مضامین کی فہرست


اکتوبر۲۰۲۰

عرب ملکوں میں فلسطین پر اسرائیل کی نہ ختم ہونے والی جارحیت کو تسلیم کرنے کے جس سفر کا آغاز مصری ڈکٹیٹر صدر انورالسادات نے ۱۹۷۸ء میں کیا تھا، اب وہ سفراور زیادہ آگے بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ افسوس کہ امریکی اور صہیونی خدائی کےسامنے تسلیم و رضا کی علامت بننے والے عرب حکمرانوں کو اس دردناک کھیل میں اپنے اقتدار کی بقا نظر آتی ہے، جو بہرحال ایک حقیر اور فانی چیز ہے۔ مگر دوسری جانب عرب دُنیا کے بے بس اور آزادیِ راے سے محروم عوام، اپنے حکمرانوں کی ’اسرائیل، امریکا نواز پالیسیوں‘ سے سخت نفرت کرتے ہیںاور فلسطینی مظلوموںکے لیے دل، جان اور مال کےساتھ کھڑے ہیں۔ اسی طرح یہ پہلو بھی واضح ہے کہ اسرائیلی جارحیت کی مزاحمت کرنے والوں میں: دُنیا بھرکے منصف مزاج لوگ، اسلامی فکروکردار سے سرشار فرزانے، سوشلسٹ انقلابی اور انسانی حقوق کے رکھوالے ہم قدم اور ہم آواز کھڑے رہے ہیں۔ افسوس کہ بدلے زمانے میں مسلم دنیا کے اقتدار پرست رجواڑوں اور انسانیت کش نام نہاد جدیدیت پسندوں نے، بلاجواز فسطائیت اور نسل پرستانہ جارحیت کوسند ِ جواز دینے کے انسانیت سوز کھیل میں شدت پیدا کی۔ اور اب وہ یہ درسِ ذلّت دینے کے لیے پاکستان میں بھی رفتہ رفتہ قدم بڑھا رہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں یہ بحث کئی زاویوں سے نمایاں ہوئی ہے۔ ہم یہاں دو معروف پاکستانی تجزیہ نگاروں کے خیالات پیش کر رہے ہیں، جس میں اسرائیل کی منظوری کے لیے زور دینے والے ایک کالم نگار جاوید چودھری صاحب کی چارج شیٹ بھی سامنے آگئی ہے۔ (س م خ)

اسرائیل نوازی کے لیے حقائق کا قتل
حامد میر

اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ایک پرانی بحث، نئے زاویے سے پاکستان میں ہورہی ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ پاکستان کو صرف بھارت نہیں، بلکہ کئی اور ملکوں کی سازشوں کا بھی سامنا ہے، جن میں اسرائیل سرفہرست ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے اس پاکستان دشمن اتحاد کے تناظر میں فروری ۲۰۱۹ء سے وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دیا جارہا ہے کہ ’’ہمیں بھارت اسرائیل اتحاد توڑنے کے لیے اسرائیل کےساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلینے چاہییں‘‘۔ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’اگر تنظیم آزادی فلسطین، مصر، اُردن، ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اسرائیل سے سلسلۂ جنبانی کرسکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں؟‘‘ ان مشوروں پر وزیراعظم کا مختصرجواب تھا: دل نہیں مانتا۔ میں فلسطینیوں پر اسرائیل کے ظلم کی تائید نہیں کرسکتا‘‘۔
ذرا پیچھے چلتے ہیں۔ یوسف السباعی مصر کے ایک معروف ادیب اور اخبار الاہرام  کے ایڈیٹر تھے۔ وہ صدر انور السادات کی حکومت میں وزیرثقافت بھی رہے، ساتھ ہی افریقی اور ایشیائی ترقی پسند ادیبوں کے جریدے Lotus (لوٹس)کی ادارت کی ذمہ داری ادا کرتے رہے، جس کا عربی ایڈیشن قاہرہ سے شائع ہوتا تھا ۔یوسف السباعی کو فروری ۱۹۷۸ء میں فلسطین کے ابوندال گروپ نے قتل کر دیا تو انجمن نے لوٹس کی ادارت پاکستان کے معروف شاعر فیض احمد فیض کے سپرد کردی۔ جب مصر کی اسرائیل نواز خارجہ پالیسی کے باعث اس جریدے کی اشاعت قاہرہ سے ممکن نہ رہی تو لوٹس کی اشاعت بیروت سے شروع ہوئی۔ اس زمانے کی خانہ جنگی میں بیروت لرز رہا تھا اور فیض صاحب اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر اس طرح تحریک آزادی فلسطین کا حصہ بن گئے کہ اُن کے دن رات فلسطینی مجاہدوں کے ساتھ گزرتے تھے۔ ۲۰۰۶ء میں لبنان اور اسرائیل کی جنگ کے دوران رپورٹنگ کے لیے مجھے بیروت میں بعض صحافیوں نے بتایا کہ اُمّ کلثوم کی طرف سے علامہ اقبال کے گائے گئے کلام کا حوالہ دے کر فیض صاحب بتایا کرتے تھے کہ ’’پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال کو فلسطینیوں سے بڑی محبت تھی‘‘۔
بیروت میں قیام کے دوران مجھے مفتی اعظم فلسطین جناب امین الحسینی کی قبر پر فاتحہ خوانی کی سعادت حاصل ہوئی، اور یہ معلوم ہوا کہ مفتی امین الحسینی صرف ایک عالم دین نہیں تھے بلکہ فلسطینیوں کی مسلح جدوجہد کے بانیوں میں شامل تھے، اور ان کے قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ بڑے گہرے تعلقات تھے۔ پاکستان واپسی پر مفتی امین الحسینی اور بانی پاکستان کے درمیان ہونے والی خط کتابت کو تلاش کیا، تو اخوان المسلمون کے مرشدعام حسن البنااور قائداعظم کے درمیان ہونے والی یہ مراسلت ڈاکٹر زوار حسین زیدی کے مرتب کردہ جناح پیپرز میں محفوظ ملی۔
یہ حیرت کا مقام ہے کہ فلسطین کے متعلق علامہ اقبال اور قائد اعظم کے دو ٹوک موقف کو ہماری نصابی کتب کے کسی بھی درجے کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ غالباً اس لیے کہ فلسطین کے متعلق اقبال اور قائداعظم کے بیانات اور خطوط میں برطانیہ و امریکا کے بارے میں بہت سخت الفاظ شامل ہیں۔
 مسئلہ فلسطین پر ۱۹۳۳ء سے ۱۹۴۷ء کے دوران میں، آل انڈیا مسلم لیگ نے ۱۸قراردادیں منظور کیں، جن میں برطانوی حکومت پر شدید تنقید کی گئی۔ یہ قراردادیں اُن نام نہاد تاریخ نویسوں کا منہ بند کر دینے کے لیے کافی ہیں، جو گاہے گاہے تحریک پاکستان، قیام پاکستان اور قائد اعظم کی جدوجہد کے پیچھے ’برطانوی حکومت کا ہاتھ‘ تلاش کرتے رہتے ہیں۔ سلام ہے فیض احمد فیض کی راست فکری کو، جنھوں نے اشتراکی روس نواز ادیبوں کی ’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘ کی مرضی کے مطابق علامہ اقبال کی مذمت سے انکار کر دیا تھا، اور بعد ازاں اقبال کے فارسی کلام پیامِ مشرق  کا اُردو ترجمہ بھی کیا تھا۔ آج ماضی کےبہت سے ترقی پسند اپنے آپ کو صرف ’لبرل‘ کہتے اور ہر سال فیض ڈے مناتے ہیں، لیکن اس موقعے پر فیض کی اقبال سے محبت کا ذکر تک نہیں کرتے۔ ماضی کے سوشلسٹ اور حال کے انھی لبرل دانش وروں میں سے کچھ صاحبان آج کل ہمیں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے فائدے گنوا رہے ہیں۔ جب اُنھیں اقبال کا یہ شعر یاد دلایا جائے:
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
جواب ملتا ہے کہ ’اقبال تو ایک بنیاد پرست تھا‘۔ ان دانش وَروں کے نزدیک یہی معاملہ قائداعظم کے ساتھ ہے۔ ان کے ہاتھوں تاریخ کے مسخ کردہ اور خودساختہ حقائق کے نام پر یہ تک کہا گیا کہ ’’انھوں نے ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کی قرارداد انگریزوں کے کہنے پر منظور کرائی‘‘۔ ایسے فضول الزام لگانے والے بھول گئے کہ ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کو صرف ایک علیحدہ وطن کی قرارداد منظور نہیں ہوئی تھی بلکہ اسی اجلاس میں ایک اور قرارداد فلسطینیوں کے حق میں بھی منظور کی گئی تھی۔
قائداعظم نے جولائی ۱۹۴۶ء میں بمبئی میں یونائٹیڈ پریس امریکا کے خصوصی نمایندے ارنسٹ سی مارٹی کو انٹرویو دیتے ہوئے مطالبہ کیا تھا:
مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لیے سب سے پہلے قدم کے طور پر فلسطین سے برطانوی امریکی اثرورسوخ سے دست بردار ہونا پڑے گا۔اس طرح نہ صرف یہودیوں کی فلسطین میں آمد کو ختم کیا جائے بلکہ جو یہودی پہلےسے فلسطین میں موجود ہیں، ان کی آبادکاری کا بھی آسٹریلیا، کینیڈایا کسی ایسے ملک میں انتظام وانصرام کیا جائے، جہاں ان کی گنجایش ہو، ورنہ پھر ایک دن ایسا آئے گا کہ جب ان کی قسمت اس سے بھی زیادہ خراب ہوگی، جیسی کہ ہٹلر کے تحت تھی۔ یہ بالکل واضح ہے کہ یہودی، امریکا اور انگلستان کی مدد سےفلسطین کو دوبارہ فتح (reconquer)کرنا چاہتے ہیں۔
یہودیوں کے ساتھ بھی یہ ظلم عظیم (monstrous) ہے کہ انھیں فلسطین میں دھکیلا جارہا ہے۔ دیانت داری کا تقاضا تو یہ ہے کہ تبدیلی وطن کی خاطر یہودیوں کی فلسطین میں آمد کو ختم (cessation)کر دیا جائے۔ پہلے ہی پانچ لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں داخلے کا پروانہ دیا جاچکا ہے، اور یہ تعداد مقامی عرب آبادی کی ایک تہائی کے برابر ہے، جسے کوئی ملک نہ گوارا کرے گا اور نہ کرسکتا ہے،اور نہ اس کی کوئی مثال موجود ہے۔
امریکا کا نہ کوئی ضمیر ہے، نہ اسے عدل یا انصاف کا کوئی پاس و لحاظ ہے (United States as having no conscience or any regard for fairplay or justice) امرواقعہ یہ ہے کہ امریکی صہیونی، امریکا کو ناک سے پکڑ کر جدھر چاہتے ہیں موڑ کر لے جاتے ہیں....انگلستان اور امریکا، فلسطین سے نکل جائیں اور عربوںاور یہودیوں کو اپنے طور پرمسئلہ حل کرنے دیں۔ (The Dawn / The Chronical  ،۳۱جولائی ۱۹۴۶ء، Quaid-e-Azam and The Muslim World، ص۱۵۱،۱۵۲)
پاکستان بننے کے فوراً بعد بھی پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے فلسطینیوں کے حق میں قرارداد منظور کی اور ۱۳ستمبر ۱۹۴۷ء کو قائداعظم نے مفتی امین الحسینی کو خط میں یقین دلایا کہ ’’ہم آپ کی آزادی پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے‘‘۔ قائداعظم کے خیالات کو پاکستان کی تمام حکومتوں نے بھرپور طریقے سے آگے بڑھایا اور اب وزیراعظم عمران خان نے بھی کھل کر اعلان کیا ہے کہ ’’اسرائیل کے بارے میں پاکستان کی پالیسی وہی رہے گی جو قائداعظم کی تھی‘‘۔ وزیراعظم کے لیے یہ الفاظ کہنا آسان نہیں تھے، وہ بھی اپنے دفتر خارجہ کی طرح ایک گول مول بیان دے سکتے تھے۔ دفتر خارجہ اور وزیراعظم کے موقف میں فرق سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان پر دباؤ ہے۔
پاکستان کو چاہیے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے والوں کو بتائے کہ ’’ہم نے بڑی مشکل سے انتہا پسندی پر قابو پایا ہے۔ اگر پاکستان پر کوئی ایسا فیصلہ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو ردعمل میں انتہاپسندی پھیلے گی۔ اس لیے ہمیں علامہ اقبال اور قائداعظم کے راستے پر رہنے دو‘‘۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں یوں تو طرح طرح کے مفروضے گھڑے اور قسم قسم کی باتیں پھیلائی جارہی ہیں، تاہم اُردوکے ایک معروف کالم نگار نے گذشتہ دنوں لکھا: ’’ہم پاکستانی بھی کیا دل چسپ قوم ہیں، ہم نے فلسطینیوں کی محبت میں اسرائیل کو تسلیم بھی نہیں کیا اور ہم نے عملی طور پر آج تک فلسطینیوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ آپ تاریخ نکال کر دیکھ لیں ہمارا کون سا صدر، وزیرساعظم یا وزیر آج تک فلسطین گیا، یا ہم نے آج تک فلسطین کے لیے کون سی قربانی دی؟‘‘
کالم نگار کو یاد نہیں رہا کہ فلسطین، اسرائیل کے محاصرے میں ہے۔ ۱۹۹۴ء میں پاکستان کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو، بوسنیا کے بعد غزہ کا دورہ کرنا چاہتی تھیں، لیکن جب اُنھیں مصری حکام نے بتایا کہ’’ غزہ جانے کے لیے اسرائیل سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے‘‘ تو اُنھوں نے فلسطین کے دورے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ ۱۹۹۴ء ہی کے دوران جنیوا میں یاسرعرفات سے مرحومہ بے نظیر کی ملاقات ہوئی، جس میں انھوں نے یاسرعرفات کو بتایا کہ ’’مجھے کہا جاتا ہے اگر پی ایل او کے اسرائیل سے مذاکرات ہوسکتے ہیں تو پاکستان اور اسرائیل میں بات کیوں نہیں ہوسکتی؟‘‘ یہ بات سن کریاسرعرفات غصے سے پھٹ پڑےاور بوجھل لہجے میں کہا : ’’ہمیں تو مار مار کر اسرائیل سے مذاکرات پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل کے لیے تیار نہیں لیکن وہ مذاکرات کے ذریعے ہمیں صرف غلام بنانا چاہتا ہے۔ اور اگر پاکستان نے اسرائیل سے دوستی کرلی تو ہم مذاکرات کے بھی قابل نہیں رہیں گے‘‘۔ اس ملاقات کے بعد اپنی زندگی کے آخری لمحے، تک بے نظیر نے اسرائیل کی مناسبت سے ایسی کسی بات کا صفحہ ہی پھاڑ دیا تھا۔
مذکورہ کالم نگار نے ایک جانب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں بڑے مضحکہ خیز دلائل دیے ہیں، اور دوسری طرف اس معاملے پر مہذب انداز سے علمی اور منطقی دلائل پیش کرنے کے بجائے فلسطین کے بارے میں علامہ اقبال اور قائداعظم کے خیالات کا حوالہ دینے والوں کا مذاق اُڑایا ہے۔ گذشتہ برسوں کے دوران فلسطین کے بارے علامہ اقبال اور قائداعظم کے بیانات اور تقریروں کا سب سے زیادہ ذکر تو اپنے کالموں میں، میں نے کیا تھا۔ اگر اس جُرم کے ارتکاب پر موصوف مجھ پر تنقید کرتے تو بُرا نہ مانتا، لیکن وہ بانیان پاکستان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
ہمارے پاس دلیل ختم ہو جاتی ہے تو ہم سفارتی اور سیاسی ایشوز میں بھی اسلام ڈال دیتے ہیں، اور اگر اسلام فٹ نہ ہو رہا ہو تو ہم اس میں علامہ اقبال اور قائداعظم ڈال کر دوسروں کو خاموش کر دیتے ہیں، اور ہم یہ کارنامہ سرانجام دیتے وقت بھول جاتے ہیں کہ علامہ اقبال نے سانحۂ جلیانوالہ باغ کے باوجود ’سر‘ کا خطاب قبول کر لیا تھا، اور قائداعظم ۱۹۴۷ء میں اس ملکہ برطانیہ کے دستخطوں سے پاکستان کے گورنر جنرل بنے تھے، جس نے فلسطین پر قبضہ کر رکھا تھا۔
ہمیں اپنی مرضی کی تاریخ پڑھانے والے یہ امرواقعہ کیوں نہیں بتاتے کہ جون ۱۹۶۷ء میں  عرب اسرائیل جنگ کے دوران یہاں صدر ایوب حکمران تھے، تب پاکستان ایئر فورس نے اُردن اور عراق کی فضائی حدود میں کئی اسرائیلی طیارے مار گرائے تھے۔ پھر ۶سے ۲۴؍اکتوبر ۱۹۷۳ء کے دوران عرب اسرائیل جنگ رمضان میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان ایئر فورس کا ایک پورا اسکواڈرن شام بھیج دیا تھا، جس میں شامل پاکستانی جاںبازوں نے صرف شام نہیں بلکہ مصر کی فضائی حدود میں بھی اسرائیلی طیارے مار گرائے اور پوری عرب دنیا سے داد پائی۔ کیا یہ عربوں کی عملی مدد نہیں تھی؟ یہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ جناب فیض نے اپنے بڑھاپے کے آخری چند سال بیروت میں گزارے اور فلسطینیوں کے لیے نظمیں لکھیں۔ کیا یہ ایک سربرآوردہ پاکستانی کی فلسطین کے لیے عملی جدوجہد نہیں تھی؟___  ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ بہت سے طاقت وَر اور با اثر لوگ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حق میں خود سامنے آ کر بولنے کے بجائے میڈیا کے کچھ لوگوں کو استعمال کر رہے ہیں۔
اب آ جائیے علامہ اقبال اور قائداعظم پر کیے جانے والے اعتراضات کی طرف:
افسوس کہ اسرائیل سے تعلقات کے ’فضائل‘ بیان کرنے والوں کو مسئلہ فلسطین کی مناسبت سے علامہ اقبال اور قائداعظم کے ذکر پر بہت غصہ آ جاتا ہے۔ اسی لیے اب ان دو محترم شخصیات کو متنازعہ بنا کر اپنا ہدف حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ کچھ عرب حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کی جا سکے۔ یہ کہنا کہ علامہ اقبال نے ’سانحۂ جلیانوالہ باغ کے باوجود ’سر‘ کا خطاب قبول کیا‘ کوئی نیا اعتراض نہیں ہے۔{ FR 664 } علامہ اقبال نے ۱۳؍اپریل ۱۹۱۹ء کے سانحہ جلیانوالہ باغ کے خلاف لاہور میں ہونے والے جلسے سے خطاب کیا اور اس سانحے پر اشعار بھی کہے۔{ FR 665 } اس سانحے کے چار سال بعد ۱۹۲۳ء میں علامہ اقبال نے ’سر‘ کا خطاب قبول کیا تھا، اور دل چسپ بات یہ ہے کہ اس خطاب کی قبولیت کے باوجود اقبال کے طرزِ فکر اور اظہارِبیان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ ۱۹۳۰ء میں تواُنھوں نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ مملکت کا مطالبہ بھی کر دیا۔
یہ کہنا کہ ’’اُنھوں نے ملکہ برطانیہ کے دستخطوں سے گورنر جنرل بننا کیوں قبول کر لیا؟‘‘ ایک کمزور اور نہایت بودی دلیل ہے۔اصل بات یہ ہے کہ قائداعظم اور مسلم لیگ ۱۹۱۷ء سے ۱۹۴۷ء تک مسلسل فلسطین کی حمایت کرتے رہے اور ۲۶؍ اگست ۱۹۳۸ء کا دن یومِ فلسطین کے طور پر منایا۔
وہ جو یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ’’براہِ مہربانی یہ بتائیں کہ پاکستان کو اسرائیل سے تعلقات قائم نہ کرکے کیا ملا؟‘‘ میں ان افلاطونوں سے یہ پوچھتا ہوں کہ آپ ہی بتا دیجیے کہ ’’ترکی، مصر اور اُردن کو غاصب، ظالم اور جارح اسرائیل کو تسلیم کر کے کیا ملا؟ ‘‘
یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اسرائیل پر تنقید کا مطلب یہودیوں سے دشمنی نہیں بلکہ نسل پرست، انسانیت کش اورفسطائی صہیونیت کی مخالفت اور فلسطین پر جارحیت کرکے قبضہ کرنا قابلِ مذمت ہے۔ بلاشبہہ بہت سے یہودی بھی اسرائیل کی اس درندگی پر تنقید کرتے ہیں۔ انسانی، اخلاقی، قانونی، تہذیبی بنیادوں پر ہم فلسطینیوں کی حمایت اس لیے بھی کرتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کی طرح مظلوم ہیں۔ اسی لیے قائداعظم نے مسئلۂ فلسطین کو مسئلۂ کشمیر سے جوڑا ہے۔ اگر ہم نے فلسطین پر اقوام متحدہ کی قراردادیں نظر انداز کر کے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تو کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بارے میں پاکستان کا موقف ختم ہوجائے گا۔ یہاں پاکستان کے حکمران طبقوں پر یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اس معاملے پر جو بات بھی ہو اسے بندکمروں میں نہیں بلکہ پارلیمنٹ کے کھلے اجلاس میں زیربحث لانا ہوگا۔قوم کو نہ دھوکے میں رہنا چاہیے اور دھوکے میں رکھنا چاہیے۔

یہ تاریخ مسخ کرنے والے
عامر خاکوانی

اسرائیل کو تسلیم کرنے یا تسلیم نہ کرنے کے سوال پر غیرجذباتی اور منطقی گفتگو کرنے کے بجائے، یہ سخت افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے دانش وَر نہایت جذباتی لب ولہجے میں تاریخ کے پرخچے اڑا نے میں بھی کچھ حرج نہیں سمجھتے، واقعات کی من پسند تعبیرکرتے اور تاریخ کے سینے میں خنجر گھونپ دیتے ہیں۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے کے سوال پر اُردو کے ایک کالم نگار نے طنزیہ اسلوب میں تحریر کیا ہے: ’’ہمارے پاس جب دلیل ختم ہوجاتی ہے تو ہم سفارتی اور سیاسی ایشوز میں بھی اسلام کو ڈال دیتے ہیںاور اگر اسلام فٹ نہ ہو رہا ہوتو ہم اس میں علامہ اقبال اور قائداعظم ڈال کر دوسروں کو خاموش کردیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیںکہ قائداعظم ۱۹۴۷ء میں اس ملکہ برطانیہ کے دستخطوں سے گورنر جنرل بنے تھے، جس نے فلسطین پر قبضہ کر رکھا تھا…‘‘۔
 سب سے پہلے تو یہ واضح رہے کہ ۱۹۴۷ءمیں ملکہ برطانیہ حکمران نہیں تھی بلکہ اس کے والد کنگ جارج ششم حکمران تھے۔ ملکہ ایلزبتھ دوم تو پانچ سال بعدفروری ۱۹۵۲ء میں اس مسند پر فائز ہوئیں۔ موصوف نے یہ بات اس طرح کہی ہے، جیسے برطانوی بادشاہ نے قائداعظم کو کسی نجی ملازمت کے تقرر کا کوئی خط جاری کیا ہو۔ تاریخ اور سیاسیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ برطانوی بادشاہ تو براے نام حکمران ہے۔  برطانوی پارلیمنٹ ہی میں ’انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ۱۹۴۷‘منظور ہوا ، تاہم رسمی طور پر شاہ برطانیہ کی جانب سے حکم نامہ جاری ہوا۔
یہ وضاحت ضروری ہے کہ گورنر جنرل کے حلف میں کنگ جارج ششم سے وفاداری کاحلف لیا جانا تھا، لیکن قائداعظم نے اپنے قلم سے حلف نامہ میں یہ جملہ لکھ کر شامل کیا کہ ’میں پاکستان کے آئین کا وفاداررہوں گا‘۔ قائداعظم نے اس رسمی وثیقے میں بھی واضح کر دیا کہ بطور گورنر جنرل میرے لیے پاکستان کا بننے والا آئین زیادہ اہم ہوگا، شاہ جارج ششم نہیں۔ دوسری جانب نام نہاد ترقی پسندی کے دعوے دار پنڈت نہرو نے بھارتی گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن کے حلف میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں کرائی۔
رہا کالم نگار کا یہ طنز کہ ’’اسلام کو سیاسی اور سفارتی معاملات میں فٹ کردیتے ہیں‘‘ تو عرض یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنی سفارتی ، سیاسی اور قومی پالیسیوں میں اسلامی اصولوں کو ملحوظ کیوں نہ رکھے؟ اسلام ہماری زندگی کا اہم ترین جز ہے، ضابطۂ حیات ہے۔ ہماری انفرادی اور قومی اخلاقیات کے سوتے ہمارے دینِ اسلام اوراسی کے نظام فکروتہذیب سے پھوٹتے ہیں۔  
یہی کالم نگار طعنہ زن ہیں:’’اٹھاون اسلامی ممالک میں سے کسی نے آج تک فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دیا، سوائے ایران کے، جو ۴۲برسوں سے فلسطینیوں، لبنانیوں اور شامیوں کے ساتھ کھڑا ہے‘‘۔یہ جملہ ناقابل فہم حد تک گمراہ کن ہے۔ لبنان اور شام کا فلسطین سے کیا موازنہ؟کیا ان کے نزدیک لبنان کا بھی فلسطین جیسا کوئی معاملہ ہے؟ وہاں پر کسی نے قبضہ کر رکھا ہے اور لبنانیوں کو لبنان سے نکال باہر کیا ہے ؟شام میں خانہ جنگی ہوئی اور شام کے اپنے لوگوں نے بشارالاسد کی سفاک آمرانہ حکومت کے خلاف بغاوت کی، جسے بشار کی فوج نے بے رحمی سے کچل ڈالا۔ بلاشبہہ اس بھڑکتی آگ میں دوسرے علاقائی کھلاڑی بھی کود پڑے، مگر اصل مسئلہ شام پر الاسد خاندان کا جبر اور تسلط ہے۔شام اور لبنان کا فلسطین کے ساتھ ذکر کرنا پرلے درجے کی بدذوقی ہے۔
 کالم نگار نے خود پاکستانیوں کو کئی طعنے دے ڈالے ہیں:’’ہم پاکستانی اگر واقعی فلسطین سے مخلص ہیں تو چلیے پھرہم فلسطین کے لیے جہاد کرتے ہیں، نکلیں ۲۰ کروڑ پاکستانی اپنے گھروں سے اورچل پڑیں اسرائیل کی طرف…‘‘۔ آگے جا کر لکھا: ’’مجھے اس محبت کی سمجھ نہیں آئی جس میں ہم یہودیوں کی فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر اسرائیل مردہ باد کی پوسٹ شیئر کرتے ہیں‘‘… یہ ہے وہ آئیڈیا، جو ہم پاکستانیوں کو عقل سکھانے پراصرار کرتے ہوئے محترم دانش وَر نے پیش کیا۔ اسرائیل جیسے غاصب ملک سے فلسطینیوں کا جائز حق لیے بغیر اس کو تسلیم کر لیا جائے، اس کا قبضہ جائز مان لیں اور اگر ایسا نہیں کرتے تو پھر ۲۰ کروڑ پاکستانی گھر سے نکل کر فلسطین پہنچ جائیں۔ کیا ان دونوں انتہاؤں کے درمیان کچھ بھی نہیں ؟
’’ یہودیوں کی فیس بک، ٹوئٹر ، انسٹا گرام کا طعنہ‘‘ دیتے وقت انھیں یہ بات ضرور بتانی چاہیے تھی کہ کیا یہ ایپس بھی خود کو یہودی ایپ کہلانا پسند کرتے ہیں؟ فیس بک ، انسٹاگرام کا مالک مسٹرمارک زکربرگ اپنا تعلق اصلاح پسند یہودی فیملی سے بتاتے ہیں۔ دراصل یہ سب گھسے پٹے، اور سطحی طعنے ہیں، جو ویسے ہی مسخ ہوچکے ہیں۔ دنیا بھر میں احتجاج کے بہت سے طریقے ہیں اور مختلف حکمت عملیاں اپنائی جاتی ہیں۔ کچھ نہ ہو پا رہا ہوتب بھی اپنا اصولی موقف برقرار رکھا جاتا ہے۔ آپ کئی بار ظلم کے سامنے مجبور ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں کیا ظالم کا ساتھی بن جایا جائے؟اور اگرظالم طاقت ور ہے، اس سے لڑ نہیں سکتے تو کیا پھر اس کے قدموں میں گر جایا جائے؟
یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ قلم کار جن کا فرض قوم کی تربیت کرنا ، ان میں شعور پیدا کرنا ہے۔ جب وہی حقائق مسخ کریں، تاریخی واقعات کو توڑ موڑ کر پیش کریں، غلط تناظر میں سخت جذباتی بھاشن دیں ، تب زوال کا سفر تیز تر ہوگا اور قوم مزید انتشار کا شکار ہوگی۔

 

یہ امر واقعہ ہے کہ جلد بازی میں اور خوب سوچ بچار کے بغیر مسلط کیے گئے فیصلے قوموں اور ملکوں کی زندگی پر دُور رس منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یوں بظاہر کوئی چھوٹا سا فیصلہ ،بعض اوقات ملکوں کے مستقبل کا نقشہ بدل دیتا ہے۔جموں وکشمیر کاقضیہ، جدید بین الاقوامی تعلقات کی دنیا میں ایک دہکتا ہوا انگارہ ہے۔ اقوام متحدہ کی بے بسی، عالمی طاقتوں کی ظالمانہ لاتعلقی اور بھارت کی عہدوپیمان شکنی اور کشمیر کے مظلوم عوام پر بدترین فوج کشی نے دنیا کے سامنے ایسا منظر پیش کیا ہے، جس پر ہر درد مند انسان خون کے آنسو روتا ہے۔
بھارت میں برسراقتدار راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور بی جے پی کی نسل پرست فسطائی حکومت نے اس ماحول کو حددرجہ درد ناک بنا دیا ہے۔ اسی پس منظر میں عالمی اداروں کی بے حسی سے شہ پا کربھارتی حکومت نے ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو ایک تباہ کن یلغار کے ذریعے پورے جموں و کشمیر کو ایک قتل گاہ اور بدترین بڑی جیل میں تبدیل کر دیا۔اس جارحیت پر حکومت پاکستان کی ذمہ داری تھی کہ پوری قوت سے مسئلے پر عالمی راے عامہ کو متحرک کرتی۔ مگر روایتی سستی اور ترجیحات کی دیرینہ خرابی آڑے آئی۔ بجائے اس کے کہ بھارتی عہد شکنی اور جموں و کشمیر کی وحدت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی روش کے خلاف سراپا احتجاج بن کر دنیا کو ہم نوا بنایا جاتا، پاکستان میں ایک دوسرا ہی منظر ابھرتا دکھائی دیتا ہے، اور وہ ہے شمالی علاقہ جات، یعنی گلگت و بلتستان کو پاکستان کا عارضی صوبہ بنانے کا خطرناک منصوبہ۔ اس ضمن میں ہم نہایت درد مندی سے برسرِاقتدار اور فیصلہ سازی کے ذمہ دار سرگرم افراد اور اداروں کو متنبہ کرتے ہوئے ، بلاکم وکاست اپنی رائے پیش کر رہے ہیں:
        تمام بین الاقوامی، سیاسی، تاریخی اور جغرافیائی شواہد کے مطابق شمالی علاقہ جات ، ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ہیں۔ جموں وکشمیر ایک ایسی وحدت ہے جس میں لداخ ، جموں ،وادیِ کشمیر اور شمالی علاقہ جات شامل ہیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت سے لے کر آج تک، پاکستان کا یہی موقف ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی اسی پوزیشن اور قومی اتفاق راے کی بات کی ہے، اور آزاد کشمیر اسمبلی نے تو ۲۰۱۴ء میں ایک متفق علیہ قرارداد کے ذریعے نہ صرف اس کا اعتراف و اظہار کیاہے ، بلکہ اسے پاکستان اور کشمیری عوام کی جانب سےمسئلہ کشمیر پرموقف کا لازمی حصہ قرار دیا ہے، نیز اسی موقف کو اقوام عالم اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تسلیم کر رکھا ہے۔
        ۱۶جنوری ۱۹۴۸ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ۲۲۸ ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، تب پاکستان کے وزیرخارجہ سرظفراللہ خاں نے کہا تھا:
The population of Kashmir is distributed community as follows: in Kashmir proper, apart from Jammu, 93.5 percent are Muslims. 62 percent of the population of Jammu are Muslims. Gilgit, which is the high mountain in region is entirely Muslim. The total area of the state, which is largely composed of high mountains and barren hills, is 82000 square miles.
کشمیر کی آبادی اس طرح سے ایک منقسم آبادی ہے: جموں کے علاوہ کشمیر میں ۹۳ء۵ فی صد مسلمان ہیں۔ جموں کی ۶۲ فی صد آبادی مسلمان ہے۔ گلگت جو بلندپہاڑی خطہ ہے، مکمل طور پر مسلمان ہے۔ ریاست کا کُل رقبہ جو بڑے پیمانے پر اُونچے اوربنجرپہاڑوں پر مشتمل ہے، ۸۲ہزارمربع میل ہے۔
        ریاست جموں و کشمیر کے شمالی علاقہ جات ۷۲ ہزار۹سو ۷۱ مربع کلو میٹر سے زیادہ وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں،جن کی آبادی ۱۸ لاکھ ہے۔ اورجب بھی جموں و کشمیر میں استصواب راے ہوا، تو یہ سبھی ووٹ ان شاء اللہ، پاکستان سے الحاق کے حق میں جائیں گے۔
        پیپلز پارٹی کے چوتھے دور حکومت (۲۰۰۸ء-۲۰۱۳ء) میں صدر آصف علی زرداری صاحب نے اگست ۲۰۰۹ ء کے دوران میں’ گلگت بلتستان امپاور منٹ اینڈ سیلف گورنس‘ ، کے نام سے داخلی خود مختاری ، کا حکم نامہ جاری کیا ۔ اس حکم نامے کے تحت’ شمالی علاقہ جات‘ کو ’گلگت بلتستان‘ کا نام دیتے ہوئے، گورنر اور وزیر اعلیٰ کے انتظامی عہدے تفویض کیے، جب کہ قانون سازی و مالیاتی اختیارات اس کی مجوزہ منتخب اسمبلی کو دیے گئے، اور اس کی کونسل کا چیرمین وزیر اعظم پاکستان کو قرار دیا گیا۔
        ذرا پیچھے چل کر دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۷۲ء میں ’شملہ معاہدے‘ کے بعد بیوروکریسی نے تب صدر پاکستان جناب ذوالفقارعلی بھٹو کو بھی یہ تجویز دے کر قائل کرلیا تھا کہ ’’گلگت بلتستان کو الگ صوبہ بنایا جائے‘‘۔ لیکن جیسے ہی انھوں نےاس تجویز پر عمل درآمد کے منفی اثرات پر جوابی دلائل سنے تو اس تجویز پر پیش رفت روک دی۔ اب انھی سے وابستگی کی دعوے دار پارٹی ایک غلطی کرنے کے بعد، اپنی غلطی کا ازالہ کرنے سے گریز کررہی ہے۔
        جلدبازی میں اٹھائے گئے اس قدم پر آزاد کشمیر ، مقبوضہ جموں و کشمیر اور خود شمالی علاقہ جات کی بیش تر سیاسی و سماجی پارٹیوں نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا۔
       حکومت پاکستان نے ، خود پاکستان کے کئی علاقوں کی طرح، ا س علاقے کے لوگوں کے بھی سیاسی ، سماجی ، تعلیمی ، معاشی اور صحت عامہ کے حقوق کی بجا آوری سے پہلو تہی کا رویہ اختیار کیے رکھا تھا۔ جب یہاں کے شہری معاشی تنگ دستی پر چیخ اُٹھے تو اس کا ملبہ آزاد کشمیر حکومت پر ڈال دیا، اور یہ فلسفہ تخلیق کیا گیا کہ’ پاکستان اس علاقے کو ضم کرے گا تو سماجی، عدالتی، دستوری اور معاشی حالات بہتر ہو جائیں گے‘۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بے معنی اوربودا عذر تھا۔ پیپلزپارٹی حکومت کے عاجلانہ فیصلے کے گیارہ برس گزرنے کے باوجود، وہاں حالات جوں کے توںہیں۔ حکومت کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ آزاد کشمیر اور اس سے وابستہ شمالی علاقہ جات کی تعمیر وترقی کے لیے آزاد کشمیر کی فراخ دلانہ مدد کرتی، لیکن افسوس کہ کم و بیش ہرحکومت نے اس معاملے میں سرد مہری کا رویہ اختیار کیا، اور بجائے اس کے کہ خرابی کو دُور کیا جاتا، ایک غلط راستے پر چلنے کے حیلے بہانے تلاش کرنے شروع کر دیے۔
        بلاشبہہ گلگت بلتستان اور اس کے ساتھ آزاد کشمیر کے سبھی حصوں کے احساسِ محرومی کو ختم ہونا چاہیے۔ لیکن خاص طور پر اس علاقے کی معاشی محرومیوں کو دُور کرنے کے نام پر اختیار کیا جانے والا یہ ایک انتہائی نامناسب راستہ ہوگا، جس سے مسئلہ کشمیر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ سوال یہ ہے کہ قضیۂ کشمیر اور اس کے بارے میں پاکستان کے اور اسٹرے ٹیجک موقف کو نقصان پہنچائے بغیر یہاں کے عوام کو معاشی، سیاسی اورسماجی طورپر کیوں اُوپر نہیں اُٹھایا جاسکتا؟ اگرپس ماندہ علاقوں کی بہتری کےنام پر دستورِ پاکستان سے ہٹ کر حل تلاش کرنے کے لیے ایسی روایت اپنا لی گئی تو معاملات گرفت سے باہر نکل جائیں گے۔ جس طرح آزاد کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بلکہ وہ مسئلہ حل ہونے تک پاکستان کی زیرنگرانی ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان بھی آزاد کشمیر کا حصہ ہونے کی حیثیت سے یہی مقام رکھتا ہے، اور ان کے مستقبل کا فیصلہ مسئلہ کشمیر کے حل سے منسلک ہے۔
        پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ’ ’عالمی مالیاتی ادارے یا بڑے سرمایہ کار یہاں سرمایہ لگانے سے گریزاں ہیں۔ ان کا اعتراض دُورکرنے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے‘‘۔ یہ عذر تو حددرجہ پست ہے۔ کیا کسی معاشی منصوبے کی تکمیل کے لیے ملک کے سیاسی اور تاریخی موقف کی قربانی دینا کوئی معقول راستہ ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ سرمایہ کاری کو قومی مفاد کے تابع رکھتے ہوئے قابلِ قبول بنایا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے اَن تھک سفارتی، مذاکراتی اورعلمی سطح پر تگ ودو کی ضرورت ہے،اور یہ کام ہماری اعلیٰ سول اور سیاسی قیادت کو کرنا چاہیے۔
مسئلے کی نزاکت اور غورطلب پہلو
یہ ہے وہ پس منظر، جس میں گذشتہ چند ہفتوں سے راولپنڈی میں چیف آف دی آرمی اسٹاف کی زیر صدارت پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں سے مذاکرات کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جس میں جموں وکشمیر کے شمالی علاقہ جات، یعنی گلگت بلتستان کو عبوری طور پر پاکستان کے پانچویں صوبے کی شکل دینے کی تجویز پر عملاً ڈکٹیشن دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ضمن میں ہم یہ اُمور وضاحت سے بیان کرنا چاہتے ہیں:
        یہ بات صاف لفظوں میں ہرخاص و عام پر واضح رہنی چاہیے کہ پاکستان میں کاروبارِ ریاست و حکومت انھی اصولوں کے مطابق چلا یا جائے گا، جو دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں طے شدہ ہیں۔ مطلب یہ کہ اس نوعیت کے امور منتخب حکومت، پارلیمنٹ اور دستور کے تابع زیر بحث آئیں گے اور تمام اداروں کو اپنے حدود کار میں ریاست اور قوم کی خدمت کی بجاآوری کرنا ہوگی۔ انتظامیہ ، مقننہ ، عدلیہ ، عسکری اداروں اور سول ملازمین کو متعین شدہ دائرے میں خدمات انجام دینا ہوں گی، اور اسی چیز کا حلف، دستور کے مطابق سبھی ذمہ داران ریاست نے اٹھایا ہے۔  
         چیف آف دی آرمی اسٹاف ، دفاع وطن کے حوالے سے ایک بڑے محترم اور حددرجہ حساس منصب پر فائز ہیں۔ انھیں سیاسی امور کی بحثوں میں شرکت سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اپنی آرا ، وزارت دفاع کی وساطت سے یا دستور میں طے شدہ سلامتی کے اعلیٰ فورم کے ذریعے حکومت کو پیش کرنی چاہییں۔ پھر ان اُمور کو طے کرتے وقت حکومت ،وزارتِ خارجہ، وزارتِ داخلہ اور وزارت قانون کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکمت عملی طے کرتے وقت بجاطورپر مسلح افواج کے مشوروں اور آرا کو بھی زیر غور لائے اور کھلے عام بحث کے بعد مناسب فیصلے کیے جائیں، جن پر ان کی روح کے مطابق، مگر لازمی طور پر دستورِ پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے عمل کیا جائے۔
       اس ضمن میں بعض ’دانش مندوں‘ کا یہ کہنا کہ ’’قومی مسلح اداروں نے تو اس معاملے میں محض سہولت کاری کی ہے، کیونکہ حکومت اور اپوزیشن میں کھلا مکالمہ نہیں ہورہا‘‘۔ یہ بہت عجیب اور نہایت کمزور مفروضہ ہے۔اس کا مطلب ہے کہ کل سپریم کورٹ اپنا کام چھوڑ کر سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں سے مذاکرات کرکے کسی ’اتفاق راے‘ کو ڈھو نڈنے نکلے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ اگر بدقسمتی سے موجودہ حکومت ضد اور اَنا کے باعث اپنی منصبی ذمہ داری ادا کرنے،سب کو سننے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے سے معذور ہے تو اس کا حل نئے     قومی انتخابات ہیں نہ کہ ریاستی آئینی ڈھانچا تلپٹ کر دینا اور غیرآئینی روایات قائم کرناکوئی معقولیت ہوگی۔
        ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے ’جوں کے توں‘ (stand still) منظر نامے کو تبدیل کرنا اوراس سے چھیڑ چھاڑ کرنا، بھارتی منصوبہ سازوں کی پرانی خواہشات کی تکمیل ہوگا۔ پاکستان کا اصولی موقف یہ ہے کہ ’’اقوام متحدہ کی متفقہ قرار داد وں کے مطابق جموں و کشمیر کے عوام اپنے مستقبل کا  فیصلہ کریں گے‘‘۔البتہ بھارت کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ ’’پاکستان ، اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے سرِ مو انحراف کر کے ، جموں و کشمیر کی وحد ت کے ٹکڑے بانٹنے کی میز سجائے‘‘۔ پاکستان نے بھارت کی اس چال کو ہمیشہ ناکام بنایا اور بھارت نے ہر بار یہی کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان ،سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے متن سے باہر نکلے اورپھر بھارت یہ اعلان کرے کہ ’’پاکستان نے قرار دادوں سے دست برداری اختیار کر لی ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس طرح پاکستان کے اصولی موقف کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا، بلکہ موقف سرے سے ختم ہوجائے گا۔
         اگرچہ پاکستان کے بعض عجلت پسند سفارت کاروں نے مختلف اوقات میں مسئلہ کشمیر پر نہایت خطرناک بیان دیے ، لیکن ان افراد کی حماقتوں پر پاکستان کے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف صاحب بازی لے گئے۔ انھوں نے ۱۸ دسمبر ۲۰۰۳ء کو عالمی نیوز ایجنسی رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’’پاکستان، اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو ایک طرف رکھ کر بھارت سے مسئلہ کشمیر پر بات چیت کرنا چاہتا ہے ‘‘، اور پھر اسی آمر مطلق اور خود ساختہ حاکم نے پاکستان آبزرور کو انٹر ویو دیتے ہوئے انکشاف کیا:’’ میں نے بھارتی وزیرخارجہ نٹور سنگھ سے کہا ہے کہ آیئے، مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے سانچے سے باہر رکھ کر ایک سال کے اندر حل کر دیتے ہیں‘‘۔ جواب میں نٹور سنگھ نے کہا:’’ہم کو اس قدر جلدی نہیں ہے‘‘۔ (روزنامہ پاکستان آبزرور،۳۱ جولائی ۲۰۰۵ء)۔ اسی احمقانہ مہم جوئی کو تب وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری صاحب نے ’آؤٹ آف باکس‘کوشش قرار دیا۔ حالانکہ پاکستان کے کسی بھی حاکم کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ، کشمیر کے عوام کو نظرانداز کر کے ایسا کوئی قدم اٹھائے، کوئی عہدوپیمان کرے جو مسلّمہ موقف کے برعکس ہو۔  
         جنرل پرویز مشرف نے نہ صرف ایسے بیانات دے کر، بلکہ جموں و کشمیر کے متنازع علاقے میں بھارت کو باڑ لگانے کی اجازت دے کر، اور عملاً بھارتی فوج کی مدد کرکے کشمیر اور پاکستان کے عوام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ افسوس کہ اسی نوعیت کی منصوبہ سازی اب گلگت بلتستان کی ’معاشی بہتری‘ وغیرہ کے نام سے نئے صوبے کی صورت میں سامنے آرہی ہے۔ جنرل مشرف کا قدم مسئلہ کشمیر کی اصولی حیثیت پر خود کش حملہ تھا، تو  اب دباؤ ڈال کر یہ فیصلہ لینا، پاکستان اور کشمیری عوام کی تاریخی جدوجہد سے غداری کی طرف لے جائے گا، جس سے واپسی کا کوئی امکان نہیں ہو گا۔  
        اس منصوبے کے پیش کاروں کی طرف سے یہ ایک بالکل بے معنی عذر پیش کیا جا رہا ہے: ’’سی پیک‘‘ (چین پاک معاشی راہداری) کے لیے چین بھی یہ چاہتا ہے کہ شمالی علاقہ جات کو یک طرفہ طور پر پاکستان کا حصہ قرار دیا جائے‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوامی جمہوریہ چین کے پالیسی ساز ایسا غیرمنطقی اور غیر آئینی مطالبہ نہیں کر سکتے کہ جس سے پاکستان کے قومی مفادات پر ضرب کاری لگے اور جموں و کشمیر کی ۷۳ سال پر پھیلی طویل، دلیرانہ جدوجہد اور مظلومانہ قربانیوں کی تاریخ دریابرد ہو جائے۔ آخر ’شاہراہ قراقرم‘ (KKH) اسی ’جوں کی توں‘ صورت حال میں جموں و کشمیر کے متنازع علاقے سے گزر رہی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ’شاہراہِ قراقرم‘ سے بہتر شاہراہ کی تعمیر نے کون سے اور کس طرح سے نئے تقاضے لا کھڑے کیے ہیں کہ بین الاقوامی اور قومی معاملات کوتہہ و بالا کردیا جائے؟یاد رہے ۲۰۰۹ء میں عوامی جمہوریہ چین نے کشمیر ی باشندوں کی چین آمد کے لیے اپنی ویزہ پالیسی تبدیل کرتے ہوئے فیصلہ کیا تھا ، ’’جموں و کشمیر کے لوگ بھارتی پاسپورٹ کے بجائے سادہ کاغذ پر حلف نامے کے ذریعے چین کا ویزا لے سکتے ہیں‘‘۔ اس پر بھارتی حکومت نے احتجاج کیا تو چین نے بڑا مختصر جواب دیا: ’’کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے ، جو بھارتی یونین کا حصہ نہیں ہے‘‘(روزنامہ The Nation ، ۱۰؍ اکتوبر ۲۰۰۹ء)۔
        اگر پاکستان کے مقتدر حلقوں نے ، گلگت بلتستان کو صوبائی درجہ دے کر عارضی [اورپھر مستقل] صوبہ بنانے کا فیصلہ کر لیا، تو اس طرح بین الاقوامی سرحد تبدیل ہو جائے گی، جس کے نتیجے میں پوری لائن آف کنٹرول، خودبخود بین الاقوامی سرحد میں ڈھل جائے گی۔ اس صورت میں سارے علاقے سے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین ہٹ جائیں گے، اور ان مبصرین کو ہٹانا بھارت کا پرانا مطالبہ ہے۔ یہ سب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر ۹۱ (۱۹۵۱)اور قرارداد ۱۲۲، ۱۲۶ (۱۹۵۷) کے یکسر منافی ہوگا، جو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے انہدام کا سبب بنے گا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت بھی مقبوضہ جموںو کشمیر کی صورتِ حال پر عالمی عہدوپیمان کو یکسر توڑنے کا اعلان کرکے، مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ بنانے اور آزاد کشمیر پر دست درازی کے جواز کے لیے حکمت عملی وضع کرے گا۔ پاکستان اپنی ناقابلِ فہم عجلت پسندی سے بین الاقوامی تحفظ کے تمام وعدوں سے بھی محروم ہوجائے گا۔ یوں ایک گناہ بے لذت کے طور پر کشمیر کا مسئلہ ، بھارتی خواہشات کے مطابق، ٹکڑے ٹکڑے ہو کر دفن ہو جائے گا۔
        ایک مغالطہ یہ بھی پھیلایا جاتا ہے کہ ’بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برعکس رویہ اختیار کرکے کشمیر کی انتظامی اور آئینی حیثیت کو تبدیل کر دیا ہے، تو جواب میں اگر پاکستان بھی آزادکشمیر کے ایک محدود علاقے میں ایسا کچھ کرلے تو کون سی قیامت آجائے گی؟‘‘ یہ مفروضہ بھی سخت شرانگیزی کا شاخسانہ ہے۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو وہ یک طرفہ طور پر بین الاقوامی عہدوپیمان سے رُوگردانی کررہا ہے، مگراس کے ایسے منفی رویے سے قراردادیں اور عالمی فیصلے تبدیل نہیں ہوئے۔ لیکن جب دوسرا فریق بھی اسی عہدشکنی کا راستہ اختیار کرے گا تو قراردادوں کی بنیاد ڈھے جائے گی اور عالمی عہدوپیمان کی ساکھ ختم ہوجائے گی۔ مسئلہ کشمیر کی متنازع بین الاقوامی حیثیت صرف اور صرف تقسیم ہند کے اصولوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بنیاد پر قائم ہے، اور بھارت یہ چاہتا ہے کہ ان بنیادوں کو ختم کر دیا جائے۔
        جموں و کشمیر کی وحدت پر اس دست درازی کو زیربحث لاتے ہوئے کشمیر کی مزاحمتی قیادت، جس میں سیّدعلی شاہ گیلانی، محمد یاسین ملک، میرواعظ عمرفاروق اور دوسرے محترم قائدین شامل ہیں، ان سب کی متفقہ رائے ہے کہ ’’گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی کوئی بھی تجویز ناقابلِ قبول ہے۔ کیونکہ یہ قدم جموں و کشمیر کی وحدت اور بین الاقوامی پوزیشن کو تبدیل کرنے کے مترادف ہوگا‘‘۔اسی طرح آزادکشمیر کی قیادت، جس میں مسلم لیگ نون، مسلم کانفرنس، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی شامل ہیں، انھوں نے ۲۰۱۴ء میں آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی میں متفقہ قرارداد منظور کرکے اس ’پانچویں صوبے‘ کی تجویز کو مسترد کردیا تھا۔ اگر بھارت نے دھونس جماکر ایک غلط قدم اُٹھایا ہے تو اس کی غلطی کے جواب میں پاکستان کی جانب سے غلطی کا ارتکاب کہیں زیادہ بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہوگا۔   
        ہم ذرا ماضی میں جائیں تومعلوم ہوتا ہے کہ اکتوبر ۲۰۱۵ء میں نون لیگ حکومت کی قائم شدہ ’سرتاج عزیز کمیٹی‘ نے ’گلگت بلتستان کی پاکستان میں اس طرح شمولیت کی تجویز دی تھی کہ ’’این ایف سی، ایکنک وغیرہ کے ساتھ پاکستانی پارلیمنٹ میں بھی یہاںسے نمایندے لیے جائیں اور دیگر صوبوں کے مساوی حیثیت دی جائے‘‘۔ یوں پانچویں صوبے کا غلغلہ بلند ہوا، تو جموںو کشمیر کے طول و عرض میں اضطراب پھیل گیا اور کشمیری قیادت کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ جواب میں وزیراعظم محمدنواز شریف نے ۱۶مارچ ۲۰۱۶ء کو جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک کے نام خط میں وضاحت کی: ’’پاکستان، گلگت بلتستان سے وابستہ حساس اُمور سے پوری طرح واقف ہے۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان، جموں و کشمیر کے تنازع پراپنے اصولی موقف پر کبھی سمجھوتا نہیں کرے گا، وہی موقف کہ جو سلامتی کونسل کی قراردادوں پرمبنی ہے‘‘۔ { FR 1176 }
        پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۵۷ میں قومی پالیسی اور اس کے بنیادی اجزا کو نپے تلے الفاظ میں درج کردیا گیا ہے۔ اس کی روشنی میں گلگت اور بلتستان کو کسی شکل میں بھی پاکستان کا ایک صوبہ بنانا، اوروہاں سے پارلیمنٹ میں نام نہاد نمایندگی دینا، دستورِ پاکستان کی کھلی کھلی مخالفت اورقضیۂ کشمیر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کا ذریعہ ہوگا۔ دستور کے الفاظ ہیں: ’’جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کریں گے، تو پاکستان اور اس ریاست کے درمیان تعلقات، اُس ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق طے کیےجائیں گے‘‘۔
        ۱۹۷۳ء کے دستور پاکستان میں درج یہی الفاظ، ۱۹۵۶ء کے دستورِ پاکستان میں بھی شامل تھے۔ اس تسلسل سے یہ واضح کردیا گیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر ایک متنازع اور ناقابلِ تقسیم وحدت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھارت نے نام نہاد الحاق کے نام پر اپنے دستور میں جموں و کشمیر کے بارے میں دفعہ ۳۷۰ رکھی، تو پاکستان نے اس پر شدید احتجاج کیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی اس بھارتی اندراج کو تسلیم نہیں کیا ، اور اسے متنازع علاقہ قرار دیتے ہوئے پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام کا مشترکہ مسئلہ قرار دیا۔
        پاکستان کی حکومت، پارلیمنٹ اور تمام ریاستی ادارے اس امر کے پابند ہیں کہ دستور ی طور پر طے شدہ وعدے کے مطابق ، مسئلہ کشمیر اور اس سے منسلک علاقوں کے مستقبل کا فیصلہ جموں و کشمیر پر مشتمل وحد ت کی مرضی کے مطابق حل کرنے میں مدد دیں،اور اس عہدوپیمان کا احترام کریں۔ پاکستان اور بھارت دونوں مل کر یا الگ الگ ، جموں و کشمیر کے مستقبل کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہیں، تاآنکہ جموں و کشمیر کے مسلّمہ شہری ایک آزادانہ استصواب راے سے اپنی مرضی کا فیصلہ کریں۔
اندریں حالات، ہم پاکستان کی سیاسی و دینی جماعتوں کے ساتھ ساتھ، ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران اوردانش وروں سے اپیل کریں گے کہ وہ پاکستانی حکومت اور پاکستانی اداروں کو دستور اور قانون کا پابند بننے پر مجبور کریں اور جو سیاسی پارٹیاں اپنے غیر دانش مندانہ فیصلوں کے تحت محدود سیاسی فائدے کی اسیر ہیں، انھیںاپنی نا مناسب پالیسی پر نظر ثانی کرنے کا درس دیں ۔ اگر آج روایتی کاہلی اور عجلت پسندی سے معاملات کو بگاڑا گیا تو آنے والی نسلیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

 

 

مسلمانوں کی تمام تر زبوں حالی کے باوجود ایک طرف ترقی یافتہ اقوام میں اسلام کی مقبولیت، دین فطرت کے اپنے اوصاف کی بنیاد پر مسلسل بڑھ رہی ہے اور دوسری جانب اللہ کے اس پیغام کو تمام دنیا کے انسانوں تک پہنچانے کے لیے مبعوث کیے جانے والے نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہستی ہیں،جن کے بارے میں قدیم مذاہب کے ماننے والوں کو خود ان کی مذہبی کتابوں میں کھلی خوش خبریاں دی جاچکی ہیں۔ اس بنا پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ان کے لیے ہرگز اجنبی نہیں بشرطے کہ وہ اپنی مذہبی کتابوں کی ان گواہیوںسے پوری طرح واقف ہوں۔ ان حالات میں یہ سوال اہمیت اختیار کرجاتا ہے کہ یہ حالات دنیا کے مسلمانوں کو کیا مواقع مہیا کررہے ہیں اور ان میں ایک مسلمان کی حیثیت سے ان پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟

آج دنیا میں انسانی تاریخ کے تمام گذشتہ ادوار کی نسبت ہدایت الٰہی کی قبولیت کے لیے فضا سب سے زیادہ سازگار ہے۔ ماضی میں انبیا علیہم السلام کی دعوت کی قبولیت میں جو اسباب بنیادی طور پر رکاوٹ بنتے تھے، جدید ترقی یافتہ دنیا میں ان میں سے کوئی باقی نہیںرہا ہے بلکہ سائنسی تحقیق کے ابتدائی دور میں انکار خدا کا جو رجحان ابھرا تھا،جدید سائنسی تحقیقات نے اسے غلط ثابت کرکے اللہ کے وجود اور اس کی ہدایت کو تسلیم کیے جانے کی راہ ہموار کردی ہے۔ 

 توہم پرستی اور مظاہر فطرت کی پرستش کا خاتمہ

  انبیائے کرام کی دعوت کی قبولیت میںرکاوٹ بننے والا ایک بہت بڑا سبب توہم پرستی اور دیوی دیوتاؤں کو کائناتی اختیارات کا مالک سمجھنا تھا۔ توہمات کا یہ دور اب قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔ آج کا انسان سائنٹفک عہد کا انسان ہے۔اب نہ وہ زمانہ نوحؑ کی طرح یغوث، یعوق اور نسر جیسے خودساختہ خداؤں کے فریب میں مبتلا ہے ، نہ لات و منات اور ہبل و عزیٰ کو خدائی اقتدار کا حامل سمجھنے کی حماقت کا شکار۔جادو ٹونے پر اعتقاد کی باتیں بھی پرانی ہوئیں اور شجر و حجر، آگ پانی، سورج چاند اور دوسرے مظاہر کائنات کی پرستش کا دور بھی لد چکا۔ آج کا انسان پیکرِ محسوس کا اتنا خوگر بھی نہیں رہا کہ موسٰی کے نظر نہ آنے والے خدا پر ، سامری کے دکھائی دینے والے بچھڑے کو ترجیح دینے لگے۔ انسان پر انسان کی براہ راست خدائی بھی اب ماضی کی بات ہے۔آج کا انسان نمرود اور فرعون ہی کی نہیں، اسٹالن اور ماؤزے تنگ کی خدائی کو بھی مسترد کرچکا ہے۔

آبا و اجداد کی اندھی تقلید اور روایت پرستی سے نجات

انبیا ؑ کے راستے میں دوسری بڑی رکاوٹ باپ داد ا کی اندھی تقلید کی روش بنتی تھی۔ دعوتِ حق کے جواب میں ان میں سے سبھی کو اپنی قوم کے لوگوں سے یہ جواب سننے کو ملتا تھا کہ  حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَـا عَلَیْہِ اٰبَـآ ئَ نَـا ط (المائدہ ۵: ۱۰۴)،یعنی ’’ہمارے لیے تو وہی طریقہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ‘‘۔ رسولوں کے تمام دلائل رَدّ کرنے کے لیے ان کے نزدیک بس   یہ حجت کافی ہوا کرتی تھی کہ ہم نے تو اپنے بزرگوںکو جو کچھ کرتے دیکھا ہے وہی ہم کررہے ہیں۔

قرآن میں متعدد مقامات پر یہ بات بتائی گئی ہے کہ انبیا ؑکے راستے کی اصل رکاوٹ آباواجداد کی اندھی تقلید کا یہی روگ تھا، لیکن آج کی جدید ترقی یافتہ دنیا اس لحاظ سے بالکل مختلف ہے۔روایت سے بغاوت کا ایک زبردست اور طاقت وَر رجحان عہد حاضر کا ایک نمایاں وصف ہے۔ یہ بظاہر ایک منفی جذبہ نظر آتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس سے قبولِ حق کی راہ کی ایک بڑی رکاوٹ دُور ہوگئی ہے۔اس طرح اشاعت ِاسلام کے لیے یہ رجحان ایک ایسی نعمت بن گیا ہے، جس کا ماضی کے ادوار میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

عقائد کی تبدیلی پر معاشرتی جبر میں نمایاں کمی

گذشتہ زمانوں میں رسولوں کی دعوت کی راہ میں ایک اور بڑی رکاوٹ معاشرتی جبر تھا۔ ماضی کے ان اَدوار میں کسی شخص کے لیے آبائی عقائد ترک کرکے انبیا ؑ کے پیش کردہ دین کو اپنالینے کا مطلب اپنے گردوپیش کو اپنے خون کا پیاسا بنالینا تھا۔اس ناقابلِ معافی جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے تپتی ریت یا دہکتے انگاروں کا بستر ہوتا تھا۔ لیکن آج کے ترقی یافتہ دور میں عقیدے کی تبدیلی ایسی کسی انتہائی صورت حال سے سابقے کا سبب نہیں بنتی۔امریکا، کنیڈا، یورپ، آسٹریلیا اور یورپ کے ممالک سمیت جاپان اور کوریا جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی قبولِ اسلام کے واقعات روز کا معمول ہیں، لیکن اس کی بنا پر عام طور سے کسی کو تشدد کا نشانہ نہیں بننا پڑتا۔آج کی دنیا میں انسانی اور جمہوری حقوق کی شکل میں جو آزادیاں لوگوں کو حاصل ہیں، ان کے باعث دعوت الی اللہ کے فروغ کے لیے ایسی حوصلہ افزا صورت حال پیدا ہوگئی ہے، جس کی کوئی مثال انسانی تاریخ کے گذشتہ اَدوار میں ڈھونڈی نہیں جاسکتی۔

 انکارِ خدا پر مبنی نظامِ زندگی کی عبرت ناک ناکامی

عہد حاضر اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میںانسان نے اپنی پوری تاریخ میں پہلی بار خدا اور خدائی ہدایت کی ضرورت سے کلی انکار کرتے ہوئے ، خالص الحاد و دہریت کی بنیاد پر زندگی کی پوری عمارت تعمیر کرنے کا تجربہ کمیونزم کی شکل میں کیا۔ لیکن اس تجربے کی ناکامی پوری دنیا پر اس شان سے ثابت ہوئی کہ کمیونزم صرف ۷۰ برس کی عمر پاکر دنیا سے رخصت ہوگیا، اور جس سرزمین پر اس کی پرورش و پرداخت ہوئی، آج وہی اس کا مدفن ہے۔ اس کی چتا کو آگ لگانے کے سارے لوازمات بھی اپنوں ہی کے ہاتھوں پورے ہوئے، لیکن ان میں سے کسی کی آنکھ بھی اس کی موت پر اَشک بار نہیں ہوئی۔ خدا اور خدائی ہدایت سے انکار پر مبنی اس نظام کی کھلی ناکامی سے بھی یقینا دعوت الی اللہ کی قبولیت کے لیے ماحول کی سازگاری میں قابلِ لحاظ اضافہ ہوا ہے۔

 خالق و مخلوق میں حائل پیرانِ کلیسا کا غیر مو ٔ ثر ہوجانا

انیسویں صدی میں سائنس انکار خدا کی علَم بردار تھی۔ اس لیے یورپ میں سائنسی تحقیق و ترقی کے عمل کو ابتداً کلیسا کی جانب سے اپنائی گئی انتہائی سفاکانہ جارحیت کے باعث سائنس داں روح فرسا مظالم کا نشانہ بنے۔ اس کے ردعمل میں سائنس مذہب سے باغی ہوکر الحاد کی علَم بردار بن گئی۔لیکن اس ظاہری شر سے جو بہت بڑا خیر برآمد ہوا وہ یہ کہ خالق و مخلوق کے بیچ سے پیرانِ کلیسا کے حائل کردہ پردے اُٹھ گئے۔مذہب کے نام پر اس طبقے نے اپنے مفادات کے لیے جو جو ڈھکوسلے ایجاد کیے اور بندے اور خدا کے درمیان جو جھوٹے واسطے گھڑ لیے تھے، لوگوں کا اُن پر سے اعتقاد و اعتبار ختم ہوگیا اور بندے کے لیے اپنے رب سے بلاواسطہ تعلق کی راہ کھل گئی۔  قوانینِ فطرت کے براہ راست مطالعے اور مشاہدے نے سائنس ہی کے ذریعے انسان کو خدا تک پہنچا دیا۔ چنانچہ وہی سائنس جو کبھی نام نہاد مذہبی طبقوں کے خلاف ردعمل کے نتیجے میں دہریت کی وکیل بنی ہوئی تھی،آج تخلیق کائنات کے جواز کے لیے ایک خدا کے وجود کی پوری طرح قائل ہے۔

جدید سائنس خالق کائنات کے وجود کی معترف

جدید سائنس کے مسلّمہ قائد آئن سٹائن، خدا کو ایک سائنسی صداقت تسلیم کرتے ہیں۔ جدید سائنسی نظریات کے موضوع پر معروف کتاب ماڈرن سائنٹفک تھاٹ  میں سر جیمس جینز لکھتے ہیں:’’ جدید معلومات ہمیں مجبور کرتی ہیں کہ ہم اپنے پچھلے خیالات پر نظر ثانی کریں جو ہم نے جلدی میں قائم کرلیے تھے،یعنی یہ کہ ہم اتفاق سے ایک ایسی کائنات میں آپڑے ہیں جس کا خود زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اب ہم نے دریافت کرلیا ہے کہ کائنات ایک ایسی خالق یا مدبر طاقت کا ثبوت فراہم کررہی ہے جو ہمارے شخصی ذہن سے بہت کچھ ملتی جلتی ہے‘‘۔

 انسانیت اعترافِ حق کی منزل پر

اس طرح آج پوری انسانیت اعتراف ِحق کی ٹھیک اُس منزل پر آپہنچی ہے، جس پر پوری انسانی تاریخ میں انبیا ؑ اس کو لانے کی کوشش کرتے رہے، لیکن جس کی جانب وہ اپنے جاہلانہ عقائد، اوہام و خرافات، روایت پرستی، سیاسی و مذہبی طبقوں کے جبر ، اور آبا و اَجداد کی اندھی تقلید کے روگ کے سبب عالمی سطح پر اجتماعی حیثیت میں کبھی پیش قدمی نہ کرسکی۔مگر علمِ اشیا کی ترقی اور جدید تہذیب میں فکر کی آزادی نے آج انسان کو اِن تمام بیماریوں اور مجبوریوں سے نجات دلادی ہے، اور اب کائنات کے فطری حقائق کو مان لینا ، اس کے لیے انسانی تاریخ کے پچھلے تمام ادوار کی نسبت کہیں زیادہ آسان ہوگیا ہے۔

 قرآنی طرزِ استدلال جدید سائنٹفک ذہن کے عین مطابق 

آج کا انسان، خصوصاً ترقی یافتہ دنیا کے لوگ سائنٹفک سوچ سے وابستگی کا دم بھرتے ہیں۔ اس صورت میں انھیں معروضی انداز میںحقائق و دلائل پیش کرکے قائل کیا جاسکتا ہے، اور اسلام کا اصل میدان ہی دلیل و برہان ہے۔خالق کی پہچان کے لیے مظاہر کائنات سے استدلا ل قرآنی طریقِ تفہیم ہے۔ مگر یہ بھی امرواقعہ ہے کہ بتوں اور انسانوں کی خدائی کو مسترد کرنے والے اسی انسان نے اپنے نفس اور اپنی خواہشات کو اپنا الٰہ بنا رکھا ہے،اورقرآن کی رو سے یہ گمراہی کی انتہا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد یا تو کامل تباہی ہونی چاہیے یا خدا کی جانب انسان کی واپسی کا آغاز۔

قیامت سے پہلے خداپرستی کاعالم گیر عہد مقدر ہے

قرآن و حدیث کی واضح تصریحات کے مطابق بعثت محمدیؐ اور قیامت کے درمیان خدا پرستی کا ایک عالم گیر عہد مشیت الٰہی نے مقدر کررکھا ہے، جس میں دنیا کے اندر اللہ کے سوا  کسی کی عبادت نہیں کی جائے گی۔دین حق تمام ادیان پر غالب آجائے گا اور تمام انسانیت نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو متفقہ طور پر اپنا قائد اور رہبر تسلیم کرلے گی۔

انسانی دنیا جس رخ پر آگے بڑھ رہی ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر ایسی انسانی نسل کی تیاری کا عمل جاری ہے جو انفس و آفاق کی نشانیوں سے اپنے رب کو پہچان سکے، اور اس طرح اللہ کا وہ وعدہ پورا ہو جو اس نے صدیوں پہلے ان الفاظ میں کیا تھا :

عنقریب ہم اِن کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی۔ یہاں تک کہ اِن پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا ربّ ہرچیز کا شاہد ہے؟ آگاہ رہو، یہ لوگ اپنےربّ کی ملاقات میں شک رکھتے ہیں۔ سُن رکھو، وہ ہرچیز پر محیط ہے(حٰمٓ  السجدہ ۴۱:۵۳)۔

 بندگی نفس کے ہولناک نتائج  ، اللہ کے انتباہی اقدامات

فی الحقیقت دنیا کی موجودہ صورت حال زبان حال سے گواہی دے رہی ہے کہ آج کا انسان بندگیِ رب کی دعوت کو سننے اور سمجھنے کے لیے تاریخ کے پچھلے تمام ادوار سے زیادہ آمادہ ہے۔بندگی نفس کا جو روگ اسے لگا ہوا ہے،اللہ تعالیٰ کے انتباہی اقدامات نے اسے اس کے ہولناک نتائج سے پُرزور انداز میں خبردار کرنا شروع کردیا ہے۔

خاندانی نظام کا انتشار، مروجہ اقدار سے نئی نسل کی بے زاری، زندگی کے بے کیف ہونے کا بڑھتا ہوا احساس، ذہنی و نفسیاتی اور اعصابی امراض کی کثرت، فطرت سے انحراف کی سزا میں اس کی پیٹھ پر برسنے والا کوڑا، اور وبائی بیماریاں، غیرمنصفانہ اقتصادی نظام کے سبب معاشی عدم مساوات اور دوسرے متعدد عوامل، اسے اس کی بے راہ روی اور تعیش پسندی کے تباہ کن نتائج کا بھرپور انداز میں احساس دلارہے ہیں۔اس کے اندر اس صورت حال سے نجات پانے کی خواہش بھی بڑی شدت سے ابھر رہی ہے۔اس کی روح پیاسی ہے، لیکن وہ نہیں جانتا کہ یہ پیاس کیسے بجھے گی؟ اس لیے وہ ایک عالم اضطراب میں ہے۔البتہ جہاں جہاں حکمت کے ساتھ اس کے تمام مسائل حل کرنے والا، اس کے ربّ کا پیغام اس تک پہنچ رہا ہے، وہاں قبول اسلام کی رفتار حیرت انگیز ہے۔

 دنیا کے موجودہ حالات اور خیر امت کی ذمہ داری

دنیا کے یہ حالات پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ آج کی دنیا اسلام کی طلب گار ہے اور آج کا انسان پچھلی پوری انسانی تاریخ کے مقابلے میں اپنے ربّ کو پہچاننے کا سب سے زیادہ اہل ہے۔ قرآن کی رو سے مسلمانوں کو خیر امت جس بنا پر قرار دیا گیا ہے، وہ ان کے سپرد کیا جانے والا یہ کام ہے کہ ’’تم لوگوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے اٹھائے گئے ہو، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو‘‘ (اٰلِ عمرٰن۳:۱۱۰)۔ اس ذمہ داری کی مزید وضاحت اس طرح کی گئی ہے کہ ’’ اس طرح ہم نے تمھیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر حق کے گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ ہو‘‘۔ (البقرہ۲:۱۴۳)۔قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کسی خاص قوم کی طرف نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے۔

 اقوام عالم میں مسلمانوں کی اصل حیثیت داعی اللہ کی ہے

اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی حیثیت اقوامِ عالم میں وہی ہے جو ایک نبی کی ان لوگوں کے درمیان ہوتی ہے، جن میں اسے مبعوث کیا جاتا ہے۔قرآن بتاتا ہے کہ نبی کا مقام داعی الی اللہ کا ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اپنے مخاطبین کو ہر نبی علیہ السلام نے جن الفاظ میں دعوت دی وہ یہ تھے کہ: يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ   اِلٰہٍ غَيْرُہٗ ۝۰ۭ (الاعراف ۷:۵۹)، یعنی’’ اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو کیونکہ اس کے سوا تمھارا کوئی خدا نہیں ہے‘‘۔

 مسلمان دوسری اقوام کے حریف نہیں خیرخواہ

ہر نبی اپنے مخاطبین کا بہترین خیرخواہ تھا۔انھیں دنیا اور آخرت کی بربادی سے بچالینے کی شدید فکر اسے لاحق رہتی تھی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کیفیت کا بیان قرآن میں یوں ملتا ہے: ’’اے نبیؐ! تم شاید اس غم میں اپنی جان کھودوگے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے‘‘ (الشعراء۲۶:۳)۔ اپنے منصب کے لحاظ سے مسلمانوں پر اقوامِ عالم کے ساتھ خیرخواہی کا یہی رشتہ استوار کرنا لازم ہے۔

 اسلام کا پیغام دنیا تک پہنچانا مسلمانوں پر فرض ہـے

ہم مسلمان جس نبی کی امت ہیں، اسے قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے نبی بناکر بھیجا گیا ہے اور وہ نبی حجۃ الوداع کے موقعے پر اپنا پیغام دوسرے انسانوں تک پہنچانے کی ذمہ داری اپنی امت کے سپرد کرگیا ہے۔ اس پیغام کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک بلاکم وکاست پہنچادیا ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ وہ حشر کے دن اللہ کے سامنے اس بات کی گواہی دیں گے کہ انھوں نے اللہ کے دین کو ہم تک پوری طرح پہنچادیا تھا اور انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اس پر مکمل عمل درآمد کرکے ہمارے سامنے کامل عملی نمونہ پیش کردیا تھا۔ اس کے بعد خیر امت اور اُمتِ وسط کے قرآنی مناصب پر فائز انسانی گروہ ہونے کی حیثیت سے ہمیں دنیا کی تمام اقوام پر اس حق کا گواہ بنایا جائے گا، جو نبی کریمؐ نے ہم تک پہنچایا ہے۔ ہماری جانب سے کوتاہی کی صورت میں دنیا کی دوسری قومیں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گی کہ جن لوگوں کو یہ امانت ہم تک پہنچانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، انھوں نے اپنا فرض ادا ہی نہیں کیا، اس لیے ہماری گمراہی کے ذمہ دار یہی لوگ ہیں۔ اس لیے یہ ایک نہایت سنجیدہ اور سنگین بات ہے، جس سے بہرحال ہر مسلمان کو سابقہ پیش آنا ہے۔

دائمی خسارے سے بچنے کے لیے چار لازمی امور

سورۂ عصر میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات کسی ابہام کے بغیر بتادی ہے کہ دائمی خسارے اور تباہی سے بچنے کے لیے محض ایمان لانا اور ذاتی طور پر عمل کرلینا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ توَاصَوْا بِالْحَقِّ اور تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ بھی لازمی ہے، یعنی جس حق پر ایمان لایا گیا ہے، دوسروں کو اس کی دعوت دینا اور اس کام میں پیش آنے والی مشکلات کا صبر کے ساتھ مقابلہ کرنا بھی ضروری ہے۔

گلوبلائزیشن اور تواصو بالحق کے وسیع مواقع

’گلوبلائزیشن‘(عالم گیریت) کا عمل بظاہر سرمایہ دارانہ نظام کی ضروریات کی تکمیل کے لیے شروع کیا گیا تھا تاکہ کثیرالقومی ادارے دنیا بھر میں اپنی کاروباری سرگرمیاں زیادہ سے زیادہ تیزرفتاری سے جاری رکھ سکیں۔ لیکن اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والے اطلاعات کی فراہمی کے برق رفتار نظام نے در حقیقت جغرافیائی سرحدوں سے بالاتر امت مسلمہ کے لیے انسانوں اور کائنات کے خالق کا آفاقی پیغام تمام انسانوں تک پہنچانے کے ایسے مواقع کھول دیے ہیں، جن کا چند عشرے پہلے تک تصور بھی مشکل تھا۔ اس کے ذریعے ایک انسان دنیا کے کروڑوں انسانوں تک تقریباً کسی خرچ کے بغیراپنی بات پہنچانے کے قابل ہوگیا ہے۔

جس خدا نے ڈیڑھ ہزار سال پہلے اطلاعات رسانی کے انتہائی ناکافی وسائل کے دور میں اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پورے عالم انسانی کے لیے مبعوث کیا تھا، ظاہر ہے اس مقصد کے لیے وسائل و ذرائع کی فراہمی بھی اس کے منصوبے کا حصہ تھی۔ نبی اکرمؐ کی بعثت کے لیے آپؐ کے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا نے ڈھائی ہزار سال بعد محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کی صورت میں عملی شکل اختیار کی، تو ان کے آفاقی پیغام کو پوری انسانیت تک پہنچانے کے لیے برق رفتار ذرائع کی فراہمی اور اس پیغام کو سمجھنے کے لیے سائنٹفک ذہن کی حامل انسانی نسل کی تیاری میں ڈیڑھ ہزار سال کا وقت لگ جانا بھی کوئی حیرت کی بات نہیں، کیونکہ اللہ کے نظام کا ایک دن قرآن کی رو سے ہماری دنیا کے کم از کم ہزار سال کے برابر ہوتا ہے۔

 سارے انسانی نظام ناکام، اب اللہ کے نظام کی باری ہے

اس عرصے میں انسان نے مختلف نظاموں اور نظریہ ہائے حیات کے جو تجربے کیے ، وہ سب انسان کو امن اور چین عطاکرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ماضی قریب میں کمیونزم کی ناکامی کا مشاہدہ پوری دنیا کرچکی ہے اور اب سرمایہ دارانہ نظام آکسیجن ٹینٹ میں آخری ہچکیاں لے رہا ہے، جب کہ اسلام ، مسلمانوں کی تمام تر پسماندگی کے باوجود اپنی قوت اور اپنی خوبیوں کی بنیاد پر دلوں کو فتح کررہا ہے۔ بالخصوص عورتوں کے حقوق کے جس حوالے سے دنیا کی غالب تہذیب نے اسلام کو سب سے زیادہ مطعون کرنے کی مہم برسوں سے چلارکھی ہے، اسلام کی مقبولیت کا سب سے بڑا سبب عورتوں کے حقوق کا وہی معاملہ بن رہاہے۔ مغرب کی عورت مغربی تہذیب میں ملنے والے حقوق کو فریب اور اسلام کے عطاکردہ حقوق کو حقیقت قرار دے رہی ہے۔ اسلام جو روزِ ازل سے انسان کے لیے اللہ کا پسندیدہ دین ہے اور جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اللہ نے اپنی حتمی شکل میں انسانوں تک پہنچایا ، وہ آج بھی شاداب و توانا ہے۔ اسلام کی حقانیت کا ایک واضح مظہر ہے۔ مادّیت پرستی کی بنیاد پر بنائے ہوئے انسانی نظاموں کی ناکامی گذشتہ چند عشروں میں بالکل عیاں ہوگئی ہے۔ یہ کیفیت قرآن کے اس بیان کے عین مطابق ہے : ’’اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا۔پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے۔اورایسے ہی جھاگ اُن دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں، جنھیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتا ہے اور جو چیزانسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے۔اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے‘‘۔(الرعد ۱۳:۱۷)

مسلمانوں کی جانب سے اجتماعی حیثیت میں شاہد حق، امت وسط اور خیر امت کے قرآنی مناصب کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کوئی منظم کوشش نہ کیے جانے کے باوجود اسلام پوری دنیا خصوصاً ترقی یافتہ قوموں میں جس حیرت انگیز رفتار سے پھیل رہا ہے،اس کے پیش نظر یہ بات یقینی ہے کہ اگر مسلمان شہادت حق کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں حقیقی معنوں میں پوری کرنے لگیں، تو اس رفتار میں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس بارے میں سوچنا اور عمل کی راہیں تلاش کرنا، ہر مسلمان کی انفرادی ذمہ داری بھی ہے اور بحیثیت امت دنیا بھر کے مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری بھی۔

یہ ایک بنیادی سوال ہے کہ ’’کیا معیشت سود کے بغیر چل سکتی ہے یا ماضی میں ایسے اَدوار گزرے ہیں جن میں سود کامعاشی جدو جہد میںکوئی عمل دخل نہ تھا ؟ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ غیر سودی معیشت کی پہلی منظم شکل ساتویں صدی کی ریاست مدینہ سے ملتی ہے، جس میں انسانیت کا پہلا غیر سودی معاشی نظام ساتویں سے گیارھویں صدی تک دنیا میں نافذ رہا۔گیارھویں صدی سے لے کر پندرھویں صدی تک یورپ میں بھی سودپر کاروبارقانوناً جر م تھا ۔یہ سختی اس قدر تھی کہ اگر کوئی شخص چوری چھپے سود پر کاروبار کرنے کا مرتکب پایا جاتا تو اس پر عدالت میں مقدمہ چلتا، جرم ثابت ہونے پر سود کے طورپر لی گئی اضافی رقم عدالت کے حکم پر واپس کی جاتی ۔غیر سودی معیشت کی دوسری مثال بیسویں صدی کے اشتراکی روس سے ملتی ہے، جس میں غیر سودی معیشت نے پہلے ۵۰برسوں میں خو ب معاشی ترقی کی تھی۔ ان حوالوں کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ معیشت نہ صر ف سود کے بغیر کام کر سکتی ہے بلکہ اس میں ترقی اوربڑھوتری بھی ممکن ہے۔سود پر مزید گفتگوسے پہلے یہ مناسب معلوم ہوتاہے کہ انسانیت کے پہلے معاشی نظام کی مختصر روداد جسے آنے والے اوراق میں مدینہ اکنامکس کے نام سے بیان کیا جائے گا،قارئین کے سامنے رکھی جائے۔

مدینہ اکنامکس کی بنیاد قرآن کے تین الفاظــ صلٰوۃ  ، زکوٰۃ  اور یُنفِقُون پر ہے ۔صلوٰۃ اور زکوٰۃ سیاسی اور معاشی نظاموں کے قائم کرنے کے بارے میں ہے ۔ جب حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے تو آپؐ نے پہلے مسجد نبوی کی تعمیر کی ۔انصار اور قریش میں ’مواخات کا نظام‘ قائم کیا اوراس کے بعد ’میثاقِ مدینہ‘ کیا ۔یہ صلوٰۃ کے نظام کاقیا م تھا ۔ صلوٰۃ صرف نماز کی ادائیگی کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مکمل نظام ہے، جو ایمانیات، اخلاقیا ت اور سیاست پر مشتمل ہے۔ زکوٰۃ معاشی نظام کا نام ہے جس کے تحت لو گ مارکیٹ میں کاروبار کرتے ہیں اور اس قدر دولت کماتے ہیں کہ زکوٰۃ دینے کے اہل ہوجائیں ۔ صلوٰۃ کے نظام کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اسلامی مارکیٹ قائم کی تاکہ معاشی نظام کو نافذ کر سکیں ۔ اس وقت مدینہ میں یہودیوں کے چاربازار تھے مگر آپؐ کو اسلامی مارکیٹ کے قیام کی اس قدر جلدی تھی کہ یہ مارکیٹ ایک بڑے خیمہ میں لگائی گئی جس میں آپؐ نے تجارت پر ٹیکس ختم کردیا۔ بہت سے تاجر اور خریدار یہودیوں کی مارکیٹ سے نکل کر خیمہ والی مارکیٹ میںآگئے ۔اس مارکیٹ کی مقبولیت سے خائف ہوکر یہودی سردار کعب بن اشر ف نے اس خیمہ کی رسیا ں کاٹ دیں، جس کے نیچے مارکیٹ قائم تھی ۔اس پر  حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مارکیٹ کے لیے ایک بڑامیدان تلاش کیا جائے جو یہودیوں کی مارکیٹ سے دور مگر مسجد نبوی ؐسے نزدیک ہو، یعنی وہی صلوٰۃ اور زکوٰۃ کا نظام ۔معاشی نظام کے نفاذ کے باوجود کچھ لوگ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں ۔مدینہ میں ایک سوال آپ ؐ سے پوچھا گیا: مَاذَایُنْفِقُوْنَ، ہم کیا خرچ کریں ؟قرآن نے اس کا جواب دیا:قُلِ العفویعنی جو ضرورت سے زائد ہے۔ اس طر ح قرآن نے ایک مکمل معاشی نظام دیا۔

مسلم دنیا میں سود پر بحث حلال اور حرام سے آگے نہیں بڑھتی، حالانکہ قرآن نے سرمایہ کے استعما ل کے دو طریقے اور ان کے اثرات کی عقلی وضاحت کر دی تھی ۔ساتویں صدی کو ’ایمان کا دور‘ (Age of Faith)کہا جاتا ہے ۔عرب کے مسلمانوںنے قرآنی احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے سودکو چھو ڑ دیا ۔انھوں نے یہودیوں کی طر ح سوال نہیں کیے ۔۹ ذوالحج ۱۰ ہجری کو جب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے سودکو قطعیت کے ساتھ منع کیا،تو مدینہ کے انصارآپ ؐکے پاس آئے اور پوچھا کہ باغات کی کاشتکاری کے لیے وہ یہودیوں سے سود پر قرض لیتے تھے۔ اب کیا کریں ؟ آپ ؐنے فرما یا کہ ’’سلم پر پیسے لے لو‘‘۔’سلم‘ ایک ایسا معاہد ہ ہے، جس میں رقم پیشگی دی جاتی ہے اور فصل اور اشیا وغیر ہ بعد میں رقم مہیاکرنے والے کے حوالے کی جاتی ہیں۔انصار نے سود کو ترک کرکے سلم کے تحت رقم لینی شروع کردی۔

تقریباً آٹھ سو سال تک معیشت بڑی حد تک غیر سود ی رہی۔سولھویں صدی سے یورپ میں ’عقلیت کے دور‘(Age of Reason)کا آغاز ہوتا ہے ۔جس میں سود نے آہستہ آہستہ معاشی امور میں اپنا عمل دخل بڑھالیا۔انیسویںصدی میںاشتراکی نظام کے بانی کارل مارکس نے سود ی نظام کی فلسفیانہ انداز میں مذمت کرتے ہوئے مدینہ اکنامکس کی طرح سود کو ہر طر ح کے معاشی عمل سے نکال دیا۔بیسویں صدی میں علامہ محمد اقبال نے قرآنی آیات کی وضاحت کر تے ہوئے سود ی کاروبار کو جوئے کے مترادف قرار دیا۔ فارسی نظم میں انھوں نے سود کے بارے میں ایسی بات کہی جس کا ابھی تک ذکر نہیںہواتھا۔انھوں نے کہاکہ سود پرکام کرنے والے لوگوں کے سینے سے نور حق، یعنی ہرطرح کی اچھائی ور نیکی ختم ہو جاتی ہے۔ قارئین کی دل چسپی کے لیے دونو ں شعر درج ہیں:

ظاہر میں تجارت ہے ، حقیقت میں جواہے

سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات

ایں بنوک ، ایں فکرِ چالاک یہود

نورِ حق ازسینۂ آدم ربود

اقبال کا کہنا ہے کہ بنکاری چالاک یہودیوں کی سوچ کی موجودگی میں عقل و دانش اور تہذیب دین محض خالی اور کھوکھلے الفاظ بن کے رہ جاتے ہیں۔ مارکس اور علامہ اقبال کے سود کے بارے میں بیان اگرچہ دل چسپ ہیں، مگر یہ ایک قسم کا بیانیہ (Narrative) ہے۔ اس کی صداقت کو پر کھنے کے لیے اب معاشی اعداد و شمار دستیاب ہیں۔پوری دنیا میں سودی معیشت ہے۔ ذہن میں ایک سوال آتاہے کہ سرمایہ کا استعمال بطور سود کے اثرات کو قرآن کی روشنی میں جانچا جاسکتاہے؟ یعنی ایک قسم کی عددی شہادت (statistical evidence)کی ضرورت ہے کہ سود کے کاروبار میں تباہی اور ہلاکت کیونکر اور کیسے ہے؟۲۰۰۸ء میں یورپ اورامریکا میں برپا ہونے والے مالی بحران نے قرآن کی بیان کر دہ وضاحت کو یہ شہاد ت فراہم کر دی۔ بقول اقبال:’پاسبان مل گئے کعبے کوصنم خانے سے‘۔اس موضوع کو ہم تفصیل کے ساتھ خالصتاًمعاشی انداز میں بیان کریں گے۔

سرمایہ کا ارتقا

معاشی ترقی کی پہلی شکل کو ہم ’شکارچی دور‘(Hunter Gatherer Age) کے نام سے جانتے ہیں ۔اس دور میں سرمایہ ان چند نوکیلے پتھروں اور درختوں کی ہتھیار نما شاخوں پر مشتمل تھا جو جانوروں کے شکارکے لیے استعمال ہوتی تھیں ۔اگلے دور میں جسے ’نیولتھک دور‘ (Neolithic Age) کہتے ہیں ،انسان نےفصلیں اگانا اور جانوروں کوسدھاناسیکھ لیا تھا۔ اب سرمایہ آلاتِ زراعت،بیج اور جانوروں کی شکل میں تھا۔ کہاجاتاہے کہ دنیا کا پہلا سود اس دور میں وجود میں آیا جب ایک کسان نے اپنے دوسرے کسان کو فصل اُگانے کے لیے بیج ایک خاص مقدار میں اُدھار دیااور فصل کاٹنے پر ادھار دیے گئے بیج سے زیادہ کا مطالبہ کیا۔یہ جنس کے بدلے جنس کاسودی تبادلہ تھا۔اس میں دورِحاضر کے سود کی دونوں باتیں موجود تھیں، یعنی زائد اورمؤ خر ادائیگی۔ تاریخ ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ فصل نہ اگنے کی صورت میں سودی معاملات کیسے طے ہوئے ہوںگے ۔شاید ادھار دینے والے کسان نے کوئی مطالبہ ہی نہ کیا ہو۔کیونکہ فصل توپیدا ہی نہیں ہوئی تھی۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ دوسرے سال فصل کی کٹائی کے بعد ادھار لینے والے کسان نے خود اپنی مرضی سے طے شدہ مقدارسے بھی زیادہ بیج واپس کردیاہو کیونکہ ادھار دینے والے کسان نے فصل نہ ہونے کی صورت میں بیج کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا تھا ۔دراصل یہ لین دین کی خوب صورتی ہے جواشیا کے بدلے اشیا  کے تبادلے کے دور (Bartar Age)میں موجود تھی ۔

زر کی ایجاد (Advent of Money  ) نے کاروبار میں تو آسانی پیداکی مگر سودی کاروبار کی راہ بھی ہموار کر دی۔ اب سرمایے کے دواستعمال ہوگئے ۔ایک زر کا بطور تبادلہ (Medium of Exchange)استعمال جس سے اشیا مثلاً گندم ،چاول اور دوسری چیزوں کا تبادلہ (Exchange) ممکن ہو مگر ساتھ ہی زر کو اشیا کی طر ح (چاول ،گندم کی طر ح )بیچااور خریدا جانے لگا، یعنی Use of money as commodity ۔ ساتویں صدی کے عرب میں سرمایہ کے یہ دونوں استعمال موجود تھے۔ سرمایہ والے افراد کے پاس دوراستے تھے ۔یا تو وہ خود سرمایہ کو اشیا کی خرید و فروخت میں استعما ل کرے اور نفع اور نقصان کی ذمہ داری لے جسے عربی میں ’بیع‘ کہتے ہیں یا پھر اس سرمایہ کی کسی دوسرے کو مخصوص عرصہ کے لیے اور اضافی ادائیگی پر قرض دے کر یقینی منافع کما لے۔عربی میں اسے ’ربوٰ‘ کہتے ہیں ۔قرآن نے سرمایہ کے استعما ل بطور بیع کو حلال اور ربوٰکو حرام قراردیا جس پر مدینہ کے یہودیوں نے سوال اٹھایا کہ ’بیع‘ اور ’ربوٰ‘ تو تجارت کی دو شکلیں ہیں اور ایک دوسرے کی مانند ہیں۔قرآن کا ایک انداز فرقان کا بھی ہے جس میں صورت حال کو حتمی طور پر واضح کر دیا جاتا ہے ۔قرآن نے وضاحت کی کہ بیع کے استعما ل میں فلاح ہے اور سود میں ہلاکت اور تباہی ہے۔ سادہ الفاظ میں سود کا معاشی عمل میں کوئی کردار نہیں ہے ۔جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکاہے کہ ساتویں صد ی سے لے کر پندرھویں صدی تک اقوام عالم کی معیشتیں بڑ ی حد تک غیر سودی تھیں۔ سود افرادی سطح پر موجود تو تھا مگرمعاشی جدوجہد میں اس کی بہت زیادہ اہمیت نہ تھی۔

سودی کاروبار کا عروج

اٹھارھویں صدی کے صنعتی انقلاب کے دوران پیداوار بڑھانے کے لیے سرمایہ کی بہت ضرورت تھی ۔اسی دور ( ۱۷۷۶ء) میں ایڈم سمتھ نے انسانیت کے دوسرے معاشی نظام، یعنی ’سرمایہ داری‘ کی داغ بیل ڈالی، جس میں محض سرمایے کو بڑھانے کے لیے ضروری تھا کہ اسے اشیا کی پیداوار اور مارکیٹ میں اشیا کے تبادلے( Exchange)کے لیے استعمال کیا جائے۔ سرمایے کی بڑھوتری کے اس نظام میں ایڈم سمتھ نے اسلام کی طرح سو د کے کاروبار کو منع نہیں کیا ۔صنعتی انقلاب کے دوران سرمایہ کا استعمال بطور سود بھی فروغ پاگیا،جس نے ایک سو سال کے عرصے میں معاشی امور میں اپنا عمل دخل بڑھالیا۔اب سود افرادی سطح سے اداراتی شکل میں آگیاہے۔کیونکہ بنکو ں کا بنیادی کام ہی زر کی خریدو فروخت تھا۔ انیسویں صدی کے آخری دو دہائیوں میں سود نے تقریباً ساری دنیامیں عالم گیر حیثیت حاصل کر لی تھی اور سود کے استحصالی اثرات نمایاں طور پر واضح تھے۔ سرمایہ کے دوگونہ استعمال (بیع اور ربوٰ)سے ترقی ضرور ہوئی تھی، مگر معاشرے میں امیر اور غریب کی تقسیم نہایت گہری ہوگئی جس میں غریب مزدور کی حالت خراب سے خراب تر ہوکر رہ گئی ۔ اسی استحصال نے انسانیت کے تیسرے معاشی نظام: اشتراکیت کو جنم دیا۔

یہاں یہ بیان کرنا ضروری معلوم ہوتاہے کہ مدینہ اکنامکس کے چارسوسال میں معاشی نظام بیع پر مبنی تھا، جس سے ہونے والی ترقی کے باعث معاشرے میں مشترکہ خوش حالی (Shared prosperity)آئی تھی مگر سود ی کاروبار نے ۱۰۰سو سال کے عرصے میں ہی قرآنی احکامات کی صداقت کی نشان دہی شروع کر دی تھی۔اشتراکیت کی بنیاداس دور کا استحصالی معاشی نظام تھا۔ کارل مارکس نے بھی سرمایہ کو اشیا کے پیداکرنے (بیع) کی حمایت اور سودی استعما ل کی شدید مذمت کی۔ کارل مارکس نے کہا کہ جب سرمایہ اشیا پیداکرنے میں استعمال ہوتاہے تو اس سے قدر (value) پیدا ہوتی ہے، جب کہ سودی سرمایہ کے استعمال سے منفی قدر (Anti value) جنم لیتی ہے جو معاشی استحصال کا باعث بنتی ہے ۔ اس لیے اشتراکیت میں سودی کاروبار کی کوئی گنجایش نہیں تھی۔کارل مارکس کا ’نظر یہ قدرِز‘ سرمایے کو بیع کے طور پر استعمال کے بارے میں ہے جس کے مطابق پیداواری عمل میں محنت (مزدور)کا معاوضہ کم دیاجاتاہے ۔سادہ الفاظ میں پیداواری عمل کے باعث قدرِ زائد (Surplus value)پیداہوتی ہے، جس کا بڑاحصہ سرمایہ دار لے جاتاہے اور مزدور جس کا قدر ِ زائد کے پیداکرنے میں بڑاہاتھ ہوتاہے اپنے حق سے محروم ہوجاتاہے۔

یہاں ہم پھر ایک بار ساتویں صدی کی مدینہ اکنامکس کی طرف لوٹتے ہیں جس میں سود کی ممانعت کے ساتھ ساتھ بیع کے کاروبار میں اخلاقی اور قانونی ضوابط ہیں، جس کے باعث معاشی تگ و دو معاشرے میں سماجی اور اخلاقی ہم آہنگی کا باعث بنتی ہے جس کی بنیاد قرآن کے الفاظ  قُلِ العفو میں پوشیدہ ہے ۔ یعنی محنت سے کمائی ہوئی آمدنی اگر ایک فرد کی ضروریا ت سے زائد ہے توان لوگوں کو دے دی جائے جو معاشی دوڑ میں دوسروں سے پیچھے رہ گئے ہیں ۔اگر مارکس، دانشِ بُرہان پر مبنی مدینہ اکنامکس سے واقف ہوتاتو شاید اشتراکیت کی شکل کچھ اور ہوتی ۔بہرحال مارکس کی سودی کاروبار کی شدید مخالفت کے باوجود نظام بنکاری نے سودی کاروبار کوچار چاند لگادیے۔ کارل مارکس ۱۸۸۲ء میں فوت ہوا۔اس سے پہلے اس نے سرمایہ داری کے سفینے کے ڈوبنے کی بات کی جو لوگو ں کو سمجھ نہ آئی،تاہم انسانیت، سودی کاروبار کو اپنے ماتھے پر سجا کر بیسویں صدی میں داخل ہوئی ۔اس صدی میں شاعرو فلاسفر علامہ اقبال نے سود کو آڑے ہاتھوں لیا اور پوری مغربی تہذیب کی اپنے ہی خنجر سے خود کشی کی پیش گوئی کر دی۔ مارکس کی طرح علامہ اقبال کی بات بھی  اس دور کے حالات کے تناظر میں درست نہیں لگتی تھی۔۱۹۱۷ء میں روس میں اشتراکی نظام قائم ہوچکا تھا اور مغر بی دنیا میں سود کا جادو سر چڑ ھ کے بول رہا تھا، مگر علامہ اقبال نظام سر مایہ داری پر مبنی مغربی تہذیب کی خود اپنے ہاتھوں تباہی کا پیغام دے رہے تھے۔

سودی کاروبار کے مضر اثرات

۱۹۲۰ء کے عشرے کو مغربی معاشی ادب میں Roaring Twenties کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔اس دس سالہ دور میں معاشی ترقی نے سابقہ ریکارڈتوڑ ڈالے۔اس کمال میں سودی سرمایہ ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد منافع (سود ) کی تلاش میں شترِبے مہار کی طر ح ہر طرف سرگرداں تھا۔ ۱۹۳۰ء میں یورپ اور امریکا ’عظیم معاشی بحران‘ (Great Depression ) سے دوچار ہوئے۔ اس بحران کی بڑی وجہ سود پر مبنی مالیاتی اداروں کو قرار دیاگیا۔شکا گو یونی ورسٹی نے محدود بنکاری کا نظریہ دیاتاکہ سودکی تباہ کاریوں سے بچا جائے ۔۱۹۳۶ء میں ’گلاس سٹیگل ایکٹ‘ پاس ہواجس کے تحت امریکا میں انوسٹمنٹ بنکوں کو تجارتی بنکو ں سے قانون کے ذریعے الگ کر دیا گیا۔اس علیحدگی کاحقیقی مقصد یہ تھا کہ حقیقی شعبہ (Real Sector  )،یعنی بیع کے کاروبار کوسودی کاروبار کی ہلاکت سے دور رکھا جائے۔ ۱۹۴۰ء کے عشرے کے چارسال دوسری جنگِ عظیم لے گئی اور بعد کے ۱۵سال میں یورپ اور امریکا جنگ کی تبا ہ کاریوں سے پیدا ہونے والی معاشی بدحالی کی اصلاح میں لگے رہے، جب کہ اس دوران روس کی غیر سودی معیشت نے خوب ترقی کی۔ ۱۹۷۰ء سے مغر بی ممالک میں معاشی ترقی کا دوسرادور شروع ہوتاہے ۔جو ۱۹۸۰ء کے عشرے میں مزید بہتر ہوگیا۔اس اثنا میں روس کی غیرسودی معیشت شدید دباؤ اور گمبھیر مسائل کاشکار ہو کر ۱۹۹۰ء کے آغاز میں مکمل طور پر منہدم ہوگئی۔

اشتراکیت کے خاتمے پر اہلِ مغر ب نے سود پر مبنی نظام سرمایہ داری کی افادیت اور فعالیت کے خوب شادیا ے بجائے ۔گویا ساری دنیا سرمایہ داری کے معاشی نظام کے تحت آگئی اور یہ توقع ظاہر کی گئی کہ ساری انسانیت کا اب یہ معاشی نظام ہے کیونکہ ساتویں صدی کی مدینہ اکنامکس ماضی کے دھندلکوں میں اس قدر پوشیدہ اور گم ہوئی تھی کہ کسی نے اس کو تلاش کر نے کی کوشش نہیں کی۔ ۱۹۹۰ ء کا عشرہ دراصل سود کی فتح اور کامرانی کا دور ہے مگر ایک رکاوٹ ابھی تک موجود تھی۔  ’گلاس سٹیگل ایکٹ‘ کے تحت انوسٹمنٹ بنک اور تجارتی بنک ایک دوسرے سے دور تھے، جس کے باعث سودی کاروبار اپنے کاٹنے والے حقیقی دانت دکھانے سے قاصر تھا۔ ۱۹۹۹ء میں یہ آخری دیوار بھی ہٹا دی گئی تا کہ سودی نظام اکیسویں صدی میں فاتحانہ انداز سے داخل ہوسکے۔اکیسویں صدی کے پہلے چھے سال سودی کاروبار کے عروج و کمال کی داستان بیان کر تے ہیں ۔معاشی ترقی کو اس قدر طویل کامیابی کبھی حاصل نہیں ہوئی تھی ۔انفارمیشن ٹکنالوجی کے انقلاب نے معاشی استحکام کو مزید طاقت بخشی۔اس دور کا معاشی منظر نامہ واقعی دلفریب تھا۔ معاشیات کا مضمون جو پچھلے سو سال سے مغرب کی یونی ورسٹیوں میں پڑھایا جارہا تھا،نئے نئے نظریات اور عملی منصوبے، معاشی فلاح کے لیے پیش کررہا تھا۔ سائنس کامیابی اور فعالّیت کے حصول کے لیے پروگرام پیش کررہی تھی ۔ سودی نظام کی افادیت پر اس قدر یقین تھا کہ اس کے خلاف کسی قسم کی شکایت سننا بھی گوارانہ تھا۔ مالیاتی ادارے (تجارتی بنک اور دوسرے غیر بنک ادارے ) سود پر کام کر رہے تھے اور مرکزی بنک سود کے ادارے کو تحفظ فراہم کر رہا تھا ۔سر مایہ کا استعما ل بطور سود ہر طرح کی پابندیوں سے آزاد تھا۔ معاشی تاریخ میں سودی کاروبار کو ایسی آزادی اور توقیر پہلے کبھی نصیب نہیں ہوئی تھی۔اسی دور میں مشہور معاشی جریدے The Economist  نے ایک شمارے میں مر کزی بنکوں  اور بنکاروں کو خداسے تشبیہ دیتے ہوئےCentral Bankers as God کے عنوان سے مضمون لکھا۔

ان سب باتوں کے باوجود اہل نظر کچھ اور ہی دیکھ رہے تھے ۔ ایسا لگتا تھا کہ فطرت عقل و دانش کے دل دادہ حضر ت انسان پر ساتویں صدی میں بیا ن کیے گئے قرآنی فرمودات کی صداقت ظاہر کرنا چاہتی تھی اور ۲۰۰۷ء میں ایسا ہی ہوا۔ مغربی ترقی یافتہ معیشتوں میں ایسا مالیاتی بھونچال آیا، جس نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے اور صرف دوسال کے عرصے میں ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔۱۰سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا مگر اس کی ’صدماتی لہریں‘ (Shock waves) ابھی تک قوت پکڑ رہی ہیں۔۱۹۳۰ء کے’عظیم معاشی بحران‘ کے بعد یہ ’دوسرا عظیم معاشی بحران‘ ہے، جسے ’عالمی مالیاتی بحران‘ (Global Financial Crisis)کے نام سے بھی یاد کیا جاتاہے۔

مالی بحران کے بعد کی دنیا

بیسویں صدی میں مغربی بنکوں نے افریقہ اور ایشیا میں بھی ایسے ہی بحران پیداکیے تھے جن کے باعث سودی بنکاری پر اعتراض کیے گئے، خاص طو ر پر۹۸- ۱۹۹۷ء کے ایسٹ ایشیا کے مالیاتی بحران میں ’ایشیا ئی شیر‘ (Asian Tigers)غیر ملکی بنکو ں کی کارکردگی پر بہت غرّــاتے اور چنگھاڑتے تھے مگر مغر بی معاشی جغادریوں نے ان کی ایک نہ سنی اوربحران کی وجہ ایشائی ممالک میں رائج Crony Capitalismقرار پائی۔ ۲۰۰۸ء کا مالی بحران مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میںبرپا ہوا۔اب اہلِ مغر ب بے بس اور لاجواب ہیں۔بعض لوگوں نے مغر ب میں رائج نظام سرمایہ داری کو ’جواری سرمایہ داری‘ (Casino Capitalism) کہا ہے ۔اس سے علامہ اقبال کی ’ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میںجوا ہے‘ والی بات ثابت ہوگئی ۔ اس بحرا ن سے سب سے بڑا دھچکاسودی کاروبار کی نظریاتی بنیاد کو لگا۔سود کی الفت میں گرفتار مغرب میں لوگوں کا سود کی افادیت سے یقین اُٹھ گیا ہے۔اس کا ثبوت بحران کے بعد مغرب میں شائع ہونے والا وہ معاشی ادب ہے، جس کی چند مثالیں ہم قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔

۲۰۱۳ء میں یونانی ماہر معاشیات کوسٹس لیپاویٹس نے اپنی کتاب Profiting without Producing  میں Financializaion  کی اصلاح استعمال کرتے ہوئے بتایا کہ سودی نظام نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، جس کے باعث لوگوں کی سوچ ، اخلاقیات اور اقدار متاثر ہوئی ہیں۔یہی بات علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ء میں کہی تھی کہ سود پر کام کرنے سے سینۂ آدم سے نور حق ختم ہوجاتاہے۔ یونانی معیشت دان نے مزید کہا کہ سود کے کاروبار میں کوئی چیز پیدا کیے بغیر نفع کمایا جاتا ہے جیسے کہ کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے۔ ۲۰۱۴ء میں دوسری کتاب پاکستان کے دو معیشت دانوں عاطف میا ں اور عامر صوفی کی ہے جس کا نام House of Debt  ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب قرض کی مقدار ایک حد سے بڑ ھ جائے تو اکا نومی میں بحران آجاتاہے ۔ان کے مطابق اس وقت پوری مغربی دنیاقرضے کا گھر ہے ۔

۲۰۱۴ء میںایک اور کتاب فرانسیسی معاشیات دان تھامس پِکٹی کی ہے۔ اس کتاب کا نام بھی بڑا دل چسپ ہے:Capital in the Twenty First Century  ۔ اس کتاب کی بازگشت آج بھی امریکا اور یورپ میں گونج رہی ہے کیونکہ انھوں نے وہ کام کیا ہے، جو کسی مسلمان مذہبی اسکالریا اکانومسٹ کو کرنا چاہیے تھا ۔تھامس پِکٹی نے مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کا ۲۵۰ سال کے معاشی اعدادوشما ر(Economic Data )حاصل کر کے ایک مساوی معیشت بنائی ہے، جس میں شماریاتی طور پر ثابت کیا کہ سرمایہ کا معاوضہ بطور سود دوسرے عاملینِ پیداوار (زمین ،محنت اور آجر) سے زیادہ ہے اور جب سود کا کاروبار بڑھ جائے تومعاشرے میں دولت کی تقسیم انتہائی غیر ہموار ہوجاتی ہے، جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک کی صورت حال سے ظاہر ہے ۔یہ کتاب ایک طرح سے سود کے بارے میں قرآنی احکامات کی صداقت پرعددی شہادت ہے، جو جدید لٹریچر میں پیش نہ کی گئی تھی اور جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔

سود کے خلاف یورپ اور امریکا میں علمی یلغار جارہی ہے ۔۲۰۱۵ء ایڈایر ٹرنر کی کتاب کے عنوان Between Debt and Devil  [قرض اور شیطان کے درمیان]نے تو سب کو حیران کردیا، یعنی ایک طرف قرض ہے اور دوسری طرف شیطان۔ ۲۰۱۵ء ہی میں لکھی گئی کتاب Re-Writing Rules of American Economy کی بات کرتے ہیں، جو IMF کے سابق  چیف اکانومسٹ جوزف سٹگ لٹز نے تحریر کی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ ’’امریکی معیشت کے قوانین کو دوبارہ لکھنے کی ضرورت ہے جس میں زیادہ زور سود پر مبنی مالیاتی اداروں بشمول بنک کی اصلاح پر ہے‘‘۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ اہلِ مغرب کا رویہ سود کے بارے میں ہمیشہ جارحانہ (Extreme Side ) رہا ہے ۔ایک وقت تھا کہ وہ سود کا کاروبار کرنے والے کے منہ پر تھوکتے تھے۔ (دیکھیے:شیکسپیئر [م: ۱۶۱۶ء]کا ڈراما،مرچنٹ آف وینس)۔ پچھلے ۵۰۰ سال سے مغربی دنیا سود کی شدید اُلفت میں گرفتار ہے۔ شاید یہ نئی سوچ پھر اس افلاطونی محبت کو نفرت میں بد ل دے۔

سود کے بارے میں مغرب میں تو سوچ بدل رہی ہے مگر مسلم دنیا بشمول پاکستان میں صورتِ حال بے حسی اور جمود کاشکار ہے۔اس سلسلے میں پاکستانی معاشرے کو تین طبقوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے: پہلا طبقہ مذہبی سکالراور مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں پر مشتمل ہے۔ ان کے ہاںسود کی شدید مخالفت ہے مگر یہ دور ِ حاضر کے اداراتی سود کی پیچیدگی اورگہرائی سے مکمل طور پر واقف نہیں ہیں ۔۲۰۰۸ء کے مالی بحران اور اس کے بعد ہونے والے واقعات اور معاشی ادب سے بے خبری عام ہے۔دوسرا طبقہ یونی ورسٹی کے پروفیسر اور وہاں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ وطالبات کا ہے۔ ان کے ہاں بڑی حد تک سود اور اسلامی روایات کے بارے میں سردمہر ی اور بے اعتناعی ہے۔ان میں کوئی جوش و جذ بہ اور سوچ نہیں ہے کہ ملک میں اسلام نظام کا نفاذ کرناہے۔یہ لوگ مغربی اکنامکس اور سود ی بنکاری کی پیچید گیوں اور گہرائی سے بخوبی واقف ہیں۔۲۰۰۸ء کے بعد شائع ہوئے معاشی ادب کو بھی انھوں نے پڑھاہے، مگر اسلامی معاشی نظام کوجاننے یا تلاش کرنے کی کوئی تحریک یا جستجو ان میں موجود نہیں ہے۔تیسرا طبقہ عوام اور بالخصوص تاجروں کا ہے۔یہ لوگ اکثر اسلامی نظام کے نفاذ کی بات تو کرتے ہیں،مگر عملی طور پر کوئی پیش رفت نہیںہوئی۔یہ طبقہ اکثر وبیشتر سودی بنکاری کی مخالفت توکرتاہے مگر ہر شہر کی ہر مارکیٹ میں کچھ لوگ سود کا کاروبارکھلے عام کرتے ہیںاور ان کے سود کی شرح بنکوں کے سود سے دو تین گنازیادہ ہے ۔پہلے اور تیسرے طبقے کی طرف سے ’سودی بنکوں کی نوکری کے حلال یا حرام‘ ہونے کے بارے میں اکثر سوال کیا جاتاہے مگر کسی نے کبھی بھی یہ نہیں پو چھا کہ جو تاجر سود کی کھلی تجارت کررہے ہیں ان کاسماجی اور معاشی بائیکاٹ کرنا چاہیے یا نہیں؟‘‘

’اسلامی بنکاری‘ کے خوش نما نام اور آغاز سے ہم بہت خوش ہیں، مگر اس حقیقت کے بارے میں بے خبر ی ہے کہ سودی نظام کا اصل محافظ اور پاسبان تو مرکزی بنک ہی ہے۔پاکستان میں ایک طرف سٹیٹ بنک آف پاکستان اسلامی نظام کی ترقی کے لیے کام کررہاہے، مگر خود یہ ادارہ سر سے پاؤں تک سود میں شرابور ہے۔ہر دو ماہ بعد شائع ہونے والی سٹیٹ بنک آف پاکستان کے مالیاتی پالیسی بیان (MPS) میں مرکزی سطح پر سود کی شرح میں ردوبدل ہی ہوتی ہے۔دراصل سودی تجارتی بنکوں سے پہلے مرکزی بنک کو اسلامی رنگ میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔

    ۱۵نومبر ۲۰۱۸ء میں شائع ہونے والے جریدے اکانومسٹ کے مطابق سرمایہ داری کی شہرت کو پچھلے عشرے میں بہت زیادہ نقصان ہواہے۔ آدھے سے زیادہ امریکی اب سرمایہ داری کی حمایت نہیں کرتے۔ پچھلے ۳۰ برسوں میں دونوں جانے پہچانے معاشی نظام (اشتراکیت اور سرمایہ داری ) اپنی چکا چوند کھو بیٹھے ہیں ۔انسانیت اب اپنے پہلے معاشی نظام کی منتظر ہے، جس کی بنیاد دانشِ برہان پر ہے۔اس وقت زیادہ ذمہ داری مدرسہ کے مذہبی اسکالرز اوراکنامکس کے یونی ورسٹی پروفیسروں پر ہے جو مل کر مدینہ اکنامکس کو ڈھونڈیں، جس کا نزول قرآن میں ہوا اور جس کا نفاذ ساتویں صدی کی ریاست مدینہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔اس سلسلے میں ’مدرسہ سکول اتحاد‘ کی ضرورت ہے۔ ایساہی اتحاد انگریز دور کے ہندستان میں دیوبند مدرسہ اور علی گڑھ سکول کے درمیان ہواتھا۔ دورِ حاضر کی سودی معیشت کودوبارہ غیر سودی معیشت میںتبدیل کرنا آسان کام نہیں مگر ممکن ضرور ہے ۔اگر ہم حامل قرآن ہو جائیں تو اسلام کی گم گشتہ معاشی جنت کا حصول ممکن ہوسکتاہے    ؎

آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا

آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

۲نومبر ۱۹۱۷ء کو ’اعلان بالفور‘ کے ذریعے برطانوی سامراجی سلطنت نے، سرزمین فلسطین پر ایک یہودی نسل پرست ریاست کے قیام کا زہریلا بیج ڈالا۔ اس طرح صہیونیت نے مغربی طاقتوں کی پشت پناہی سے یہاں زمینوں کی خریداری اور قبضے کا آغاز کیا۔ فلسطینی باشندوں اور زبردستی مسلط کیے جانے والے یہودیوں کے درمیان چپقلش شروع ہوئی۔ ۱۹۳۶ء میں یہ تناؤ خوں ریز فسادات میں تبدیل ہوگیا، جس کے نتیجے میں برطانوی سلطنت نے ۷؍اگست ۱۹۳۶ء کو ایرل پیل کی سربراہی میں ایک کمیشن مقرر کیا، جس نے ۷جولائی ۱۹۳۷ء کو ایک رپورٹ پیش کی، جس نے باقاعدہ فلسطین کو تقسیم کرنے کا منصوبہ دیا___ اسی فتنہ پرور رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے علّامہ محمد اقبال نے ۲۷جولائی ۱۹۳۷ء کو یہ بیان حکومت برطانیہ کو مخاطب کرتے ہوئے پنجاب مسلم لیگ کے جلسے منعقدہ لاہور میں پڑھنے کے لیے بھیجا۔ اُردو ترجمہ اقبال احمد صدیقی نے کیا ہے۔ جب کہ انگریزی متن، اُردو ترجمے کے بعد دیا جارہا ہے۔ (ادارہ)

میں عوام الناس کو یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ عربوں کے ساتھ جو ناانصافی ہوئی ہے، میں بھی اسے اتنا ہی شدت سے محسوس کرتا ہوں جتنا کوئی اور شخص محسوس کرسکتا ہے کہ جو مشرق قریب کی صورتِ حال سے باخبر ہو.... برطانوی مدبرین جس مسئلہ سے نبردآزما ہیں، وہ صرف فلسطین ہی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ سارے عالم اسلام کو سنجیدگی کے ساتھ متاثر کرتا ہے۔

اگر اس مسئلے کا تاریخی پس منظر میں مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ خالصتاً مسلم مسئلہ ہے۔ اسرائیل کی تاریخ کی روشنی میں فلسطین، یہودیوں کے مسئلے کی حیثیت سے خلیفہ ثانی حضرت عمرفاروقؓ کے بیت المقدس میں داخلے سے تیرہ سو برس پہلے ختم ہوچکا ہے۔ جیساکہ پروفیسر ہاکنگز نے کہا ہے کہ اِدھر اُدھر پھیل جانا بالکل رضاکارانہ تھا اور ان کی مقدس کتابوں کا بیش تر حصہ بھی فلسطین سے باہر لکھا گیا۔ نہ یہ مسیحی مسئلہ ہی تھا۔ جدید تاریخی تحقیق تو ’پیٹر حرمٹ‘ کے وجود کو بھی شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ اگر یہ فرض کرلیں کہ صلیبی جنگیں، فلسطین کو مسیحی مسئلہ بنانے کی کوشش تھی، تویہ کوشش بھی صلاح الدین [ایوبی] کی فتوحات کے باعث ناکام ہوگئی۔ لہٰذا، میں فلسطین کو خالصتاً مسلم مسئلہ قرار دیتا ہوں۔

جہاں تک مشرق قریب کے مسلمانوں کا تعلق ہے۔ برطانوی سامراجی عزائم اس قدر مکمل طورپر بے نقاب نہیں ہوئے تھے، جس قدرفلسطین شاہی کمیشن کی رپورٹ  سے ہوئے ہیں۔ فلسطین میں یہودیوں کے لیے قومی وطن کا تصور محض ایک حربہ ہے۔ درحقیقت برطانوی سامراج کو مستقل انتداب (mandate)کی شکل میں مسلمانوں کے مذہبی وطن میں ایک گھر کی جستجو تھی۔ دراصل یہ ایک خطرناک تجربہ ہے جو فی الحقیقت برطانوی سامراج کے لیے آیندہ مشکلات کا آغاز ثابت ہوگا.... ارضِ مقدس کی فروخت بشمول مسجدعمر جوعربوں پر مسلط کی گئی مارشل لا کے نفاذ کی دھمکی کے ساتھ اور جسے ان کی فیاضی کے نام پر اپیل کے ذریعے نرم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس سے ان کے تدبر کے دیوالیہ پن کا انکشاف ہوتا ہے۔ یہودیوں کوایک زرخیز قطعۂ زمین کی پیش کش اور عربوں کو اس کے عوض پہاڑی صحرا اور اس کے ساتھ کچھ نقدی دینا سیاسی دانش نہیں ہے۔ یہ لین دین گھٹیا درجے کا ہے اور ایک عظیم قوم کے نہ صرف شایانِ شان نہیں بلکہ ان کے وقار کے لیے ضرر رساں ہے، جن کے نام پر عربوں سے آزادی اور کنفیڈریشن کے قیام کے قطعی وعدے کیے گئے تھے۔

میرے لیے اس مختصر بیان میں فلسطین رپورٹ پر تفصیل سے بحث کرنا ناممکن امر ہے۔ تاہم، کچھ اہم سبق ہیں جو مسلمانانِ ایشیا کو سیکھنے چاہییں۔ تجربے نے صریحاً واضح کر دیا ہے مشرق قریب کے لوگوں کی سیاسی سالمیت کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ترکوں اورعربوں میں فوراً دوبارہ اتحاد قائم کیا جائے۔ وہ حکمت عملی کہ ترکوں کو عالمِ اسلام سے علیحدہ کر دیا جائے، اب بھی رُوبہ عمل ہے۔ کبھی کبھی یہ سننے میں آتا ہے کہ ’’ترک، اسلام کو مسترد کرر ہے ہیں‘‘۔ اس سے بڑا جھوٹ کبھی نہیں بولا گیا۔ جن لوگوں کو اسلامی قوانین کے تصورات کی تاریخ کا مطلق علم نہیں، وہ آسانی سے اس قسم کے شرانگیز پروپیگنڈے کا شکار ہوجاتے ہیں۔

عربوں کو مزید یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ان عرب بادشاہوں کے مشورے پر اعتماد کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے ،جو آزاد شعور کے ساتھ اُمورفلسطین کے بارے میں آزاد فیصلے کرنے کے اہل نہیں۔ وہ جو کچھ فیصلہ کریں، خود کریں اور اس مسئلے کو اچھی طرح سوچ سمجھ کر کریں جو انھیں اس وقت درپیش ہے۔

موجودہ لمحہ، ایک آزمایش کا لمحہ بھی ہے۔ ایشیا کے آزاد غیرعرب ممالک کے مسلم مدبرین کے لیے [ترکی کی عثمانی] خلافت کے خاتمے کے بعد سے یہ پہلا بین الاقوامی مسئلہ ہے، جس کی مذہبی اور سیاسی دونوں نوعیتیں ہیں جن کا تاریخی قوتیں سامنا کرنے پر مجبور کررہی ہیں۔ مسئلہ فلسطین کے امکانات آخرکارانھیں یہ سوچنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ اس برطانوی، فرانسیسی ادارے کے تعلق سے، جس کے وہ ارکان ہیں اور جسے غلط طور پر ’انجمن اقوام‘ کہا جاتا ہے اور ایسے عملی ذرائع پر غور کریں، جن سے ’مشرقی انجمن اقوام‘ تشکیل پاسکے۔

علامہ اقبال کے بیان کا انگریزی متن

I assure the pepole, that I feel the injustice done to the Arabs as keenly as anybody else, who understands the situation in the Near East.... British statesmen  are tackling is not one of Palestine only, but seriously affects the entire Muslim world.

The problem, studied in its historical perspective, is purely a Muslim problem. In the light of the history of Israel, Palestine ceased to be a Jewish problem long before the entry of Caliph 'Umar into Jerusalem more that 1300 years ago. Their dispersion, as Professor Hockings has pointed out, was perfectly voluntary and their scriptures were for the most part written outside Palestine. Nor was it ever a Christian problem. Modern historical research has doubted even the existence of Peter the Hermit. Even if we assume that the Crusades were an attempt to make Palestine a Christian problem, this attempt was defeated by the victories of Salah-ud-Din. I, therefore, regard Palestine as a purely Muslim problem.

Never were the motives of British imperialism as regards the Muslims people of the Near East so completely unmasked as in the Palestine Royal Commission Report. The idea of a national home for the Jews in Palestine was only a device. In fact, British imperialism sought a home for itself in the form of a permanent mandate in the religious home of the Muslims. This is indeed a dangerous experiment.... It is really the begginning of the future difficultes of British imperialism. The sale of the Holy Land, including the Mosque of 'Umar, inflicted on the Arabs with the threat of martial law and softened by an appeal to their generosity, reveals bankruptcy of statemanship rather than its achievement. The offer of a piece of rich land to the Jews and the rocky desert plus cash to the Arabs is no political wisdom. It is a low transaction unworthy and damaging to the honour of a great people in whose name definite promises of liberty and confederation were given to the Arabs.

It is impossible for me to discuss the details of the Palestine Report in this short statement. There are, however, important lessons which Muslims of Asia ought to take to heart. Experience has made it abundantly clear, that the political integrity of the peoples of the Near East lies in the immediate reunion of the Turks and the Arabs. The policy of isolating the Turks from the rest of the Muslim world is still in action. We hear now and then that the "Turks are repudiating Islam". A greater lie was never told. Only those who have no idea of the history of the concepts of Islamic Jurisprudence fall an easy prey to this sort of mischievous progaganda....

....The Arab people must further remember that they cannot afford to rely on the advice of those Arab Kings, who are not in a position to arrive at an indpendent judgment in the matter of Palestine with an independent judgment in the matter of Palestine with an independent conscience, Whatever, they decide, they should decide on their own initiative after a full understanding of the problem befor them.

The present moment is also a moment of trial for the Muslim statesmen of the free non-Arab Muslim countries of Asia. Since the abolition of the [Turkish Ottoman] Caliphate this is the first serious international problem of both a religious and political nature.... The possibilities of the Palestine problem may eventually compel them seriously to consider their position as members of that Anglo-French institution, miscalled the League of Nations, and to explore practical means for the formation of an Eastern League of Nations. (Speeches, Writings & Statements of Iqbal, edited by Latif Ahmed Sherwani, p 293-205). 

’مطالبۂ پاکستان‘ کو یہود کے ’قومی وطن‘ سے تشبیہ دینا غلط ہے [۱۹۴۴ء]

سوال: مسلمان، آدم علیہ السلام کی خلافتِ ارضی کا وارث ہے۔ مسلمان کی زندگی کا مقصد صرف اللہ پاک کی رضا اور اس کے مقدس قانون پر چلنا اور دوسروں کو چلنے کی ترغیب دینا ہے۔ لیکن مسٹرمحمدعلی جناح اور مسلم لیگی بھائی پاکستان کا قیام چاہتے ہیں، ہندستان کی زمین کا ایک گوشہ، تاکہ ان کے خیال کے مطابق مسلمان چَین کی زندگی گزار سکیں۔

کیا خالص دینی نقطۂ نظر سے یہ مطالبہ قابلِ اعتراض نہیں ہے؟ یہودی قوم مقہور و مغضوب قوم ہے۔ اللہ پاک نے اس پر زمین تنگ کر دی ہے اور ہرچند کہ اس قوم میں دُنیا کے بڑے سے بڑے سرمایہ دار اور مختلف علوم کے ماہرین موجود ہیں، لیکن اُن کے قبضے میں ایک انچ زمین بھی نہیں ہے۔ آج وہ اپنا قومی وطن بنانے کے لیے کبھی انگریزوں سے بھیک مانگتے ہیں اور کبھی امریکاوالوں سے۔ میرے خیا ل میں مسلمان، یا بالفاظِ دیگر آل انڈیا مسلم لیگ بھی یہی کر رہی ہے۔ تو پھر کیا یہ ایک مقہور اور مغضوب قوم کی پیروی نہیں ہے؟

جواب: میرے نزدیک پاکستان کے مطالبے پر، یہودیوں کے قومی وطن کی تشبیہ چسپاں نہیں ہوتی:

 فلسطین فی الواقع یہودیوں کا قومی وطن نہیں ہے، اُن کو وہاں سے نکلے ہوئے دوہزار برس گزرچکے ہیں۔ اُسے اگراُن کا قومی وطن کہا جاسکتا ہے، تو اُسی معنی میں جس معنی میں جرمنی کی آریہ نسل کے لوگ وسطِ ایشیا کواپنا قومی وطن کہہ سکتے ہیں۔ یہودیوں کی اصل پوزیشن یہ نہیں ہے کہ ایک ملک [فلسطین] واقعی اُن کا قومی وطن ہے اور وہ اسےتسلیم کرانا چاہتے ہیں، بلکہ ان کی اصلی پوزیشن یہ ہے کہ ایک ملک ان کا قومی وطن نہیں ہے، اور اُن کا مطالبہ یہ ہے کہ ’’ہم کو دنیا کے مختلف گوشوں سے سمیٹ کروہاں بسایا جائے اور اُسے بزور ہمارا قومی وطن بنا دیا جائے‘‘۔

بخلاف اس کے، مطالبۂ پاکستان کی بنیاد یہ ہے کہ ’’جس علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے، وہ بالفعل مسلمانوں کا قومی وطن ہے‘‘، اور مسلمانوں کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ ’’موجودہ جمہوری نظام میں ہندستان کےدوسرے حصوں کے ساتھ لگےرہنے سے، اُن کےقومی وطن کی سیاسی حیثیت کو جو نقصان پہنچتا ہے، اُس سے اس کو محفوظ رکھاجائے، اور متحدہ ہندستان کی ایک آزاد حکومت کے بجاے، ’ہندو ہندستان‘ اور’مسلم ہندستان‘ کی دو آزاد حکومتیں قائم ہوں۔ یعنی بالفاظِ دیگر وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ’’ان کا قومی وطن جو بالفعل موجود ہے، اُس کو اپنی آزاد حکومت الگ قائم کرنے کا حق حاصل ہوجائے‘‘۔

یہ چیز بعینہٖ وہی ہے، جو آج دُنیا کی ہرقوم چاہتی ہے۔ اور اگرمسلمانوں کے مسلمان ہونے کی حیثیت کو نظرانداز کرکے انھیں صرف ایک قوم کی حیثیت سے دیکھا جائے، تو اُ ن کے اِس مطالبے کے حق بجانب ہونے میں کوئی کلام نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اصولاً اس بات کے مخالف ہیں کہ دُنیا کی کوئی قوم کسی دوسری قوم پر سیاسی و معاشی حیثیت سے مسلط ہو۔ ہمارے نزدیک اصولاً یہ ہرقوم کا حق ہے کہ اس کی سیاسی و معاشی باگیں اس کے اپنے ہاتھوں میں ہوں۔ اس لیے ایک قوم ہونے کی حیثیت سے اگر مسلمان یہ مطالبہ کرتے ہیں تو جس طرح دوسری قوموں کے معاملے میں یہ مطالبہ صحیح ہے، اسی طرح ان کے معاملے میں بھی صحیح ہے۔ (ترجمان القرآن، جولائی- اکتوبر، ۱۹۴۴ء، ص۱۰۳-۱۰۴)

مسئلہ فلسطین اور جماعت اسلامی [۱۹۴۶ء]

سوال: فلسطین کی سیاست میں امریکا اور برطانیہ کی خود غرضانہ دخل اندازی اور اسلام دشمنی کے نتائج واضح ہیں۔ جماعت اسلامی کی قضیۂ فلسطین کے سلسلے میں پالیسی کیا ہے؟

جواب: ہمارے نزدیک برطانیہ اور امریکا سخت ظلم کررہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین کے معاملے میں انھوں نے بے انصافی کی حد کردی ہے۔ اہلِ فلسطین سے ہمدردی کرنا ہرانسان کا انسانی فرض ہے، اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے یہ فرض کئی گنا زیادہ سخت ہوجاتا ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ہمدردی کریں۔ پھر فلسطین کا مسئلہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اگر خدانخواستہ وہاں یہودی ریاست بن گئی، تو اس سے مرکز اسلام ، یعنی حجاز کو بھی متعدد قسم کے خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ اس معاملے میں دُنیا کے مسلمان مدافعت کے لیے جو کچھ بھی کریں، ہم ان کے ساتھ ہیں۔

ہمارے نزدیک اصل مسئلہ کفر و اسلام کی کش مکش کا ہے اور ہم اپناسارا وقت،ساری قوت اور ساری توجہ اسی مسئلے پر صرف کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ (ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۴۶ء، ص۲۵۱-۲۵۲)

ظلم اور جارحیت کے رکھوالے [۱۹۶۷ء]

[۳۰؍اگست ۱۹۶۷ء کو ایک خط کے جواب میں لکھا:]

کشمیر کے معاملے میں پاکستان کو جو تجربہ پچھلے [چندبرسوں] سے ہو رہا ہے اور عرب ممالک کو اسرائیلی جارحیت کے بعد جو تجربہ ہوا ہے، اس نے یہ بات بالکل واضح کردی کہ دُنیا میں آج بھی ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا قاعدہ ہی جاری ہے۔ آج بھی قوت ہی حق ہے، اور کسی قوم کے لیے اس کی اپنی طاقت کے سوا اس کے حقوق کی حفاظت کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد دنیا کو ایک فریب ’مجلس اقوام‘ کے نام سے ایک انجمن بنا کردیا گیا، مگر بہت جلدی یہ بات کھل گئی کہ ’بہرتقسیم قبور انجمنے ساختہ اند‘۔ پھر دوسری جنگ عظیم کے بعددوسرا فریب ’اقوام متحدہ‘ کی تنظیم قائم کرکے دیا گیا، مگر آج کسی سے بھی یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ تنظیم چند بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں ایک کھلونا ہے، جسے وہ حق اور انصاف کے لیے نہیں بلکہ اپنی مصلحتوں کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ظالم کا ہاتھ پکڑنا اور مظلوم کا حق دِلوانا تو درکنار، یہ تنظیم تو ظالم کو ظالم کہنے تک کے لیے تیار نہیں ہے۔ بلکہ اب تو کھلم کھلا مظلوم کو ’حقیقت پسندی‘ کا درس دیا جارہا ہے، جس کے معنی صاف صاف یہ ہیں کہ مظلوم اپنی کمزوری اور ظالم کی زورآوری کو ایک امرواقعہ کی حیثیت سے تسلیم کرے، اور ظالم نے طاقت کے بل بوتے پر اس کا جو حق مار کھایا ہے،اس پر صبرکرے۔

ان حالات میں یہ اُمید کرنا بالکل لاحاصل ہے کہ کشمیر میں ہندستان نے اور شرقِ اوسط میں اسرائیل نے جو غاصبانہ دست درازیاں کی ہیں، ان کا تدارک محض حق و انصاف کی بنیاد پر کوئی بین الاقوامی طاقت کرائے گی۔ یہاں اخلاق کا نہیں بلکہ جنگل کا قانون جاری ہے۔ ہمیں خدا پر بھروسا کرکے اپنی طاقت ہی سے غاصبوں کی ان زیادتیوں کا تدارک کرنا ہوگا، اور ان کا تدارک جب بھی ہوگا بزورِ شمشیر ہی ہوگا۔(مکاتیب ِ سیّدابوالاعلیٰ مودودی، اوّل ص ۲۰۹-۲۱۱)

اسرائیلی جرائم میں مسیحی دنیا کی حصے داری[۱۹۶۷ء]

[رومن کیتھولک مسیحی سربراہ پوپ پال ششم کے نام دسمبر ۱۹۶۷ء کے خط میں لکھا:]

مسیحی دُنیا کے متعلق مسلمانوں کا عام احساس یہ ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک شدید جذبۂ عناد رکھتی ہے، اور آئے دن ہمیں ایسے تجربات ہوتے رہتے ہیں، جو اس احساس کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ اس کا تازہ ترین تجربہ وہ ہے جو [جون ۱۹۶۷ء] میں عرب اسرائیل جنگ کے موقعے پر ہوا۔ اس لڑائی میں اسرائیل کی فتح پر یورپ اور امریکا کے بیش تر ملکوں میں جس طرح خوشیاں منائی گئیں، انھوں نے تمام دنیا کے مسلمانوں کے دل میں زخم ڈال دیے ہیں۔ آپ شاید ہی کوئی مسلمان ایسا پائیں گے، جس نے عربوں کی شکست اور اسرائیل کی فتح پر مسیحی دُنیا کے اس علی الاعلان اظہارِ مسرت و شادمانی اور اسرائیل کی کھلی کھلی حمایت کو دیکھ کر یہ محسوس نہ کیا ہو کہ یہ اسلام اورمسلمانوں کے خلاف مسیحیوں کے گہرے جذبۂ عناد کا مظاہرہ تھا۔

فلسطین میں اسرائیل کی ریاست جس طرح بنی ہے ،بلکہ بنائی گئی ہے۔ اس کی تاریخ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ دوہزار برس سے فلسطین عرب آبادی کا وطن تھا۔ موجودہ [۲۰ویں] صدی کے آغاز میں وہاں یہودی ۸ فی صدی سے زیادہ نہ تھے۔ اس حالت میں برطانوی حکومت نے اس کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کا فیصلہ کیا اور ’مجلسِ اقوام‘ نے نہ صرف اِس فیصلے کی توثیق کی بلکہ برطانوی حکومت کو فلسطین کا مینڈیٹ دیتے ہوئے یہ ہدایت کی وہ یہودی ایجنسی کو باقاعدہ شریک ِ حکومت بنا کر اس تجویز کو عملی جامہ پہنائے۔ اس کے بعد دُنیا بھر کے یہودیوں کو لالاکر، ہرممکن تدبیر سے فلسطین میں بسانے کاسلسلہ شروع کر دیا گیا، یہاں تک کہ ۳۰سال کے اندر ان کی آبادی ۳۳فی صدی تک پہنچ گئی۔ یہ ایک صریح ظلم تھا، جس کے ذریعے سے ایک قوم کے وطن میں زبردستی ایک دوسری اجنبی قوم کا وطن بنایا گیا۔ پھر ایک دوسرا اس سے بھی زیادہ ظالمانہ قدم اُٹھایا گیا اور امریکا نے کھلے بندوں دباؤ ڈال کر اقوامِ متحدہ سے یہ فیصلہ کرایا کہ یہودیوں کے اس مصنوعی قومی وطن کو یہودی ریاست میں تبدیل کردیا جائے۔ اس فیصلے کی رُو سے ۳۳فی صدی یہودی آبادی کو فلسطین کا ۵۵ فی صدی، اورعربوں کی ۶۷ فی صدی آبادی کو ۴۵ فی صدی رقبہ الاٹ کیا گیا تھا۔ لیکن یہودیوں نے لڑ کرطاقت کے بل پر اس ملک کا ۷۷ فی صدی رقبہ حاصل کرلیا اور ماردھاڑ اور قتل و غارت کے ذریعے سے لاکھوں عربوں کو گھر سے بے گھر کر دیا۔ یہ ہے اسرائیل کی اصل حقیقت۔ کیا دُنیا کا کوئی انصاف پسند اور ایمان دار آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک جائز ریاست ہے جو فطری اور منصفانہ طریق سے بنی ہے؟

اس [اسرائیل]کا تو عین وجود ہی ایک بدترین جارحیت ہے۔ اور اس پر مزید ظلم یہ ہے کہ یہودی صرف اُن حدود کے اندر محدود رہنے پر بھی راضی نہیں ہیں، جو انھوں نے فلسطین میں زبردستی حاصل کی ہیں، بلکہ وہ سالہا سال سے علانیہ کہہ رہے ہیں کہ نیل سے فرات تک کا پورا علاقہ ان کا قومی وطن ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہ قوم ہروقت یہ جارحانہ ارادہ رکھتی ہے کہ اس پورے علاقے پر جبراً قبضہ کرے اور اس کے اصل باشندوں کو زبردستی نکال کر، دُنیا بھر میں پھیلے ہوئے یہودیوں کو وہاں لاکر بسائے۔

اسی جارحانہ اسکیم کا ایک جز گذشتہ ماہِ جون [۱۹۶۷ء]کا وہ اچانک حملہ تھا، جس کے ذریعے سے اسرائیل نے۲۶ہزار مربع میل علاقے پر قبضہ کیا۔ اس پورے ظلم کی ذمہ دار مسیحی دُنیا ہے۔ اُس نے ایک قوم کے وطن میں ایک دوسری قوم کا وطن زبردستی بنوایا۔ اُس نے اس مصنوعی قومی وطن کو ایک ریاست میں تبدیل کرایا۔ اُس نے اِس جارح ریاست کو روپے اور ہتھیاروں سے مدددے کراتنا طاقت ور بنایا کہ وہ زبردستی اپنے توسیعی منصوبوں کو عمل میں لاسکے۔ اور اب اس ریاست کی تازہ فتوحات پر یہی مسیحی دُنیا جشنِ شادمانی منارہی ہے۔

 کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس کے بعد نہ صرف عربوں میں، بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں میں مسیحیوں کی انصاف پسندی، اُن کی خیراندیشی اور مذہبی عناد و تعصب سے اُن کی بریت پر کوئی اعتماد باقی رہ گیا ہے؟ اور کیا آپ کا خیال ہے کہ دُنیا میں امن قائم کرنے کے یہی طریقے ہیں؟ یہ دراصل ہمارا نہیں بلکہ آپ کا کام ہے کہ مسیحی بھائیوں کو اِس رَوش پر شرم دلائیں اور ان کی روح کو اِس گندگی سے پاک کرنے کی کوشش کریں۔ (مکاتیب ِ سیّدابوالاعلیٰ مودودی، اوّل ص ۲۲۱-۲۲۳)

اسرائیل کے حق میں ایک عجیب مذہبی استدلال [۱۹۷۶ء]

سوال: سورئہ بنی اسرائیل ، آیت ۱۰۴ کے متعلق اخبار صدق جدید (لکھنؤ) میں مولانا عبدالماجد دریابادی [۱۶مارچ ۱۸۹۲ء-۶جنوری ۱۹۷۷ء]نے یہ تشریح کی ہے کہ ’’اس میں وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ  سے یَوْمُ الْاٰخِرَۃِ نہیںہے بلکہ قیامت کے قریب ایک وقت موعود ہے اور جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا سے مراد بنی اسرائیل کے مختلف گروہوں کو ایک جگہ اکٹھا کر دینا ہے‘‘۔ پھر جناب دریابادی فرماتے ہیں کہ ’’مطلب واضح ہے، یعنی اسرائیلیوں کو بعد ِ واقعۂ فرعون کی خبر دےدی گئی تھی کہ اب تو تم آزاد ہو، دُنیا میں جہاں چاہو رہو بسو، البتہ جب زمانہ قربِ قیامت کا آجائے گا تو ہم تم کو مختلف سمتوں سے، مختلف ملکوں سے، مختلف زبانیں بولتے ہوئے، مختلف وضع و لباس اختیارکیے ہوئے ، سب کو ایک جگہ جمع کردیں گے اور وہ جگہ اور کون سی ہوسکتی ہے بجز ان کے قدیم وطن ملک فلسطین کے۔ آج جو ارضِ فلسطین میں یہود کا اجتماع ہر ہرملک سے ہورہا ہے، کیا یہ اسی غیبی پیش خبری کاظہور نہیں؟‘‘ مولانا دریابادی صاحب کی اس تشریح سے ڈر ہے کہ یہ فلسطین کے متعلق عام جذبۂ جہاد کو ٹھنڈا کردے گا۔

جواب:آیت ِ مذکورہ کی اس تشریح کو دیکھ کر تعجب ہوا۔ آیت کے الفاظ تو صرف یہ ہیں کہ:

وَّقُلْنَا مِنْۢ بَعْدِہٖ لِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا۝۱۰۴ۭ (بنی اسرائیل ۱۷:۱۰۴) اور اس کے بعد (یعنی فرعون کی غرقابی کے بعد) ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ زمین میں رہو بسو، پھر جب آخرت کے وعدے کا وقت آئے گا تو ہم تم کو اکٹھا کر لائیں گے۔

ان الفاظ میں ’قربِ قیامت کے وقت ِ موعود‘ اور بنی اسرائیل کے وطنِ قدیم میں یہودیوں کے مختلف گروہوں کو ملک ملک سے لاکر جمع کردینے کا، مفہوم آخر کہاں سے نکل آیا؟ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ  کاسیدھااور صاف مطلب آخرت کا وعدہ ہے، نہ کہ ’قیامت کے قریب زمانے کا کوئی وقت ِ موعود‘۔ اور سب کو اکٹھا کرکے لانے یاجمع کرلانے سے مراد قیامت کے روز جمع کرنا ہے۔ اس میں کوئی اشارہ تک اس بات کی طرف نہیں ہے کہ اسی دنیا میں بنی اسرائیل کو ایک جگہ جمع کیا جائے گا۔

اس پر مزید ستم یہ ہے کہ ’’ایک جگہ جمع کرنے‘‘ کے تصور کو آیت کے الفاظ میں داخل کرنے ہی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ [مولانا دریابادی صاحب نے] یہ بھی طے کردیا [ہے]کہ وہ جگہ ’اسرائیلیوں کے وطنِ قدیم‘ کے سوااور کوئی نہیں ہوسکتی۔ یہ تو بعینہٖ یہودیوں کے اس دعوے کی تائید ہے کہ ’دو ہزار برس تک فلسطین سے بے دخل رہنے کے باوجود اُس پران کا حق فائق ہے، کیونکہ وہ ان کا وطن قدیم ہے، اور اب دو ہزار برس سے یہ ملک جن لوگوں کا حقیقت میں وطن ہے، ان کے مقابلے میں برطانیہ اورروس اور امریکا نے نہیں، بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین پریہودیوں کے حقِ سکونت کو فائق قرار دے کر انھیں ہرملک سے وہاں جمع کروایا ہے‘۔ اس طرح تو ’اسرائیلی ریاست کا قیام اللہ تعالیٰ کے ایک وعدے کا نتیجہ قرار پاتا ہے، نہ کہ دنیا کی ظالم قوموں کی ایک سازش کا‘۔ حالانکہ آیت کے الفاظ میں اس مفہوم کے لیے قطعاًکوئی گنجایش نہیں ہے۔ (ترجمان القرآن، جون ۱۹۷۶ء، ص ۳۸-۳۹)

امریکا کی جانب سے اسرائیل کی غیراخلاقی حمایت [۱۹۷۷ء]

سوال: اسرائیلی وزیراعظم مناخم بیگن [۱۹۱۳ء-۱۹۹۲ء]نے اپنے دورئہ امریکا کے فوراً بعد حال ہی میں تین غیرقانونی یہودی بستیوں کو دریائے اُردن کے مغربی کنارے پرقانونی حیثیت دی ہے۔ مزیدبرآں اسرائیلی حکومت تین اورنئی بستیاں مغربی کنارے پربسارہی ہے۔ اس سلسلے میں آپ کا ردِعمل کیا ہے؟

جواب: امریکی حکومت اگر انصاف اوراخلاق کے تمام اصولوں کو نظرانداز کرکے یہودیوں کی بے جا حمایت اور امداد و اعانت کرنے پر تلی ہوئی نہ ہوتی، تو اسرائیل کبھی اتنا جری و بے باک نہ ہوسکتا تھا کہ پےدرپے ایک سے ایک بڑھ کر ڈاکازنی اورغصب و ظلم کے جرائم کاارتکاب کرتا چلاجاتا۔ اس لیےمَیں ’اصل مجرم امریکا کی بےضمیری‘ کو قرار دیتا ہوں، جسے ساری دنیا کے سامنے اس جرائم پیشہ ریاست کی پیٹھ ٹھونکتےہوئے ادنیٰ سی شرم تک محسوس نہیں ہوتی۔

 امریکا، یہودیوں سے اس حد تک دبا ہوا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کی آمدکے موقعے پر    ان کے مذہبی پیشوا اور بااثر لیڈر، امریکی صدر پر ہجوم کرکے آتے ہیں۔ [اسرائیلی وزیراعظم]بیگن کی پذیرائی کے لیے اس پر دباؤ ڈالتے ہیں اور اس کو درپردہ ہی نہیں اشاروں کنایوں میں یہ احساس بھی دلا دیتے ہیں کہ ’جسے امریکا کا  صدر بننا ہو، وہ یہودی ووٹوں کا محتاج ہے‘۔ اس پس منظر میں انسانی حقوق اور اخلاق و انصاف کے دعوے دار [امریکی صدر]جمی کارٹر صاحب، بیگن کے اس انتہائی بے شرمانہ بیان کو شیرمادر کی طرح نوش فرما لیتے ہیں کہ ’’دریائے اُردن کے مغربی جانب کا فلسطین، جو ۱۹۶۷ء کی جنگ میں عربوں سے چھینا گیا تھا، وہ [اسرائیل کے زیرتسلط کوئی]مقبوضہ (occupied) علاقہ نہیں ہے، بلکہ آزاد کرایا ہوا (lliberated ) علاقہ ہے اور یہ ہماری میراث ہے، جس کا وعدہ چارہزار برس پہلے بائبل میں ہم سے کیا گیا تھا، اس لیے ہم اسے نہیںچھوڑیں گے‘‘۔

یہ کھلی کھلی بے حیائی کی بات، امریکی حکام اور عوام سب کے سب سنتے ہیں اورکوئی پلٹ کر نہیں پوچھتا کہ بائبل کی چالیس صدی قدیم بات آج کسی ملک پر ایک قوم کے دعوے کی بنیاد کیسے بن سکتی ہے؟ اور ایسی دلیلوں سے اگر ایک قوم کے وطن پردوسری قوم کا قبضہ جائز مان لیا جائے،تو  نہ معلوم اورکتنی قومیں اپنے وطن سے محروم کردی جائیں گی۔ (ترجمان القرآن، اکتوبر ۱۹۷۷ء، ص۴۱-۴۲)

مسجد ِ اقصیٰ کی دیواروں کے نیچے کھدائی [۱۹۷۷ء]

سوال: مسجد اقصیٰ کی دیواروں کے نیچے اسرائیل کھدائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سے مسجد کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ اس بارے میں آپ اظہارِ خیال فرمائیں۔

جواب:مسجد اقصیٰ میں جو اکھیڑپچھاڑ یہودی کررہے ہیں ، اور جو کچھ وہ الخلیل میں مسجد ابراہیمی کے ساتھ کرچکے ہیں، اس کی کوئی روک تھام، بیانات اور قراردادوں اور اقوام متحدہ کےفیصلوں سے نہیں ہوسکتی۔ یہودی یہ سب کچھ طاقت کے بل پر کررہے ہیں اور وہ طاقت اس کو امریکا بہم پہنچا رہا ہے۔ جب تک ہم امریکا پر یہودیوں کے دباؤ سے بڑھ کر دباؤ ڈالنے کے قابل نہ ہوجائیں، اس ڈاکا زنی کا سلسلہ نہیں رُک سکتا۔ (ترجمان القرآن، اکتوبر ۱۹۷۷ء، ص ۴۲)

جب ۲۹فروری ۲۰۲۰ء کو دوحہ میں امریکا اورافغان طالبان کےدرمیان معاہدۂ امن پر دستخط کیے گئے، اس تقریب کی خاص بات امریکا کا طالبان کو برابر کی قوت تسلیم کرنا تھا۔ اس معاہدۂ امن میں بعض ناقابلِ فہم تاریخیں دی گئی تھیں، مثلاً ’’۱۰مارچ کو بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوجائے گا اور اس سے پہلے ۵ہزار طالبان قیدی اور ایک ہزار سرکاری قیدی رہا کردیے جائیں گے‘‘۔اسی طرح دیگر تاریخوں میں ۲۹مئی اور ۲۷؍اگست بھی شامل تھیں، جو سب کی سب گزر چکی ہیں۔ طالبان پر سے بین الاقوامی پابندیاں ہٹانے کی تاریخ بھی گزر گئی، مگر یہ تمام مسائل حل نہ ہوئے لیکن ۱۲ستمبر کو بین الافغان مذاکرات کا آغاز ضرور ہوگیا۔ ان مذاکرات کا بنیادی ایجنڈا شورش زدہ افغانستان میں امن کا قیام ہے،جو گذشتہ چارعشروں سے بدامنی کا شکار ہے، اور وہاں کا ہر شہری ہرصبح اس تمنا اور دُعا کے ساتھ بیدار ہوتا ہے کہ اس کے وطن میں امن کا سورج آج طلوع ہوگا۔

بنیادی طور پر مذاکرات میں دو گروہوں کا آمنا سامنا ہے۔ لیکن اگر ان گروہوں کی مذاکراتی ٹیموں کا جائزہ لیا جائے توپوری افغان ملت کی نمایندگی موجود ہے۔ طالبان کے وفد میں کُل ارکان کی تعداد ۲۰ ہے، لیکن کوئی خاتون رکن شامل نہیں، جب کہ افغان حکومت کے وفد میں پانچ خواتین سمیت ارکان کی تعداد بھی ۲۰ ہے۔ حکمت یار کے داماد ڈاکٹر غیرت بہیر کو بھی سرکاری وفد میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی، لیکن انھوں نے معذرت کرلی تھی۔ افغان اعلیٰ امن کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے بھی ۱۲ستمبر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی تھی لیکن وہ خود مذاکراتی وفد میں شامل نہیں۔ افغانستان کی سیاست پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں، کہ برسرِ زمین طالبان کےمقابل اصل کرتا دھرتا وہی ہیں۔ صدارتی انتخابات میں شکست کے بعد ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ خودساختہ صدرجمہوریہ بن گئے، لیکن بعد میں امریکی دباؤ پر انھوں نے امن کمیٹی کی صدارت قبول کی، جو ایک اعزازی عہدہ ہے۔ البتہ یہ طے شدہ امر ہے کہ اگر بین الافغان مذاکرات ناکام ہوتے ہیں اور افغان دھڑوں میں جنگ چھڑتی ہے، تو طالبان کا مقابلہ سابقہ شمالی اتحاد کی قوتوں کے ساتھ ہی ہوگا۔

بین الافغان امن مذاکرات کا ایجنڈا تو طالبان امریکا معاہدہ ہی میں طےکردیا گیا تھا۔ دفعہ نمبر۴ میں تحریر ہے: ’’مستقل اور جامع فائربندی‘ بین الافغان مذاکرات اور صلاح کاروں کا ایک بنیادی نکتہ ہوگا۔ شرکا مستقل اور جامع فائربندی کی تاریخ اور طریقۂ کار پر بحث کریں گے، جس میں مشترکہ نظام کے نفاذ کا اعلان اورافغانستان میں مستقبل کا سیاسی نقشۂ کار شامل ہیں‘‘۔ آگے چل کر معاہدے کے تیسرے حصے کی شق نمبر۳ میں بات واضح کی گئی ہے کہ ’’ریاست ہاے متحدہ (امریکا) نئی افغان اسلامی حکومت جو بین الافغان مذاکرات اور تصفیہ کے بعد وجود میں آئے گی، اس کے ساتھ مالی تعاون جاری رکھے گا، اور اس کے اندرونی معاملات میں دخل انداز نہیں ہوگا‘‘۔

لیکن اس شق سے پہلےشق نمبر۲ بھی اہم ہے ، جس میں کہا گیا ہے: ’’ریاست ہاے متحدہ (امریکا) اور امارت اسلامی افغانستان آپس میں مثبت تعلقات قائم کریں گے اورچاہیں گے کہ ریاست ہاے متحدہ اورامارت اسلامی افغانستان باہم معاملات طے کرنے کے بعد بننے والی افغان اسلامی حکومت کے تعلقات اور بین الاقوامی مذاکرات کےنتائج مثبت ہوں گے‘‘۔ یعنی مذاکرات سے پہلے ہی اس کے مثبت نتائج اورنئی افغان حکومت کے قیام کا اعلان ۲۹فروری ہی کو کردیا گیا تھا، تو سوال پیدا ہوتا ہے پھر مذاکرات کس موضوع پر ہورہے ہیں اور مذاکرات کاروں کے ذمے کیا ایجنڈا ہے؟ فائربندی اور نئی حکومت کاڈھانچا کیا ہوگا؟ اگر اس ترتیب کو بدل دیا جائے، تو پہلے بات چیت آیندہ حکومتی ہیئت پر ہی ہوگی۔ اوراس کو طے کرنے کے بعد فائربندی کی نوبت آئے گی۔ ظاہر ہے حکومتی وفد کا مطالبہ تو یہ ہوگا اور ہے کہ پہلے جنگ بندی کردی جائے۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے اپنی افتتاحی تقریر میں اسی نکتے پر زوردیا۔ اگرچہ مذاکرات کے تیسرے ہی دن ننگرھار صوبے میں سرکاری فوجی اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان لڑائی چھڑگئی، اور اس میں درجنوں انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔ پہلے حملے کا الزام دونوں طرف سے لگایا گیا۔

طالبان کی جانب سے مذاکرات کا آغاز مستقبل کے حکومتی نظام کے بارے تجاویز سے کیا گیا۔افغان طالبان کی یہ سوچی سمجھی رائے تھی کہ چونکہ امریکا نےافغانستان پر جارحیت کرکے ان سے حکومت چھینی تھی اورگذشتہ دو عشروں سے امریکی قبضے کے خلاف مزاحمتی جنگ بھی انھوں نے لڑی ہے، اس لیے مذاکرات بھی ان سے کیےجائیں اور حکومت بھی ان کے حوالے کی جائے۔ صدرٹرمپ نے (بادل نخواستہ) بالآخر ان کے ان دونوں مطالبات کو تسلیم کیا۔ ان سے دوسال مذاکرات کرکے ان کے ساتھ تمام معاملات طے کیے، اور اس کو ایک باقاعدہ معاہدے کےتحت دستخط کرکے اپنے آپ کو پابند کیا۔ البتہ دوسرے مطالبے کے لیے بین الافغان مذاکرات کا مرحلہ طے کیا گیا جس سے گزرکرافغانستان میں امارتِ اسلامی قائم ہوجائے گی۔

اس پورے عرصے میں طالبان کے بارے میں یہ سمجھاجاتا تھا کہ وہ ایک سخت گیر، بے لچک اورمتشدد گروہ ہے، جو صرف جنگ کی زبان جانتا ہے، لیکن امریکی نمایندے زلمے خلیل زادے کے ساتھ مذاکرات  میں مُلّا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں طالبان تحریک کی قیادت نے ثابت کیا، کہ وہ جس طرح جنگی رُموز سے بخوبی آگاہ ہیں اسی طرح سفارتی اُمور بھی جانتے ہیں۔ مخالف فریقوں کے درمیان مذاکرات میں اصل بات دونوں طرف کے مفادات کا تحفظ، اس کا ادراک اور متبادل تجاویز پیش کرنا ہوتا ہے۔ اس فن کا مظاہرہ انھوں نے امریکا کے ساتھ مذاکرات میں بھی کیا اور افغان دھڑوں کے ساتھ گفتگو کے آغاز میں بھی کیا۔ شنید یہ ہے کہ انھوں نے اپنی حکومت بنانے کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ امارت اسلامی کی صدارت/امارت ایک غیرجانب دار فرد کے سپرد کی جائے جو دونوں فریقوں کو قابلِ قبول ہو۔ البتہ ان کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ وزارتِ دفاع سمیت پانچ اہم وزارتیں ان کے سپرد کی جائیں۔ بہرکیف طالبان آیند ہ حکومت میں اپنی مضبوط پوزیشن دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ ان کا حق ہے۔

طالبان کے مدِمقابل ڈاکٹر اشرف غنی افغانستان میں قوم پرست پختونوں، سیکولر عناصر اور سابقہ کمیونسٹوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔ ان کی صدارت کا دوسرادور گزر رہا ہے۔ ایک ماہر معیشت کی حیثیت سے انھوں نے افغان عوام سے جو وعدے کیے تھے، وہ پورے نہیں ہوئے۔ اگر وہ تاریخ میں اپنا نام اچھے الفاظ سے یاد رکھناچاہتے ہیں تو انھیں اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

افغان طالبان کے مُلّا عبدالغنی برادر کو بھی مذاکرات کو کامیاب بنانے کا چیلنج درپیش ہے۔ پوری افغان قوم اس کامیابی کے لیے دعاگو اور پُراُمید ہے۔ اس موقع پرجنوبی افریقہ کے رہنما نیلسن منڈیلا کی مثال پیش نظر رہے۔انھوں نےجب ۲۷سالہ قید سے رہائی کے بعد ملک میں افریقن نیشنل کانگریس کی حکومت قائم کی تو مقامی لوگوں میں سفیدفام اقلیت کے خلاف نفرت اپنے عروج پر تھی اور انتقام کا جذبہ عام تھا۔لیکن نیلسن منڈیلا نے اعلان کیا کہ ہمیں اپنے وطن کو آباد کرنا ہے، اور اس کے لیے ہمیں سفیدفام لوگوں کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی مقامی لوگوں کی۔ یوں انھوں نے تمام مظالم کو بھلاکر ایک ترقی یافتہ ملک کی بنیاد رکھی۔ مُلّا عبدالغنی برادرنے خودمختاراور مضبوط اسلامی ملک بنانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، اور پوری دنیا کےمسلمان اس ارادے کی تکمیل میں ان کے لیے دعاگو ہیں۔ مذاکرات کا یہ عمل طویل ،صبرآزما اور پیچیدہ ہوسکتا ہے۔ طالبان کو اس میں قدرے بہتر حیثیت حاصل ہے اور وہ پُراعتماد بھی ہیں۔

الْحَکِیْمِ ___ آخری کتابِ الٰہی کے متعدد ناموں میں سے ایک ہے جوسورئہ یونس کی پہلی آیت: الۗرٰ۝۰ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ۝۱  ، سورئہ لقمان کی دوسری آیت: الۗمّۗ۝۱ۚ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ۝۲ۙ ، اور سورئہ یٰسٓ کی دوسری آیت: يٰسۗ۝۱ۚ  وَالْقُرْاٰنِ الْحَكِيْمِ۝۲ۙ میں وارد ہوا ہے۔

الْحَکِیْم  کے تین معنی بیان کیے گئے ہیں: الْمُحْکَمْ ، پختہ ، بلاشبہہ۔ الْمُبِیْن کھلا ہوا۔ المُوَضّحَ ، واضح۔یہ تینوں معنی قرآن حکیم پر اس طرح صادق آتے ہیں کہ یہ کتاب لاریب اپنی آیات، تعلیمات، احکامات، مواعظ و نصائح ، امثال و عبِر، ہرحوالے اور پہلو سے حکمت و دانش سے لبریز ، ہر بات کو کسی اُلجھن ، جھجک اور مصلحت کے بغیرکھول کر، پوری وضاحت اور تفصیل سے بیان کرنے والی ہے۔ الۗرٰ ۝۰ۣ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ  (ھود۱۱:۱) ’’ال ر، فرمان ہے، جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہیں‘‘۔

الْحَکِیْمِ ___اس کتاب کو نازل کرنے والے اللہ ذوالجلال والاکرام کا صفاتی نام بھی ہے۔ اس لیے اسے ’قولِ حکیم‘ قراردینا زیادہ اَنسب ہے۔ سورئہ ہود میں ارشاد ہوا: مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ۝۱ۙ  (ھود۱۱:۱) ’’یہ قرآن صاحب حکمت و آگہی کی جانب سے ہے‘‘۔ سورئہ فصلت میں ارشاد ہوا: تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَكِيْمٍ حَمِيْدٍ۝۴۲  (حٰمٓ السجدہ ۴۱:۴۲) ’’حمدوثنا کے سزاوار اور صاحب ِ حکمت کی طرف سے نازل کردہ ہے‘‘۔ سورۃ الجاثیہ اور سورۃ الاحقاف میں بیان ہوا: تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللہِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ۝۲ (الاحقاف۴۶:۲)، ’’اس کتاب کا نزول اللہ غالب و صاحب ِ حکمت کی طرف سے ہے‘‘۔

مفصل و محکم آیات، واضح تعلیمات، روشن حقائق، الہامی علوم و معارف اورقطعی ارشادات و احکامات پر مشتمل صاحب ِحکمت و تدبیر، صاحب ِ تحمید و تمجید ، صاحبِ قوت و اختیار، صاحب ِ غلبہ واقتدار، صاحب ِ علم و آگہی ، مالکِ عرش و اَرض، خالق و مدبر و منتظم و متصرفِ کائنات، ربِّ جِنّ و انس، ربِّ عالمین، ربِّ مشرقین و مغربین کی جانب سے نازل کی جانے والی کتاب بلاشبہہ اور یقینی طور پر سرچشمۂ حکمت و دانش ’کتابِ حکیم‘ ہے۔ جو نہ شاعرانہ تخیل ہے، نہ لفظوں کی جادوگری، نہ کاہنوں کی لفاظی، نہ نثرنگاروں کا لفظی کمال، نہ دانش وروںکے تجاربِ حیات، نہ جادوٹونے کی کتاب، نہ وظیفوں، چلّوں،دُعا و مناجات کا مجموعہ، نہ تاریخ کےعبرو مواعظ کا خزینہ اور نہ محض کچھ لفظوں، پاروں، سورتوں سےبھرے اوراقِ مقدّسہ کا بے کیف و سُرور ، بے معنٰی و مطلب اور بے نتیجہ و ثمر، بے سندوحوالہ محض ایک کتاب، دیگربےشمارکتابوں کی طرح۔ یہ تو سب کتابوں کی سردار، سب سے جدا، سب سے منفرد، سب کی حکمتوں کا ماخذ، منبع و مصدر و مرجع ہے۔ اسی لیے یہ الْکِتٰبْ   قرار دی گئی، بلکہ اُمُّ الْکِتٰبْ  کے نام سے بھی موسوم ہوئی۔

قرآنِ حکیم ___ ہرعہد کے انسانوں کے تصورات، اندازوں اوررویوں کے یکسرعلی الرغم حکمت و دانش کا مُرقّع، نصیحت کا مؤثر و بلیغ شاہکار، علوم و معارف کا بحرِ ذخّار، حقائق و مظاہرِ قدرت کا راہنما، قلب و نظر، روح و فکر،عقیدہ و عمل کا مرکز و محور ہے۔ دنیا وآخرت کی صلاح و فلاح اور نجات کاضامن ہے۔ نظامِ حیات کے ہرپہلو کا مُرشد و مُقتدا، ہرجسمانی وروحانی ضرورت، ہرفکری وعملی اُلجھن کی سُلجھن، ہرعہد اور ابناےانسانی کی ہمہ جہت ضرورتوں کا کفیل ہے۔

قرآنِ حکیم ___ اس امر کا واضح اعلان اور اس حقیقت کا روشن اظہارہے کہ بندگانِ خدا کےپاس موجود علم و آگہی، شعور و حکمت،دانش و مہارت سب کچھ ہیچ اور نامکمل اور محض ایک انتہائی قلیل حصہ ہے اُس حکمت و دانش کے مقابل ، جو صاحب ِحکمت خداے لم یزل نے کتاب ِ حکمت، قرآنِ حکیم کی صورت میں انسانیت کو عطا کی۔ اُن کے پاس آسمان کی بلندیوں، زمین کی پنہائیوں، سورج و چاندکی تسخیر، ہواؤں، فضاؤں اورسمندر کی لہروں پر تسلّط اور ذرّوں کو ہولناک قوتوں میں تبدیل کرنے کی صلاحیت کےدعوے اور مظاہر، قسم قسم کے بے شمار علوم و فنون سب محدود، نامکمل اوربے کار ہیں۔ اگروہ کتابِ علم و حکمت کے اس اَزلی و اَبدی سرچشمۂ ماضی سے مربوط اور اس کے زیراثر نہ ہوں، اورانسان کو اپنی ذات، مقام و مرتبت، فرائض و حدودِ کار کے شعورسے آگاہ و خبردارنہ کریں اوراس کا تابع بناکر طاقتوں کے واحد مرکز اپنے خالق و مالک اورپالنہار، محسن و مُنعم سے مربوط اور اس کے سامنے سربسجود ہونےپر مجبورنہ کردیں، اوراُسی کے بندوں کو معبودِ حقیقی و اصلی، معبودِواحد کی بندگی کی چوکھٹ پرلاکھڑا کرکے بے بندگی کی ذلّت، شرمندگی اوراَبدی ہلاکت، بربادی، تباہی اورخُسرانِ عظیم سے محفوظ نہ کردیں۔

اس ’کتابِ حکیم ‘ اور’قولِ حکیم‘ کے مہبط، معلّم اور مُبلّغ، مُفسِّر مُبین اور شارح صاحب ِ حکمت اللہ عزوجل کا وہ فرستادہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے، جس سے بڑا حکیم و دانا، نہ کبھی پیدا ہوا ، نہ ہوسکے گا۔ جس کی حکمت و دانش کے سارے حوالے اورناتے وحی الٰہی کے سلسلوں پرمبنی اور منبع علم و حکمت سے مسلسل مربوط تھے، جس نےفرائض منصبی کے پہلے تعارفی اورکلیدی نکتے کے طورپر اقرأ کے   حکمِ الٰہی کے ذریعے علم کو اختیار کیا اور اس علم و حکمت کے فروغ کولائحہ عمل بنایا۔ وہ معلّم کتاب و حکمت کہلایا۔

کتابِ حکمت، قرآنِ حکیم نے اس کا تعارف اور فرائض رسالت کو یوں بیان کیا: یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ  وَالْحِکْمَۃَ  ج (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴)۔ وہ لوگوں کو حکمت اور کتاب کی تعلیم دیتا ، اوراُن کی زندگیوں سے بے حکیمانہ، جاہلانہ، مفسدانہ نظریات، افکارو اعمال کو اُکھاڑ پھینکتا ہے۔ اس ظلمت و جہالت کے نتیجے میں غیرحکیمانہ رویوں، طریقوں، پابندیوں اور بوجھوں کو اُتارکر روشنیوں سے ہمکنار کرتا ہے: يَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ (اعراف ۷:۱۵۷) اور يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ۝۰ۭ (البقرہ۲: ۲۵۷)۔

وہ ہستی(صلی اللہ علیہ وسلم) جس کے بطورِ رسول تقرر کے اعلان و تصدیق کے لیے سرچشمہ و حکمت ___ کتابِ حکمت کی قسم کھائی گئی: يٰسۗ۝۱ۚ وَالْقُرْاٰنِ الْحَكِيْمِ۝۲ۙ اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۝۳ۙ (یٰسٓ ۳۶: ۱-۳) ’’یٰس،قسم ہے قرآنِ حکیم کی کہ تم یقینا رسولوں ؑ میں سے ہو‘‘۔ یہ محض ائمہ کی حکمت کا تقاضا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رفعت ِ شان،عُلُوِّ عظمت، شکوہ حُسن و جمال، پاکیزگی و کردار، اعلیٰ نسبی اوربے شمار ذاتی و صفاتی خصائص کے بجاے سلسلۂ حکمت سے جوڑا اور اسے منصبی فرض قرار دیا۔

اس داعی و مُبلّغ حکمت صلی اللہ علیہ وسلم کواس کتابِ حکمت کی تشریح و توضیح کا ذمہ دار بناکر،  عَلٰی  صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ،بالکل درست، سیدھی اور بَرحق راہِ ہدایت و نظامِ حیات کا راہبر و راہنما قرار دے کر انسانیت کے لیے تاقیامت اسوئہ کامل ، اسوئہ حسنہ اور واجب الاتباع بناکر شریعت و رسالت کا حرفِ آخر ٹھیرایا گیا۔ اس کی اطاعت و محبت کو دُنیا و آخرت کی کامیابیوں کاواحد ذریعہ بتایا گیا۔

اس کتابِ حکمت، مجمع حکمت، صراطِ حکمت اور صاحب ِحکمت رسولؐ کی نسبت اجرا و اِصدار، الْعَزِیْزِ الرَّحِیْم ، غالب و مہربان ربّ کی طرف کی گئی، تَنْزِيْلَ الْعَزِيْزِ الرَّحِيْمِ ۝  (یٰٓس ۳۶:۵)۔

اس رسولِ حکمت صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب، اس کی توضیح و تبیین طے کر دیا گیا کہ یہ نازل کرنے والے حکیم ربّ کی حکمت و علم کا تقاضا تھا: وَيُبَيِّنُ اللہُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ ۝۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝۱۸ (النور۲۴:۱۸) ’’اللہ تمھیں صاف صاف ہدایات دیتا ہے اور وہ علیم و حکیم ہے‘‘۔

اس کتابِ حکیم میں موجود اور رسولؐ کو عطا کردہ حکمت ِ الٰہی کے سرچشموں اور وحی الٰہی کے ذریعے حاصل ہونے والی حکمت و دانش کی تبلیغ کے مراحل کار طے کر دیے گئے۔ یَتْلُوْا  عَلَیْھِمْ اٰیٰــتِہٖ۔ زبانِ جبرائیل ؑ کے ذریعے صدرِ رسولؐ تک پہنچائے جانے والے قرآن کی کسی کمی بیشی، تغیروتبدل، ترمیم و اضافے کے بغیر انسانوں تک منتقلی بذریعہ تلاوتِ آیات۔پھر اُن کے نفوس کی پاکیزگی، فکری و عملی طہارت کے اقدامات، تزکیہ و تربیت کے ذریعے، وَیُزَکِّیْھِمْ۔ ذہنوں اور دلوں کی آمادگی کے بعد يُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۝۰ۚ (ال عمرٰن ۳:۱۶۴)، کتاب حکمت کےعلوم و معارف اور حکمتوں کا بیان اورحکیمانہ رویوں، کردار،اخلاق،اوصاف،اعمال سے آگہی کا مربوط و مسلسل کارِنبوت۔  بندگانِ خداے حکیم و خبیر پر پروردگار کی نعمتوں اور احسانات کی تکمیل کا بڑا مظہر۔ اُن کی تعلیم، سرچشمۂ حکمت کے اصولوں، ضابطوں کے مطابق۔ گویا فرائض رسالت کا ہرحوالہ، ہرراستہ، ہربنیاد حکمت ودانش کے ساتھ مربوط ومستحکم کردیا گیا۔ واضح اعلان ہوا: وَاِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ عَلِيْمٍ۝۶  (النمل ۲۷:۶) ’’اور(اےنبیؐ) بلاشبہہ تم یہ قرآن ایک حکیم و علیم ہستی کی طرف سے پارہے ہو‘‘۔

حکمت و دانش کا یہ حوالہ ، یہ نسخۂ کیمیا، یہ راہنما ،یہ مصدرو منبع اور مرجع___ قرآنِ حکیم کے سوا اورکچھ نہیں، جو معلم کتاب و حکمت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکیمانہ انقلاب کا بنیادی ہتھیار، ترجیح اوّل اورحتمی ہدف تھا۔ جس نے اِقْرَاْ کے ذریعے اس سرچشمۂ حکمت، ربّ کائنات سے متعارف و مربوط کیا، جس نے قلم کے ذریعے علم و حکمت کو فروغ دیا___  اِقْرَاْ  بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ۝  (العلق ۹۶:۱) اور عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۝   (العلق ۹۶:۴)___  اور انسانیت کو سلسلۂ علم و حکمت کے بنیادی آلات و اوزار___  قلم و قرطاس___  کے ساتھ جوڑدیا۔

سورۃ النساء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت و تدبر اور اس کے مصادر پر مُہرتصدیق ثبت کر دی گئی۔ وَاَنْزَلَ اللہُ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ۝۰ۭ (النساء: ۴:۱۱۳) ’’اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور تم کو وہ کچھ بتایا ہے جو تمھیں معلوم نہ تھا‘‘۔ آپؐ کو کتاب و حکمت بھی عطا کی گئی، حکمت کے سب زاویے اور پہلوبھی آشکار کیے گئے اور کائنات کی وہ ساری حقیقتیں عیاں اورمعلومات فراہم کردی گئیں، جو فرائضِ رسالت کی ادایگی کے لیے ضروری اور ربِ علیم و حکیم کےعلم و حکمت کاپرتو اور تقاضا تھا۔

بندگانِ خدا کی حیات و ممات اور دُنیا و آخرت کے لیے تین فیصلہ کن اور مؤثر و غالب کردار___  اللہ، رسولؐ اورکتاب___  طے ہوئے اور ’حکمت‘ اِن کا مشترک حوالہ اوراَصل قرارپایا۔ اور یہی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ قرآن کا ۲۳سالہ الٰہی طریقہ اور اس کی تعلیم، تبلیغ اور تنفیذ کا لائحہ عمل ٹھیرایا گیا۔ معلم کتاب و حکمت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا: اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ (النحل ۱۶:۱۲۵)،’’اے نبیؐ! اپنے ربّ کےراستے کی طرف دعوت دو حکمت اورعمدہ نصیحت کےساتھ‘‘۔ حکمت، نصیحت، دعوت اورفکری وعملی تغیر و تبدل کا تدریجی وارتقائی عملی نمونہ بھی اِسی حکمت کا ۲۳سالہ مظاہرہ بن کر داعیانِ حق کے لیےراہنما اُصول بن گیا۔

’حکمت‘ انسانیت پربہت بڑی نعمت ِ خداوندی ہے۔یہ حکمت کسے اور کتنی دینی ہے؟ اور اس سے کیا نتائج اخذ کرنے ہیں؟ یہ حکیمِ کبیر، علیم و خبیر، عزیز و رحیم کی اپنی صواب دید ہے، مگر یہ حقیقت ظاہر و کائنات پرغالب ہے: وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا۝۰ۭ (البقرہ ۲:۲۶۹)، جسے ’حکمت‘ جب ، جتنی اور جس مقصد کے لیے عطا کی گئی ، دراصل اُسے دُنیا جہان کی سب سے بہتر، قیمتی، مفید، مؤثر،فیصلہ کن نتائج، بھلائیوں، کامرانیوں اورعظمتوں کی کنجی عطا کردی گئی۔

اللہ ربّ العزت نےاپنی حکمت و مشیت کے تحت اوّلاً اپنے انبیاؑ و رُسلؑ کو ’حکمت‘ عطا کی۔ یہ اپنےاپنے عہد کے خیرالخلائق، پاکیزہ، خدا کے مقرب ترین اورتااَبد انسانیت کے لیےمقتدا و راہنما ہیں۔ اسی طرح کچھ دیگر نیک اورپارسا لوگوں کو بھی حکمت کی دستارِ فضیلت سے نوازتا رہا ہے اور اُن کے اقوالِ حکمت اورطریق حکمت کو کتابِ حکمت ’قرآنِ حکیم‘ میں ذکرکرکے اُنھیں اَمر کردیا۔ حضرت لقمانؑ جو اغلباً پیغمبرنہیں تھے مگر حکمت الٰہی کےوصول کنندہ ہوئے۔ وَلَقَدْ اٰتَيْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَۃَ (لقمٰن ۳۱:۱۲)’’ہم نے لقمان ؑ کو حکمت سے نوازا‘‘۔ یقینا یہ اللہ ہی ہے، جو حکمت بھی دیتا ہے اور اُس راہِ حیات کے انتخاب اور افکار و اعمال کا شعوربھی عطا کرتاہے اور پاکیزہ و قائدانہ کردار کی مسند تک پہنچاتا اور حکمت سے بہرہ مند ہونے والوں کو انسانیت کا راہنماقرار دیتا ہے، جو حکیمانہ فکروعمل کا لازمی نتیجہ ہے۔ جس علم و حکمت سے یہ نتائج حاصل نہ ہوں، وہ نہ علم ہے، نہ حکمت۔

اگر بنظر غائر دیکھا جائے، تو ’حکمت‘ تو ہرذی نفس کو کسی نہ کسی صورت اور مقدار میں ضرور ملتی ہے۔ بالخصوص انسان اس حکمت و تدبر سے کام لے کر اپنی معاش کا خوب اہتمام کرتا ہے، مگرحکمت ِ رسالت و نبوت سے اِعراض کرکے اپنی معاد (آخرت) کا سامان نہیں کرپاتا۔ اس طرح غیرانسانی مخلوق کو بھی اتنی حکمت و صلاحیت ضرور دی جاتی ہے، جس سے وہ کم از کم اپنی خوراک حاصل اور اسے استعمال اور اپنے مالک کی تابع داری کرسکیں، مگر اللہ نے اِن غیرانسانی مخلوقات کو عطا کردہ حکمت کے نتیجے میں اُنھیں نہ کوئی اختیاردیا ہے، نہ اپنی بندگی کا شعوری پابند ہی بنایا ہے۔ اُن کو حاصل حکمت محض محدود و معدود مقاصد کے لیے ہی ہے۔ البتہ انسان کو حکمت ِ الٰہی ، حکمت نبوی اور حکمت ِ قرآنی کے ذریعے بہت سے تقاضوں کا مکلف ٹھیرایا ہے۔ ان کےدو بڑے مقاصدو تقاضے بتائے گئے ہیں۔

سورہ لقمان میں پہلا تقاضا بیان ہوا: وَلَقَدْ اٰتَيْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَۃَ اَنِ اشْكُرْ لِلہِ۝۰ۭ  (لقمٰن۳۱:۱۲)’’ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللہ کاشکرگزارہو‘‘۔ اللہ کی شکرگزاری کا لازمی اورمستقل رویہ و معمول، بے حدوحساب، بے شمارنعمتوں جن کا ذکرو شمار انسانی حد سے یقینا باہر___  وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللہِ لَا تُحْصُوْہَا۝۰ۭ (ابراہیم ۱۴:۳۴)۔ انسان کی تخلیق، تجسیم، تصویر، تشکیل ، عقل، شعور، آگہی، تعلیم، ربوبیت کے جملہ تقاضوں کی تکمیل، خیروشر کی تمیز، غلط اور صحیح کی صلاحیت ِ تفریق، قوتِ فکر، طاقت ِ اظہار، مرضی اپنانے کی آزادی، زندگی گزارنے کے لیے ہرعمر، ماحول،مزاج کے موافق بے شمار نعمتیں، وسائل، مواقع اور عیش و عشرت کے سارے سامان، ہدایت و ضلالت کے سب راستوں کا شعور اور ردّ وقبول کا اختیار۔ اور ان سب نعمتوں میں سب سے بڑی، جامع، کامل، اَتم و اَہم نعمت، زندگی گزارنے کا درست طریقہ، عزّت و عظمت کا راستہ، صلاح و فلاح کاضامن ضابطہ، دین اسلام، دین ہدایت، دین حکمت، دین فطرت،دین یُسر۔ ہرپہلو سےواضح،روشن اورمکمل۔ ایک کتاب ِ حکمت کی محفوظ، جامع، مفصل اور واضح آیات و تعلیمات کے ساتھ ایک رسولِ حکمت کے اُسوہ وسیرت کےذریعے حق و باطل کو واضح کرتے ہوئے اِنذار و تبشیر، تعلیم و تبلیغ کے ذریعے ، تدریج کے حکیمانہ اُسلوب، نصیحت و موعظت کو طریق کار بناکر، کسی جبرواِکراہ کے بغیردعوتِ اِلَی الحق، دعوتِ اِلَی اللہ، دعوت الی الخیر، دعوتِ اِلَی المغفرۃ ،دعوت اِلَی النجاۃ، دعوت اِلَی الفوز والفلاح، دعوتِ اِلَی الخیر والابقٰی اور دعوتِ اِلَی السلم کافۃ ، دعوتِ اِلَی الجنۃ اوردعوت اِلَی العتق من النار کے منبع و مصدر و معطیٔ حکمت، دین حکمت، کتابِ حکمت ، رسولِؐ حکمت کی طرف رہنمائی کی نعمت عظمیٰ و کبریٰ پر شکرگزاری، تسلیم و رضا، اطاعت و وفاکے ذریعے حکمت کے اس بلیغ، اعلیٰ اور انتہائی مطلوب و مقصود درجے حِکْمَۃٌ بَالِغَۃٌ تک پہنچنا ہے، جو اتمامِ حجت کا مظہر اور اس کے لیے کافی اور حتمی حد ہے۔

اس حکمت کا دوسرا تقاضا کائنات اور مظاہر قدرت اور حکیم و علیم و خبیر کے افعال و احکامِ حکمت پرغوروتدبرہے۔ کتاب ِ حکمت ___ قرآنِ حکیم ___ اَوَلَمْ  یَرَوْا ،اَوَلَمْ یَنْظُرُوْا ، اَوَلَمْ  یَتَدَّبَّـرُوْا، اَوَلَمْ  یَتَفَکَّرُوْا  ، اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا   ، ترغیبات و تنبیہات و احکامات کے ذریعے اس حکمت آمیز دین اور اس کے احکام کی طرف متوجہ کررہی ہے، مگر اُسے جواس پرایمان لائے صدقِ دل سے، اس کے ہرحرف، لفظ ،حکم کوتسلیم کرے اور روشنی و ہدایت طلبی کے لیے اس میں غوطہ زن ہو۔اپنے دل کےقفل توڑ کر، جہالت کی عصبیتوں کے حصار سے نکل کر اور ظلمتوں کے اندھیروں اور خودساختہ رسوم و قیود کی بیڑیاں توڑ کر ظلمات سے نُور کے اُجالوں کی جانب سفرکا آغاز کرے اوراس پر مُدام چلتا رہے۔ اپنےدائمی نفع و ضرر کا شعور حاصل کرے۔قدرت کے مظاہرکا مشاہدہ کرکے، اس کی نشانیوں کا مطالعہ کرکے اپنی فطرتِ سلیمہ سے آشنائی حاصل کرے۔ اپنے مقصدِ حیات کااِدراک کرے، اپنے ربّ، محسن و منعم حقیقی کو پہچانے۔ مظاہر قدرت و فطرت میں حکیم اعلیٰ و بالا کی حکمت کی نشانیاں تلاش کرے۔ فِعْلُ  الْحَکِیْمِ  لَا یَخْلُوْ  عَنِ  الْحِکْمَۃِ کہ اُس دانا و بینا کا کوئی کام حکمت ودانش سے خالی نہیں۔ بے مقصدیت اورافراط و تفریط کاشکار ہے، نہ عدم توازن سے دوچار۔بندگانِ خدا پرلازم ہے کہ حکمت الٰہی کےاس مشاہدہ و مطالعہ کے نتیجے میں کائنات کے تمام شاہ کاروں کو حکمت الٰہی کی تصویروں اور دلیلوں اور اُس کی کارفرمائی کی شہادتوں کےطورپر قبول کرے، اور زندگی کے غلط راستوں،ضابطوں اورطریقوں کےانتخاب میں گمراہی سے محفوظ ہوجائے۔

اللہ و رسولؐ اور الکتاب کی حکمت کا لازمی نتیجہ ’صراطِ مستقیم‘ ہے، جو بندگی کےمکمل اورلازمی اظہارکے طورپرقبول کیا جانا شکرگزاری کا واحدذریعہ ہے۔ یہ صراطِ مستقیم بندگانِ خدا کو اپنے فرائض، دوسروں کے حقوق، دُنیا میں ذمہ داریوں کے تعین، ان کی ادایگی کے طریق، روحانی و اُخروی سعادت اور برتری کے سلسلوں کے تتبع کے ذریعے کامیابی و کامرانی اورفوزِ مُبین و عظیم کی منزلِ مراد تک پہنچاتا ہے۔ جس کے بارے میں منبع حکمت نے فرمایا: اَنَّ  ھٰذَا  صِرَاطِیْ مُسْتَقِیـْمًا  ،فَاتَّبِعُوْہُ اور جس کی طلب کی بنیادی دُعا بندگانِ خدا کو سکھائی گئی: اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ۔ یہی راستہ اللہ کے محبوب بندوں کا راستہ ہے، جنھیں وہ بےپناہ نعمتوں اور سعادتوں، عزّتوں، عظمتوں سے نوازتا ہے۔ حکمت ِ قرآنی سےباغی علم و شعور اور حکمت و دانش کی خودفریبی،بلاشبہہ جہالت وذلّت کا راستہ ہے۔ جو حکمت کے یکسرمخالف بلکہ اس سے متصادم ہے اوراللہ کے غضب کاشکار ہونےوالوں کا طرزِعمل۔

رُشد و ہدایت اورسلامتی فکروعمل کے اِن تینوں منابع و مراکز نے اس ’حکمت‘ کو اختیار اورخودپرلازم ٹھہرانے والوں کو حکمت و دانائی کےہرسرچشمے کا وارث و حق دار اوراہل قراردےکر اسے لازماً اختیارکرنے اورمَہدسے لحد تک اکتسابِ علم و حکمت کرتے رہنے کا حکم دیا۔ الْحِکْمَۃُ  ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ  ،’’مومن کی گم شدہ میراث یہی حکمت ہے‘‘۔ اس پر لازم ہے کہ ان تینوں اساسی مصادرو منابع سے وابستہ رہتے ہوئے،ان ہی کے زیراثر ہر سرچشمہ تک رسائی حاصل کرے۔ یہ ہر مردوزن پربالخصوص اسلام کے حلقہ بگوش ہونے والوں پرفرض و واجب ہے۔ جہاں سے بھی، جس صورت میں حکمت و دانائی کا کچھ بھی حصہ ملے، وہ اُسے اپنی گم شدہ میراث سمجھتے ہوئے، اُچک لے، حاصل کرلے اور اپنی جبینِ فضیلت پر حکمت کا ہرروشن چراغ اور دانش کے تاج سجا کر اپنےماتھے کا جھومر بنالے، مگراس یقین،اعتماد اورحقیقت کے اعتراف کےساتھ کہ حکمت کے یہی تینوں سرچشمے ہیں۔ واجب القبول اورصلاح و فلاح کے ساتھ دُنیاو آخرت کی ہرعظمت کے ضامن___ ’ذاتِ حکیم‘ ، ’رسولِ حکیم‘ اور’ قولِ حکیم‘۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے فروری ۱۹۴۸ء میں امریکی عوام کے نام ریڈیائی پیغام میں پاکستان کے دستور کے بارے میں واضح کیا کہ یہ اسلام کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں بنایا جائے گا۔ یاد رہے کہ یہ بیان اس نام نہاد ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر کے بعد کا ہے جسے جان بوجھ کر  بار بار اس طرح پیش کیا جاتا ہے گویا ۱۱؍ اگست کی تقریرہی ان کی وصیت تھی۔ یہاں وہ بیان ملاحظہ فرمایئے جو قائد اعظم نےامریکی عوام سے ریڈیو پر خطاب کرتےہوئے دیا :

 The constitution of Pakistan has yet to be framed by the Pakistan Constituent Assembly. I do not know what the ultimate shape of this constitution is going to be, but I am sure that it will be of a democratic type, embodying the essential principles of Islam. Today, they are as applicable in actual life as they were 1300 years ago. Islam and its idealism have taught us democracy. It has taught equality of men, justice and fair play to everybody. We are the inheritors of these glorious traditions and are fully alive to our responsibilities and obligations as framers of the future constitution of Pakistan. In any case Pakistan is not going to be a theocratic state, to be ruled by priests with a divine mission. We have many non-Muslim ___  Hindus, Christians and Paresis ___ but they are all Pakistanis. They will enjoy the same rights and privileges as any other citizens and will play their rightful part in the affairs of Pakistan".

مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان کا اطلاق عملی زندگی میں ویسے ہی ہوسکتا ہے جیسے کہ ۱۳سوبرس قبل ہوسکتا تھا۔ اسلام نے ہرشخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کے آیندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔ بہرنوع پاکستان ایک ایسی مذہبی مملکت نہیں ہوگی جس پر آسمانی مقصد کے ساتھ پاپاؤں کی حکومت ہو۔ ہمارے ہاں بہت سے غیرمسلم، ہندو، عیسائی اور پارسی ہیں، لیکن وہ سب پاکستانی ہیں۔ انھیں وہ تمام حقوق اور مراعات حاصل ہوں گے جو کسی اور شہری کو حاصل ہوسکتی ہیں اور وہ اُمور پاکستان میں اپنا جائز کردار ادا کرسکیں گے۔(قائداعظم : تقاریر و بیانات، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، جلد چہارم، ص۴۲۱-۴۲۲)

اسلامی ریاست نہ تھیاکریسی ہے نہ مغربی جمہوریت

اس بیان میں قائداعظم نے تین بنیادی اصول واضح کر دیے۔ اول یہ کہ چوں کہ دستورسازاسمبلی ابھی دستورر پر کام کر رہی ہے، اس لیےدستور کی آخری شکل وہ ہوگی جو اسمبلی طے کرے گی لیکن اس کی جو بھی شکل ہو گی وہ اسلام کے ابدی اصولوں کے مطابق ہوگی۔دوئم یہ کہ سیاسی نظام نام نہاد مذہبی اجارہ داری، یعنی Theocracy پر مبنی نہیں ہوگا ۔ریاست اسلامی اصولوں کی پابند ہوگی لیکن کسی مخصوص مسلک کی پیروی نہیں کرے گی ۔سوئم یہ کہ اسلامی نظام ریاست میں غیرمسلموں کو ان کے تمام بنیادی حقوق اور تحفظات حاصل ہوں گے۔ یہ وہی تین اہم باتیں ہیں جو قرآن وسنت بار بار دُہراتے ہیں کہ حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے، کسی انسانوں کے گروہ یا پارٹی کی نہیں ہوسکتی (فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ یوسف ۱۲:۴۰)

 قرآن و سنت نے غیر مسلموں کو ان کے مذہبی معاملات میں مکمل آزادی دی ہے اور بنیادی انسانی حقوق جان ،مال ،عزّت، مذہبی آزادی کے قیام کو مقاصد شریعت قرار دیا ہے (تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔الکافرون ۱۰۹:۶)۔ مستشرقین اور اکثر مغرب زدہ مسلمان دانش وَر یورپ کی تاریخ اور فکر کے تناظر میں بار بار یہ بات دُہراتے ہیں کہ اسلامی ریاست میں یورپ کی طرح ایک مذہبی یا مسلکی گروہ کی اجارہ داری ہو گی۔ اسلامی ریاست میں Theocracy نہ ہونے کو معروف اسکالر علامہ اسد یوں بیان کرتے ہیں:

Since every adult Muslim has the right to perform each and every religious function,no person or group can legitimately claim to possess any special sanctity by virtue of religious functions entrusted to them. Thus the term "theocracy" as commonly understood in the West is entirely meaningless within the Islamic environment.

چونکہ ہر بالغ مسلمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہرطرح کی مذہبی رسم ادا کرسکے، لہٰذا کوئی فرد یا گروہ قانونی طور پر اس بات کا دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اسے مذہبی رسومات کی ادایگی کے لیے خصوصی استحقاق دیا گیا ہے۔ لہٰذا ’تھیاکریسی‘ کی اصطلاح جیساکہ عموماً مغرب میں سمجھی جاتی ہے، اسلامی تصور میں مکمل طور پر بے معنی ہے۔ (Principles of State and Government in Islam،ص ۲۱)

نہ صرف علامہ اسد بلکہ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی پاپائیت (تھیاکریسی) کی مخالفت کرتے ہوئے حاکمیت الٰہی کے اصول کو یوں واضح کرتے ہیں:

اسلامی ریاست جس کا قیام اور فروغ ہمارا نصب العین ہے، نہ تو مغربی اصطلاح کے مطابق مذہبی حکومت (Theocracy) ہے اور نہ جمہوری حکومت (Democracy) بلکہ وہ ان دونوں کے درمیان ایک الگ نوعیت کا نظام سیاست و تمدن ہے۔ جو ذہنی اُلجھنیں آج کل مغربی تعلیم یافتہ لوگوں کے ذہن میں ’اسلامی ریاست‘ کے تصور کے متعلق پائی جاتی ہیں وہ دراصل ان مغربی اصطلاحات کے استعمال سے پیدا ہوتی ہیں جو لازماً اپنے ساتھ مغربی تصورات اور پیچھے مغرب کی تاریخ کا ایک پورا سلسلہ بھی اُن کے ذہن کے سامنے لے آتی ہیں۔ مغربی اصطلاح میں مذہبی حکومت دو بنیادی تصورات کا مجموعہ ہے:

۱-خدا کی بادشاہی قانونی حاکمیت (Legal Sovereignty) کے معنی میں، اور

۲- پادریوں اور مذہبی پیشواؤں کا ایک طبقہ جو خدا کا نمایندہ اور ترجمان بن کر خدا کی اس بادشاہی کو قانونی اور سیاسی حیثیت سے عملاً نافذ کرے۔

ان دو تصورات پر ایک تیسرے امرِواقعی کا بھی اضافہ ہوا ہے، اور وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام انجیل کی اخلاقیات کے سوا کوئی قانونی ہدایت نامہ چھوڑ کر نہیں گئے، اور سینٹ پال نے شریعت کو لعنت قرار دے کرعیسائیوں کو احکامِ تورات کی پابندی سے آزاد کردیا۔ اب اپنی عبادت، معاشرت، معاملات اور سیاست وغیرہ کے لیے عیسائیوں کو قوانین و احکام کی جو ضرورت پیش آئی اسے ان مذہبی پیشواؤں نے اپنے خودساختہ احکام سے پورا کیا اور ان احکام کو خدائی احکام کی حیثیت سے منوایا۔

اسلام میں اس مذہبی حکومت (Theocracy) کا صرف ایک جزآیا ہے، اور وہ ہے  خدا کی حاکمیت کا عقیدہ۔ اس کا دوسرا جز اسلام میں قطعاً نہیں ہے۔ رہا تیسرا جز، تو اس کے بجائے یہاں قرآن اپنے جامع اور وسیع احکام کے ساتھ موجود ہے، اوراس کی تشریح کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی قولی اور عملی ہدایات موجود ہیں جن کی روایات میں سے صحیح کو غلط سے ممیز کرنے کے مستند ذرائع ہمیں حاصل ہیں۔ ان دو مآخذ سے جو کچھ ہمیں ملے صرف وہی من جانب اللہ ہے۔ اس کے سوا کسی فقیہ، امام،ولی یا عالم کا یہ مرتبہ نہیں ہےکہ اس کے قول و فعل کو حکمِ خداوندی کی حیثیت سے بے چون و چرا مان لیا جائے۔ اس صریح فرق کے ہوتے ہوئے اسلامی ریاست کو اصطلاح میں ’مذہبی حکومت‘ (Theocracy)کہنا قطعاً غلط ہے۔(اسلامی ریاست، ص ۴۷۹-۴۸۰)

قائد اعظم، علامہ اقبال، علامہ اسد اور مولانا مودودی کے تحریری بیانات میں یہ یکسانیت ظاہر کرتی ہے کہ جس شخص نے بھی اسلام کا مطالعہ کیا ہے، وہ یہ بات جانتا ہے کہ نظام شریعت اور اسلامی ریاست نہ تھیا کریسی یا کسی فرقہ کی جابرانہ حکومت ہے، نہ لادینی مغربی جمہوریت بلکہ شریعت کے اعلیٰ عالم گیر انسانی اخلاقی اصولوں کے نفاذ کا نام ہے۔مغرب زدہ دانش وَروں کا یہ واہمہ کہ اسلامی ریاست کا مطلب ’ملاؤں‘یا ’طالبان‘ کی حکومت ہے، ایک بے معنی اور بے حقیقت دماغی خلل ہے۔

گویا ایک عرصہ سے جو واویلا مچایا جاتا ہے کہ شریعت کا نفاذ ہوا تو بیچارے غیرمسلم مارے جائیں گے، ان کے حقوق سلب ہو جائیں گے، قائداعظم، علامہ اقبال، علامہ اسد اور مولانا مودودی کے تحریری بیانات اس غبارے کی ہوا نکال کر اسلامی ریاست کے منفرد ہونے کو وضاحت سے بیان کر دیتے ہیں۔ ان حقائق کے باوجود اگر کوئی نام نہاد،’آزاد خیال دانش وَر‘یہ کہتا ہے کہ اسلامی ریاست ’مولویوں کے ٹولے‘ کی حکومت ہوتی ہے تو وہی جائزہ لے کہ وہ کہاں تک آزاد خیال ہے؟ کہاں تک خود ساختہ تصور ہی میں گم ہے اور نہ حق تک پہنچنے کی کوشش پر آمادہ ہے اورنہ اپنی رائے پر نظرثانی اورغور کرنے کے لیے تیار ہے۔ شاید ایسی ہی صورتِ حال میں قرآن حکیم نے یہ کہا کہ ’’ان کے پاس دل ہیں، مگر وہ سوچتے نہیں ۔ان کے پاس آنکھیں ہیں، مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے ہوئے ہیں‘‘۔(الاعراف ۷:۱۷۹)

علامہ اسد اور  نظریہ پاکستان

مناسب ہو گا کہ علامہ اقبال کے ایک رفیق کار جن کا تذکرہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر تاریخ پاکستان پر لکھی گئی کتب میں کہیں نظر نہیں آتا، حالاں کہ وہ تحریک پاکستان کے فکری قائدین میں سے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد لاہور میں انھوں نے قومی تعمیر نوکےادارہ کے سربراہ کے طور پر جو خدمات انجام دیں، اور بعدازاں پیدایشی طور پر یورپی باشندہ کے ہونے کے باوجود اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے سفیر مقرر ہوئے،یعنی نومسلم علامہ محمداسد۔ وہ قائد اعظم کی زندگی میں یہ بات تحریراً اپنےرسالے عرفات میں طبع کرتے ہیں :

… I do believe (and have believed for about fourteen years) that there is no future of Islam in India until Pakistan becomes a reality and that if it becomes a reality here, it might bring about a spiritual revolution in the whole Muslim world by proving it is possible to establish an Ideological, Islamic polity in our times no less than it was possible thirteen hundred years ago. But ask yourselves: Are all leaders of Pakistan movement, and the intelligentsia which forms its spearhead, quite serious in their avowals that Islam and nothing but Islam, provides the ultimate inspiration of their struggle?? Are they really aware of what it implies when they say, the objective of Pakistan is la ilaha illa‘Allah?? Do we all mean the same when we talk and dream of Pakistan??

میرا عقیدہ ہے (اور گذشتہ چودہ سال سے میں اس عقیدے پر قائم ہوں) کہ ہندستان میں اسلام کا کوئی مستقبل نہیں، ماسوا اس کے کہ پاکستان ایک حقیقت بن کرقائم ہوجائے۔ اگر پاکستان واقعی قائم ہوجاتا ہے تو پورے عالمِ اسلام میں ایک روحانی انقلاب آسکتا ہے، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ جس طرح تیرہ سو سال پہلے ایک نظریاتی، اسلامی ہیئت حاکمہ قائم کرنا ممکن تھا، کم و بیش اسی طرح آج بھی ممکن ہے لیکن ہمیں ایک سوال کا جواب دینا ہوگا : کیا تحریک پاکستان کے تمام قائدین، اور اہلِ دانش جو تحریک کے ہراول ہیں، کیا وہ اپنے ان دعوؤں میں سنجیدہ اور مخلص ہیں کہ اسلام، اور صرف اسلام ہی ان کی جدوجہد کا اوّلین محرک ہے؟ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا ’لا الٰہ الا اللہ ‘ تو کیا وہ اس کا مطلب بھی جانتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟  پاکستان کا نظریہ اور پاکستان کا خواب کیا ہم سب کے ذہنوں میں ایک ہی ہے، یا مختلف و متفرق ہے؟(’ہم پاکستان کیوں بنانا چاہتے ہیں؟‘ محمد اسد ایک یورپین بدوی، ترتیب و تدوین: محمد اکرام چغتائی، ص ۲۹۳)

 یہ بات یاد رہے علامہ اسد کی یہ تحریر مئی ۱۹۴۷ء کی ہے جو رسالہ عرفات میں لاہور سےطبع ہوئی ۔ یہ الفاظ کسی ’فرقہ وارانہ گروہ‘کے دباؤ میں نہیں کہے گئے۔ یہ الفاظ قائداعظم کے مکمل علم کے ساتھ کہے گئے اور ان الفاظ کو تحریر کرنے والا کوئی بند ذہن کا دینی مدرسہ کا فارغ نہیں بلکہ ایک ایسا شخص ہے جس کی علمیت سے علامہ اقبال اور قائد پوری طرح آگاہ تھے ۔اس لحاظ سے ان کی تحریر قائد کی فکر کی آواز بازگشت کہی جا سکتی ہے ۔

علامہ اسد آگے چل کر مزید وضاحت سے تحریک پاکستان کا مقصد واضح کرتے ہیں:

In the Pakistan movement, on the other hand, there undoubtedly exists such a direct connection between the people’s attachments to Islam and their political aims. Rather more than that the practical success of this movement is exclusively due to our people’s passionate, if as yet inarticulate desire to have a state in which the forms and objectives of government would be determined by the ideological imperatives of Islam – a state ,that is, in which Islam would not be just a religious and cultural “label” of the people concerned, but the very goal and purpose of the state-formation. And it goes without saying that an achievement of such an Islamic state –the first in the modern world would revolutionize Muslim political thought everywhere,and would probably inspire other Muslim peoples to strive toward similar ends; and so it might become a prelude to an Islamic revolution in many parts of the world.

بلاشبہہ اس تحریک میں اسلام سے جذباتی وابستگی اور اسلامی سیاسی نظام میں آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس تحریک کی عملی کامیابی کا سبب ہمارے عوام کی یہ جذباتی خواہش (اگرچہ مبہم) ہے کہ ایک ایسی ریاست قائم کی جائے، جہاں حکومت کی اشکال و اغراض اسلام کے اصول و احکام کے مطابق ہوں، ایک ایسی ریاست جہاں اسلام عوام کے مذہبی و ثقافتی روایات کا محض ٹھپہ نہیں ہوگا بلکہ ریاست کی تشکیل و تاسیس کا بنیادی مقصد ہوگا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایک ایسی نئی اسلامی ریاست___ جو جدید دُنیا میں پہلی ریاست ہوگی___ تمام اسلامی ملکوں کے سیاسی افکار میں انقلاب برپا کردے گی، اور دوسرے اسلامی ملکوں کے عوام میں بھی تحریک پیدا کرے گی کہ وہ ایسے ہی نصب العین کے لیے جدوجہد کریں، اور یوں یہ ریاست (پاکستان) دُنیا کے اکثر حصوں میں تجدید و احیاے اسلام کی عالم گیر تحریک کا پیش خیمہ بن جائے گی۔(ایضاً، ص ۲۹۶)

پاکستان کے اسلامی ریاست ہونے اور صرف نظام اسلامی کے لیے قائم کیے جانے کو واضح الفاظ میں بیان کرتے ہوئے علامہ اسد بات کو آگے بڑھاتے ہیں:

It is, thus, quite legitimate to say that the Pakistan movement contains a great promise for an Islamic revival, and as far as I can see it offers almost the only hope of such a revival in a world that is rapidly slipping away from the ideals of Islam. But the hope is justified only so long as our leaders, and masses with them, keep the true objective of Pakistan in view and do not yield to the temptation to regard their movement just another of the many "national" movements so fashionable in the present day Muslim world a danger which, I believe is very imminent.

اس لیے مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ تحریک پاکستان احیاے اسلام کے لیے زبردست امکان کا درجہ رکھتی ہے اور جہاں تک میری نظرجاتی ہے، تحریک ِ پاکستان ایک ایسی دُنیا میں تجدید و احیاے اسلام کی ’واحد اُمید‘ ہے جو بڑی تیزی سے اسلامی مقاصد سے دُورہٹتی جارہی ہے۔ لیکن یہ ’واحد اُمید‘ بھی اس اعتبارپر قائم ہے کہ ہمارے قائدین اور عوام قیامِ پاکستان کا اصل مقصد اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں، اور اپنی تحریک کو ان نام نہاد ’قومی‘ تحریکوں میں شامل کرنے کی ترغیب میں نہ آئیں جو آئے دن جدید دُنیاے اسلام میں اُبھرتی رہتی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا خطرہ ہے، اور مجھے کبھی کبھی اس کے رُونما ہونے کا خدشہ صاف نظر آتا ہے۔(ایضاً، ص ۲۹۶-۲۹۷)

مزید لکھتے ہیں:

In short, it is the foremost duty of our political leaders to impress upon the masses that the objective of Pakistan is the establishment of a truly Islamic polity; and that this objective can never be attained unless every fighter for Pakistan – man or women, great or small –honestly tries to come closer to Islam at every hour and every minute of his or her life that, in a word, only a good Muslim can be a good Pakistani.

مختصر یہ کہ اب یہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ عوام کو بار بار تلقین کریں کہ حصولِ پاکستان کا مقصد ایک سچی اسلامی ہیئت حاکمہ کا قیام ہے اور یہ مقصد کبھی حاصل نہیں ہوسکتا، جب تک تحریک ِ پاکستان کا ہرکارکن، وہ مرد ہو یا عورت، بڑا ہو یا چھوٹا، دیانت داری سے اپنی زندگی کو ہرگھنٹے، اور ہرمنٹ اسلام کے قریب سے قریب تر لانے کی کوشش نہ کرے گا، کیونکہ ایک اچھا مسلمان ہی ایک اچھا پاکستانی بن سکتا ہے۔(ایضاً، ص ۳۰۶)

علامہ اسد کے خدشات درست ثابت ہوئے کہ مسلم لیگ میں جو لوگ اپنے مفادات کے لیے شامل ہوگئے تھے اور ایسے ہی وہ نوکرشاہی جسے انگریزکے تربیتی اداروں نے آداب حکومت سکھائے تھے اور ان کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی تھی کہ مذہب اور دنیا دو الگ دائرے ہیں جو کبھی آپس میں نہیں ملتے اور دونوں کو کبھی آپس میں ملنا بھی نہیں چاہئیے۔ مذہب ایک’ ذاتی معاملہ‘ہے اور یہ مسجد ، چرچ اور مندر تک محدود ہونا چاہیے۔ بقیہ تمام معاملات انگریز کے دیئے ہوئے ’روشن اصولوں‘ سے طے ہونے چاہییں، چنانچہ ایسی بیوروکریسی اور سیاستدانوں سے امید رکھنا کہ وہ قائد کے انتقال کے بعد تصور پاکستان کے نفاذ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے ایک واہمہ سے زیادہ نہیں کہا جاسکتا۔

تحریکِ پاکستان سے متعلق خدشات

ہر وہ شخص جو معروضی طور پر پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کرے گا یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ اگر ۱۹۳۳ءمیں ظفراللہ خان نے چودھری رحمت علی کے اور علامہ اقبال کے تصور قیام پاکستان کو غیر عملی قرار دے کر رد کر دیا تھا تو کیا سرحدی کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے وہ پاکستان کی حدود کا تعین ایمانداری سے کر سکتے تھے؟ اگر غلام محمد ،اسکندر مرزا اور دیگر افراد نے سازشوں کے ذریعے   ملک کے نظریاتی تشخص کو دبانا بلکہ تبدیل کرنا چاہا تو ایسے افراد سے کوئی اور توقع کی جاسکتی تھی؟ تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ علامہ اسد کے خدشات درست تھے اور یہی وہ بات ہے جو مولانا مودودی نے کہی تھی کہ ہمارا مقصد محض ایک خطے کا حصول نہیں ہونا چاہیے بلکہ خطے کے حصول کے ساتھ ایسے افراد کی تیاری اور کردار سازی ہونا چاہیے جو اس خطے کو صحیح معنی میں قائداعظم اور علامہ اقبال کے تصور کی مثال بنا سکیں ۔علامہ اسد اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

To a Muslim who takes Islam seriously every political endeavour, must in the last resort ,drive its sanctions from religion , just as religion can never remain aloof from politics: for the simple reason that Islam, being concerned not only with our spiritual development but with the manner of our physical , social and economic existence as well , is a “political” creed in the deepest morally most compelling sense of this term. In other words, the Islamic religious aspect of our fight for Pakistan must be made predominant in all the appeals which Muslims leaders make to the Muslims masses. If this demand is neglected, our struggle cannot properly fulfill its historic mission.

ایک مسلمان کے نزدیک ، جس کے لیے اسلام ہی اس کا جینا مرنا ہے، ہر سیاسی تحریک کو اپنی سند ِ جواز مذہب سے حاصل کرنی چاہیے، کیونکہ مذہب سیاست سے الگ نہیں ہوسکتا، اور اس کی وجہ بڑی سادہ ہے، یہ کہ اسلام صرف ہمارے روحانی ارتقا سے غرض نہیں رکھتا، بلکہ ہماری جسمانی، معاشرتی اوراقتصادی زندگی سے بھی پورا پورا تعلق رکھتا ہے۔ اسلام ہمارا مکمل ضابطۂ حیات ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے لیے، پاکستان کی حمایت میں، پاکستان کی خاطر مسلم عوام سے مسلم رہنما جو پُرزور اپیلیں کرتے رہتے ہیں، ان کا پہلا حوالہ پاکستان میں اسلام کا دینی و مذہبی پہلو ہونا چاہیے۔ اگر اس اندرونی آواز اور مطالبے کو نظرانداز کیا گیا تو ہماری جدوجہد اپنے تاریخی مشن کو پورا نہ کرسکے گی۔(ایضاً، ص ۳۰۴)

علامہ اسداور قائد اعظم کی فکر میں اس یکسانیت کے باوجود دستور ساز اسمبلی کے اراکین میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو قائد اعظم کے تصور پاکستان پر یقین رکھتے تھے اور وہ بھی جو اپنے مفادات کے لیے مسلم لیگ میں شامل ہو گئے تھے،اور ان کی وفاداریاں مروجہ نظام کے ساتھ تھیں۔ علامہ اسد کو ان حقائق کا پورا علم تھا ۔چنانچہ اس اندورونی تضاد یا فکری انتشار کو سمجھتے ہوئے لکھتے ہیں:

The need for ideological, Islamic leadership on the part of our leaders is the paramount need of the day. That some of them -though by far not all are really aware of their great responsibility in this respect is evident, for example, from the splendid convocation address which Liaquat Ali Khan,the Quaid-e-Azam's principle lieutenant, delivered at Aligarh a few month ago. In that address he vividly stressed the fact that our movement drives its ultimate inspiration from the Holy Qur’an and that, therefore, the Islamic State at which we are aiming should drive its authority from the Shari‘ah alone. Muhammad Ali Jinnah himself has spoken in a similar vison on many occasions. Such pronouncements, coming as they do from the highest levels of Muslim League leadership go a long way to clarify the League‘s aims. But a clarification of aims is not enough. If these ideal aims are to have a practical effect on our politics, the high command of the league should insist on a more concrete elaboration, by a competent body of our intellectual leaders,of the principles on which Pakistan should be built.

ہمارے لیڈروں کے لیے اسلامی و نظریاتی قیادت کی ضرورت آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اگر سب رہنما نہیں،تو گنتی کےچند رہنما ایسے ضرور موجود ہیں جو وقت کی اس اہم ضرورت سے پوری طرح باخبر بھی ہیں اور اس ذمہ داری سے پوری طرح عہدہ برآ بھی ہورہے ہیں۔ مثال کے طور پر چند سال قبل مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ کے شان دار جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر قائداعظم کے دست ِ راست لیاقت علی خان صاحب نے جو خطبۂ صدارت پیش کیا، انھوں نے بڑے زوردار طریقے سے اس حقیقت کو اُجاگر کیا کہ تحریک ِ پاکستان کے محرکات کا اصل سرچشمہ قرآنِ مجید ہے۔ لہٰذاہم جس اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ، وہ اپنی سند اختیار و مجاز صرف شریعت سے حاصل کرے گی۔ قائداعظم محمدعلی جناح نے بھی متعدد موقعوں پر ایسے ہی اندازِ فکر میں خطاب کیا ہے۔ ایسے بیانات و خطبات چونکہ مسلم لیگ کی ہائی کمان کی طرف سے آتے ہیں، اس لیے مسلم لیگ کے مقاصد و اغراض کی تشریح و ترجمانی ہوجاتی ہے، لیکن محض تشریح و ترجمانی کافی نہیں۔ اگر مسلم لیگ کے اسلامی اغراض و مقاصد کو ہماری سیاست پرعملاً اثرانداز ہونا ہے تو مسلم لیگ کی ہائی کمان کو زیادہ ٹھوس بنیاد پروضاحت و تشریح کا طریقہ اختیارکرنا چاہیے۔ اس کام کی خاطر اربابِ دانش کی ایک بااختیار مجلس بنانی چاہیے۔ جو ان اصولوں کی مناسب وضاحت و تشریح کرنے کا فریضہ انجام دے، جن پر پاکستان کی بنیاد استوار کی جائے گی۔(ایضاً، ص ۳۰۴-۳۰۵)

It is quite possible that before these lines appear in print the Quaid-e -Azam will have sent forth a call to the Muslim nation to establish a constituent assembly for Pakistan or if this has not been done so for, is bound to be done in the very near future. Hence Muslim legislators and intellectuals must make up their minds here and now as to what sort of political structure, what sort of society, and what sort of national ideals they are going to postulate. The fundamental issue before them is simple enough; shall our state be just another symbol of the world wide flight from religion, just one more of the many  "Muslim" states in which Islam has no influence whatever on the community’s social and political behavior or shall it became the most exciting, the most glorious experiment in modern history, our first step on the road which Greatest Man has pointed out to mankind? shall Pakistan only become a means of  "national" development of Muslims in certain areas of India - or shall it herald, to all over the world , the majestic rebirth of Islam as practical political proposition.

یہ عین ممکن ہے کہ اس مضمون کے شائع ہونے سے پہلے ہی قائداعظم نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی قائم کرنے کا مژدہ مسلمانانِ ہند کو دے دیا ہو، اور اگر ابھی تک ایسا نہ ہوسکا تو بہت جلد اس کا اعلان منظرعام پر آجائے گا۔لہٰذا مسلمان واضعین قانون اور اربابِ دانش کو فوراً ذہنی طور پر خود کو تیار کرلینا چاہیے کہ نئی اسلامی ریاست کا سیاسی نظام کیا ہوگا، کس نوعیت کا معاشرہ استوار کرنا ہوگا، اور قومی مقاصد کیا ہوں گے؟ ان کے سامنے جو مسئلہ درپیش ہے، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل سادہ ہے: کیا ہماری ریاست مذہب سے عالمی دُوری کی ایک اور علامت ہوگی، ان مسلم ریاستوں میں ایک اور مسلم ریاست کا اضافہ، جن میں اسلام کا کوئی اثراور عمل دخل نہیں ہے۔ نہ سیاسی نظام کی تشکیل میں نہ معاشرتی طرزِعمل میں۔ یا پھر یہ جدید تاریخ میں ایک نہایت پُرجوش اور انتہائی شان دار تجربہ ہوگا، اس شاہراہ میں پہلا قدم جو انسانِ کامل نے پوری انسانیت کو دکھائی تھی؟ کیا پاکستان برعظیم ہندستان کے چند خاص علاقوں میں مسلمانوں کی قومی ترقی کا ایک ذریعہ ہوگا، یا پھر پاکستان ایک عملی سیاسی نظریے کے طور پر پوری دُنیا میں اسلام کی تجدید و احیا کی علَم برداری کرے گا؟(ایضاً، ص ۳۰۵)۔(جاری)

رنگ برنگی جھلّیاں، شیشے کے ٹکڑوں یا مختلف رنگوں کے چشموں سے بچپن میں ہم سبھی نے کھیلا ہوگا۔ ہرے رنگ کی جھلّی اُوڑھ لی جائے تو ہرا ہی سجھائی دیتا ہے۔ لال رنگ کا چشمہ پہننے والے کے لیے آسمان سے لے کر زمین تک سب کچھ لالہ زار ہوجاتا ہے۔ بس اسی طرح نظریات کو مختلف رنگوں کے چشموں پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ چشمے آنکھوں پرپہنے جاتے ہیں اور نظریات کی عینک دل اور دماغ پرلگی ہوتی ہے۔ چشمے آسانی سے اُتارے اور دوبارہ پہنے جاسکتے ہیں، مگر نظریات کی عینک کو اُتار دینا ناممکن یا بہت مشکل ہوتا ہے۔ چشمہ پہننے والا، اگر چچا چھکن نہیں ہے، تو جانتا ہے کہ اس نےچشمہ پہنا ہوا ہے مگر نظریات کی عینک کو ہرانسان جان بوجھ کر نہیں پہنتا، بسااوقات اسے پتا بھی نہیں چلتا کہ اس نے کوئی عینک بھی لگا رکھی ہے۔ اس سے بھی زیادہ عجیب وغریب صورتِ حال تب پیش آتی ہے، جب کوئی بھولابھالا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس نے کسی ایک نظریے (مثلاً اسلام) کی عینک لگارکھی ہے مگر درحقیقت اس کے دماغ پر کسی دوسرے نظریے کا چشمہ (مثلاً لبرلزم، سیکولرزم، کمیونزم،فرایڈازم، انارکسزم یا ان سب کا ملغوبہ) چڑھا ہوتا ہے۔ اگر آج کی مثال دیکھیں تو ایک کمپیوٹر میں سافٹ ویئر کی جو حیثیت ہوتی ہے، ٹھیک وہی حیثیت انسانوں میں نظریے کی ہوتی ہے۔

انگریزی لفظ ’آئیڈیالوجی‘ کا استعمال سب سے پہلے فرانسیسی مفکر ڈیسٹیوٹ ڈی ٹریسی نے اٹھارھویں صدی کے آخری عشرے میں بطور ’سائنس آف آئیڈیاز‘ کے کیا۔ آئیڈیالوجی اس کے لیے اسی طرح ایک علم کا نام تھا، جس طرح بائیولوجی، زولوجی یا سوشیالوجی ہوا کرتے ہیں۔ لیکن دھیرے دھیرے آئیڈیالوجی کو آئیڈیاز کے علم کے بجائے مخصوص قسم کے آئیڈیاز کے مجموعے کے طور پر پہچانا جانے لگا اور یوں آئیڈیالوجی، نظریے کے ہم معنی ہوگئی۔ اس حساب سے نظریہ یا آئیڈیالوجی دراصل سماجی زندگی میں معنی اور اقدار کی دریافت کا نام ہے۔ ہرسماجی گروہ کی کوئی بنیاد ہوتی ہے (مثلاً رنگ، نسل، زبان، جنس، قومیت یا مذہب وغیرہ) اوراسی بنیاد پر اس سماجی گروہ کے اساسی نظریے کی تعمیر ہوتی ہے۔

انسانی زندگی میں نظریات کی کلیدی اہمیت کے باوجود سماجی علوم میں مختلف نظریات پر بحثیں تو ہوتی ہیں، لیکن فی نفسہٖ ’نظریے‘ کو موضوعِ بحث کم ہی بنایا جاتا ہے۔ نظریات کے معنی و مفہوم کے تعلق سے بھی جو بحثیں کی جاتی ہیں، وہ اکثر یک رُخی اور نامکمل رہ جاتی ہیں۔ نظریات پر جو تنقید کی گئی ہے، وہ بھی غلط فہمیوں کادفتر ہے۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ ’’نظریہ فرد کو متعصب بنادیتا ہے، لہٰذا ہمیں نظریات سے اُوپراُٹھ کر سوچنا، غوروفکر کرنا، تجزیہ کرنا اور نتائج اخذ کرنا چاہیے‘‘۔ اس میں پہلی بات بڑی حد تک صحیح ہے اور دوسری غلط یا کم از کم ناممکن۔یہ درست ہے کہ نظریہ ایک حد تک فرد کو متعصب بناسکتا ہے لیکن اس کے حل کے طور پر نظریات سے ’اُوپر‘ اُٹھ جانا ممکن نہیں۔ ہرفرد کا ایک نظریہ ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہرفرد کے اپنے تعصبات ہوتے ہیں۔

اس دنیا میں کوئی بھی غیرجانب دار نہیں ہے۔ غیرجانب داری کا ہر دعویٰ جھوٹا ہے۔ پھر تعصب سے بچنے کا طریقہ کیا ہو؟ تعصب کے مضراثرات سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اپنے اپنے تعصبات کو علی الاعلان تسلیم کرلیا جائے۔ وگرنہ ایک فرد خود کو غیرجانب دار کہے گا، مگر اس کے خیالات مارکسزم کا چربہ ہوں گے، دوسرا خود کو نظریات سے اُوپر کی چیزقرار دے گا مگر اس کی پوری فکر لبرل ہوگی۔ بہت سے ایسے افراد ہوتے ہیں جو کسی ایک نظریے کو فی نفسہٖ قبول نہیں کرتے، مگر مختلف نظریات سے مختلف تصورات اُدھار لے لیتے ہیں۔ ایسے افراد کا نظریہ خود ساختہ ہوتا ہے۔ یہ کہنا تو صحیح ہے لیکن ایسے افراد کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا، مگر یہ حقیقت کی بالکل غلط ترجمانی ہے۔

نظریے کی تعریف میں بھی لوگوں نے نظریہ کے مثبت یا منفی اثرات پر تو بحث کی ہے، مگر اس بات پر نہیں کہ ’’نظریہ کہتے کسے ہیں؟‘‘ خال خال ہی مارٹن سیلیگر جیسے مفکر نظر آتے ہیں، جو نظریہ کی تعریف بیان کرنے میں کامیاب ہیں۔ اپنی کتاب آئیڈیالوجی اینڈ پالیٹکس میں سیلیگر لکھتے ہیں: ’’نظریات کچھ ایسے عقائد واقدار کا نام ہے جو افراد کو عمل پر آمادہ کردیں‘‘۔ مارٹن سیلیگر نے نظریے کی اس مختصر مگرجامع تعریف میں تمام جہتوں کا لحاظ کیا ہے۔ایک ایسی فکر جس کے ساتھ عمل یاعمل کے لیے کوئی تحریک نہ ہوفلسفہ تو ہوسکتاہے نظریہ نہیں۔ ایک ایسا عمل جس کے پیچھے کوئی فکر نہ ہو، ’تحرک‘ تو ہوسکتا ہے مگر ’نظریہ‘ نہیں۔نظریہ وہی شے ہے جو بیک وقت فرد اور معاشرے کو فکر بھی دے اور عمل کا پیغام بھی۔ ان مبسوط معنوں میں نظریے کو’ایمان‘ سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔

نظریہ کا کام کیا ہے؟

نظریے کی حیثیت ایک فرد کی زندگی میں وہی ہے،جو ایک اَنجان شہر میں اپنی منزل کی تلاش میں سرگرداں کسی اجنبی مسافر کی جیب میں موجود نقشے کی ہوتی ہے ۔ ایک عام قسم کا نقشہ، جیساکہ ہم جانتے ہیں، کسی علاقے کا علامتی خاکہ ہوتا ہے، جس میں اس علاقے کے ہسپتال، پولیس تھانہ، ہوٹل، عبادت گاہیں، تاریخی مقامات اور سڑکوں وغیرہ کا اندراج ہوتا ہے، تاکہ ڈھونڈنے والا اپنے اور اپنی منزل کے محلِ وقوع کا اندازہ لگا سکے۔ نقشہ زمین پر موجود ہرہرعمارت اور ہرہرگلی کو نہیں دکھاتا اور نہ اس میں اس کی گنجایش ہوتی ہے۔ نقشے کا کام ایک ایک سینٹی میٹر میں کلومیٹروں کے فاصلےکو قید کرنے کا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بہت سے مسافر ’زمینی‘حقائق کو نقشے(یا نظریے) سے ’مختلف‘ پاتے ہیں اور جل بھن کر تھیوری اورپریکٹس کی اس دوئی پرسمع خراشی کرتے ہیں۔ صحیح نقشہ ہو یا صحیح نظریہ، زمینی حقائق اس سے ’زائد‘ تو ہوسکتے ہیں اورہوتے ہی ہیں۔ انسانی دُنیا میں البتہ ایسے بے وقوف ڈھونڈیئے تو مل ہی جائیں گے جو واشنگٹن یا ماسکو کے نقشے سےاپنے شہر میں منزل کا پتا کھوجتے ہیں جو رہنمائی کا کام انجام نہیں دے سکتا۔

ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ مختلف نظریات، مختلف مفکرین کے ذہنوں کی اُپج ہوتے ہیں۔ ایک مفکر چاہے وہ کتنا ہی علامۃ الدہر کیوں نہ ہو، وہ جن مسائل سے تعرض کرتا ہے اور ان کے جو حل سجھاتا ہے، ان کی افادیت کا ایک محدود سیاق اور دائرہ ہوتا ہے جس کے باہر اس کے نظریے کی کوئی افادیت نہیں ہوتی۔ اکثر نظریات اور فلسفے تو عملی میدان میں قدم ہی نہیں رکھتے بلکہ نرے ’نظریات‘ اور ’فلسفے‘ ہی رہ جاتے ہیں ۔ کچھ جوعملی دُنیا میں رہنمائی کا بیڑا اُٹھاتے ہیں وہ یا تو پہلے ہلے میں ہی منہ کی کھاجاتے ہیں یا پھر کمیونزم کی طرح ہر ٹھوکر کے بعد کسی نہ کسی قسم کی پیوندکاری کے ذریعے ماسکو کے نقشے سے کبھی ہوانا، کبھی کلکتہ، کبھی کراچی، تو کبھی بیجنگ کا راستہ کھوجتے رہتے ہیں۔

مختصرالفاظ میں نظریات کے بنیادی کام دو ہیں: ان کا پہلا کام یہ ہے کہ حق، خیر اور   حُسن کے تعلق سے کچھ مخصوص تصورات کو فروغ دے کر انھیں بنیادی اور عالم گیر باور کرایا جائے اور ان تصورات کو کچھ اس طرح بے تعلق (neutralise) کیا جائے کہ وہ معاشرے کی عقل عام کا عنوان بن جائیں۔ نظریات کا دوسرا کام مخالف نظریات اور ناپسندیدہ تصورات کو غلط ثابت کرکے ان کی بیخ کنی کرنا یا کم از کم ان کا مذاق اُڑا کر نظرانداز کرنا ہے۔ یعنی نظریہ فرد اور معاشرے کے لیے حق کا ایک معیار مقرر کرتا ہے۔ پھردوسرے نظریات پر تنقید کرکے اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نظریے کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ بڑھنا، پھلنا اور پھولنا چاہتا ہے۔ چنانچہ   وہ عامۃ الناس کو اپنی طرف دعوت دیتا ہے۔ اس دعوت پرلبیک کہنے والوں کی شیرازہ بندی کرکے ایک طے شدہ مقصدکے لیے جدوجہد کی راہ دکھاتا ہے۔ ایک جملے میں کہیں تو اس جدوجہد کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ نظریے کی بالادستی قائم ہوجائے۔ غلبے کی اس خواہش سے کوئی نظریہ مستثنیٰ نہیں ہے۔

انسانی زندگی پرنظریہ کے اثرات

نظریات کے اثرات ایک فرد کے ذہن اور معاشرے کے مزاج پر کیسے مرتب ہوتے ہیں؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے شاید ایک مثال ممدومعاون ثابت ہو۔ سرکس میں کرتب دکھانے والے ہاتھیوں کو سدھانا بڑا مشکل کام ہے۔ وہ پالتو ہاتھی جو چڑیا گھر میں انسانوں کی صحبت میں پیدا ہوں اور پرورش پائیں، وہ تو غلام ابن غلام ہوتے ہیں اور انھیں سدھانا مشکل نہیں ۔ مگر جب جنگل کے آزاد منش ہاتھی کو پکڑنا ہوتا ہے تو کوشش کی جاتی ہے کہ ہاتھی کا نوعمر بچہ ہاتھ لگے۔ کیوں؟ بات واضح ہے کہ آزادی کا تصور بڑے ہاتھی میں اس حد تک راسخ ہوتا ہے کہ اسے غلامی کا پاٹھ، منتر پڑھانا اوراس سے بڑھ کر یہ کہ اسے کرتب سکھانا اور پھر کرتب دکھانے پر آمادہ کرلینا جان جوکھوں کا کام ہے۔ البتہ جونیئر ہاتھی کو ’تعلیم و تربیت‘ سے آراستہ کرنا نسبتاً آسان ہے۔

’آسان‘ اپنے آپ میں ایک اضافی قدر ہے۔ اس پر یہاں ’نسبتاً‘ کا اضافہ دانستہ کیا گیا ہے کیونکہ جس چیز کو آسان کہا گیاہے اس کی آسانی کا حال یہ ہے کہ اس بے چارے ہاتھی کے بچے کو دومضبوط کھمبوں یا درخت کے تنوں کے بیچ موٹی موٹی زنجیروں سے کچھ اس طرح باندھ دیتے ہیں کہ وہ حرکت بھی نہ کرسکے۔ وہ تڑپتا ہے، چیختا چلّاتا ہے۔ آزادی کے لیے بھرپور جدوجہد کرتا ہے۔ اپنی پوری قوت مجتمع کرکے زور لگاتا ہے کہ کسی طرح ان زنجیروں سے چھٹکارا ملے مگر اس کی ایک نہیں چلتی۔ ہفتے عشرے میں اس کی ناکام کوششیں اسے مایوس کردیتی ہیں، اسے سمجھ میں آجاتا ہے کہ اب غلامی ہی اس کا مقدر ہے۔ بھوک پیاس کی شدت سے نڈھال ہاتھی کا یہ بچہ جیسے ہی مایوسی کے عالم میں زور لگانا بند کردیتا ہے تو غلامی پر رضامندی کے ’انعام‘ کے طور پر اسے کھانے کے لیے مرغوبات دیے جاتے ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ موٹی زنجیروں کی جگہ موٹی رسیاں لے لیتی ہیں۔ اس ہاتھی کے بچے کو غلام ہاتھیوں کی صحبت میں رکھا جاتا ہے تاکہ غلامی کے آداب و تہذیب سے کماحقہٗ واقفیت حاصل کرلے۔ کچھ تو آزادی سے مایوسی، کچھ غلاموں کی صحبت اور کچھ غلامی کی تن آسانی___  اس طرح ہاتھی کے بچے کو غلامی راس آجاتی ہے اور اس کی باقاعدہ تربیت کا آغاز ہوتا ہے۔ ہاتھی کا بچہ بڑا ہوکر ایک ’مستند تابع فرمان اچھا‘ ہاتھی بنتا ہے۔ وہ لحیم شحیم ہاتھی جسے بچپن میں قابو کرنے کے لیے موٹی موٹی زنجیریں درکار تھیں، اب وہ چوں تک نہیں کرتا۔

مسلم اُمت کو آج اسی غلام ہاتھی پر قیاس کرلیجیے۔

پچھلی دو تین صدیاں ایسی گزری ہیں، جب مسلمانوں اور یورپی طاقتوں میں بالادستی کی جنگ چل رہی تھی۔ یہ جنگ میدانِ کارزار کے ساتھ ساتھ میدانِ افکارو اکتشاف میں بھی جاری و ساری تھی۔ یہ جنگ تاریخ کے ایک موڑ پر ہورہی تھی، جب مسلم اُمت اپنے نقطۂ عروج پر پہنچنے کے بعد رُوبہ زوال تھی۔ اس کے مقابلے میں یورپ میں نشاتِ ثانیہ کا دور تھا۔ یورپی تازہ دم اور نئے جوش و خروش سے سرشار تھے۔ ان کی تہذیبی گیند گو مسلم اُمت کی رُوبہ زوال گیند سے نیچے ہی تھی مگر لگاتار اُوپر کا سفر طے کر رہی تھی۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس کش مکش کا نتیجہ یورپ کی علمی و سیاسی بالادستی کی صورت میں مسلم اُمت کے سامنے آیا۔ ہرمحاذ پر خوں ریز مقابلہ آرائی ہوئی لیکن کب تک؟آخرکار مسلم اُمت اور اس کے قائدین کے سامنے دو ہی متبادل رہ گئے: غلامی کی خلعت ِ فاخرہ یا آزادی کا کفن۔ کسی نے پہلے کو اور کسی نے دوسرے کو ترجیح دی۔ اپنا اپنا ذوق ہوتا ہے مگر دُنیاوی نتیجہ ہردو کا ایک ہی تھا___ محکومی اور غلامی۔

مگر آج حالات بدل چکے ہیں ۔دُنیابھر میں تحریکاتِ اسلامی کی بیش بہا کاوشوں کے نتیجے میں آج کا مسلمان بیدار ہو رہا ہے۔ اسلاموفوبیا کے ہتھیار خود دشمنانِ اسلام کے لیے ناقص اور نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں۔ مغربی تہذیب خود برطانیہ اور امریکا میں اسلام کے فروغ، خصوصاً خواتین میں اسلام کی بڑھتی مقبولیت سے خائف ہے۔ ہرسو مغربی تہذیب کے زوال کا چرچا ہے۔ فرید زکریا جیسے امریکا پرست بھی ’پوسٹ امریکن ورلڈ آرڈر‘ کی بات کر رہے ہیں۔ یہ دراصل دبی زبان میں پوسٹ ویسٹرن ورلڈ آرڈر کا اقرار ہے۔ لیکن اس پوری گہماگہمی میں، جس میں مسلم ممالک میں آئی اسلامی بیداری اور عرب بہار بھی شامل ہے، ہمارے قائدین اور حکمرانوں کا حال کیا ہے؟

ان مسلم حاکم طبقوں کا حال اس ہاتھی کا سا ہے، جو بچپن میں فوجی قوت کے بل پر سیاسی غلامی کی زنجیروں میں کچھ ایسا کَس کر جکڑدیا گیا تھا کہ سیاسی غلامی کی وہ زنجیریں کٹ جانے کے باوجود معیشت، تہذیب اور ذہنی غلامی کی پتلی سی رسّی سے بندھا ہوا ہے، اسے اپنی طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔ صدافسوس کہ نہ اسے اپنی آزادی کا یقین ہے اور نہ اس کی کسک۔ یہ اسی ذہنی غلامی کا شاخسانہ ہے کہ آج ہمارے دانش وَر حضرات خود بدلنے کے بجاے قرآن کو بدل دیتے ہیں۔  چونکہ خودان شکست خوردہ طبقوں کو یہ معلوم ہے کہ اسلام آج بھی قابلِ عمل ہے، اس لیے وہ فوراً اسلام کو عین سوشلزم، لبرلزم یا سیکولرزم باور کرانا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ’’وہ اسلام کی کوئی عظیم خدمت انجام دے رہے ہیں‘‘۔ یہ بھاشن دینا کہ اسلام میں ’بھی‘ آزادی ہے۔ اسلام میں ’بھی‘ مساوات ہے، اسلام میں ’بھی‘ رواداری ہے اور اسلام دہشت گردی کا علَم بردار نہیں۔ یہ کہتے کہتے ان کی زبان نہیں سوکھتی۔ اور وہ یہ سب کچھ اسلام کی خدمت کے لیے نہیں، بلکہ دوسروں کی پڑھائی پٹی کو دُہرانےکے لیے کرتے ہیں۔

اطالوی مفکر گرامسی کے مطابق ’’نظریہ، فردکے سوچنے اورسمجھنے کی صلاحیتوں کو کچھ اس طرح سلب کرلیتا ہے کہ انھیں اپنے حقیقی مفادات تک نظر نہیں آتے‘‘۔ گرامسی کی یہ تھیوری ’ثقافتی تسلط‘  (Cultural Hegemony)کہلاتی ہے۔ دراصل گرامسی اس سوال کا جواب ڈھونڈ رہے تھے کہ ’’برطانیہ،فرانس اور جرمنی جیسے صنعتی ممالک میں جہاں مارکس کے مطابق اشتراکی انقلاب کا ظہور سب سے پہلے ہونا چاہیے تھا وہ کیوں نہ ہوسکا؟‘‘ گرامسی کے مطابق ’’ایسا اس لیے ہوا کہ وہاں کی انقلابی طاقت، یعنی مزدور، خود بورژوا نظریۂ حیات اور تہذیبی غلامی کا شکار ہوگئی اور اس نے ایک نئے نظریے کی بنیاد پر ایک نئی دنیا کی تعمیر کا خواب بھلا دیا‘‘۔ نظریے کے تعلق سے کچھ اسی قسم کی بات فرانسیسی فلسفی مشل فوکو بھی کہتے ہیں۔ فوکو کے مطابق ’’نظریات کی بنیادی خامی یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی تصورِ حقیقت پر منحصر ہوتے ہیں‘‘۔ مختصر الفاظ میں ایک مخصوص تصورِحیات کو عوام کی عقل عام کے سامنے قابلِ قبول بناکر پیش کرنا، یہی نظریات کا اصل کام ہے۔

کیا نظریات کا دور ختم ہوچکا ہے؟

سوویت یونین کے زوال (۱۹۹۱ء) کے بعد مغربی دانش گاہوں نے زور و شورسے اس خیال کا پروپیگنڈا شروع کیا کہ نظریات کا دور اب ختم ہوچکا ہے۔ فرانسس فوکویاما نے تو اپنی کتاب The End of History and the Last Man میں اس خیال کا اظہار کیا کہ ’’نظریات کے اس دورکا خاتمہ لبرل ڈیموکریسی اور سرمایہ داریت کی دیگر نظریات پرفتح کی وجہ سے ہوا ہے‘‘۔پھر The Clash of Civilisations and the Remaking of World Order کے مصنّف سیموئیل ہن ٹنگٹن اس فکر کے سب سے معروف ترجمان بن کر اُبھرے۔ انھوں نے تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ پیش کیا اور کہا کہ کمیونزم کے علَم بردار سوویت یونین کےزوال کے ساتھ ہی نظریات کے تصادم کا دُورختم ہوچکا ہے۔ یعنی بین الاقوامی معاملات کے اس دانش وَر کے نزدیک نظریات کا دور ختم ہوچکا ہے۔ یا اب اسے ایک مرکزی محرک کی حیثیت حاصل نہیں رہی ہے اور آج دُنیا کی توجہ کا مرکز نظریات نہیں بلکہ غربت، ماحولیات، تعلیم اور ترقی وغیرہ ہیں یا ہونے چاہییں۔

 حامددباشی ’عرب بہار‘ کے تناظر میں اسی کی تائید کرتے ہوئےاپنی کتاب The Arab Spring: The End of Post-Colonialism میں کہتے ہیں کہ عرب بہار کا نہ تو کوئی مرکزی لیڈر تھا اور نہ کوئی نظریہ‘‘۔ حامد دباشی کا اصرار ہے کہ ’’عرب بہار کسی نظریاتی تحریک کا نتیجہ نہیں بلکہ خود نظریات کےخلاف ایک تحریک تھی‘‘۔ ان کا یہ بھی اصرار ہے کہ ’’عرب بہار کسی ایک نظریے کی حقانیت نہیں بلکہ ہرنظریے سے آزادی کا پیغام ہے‘‘۔ اور یہ کہ ’’عرب بہار کے ذریعے دُنیا ایک مابعد نظریاتی دور (Post-Ideological Phase) میں داخل ہوچکی ہے۔ اس کے نتیجے میں تمام نظریات پھر چاہے وہ تیسری دُنیا کا سوشلزم ہو یا استعمار مخالف نیشنلزم یا انتہاپسند اسلام ازم، سب غیرمتعلق ہوچکے ہیں‘‘۔

اسی دور میں نظریے کی ضرورت کے انکار اور اس پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ نظریے پر تنقید کے لیے عموماً دو طرح کی دلیلوں کا سہارا لیا گیا:

اوّل: یہ کہا گیا کہ نظریات عملی نہیں ہوتے صرف خیالی اورفلسفیانہ ہوتے ہیں اور ان کا بڑبولاپن عملی میدان میں آتے ہی بھک سے اُڑ جاتا ہے، مثلاً:

ا   : گاندھی کےہاں تو مشینوں اورٹکنالوجی یہاں تک کہ ریل گاڑی پر نظریاتی تنقید یا عدم تشدد کا نظریہ جس کے مطابق ملک میں فوج کی ضرورت سے بھی انکار ۔

ب: مارکس کا ایک ایسے مثالی معاشرے کا تصور، جہاں نہ ریاست ہو، نہ حکومت ہو ، نہ امیر، نہ غریب اور نہ طبقاتی کش مکش۔

ج: انارکزم کا ایک ایسا معاشرتی تصور، جہاں نہ کوئی حکومت ہو، نہ کوئی پولیس اور ہرفرد اپنا آپ نگراں ہو، وغیرہ۔

کُل ملا کر یہ کہ نظریات بہت ہی حسین خواب دکھاتے ہیں مگر ان کا رنگ سبز ہوتا ہے۔ حقیقت سےفرار اور یوٹوپیا (خیالی دنیا) سے عشق ان نظریات کی سرشت میں شامل ہے۔ نظریات کا یہ بڑبولاپن اس بات کا غماز ہے کہ نظریات ذہنی عیاشی کی حد تک توٹھیک ہیں لیکن عملی دنیا میں اگر انھیں نافذ کر دیا جائے یا نافذ کرنے کی کوشش کی جائے تو دنیا کا کاروبار چندلمحے بھی نہ چل سکے۔ مختلف نظریات پر غیرعملی ہونے کی جو پھبتی کسی جاتی ہے اس میں بہت حد تک صداقت ہے، لیکن اس اعتراف کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ نظریے پر غیرعملی ہونے کی تنقید دراصل کچھ نظریات پر تنقید ہے، جو ہرنظریے پر صادق نہیں آتی۔ یہ ثابت کردینے سے کہ شیر کا گوشت حرام ہے، ہاتھی کا گوشت حرام ہے، سورکا گوشت حرام ہے، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سرے سے’گوشت‘ ہی حرام ہے۔

دوم: یہ کہا گیا کہ ’’نظریات کی سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ وہ ’غلط‘ ہوتے ہیں اور اپنے ماننے والوں کو گمراہ کرتے ہیں‘‘۔ اس تنقیدی نہج کی شروعات کرنے والے فریڈرک اینجلز کے مطابق نظریات ’غلط شعور‘(False Consciousness) ہوتے ہیں۔ یعنی کسی نظریے پر ’ایمان‘ لانے میں اس پریقین کرنےوالے کی نیت درست ہوتی ہے، البتہ اسے پتا ہی نہیں چلتا کہ جس نظریے پر وہ ایمان لایا ہے وہ بجائے خود غلط ہے۔ یہاں دھیان دینے کی بات یہ ہے کہ یہ تنقید کرتے وقت شاید اینجلز کو اندازہ نہیں تھا کہ مارکسزم کو بھی کسی زمانے میں نظریے کی حیثیت حاصل ہوگی اور اینجلز کی تعریف کے مطابق اسے بھی ’غلط شعور‘ قرار دینا پڑے گا۔ دراصل ایک کا نظریہ دوسرے کے لیے’غلط شعور‘ ہوا کرتا ہے۔اینجلز کے لیے اگر دوسرے نظریات ’غلط شعور‘ ہیں تو دوسرے نظریات کےماننے والوں کے لیے مارکس اور اینجلز خود ’غلط شعور‘ کا شکار تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جرگن ہیبرماس کا کہنا ہے کہ ’’مختلف نظریات اور تصورِ نظریہ پر تنقید، یہ دونوں ہم عمرہیں‘‘۔ سادہ الفاظ میں: نظریہ پر کی جانے والی تنقید بھی درحقیقت نظریاتی ہوتی ہے۔ اس کی سب سے تازہ مثال ’پوسٹ ماڈرنزم‘ (مابعد جدیدیت) ہے، جو ماڈرن زمانے میں موجود تمام نظریات کے ابطال بلکہ ہرکائناتی اور عالم گیر حقیقت اور تصورِ حقیقت کو جھٹلانے کے لیے میدان میں اُترا تھا۔ تمام نظریات تو کیا خاک ختم ہوتے البتہ دانش ورانہ حلقوں میں ’پوسٹ ماڈرنزم‘ کو خود ایک نظریے کے طور پر قبول کرلیا گیا۔ یوں بُت شکنی کا دعویٰ کرنے والا خود بُت بن بیٹھا۔

اسلام بحیثیت نظریہ

اسلام، جیساکہ ہم جانتے ہیں، ایک مذہب ہی نہیں بلکہ ایک دین ہے، ایک مکمل نظریۂ حیات ہے۔ بطور نظریہ اگر اسلام کا جائزہ لیا جائے تو ہم اس میں مندرجہ ذیل اہم خصوصیات پاتے ہیں:

۱-  انسانی عقل باوجود اپنی وسعت کے، عملاً محدود ہے۔عمانویل کانٹ کے بعد مغربی فلسفہ بھی اس محدودیت کا قائل ہے۔ یہ منطقی بات ہے کہ جب انسانی عقل اپنے سیاق، ماحول اور تاریخ سے محدود ہوتی ہے، تو اسی انسانی عقل کے ذریعے کسی ایسے نظریے کی ایجاد کی توقع رکھنا جو رنگ، نسل، جنس، وطن، زبان اور زمان و مکان کے تمام تر اختلافات کے باوجود یکساں قابلِ عمل ہو، ایک غیرعقلی اور غیرفطری توقع ہے۔ لہٰذا اسلام، دوسرے نظریات کے برعکس، اس دعوے کے ساتھ اپنا نظریہ پیش کرتا ہے کہ وہ کسی انسان کا نہیں بلکہ خالق کائنات کی طرف سے بھیجا ہوا نظام ہے۔ مختصر یہ کہ اسلام انسانی عقل کو ایک صحیح نظریۂ حیات کو گھڑنے کی نہیں بلکہ اس کو پہچاننے کی ذمہ داری دیتا ہے۔

۲- ایک ناقابلِ عمل یوٹوپیا ہونے کی تہمت اسلام پر نہیں لگائی جاسکتی کیونکہ اسلام دنیا کا واحد نظریہ ہے، جو اپنی تاریخ میں چالیس سال کا ایسا مثالی دوررکھتا ہے، جس کے بھلے اور کمزور پہلوؤں کی پوری ذمہ داری لینے کے لیے وہ تیار ہے۔ دیگر نظریات کے پاس صرف مفروضات اور یوٹوپیا ہیں۔ زمین پر وہ اپنا کوئی ایسا مثالی ماڈل پیش نہیں کرسکے، جس کی ذمہ داری وہ بلاجھجک قبول کرسکیں۔ پچھلی صدی میں کہا گیا کہ سوویت یونین، کمیونزم کا اور اسرائیل، یہودیوں کی آئیڈیل اسٹیٹ ہے۔ آج تقریباً سارے کمیونسٹ اور یہودیوں کی اکثریت اس دعوے کو شدومد سے رد کرتی ہے۔

۳- نظریہ اپنے ماننےوالوں میں ایک آنےوالی کل کی اُمید جگاتا ہے اور قربانیاں دینے پر آمادہ کرتا ہے۔ اس لڑائی میں کامیابی کا یقین دلاتا ہے کہ کامیابی کا یقین نہ ہوتو لڑائی جیتنا تو دُور، لڑنا بھی محال ہوجاتا ہے۔ اسلام میں کامیابی کا یہ تصور بھی جو اپنے ماننے والوں میں عمل کے لیے مہمیز کرتا ہے دیگر نظریات سے زیادہ وسیع اور ہمہ گیر ہے۔ اسلام کامیابی کا دو سطحی تصور پیش کرتا ہے: پہلی سطح کی کامیابی، باطل پر حق کی فتح اور غلبے کے نتیجے میں اجتماعی طور پر اس دنیا میں حاصل ہوتی ہے۔ دوسری سطح پر کامیابی، فرد کو اپنے اعمال کے نتیجے میں اللہ کی رضا کی صورت میں آخرت میں حاصل ہوتی ہے۔ پہلی سطح کی جدوجہد میں اسلام اپنے ماننے والوں کو نتیجے کا نہیں بلکہ نیت اورکوششوں کا مکلف کرتا ہے، جس سے ایک مومن کبھی مایوس نہیں ہوتا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ نتائج اس کے ہاتھ میں ہیں ہی نہیں۔ صحیح سمت میں جی توڑ کوشش پہلی سطح پر اسے کامیابی دلائے نہ دلائے، دوسری سطح کی کامیابی جو کہ اصل کامیابی ہے، وہ اسے حاصل ہوکررہتی ہے۔

۴- اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ انسانی عقل اور جذبات دونوں کو اپیل کرتا ہے۔ بحیثیت نظریہ، اسلام کی سب سے بڑی خوبی اس کا اعتدال ہے۔ مثال کے طور پر سرمایہ دارانہ نظام فرد کی بے قید آزادی کا قائل، انفرادیت پسندی کا علَم بردار اوربازار میں حکومت کی کسی قسم کی مداخلت کے خلاف ہے۔ نتیجہ؛ سود کا پھیلا ہوا جال، دولت کا ارتکاز، فاقہ کشی، خودکشی، جنسی انارکی، بکھرتے خاندان وغیرہ وغیرہ۔ وہیں کمیونزم انسانوں میں جبری مساوات اور فرد پر جماعت کی ترجیح اور کلیت پسندی کا علَم بردار ہے۔ نتیجہ؛ بدترین آمریت، صلاحیتوں کی ناقدری، کاہلی اور نااہلی کا دور دورہ ، سزاے موت، ملک بدری، جنسی انارکی، بکھرتے خاندان وغیرہ وغیرہ۔

ان دونوں نظریات کی انتہاؤں کے بالمقابل، اسلام انسانوں میں بنیادی مساوات کا قائل ہے، یعنی ہرانسان، انسان ہونے کی حیثیت سے ایک دوسرے کے برابر ہے۔ اس برابری میں یہ بات شامل ہے کہ ہرانسان کی بنیادی ضرورتیں پوری ہونی چاہییں۔ اگر کوئی انسان کسی وجہ سے اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل سے قاصرہے تو یہ اجتماعیت کی ذمہ داری ہےکہ وہ اسے پوراکرے۔ اس بنیادی مساوات کے بعد اسلام فرد کی خلاقانہ صلاحیتوں پرقدغن نہیں لگاتا بلکہ اپنے جوہر دکھلانےکے لیے اسے ایک وسیع میدان فراہم کرتا ہے۔ اگر صرف کمانے کی مثال لی جائے تو اسلام فرد کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے مزاج اور صلاحیتوں کے مطابق کمائے اور جتنا چاہے کمائے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ وہ جو کچھ کمائے حلال راستے سے کمائے اور حلال راستے سے خرچ کرے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی طرح اسے سود، شراب، جوا، قحبہ خانے، ملاوٹ، دھوکے اورفحش فلموں وغیرہ کا کاروبارکرکے پیسہ بٹورنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اسے اپنے مال کی زکوٰۃ دینی ہوگی۔ ان پابندیوں کے ساتھ وہ جو کچھ کمائے، اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ پھر دولت گردش میں رہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے فرد کے مرنے کے بعد اس کا مال اس کے ورثا میں تقسیم کردیا جائے گا۔

 اسی طرح قوم پرستی (Nationalism) اور نسل پرستی (Racism) کی مثال لی جاسکتی ہے۔ اوّل الذکر چندپہاڑوں اور ندیوں یا نقشے پرخود انسان کی کھینچی ہوئی فرضی لکیروں کی بنیاد پر انسانیت کی تقسیم کا قائل ہے۔ آخرالذکر نسل کی بنیاد پر گروہ بندی کا قائل ہے۔ دونوں صورتوں میں فضیلت کا معیارانسان کی کسی مخصوص ملک یا نسل میں پیدایش ہے، جو یقینا حادثاتی ہوتی ہے اختیاری نہیں۔ اس کے بالمقابل اسلام جغرافیائی نہیں بلکہ نظریاتی قومیت کا علَم بردار ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ فرد کی اپنے وطن، اپنی نسل، اپنی قوم، اپنی زبان سے محبت فطری امر ہے لیکن یہ محبت عصبیت بن کر حق و باطل کا معیار نہ بن جائے۔ اسلام فضیلت کے صرف ایک معیار کو تسلیم کرتا ہے اور وہ ہے تقویٰ۔ کسی مخصوص قوم یا نسل یا ملک میں حادثاتی طور پر پیدایش اسلام کے نزدیک کوئی معیارِ فضیلت نہیں ہے۔

الغرض، بحیثیت نظریہ، اسلام کی حیثیت سب سے انوکھی اور نرالی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ نظریات کو نقشوں سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے۔ اس حساب سے بھی اسلام دیگر نظریات (نقشوں) سے ممتاز ہے، جنھیں زمان و مکان کی قید میں محصور چند انسانوں نے اپنے محدود علم اور ناقص تجربات کی بنیاد پر بنا لیا تھا اور اپنی ناواقفیت یا کم علمی کی بنا پر انھوں نے یا ان کے متبعین نے یہ سوچ لیا کہ ان کا بنایا ہوا ایک مخصوص علاقے کانقشہ دُنیابھر میں منزل تک رہنمائی کے فرائض انجام دےسکتا ہے۔ اسلام تو خالق کائنات کا بنایا ہوا’نقشہ‘ ہے، جسے دنیا کے کسی نقشے سے اگرکسی حد تک تشبیہ دی جاسکتی ہے تو وہ Google Earth ہے جس کے ذریعے آپ دُنیابھر میں اپنی منزل تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ اپنی ابتدائی مثال کی طرف لوٹیں تو ہرانسان کی نگاہوں پر باضابطہ یا بےضابطہ طورپرکسی نہ کسی نظریے کاچشمہ چڑھا ہوا ہے۔مگراسلام ایک ایسا چشمہ ہے جس کا انتخاب فرد پورے ہوش و ہواس میں خود کرتا ہے اور یہ جان کر (بسااوقات آزما کر) کرتا ہے کہ یہ وہ واحد چشمہ ہےجس کا شیشہ صاف وشفاف ہے، جو ہمیں دھوپ اور دھول سے ضرور بچاتاہےلیکن لال کولال، کالے کو کالا، حق کو حق اور باطل کو باطل ہی دکھاتا ہے، جیساکہ مومنین کو دُعا سکھلائی گئی ہے کہ اللّٰھُمَّ اَرِنِی حَقِیْقَۃٌ  الْاَشْیَاءَ کَمَا ھِیَ   (اےاللہ! مجھے چیزوں کو ویسا ہی دکھا جیساکہ وہ فی الواقع ہیں)۔ یا،اَللّٰھُمَّ أَرِنَا  الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہُ   وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہُ  (اے اللہ! ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کی اتباع کی توفیق دے اور باطل کو باطل دکھا اوراس سے اجتناب کی توفیق بخشی!)۔

کرنے کے کام

سماجی علوم ہمیں معاشرے کو پڑھنا اورسمجھنا سکھاتے ہیں۔ ان میں پڑھائے جانے والے اصولوں کی حیثیت معاشرے کے لیے کلیدی ہوتی ہے۔ یہ مقاصد کاتعین کرتے ہیں اوران مقاصد کے حصول کے لیے طریقۂ کار کی نشان دہی بھی۔ لیکن کیا یہ سماجی علوم تعصب سے پاک ہیں؟ عمانویل والرسٹین نے اپنے مقالے Eurocentrism and its Avatarsمیں اس سوال کا جواب نفی میں دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’سماجی علوم کا وجود یورپی مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہوا، تاریخ کے ایک ایسے موڑ پرجب یورپ پوری دنیا کے نظام پرحاوی تھا۔ اس لیے طبعی طور پر سماجی علوم کے مباحث کا انتخاب، انھیں برتنے کے آداب، تحقیق کےطریقۂ کار اورسماجی علوم کے نظریۂ علم (Epistemology) سبھی پر اس ماحول کی گہری چھاپ ہے جس ماحول میں اس کی پیدایش ہوئی ہے‘‘۔

والرسٹین نے صاف کہا ہے کہ ’’یہاں یورپ سے میری مراد نقشے پر موجود کسی جگہ سے زیادہ ایک تہذیب اور ایک فکر ہے۔ مختصر الفاظ میں سماجی علوم عالم گیر اصولوں پر مبنی نہیں ہیں جیساکہ دعویٰ کیا جاتا ہے بلکہ ان تصورات اور توجیہات پرمنحصر ہیں، جن کے ڈانڈے مغرب کے نظریۂ حیات سے جاملتے ہیں‘‘۔ والرسٹین کے مطابق ’’سماجی علوم کو اس یورپی قید سے چھڑانا ایک عظیم علمی خدمت ہے۔ لیکن کیایہ اتنا آسان کام ہے؟ نہیں، اس راستے میں چیلنجز بے شمار ہیں‘‘۔

ایک ایسے زمانے میں مغرب پر کی جانے والی تنقید بھی، خود مغرب کے نظریات کی خوشہ چیں ہے۔ جب نظریات کی اہمیت کو کم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اورایسا لگتا ہے کہ علمی دنیا کا اس بات پر اجماع ہوگیا ہے کہ دُنیا میں اب نظریاتی سطح پر لبرل ڈیموکریٹک کیپٹلزم کا کوئی مخالف نہیں رہ گیا ہے۔ اس ماحول میں اسلامی نظریے کو ماننےوالوں کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے۔ سماجی علوم میں اجتہادی مہارت کا حصول اور مروجہ سماجی علوم کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ کرکے ایک نئی نظریاتی بحث کو شروع کرنا ایک ایسا کام ہے جس سے بڑا فکری احسان آج کی دنیا پر نہیں کیا جاسکتا۔ اس نظریاتی بحث کو مندرجہ ذیل خطوط پر آگے بڑھایا جاسکتا ہے:

    ۱-  ہر انسان کا ایک نظریہ ہوتا ہے بالفاظِ دیگر ہرانسان کی نگاہوں پر کسی نہ کسی نظریے کا چشمہ چڑھا ہوا ہوتا ہے۔

    ۲-  بیرونی حقائق ہمیں اپنے نظریات کے مطابق نظر آتے ہیں۔ بالفاظ دیگر سامنےموجود شے کا رنگ اوراس کی جسامت ہمیں اپنے چشمے کے رنگ اور نمبر کی مناسبت سے نظر آئے گی۔

    ۳-  عام طور پر لوگ فاتح یا غالب قوم کےنظریات سے متاثر ہوتے ہیں اور جانے انجانے میں ان کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بالفاظ دیگر ہمارا چشمہ ہماری آنکھوں کے مطابق نہیں ہے بلکہ یورپی آنکھوں سے مستعار لیا ہوا ہے۔

    ۴-  فاتح یا غالب قوم کے نظریات دوسرے سیاق میں قابلِ عمل نہیں ہوتے اور ان کے ماننے والے عموماً احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں اور حقائق کا غلط اور گمراہ کن اِدراک کرتے ہیں۔ بالفاظ دیگرچشمہ اگر اپنی آنکھوں کے مطابق نہ ہو توحقائق مسخ شدہ نظر آتے ہیں۔

    ۵-  ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے نظریے کو قبول کیا جائے جو ہرحالت میں اور مقام پر ہماری اسلامی اور ایمانی وابستگی کے مطابق ہماری رہنمائی کے فرائض انجام دے سکے۔ بالفاظِ دیگر اس چشمے کو جو ہماری نگاہوں پر چڑھ گیا ہےبدل کر ہمیں شعوری طورپر ایک ایسا چشمہ پہننا چاہیے، جو ہمیں حقائق کو ویسا ہی دکھائے جیساکہ وہ ہیں۔ اور اسلام ٹھیک ٹھیک صورتِ حال دکھاتا اورقولِ سدید سکھاتا ہے۔

اخوان المسلمون ایک جامع اسلامی اجتماعیت ہے، جو ایک واضح اور مخصوص طریق کار رکھتی ہے۔ ایسا طریق کار کہ جو در حقیقت اہل سنت و الجماعت کا منہج ہے۔ اخوان اس امر کا لحاظ اپنی ان تمام سرگرمیوں میں رکھتی ہےجو وہ معاشرے کی اصلاح اور تبدیلی کے لیے بروے کار لاتی ہے، تاکہ وہ اپنی ذمہ داری کو حکمت اور بہترین اسلوب کے ساتھ ادا کرے۔ وہ ذمہ داری جو عین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہو اور جو معاشرے کے ہر فرد اور ادارے میں ان کی گوناگونی کےباوجود ایک احساس امن اور آزادی پیدا کرے۔ اخوان المسلمون معاشرے کی اصلاح کے لیے جو کردار ادا کرنا چاہتی ہے، وہ ایک مسلم فرد، مسلم گھرانے اور مسلم امت کی اساس پر قائم ہوتا ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ایک مسلمان اگر اسلام کے صحیح تصور کے مطابق زندگی گزارتا ہے، تو اس کے اسی عمل کے نتیجے میں کامیابی کی دوسری تمام راہیں کھلتی ہیں۔ اور ایسا شخص لازمی طور پر ایک صالح شہری بھی ہوتا ہے، جو اس بات کا فہم اور علم رکھتا ہے کہ ایک صالح مسلما ن گھرانا ہی وہ بنیادی اکائی ہے، جس پر ایک مسلمان معاشرے کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ اخوان یہ بھی جانتی ہے کہ اللہ کی مرضی سے جب تک امت مسلمہ اس بات پر قادر رہے کہ وہ حق اور انصاف کا علَم اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق بلند کرتی رہے تو وہ نہ گمراہ ہوگی اور نہ بدبخت:

فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّيْ ہُدًى۝۰ۥۙ  فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي۝۱۲۳ وَمَنْ   اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِيْشَۃً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ اَعْمٰى۝۱۲۴ (طٰہٰ ۲۰:۱۲۳-۱۲۴) جو کوئی میری اس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مبتلا ہو گا۔اور جو میرے ’ذِکر‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے۔

اپنے اس مخصوص طریقے کار پر عمل کرتے ہوئےتمام مشکلات، مصائب اور رکاوٹوں کے باوجود الحمدللہ اخوان اپنا فرض نبھاتی آرہی ہے اور اسلام کا اعتدال پسندانہ طرزِ عمل اختیار کرتے  ہوئے اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول کے لیے کوشاں ہے، تاکہ ایک ایسی اسلامی ریاست کی بناڈالے جو اسلام کو تمام گوشہ ہاے زندگی میں نافذ کرے۔ عوام شعوری طور پر اگر اس بات پر تیار ہو جاتے ہیں، تو نہ صرف وہ خوش نصیب ہوں گے بلکہ اس کے ذریعے انھیں دنیا میں عزت اور قیادت بھی ملے گی، اور اگر وہ اس کو رد کر دیتے ہیں تو اللہ کی ذات توتمام انسانوں سے غنی ہے۔ وہ تو صرف بندوں کو بخشنے کاروادار ہے،بشرطیکہ وہ توبہ کی روش اختیار کریں، صرف اسی کی طرف پلٹیں اور اسی کو خلوص دل سے پکاریں، نیک عمل کریں اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں۔

مختصراً یہ کہ اخوان المسلمون دعوتِ دین اور تحریک و تنظیم کے ذریعے عوام کو مخاطب کرتی ہے۔ ہم اُن کو اسلام کی طرف بلاتے ہیں جس کا ایک جز حکومت بھی ہے۔ اور آزادی اس کا ایک فریضہ ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ہی تمام انسانیت کے لیے دینِ حق ہے۔ اور وہ کسی خاص نسلی یا علاقائی یا جغرافیائی گروہ کی میراث نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام بنی نوع انسان کی جانب اپنی رحمت کے ساتھ مبعوث کیا تھا:

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِيْنَ۝۱۰۷  (الانبياء ۲۱:۱۰۷) اے محمدؐ، ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔

ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم لوگوں تک اللہ کا دین بے کم و کاست اور بنا کسی رد و بدل کے پیش کر دیں:

اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۝۰ۭ (المائدہ ۵:۳) آ ج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔

اسی کے ساتھ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ امت ہی قیادت اور سیادت کا منبع اور مصدر ہے۔ انھی اہلِ ایمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی قیادت کا خود چناؤ کریں۔ اس معاملے میں ہم منصفانہ طور پر عوام کی منتخب راے کے ساتھ چلیں گے، چاہے یہ ہماری راے کے مخالف ہی کیوں نہ ہو۔ بس اس شرط کے ساتھ کہ وہ شریعت کے کسی اصول سے متصادم نہ ہو اور نہ اس معاملے میں کسی فرد یا جماعت کی جانب سے اس پر کسی دباؤ، دھمکی، یا آمریت و استبداد کا استعمال کیا گیا ہو۔

اخوان اور سیاسی جماعت

آج کل معاشرے میں سیاسی اور اسلامی جماعتوں کے حوالے سے کافی باتیں زیربحث ہیں۔ بہت سے کرم فرماؤں کی یہ راے ہے کہ ’’اخوان کوبھی انھی جماعتوں کی طرح ایک سیاسی جماعت ہونا چاہیے‘‘۔اُن کی نظر میں ’’اسے ایک عوامی سیاسی جماعت میں ڈھل جانا چاہیے‘‘جو دوسرے شعبوں، مثلاً نوجوانوں کی تربیت، دعوت دین اور خدمت خلق کے شعبوں کے ساتھ مربوط ہو اور سول سوسائٹی کے تمام اداروں، مثلاً رفاہی انجمنوں، کھیل کے کلبوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور قانونی امداد کمیٹیوںکے ساتھ مل کر کام کرے گی‘‘۔

اس حوالے سے اخوان کی پوزیشن پہلے روز سے آج تک بہت واضح ہے۔ اخوان کو ایسی کسی بھی تنظیم پر کوئی اعتراض نہیں ہے، جو اخوان کے پیش نظر مختلف جہتوں میں پھیلے ہوئے کسی بھی کام کےحوالے سے قائم کی جائے مگر شرط یہ ہے کہ محض حصولِ اقتدار اس جماعت کی اوّلین ترجیحات میں سے نہ ہو بلکہ وہ ایک ایسی اجتماعی ہیئت ہو، جو زندگی کے تمام شعبوں میں اسلام کی دعوت کو اپنی اوّلین ترجیح رکھے اور اس بات کے لیےکوشاں رہے کہ یہ امت ایک صاحبِ رسالت امت بننے کے قابل بن سکے۔

اخوان یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس وقت کسی ایسی جماعت کی رجسٹریشن کے لیے درخواست دینا بے سود ہے کیونکہ حکومت عوام پر ہر قسم کا تشدد روا رکھے ہوئے ہے اورجس میں اخوان اس کا مرکزی ہدف ہے۔ اور حکومت کسی بھی ایسی جماعت کی تشکیل کی اجازت نہیں دے گی اور اخوان بھی اس جبر کے نظام میں یک طرفہ طور پر متحرک نہیں ہو سکتے۔ اپنے اصلاحی کام کے ذریعے اگر کبھی ایسی جماعت بننے کی سبیل پیدا ہوئی، تو اخوان ایک مسلمان معاشرے اور ایک عادلانہ امت کے قیام کے لیے ضرور دعوت،تنظیم، تعلیم و تربیت اورخدمت کے ایجنڈے پر عمل کرے گی۔

 اس لیے اخوان کا عوامی کام جس میں سیاسی کام بھی شامل ہے، اپنے اہداف اور وسائل کے اعتبار سے اسلامی اصول و ضوابط سے باہر نہیں نکلتا، اور نہ نکل سکتا ہے، اور نہ یہ ممکن ہے کہ اخوان کسی تکنیکی حکمت عملی کے تحت تحریک کے جامع پروگرام کے کسی جزو کو نظر انداز کردیں۔ اگرچہ بہت سے ہمدرد یہ کہتے ہیں کہ ’’اخوان اگر اپنے تحریکی کام کے بعض اجزاکو ترک کردے، تو نہ صرف ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ ان کو مغرب اور صہیونیوں کے ہاں بھی پذیرائی مل سکتی ہے،اور اس طرح وہ قلیل وقت میں چند شعبوں میں بڑی کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں‘‘۔ لیکن ہماری نظر میں اگر ہم نے اپنے بنیادی دعوتی کام کے پہلوؤںکو نظر انداز کر کے کوئی جماعت بنا بھی لی، تو یہ بہرحال ایک اور ہی جماعت ہوگی، مگر کسی بھی صورت میں اخوان المسلمون نہیں ہو گی۔

اخوان تو ایک ایسے اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے کوشاں ہے، جس میں سے اسلامی حکومت ایک فطری طریقے سے ابھرے، جو امت مسلمہ کی اُمنگوں کی ترجمانی بھی کرے اور شریعت کا نفاذ بھی۔ لیکن یہ خواہش ایک طویل المیعاد ا ور جاںگسل جدو جہد کا مطالبہ کرتی ہے کیونکہ ہمارا ہدف بھی اتنا ہی بلند ہے:

اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۝۰ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ۝۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۴۰ (یوسف ۱۲:۴۰)فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اُس کا حکم ہے کہ خود اُس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

ہاں، اگر کسی بھی مسلمان ملک میں کوئی اسلامی جماعت، حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے جیسا کہ ترکی میں ہوا تو ہم امت کے بھائی چارے اور آزادیوں اور انصاف کی روش عام ہونے کی مناسبت سے اس پر ضرور خوش ہوںگے۔ لیکن ان جماعتوں کی کامیابی اور اخوان کی حکمت عملی میں موازنہ کرنا خلط مبحث ہوگا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ دو مختلف النوع تحریکوں کا موازنہ ہے، جن کے اصول، اہداف اور طریق کار یکساں مختلف ہیں۔

مصر اور ترکی کے حالات کا موازنہ

اخوان المسلمون نے نہ تو اپنے اصولوں کو تبدیل کیا ہے اور نہ وہ مستقبل میں کبھی ایسا کریں گے۔ہمارے نزدیک اسلامی تحریک کا کوئی بھی جزو معطل نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری کامیابی زندگی کے انفرادی، اجتماعی، حکومتی اور ریاستی پہلوؤں کے حوالے سےایک ہمہ پہلو جد و جہد کا عنوان ہے۔ اسی کی ہم دعوت دیتے ہیں اور اسی کے لیےہم تربیت کا اہتمام کرتے ہیں۔

ترکی کی جسٹس پارٹی نے سیکولرزم کے مغربی تصور کے پہلو بہ پہلو چلنے کی رضامندی کا راستہ اختیار کیا ہے جو ہمارے اعلیٰ اجتماعی اور سیاسی ہدف سےیکسر مختلف ہے۔ہم یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی ایک ایسی اسلامی ریاست قائم ہو، جو مغرب کی پاپائیت (Theocracy ) سے بالکل مختلف ہو۔اس موقعے پر ترکی اور مصر کا فرق ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے۔مصر جہاں اخوان المسلمون متحرک ہے، تمام خرابیوں کے باوجود اس کے دستور میں ریاست کا مذہب اسلام ہے، اسلامی شریعت کے مبادی ،قانون سازی کا مصدر ہیں، جو کہ مصری ریاست کے اسلامی پہلو کا مظہر ہے، جسے کوئی بھی مصری حکومت یا جماعت تبدیل نہیں کر سکتی۔ اس کے بر عکس ترکی کے دستور میں ابھی تک سیکولرزم ہی اس ریاست کی بنیاد ہے اور وہی اس کی قانون سازی کا منبع ہے۔ ترکی خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد سے اب تک مصطفیٰ کمال کی سیکولر قوم پرستی کے تصور پر گامزن ہے اور یورپ میں ضم ہونے کا حریص ہے، باوجود اس کے کہ مسلمان ترک قوم اور لادین یورپ میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اسی جوہری اختلاف سے حق اور انصاف کے دو مختلف معیار وجود میں آتے ہیں، جن میں اتفاق ممکن نہیں ہے۔

اس تفصیل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جو شخص بھی ایک اسلامی جماعت اور اسلامی تحریک کو سمجھتا اور اس کے ساتھ چلتاہے تو ضروری ہے کہ اسلام ہی اس کا پہلا اور آخری ہدف ہوجو اس کے طریق کار اور مقاصد پر مکمل طور پر حاوی ہو۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہمیں دل چسپی تو اسلام کے حقیقی مفہوم سے ہے، نہ کہ چندشعار اور اصطلاحات سے۔ اب جو چاہے اپنے لیے جس منزل کا انتخاب کرلے، لیکن یہ بات اچھی طرح جان لے کہ یہ صرف اسلام کا صحیح مفہوم اور اس کا صحیح طریق کار ہی ہے جس کو بقا ملے گی اور اس کے علاوہ سب فنا ہو جائے گا، جس طرح غروبِ آفتاب کے ساتھ دھوپ!

میرے اہل خانہ اور غزہ کے عوام کے لیے، اگست ۲۰۲۰ء کے دن بہت خوفناک رہے۔  اسرائیل نے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر غزہ کی پٹی پر بمباری کی۔ اس دوران ہمیں ایسا محسوس ہوتا رہا کہ ہم کبھی نہ ختم ہونے والے زلزلے کے مرکز پر پھنس گئے ہیں۔ دھماکے ، کبھی کبھی تو ہمارے گھر سے بمشکل ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہوتے اور اتنے زوردار ہوتےکہ ، میری دو سالہ بھانجی رات بھر سونہیں سکتی تھی۔ جب بھی وہ ز ور دار دھماکے کی آواز سنتی، جلدی سے کھلونے سمیٹ کراپنے اردگرد جمع کر لیتی ، کہ یہ کھلونے اسے اسرائیل کے بموں سے بچا لیں گے۔

اگست کا مہینہ واقعتاً بھیانک توتھا ہی، لیکن یہ کسی طرح سے غیر معمولی نہیں تھا۔ اسرائیل کے فوجی ، جنگی طیارے ، ڈرون اور بندوق بردار کئی عشروں سے غزہ کے عوام کو بڑے تسلسل سے ہراساں کررہے ہیں ، دھمکا رہے ہیں اور اس سے آگے بڑھ کر مار بھی رہے ہیں۔ اسرائیل کے    یہ بہیمانہ حملے، غزہ کی روزمرہ زندگی کے معمولات کا حصہ ہیں۔ زندہ رہنے کے قابل ہونے کے لیے اور کسی ایسی چیز کی رہنمائی کرنے کے لیے جو عام زندگی سے ملتی ہے ، ہم اہل غزہ کے پاس ، اپنے اوپر ہونے والے تشدد کو معمول کے مطابق قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔

 غزہ میں پیدا ہونے اور پرورش پانے کے دوران میں نے ہمیشہ ایمرجنسی ، دہشت اور کسی بھی لمحے اسرائیل کی جانب سے مسلط ہوجانے والی درندگی کا احساس محسوس کیا ہے۔میرا خاندان ہمیشہ بدترین حالات و انجام کا سامنا کرنے کے لیے تیار چلا آرہا ہے، کیونکہ بدترین انجام کسی بھی وقت ہمارے دروازے پر دستک دے سکتا ہے ، جیسا کہ اس نے ماضی قریب میں غزہ پر۲۰۰۸ء، ۲۰۰۹ء ۲۰۱۲ء اور ۲۰۱۴ء میں حملوں کے دوران کیا تھا۔ بچپن سے میں جانتا تھا کہ ہر دن خوف میں رہنا ہی ہمارا مقدر ہے۔ میرے دل نے روزمرہ کی ہولناکیوں کے خاتمے کے خوش کن تصور کو مسترد کردیا ہے ، کیوں کہ اَب میں اپنی انسانی قسمت سے رابطہ نہیں کھونا چاہتا ۔یوں مجھے آخر کار اپنے گردونواح کی اس صورتِ حال سے اتفاق کرنا پڑا جس میں مَیں پیدا ہوا تھا۔

اب ، میری بھانجی اور ہزاروں دوسرے بچے ، جو غزہ میں اسرائیلی محاصرے میں رہ رہے ہیں ، اسی خوف اور مسلسل ہنگامی صورتِ حال کے ایک جیسے احساس کے ساتھ پل بڑھ رہے ہیں۔  جب وہ بموں کی آوازوں میں سونے کی کوشش کرتے ہیں ، اور اپنے کھلونوں کو خوفناک دہشت سے بچاتے ہیں جو ان کے دروازے پر دستک دے رہی ہے، اور فضا سے ان پر مسلط ہے، تو انھیں معمول کے مطابق ایک پُرتشدد حقیقت کو قبول کرنا ہی ہے۔ ایسا پُرتشدد ماحول دُنیا کا کوئی معاشرہ، کوئی ملک یا کوئی باپ اپنے بچے کو کبھی نہیں دکھانا چاہتا۔

کائنات میں تیرتی اس دُنیا میں حالیہ برسوں کے دوران شاید ہی کوئی ایسا دن دیکھنے میں آیا ہو، جس میں اسرائیل نے فلسطین کے انتہائی گنجان آباد علاقوں پر بمباری یا فائرنگ نہ کی ہو یا جسمانی طور پر حملہ نہ کیا ہو ، بلکہ ایک ایسی جگہ بھی تھی، جس کا بدترین محاصرہ ہوئے ۱۳ سے زیادہ دن گزرگئے، جن میں عام انسانی کی زندگی کے لیے بنیادی ضروریات تک میسر نہ تھیں۔

اسرائیل کا نوآبادیاتی انفراسٹرکچر ہمارے اوپر آسمان کو اور ہمارے ارد گرد زمین کو اور پھیلے ہوئے سمندر کو کنٹرول کرتا ہے ۔ غزہ میں ، جہاں بھی آپ نظر ڈالتے ہیں ، آپ کو جبر ، قبضے اور جنگی آلات نظر آتے ہیں ۔ سرحد پر تقسیم کرتی دیواریں ، بکتر بند گاڑیاں ، جنگی طیارے اور قلعہ نما چوکیوں کا منظر، جس میں ہم رہتے ہیں___ اس کو ’غزہ‘ کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب آپ گھر میں ہوتے ہیں، تو فوجی ڈرون کی منحوس آواز آپ کو یاد دلاتی ہے کہ آپ قید ہیں ، اور آپ پر کسی بھی وقت حملہ ہوسکتا ہے۔

 مجھے یقین ہے کہ اسرائیل غزہ کے فلسطینیوں کو اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے یہ سب شعوری طور پر کرتا ہے۔ اپنے قبضے کو ظاہر کرنے کے لیے نہایت گھناؤنی طاقت کا مکروہ مظاہرہ کرتا ہے،اور ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ’’ہم تمھیں کبھی عام انسان نہیں بننے دیں گے ، اور کبھی تمھیں  عام زندگی بسر نہیں کرنے دیں گے‘‘۔

اسرائیل کے نزدیک ، ’’غزہ ایسی جگہ نہیں ہے جہاں ۲۰لاکھ مرد ، خواتین اور بچے اپنی پناہ گاہ کو گھر کہہ سکیں، البتہ اپنے آپ کو ’دشمن کا نشانہ بننے والی ایک مخلوق سمجھ سکتے ہیں‘‘۔ وہ یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ’’ہم ایک اجنبی جگہ کے باشندے ہیں، جو انسانی شائستگی کے سلوک کے مستحق نہیں ہیں‘‘۔ اسرائیل کی پروپیگنڈا مشین ، دنیا بھر میں اپنے حلیفوں کی مدد سے ، غزہ کے عوام کو غیر مہذب، متشدد ’انتہا پسندوں‘ کا نام دینے کے لیے اَن تھک کام کرتی ،اور یہ تاثر دیتی ہے کہ ’ارضِ فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ ’انسانیت پسندانہ‘ اور ’مہذبانہ اقدام‘ ہے۔

بلاشبہہ، حقیقت اس سے بہت مختلف ہے۔ اسرائیل کی طرف سے ہمیں دہشت زدہ کرنے کی کوششوں کے باوجود ، ہم غزہ کے عوام کو ، ہمارے غاصب فسطائی حاکم، اپنی رُودادِغم سنانے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی لیے ہم اپنے خوف ، خطرات اور مایوسیوں کو مزاحمت میں بدل کر دنیا کے ہر اس چوراہے پر پہنچ جاتے ہیں کہ جہاں اپنی المناک صورتِ حال کو بیان کرکے اپنے جابر قابضین کو شرمندہ کرنے کے لیے آواز بلند کر سکتے ہیں۔

غزہ کی پٹی اور پھر پوری دنیا میں بکھرے غزہ کے بہت سے مظلوموں کی طرح ، میں نے بھی زندگی بھر اسرائیل کی نوآبادیاتی پالیسیوں کا مقابلہ کیا ہے۔ میں غزہ میں پہلے اپنے مہاجر کیمپ میں ، اور بعد میں جرمنی میں ، انصاف اور آزادی کے لیے فلسطینی جدوجہد میں صفِ اوّل میں رہا ہوں۔ ان کوششوں پر مجھے دھمکیاں دی گئیں ، ستایا ، ڈرایا گیا اور یہاں تک کہ ایک بار گولی مار دی گئی۔ لیکن میں کبھی اس جدوجہد سے دست بردار نہیں ہوا ، کیونکہ میں یہ جانتا ہوں کہ مزاحمت ہی اس بات کا یقین کرنے کا واحد راستہ ہے کہ میرے لیے ، میرے اہل خانہ اور میرے پیارے اہلِ غزہ کے لیے زندگی کی راہ اسی خطرناک گھاٹی سے گزر کر نکلے گی۔

لیکن ، یہ افسوس ناک بات ہے کہ دنیا ہماری بات سننے میں دل چسپی نہیں رکھتی۔ اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف جاری جرائم کا انکشاف بار بار، صحافیوں ، اقوام متحدہ کے نمایندوں، کارکنوں اور خود فلسطینیوں کے ذریعے ہوا ہے۔ اس کے باوجود ، بیش تر عالمی حکومتوں نے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ کچھ لوگوں نے اسرائیل کی محض رسمی ’مذمت‘ کرنے ، اور فلسطینیوں کے خلاف اپنے جارحانہ حملوں کو روکنے کے لیے چند پامال لفظوں پر مبنی کھوکھلے بیانات جاری کیے ، لیکن دوسری طرف اسرائیل کو سفارتی ، سیاسی اور فوجی مدد فراہم کرتے رہے۔ بہت سے تو مکمل طور پر خاموش رہے اور ہمارے دُکھوں کی طرف سے آنکھیں بند کیں ، جو غلیظ خودغرضی اور اخلاقی غداری ہے۔

لیکن عالمی برادری ہماری حالت زار کو نظرانداز نہیں کرسکتی۔ اقوام متحدہ نے تین سال پہلے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ۲۰۲۰ء تک غزہ ناقابلِ رہایش علاقہ بن جائے گا۔ تب سے اسرائیل نے نہ صرف یہ کہ غزہ کو تیزی سے بگاڑنا شروع کیا ہے، بلکہ غزہ پٹی پر اپنے حملے تیز کردیے۔  مقامی لوگوں کی کوشش ہے کہ اس کھلی جیل کو مزید لمبے عرصے تک رہنے کے قابل بنایا جائے۔ کورونا وائرس اب پورے غزہ کے مہاجر کیمپوں اور بستیوں میں پھیل رہا ہے۔ ہم اپنے دکھوں کی صورتِ حال تسلیم کرانے اور کارروائی کرنے کے لیے مزید انتظار کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔

 ہر سال ۱۵ مئی کا دن، فلسطینیوں نے ہم وطنوں کی نسل کشی اور ۱۹۴۸ء میں فلسطینی معاشرے کی تباہی کا حوالہ بنا رکھا ہے۔ اس افسوس ناک دن کے بعد سے ، اسرائیل کا بنیادی اسٹرے ٹیجک مقصد فلسطینیوں کو اسی ٹکڑے میں قید رکھنا ہے۔ تباہی کی اس حالت کا مقصد اسرائیلی نوآبادیاتی ڈھانچے کی تعمیر کے ذریعے اہلِ فلسطین کے لیے ہر روشن دان بند کرنے کا انتظام ہے۔

اسرائیل نے فلسطین کو اتنے لمبے عرصے سے تباہ کن حالت میں دبوچے رکھا ہے، کہ اب ہماری یہ خستہ صورتِ حال پوری دنیا کو ’معمول کی صورتِ حال‘ لگتی ہے۔ حالانکہ اسرائیل ہماری سماجی، معاشی اور ذاتی زندگیوں کو تباہ کرنے کے لیے پوری قوت، تسلسل سے لگا رہا ہے۔

 فلسطینی عوام بلاشبہہ اسرائیل کی نوآبادیاتی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کو نچلی سطح تک منظم کرکے چلا رہے ہیں، لیکن یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم آزادی ، مساوات اور وقار کے لیے اپنی عدل و انصاف پر مبنی اخلاقی جنگ کو عالمی برادری کی حمایت کے بغیر نہیں جیت سکتے۔

اسی لیے ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فلسطین میں اسرائیلی جرائم کا حصہ نہ بنیں۔ اگر دنیا ہمارے حالات کو ’معمول‘ کے حالات سمجھ کر عملی اقدامات کرنے میں ناکام رہی تو میرے ہم وطن اپنے گھربار کو بچانے سے ہمیشہ کے لیے محروم رہ جائیں گے۔(الجزیرہ، انگلش، ترجمہ: س م خ)