنے کی اجازت نہ دی تو اُس نے ۱۹۹۶ء میں رابطۃ المستقبل الاسلامی کے ساتھ مل کر حرکۃ التوحید والاصلاح کے نام سے پارٹی بنا لی۔ جب اس نئی پارٹی کے مفادات‘ ڈاکٹر الخطیب کی پارٹی کے ساتھ ہم آہنگ ہوئے تو انضمام کے بعد‘ ایک نئی پارٹی حزب العدالۃ والتنمیۃ وجود میں آئی۔ حرکۃ التوحید والاصلاح کے افراد اب نئی پارٹی میں شامل ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچ چکے ہیں۔ حکومت کے ذمہ دار افراد‘ سرکاری ذرائع ابلاغ اور عام فکری حلقے حزب العدالۃ والتنمیۃ کو مروجہ سیاسی مفہوم کی رُو سے اسلامی پارٹی نہیں سمجھتے‘ یعنی اس کی اسلامی خصوصیت اور اسلامی تشخص کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اسے ایک عام سیاسی پارٹی سمجھا جاتا ہے جو گذشتہ ۴۰ برسوں سے کام کر رہی ہے اور موجودہ نظام پر راضی ہے۔

حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں:  مراکش کے نئے بادشاہ نے اگرچہ سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے مگر ملک کی جیلیں اب بھی سیاسی قیدیوں سے خالی نہیں۔ ان میں جماعت عدل و الاحسان کے ۱۲ طلبہ بھی ہیں جو قنیطرہ کی سنٹرل جیل میں ہیں‘ جو کسی فوجداری مقدمے میں نہیں بلکہ ایک خالص سیاسی مقدمے میں ۲۰‘ ۲۰ سال کی قید بھگت رہے ہیں۔ مراکش میں انسانی حقوق اور آزادیوں کے احترام کا زبانی کلامی تو بہت شہرہ ہے مگر عملاً حقوق اور آزادیاں سلب ہیں۔ بنیادی مسئلہ‘ قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنانے اور حقوق اورآزادیوں کا تحفظ کرانے والے اداروں کی عدم موجودگی ہے۔ یوسفی کی حکومت نے تاحال ایسے کوئی اقدامات نہیں کیے جن سے یہ اطمینان ہو کہ مراکش‘ قانون کی حکمرانی اور ذمہ دار اداروں کا ملک ہے۔ ابھی تک افکار و آرا اور سیاسی پسند و ناپسند کی وجہ سے افراد کو ستایا جاتا ہے اور حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ گذشتہ برس کئی لوگوں کو حج پر جانے سے روک دیا گیا۔ پچھلے موسم گرما میں ’’اسلامی کیمپ‘‘ لگانے سے روکا گیا۔ ابھی تک ’’ہدایات و احکام‘‘ کی پالیسی سیاسی زندگی پر حاوی ہے۔ جماعت العدل والاحسان کے دو اخبارات  العدل والاحسان اور رسالۃ الفتوۃ کی طباعت و اشاعت پر پابندی لگائی گئی جو اب تک قائم ہے۔

شیخ یاسین کی کتاب (العدل: الاسلامیون والحکم) بھی ممنوع قرار دے دی گئی ہے۔

یونی ورسٹیوں میں طلبہ کو خوف زدہ کیا جاتا ہے‘ ان پر تشدد کیا جاتا ہے‘ ان پر جھوٹے الزامات لگا کر ظالمانہ و  سنگ دلانہ سزائیں دی جاتی ہیں۔ گذشتہ نومبر میں المحمدیہ شہر میں ۱۴ طلبہ کو دو دو سال کی قید کی سزائیں دی گئیں۔ اشخاص‘ اداروں اور گھروں کا وقار پامال کیا جا رہا ہے‘ حتیٰ کہ حکومت کا آزادیوں کے بارے میں تازہ ترین منصوبہ بھی‘ حقوق انسانی کے حامیوں کے نزدیک‘ حکام کو تشدد اور پابندیوں کی کھلی اجازت دینے اور انھیں عدالتی گرفت سے تحفظ فراہم کرنے کے سوا کچھ نہیں۔  جماعت عدل و الاحسان کے مرشد عبدالسلام یاسین کو ایک ظالمانہ حکم کے تحت نظربند کر دیا گیا تھا۔ وکلا صفائی نے‘ اس اقدام کو ظالمانہ ثابت کر دیا مگر یہ فائل عدلیہ کی مجلس اعلیٰ میں دبی رہی۔

موجودہ شاہ کے دَور میں یہ محاصرہ جاری ہے‘ صرف اس کی شکل بدل گئی ہے۔ چنانچہ گذشتہ مئی میں مرشد کے گھر کی نگران پولیس نے اپنی پوزیشن بدل لی‘ اب وہ گھر سے ذرا ہٹ کر‘ آنے والے تمام راستوں اور اس محلے میں واقع جماعت کے مرکزی دفتر کے ارد گرد کی گلیوں کی نگرانی کرتی ہے۔ حقوقِ انسانی کے احترام کا بھرم اس وقت ٹوٹا جب ۹‘ ۱۰ دسمبر ۲۰۰۰ء کو انسانی حقوق کے عالمی اعلان کی مناسبت سے تقریبات منعقد ہو رہی تھیں اور مظاہرے ہو رہے تھے۔ ان دو دنوں میں حقوق انسانی کی مراکشی تنظیم کے بہت سے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ جماعت عدل و الاحسان کے سیکڑوں کارکنوں کو زد و کوب کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بہت سے گرفتار کیے گئے اور ان کے خلاف مقدمات بنے۔ ان میں شیخ یٰسین کے کئی قریبی عزیزاور رشتے دار بھی تھے۔

مراکش کی اسلامی تحریک:  مراکش کی اسلامی تحریک کا نام جماعت العدل والاحسان ہے ‘ جس کے قائد عبدالسلام یاسین اور ترجمان فتح اللہ ارسلان ہیں۔ اس جماعت کی کئی ماتحت ذیلی تنظیمیں بھی ہیں جیسے نوجوانوں کی تنظیم‘ عورتوں کی تنظیم وغیرہ۔ یہ ایک دعوتی جماعت ہے۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر اس کے اہم اصول ہیں۔ تربیت‘ تنظیم اور پیش قدمی اس کا شعار ہے۔ سیاسی تبدیلی کے لیے یہ عدل و احسان کے اصولوں پر پختہ یقین رکھتی ہے۔ جماعت کے قائد محترم نے عدل و احسان کے موضوع پر دو کتابیں لکھی ہیں جن میں امت اسلامیہ کو دعوت و ریاست کے معاملات میں درپیش مسائل و مشکلات کا عدل و احسان کی روشنی میں گہرا تجزیہ کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی معاشرت و معیشت کی اصلاح اور دین و دنیا میں کامیابی کے لیے جماعت اپنے افکار‘ پروگرامات اور اجتہادات پیش کرتی ہے۔ عدالت عالیہ نے جماعت کو قانونی قرار دیا ہے مگر مراکش میں قانون اور اس پر عمل درآمد دو الگ الگ چیزیں ہیں‘ یعنی جماعت کا مسئلہ ’’سیاسی‘‘ ہے‘ قانونی نہیں۔

مراکش کے سرکاری ذرائع ابلاغ‘ جماعت پر دہشت گردی اور حفاظتی دستوں کے ساتھ تصادم کا الزام لگاتے ہیں مگر جماعت اس کی سختی سے تردید کرتی ہے۔ جماعت کے ترجمان فتح اللہ ارسلان کے بقول: ’’ہاتھوں میں قرآن شریف اٹھا کر چلنے والے تشدد کرتے ہیں یا مسلح حفاظتی دستے جن کی زد سے عورتیں‘ بچے اور عمر رسیدہ افراد بھی محفوظ نہیں؟ ہم ہر طرح کے تشدد اور دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ ہم خفیہ کارروائیوں اور غیروں کا آلہ کار بننے کے مخالف ہیں۔ ہم نے آٹھ بڑے شہروں میں پروگرام کرنے کا ارادہ کیا‘ پولیس نے مداخلت کی‘ بہت تشدد کیا‘ مار مار کر لوگوں کو لہولہان کر دیا مگر ہم نے اس کے باوجود صبر و برداشت کا مظاہرہ کیا۔ پولیس کے کسی ایک آدمی کا بال بھی بیکا نہیں ہوا‘ کسی سپاہی کی وردی کا بٹن تک نہیں ٹوٹا۔ جماعت عدم تشدد پر یقین رکھتی ہے‘ یہ ہماری باقاعدہ حکمت عملی کا حصہ ہے‘‘۔

انتخابی حکمت عملی :  جماعت عدل و الاحسانتین وجوہ سے انتخابات میں شرکت کو مفید نہیں سمجھتی۔

۱- انتخابات میں شرکت کا مطلب‘ موجودہ نظام کو درست اور جائز قرار دینا ہے‘ جب کہ جماعت کے نزدیک یہ حقوق انسانی اور آزادیوں کے احترام کا نقیض ہے۔ انتخابات کا سب سے زیادہ فائدہ ملک کا سیکورٹی سسٹم اٹھاتا ہے‘ کیونکہ یہ ’’جمہوری تماشا‘‘ اس کے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط کے مطابق ہوتا ہے۔ اس کے نتائج بھی وہی سمیٹتا ہے‘ لہٰذا انتخابات میں شرکت کا مطلب سیکورٹی سسٹم کو مضبوط کرنا اور تحفظ دینا ہے۔ جماعت کسی سیاسی کھیل کا حصہ نہیں بننا چاہتی ‘ وہ اصولوں پر سودے بازی کے لیے تیار نہیں۔

۲- انتخابات اگر دھوکا اور دھاندلی سے پاک ہوں تو بھی کامیاب ہونے والوں کے پاس دستوری‘ تحریری اور مروجہ قوانین کی رُو سے اپنے منصوبوں پر عمل درآمد کے اختیارات نہیں ہیں۔ پھر الیکشن میں حصہ لینے کا کیا فائدہ؟ اور رائے دہندگان کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنے کی کیا افادیت ہے؟

۳- قائم سیاسی نظام کے زیر سایہ‘ ایسی قوم میں‘ جس کی نصف سے زیادہ آبادی بالکل ناخواندہ ہو‘ سیاسی شعور سے بھی محروم ہو‘ جہاں سیکورٹی فورسز نے دہشت کی فضا پیدا کر رکھی ہو‘ انتخابات کے انعقاد کا مطلب جھوٹ‘ فریب اور مکر کی ترویج‘ قبائلی عصبیت کو مضبوط کرنا اور گروہ بندی اور طبقاتی تقسیم کو قوت بخشنا ہے جس سے انانیت‘ خود غرضی اور خواہشات نفسانی کو تقویت ملتی ہے‘ مفاد عامہ اور امت کی صلاحیتیں ضائع ہوتی ہیں۔

جماعت عدل والاحسان‘ اسلام کے حامیوں‘ اور سیکولر ذہن کے لوگوں کے ساتھ بھی‘ ہر قسم کے مواقع پر مذاکرات اور گفت و شنید پر یقین رکھتی ہے۔ استاد عبدالسلام نے گفت و شنید کے موضوع پر چار کتابیں لکھی ہیں‘ ایک فرانسیسی میں اور تین عربی زبان میں۔ انھوں نے برادرانہ و مخلصانہ جذبات کے ساتھ گفت و شنید اور مذاکرات پر زور دیا ہے۔

اسلامی تحریک مراکش کا یہ اصولی موقف ہے اور اسی پروگرام کو لے کر وہ چل رہی ہے کہ مراکش کے مختلف طبقات کو صرف اسلام ہی متحد رکھ سکتا ہے۔ ’’وطنیت‘‘ ، ’’زبان‘‘ اور ’’مفاد عامہ‘‘ میں یک جا رکھنے کی صلاحیت نہیں۔ مراکش کی مجموعی صورت حال اور مصائب و مشکلات کے پیش نظر تحریک اسلامی کا عزم اور حوصلے کے ساتھ‘ حکومتی تشدد کے باوجود عدم تشدد کی حکمت عملی پر ثابت قدمی سے آگے بڑھنا اور جدوجہد جاری رکھنا یقینا قابل ستایش ہے۔ بڑھتا ہوا عالمی دبائو‘ انسانی حقوق کے لیے جدوجہد اور تحریک اسلامی مراکش کی استقامت یقینا پیش رفت کا باعث بنے گی!

مقدونیا: جنگ کے دہانے پر

عبدالباقی خلیفہ

کوسووا اور مقدونیا کی مشترکہ سرحد پر موجود البانوی نژاد مسلمانوں کو کچلنے کے لیے مغربی اور یورپی ممالک کی تائید مقدونیا کو حاصل ہے۔ وجہ کیا ہے؟ کیونکہ یہ مسلمانوں کے خلاف جنگ ہے۔ اس لیے تمام یورپی ممالک کا فرض منصبی ہے کہ وہ مقدونیا کی پیٹھ ٹھونکیں۔ مقدونیا بھی مغرب کی نفسیات سے واقف ہے۔ اس لیے اس نے اعلان کیا کہ وہ ’’یورپ کے طالبان‘‘ کے خلاف برسرِپیکار ہے۔ اس سے پہلے سرب بھی یہ واویلا مچاتے رہے کہ وہ اسلامی بنیاد پرستی کے خلاف ’’جہاد‘‘ میں مصروف ہیں۔

یہ نعرہ یورپ کے بپھرے ہوئے بیل کو سرخ جھنڈی دکھانے کے مترادف ہے۔ اس لیے یورپی بیل اپنے سینگوں سے مسلمانوں کو کچلنے کے لیے متحد نظر آتے ہیں۔

مقدونیا کی حکومت کی دھمکیوںکے باوجود یہ مسلمان پرعزم اور بلند حوصلہ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ایک ترجمان نے کہا کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ جنگ جاری رکھیں گے یہا ں تک کہ وہ سب اس میں کام آجائیں۔ جنگ بندی کے حوالے سے انھوں نے کہا : ہم نے شکست نہیں کھائی بلکہ مذاکرات کا ایک موقع حکومت کو دینا چاہتے ہیں۔

مغربی ذرائع ابلاغ اور مقدونیا کی حکومت واویلا مچا رہی ہے کہ شدت پسند کو سووا سے در آئے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ مقدونیا کے باشندے ہیں جو کئی نسلوں سے مقدونیا میں آباد ہیں لیکن انھوں نے اپنے حقوق کی بات کی تو مقدونیا کے حکمرانوں نے انھیں کوسووا کے درانداز قرار دے دیا۔

ان مجاہدین کے خلاف کارروائی میں برطانیہ کے ماہرین‘ یوکرین کے پائلٹوں اور یورپی یونین کے ممالک نے حسب توفیق حصہ لیا۔ اس کے باوجود مقدونیا کی حکومت مزید امداد کے لیے بلغاریہ‘ یونان اور یوکرین کے آستانوں پر ہاتھ جوڑتی رہی۔دوسری طرف البانوی مسلمانوںکی بڑھتی ہوئی قوت سے اس اندیشے کو تقویت ملنے لگی کہ یہ خطہ ایک ہولناک جنگ کی لپیٹ میں آنے والا ہے‘ کئی ایک دیہات پر مسلمانوں کے قبضے کے بعد مقدونیا کی حکومت کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔

البانوی مسلمانوں کی پے درپے کامیابیوں کو روکنے میں مقدونیا کی فوج مسلسل ناکام رہی اور اُسے بھاری مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ سرحدی علاقوں کی ناکہ بندی‘ ممکنہ راستوں کا پہرہ اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کے باوجود وہ ’’دراندازوں‘‘ کو آنے سے نہ روک سکی۔ اس علاقے میں کرفیو لگایا گیا‘ ایمرجنسی نافذ کی گئی لیکن حالات بدستور جوں کے توں رہے۔

البانوی نژاد مسلمانوں کے مطالبات جنھوں نے انھیں بندوق اٹھانے پر مجبور کیا‘ درج ذیل ہیں:

۱- البانوی قومیت کو تسلیم کیا جائے اور انھیں اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جائے۔

۲- ان کی ثقافت اور دینی تشخص کو تسلیم کیا جائے۔

۳- ان کے سیاسی حقوق تسلیم کیے جائیں اور ان کے تناسب کے مطابق انھیں حکومت میں شامل کیا جائے۔

۴- مقدونیا میں وفاقی نظام قائم کیا جائے ‘جس میں سلاوی اپنے معاملات کی دیکھ بھال کریں اور البانوی اپنے معاملات کی دیکھ بھال کریں۔

البانوی مسلمانوں نے یہ مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں مقدونیا کو مستقبل کے حالات کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ البانوی مسلمانوں کی عسکری قوت حیرت انگیز ہے۔ گذشتہ دنوں انھوں نے دارالحکومت میں کارروائی کی اور ایک فوجی کو ہلاک اور دوسرے کو زخمی کر دیا۔ فی الحال اس خطے میں خاموشی نظر آتی ہے لیکن یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔

(ہفت روزہ المجتمع ‘ شمارہ ۱۴۴۴ ۔ اخذ و ترجمہ:  محمد احمد زبیری)

دہرا معیار

سوال :  عنقریب میری شادی ہونے والی ہے۔ گذشتہ دنوں پیش آنے والے ایک سانحے کی بنیاد پر بہت سے سوال میرے ذہن میں اُلجھن پیدا کر رہے ہیں۔ میری رہنمائی فرما دیں۔

میری خالہ زاد بہن کی شادی اپنے کزن سے ہوئی تھی جو کہ ایک دین دار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور خود کو بھی دین داروں میں شمار کرتے ہیں۔ انھوں نے میری خالہ زاد بہن کو محض اس وجہ سے طلاق دے دی کہ ان کی غیر موجودگی میں اپنے کزن کو (جو کہ شوہر کے بھی کزن ہیں) گھر میں آنے دیا۔ کچھ چائے پانی سے خاطر تواضع بھی کی‘ جب کہ گھر میں ملازمہ بھی موجود تھی‘ گھر میں تنہا نہ تھیں۔ میری خالہ زاد بہن کے بارے میں خاندان کا ہر شخص گواہی دیتا ہے کہ وہ عفت مآب خاتون ہیں۔ دوسری طرف شوہر کے اپنے معاملات و خیالات کا یہ عالم ہے کہ غیر عورتوں کے ساتھ میل جول‘ ہنسی مذاق‘ پارک وغیرہ میں گھومنا پھرنا اپنے کاروبار کا تقاضا خیال کرتے ہیں اور مصر ہیں کہ اس میں کوئی قباحت نہیں۔ دوسری طرف یہ فرماتے ہیں کہ بیویوں کو تو اپنے گھروں میں

عزت و عفت کا محافظ ہونا چاہیے اور شوہر کی غیر موجودگی میں غیر محرم کو گھر میں نہیں آنے دینا چاہیے۔ یہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی ہے۔

میں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ:

۱- اللہ تعالیٰ نے عورت کے فرائض میں شامل کیا ہے کہ وہ مرد کی غیر موجودگی میں اپنی عزت‘ شوہر کے گھر‘ مال و اولاد کی حفاظت کرے‘ تو کیا مرد کی ذمّہ داری نہیں ہے کہ وہ گھر کی چار دیواری سے باہر نکل کر اپنی نگاہ کی حفاظت کرے اور غیر عورتوں سے تعلقات نہ رکھے؟ کیا شوہر کی عزت بیوی کی عزت نہیں؟

۲- مرد کو تو اختیار ہے کہ بیوی کے کردار کو مشکوک پا کر اُس کو اپنے ساتھ نہ رکھے لیکن ایک بیوی شوہر کی بے حیائی کس حد تک برداشت کرے اور وہ کیا کرے؟ لوگ کہتے ہیں کہ مرد کے شرابی‘ زانی یا آبروباختہ ہونے کی بنا پر بیوی علیحدگی کا مطالبہ نہیں کرسکتی۔ کیا یہ صحیح ہے؟ اگر یہ صحیح ہے تو بیوی کس بنا پر علیحدگی کا مطالبہ کرے؟ کیا صرف نان نفقہ کی عدم ادایگی کی بنا پر ہی اُس کا حق ہے اور دیگر تمام روحانی‘ جذباتی‘ سماجی صدموں کی کوئی حیثیت نہیں؟ کیا واقعی عورت کی ضرورت صرف نان نفقہ ہی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر بیوی میں اور کسی بھی پالتو حیوان میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟

۳- کیا شوہر کی غیر اخلاقی سرگرمیوں کی وجہ سے بیوی کے سماجی مرتبے کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا؟ اُس کے خاندان‘ احباب‘ سہیلیوں خصوصاً سسرال والوں کی نظروں میں ایسی عورت کی کیا وقعت رہ جاتی ہے جس کا شوہر اپنی عزت و آبرو کے بارے میں لاپروا ہو‘ اور عورتوں کے ساتھ تعلقات‘ دوستی‘ ٹیلی فون پر گفتگو ‘ سینما یا پارک میں گھومنا پھرنا معیوب نہ سمجھے‘ اور اس کو اپنے کاروبار کا تقاضا سمجھے؟

۴- کیا ایک بیوی کو اپنے شوہر کے کردار کے بارے میں غیرت مند نہیں ہونا چاہیے؟ کیا مرد اپنے ’’اعمال‘‘ کو درگزر‘ چشم پوشی اور نظرانداز کر دیے جانے کا حق دار سمجھتا ہو‘ اور بیوی کے معاملے میں بہت ’’غیرت مند‘‘ ہو جائے کہ قریبی رشتے دار سے بول چال بھی نہ کرے؟ کیا مرد اور عورت کی غیرت میں یہ فرق اسلام کی رُو سے ہے؟ کیا بیوی کو ’’بے غیرت‘‘ بن کر جینا چاہیے؟

۵- یہ بات عام مشاہدے میںہے کہ مرد اپنی بیویوں کی عزت نفس اور جذبات و احساسات کا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ ایک وفادار بیوی اپنے شوہر کی طرف سے صرف وفاداری کی متمنی ہوتی ہے۔وہ ہر معاشی ومعاشرتی دبائو‘ ہر طرح کے سخت حالات میں کشادہ دلی اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ ہر قسم کے حالات میں شوہر کی خیرخواہ اور ساتھی ہوتی ہے۔ صرف ایک آرزو اس کی زندگی کا محور ہوتی ہے کہ شوہراُس کے مقابلے میں کسی غیر عورت سے دل نہ بہلائے‘ نہ اس کی دلجوئی کرے‘ نہ اس طرح تذکرہ کرے کہ بیوی کی عزت نفس مجروح ہو۔ ہر بیوی کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا شوہر اسے ویسی ہی محبت‘ خیرخواہی‘ وفاداری اور عزت دے جیسی کہ اس کے دل میں شوہر کے لیے ہوتی ہے۔ میں نے اپنے بزرگوں کو بھی اپنی بیویوں کو تنگ کرتے دیکھا ہے۔ ان کا دل دُکھا کر‘ ان کی روح کو اذیت پہنچا کر جیسے مردوں کو روحانی سکون ملتا ہے۔ غیر عورتوں کی تعریف کر کے‘  اپنی کزن‘ کلاس فیلو‘ ہمسائیوں کی مہربانیوں اور حسن کے تذکرے کر کے ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں۔ گاہک عورتوں کی نظر التفات کے قصّے بیان کر کے‘ دوسری شادی کی ناتمام خواہش پر آہیں بھر کے‘ بیوی کی محبت‘ خلوص اور وفاداری کو خاک میں ملاتے ہیں۔ کیا بیوی محض ایک کھلونا ہے جس کے جذبات‘ احساسات‘ خواہشات اور عزتِ نفس سے کھیلنا مرد کا حق ہے؟ کیا بیوی کی کوئی عزتِ نفس نہیں ہوتی؟

جواب :  آپ کے خط سے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ عنقریب ان شاء اللہ آپ کی شادی ہونے والی ہے اور اس طرح سنّتِ رسولؐ پر عمل کر کے آپ اپنے ایمان کی تکمیل کریں گی۔ ممکن ہے جب تک آپ کے سوال کے حوالے سے یہ نکات طبع ہوں یہ مبارک رشتہ اور دینی فریضہ تکمیل پا چکا ہو۔ میری دعا ہے کہ

اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کے شوہر کو دین پر حقیقی طور پر عمل کی توفیق دے اور آپ ایک دوسرے کے لیے

 سکون و راحت اور دینی فلاح کا ذریعہ بن سکیں۔ آمین!

آپ کے سوالات کی ترتیب کو برقرار رکھتے ہوئے چند نکات تحریر کیے جا رہے ہیں:

۱- شریعت اسلامی نے ایک منکوحہ کے فرائض میں یہ بات شامل کی ہے کہ شوہر کی غیر موجودگی میں کسی ایسے فرد کو گھر میں نہ آنے دے جسے وہ ناپسند کرتا ہو اور نہ کسی کے ساتھ اس طرح کی تنہائی اختیار کرے جو خلوت کی تعریف میں آتی ہے۔ اس دوسری شرط میں وہ رشتے بھی شامل ہیں جنھیں ہمارے معاشرے میں جاہلی رسوم و رواج کی بنا پر جائز سمجھ لیا گیا ہے‘ مثلاً ایک شخص کا اپنی سالی یا ایک بیوی کا اپنے دیور کے ساتھ مکمل تنہائی میں ہونا۔حدیث شریف میں وضاحت ملتی ہے کہ ایسی حالت میں ان کے ساتھ تیسرا فرد شیطان ہوتا ہے‘ یا جیسے ہمارے ہاں سالی کے ساتھ بہنوئی کا بے تکلفی کا اظہار کرتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے کہ وہ اس کی چھوٹی بہن ہے‘ اسے گلے لگانا‘ ہاتھ میں ہاتھ لینا‘ ساتھ جڑ کر بیٹھنا‘ یہ تمام شکلیں خلوص نیت کے باوجود شریعت کی نگاہ میں ممنوع ہیں۔

آپ نے اپنی خالہ زاد بہن کے حوالے سے ان کے شوہر کے طرزِعمل کے بارے میں جو بات لکھی ہے اس کا سبب وہی جاہلی رواج ہے جس میں ایک شوہر اپنی سالی کے ساتھ بے تکلفی کے اظہار کے لیے ہنسی مذاق کرتے ہوئے اگر اس کے دھپ لگا دے تو وہ اسے ’’جائز‘‘ سمجھتا ہے کیونکہ اس کے خیال میں اس کی نیت اچھی تھی۔ لیکن اگر اس کا اپنا کزن جو اس کی بیوی کا بھی کزن ہو‘ اگر اس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر آجائے اور اس کی بیوی اسے چائے پلا دے تو اس کے غصے کا پارہ آسمان تک چڑھ جاتا ہے‘ اور وہ طلاق جیسی چیز پر آمادہ ہو جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسا جائز کام ہے جو ربّ کریم کو طیش‘ غضب اور غصّے میں لے آتا ہے۔ سبب واضح ہے: ربّ کریم چاہتا ہے کہ اس کے بندے رشتوں کا احترام کریں‘ رحم (قرابت و رشتہ) کی عزت کریں‘ اپنے لباس کو جو انھیں زینت و زیبایش دیتا ہے اپنے ہاتھ سے تار تار نہ کریں۔

اگر آپ کی ہمشیرہ صاحبہ نے یہ جاننے کے باوجود کہ ان کے شوہر ان کے مشترکہ کزن کو چائے پلانے سے ناخوش ہوں گے‘ ایسا کیا‘ تو میرے خیال میں انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس کے باوجودصرف اس بنا پر طلاق دینا زیادتی ہے۔ ایسے حالات میں شوہر کا فرض ہے کہ وہ نصیحت و اصلاح کا رویہّ اختیار کرے نہ کہ  یک لخت طلاق دے ڈالے!

۲- یہاں یہ بات بھی واضح کرنی ضروری ہے کہ ایک شوہر کے بیوی کو طلاق دینے‘ یا ایک بیوی کے خلع طلب کرنے کا تعلق ہمیشہ بداخلاقی کے ساتھ نہیں ہے۔ ایک شوہر اپنے کردار و تقویٰ کے لحاظ سے انتہائی اعلیٰ مقام پر ہو لیکن اس کی شکل دیکھتے ہی ایک بیوی کو کراہت آئے تو تقویٰ کے باوجود اسے خلع کا حق ہے۔ ایسے ہی ایک بیوی انتہائی حسین و جمیل اور مال دار اور اعلیٰ نسب کی ہونے کے باوجود اگرحقوق زوجیت ادا کرنے پر آمادہ نہ ہو تو قانونی حد تک شوہر اسے طلاق دے سکتا ہے۔ گویا طلاق اور خلع کسی ایک مخصوص شرط کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں۔ دونوں شکلوں میں احساس ذمّہ داری اور اللہ کے سامنے جواب دہی کے جذبے کے ساتھ‘ یہ جانتے ہوئے کہ اس فعل سے اللہ تعالیٰ انتہائی غضب ناک ہوتے ہیں‘ اس پر غور کیا جانا چاہیے۔

۳-  اگر ان صاحب نے محض اپنے غصّے کے اظہار کے لیے ایک طلاق دی ہے تو انھیں رجوع کرنے کا حق ہے اور دونوں کا فرض ہے کہ آیندہ کبھی ایسا موقع پیدا نہ ہونے دیں کہ دوسری طلاق کی نوبت آئے۔ رجوع کے بعد بھی پہلی طلاق تین میں سے ایک شمار ہوتی ہے۔ اس لیے غیر معمولی طور پر احتیاط اور ضبطِ نفس کے ساتھ حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے اور بے جا غصّہ و بدگمانی سے بچا جائے۔ (اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ‘بلاشبہ بعض گمان گناہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ الحجرات ۴۹:۱۲)

۴- قرآن کریم نے ایک صالح بیوی اور صالح شوہر کو اپنا معیارِ مطلوب قرار دیا ہے اور بار بار صالحیت‘ نیکی‘ بھلائی‘ معروف‘ بر اور تقویٰ کو اہل ایمان کی بنیادی صفت کہا ہے۔ اس لیے شوہر اور بیوی کے لیے عفت و عصمت اور تقویٰ کے معیار الگ الگ نہیں ہو سکتے۔ قرآن کریم جب نگاہیں نیچی کرنے کا حکم دیتا ہے تو اسے صرف عورتوں کے لیے مخصوص نہیں کرتا کہ وہ تو نگاہیں نیچی رکھیں اور مرد جہاں تک ممکن ہو نگاہوں سے تعاقب اور

حظ اندوزی کرتا رہے۔ (اور مومن مرد اور مومن عورتیں اپنی نگاہیں نیچی رکھتے ہیں۔ النور ۲۴:۳۰-۳۱)

اسی طرح تعزیرات میں دونوں کے لیے یکساں معیار رکھا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا:  وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْآ اَیْدِیَھُمَا (المائدہ ۵:۳۸)’’اور چور ‘ خواہ عورت ہو یا مرد‘ دونوں کے ہاتھ کاٹ دو‘‘۔ اس لیے چاہے معاملہ کاروبار کا ہو یا تفریح اور سماجی تعلّقات کا‘ شوہر اور بیوی کو ایک ہی اخلاقی ضابطے کی پیروی کرنی ہوگی۔

۵- اگر شوہر یا بیوی اخلاقی ضابطے کی خلاف ورزی کرے تو اصلاح کے لیے تعلیم‘ اخلاقی دبائو ‘ خاندان کے افراد کے دبائو اور احباب کی نصیحت کا استعمال ہونا چاہیے۔ اگر ان تمام کوششوں کے باوجود ایک فرد اسلام کے خلاف عمل کرتا رہے تب آخری اور ناپسندیدہ شکل طلاق یا خلع ہے۔

۶- کسی شوہر کا تنہائی میں کسی غیر عورت کے ساتھ پھرنا‘ سینما جانا‘ پارک میں تفریح کرنا‘ کسی بھی لحاظ سے کاروباری ضرورت نہیں کہا جا سکتا۔ اگر بعض صورتوں میں کسی کاروباری معاملے میں ایک مرد یا عورت کو ایک غیر مرد سے کوئی بات کرنی ہی ہو تو وہ شکل اختیار کی جائے جس میں برائی کا امکان کم سے کم ہو یعنی ’’خلوت‘‘ (کسی غیر محرم کے ساتھ مکمل تنہائی میں ہونا)کی شکل نہ ہو۔

مثال کے طور پر ایک بنک مینیجر کو اپنے گاہک سے بات کرنی ہے۔ یہ بات تہہ خانے میں ایک لوہے کے دروازے کو مقفل کر کے بھی کی جا سکتی ہے اور ایسے کمرے میں بھی جس میں ہر طرف شفاف شیشے لگے ہوں‘ دروازہ کھلا ہو‘ اور دونوں کے درمیان معقول فاصلہ ہو۔ ظاہر ہے اولین شکل اسلامی شریعت ہی میں نہیں کسی بھی اخلاقی نظام میں درست قرار نہیں پا سکتی۔

اگر ایک جامعہ میں ایک معلّمہ کو اپنی کلاس میں اپنے تخصص کے حوالے سے لیکچر دینا ہے جس میں غیرمحرم لڑکے بھی ہیں اور یہ کام اس کے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا تو اسلامی حجاب میں رہتے ہوئے شریعت اس کو اس سے منع نہیں کرتی۔ لیکن اگر اسے کسی طالب علم کے مقالے پر اس سے بات کرنی ہو تو چونکہ وہ معلّمہ ہے اور طالب علم بمنزلہ اس کی اولاد کے ہے‘ وہ کمرہ بند کر کے‘ کھڑکی پر پردہ ڈال کر ایک گھنٹے تک اس سے علمی مذاکرہ نہیں کر سکتی چاہے وہ اور اس کا شاگرد تقویٰ کے اعلیٰ ترین مقام پر ہی فائز کیوں نہ ہوں۔ اسے اپنا کمرہ بند کیے بغیر‘ دروازہ کھلا چھوڑ کر‘ کھڑکی سے پردہ ہٹا کر ہی بات کرنی ہوگی۔

۷- طلاق اور خلع کا قانونی پہلو‘ اتنا واضح اور آسان ہے کہ اس پر کسی مفتی اور مجتہد سے رائے لیے بغیر ایک سیدھا سادا مسلمان بھی عمل کر سکتا ہے۔ لیکن طلاق یا خلع سے قبل ضروری ہوگا کہ ایک فرد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ اپنے قلب و دماغ کو خوب ٹٹول کر دیکھے کہ کل جب قیامت میں اللہ تعالیٰ اس سے جواب طلبی کریں گے تو کیا اس کے پاس کوئی معقول جواب ہوگا؟ اور کیا اب حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ ساتھ چلنا‘ رہنا‘ نبھانا بالکل ممکن نہیں رہا۔

۸- جس طرح بیوی کے کردار کی معمولی سی خامی شوہر کے لیے عزت‘ وقار‘ ناک اور مشکلات کا مسئلہ بن جاتی ہے‘ بالکل اسی طرح شوہر کا کردار بیوی کی ساکھ‘ نفسیاتی کیفیات اور سکون کو متاثر کرتا ہے۔ شوہر اور بیوی پر ایک دوسرے کے حوالے سے یکساں اخلاقی‘ قانونی‘ نفسیاتی اور معاشرتی حقوق و فرائض عائد ہیں۔ اگر ایک شوہر بیوی کا حق مارتا ہے اور عوام الناس کے سامنے کیے ہوئے عقد نکاح کے باوجود کسی اور عورت کے ساتھ خلاف اخلاق معاشرتی تعلقات قائم کرتا ہے‘ تو ممکن ہے اس دنیا میں انسانوں کے بنائے ہوئے ضابطوں کی بنا پر اس کی گرفت نہ ہو سکے لیکن وہ آخرت میں بازپرس سے نہیں بچ سکتا۔ دوسری جانب وہ بیوی جو نامساعد حالات کا مقابلہ ہمت‘ وقاراور صبرواستقامت سے اس دنیا میں کرتی رہی دوبارہ ایسے شخص کے حوالے نہیں کی جائے گی بلکہ اسے آخرت میں ایسا زوج دیا جائے گا جو دنیا کی تمام تکالیف و پریشانیوں کا بدلہ سکون‘ لذت ‘ احترام اور عزت و وقار کے ساتھ اسے فراہم کرسکے۔

۹- بعض شوہر نہ صرف بیوی بلکہ اپنی بیٹیوں‘ بیٹوں‘ حتیٰ کہ ماں باپ کی عزت نفس کا بھی خیال نہیں رکھتے۔ یہ ان کی بدقسمتی ہے۔ وہ اپنے اس طرزِ عمل کی بنا پر چاہے دنیا میں اپنی اکڑفوں سے کتنا ہی خوش ہو لیں لیکن آخرت میں ان کا حساب اس سے بہت مختلف ہوگا۔ اس کا ایک بنیادی سبب دینی فہم اور تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ اسی بنا پر بہت سے شوہر اپنی بیوی سے ’’تو‘‘ کہہ کر بات کرنے کو بے تکلفی‘ اپنائیت اور محبت سمجھتے ہیں۔ اسلام ایک شائستہ‘ باادب اور باوقار دین ہے اور چاہتا ہے کہ بے تکلفی و محبت کا اظہار ہو یا غصّے کا‘ دونوں صورتوںمیں ادب‘ توازن اور احترام کو مدنظر رکھا جائے۔

بہت سے پڑھے لکھے مرد اپنی بیٹیوں سے جس طرح حقارت‘ طنز یا ان پر احسان جتانے کے انداز میں بات کرتے ہیں وہ روح اسلام کے بالکل منافی ہے۔ وہ لڑکوں کی طرح بلکہ ان سے زیادہ محبت‘ احترام‘ عزت اور باوقار طرزعمل کی حق دار ہیں۔ اسی طرح اگر بیوی کی عزت نفس اور جذبات کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ ایک اخلاقی کمزوری ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر اگر شوہر غیر محرم عورتوں سے تو مسکرا کر اور لطائف سنا کر بات کرے‘ انھیں چائے اور کھانے پر مدعو کرے اور اپنی بیوی سے محض ایک قانونی سا تعلق رکھے تو یہ بیوی کے حقوق پر ڈاکا اور اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے۔ اللہ پر بندے کا حق یہ ہے کہ وہ اس کا واسطہ دے کر جس سے رحم کا رشتہ قائم کرتا ہے وہ اس پر قائم رہے۔ (النساء ۴:۱)

نکاح یا ایسے اعلان اور وعدے کے بعد جس پر بہت سے افراد کو شاہد بھی بنایا گیا ہو‘ اگر ایک شخص کسی اور عورت کے ساتھ گھومتا پھرتا ہے تو یہ خود اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے وعدے سے روگردانی ہے‘ اور اس غلط رویے کی فوری اصلاح ایسی توبہ کے ذریعے جس کے بعد غلطی کا ارتکاب نہ کیا جائے‘ لازم ہو جاتی ہے۔

۱۰- دوسری شادی کی خواہش اگر کسی شرعی ضرورت کی بنا پر ہو تو جائز ہے لیکن اگر اس طرح محض غیرعورتوں کے تذکرے سے اپنی مانگ اور قدر و منزلت بڑھانی مقصود ہو‘ تو اس کی شریعت میں سخت ممانعت ہے۔ حدیث شریف میں بیوی کو منع کیا گیا ہے کہ وہ شوہر کے سامنے کسی دوسری عورت کی تفصیلات بیان کرے۔ اس حکم کا اطلاق شوہر پر بھی ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک شوہر کا اسلامی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے صرف ایک بیوی اور بچوں کے حقوق ایمان داری سے ادا کرنا بھی ہنسی کھیل نہیں ہے‘ کجا یہ کہ وہ آنکھیں بند کرکے اور بس اللہ کا نام لے کر بیک وقت کئی بیویوں اور کئی درجن بچوں کے حقوق کی ذمّہ داری اٹھائے۔ مختلف پہلوئوں پر غور کیے بغیر کچھ ’’دانش مند‘‘ جب یہ کام کر بیٹھتے ہیں تو پھر قانونی موشگافیوں میں اُلجھتے چلے جاتے ہیں۔ اسلام میں نہ بیوی شوہر کے لیے کھلونا ہے‘ نہ شوہر بیوی کے لیے محض ایک عنوان۔ دونوں پر ایک دوسرے کے غیر معمولی حقوق و فرائض عائد ہوتے ہیں۔ ہاں ‘اگر کسی میں اتنی استطاعت ہو کہ وہ ایک سے زائد بیویوں اور کثیر تعداد میں بچوں کے حقوق و فرائض ذمّہ داری اور عدل کے ساتھ ادا کر سکتا ہو تو اسلام اسے نکاح ثانی سے نہیں روکتا۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)

روزے میں اِن ہیلر کا استعمال

روزے میں اِن ہیلر (inhaler) کے استعمال کے بارے میں دسمبر ۲۰۰۰ء کے شمارے میں مولانا عبدالمالک کا جواب شائع کیا گیا تھا جس میں اس کا عدم جواز بتایا گیا تھا۔ ہمارے ایک قاری نے سعودی عرب کے مفتی الشیخ محمدالصالح العثیمین رحمہ اللہ کا ایک فتویٰ ارسال کیا ہے۔ہم اسے نقل کر رہے ہیں۔ (ادارہ)

س :  دمے کے مریض اِن ہیلر استعمال کرتے ہیں۔ کیا روزہ دار کے لیے اس کا استعمال جائز ہے؟

ج :  اِن ہیلر کا استعمال روزہ دار کے لیے جائز ہے خواہ رمضان کا کوئی روزہ ہو یا اس کے علاوہ۔ یہ اس لیے کہ یہ (اِن ہیلر) معدے تک نہیں پہنچتا بلکہ پھیپھڑوں تک پہنچ کر ان کو کھلاکر دیتا ہے جس کے بعد انسان معمول کے مطابق سانس لینے لگتا ہے۔ لہٰذا یہ (اِن ہیلر) نہ کھانے پینے کے مترادف ہے اور نہ ہی بذات خود کھانا پینا ہے جو معدے تک پہنچتا ہو۔ اور یہ بات معلوم ہی ہے کہ کسی بھی شے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا جب تک کہ کتاب و سنت‘ اجماع یا قیاس صحیح سے اس کے فاسد ہونے کی کوئی دلیل موجود نہ ہو۔ (الشیخ محمد الصالح العثیمین‘ مسائل من الصیام‘ دار ابن جوزی‘ جمع و ترتیب: سالم بن محمد الجہنی)

 

طالبان‘ افغانستان میں جنگ‘ مذہب اور نیا نظام‘  پیٹر مارسڈن‘ ترجمہ: ڈاکٹر سید سعید احمد۔ ناشر: آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس‘ ۴- بنگلور ٹائون‘ شارع فیصل ‘ پی او بکس ۱۳۰۳۳ ‘کراچی ۷۵۳۵۰۔ صفحات: ۱۱۶۔ قیمت: ۲۲۵ روپے۔

افغانستان کے طالبان ‘مغرب کے لیے ایک بڑا اہم سوال بن چکے ہیں۔ پہلے تو صرف ان کی مذہبی پالیسیاں خصوصاً خواتین کے بارے میں ان کا ’’کٹرپن‘‘ یا اسامہ بن لادن کے بارے میں بے لچک رویہّ ہی قابل اعتراض تھا۔ اب بدھا کے مجسّموں کی توڑ پھوڑ نے اہل مغرب کے ساتھ بعض مشرقی ممالک (جاپان‘ تھائی لینڈ‘ نیپال وغیرہ) کو بھی طالبان کے بارے میں فکرمند اور پریشان کر دیا ہے‘ اگرچہ خود طالبان کسی کی دادو تحسین یا مذمت سے بے نیاز ہیں۔ وہ اپنی ہی دُھن میں مگن جو چاہتے ہیں‘ کر گزرتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ ان کے قابل قدر اقدامات کی بھی قدر نہیں کی جاتی‘ جیسے بھارت کے اغوا شدہ طیارے سے طالبان کا کامیابی سے نمٹنا یا پوست کی کاشت کا کامیابی سے خاتمہ کرنا۔ (اب وہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کو بجا طور پر طعنہ دیتے ہیں کہ تمھارے لاڈلے شمالی اتحاد کے علاقے میںتو پوست بدستور کاشت ہو رہی ہے۔) باوجود اپنی علاقائی اور سیاسی ’’تنہائی‘‘ کے‘ ان کا رویہّ اب بھی بے لچک ہے۔ غالباً اس لیے کہ وہ پاکستان کی تائید سے بڑی حد تک مطمئن ہیں۔ ان کے بارے میں امریکہ کی واضح طور پر معاندانہ پالیسی‘ دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کی مخالفت‘ اقوام متحدہ کی پابندیوں حتیٰ کہ پاکستان کے سوا اپنے تمام مسلم ہمسایوں سے تعلّقات میں کشیدگی اور اندرونِ ملک بے روزگاری ‘ غربت اور قحط کے مسائل نیز شمالی اتحاد سے برسرِ جنگ ہونے کے باوجود طالبان اپنے موقف پر جرأت اور بہادری سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس سے کم از کم ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ آج افغان ہی دنیا کی سب سے زیادہ آزاد قوم ہے۔

ان عجیب و غریب طالبان کو سمجھنے کے لیے برطانوی پیٹر مارسڈن نے آٹھ سال سے زائد عرصہ مختلف برطانوی ایجنسیوں اور گروپوں کے رابطہ افسر کی حیثیت سے افغانستان میں گزارا۔ یہ مختصر کتاب ان کے آٹھ سالہ تجربے‘ مشاہدے اور تحقیق کا حاصل ہے۔ اس کا دائرہ موضوعات خاصا وسیع ہے (یعنی: افغانستان کا جغرافیہ‘ تاریخ‘مذہبی‘ لسانی اور قبائلی تصورات‘ مجاہدین کی تحریک‘ طالبان کی قیادت‘ ان کے عقائد‘ طور طریقے اور پالیسیاں وغیرہ۔) مارسڈن نے طالبان پر عالم اسلام کی بعض بڑی تحریکوں (اخوان المسلمون‘ سعودی عرب کی وہابی تحریک‘ لیبیا اور ایران کے انقلابات) کے اثرات کا سراغ لگانے کی کوشش کی ہے مگر ان کا خیال ہے کہ طالبان پرکسی خاص تحریک کا ٹھپہ لگانا دانش مندی نہ ہوگی (ص ۵۶)۔ وہ کہتے ہیں کہ طالبان پر سب سے غالب اثر علما کا ہُوا ہے (ص ۶۳)۔

مارسڈن کی رائے میں ملا محمد عمر کا مقصد افغانستان کو بدعنوان‘ مغرب زدہ اور موقع پرست لیڈروں سے نجات دلانا ہے۔ ان کی منفی پالیسی کی سختی دراصل افغان خواتین کو مغربی اثرات سے محفوظ رکھنے کی ایک جان توڑ کوشش ہے (ص ۷۳)۔ مارسڈن نے طالبان کو قریب سے دیکھا ہے اور اس کا رویہّ طالبان سے ہمدردانہ ہے۔ اوّل: مارسڈن کا خیال ہے کہ اسلام کے بارے میں اہل مغرب ابھی تک صلیبی جنگوں کے حصار سے باہر نہیں نکل سکے (شاید اسی لیے وہ طالبان کو سمجھ نہیں پا رہے)۔ دوم: مارسڈن یہ سوال اٹھاتا ہے کہ بجا ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک اپنے اصول و ضوابط کی روشنی میں طالبان کو تسلیم نہیں کر رہے لیکن یہ سمجھنا مشکل ہے کہ جو حکومتیں طالبان سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہی ہیں انھیں کیوں تسلیم کر لیا گیا ہے؟ (مارسڈن نے کسی کا نام نہیں لیا)۔

مصنف کا خیال ہے کہ طالبان کی مشکلات اور مسائل کا حل پیش کرنا آسان نہیں۔ افغانستان کے داخلی حالات میں مسلسل اتارچڑھائو کی وجہ سے نت نئی پیچیدگیاں اور اُلجھنیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ اس وجہ سے آیندہ کیا ہوگا؟ یا کیا کرنا چاہیے؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

عربی کے فارغ التحصیل مارسڈن نے یہ بیانیہ کتاب تجزیاتی اور تحقیقی انداز میں لکھی ہے۔ ابتدا میں ضروری نقشے شامل ہیں اور اشاریہ بھی۔ آخر میں مآخذ کی فہرست ہے۔ افغانستان اور طالبان پر اردو میں لکھنے والوں کو مارسڈن کے طریقہ تصنیف و تالیف سے کچھ سیکھنا چاہیے۔ ایک غیر ملکی ناشر نے کتاب اتنے اچھے معیار پر شائع کی ہے (گو‘ قیمتاً گراں ہے) کہ ملکی ناشرین کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


تاریخ اسماعیلیہ ]تاریخ جہاں گشائی‘ جلد سوم[‘ علاء الدین عطا ملک الجوینی‘ مترجم: پروفیسر علی محسن صدیقی۔ ناشر: قرطاس‘ کراچی یونی ورسٹی۔ صفحات: ۱۸۳۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

تاریخ جہاں گشائی منگولوں‘ خوارزم شاہیوں اور اسماعیلیوں کی تاریخ کی ایک مستند‘ ثقہ اور بنیادی مآخذ کی کتاب ہے۔ عطا ملک الجوینی (متوفی ۶۸۱ھ) ہولاکو کے دَور میں ایران اور عراق کا گورنر رہا۔ وہ منگولوں کے ہاں میرمنشی کی حیثیت سے آیا اور گورنر کے عہدے تک پہنچا۔ وہ ہولاکو کے ہاتھوں وقوع پذیر ہونے والے تمام حادثات و واقعات کا عینی شاہد ہے۔ یہ پہلی کتاب ہے جس نے اُس دَور کے مؤرخین کو بھی منگولوں کی طاقت سے متعلق موثق مواد فراہم کیا۔ یہ کتاب خوارزم شاہیوں کی تاریخ کا تفصیلی بیان بھی مہیّا کرتی ہے۔ نیز اسماعیلیوں کے عقائد اور اُن کی خفیہ دعوت سے بھی پردہ اٹھاتی ہے۔ تین جلدوں پر مشتمل یہ کتاب منگولوں کی قدیم تاریخ سے لے کر ۶۴۴ھ تک کے تمام واقعات‘ خوارزم شاہی سلاطین کے حالات اور ہولاکو کی بلادِ غربیہ میں آمد تک کے واقعات اور ہولاکو کے بلادِ غربیہ پر تسلّط ‘ اس کے ہاتھوں ان کی بربادی اور اس کے بعد رکن الدین خورشاہ کے قتل تک کے واقعات اور اسماعیلی خاندان کی مکمل تباہی کی تفصیل پیش کرتی ہے۔

زیرنظر جلد سوم اسماعیلیوں کی تاریخ پر مشتمل ہے۔ اس میں ہولاکو کی ملاحدہ کے قلعوں کی تسخیر‘ باطنیوں اور اسماعیلیوں کے عقائد‘ ان کی دعوت‘ قرامطہ کے ظہور‘ اسماعیلی حکومت کے فروغ‘ مصر میں اسماعیلی حکومت کے خاتمے اور منگولوں کے ہاتھوں‘ بالآخر بلادِ غربیہ کی مکمل تباہی کا احوال بیان کیا گیا ہے۔

مترجم نے کتاب کے آغاز میں مصنف کے حالات زندگی‘ کتاب کی تاریخی اہمیت اور ترجمے سے متعلق بعض توضیحات شامل کی ہیں اور آخر میں تین ضمیمے مع حواشی بھی دیے ہیں جو قاری کو ایران‘ عراق اور خراسان کے اسماعیلیوںکی تاریخ کے اور قریب کر دیتے ہیں۔ اردو ترجمے کی زبان سلیس اور آسان ہے۔ حسب ضرور ت قوسین میں مناسب الفاظ کی مدد سے تفہیم میں آسانی پیدا کرنے کی بھی سعی کی گئی ہے۔ کہیں کہیں لیکن بہت کم‘ کمپوزنگ اور پروف خوانی میں کوتاہی کے سبب الفاظ غائب نظر آتے ہیں یا عبارت کی غلطی سامنے آجاتی ہے۔ تاریخ کے طلبہ اور تاریخ کا ذوق رکھنے والے دوسرے لوگوں کے لیے یہ کتاب ایک قیمتی دستاویز ثابت ہو سکتی ہے۔ (سعید اکرم)


چراغِ راہ ‘ ڈاکٹر بدریہ کاظم۔ ناشر: ریز کمیونی کیشن‘پی او بکس ۱۰۷۳۴‘ دوبئی۔ صفحات: ۴۳۳۔ ہدیتاً تقسیم ہوگی۔

قرآن حکیم کی تمام سورتوں کا خلاصہ آسان زبان میں پیش کیا گیا ہے۔ دیباچے میں بتایا گیا ہے کہ بدریہ کاظم صاحبہ نے خلاصہ مرتب کرتے ہوئے تفہیم القرآن کے علاوہ ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی کی تصانیف اور قرآن پاک کے انگریزی ترجمے مصحف المدینہ النبویہ سے بھی رہنمائی لی ہے۔ سورتوں کے خلاصے کے ساتھ کہیں کہیں پس منظر اور تبصرہ بھی آگیا ہے۔ یہ خلاصہ تقریباً اُسی نوعیت کا ہے‘ جو ہمارے ہاں تراویح کے بعد پیش کیا جاتا ہے۔

مولفہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے ہے۔ انھوں نے کتاب کو اعلیٰ درجے کے (قریب قریب) آرٹ پیپر پر شائع کیا ہے۔ خدا کرے ان کی یہ کوشش ان کے اپنے حسب خواہش ‘ ان کے لیے توشۂ آخرت ثابت ہو۔ (ر - ہ)


جدید سندھ کے دانش ور اور عالم  ‘ محمد موسیٰ بھٹو۔ سندھ نیشنل ٹرسٹ‘ ۴۰۰ بی ‘ لطیف آباد نمبر ۴‘ حیدرآباد ‘سندھ۔ صفحات: ۲۹۲۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

جناب محمد موسیٰ بھٹو سندھ کے ممتاز اہل قلم میں سے ہیں۔ انھوں نے اردو اور سندھی زبان میں اسلام کے فکری اور دعوتی نقطۂ نظر سے لائق مطالعہ کتابیں مرتب کی ہیںاور بعض اہل قلم کی اردو کتابوں کو سندھی زبان میں پیش کر کے مفید خدمت انجام دی ہے۔ بیداری کے نام سے ایک سندھی ماہنامہ نکال رہے ہیں۔ ان کی فکر متوازن اور معقولیت پسندانہ ہے۔ افراط و تفریط کے ماحول میں ایسی کتابوں کی افادی قدروقیمت کو یقینا محسوس کیا جائے گا جو اسلام کے صحیح اور مضبوط فکری موقف کی جانب رہنمائی کرتی ہیں۔

زیرنظر کتاب میں مصنف نے سرزمین سندھ کی ایسی ۵۶ شخصیات کے تعارفی خاکے پیش کیے ہیں جن کا تعلق مختلف تحریکوں کے نمایندہ افراد‘ علما و مشائخ‘ اہل قلم اور اصحاب فکرونظر سے ہے۔ مذکورہ اصحاب نے اپنے اپنے دائرے میں دعوتی‘ علمی و تحقیقی اور سماجی و سیاسی پہلو سے خدمات انجام دی ہیں۔ ان خاکوں میں شخصیات کا مختصر اور اجمالی تعارف پیش کرتے ہوئے مصنف نے بصیرت افروز تنقیدی شعور سے کام لیا ہے اور محاسن کے فیاضانہ اعتراف کے ساتھ ساتھ کمزور پہلوئوں کی نشان دہی بھی بے لاگ طریقے سے کی ہے۔ اندازِ تحریر شگفتہ اور دل نشیں ہے۔

ہر تعارفی خاکے کے آخر میں وہ خطوط بھی شامل ہیں جو ان شخصیتوںکی جانب سے مصنف کو تحریر کیے گئے۔ اس سے کتاب کی افادی حیثیت بڑھ گئی ہے۔ اصل کتاب سندھی زبان میں لکھی گئی تھی۔ مصنف نے اسے اردو قالب میں ڈھال کر اردو کے قارئین کو ایک مفید کام سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔

کتاب پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کے دل میں احیاے اسلام کے لیے ایک تڑپ اور مخلصانہ جذبہ موجود ہے اور یہی جذبہ ان کی قلمی کاوشوں اور علمی سرگرمیوں کا اصل محور ہے۔ وہ باب الاسلام سندھ میں علاقائی نیشنلزم‘ سوشلزم‘ لادینیت اور مغربیت کے بجائے اسلامی فکر کو فروغ پذیر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی نظر ملّت اسلام کے مستقبل اور نئی نسل کی صحیح رہنمائی پر ہے۔ پاکستان اور سندھ کے پس منظر میں لادینی قوتوں کی فتنہ انگیزی کو محسوس کرنے اور اسلامی شعور کو بیدار کرنے میں کتاب یقینا معاون ہوگی اور مصنف کی مساعی کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا ۔ (انیس احمد اعظمی)

تعارفِ کتاب

  •  عظمت ِ قرآن ‘محمد ہمایوں عباس شمس۔ ناشر: جامعہ تبلیغ الاسلام‘ خیابان امین‘ فیصل آباد۔ صفحات: ۱۲۰۔ قیمت: ندارد ]قرآن حکیم پر مختلف مذاہب خصوصاً عیسائیوں کے انٹرنیٹ کے ذریعے کیے جانے والے اعتراضات کے جوابات دیے گئے ہیں۔ سوالات انگریزی میں ہیں۔ مولّف نے زیادہ تر جوابات مختلف اردو مفسّرین کی تحریروں کے ذریعے انھی کے الفاظ میں دیے ہیں۔[
  •  پھول کھلے ہیں رنگ برنگے‘ شان الحق حقی۔ ناشر: ہمدرد فائونڈیشن‘ ناظم آباد‘ کراچی۔ صفحات: ۱۱۱۔ قیمت: ۷۰ روپے۔]۸ سال سے ۸۰ سال کے ’’بچوں‘‘ کے لیے دل چسپ نظمیں‘ مزے دار نظموں کا مجموعہ۔ حقّی صاحب کہنہ مشق ادیب‘ شاعر اور مترجم ہیں۔ نظموں میںشگفتگی‘ ندرت اور مٹھاس ہے۔ ان میں ترانے اور پہیلیاں بھی ہیں[
  •  چراغ نوا‘ رئیس نعمانی۔ ناشر: محمد ارشد‘ اے ۱۱۸/۴ ‘ لوکو کالونی (نئی آبادی) علی گڑھ۔ صفحات: ۶۴۔ قیمت: ۳۰ روپے۔ ]ایک مجموعہ نعت‘ جس میں شاعر کا ایک گہرا جذبۂ محبّتِ رسولؐ کارفرما ہے۔ ان کے بقول: ’’رسولؐ کو رسولؐکے مرتبے پر رکھا گیا ہے‘ اور اکثر نعت گویوں کی طرح خدا و رسولؐ کے امتیاز کو بالاے طاق رکھ کر جاہلانہ عقیدت اور ہندووانہ بھجن خوانی کے مظاہرے سے بھی زبانِ قلم کو آلودہ نہیں ہونے دیا گیا‘‘ (ص ۶۲)۔ مقدمے میں بعض اردو نعت گوئوں کے غیر محتاط انداز (خصوصاً صاحب حدائق بخشش) پر تنقید کی گئی ہے۔[
  •  ماہنامہ دعوت الحق‘ مدیر: ڈاکٹر تسنیم احمد۔ صفحات: ۳۲۔ پتا: ۸- گلشن ویو‘ بلاک سی-۱۳‘ گلشن اقبال‘کراچی ۷۵۳۰۰۔ زرتعاون سالانہ: ۵۰ روپے۔ فی شمارہ: ۵ روپے۔ ] یہ مختصر رسالہ کسی مسلک کا ترجمان نہیں۔ قرآن و سنّت کی روشنی میں دعوت حق پیش کرتا ہے۔ عقائد‘ خصوصاً عقیدئہ توحید کی اصلاح پیشِ نظر ہے۔ حالات حاضرہ کا بھی لحاظ ہے۔ اپریل کے شمارے کا اداریہ (اشارات!) عریانی اور فحاشی پر ہے۔ ایک خاص خدمت اپنی ویب سائٹ پر مندرجات حاضرہ کے نام سے اہم دینی رسائل کے مضامین کا اشاریہ مہیّا کرنا ہے [www.dawatulhaq.tripod.com] ۔(مسلم سجاد)

عبدالقدیر سلیم ‘ کراچی

مراد ہوف مین کے مقالے پر آپ نے میرا تبصرہ شائع کیا‘ شکریہ۔

تکثیریت (pluralism) اور رواداری جو ہوف مین کے خطبات کا مرکزی موضوع ہیں‘ اب بے موسم کی بارش کی طرح ہمارے اہل فکر‘ خصوصاً نوجوان ذہنوں کی ’’آب یاری‘‘کر رہے ہیں۔ ’’جدید جمہوری مہذب معاشرے‘‘ (civil society) کا آئیڈیل بے شک اسلام کے دائمی مہذب اصولوں سے ہم آہنگ ہے‘ مگر اس سے ایک ایسا معاشرہ مراد لینا ‘ جہاں ’’اخلاقی تکثیریت‘‘ ہو‘ اسلام کے دائمی آفاقی نظامِ اقدار کی نفی کرنا ہے‘ اور مغربی یلغار (مغرب‘ کوئی جغرافیائی تصور نہیں‘ بلکہ ایک فکری نظام ہے) کو خوش آمدید کہنا ہے۔

خصوصاًپاکستان میں اسی فکر کو ایک محدود دائرے میں رکھ کر تاریخ پاکستان‘ اسلامی ریاست اور معاشرے کے لیے جدوجہد کی نفی کرنے اور برعظیم کی ایک ’’مشترکہ تاریخ‘‘ ازسرنو تصنیف کرنے کے لیے کوشش ہو رہی ہے‘ تاکہ دو قومی نظریے کی نفی ہو‘ اور ایک ’’پرامن‘ ہم آہنگ اور مہذب‘‘ معاشرہ جنم لے کہ اس سے پہلے ہندوئوں کے ہیرو‘ مسلمانوں کے ولن اور مسلمانوں کے ہیرو‘ (محمود غزنوی‘ غوری‘ اورنگ زیب عالم گیر) ہندوئوں کے نزدیک ڈاکو‘ لٹیرے اور غاصب تھے۔ مفروضہ یہ ہے کہ اگر برعظیم میں تاریخ کا یکساں نصاب رائج کر دیا جائے تو تنائو‘نفرت اور جنگوں سے بچا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں میرے خیال میں مداہنت مناسب رویہّ نہیں‘ بلکہ سورہ الممتحنہ پر غور وفکر اور اس کی عملی تلاوت ہی بہتر حکمت عملی ہے۔

احمد اشرف ‘ کراچی

اشارات (مئی ۲۰۰۱ء) بہت خوب ہیں۔ قرآن فہمی کے سلسلے میں سید مودودی ؒکے ’’مقدمہ‘‘ تفہیم القرآن کے بعد ایسی دل کش تحریر سے سابقہ پڑا۔ آپ نے کمال کیا کہ تصوف پر براہِ راست کسی قسم کا اعتراض کرنے کے بجائے ڈاکٹر اقبال کے مضمون کا حوالہ دیا جس میں انھوں نے ’شعورِ ولایت‘‘ اور ’’شعورِ نبوت‘‘ کی اصطلاحیں استعمال کر کے عربی اسلام اور عجمی اسلام کا فرق بتادیا ہے۔

’’کلام نبویؐ کی کرنیں‘‘ میں یہ پڑھ کر آنکھوں میں آنسو آگئے کہ نبی کریمؐ نے ایک بدو کے درشت رویے کے باوجود اس کے ایک اونٹ پر جو اور دوسرے پر کھجور کے بورے لدوا دیے۔ کون تصور کر سکتا ہے کہ حضورؐ اخلاق کے کس معیار پر تھے!

عبداللّٰہ جان عزیز ‘ ڈیرہ غازی خان

اپریل ۲۰۰۱ء کے شمارے میں بھکر سے محمد عبداللہ صاحب نے توراکینہ قاضی کے مضمون: ’’عالمی معاشرے میں شادی اور خاندان کا مرکزی کردار (مارچ ۲۰۰۱ء) میں اصل انگریزی الفاظ کو بغیر مناسب اصطلاحات کے شائع کرنے کو غیر مناسب سمجھا۔ آج کل عرب دنیا میں گلوبلائزیشن کے الفاظ کو العولمۃ سے ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ گلوبل ازم کے لیے بھی العولمۃ کا لفظ مستعمل ہے۔ گلوبیانا کے بجائے مناسب عالمیانہ ہے۔ گلوبلائزیشن کے لیے عالم گیریت کے بجائے عالمیت بہتر محسوس ہوتا ہے اور انٹرنیشنل کے لیے عالمی۔

منور بخاری ‘ لاہور

’’موثر اور کامیاب شخصیت‘‘ (مئی ۲۰۰۱ء) بہت مفید ہے۔ یہ تحریر ایک اہم تحریکی ضرورت پوری کرتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ داعی الی اللہ کی شخصیت ایسی ہو جسے دیکھ کر آدمی متاثر ہو اور وہ بات ایسے اچھے انداز میں کرے جو مخاطب کے دل میں اتر جائے۔ اپنی شخصیت کو موثر بنانے کے لیے تدابیر زیادہ تفصیل سے سامنے آنی چاہییں۔

ہارون اعظم ‘ مردان

’’موثر اور کامیاب شخصیت‘‘ (مئی ۲۰۰۱ء) جیسے مضامین ہر ماہ شائع ہونے چاہییں۔ ’’فروغ سائنس کی اہمیت اور ضرورت‘‘ میں مصنف نے سائنس کی اہمیت کوبڑے اچھے اندازمیں پیش کیا ہے ۔بیرون ملک جا کر واپس نہ آنے والے طلبہ کو کس طرح مادرِ وطن کی فلاح و بہبود کے لیے واپس بلایا جا سکتا ہے؟ اس بارے میں مصنف خاموش ہیں۔

’’اسلامی پارٹی ملایشیا کی پیش قدمی‘‘ بہت پسند آئی۔ البتہ اس کے ساتھ ’’جماعت اسلامی‘‘ کا موازنہ کیا جاتا اور اُن اسباب کا جائزہ لیا جاتا جن کی بدولت جماعت اسلامی‘ پاکستان میں‘ ملایشیا کی اسلامی پارٹی کے برعکس‘ وہ کامیابی حاصل نہ کر سکی۔

صابر نظامی ‘ الٰہ آباد‘ قصور

’’اسلامی پارٹی ملایشیا کی پیش قدمی‘‘ (مئی ۲۰۰۱ء) سے تحریک اسلامی کے کارکن میں ایک حوصلہ افزا امید پیدا ہوتی ہے۔ دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں میں’’جمہوریت کے راستے سے پیش قدمی‘‘ ایک رہنما اصول ہے۔ اس کے ذریعے مختصر عرصے میں رائے عامہ کو ساتھ لے کر اسلام کو برسرِاقتدار لایا جا سکتا ہے۔ جو مسلم لیڈر جمہوری راستے سے اسلام کے نفاذ کی سرتوڑ مخالفت کرتے ہیں ‘ وہ حقیقت میں بدکردار اور منافقانہ چالیں اختیار کرنے والے حکمرانوں کی مدت اقتدار میں طوالت کو پسند کرتے ہیں اور آمریت کو تقویت دیتے ہیں۔

محمد درویش ‘  ضلع نوشہرہ

اکیسویں صدی میں اگر ایک طرف اسلام کا رجحان بڑھ رہا ہے اور اسلام ایک نظامِ زندگی کی حیثیت سے اپنی قوت منوا رہا ہے‘ تو دوسری طرف اسلام کی آڑ میں اور مذہب کے لبادے میں انتہا پسندی اور دہشت گردی بھی بڑھ رہی ہے۔ فرقہ واریت‘ معمولی باتوں پر ایک دوسرے کی تکفیر‘ اور نت نئی عسکری تنظیمیں مستقبل میں عالمی اسلامی تحریک کے لیے کئی مسائل کھڑے کر سکتی ہیں اور عالمی سطح پر اسلام کا چہرہ مسخ ہو سکتا ہے۔ اس محاذ پر صحیح رہنمائی کی ضرورت ہے۔ کشمیر کے ساتھ ساتھ غربت‘ بے روزگاری‘ ظالمانہ ٹیکس اور تعلیم کی ابتری وغیرہ بھی اشارات کا موضوع بننا چاہییں۔

سیدہ غوثیہ بانو ‘ کراچی

’’اکیسویں صدی اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ (اپریل ۲۰۰۱ء) میں یوسف القرضاوی نے ۱۰ نکات پر مشتمل مناسب ایجنڈا دیا۔ یہود نے ’’فرات سے دریاے نیل تک اسرائیل تیری سرحدیں ہیں‘‘ کے نعرے کو پے درپے کوششوں سے اپنے حامیوں کے دلوں میں ڈال دیا ہے۔ اسرائیل کے نعرے فرضی ہیں ان پر تو ان کو اتنا اعتماد کہ وہ جھوٹ کو سچ کرنے پر تلے ہوئے ہیں‘ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئیاں جو کہ سچی بشارتیں ہیں اس پر مسلمانوں کو کامل یقین نہیں۔ لگتا ہے کہ ہم صرف قولی مسلمان ہیں اور عمل سے دُور ہیں۔ کفار تو اپنے کفر کے لیے ان تھک کوششیں کر رہے ہیں اور ہم مسلمان لہو و لعب میں مبتلا ہیں بلکہ دشمنان دین کی چالوں کو سمجھ نہیں رہے ہیں اور ان کی سازشوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہماری آنکھیں آخر کب کھلیں گی اور ہم اپنی ذمہ داریوں کو کب سمجھیں گے!!

محمد جہانگیر تمیمی ‘  لاہور

’’کلام نبویؐ کی کرنیں‘‘ (مئی ۲۰۰۱ء‘ ص ۱۷) میں ادب گا ہیست … شعر علامہ اقبال کا لکھا گیا ہے۔ یہ عزت بخاری کا ہے۔

...فاقہ کش‘ غریب اور مفلس عرب جو اپنے ملک کے خاص حالات کے لحاظ سے ایام جاہلیت میں معاشی حیثیت سے انتہائی سخت کوشیوں کا شکار بنا ہوا تھا‘ تعیش و رفاہیت کی زندگی کا تو کیا ذکر ہے‘ ضروری معاشی رسد کی تکمیل میں بھی ان کو آسمان و زمین کے قلابے ملانے پڑتے تھے۔ ساری عمر عرب کے چٹیل ریگستانی اور سنگستانی صحرائوں میں بے چارے صرف اس لیے دوڑتے پھرتے تھے کہ دو وقت کی خشک روٹی خواہ کسی شکل میں ہو ‘ مل جائے اور وہ بھی بہ مشکل میسر آتی تھی‘ لیکن اسلام نے ایک طرف ان کے باطنی قویٰ اور ذہنی طلب میں یہ طوفان برپا کیا‘ دوسری طرف ۱۵‘۲۰ سال کی مدت میں جسمانی اور معاشی مطالبوں کے لیے رسد کا ایک ایسا بے تھاہ سمندر ان کے اس غیرآباد‘ قلیل التعداد ملک میں ٹھاٹھیں مارنے لگا کہ سچ یہ ہے کہ اس کی نظیر بھی عرب کے آسمانوں نے نہ اس سے پہلے دیکھی تھی‘ اور نہ آج تک پھر وہ تماشا دیکھنا اسے نصیب ہوا۔ اُن خزائن اور دفائن‘ غنائم اور نفل کے سوا جو قرنہا قرن سے کسریٰ ایران کے خزانے میں جمع ہو رہے تھے‘ یا وہ دولت جو زمینِ فرعون (مصر) سے یا ارض شام سے آئی تھی‘ ستون فی ستین (یعنی ۶۰ گز لمبا ‘۶۰ گز چوڑا) والا جواہر نگار بہار نامی ایرانی غالیچہ جس کے تمام نقش و نگار‘ جن کا تعلق مختلف مناظراور موسموں سے تھا‘ انمول جواہرات کے ذریعے سے کاڑھے گئے تھے‘ کسریٰ کا وہ مرصع تاج جو اپنے قیمتی اور وزنی پتھروں کی وجہ سے بجائے سر پر رکھنے کے سونے کی زنجیر سے لٹکا دیا جاتا تھا اور کج کلاہ ایران اسی میں اپنا سر داخل کر دیتا تھا‘ کھجوروں کے تنے پر مدینہ میں جو مسجد کھڑی تھی اس میں یکے بعد دیگرے یہ سب کچھ ہر طرف سے چلا آ رہا تھا۔ خوراکی رسد کا یہ حال تھا کہ عام رمادہ کے قحط میںحضرت عمرؓ نے مصر کے والی عمرو بن عاصؓ کو غلے کے لیے جب لکھا تو انھوں نے جواب دیا کہ اونٹوں کی ایسی قطار غلے سے لاد کر پایۂ تحتِ خلافت میں بھیجتا ہوں جس کا پہلا اونٹ مدینہ میں ہوگا اور آخری اونٹ کی دُم میرے ہاتھ میں ہوگی۔...

ذہبی نے لکھا ہے کہ عہد فاروقی تک پہنچتے پہنچتے مدینہ کے بازار کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ عہد نبوتؐ میں جس گدھے کی قیمت ۱۵درہم تھی‘ اب وہ ۱۵ سو میں ملتا تھا۔ بخاری کی مشہور روایت ہے کہ حضرت زبیرؓ نے غابہ کی زمین جومدینہ کے پاس ہے کل ایک لاکھ ۷۰ ہزار درہم میں مول لی تھی‘ لیکن ان کے بیٹے حضرت عبداللہؓ نے اسے جب فروخت فرمایا تو اس کی قیمت ۱۶ لاکھ ملی تھی۔ حضرت زبیرؓ کی جایداد کی قیمت جیسا کہ بخاری میں ہے ۵۰ کروڑ ۲ لاکھ لگائی گئی تھی--- صحابہ اور صحابہ کی اولاد جو وہی عرب تھے جن کے پاس ہزار کے اوپر عدد کے لیے کوئی لفظ ہی نہ تھا‘ لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں ایک ایک وقت میں صرف خیرات کرتی تھی‘ یا اپنے ملنے جلنے والے احباب و اعزہ کو دے ڈالتی تھی۔ (’’تدوین حدیث‘ ‘ ، مناظر احسن گیلانی‘ ماہنامہ ترجمان القرآن‘  جلد ۱۸‘ عدد ۴‘ ۵‘ ۶‘ ربیع الآخر‘ جمادی الاولیٰ‘ جمادی الآخرہ ۱۳۶۰ھ‘ جون‘ جولائی‘ اگست ۱۹۴۱ء‘ ص ۱۵۲- ۱۵۴)