اکتوبر۲۰۲۰

فہرست مضامین

فلسطین پراسرائیلی جارحیت

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | اکتوبر۲۰۲۰ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

’مطالبۂ پاکستان‘ کو یہود کے ’قومی وطن‘ سے تشبیہ دینا غلط ہے [۱۹۴۴ء]

سوال: مسلمان، آدم علیہ السلام کی خلافتِ ارضی کا وارث ہے۔ مسلمان کی زندگی کا مقصد صرف اللہ پاک کی رضا اور اس کے مقدس قانون پر چلنا اور دوسروں کو چلنے کی ترغیب دینا ہے۔ لیکن مسٹرمحمدعلی جناح اور مسلم لیگی بھائی پاکستان کا قیام چاہتے ہیں، ہندستان کی زمین کا ایک گوشہ، تاکہ ان کے خیال کے مطابق مسلمان چَین کی زندگی گزار سکیں۔

کیا خالص دینی نقطۂ نظر سے یہ مطالبہ قابلِ اعتراض نہیں ہے؟ یہودی قوم مقہور و مغضوب قوم ہے۔ اللہ پاک نے اس پر زمین تنگ کر دی ہے اور ہرچند کہ اس قوم میں دُنیا کے بڑے سے بڑے سرمایہ دار اور مختلف علوم کے ماہرین موجود ہیں، لیکن اُن کے قبضے میں ایک انچ زمین بھی نہیں ہے۔ آج وہ اپنا قومی وطن بنانے کے لیے کبھی انگریزوں سے بھیک مانگتے ہیں اور کبھی امریکاوالوں سے۔ میرے خیا ل میں مسلمان، یا بالفاظِ دیگر آل انڈیا مسلم لیگ بھی یہی کر رہی ہے۔ تو پھر کیا یہ ایک مقہور اور مغضوب قوم کی پیروی نہیں ہے؟

جواب: میرے نزدیک پاکستان کے مطالبے پر، یہودیوں کے قومی وطن کی تشبیہ چسپاں نہیں ہوتی:

 فلسطین فی الواقع یہودیوں کا قومی وطن نہیں ہے، اُن کو وہاں سے نکلے ہوئے دوہزار برس گزرچکے ہیں۔ اُسے اگراُن کا قومی وطن کہا جاسکتا ہے، تو اُسی معنی میں جس معنی میں جرمنی کی آریہ نسل کے لوگ وسطِ ایشیا کواپنا قومی وطن کہہ سکتے ہیں۔ یہودیوں کی اصل پوزیشن یہ نہیں ہے کہ ایک ملک [فلسطین] واقعی اُن کا قومی وطن ہے اور وہ اسےتسلیم کرانا چاہتے ہیں، بلکہ ان کی اصلی پوزیشن یہ ہے کہ ایک ملک ان کا قومی وطن نہیں ہے، اور اُن کا مطالبہ یہ ہے کہ ’’ہم کو دنیا کے مختلف گوشوں سے سمیٹ کروہاں بسایا جائے اور اُسے بزور ہمارا قومی وطن بنا دیا جائے‘‘۔

بخلاف اس کے، مطالبۂ پاکستان کی بنیاد یہ ہے کہ ’’جس علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے، وہ بالفعل مسلمانوں کا قومی وطن ہے‘‘، اور مسلمانوں کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ ’’موجودہ جمہوری نظام میں ہندستان کےدوسرے حصوں کے ساتھ لگےرہنے سے، اُن کےقومی وطن کی سیاسی حیثیت کو جو نقصان پہنچتا ہے، اُس سے اس کو محفوظ رکھاجائے، اور متحدہ ہندستان کی ایک آزاد حکومت کے بجاے، ’ہندو ہندستان‘ اور’مسلم ہندستان‘ کی دو آزاد حکومتیں قائم ہوں۔ یعنی بالفاظِ دیگر وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ’’ان کا قومی وطن جو بالفعل موجود ہے، اُس کو اپنی آزاد حکومت الگ قائم کرنے کا حق حاصل ہوجائے‘‘۔

یہ چیز بعینہٖ وہی ہے، جو آج دُنیا کی ہرقوم چاہتی ہے۔ اور اگرمسلمانوں کے مسلمان ہونے کی حیثیت کو نظرانداز کرکے انھیں صرف ایک قوم کی حیثیت سے دیکھا جائے، تو اُ ن کے اِس مطالبے کے حق بجانب ہونے میں کوئی کلام نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اصولاً اس بات کے مخالف ہیں کہ دُنیا کی کوئی قوم کسی دوسری قوم پر سیاسی و معاشی حیثیت سے مسلط ہو۔ ہمارے نزدیک اصولاً یہ ہرقوم کا حق ہے کہ اس کی سیاسی و معاشی باگیں اس کے اپنے ہاتھوں میں ہوں۔ اس لیے ایک قوم ہونے کی حیثیت سے اگر مسلمان یہ مطالبہ کرتے ہیں تو جس طرح دوسری قوموں کے معاملے میں یہ مطالبہ صحیح ہے، اسی طرح ان کے معاملے میں بھی صحیح ہے۔ (ترجمان القرآن، جولائی- اکتوبر، ۱۹۴۴ء، ص۱۰۳-۱۰۴)

مسئلہ فلسطین اور جماعت اسلامی [۱۹۴۶ء]

سوال: فلسطین کی سیاست میں امریکا اور برطانیہ کی خود غرضانہ دخل اندازی اور اسلام دشمنی کے نتائج واضح ہیں۔ جماعت اسلامی کی قضیۂ فلسطین کے سلسلے میں پالیسی کیا ہے؟

جواب: ہمارے نزدیک برطانیہ اور امریکا سخت ظلم کررہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین کے معاملے میں انھوں نے بے انصافی کی حد کردی ہے۔ اہلِ فلسطین سے ہمدردی کرنا ہرانسان کا انسانی فرض ہے، اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے یہ فرض کئی گنا زیادہ سخت ہوجاتا ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ہمدردی کریں۔ پھر فلسطین کا مسئلہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اگر خدانخواستہ وہاں یہودی ریاست بن گئی، تو اس سے مرکز اسلام ، یعنی حجاز کو بھی متعدد قسم کے خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ اس معاملے میں دُنیا کے مسلمان مدافعت کے لیے جو کچھ بھی کریں، ہم ان کے ساتھ ہیں۔

ہمارے نزدیک اصل مسئلہ کفر و اسلام کی کش مکش کا ہے اور ہم اپناسارا وقت،ساری قوت اور ساری توجہ اسی مسئلے پر صرف کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ (ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۴۶ء، ص۲۵۱-۲۵۲)

ظلم اور جارحیت کے رکھوالے [۱۹۶۷ء]

[۳۰؍اگست ۱۹۶۷ء کو ایک خط کے جواب میں لکھا:]

کشمیر کے معاملے میں پاکستان کو جو تجربہ پچھلے [چندبرسوں] سے ہو رہا ہے اور عرب ممالک کو اسرائیلی جارحیت کے بعد جو تجربہ ہوا ہے، اس نے یہ بات بالکل واضح کردی کہ دُنیا میں آج بھی ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا قاعدہ ہی جاری ہے۔ آج بھی قوت ہی حق ہے، اور کسی قوم کے لیے اس کی اپنی طاقت کے سوا اس کے حقوق کی حفاظت کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد دنیا کو ایک فریب ’مجلس اقوام‘ کے نام سے ایک انجمن بنا کردیا گیا، مگر بہت جلدی یہ بات کھل گئی کہ ’بہرتقسیم قبور انجمنے ساختہ اند‘۔ پھر دوسری جنگ عظیم کے بعددوسرا فریب ’اقوام متحدہ‘ کی تنظیم قائم کرکے دیا گیا، مگر آج کسی سے بھی یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ تنظیم چند بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں ایک کھلونا ہے، جسے وہ حق اور انصاف کے لیے نہیں بلکہ اپنی مصلحتوں کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ظالم کا ہاتھ پکڑنا اور مظلوم کا حق دِلوانا تو درکنار، یہ تنظیم تو ظالم کو ظالم کہنے تک کے لیے تیار نہیں ہے۔ بلکہ اب تو کھلم کھلا مظلوم کو ’حقیقت پسندی‘ کا درس دیا جارہا ہے، جس کے معنی صاف صاف یہ ہیں کہ مظلوم اپنی کمزوری اور ظالم کی زورآوری کو ایک امرواقعہ کی حیثیت سے تسلیم کرے، اور ظالم نے طاقت کے بل بوتے پر اس کا جو حق مار کھایا ہے،اس پر صبرکرے۔

ان حالات میں یہ اُمید کرنا بالکل لاحاصل ہے کہ کشمیر میں ہندستان نے اور شرقِ اوسط میں اسرائیل نے جو غاصبانہ دست درازیاں کی ہیں، ان کا تدارک محض حق و انصاف کی بنیاد پر کوئی بین الاقوامی طاقت کرائے گی۔ یہاں اخلاق کا نہیں بلکہ جنگل کا قانون جاری ہے۔ ہمیں خدا پر بھروسا کرکے اپنی طاقت ہی سے غاصبوں کی ان زیادتیوں کا تدارک کرنا ہوگا، اور ان کا تدارک جب بھی ہوگا بزورِ شمشیر ہی ہوگا۔(مکاتیب ِ سیّدابوالاعلیٰ مودودی، اوّل ص ۲۰۹-۲۱۱)

اسرائیلی جرائم میں مسیحی دنیا کی حصے داری[۱۹۶۷ء]

[رومن کیتھولک مسیحی سربراہ پوپ پال ششم کے نام دسمبر ۱۹۶۷ء کے خط میں لکھا:]

مسیحی دُنیا کے متعلق مسلمانوں کا عام احساس یہ ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک شدید جذبۂ عناد رکھتی ہے، اور آئے دن ہمیں ایسے تجربات ہوتے رہتے ہیں، جو اس احساس کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ اس کا تازہ ترین تجربہ وہ ہے جو [جون ۱۹۶۷ء] میں عرب اسرائیل جنگ کے موقعے پر ہوا۔ اس لڑائی میں اسرائیل کی فتح پر یورپ اور امریکا کے بیش تر ملکوں میں جس طرح خوشیاں منائی گئیں، انھوں نے تمام دنیا کے مسلمانوں کے دل میں زخم ڈال دیے ہیں۔ آپ شاید ہی کوئی مسلمان ایسا پائیں گے، جس نے عربوں کی شکست اور اسرائیل کی فتح پر مسیحی دُنیا کے اس علی الاعلان اظہارِ مسرت و شادمانی اور اسرائیل کی کھلی کھلی حمایت کو دیکھ کر یہ محسوس نہ کیا ہو کہ یہ اسلام اورمسلمانوں کے خلاف مسیحیوں کے گہرے جذبۂ عناد کا مظاہرہ تھا۔

فلسطین میں اسرائیل کی ریاست جس طرح بنی ہے ،بلکہ بنائی گئی ہے۔ اس کی تاریخ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ دوہزار برس سے فلسطین عرب آبادی کا وطن تھا۔ موجودہ [۲۰ویں] صدی کے آغاز میں وہاں یہودی ۸ فی صدی سے زیادہ نہ تھے۔ اس حالت میں برطانوی حکومت نے اس کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کا فیصلہ کیا اور ’مجلسِ اقوام‘ نے نہ صرف اِس فیصلے کی توثیق کی بلکہ برطانوی حکومت کو فلسطین کا مینڈیٹ دیتے ہوئے یہ ہدایت کی وہ یہودی ایجنسی کو باقاعدہ شریک ِ حکومت بنا کر اس تجویز کو عملی جامہ پہنائے۔ اس کے بعد دُنیا بھر کے یہودیوں کو لالاکر، ہرممکن تدبیر سے فلسطین میں بسانے کاسلسلہ شروع کر دیا گیا، یہاں تک کہ ۳۰سال کے اندر ان کی آبادی ۳۳فی صدی تک پہنچ گئی۔ یہ ایک صریح ظلم تھا، جس کے ذریعے سے ایک قوم کے وطن میں زبردستی ایک دوسری اجنبی قوم کا وطن بنایا گیا۔ پھر ایک دوسرا اس سے بھی زیادہ ظالمانہ قدم اُٹھایا گیا اور امریکا نے کھلے بندوں دباؤ ڈال کر اقوامِ متحدہ سے یہ فیصلہ کرایا کہ یہودیوں کے اس مصنوعی قومی وطن کو یہودی ریاست میں تبدیل کردیا جائے۔ اس فیصلے کی رُو سے ۳۳فی صدی یہودی آبادی کو فلسطین کا ۵۵ فی صدی، اورعربوں کی ۶۷ فی صدی آبادی کو ۴۵ فی صدی رقبہ الاٹ کیا گیا تھا۔ لیکن یہودیوں نے لڑ کرطاقت کے بل پر اس ملک کا ۷۷ فی صدی رقبہ حاصل کرلیا اور ماردھاڑ اور قتل و غارت کے ذریعے سے لاکھوں عربوں کو گھر سے بے گھر کر دیا۔ یہ ہے اسرائیل کی اصل حقیقت۔ کیا دُنیا کا کوئی انصاف پسند اور ایمان دار آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک جائز ریاست ہے جو فطری اور منصفانہ طریق سے بنی ہے؟

اس [اسرائیل]کا تو عین وجود ہی ایک بدترین جارحیت ہے۔ اور اس پر مزید ظلم یہ ہے کہ یہودی صرف اُن حدود کے اندر محدود رہنے پر بھی راضی نہیں ہیں، جو انھوں نے فلسطین میں زبردستی حاصل کی ہیں، بلکہ وہ سالہا سال سے علانیہ کہہ رہے ہیں کہ نیل سے فرات تک کا پورا علاقہ ان کا قومی وطن ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہ قوم ہروقت یہ جارحانہ ارادہ رکھتی ہے کہ اس پورے علاقے پر جبراً قبضہ کرے اور اس کے اصل باشندوں کو زبردستی نکال کر، دُنیا بھر میں پھیلے ہوئے یہودیوں کو وہاں لاکر بسائے۔

اسی جارحانہ اسکیم کا ایک جز گذشتہ ماہِ جون [۱۹۶۷ء]کا وہ اچانک حملہ تھا، جس کے ذریعے سے اسرائیل نے۲۶ہزار مربع میل علاقے پر قبضہ کیا۔ اس پورے ظلم کی ذمہ دار مسیحی دُنیا ہے۔ اُس نے ایک قوم کے وطن میں ایک دوسری قوم کا وطن زبردستی بنوایا۔ اُس نے اس مصنوعی قومی وطن کو ایک ریاست میں تبدیل کرایا۔ اُس نے اِس جارح ریاست کو روپے اور ہتھیاروں سے مدددے کراتنا طاقت ور بنایا کہ وہ زبردستی اپنے توسیعی منصوبوں کو عمل میں لاسکے۔ اور اب اس ریاست کی تازہ فتوحات پر یہی مسیحی دُنیا جشنِ شادمانی منارہی ہے۔

 کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس کے بعد نہ صرف عربوں میں، بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں میں مسیحیوں کی انصاف پسندی، اُن کی خیراندیشی اور مذہبی عناد و تعصب سے اُن کی بریت پر کوئی اعتماد باقی رہ گیا ہے؟ اور کیا آپ کا خیال ہے کہ دُنیا میں امن قائم کرنے کے یہی طریقے ہیں؟ یہ دراصل ہمارا نہیں بلکہ آپ کا کام ہے کہ مسیحی بھائیوں کو اِس رَوش پر شرم دلائیں اور ان کی روح کو اِس گندگی سے پاک کرنے کی کوشش کریں۔ (مکاتیب ِ سیّدابوالاعلیٰ مودودی، اوّل ص ۲۲۱-۲۲۳)

اسرائیل کے حق میں ایک عجیب مذہبی استدلال [۱۹۷۶ء]

سوال: سورئہ بنی اسرائیل ، آیت ۱۰۴ کے متعلق اخبار صدق جدید (لکھنؤ) میں مولانا عبدالماجد دریابادی [۱۶مارچ ۱۸۹۲ء-۶جنوری ۱۹۷۷ء]نے یہ تشریح کی ہے کہ ’’اس میں وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ  سے یَوْمُ الْاٰخِرَۃِ نہیںہے بلکہ قیامت کے قریب ایک وقت موعود ہے اور جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا سے مراد بنی اسرائیل کے مختلف گروہوں کو ایک جگہ اکٹھا کر دینا ہے‘‘۔ پھر جناب دریابادی فرماتے ہیں کہ ’’مطلب واضح ہے، یعنی اسرائیلیوں کو بعد ِ واقعۂ فرعون کی خبر دےدی گئی تھی کہ اب تو تم آزاد ہو، دُنیا میں جہاں چاہو رہو بسو، البتہ جب زمانہ قربِ قیامت کا آجائے گا تو ہم تم کو مختلف سمتوں سے، مختلف ملکوں سے، مختلف زبانیں بولتے ہوئے، مختلف وضع و لباس اختیارکیے ہوئے ، سب کو ایک جگہ جمع کردیں گے اور وہ جگہ اور کون سی ہوسکتی ہے بجز ان کے قدیم وطن ملک فلسطین کے۔ آج جو ارضِ فلسطین میں یہود کا اجتماع ہر ہرملک سے ہورہا ہے، کیا یہ اسی غیبی پیش خبری کاظہور نہیں؟‘‘ مولانا دریابادی صاحب کی اس تشریح سے ڈر ہے کہ یہ فلسطین کے متعلق عام جذبۂ جہاد کو ٹھنڈا کردے گا۔

جواب:آیت ِ مذکورہ کی اس تشریح کو دیکھ کر تعجب ہوا۔ آیت کے الفاظ تو صرف یہ ہیں کہ:

وَّقُلْنَا مِنْۢ بَعْدِہٖ لِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا۝۱۰۴ۭ (بنی اسرائیل ۱۷:۱۰۴) اور اس کے بعد (یعنی فرعون کی غرقابی کے بعد) ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ زمین میں رہو بسو، پھر جب آخرت کے وعدے کا وقت آئے گا تو ہم تم کو اکٹھا کر لائیں گے۔

ان الفاظ میں ’قربِ قیامت کے وقت ِ موعود‘ اور بنی اسرائیل کے وطنِ قدیم میں یہودیوں کے مختلف گروہوں کو ملک ملک سے لاکر جمع کردینے کا، مفہوم آخر کہاں سے نکل آیا؟ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ  کاسیدھااور صاف مطلب آخرت کا وعدہ ہے، نہ کہ ’قیامت کے قریب زمانے کا کوئی وقت ِ موعود‘۔ اور سب کو اکٹھا کرکے لانے یاجمع کرلانے سے مراد قیامت کے روز جمع کرنا ہے۔ اس میں کوئی اشارہ تک اس بات کی طرف نہیں ہے کہ اسی دنیا میں بنی اسرائیل کو ایک جگہ جمع کیا جائے گا۔

اس پر مزید ستم یہ ہے کہ ’’ایک جگہ جمع کرنے‘‘ کے تصور کو آیت کے الفاظ میں داخل کرنے ہی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ [مولانا دریابادی صاحب نے] یہ بھی طے کردیا [ہے]کہ وہ جگہ ’اسرائیلیوں کے وطنِ قدیم‘ کے سوااور کوئی نہیں ہوسکتی۔ یہ تو بعینہٖ یہودیوں کے اس دعوے کی تائید ہے کہ ’دو ہزار برس تک فلسطین سے بے دخل رہنے کے باوجود اُس پران کا حق فائق ہے، کیونکہ وہ ان کا وطن قدیم ہے، اور اب دو ہزار برس سے یہ ملک جن لوگوں کا حقیقت میں وطن ہے، ان کے مقابلے میں برطانیہ اورروس اور امریکا نے نہیں، بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین پریہودیوں کے حقِ سکونت کو فائق قرار دے کر انھیں ہرملک سے وہاں جمع کروایا ہے‘۔ اس طرح تو ’اسرائیلی ریاست کا قیام اللہ تعالیٰ کے ایک وعدے کا نتیجہ قرار پاتا ہے، نہ کہ دنیا کی ظالم قوموں کی ایک سازش کا‘۔ حالانکہ آیت کے الفاظ میں اس مفہوم کے لیے قطعاًکوئی گنجایش نہیں ہے۔ (ترجمان القرآن، جون ۱۹۷۶ء، ص ۳۸-۳۹)

امریکا کی جانب سے اسرائیل کی غیراخلاقی حمایت [۱۹۷۷ء]

سوال: اسرائیلی وزیراعظم مناخم بیگن [۱۹۱۳ء-۱۹۹۲ء]نے اپنے دورئہ امریکا کے فوراً بعد حال ہی میں تین غیرقانونی یہودی بستیوں کو دریائے اُردن کے مغربی کنارے پرقانونی حیثیت دی ہے۔ مزیدبرآں اسرائیلی حکومت تین اورنئی بستیاں مغربی کنارے پربسارہی ہے۔ اس سلسلے میں آپ کا ردِعمل کیا ہے؟

جواب: امریکی حکومت اگر انصاف اوراخلاق کے تمام اصولوں کو نظرانداز کرکے یہودیوں کی بے جا حمایت اور امداد و اعانت کرنے پر تلی ہوئی نہ ہوتی، تو اسرائیل کبھی اتنا جری و بے باک نہ ہوسکتا تھا کہ پےدرپے ایک سے ایک بڑھ کر ڈاکازنی اورغصب و ظلم کے جرائم کاارتکاب کرتا چلاجاتا۔ اس لیےمَیں ’اصل مجرم امریکا کی بےضمیری‘ کو قرار دیتا ہوں، جسے ساری دنیا کے سامنے اس جرائم پیشہ ریاست کی پیٹھ ٹھونکتےہوئے ادنیٰ سی شرم تک محسوس نہیں ہوتی۔

 امریکا، یہودیوں سے اس حد تک دبا ہوا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کی آمدکے موقعے پر    ان کے مذہبی پیشوا اور بااثر لیڈر، امریکی صدر پر ہجوم کرکے آتے ہیں۔ [اسرائیلی وزیراعظم]بیگن کی پذیرائی کے لیے اس پر دباؤ ڈالتے ہیں اور اس کو درپردہ ہی نہیں اشاروں کنایوں میں یہ احساس بھی دلا دیتے ہیں کہ ’جسے امریکا کا  صدر بننا ہو، وہ یہودی ووٹوں کا محتاج ہے‘۔ اس پس منظر میں انسانی حقوق اور اخلاق و انصاف کے دعوے دار [امریکی صدر]جمی کارٹر صاحب، بیگن کے اس انتہائی بے شرمانہ بیان کو شیرمادر کی طرح نوش فرما لیتے ہیں کہ ’’دریائے اُردن کے مغربی جانب کا فلسطین، جو ۱۹۶۷ء کی جنگ میں عربوں سے چھینا گیا تھا، وہ [اسرائیل کے زیرتسلط کوئی]مقبوضہ (occupied) علاقہ نہیں ہے، بلکہ آزاد کرایا ہوا (lliberated ) علاقہ ہے اور یہ ہماری میراث ہے، جس کا وعدہ چارہزار برس پہلے بائبل میں ہم سے کیا گیا تھا، اس لیے ہم اسے نہیںچھوڑیں گے‘‘۔

یہ کھلی کھلی بے حیائی کی بات، امریکی حکام اور عوام سب کے سب سنتے ہیں اورکوئی پلٹ کر نہیں پوچھتا کہ بائبل کی چالیس صدی قدیم بات آج کسی ملک پر ایک قوم کے دعوے کی بنیاد کیسے بن سکتی ہے؟ اور ایسی دلیلوں سے اگر ایک قوم کے وطن پردوسری قوم کا قبضہ جائز مان لیا جائے،تو  نہ معلوم اورکتنی قومیں اپنے وطن سے محروم کردی جائیں گی۔ (ترجمان القرآن، اکتوبر ۱۹۷۷ء، ص۴۱-۴۲)

مسجد ِ اقصیٰ کی دیواروں کے نیچے کھدائی [۱۹۷۷ء]

سوال: مسجد اقصیٰ کی دیواروں کے نیچے اسرائیل کھدائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سے مسجد کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ اس بارے میں آپ اظہارِ خیال فرمائیں۔

جواب:مسجد اقصیٰ میں جو اکھیڑپچھاڑ یہودی کررہے ہیں ، اور جو کچھ وہ الخلیل میں مسجد ابراہیمی کے ساتھ کرچکے ہیں، اس کی کوئی روک تھام، بیانات اور قراردادوں اور اقوام متحدہ کےفیصلوں سے نہیں ہوسکتی۔ یہودی یہ سب کچھ طاقت کے بل پر کررہے ہیں اور وہ طاقت اس کو امریکا بہم پہنچا رہا ہے۔ جب تک ہم امریکا پر یہودیوں کے دباؤ سے بڑھ کر دباؤ ڈالنے کے قابل نہ ہوجائیں، اس ڈاکا زنی کا سلسلہ نہیں رُک سکتا۔ (ترجمان القرآن، اکتوبر ۱۹۷۷ء، ص ۴۲)